میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے ، جس پر ہم سب کو فخر ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ بھارت نے گزشتہ ہفتے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپئے کا برآمدات کا ہدف حاصل کیا ہے۔ پہلی بار سننے میں لگتا ہے کہ یہ معاملہ معیشت سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ معیشت سے زیادہ بھارت کی صلاحیت، بھارت کی اہلیت سے متعلق معاملہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی برآمدات کبھی 100 بلین ، کبھی 150 بلین ، کبھی 200 بلین تک ہوا کرتی تھی ، اب آج بھارت 400 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت میں بنی چیزوں کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سپلائی چین روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اس کا ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔ ملک اس وقت بڑے قدم اٹھاتا ہے ، جب عز م خوابوں سے بھی بڑے ہوں۔ جب ان عزم کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایمانداری سے کوشش کی جاتی ہے تو وہ عزم پورے بھی ہوتے ہیں اور آپ دیکھیئے ، کسی شخص کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ جب کسی کا عزم، اس کی کوشش ، اس کے خوابوں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں تو کامیابی ، اُس کے پاس خود چل کر آتی ہے۔
ساتھیو ، ملک کے کونے کونے سے نئی اشیاء نئی اشیا بیرونی ممالک جا رہی ہیں ۔ آسام کے ہیلا کانڈی کی چمڑے کی مصنوعات ہوں یا عثمان آباد کی ہینڈلوم کی مصنوعات، بیجاپور کے پھل اور سبزیاں ہوں یا چندولی کے کالے چاول، سب کی برآمدات بڑھ رہی ہے ۔ اب، آپ کو دوبئی میں لداخ کی دنیا کی مشہور خوبانی بھی ملے گی اور سعودی عرب میں، آپ کو تمل ناڈو سے بھیجے گئے کیلے ملیں گے۔ اب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نئی مصنوعات نئے ممالک کو بھیجی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماچل، اتراکھنڈ میں پیدا ہونے والے باجرے (موٹے اناج) کی پہلی کھیپ ڈنمارک کو برآمد کی گئی۔ آندھرا پردیش کے کرشنا اور چتور اضلاع سے بنگن پلیّ اور سورن رِکھا آم جنوبی کوریا کو برآمد کئے گئے ۔ تری پورہ سے تازہ کٹہل ہوائی جہاز کے ذریعے لندن برآمد کئے گئے اور پہلی بار ناگالینڈ کی راجہ مرچ لندن بھیجی گئی ۔ اسی طرح بھالیا گیہوں کی پہلی کھیپ گجرات سے کینیا اور سری لنکا کو برآمد کی گئی یعنی اب اگر آپ دوسرے ممالک میں جائیں تو میڈ ان انڈیا مصنوعات پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آئیں گی۔
ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے اور یہ فہرست جتنی لمبی ہوگی، میک ان انڈیا کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اتنی ہی بھارت کی وسیع صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کی بنیاد ہیں - ہمارے کسان، ہمارے کاریگر، ہمارے بُنکر، ہمارے انجینئر ، ہمارے چھوٹے کاروباری، ہمارا ایم ایس ایم ای سیکٹر، بہت سے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہ سب اس کی حقیقی طاقت ہیں۔ ان کی محنت کی بدولت 400 بلین ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ بھارتی عوام کی یہ طاقت اب دنیا کے کونے کونے میں نئی منڈیوں تک پہنچ رہی ہے۔ جب ایک ایک ہندوستانی لوکل کے ووکل ہوتا ہے ، تب لوکل کو گلوبل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے ۔ آئیے لوکل کو گلوبل بنائیں اور اپنی مصنوعات کی ساکھ کو اور بڑھائیں ۔
ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کو یہ جان کر اچھا لگے گا کہ گھریلو سطح پر بھی ہمارے چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کامیابی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ آج ہمارے چھوٹے کاروباری افراد گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم کے ذریعے سرکاری خریداری میں بڑا تعاون کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی شفاف نظام وضع کیا گیا ہے۔ جی ای ایم پورٹل کے ذریعے پچھلے ایک سال میں حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی چیزیں خریدی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 1.25 لاکھ چھوٹے کاروباریوں، چھوٹے دکانداروں نے اپنا سامان براہ راست حکومت کو فروخت کیا ہے۔ ایک وقت تھا ، جب صرف بڑی کمپنیاں ہی حکومت کو سامان فروخت کر سکتی تھیں لیکن اب ملک بدل رہا ہے، پرانے نظام بھی بدل رہے ہیں۔ اب چھوٹے دکاندار بھی جی ای ایم پورٹل پر حکومت کو اپنا سامان بیچ سکتے ہیں ۔ یہی تو نیا بھارت ہے۔ وہ نہ صرف بڑے خواب دیکھتا ہے بلکہ اس مقصد تک پہنچنے کی ہمت بھی دکھاتا ہے، جہاں پہلے کوئی نہیں پہنچا۔ اس حوصلے کے بل پر ہم سبھی بھارتی مل کر آتم نربھر بھارت کا خواب ضرور پورا کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے بابا شیوانند جی کو حال ہی میں منعقد پدم اعزاز کی تقریب میں ضرور دیکھا ہوگا۔ 126 سال کے بزرگ کی پھرتی دیکھ کر میری طرح ہر کوئی حیران رہ گیا ہو گا اور میں نے دیکھا کہ پلک جھپکتے ہی وہ نندی مدرا میں پرنام کرنے لگے ۔ میں نے بھی بابا شیوانند جی بار بار جھک کر پرنام کیا ۔ 126 سال کی عمر اور بابا شیوانند جی کی فٹنس دونوں آج ملک میں بحث کا موضوع ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کے کمنٹ دیکھے کہ بابا شیوانند اپنی عمر سے چار گنا کم عمر کے لوگوں بھی زیادہ فٹ ہیں۔ واقعی، بابا شیوانند کی زندگی ہم سب کے لئے ایک تحریک ہے۔ میں ان کی لمبی عمر کی دعا کرتا ہوں۔ ان میں یوگ کے تئیں ایک جذبہ ہے اور وہ بہت ہیلتھی لائف اسٹائل جیتے ہیں ۔
जीवेम शरदः शतम्।
ہماری ثقافت میں ہر ایک کو سو سال کی صحت مند زندگی کی دعا دی جاتی ہے۔ ہم 7 اپریل کو ’ صحت کا عالمی دن ‘ منائیں گے۔ آج پوری دنیا میں صحت سے متعلق بھارت کے موقف پر چاہے وہ یوگا ہو یا آیوروید ، اس کے تئیں رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ ابھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ گزشتہ ہفتے قطر میں یوگا پروگرام کا انعقاد کیا گیا ، جس میں 114 ممالک کے شہریوں نے حصہ لے کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی طرح آیوش انڈسٹری کا بازار بھی لگاتار بڑھ رہا ہے۔ 6 سال پہلے آیوروید سے متعلق ادویات کا بازار تقریباً 22 ہزار کروڑ کا تھا۔ آج آیوش مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کروڑ روپئے تک پہنچ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس شعبے میں امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں بھی آیوش کشش کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔
ساتھیو ، میں نے صحت کے شعبے کے دوسرے اسٹارٹ اپس پر پہلے بھی کئی بار بات کی ہے لیکن اس بار میں آپ سے خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس پر بات کروں گا۔ ایک اسٹارٹ ہے ، کپیوا ! ۔ اس کے نام میں ہی اس کا مطلب پوشیدہ ہے ۔ اس میں ’ کا ‘ کا مطلب ہے – کف ، ’ پی ‘ کا مطلب ہے – پت اور ’ وا ‘ کا مطلب ہے – ’ وات ‘ ۔ یہ اسٹارٹ اپ ہماری روایات کے مطابق صحت مند کھانے کی عادات پر مبنی ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ، نیروگ اسٹریٹ بھی ہے ، آیوروید حفظان صحت نظام میں ایک انوکھا تصور ہے ۔ اس کا ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم دنیا بھر کے آیوروید ڈاکٹروں کو براہ راست لوگوں سے جوڑتا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ پریکٹیشنرز اس سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح، صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی کا ایک اسٹارٹ اپ اَتریا اننو ویشن ہے ، جو مجموعی تندرستی کے شعبے میں کام کر رہا ہے ۔ ایکسوریل نے نہ صرف اشوگندھا کے استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کی ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی پیداوار کے عمل پر بھی بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کَیور ویدا نے جدید جڑی بوٹیوں کی تحقیق اور روایتی علم کو ملا کر مکمل زندگی کے لئے غذائی سپلیمنٹس بنائے ہیں۔
ساتھیو ، میں نے ابھی تک صرف چند نام گنوائے ہیں، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ یہ بھارت کے نوجوان صنعت کاروں اور بھارت میں پیدا ہونے والے نئے امکانات کی علامت ہے۔ میری صحت کے شعبے کے اسٹارٹ اپس اور خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس سے بھی ایک درخواست ہے۔ آپ جو بھی پورٹل آن لائن بناتے ہیں، جو بھی مواد بناتے ہیں، اسے اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ تمام زبانوں میں بنانے کی کوشش کریں۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں ، جہاں انگریزی نہ تو اتنی بولی جاتی ہے اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ ایسے ممالک کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی معلومات کی تشہیر کریں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے آیوش اسٹارٹ اپ اعلیٰ معیار کی مصنوعات کے ساتھ جلد ہی پوری دنیا میں چھا جائیں گے۔
ساتھیو ، صحت کا براہ راست تعلق صفائی سے ہے۔ ’من کی بات‘ میں ہم ہمیشہ صفائی کے حامیوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک ایسے ہی سووچھ گرہی ہیں - چندرکشور پاٹل جی ۔ وہ مہاراشٹر کے ناسک میں رہتے ہیں۔ صفائی کے حوالے سے چندرکشور جی کا عزم بہت پختہ ہے۔ وہ گوداوری دریا کے پاس کھڑے رہتے ہیں اور لوگوں کو لگاتار دریا میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی ایسا کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اُسے فوراً منع کرتے ہیں ۔ چندرکشور جی اپنا کافی وقت اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ شام تک ان کے پاس ایسی چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، جسے لوگ دریا میں پھینکنے کے لئے لائے ہوتے ہیں۔ چندرکشور جی کی یہ کوشش بیداری میں بھی اضافہ کرتی ہے اور تحریک بھی دیتی ہے۔ اسی طرح ایک اور سووچھ گرہی ہیں - اڑیسہ میں پوری کے راہل مہارانا۔ راہل ہر اتوار کو صبح سویرے پوری میں مقدس مقامات پر جاتے ہیں اور وہاں پلاسٹک کے کچرے کو صاف کرتے ہیں۔ وہ اب تک سینکڑوں کلو پلاسٹک کا کچرا اور گندگی صاف کر چکے ہیں۔ پوری کے راہل ہوں یا ناسک کے چندرکشور، یہ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ شہری ہونے کے ناطے ہم اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، چاہے وہ صفائی ہو، غذائیت ہو یا ویکسینیشن، ان سب کوششوں سے صحت مند رہنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آئیے بات کرتے ہیں ، کیرالہ کے موپٹم سری نارائنن جی کی ۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے ، جس کا نام ہے – ’ پوٹس فار واٹر آف لائف ‘۔آپ جب اِس پروجیکٹ کے بارے میں جانیں گے تو سوچیں گے کہ یہ کیا کمال کام ہے ۔
ساتھیو ، موپٹم سری نارائنن جی مٹی کے برتن تقسیم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تاکہ گرمیوں میں جانوروں اور پرندوں کو پانی کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گرمیوں میں وہ خود بھی جانوروں اور پرندوں کی یہ پریشانی دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ مٹی کے برتن خود ہی بانٹنا شروع کردوں تاکہ دوسروں کا کام صرف ان برتنوں میں پانی بھرنا ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ نارائنن جی کی طرف سے تقسیم کئے گئے برتنوں کی تعداد ایک لاکھ کو پار کرنے جا رہی ہے۔ اپنی مہم میں وہ گاندھی جی کے قائم کردہ سابرمتی آشرم کو ایک لاکھواں برتن عطیہ کریں گے۔ آج جب گرمیوں کے موسم نے دستک دی ہے، نارائنن جی کا یہ کام یقیناً ہم سب کو متاثر کرے گا اور ہم اس گرمی میں اپنے دوست جانوروں اور پرندوں کے لئے پانی کا بھی بندوبست کریں گے۔
ساتھیو ، میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی اپیل کروں گا کہ ہم اپنے عزائم کو پھر سے دوہرائیں ۔ پانی کے ہر قطرے کو بچانے کے لئے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ ، ہمیں پانی کی ری سائیکلنگ پر برابر زور دیتے رہنا چاہیئے ۔ گھر میں استعمال ہونے والا پانی گملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، باغبانی میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے ضرور دوبارہ استعمال کرنا چاہیئے ۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے گھر میں اس طرح کے انتظامات کر سکتے ہیں۔ رحیم داس جی صدیوں پہلے کسی مقصد کے لئے کہہ گئے تھے کہ ’رحیمن پانی راکھئے، بن پانی سب سون‘۔ اور پانی بچانے کے اس کام میں مجھے بچوں سے بہت امید ہے ۔ سووچھتا کو جیسے بچوں نے ایک مہم بنایا ہے ، ویسے ہی وہ واٹر واریئر بن کر پانی بچانے میں مدد کر سکتے ہیں ۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں پانی کا تحفظ، آبی ذرائع کا تحفظ، صدیوں سے معاشرے کی فطرت کا حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگوں نے پانی کے تحفظ کو زندگی کا مشن بنا لیا ہے ، جیسے چنئی کے ایک ساتھی ہیں ، ارون کرشنامورتی جی! ارون جی اپنے علاقے میں تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 150 سے زائد تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی ذمہ داری اٹھائی اور اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک ساتھی روہن کالے ہیں۔ روہن پیشے کے لحاظ سے ایچ آر پروفیشنل ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے سینکڑوں اسٹیپ ویل یعنی سیڑھی والے پرانے کنوؤں کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے کنویں سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ہمارے ورثے کا حصہ ہیں۔ سکندرآباد میں بنسی لال-پیٹ کنواں ایک ایسا ہی اسٹیپ ویل ہے ۔ برسوں کی نظر اندازی کی وجہ سے یہ اسٹیپ ویل مٹی اور کچرے سے ڈھک گیا تھا لیکن اب اس اسٹیپ ویل کو بحال کرنے کی مہم عوامی شرکت کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔
ساتھیو ، میں ایک ایسی ریاست سے آیا ہوں ، جہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہی ہے۔ گجرات میں ان سٹیپ ویلوں کو واؤ کہتے ہیں۔ گجرات جیسی ریاست میں واؤ کا بڑا رول رہا ہے۔ ان کنوؤں یا باولیوں کے تحفظ کے لئے ’ جل مندر یوجنا ‘ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ پورے گجرات میں کئی باولیوں کو بحال کیا گیا ہے ۔ اس سے ان علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے میں بھی کافی مدد ملی ہے ۔ آپ مقامی سطح پر بھی اسی طرح کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اگر چیک ڈیم بنانے ہوں تو بارش کے پانی کی ہار ویسٹنگ ہونی چاہیئے ۔ اس میں انفرادی کوشش بھی اہم ہے اور اجتماعی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ جیسے آزادی کے امرت مہوتسو میں ہمارے ملک کے ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ کچھ پرانے سرووروں کو سدھارا جا سکتا ہے، کچھ نئے سروور بنائے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سمت میں کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مجھے آپ کے پیغامات کئی زبانوں، کئی بولیوں میں ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ مائی گوو پر آڈیو میسیج بھی بھیجتے ہیں۔ بھارت کی ثقافت، ہماری زبانیں، ہماری بولیاں، ہمارا طرز زندگی، کھانے پینے کا تنوع ، یہ تمام تنوع ہماری بڑی طاقت ہیں۔ مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، یہ تنوع بھارت کو متحد رکھتے ہے، جو ایک بھارت شریشٹھ بھارت بناتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے تاریخی مقامات اور اساطیر دونوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اب آپ سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ ’’مادھو پور میلہ‘‘ ہے۔ من کی بات کے سامعین کو یہ جاننا بہت دلچسپ لگے گا کہ مادھو پور میلہ کہاں منعقد ہوتا ہے، کیوں منعقد ہوتا ہے، اس کا بھارت کے تنوع سے کیا تعلق ہے۔
ساتھیو ، مادھو پور میلہ گجرات کے پوربندر میں سمندر کے پاس مادھو پور گاؤں میں لگتا ہے لیکن اس کا بھارت کے مغربی کنارے سے بھی ناطا جڑا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب بھی ایک اساطیری کہانی سے ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھگوان کرشن کی شادی شمال مشرق کی ایک شہزادی رکمنی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی پوربندر کے مادھو پور میں ہوئی تھی اور اسی شادی کی علامت کے طور پر آج بھی وہاں مادھو پور میلہ لگتا ہے۔ مشرق اور مغرب کا یہ گہرا رشتہ ہمارا ورثہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب لوگوں کی کوششوں سے مادھو پور میلے میں نئی چیزیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی والوں کو گھراتی کہا جاتا ہے اور اس میلے میں اب شمال مشرق سے بہت گھراتی بھی آنے لگے ہیں۔ ایک ہفتہ تک چلنے والے مادھو پور میلے میں شمال مشرق کی تمام ریاستوں سے فنکار پہنچتے ہیں، ہنڈی کرافٹ ( دستکاری ) سے جڑے فنکار جرٹے ہیں اور اس میلے کی رونق کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک بھارت کے مشرق اور مغربی کی ثقافت کا یہ ملن ، یہ مادھو پور میلہ، ایک بھارت - شریسٹھا بھارت کی بہت خوبصورت مثال بن رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس میلے کو بارے میں پڑھیں اور معلومات حاصل کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک میں آزادی کا امرت مہوتسو ، اب عوامی شرکت کی نئی مثال بن رہا ہے۔ چند روز قبل 23 مارچ کو شہید دِوس پر ملک کے الگ الگ کونوں میں الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک میں اپنے آزادی کے ہیرو اور ہیرئنوں کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اسی دن مجھے کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں پَبلوبی بھارت گیلری کے افتتاح کا بھی موقع ملا۔ بھارت کے بہادر انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی منفرد گیلری ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو آپ اسے دیکھنے ضرور جائیں ۔ ساتھیو ، اپریل کے مہینے میں ہم دو عظیم ہستیوں کا یوم پیدائش بھی منائیں گے۔ ان دونوں نے بھارتی سماج پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ عظیم ہستیاں مہاتما پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔ مہاتما پھولے کا یوم پیدائش 11 اپریل کو ہے اور ہم 14 اپریل کو بابا صاحب کا یوم پیدائش منائیں گے۔ ان دونوں عظیم انسانوں نے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف زبردست جنگ لڑی۔ مہاتما پھولے نے ، اس دور میں بیٹیوں کے لئے اسکول کھولے، بچیوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے پانی کے بحران سے نجات کے لئے بڑی مہم بھی چلائیں ۔
ساتھیو ، مہاتما پھولے کے اس ذکر میں ساوتری بائی پھولے جی کا ذکر بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ساوتری بائی پھولے نے بہت سے سماجی اداروں کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ایک استاد اور سماجی مصلح کے طور پر انہوں نے معاشرے کو بیدار بھی کیا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ دونوں ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج قائم کیا ۔ عوام کو بااختیار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے کاموں میں ہم مہاتما پھولے کا اثر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے، بابا صاحب امبیڈکر کی زندگی سے تحریک لیتے ہوئے، میں تمام والدین اور سرپرستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ضرور دلائیں۔ بیٹیوں کا اسکول میں داخلے بڑھانے کے لئے کچھ دن پہلے ہی کنیا شکشا پرویش اتسو بھی شروع کیا گیا ہے، جن بیٹیوں کی کسی وجہ سے پڑھائی چھوٹ گئی ہے، انہیں اسکول واپس لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔
ساتھیو ، یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمیں بابا صاحب سے جڑے پنچ تیرتھ کے لئے کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مہو میں ان کی پیدائش کا مقام ہو، ممبئی میں چیتیا بھومی ہو، لندن میں ان کا گھر ہو، ناگپور کی ابتدائی سرزمین ہو، یا دلّی میں بابا صاحب کا مہا پری نروان اِستھل ، مجھے سبھی مقامات پر ، سبھی تیرتھوں پر جانے کا موقع ملا ہے ۔ میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے اپیل کروں گا کہ وہ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر سے جڑے مقامات کو دیکھنے کے لئے ضرور جائیں ۔ آپ کو وہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ میں ، اس مرتبہ بھی ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ اگلے مہینے بہت سے تہوار آرہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ہی نوراترے ہیں ۔ نو راترے میں ، ہم وَرت – اُپواس ، شکتی کی پوجا کرتے ہیں یعنی ہماری روایتیں ہمیں خوشیاں منانا بھی سکھاتی ہیں اور تحمل اور ریاض کا درس بھی دیتی ہیں ۔ تحمل اور استقامت بھی ہمارے لئے ایک تہوار ہے، اس لئے نوراترے ہمیشہ ہم سب کے لئے بہت خاص رہے ہیں ۔ نوراترے کے پہلے ہی دن گڈی پروا کا تہوار بھی ہے۔ اپریل میں ہی ایسٹر بھی آتا ہے اور رمضان کے مقدس دن بھی شروع ہو رہے ہیں۔ آیئے ، ہم سب کو ساتھ لے کر اپنے تہوار منائیں ، بھارت کے تنوع کو مضبوط کریں ، سب کی یہی آرزو ہے ۔ اس بار ’ من کی بات ‘ میں اتنا ہی ۔ اگلے مہینے آپ سے نئے موضوعات کے ساتھ پھر ملاقات ہو گی ۔ بہت بہت شکریہ !
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے ، جس پر ہم سب کو فخر ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ بھارت نے گزشتہ ہفتے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپئے کا برآمدات کا ہدف حاصل کیا ہے۔ پہلی بار سننے میں لگتا ہے کہ یہ معاملہ معیشت سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ معیشت سے زیادہ بھارت کی صلاحیت، بھارت کی اہلیت سے متعلق معاملہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی برآمدات کبھی 100 بلین ، کبھی 150 بلین ، کبھی 200 بلین تک ہوا کرتی تھی ، اب آج بھارت 400 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت میں بنی چیزوں کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سپلائی چین روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اس کا ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔ ملک اس وقت بڑے قدم اٹھاتا ہے ، جب عز م خوابوں سے بھی بڑے ہوں۔ جب ان عزم کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایمانداری سے کوشش کی جاتی ہے تو وہ عزم پورے بھی ہوتے ہیں اور آپ دیکھیئے ، کسی شخص کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ جب کسی کا عزم، اس کی کوشش ، اس کے خوابوں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں تو کامیابی ، اُس کے پاس خود چل کر آتی ہے۔
ساتھیو ، ملک کے کونے کونے سے نئی اشیاء نئی اشیا بیرونی ممالک جا رہی ہیں ۔ آسام کے ہیلا کانڈی کی چمڑے کی مصنوعات ہوں یا عثمان آباد کی ہینڈلوم کی مصنوعات، بیجاپور کے پھل اور سبزیاں ہوں یا چندولی کے کالے چاول، سب کی برآمدات بڑھ رہی ہے ۔ اب، آپ کو دوبئی میں لداخ کی دنیا کی مشہور خوبانی بھی ملے گی اور سعودی عرب میں، آپ کو تمل ناڈو سے بھیجے گئے کیلے ملیں گے۔ اب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نئی مصنوعات نئے ممالک کو بھیجی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماچل، اتراکھنڈ میں پیدا ہونے والے باجرے (موٹے اناج) کی پہلی کھیپ ڈنمارک کو برآمد کی گئی۔ آندھرا پردیش کے کرشنا اور چتور اضلاع سے بنگن پلیّ اور سورن رِکھا آم جنوبی کوریا کو برآمد کئے گئے ۔ تری پورہ سے تازہ کٹہل ہوائی جہاز کے ذریعے لندن برآمد کئے گئے اور پہلی بار ناگالینڈ کی راجہ مرچ لندن بھیجی گئی ۔ اسی طرح بھالیا گیہوں کی پہلی کھیپ گجرات سے کینیا اور سری لنکا کو برآمد کی گئی یعنی اب اگر آپ دوسرے ممالک میں جائیں تو میڈ ان انڈیا مصنوعات پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آئیں گی۔
ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے اور یہ فہرست جتنی لمبی ہوگی، میک ان انڈیا کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اتنی ہی بھارت کی وسیع صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کی بنیاد ہیں - ہمارے کسان، ہمارے کاریگر، ہمارے بُنکر، ہمارے انجینئر ، ہمارے چھوٹے کاروباری، ہمارا ایم ایس ایم ای سیکٹر، بہت سے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہ سب اس کی حقیقی طاقت ہیں۔ ان کی محنت کی بدولت 400 بلین ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ بھارتی عوام کی یہ طاقت اب دنیا کے کونے کونے میں نئی منڈیوں تک پہنچ رہی ہے۔ جب ایک ایک ہندوستانی لوکل کے ووکل ہوتا ہے ، تب لوکل کو گلوبل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے ۔ آئیے لوکل کو گلوبل بنائیں اور اپنی مصنوعات کی ساکھ کو اور بڑھائیں ۔
ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کو یہ جان کر اچھا لگے گا کہ گھریلو سطح پر بھی ہمارے چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کامیابی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ آج ہمارے چھوٹے کاروباری افراد گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم کے ذریعے سرکاری خریداری میں بڑا تعاون کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی شفاف نظام وضع کیا گیا ہے۔ جی ای ایم پورٹل کے ذریعے پچھلے ایک سال میں حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی چیزیں خریدی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 1.25 لاکھ چھوٹے کاروباریوں، چھوٹے دکانداروں نے اپنا سامان براہ راست حکومت کو فروخت کیا ہے۔ ایک وقت تھا ، جب صرف بڑی کمپنیاں ہی حکومت کو سامان فروخت کر سکتی تھیں لیکن اب ملک بدل رہا ہے، پرانے نظام بھی بدل رہے ہیں۔ اب چھوٹے دکاندار بھی جی ای ایم پورٹل پر حکومت کو اپنا سامان بیچ سکتے ہیں ۔ یہی تو نیا بھارت ہے۔ وہ نہ صرف بڑے خواب دیکھتا ہے بلکہ اس مقصد تک پہنچنے کی ہمت بھی دکھاتا ہے، جہاں پہلے کوئی نہیں پہنچا۔ اس حوصلے کے بل پر ہم سبھی بھارتی مل کر آتم نربھر بھارت کا خواب ضرور پورا کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے بابا شیوانند جی کو حال ہی میں منعقد پدم اعزاز کی تقریب میں ضرور دیکھا ہوگا۔ 126 سال کے بزرگ کی پھرتی دیکھ کر میری طرح ہر کوئی حیران رہ گیا ہو گا اور میں نے دیکھا کہ پلک جھپکتے ہی وہ نندی مدرا میں پرنام کرنے لگے ۔ میں نے بھی بابا شیوانند جی بار بار جھک کر پرنام کیا ۔ 126 سال کی عمر اور بابا شیوانند جی کی فٹنس دونوں آج ملک میں بحث کا موضوع ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کے کمنٹ دیکھے کہ بابا شیوانند اپنی عمر سے چار گنا کم عمر کے لوگوں بھی زیادہ فٹ ہیں۔ واقعی، بابا شیوانند کی زندگی ہم سب کے لئے ایک تحریک ہے۔ میں ان کی لمبی عمر کی دعا کرتا ہوں۔ ان میں یوگ کے تئیں ایک جذبہ ہے اور وہ بہت ہیلتھی لائف اسٹائل جیتے ہیں ۔
जीवेम शरदः शतम्।
ہماری ثقافت میں ہر ایک کو سو سال کی صحت مند زندگی کی دعا دی جاتی ہے۔ ہم 7 اپریل کو ’ صحت کا عالمی دن ‘ منائیں گے۔ آج پوری دنیا میں صحت سے متعلق بھارت کے موقف پر چاہے وہ یوگا ہو یا آیوروید ، اس کے تئیں رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ ابھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ گزشتہ ہفتے قطر میں یوگا پروگرام کا انعقاد کیا گیا ، جس میں 114 ممالک کے شہریوں نے حصہ لے کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی طرح آیوش انڈسٹری کا بازار بھی لگاتار بڑھ رہا ہے۔ 6 سال پہلے آیوروید سے متعلق ادویات کا بازار تقریباً 22 ہزار کروڑ کا تھا۔ آج آیوش مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کروڑ روپئے تک پہنچ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس شعبے میں امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں بھی آیوش کشش کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔
ساتھیو ، میں نے صحت کے شعبے کے دوسرے اسٹارٹ اپس پر پہلے بھی کئی بار بات کی ہے لیکن اس بار میں آپ سے خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس پر بات کروں گا۔ ایک اسٹارٹ ہے ، کپیوا ! ۔ اس کے نام میں ہی اس کا مطلب پوشیدہ ہے ۔ اس میں ’ کا ‘ کا مطلب ہے – کف ، ’ پی ‘ کا مطلب ہے – پت اور ’ وا ‘ کا مطلب ہے – ’ وات ‘ ۔ یہ اسٹارٹ اپ ہماری روایات کے مطابق صحت مند کھانے کی عادات پر مبنی ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ، نیروگ اسٹریٹ بھی ہے ، آیوروید حفظان صحت نظام میں ایک انوکھا تصور ہے ۔ اس کا ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم دنیا بھر کے آیوروید ڈاکٹروں کو براہ راست لوگوں سے جوڑتا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ پریکٹیشنرز اس سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح، صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی کا ایک اسٹارٹ اپ اَتریا اننو ویشن ہے ، جو مجموعی تندرستی کے شعبے میں کام کر رہا ہے ۔ ایکسوریل نے نہ صرف اشوگندھا کے استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کی ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی پیداوار کے عمل پر بھی بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کَیور ویدا نے جدید جڑی بوٹیوں کی تحقیق اور روایتی علم کو ملا کر مکمل زندگی کے لئے غذائی سپلیمنٹس بنائے ہیں۔
ساتھیو ، میں نے ابھی تک صرف چند نام گنوائے ہیں، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ یہ بھارت کے نوجوان صنعت کاروں اور بھارت میں پیدا ہونے والے نئے امکانات کی علامت ہے۔ میری صحت کے شعبے کے اسٹارٹ اپس اور خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس سے بھی ایک درخواست ہے۔ آپ جو بھی پورٹل آن لائن بناتے ہیں، جو بھی مواد بناتے ہیں، اسے اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ تمام زبانوں میں بنانے کی کوشش کریں۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں ، جہاں انگریزی نہ تو اتنی بولی جاتی ہے اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ ایسے ممالک کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی معلومات کی تشہیر کریں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے آیوش اسٹارٹ اپ اعلیٰ معیار کی مصنوعات کے ساتھ جلد ہی پوری دنیا میں چھا جائیں گے۔
ساتھیو ، صحت کا براہ راست تعلق صفائی سے ہے۔ ’من کی بات‘ میں ہم ہمیشہ صفائی کے حامیوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک ایسے ہی سووچھ گرہی ہیں - چندرکشور پاٹل جی ۔ وہ مہاراشٹر کے ناسک میں رہتے ہیں۔ صفائی کے حوالے سے چندرکشور جی کا عزم بہت پختہ ہے۔ وہ گوداوری دریا کے پاس کھڑے رہتے ہیں اور لوگوں کو لگاتار دریا میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی ایسا کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اُسے فوراً منع کرتے ہیں ۔ چندرکشور جی اپنا کافی وقت اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ شام تک ان کے پاس ایسی چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، جسے لوگ دریا میں پھینکنے کے لئے لائے ہوتے ہیں۔ چندرکشور جی کی یہ کوشش بیداری میں بھی اضافہ کرتی ہے اور تحریک بھی دیتی ہے۔ اسی طرح ایک اور سووچھ گرہی ہیں - اڑیسہ میں پوری کے راہل مہارانا۔ راہل ہر اتوار کو صبح سویرے پوری میں مقدس مقامات پر جاتے ہیں اور وہاں پلاسٹک کے کچرے کو صاف کرتے ہیں۔ وہ اب تک سینکڑوں کلو پلاسٹک کا کچرا اور گندگی صاف کر چکے ہیں۔ پوری کے راہل ہوں یا ناسک کے چندرکشور، یہ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ شہری ہونے کے ناطے ہم اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، چاہے وہ صفائی ہو، غذائیت ہو یا ویکسینیشن، ان سب کوششوں سے صحت مند رہنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آئیے بات کرتے ہیں ، کیرالہ کے موپٹم سری نارائنن جی کی ۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے ، جس کا نام ہے – ’ پوٹس فار واٹر آف لائف ‘۔آپ جب اِس پروجیکٹ کے بارے میں جانیں گے تو سوچیں گے کہ یہ کیا کمال کام ہے ۔
ساتھیو ، موپٹم سری نارائنن جی مٹی کے برتن تقسیم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تاکہ گرمیوں میں جانوروں اور پرندوں کو پانی کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گرمیوں میں وہ خود بھی جانوروں اور پرندوں کی یہ پریشانی دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ مٹی کے برتن خود ہی بانٹنا شروع کردوں تاکہ دوسروں کا کام صرف ان برتنوں میں پانی بھرنا ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ نارائنن جی کی طرف سے تقسیم کئے گئے برتنوں کی تعداد ایک لاکھ کو پار کرنے جا رہی ہے۔ اپنی مہم میں وہ گاندھی جی کے قائم کردہ سابرمتی آشرم کو ایک لاکھواں برتن عطیہ کریں گے۔ آج جب گرمیوں کے موسم نے دستک دی ہے، نارائنن جی کا یہ کام یقیناً ہم سب کو متاثر کرے گا اور ہم اس گرمی میں اپنے دوست جانوروں اور پرندوں کے لئے پانی کا بھی بندوبست کریں گے۔
ساتھیو ، میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی اپیل کروں گا کہ ہم اپنے عزائم کو پھر سے دوہرائیں ۔ پانی کے ہر قطرے کو بچانے کے لئے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ ، ہمیں پانی کی ری سائیکلنگ پر برابر زور دیتے رہنا چاہیئے ۔ گھر میں استعمال ہونے والا پانی گملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، باغبانی میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے ضرور دوبارہ استعمال کرنا چاہیئے ۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے گھر میں اس طرح کے انتظامات کر سکتے ہیں۔ رحیم داس جی صدیوں پہلے کسی مقصد کے لئے کہہ گئے تھے کہ ’رحیمن پانی راکھئے، بن پانی سب سون‘۔ اور پانی بچانے کے اس کام میں مجھے بچوں سے بہت امید ہے ۔ سووچھتا کو جیسے بچوں نے ایک مہم بنایا ہے ، ویسے ہی وہ واٹر واریئر بن کر پانی بچانے میں مدد کر سکتے ہیں ۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں پانی کا تحفظ، آبی ذرائع کا تحفظ، صدیوں سے معاشرے کی فطرت کا حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگوں نے پانی کے تحفظ کو زندگی کا مشن بنا لیا ہے ، جیسے چنئی کے ایک ساتھی ہیں ، ارون کرشنامورتی جی! ارون جی اپنے علاقے میں تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 150 سے زائد تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی ذمہ داری اٹھائی اور اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک ساتھی روہن کالے ہیں۔ روہن پیشے کے لحاظ سے ایچ آر پروفیشنل ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے سینکڑوں اسٹیپ ویل یعنی سیڑھی والے پرانے کنوؤں کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے کنویں سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ہمارے ورثے کا حصہ ہیں۔ سکندرآباد میں بنسی لال-پیٹ کنواں ایک ایسا ہی اسٹیپ ویل ہے ۔ برسوں کی نظر اندازی کی وجہ سے یہ اسٹیپ ویل مٹی اور کچرے سے ڈھک گیا تھا لیکن اب اس اسٹیپ ویل کو بحال کرنے کی مہم عوامی شرکت کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔
ساتھیو ، میں ایک ایسی ریاست سے آیا ہوں ، جہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہی ہے۔ گجرات میں ان سٹیپ ویلوں کو واؤ کہتے ہیں۔ گجرات جیسی ریاست میں واؤ کا بڑا رول رہا ہے۔ ان کنوؤں یا باولیوں کے تحفظ کے لئے ’ جل مندر یوجنا ‘ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ پورے گجرات میں کئی باولیوں کو بحال کیا گیا ہے ۔ اس سے ان علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے میں بھی کافی مدد ملی ہے ۔ آپ مقامی سطح پر بھی اسی طرح کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اگر چیک ڈیم بنانے ہوں تو بارش کے پانی کی ہار ویسٹنگ ہونی چاہیئے ۔ اس میں انفرادی کوشش بھی اہم ہے اور اجتماعی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ جیسے آزادی کے امرت مہوتسو میں ہمارے ملک کے ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ کچھ پرانے سرووروں کو سدھارا جا سکتا ہے، کچھ نئے سروور بنائے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سمت میں کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مجھے آپ کے پیغامات کئی زبانوں، کئی بولیوں میں ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ مائی گوو پر آڈیو میسیج بھی بھیجتے ہیں۔ بھارت کی ثقافت، ہماری زبانیں، ہماری بولیاں، ہمارا طرز زندگی، کھانے پینے کا تنوع ، یہ تمام تنوع ہماری بڑی طاقت ہیں۔ مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، یہ تنوع بھارت کو متحد رکھتے ہے، جو ایک بھارت شریشٹھ بھارت بناتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے تاریخی مقامات اور اساطیر دونوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اب آپ سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ ’’مادھو پور میلہ‘‘ ہے۔ من کی بات کے سامعین کو یہ جاننا بہت دلچسپ لگے گا کہ مادھو پور میلہ کہاں منعقد ہوتا ہے، کیوں منعقد ہوتا ہے، اس کا بھارت کے تنوع سے کیا تعلق ہے۔
ساتھیو ، مادھو پور میلہ گجرات کے پوربندر میں سمندر کے پاس مادھو پور گاؤں میں لگتا ہے لیکن اس کا بھارت کے مغربی کنارے سے بھی ناطا جڑا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب بھی ایک اساطیری کہانی سے ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھگوان کرشن کی شادی شمال مشرق کی ایک شہزادی رکمنی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی پوربندر کے مادھو پور میں ہوئی تھی اور اسی شادی کی علامت کے طور پر آج بھی وہاں مادھو پور میلہ لگتا ہے۔ مشرق اور مغرب کا یہ گہرا رشتہ ہمارا ورثہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب لوگوں کی کوششوں سے مادھو پور میلے میں نئی چیزیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی والوں کو گھراتی کہا جاتا ہے اور اس میلے میں اب شمال مشرق سے بہت گھراتی بھی آنے لگے ہیں۔ ایک ہفتہ تک چلنے والے مادھو پور میلے میں شمال مشرق کی تمام ریاستوں سے فنکار پہنچتے ہیں، ہنڈی کرافٹ ( دستکاری ) سے جڑے فنکار جرٹے ہیں اور اس میلے کی رونق کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک بھارت کے مشرق اور مغربی کی ثقافت کا یہ ملن ، یہ مادھو پور میلہ، ایک بھارت - شریسٹھا بھارت کی بہت خوبصورت مثال بن رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس میلے کو بارے میں پڑھیں اور معلومات حاصل کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک میں آزادی کا امرت مہوتسو ، اب عوامی شرکت کی نئی مثال بن رہا ہے۔ چند روز قبل 23 مارچ کو شہید دِوس پر ملک کے الگ الگ کونوں میں الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک میں اپنے آزادی کے ہیرو اور ہیرئنوں کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اسی دن مجھے کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں پَبلوبی بھارت گیلری کے افتتاح کا بھی موقع ملا۔ بھارت کے بہادر انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی منفرد گیلری ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو آپ اسے دیکھنے ضرور جائیں ۔ ساتھیو ، اپریل کے مہینے میں ہم دو عظیم ہستیوں کا یوم پیدائش بھی منائیں گے۔ ان دونوں نے بھارتی سماج پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ عظیم ہستیاں مہاتما پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔ مہاتما پھولے کا یوم پیدائش 11 اپریل کو ہے اور ہم 14 اپریل کو بابا صاحب کا یوم پیدائش منائیں گے۔ ان دونوں عظیم انسانوں نے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف زبردست جنگ لڑی۔ مہاتما پھولے نے ، اس دور میں بیٹیوں کے لئے اسکول کھولے، بچیوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے پانی کے بحران سے نجات کے لئے بڑی مہم بھی چلائیں ۔
ساتھیو ، مہاتما پھولے کے اس ذکر میں ساوتری بائی پھولے جی کا ذکر بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ساوتری بائی پھولے نے بہت سے سماجی اداروں کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ایک استاد اور سماجی مصلح کے طور پر انہوں نے معاشرے کو بیدار بھی کیا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ دونوں ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج قائم کیا ۔ عوام کو بااختیار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے کاموں میں ہم مہاتما پھولے کا اثر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے، بابا صاحب امبیڈکر کی زندگی سے تحریک لیتے ہوئے، میں تمام والدین اور سرپرستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ضرور دلائیں۔ بیٹیوں کا اسکول میں داخلے بڑھانے کے لئے کچھ دن پہلے ہی کنیا شکشا پرویش اتسو بھی شروع کیا گیا ہے، جن بیٹیوں کی کسی وجہ سے پڑھائی چھوٹ گئی ہے، انہیں اسکول واپس لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔
ساتھیو ، یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمیں بابا صاحب سے جڑے پنچ تیرتھ کے لئے کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مہو میں ان کی پیدائش کا مقام ہو، ممبئی میں چیتیا بھومی ہو، لندن میں ان کا گھر ہو، ناگپور کی ابتدائی سرزمین ہو، یا دلّی میں بابا صاحب کا مہا پری نروان اِستھل ، مجھے سبھی مقامات پر ، سبھی تیرتھوں پر جانے کا موقع ملا ہے ۔ میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے اپیل کروں گا کہ وہ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر سے جڑے مقامات کو دیکھنے کے لئے ضرور جائیں ۔ آپ کو وہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ میں ، اس مرتبہ بھی ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ اگلے مہینے بہت سے تہوار آرہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ہی نوراترے ہیں ۔ نو راترے میں ، ہم وَرت – اُپواس ، شکتی کی پوجا کرتے ہیں یعنی ہماری روایتیں ہمیں خوشیاں منانا بھی سکھاتی ہیں اور تحمل اور ریاض کا درس بھی دیتی ہیں ۔ تحمل اور استقامت بھی ہمارے لئے ایک تہوار ہے، اس لئے نوراترے ہمیشہ ہم سب کے لئے بہت خاص رہے ہیں ۔ نوراترے کے پہلے ہی دن گڈی پروا کا تہوار بھی ہے۔ اپریل میں ہی ایسٹر بھی آتا ہے اور رمضان کے مقدس دن بھی شروع ہو رہے ہیں۔ آیئے ، ہم سب کو ساتھ لے کر اپنے تہوار منائیں ، بھارت کے تنوع کو مضبوط کریں ، سب کی یہی آرزو ہے ۔ اس بار ’ من کی بات ‘ میں اتنا ہی ۔ اگلے مہینے آپ سے نئے موضوعات کے ساتھ پھر ملاقات ہو گی ۔ بہت بہت شکریہ !
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔
’ من کی بات ‘ میں پھر ایک بار آپ سب کا خیر مقدم ہے ۔ آج ’ من کی بات ‘ کی شروعات ہم ، بھارت کی کامیابی کے ذکر کے ساتھ کریں گے ۔ اس ماہ کے شروع میں بھارت اٹلی سے اپنے ایک قیمتی ورثے کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ ورثہ ہے، اولوکیتیشورا پدم پانی کی ہزار سال سے زیادہ پرانی مورتی ۔ یہ مورتی کچھ سال پہلے بہار میں گیا جی کے دیوی مقام کنڈل پور مندر سے چوری ہو گئی تھی۔ لیکن بہت کوششوں کے بعد ، اب بھارت کو یہ مورتی واپس مل گئی ہے۔ ایسے ہی کچھ سال پہلے تمل ناڈو کے ویلور سے بھگوان آنجنییّر ، ہنومان جی کی مورتی چوری ہو گئی تھی۔ ہنومان جی کی یہ مورتی 600-700 سال پرانی تھی۔ اس مہینے کے شروع میں، آسٹریلیا میں ہمیں یہ ملی ، ہمارے مشن کو مل چکی ہے۔
ساتھیو ، ہماری ہزاروں سال کی تاریخ میں ملک کے کونے کونے میں ایک سے بڑھ ایک مورتیاں ہمیشہ بنتی رہی ہیں، ان میں عقیدت بھی تھی، طاقت بھی تھی، ہنر بھی تھا اور تنوع سے بھرا ہوا تھا اور ہماری مورتیوں کی تاریخ میں ، اُس وقت کا اثر بھی نظر آتا ہے۔ یہ بھارت کی مورتی بنانے کے فن کی نایاب مثالیں تو ہی تھیں ، اِن سے ہماری عقیدت بھی جڑی ہوئی تھی لیکن ماضی میں، بہت سے مورتیاں چوری ہوکر بھارت سے باہر جاتی رہیں ۔ کبھی اِس ملک میں، کبھی اس ملک میں یہ مورتیاں بیچی جاتی رہیں اور ان کے لئے وہ تو صرف فن پارے تھے۔ ان کا تاریخ سے کچھ لینا دینا تھا اور نہ ہی عقیدت سے کچھ لینا دینا تھا ۔ ان مورتیوں کو واپس لانا بھارت ماں کے تئیں ہمارا فرض تھا ۔ ان مورتیوں میں بھارت کی روح کا عقیدت کا عنصر ہے۔ ان کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بھارت نے اپنی کوششیں بڑھائیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہوا کہ چوری کا ، جو رجحان تھا ، اُس میں بھی ایک خوف پیدا ہوا۔ جن ممالک میں یہ مورتیاں چوری کرکے لے جائی گئی تھیں ، اب انہیں بھی لگنے لگا کہ بھارت کے ساتھ رشتوں میں سافٹ پاور کا ، جو ڈپلومیٹک چینل ہوتا ہے ، اُس میں ، اِس کی بھی بہت بڑی اہمیت ہو سکتی ہے کیونکہ اِس کے ساتھ بھارت کے احساسات جڑے ہوئے ہیں ، بھارت کی جذبات جڑے ہوئے ہیں اور ایک طرح سے عوام سے عوام کے تعلقات میں بھی یہ بہت طاقت پیدا کرتا ہے ۔ ابھی آپ نے کچھ دن پہلے دیکھا ہوگا کہ کاشی سے چوری ہونے والی ماں اناپورنا دیوی کی مورتی بھی واپس لائی گئی تھی۔ یہ بھارت کے لئے بدلتے ہوئے عالمی نقطہ نظر کی ایک مثال ہے۔ سال 2013 ء تک تقریباً 13 مورتیاں بھارت آئی تھیں لیکن، پچھلے سات سالوں میں، بھارت کامیابی سے 200 سے زیادہ انمول مورتیوں کو واپس لا چکا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، کناڈا ، جرمنی، سنگاپور، ایسے کئی ممالک نے بھارت کے جذبات کو سمجھا ہے اور مورتیاں واپس لانے میں ہماری مدد کی ہے۔ جب میں پچھلے سال ستمبر میں امریکہ گیا تھا تو وہاں مجھے کافی پرانی پرانی بہت سی مورتیاں اور ثقافتی اہمیت کی بہت سی چیزیں ملیں ۔ ملک کا جب کوئی بھی قیمتی ورثہ واپس ملتا ہے تو تاریخ میں احترام رکھنے والے ، آثار قدیمہ پر یقین رکھتے ہیں، عقیدے اور ثقافت سے جڑے ہوئے لوگ اور ایک بھارتی کے طور پر ، ہم سب کو ، اطمینان ملنا بہت فطری بات ہے۔
ساتھیو، بھارتی ثقافت اور ہمارے ورثے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، آج میں آپ کو ’من کی بات ‘ میں دو لوگوں سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ان دنوں تنزانیہ کے دو بہن بھائی کلی پال اور ان کی بہن نیما فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر کافی خبروں میں ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ نے بھی ان کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ ان کے اندر بھارتی موسیقی کو لے کر ایک جنون ہے ، ایک دیوانگی ہے اور اسی وجہ سے وہ بہت مقبول بھی ہیں۔ ہونٹوں کی حرکت کے اُن کے طریقے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے وہ کتنی زیادہ محنت کرتے ہیں۔ حال ہی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمارا قومی ترانہ ’ جن گن من ‘ گاتے ہوئے ، ان کا ایک ویڈیو خوب وائرل ہوا تھا۔ کچھ دن پہلے، انہوں نے ایک گانا گا کر لتا دیدی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا تھا ۔ میں ان دونوں بھائی بہن کلی اور نیما کی اس شاندار تخلیقی صلاحیتوں کی بہت ستائش کرتا ہوں۔ انہیں کچھ روز پہلے تنزانیہ میں بھارتی سفارت خانے میں بھی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ بھارتی موسیقی کا جادو کچھ ایسا ہے ، جو سب کو مسحور کر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں کے گلوکاروں اور موسیقاروں نے اپنے اپنے ملکوں میں اپنے اپنے ملبوسات میں مہاتما گاندھی کا پسندیدہ بھجن، ’ ویشنو جن ‘ گانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا ۔
آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75ویں سال کا اہم تہوار منا رہا ہے تو ایسے ہی تجربات حب الوطنی کے گیتوں کے حوالے سے کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں غیر ملکی شہریوں کو ، وہاں کے مشہور گلوکاروں کو بھارتی حب الوطنی کے گیت گانے کے لئے مدعو کریں۔ یہی نہیں، اگر تنزانیہ میں کلی اور نیما بھارت کے گانوں کو اس طرح لِپ سِنک کر سکتے ہیں، تو کیا میرے ملک میں ، کئی طرح کے گانے ہمارے ملک کی کئی زبانوں میں ہیں، کیا ہم کوئی ، گجراتی بچے تمل گانے پر کریں ، کوئی کیرل کے بچے آسامی گیت پر کریں ، کوئی کنڑ بچے جموں و کشمیر کے گیتوں پر کریں ۔ ہم ایسا ماحول بنا سکتے ہیں ، جس میں ہم ’ایک بھارت-شریشٹھ بھارت ‘ کا تجربہ کر سکیں گے۔ اتنا ہی نہیں، ہم آزادی کے امرت مہوتسو کو یقینی طور پر ایک نئے انداز میں منا سکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں، آئیے اپنے طریقے سے بھارتی زبانوں کے مقبول گانوں کی ویڈیو بنائیں، آپ بہت مقبول ہوجائیں گے اور ملک کے تنوع سے نئی نسل متعارف ہو گی ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہم نے مادری زبان کا دن منایا۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ اس بارے میں کافی علمی معلومات دے سکتے ہیں کہ مادری زبان کا لفظ کہاں سے آیا، اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔ میں تو مادری زبان کے لئے یہی کہوں گا کہ جس طرح ہماری ماں ہماری زندگی بناتی ہے، اسی طرح مادری زبان بھی ہماری زندگی بناتی ہے۔ ماں اور مادری زبان مل کر زندگی کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔ جس طرح ہم اپنی ماں کو نہیں چھوڑ سکتے ، اسی طرح ہم اپنی مادری زبان کو بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ مجھے سالوں پہلے کی ایک بات یاد ہے، جب میرا امریکہ جانا ہوا تو مجھے مختلف خاندانوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا ۔ ایک بار میں ایک تیلگو خاندان کے پاس گیا تو وہاں ایک بہت ہی خوشگوار منظر دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے خاندان میں ایک اصول بنا رکھا ہے کہ چاہے جتنا بھی کام ہو لیکن اگر ہم شہر سے باہر نہ ہوں تو گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور دوسرا ، یہ لازمی ہےکہ کھانے کی میز پر صرف تیلگو زبان میں ہی بات کریں گے۔ وہاں جو بچے پیدا ہوئے ، ان کے لئے بھی یہی اصول تھا۔ اپنی مادری زبان سے ، اُن کی محبت کو دیکھ کر میں اس خاندان سے بہت متاثر ہوا تھا ۔
ساتھیو، آزادی کے 75 سال بعد بھی کچھ لوگ ایسی ذہنی کشمکش میں جی رہے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی زبان، اپنے لباس، اپنے کھانے پینے کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا ہے، جب کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہے۔ ہماری مادری زبان ہے، ہمیں اسے فخر سے بولنا چاہیئے اور ہمارا بھارت تو زبانوں کے معاملے میں اتنا امیر ہے کہ اس کا تو موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری زبانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کشمیر سے کنیا کماری تک، کچھ سے کوہیما تک، سینکڑوں زبانیں، ہزاروں بولیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے میں رچی بسی ہوئی ہیں – زبانیں انیک تاثرات ایک ۔ صدیوں سے ہماری زبانیں ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے خود کو نکھارتی رہی ہیں، ایک دوسرے کی نشوونما کرتی رہی ہیں ۔ تمل بھارت میں دنیا کی قدیم ترین زبان ہے اور ہر بھارتی کو اس پر فخر ہونا چاہیئے کہ ہمارے پاس دنیا کا اتنا بڑا ورثہ ہے۔ اسی طرح جتنے قدیم دھرم شاستر ہیں، وہ بھی ہماری سنسکرت زبان میں ہیں ۔ بھارت کے لوگ، تقریباً 121، یعنی ہمیں فخر ہوگا کہ 121 قسم کی مادری زبانوں سے ہم جڑے ہوئے ہیں اور ان میں 14 زبانیں تو ایک کروڑ سے زیادہ لوگ روزمرہ کی زندگی میں بولتے ہیں۔ یعنی جتنے یورپی ممالک کی کل آبادی نہیں ہے، اس سے زیادہ لوگ ہمارے ملک میں 14 مختلف زبانوں سے وابستہ ہیں۔ سال 2019 ء میں ہندی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پر تھی۔ ہر بھارتی کو اس پر بھی فخر ہونا چاہیئے۔ زبان نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ زبان معاشرے کی ثقافت اور ورثے کو محفوظ کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔ اپنی زبان کی ثقافت کو محفوظ کرنے کا ایسا ہی کام سورینام میں سُرجن پروہی جی کر رہے ہیں ۔ وہ اس مہینے کی 2 تاریخ کو 84 سال کے ہو ئے ہیں ۔ ان کے اجداد بھی سالوں پہلے روزی کمانے کے لئے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ سورینام گئے تھے۔ سرجن پروہی جی ہندی میں بہت اچھی شاعری لکھتے ہیں، ان کا نام وہاں کے قومی شاعروں میں لیا جاتا ہے یعنی آج بھی ان کے دل میں بھارت دھڑکتا ہے، ان کے کاموں میں بھارتی مٹی کی خوشبو ہے۔ سورینام کے لوگوں نے سرجن پروہی جی کے نام پر ایک میوزیم بھی بنایا ہے۔ یہ میرے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے کہ سال 2015 ء میں مجھے ان کی عزت افزائی کا موقع ملا۔
ساتھیو، آج کے دن یعنی 27 فروری کو مراٹھی زبان کے فخر کا دن بھی ہے۔
’’ سَرو مراٹھی بندھو بھگی نینا مراٹھی بھاشا دِناچیا ہاردِک شوبھیچھا ‘‘
یہ دن مراٹھی شاعر ، وشنو بامن شرواڈکر جی، شریمان کسوماگرج جی کے لئے وقف ہے۔ آج ہی کسوماگرج جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کسوماگرج جی نے مراٹھی میں نظمیں لکھیں، بہت سے ڈرامے لکھے، مراٹھی ادب کو نئی بلندیاں دیں۔
ساتھیو، ہمارے یہاں زبان کی اپنی خوبیاں ہیں، مادری زبان کی اپنی سائنس ہے۔ اس سائنس کو سمجھتے ہوئے ہی قومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبان میں تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ کوششیں جاری ہیں کہ ہمارے پیشہ ورانہ کورسز کو بھی مقامی زبان میں پڑھائے جائیں ۔ آزادی کے امرت کال میں ، ہم سب کو مل کر اس کوشش کو بہت زیادہ رفتار دینی چاہیئے، یہ عزت نفس کا کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ جو بھی مادری زبان بولتے ہیں، اُس کی خوبیوں کے بارے میں ضرور جانیں اور کچھ نہ کچھ لکھیں ۔س
ساتھیو، کچھ دن پہلے میری ملاقات ، میرے دوست اور کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا جی سے ہوئی تھی ۔ یہ ملاقات دلچسپ تو تھی ہی لیکن بہت جذباتی بھی تھی۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں تو ہم کھل کر بات بھی کرلیتے ہیں۔ جب ہم دونوں باتیں کر رہے تھے تو اوڈنگا جی نے اپنی بیٹی کے بارے میں بتایا۔ ان کی بیٹی روزمیری کو برین ٹیومر ہوگیا تھا ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کی سرجری کرانی پڑی تھی لیکن اس کا ایک برا اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی تقریباً چلی گئی، دکھائی دینا ہی بند ہو گیا ۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بیٹی کے ساتھ کیا گزری ہو گی اور ہم ایک باپ کی حالت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں، اس کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے اسپتالوں میں ، دنیا کا کوئی بڑا ملک نہیں ہوگا، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کے علاج کے لئے پوری کوشش نہ کی ہو۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں تلاش کیا لیکن کامیابی نہ ملی اور ایک طرح سے تمام امیدیں چھوڑ کر پورے گھر میں مایوسی کا ماحول چھا گیا۔ اس میں کسی نے انہیں آیوروید کے علاج کے لئے بھارت آنے کا مشورہ دیا اور وہ بہت کچھ کر چکے تھے، تھک بھی چکے تھے، پھر بھی سوچا کہ چلو ایک بار آزمائیں، کیا ہوتا ہے؟ وہ بھارت آئے ، کیرالہ کے ایک آیورویدک اسپتال میں اپنی بیٹی کا علاج کرانا شروع کیا ۔ کافی وقت بیٹی یہاں رہی ۔ آیوروید کے اس علاج کا اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی کافی حد تک واپس آگئی۔ آپ سوچ سکتے ہیں، جیسے ایک نئی زندگی مل گئی اور روزمیری کی زندگی میں تو روشنی آگئی لیکن پورے خاندان میں بھی ایک نئی روشنی ، نئی زندگی آگئی ہے اور اوڈنگا جی اتنے جذباتی ہو کر مجھے یہ بات بتا رہے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ بھارت کا آیوروید کا علم ایک سائنس ہے، اسے کینیا میں لے جائیں ۔ اس میں ، جس قسم کے پودے استعمال کئے جاتے ہیں ، وہ ان پودوں کی کاشت کریں گے اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوں۔
میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری سرزمین اور روایت سے اتنا بڑا دکھ کسی کی زندگی سے دور ہو گیا۔ یہ سن کر آپ کو بھی خوش ہو گی۔ کون ایسا بھارتی ہوگا ، جسے اس پر فخر نہ ہو؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نہ صرف اوڈنگا جی بلکہ دنیا کے لاکھوں لوگ آیوروید سے اسی طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
برطانیہ کے پرنس چارلس بھی آیوروید کے بڑے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ جب بھی میری ان سے ملاقات ہوتی ہے ، وہ آیوروید کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ انہیں بھارت کے کئی آیورویدک اداروں کی جانکاری بھی ہے ۔
ساتھیو، پچھلے سات سالوں میں ملک میں آیوروید کے فروغ پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ آیوش کی وزارت کی تشکیل نے ہمارے روایتی طریقوں اور صحت کو مقبول بنانے کے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں آیوروید کے میدان میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس ابھرے ہیں۔ اسی مہینے کی شروعات میں آیوش اسٹارٹ اپ چیلنج شروع ہوا تھا۔ اس چیلنج کا مقصد اس شعبے میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کی شناخت اور مدد کرنا تھا ۔ اس شعبے میں کام کرنے والے نوجوانوں سے میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس چیلنج میں ضرور حصہ لیں۔
ساتھیو، ایک بار جب لوگ مل کر کچھ کرنے کا عزم کر لیتے ہیں، تو وہ شاندار کام کر جاتے ہیں۔ معاشرے میں اس طرح کی کئی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں عوامی شراکت، اجتماعی کوشش نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایسی ہی ایک عوامی تحریک جس کا نام ’’مشن جل تھل‘‘ ہے ، کشمیر کے سری نگر میں جاری ہے۔ سری نگر کی جھیلوں اور تالابوں کو صاف کرنے اور انہیں ان کی پرانی شان میں بحال کرنے کی یہ ایک انوکھی کوشش ہے۔ ’’ مشن جل تھل‘‘ کا فوکس ’’ کشل سار ‘‘ اور ’’ گل سار ‘‘ پر ہے۔ اس میں عوام کی شرکت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی بہت مدد لی جا رہی ہے۔ یہ جاننے کے لئے کہ کہاں کہاں تجاوزات ہیں، کہاں غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں، اس علاقے کا سروے کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پلاسٹک کے کچرے کو ہٹانے اور کچرے کو صاف کرنے کی مہم بھی چلائی گئی۔ مشن کے دوسرے مرحلے میں پرانے واٹر چینلوں اور جھیل کو بھرنے والے 19 چشموں کی بحالی کے لئے بھی کافی کوشش کی گئی۔ اس بحالی پر؎وجیکٹ کی اہمیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کے لئے مقامی لوگوں اور نوجوانوں کو واٹر ایمبیسیڈر بھی بنایا گیا۔ اب یہاں کے مقامی لوگ بھی ’’ گل سار جھیل ‘‘ میں ہجرت کرنے والے پرندوں اور مچھلیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اور اسے دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں۔ میں سری نگر کے لوگوں کو اس شاندار کاوش کے لئے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، ملک نے آٹھ سال پہلے ، جو ’ سووچھ بھارت مشن ‘ شروع کیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا، نئی اختراعات بھی شامل ہوئیں۔ آپ بھارت میں ، جہاں بھی جائیں، آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ صفائی کے لئے کوئی نہ کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ آسام کے کوکرا جھار میں مجھے ایسی ہی ایک کوشش کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ یہاں مارننگ واکرز کے ایک گروپ نے ’ سووچھ اور ہرِت کوکراجھار ‘ مشن کے تحت ایک بہت ہی قابل تعریف پہل کی ہے۔ ان سب نے نئے فلائی اوور کے علاقے میں تین کلو میٹر طویل سڑک کی صفائی کرکے صفائی کا تحریکی پیغام دیا۔ اسی طرح وشاکھاپٹنم میں ’ سووچھ بھارت ابھیان ‘ کے تحت پولی تھین کے بجائے کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ یہاں کے لوگ ماحول کو صاف رکھنے کے لئے سنگل یوز پلاسٹک کی مصنوعات کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ گھروں میں ہی کچرے کو الگ کرنے کے لئے بیداری بھی پھیلا رہے ہیں۔ ممبئی کے سومیا کالج کے طلباء نے صفائی کی اپنی مہم میں خوبصورتی کو بھی شامل کر لیا ہے۔ انہوں نے کلیان ریلوے اسٹیشن کی دیواروں کو خوبصورت پینٹنگز سے سجایا ہے۔ راجستھان میں سوائی مادھوپور کی ایک متاثر کن مثال بھی میرے علم میں آئی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے رَنتھمبور میں ’ مشن بیٹ پلاسٹک ‘نام سے ایک مہم شروع کی ہوئی ہے ، جس میں رنتھمبور کے جنگلات سے پلاسٹک اور پولی تھین کو ہٹا یا گیا ہے۔ ہر کسی کی کوشش کا یہ جذبہ ملک میں عوام کی شرکت کو تقویت دیتا ہے اور جب عوامی شرکت ہو تو بڑے سے بڑے مقاصد ضرور پورے ہوتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج سے کچھ دن بعد یعنی 8 مارچ کو پوری دنیا میں ’خواتین کا عالمی دن ‘منایا جائے گا۔ ’ من کی بات ‘میں ہم خواتین کی ہمت، ہنر اور مہارت سے متعلق بہت سی مثالیں شیئر کر تے رہے ہیں۔ آج چاہے اسکل انڈیا ہو، سیلف ہیلپ گروپ ہو یا چھوٹی بڑی صنعتیں ہوں ، خواتین ہر جگہ آگے بڑھی ہیں۔ آج کسی بھی طرف دیکھئے ، خواتین پرانی روایتوں کو توڑ رہی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں خواتین پارلیمنٹ سے لے کر پنچایت تک مختلف شعبوں میں نئیبلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ فوج میں بھی اب بیٹیاں نئے اور بڑے کرداروں میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اور ملک کی حفاظت کر رہی ہیں۔ پچھلے مہینے یوم جمہوریہ پر ہم نے دیکھا کہ جدید لڑاکا طیارے بھی بیٹیا اڑا رہی ہیں ۔ ملک نے سینک اسکولوں میں بیٹیوں کے داخلے پر پابندی بھی ہٹا دی ہے اور ملک بھر کے فوجی اسکولوں میں بیٹیاں داخلہ لے رہی ہیں۔ اسی طرح اسٹارٹ اپ کو دیکھ لیں، پچھلے سالوں میں ملک میں ہزاروں نئے اسٹارٹ اپس شروع ہوئے۔ ان میں سے تقریباً آدھے اسٹارٹ اپس میں ڈائریکٹر کے کردار میں خواتین ہیں۔ پچھلے کچھ ماہ میں خواتین کے لئے زچگی کی چھٹی بڑھانے جیسے فیصلے کئے گئے ہیں۔ بیٹے اور بیٹیوں کو مساوی حقوق دیتے ہوئے شادی کی عمر کو برابر کرنے کی ملک کوشش کر رہا ہے۔ اس سے ہر شعبے میں خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ آپ ملک میں ایک اور بڑی تبدیلی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ تبدیلی ہے - ہماری سماجی مہمات کی کامیابی ۔ ’ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کی کامیابی کو لے لیں، آج ملک میں جنسی تناسب بہتر ہوا ہے۔ اسکول جانے والی بیٹیوں کی تعداد میں بھی بہتری آئی ہے۔ اس میں ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہماری بیٹیاں درمیان میں اسکول نہ چھوڑیں۔ اسی طرح ملک میں خواتین کو ’سووچھ بھارت ابھیان ‘ کے تحت کھلے میں رفع حاجت سے آزادی ملی ہے۔ تین طلاق جیسی سماجی برائی بھی ختم ہو رہی ہے ۔ جب سے تین طلاق کے خلاف قانون نافذ ہوا ہے، ملک میں تین طلاق کے معاملات میں 80 فی صد کمی آئی ہے۔ اتنے کم وقت میں یہ ساری تبدیلیاں کیسے ہو رہی ہیں؟ یہ تبدیلیاں اس لئے آ رہی ہے کہ اب خواتین خود ہمارے ملک میں تبدیلی اور ترقی کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کل 28 فروری کو ’ قومی سائنس کا دن ‘ ہے۔ یہ دن رمن ایفیکٹ کی دریافت کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ میں ، سی وی رمن جی کے ساتھ ساتھ، میں ان تمام سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ہمارے سائنسی سفر کو تقویت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھیو، ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں آسانی اور سادگی میں کافی جگہ بنا لی ہے۔ کون سی ٹیکنالوجی اچھی ہے، کون سی ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال، ہم ان تمام موضوعات سے بخوبی واقف ہی ہیں۔ لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے خاندان کے بچوں کے لئے اس ٹیکنالوجی کی بنیاد کیا ہے، اس کے پیچھے سائنس کیا ہے، ہماری توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں ۔ اس سائنس ڈے پر، میں تمام خاندانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی کوششوں سے ضرور آغاز کریں۔ اب جیسے دکھتا نہیں ہے ، عینک لگانے کے بعد صاف دکھنے لگتا ہے تو بچوں کو آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے سائنس کیا ہے ۔ بس عینک سے دیکھیں ، مزہ کریں ، اتنا نہیں۔ اب آپ آرام سے اسے ایک کاغذ پر بتا سکتے ہیں۔ اب وہ موبائل فون استعمال کرتا ہے، کیلکولیٹر کیسے کام کرتا ہے، ریموٹ کنٹرول کیسے کام کرتا ہے، سینسرز کیا ہیں؟ یہ سائنسٹفک باتیں ، اس کے ساتھ ساتھ گھر میں بات چیت میں ہوتی ہیں کیا ؟ ہو سکتی ہے بڑے آرام سے ، ہم اِن چیزوں کو گھر کی روز مرہ کی زندگی کے پیچھے کیا سائنس ہے کہ وہ کون سی بات ہے ، جو کر رہی ہے ، اس کو سمجھا سکتے ہیں ۔ اسی طرح کیا ہم نے کبھی آسمان میں بچوں کو ایک ساتھ لے کر دیکھا ہے کیا ؟ رات میں ستاروں کے بارے میں بھی بات ہوئی ہوں ۔ مختلف قسم کے برج دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں بتائیں۔ ایسا کرنے سے آپ بچوں میں فزکس اور فلکیات کی طرف ایک نیا رجحان پیدا کر سکتے ہیں۔ آج کل تو ایسی بہت سی ایپس بھی ہیں، جن کے ذریعے آپ ستاروں اور سیاروں کا پتہ لگا سکتے ہیں یا آپ آسمان پر نظر آنے والے ستارے کی شناخت کر سکتے ہیں، آپ اس کے بارے میں جان بھی سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپس سے بھی کہوں گا کہ آپ اپنی صلاحیتوں اور سائنسی کردار کو قوم کی تعمیر سے متعلق کام میں استعمال کریں۔ یہ ملک کے تئیں ہماری اجتماعی سائنسی ذمہ داری بھی ہے۔ جیسے آج کل ، میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے اسٹارٹ اپ ورچوئل رئیلٹی کی دنیا میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ورچوئل کلاسز کے اس دور میں بچوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسی ہی ایک ورچوئل لیب بنائی جا سکتی ہے۔ ہم ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچوں کو گھر بیٹھے کیمسٹری لیب کا تجربہ بھی کرا سکتے ہیں۔ میری اساتذہ اور والدین سے درخواست ہے کہ وہ تمام طلباء اور بچوں کو سوالات کرنے کی ترغیب دیں اور ان کے ساتھ مل کر سوالات کے صحیح جوابات تلاش کریں۔ آج، میں کورونا کے خلاف لڑائی میں بھارتی سائنسدانوں کے کردار کی بھی ستائش کرنا چاہوں گا۔ ان کی محنت کی وجہ سے میڈ ان انڈیا ویکسین تیار کرنا ممکن ہوا ، جس سے پوری دنیا کو کافی مدد ملی ہے۔ یہ انسانیت کو سائنس کا تحفہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ آنے والے مارچ کے مہینے میں بہت سے تہوار آ رہے ہیں - شیو راتری آ رہی ہے اور اب کچھ دنوں کے بعد آپ سب ہولی کی تیاری میں مصروف ہو جائیں گے۔ ہولی ، ہمیں متحد کرنے والا تہوار ہے۔ اس میں اپنے – پرائے ، چھوٹے بڑے کے تمام فرق مٹ جاتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں ، ہوکی کے رنگوں سے بھی زیادہ گہرا رنگ ، ہولی کی محبت اور ہم آہنگی کا ہوتا ہے ۔ ہولی میں گجیا کے ساتھ ساتھ رشتوں کی انوکھی مٹھاس بھی ہوتی ہے۔ ان رشتوں کو ہمیں اور مضبوط کرنا ہے اور یہ رشتہ صرف اپنے خاندان کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں سے بھی ہے ، جو آپ کے بڑے خاندان کا حصہ ہیں۔ اس کا سب سے اہم طریقہ بھی آپ کو یاد رکھنا ہے۔ یہ طریقہ ہے - ’ ووکل فار لوکل ‘ کے ساتھ تہوار منانے کا ۔ آپ تہواروں پر مقامی مصنوعات کی خریداری کریں ، جس سے آپ کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی میں بھی رنگ بھرے ، رنگ رہے ، امنگ رہے ۔ جس کامیابی کے ساتھ ہمارا ملک کورونا کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے، اُس سے تہواروں میں جوش بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی جوش کے ساتھ ہمیں اپنے تہوار منانے ہیں اور ساتھ ہی اپنی احتیاط بھی برقرار رکھنی ہے۔ میں آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ آپ کے باتوں کا ، آپ کے خطوط کا ، آپ کے پیغامات انتظار رہے گا ۔ بہت بہت شکریہ ۔
نئی دلّی ،30 جنوری / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! آج ’ من کی بات ‘ کے ایک اور ایپیسوڈ کے ذریعے ہم ایک ساتھ جڑ رہے ہیں ۔ یہ 2022 ء کی پہلی ’ من کی بات ‘ ہے ۔ آج ہم پھر ایسے تبادلۂ خیال کو آگے بڑھائیں گے، جو ہمارے ملک اور ہم وطنوں کی مثبت تحریکوں اور اجتماعی کوششوں سے جڑے ہوتے ہیں ۔ آج ہمارے قابل احترام باپو مہاتما گاندھی کی برسی بھی ہے۔ 30 جنوری کا یہ دن ہمیں باپو کی تعلیمات کی یاد دلاتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے یوم ِ جمہوریہ بھی منایا۔ دلّی میں راج پتھ پر ، ہم نے ملک کی بہادری اور طاقت کی ، جو جھانکی دیکھی ، اُس نے سب کو فخر اور جوش سے بھر دیا۔ ایک تبدیلی ، جو آپ نے دیکھی ہوگی، اب یوم ِ جمہوریہ کی تقریبات 23 جنوری یعنی نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم ِپیدائش سے شروع ہوں گی اور 30 جنوری تک یعنی گاندھی جی کی برسی تک جاری رہیں گی۔ انڈیا گیٹ پر نیتا جی کا ڈیجیٹل مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ اس بات کا ، جس طرح سے ، ملک نے خیر مقدم کیا، ملک کے ہر کونے سے ، جو خوشی کی لہر اٹھی، ملک کے ہر باشندے نے ، جس طرح کے جذبات کا اظہار کیا ، اسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے ۔
ساتھیو ، ملک آزادی کے امرت مہوتسو میں ، ان کوششوں سے اپنی قومی علامتوں کو دوبارہ قائم کر رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انڈیا گیٹ کے قریب ’امر جوان جیوتی ‘ اور اس کے قریب ہی ’ نیشنل وار میموریل ‘ ( قومی جنگی یادگار ) پر جلنے والی جیوتی کو آپس میں ضم کیاگیا ۔ اس جذباتی موقع پر بہت سے اہل وطن اور شہدا کے اہل خانہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آزادی کے بعد سے شہید ہونے والے ملک کے تمام بہادروں کے نام ’نیشنل وار میموریل ‘ میں کندہ کئے گئے ہیں۔ کچھ سابق فوجیوں نے مجھے لکھا ہے کہ ’’شہیدوں کی یاد کے سامنے جلائی جانے والی ’امر جوان جیوتی‘ شہیدوں کے امر ہونے کی علامت ہے۔ حقیقت میں ، ’امر جوان جیوتی ‘ کی طرح ہمارے شہید ، ان کی تحریک اور ان کا تعاون بھی امر ہے۔ میں آپ سب سے کہوں گا کہ جب بھی آپ کو موقع ملے ’نیشنل وار میموریل‘ ضرور جائیں ۔ اپنے گھر والوں اور بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ یہاں آپ کو ایک مختلف توانائی اور تحریک کا تجربہ ہوگا۔
ساتھیو ، امرت مہوتسو کی ان تقریبات کے درمیان ملک میں کئی اہم قومی اعزازات بھی دیئے گئے۔ اُن میں سے ایک ہے ’ وزیر اعظم کا ’ راشٹریہ بال پرسکار ‘ ۔ یہ ایوارڈز ، ان بچوں کو دیئے جاتے ہیں ، جنہوں نے کم عمری میں جرات مندانہ اور متاثر کن کام کئے ہے۔ ہم سب کو اپنے گھروں میں ان بچوں کے بارے میں بتانا چاہیئے۔ ان سے ہمارے بچے بھی تحریک حاصل کریں گے اور ان کے اندر بھی ملک کا نام روشن کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا ۔ ملک میں پدم ایوارڈ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں ایسے بہت سے نام ہیں ،جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے غیر معروف ہیرو ہیں، جنہوں نے عام حالات میں غیر معمولی کام کئے ہیں۔ مثال کے طور پر اتراکھنڈ کی بسنتی دیوی کو پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ بسنتی دیوی نے اپنی پوری زندگی جدوجہد کے درمیان گزاری۔ ان کے شوہر کا کم عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا اور وہ ایک آشرم میں رہنے لگیں ۔ یہاں رہ کر ، انہوں نے دریا کو بچانے کے لئے جدوجہد کی اور ماحولیات کے لئے غیر معمولی تعاون کیا ۔ انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے بھی بہت کام کیا ہے۔ اسی طرح منی پور سے تعلق رکھنے والی 77 سالہ لوریبم بینو دیوی کئی دہائیوں سے منی پور کے لیبا ٹیکسٹائل آرٹ کا تحفظ کر رہی ہیں۔ انہیں بھی پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے ارجن سنگھ کو بیگا قبائلی رقص کے فن کو پہچان دلناے کے لئے پدم ایوارڈ ملا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے ایک اور شخص جناب امائی مہا لینگا نائک ہیں۔ وہ ایک کسان ہیں اور کرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں ٹنل مین بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے زراعت میں ایسی ایسی ایجادات کی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر ایک حیران رہ جائے ۔ چھوٹے کسانوں کو ، ان کی کوششوں کا بہت زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے غیر معروف ہیرو ہیں ، جنہیں ملک نے ان کی خدمات کے لئے اعزاز سے نوازا ہے۔ آپ کو ضرور ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ زندگی میں ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، امرت مہوتسو پر، آپ سب ساتھی مجھے بہت سے خطوط اور پیغامات بھیجتے ہیں، بہت سے مشورے بھی دیتے ہیں۔ اس سیریز میں کچھ ایسا ہوا ، جو میرے لئے ناقابل فراموش ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ بچوں نے اپنے ’من کی بات ‘ پوسٹ کارڈ کے ذریعے لکھ کر بھیجی ہے۔ یہ ایک کروڑ پوسٹ کارڈ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہیں، بیرون ملک سے بھی آئے ہیں۔ میں نے وقت نکال کر ، ان میں سے بہت سے پوسٹ کارڈز کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پوسٹ کارڈ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کے لئے ہماری نئی نسل کا ویژن کتنا وسیع اور کتنا بڑا ہے۔ میں نے ’ من کی بات ‘کے سننے والوں کے لئے کچھ پوسٹ کارڈوں کو چنا ہے ، جنہیں میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ گوہاٹی، آسام سے رِدھیما سورگیاری کا پوسٹ کارڈ اس طرح ہے۔ رِدھیما ساتویں جماعت کی طالبہ ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ وہ آزادی کے 100ویں سال میں ایک ایسا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہے ، جو دنیا کا سب سے صاف ستھرا ملک ہو، دہشت گردی سے مکمل طور پر آزاد ہو، سو فی صد خواندہ ممالک میں شامل ہو، حادثوں سے پاک ملک ہو اور پائیدار ٹیکنالوجی کے ساتھ خوراک کی سکیورٹی کے قابل ہو ۔ رِدھیما، ہماری بیٹیاں جو بھی سوچتی ہیں، جو خواب وہ ملک کے لئے دیکھتی ہیں، وہ تو پورے ہوتے ہی ہیں۔ جب سب کی کوششیں شامل ہوں گی، آپ کی نوجوان نسل اسے ایک مقصد بنانے کے لئے کام کرے گی، پھر آپ جس طرح سے ہندوستان بنانا چاہتے ہیں، وہ ضرور بنے گا۔ میرے پاس اتر پردیش کے پریاگ راج کی نویا ورما کا پوسٹ کارڈ بھی ہے۔ نَویا نے لکھا ہے کہ 2047 ء میں ، ان کا خواب ایک ایسے بھارت کا ہے ، جہاں ہر ایک کو باوقار زندگی ملے، جہاں کسان خوشحال ہوں اور کرپشن نہ ہو۔ نَویا، ملک کے لئے آپ کا خواب بہت قابل تعریف ہے۔ ملک بھی اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آپ نے کرپشن فری انڈیا کی بات کی۔ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس سے نجات کے لئے 2047 ء کا انتظار کیوں؟ ہم تمام اہل وطن، آج کے نوجوانوں کو مل کر یہ کام جلد از جلد کرنا ہے اور اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض کو ترجیح دیں ، جہاں فرض کا احساس ہو، فرض سب سے اہم ہو ، وہاں کرپشن پھٹک بھی نہیں سکتا۔
ساتھیو ، میرے سامنے چنئی سے محمد ابراہیم کا ایک اور پوسٹ کارڈ ہے۔ ابراہیم 2047 ء میں ہندوستان کو دفاعی میدان میں ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ چاند پر ہندوستان کا اپنا ریسرچ بیس ہو اور ہندوستان مریخ پر انسانی آبادی کو آباد کرنے کا کام شروع کرے نیز ابراہیم زمین کو آلودگی سے پاک بنانے میں ہندوستان کے لئے ایک بڑا کردار دیکھتے ہیں۔ ابراہیم، جس ملک میں آپ جیسا نوجوان ہو،اس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
ساتھیو ، میرے سامنے ایک اور خط ہے۔ مدھیہ پردیش کے رائے سین میں سرسوتی ودیا مندر میں 10ویں جماعت کی طالبہ بھاونا کا ۔ سب سے پہلے، میں بھاونا سے کہوں گا کہ آپ کا اپنے پوسٹ کارڈ کو ترنگے سے سجانے کا طریقہ مجھے بہت پسند آیا۔ بھاونا نے انقلابی شریش کمار کے بارے میں لکھا ہے۔
ساتھیو ، مجھے گوا سے لارنشیو پریرا کا پوسٹ کارڈ بھی ملا ہے۔ وہ بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ان کے خط کا موضوع بھی ہے – آزادی کے غیر معروف ہیرو ۔ میں آپ کو اس کا ہندی کا ترجمہ بتا رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے – ’’ بھیکاجی کاما ہندوستانی جدوجہد آزادی میں شامل سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے بیٹیوں کو بااختیار بنانے کے لئے ملک اور بیرون ملک بہت سی مہمیں چلائیں۔کئی نمائشوں کا اہتمام کیا۔ ‘‘ یقیناً بھیکاجی کاما تحریک آزادی کی سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ 1907 ء میں ، انہوں نے جرمنی میں ترنگا لہرایا۔ اس ترنگے کو ڈیزائن کرنے میں ، جس شخص نے ان کا ساتھ دیا تھا ، وہ تھے - شری شیام جی کرشن ورما۔ شری شیام جی کرشن ورما جی کا انتقال 1930 ء میں جنیوا میں ہوا۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ان کی استھیاں ہندوستان لائی جائیں حالانکہ ان کی استھیاں 1947 ء میں آزادی کے دوسرے ہی دن ہندوستان واپس لائی جانی چاہیئے تھیں لیکن یہ کام نہیں ہوا۔ شاید بھگوان کی مرضی ہوگی کہ یہ کام میں کروں اور اس کام کو کرنے کا موقع بھی مجھے ہی ملا ۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو ان کی استھیاں 2003 ء میں ہندوستان لائی گئیں۔ شیام جی کرشن ورما جی کی یاد میں ان کی جائے پیدائش، مانڈوی میں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔
ساتھیو ، ہندوستان کی آزادی کے امرت مہوتسو کا جوش و خروش صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں ہے۔ مجھے ہندوستان کے دوست ملک کروشیا سے بھی 75 پوسٹ کارڈ ملے ہیں۔ کروشیا کے زاگریب میں اسکول آف اپلائیڈ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے طلباء نے یہ 75 کارڈ ہندوستان کے لوگوں کو بھیجے ہیں اور امرت مہوتسو کی مبارکباد دی ہے۔ آپ تمام ہم وطنوں کی طرف سے، میں کروشیا اور اس کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان تعلیم اور علم کی سرزمین رہا ہے۔ ہم نے تعلیم کو کتابی علم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے زندگی کے ایک جامع تجربے کے طور پر دیکھا ہے۔ ہمارے ملک کی عظیم شخصیات کا بھی تعلیم سے گہرا تعلق رہا ہے۔ جہاں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بنارس ہندو یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، وہیں مہاتما گاندھی نے گجرات ودیا پیٹھ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ گجرات کے آنندمیں ایک بہت پیاری جگہ ہے - ولبھ ودیا نگر ۔ سردار پٹیل کے اصرار پر ان کے دو ساتھیوں بھائی کاکا اور بھیکا بھائی نے ، وہاں نوجوانوں کے لئے تعلیمی مراکز قائم کئے تھے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور نے شانتی نکیتن قائم کیا۔ مہاراجہ گائیکواڑ بھی تعلیم کے پرجوش حامیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بہت سے تعلیمی اداروں کی تعمیر کرائی اور ڈاکٹر امبیڈکر اور شری اروبندو سمیت کئی شخصیات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے متاثر کیا۔ ایسی عظیم ہستیوں کی فہرست میں ایک نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کا بھی ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے ایک ٹیکنیکل اسکول کے قیام کے لئے اپنا گھر ہی سونپ دیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ اور متھرا میں تعلیمی مراکز کی تعمیر کے لئے کافی مالی مدد کی۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے علی گڑھ میں ان کے نام پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ تعلیم کی روشنی کو عوام تک پہنچانے کا وہی متحرک جذبہ آج بھی ہندوستان میں جاری ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس احساس کی سب سے خوبصورت چیز کیا ہے؟ یعنی تعلیم کے بارے میں یہ بیداری معاشرے میں ہر سطح پر نظر آتی ہے۔ تمل ناڈو کے تریپور ضلع کے ادومل پیٹ بلاک میں رہنے والی تایمّل جی کی مثال بہت متاثر کن ہے۔ تایمّل جی کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ برسوں سے ان کا خاندان ناریل پانی بیچ کر روزی کما رہا ہے۔ مالی حالت بھلے اچھی نہ ہو لیکن تایّمل جی نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان کے بچے چِنّ ویرم پٹی پنچایت یونین مڈل اسکول میں پڑھتے تھے ۔ ایسے ہی ایک دن اسکول میں والدین کے ساتھ میٹنگ میں یہ بات اٹھائی گئی کہ کلاس رومز اور اسکول کی حالت بہتر کی جائے، اسکول کا بنیادی ڈھانچہ د ٹھیک کیا جائے۔ تایمل جی بھی اس میٹنگ میں تھیں ۔ انہوں نے سب کچھ سنا۔ اسی میٹنگ میں بات چیت کاموں کے لئے پیسوں کی کمی پر آکر اٹک گئی ۔ اس کے بعد تایمل جی نے ، جو کچھ کیا ، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تایمل جی، جنہوں نے ناریل پانی بیچ کر کچھ سرمایہ جمع کیا تھا، اسکول کے لئے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ درحقیقت، ایسا کرنے کے لئے بہت بڑا دِل چاہیئے ، خدمت کا جذبہ چاہیئے ۔ تایمل جی کا کہنا ہے کہ ابھی جو اسکول ہے ، اس میں آٹھویں جماعت تک پڑھائی ہوتی ہے۔ اب جب اسکول کا بنیادی ڈھانچہ سدھر جائے گا تو یہاں ہائر سیکنڈری تک کی پڑھائی ہونے لگے گی ۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے یہی وہ جذبہ ہے ، جس کی میں بات کر رہا تھا۔ مجھے آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے ایک سابق طالب علم کی طرف سے بھی اسی طرح کے عطیہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ بی ایچ یو کے سابق طالب علم جے چودھری جی نے آئی آئی ٹی بی ایچ یو فاؤنڈیشن کو ایک ملین ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے سات کروڑ کا عطیہ دیا۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جو دوسروں کی مدد کر کے معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ اس طرح کی کوششیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ، خاص طور پر ہمارے مختلف آئی آئی ٹیز میں مسلسل دیکھی جا رہی ہیں۔ مرکزی یونیورسٹیوں میں بھی ایسی متاثر کن مثالوں کی کمی نہیں ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو مزید بڑھانے کے لئے گزشتہ سال ستمبر سے ملک میں ودیانجلی ابھیان بھی شروع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مختلف تنظیموں، سی ایس آر اور نجی شعبے کی شراکت سے ملک بھر کے اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔ ودیانجلی کمیونٹی کی شرکت اور ملکیت کے جذبے کو فروغ دے رہی ہے۔ اپنے اسکول، کالج سے مسلسل جڑے رہنا، اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ تعاون کرنا ، ایک ایسی چیز ہے ، جس کا تجربہ کرنے کے بعد ہی ایسا اطمینان اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، فطرت سے محبت اور ہر جاندار کے لئے ہمدردی، یہ ہماری ثقافت بھی ہے اور ہماری فطرت بھی ہے۔ ہماری اِن اقدار کی ایک جھلک حال ہی میں ، اُس وقت دیکھی گئی ، جب مدھیہ پردیش کے پینچ ٹائیگر ریزرو میں ایک شیرنی نے دنیا کو الوداع کہا ۔ لوگ اس شیرنی کو کالر والی شیرنی کہتے تھے۔ محکمہ جنگلات نے اسے ٹی – 15 کا نام دیا تھا ۔ اس شیرنی کی موت نے لوگوں کو اس قدر جذباتی کر دیا کہ جیسے کوئی اپنا ہی دنیا سے چلا گیا ہو۔ لوگوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں، پورے احترام اور محبت سے اسے رخصت کیا ۔ سوشل میڈیا پر یہ تصاویر آپ نے بھی دیکھی ہوں گی۔ پوری دنیا میں فطرت اور جانوروں کے لئے ہم ہندوستانیوں کی اس محبت کو بہت سراہا گیا۔ کالر والی شیرنی نے اپنی زندگی میں 29 بچوں کو جنم دیا اور 25 کی پرورش کرکے انہیں بڑا کیا۔ ہم نے ٹی – 15 کی اس زندگی کا جشن بھی منایا اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو ہم نے اسے جذباتی طور پر رخصت بھی کیا ۔ یہ ہندوستان کے لوگوں کی خوبی ہے۔ ہم ہر ذی نفس سے محبت کا رشتہ بنا لیتے ہیں۔ ہمیں اس بار یوم جمہوریہ کی پریڈ میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ اس پریڈ میں صدر کے باڈی گارڈز کے چارجر گھوڑے وِراٹ نے اپنی آخری پریڈ میں حصہ لیا۔ گھوڑا وِراٹ 2003 ء میں راشٹرپتی بھون میں آیا تھا اور ہر بار یوم جمہوریہ پر کمانڈنٹ چارجر کے طور پر پریڈ کی قیادت کرتاتھا۔ یہاں تک کہ جب راشٹرپتی بھون میں کسی غیر ملکی سربراہ کا استقبال کیا جاتا تھا تو بھی وہ یہ کردار ادا کرتا تھا۔ اس سال گھوڑے وِراٹ کو آرمی چیف نے آرمی ڈے پر سی او اے ایس ستائشی کارڈ بھی دیا تھا۔ وراٹ کی بے پناہ خدمات کو دیکھتے ہوئے ، اس کے ریٹائرمنٹ کے بعد ، اسے اتنے ہی شاندار انداز میں الوداع کیا گیا۔
میرے پیارے ہم وطنو ، جب خلوص نیت سے کام کیا جائے تو اس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال آسام سے سامنے آئی ہے۔ آسام کا نام لیتے ہی ذہن میں چائے کے باغات اور کئی قومی پارکوں کا خیال آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے ذہن میں ایک سینگ والے گینڈے یعنی ایک سینگ گینڈے کی تصویر بھی ابھرتی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک سینگ والا گینڈا ہمیشہ سے آسامی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ بھارت رتن بھوپین ہزاریکا جی کا یہ گانا ہر ایک کان میں گونجتا ہو گا۔
ساتھیو ، اس گانے کا مفہوم بہت مطابقت رکھتا ہے۔ اس گانے میں کہا گیا ہے کہ کازی رنگا کا سرسبز و شاداب ماحول، ہاتھیوں اور شیروں کا ٹھکانہ، ایک سینگ والے گینڈے کو زمین دیکھے ، پرندوں کی مدھر چہچہاہٹ سنے۔ گینڈے کی تصویر یں آسام کے دنیا بھر میں معروف مونگا اور ایری کے بنائی والے کپڑوں پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اس گینڈے کو ، جس کی آسام کی ثقافت میں ایک عظیم تاریخ ہے ، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ 2013 ء میں 37 اور 2014 ء میں 32 گینڈوں کو شکاریوں نے ہلاک کر دیا تھا ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے گینڈوں کے شکار کے خلاف ایک وسیع مہم چلائی گئی ، جو پچھلے سات سال میں آسام حکومت کی خصوصی کوششوں میں شامل ہے ۔ پچھلے سال 22 ستمبر کو گینڈوں کے عالمی دن کے موقع پر اسمگلروں سے پکڑے گئے 2400 سے زائد سینگوں کو جلا دیا گیا تھا۔ یہ شکاریوں کے لئے ایک سخت پیغام تھا۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب آسام میں گینڈوں کے شکار میں تیزی سے کمی آئی ہے ، جب کہ 2013 ء میں ، جہاں 37 گینڈے ہلاک کئے گئے تھے ، 2020 ء میں صرف 2 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 2021 ء میں صرف ایک معاملہ سامنے آیا ہے ۔ میں گینڈوں کے تحفظ کے لئے آسام کے عوام کے عہد کی ستائش کرتا ہوں ۔
ساتھیو ، ہندوستانی ثقافت کے متنوع رنگ اور روحانی طاقت نے ہمیشہ پوری دنیا کے لوگوں کو راغب کیا ہے ۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ ہندوستانی ثقافت امریکہ، کناڈا ، دوبئی، سنگاپور، مغربی یورپ اور جاپان میں بہت مقبول ہے تو آپ کو یہ ایک عام بات لگے گی اور آپ کو تعجب نہیں ہوگا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ لاطینی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں بھی بھارت ثقافت بڑی توجہ کا مرکز ہے ، تو آپ یقیناً ایک بار ضرور سوچیں گے ۔ میکسیکو میں کھادی کو فروغ دینے کا معاملہ ہو یا برازیل میں ہندوستانی روایات کو مقبول بنانے کی کوشش، ہم ان موضوعات پر ، اِس سے پہلے کی ’من کی بات ‘ میں بات کر چکے ہیں۔ آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ ارجنٹینا میں بھی ہندوستانی ثقافت اپنے نشان چھوڑ رہی ہے ۔ ارجنٹینا میں ہماری ثقافت کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ 2018 ء میں، میں نے اپنے ارجنٹینا کے دورے کے دوران ایک یوگا پروگرام – ’ یوگا فار پیس ‘ میں حصہ لیا۔ یہاں ارجنٹینا میں ایک تنظیم ہے - ہستینا پور فاؤنڈیشن۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ارجنٹینا میں ہستینا پور فاؤنڈیشن موجود ہے ۔ یہ فاؤنڈیشن ارجنٹینا میں ہندوستانی ویدِک روایات کو فروغ دینے میں شامل ہے۔ اس کا قیام 40 سال پہلے ایک خاتون پروفیسر ایڈا البریکٹ نے کیا تھا ۔ پروفیسر ایڈا البریکٹ آج 90 سال کی ہو گئی ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ، اُن کا تعلق کیسے ہوا ، یہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔ جب وہ 18 سال کی تھیں ، تو انہیں پہلی مرتبہ بھارتی ثقافتی کی قوت کے تعارف ہوا ۔ انہوں نے ہندوستان میں کافی وقت گزارا ۔ انہوں نے بھگوت گیتا اور اُپنیشدوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ آج ہستینا پور فاؤنڈیشن میں 40 ہزار سے زیادہ ارکان ہیں اور ارجنٹینا اور دیگر لاطینی امریکی ملکوں میں تقریباً 30 شاخیں ہیں ۔ ہستینا پور فاؤنڈیشن نے 100 سے زیادہ ویدک اور فلسفے کی کتابیں اسپینی زبان میں شائع کی ہیں ۔ ان کا آشرم بھی بہت پرکشش ہے۔ آشرم میں بارہ مندر تعمیر کئے گئے ہیں ، جن میں بہت سے دیوی اور دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں ۔ ان سب کے مرکز میں ایک ایسا مندر بھی ہے ، جسے اَدویت وادی دھیان کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔
ساتھیو ، ایسی سینکڑوں مثالیں بتاتی ہیں کہ ہماری ثقافت نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک انمول ورثہ ہے۔ پوری دنیا کے لوگ اسے جاننا چاہتے ہیں، سمجھنا چاہتے ہیں، جینا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے ثقافتی ورثے کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اسے تمام لوگوں تک پہنچانا چاہیئے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے اور خاص کر ہمارے نوجوانوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اب تصور کریں کہ آپ ایک بار میں کتنے پش اپس کر سکتے ہیں۔ جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ یقیناً آپ کو حیرت سے بھر دے گا۔ منی پور کے 24 سالہ نوجوان تھونا اوجم نرنجوئے سنگھ نے ایک منٹ میں 109 پش اپس کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نرنجوئے سنگھ کے لئے ریکارڈ توڑنا کوئی نئی بات نہیں، جو اس سے پہلے ایک منٹ میں ایک ہاتھ سے سب سے زیادہ نکل پش اپس کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نرنجوئے سنگھ سے متاثر ہوں گے اور جسمانی فٹنس کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
ساتھیو ، آج میں آپ کے ساتھ لداخ کے بارے میں ایک ایسی ہی معلومات شیئر کرنا چاہتا ہوں ، جس کے بارے میں جان کر آپ یقیناً فخر محسوس کریں گے۔ لداخ کو جلد ہی ایک شاندار اوپن سنتھیٹک ٹریک اور آسٹرو ٹرف فٹ بال اسٹیڈیم کا تحفہ ملنے والا ہے ۔ یہ اسٹیڈیم 10 ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر بنایا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر جلد پوری ہونے والی ہے۔ یہ لداخ کا سب سے بڑا اوپن اسٹیڈیم ہوگا ، جہاں 30,000 شائقین ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ لداخ کے اس جدید فٹ بال اسٹیڈیم میں 8 لین والا مصنوعی ٹریک بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ ، ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہاسٹل کی سہولت بھی ہوگی۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ اس اسٹیڈیم کو فٹ بال کی سب سے بڑی تنظیم فیفا نے بھی سرٹیفائی کیا ہے۔ جب بھی اتنا بڑا کھیلوں کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہوتا ہے، اس سے ملک کے نوجوانوں کے لئے بڑے مواقع آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ، جہاں یہ انتظام ہوتا ہے ، وہاں ملک بھر سے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے ، سیاحت کو فروغ ملتا ہے اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس اسٹیڈیم سے لداخ میں ہمارے بہت سے نوجوانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات ‘ میں بھی ، ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ ایک اور موضوع ہے، جو اس وقت ہر کسی کے ذہن میں ہے اور وہ ہے کورونا کا موضوع ۔ بھارت کورونا کی نئی لہر کے ساتھ بڑی کامیابی کے ساتھ لڑ رہا ہے، یہ بھی فخر کی بات ہے کہ اب تک تقریباً 4.5 کروڑ بچے کورونا ویکسین کی خوراک لے چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 15 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 60 فیصد نوجوانوں کو تین سے چار ہفتے میں ہی ٹیکے لگائے گئے ہیں ۔ اس سے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی حفاظت ہوگی بلکہ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ 20 دنوں کے اندر ایک کروڑ لوگوں نے احتیاطی خوراک بھی لی ہے۔ ہمارے ملک کی ویکسین پر ہم وطنوں کا یہ اعتماد ہماری بڑی طاقت ہے۔ اب کورونا انفیکشن کے کیسز بھی کم ہونے لگے ہیں - یہ ایک بہت ہی مثبت علامت ہے۔ عوام محفوظ رہے، ملک کی معاشی سرگرمیوں کی رفتار برقرار رہے، یہ ہر شہری کی خواہش ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں ’ من کی بات‘ میں، کچھ چیزیں، میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا، جیسے، ہمیں ’سووچھتا مہم ‘ کو بھولنا نہیں ہے، ہمیں سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف مہم کو تیز کرنا چاہیئے۔ یہ ضروری ہے۔ ووکل فار لوکل کا منتر ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آتم نربھر بھارت کے لئے جی جان سے جٹے رہیں ۔ ہم سب کی کوششوں سے ہی ملک ترقی کی نئی اونچائیوں پر پہنچے گا ۔ اسی امید کے ساتھ ، میں آپ سب سے وداع لیتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ !
نئی دلّی ،26 دسمبر/ میرے پیارے ہم وطنو ! اس وقت آپ 2021 ء کو الوداع کہنے اور 2022 ء کا خیر مقدم کرنے کی تیاری میں مصروف ہوں گے ۔ نئے سال پر، ہر شخص، ہر ادارہ، آنے والے سال میں کچھ اور بہتر کرنے، بہتر بننے کے عہد لیتے ہیں ۔ پچھلے سات سالوں سے، ہماری ’ من کی بات ‘بھی ہمیں فرد، سماج، ملک کی بھلائی کو اجاگر کرکے مزید اچھا کرنے اور بہتر بننے کی ترغیب دے رہی ہے۔ ان سات سالوں میں ’من کی بات‘ کرتے ہوئے میں حکومت کی کامیابیوں پر بھی بات کر سکتا تھا۔ آپ کو بھی اچھا لگتا ، آپ نے بھی سراہا ہوتا لیکن یہ میرا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے کہ میڈیا کی چکاچوند سے دور، اخبارات کی سرخیوں سے دور، بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جو بہت کچھ اچھا کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنا آج ملک کے مستقبل کے لئے صرف کر رہے ہیں۔ آج، وہ ملک کی آنے والی نسلوں کے لئے اپنی کوششوں پر جی جان سے جٹے ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی باتیں بہت سکون دیتی ہیں، تحریک دیتی ہیں۔ میرے لئے ’من کی بات‘ ہمیشہ سے ایسے ہی لوگوں کی کوششوں سے بھرا ہوا ، کھلا ہوا ، سجا ہوا ایک خوبصورت باغ رہا ہے اور من کی بات میں تو ہر مہینے میری پوری کوشش ہی اِس بات پر ہوتی ہے ، اس باغ کی کون سی پنکھڑی آپ کے سامنے پیش کروں ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری خوبصورت زمین پر نیک کاموں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور آج جب ملک ’امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے تو یہ جو عوام کی قوت ہے ، ایک ایک شخص کی قوت ہے ، اُس کی تعریف ، اس کی کوشش ، اس کی محنت بھارت کے اور انسانیت کے تابناک مستقبل کے لئے ایک طرح سے گارنٹی دیتا ہے ۔
ساتھیو ، یہ عوام کی ہی طاقت ہے ، سب کی کوشش ہے کہ بھارت 100 سال میں آئی سب سے بڑی وباء سے لڑ سکا ہے ۔ ہم ہر مشکل وقت میں ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔ اپنے محلے یا شہر میں کسی کی مدد کرنے کے لئے ، جس سے جو ہو سکا ، اُس سے زیادہ کرنے کی کوشش کی ۔ اگر ہم آج دنیا میں ویکسینیشن کے اعداد و شمار کا موازنہ بھارت کے ساتھ کریں تو لگتا ہے کہ اس ملک نے ایسا بے مثال کام کیا ہے، کتنا بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ ویکسین کی 140 کروڑ خوراکوں کا سنگ میل عبور کرنا ہر ہندوستانی کی اپنی کامیابی ہے۔ یہ نظام پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے، سائنس پر اعتماد ظاہر کرتا ہے، سائنس دانوں پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے اور یہ ہم ہندوستانیوں کی قوت ارادی کا بھی ثبوت ہے، جو معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں لیکن دوستو ں ، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کورونا کی ایک نئی شکل نے دستک دی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کا ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اس عالمی وبا کو شکست دینے کے لئے بحیثیت شہری ہماری کوشش بہت ضروری ہے۔ ہمارے سائنسداں ، اس نئے اومیکرون قسم کا مسلسل مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہیں روزانہ نیا ڈیٹا مل رہا ہے، ان کی تجاویز پر کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں خود آگاہی، خود نظم و ضبط، ملک کے پاس کورونا کے اس قسم کے خلاف بڑی طاقت ہے۔ ہماری اجتماعی طاقت کورونا کو شکست دے گی، اس ذمہ داری کے ساتھ ہمیں 2022 ء میں داخل ہونا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مہابھارت کی جنگ کے دوران، بھگوان کرشن نے ارجن سے کہا تھا – ’نبھہ سپرشم دیپتم‘ ، یعنی فخر کے ساتھ آسمان کو چھونا۔ یہ ہندوستانی فضائیہ کا نعرہ بھی ہے۔ ماں بھارتی کی خدمت میں مصروف کئی زندگیاں ہر روز فخر کے ساتھ آسمان کی ان بلندیوں کو چھوتی ہیں، ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ گروپ کیپٹن ورون سنگھ کی زندگی ایسی ہی تھی۔ ورون سنگھ ، اس ہیلی کاپٹر کو اڑا رہے تھے ، جو اس ماہ تمل ناڈو میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں، ہم نے ملک کے پہلے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت اور ان کی اہلیہ سمیت کئی بہادروں کو کھو دیا۔ ورون سنگھ بھی کئی دن تک موت کے ساتھ بہادری سے لڑے لیکن پھر وہ بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جب ورون اسپتال میں تھے، میں نے سوشل میڈیا پر کچھ ایسا دیکھا ، جو میرے دل کو چھو گیا۔ انہیں اس سال اگست میں شوریہ چکر سے نوازا گیا تھا۔ اس اعزاز کے بعد ، انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کو خط لکھا تھا ۔ اس خط کو پڑھ کر میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ، وہ جڑوں کو سیراب کرنا نہیں بھولے۔ دوسرا یہ کہ جب ان کے پاس جشن منانے کا وقت تھا تو انہوں نے آنے والی نسلوں کی فکر کی۔ وہ چاہتے تھے کہ جس اسکول میں وہ پڑھے تھے ، وہاں کے طلباء کی زندگی بھی ایک جشن کی طرح بنیں ۔ ورون سنگھ نے اپنے خط میں اپنی بہادری کو بیان نہیں کیا بلکہ اپنی ناکامیوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ، انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو قابلیت میں تبدیل کیا۔ اس خط میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے -
“ It is ok to be mediocre. Not everyone will excel at school and not everyone will be able to score in the 90s. If you do, it is an amazing achievement and must be applauded. However, if you don't, do not think that you are meant to be mediocre. You may be mediocre in school but it is by no means a measure of things to come in life. Find your calling - it could be art, music, graphic design, literature, etc. Whatever you work towards, be dedicated, do your best. Never go to bed, thinking, I could have put-in more efforts.
دوستو، اوسط سے غیر معمولی بننے کا ، انہوں نے ، جو منتر دیا ہے ، وہ بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ اس خط میں ورون سنگھ نے لکھا ہے۔
“Never lose hope. Never think that you cannot be good at what you want to be. It will not come easy, it will take sacrifice of time and comfort. I was mediocre, and today, I have reached difficult milestones in my career. Do not think that 12th board marks decide what you are capable of achieving in life. Believe in yourself and work towards it."
ورون نے لکھا کہ اگر وہ ایک طالب علم کو بھی ترغیب دے سکے تو یہ بہت ہوگا لیکن، آج میں کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے پوری قوم کو ترغیب دی ہے۔ ان کا خط بھلے ہی صرف طالب علموں کے نام ہے لیکن انہوں نے ہمارے پورے معاشرے کو پیغام دیا ہے ۔
دوستو، میں ہر سال امتحانات کے موقع پر طلبا کے ساتھ پریکشا پر چرچا کرتا ہوں ۔ اس سال بھی میں امتحانات سے پہلے طلبا سے بات کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ اس پروگرام کے لئے رجسٹریشن بھی دو دن بعد MyGov.in پر 28 دسمبر سے شروع ہونے والے ہے۔ یہ رجسٹریشن 28 دسمبر سے 20 جنوری تک جاری رہے گا۔ اس کے لئے 9ویں سے 12ویں جماعت کے طلبا، اساتذہ اور والدین کے لئے آن لائن مقابلہ بھی منعقد کیا جائے گا۔ میں چاہوں گا کہ آپ سب اس میں حصہ لیں۔ آپ سے ملنے کا موقع ملے گا۔ ہم ایک ساتھ مل کر امتحان، کیریئر، کامیابی اور طالب علم کی زندگی سے متعلق بہت سے پہلوؤں پر غور و فکر کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں، اب میں آپ کو ایک ایسی بات بتانے جا رہا ہوں ، جو بہت دور، سرحد پار سے آئی ہے۔ اس سے آپ کو خوشی بھی ہو گی اور حیرانی بھی ہو گی:
(Instrumental + Vocal (VandeMatram)
वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम्
सुजलां सुफलां मलयजशीतलाम्
शस्यशामलां मातरम् । वन्दे मातरम्
शुभ्रज्योत्स्नापुलकितयामिनीं
फुल्लकुसुमितद्रुमदलशोभिनीं
सुहासिनीं सुमधुर भाषिणीं
सुखदां वरदां मातरम् ।। १ ।।
वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम् ।
مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو یہ سن کر بہت اچھا لگا ہو گا ، فخر محسوس ہوا ہوگا ۔ وندے ماترم میں ، جو بھی جذبہ چھپا ہوا ہے ، وہ ہمیں فخر اور جوش سے بھر دیتا ہے ۔
ساتھیو ، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ خوبصورت ویڈیو کہاں کی ہے، کس ملک سے آئی ہے؟ جواب آپ کی حیرت میں اضافہ کر دے گا۔ وندے ماترم پیش کرنے والے یہ طلبا یونان سے ہیں۔ وہاں وہ الیا کے ہائی اسکول میں پڑھ ر ہے ہیں ۔ انہوں نے ، جس خوبصورتی اور جذبے کے ساتھ ’وندے ماترم‘ گایا ہے ، وہ حیرت انگیز اور قابل تعریف ہے۔ اس طرح کی کوششیں دونوں ملکوں کے لوگوں کو قریب لاتی ہیں۔ میں یونان کے ، ان طلباء اور طالبات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران کی گئی ، ان کی کوشش کی ستائش کرتا ہوں۔
ساتھیو ، میں لکھنؤ کے رہنے والے نیلیش جی کی ایک پوسٹ پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ نیلیش جی نے لکھنؤ میں منعقد ہونے والے انوکھے ڈرون شو کی بہت تعریف کی ہے۔ یہ ڈرون شو لکھنؤ کے ریذیڈنسی علاقے میں منعقد کیا گیا تھا۔ 1857 ء کی پہلی جدوجہد آزادی کی شہادت آج بھی ریذیڈنسی کی دیواروں پر نظر آتی ہے۔ ریزیڈنسی میں منعقدہ ڈرون شو میں ہندوستانی جدوجہد آزادی کے مختلف پہلوؤں کو زندہ کیا گیا۔ ’چوری چورا آندولن‘ ہو، ’کاکوری ٹرین‘ کا واقعہ ہو یا نیتا جی سبھاش کی بے مثال ہمت اور بہادری، اس ڈرون شو نے سب کا دل جیت لیا۔ اسی طرح آپ اپنے شہروں، دیہاتوں کی تحریک آزادی سے متعلق منفرد پہلوؤں کو بھی لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی کی بھی مدد لے سکتے ہیں ۔ آزادی کا امرت مہوتسو ہمیں جدوجہد آزادی کی یادوں کو جینے کا موقع فراہم کرتا ہے، ہمیں اس کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا تہوار ہے، ملک کے لئے کچھ کرنے کے عزم کو ظاہر کرنے کا ایک متاثر کن موقع ہے۔ آئیے ، ہم جدوجہد آزادی کی عظیم ہستیوں سے ترغیب پاوتے رہیں اور ملک کے لئے اپنی کوششوں کو مضبوط کرتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا ہندوستان بہت سی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہے، جن کی تخلیقی صلاحیت دوسروں کو کچھ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایسے ہی ایک شخص تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کوریلا وٹھلاچاریہ ہیں۔ ان کی عمر 84 سال ہے۔ وٹھلاچاریہ جی اس کی ایک مثال ہیں کہ جب آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کی بات آتی ہے تو عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ دوستو، وٹھلاچاریہ جی کی بچپن سے ہی خواہش تھی کہ وہ ایک بڑی لائبریری کھولیں۔ ملک تب غلام تھا، کچھ حالات ایسے تھے کہ بچپن کا خواب پھر خواب ہی رہ گیا۔ وقت کے ساتھ، وٹھلاچاریہ ایک لیکچرر بن گئے، تیلگو زبان کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس میں بہت سی کمپوزیشنز تخلیق کیں۔ 6-7 سال پہلے وہ ایک بار پھر اپنا خواب پورا کرنے میں لگ گئے ۔ انہوں نے لائبریری کا آغاز اپنی کتابوں سے کیا۔ اپنی زندگی کی کمائی اس میں لگا دی۔ آہستہ آہستہ لوگ اس میں شامل ہو کر اپنا تعاون کرنے لگے۔ یدادری - بھوناگیری ضلع کے رمناّ پیٹ منڈل کی ، اس لائبریری میں تقریباً 2 لاکھ کتابیں ہیں۔ وٹھلاچاریہ جی کہتے ہیں کہ پڑھائی کے سلسلے میں انہیں جن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ، وہ کسی اور کو نہ کرنا پڑے ۔ انہیں آج یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ بڑی تعداد میں طلباء کو ، اِس کا فائدہ مل رہا ہے ۔ ان کی کوششوں سے ترغیب پاکر کئی دوسرے گاؤوں کے لوگ بھی لائبریری بنانے میں لگ گئے ہیں ۔
ساتھیو ، کتابیں نہ صرف علم دیتی ہیں بلکہ شخصیت کو سنوارتی ہیں اور زندگی کی تشکیل بھی کرتی ہیں۔ کتابیں پڑھنے کا شوق ایک عجیب سی تسکین دیتا ہے۔ آج کل میں دیکھتا ہوں کہ لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے اس سال اتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ اب میں ان کتابوں کو مزید پڑھنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے، جس میں مزید اضافہ ہونا چاہیئے۔ میں ’من کی بات’ کے سننے والوں سے بھی کہوں گا کہ وہ ہمیں اس سال کی آپ کی پانچ کتابوں کے بارے میں بتائیں ، جو آپ کی پسندیدہ رہی ہیں۔ اس طرح آپ دوسرے قارئین کو بھی 2022 ء میں اچھی کتابوں کا انتخاب کرنے میں مدد کر سکیں گے۔ ایک ایسے وقت میں ، جب ہمارا اسکرین ٹائم بڑھ رہا ہے، کتابوں کا مطالعہ بھی زیادہ سے زیادہ مقبول بنیں ، اس کے لئے بھی ہمیں مل کر کوششیں کرنی ہوں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، حال ہی میں میرا دھیان ایک اور دلچسپ کوشش کی طرف گیا ہے۔ یہ کوشش ہمارے قدیم گرنتھوں اور تہذیبی اقدار کو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبول بنانے کی ہے ۔ پونے میں بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک مرکز ہے۔ اس ادارے نے دوسرے ممالک کے لوگوں کو مہابھارت کی اہمیت سے واقف کرانے کے لئے ایک آن لائن کورس شروع کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اگرچہ یہ کورس ابھی ابھی شروع ہوا ہے لیکن اس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ، اسے تیار کرنے کا آغاز 100 سال سے بھی پہلے ہوا تھا ، جب ادارے نے اس سے جڑا کورس شروع کیا تو اسے زبردست رد عمل حاصل ہوا ۔ میں اس شاندار پہل کی بات اس لئے کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہماری روایات کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح جدید انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سات سمندر پار بیٹھے لوگوں تک ، اس کا فائدہ کیسے پہنچے ، اس کے لئے بھی اننوویٹیو طریقے اپنائے جا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج پوری دنیا میں ہندوستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ مختلف ممالک کے لوگ ہماری ثقافت کے بارے میں نہ صرف جاننے کے لئے بے تاب ہیں بلکہ اسے بڑھانے میں مدد بھی کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت سربیا کے اسکالر ڈاکٹر مومیر نکیچ ہیں ( سربائی دانشور ڈاکٹر مومیر نیکیچی )۔ انہوں نے ایک دو لسانی سنسکرت-سربیائی ڈکشنری تیار کی ہے۔ اس ڈکشنری میں شامل سنسکرت کے 70 ہزار سے زیادہ الفاظ کا سربیائی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ڈاکٹر نکیچ نے 70 سال کی عمر میں سنسکرت زبان سیکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں مہاتما گاندھی کے مضامین پڑھ کر تحریک ملی۔ اسی طرح کی ایک مثال منگولیا کے 93 سالہ پروفیسر جے گینڈوارم بھی ہے۔ پچھلی 4 دہائیوں میں، انہوں نے تقریباً 40 قدیم تحریروں، نظموں اور ہندوستان کے کاموں کا منگول زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ملک میں بھی بہت سے لوگ اس قسم کے جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مجھے گوا کے ساگر مولے جی کی کوششوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے، جو سینکڑوں سال پرانی ’کاوی‘ پینٹنگ کو معدوم ہونے سے بچانے میں مصروف ہیں۔ ’کاوی‘ پینٹنگ اپنے آپ میں ہندوستان کی قدیم تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ دراصل، ’ کاویہ‘ کا مطلب سرخ مٹی ہے۔ قدیم زمانے میں ، اس فن میں سرخ مٹی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ گوا میں پرتگالی دور حکومت میں ، وہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں نے دوسری ریاستوں کے لوگوں کو ، اس شاندار پینٹنگ سے متعارف کرایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پینٹنگ ختم ہوتی جا رہی تھی لیکن ساگر مولے جی نے ، اس فن کو نئی زندگی دی ہے۔ ان کی کاوشوں کو بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ساتھیو ، ایک چھوٹی سی کوشش، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا قدم بھی ہمارے شاندار فنون کے تحفظ میں بہت بڑا تعاون کر سکتا ہے۔ اگر ہمارے ملک کے لوگ عزم کر لیں تو ملک بھر میں اپنے قدیم فنون کو سجانے، سنوارنے اور بچانے کا جذبہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ میں نے یہاں صرف چند کوششوں کے بارے میں بات کی ہے۔ ملک بھر میں ایسی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آپ ، ان کی معلومات نمو ایپ کے ذریعے مجھ تک ضرور پہنچائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، اروناچل پردیش کے لوگ ایک سال سے ایک انوکھی مہم چلا رہے ہیں اور اسے’’اروناچل پردیش ایئرگن سرینڈر مہم ‘ کا نام دیا ہے۔ اس مہم میں، لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی ایئرگنز حوالے کر رہے ہیں ۔ جانتے ہیں کیوں؟ تاکہ اروناچل پردیش میں پرندوں کے اندھا دھند شکار کو روکا جاسکے۔ دوستو، اروناچل پردیش پرندوں کی 500 سے زیادہ اقسام کا گھر ہے۔ ان میں کچھ دیسی پرندوں کی اقسام بھی شامل ہیں، جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں لیکن آہستہ آہستہ اب جنگلوں میں پرندوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔ اب اس کو سدھارنے کے لئے یہ ایئرگن سرینڈر مہم چلائی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں، پہاڑ سے لے کر میدانوں تک، ایک کمیونٹی سے دوسری کمیونٹی تک، پوری ریاست کے لوگوں نے اسے کھلے دل سے اپنایا ہے۔ اروناچل کے لوگوں نے اپنی مرضی سے 1600 سے زیادہ ایئرگنس سپرد کر دی ہیں۔ میں اس کے لئے اروناچل کے لوگوں کی تعریف اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کی طرف سے 2022 ء سے متعلق بہت سے پیغامات اور مشورے آئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، زیادہ تر لوگوں کے پیغامات میں ایک موضوع ہوتا ہے۔ یہ ہے صفائی اور صاف بھارت کا۔ صفائی کا یہ عزم نظم و ضبط، بیداری اور لگن سے ہی پورا ہو گا۔ اس کی ایک جھلک این سی سی کیڈٹس کے ذریعہ شروع کی گئی پونیت ساگر ابھیان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس مہم میں 30 ہزار سے زیادہ این سی سی کیڈٹس نے حصہ لیا۔ این سی سی کے ان کیڈٹس نے ساحلوں کی صفائی کی، وہاں سے پلاسٹک کا کچرا ہٹایا اور اسے ری سائیکلنگ کے لئے جمع کیا۔ ہمارے ساحل، ہمارے پہاڑ تبھی گھومنے کے قابل ہوتے ہیں ، جب وہاں صفائی ستھرائی ہو ۔ بہت سے لوگ زندگی بھر کسی نہ کسی جگہ جانے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن جب وہ وہاں جاتے ہیں تو جانے انجانے کچرا بھی پھیلا آتے ہیں ۔ یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ جو جگہ ہمیں اتنی خوشی دیتی ہے ، ہم اُسے گندا نہ کریں ۔
ساتھیو ، مجھے صاف واٹر نام کے ایک اسٹارٹ اپ کے بارے میں معلوم ہوا ہے ، جسے کچھ نوجوانوں نے شروع کیا ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز کی مدد سے لوگوں کو اپنے علاقے میں پانی کی صفائی اور معیار سے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔ یہ صرف صفائی کا اگلا مرحلہ ہے۔ لوگوں کے صاف اور صحت مند مستقبل کے لئے اس سٹارٹ اپ کی اہمیت کے پیش نظر اسے گلوبل ایوارڈ بھی ملا ہے۔
ساتھیو ، ’ ایک قدم صفائی کی جانب ‘ ، اس کوشش میں ادارے ہوں یا حکومت، سب کا اہم کردار ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ پہلے سرکاری دفاتر میں کتنی پرانی فائلوں اور کاغذات کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ جب سے حکومت نے پرانے طریقوں کو تبدیل کرنا شروع کیا ہے، یہ فائلیں اور کاغذ کے ڈھیر ڈیجیٹل ہو کر کمپیوٹر کے فولڈر میں محفوظ ہو رہے ہیں۔ وزارتوں اور محکموں میں پرانے اور زیر التوا مواد کو ہٹانے کے لئے خصوصی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم سے کچھ بہت دلچسپ چیزین سامنے آئی ہیں ۔ محکمہ ڈاک میں ، جب یہ صفائی مہم شروع کی گئی تو وہاں کا کباڑ خانہ بالکل خالی ہوگیا۔ اب یہ کباڑ خانہ صحن اور کیفے ٹیریا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک اور کباڑ خانے کو دو پہیہ گاڑیوں کے لئے پارکنگ کی جگہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح، وزارت ماحولیات نے اپنے خالی کباڑ خانے کو فلاحی مرکز میں تبدیل کر دیا۔ شہری امور کی وزارت نے صاف ستھرا اے ٹی ایم بھی لگایا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کچرا دیں اور نقد رقم لے کر جائیں ۔ شہری ہوا بازی کی وزارت کے محکموں نے خشک پتوں اور درختوں سے گرنے والے فضلے سے نامیاتی کھاد بنانا شروع کیا ہے۔ یہ محکمہ بیکار کاغذ سے اسٹیشنری بنانے کا کام بھی کر رہا ہے۔ ہمارے سرکاری محکمے بھی صفائی جیسے موضوع پر اتنے جدت پسند ہو سکتے ہیں، چند سال پہلے تک کوئی اس پر یقین بھی نہیں کرتا تھا لیکن آج یہ نظام کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ملک کی نئی سوچ ہے ، جس کی قیادت تمام اہل وطن مل کر کر رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ’من کی بات‘ میں ، ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ ہر بار کی طرح ایک ماہ بعد پھر ملیں گے لیکن 2022 ء میں۔ ہر نئی شروعات آپ کی صلاحیت کو پہچاننے کا موقع بھی لاتی ہے۔ اہداف ، جن کا ہم نے پہلے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آج ملک ان کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے یہاں کہاوت ہے -
क्षणश: कणशश्चैव, विद्याम् अर्थं च साधयेत्।
क्षणे नष्टे कुतो विद्या, कणे नष्टे कुतो धनम्।|
یعنی جب ہم علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں، کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر ایک لمحے سے استفادہ کرنا چاہیئے اور جب ہمیں پیسہ کمانا ہے یعنی ترقی کرنی ہے تو پھر ہر ذرہ یعنی ہر وسائل کا صحیح استعمال کرنا چاہیئے کیونکہ لمحہ بہ لمحہ فنا ہوجانے کے ساتھ علم اور معلومات ختم ہوجاتی ہے اور ذرہ ذرہ فنا ہونے سے دولت اور ترقی کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز ہم تمام ہم وطنوں کے لئے ایک ترغیب ہے۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے، نئی ایجادات کرنی ہیں، نئے اہداف حاصل کرنے ہیں، اس لئے ہمیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کام کرنا ہو گا ۔ ہمیں ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، اس لئے ہمیں اپنے ہر وسائل کا بھرپور استعمال کرنا ہو گا ۔ ایک طرح سے یہ آتم نربھر بھارت کا منتر بھی ہے کیونکہ جب ہم اپنے وسائل کا صحیح استعمال کریں گے، ہم انہیں ضائع نہیں ہونے دیں گے، تبھی تو ہم لوکل کی طاقت پہچانیں گے، تبھی ملک خود کفیل ہوگا۔ اس لئے ، آئیے ہم اپنا عہد دوہرائیں کہ بڑا سوچیں گے ، بڑے خواب دیکھیں گے اور انہیں پورا کرنے کے لئے جی جان لگا دیں گے اور ہمارے خواب صرف ہم تک ہی محدود نہیں ہوں گے ۔ ہمارے خواب ایسے ہوں گے ، جن سے ہمارے معاشرے اور ملک کی ترقی جڑی ہو ، ہماری ترقی سے ملک کی ترقی کے راستے کھلیں اور اس کے لئے ہمیں آج ہی سے کام کرنا ہو گا ۔ بغیر ایک لمحہ گنوائیں ، بغیر ایک ذرہ گنوائیں ۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ اسی عہد کے ساتھ آنے والے سال میں ملک آگے بڑھے گا اور 2022 ء ایک نئے بھارت کی تعمیر کا سنہرا باب بنے گا ۔ اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کو 2022 ء کی ڈھیر ساری مبارکباد ۔ بہت بہت شکریہ ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج ہم ایک بار پھر ’من کی بات‘ کے لیے ایک ساتھ جڑ رہے ہیں۔ دو دن بعد دسمبر کا مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے اور دسمبر آتے ہی نفسیاتی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ چلئے بھائی سال پورا ہو گیا ہے۔ یہ سال کا آخری مہینہ ہے اور نئے سال کے لیے تانے بانے بننا شروع کر دیتے ہیں۔اسی مہینے نیوی ڈے آرمڈ فورسز فلیگ ڈے بھی ملک مناتا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ 16 دسمبر کو1971 کی جنگ کی گولڈن جوبلی بھی ملک منا رہا ہے۔ میں ان سبھی مواقع پر ملک کی سیکورٹی فورسز یاد کرتا ہوں، اپنے بہادروں کو یاد کرتا ہوں۔ اور خاص طور پر ان بہادر ماؤں کو یاد کرتا ہوں جنہوں نے ایسے بہادروں کو جنم دیا۔ ہمیشہ کی طرح، اس بار بھی مجھے نمو ایپ پر، مائی جی او وی پر آپ کے بہت سارے مشورے بھی ملے ہیں۔ آپ لوگوں نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ مانتے ہوئے اپنی زندگی کے سکھ دکھ بھی ساجھا کئے ہیں۔ ان میں بہت سارے نوجوان بھی ہیں، طلبا اور طالبات بھی ہیں۔ مجھے واقعی بہت اچھا لگتا ہے کہ’من کی بات‘ کا ہمارا یہ خاندان مسلسل بڑا تو ہوہی رہا ہے،من سے بھی جڑ رہا ہے اور مقصد سے بھی جڑ رہا ہے اور ہمارےگہرے ہوتے رشتے، ہمارے اندر، مسلسل مثبت نظریات کا ایک سلسلہ پیدا کررہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے سیتا پور کے اوجسوی نے لکھا ہے کہ امرت مہوتسو سے متعلق تذکرے انہیں بہت پسند آرہے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ’من کی بات‘ سنتے ہیں اور جنگ آزادی کے بارے کافی کچھ جاننے سیکھنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ ساتھیو، امرت مہوتسو سیکھنے کے ساتھ ہی ہمیں ملک کے لیے کچھ کرنے کی بھی تحریک دیتا ہے اور اب تو ملک بھر میں چاہے عام لوگ ہوں یا حکومتیں، پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک، امرت مہوتسو کی گونج ہے اور اس لگاتار اس مہوتسو سے متعلق پروگرامون کا سلسلہ چل رہا ہے، ایسا ہی ایک دلچسپ پروگرام گزشتہ دنوں دہلی میں ہوا۔’’آزادی کی کہانی - بچوں کی زبانی‘‘پروگرام میں بچوں نے جنگی آزادی سے متعلق کہانیاں پورے جذبے کے ساتھ پیش کیں۔ خاص بات یہ بھی رہی کہ اس میں بھارت کے ساتھ ہی نیپال، ماریشس، تنزانیہ، نیوزی لینڈ اور فجی کے طلبا بھی شامل ہوئے۔ ہمارے ملک کا مہارتن او این جی سی۔ او این جی سی بھی کچھ الگ طریقے سے امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ او این جی سی ان دنوں آئل فیلڈز اپنے طلباء کے لیے میں مطالعاتی دوروں کا اہتمام کر رہا ہے۔ ان دوروں میں، نوجوانوں کو او این جی سی کے آئل فیلڈ آپریشنز کی معلومات فراہم کرائی جارہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے ابھرتے ہوئے انجینئرز ملک کی تعمیر کی کوششوں میں پورے جوش اور جذبے کے ساتھ ہاتھ بٹا سکیں۔
ساتھیو، آزادی میں اپنی قبائلی برادری کے تعاون کو دیکھتے ہوئے ملک نے جن جاتیہ گورو ہفتہ بھی منایا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس سلسلے میں پروگرام بھی منعقد ہوئے۔ جزائر انڈمان اور نکوبار میں، جاروا اور اونگے، ایسی قبائلی برادریوں کے لوگوں نے اپنی ثقافت کا شاندار مظاہرہ کیا۔ ایک کمال کا کام ہماچل پردیش میں اونا کے منی ایچر رائٹر رام کمار جوشی نے بھی کیا ہے، انہوں نے ڈاک ٹکٹوں پر ہی یعنی تنے چھوٹی ڈاکٹ ٹکٹوں پر نیتا جی سبھاش چندر بوس اور سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی کے منفرد اسکیچ بنائے ۔ ہندی میں لکھے ’رام‘ لفظ پر انہوں نے اسکیچ تیار کئے جس میں مختصراً دونوں عظیم شخصیتوں کی سوانح عمری کو بھی درج کی ہے۔ مدھیہ پردیش کے کٹنی کے کچھ ساتھیوں نے بھی ایک یادگار داستان گوئی پروگرام کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں رانی درگاوتی کے ناقابل تسخیر حوصلے اور قربانی کی یادیں تازہ کی گئی ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام کاشی میں ہوا۔ گوسوامی تلسی داس، سنت کبیر، سنت رے داس، بھارتندو ہریش چندر، منشی پریم چند اور جے شنکر پرساد جیسی عظیم ہستیوں کے اعزاز میں تین روزہ مہوتس کا اہتمام کیا گیا۔ الگ الگ ادوار میں ان سبھی کا ملک میں عوامی بیداری پھیلانے میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ں کہ ’من کی بات‘ کی گزشتہ قسط کے دوران میں نے تین مقابلوں کا ذکر کیا تھا، کمپٹیشن کی بات کہی تھی۔ ایک حب الوطنی کے گیت لکھنا، حب الوطنی سے جڑے، تحریک آزادی سے متعلق واقعات کی رنگولیاں بنانا اور ہمارے بچوں کے ذہنوں میں عظیم الشان بھارت کے خواب جگانے والی لوری لکھی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ان مقابلوں کے لیے بھی آپ ضرور انٹری بھی بھیج چکے ہوں گے، اسکیم بھی تیار کرچکے ہوں گے اور اپنے ساتھیوں سے ذکر کرچکے ہوں گے۔ مجھے امید ہے بڑھ چڑک کرکے بھارت کے ہر کونے اس پروگرام کو آپ ضرور آگے بڑھائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس تذکرے سے اب میں آپ کو سیدھے ورنداون لے کر چلتا ہوں۔ ورنداون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کی محبت کا براہ راست مظہر ہے۔ ہمارے سنتوں نے بھی کہا ہے کہ
यह आसा धरि चित्त में, यह आसा धरि चित्त में,
कहत जथा मति मोर।
वृंदावन सुख रंग कौ, वृंदावन सुख रंग कौ,
काहु न पायौ और।
یعنی ورنداون کی شان، ہم سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بیان ضرور کرتے ہیں، لیکن ورنداون کی سکھ ہے، یہاں کا رس ہے، اس کاآخری سراکوئی نہیں پا سکتا، وہ تو لامحدود ہے۔ تبھی تو ورنداون دنیا بھر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر تا رہا ہے۔ اس کی چھاپ آپ کو دنیا کے کونے کونے میں مل جائے گی۔
مغربی آسٹریلیا کا ایک شہر ہے پرتھ۔ کرکٹ کے شائقین اس جگہ سے بخوبی واقف ہوں گے، کیونکہ پرتھ میں اکثر کرکٹ کے میچ ہوتے رہتے ہیں۔ پرتھ میں ایک ’سیکرڈ انڈیا گیلری‘ کے نام سے ایک آرٹ گیلری بھی ہے۔ یہ گیلری سوان ویلی کے ایک خوبصورت علاقے میں بنائی گئی ہے اور یہ آسٹریلیا کی رہنے والے جگت تارینی داسی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جگت تارینی جی ویسے تو ہیں آسٹریلیا کی، جنم بھی وہیں ہوا، پرورش بھی وہیں ہوئی، لیکن 13 سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ورنداون میں آکر انہوں نے گزارا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ آسٹریلیا لوٹ تو گئیں، اپنے ملک واپس تو گئیں، لیکن وہ ورنداون کو کبھی بھول نہیں پائی۔ اس لئے انہوں نے ورنداون اور اس کے روحانی اثر سے جڑنے کے لیے، آسٹریلیا میں ہی ورنداون کھڑا کردیا۔ اپنے فن کو ہی ذریعہ بنا کر انہوں نے ایک حیرت انگیز ورنداون بنالیا۔ یہاں آنے والے لوگوں کو کئی طرح کے فن پارے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ انہیں بھارت کے سب سے زیادہ معروف مقدس مقامات ورنداون، نوادیپ اور جگن ناتھ پوری کی روایت اور ثقافت کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں پر بھگوان کرشن کی زندگی سے متعلق بہت سے فن پارے بھی آویزاں ہیں۔ ایک فن پارہ ایسا بھی ہے، جس میں بھگوان کرشنا نے گووردھن پہاڑ کو اپنی چھوٹی انگلی پر اٹھا رکھا ہے، جس کے نیچے ورنداون کے لوگوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ جگت تارینی جی کی یہ شاندار کوشش، واقعی ہمیں کرشن بھکتی کی طاقت کا درشن کراتی ہے۔ میں انہیں اس کوشش کے لیے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی میں آسٹریلیا کے پرتھ میں واقع ورنداون کی بات کر رہا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے کہ آسٹریلیا کا ایک رشتہ ہمارے بندیل کھنڈ کے جھانسی سے بھی ہے۔ درحقیقت جھانسی کی رانی لکشمی جب بائی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف قانونی لڑائی لڑ رہی تھیں تو ان کے وکیل جان لینگ تھے۔ جان لینگ کا تعلق اصل میں آسٹریلیا سے تھا۔ بھارت میں رہ کر انہوں نے رانی لکشمی بائی کا مقدمہ لڑا تھا۔ ہماری جنگ آزادی میں جھانسی اور بندیل کھنڈ کا کتنا بڑا تعاون ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ یہاں رانی لکشمی بائی اور جھلکاری بائی جیسی بہادر خواتین بھی ہوئی ہیں اور میجر دھیان چند جیسے کھیل رتن بھی اس خطے نے ملک کو دیئے ہیں۔
ساتھیو، بہادری صرف میدان جنگ میں ہی دکھائی جائے ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ بہادری جب ایک عہد بن جاتی ہے اور پھیلتی ہے اور ہر میدان میں بہت سے کام ہونے لگتے ہیں۔ مجھے ایسی ہی بہادری کے بارے میں محترمہ جیوتسنا نے خط لکھ کر بتایا ہے۔ جالون میں ایک روایتی ندی تھی - نون ندی۔ نون، یہاں کے کسانوں کے لیے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ نون ندی معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی، جو تھوڑا بہت وجود اس ندی کا بچا تھا، اس میں وہ نالے میں تبدیل ہو رہی تھی، اس سے کسانوں کے لیے آبپاشی کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ جالون کے لوگوں نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اسی سال مارچ میں اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ہزاروں گاؤں والے اور مقامی لوگ اپنی مرضی سے اس مہم سے جڑے۔ یہاں کی پنچایتوں نے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا اور آج اتنی کم مدت میں اور بہت کم لاگت میں یہ ندی پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔ بہت سے کسانوں کو اس سے فائدہ ہورہا ہے۔ جنگ کے میدان سے الگ بہادری کی یہ مثال ہمارے ہم وطنوں کی قوتِ ارادی کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر ہم پرعزم ہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں اور تبھی تو میں کہتا ہوں کہ سب کا پریاس۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہم قدرت کا تحفظ کرتے ہیں تو بدلے میں قدرت بھی ہمیں تحفظ اور حفاظت فراہم کرتی ہے۔اس بات کو ہم اپنی ذاتی زندگی میں بھی محسوس کرتے ہیں اور ایسی ہی ایک مثال تمل ناڈو کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر پیش کی ہے۔ یہ مثال ہے تمل ناڈو کے توتو کوڑی ضلع کی۔ ہم جانتے ہیں کہ ساحلی علاقے بعض اوقات زمین کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ توتوکوڑی میں بھی کئی چھوٹے جزیرے اور ٹاپو ایسے تھے جن کے سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ یہاں کے لوگوں اور ماہرین نے اس قدرتی آفت سے بچنے کے لئے قدرتی طریقہ ہی تلاش کیا۔ یہ لوگ اب ان جزائر پر پالمیرا کے درخت لگا رہے ہیں۔ یہ درخت سائیکلوں اور طوفانوں میں بھی کھڑے رہتے ہیں اور زمین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان اب اس علاقے کو بچانے کا ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔
ساتھیو، قدرت ہمارے لیے خطرہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس کا توازن بگاڑ تے ہیں یا اس کے تقدست کو تباہ کرتے ہیں۔ قدرت، ماں کی طرح ہماری پرورش بھی کرتی ہے اور ہماری دنیا میں نئے نئے رنگ بھی بھر تی ہے۔
ابھی میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ میگھالیہ میں ایک فلائنگ بوٹ کی تصویر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ پہلی ہی نظر یہ تصویر ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ آپ میں سے بھی زیادہ تر لوگوں نے اسے آن لائن ضرور دیکھا ہوگا۔ ہوا میں تیرتی اس کشتی کو جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ندی کے پانی میں چل رہی ہے۔ ندی کا پانی اتنا صاف ہے کہ ہمیں اس کی تلہٹی نظر آتی ہے اور کشتی ہوا میں تیرتی سے لگ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ریاستیں ہیں، کئی علاقے ہیں جہاں لوگوں نے اپنی قدرتی وراثت کے رنگوں کو محفوظ رکھا ہے۔ ان لوگوں نے قدرت کے ساتھ مل کر رہنے کے طرز زندگی کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ یہ ہم سب کو بھی تحریک دیتی ہے۔ ہمارے اردگرد جتنے بھی قدرتی وسائل ہیں، ہمیں ان کو بچانا چاہیے، انھیں پھر سے ان کی اصلی شکل میں لانا چاہئیے۔ اسی میں ہم سب کا مفاد ہے، دنیا کا مفاد ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، حکومت جب اسکیمیں تیار کرتی ہے، بجٹ خرچ کرتی ہے،وقت پر پروجیکٹوں کو مکمل کرتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ کام کر رہی ہے۔ لیکن حکومت کے متعدد کاموں میں ترقی کی متعدد اسکیموں کے درمیان، انسانی احساسات سے جڑی باتیں ہمیشہ ایک الگ ہی خوشی دیتی ہیں۔ حکومت کی کوششوں سے حکومت کی اسکیموں سے کیسے کوئی زندگی بدلی، اس بدلی ہوئی زندگی کا تجربہ کیا ہے؟ جب یہ سنتے ہیں تو ہم بھی احساسات سے پر ہوجاتے ہیں۔ یہ من کو اطمینان بھی دیتا ہے اور اس اسکیم کو لوگوں تک پہنچانے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ ایک طرح سے یہ ’سوانتہ: سکھائے‘ ہی تو ہے اور اس لئے ’من کی بات‘ ہمارے ساتھ دو ایسے ہی ساتھی بھی جڑ رہے ہیں جو اپنے حوصلوں سے ایک نئی زندگی جیت کر آئے ہیں۔ انہوں نے آیوشمان بھارت اسکیم کی مدد سے اپنا علاج کرایا اور ایک نئی زندگی شروع کی ہے۔ ہمارے پہلے ساتھی ہیں راجیش کمار پرجاپتی ہیں، جو عارضہ قلب سے پریشان تھے۔
تو آئیے راجیش جی سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم : راجیش جی نمستے۔
راجیش پرجاپتی : نمستے سر نمستے۔
وزیر اعظم : راجیش جی آپ کو کیا بیماری تھی؟ پھر کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے، مجھے ذرا سمجھایئے، مقامی ڈاکٹر نے کہا ہو گا، پھر کسی اور ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے؟ پھر آپ فیصلہ نہیں کرتے ہوں گے یا کرتے ہوں گے ،کیا کیا ہوتا تھا؟
راجیش پرجاپتی: جی مجھے دل کا عارضہ لاھق ہوگیا تھا سر، میرے سینے میں جلن ہوتی تھی،سر، پھر میں نے ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر نےپہلے توو بتایا کہ ہوسکتا بیٹا تمہارے ایسڈ ہوگی، تو میں نے کافی دن تک ایسڈ کی دوائی کرائی، اس سے جب مجھے فائدہ نہیں ہوا تو پھر ڈاکٹر کپور کو دکھایا، تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تمہاری علامات ہیں اس کے بارے میں انجیوگرافی سے پتہ چلے گا، پھر اس نے ریفر کیا مجھے شری رام مورتی میں۔ پھر ملے ہم امریش اگروال جی سے، تو انہوں نے میری انجیوگرافی کری۔ پھر انہوں نے بتایا کہ بیٹا یہ تو تمہاری نس بلاکیج ہے تو ہم نے کہا کہ سر اس مین کتنا خرچ آئے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ کارڈ ہے آیوشمان والا، جو پی ایم جی نے بناکر دیا ۔ تو ہم نے کہا سر ہمارے پاس ہے۔ تو انہوں نے میرا وہ کارڈ لیا اور میرا سارا علاج اسی کارڈ سے ہوا ہے۔ سر اور جو آپ نے یہ بنایا ہے کارڈ ئی بہت ہی اچھے طریقے سے اور ہم غریب آدمیوں کے لیے بہت بڑی سہولت ہے اس سے۔ اور آپ کا کیسے میں شکریہ ادا کروں؟
وزیر اعظم : آپ کرتے کیا ہیں راجیش جی ؟
راجیش پرجاپتی : سر، اس وقت تو میں پرائیویٹ نوکری کرتا ہوں سر
وزیر اعظم : اور آپ کی عمر کتنی ہے؟
راجیش پرجاپتی: میری عمر 59 سال ہے۔ سر
وزیر اعظم : اتنی چھوٹی عمر میں آپ کو عارضہ قلب ہوگیا۔
راجیش پرجاپتی: ہاں جی سر کیا بتائیں اب۔
وزیر اعظم : آپ کے خاندان میں بھی والد کو والدہ کو یا ا س طرح کا عارضہ پہلے رہا ہے کیا؟
راجیش پرجاپتی: نہیں سر، کسی کو نہیں تھاسر، یہ پہلا ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے۔
وزیر اعظم : یہ آیوشمان کارڈ حکومت ہند یہ کارڈ دہتی ہے ،غریبوں کے لیے بہت بڑی اسکیم ہے، تو یہ آپ کو پتہ کیسے چلا ؟
راجیش پرجاپتی: سر یہ تو اتنی بڑی اسکیم ہے، غریب آدمی کو اس سےبہت فائدہ ملتا ہے اور اتنا خوش ہیں سر، ہم نے اسپتال میں دیکھا ہے کہ اس کارڈ سے کتنے لوگوں کو سہولت ملتی ہے جب ڈاکٹر سے کہتا ہے کارڈ میرے پاس ہے سر۔ تو ڈاکٹر کہا ہے ٹھیک ہے وہ کارڈ لے کر آیئے میں اسی کارڈ سے آپ کا ا علاج کردوں گا۔
وزیراعظم: اچھا کارڈ نہ ہوتا تو آپ کو کتنا خرچ بولا تھا ڈاکٹر نے ۔
راجیش پرجاپتی : ڈاکٹر نے کہا تھا بیٹا اس میں بہت سارا خرچ آئے گا۔ بیٹا اگر کارڈ نہیں ہوگا۔ تو میں نے کہا سر کار تو ہے میرے پاس تو انہوں نے کہا کہ فوراً آپ دکھائیے تو ہم نے فوراً دکھایا اسی کارڈ سے سارا علاج میرا کیا گیا، میرا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا، ساری دوائیں بھی اسی کارڈ سے نکالی گئی ہیں۔
وزیر اعظم: تو راجیش جی، آپ کو اب سکون ہے، طبیعت ٹھیک ہے۔
راجیش پرجاپتی: جی سر، آپ کا بہت بہت شکریہ سر، آپ کی عمر بھی اتنی لمبی ہو کہ ہمیشہ اقتدار میں ہی رہیں، اور ہمارے خاندان کے لوگ بھی آپ سے اتنا خوش ہیں، کیا کہیں آپ سے۔
وزیر اعظم: راجیش جی، آپ مجھے اقتدار میں رہنے کی نیک خواہشات مت دیجئے، میں آج بھی اقتدار میں نہیں ہوں اور مستقبل میں بھی اقتدار میں جانا نہیں چاہتا ہوں۔ میں تو صرف خدمت میں پہ رہنا چاہتا ہوں، میرے لیے یہ عہدہ، یہ وزیراعظم ساری چیزیں یہ اقتدار کے لیے ہے ہی نہیں بھائی، خدمت کے لیے ہے۔
راجیش پرجاپتی: خدمت ہی تو چاہیئے ہم لوگوں کو اور کیا؟
وزیر اعظم: دیکھئے غریبوں کے لیے یہ آیوشمان بھارت اسکیم یہ اپنے آپ میں ۔
راجیش پرجاپتی: جی سر بہت بڑھیا چیز بات ہے۔
وزیر اعظم: لیکن دیکھئے راجیش جی، آپ ہمارا ایک کام کیجئے، کریں گے؟
راجیش پرجاپتی: جی بالکل کریں گے سر۔
وزیراعظم: دیکھئے ہوتاکیا ہے کہ لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہیں ہوتا ہے، آپ ایک ذمہ داری نبھایئے ایسے جتنے غریب خاندان ہیں، آپ کے آس پاس، ان کو اپنی یہ کیسے آپ کو فائدہ ہوا، کیسے مدد ملی یہ بتایئے؟
راجیش پرجاپتی: بالکل بتائیں گے سر۔
وزیر اعظم: اور ان کو کہئے کہ وہ بھی ایسا کارڈ بنوالیں تاکہ خاندان میں پتہ نہیں کب کیا مصیبت آجائے اور آج غریب دوا کی وجہ سے پریشان رہے یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ اب پیسوں کی وجہ سے وہ دوا نہ لے اور بیماری کا علاج نہ کرے تو یہ بھی بڑی تشویش کی بات ہے اور غریب کو تو کیا ہوتا ہے جیسے آپ کو یہ دل کا عارضہ ہوا تو کتنے مہینے تک تو آپ کام ہی نہیں کرپائیں ہوں گے۔
راجیش پرجاپتی: ہم تودس قدم نہیں چل پاتے تھے، زینا نہیں چڑھ پاٹے تھے سر
وزیر اعظم: بس تو آپ راجیش جی، میرے ایک اچھے ساتھی بن کر جنتے غریبوں کو آپ یہ آیوشمان بھارت اسکیم کے بارے میں سمجھا سکتے ہیں، ویسے بیمار لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں، دیکھئے آپ کو بھی سکون ہوگا اور مجھے بہت خوشی ہوگی کہ چلئے کی ایک راجیش جی کی طبیعت تو ٹھیک ہوئی لیکن راجیش جی نے سینکڑوں لوگوں کی طبیعت ٹھیک کروادی، یہ آیوشمان بھارت اسکیم، یہ غریبوں کے لیے ہے، یہ متوسط طبقے کے لیے ہے، یہ عام خاندانوں کے لیے ہے، تو گھر گھر اس بات کو پہنچائیں گے آپ۔
راجیش پرجاپتی: بالکل پہنچائیں گے سر۔ ہم تو وہیں تین دن رکے نا اسپتال میں سر تو بیچارے بہت لوگ آئے ، ساری سہولتیں ان کو بتائیں ، کارڈ ہوگا تو مفت میں ہو جائے گا۔
وزیر اعظم: چلئے راجیش جی، اپنے آپ کو تندرست رکھئے، تھوڑی جسم کی فکر کیجئے، بچوں کی فک کیجئے اور بہت ترقی کیجئے، میری بہت نیک خواہشات ہیں آپ کو۔
ساتھیو، ہم نے راجیش جی کی باتیں سنیں، آیئے اب ہمارے ساتھ سکھ دیوی جی جڑ رہی ہیں، گھٹنوں کی تکلیف نے انہیں بہت پریشان کررکھا تھا، آئیے ہم سکھ دیوی جی سے پہلے ان کی تکلیف کی بات سکتے ہیں اور پھرسکھ کیسے آیا وہ سمجھتے ہیں۔
مودی جی - سکھ دیوی جی نمستے! آپ کہاں سے بول رہی ہیں؟
سکھ دیوی جی – دندپرا سے۔
مودی جی - یہ کہاں پڑتا ہے یہ؟
سکھ دیوی جی – متھرا میں۔
مودی جی – متھرا میں، پھر تو سکھ دیوی جی، آپ کو نمستے بھی کہنا ہے اور ساتھ ساتھ رادھے۔رادھے بھی کہنا ہوگا۔
سکھ دیوی جی – ہاں، رادھے۔ رادھے
مودی جی – اچھا ہم نے سنا ہے کہ آپ کو تکلیف ہوئی تھی۔ آپ کا کوئی آپریشن ہوا۔ ذرا بتائیں گی کہ کیا با ت ہے؟
سکھ دیوی جی– ہاں میرا گھٹنا خراب ہوگیا تھا، تو آپریشن ہوا ہے میرا۔ پریاگ ہسپتال میں۔
مودی جی– آپ کی عمر کتنی ہے سکھ دیوی جی؟
سکھ دیوی جی – عمر 40 سال۔
مودی جی – 40 سال اور سکھ دیو نام، اور سکھ دیوی کو بیماری ہوگئی۔
سکھ دیوی جی – بیماری تو مجھے 15۔16 سال سے ہی لگ گئی۔
مودی جی – ارے باپ رے! اتنی چھوٹی عمر میں آپ کے گھٹنے خراب ہوگئے۔
سکھ دیوی جی – وہ گٹھیا ۔ بائے بولتے ہیں جو جوڑوں میں درد سے گھٹنا خراب ہوگیا۔
مودی جی – تو 16 سال سے 40 سال کی عمر تک آپ نے اس کا علاج ہی نہیں کرایا۔
سکھ دیوی جی – نہیں، کروایا تھا۔ درد کی دوائی کھاتے رہے، چھوٹے۔ موٹے ڈاکٹروں نے تو ایسی دیسی دوائی ہے ویسی دوائی ہے۔ جھولا چھاپ ڈاکٹروں نے تو ایسے ان سے گھٹنا چل بھی پائی خراب ہوگئی، 1۔2 کلومیٹر پیدل چلی میں تو گھٹنا خراب ہوگیا میرا۔
مودی جی – تو سکھ دیوی جی آپریشن کا خیال کیسے آیا؟ اس کے پیسوں کا کیا انتظام کیا؟ کیسے بنا یہ سب؟
سکھ دیوی جی – میں نے وہ آیوشمان کارڈ سے علاج کروایا ہے۔
مودی جی – تو آپ کو آیوشمان کارڈ مل گیا تھا؟
سکھ دیوی جی– ہاں۔
مودی جی – اور آیوشمان کارڈ سے غریبوں کو مفت میں علاج ہوتا ہے۔ یہ معلوم تھا؟
سکھ دیوی جی – اسکول میں میٹنگ ہو رہی تھی۔ وہاں سے ہمارے شوہر کو معلوم ہوا تو کارڈ بنوایا میرے نام سے۔
مودی جی – ہاں۔
سکھ دیوی جی – پھر علاج کروایا کارڈ سے، اور میں نے کوئی پیسہ نہیں لگایا۔ کارڈ سے ہی علاج ہوا ہے میرا۔ خوب بڑھیا علاج ہوا ہے۔
مودی جی – اچھا ڈاکٹر پہلے اگر کارڈ نہ ہوتا تو کتنا خرچ بتاتے تھے؟
سکھ دیوی جی – ڈھائی لاکھ روپئے، تین لاکھ روپئے۔ 6۔7 سال سے پڑی ہوں کھاٹ پر۔ یہ کہتی تھی کہ، ہے بھگوان مجھے لے لے تو، مجھے نہیں جینا۔
مودی جی – 6۔7 سال سے کھاٹ پے تھی۔ باپ رے باپ۔
سکھ دیوی جی – ہاں۔
مودی جی – او ہو۔
سکھ دیوی جی – بالکل اٹھا بیٹھا نہیں جاتا تھا۔
مودی جی – تو ابھی آپ کا گھٹنا پہلے سے اچھا ہو اہے؟
سکھ دیوی جی – میں خوب گھومتی ہوں۔ پھرتی ہوں۔ رسوئی کا کام کرتی ہوں۔ گھر کا کام کرتی ہوں۔ بچوں کو کھانا بناکر دیتی ہوں۔
مودی جی – تو مطلب آیوشمان بھارت کارڈ نے آپ کو سچ مچ میں آیوشمان بنا دیا۔
سکھ دیوی جی – بہت بہت شکریہ آپ کی اسکیم کی وجہ سے ٹھیک ہوگئی، اپنے پیرں پر کھڑی ہوگئی۔
مودی جی – تو اب تو بچوں کو بھی مزہ آتا ہوگا۔
سکھ دیوی جی – ہاں جی۔ بچوں کو تو بہت ہی پریشانی ہوتی تھی۔ اب ماں پریشان ہے تو بچہ بھی پریشان ہے۔
مودی جی – دیکھئے ہماری زندگی میں سب سے بڑی خوشی ہماری صحت ہی ہوتی ہے۔ یہ خوشحال زندگی سب کو ملے یہی آیوشمان بھارت کا جذبہ ہے، چلئے سکھ دیوی جی میری جانب سے آپ کو بہت بہت مبارکباد، پھر سے ایک بار آپ کو رادھے۔ رادھے۔
سکھ دیوی جی – رادھے۔رادھے، نمستے!
میرے پیارے اہل وطن، نوجوانوں کی اکثریت والے ملک میں تین چیزیں بہت معنی رکھتی ہیں۔ اب وہی تو کبھی کبھی نوجوان کی حقیقی شناخت بن جاتی ہے۔ پہلی چیز ہے – خیال اور اختراع۔ دوسری ہےخطرہ مول لینے کا جذبہ اور تیسری ہے کسی بھی کام کو پورا کرنے کی ضد، خواہ کتنے بھی برعکس حالات کیوں نہ ہوں، جب یہ تینوں چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو غیرمعمولی نتائج سامنے آتے ہیں۔ کرشمے ہوجاتے ہیں۔ آج کل ہم چاروں طرف سنتے ہیں ، اسٹارٹ اپ، اسٹارٹ اپ ، اسٹارٹ اپ۔ صحیح بات ہے، یہ اسٹارٹ اپ کا زمانہ ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ اسٹارٹ اپ کے میدان میں آج بھارت دنیا بھر میں ایک طرح سے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ سال در سال اسٹارٹ اپ کو ریکارڈ تعداد میں سرمایہ حاصل ہو رہا ہے۔ یہ شعبہ بہت تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی اسٹارٹ اپ کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کل ’یونی کارن‘ لفظ خوب سرخیوں میں ہے۔ آپ سب نے اس کے بارے میں سنا ہوگا۔ ’یونی کارن‘ ایک ایسا اسٹارٹ اپ ہوتا ہے جس کی قیمت کم سے کم ایک بلین ڈالر کے بقدر ہوتی ہے یعنی تقریباً سات ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ۔
ساتھیو، سال 2015 تک ملک میں بہ مشکل نو یا دس یونی کارن ہوا کرتے تھے۔ آپ کو یہ جان کر ازحد خوشی ہوگی کہ اب یونی کارنس کی دنیا میں بھی بھارت تیز اُڑان بھر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسی سال ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ محض 10 مہینوں میں ہی بھارت میں ہر 10 دن میں ایک یونی کارن بنا ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑی بات ہے کیونکہ ہمارے نواجوانوں نے یہ کامیابی کورونا وبائی مرض کے درمیان حاصل کی ہے۔ آج بھارت میں 70 سے زائد یونی کارنس ہو چکے ہیں۔ یعنی 70 سے زائد اسٹارٹ اپس ایسے ہیں جو ایک بلین سے زائد کی قیمت سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ساتھیو اسٹارٹ اپ کی کامیابی کی وجہ سے ہر کسی کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی ہے اور جس طرح سے ملک سے، غیر ممالک سے، سرمایہ کاروں سے اسے تعاون حاصل ہو رہا ہے۔ شاید کچھ برس قبل اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ساتھیو، اسٹارٹ اپس کے ذریعہ بھارتی نوجوان عالمی مسائل کے حل میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ آج ہم ایک نوجوان میور پاٹل سے بات کریں گے، انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آلودگی کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔
مودی جی– میور جی نمستے۔
میور پاٹل – نمستے سر جی۔
مودی جی – میور جی آپ کیسے ہیں؟
میور پاٹل – بس بڑھیا سر۔ آپ کیسے ہو؟
مودی جی – میں بہت خوش ہوں۔ اچھا مجھے بتایئے کہ آج آپ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں ہیں۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – اور Waste میں سے Best بھی کر رہے ہیں۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – Environment کا بھی کر رہے ہیں ، تھوڑا مجھے اپنے بارے میں بتایئے۔ اپنے کام کے بارے میں بتایئے اور اس کام کے پیچھے آپ کو خیال کہاں سے آیا؟
میور پاٹل – سر جب کالج میں تھا تب میرے پاس موٹرسائیکل تھی ، جس کا مائی لیج بہت کم تھا اور اخراج بہت زیادہ تھا۔ وہ 2 اسٹرائیک موٹرسائیکل تھی۔ تو اخراج کم کرنے کے لیے اور اس کا مائی لیج تھوڑا بڑھانے کے لیے میں نے کوشش شروع کی تھی۔ 2011۔12 میں اور اس کا میں نے تقریباً 62 کلو میٹر فی لیٹر تک مائی لیج بڑھا دیا تھا۔ تو وہاں سے مجھے یہ ترغیب حاصل ہوئی کہ کچھ ایسی چیز بنائیں جو مارس پروڈکشن کر سکتے ہیں، تو باقی بہت سارے لوگوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔ تو 2017۔18 میں ہم لوگوں نے اس کی تکنالوجی ڈیولپ کی اور علاقائی نقل و حمل کارپوریشن میں ہم لوگوں نے 10 بسوں میں وہ استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ چیک کرنے کے لیے اور قریب قریب ہم لوگوں نے اس کا چالیس فیصد اخراج کم کر دیا۔ بسوں میں۔
مودی جی – ہم! اب یہ تکنالوجی جو آپ نے دریافت کی ہے۔ اس کا پیٹنٹ وغیرہ کروا لیا۔
میور پاٹل – ہاں جی! پیٹنٹ ہوگیا۔ اس سال ہمیں پیٹنٹ گرانٹ ہوکر کے آگیا۔
مودی جی – اور آگے اس کو بڑھانے کا کیا منصوبہ ہے؟ آپ کا۔ کس طرح سے کر رہے ہیں؟ جیسے بس کا ریزلٹ آگیا۔ اس کی بھی ساری چیزیں باہر آگئی ہوں گی۔ تو آگے کیا سوچ رہے ہیں؟
میور پاٹل – سر، اسٹارٹ اپ انڈیا کے اندر نیتی آیوگ سے اٹل نیو انڈیا چیلنج جو ہے، وہاں سے ہمیں مدد ملی اور اس مدد کی بنیاد پر ہم لوگوں نے فیکٹری شروع کی جہاں پر ہم ایئر فلٹرس کی مینوفیکچرنگ کر سکتے ہیں۔
مودی جی – تو حکومت ہند کی جانب سے کتنی مدد ملی آپ کو؟
میور پاٹل – 90 لاکھ۔
مودی جی– 90 لاکھ۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – اور اس سے آپ کا کام چل گیا۔
میور پاٹل – ہاں ابھی تو شروع ہو گیا ہے۔ پروسیس میں ہے۔
مودی جی – آپ کتنے دوست مل کر کے کر رہے ہیں؟ یہ سب!
میور پاٹل – ہم چار لوگ ہیں سر۔
مودی جی – اور چاروں پہلے ساتھ میں ہی پڑھتے تھے اور اسی میں سے آپ کو ایک خیال آیا آگے بڑھنے کا۔
میور پاٹل – ہاں جی! ہاں جی! ہم کالج میں ہی تھے۔ اور کالج میں ہم لوگوں نے یہ سب سوچا اور یہ میرا آئیڈیا تھا کہ میری موٹرسائیکل کی آلودگی کم سے کم ہوجائے اور مائی لیج بڑھ جائے۔
مودی جی – اچھا آلودگی کم کرتے ہیں، مائی لیج بڑھاتے ہیں تو اوسط خرچ کتنا بچتا ہوگا؟
میور پاٹل – سر موٹرسائیکل پر ہم لوگوں نے ٹیسٹ کیا، اس کا مائی لیج تھا 25 کلومیٹر فی لیٹر، وہ ہم لوگوں نے بڑھا دیا 39 کلو میٹر فی لیٹر تو ، قریب قریب 14کلومیٹر کا فائدہ ہوا اور اس میں سے 40 فیصد کا کاربن اخراج کم ہوگیا۔ اور جب علاقائی نقل و حمل کارپوریشن نے بسوں پر کیا تو وہاں پر 10 فیصد ایندھن اثرانگیزی میں اضافہ ہوا اور اس میں بھی 35۔40 فیصد اخراج کم ہوگیا۔
مودی جی – میور مجھے بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے اور آپ کے ساتھیوں کو بھی میری طرف سے مبارکباد دیجئے کہ کالج کی زندگی میں خود کا جو مسئلہ تھا اس مسئلے کا حل بھی آپ نے تلاش لیا اور اب اس حل میں سے جو راستہ اختیار کیا اس نے ماحولیات کے مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اور یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی قوت ہی ہے جو کوئی بھی بڑی چنوتی اٹھا لیتے ہیں اور راستے تلاش رہے ہیں۔ میری جانب سے آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔
میور پاٹل – آپ کا شکریہ سر! آ پ کا شکریہ!
ساتھیو، کچھ برسوں قبل اگر کوئی کہتا تھا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتا ہے یا ایک کوئی نہیں کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے، تب کنبے کے بڑے بزرگ کا جواب ہوتا تھا کہ ’’تم نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتے، نوکری کرو نا بھائی۔ ارے نوکری میں سکیورٹی ہوتی ہے، تنخواہ ہوتی ہے۔ جھنجھٹ بھی کم ہوتی ہے۔ لیکن، آج اگر کوئی اپنی کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے تو اس کے آس پاس کے تمام لوگ بہت پرجوش ہوتے ہیں اور اس میں اس کا مکمل تعاون بھی کرتے ہیں۔ ساتھیو بھارت کی نمو کی داستان کایہ اہم موڑ ہے، جہاں اب لوگ صرف نوکری تلاش کرنے والا بننے کا خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ روزگار کےمواقع پیدا کرنے والے بھی بن رہے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر بھارت کی پوزیشن مزید مضبوط بنے گی۔
میرے پیارے اہل وطن حضرات، آج ’من کی بات‘ میں ہم نے امرت مہوتسو کی بات کی۔ امرت کال میں کیسے ہمارے اہل وطن نئے نئے عہد پور ے کر رہے ہیں، اس پر بات کی، اور ساتھ ہی دسمبر مہینے میں فوج کی شجاعت سے متعلق باتوں کا بھی ذکر کیا۔ دسمبر مہینے میں ہی ایک اور بڑا دن ہمار سامنے آتا ہے جس سے ہم ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ یہ دن ہے، 6 دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی ۔ بابا صاحب نے اپنی پوری زندگی ملک اور سماج کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے وقف کر دی تھی۔ ہم اہل وطن یہ کبھی نہ فراموش کریں کہ ہمارے آئین کا بھی بنیادی جذبہ، ہمارا آئین ہم سبھی اہل وطن سے اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توقع رکھتا ہے۔ تو آیئے، ہم بھی عہد کریں کہ امرت مہوتسو میں ہم فرائض کو پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کریں گے۔ یہی بابا صاحب امبیڈکر کے لیے ہمارا حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔
ساتھیو اب ہم دسمبر مہینے میں داخل ہو رہے ہیں، ظاہر ہے آئندہ ’من کی بات‘ 2021 کا آخری ’من کی بات‘ ہوگا۔ 2022 میں پھر سے سفر شروع کریں گے اور میں آپ سے ڈھیر سارے سجھاؤ کی توقع کرتا ہی رہوں گا۔ آپ اس سال کو کیسے وداع کر رہے ہیں، نئے سال میں کیا کچھ کرنے والے ہیں، یہ بھی ضرور بتایئے اور ہاں یہ بھی مت بھولنا کہ کورونا ابھی گیا نہیں ہے۔ احتیاط برتنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ سبھی کو نمسکار۔ کوٹی کوٹی (لاکھوں، کروڑوں) نمسکار۔ اور میں ’کوٹی کوٹی نمسکار‘ اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ 100 کروڑ ویکسین ڈوز کے بعد آج ملک نئے جوش، نئی توانائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ویکسین پروگرام کی کامیابی، بھارت کی صلاحیت کو دکھاتی ہے، سب کی کوشش کے منتر کی طاقت کو دکھاتی ہے۔
ساتھیو، 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا ڈیٹا بہت بڑا ضرور ہے، لیکن اس سے لاکھوں چھوٹے چھوٹے حوصلہ افزااور فخر سے پُر کر دینے والے متعدد تجربات، متعدد مثالیں جڑی ہوئی ہیں۔ بہت سارے لوگ خط لکھ کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ویکسین کی شروعات کے ساتھ ہی کیسے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس مہم کو اتنی بڑی کامیابی ملے گی۔ مجھے یہ پختہ یقین اس لیے تھا، کیوں کہ میں اپنے ملک، اپنے ملک کے لوگوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے ہیلتھ کیئر ورکرز ملک کے شہریوں کی ٹیکہ کاری میں کوئی کوتاہی نہیں برتیں گے۔ ہمارے طبی ملازمین نے اپنی بے پناہ کوششوں اور عزم سے ایک نئی مثال پیش کی، انہوں نے انوویشن کے ساتھ اپنے پختہ عزم سے انسانیت کی خدمت کا ایک نیا پیمانہ قائم کیا۔ ان کے بارے میں بے شمار مثالیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے تمام چیلنجز کو پار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیکورٹی کور فراہم کیا۔ ہم نے کئی بار اخباروں میں پڑھا ہے، باہر بھی سنا ہے اس کام کو کرنے کے لیے ہمارے ان لوگوں نے کتنی محنت کی ہے، ایک سے بڑھ کر ایک متعدد حوصلہ افزا مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میں آج ’من کی بات‘ کے سامعین کو اتراکھنڈ کے باگیشور کی ایک ایسی ہی ہیلتھ ورکر پونم نوٹیال جی سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو، یہ باگیشور اتراکھنڈ کی اُس سرزمین سے ہے جس اتراکھنڈ نے سو فیصد پہلا ڈوز لگانے کا کام پورا کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ سرکار بھی اس کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے، کیوں کہ بہت دور دراز کا علاقہ ہے، مشکل علاقہ ہے۔ ویسے ہی، ہماچل نے بھی ایسی مشکلات میں سو فیصد ڈوز کا کام کر لیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پونم جی نے اپنے علاقے کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کے لیے دن رات محنت کی ہے۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی نمستے۔
پونم نوٹیال:- سر پرنام۔
جناب وزیراعظم:- پونم جی اپنے بارے میں بتائے ذرا ملک کے سامعین کو۔
پونم نوٹیال:- سر میں پونم نوٹیال ہوں۔ سر میں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں چانی کورالی سنٹر میں ملازم ہوں۔ میں ایک اے این ایم ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی میری خوش قسمتی ہے مجھے باگیشور آنے کا موقع ملا تھا وہ ایک طرح سے تیرتھ کا علاقہ رہا ہے وہاں قدیم مندر وغیرہ بھی ہیں، میں بہت متاثر ہوا تھا صدیوں پہلے کیسے لوگوں نے کام کیا ہوگا۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر
جناب وزیر اعظم:- پونم جی کیا آپ نے اپنے علاقے کے سبھی لوگوں کی ٹیکہ کاری کروالی ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، سبھی لوگوں کا ہو چکا ہے
جناب وزیر اعظم:- آپ کو کسی قسم کی دقت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے کیا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر۔ سر ہم لوگ جیسے بارش ہوتی تھی وہاں پہ اور روڈ بلاک ہو جاتا تھا۔ سر، ندی پار کرکے گئے ہیں ہم لوگ نا! اور سر گھر گھر گئے ہیں، جیسے این ایچ سی وی سی کے تحت ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ جو لوگ سنٹر میں نہیں آ سکتے تھے، جیسے بزرگ لوگ اور معذور افراد، حاملہ عورتیں، دھاتری عورتیں – یہ لوگ سر۔
جناب وزیر اعظم:- لیکن، وہاں تو پہاڑوں پر گھر بھی بہت دور دور ہوتے ہیں۔
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- تو ایک دن میں کتنا کر پاتے تھے آپ!
پونم نوٹیال:- سر کلومیٹر کا حساب – 10 کلومیٹر کبھی 8 کلومیٹر۔
جناب وزیر اعظم:- خیر، یہ تو ترائی میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو یہ سمجھ نہیں آئے گا 10-8 کلومیٹر کیا ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ کے 10-8 کلومیٹر مطلب پورا دن چلا جاتا ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- لیکن ایک دن میں کیوں کہ یہ بڑی محنت کا کام ہے اور ٹیکہ کاری کا سارا سامان اٹھا کر کے جانا۔ آپ کے ساتھ کوئی معاون رہتے تھے کہ نہیں؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، ٹیم ممبر، ہم پانچ لوگ رہتے تھے سر نا!
جناب وزیر اعظم:- ہاں
پونم نوٹیال:- تو اس میں ڈاکٹر ہو گئے، پھر اے این ایم ہو گئی، فارماسسٹ ہو گئے، آشا ہو گئی، اور ڈیٹا انٹری آپریٹر ہو گئے۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا وہ ڈیٹا انٹری، وہاں کنیکٹویٹی مل جاتی تھی یا پھر باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے؟
پونم نوٹیال:- سر کہیں کہیں مل جاتی، کہیں کہیں باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے، ہم لوگ۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا! مجھے بتایا گیا ہے پونم جی کہ آپ نے آؤٹ آف دی وے جاکر لوگوں کا ٹیکہ لگوایا۔ یہ کیا تصور آیا، آپ کے من میں خیال کیسے آیا اور کیسے کیا آپ نے؟
پونم نوٹیال:- ہم لوگوں نے، پوری ٹیم نے، عہد کیا تھا کہ ہم لوگوں سے ایک آدمی بھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ہمارے ملک سے کورونا بیماری دور بھاگنی چاہیے۔ میں نے اور آشا نے مل کر ہر ایک آدمی کی گاؤں وائز ڈیو لسٹ بنائی، پھر اس کے حساب سے جو لوگ سنٹر میں آئے ان کو سنٹر میں لگایا۔ پھر ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ سر، پھر اس کے بعد، چھوٹے ہوئے تھے، جو لوگ نہیں آ پاتے سنٹر میں،
جناب وزیر اعظم:- اچھا، لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، سمجھایا، ہاں جی!
جناب وزیر اعظم:- لوگوں کا جوش ہے، ابھی بھی ویکسین لینے کا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، ہاں جی۔ اب تو لوگ سمجھ گئے ہیں۔ فرسٹ میں بہت دقت ہوئی ہم لوگوں کو۔ لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا، کہ یہ جو ویکسین ہے محفوظ ہے، اور اثر دار ہے، ہم لوگ بھی لگا چکے ہیں، تو ہم لوگ تو ٹھیک ہیں، آپ کے سامنے ہیں، اور ہمارے اسٹاف نے، سب نے، لگا لیا ہے، تو ہم لوگ ٹھیک ہیں۔
جناب وزیر اعظم:- کہیں پر ویکسین لگنے کے بعد کسی کی شکایت آئی۔ بعد میں
پونم نوٹیال:- نہیں، نہیں سر۔ ایسا تو نہیں ہوا
جناب وزیر اعظم:- کچھ نہیں ہوا
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- سب کو اطمینان تھا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- کہ ٹھیک ہو گیا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیراعظم:- چلئے، آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اور میں جانتا ہوں، یہ پورا علاقہ کتنا مشکل ہے اور پیدل چلنا پہاڑوں پہ۔ ایک پہاڑ پہ جاؤ، پھر نیچے اترو، پھر دوسرے پہاڑ پہ جاؤ، گھر بھی دور دور اس کے باوجود بھی، آپ نے، اتنا بڑھیا کام کیا
پونم نوٹیال:- شکریہ سر، میری خوش قسمتی آپ سے بات ہوئی میری۔
آپ جیسے لاکھوں ہیلتھ ورکرز نے ان کی محنت کی وجہ سے ہی بھارت سو کروڑ ویکسین ڈوز کا پڑاؤ پار کر سکا ہے۔ آج میں صرف آپ کا ہی شکریہ ادا نہیں کر رہا ہوں، بلکہ بھارت کے ہر اس شہری کا شکریہ ادا کر رہا ہوں، جس نے ’سب کو ویکسین –مفت ویکسین‘ مہم کو اتنی اونچائی دی، کامیابی دی۔ آپ کو، آپ کی فیملی کو میری طرف سے بہت ساری نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ جانتے ہیں کہ اگلے اتوار، 31 اکتوبر کو، سردار پٹیل جی کی جنم جینتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے ہر سامعین کی طرف سے، اور میری طرف سے، میں آئرن مین کو نمن کرتا ہوں۔ ساتھیو، 31 اکتوبر کو ہم ’راشٹریہ ایکتا دیوس‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کا پیغام دینے والی کسی نہ کسی سرگرمی سے ضرور جڑیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، حال ہی میں گجرات پولیس نے کچھّ کے لکھپت قلعہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی نکالی ہے۔ تریپورہ پولیس کے جوان تو ایکتا دیوس منانے کے لیے تریپورہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی کرر ہے ہیں۔ یعنی، مشرق سے چل کر مغرب تک ملک کو جوڑ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے جواب بھی اُری سے پٹھان کوٹ تک ایسی ہی بائیک ریلی نکال کر ملک کے اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں۔ میں ان سبھی جوانوں کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ جموں و کشمیر کے ہی کپواڑہ ضلع کی کئی بہنوں کے بارے میں بھی مجھے پتہ چلا ہے۔ یہ بہنیں کشمیر میں فوج اور سرکاری دفتروں کے لیے ترنگا سلنے کا کام کر رہی ہیں۔ یہ کام حب الوطنی کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ میں ان بہنوں کے جذبے کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ کو بھی، بھارت کے اتحاد کے لیے، بھارت کی عظمت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔ دیکھئے گا، آپ کے من کو کتنا سکون ملتا ہے۔
ساتھیو، سردار صاحب کہتے تھے کہ – ’’ہم اپنے اتحاد سے ہی ملک کو نئی عظیم بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ہم میں اتحاد نہیں ہوا تو ہم خود کو نئی نئی مصیبتوں میں پھنسا دیں گے۔‘‘ یعنی قومی اتحاد ہے تو اونچائی ہے، ترقی ہے۔ ہم سردار پٹیل جی کی زندگی سے، ان کے خیالات سے، بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ملک کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی حال ہی میں سردار صاحب پر ایک پکٹوریل بائیوگرافی شائع کی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے سبھی نوجوان ساتھی اسے ضرور پڑھیں۔ اس سے آپ کو دلچسپ انداز میں سردار صاحب کے بارےمیں جاننے کا موقع ملے گا۔
پیارے ہم وطنو، زندگی مسلسل پیش رفت چاہتی ہے، ترقی چاہتی ہے، اونچائیوں کو پار کرنا چاہتی ہے۔ سائنس بھلے ہی آگے بڑھ جائے، ترقی کی رفتار کتنی ہی تیز ہو جائے، عمارت کتنی ہی عالیشان بن جائے، لیکن پھر بھی زندگی ادھوراپن محسوس کرتی ہے۔ لیکن، جب ان میں گیت موسیقی، آرٹ، رقص و ڈرامہ، ادب جڑ جاتا ہے، تو ان کی شان، ان کی جاودانی، کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایک طرح سے زندگی کو مثبت بننا ہے، تو یہ سب ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے، اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ یہ سبھی ہنر ہماری زندگی میں ایک کیٹالسٹ کا کام کرتے ہیں، ہماری توانائی بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گہرائی کو فروغ دینے میں، ہمارے ذہن کی گہرائی کی راہ ہموار کرنے میں بھی، گیت موسیقی اور مختلف فنون کا بڑا رول ہوتا ہے، اور ان کی ایک بڑی طاقت یہ ہوتی ہے کہ انہیں نہ وقت باندھ سکتا ہے، نہ سرحد باندھ سکتی ہے اور نہ ہی اختلاف رائے باندھ سکتا ہے۔ امرت مہوتسو میں بھی اپنے فن، ثقافت، گیت، موسیقی کے رنگ ضرور بھرنے چاہئیں۔ مجھے بھی آپ کی طرف سے امرت مہوتسو اور گیت موسیقی فن کی اس طاقت سے جڑے بہت سارے مشورے موصول ہو رہے ہیں۔ یہ مشورے، میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ میں نے انہیں وزارت ثقافت کو مطالعہ کے لیے بھیجا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزارت نے اتنے کم وقت میں ان مشوروں کو بڑی سنجیدگی سے لیا، اور اس پر کام بھی کیا۔ انہی میں سے ایک مشورہ ہے، حب الوطنی کے گیتوں سے جڑا مقابلہ! آزادی کی لڑائی میں الگ الگ زبان، بولی میں، حب الوطنی کے گیتوں اور بھجنوں نے پورے ملک کو متحد کیا تھا۔ اب امرت کال میں، ہمارے نوجوان، حب الوطنی کے ایسے ہی گیت لکھ کر، اس پروگرام میں مزید توانائی بھر سکتے ہیں۔ حب الوطنی کے یہ گیت مادری زبان میں ہو سکتے ہیں، قومی زبان میں ہو سکتے ہیں، اور انگریزی میں بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن، یہ ضروری ہے کہ یہ تخلیقات نئے بھارت کی نئی سوچ والی ہوں، ملک کی موجودہ کامیابی سے تاثر لے کر مستقبل کے لیے ملک کو عزم فراہم کرنے والی ہوں۔ وزارت ثقافت کی تیاری تحصیل سطح سے قومی سطح تک اس سے جڑے مقابلے کرانے کی ہے۔
ساتھیو، ایسے ہی ’من کی بات‘ کے ایک سامع نے مشورہ دیا ہے کہ امرت مہوتسو کو رنگولی کے فن سے بھی جوڑا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں رنگولی کے ذریعے تہواروں میں رنگ بھرنے کی روایت تو صدیوں سے ہے۔ رنگولی میں ملک کی تکثیریت کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ ناموں سے، الگ الگ تھیم پر رنگولی بنائی جاتی ہے۔ اس لیے، وزارت ثقافت اس سے بھی جڑا ایک قومی مقابلہ کرانے جا رہا ہے۔ آپ تصور کیجئے، جب آزادی کی تحریک سے جڑی رنگولی بنے گی، لوگ اپنے دروازے پر، دیوار پر، کسی آزادی کے متوالے کی تصویر بنائیں گے، آزادی کے کسی واقعہ کو رنگوں سے دکھائیں گے، تو امرت مہوتسو کا بھی رنگ اور بڑھ جائے گا۔
ساتھیو، ایک اور فن ہمارے یہاں لوری کا بھی ہے۔ ہمارے یہاں لوری کے ذریعے چھوٹے بچوں کو آداب سکھائے جاتے ہیں، ثقافت سے ان کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ لوری کی بھی اپنی رنگا رنگی ہے۔ تو کیوں نہ ہم، امرت کال میں، اس فن کو بھی دوبارہ زندہ کریں اور حب الوطنی سے جڑی ایسی لوریاں لکھیں، نظمیں، گیت، کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں جو بڑی آسانی سے، ہر گھر میں مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنا سکیں۔ ان لوریوں میں جدید بھارت کا حوالہ ہو، 21ویں صدی کے بھارت کے خوابوں کی عکاسی ہو۔ آپ تمام سامعین کے مشورے کے بعد وزارت نے اس سے جڑا مقابلہ بھی کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔
ساتھیو، یہ تینوں مقابلے 31 اکتوبر کو سردار صاحب کی جینتی سے شروع ہونے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وزارت ثقافت اس سے جڑی ساری جانکاری دے گی۔ یہ جانکاری وزارت کی ویب سائٹ پر بھی رہے گی، اور سوشل میڈیا پر بھی دی جائے گی۔ میں چاہوں گا کہ آپ سبھی اس سے جڑیں۔ ہمارے نوجوان ساتھی ضرور اس میں اپنے فن کا، اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ اس سے آپ کے علاقے کا فن اور ثقافت بھی ملک کے کونے کونے تک پہنچے گا، آپ کی کہانیاں پورا ملک سنے گا۔
پیارے ہم وطنو، اس وقت ہم امرت مہوتسو میں ملک کے بہادر بیٹے بیٹیوں کو، ان عظیم روحوں کو یاد کر رہے ہیں۔ اگلے مہینے، 15 نومبر کو ہمارے ملک کی ایسی ہی عظیم شخصیت، بہادر سپاہی، بھگوان برسا منڈا جی کی جنم جینتی آنے والی ہے۔ بھگوان برسا منڈا کو ’دھرتی آبا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے بابائے زمین۔ بھگوان برسا منڈا نے جس طرح اپنی ثقافت، اپنے جنگل، اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی، وہ دھرتی آبا ہی کر سکتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی ثقافت اور جڑوں کے تئیں فخر کرنا سکھایا۔ غیر ملکی حکومت نے انہیں کتنی دھمکیاں دیں، کتنا دباؤ بنایا، لیکن انہوں نے آدیواسی ثقافت کو نہیں چھوڑا۔ قدرت اور ماحولیات سے اگر ہمیں محبت کرنا سیکھنا ہے، تو اس کے لیے بھی دھرتی آبا بھگوان برسا منڈا ہمارے لیے بڑے حوصلہ کا باعث ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی حکومت کی ہر اس پالیسی کی پرزور مخالفت کی، جو ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی تھی۔ غریب اور مصیبت سے گھرے لوگوں کی مدد کرنے میں بھگوان برسا منڈا ہمیشہ آگے رہے۔ انہوں نے سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سماج کو بیدار بھی کیا۔ اُلگولان تحریک میں ان کی قیادت کو بھلا کون بھلا سکتا ہے! اس تحریک نے انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کے بعد انگریزوں نے بھگوان برسا منڈا پر بہت بڑا انعام رکھا تھا۔ برطانوی حکومت نے انہیں جیل میں ڈالا، ان کے اوپر اس قدر ظلم ڈھائے کہ 25 سال سے بھی کم عمر میں وہ ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ ہمیں چھوڑ کر گئے، لیکن صرف جسم سے۔
عام لوگوں میں تو بھگوان برسا منڈا ہمیشہ کے لیے رچے بسے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے لیے ان کی زندگی حوصلہ کی طاقت بنی ہوئی ہے۔ آج بھی ان کی بہادری اور شجاعت سے بھرے لوک گیت اور کہانیاں بھارت کے وسطی علاقے میں کافی مقبول ہیں۔ میں ’دھرتی آبا‘ برسا منڈا کو سلام کرتا ہوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ہماری آدیواسی برادری کے مخصوص تعاون کے بارے میں آپ جتنا جانیں گے، اتنے ہی فخر کا احساس ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 24 اکتوبر کو یو این ڈے، یعنی ’اقوام متحدہ کا دن‘ منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سے ہی بھارت اس سے جڑا رہا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت نے آزادی سے پہلے 1945 میں ہی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے تھے۔ اقوام متحدہ سے جڑا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا اثر اور اس کی طاقت بڑھانے میں، ہندوستانی خواتین نے بڑا رول نبھایا ہے۔ 48-1947 میں جب یو این ہیومن رائٹس کا یونیورسل ڈکلریشن تیار ہو رہا تھا تو اس ڈکلریشن میں لکھا جا رہا تھا کہ ’’تمام مردوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ لیکن بھارت کے ایک وفد نے اس پر اعتراض جتایا اور پھر یونیورسل ڈکلریشن میں لکھا گیا – ’’تمام انسانوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ یہ بات جنسی برابری کی بھارت کی صدیوں پرانی روایت کے موافق تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ محترمہ ہنسا مہتہ وہ وفد تھی جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا، اسی دوران، ایک دیگر وفد محترمہ لکشمی مینن نے جنسی برابری کے ایشو پر زوردار طریقے سے اپنی بات رکھی تھی۔ یہی نہیں، 1953 میں محترمہ وجیہ لکشمی پنڈت، یو این جنرل اسمبلی کی پہلی خاتون پریزیڈنٹ بھی بنی تھیں۔
ساتھیو، ہم اس سرزمین کے لوگ ہیں، جو یہ یقین کرتے ہیں، جو یہ پرارتھنا کرتے ہیں:
ॐ द्यौ: शान्तिरन्तरिक्षॅं शान्ति:,
पृथ्वी शान्तिराप: शान्तिरोषधय: शान्ति:।
वनस्पतय: शान्तिर्विश्र्वे देवा: शान्तिर्ब्रह्म शान्ति:,
सर्वॅंशान्ति:, शान्तिरेव शान्ति:, सा मा शान्तिरेधि।।
ॐ शान्ति: शान्ति: शान्ति:।।
بھارت نے ہمیشہ عالمی امن کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ بھارت 1950 کے عشرے سے لگاتار اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ رہا ہے۔ غریبی ہٹانے، ماحولیاتی تبدیلی اور مزدوروں سے متعلق مسائل کے حل میں بھی بھارت سرکردہ رول نبھاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یوگ اور آیوش کو مقبول بنانے کے لیے بھارت ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ مارچ، 2021 میں ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا تھا کہ بھارت میں روایتی میڈیسن کے لیے ایک گلوبل سنٹر قائم کیا جائے گا۔
ساتھیو، اقوام متحدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آج مجھے اٹل جی کے الفاظ بھی یاد آ رہے ہیں۔ 1977 میں انہوں نے اقوام متحدہ کو ہندی میں مخاطب کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ آج میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو، اٹل جی کے اس خطاب کا ایک حصہ سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے، اٹل جی کی بارعب آواز –
’’یہاںمیں قوموں کی حکومت اور اہمیت کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوں۔ عام آدمی کا وقار اور ترقی میرے لیے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آخرکار ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں صرف ایک ہی پیمانے سے ناپی جانی چاہیے کہ کیا ہم پوری انسانیت، ہر مرد و عورت اور بچے کے لیے انصاف اور عزت کی یقینی دہانی کرانے میں کوشاں ہیں۔‘‘
ساتھیو، اٹل جی کی یہ باتیں آج بھی ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ اس سرزمین کو ایک بہتر اور محفوظ سیارہ بنانے میں بھارت کا تعاون، دنیا بھر کے لیے بہت بڑا حوصلہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہی 21 اکتوبر کو ہم نے پولیس کا یادگاری دن منایا ہے۔ پولیس کے جن ساتھیوں نے ملک کی خدمت میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، اس دن ہم انہیں خاص طور پر یاد کرتے ہیں۔ میں آج اپنے ان پولیس ملازمین کے ساتھ ہی ان کے کنبوں کو بھی یاد کرنا چاہوں گا۔ فیملی کے تعاون اور قربانی کے بغیر پولیس جیسی مشکل خدمت بہت مشکل ہے۔ پولیس سروس سے جڑی ایک اور بات ہے جو میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو بتانا چاہتا ہوں۔ پہلے یہ تصور بن گیا تھا کہ فوج اور پولیس جیسی سروس صرف مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ دڈیولپمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں خواتین پولیس کی تعداد ڈبل ہو گئی ہے، دو گنی ہو گئی ہے۔ 2014 میں جہاں ان کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار کے قریب تھی، وہیں 2020 تک اس میں دو گنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد اب 2 لاکھ 15 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہاں تک کہ سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز میں بھی پچھلے سات سالوں میں خواتین کی تعداد تقریباً دو گنی ہوئی ہے۔ اور میں صرف تعداد کی ہی بات نہیں کرتا۔ آج ملک کی بیٹیاں مشکل سے مشکل ڈیوٹی بھی پوری طاقت اور حوصلے سے کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، کئی بیٹیاں ابھی سب سے مشکل مانی جانے والی ٹریننگ میں سے ایک اسپیشلائزڈ جنگل وارفیئر کمانڈوز کی ٹریننگ لے رہی ہیں۔ یہ ہماری کوبرا بٹالیں کا حصہ بنیں گی۔
ساتھیو، آج ہم ایئرپورٹس جاتے ہیں، میٹرو اسٹیشنز جاتے ہیں یا سرکاری دفتروں کو دیکھتے ہیں، سی آئی ایس ایف کی جانباز خواتین ہر حساس جگہ کی حفاظت کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سب سے مثبت اثر ہمارے پولیس دستہ کے ساتھ ساتھ سماج کے ذہن و دل پر بھی پڑ رہا ہے۔ خواتین سیکورٹی گارڈز کی موجودگی سے لوگوں میں، خاص کر عورتوں میں فطری طور پر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ وہ ان سے قدرتی طور پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ عورتوں کی حساسیت کی وجہ سے بھی لوگ ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ہماری یہ خواتین پولیس ملک کی لاکھوں اور بیٹیوں کے لیے بھی رول ماڈل بن رہی ہیں۔ میں خواتین پولیس سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ اسکولوں کے کھلنے کے بعد اپنے علاقے کے اسکولوں میں وزٹ کریں، وہاں بچیوں سے بات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بات چیت سے ہماری نئی نسل کو ایک نئی سمت ملے گی۔ یہی نہیں، اس سے پولیس پر عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آگے اور بھی زیادہ تعداد میں عورتیں پولیس سروس میں شامل ہوں گی، ہمارے ملک کی نیو ایج پولیسنگ کو لیڈ کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس پر اکثر مجھے ’من کی بات‘ کے سامعین اپنی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ آج میں ایسے ہی ایک موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، جو ہمارے ملک، خاص کر ہمارے نوجوانوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے تصورات میں چھایا ہوا ہے۔ یہ موضوع ہے، ڈرون کا، ڈرون ٹیکنالوجی کا۔ کچھ سال پہلے تک جب کہیں ڈرون کا نام آتا تھا، تو لوگوں کے من میں پہلا خیال کیا آتا تھا؟ فوج کا، ہتھیاروں کا، جنگ کا۔ لیکن آج ہمارے یہاں کوئی شادی بارات یا فنکشن ہوتا ہے تو ہم ڈرون سے فوٹو اور ویڈیو بناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ڈرون کا دائرہ، اس کی طاقت، صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ بھارت، دنیا کے ان پہلے ممالک میں سے ہے، جو ڈرون کی مدد سے اپنے گاؤں میں زمین کے ڈجیٹل ریکارڈ تیار کر رہا ہے۔ بھارت ڈرون کا استعمال، ٹرانسپورٹیشن کے لیے کرنے پر بہت ہمہ گیر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ چاہے گاؤں میں کھیتی باڑی ہو یا گھر پر سامان کی ڈیلیوری ہو۔ ایمرجنسی میں مدد پہنچانی ہو یا قانون اور نظم و نسق کی نگرانی ہو۔ بہت وقت نہیں ہے جب ہم دیکھیں گے کہ ڈرون ہماری ان سب ضرورتوں کے لیے تعینات ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر کی تو شروعات بھی ہو چکی ہے۔ جیسے کچھ دن پہلے، گجرات کے بھاؤ نگر میں ڈرون کے ذریعے کھیتوں میں نینو یوریا کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ کووڈ ویکسین مہم میں بھی ڈرون اپنا رول نبھا رہے ہیں۔ اس کی ایک اور تصویر ہمیں منی پور میں دیکھنے کو ملی تھی۔ جہاں ایک جزیرہ پر ڈرون سے ویکسین پہنچائی گئی۔ تلنگانہ بھی ڈرون سے ویکسین ڈیلیوری کے لیے ٹرائل کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اب انفراسٹرکچر کے کئی بڑے پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے بھی ڈرون کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ایسے نوجوان اسٹوڈنٹ کے بارے میں بھی پڑھا ہے جس نے اپنے ڈرون کی مدد سے ماہی گیروں کی زندگی بچانے کا کام کیا۔
ساتھیو، پہلے اس سیکٹر میں اتنے ضابطے، قانون اور پابندیاں لگا کر رکھے گئے تھے کہ ڈرون کی اصلی صلاحیت کا استعمال بھی ممکن نہیں تھا۔ جس ٹیکنالوجی کو موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا، اسے بحران کے طور پر دیکھا گیا۔ اگر آپ کو کسی بھی کام کے لیے ڈرون اڑانا ہے تو لائسنس اور پرمیشن کا اتنا جھنجٹ ہوتا تھا کہ لوگ ڈرون کے نام سے ہی توبہ کر لیتے تھے۔ ہم نے طے کیا کہ اس مائنڈسیٹ کو بدلا جائے اور نئے ٹرینڈز کو اپنایا جائے۔ اسی لیے اس سال 25 اگست کو ملک ایک نئی ڈرون پالیسی لیکر آیا۔ یہ پالیسی ڈرون سے جڑے حال اور مستقبل کے امکانات کے حساب سے بنائی گئی ہے۔ اس میں اب نہ بہت سارے فارم کے چکر میں پڑنا ہوگا، نہ ہی پہلے جتنی فیس دینی پڑے گی۔ مجھے آپ کو بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ نئی ڈرون پالیسی آنے کے بعد کئی ڈرون اسٹارٹ اپس میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ کئی کمپنیاں مینوفیکچرنگ یونٹ بھی لگا رہی ہیں۔ آرمی، نیوی اور ایئر فورس نے ہندوستانی ڈرون کمپنیوں کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر بھی دیے ہیں۔ اور یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہمیں یہیں نہیں رکنا ہے۔ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی میں سرکردہ ملک بننا ہے۔ اس کے لیے سرکار ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے بھی کہوں گا کہ آپ ڈرون پالیسی کے بعد بنے مواقع کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں ضرور سوچیں، آگے آئیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، یو پی کے میرٹھ سے ’من کی بات‘ کی ایک سامع محترمہ پربھا شکلا نے مجھے صفائی سے جڑا ایک خط بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ – ’’بھارت میں تہواروں پر ہم سبھی صفائی کا جشن مناتے ہیں۔ ویسے ہی، اگر ہم صفائی کو، ہر دن کی عادت بنا لیں، تو پورا ملک صاف ہو جائے گا۔‘‘ مجھے پربھا جی کی بات بہت پسند آئی۔ واقعی، جہاں صفائی ہے، وہاں صحت ہے، جہاں صحت ہے، وہاں صلاحیت ہے اور جہاں صلاحیت ہے، وہاں خوشحالی ہے۔ اس لیے تو ملک سووچھ بھارت ابھیان پر اتنا زور دے رہا ہے۔
ساتھیو، مجھے رانچی سے سٹے ایک گاؤں سپاروم نیا سرائے، وہاں کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا۔ اس گاؤں میں ایک تالاب ہوا کرتا تھا، لیکن لوگ اس تالاب والی جگہ کو کھلے میں رفع حاجت کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت جب سب کے گھر میں بیت الخلاء بن گیا تو گاؤں والوں نے سوچا کہ کیوں نہ گاؤں کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ خوبصور ت بنایا جائے۔ پھر کیا تھا، سب نے مل کر تالاب والی جگہ پر پارک بنا دیا۔ آج وہ جگہ لوگوں کے لیے، بچوں کے لیے، ایک عوامی مقام بن گیا ہے۔ اس سے پورے گاؤں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ میں آپ کو چھتیس گڑھ کے دیئور گاؤں کی عورتوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہاں کی عورتیں ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں اور مل جل کر گاؤں کے چوک چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کی صفائی کرتی ہیں۔
ساتھیو، یوپی کے غازی آباد کے رام ویر تنور جی کو لوگ ’پانڈ مین‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ رام ویر جی تو میکینکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد نوکری کر رہے تھے۔ لیکن ان کے من میں صفائی کی ایک ایسی روشنی پیدا ہوئی کہ وہ نوکری چھوڑ کر تالابوں کی صفائی میں جٹ گئے۔ رام ویر جی اب تک کتنے ہی تالابوں کی صفائی کرکے انہیں دوبارہ زندہ کر چکے ہیں۔
ساتھیو، صفائی کی کوشش تبھی پوری طرح کامیاب ہوتی ہے جب ہر شہری صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ ابھی دیوالی پر ہم سب اپنے گھر کی صاف صفائی میں تو مصروف ہونے ہی والے ہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہمارا آس پڑوس بھی صاف رہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنا گھر تو صاف کریں، لیکن ہمارے گھر کی گندگی ہمارے گھر کے باہر، ہماری سڑکوں پر پہنچ جائے۔ اور ہاں، میں جب صفائی کی بات کرتا ہوں تب براہ کرم سنگل یوز پلاسٹک سے نجات کی بات ہمیں کبھی بھی بھولنی نہیں ہے۔ تو آئیے، ہم عہد کریں کہ سووچھ بھارت ابھیان کے جوشش کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم سب مل کر اپنے ملک کو پوری طرح صاف بنائیں گے اور صاف رکھیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اکتوبر کا پورا مہینہ ہی تہواروں کے رنگوں میں رنگا رہا ہے اور اب سے کچھ دن بعد دیوالی تو آ ہی رہی ہے۔ دیوالی، اس کے بعد پھر گووردھن پوجا، پھر بھائی دوج، یہ تین تہوار تو ہوں گے ہی ہوں گے، اسی دوران چھٹھ پوجا بھی ہوگی۔ نومبر میں ہی گرونانک دیو جی کی جینتی بھی ہے۔ اتنے تہوار ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی تیاریاں بھی کافی پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ سب بھی ابھی سے خریداری کا پلان کرنے لگے ہوں گے، لیکن آپ کو یاد ہے نہ، خریداری مطلب ’ووکل فار لوکل‘۔ آپ لوکل خریدیں گے تو آپ کا تہوار بھی روشن ہوگا اور کسی غریب بھائی بہن، کسی کاریگر، کسی بنکر کے گھر میں بھی روشنی آئے گی۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ جو مہم ہم سب نے مل کر شروع کی ہے، اس بار تہواروں میں اور بھی مضبوط ہوگی۔ آپ اپنے یہاں کے جو لوکل پراڈکٹس خریدیں، ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر بھی کریں۔ اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی بتائیں۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے، اور پھر ایسے ہی ڈھیر سارے موضوعات پر بات کریں گے۔
آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! نمسکار!
نئی دہلی۔ 26 ستمبر میرے پیارے ہم وطنو! آپ جانتے ہیں کہ مجھے ایک اہم پروگرام کے لیے امریکہ جانا پڑ رہا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ بہتر ہوگا کہ امریکہ جانے سے پہلے 'من کی بات' ریکارڈ کردوں ۔ ستمبر میں جس دن 'من کی بات' ہے اسی تاریخ کو ایک اور اہم دن ہوتا ہے۔ ویسے تو ہم لوگ بہت سارے دن یاد رکحتے ہیں ، مختلف قسم کے دن مناتے بھی ہیں ، اور اگر اپنے گھر میں جوان بیٹے اور بیٹیاں ہوں ، اگر ان سے پوچھیں گے تو سال بھر کے کون سے دن کب آتے ہیں ، آپ کو مکمل فہرست بتادیں گے ، لیکن ایک اور دن ایسا ہے جسے ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ دن ایسا ہے جو ہندوستان کی روایات کے عین مطابق ہے۔ صدیوں سے جن روایات سے ہم وابستہ ہیں ان سے جوڑنے والا ہے ۔ یہ ہے 'ورلڈ ریور ڈے' ہے یعنی 'ندیوں کا عالمی دن '۔
ہمارے یہاں کہا گیا ہے –
"پبنتی ندیہ ، سوے – میو نامبہ:
یعنی ندیاں اپنا پانی خود نہیں پیتیں ، بلکہ عطیہ دیتی ہیں۔ ہمارے لیے ندیاں ایک طبعی شئے نہیں ہے، ہمارے لیے ندی ایک زندہ اکائی ہے اور اسی لیے ہم ندیوں کو ماں کہتے ہیں۔ خواہ ہمارے کتنے ہی تہوار ہوں ، جشن ہو، امنگ ہو، یہ سب ہماری ماؤں کی گود میں ہی ہوتے ہیں۔
آپ سب جانتے ہیں کہ جب ماگھ کا مہینہ آتا ہے تو ہمارے ملک میں بہت سے لوگ پورا ایک مہینہ ماں گنگا یا کسی اورندی کے کنارے کلپ واس کرتے ہیں۔ اب تو یہ روایت نہیں رہی ، لیکن پہلے زمانے میں ایک روایت تھی کہ اگر ہم گھر میں نہاتے ہیں تو ندیوں کو یاد رکھنے کی روایت آج بھلے ہی ختم ہو گئی ہو یا بہت کم رہ گئی ہو لیکن ایک بہت بڑی روایت تھی جو صبح سویرے ہی غسل کرتے وقت ہی وسیع ہندوستان کا سفر کرا دیتی تھی ، ذہنی سفر! ملک کے کونے کونے سے جڑنے کے لیے ایک ترغیب بن جاتی تھی۔ اور وہ کیا تھا ، ہندوستان میں غسل کرتے وقت ایک شلوک پڑھنے کی روایت رہی ہے-
گنگے چا جمنا چیو گوداوری سرسوتی۔
نرمدے سندھو کاویری جلے اسمن سنیدھم کورو
پہلے ہمارے گھروں میں خاندان کے بزرگ اس شلوک کو بچوں کے لیے یاد کرواتے تھے اور اس سے ہمارے ملک میں نیدیوں کے تئیں یقین بھی پیدا ہوتا تھا۔ وسیع و عریض ہندوستان کا ایک نقشہ ذہن میں نقش ہوجاتا تھا۔ ندیوں سے ربط قائم ہوتاتھا۔ جس ندی کو ماں کے طور پر ہم جانتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، جیتے ہیں اس ندی کے تئیں ایک یقین کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک سنسکار کا عمل تھا۔
دوستو ، جب ہم اپنے ملک میں ندیوں کی شان کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو قدرتی طور پر ہر کوئی ایک سوال اٹھائے گا اور سوال اٹھانے کا حق بھی ہے اور اس کا جواب دینا ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ کوئی بھی سوال پوچھے گا کہ بھائی آپ ندی کے اتنے گیت گا رہے ہیں ، ندی کو ماں کہہ رہے ہیں ، تو یہ ندی آلودہ کیوں ہوجاتی ہے؟ ہمارے شاستروں میں تو ندیوں کو تھوڑا سا آلودہ کرنا بھی غلط کہا گیا ہے۔ اور ہماری روایات بھی اس طرح رہی ہیں ، آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے ہندوستان کا مغربی حصہ خصوصا گجرات اور راجستھان ، وہاں پانی کی بہت کمی ہے۔ کبھی کبھی قحط پڑتا ہے۔ اب اس لیے وہاں کی معاشرتی زندگی میں ایک نئی روایت پروان چڑھی ہے۔ جیسے گجرات میں بارش کی شروعات ہوتی ہے تو گجرات میں جل– جیلانی اکادشی مناتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دور میں ، جسے ہم 'کیچ دی رین' کہتے ہیں ،وہ وہی بات ہے جو پانی کے ایک ایک بوند کو خود میں سمیٹنا، جل – جیلانی ۔ اسی طرح سے بارش کے بعد بہار اور مشرقی حصوں میں چھٹ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ چھٹ پوجا کو دیکھتے ہوئے ندیوں کے کنارے ، گھاٹوں کی صفائی اور مرمت کی تیاری شروع کر دی گئی ہوگی۔ ہم ندیوں کی صفائی اور انہیں آلودگی سے پاک کرنے کا کام سب کی کوشش اور سب کے تعاون سے ہی کر سکتے ہیں۔ 'نمامی گنگے مشن' بھی آج آگے بڑھ رہا ہے ، لہذا تمام لوگوں کی کوشش ، ایک طرح سے ، عوامی بیداری ، عوامی تحریک، اس کا بہت بڑا کردار ہے۔
دوستو ، جب ندی کی بات ہو رہی ہے ، ماں گنگا کی بات ہو رہی ہے تو ایک اور بات کی جانب بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ بات جب 'نمامی گنگے' کی ہو رہی ہے تو آپ کا دھیان ایک بات کی طرف ضرور گئی ہوگی اور ہمارے نوجوانوں کا دھیان تو یقینا گیا ہوگا۔ آج کل ایک خاص ای - آکشن ، ای نیلامی جاری ہے۔ یہ الیکٹرانک نیلامی ان تحائف کے لیے منعقد کی جا رہی ہیں جو لوگوں نے مجھے وقتا فوقتا دیے ہیں۔ اس نیلامی سے جو رقم آئے گی وہ 'نمامی گنگے' مہم کے لیے وقف ہے۔ آپ جس اپنائیت کے جذبے سے مجھے تحفے دیتے ہیں، اسی جذبے کو یہ مہم اور مضبوط کرتی ہے۔
دوستو ، ملک بھر میں ندیوں کو از سرنو زندہ کرنے کے لیے ، پانی کی صفائی کے لیے حکومت اور سماجی تنظیمیں مسلسل کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔ آج سے نہیں ، یہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کچھ لوگوں نے ایسے کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکے ہیں۔ اورہندوستان کے کسی بھی گوشے سے جب ایسی خبریں میں سنتا ہوں تو ایسا کام کرنے والوں کے تئیں نہایت احترام کا جذبہ میرے دل میں بیدار ہوتا اور میرا بھی دل کرتا ہے کہ وہ باتیں آپ کو بتاؤں۔ آپ دیکھئے تمل ناڈو کے ویلور اور ترووناملائی اضلاع کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ یہاں ایک ندی بہتی ہے ، ناگاندھی۔ اب یہ ناگاندھی برسوں پہلے خشک ہو گئی تھی۔ اس وجہ سے ، وہاں پانی کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی تھی۔ لیکن ، وہاں کی خواتین نے اپنی ندی کو دوبارہ زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایاکہ وہ اپنی ندی کو دوبارہ زندگی کریں گی۔ پھر کیا تھا ، انہوں نے لوگوں کو جوڑا ، عوامی شراکت سے نہریں کھودیں ، چیک ڈیم بنائے ، ریچارج کنویں بنائے۔ دوستو ، آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج وہ ندی پانی سے بھر گئی ہے۔ اور جب ندی پانی سے بھر جاتی ہے ، تودل میں بہت سکون محسوس کرتا ہے ، میں نے اس کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔
آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ جس سابرمتی ندی کے کنارے مہاتما گاندھی نے سابرمتی آشرم بنایا تھا وہ گزشتہ چند دہائیوں میں یہ سابرمتی ندی خشک ہوچکی تھی۔ ایک سال میں چھ سے آٹھ مہینے تک پانی نظر نہیں آتا تھا ، لیکن نرمدا ندی اور سابرمتی ندی کو جوڑ دیا ، لہذا اگر آپ آج احمد آباد جائیں گے تو سابرمتی ندی کا پانی ذہن کو شاداب کردیتا ہے۔ اسی طرح بہت سے کام جیسے تمل ناڈو کی ہماری یہ بہنیں کر رہی ہیں ، ملک کے مختلف گوشوں میں چل رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری مذہبی روایت وابستہ سے کئی سنت ، گرو ہیں ، وہ اپنے روحانی سفر کے ساتھ ساتھ پانی کے لیے ندی کے لیے بھی بہت کچھ کر رہے ہیں ، بہت سے لوگ ندیؤں کے کنارے شجر کاری مہم چلا رہے ہیں۔ تو کہیں ندیوں میں بہنے والا گندا پانی روکا جا رہا ہے۔
دوستو ، جب ہم آج 'ورلڈ ریور ڈے' منا رہے ہیں ، میں اس کام کے لیے وقف ہر ایک کی ستائش کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔ لیکن ہر ندی کے قریب رہنے والے لوگوں سے ، اہل وطن سے اپیل کروں گا کہ ہندوستان کےگوشے گوشے میں سال میں ایک بار تو ندی کا تہوار منانا ہی چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کبھی بھی چھوٹی بات کو چھوٹی چیز کو چھوٹی سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں بعض اوقات بڑی بڑی تبدیلیاں لاتی ہیں اور اگر مہاتما گاندھی کی زندگی پر ہم نظر ڈالیں تو ہم ہر لمحہ محسوس کریں گے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی ان کی زندگی میں کتنی اہمیت تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بڑے بڑے عزائم کو کیسے انہوں نے سچ کر دکھایا تھا۔ ہمارے آج کے نوجوانوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح صفائی مہم نے تحریک آزادی کو ایک مستقل توانائی دی تھی۔ یہ مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں نے صفائی کو ایک عوامی تحریک بنانے کا کام کیا تھا۔ مہاتما گاندھی نے صفائی کو آزادی کے خواب سے جوڑ دیا تھا۔ آج ، کئی دہائیوں کے بعد ، صفائی کی تحریک نے ایک بار پھر ملک کو ایک نئے ہندوستان کے خواب سے جوڑنے کا کام کیا ہے۔ اور یہ ہماری عادات کو بدلنے کی بھی مہم بن رہی ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صفائی صرف ایک پروگرام ہے۔ صفائی نسل در نسل سنسکار منتقلی کی ذمہ داری ہے اور جب صفائی کی مہم نسل در نسل چلتی ہے تو پھر پورا معاشرہ زندگی میں صفائی کی فطرت بن جاتا ہے۔ اور اس طرح یہ سال دو سال ، ایک حکومت سےدوسری حکومت تک کے لیےایسا موضوع نہیں ہے ، نسل در نسل ، ہمیں صفائی کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ، بغیر تھکے ، بغیر رکے بڑی عقیدت کے ساتھ مسلسل جڑے رہنا ہے اور صفائی کی مہم کو جاری رکھنا ہے۔ اور میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ صفائی مہم قابل پرستش باپو کو اس ملک کا ایک بڑا خراج تحسین ہے اور یہ خراج تحسین ہمیں ہر بار پیش کرتے رہنا ہے ، اسے مسلسل کرتے رہنا ہے۔
دوستو ، لوگ جانتے ہیں کہ میں کبھی بھی صفائی کے بارے میں بات کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتا ہوں اور شاید اسی لیے ہمارے ایک 'من کی بات' سننے والے جناب رمیش پٹیل جی نے لکھا ہے ، ہمیں باپو سے سیکھتے ہوئے اس آزادی کے "امرت مہوتسو" میں معاشی صفائی کا بھی عہد لینا چاہیے۔ جس طرح بیت الخلاء کی تعمیر نے غریبوں کے وقار میں اضافہ کیا ، اسی طرح معاشی صفائی ستھرائی غریبوں کے حقوق کو یقینی بناتی ہے ، ان کی زندگی آسان بناتی ہے۔ اب آپ جانتے ہیں کہ جن دھن کھاتوں کے حوالے سے ملک نے ایک مہم شروع کی ۔ اس کی وجہ سے ، آج غریبوں کو ان کے واجب الادا پیسے براہ راست ان کے کھاتے میں مل رہے ہیں ، جس کی وجہ سے آج بدعنوانی جیسی رکاوٹوں میں بہت حد تک کمی آ گئی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ معاشی صفائی میں ٹیکنالوجی بہت مدد کر سکتی ہے۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج گاؤں دیہات میں بھی فن ٹیک یو پی آئی کے ذریعہ ڈیجیٹل لین دین کرنے کی سمت میں عام انسان بھی شامل ہو رہے ہیں ، اس کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ میں آپ کو ایک اعداد و شمار بتاتا ہوں، آپ کو فخر ہوگا ، گزشتہ اگست کے مہینے میں یو پی آئی کے ذریعہ ایک ماہ میں 355 کروڑ ٹرانزیکشن ہوئے ، یعنی تقریبا 350 کروڑ سے زائد ٹرانزیکشنز ، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگست کے مہینے میں 350 کروڑ سے زائد مرتبہ ڈیجیٹل لین دین کے لیے یو پی آئی کا استعمال کیا گیا ہے۔ آج ، اوسطا 6 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈیجیٹل ادائیگی یو پی آئی کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ اس سے ملک کی معیشت میں شفافیت آ رہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اب فن ٹیک کی اہمیت بہت بڑھ رہی ہے۔
دوستو ، جس طرح باپو نے صفائی کو آزادی سے جوڑا تھا ، اسی طرح کھادی کو آزادی کی پہچان بنا دیا گیاتھا۔ آج آزادی کے 75 ویں سال میں ، جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں ، آج ہم اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی تحریک میں جو وقار کھادی نے حاصل کیا تھا ، آج ہماری نوجوان نسل کھادی کو وہ شان دے رہی ہے۔ آج کھادی اور ہینڈلوم کی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے کئی مواقع آئے ہیں جب دہلی کے کھادی شوروم نے ایک دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے۔ میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ 2 اکتوبر کو قابل پرستش باپو کی سالگرہ پر ہم سب ایک بار پھر ایک نیا ریکارڈ بنائیں۔ آپ اپنے شہر میں جہاں بھی کھادی ، ہینڈلوم ، ہینڈ کرافٹ بکتا ہو اور دیوالی کا تہوار سامنے ہے ، تہواروں کے موسم کے لیے کھادی ، ہینڈلوم ، کاٹیج انڈسٹری سے متعلق آپ کی ہر خریداری 'ووکل فار لوکل ' اس مہم کو مضبوط بنانے کے لیے ہو، پرانے سارے ریکارڈ توڑنے والی ہو۔
دوستو ، امرت مہوتسو کے اس دور میں ملک میں آزادی کی تاریخ کی ان کہی کہانیوں کو عوام تک پہنچانے کی ایک مہم بھی چل رہی ہے اور اس کے لیے ابھرتے ہوئے مصنفوں کو ، ملک اور دنیا کے نوجوانوں سے اپیل کی گئی تھی۔ اب تک 13 ہزار سے زائد افراد نے اس مہم کے لیے اپنا اندراج کرایا ہے اور وہ بھی 14 مختلف زبانوں میں۔ اور میرے لیے خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ 20 سے زائد ممالک میں کئی غیر مقیم ہندوستانیوں نے بھی اس مہم میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ایک اور بہت دلچسپ جانکاری ہے ، تقریبا 5000 سے زائد نئے ابھرتے ہوئے مصنفین جنگ آزادی کی کہانیاں تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے، جو غیر معروف ہیرو ہیں، جو گمنام ہیں تاریخ کے صفحات میں جن کے نام نظر نہیں آتے، ایسے غیر معروف جانباز وں پر ، موضوع پر ان کی زندگی پر ، ان کے واقعات پر کچھ لکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے ، یعنی ملک کے نوجوانوں نے تہیہ کر لیا ہے، مجاہدین آزادی کی تاریخ کو بھی ملک کے سامنے لائیں گے ، جن کا گزشتہ 75 سالوں میں کوئی ذکر تک نہیں ہواہے۔ تمام سننے والوں سے میری گزارش ہے کہ تعلیم کی دنیا سے وابستہ ہر ایک سے میری درخواست ہے۔ آپ بھی نوجوانوں کو ترغیب دیں ۔ آپ بھی آگے آئیں اور مجھے پختہ یقین ہے کہ آزادی کے امرت مہوتسو میں تاریخ لکھنے کا کام کرنے والے لوگ تاریخ بنانے والے بھی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہم سب سیاچن گلیشیر کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہاں سردی اتنی خوفناک ہے کہ اس میں رہنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دور دور تک برف ہی برف اور پیڑ پودوں کا تو نام نشان نہیں ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک بھی جاتا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے سیاچن کے اس ناقابل رسائی علاقے میں 8دیویانگ لوگوں کی ٹیم نے جو حیرت انگیز کام کیے ہیں،وہ ہر ہم وطن کے لیے فخر کی بات ہے ۔ اس ٹیم نے سیاچن گلیشیر کی 15 ہزار فٹ سے زیادہ اونچائی پر واقع 'کمار پوسٹ' پر اپنا جھنڈا لہرا کر عالمی ریکارڈ بنادیا ہے۔ جسمانی چیلنجوں کے باوجود بھی ، ان دیویانگوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ پورے ملک کے لیےباعث ترغیب ہیں اور جب آپ اس ٹیم کے ارکان کے بارے میں جانیں گے تو آپ بھی میری طرح ہمت اور حوصلے سے بھر جائیں گے۔ ان جانباز دیویانگوں کے نام ہیں - مہیش نہرا ، اتراکھنڈ کے اکشت راوت ، مہاراشٹر کے پشپک گوانڈے، ہریانہ کے اجے کمار ، لداخ کے لوبسانگ چوسپل ، تمل ناڈو کے میجر دوارکیش ، جموں و کشمیر کے عرفان احمد میر اور ہماچل پردیش کے چونجین انگمو۔ سیاچن گلیشیر کو فتح کرنے کا یہ آپریشن ہندوستانی فوج کے خصوصی دستوں کے رضاکاروں کی وجہ سے کامیاب ہوا ہے۔ میں اس ٹیم کی اس تاریخی اور بے مثال کامیابی کے لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ ہمارے ہم وطنوں کے "Can Do Culture"، "Can Do Determination" ، "Can Do Attitude" کے ساتھ ہر چیلنج سے نمٹنے کے جذبے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
دوستو ، آج ملک میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مجھے اتر پردیش میں ہو رہی ایسی ہی ایک کوشش One Teacher, One Call کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ بریلی میں یہ انوکھی کوشش مختلف معذور بچوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہی ہے۔ اس مہم کی قیادت ڈبھورا گنگا پور کے ایک اسکول کی پرنسپل دیپ مالا پانڈے جی کر رہی ہیں۔ کورونا کے دوران اس مہم کی وجہ سے نہ صرف بڑی تعداد میں بچوں کا داخلہ ممکن ہوا بلکہ 350 سے زائد اساتذہ بھی خدمت کے جذبے کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں ۔ یہ اساتذہ گاؤں گاؤں جا کر معذور بچوں کو پکارتے ہیں ، ان کی تلاش کرتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی اسکول میں ان کے داخلے کو یقینی بناتے ہیں۔ میں معذور افراد کے لیے دیپ مالا جی اور ساتھی اساتذہ کی اس عظیم کاوش کی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتا ہوں۔ تعلیم کے میدان میں اس طرح کی ہر کوشش ہمارے ملک کا مستقبل سنوارنے والی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم لوگوں کی زندگی کی حالت یہ ہے کہ ایک دن میں سینکڑوں بار لفظ کورونا ہمارے کانوں میں گونجتا ہے ، سو سالوں میں آئی سب سے بڑی عالمی وبا ، کووڈ 19 نے ہر ہم وطن کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ آج حفظان صحت اور تندرستی کے بارے میں تجسس اور آگاہی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ روایتی طور پر ہمارے ملک میں ایسی قدرتی مصنوعات وافر مقدار میں دستیاب ہیں جو کہ تندرستی کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اوڈیشہ کے کالا ہانڈی کے نندول میں رہنے والے پتایت ساہو جی ، برسوں سے اس علاقے میں ایک انوکھا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈیڑھ ایکڑ اراضی پر دواؤں کے پودے لگائے ہیں۔ یہی نہیں، ساہو جی نے ان دواؤں کے پودوں کو دستاویزی شکل بھی دی ہے۔مجھےرانچی کے ستیش جی نے ایک خط کے ذریعہ ایسی ہی ایک جانکاری شیئر کی ہے۔ ستیش جی نے میری توجہ جھارکھنڈ کے ایک ایلو ویرا گاؤں کی طرف مبذول کرائی ہے۔ رانچی کے قریب ہی دیوری گاؤں کی خواتین نے منجو کچھپ جی کی قیادت میں برسا زرعی اسکول سے ایلو ویرا کی کاشت کی تربیت لی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایلو ویرا کی کاشت شروع کی۔ اس کاشتکاری سے نہ صرف صحت کے شعبے میں فائدہ ہوا بلکہ ان خواتین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ کووڈ وبائی مرض کے دوران بھی انہیں اچھی آمدنی حاصل ہوئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سینیٹائزر بنانے والی کمپنیاں ان سے براہ راست ایلو ویرا خرید رہی تھیں۔ آج تقریبا چالیس خواتین کی ایک ٹیم اس کام میں شامل ہے۔ اور کئی ایکڑ میں ایلو ویرا کی کاشت کی جاتی ہے۔ اوڈیشہ کے پتایت ساہو جی ہوں یا پھر دیوری میں خواتین کی یہ ٹیم ، انہوں نے زراعت کو صحت کے شعبے سے جس طرح جوڑا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔
دوستو ، آنے والے 2 اکتوبر کو لال بہادر شاستری جی کا بھی یوم پیدائش ہے۔ ان کی یاد میں یہ دن ہمیں زراعت میں نئے تجربات کرنے والوں کے بارے میں بھی سکھاتا ہے۔ دواؤں کے پودوں کے شعبہ میں اسٹارٹ اپ کو فروغ دینے کے لیے میڈی ہب ٹی بی آئی کے نام سے ایک انکیوبیٹر گجرات کے آنند میں کام کر رہا ہے ۔ میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ سے وابستہ اس انکیوبیٹر نے بہت کم وقت میں 15 کاروباری افراد کے کاروباری خیال کی تائید کر چکی ہے۔ اس انکیوبیٹر کی مدد حاصل کرنے کے بعد ہی سودھا چیبرولو جی نے اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔ ان کی کمپنی میں خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے اورانہیں پر وہ جدید جڑی بوٹیوں کی تشکیل کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایک اور کاروباری سبھاشری جی نے اسی میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ انکیوبیٹر سے بھی مدد لی ہے۔ سبھاشری جی کی کمپنی ہربل روم اور کار فریشر کے میدان میں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے ایک ہربل ٹیرس گارڈن بھی بنایا ہے جس میں 400 سے زیادہ دواؤں کی جڑی بوٹیاں ہیں۔
دوستو ، وزارت آیوش نے بچوں میں دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے پودوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے ایک دلچسپ پہل کی ہے اور اس کا بیڑا اٹھایا ہے، ہمارے پروفیسر آیوشمان جی نے ۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ یہ سوچیں کہ پروفیسر آیوشمان کون ہیں؟ دراصل پروفیسر آیوشمان ایک مزاحیہ کتاب کا نام ہے۔ اس میں مختلف کارٹون کرداروں کے ذریعہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں تیار کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ایلوویرا ، تلسی ، آملہ ، گیلوے ، نیم ، اشواگندھا اور برہمی جیسے صحت مند دواؤں کے پودوں کی افادیت بتائی گئی ہے۔
دوستو ، آج کے حالات میں جس طرح پوری دنیا میں دواؤں کے پودوں اور جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے ، اس میں ہندوستان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ ماضی میں ، آیورویدک اور جڑی بوٹیوں کی مصنوعات کی برآمد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
میں سائنسدانوں ، محققین اور اسٹارٹ اپ کی دنیا سے وابستہ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسی مصنوعات پر توجہ دیں ، جو نہ صرف لوگوں کی تندرستی اور قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ ہمارے کسانوں اور نوجوانوں کی آمدنی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوی ہیں۔
دوستو ، روایتی کاشتکاری سے آگے بڑھتے ہوئے ، زراعت میں کیے جا رہے نئے تجربات ، نئے متبادل مسلسل خود روزگار کے نئے ذرائع بنا رہے ہیں۔ پلوامہ کے دو بھائیوں کی کہانی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جموں و کشمیر کے پلوامہ میں بلال احمد شیخ اور منیر احمد شیخ نے جس طرح اپنے لیے نئی راہیں تلاش کیں ، وہ نئے ہندوستان کی ایک مثال ہے۔ 39 سالہ بلال احمد جی بہت ہی تعلیم یافتہ ہیں ، انہوں نے کئی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اپنی اعلی تعلیم سے وابستہ تجربات کا استعمال آج وہ زراعت میں اپنا اسٹارٹ اپ بنا کر کر رہے ہیں۔ بلال جی نے اپنے گھر پر ہی ورمی کمپوسٹنگ کا ایک یونٹ لگایا ہے۔ اس یونٹ سے تیار کردہ بایو فرٹیلائزر سے نہ صرف کاشتکاری میں بہت فائدہ ہوا ہے بلکہ اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملے ہیں۔ ہر سال کسانوں کو ان بھائیوں کی اکائیوں سے تقریبا تین ہزار کوئنٹل ورمی کمپوسٹ مل رہا ہے۔ آج اس ورمی کمپوسٹنگ یونٹ میں 15 لوگ بھی کام کر رہے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ان کی اس یونٹ کو دیکھنے کے لیے پہنچ رہی ہے اور ان میں سے بیشتر ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو زراعت کے شعبے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پلوامہ کے شیخ برادران نے نوکری کے متلاشی بننے کے بجائے نوکری کی تخلیق کرنے کا عہد لیا اور آج وہ نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ملک بھر کے لوگوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، 25 ستمبر کو ملک کے عظیم سپوت پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کا یوم پیدائش ہے۔ دین دیال جی پچھلی صدی کے عظیم مفکرین میں سےایک ہیں۔ معاشیات کا ان کا فلسفہ ، معاشرے کو بااختیار بنانے کی ان کی پالیسیاں ، ان کے ذریعہ دکھایا گیا انتودے کا راستہ آج بھی جتنا موزوں ہے اتنا ہی باعث ترغیب بھی ہے۔ تین سال پہلے ، 25 ستمبر کو ، ان کی سالگرہ کے موقع پرہی دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم - آیوشمان بھارت یوجنا نافذ کی گئی تھی۔ آج ، ملک کے دو سوا دو کروڑ سے زیادہ غریبوں کو آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ہسپتال میں 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج مل چکا ہے۔ غریبوں کے لیے اتنی بڑی اسکیم دین دیال جی کے انتودیے فلسفے کے لیے ہی وقف ہے۔ اگر آج کے نوجوان ان کے اقدار اور نظریات کو اپنی زندگی میں اپنائیں تو یہ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک بار لکھنؤ میں ، دین دیال جی نے کہا تھا - "کتنی اچھی اچھی چیزیں ، اچھی اچھی خوبیاں ہیں - یہ سب ہمیں معاشرے سے ہی توحاصل ہوتی ہیں۔ ہمیں معاشرے کا قرض ادا کرنا ہے ، اس طرح کی سوچ ہونی ہی چاہیے۔ " یعنی دین دیال جی نےسبق سکھایا کہ ہم معاشرے سے ، ملک سے اتنا کچھ لیتے ہیں ، جو کچھ بھی ہے ، وہ ملک کی وجہ سے ہی تو ہے ، لہذا ملک کے تئیں اپنا قرض کیسے ادا کریں گے، اس سلسلے میں سوچنا چاہیے۔ یہ آج کے نوجوانوں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے۔
دوستو ، دین دیال جی کی زندگی سے ہمیں کبھی ہار نہیں ماننے کا سبق بھی ملتا ہے۔ مخالف سیاسی اور نظریاتی حالات کے باوجود ، ہندوستان کی ترقی کے لیے دیسی ماڈل کے وژن سے وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ آج ، بہت سے نوجوان بنے بنائے راستوں سے الگ ہو کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ چیزوں کو اپنی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ دین دیال جی کی زندگی سے انہیں کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان کے بارے میں ضرور جانیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم نے کئی موضوعات پر بات چیت کی۔ جیسا کہ ہم بات بھی کر رہے تھے ، آنے والا وقت تہواروں کا ہے۔ پورا ملک مریادا پرشوتم شری رام کے جھوٹ پر فتح کا تہوار بھی منانے جا رہا ہے۔ لیکن اس تہوار میں ہمیں ایک اورجنگ کے بارے میں یاد رکھنا ہے - وہ ہے کورونا کے خلاف ملک کی جنگ ۔ ٹیم انڈیا اس جنگ میں روزانہ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ ٹیکہ کاری میں ، ملک نے ایسے کئی ریکارڈ بنائے ہیں جن پر پوری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں ہر ہندوستانی کا اہم کردار ہے۔ ہمیں اپنی باری آنے پر ویکسین تو لگوانی ہی ہے ، لیکن ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ کوئی اس حفاظتی دائرے سے باہر نہ رہ جائے ۔ اپنے اردگرد جسے ویکسین نہیں لگی اسے بھی ویکسین سینٹر تک لے جانا ہے۔ ویکسین لگنے کے بعد بھی ضروری پروٹوکول پر عمل کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس جنگ میں ایک بار پھر ٹیم انڈیا اپنا جھنڈا لہرائے گی۔ ہم اگلی بار کچھ دوسرے موضوعات پر 'من کی بات' کریں گے۔ آپ سب کو ، ہر اہل وطن کو ، تہواروں کی بہت بہت مبارکباد۔
شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
ہم سب کو پتہ ہے کہ آج میجر دھیان چند جی کی سالگرہ ہےاور ہمارا ملک ، ان کی یاد میں اس دن کو کھیلوں قومی دن کے طور پر بھی مناتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اس وقت ، میجر دھیان چند جی کی آتما ، جہاں بھی ہو گی ، بہت خوشی محسوس کرتی ہو گی ۔ پوری دنیا میں بھارت کی ہاکی کا ڈنکا بجانے کا کام دھیان چند جی کی ہاکی نے کیا تھا اور چار دہائیوں بعد ، تقریباً 41 سال بعد بھارت کے نو جوانوں نے ، بیٹے اور بیٹیوں نے ہاکی کے اندر پھر ایک بار جان ڈال دی ہے اور کتنے ہی تمغے کیوں نہ مل جائیں ، لیکن جب تک ہاکی میں تمغہ نہیں ملتا ، بھارت کا کوئی بھی شہری فتح کی خوشی حاصل نہیں کر سکتا ہے اور اس مرتبہ اولمپک میں ہاکی کا تمغہ ملا ، چار دہائیوں بعد ملا ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ،میجر دھیان چند جی کے دل پر ، اُن کی آتما پر ، وہ جہاں ہوں گے ،وہاں کتنی خوشی ہو گی اور دھیان چند جی کی پوری زندگی کھیل کے لئے وقف تھی اور اس لئے آج جب ہمیں ملک کے نو جوانوں میں ، ہمارے بیٹے بیٹیوں میں کھیل کے تئیں ، جو دلچسپی نظر آ رہی ہے ، ماں باپ کو بھی ، بچے اگر کھیل میں آگے جا رہے ہیں تو خوشی ہو رہی ہے ۔ یہ جو جذبہ نظر آ رہا ہے ، میں سمجھتا ہوں ، یہی میجر دھیان چند جی کے لئے بہت بڑا اظہارِ عقیدت ہے ۔
ساتھیو ،
جب کھیلوں کی بات آتی ہے تو یہ فطری بات ہے کہ پوری نوجوان نسل ہمارے سامنے نظر آتی ہے اور جب ہم نوجوان نسل کو قریب سے دیکھتے ہیں تو کتنی بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔ نوجوانوں کا ذہن بدل گیا ہےاور آج کا نوجوان ذہن ، پرانے طریقوں سے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہٹ کر کرنا چاہتا ہے۔ آج کا نوجوان بنے بنائے راستوں پر نہیں چلنا چاہتا ، وہ نئے راستے بنانا چاہتا ہے۔ کسی نامعلوم مقام پر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ منزل بھی نئی ، ہدف بھی نئے ، راستے بھی نئے اور خواہش بھی نئی ۔ ارے ، ایک بار جب دل میں ٹھان لیتا ہے نا نو جوان ، جی جان سے لگ جاتا ہے ۔ دن رات محنت کر رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں ، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بھارت نے اپنے اسپیس کے شعبے کو کھولا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان نسل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طلباء ، نجی شعبے میں کام کرنے والے نوجوان بڑھ چڑھ کو آگے آئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے سیٹلائٹس ہوں گے ، جن میں ہمارے نو جوانوں ، ہمارے طلباء نے ، ہمارے کالج نے ، ہماری یونیورسٹی نے ، لیب میں کام کرنے والے طلباء نے کام کیا ہوگا۔
اسی طرح آج آپ جہاں کہیں بھی دیکھیں ، کسی بھی خاندان میں جائیں ، چاہے وہ خاندان کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو ، پڑھا لکھا خاندان لیکن اگر آپ خاندان کے نوجوان سے بات کریں تو وہ اپنے خاندان سے کیا کہتا ہے جو کہ روایات سے ہٹ کر کہتا ہے ۔ میں اسٹارٹ اپ کروں گا ، میں سٹارٹ اپ میں جاؤں گا یعنی اس کا دِل خطرہ مول لینے کے لئے بے تاب ہے۔ آج اسٹارٹ اپ کلچر چھوٹے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے اور میں اس میں روشن مستقبل کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے ملک میں کھلونوں پر بحث ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب یہ موضوع ہمارے نوجوانوں کی توجہ میں آیا تو انہوں نے اپنے ذہن میں یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ ہندوستان کے کھلونوں کو دنیا میں پہچان کیسے دلائی جائے اور وہ نئے تجربات کر رہے ہیں اور دنیا میں کھلونوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ، 6-7 لاکھ کروڑ کی مارکیٹ ہے۔ آج ہندوستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن کھلونے کیسے بنائے جائیں ، کھلونوں کی اقسام کیا ہیں ، کھلونوں میں ٹیکنالوجی کیا ہے ، بچوں کی نفسیات کے مطابق کھلونے کیسے ہیں، آج ہمارے ملک کا نوجوان اس پر توجہ دے رہا ہے ، کچھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔ ساتھیوں ، ایک اور بات ، جو دل کو بھی خوشی سے بھر دیتی ہے اور یقین کو بھی مضبوط کرتی ہے اور وہ کیا ہے ؟ کیا آپ نے کبھی توجہ دی ہے؟ عام طور پر ہمارے یہاں ایک عادت بن چکی ہے – ہوتی ہے ، چلو یار چلتا ہے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں ، میرے ملک کا نوجوان ذہن اب خود کو بہترین کی طرف مرکوز کر رہا ہے۔ بہترین کرنا چاہتا ہے ، بہترین طریقے سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی قوم کی ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا۔
ساتھیو ،
اس بار اولمپکس نے بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔ اولمپک کھیل ختم ہوچکے ہیں ، اب پیرالمپکس جاری ہیں۔ ملک کے لئے ، کھیل کی اس دنیا میں ، جو کچھ ہوا ، دنیا کے مقابلے بھلے ہی کم ہو لیکن یقین کرنے کے لئے بہت کچھ ہوا ہے ۔ آج نوجوان صرف اسپورٹس کی طرف ہی دیکھ رہا ہے ، ایسا نہیں ہے لیکن ہم اس سے جڑے امتحانات کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔ نو جوان پورے نظام کو بہت باریکی سے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی افادیت کو سمجھ رہا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں خود کو جوڑنا بھی چاہتا ہے ۔ اب وہ روایتی چیزوں سے آگے بڑھ کر نئے ڈسپلن اپنا رہا ہے ۔ میرے ہم وطنوں ، جب اتنی رفتار آئی ہے ، ہر خاندان میں کھیلوں پر گفتگو شروع ہو گئی ہے۔ آپ مجھے بتائیں ، کیا اس رفتار کو اب رکنے دینا چاہیے ، کیا اسے رکنے دیا جائے؟ جی نہیں ۔ آپ بھی میری طرح سوچ رہے ہوں گے۔ اب ملک میں کھیل ، کھیل کود ، اسپورٹس ، اسپورٹس مین اسپرٹ اب رکنی نہیں ہے ۔ اس رفتار کو خاندانی زندگی میں ، سماجی زندگی میں ، قومی زندگی میں مستقل بنانا ہے ۔ توانائی سے بھر دینا ہے ، مسلسل نئی توانائی سے بھر دینا ہے ۔ گھر ہو ، باہر ہو ، گاؤں ہو ، شہر ہو ، ہمارے کھیل کے میدان بھرے ہونے چاہئیں ، ہر ایک کو کھیلنا چاہیے – سب کھیلیں سب کھیلیں اور آپ کو یاد ہے ناں ، کہ میں نے لال قلعہ سے کہا تھا – ‘‘ سب کا پریاس ’’ ۔ جی ہاں ، سب کی کوشش۔ سب کی کوشش سے ہی بھارت کھیلوں میں وہ اونچائی حاصل کر سکے گا ، جس کا وہ حقدار ہے۔ میجر دھیان چند جی جیسے لوگوں نے ، جو راہ بتائی ہے ، اُس پر آگے بڑھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ سالوں کے بعد ملک میں ایسا دور آیا ہے کہ چاہے وہ ایک خاندان ہو ، ایک معاشرہ ہو ، ایک ریاست ہو ، ایک قوم ہو - تمام لوگ ایک جذبے کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔
میرے پیارے نوجوانوں ،
ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف قسم کے کھیلوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ گاؤں گاؤں کھیلوں کے مقابلوں کو مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ یہ مقابلہ کے ذریعے ہوتا ہے کہ کھیل کا فروغ ہوتا ہے ، کھیلوں کی ترقی ہوتی ہے ، کھلاڑی بھی اس سے نکلتے ہیں۔ آئیے ، ہم سب ہم وطن اس رفتار میں جتنا زیادہ تعاون کر سکتے ہیں ، ‘ سب کا پریاس ’ ، اس منتر کو پورا کر کے دکھائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
کل جنم اشٹمی کا عظیم تہوار بھی ہے۔ جنم اشٹمی کے اس تہوار کو ، بھگوان شری کرشن کی پیدائش کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہم بھگوان کے ہر روپ سے واقف ہیں ، نٹ کھٹ کنہیا سے لےکر ، عظیم روپ حاصل کرنےوالے کرشن تک ، شاستروں کی اہلیت سے لے کر شاستر کی حمایت والے کرشن تک ۔ فن ہو ، خوبصورتی ہو ، کہاں کہاں کرشن ہیں لیکن یہ باتیں میں اِس لئے کر رہا ہوں کہ جنم اشٹمی سے کچھ دن پہلے میں ایک ایسے دلچسپ تجربے سے گزرا ہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ یہ باتیں میں آپ کو بتاؤں ۔ آپ کو یاد ہوگا ، اس مہینے کی 20 تاریخ کو بھگوان سومناتھ مندر سے جڑے تعمیراتی کاموں کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔ سومناتھ مندر سے 3 – 4 کلومیٹر فاصلے پر بھالکا تیرتھ ہے ۔ یہ بھالکا تیرتھ وہیں ہے ، جہاں بھگوان شری کرشن نے زمین پر اپنے آخری لمحات گزارے تھے۔ ایک طرح سے، اس دنیا کی اُن کی لیلاؤں کا وہاں اختتام ہوا تھا ۔ سومناتھ ٹرسٹ کے ذریعہ اس پورے علاقے میں بہت سارے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ میں بھالکا تیرتھ اور وہاں ہونے والے کام کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے ایک خوبصورت آرٹ بک دیکھی۔ کسی نے یہ کتاب میرے لیے میری رہائش کے باہر کوئی میرے لئے چھوڑ گیاتھا ۔ اس میں بھگوان شری کرشن کے مختلف روپوں کو دکھایا گیا تھا ،بہت خوبصورت تصویریں تھی اور بڑی میننگ فُل تصویریں تھیں ۔ جب میں نے کتاب کے صفحات کو پلٹنا شروع کیا تو میرا تجسس کچھ اور بڑھ گیا۔ جب میں نے یہ کتاب اور ان تمام تصاویر کو دیکھا اور اس پر میرے لیے ایک پیغام لکھا اور پھر جو میں نے پڑھا ، تو میرا دل چاہا کہ ان سے ملوں ، جو یہ کتاب میرے گھر کے پاس چھوڑ گئے ہیں ، مجھے اُن سے ملنا چاہیئے تو میرے دفتر نے اُن کے ساتھ رابطہ قائم کیا ۔ دوسرے ہی دن اُن کو ملنے کے لئے بلایا اور میرا تجسس اتنا تھا ، آرٹ بُک کو دیکھ کر کے ، شری کرشن کی الگ الگ تصویروں کو دیکھ کر کے ۔ اسی تجسس میں میری ملاقات جدو رانی داسی جی سے ہوئی ۔ وہ امریکی ہیں ، پیدائش امریکہ میں ہوئی ، پرورش امریکہ میں ہوئی ، جدو رانی داسی جی اسکون سے جڑی ہیں ۔ ہرے کرشنا موومنٹ سے جڑی ہوئی ہیں اور ان الگ الگ موومنٹس سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کی بہت بڑی خصوصیت ہے ، ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عقیدت کے فن میں ماہر ہیں۔ آپ جانتے ہیں ، ابھی دو دن بعد ہی ، یکم ستمبر کو ، اسکون کے بانی شری پربھو پاد سوامی جی کی 125 ویں سالگرہ ہے ۔ جدو رانی داسی جی ، اسی سلسلے میں بھارت آئی تھیں ۔ میرے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ جن کی پیدائش امریکہ میں ہوئی ہے ، وہ ہندوستانی جذبات سے اتنی رہیں ، وہ آخر کیسے بھگوان کرشن کی اتنی خوبصورت تصاویر بنا لیتی ہیں ۔ میری اُن سے کافی طویل بات ہوئی تھی لیکن میں آپ کو کچھ حصہ سنانا چاہتا ہوں ۔
پی ایم سر: جدو رانی جی ، ہرے کرشنا!
میں نے بھکتی آرٹ کے بارے میں تھوڑا بہت پڑا ہے لیکن ہمارے سامعین کواِس کے بارے میں کچھ اور بتائیں ۔ اس کے لئے آپ کا جذبہ اور دلچسپی بہت زیادہ ہے ۔
جدو رانی جی: تو ، بھکتی آرٹ میں ہمارا ایک مضمون ہے ، جس میں بھکتی آرٹ پر مثالیں دی گئی ہیں کہ کس طرح یہ آرٹ ذہن یا تصور سے ابھرتا ہے لیکن قدیم ویدک صحیفوں میں ، جیسے بھرم سنہیتا ۔
Ven Omkaraya Patitam skilatam Sikand (वें ओंकाराय पतितं स्क्लितं सिकंद), from The Goswami’s of Vrindavan, from the Lord Brahma himself. Eeshwarah paramah krishnah sachchidanand vigrahah ( ईश्वर: परम: कृष्ण: सच्चिदानन्द विग्रह: ) how He carries the flute, how all of his senses can act for any other sense and Srimad bhagwatam (TCR 9.09) (Barhapeend natwarvapuh karnayoh karnakaram ) बर्हापींड नटवरवपुः कर्णयो: कर्णिकारं everything,
وہ اپنے کانوں میں کرنیکا کے پھول لگاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کمل جیسے پیروں کی پورے ورندا وَن میں چھاپ چھوڑی ہے ۔ گائیں کے ریوڑ ، اُن کی تعریف کرتے ہیں ۔ اُن کی بانسری تمام خوش قسمت لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو راغب کرتی ہے ۔ اس لئے قدیم ویدک صحیفوں میں ، جن شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے اور جو حقیقی طور پر عقیدت مند ہیں ، اسے ایک آرٹ کے طورپر اپناتے ہیں اور اس قوت کی وجہ سے یہ زندگی تبدیل کرنے والی ہے اور اس میں میری کسی قوت کا دخل نہیں ہے ۔
پی ایم سر :
جدو رانی جی ، میرے آپ سے کچھ الگ طرح کے سوال ہیں ۔ 1966 ء سے ، اور خاص طور سے 1976 ء سے آپ طویل عرصے سے بھارت سے منسلک ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ بھارت ،آپ کے لئے کیا حیثیت رکھتا ہے ؟
جدو رانی جی:
وزیر اعظم جی ، بھارت میرے لئے سب کچھ ہے۔ میں بتاتی ہوں کہ میں نے کچھ دن پہلے صدر جمہوریہ سے بات کی تھی کہ بھارت تکنیکی طورپر بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے اور ٹوئیٹر انسٹاگرام اور آئی فون اور بڑی بڑی عمارتوں میں مغرب کی راہ پر آگے بڑھا ہے ۔ یہاں تک کے ہر سہولت میں آگے بڑھ رہا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ بھارت کی حقیقی عظمت نہیں ہے ۔ بھارت کو ، جو چیز عظیم بناتی ہیں ، وہ حقیقت یہ ہے کہ کرشنا خود اوتار لے کر یہاں آئے اور سبھی اوتار یہاں پہنچے ۔ بھگوان شیو نے یہاں اوتار لیا ، بھگوان رام یہاں آئے ۔ تمام مقدس دریا یہاں ہیں ۔ ویشنو کلچر کے تمام مقدس مقامات یہاں ہیں ۔ اس لئے بھارت ، خاص طور پر ورندا وَن پوری کائنات میں سب سے اہم مقام ہے ۔ ورندا وَن تمام ویکنٹھ سیاروں کا وسیلہ ہے ، دواریکا کا وسیلہ ہے ۔ تمام ماد ی تخلیق کا وسیلہ ہے ۔ اس لئے میں بھارت سے محبت کرتی ہوں ۔
پی ایم سر : شکریہ یدو رانی راجی ۔ ہرے کرشنا !
ساتھیو ،
جب دنیا کے لوگ آج ہندوستانی روحانیت اور فلسفے کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں ، تب ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ان عظیم روایات کو آگے بڑھائیں۔ جو لازوال ہے ، اسے چھوڑنا ہی ہے لیکن جو گزرا ہوا زمانہ ہے ، اُسے آگے بھی لے جانا ہے ۔ آئیے ، ہم اپنے تہوار منائیں ، اس کی سائنسی اہمیت کو سمجھیں ، اس کے پس پشت معنی کو سمجھیں۔ یہی نہیں ، ہر تہوار میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے ، کوئی نہ کوئی رسم ہوتی ہے۔ ہمیں اسے جاننا بھی ہے ، اسے زندہ رکھنا ہے اور اسے آنے والی نسلوں کے لئے میراث کے طور پر منتقل کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر تمام اہل وطن کو جنم اشٹمی کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو ، مجھے اس کورونا دور میں صفائی کے بارے میں جتنی بات کرنی چاہیئے تھی ، لگتا ہے ، شاید اس میں کمی آئی ہے۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں صفائی کی مہم کو ذرا بھی کم نہیں ہونے دینا چاہیئے ۔ قوم کی تعمیر کے لیے ہر ایک کی کوششیں کس طرح ترقی کرتی ہیں ، اس کی مثالیں بھی ہمیں متاثر کرتی ہیں اور کچھ کرنے کے لیے نئی توانائی دیتی ہیں ، نیا اعتماد دیتی ہیں ، ہمارے عزم کو زندگی دیتی ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بھی سووچھ بھارت ابھیان کی بات آتی ہے تو اندور کا نام سامنے آتا ہے کیونکہ اندور نے صفائی کے حوالے سے ایک خاص پہچان بنائی ہے اور اندور کے شہری اس کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہمارا اندور کئی سالوں سے ‘ سوچھ بھارت رینکنگ ’ میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔ اب اندور کے لوگ سووچھ بھارت کی اس درجہ بندی سے مطمئن نہیں بیٹھنا چاہتے ، وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنے ذہن میں جو فیصلہ کیا ہے ، وہ ‘ واٹر پلس سٹی ’ کو برقرار رکھنے کے لئے سخت محنت کر رہےہیں ۔ ‘ واٹر پلس سٹی ’ یعنی ایسا شہر ، جہاں صفائی کے بغیر کسی بھی سیوریج کا پانی عام پانی کے وسائل میں نہیں چھوڑا جاتا ۔ یہاں کے شہریوں نے خود آگے آکر اپنی نالیوں کو سیور لائن سے جوڑا ہے۔ سووچھتا ابھیان بھی چلایا ہے اور اس وجہ سرسوتی اور کانہا دریاؤں میں گرنے والا گندا پانی بھی کافی حد تک کم ہوگیا ہے اور بہتری نظر آرہی ہے۔ آج ، جب ہمارا ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے ، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمیں سووچھ بھارت ابھیان کی قرارداد کو کبھی سست نہیں پڑنے دینا ہے۔ ہمارے ملک میں جتنے زیادہ شہر ‘پلس سٹی ’ ہوں گے ، اتنا ہی صفائی میں اضافہ ہوگا ، ہمارے دریا بھی صاف ہوں گے اور پانی بچانے کی انسانی ذمہ داری کو پورا کرنے کی بھی تہذہب ہو گی ۔
دوستو ،
بہار کے مدھوبنی سے میرے سامنے ایک مثال آئی ہے۔ مدھوبنی میں ڈاکٹر راجندر پرساد زرعی یونیورسٹی اور مقامی کرشی وگیان مرکز نے مل کر اچھی کوشش کی ہے۔ کسانوں کو اس کا فائدہ مل رہا ہے ، یہ سووچھ بھارت ابھیان کو نئی طاقت بھی دے رہا ہے۔ یونیورسٹی کے اس اقدام کا نام ہے – ‘‘ سکھیت ماڈل ’’ ۔ سکھیت ماڈل کا مقصد دیہات میں آلودگی کو کم کرنا ہے۔ اس ماڈل کے تحت گاؤں کے کسانوں سے گائے کا گوبر اور دیگر گھریلو کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے اور بدلے میں گاؤں والوں کو کھانا پکانے کے گیس سلنڈر کے لیے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ گاؤں سے جمع ہونے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے ورمی کمپوسٹ بنانے کا کام بھی کیا جا رہا ہے یعنی سکھیت ماڈل کے چار فوائد براہ راست نظر آتے ہیں۔ ایک ، گاؤں آلودگی سے آزاد ، دوسرا گاؤں گندگی سے آزاد ، تیسرا گاؤں والوں کو ایل پی جی سلنڈر کے پیسے اور چوتھا گاؤں کے کسانوں کو نامیاتی کھاد کی فراہمی۔ آپ سوچیئے ، اس طرح کی کوششیں ہمارے دیہات کی طاقت کو کتنا بڑھا سکتی ہیں۔ یہ خود انحصاری کا موضوع ہے۔ میں ملک کی ہر پنچایت سے کہوں گا کہ انہیں بھی یہاں کچھ ایسا کرنے کا سوچنا چاہیئے اور دوستو ، جب ہم ایک مقصد کے ساتھ نکلتے ہیں تو نتیجے کا ملنایقینی ہوتا ہے ۔ اب دیکھئے نا ، ہمارے تمل ناڈو میں شیو گنگا ضلع کی کانجی رنگال پنچایت ۔ دیکھیئے ، اس چھوٹی سی پنچایت نے کیا کیا ۔ یہاں پر آپ کو ویسٹ سے ویلتھ کا ایک ماڈل دیکھنے کو ملےگا ۔ یہاں گرام پنچایت نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے گاؤں میں کچرے سے بجلی پیدا کرنے کا پروجیکٹ گاؤں میں لگایا ہے ۔ پورے گاؤں سے کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے ، اس سے بجلی پیدا ہوتی ہے اور باقی بچے ہوئے فضلہ کو کیڑے مار دوا کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے ۔ گاؤں کے اس پاور پلانٹ کی صلاحیت یومیہ دو ٹن کچرے کا استعمال کرنا ہے ۔ اس سے بننے والی بجلی گاؤں کی سڑکوں پر لگی لائٹوں اور دوسری ضرورتوں میں استعمال ہو رہی ہے ۔ اس سے پنچایت کا پیسہ تو بچ ہی رہا ہے اور پیسہ دوسرے کاموں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اب مجھے بتائیے ، تمل ناڈو کے شیو گنگا ضلع کی ایک چھوٹی سی پنچایت ہم سبھی ہم وطنوں کو کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے یا نہیں ،کمال ہی کیا ہے نا انہوں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
‘ من کی بات ’ اب ہندوستان کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف کونوں میں بھی ‘ من کی بات ’ پر گفتگو ہوتی ہے اور بیرونی ملکوں میں رہنے والے ہمارے ہندوستانی سماج کے لوگ ، وہ بھی مجھے بہت سی نئی نئی معلومات دیتے رہتے ہیں اور مجھے بھی کبھی کبھی ‘ من کی بات ’ میں بیرونی ملکوں میں ، جو انوکھے پروگرام چلتے ہیں ، اُن کی باتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا اچھا لگتا ہے ۔ آج بھی میں آپ کو کچھ ایسے لوگوں سے متعارف کراؤں گا لیکن اس سے پہلے میں آپ کو ایک آڈیو سنانا چاہتا ہوں۔ تھوڑا غور سے سنیئے ۔
##
[रेडियो युनिटी नाईन्टी एफ्.एम्.-2]
नमोनमः सर्वेभ्यः | मम नाम गङ्गा | भवन्तः शृण्वन्तु रेडियो-युनिटी-नवति-
एफ्.एम् –‘एकभारतं श्रेष्ठ-भारतम्’ | अहम् एकतामूर्तेः मार्गदर्शिका एवं रेडियो-
युनिटी-माध्यमे आर्.जे. अस्मि | अद्य संस्कृतदिनम् अस्ति | सर्वेभ्यः बहव्यः
शुभकामनाः सन्ति| सरदार-वल्लभभाई-पटेलमहोदयः ‘लौहपुरुषः’ इत्युच्यते | २०१३-
तमे वर्षे लौहसंग्रहस्य अभियानम् प्रारब्धम् | १३४-टन-परिमितस्य लौहस्य गलनं
कृतम् | झारखण्डस्य एकः कृषकः मुद्गरस्य दानं कृतवान् | भवन्तः
शृण्वन्तु रेडियो-युनिटी-नवति-एफ्.एम् –‘एकभारतं श्रेष्ठ-भारतम्’ |
[रेडियो युनिटी नाईन्टी एफ्.एम्.-2]
##
ساتھیو ،
زبان تو آپ نے سمجھ گئے ہوں گے ۔ یہ ریڈیو پر سنسکرت میں بات کی جا رہی ہے اور جو بات کر رہی ہیں ، وہ آر جے گنگا ہیں ۔ آر جے گنگا گجرات کے ریڈیو جوکی گروپ کی رکن ہیں۔ ان کے اور بھی ساتھی ہیں ، جیسے آر جے نیلم ، آر جے گرو اور آر جے ہیتل۔ یہ تمام لوگ گجرات میں ، کیوڑیا میں اِس وقت سنسکرت زبان کی قدر بڑھانے میں مصروف ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کیوڑیا وہی ہے ، جہاں دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ، ہمارے ملک کا فخر ، مجسمۂ اتحاد ہے ، میں اس کیوڑیا کے بارے میں بات کر رہا ہوں اور یہ سب ایسے ریڈیو جوکی ہیں ، جو بیک وقت کئی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ گائیڈ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں نیز کمیونٹی ریڈیو انیشئیٹو ، ریڈیو یونٹی 90 ایف ایم چلاتے ہیں۔ یہ آر جے اپنے سننے والوں سے سنسکرت زبان میں بات کرتے ہیں ، انہیں سنسکرت میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔
ساتھیو ،
ہمارے یہاں سنسکرت کے بارے میں کہا گیا ہے -
अमृतम् संस्कृतम् मित्र, सरसम् सरलम् वचः |
एकता मूलकम् राष्ट्रे, ज्ञान विज्ञान पोषकम् |
یعنی ہماری سنسکرت زبان میٹھی بھی ہے اور آسان بھی ۔
سنسکرت اپنے خیالات ، اپنے ادب کے ذریعے ، اس علم ، سائنس اور قوم کی وحدت کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔ اس کو مضبوط کرتی ہے ۔ یہ سنسکرت ادب میں انسانیت اور علم کا الہی فلسفہ ہے ، جو کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ حال ہی میں ، مجھے ایسے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا ، جو بیرون ملک سنسکرت پڑھانے کا تحریکی کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص ہیں ،جناب رٹگر کورٹن ہارسٹ ، جو آئر لینڈ میں سنسکرت کے معروف دانشور ہیں اور استاد ہیں اور وہاں بچوں کو سنسکرت پڑھاتے ہیں ۔ اِدھر ہمارے یہاں مشرق میں بھارت اور تھائی لینڈ کے درمیان ثقافتی تعلقات کی مضبوطی میں سنسکرت کا بھی اہم کردار ہے ۔ ڈاکٹر چراپت پرپنڈ وِدیا اور ڈاکٹر کسوما رکشا منی ، یہ دونوں تھائی لینڈ میں سنسکرت زبان کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے تھائی اور سنسکرت زبانوں میں تقابلی ادب بھی تحریر کیا ہے۔ ایسے ہی ایک پروفیسر مسٹر بورس زاخرِن ہیں ، جو روس کی ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں سنسکرت پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کئی تحقیقی مقالے اور کتابیں شائع کی ہیں۔ انہوں نے سنسکرت سے روسی میں کئی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح سڈنی سنسکرت اسکول ، آسٹریلیا کے معروف اداروں میں سے ایک ہے ، جہاں طلباء کو سنسکرت زبان سکھائی جاتی ہے۔ یہ اسکول بچوں کے لئے سنسکرت گرامر کیمپ ، سنسکرت ناٹک اور سنسکرت ڈے جیسے پروگراموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
ساتھیو ،
حالیہ دنوں میں کی جانے والی کوششوں نے سنسکرت کے بارے میں ایک نئی آگاہی پیدا کی ہے۔ اب اس سمت میں اپنی کوششوں کو بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے ورثے کا خیال رکھیں ، اسے سنبھالیں ، نئی نسل کو دیں اور آنے والی نسلوں کا بھی اس پر حق ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کاموں کے لیے بھی سب کی کوششیں بڑھائی جائیں۔ ساتھیو ، اگر آپ اس طرح کی کوششوں میں مصروف کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں ، اگر آپ کے پاس ایسی کوئی معلومات ہے ، تو براہ کرم سوشل میڈیا پر ان سے متعلقہ معلومات CelebratingSanskrit# کے ساتھ شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
اگلے کچھ دنوں میں ہی ‘ وشوکرما جینتی ’ بھی آنے والی ہے ۔ بھگوان وشوکرما کو ہمارے یہاں دنیا کی تخلیقی طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جو بھی تخلیق کرتا ہے ، اپنی مہارت سے کوئی چیز تخلیق کرتا ہے ، چاہے وہ سلائی کڑھائی ہو ، سافٹ وئیر ہو یا سیٹلائٹ ، یہ سب بھگوان وشوکرما کا مظہر ہے۔ اگرچہ آج دنیا میں ہنر کو ایک نئے طریقے سے تسلیم کیا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے رشیوں نے ہزاروں سالوں سے مہارت اور پیمانے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مہارت کو ، ہنر کو ، اہلیت کو عقیدت سے جوڑ کر ہماری زندگی کا حصہ بنا دیا ہے ۔ ہمارے ویدوں نے بھی کئی سُکت بھگوان وشو کرما کو وقف کی ہیں ۔ کائنات کی تمام عظیم تخلیقات ، جو بھی نئی اور بڑی چیزیں کی گئی ہیں ، ان کا کریڈٹ ہماری کتابوں میں بھگوان وشوکرما کو دیا گیا ہے۔ ایک طرح سے ، یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ دنیا میں جو بھی ترقی اور جدت واقع ہوتی ہے ، وہ صرف مہارت سے ہوتی ہے۔ بھگوان وشوکرما کی سالگرہ اور ان کی پوجا کے پیچھے یہی روح ہے اور ہمارے شاستروں میں بھی یہی کہا گیا ہے –
‘विश्वम कृत्-सन्म कर्म व्यापारो यस्य सः विश्वकर्मा’
یعنی جو کائانت اور تعمیر سےجڑے کام کرتاہے ، وہ وشو کرما ہے ۔ ہمارے شاستروں کی نظر میں ، ہمارے ارد گرد تخلیق اور تخلیق میں مصروف تمام ہنر مند لوگ بھگوان وشوکرما کی میراث ہیں۔ ہم ان کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آپ سوچیئے اور دیکھیئے ، اگر آپ کے گھر میں بجلی کا کوئی مسئلہ ہے اور آپ کو کوئی الیکٹریشن نہیں ملتا تو کیا ہوگا؟ آپ کو کتنا بڑا مسئلہ درپیش ہوگا۔ ایسے کئی ہنر مند لوگوں کی وجہ سے ہماری زندگی چلتی ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھئے ، چاہے لوہے کا کام کرنے والے ہوں ، مٹی کے برتن بنانے والے ہوں ، لکڑی کے کام کرنے والے ہوں ، الیکٹریشن ہوں ، گھر کا پینٹر ہو ، جھاڑو لگانے والا ہو ، یا موبائل لیپ ٹاپ کا ریپیئر کرنے والا ہو ، یہ سب ساتھی مرمت کرنے والے صرف اپنی مہارت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ نئی شکل میں ، وہ وشوکرما بھی ہیں۔ لیکن دوستو ، اس کا ایک اور پہلو ہے اور یہ بعض اوقات تشویش کا باعث بھی بنتا ہے ۔ ایک ایسے ملک میں ، جہاں کی تہذیب میں ، روایت میں ، سوچ میں ، ہنر کو ، اسکل مین پاور کو بھگوان وشوکرما کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہو ، وہاں صورت حال کیسے بدل گئی ہے ،ایک وقت تھا ، ہماری خاندانی زندگی ، سماجی زندگی ، قومی زندگی پر اہلیت کا بہت بڑا اثر رہتاتھا لیکن غلامی کے لمبے دور میں ہنرکو اس طرح کا احترام دینے والا جذبہ رفتہ رفتہ ختم ہو گیا ہے۔ اب کچھ ایسی سوچ بن گئی ہے کہ ہنر پر مبنی کام کو چھوٹا سمجھا جانے لگا ہے اور آج دیکھیئے ، پوری دنیا ، سب سے زیادہ ہنر یعنی اسکل پر ہی زور دے رہی ہے۔ بھگوان وشوکرما کی پوجا بھی صرف رسموں سے ہی پوری نہیں ہوئی ۔ ہمیں ہنر کا احترام کرنا ہوگا ، ہمیں ہنر مند بننے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔ ہنر مند ہونے پر فخر کرنا چاہیئے ۔ جب ہم کچھ نیا کام کریں تو کچھ اختراعی کریں ، کچھ ایسا کام کریں ، جس سے سماج کا بھلاہو ، لوگوں کی زندگی آسان بنے ۔ تب ہماری وشوکرما پوجا درست ثابت ہو گی ۔ آج دنیا میں ہنر مند افراد کے لیے مواقع کی کمی نہیں ہے۔ ترقی کے کتنے راستے آج ہنر سے تیار ہو رہے ہیں ۔ تو آئیے ، اس بار ہم ، بھگوان وشوکرما کی پوجا پر ، آستھا کے ساتھ ساتھ ، اُن کے پیغامات کو بھی اپنانے کا عہد کریں ۔ ہماری پوجا کا جذبہ یہی ہونا چاہیئے کہ ہم ہنر مندی کی اہمیت کو سمجھیں ، ہنر مند لوگوں کو ، چاہے وہ کوئی بھی کام کرتا ہو ، ان کا پورا احترام کیا جائے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
یہ وقت آزادی کے 75 ویں سال کا ہے۔ اس سال تو ہمیں ہر دن نیا عہد کرنا ہے ۔ نیا سوچنا ہے اور کچھ نیا کرنے کا اپنا جذبہ بڑھانا ہے ۔ ہمارا بھار ت ، جب آزادی کے 100 سال پورے کرے گا ، تب ہمارے یہ عہد ہی ، اس کی کامیابی کی بنیاد بنیں گے ۔ ہمیں اس میں اپنا زیادہ سے زیادہ تعاون دینا ہے اور ان کوششوں کے بیچ ہمیں ایک بات اور یاد رکھنی ہے ۔ دوائی بھی ، کڑھائی بھی ۔ ملک میں 62 کروڑ سے زیادہ ویکسین کی ڈوز دی جا چکی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں احتیاط رکھنی ہے احتیاط برتنی ہے ۔ اور ہاں ، ہمیشہ کی طرح ، جب بھی آپ کچھ نیا کریں ، نیا سوچیں ، تو اس میں ، مجھے بھی شامل کریئے گا ۔ مجھے آپ کے خط اور میسیج کا انتظار رہے گا ۔ اسی خواہش کے ساتھ ، آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی ایک بار پھر بہت بہت مبارکباد ، بہت بہت شکریہ ۔
نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
دو دن پہلے کی کچھ خوبصورت تصویریں ، کچھ یاد گار پل ، اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ اس لئے اِس مرتبہ ’’ من کی بات‘‘ کی شروعات ، انہی لمحوں سے کرتے ہیں ۔ ٹوکیو اولمپکس میں بھارتی کھلاڑیوں کو ترنگا لے کر چلتے دیکھ کر میں ہی نہیں ، پورا ملک جھوم اٹھا ۔ پورے ملک نے جیسے ایک ہوکر اپنے اِن جانبازوں سے کہا –
تمہاری فتح ہو ! تمہاری فتح ہو !
جب یہ کھلاڑی بھارت سے روانہ ہوئے تھے تو مجھے ان کے ساتھ گپ شپ کرنے کا ، ان کے بارے میں جاننے اور ملک کو بتانے کا موقع ملا۔ یہ کھلاڑی زندگی کے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ آج ، ان کے پاس آپ کی محبت اور حمایت کی قوت ہے۔ اس لئے آئیے مل کر اپنے تمام کھلاڑیوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کریں، ملک کا حوصلہ بڑھائیں ۔ سوشل میڈیا پر اولمپکس کھلاڑیوں کی حمایت کے لئے ہمارا وِکٹری پنچ کمپین اب شروع ہو چکا ہے ۔ آپ بھی اپنی ٹیم کے ساتھ اپنا وِکٹری پنچ شیئر کریئے۔ بھارت کے لئے چیئر کریئے ۔
ساتھیو ، جو ملک کے لئے ترنگا اٹھاتا ہے ، اُس کے احترام میں جذباتی ہو جانا فطری بات ہے ۔ حب الوطنی کا یہ جذبہ ہم سب کو جوڑتا ہے ۔ کل یعنی 26 جولائی کو ’’ کرگل وجے دِوس ‘‘ بھی ہے۔ کرگل کی جنگ بھارتی فوجوں کی بہادری اور تحمل کی ایک ایسی علامت ہے ، جسے پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ اس بار یہ شاندار دن ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کے دوران منایا جائے گا ۔ اس لئے یہ اور بھی خاص ہوجاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ کرگل کی سنسنی خیز کہانی ضروری پڑھیں ، ہم سب کرگل کے بہادروں کو سلام پیش کریں۔
ساتھیو ، اس مرتبہ 15 اگست کو ، ملک آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہورہا ہے۔ یہ ہماری بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ جس آزادی کے لئے ملک نے صدیوں کا انتظار کیا ، اُس کے 75 سال پورے ہونے کے ہم گواہ بن رہے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا ، آزادی کے 75 سال منانے کے لئے ، ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کا آغاز 12 مارچ کو باپو کے سابرمتی آشرم سے ہوا تھا۔ اس دن باپو کی ڈانڈی یاترا کی بھی تجدید کی گئی تھی ، تب سے جموں و کشمیر سے پڈوچیری تک ، گجرات سے شمال مشرق تک ، ’’امرت مہوتسو ‘‘ سے متعلق پروگرام پورے ملک میں جاری ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات ، ایسے جدو جہد آزادی کے سپاہی، جن کا تعاون تو بہت زیادہ ہے لیکن اُن کا ذکر اتنا نہیں ہو پایا ، آج لوگ ان کے بارے میں بھی جان رہے ہیں۔ اب ، مثال کے طور پر ، موئیرانگ ڈے کو ہی لے لیجئے ! منی پور کا ایک چھوٹا سا قصبہ ، موئیرانگ ، کسی زمانے میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی یعنی ( آئی این اے ) کا ایک اہم ٹھکانہ تھا۔ یہاں ، آزادی سے قبل ہی ، آئی این اے کے کرنل شوکت ملک نے پرچم لہرایا تھا۔ ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کے دوران 14 اپریل کو اسی موئیرانگ میں ایک بار پھر ترنگا لہرایا گیا۔ ایسے بہت سے آزادی کے سپاہی اور عظیم شخصیات ہیں ، جنہیں ’’ امرت مہوتسو ‘‘ میں ملک یاد کر رہا ہے ۔ حکومت اور سماجی اداروں کی طرف سے بھی لگاتار اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ ایسا ہی ایک پروگرام اس مرتبہ 15 اگست کو ہونے والا ہے ۔ یہ ایک کوشش ہے – قومی ترانے سے جڑی ہوئی ۔ ثقافت کی وزارت کی کوشش ہے کہ اس دن ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ لوگ قومی ترانہ ایک ساتھ مل کر گائیں ۔ اس کے لئے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے Rashtragan.in۔ اس ویب سائٹ کی مدد سے آپ قومی ترانہ گاکر ، اُسے ریکارڈ کر سکیں گے، اس مہم سے جڑ سکیں گے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس انوکھی پہل سے ضرور جڑیں گے ۔ اسی طرح کی بہت ساری مہم ، بہت ساری کوششیں آپ کو آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملیں گی ۔ ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کسی حکومت کا پروگرام نہیں ہے ، کسی سیاسی پارٹی کا پروگرام نہیں ہے ، یہ پوری طرح ہندوستانیوں کا پروگرام ہے ۔ ہر آزاد اور ممنون ہندوستانی کا اپنے آزادی کے سپاہیوں کو سلام ہے اور اس مہوتسو کا بنیادی جذبہ تو بہت وسیع ہے ۔ یہ جذبہ ہے ، اپنے جدو جہد آزادی کے سپاہیوں کے راستے پر چلنا ، اُن کے خوابوں کا ملک بنانا ، جیسے – ملک کی آزادی کے متوالے ، آزادی کے لئے متحد ہوگئے تھے ، ویسے ہی ہمیں ملک کی ترقی کے لئے متحد ہونا ہے ۔ ہمیں ملک کے لئے جینا ہے ، ملک کے لئے کام کرنا ہے اور اس میں چھوٹی چھوٹی کوششوں سے بھی بڑے نتائج حاصل ہو جاتے ہیں ۔ روز مرہ کے کام کرتے ہوئے بھی ہم قوم کی تعمیر کر سکتے ہیں ، جیسے ووکل فار لوکل ۔ ہمارے ملک کے مقامی صنعت کاروں ، فن کاروں ، دست کاروں ، بنکروں کی حمایت کرنا ، ہمارے رویے میں ہونا چاہیئے ۔ 7 اگست کو آنے والا قومی یومِ ہینڈلوم ایک ایسا ہی موقع ہے ، جب ہم کوشش کرکے بھی یہ کام کرسکتے ہیں ۔ قومی یومِ ہینڈ لوم کے ساتھ بہت تاریخی واقعہ جڑا ہوا ہے ۔ اسی دن 1905 ء میں سودیشی کی شروعات ہوئی تھی ۔
ساتھیو ، ہمارے ملک کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں ہینڈ لوم کمائی کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہے ۔ یہ ایسا شعبہ ہے ، جس سے لاکھوں خواتین ، لاکھوں بنکر ، لاکھوں دست کار جڑے ہوئے ہیں ۔ آپ کی چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے بنکروں کو نئی امید ملے گی۔ آپ خود بھی کچھ نہ کچھ خریدیں اور اپنی بات دوسروں کو بھی بتائیں اور جب ہم آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسا کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا ، سال 2014 ء کے بعد سے ہی ’’ من کی بات ‘‘ میں ہم اکثر کھادی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ آپ کی ہی کوشش ہے کہ آج ملک میں کھادی کی فروخت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک کھادی کے کسی اسٹور سے ایک دن میں ایک کروڑ سے زیادہ کی فروخت ہو سکتی ہے! لیکن ، آپ نے یہ بھی کر دکھایا ہے۔ جب بھی آپ کہیں بھی کھادی کی کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس سے ہمارے غریب بنکر بھائیوں اور بہنوں کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ، کھادی خریدنا ایک طرح سے عوامی خدمت ہے ، یہ قوم کی خدمت بھی ہے۔ میں آپ سبھی عزیز بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ دیہی علاقوں میں تیار کردہ ہینڈلوم مصنوعات خریدیں اور اسے #MyHandloomMyPride کے ساتھ شیئر کریں۔
ساتھیو ، جب آزادی کی تحریک اور کھادی کی بات آتی ہے تو پوجیے باپو کو یاد رکھنا فطری بات ہے ۔ جیسے باپو کی قیادت میں ’’ بھارت چھوڑو ‘‘ مہم چلی تھی ، ویسے ہی آج ہر شہری کو ’’ بھارت جوڑو ‘‘ مہم کی قیادت کرنی ہے ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے کام اِس طرح کریں ، جو تنوع والے ہمارے بھارت کو جوڑنے میں مدد گار ہو سکیں ۔ تو آیئے ہم ’’ امرت مہوتسو ‘‘ پر یہ امرت عہد کریں کہ ملک ہی ہمارا سب سے بڑا عقیدہ اور سب سے بڑی ترجیح بنا رہے گا ۔ ’’ نیشن فرسٹ ، آلویز فرسٹ ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ہی ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج میں من کی بات سننے والے اپنے نوجوان ساتھیوں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی MyGov کی طرف سے ’’ من کی بات ‘‘ کے سامعین کے بارے میں ایک مطالعہ کیا گیا تھا ۔ اس مطالعے میں یہ دیکھا گیا کہ من کی بات کے لئے پیغامات اور مشورے بھیجنے والوں میں ، خاص طور پر کون لوگ ہیں ۔ مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پیغامات اور تجاویز بھیجنے والوں میں تقریباً تقریباً 75 فی صد لوگ 35 سال کی عمر سے کم ہیں یعنی بھارت کی نوجوان قوت کی تجاویز ’’ من کی بات ‘‘ کو راستہ دکھا رہی ہیں ۔ میں اسے ایک بہت اچھی علامت کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ ’’ من کی بات ‘‘ ایک ایسا ذریعہ ہے ، جہاں مثبت انداز اور حساسیت پائی جاتی ہے ۔ ’’ من کی بات ‘‘ میں ہم مثبت باتیں کرتے ہیں ۔ اس کا کریکٹر اجتماعی ہے ۔
مثبت خیالات اور مشوروں کے لئے بھارت کے نو جوانوں کی یہ سرگرمی مجھے خوش کرتی ہے ۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ’’ من کی بات ‘‘ کے ذریعے مجھے نو جوانوں کے دِل کو بھی جاننے کا موقع ملتا ہے ۔
ساتھیو ، آپ لوگوں سے ملے مشورے ہی ’’ من کی بات ‘‘ کی اصل طاقت ہیں ۔ آپ کی تجاویز ’’ من کی بات ‘‘ کے ذریعے بھارت کے تنوع کا اظہار کرتی ہیں ، بھارت میں رہنے والوں کی خدمت اور قربانی کو چاروں طرف پھیلاتی ہیں ۔ ہمارے محنت کش نو جوانوں کے اننوویشن سب کو ترغیب دیتے ہیں ۔ ’’ من کی بات ‘‘ میں آپ کئی طرح کے آئیڈیاز بھیجتے ہیں ۔ ہم سبھی پر تو تبادلۂ خیال نہیں کر سکتے لیکن اُن میں سے بہت سے آئیڈیا کو میں متعلقہ شعبوں کو ضرور بھیجتا ہوں تاکہ اُن پر آگے کام کیا جا سکے ۔
ساتھیو ، میں آپ کو سائیں پرنیت جی کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ سائیں پرنیت جی ، ایک سافٹ ویئر انجینئر ہیں ۔ آندھرا پردیش کے رہنے والے ہیں ۔ پچھلے سال انہوں نے دیکھا کہ اپنی جگہ موسم کی وجہ سے کسانوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کئی سالوں سے محکمہ موسمیات میں دلچسپی لے رہے تھے ۔ لہٰذا انہوں نے اپنی دلچسپی اور اپنی صلاحیتوں کو کسانوں کی بہتری کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ موسم کے اعداد و شمار کو مختلف اعداد و شمار کے ذرائع سے خریدتے ہیں ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور مقامی زبان میں مختلف ذرائع کے ذریعہ کاشت کاروں کو ضروری معلومات منتقل کرتے ہیں۔ موسم کی تازہ معلومات کے علاوہ ، پرنیت جی الگ الگ آب و ہوا کی صورت حال میں لوگوں کو کیا کرنا چاہیئے ، اس کی بھی رہنمائی کرتے ہیں ، خاص طور پر سیلاب سے بچنے کے لئے یا طوفان یا آسمانی بجلی کی صورت میں کیسے بچا جائے ، اس کے بارے میں بھی وہ لوگوں کو بتاتے ہے۔
ساتھیو ، ایک طرف اس نوجوان سافٹ ویئر انجینئر کی یہ کوشش دل کو چھو لینے والی ہے ، دوسری طرف ہمارے ایک اور ساتھی کے ذریعہ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی آپ کو تعجب کرنے پر مجبور کرے گا ۔ یہ ساتھی ہیں ، اڈیشہ کے سنبل پور ضلعے کے ایک گاؤں میں رہنے والے جناب اسحاق منڈا جی ، جو کبھی ایک دیہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے لیکن اب وہ ایک انٹرنیٹ سنسیشن بن گئے ہیں ۔ اپنے یو ٹیوب چینل سے وہ کافی رقم کما رہے ہیں ۔ وہ اپنے ویڈیوز میں مقامی کھانے ، روایتی کھانے بنانے کے طریقے ، اپنے گاؤں ، اپنی طرز زندگی ، خاندان اور کھانے پینے کی عادتوں کو خاص طور سے دکھاتے ہیں ۔ ایک یو ٹیوبر کی شکل میں ، اُن کا سفر مارچ ، 2020 ء میں شروع ہوا تھا ، جب انہوں نے اڈیشہ کے مشہور مقامی کھانے پکھال سے جڑا ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا ۔ تب سے اب تک وہ سینکڑوں ویڈیو پوسٹ کر چکے ہیں۔ یہ کوشش کئی وجہ سے سب سے الگ ہے ، خاص طور پر اس لئے کہ اس سے شہروں میں رہنے والے لوگوں کو ، وہ طرز زندگی دیکھنے کا موقع ملتاہے ، جس کے بارے میں وہ زیادہ کچھ نہیں جانتے ۔ اسحاق منڈا جی کلچر اور کھانوں دونوں کو برابر ملاکر جشن منا رہے ہیں اور ہم سب کو تحریک بھی دے رہے ہیں ۔
ساتھیو ، جب ہم ٹیکنالوجی کی بات کر رہے ہیں تو میں ایک اور دلچسپ موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے حال فی الحال میں پڑھا ہوگا ، دیکھا ہوگا کہ آئی آئی ٹی مدراس کے طالب علم کے ذریعے قائم کی گئی ایک اسٹارٹ اَپ نے ایک 3 ڈی پرنٹڈ ہاؤس بنایا ہے ۔ 3 ڈی پرنٹنگ کرکے گھر کی تعمیر ، آخر یہ ہوا کیسے ؟ دراصل اِس اسٹارٹ اَپ نے سب سے پہلے 3 ڈی پرنٹر میں ایک تین پہلو والے ڈیزائن کو فیڈ کیا اور پھر ایک خاص طرح کی کنکریٹ کے ذریعے پرت دَر پرت ایک تھری ڈی ڈھانچہ تیار کر دیا ۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملک بھر میں ، اِس طرح کی کئی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ ایک وقت تھا ، جب چھوٹے چھوٹے تعمیری کام میں بھی کئی سال لگ جاتے تھے لیکن آج ٹیکنا لوجی کی وجہ سے بھارت میں صورتِ حال بدل رہی ہے ۔ کچھ وقت پہلے ہم نے دنیا بھر کی ایسی اختراعی کمپنیوں کو مدعو کرنے کے لئے ایک عالمی ہاؤسنگ ٹیکنالوجی چیلنج لانچ کیا تھا ۔ یہ ملک میں اپنی نوعیت کی ایک انوکھی کوشش ہے ۔ لہٰذا ، ہم نے ان کو لائٹ ہاؤس پروجیکٹس کا نام دیا۔ اس وقت ملک میں 6 مختلف مقامات پر لائٹ ہاؤس پروجیکٹس پر تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ ان لائٹ ہاؤس پروجیکٹس میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس سے تعمیرات کا وقت کم ہوجاتا ہے نیز جو مکانات تعمیر کئے گئے ہیں ، وہ زیادہ پائیدار ، کفایتی اور آرام دہ ہوتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ڈرون کے ذریعے ان منصوبوں کا جائزہ لیا اور کام کی پیشرفت کو براہ راست دیکھا۔
اِندور کے پروجیکٹ میں ، بِرک اور مورٹار وال کی جگہ پری فیبریکیٹڈ سینڈویچ پینل سسٹم استعمال کیا جارہا ہے۔ راجکوٹ میں لائٹ ہاؤس فرانسیسی ٹیکنالوجی سے بنائے جا رہے ہیں ، جس میں سرنگوں کے ذریعہ کنکریٹ کی تعمیراتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے بنائے گئے گھر آفات کا سامنا کرنے کے کہیں زیادہ اہل ہوں گے۔ چنئی میں ، امریکہ اور فن لینڈ کی پری کاسٹ کنکریٹ سسٹم ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی مدد سے مکانات تیزی سے تعمیر ہوں گے اور لاگت بھی کم آئے گی۔ جرمنی کے تھری ڈی کنسٹرکشن سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے رانچی میں مکانات تعمیر کئے جائیں گے۔ اس میں ، ہر کمرے کو الگ سے بنایا جائے گا ، پھر پورے ڈھانچے کو اسی طرح جوڑا جائے گا ، جیسے بلاک کھلونوں کو جوڑا جاتا ہے ۔ نیوزی لینڈ کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اسٹیل فریم کے ساتھ اگرتلا میں مکانات تعمیر ہورہے ہیں ، جو بڑے زلزلوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ وہیں لکھنؤ میں کناڈا کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس میں پلاسٹر اور پینٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور گھر کو تیزی سے بنانے کے لئے پہلے سے تیار دیواریں استعمال کی جائیں گی۔
ساتھیو، آج ملک میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ یہ پروجیکٹ انکیوبیشن سینٹرز کے طور پر کام کریں ۔ اس سے ہمارے منصوبہ بندی کرنے والوں ، آرکیٹیکٹس ، انجینئرز اور طلباء نئی ٹیکنالوجی کو جان سکیں گے اور وہ اس کے ساتھ تجربہ بھی کرسکیں گے۔ میں ان چیزوں کو خصوصاً اپنے نوجوانوں کے لئے ساجھا کر رہا ہوں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو قوم کے مفاد میں ٹیکنالوجی کے نئے شعبوں کی طرف راغب کیا جاسکے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آپ نے انگریزی کی کہاوت ضرور سنی ہوگی – ’’ ٹو لرن اِز ٹو گرو ‘‘ یعنی ’’ سیکھنا ہی آگے بڑھنا ہے‘‘ ۔ جب ہم کچھ نیا سیکھتے ہیں تو ہمارے لئے نئے نئے راستے خود بہ خود کھل جاتے ہیں ۔ جب بھی کہیں لیگ سے ہٹ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش ہوئی ہے ، انسانیت کے لئے نئے دروازے کھلے ہیں ، ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کہیں بھی کوئی نیا واقعہ ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ سب کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اب جیسے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ وہ کون سی ریاستیں ہیں ، جن کو آپ سیب کے ساتھ جوڑیں گے؟ تو ظاہر ہے کہ ہماچل پردیش ، جموں و کشمیر اور اتراکھنڈ کا نام آپ کے ذہن میں سب سے پہلے آئے گا لیکن اگر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ منی پور کو بھی اس فہرست میں جوڑ دیجئے تو شاید آپ کو بہت تعجب ہو گا ۔ کچھ نیا کرنے کے جذبے سے بھرے نوجوانوں نے منی پور میں یہ کارنامہ کر دکھایا ہے ۔ آج کل منی پور کے ضلع اخرول میں سیب کی کاشت زور پکڑتی جارہی ہے۔ یہاں کے کاشتکار اپنے باغات میں سیب اُگا رہے ہیں۔ سیب اگانے کے لئے ، ان لوگوں نے ہماچل جاکر باقاعدہ ٹریننگ بھی لی ہے۔ ان میں سے ایک ہیں ، ٹی ایس رِنگپھامی یونگ ۔ یہ پیشے سے ایک ایرو نوٹیکل انجینئر ہیں ۔ انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ ٹی ایس اینجل کے ساتھ مل کر سیب کی پیداوار کی ہے ۔ اسی طرح آوُنگ شی شمرے اوگسٹینا نے بھی اپنے باغوں میں سیب کی پیداوار کی ۔ آوُنگ شی دلّی میں جاب کرتی تھیں ۔ یہ چھوڑ کر وہ اپنے گاؤں لوٹ گئیں اور سیب کی کھیتی شروع کی ۔ منی پور میں آج ایسے کئی سیب پیدا کرنے والے ہیں ، جنہوں نے کچھ الگ اور نیا کرکے دکھایا ہے ۔
ساتھیو ، ہمارے قبائلی سماج میں بیر بہت مقبول ہوتے ہیں ۔ قبائلی سماج کے لوگ ہمیشہ سے بیر کی کاشت کرتے رہے ہیں لیکن خاص طور پر کووڈ – 19 وبائی بیماری کے بعد اس کی کاشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بکرم جیت چکما 32 سال کے ایسے ہی نوجوان ساتھی ہیں ، جو تری پورہ کے اناکوٹی کے رہنے والے ہیں ۔ انہوں نے بیر کی کھیتی کی شروعات کرکے بہت زیادہ منافع بھی حاصل کیا ہے اور اب وہ لوگوں کو بیری کی کاشت کرنے کے لئے بھی تحریک دے رہے ہیں ۔ ریاستی حکومت بھی ایسے لوگوں کی مدد کے لئے آگے آئی ہے۔ اس کے لئے حکومت کی طرف سے بہت ساری خصوصی نرسریاں بنائی گئی ہیں تاکہ بیر کی کاشت سے وابستہ لوگوں کی مانگ پوری کی جاسکے۔ کھیتی میں جدت طرازی ہو رہی ہے تو کھیتی کی پیداوار میں بھی تخلیقی پہلو دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
ساتھیو ، مجھے اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں کئے گئے ایک تجربے کے بارے میں بھی پتہ چلا ہے ۔ کووڈ کے دوران ہی لکھیم پور کھیری میں ایک انوکھی پہل ہوئی ہے ۔ وہاں ، خواتین کو کیلے کے بیکار تنوں سے فائبر بنانے کی تربیت دینے کا کام شروع کیا گیا۔ فضلے کو کارآمد بنانے کا طریقہ ۔ کیلے کے تنے کو کاٹ کر مشین کی مدد سے ’ بنانا فائبر ‘ تیار کیا جاتا ہے ، جو جوٹ یا سن کی طرح ہوتا ہے ۔ اس فائبر سے تھیلے ، چٹائی ، دری ، کتنی ہی چیزیں بنائی جاتی ہیں ۔ اس سے ایک تو فصل کے کچرے کا استعمال شروع ہو گیا ، وہیں دوسری طرف گاؤں میں رہنے والی ہماری بہن بیٹیوں کو آمدنی کا ایک ذریعہ مل گیا ۔ ’ بنانا فائبر ‘ کے اِس کام سے ایک مقامی خاتون کو 400 سے 600 روپئے یومیہ کی کمائی ہوجاتی ہے ۔ لکھیم پور کھیری میں سینکڑوں ایکڑ زمین پر کیلے کی کھیتی ہوتی ہے ۔ کیلے کی فصل کے بعد عام طور پر کسانوں کو ، اِس کے تنے کو پھینکنے کے لئے الگ سے خرچ کرنا پڑتا تھا ۔ اب اُن کا یہ پیسہ بھی بچ جاتا ہے یعنی آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام ، یہ کہاوت یہاں بالکل درست بیٹھتی ہے ۔
ساتھیو،ایک طرف بنانا فائبر سے سامان بنایا جارہا ہے ، وہیں دوسری طرف کیلے کے آٹے سے ڈوسا اور گلاب جامن جیسے مزیدار کھانے بھی بن رہے ہیں ۔ کرناٹک کے شمالی کنڑ اور جنوبی کنڑ ضلعوں میں خواتین یہ نیا کام کررہی ہیں ۔ اس کا آغاز بھی کورونا دور میں ہی ہوا ہے ۔ ان خواتین نے نہ صرف کیلے کے آٹے سے ڈوسا ، گلاب جامن جیسی چیزیں بنائی ہیں بلکہ ان کی تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا ہے ۔ جب زیادہ لوگوں کو کیلے کے آٹے کے بارے میں پتہ چلا تو اُس کی مانگ بھی بڑی اور ان عورتوں کی آمدنی بھی ۔ لکھیم پور کھیری کی طرح یہاں بھی اس اختراعی نظریے کی خواتین ہی قیادت کررہی ہیں ۔
دوستو، اس طرح کی مثالیں زندگی میں کچھ نیا کرنے کے لئے ترغیب فراہم کرتی ہیں۔ آپ کے آس پاس ایسے کئی لوگ ہوں گے۔ جب آپ کے کنبے کے افراد بات چیت میں مصروف ہوتے ہیں تو آپ کو بھی اس گفتگو میں حصہ لینا چاہئے۔ کچھ وقت نکال کر اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کی کوششوں کو دیکھنے جائیں اور اگر آپ کو موقع ملے ، تو خود بھی ایسا ہی کچھ کریں۔ اور ہاں، میں چاہوں گا کہ آپ یہ سب میرے ساتھ نمو ایپ یا مائی گو پر ساجھا کریں۔
میرے عزیز اہل وطن ، ہماری سنسکرت کی کتابوں میں ایک اشلوک ہے –
آتمن تھرم جیوالوکاسمن، کو نہ جیوتی مانواہ: |
پرم پروپکارتھم، یو جیوتی سا جیوتی ||
اس کا مطلب ہے، اس دنیا میں ہر کوئی اپنے لیے جیتا ہے۔ لیکن درحقیقت جیتا صرف وہی انسان ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے ہے۔ ’من کی بات‘ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں بھارت ماتا کے بیٹوں اور بیٹیوں کی انسان دوست کوششوں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں۔ آج بھی، ہم ایسے ہی دوستوں کے بارے میں بات کریں گے۔ ہمارے دوستوں میں سے ایک کاتعلق چنڈی گڑھ شہر سے ہے۔ میں بھی چنڈی گڑھ میں کچھ برس رہا ہوں۔ یہ ایک بہت ہی خوشگوار اور خوبصورت شہر ہے۔ چنڈی گڑھ کے عوام بھی بڑے دل والے ہوتے ہیں، اور ہاں، اگر آپ کھانے کے شوقین ہیں، تو یہاں آپ کو اور لطف آئے گا۔ چنڈی گڑھ کے سیکٹر 29 میں، سنجے رانا جی کا ایک فوڈ اسٹال ہے اور وہ اپنی سائیکل پر چھولے بھٹورے بیچتے ہیں۔ ایک دن ان کی بیٹی ردھیما اور بھانجی ریا ایک سجھاؤ لے کر آئیں۔ دونوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان لوگوں کو مفت چھولے بھٹورے کھلائیں جنہوں کووِڈ ٹیکہ لگوایا ہے۔ انہوں نے اس سجھاؤ کو بخوشی قبول کیا اور فوری طور پر اس اچھی اور نیک کوشش کا آغاز کیا۔ سنجے رانا جی کے چھولے بھٹورے مفت کھانے کے لئے، آپ کو یہ دکھانا ہوگا کہ آپ نے اس دن ٹیکہ لگوایا ہے۔ جب آپ ٹیکہ لگوانے سے متعلق پیغام دکھائیں گے تو وہ آپ کو لذیذ چھولے پیش کریں گے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سماج کی فلاح و بہبود کے لئے، پیسے سے زیادہ جذبۂ خدمت اور فرض کا احساس درکار ہوتا ہے۔ ہمارے سنجے بھائی اس قول کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔
دوستو، میں آج اس طرح کے کام کی ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ کوشش تمل ناڈو کے نیل گری علاقے میں کی جا رہی ہے۔ یہاں رادھیکا شاستری جی نے ایمبوآر ایکس (ایمبو ریکس) پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد پہاڑی علاقوں میں مریضوں کے علاج کے لئے آسان نقل و حمل فراہم کرانا ہے۔ انہوں نے ایمبو آر ایکس کے لئے اپنے کیفے کے ساتھیوں سے سرمایہ اکٹھا کیا تھا۔ آج چھ ایمبو آر ایکس نیل گری پہاڑی علاقوں میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں اور ہنگامی صورتحال کے دوران دور دراز کے علاقوں میں مریضوں کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔ ایک ایمبو آرایکس ایک اسٹریچر، ایک آکسیجن سلنڈر، فرسٹ ایڈ باکس اور دیگر سازومان پر مشتمل ہوتی ہے۔
دوستو، خواہ سنجے جی ہوں یا رادھیکا جی، ان کی مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم اپنے روزمرہ کے کام ، اپنا کاروبار اور نوکری کرتے ہوئے بھی خدمت کر سکتے ہیں۔
دوستو، چند روز قبل ایک بڑا ہی دلچسپ اور جذباتی واقعہ پیش آیا، جس نے بھارت۔جارجیا دوستی کو نئی قوت عطا کی۔ اس تقریب کے دوران، بھارت نے حکومت جارجیا اور وہاں کے عوام کو مقدس باقیات یا سینٹ کوئین کیٹیون کا آئیکن سونپا، اس مشن کے لئے ہمارے وزیر خارجہ بذاتِ خود وہاں گئے۔ یہ تقریب، جوکہ انتہائی جذباتی ماحول میں منعقد ہوئی، اس میں جورجیا کے صدر، وزیر اعظم، متعدد مذہبی قائدین، اور بڑی تعداد میں جارجیا کے عوام نے شرکت کی۔ اس تقریب کے دوران بھارت کی تعریف میں جو کلمات کہے گئے وہ یقیناً یادگار ہیں۔ اس واحد تقریب نے نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ گوا اور جارجیا کے مابین تعلقات کو بھی مضبوط کیا ۔ سینٹ کوئین کیٹیون کے مقدس باقیات 2005 میں گوا میں واقع سینٹ اگسٹائن چرچ میں پائے گئے تھے۔
دوستو، آپ کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا ۔۔۔ یہ سب چیزیں کس لیے ہیں اور یہ کیسے ہوا؟ درحقیقت، یہ واقعہ چار سو یا پانچ سو برس پہلے کا ہے۔ کوئین کیٹیون جارجیا کے شاہی خاندان کی بیٹی تھیں۔ دس سال کی قید کے بعد 1624میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ قدیم پرتگالی دستاویز کے مطابق، سینٹ کوئین کیٹیون کے باقیات کو پرانے گوا کے سینٹ آگسٹین کانوینٹ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن، ایک طویل مدت کے لئے یہ سمجھا گیا کہ گوا میں دفن ان کے باقیات 1930 کے زلزلے میں کہیں گم ہوگئے۔
حکومت ہند اور جارجیا کے مؤرخین ، محققین، ماہرین آثار قدیمہ اور جارجیا کی چرچ کی دہائیوں کی انتھک کوششوں کے بعد 2005 میں باقیات کو کامیابی کے ساتھ ڈھونڈھ لیا گیا۔یہ جارجیا کے عوام کے لئے ایک ازحدجذباتی موضوع ہے ۔ اسی لیے ان کے تاریخی، مذہبی اور روحانی جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، حکومت ہند نے جارجیا کے عوام کو ان باقیات کے ایک حصے کو بطور تحفہ دینے کا فیصلہ کیا۔ آج، بھارت اور جارجیا کی مشترکہ تاریخ کے اس منفرد حصے کی حفاظت کرنے کے لئے میں گوا کے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔گوا متعدد روحانی ورثے کی سرزمین کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ سینٹ آگسٹین چرچ یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے جو کہ گوا کے چرچوں اور کانوینٹس کا ایک حصہ ہے۔
میرے عزیز اہل وطن، اب مجھے آپ کو جارجیا سے سنگاپور لے جانے دیجئے، جہاں اس ماہ کے آغاز میں ایک اور شاندار موقع حاصل ہوا۔ سنگاپور کے وزیر اعظم اور میرے دوست لی شین لونگ نے حال ہی میں تجدید شدہ سیلت روڈ گورودوارے کا افتتاح کیا۔ انہوں نے روایتی سکھ پگڑی بھی پہنی۔ یہ گورودوارہ سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور یہاں بھائی مہاراج سنگھ کو وقف کیا گیا ایک میمورئیل بھی ہے۔ بھائی مہاراج جی بھارت کی آزادی کے لئے لڑے تھے اور یہ لمحہ اس وقت مزید متاثرکن ہو گیا ہے جب ہم آزادی کے 75 برسوں کا جشن منا رہے ہیں۔
دونوں ممالک کی عوام سے عوام کے درمیان طاقت کو اس طرح کی پہل قدمیوں اور کوششوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم آہنگی کے ماحول میں رہنا اور ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنا کتنا اہم ہے۔
میرے پیارے اہل وطن، آج ’من کی بات‘ میں ہم نے متعدد موضوعات پر بات چیت کی۔ ایک موضوع اور ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ یہ موضوع آبی تحفظ سے متعلق ہے۔ جس جگہ میرا بچپن گزرا، وہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہتی تھی۔ ہم بارش کے لئے ترستے تھے اور اسی لیے پانی کی ایک ایک بوند کی حفاظت کرنا ہماری روایات ، ہماری ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ اب ’عوامی شراکت داری کے توسط سے آبی تحفظ‘ کے منتر نے وہاں کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی ہے۔
دوستو، فطرت اور ماحولیات کی حفاظت بھارت کی ثقافتی زندگی میں پنہاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بارشوں اور مانسون نے ہمارے افکار، ہمارے فلسفے اور ہماری تہذیب کو سنوارا ہے۔ ’رِتو سنہار‘ اور ’میگھ دوت‘ میں، عظیم شاعر کالی داس نے خوبصورت انداز میں بارشوں کے بارے میں بیان کیا ہے۔ یہ نظمیں ادب کے چاہنے والوں میں آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بارشوں کی عظمت کو رگوید کی پرجانیا سکتم میں بھی بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح، زمین، سورج اور بارش کے درمیان رشتے پر بھی شریمد بھگوت میں منظوم انداز میں تفصیلی بیان ملتا ہے۔
اشٹو ماسان نپیت ید، بھومیا: چا، اود۔مایم وسو|
سوبھوگی: موکتم آرے بھے، پرجنیہ: کال آگتے||
اس کا مطلب ہے، سورج نے زمین کی دولت کو پانی کی شکل میں استعمال کیا، اب مانسون کے موسم میں، سورج یہ جمع کی گئی دولت زمین کو واپس کر رہا ہے۔ یقیناً، مانسون اور بارش کا موسم نہ صرف خوبصورت اور خوشگوار ہے، بلکہ یہ حیات بخش اور نشو و نما کرنے والا بھی ہے۔ ہمیں حاصل ہونے والا بارانی پانی ہماری مستقبل کی پیڑھی کے لئے، ہمیں یہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
آج ایک خیال میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ میں اپنی بات اس طرح کے دلچسپ حوالوں کے ساتھ پوری کروں۔ آنے والے تیوہاروں کے لئے آپ سبھی کو میری طرف سے نیک خواہشات۔ تیوہاروں اور جشن کے دور میں، آپ کو یہ یاد رکھنا ہے کہ کورونا ہمارے درمیان سے رخصت نہیں ہوا۔ آپ کورونا سے متعلق پروٹوکول کو فراموش نہ کریں۔ خداکرے کہ آپ سب صحت مند اور خوش رہیں۔
بہت بہت شکریہ!
نئی دلّی ، 27 جون / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! اکثر 'من کی بات' میں ، آپ کے سوالوں کی بوچھاڑ رہتی ہے ۔ اس بار میں نے سوچا کہ کچھ الگ کیا جائے ۔ میں آپ سے سوال کروں ۔ تو آپ دھیان سے سنیئے میرے سوال ۔
.... اولمپکس میں انفرادی گولڈ جیتنے والا پہلا ہندوستانی کون تھا؟
.... اب تک کس اولمپک کھیل میں ہندوستان زیادہ سے زیادہ میڈلز جیت چکا ہے؟
... اولمپکس میں کس کھلاڑی نے سب سے زیادہ تمغے جیتے ہیں؟
ساتھیو ، آپ مجھے MyGov پر جواب بھیجیں ، جس میں اولمپک پر ، جو کوئز ہے ، اُس میں سوالوں کے جواب دیں گے تو کئی سارے انعام جیتیں گے ۔ ایسے بہت سارے سوال MyGov کے 'روڈ ٹو ٹوکیو کوئز' میں موجود ہیں ۔ آپ 'روڈ ٹو ٹوکیو کوئز' میں حصہ لیں ۔ بھارت نے پہلے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ؟ ہماری ٹوکیو اولمپک کے لئے کیا تیاری ہے ؟ یہ سب خود جانیں اور دوسروں کو بھی بتائیں ۔ میں آپ سب سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس کوئز مقابلے میں ضرور حصہ لیں۔
ساتھیو ، ، جب بات ٹوکیو اولمپکس کی ہو رہی ہے تو بھلا ملکھا سنگھ جی جیسے لیجنڈری ایتھلیٹ کو کون بھول سکتا ہے! کچھ دن پہلے ہی ، کورونا نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ جب وہ اسپتال میں تھے تو مجھے ان سے بات کرنے کا موقع ملا تھا ۔
بات کرتے ہوئے میں نے اس سے اپیل کی ، میں نے کہا تھا کہ آپ نے 1964 ء میں ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کی تھی ۔ لہٰذا ، اس بار ، جب ہمارے کھلاڑی اولمپکس کے لئے ٹوکیو جارہے ہیں ، آپ کو ہمارے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی ، انہیں اپنے پیغام سے تحریک دلانا ہے۔ وہ کھیل کو لے کر اتنے سرشار اور پرجوش تھے کہ بیماری میں بھی انہوں نے فوراً ہی اس کے لئے حامی بھردی لیکن بدقسمتی سے قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے ، وہ 2014 ء میں سورت آئے تھے ۔ ہم لوگوں نے ایک نائٹ میراتھن کا افتتاح کیاتھا ۔ اُس وقت اُن سے جو بات چیت ہوئی ، کھیلوں کے بارے میں بات ہوئی ، اس سے مجھے بھی بہت تحریک ملتی تھی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملکھا سنگھ جی کا پورا کنبہ کھیلوں کے لئے وقف رہا ہے ، بھارت کا سر بلند کر تا رہا ہے ۔
ساتھیو ، جب صلاحیت ، ڈیڈیکیشن ، مستحکم عہد اور اسپورٹس مین اسپرٹ اکٹھے ہوجاتے ہیں ، تب جاکر کوئی چیمپئن بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں ، زیادہ تر کھلاڑی چھوٹے شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں سے آتے ہیں۔ ٹوکیو جانے والےہمارے اولمپک دستے میں بھی کئی ایسے کھلاڑی شامل ہیں ، جن کی زندگی بہت تحریک دلاتی ہے ۔ ہمارے پروین جادھو جی کے بارے میں آپ سنیں گے تو آپ کو بھی محسوس ہوگا کہ آپ کو بھی لگے گا کہ کتنی سخت جدو جہد سے گزرتے ہوئے پروین جی یہاں پہنچیں ہیں ۔ پروین جادھو جی مہاراشٹر کے ستارا ضلع کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں ۔ وہ تیر اندازی کے بہترین کھلاڑی ہیں ۔ ان کے والدین مزدوری کرکے خاندان چلاتے ہیں اور اب ان کا بیٹا اپنا پہلا اولمپکس کھیلنے ٹوکیو جارہا ہے۔ یہ نہ صرف ان کے والدین بلکہ ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے۔ اسی طرح ، ایک اور کھلاڑی ہیں ، ہماری نیہا گوئل جی۔ نیہا ٹوکیو جانے والی خواتین ہاکی ٹیم کی رکن ہیں۔ ان کی والدہ اور بہنیں فیملی کی کفالت کے لئے سائیکل فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ نیہا کی طرح ، دپیکا کماری کی زندگی کا سفر بھی اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے ۔ دیپیکا کے والد آٹو رکشہ چلاتے ہیں اور ان کی والدہ ایک نرس ہیں اور اب دیکھیں کہ دپیکا اب ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستان کی طرف سے اکلوتی خاتون تیر انداز ہیں۔ کبھی دنیا کی نمبر ایک تیر انداز رہی دیپکا کے ساتھ ہم سب کی نیک خواہشات ہیں ۔
ساتھیو ، زندگی میں جہاں بھی ہم پہنچتے ہیں ، جو بھی اونچائی ہم حاصل کرتے ہیں ، زمین کے ساتھ یہ ربط ، ہمیشہ ، ہماری جڑوں سے باندھے رکھتا ہے۔ جدوجہد کے دنوں بعد حاصل ہونے والی کامیابی کی خوشی بھی کچھ اور ہے ۔ہمارے کھلاڑیوں کو ٹوکیو جاتے ہوئے بچپن میں وسائل کی ہر کمی کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن انہوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اترپردیش کے مظفر نگر کی پرینکا گوسوامی جی کی زندگی بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ پرینکا کے والد بس کنڈکٹر ہیں۔ بچپن میں ، پرینکا کو وہ بیگ پسند تھا جو تمغہ جیتنے والوں کو ملتا تھا۔ اس کی چاہت میں ، انہوں نے پہلی بار ریس واکنگ مقابلے میں حصہ لیا۔ اب ، آج وہ اس کی بڑی چیمپئن ہے۔
بھالا پھینک مقابلے میں حصہ لینے والے شیو پال سنگھ جی بنارس کے رہنے والے ہیں ۔ ان کا تو پورا خاندان ہی اس کھیل سے جڑا ہوا ہے ۔ ان کے والد، چاچا اور بھائی ، سبھی بھالا پھنکنے کے ماہر ہیں ۔ خاندانی روایت اُن کے لئے ٹوکیو اولمپک میں کام آنے والی ہے ۔ ٹوکیو اولمپکس کے لئے جارہے چراغ شیٹی اور ان کے پارٹنر ساتوِک سائیراج کا حوصلہ بھی ترغیب دینے والا ہے ۔ حال ہی میں چراغ کے نانا جی کا کورونا سے انتقال ہو گیا ہے ۔ ساتوِک بھی خود پچھلے سال کورونا سے متاثر ہو گئے تھے لیکن ان مشکلوں کے بعد بھی یہ دونوں مردوں کے ڈبلز مقابلے میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔
ایک اور کھلاڑی سے میں آپ کا تعارف کرانا چاہوں گا ۔ یہ ہیں ہریانہ کے بھیوانی کے منیش کوشک جی ۔ منیش جی کھیتی کسانی والے خاندان سے آتے ہیں ۔ بچپن میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے منیش کو باکسنگ کا شوق ہوگیا۔ آج یہ شوق اسے ٹوکیو لے جا رہا ہے۔ ایک اور کھلاڑی ہیں ، سی اے۔ بھوانی دیوی جی ۔ نام بھوانی ہے اور یہ تلوار بازی میں ماہر ہیں ۔ چنئی کی رہنے والی بھوانی پہلی ہندوستانی فینسر ہیں ، جنہوں نے اولمپک کے لئے کوالیفائی کیا ہے ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بھوانی جی کی ٹریننگ جاری رہے ، اس کے لئے ان کی والدہ نے اپنے زیورات بھی گروی رکھ دیئے تھے ۔
ساتھیو ، ایسے تو اَن گنت نام ہیں لیکن من کی بات میں ، میں آج صرف چند ناموں کا ہی تذکرہ کروں گا ۔ ٹوکیو جانے والے ہر کھلاڑی کی اپنی جدوجہد ، برسوں کی محنت ہے۔ وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ ملک کے لئے جارہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کو بھارت کا سر فخر سے بلند کرنا ہوگا اور پھر لوگوں کا دل بھی جیتنا ہے اور اسی طرح سے ہم اپنے ملک کے شہریوں کو آپ کی صلاح بھی دینا چاہتے ہیں ۔ ہمیں انجانے میں بھی ہمارے اِن کھلاڑیوں پر دباؤ نہیں بنانا ہے بلکہ کھلےدل سے ان کا ساتھ دینا ہے ، ہر کھلاڑی کی ہمت افزائی کرنی ہے ۔
سوشل میڈیا پر آپ #چیئر 4 انڈیا کے ساتھ اپنے ان کھلاڑیوں کو نیک تمنائیں پیش کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ کچھ اختراعی کام کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ضرورت مندوں کے لئے دستیاب ہے ۔ ہم سب مل کر ٹوکیو جانے والے اپنے کھلاڑیوں کا تعاون کریں گے ۔ چیئر 4 انڈیا !!! چیئر 4 انڈیا!!!
میرے ہم وطنوں ، کورونا کے خلاف ہماری لڑائی جاری ہے لیکن اس لڑائی میں مل کر ہم بہت سارے غیر معمولی سنگ میل بھی حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ہمارے ملک نے ایک بے مثال کام کیا ہے۔ ویکسین مہم کا اگلا مرحلہ 21 جون کو شروع ہوا اور اسی دن ملک نے بھی 86 لاکھ سے زائد افراد کو مفت ویکسین فراہم کرنے کا ریکارڈ بنایا اور وہ بھی ایک دن میں۔ اتنی بڑی تعداد میں حکومت ہند کی ویکسی نیشن اور وہ بھی ایک دن میں! فطری بات ہے کہ اس پر بہت بات چیت ہوئی ہے۔
ساتھیو ، ایک سال پہلے سب کے سامنے سوال تھا کہ ویکسین کب آئے گی؟ آج ہم ایک دن میں لاکھوں لوگوں کو مفت میں 'میڈ اِن انڈیا' ویکسین دے رہے ہیں اور یہی نیو انڈیا کی طاقت ہے۔
ساتھیو ، ملک کے ہر شہری کو ویکسین کا تحفظ حاصل ہونا چاہئے ، ہمیں مسلسل کوشش کرتے رہنا ہے ، کئی جگہوں پر ویکسین سے متعلق ہچکاہٹ کو ختم کرنے کے لئے کئی ادارے ، سول سوسائٹی کے لوگ آگے آئے ہیں اور سب مل کر بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ چلئے ، ہم بھی آج ایک گاؤں میں چلتے ہیں اور ان لوگوں سے بات کرتے ہیں ۔ ویکسین کے بارے میں مدھیہ پردیش کے بیتول ضلع کے دلاریہ گاؤں چلتے ہیں ۔
وزیر اعظم: ہیلو!
راجیش: نمسکار !
وزیر اعظم: نمستے جی ۔
راجیش: میرا نام راجیش ہیراوے ، گرام پنچایت ڈُلاریہ ، بھیم پور بلاک ۔
وزیر اعظم: راجیش جی ، میں نے فون اِس لئے کیا کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ ابھی آپ کے گاؤں میں کورونا کی کیا صورتِ حال ہے؟
راجیش: سر ، یہاں پر کورونا کی صورتحال تو ابھی ایسا کچھ نہیں ہے یہاں ۔
وزیر اعظم: ابھی لوگ بیمار نہیں ہیں؟
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: گاؤں کی آبادی کتنی ہے؟ کتنے لوگ ہیں گاؤں میں ؟
راجیش: گاؤں میں 462 مرد اور 332 خواتین ہیں سر ۔
وزیر اعظم: اچھا ! راجیش جی آپ نے ویکسین لے لی ہےکیا ؟
راجیش: نہیں سر ، ابھی نہیں لی ہے۔
وزیر اعظم: ارے ! کیوں نہیں لیا؟
راجیش: سر جی ، یہاں پر کچھ لوگ نے ، کچھ واٹس ایپ پر ایسی افواہ ڈال دی کہ اس سے لوگ ڈر گئے ہیں سر جی ۔
وزیر اعظم: تو کیا آپ کے دل میں بھی ڈر ہے؟
راجیش: جی سر ، پورے گاؤں میں ایسی افواہ پھیلا دی تھی سر ۔
وزیر اعظم: ارے رے رے ، یہ کیا بات کی آ پ نے ؟ دیکھئے راجیش جی...
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم : میرا آپ کو بھی اور میرے سبھی گاؤں کے بھائی بہنوں کو یہی کہنا ہے کہ ڈر ہے تو نکال دیجئے ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: ہمارے پور ے ملک میں 31 کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں نے ویکسین کا ٹیکہ لگوا لیا ہے ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: آپ جانتے ہو نا ، میں نے خود نے بھی دونوں ڈوز لگوا لی ہیں۔
راجیش: جی سر ۔
وزیر اعظم: ارے میری ماں تو قریب قریب 100 سال کی ہیں ۔ انہوں نے بھی دونوں ڈوز لگوا لی ہیں ۔کبھی کبھی کسی کو ، اِس سے بخار وغیرہ آجاتا ہے لیکن وہ بہت معمولی ہوتا ہے ۔ کچھ گھنٹوں کے لئے ہی ہوتا ہے ۔ دیکھئے ویکسین نہیں لینا بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: اس سے آپ خو د کو تو خطرے میں ڈالتےہی ہیں، ساتھ ہی میں اپنے کنبے اور اپنے گاؤں کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: اور راجیش جی ، اس لئے جتنا جلدی ہو سکے ، ویکسین لگوا لیجئے اور گاؤں میں سب کو بتائیے کہ بھارت سرکار کی طرف سے مفت ویکسین دی جا رہی ہے اور 18 سال کی عمر سے اوپر کے سبھی لوگوں کے لئے یہ مفت ویکسینیشن ہے ۔
راجیش: جی جی۔
وزیر اعظم: تو آپ بھی لوگوں کو گاؤں میں یہ بتائیے اور گاؤں میں اِس طرح کے ڈر کی تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے ۔
راجیش: وجہ یہی ہے سر ، کچھ لوگوں نے ایسی غلط افواہ پھیلا دی ، جس سے لوگوں میں بہت ہی خوف پھیل گیا ہے ۔ مثلاً ، جیسے ویکسین کو لگانے سے بخار کا آنا ، بخار سے اور بیماری پھیل جانا ، مطلب آدمی کی موت ہو جانے تک کی افواہ پھیلائی گئی ہے ۔
وزیر اعظم: اوہ ہو ہو .... دیکھئے آج تو ریڈیو پر ، ٹی وی پر اتنی ساری خبریں ملتی ہیں اور اس لئے لوگوں کو سمجھانا بہت آسان ہو جا تا ہے اور دیکھئے ، میں آپ کو بتاؤں ، بھارت کے بہت سے گاؤں ایسے ہیں ، جہاں سبھی لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں یعنی گاؤں کے صد فی صد لوگوں نے ویکسین لگوا لی ہے ۔ جیسے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: کشمیر میں باندی پورہ ضلع ہے ۔ اس باندی پورہ ضلع میں ایک ویان گاؤں کے لوگوں نے مل کر 100 فی صد ویکسین کا ہدف بنایا اور اُسے پورا بھی کر لیا ۔ آج کشمیر کے اِس گاؤں کے 18 سال سے زیادہ عمر کے سبھی لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں ۔ ناگالینڈ کے بھی تین گاؤوں کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ وہاں بھی سبھی لوگوں نے 100 فی صد ٹیکہ لگوا لیا ہے ۔
راجیش: جی ... جی ...
وزیر اعظم: راجیش جی ، آپ کو بھی اپنے گاؤں ، اپنے آس پاس کے گاؤوں میں یہ بات پہنچانی چاہیئے اور جیسا کہ آپ بھی کہتے ہیں یہ افواہ ہے ، بس یہ افواہ ہی ہے ۔
راجیش: جی ... جی ...
وزیر اعظم: تو افواہ کا جواب یہی ہے کہ آپ خود کو ٹیکہ لگواکر دوسروں کو سمجھائیں سب کو ۔ کریں گے نا آپ ؟
راجیش: جی سر ۔
وزیر اعظم: پکاّ کریں گے ؟
راجیش: جی سر ، جی سر۔ آپ سے بات کرنے سے مجھے ایسا لگا کہ میں خود بھی ٹیکہ لگواؤں اور لوگوں کو بھی اس کے بارے میں بتاؤں ۔
وزیر اعظم: اچھا ، گاؤں میں اور بھی کوئی ہے ، جن سے میں بات کرسکتا ہوں؟
راجیش: جی ہے سر ۔
وزیر اعظم: کون بات کرے گا؟
کشوری لال: ہیلو سر ... نمسکار !
وزیر اعظم: نمستے جی ، کون بول رہے ہیں؟
کشوری لال: سر ، میرا نام ہے کشوری لال دُروے ۔
وزیر اعظم: تو کشوری لال جی ، ابھی راجیش جی سے بات ہو رہی تھی۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: اور وہ تو بڑے دکھی ہو کر کے بتا رہے تھے کہ ویکسین کولے کر لوگ الگ الگ باتیں کرتے ہیں ۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: آپ نے بھی ایسا سنا ہےکیا؟
کشوری لال: ہاں ... سناتو ہے سر ویسے ...
وزیر اعظم: کیا سنا ہے؟
کشوری لال: چونکہ یہ ہے سر ، یہ پاس میں مہاراشٹر ہے ، اُدھر سے کچھ رشتہ دار سے جڑے لوگ ، مطلب کچھ افواہ پھیلاتے ہیں کہ ویکسین لگانے سے لوگ سب مر رہے ہیں ۔ کوئی بیمار ہورہا ہے ۔ افواہوں کی وجہ سے ، لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے ہیں۔
وزیر اعظم: نہیں .. کہتے کیا ہیں ؟ اب کورونا چلا گیا ، ایسا کہتے ہیں؟
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: کورونا سے کچھ نہیں ہوتا ہے، ایسا کہتے ہیں ؟
کشوری لال: نہیں ، کورونا چلا گیا ، نہیں بولتے سر ، کورونا تو ہے بولتے ہیں ، لیکن ویکسین لینے سے بیماری ہو رہا ہے ، سب مر رہے ہیں ۔ یہ صورتحال بتاتے ہیں سر وہ ۔
وزیر اعظم: اچھا ویکسین کی وجہ سے مر رہے ہیں ؟
کشوری لال: اپنا علاقہ قبائلی علاقہ ہے سر ، ایسے بھی لوگ یہاں جلد ی خوفزدہ ہوجاتے ہیں .. اس لئے افواہ پھیلنے کی وجہ سے لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے سر ۔
وزیر اعظم: دیکھئے کشوری لال جی ...
کشوری لال: جی ہاں سر ...
وزیر اعظم: یہ افواہیں پھیلانے والے لوگ تو افواہیں پھیلاتے رہیں گے۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: ہمیں تو زندگی تو بچانی ہے ، ہمیں اپنے گاؤں کے لوگوں کو بچانا ہے ، ہمیں اپنے ہم وطنوں کو بچانا ہے اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کورونا چلا گیا ہے ، تو اس افواہ میں مت آیئے ۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: یہ بیماری ایسی ہے ، جو شکل بدلتی ہے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: یہ اپنی شکل بدلتی ہے ... یہ نئی شکلیں لینے کے بعد پہنچ جاتی ہے۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: اور اس سے بچنے کے لئے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک تو کورونا کے لئے بنایا ہوا پروٹوکول ، ماسک پہننا ، صابن سے بار بار ہاتھ دھونا، فاصلہ رکھنا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ویکسین کا ٹیکہ بھی لگوایا جائے ، یہ بھی ایک اچھی حفاظتی شیلڈ ہے ، پھر اس کی فکر کریں۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: اچھا کشوری لال جی ، یہ بتائیے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: جب لوگ آپ سے بات کرتے ہیں تو آپ لوگوں کو کیسے سمجھاتے ہیں؟ کیا آپ سمجھانے کا کام کرتے ہیں کہ آپ بھی افواہوں میں پڑ جاتے ہیں؟
کشوری لال: سمجھائیں کیا ، وہ لوگ زیادہ ہو جاتے ہیں تو سر ہم بھی ڈر جاتے ہیں نا سر ۔
وزیر اعظم: دیکھئے کشوری لال جی ، آج میں نے آپ سے بات کی ہے ، آپ میرے ساتھی ہیں۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کو لوگوں کا خوف بھی دور کرنا ہے۔ نکالوگے ؟
کشوری لال: جی سر ۔ نکالیں گے سر ، لوگوں کا خوف بھی دور کریں گے سر ۔ خود بھی لگواؤں گا ۔
وزیر اعظم: دیکھئے ، افواہوں پر بالکل دھیان نہ دیں۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: آپ جانتے ہیں ، ہمارے سائنسدانوں نے کتنی محنت کرکے ، یہ ویکسین بنائی ہے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: سال بھر ، رات اور دن ، بڑے بڑے سائنسدانوں نے کام کیا ہے اور اس لئے ہمیں سائنس پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ سائنس دانوں پر بھروسہ کرنا چاہیئے اور ان جھوٹ پھیلانے والے لوگوں کو بار بار سمجھانا چاہئے کہ دیکھئے بھائی ، ایسا نہیں ہوتا ہے ، اتنے لوگوں نے ویکسین لی ہے ، کچھ نہیں ہوتا ہے۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: اور افواہوں سے ب بچنا چاہئے ، گاؤں کو بھی بچانا چاہئے۔
کشوری لال: جی
وزیر اعظم: اور راجیش جی ، کشوری لال جی ، آپ جیسے اپنے ساتھیوں سے میں کہوں گا کہ آپ ، اپنے گاؤں میں ہی نہیں ، اور گاؤوں میں بھی ، ان افواہوں کو روکنے کا کام کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ مجھ سے بات ہوئی ہے۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: بتا دیجئے ، میر انام بتا دیجئے ۔
کشوری لال: بتائیں گے سر اور لوگوں کو سمجھائیں گے اور خود بھی لیں گے ۔
وزیر اعظم: دیکھئے ، آپ کے پورے گاؤں کو میری طرف سے نیک خواہشات دیجئے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: اور سب کو بتائیں کہ جب بھی آپ کا نمبر آئے گا ...
کشوری لال: جی ...
وزیر اعظم: ویکسین ضرور لگوائیں ۔
کشوری لال: ٹھیک ہے سر ۔
وزیر اعظم: میں چاہوں گا کہ گاؤں کی خواتین کو ، ہماری ماؤں اور بہنوں کو ...
کشوری لال: جی سر
وزیر اعظم: اس کام میں زیادہ سے زیادہ جوڑیئے اور انہیں فعال طور پر اپنے ساتھ رکھیئے ۔
کشوری لال: جی
وزیر اعظم: بعض اوقات مائیں بہنیں باتیں کرتی ہیں اور لوگ جلدی سے راضی ہوجاتے ہیں۔
کشوری لال: جی
وزیر اعظم: آپ کے گاؤں میں ، جب ٹیکہ کاری پوری ہو جائے گی تو مجھے بتائیں گے آپ ؟
کشوری لال: ہاں ، بتائیں گے سر ۔
وزیر اعظم: پکاّ بتائیں گے؟
کشورہ لال: جی
وزیر اعظم: دیکھئے ، میں انتظار کروں گا آپ کے خط کا ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: چلئے راجیش جی ، کشور جی بہت بہت شکریہ۔ آپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔
کشوری لال: شکریہ سر ، آپ نے ہم سے بات کی ہے۔ آپ کا بھی بہت شکریہ۔
ساتھیو ، کبھی نہ کبھی ، اس دنیاکے لئے کیس اسٹڈی کا موضوع بنے گا کہ اس کورونا دور میں ہندوستان کے دیہاتوں ، ہمارے جنگل میں رہنے والے قبائلی بھائیوں اور بہنوں نے کس طرح اپنی صلاحیت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ گاؤں کے لوگوں نے قرنطینہ مرکز بنائے ، مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کووڈ پروٹوکول بنائے ، گاؤں کے لوگوں نے کسی کو بھوکا نہیں سونے دیا ۔ کھیتی کا کام بھی نہیں رکنے دیا ۔ نزدیک کے شہروں میں دودھ ، سبزیاں ہر روز پہنچاتے رہے ۔ گاؤں نے یہ بھی یقینی بنایا ، خود کو سنبھالا اور دوسروں کو بھی سنبھالا ۔ اسی طرح ، ہمیں ویکسی نیشن مہم میں یہی کام جاری رکھنا ہے۔ ہمیں بیدار رہنا ہو گا اور ہمیں بیدار کرنا بھی ہوگا۔گاؤوں میں ہر ایک شخص کو ٹیکہ لگ جائے ، یہ ہر گاؤں کا ہدف ہونا چاہئے۔ یاد رکھئے ، اور میں آپ کو خاص طور پر بتانا چاہتا ہوں۔ آپ اپنے ذہن میں ایک سوال پوچھئے - ہر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے لیکن فیصلہ کن کامیابی کا منتر کیا ہے؟ فیصلہ کن کامیابی کی کلید مستقل مزاجی ہے ۔ لہٰذا ، ہمیں سست روی کی ضرورت نہیں ہے ، کسی بھی فریب میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے ، ہمیں کورونا پر فتح حاصل کرنا ہوگی۔
میرے پیارے ہم وطنو ، اب ہمارے ملک میں مانسون کا موسم بھی آگیا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو نہ صرف ہمارے لئے بارش ہوتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی بارش ہوتی ہے۔ بارش کا پانی زمین میں بھی جمع ہوتا ہے ، اس سے زمین کے اندر پانی کی سطح بھی بہتر ہوتی ہے۔ اور اسی لئے میں پانی کے تحفظ کو قوم کی خدمت کی ایک شکل سمجھتا ہوں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا ، ہم میں سے بہت سے لوگ اس خوبی کو اپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص اتراکھنڈ کے پوڑی گڑھوال کے سچیدانند بھارتی جی ہیں۔ بھارتی جی ایک استاد ہیں اور انہوں نے اپنے کاموں کے ذریعہ لوگوں کو بہت اچھی تعلیم دی ہے۔ آج ، ان کی محنت کی وجہ سے ، پوڑی گڑھوال کے علاقے افریں کھال علاقے میں پانی کا بڑا بحران ختم ہوگیا ہے۔ جہاں لوگ پانی کےلئے ترستے تھے ، ، آج وہاں سارا سال پانی کی فراہمی رہتی ہے۔
ساتھیو ، پہاڑوں میں پانی کے تحفظ کا ایک روایتی طریقہ رہا ہے ، جسے ‘ چال کھال ’ بھی کہتے ہیں ، یعنی پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بڑا گڑھا کھودنا۔ اس روایت میں ، بھارتی جی نے کچھ نئے طریقوں کو بھی شامل کیا۔ انہوں نے لگاتار بڑے اور چھوٹے تالاب تعمیر کیے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف افریں کھال کی پہاڑی ہری بھری ہوگئی ، بلکہ لوگوں کے پینے کے پانی کا مسئلہ بھی دور ہوگیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارتی جی ایسے 30 ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے تالاب بنوا چکے ہیں 30 ہزار! ان کا یہ ساجھیداری کا کام آج بھی جاری ہے اور بہت سے لوگوں کو تحریک دے رہے ہیں ۔
ساتھیو ، اسی طرح یوپی کے باندا ضلع کے اندھاو گاؤں کے لوگوں نے بھی ایک مختلف کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنی مہم کو ایک بہت ہی دلچسپ نام دیا ہے۔ '' کھیت کا پانی کھیت میں ، گاؤں کا پانی گاؤں میں ''۔ اس مہم کے تحت گاؤں کے کئی سو بیگھا کھیتوں میں اونچی اونچی میڑھ بنائی گئی ہیں۔ اس وجہ سے بارش کا پانی کھیت میں جمع ہونا شروع ہوگیا ، اور زمین میں جانے لگا۔ اب یہ لوگ کھیتوں کے میڑھوں پر درخت لگانے کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یعنی ، اب کسانوں کو پانی ، درخت اور پیسہ تینوں ملے گا ۔ اپنے اچھے کاموں سے ، پہچان تو اُن کے گاؤں کی ویسے بھی دور ور تک ہو ہی رہی ہے ۔
ساتھیو ، ان سب سے متاثر ہوکر ، ہم اپنے ارد گرد پانی کی ، جس طرح بھی بچت کرسکتے ہیں ، ہمیں اسے بچانا چاہئے۔ مانسون کے اس اہم موسم کو ہمیں گنوانا نہیں چاہئے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے –
‘‘ ناستی مولم انوشدھم ’’
یعنی، زمین پر ایسا کوئی پودا نہیں ہے ، جس میں کوئی نہ کوئی دواؤں کی خصوصیات نہ ہو! ہمارے آس پاس ایسے بہت سے درخت اور پودے ہیں، جن کی حیرت انگیز خصوصیات ہیں لیکن کئی بار ہمیں ان کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہوتا ۔ مجھے نینی تال سے ایک ساتھی ، بھائی پریتوش نے اسی موضوع پر ایک خط بھیجا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں گلوئے اور دوسرے کئی پودوں کی اتنی معجزاتی طبی خصوصیات کےبارے میں کورونا آنے کے بعد ہی پتہ چلا ہے! پریتوش نے مجھ سے زور دے کر کہا ہے کہ میں 'من کی بات' کے تمام سامعین سے کہوں کہ آپ اپنے آس پاس موجود پودوں کے بارے میں جانیئے اور دوسروں کو بھی بتائیے ۔ حقیقت میں یہ ہمارا قدیم ورثہ ہے ، جس کا ہمیں احترام کرنا ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے ستنا کے ایک ساتھی ہیں ، جناب رام لوٹن کشواہا جی ۔ انہوں نے ایک بہت ہی قابل ستائش کام کیا ہے۔ رام لوٹن جی نے اپنے کھیت میں ایک دیسی میوزیم بنایا ہے۔ اس میوزیم میں انہوں نے سینکڑوں طبی پودے اور بیج اکٹھے کیے ہیں۔ وہ انہیں دور دراز سے یہاں لائے ہیں۔ اس کے علاوہ ، وہ ہر سال کئی طرح کی بھارتی سبزیاں بھی اگاتے ہیں۔ رام لوٹن جی کے اس باغ کو ، اس دیسی میوزم کو لوگ دیکھنے کے لئے بھی آتے ہیں اور اس سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ درحقیقت ، یہ ایک بہت اچھا تجربہ ہے ،جسے ملک کے مختلف حصوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں چاہوں گا ، آپ میں سے ، جو لوگ یہ اس طرح کی کوشش کر سکتے ہیں ، وہ ضروری کریں ۔ اس سے آپ کی آمدنی کے نئے وسائل میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ مقامی پودوں کے ذریعے سے آپ کے علاقے کی پہچان بھی بڑھے گی ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج سے کچھ دنوں بعد یکم جولائی کو ہم ڈاکٹروں کا قومی دن منائیں گے۔ یہ دن ملک کے عظیم ڈاکٹر اور اسٹیٹس مین ڈاکٹر بی سی رائے کی یوم پیدائش کے موقع سے منایا جاتا ہے۔ کورونا کے دور میں ہم سب ڈاکٹروں کے تعاون کے شکر گزار ہیں۔ ہمارے ڈاکٹروں نے اپنی زندگی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہماری خدمت کی ہے۔ اس لئے اس بار ‘نیشنل ڈاکٹرز ڈے’ اور بھی خاص ہو جاتا ہے۔
ساتھیو، طب کے میدان میں دنیا کے سب سے معزز لوگوں میں سے ایک ہپوکریٹس نے کہا ہے:
‘‘جہاں کہیں بھی فن طب سے محبت پائی جاتی ہے وہاں انسانیت سے محبت بھی پائی جاتی ہے۔ ’’
یعنی جہاں آرٹ آف میڈیسن سے محبت ہے وہیں انسانیت سے بھی محبت ہے۔ ڈاکٹر اسی محبت کی طاقت کے ساتھ ہماری خدمت کرپاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اسی محبت کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ تاہم ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ڈاکٹروں کی مدد کے لئے آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ مجھے سری نگر سے اسی طرح کی ایک کوشش کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ یہاں ڈل جھیل پر ایک بوٹ ایمبولینس سروس شروع کی گئی ہے۔ اس سروس کا آغاز سری نگر کے طارق احمد پتلو جی نے کیا جو ایک ہاؤس بوٹ کے مالک ہیں۔ انہوں نے خود کوویڈ-19 کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس سے انہیں ایمبولینس سروس شروع کرنے کی تحریک ملی۔ وہ اس ایمبولینس سے لوگوں کو حساس بنانے کی مہم بھی چلا رہے ہیں اور وہ ایمبولینس سے مسلسل اعلان بھی کر رہے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ لوگ ماسک پہننے سے لے کر تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ساتھیو، ڈاکٹرز ڈے کے ساتھ ساتھ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس ڈے بھی یکم جولائی کو منایا جاتا ہے۔ میں نے چند سال قبل ملک کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سے عالمی سطح کی بھارتی آڈٹ فرموں سے ایک تحفہ مانگا تھا۔ آج میں انہیں اس کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس معیشت میں شفافیت لانے کے لئے بہت اچھا اور مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں تمام چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس اور ان کے خاندان کے افراد کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کورونا کے خلاف بھارت کی جنگ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ملک کے ہر شخص نے اس لڑائی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ میں نے اکثر ‘من کی بات’ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں اتنی بات نہیں ہوپاتی ہے۔ بہت سے لوگ خواہ وہ بینک کا عملہ ہوں، اساتذہ ہوں، چھوٹے تاجر ہوں، دوکاندار ہوں، دکانوں کے ملازم ہوں، گلیوں میں کام کرنے والے ہوں، ریہڑی پٹری والے بہن بھائی ہوں، سیکورٹی چوکیدار ہوں، یا ڈاکیے اور ڈاک خانے کے ملازمین ہوں—یہ فہرست بہت طویل ہے اور ہر ایک فرد نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انتظامیہ و حکومت میں بھی کتنے ہی لوگ مختلف سطحوں پر جٹے ہوئے ہیں۔
ساتھیو، آپ نے گرو پرساد مہاپاترا جی کا نام سنا ہوگا جو بھارت سرکار میں سکریٹری تھے۔ میں آج ‘من کی بات’ میں ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ گروپرساد جی کو کورونا ہوگیا تھا، انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا اور وہ وہاں بھی اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے ملک میں آکسیجن کی پیداوار بڑھانے، دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لئے دن رات کام کیا۔ ایک طرف کورٹ کچہری کا چکر، میڈیا کا دباؤ، وہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑتے رہے، انہوں نے بیماری کے دوران کام کرنا بند نہیں کیا۔ منع کرنے کے بعد بھی انہوں نے آکسیجن سے متعلق ویڈیو کانفرنس میں شرکت پر اصرار کیا۔ انہیں اہل وطن کی فکر تھی۔ وہ اسپتال کے بستر پر اپنی پروا کیے بغیر ملک کے لوگوں کو آکسیجن پہنچانے کے لئے انتظام میں جٹے رہے۔ یہ ہم سب کے لئے نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس کرم یوگی سے بھی ملک محروم ہوگیا، کورونا نے انہیں ہم سے چھین لیا ہے۔ ایسے بے شمار لوگ ہیں جن پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ اس طرح ہر ایک کو ہمارا خراج تحسین یہ ہوگا کہ کوویڈ پروٹوکول پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، ویکسین ضرور لگوائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، من کی بات کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں مجھ سے زیادہ آپ سب کا حصہ ہوتا ہے۔ ابھی میں نے مائی گوو (MyGov) پر ایک پوسٹ دیکھی جو چنئی کے ترو آر گروپرساد جی کی ہے۔ اسے جان کر آپ کو بھی اچھا لگے گا کہ انہوں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ‘من کی بات’ پروگرام کو باقاعدگی سے سنتے ہیں۔ اب میں گروپرساد جی کی پوسٹ کی کچھ سطروں کو کوٹ کر رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے:
جب بھی آپ تمل ناڈو کے بارے میں بات کرتے ہیں تو میری دل چسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔
آپ نے تمل زبان اور تمل ثقافت، تمل تہواروں اور تمل ناڈو کے نمایاں مقامات کی عظمت کے بارے میں بات کی ہے۔
گرو پرساد جی مزید لکھتے ہیں کہ: ‘من کی بات’ میں میں نے تمل ناڈو کے لوگوں کی کام یابیوں کے بارے میں بھی کئی بار ذکر کیا ہے۔ تروکورل سے آپ کی محبت اور تروولور جی کے لئے آپ کے احترام کا تو کیا کہنا ہے۔ چناں چہ میں نے تمل ناڈو کے بارے میں آپ کی تمام باتوں کو 'من کی بات' سے مرتب کیا ہے اور ایک ای بک تیار کی ہے۔ کیا آپ اس ای کے بارے میں کچھ کہیں گے اور اسے نمو ایپ پر ریلیز بھی کریں گے؟ شکریہ۔ '
میں آپ کے سامنے گروپرساد جی کا خط پڑھ رہا تھا۔
گروپرساد جی، آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ اپنی ای بک میں اب ایک اور صفحہ شامل کرلیجئے۔
..' نان تمل کلا چارکتن پیریے ابھیمانی
نان اُلگتلئے پلمایاں تمل میلین پیریے ابھیمانی...'
تلفظ اور ادائیگی میں ضرور کوئی خامی رہی ہوگی تاہم میری کوشش اور میری محبت کبھی کم نہیں ہوگی۔ میں ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں جو تمل بولنے والے لوگ نہیں ہیں کہ میں نے گروپرساد جی سے کہا ہے:
میں تمل ثقافت کا بہت بڑا مداح ہوں۔
میں تمل زبان کا بہت بڑا مداح ہوں جو دنیا کی سب سے پرانی زبان ہے۔
ساتھیو، دنیا کی سب سے پرانی زبان ہمارے ملک کی ہے، اس پر ہر بھارتی کو فخر محسوس کرنا چاہیے۔ مجھے تمل پر بھی بہت فخر ہے۔ گرو پرساد جی، آپ کی کوشش مجھے ایک نیا وژن دینے والی ہے۔ کیوں کہ جب میں 'من کی بات' کرتا ہوں تو میں سادہ انداز میں بات کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا بھی ایک عنصر تھا۔ جب آپ نے تمام پرانی چیزیں اکٹھا کیں تو میں نے اسے ایک بار نہیں بلکہ دو بار پڑھا۔ گروپرساد جی، میں آپ کی کتاب کو نمو ایپ پر ضرور اپ لوڈ کروں گا۔ آپ کی مستقبل کی کوششوں کے لئے آپ کو نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے کورونا کی مشکلات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بات کی، ہم نے ملک اور اہل وطن کی بہت سی کام یابیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اب ہمارے پاس ایک اور بڑا موقع ہے۔ 15 اگست بھی آنے والا ہے۔ آزادی کا 75 سالہ امرت مہوتسو ہمارے لئے ایک بہت بڑی تحریک ہے۔ آئیے ہم ملک کے لئے جینا سیکھیں۔ جنگ آزادی ملک پر جان نچھاور کرنے والوں کی داستان ہے۔ ہمیں آزادی کے بعد کے اس دور کو ان لوگوں کی داستان بنانا ہے جو ملک کے لئے جیتے ہیں۔ ہمارا منتر انڈیا فرسٹ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہر فیصلے ہر ارادے کی بنیاد ہونا چاہیے—انڈیا فرسٹ۔
ساتھیو، امرت مہوتسو میں بھی ملک نے کئی اجتماعی اہداف مقرر کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں اپنے مجاہدین آزادی کو یاد کرکے ان سے وابستہ تاریخ کو زندہ کرنا ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 'من کی بات' میں میں نے نوجوانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ تحریک آزادی کی تاریخ لکھیں، تحقیق کریں۔ خیال یہ تھا کہ نوجوان ٹیلنٹ کو آگے آنا چاہیے، نوجوانوں کی سوچ، نوجوانوں کے خیالات کو آگے آنا چاہیے، نوجوانوں کا قلم نئی توانائی کے ساتھ لکھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ بہت کم وقت میں ڈھائی ہزار سے زیادہ نوجوان اس کام کو کرنے کے لئے آگے بڑھے ہیں۔ ساتھیو، دل چسپ بات یہ ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کی جنگ کی بات تو عام طور پر ہوتی رہتی ہے لیکن یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں جو نوجوان پیدا ہوئے ہیں، میرے ایسے نوجوان ساتھیوں نے انیسویں اور بیسویں صدی کی جنگ آزادی کو عوام کے سامنے رکھنے میں پیش قدمی کی ہے۔ ان تمام لوگوں نے مائی گوو (MyGov) پر مکمل تفصیلات بھیجی ہیں۔ یہ لوگ ہندی، انگریزی، تمل، کنڑ، بنگالی، تیلگو، مراٹھی، ملیالم، گجراتی جیسی ملک کی مختلف زبانوں میں جدوجہد آزادی پر لکھیں گے۔ کوئی آزادی کی جدوجہد سے وابستہ اپنے ارد گرد کے مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہا ہے، تو کوئی آدیباسی مجاہدین آزادی پر کتاب لکھ رہا ہے۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ امرت مہوتسو میں جیسے بھی شامل ہوسکتے ہوں، ضرور ہوں۔ آزادی کی 75 ویں سالگرہ کا گواہ بننا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ چناں چہ اگلی بار جب ہم 'من کی بات' میں ملیں گے تو ہم امرت مہوتسو کے لئے مزید تیاریوں پر بھی بات کریں گے۔ آپ سب صحت مند رہیں، کورونا سے متعلق احتیاطی اصولوں پر عمل کریں، آگے بڑھیں، اپنی نئی نئی کوششوں سے ملک کو ایسے ہی رفتار دیتے رہیں۔ انھی نیک خواہشات کے ساتھ۔ بے حد شکریہ۔
نئی دہلی۔ 30 مئی میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کس طرح اپنی پوری قوت کے ساتھ کووڈ – 19 سے لڑ رہا ہے ۔ یہ پچھلے 100 سال میں اب تک کی سب سے بڑی وباء ہے اور اس عالمی وباء کے دوران بھارت کو کئی قدرتی آفات سے بھی نمٹنا پڑا ہے ۔ اس دوران سمندری طوفان ‘ امفن ’ اور نسرگ آیا ، کئی ریاستوں میں سیلاب آئے اور کئی چھوٹے بڑے زلزلے بھی آئے اور مٹی کے تودے کھسکنے کے واقعات بھی پیش آئے ۔ ابھی حال ہی میں ، پچھلے 10 دنوں میں ملک کو دو بڑے سمندری طوفانوں - مغربی ساحل پر سمندری طوفان تاوتے اور مشرقی ساحل پر سمندری طوفان یاس کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان دونوں طوفانوں سے کئی ریاستیں متاثر ہوئی ہیں ۔ ملک اور اس کے عوام نے کم سے کم نقصان کو یقینی بنانے کے لئے ، ان کے ساتھ پوری قوت سے لڑائی لڑی ۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے وقت کےمقابلے ، اب ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان بچانے کے قابل ہوئے ہیں ۔ اس مشکل اور غیر معمولی قدرتی آفات کے دوران ، اِن طوفانوں سے متاثر ہونے والی ریاستوں کے تمام لوگوں نے بہت جرات مندی کا مظاہرہ کیا ہے - - انہوں نے انتہائی تحمل اور ڈسپلن کے ساتھ ، اِس بحران کا سامنا کیا ۔ میں ، پورے خلوص کے ساتھ تمام شہریوں کی احترام کےساتھ ستائش کرتا ہوں ۔ جن لوگوں نے راحت اور بچاؤ کارروائیوں کی قیادت کی ، وہ اتنی ستائش کے حقدار ہیں ، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ میں ، اُن سب کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ مرکز ، ریاستی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کو ، اِس قدرتی آفات کا مل کر سامنا کرنا ہے ۔ میرے تمام جذبات ، اُن لوگوں کے ساتھ ہیں ، جنہوں نے اپنے قریبی عزیزوں کو کھویا ہے ۔ آیئے ، ہم اُن سب کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہوں ، جنہیں ، اِن آفات سےنقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
چیلنج کتنا ہی بڑا ہو ، بھارت کی جیت کا عزم بھی ہمیشہ اتنا ہی بڑا رہا ہے ۔ ملک کی مجموعی قوت اور خدمت کے ہمارے جذبے نے ملک کو ہر طوفان سے باہر نکالا ہے ۔ حال کے دنوں میں ، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے ہمارے ڈاکٹروں ، نرسوں اور صف اول کے جانبازوں نے خود کی فکر چھوڑ کر دن رات کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں ۔ اس سب کے بیچ کئی لوگ ایسے بھی ہیں ، جن کی کورونا کی دوسری لہر سے لڑنے میں بہت بڑا رول رہا ہے ۔ مجھ سے من کی بات کے کئی سامعین نے نمو ایپ پر اور خط کے ذریعے ، ان جانبازوں کے بارے میں بات کرنے کا اصرار کیا ہے ۔
ساتھیو ،
جب دوسری لہر آئی ، اچانک آکسیجن کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا ، یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ملک کے دور دراز علاقوں تک میڈیکل آکسیجن پہنچانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ آکسیجن ٹینکر زیادہ تیز چلے، چھوٹی چھوٹی سی غلطی بھی ہو تو اس میں ایک بہت ہی بڑے دھماکے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ملک کے مشرقی حصوں میں صنعتی آکسیجن تیار کرنے والے بہت سے پلانٹ ہیں ، وہاں سے آکسیجن کو دوسری ریاستوں میں لے جانے میں بھی کئی دن لگتے ہیں۔ ملک کے سامنے آئے ، اِس چیلنج نے ملک کی مدد کرایوجینک ٹینکر چلانے والے ڈرائیوروں نے کی ، آکسیجن ایکسپریس نے کی ، ایئر فورس کے پائلٹس نے کی ۔ ایسے بہت سے لوگوں نے جنگی پیمانے پر کام کیا اور ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔ آج ، من کی بات میں ، ایسا ہی ایک ساتھی ہمارے ساتھ شامل ہو رہا ہے۔ یو پی کے جونپور کے رہنے والے ، جناب دنیش اپادھیائے جی ،
مودی جی- دنیش جی ، نمسکار !
دنیش اپادھیائے جی۔ سر جی پرنام ۔
مودی جی۔ سب سے پہلے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنے بارے میں بتائیں۔
دنیش اپادھیائے جی۔ سر ہمارا نام دنیش بابل ناتھ اپادھیائے ہے۔ میں گاؤں حسن پور ، پوسٹ جموا ، ضلع جونپور کا رہنے والا ہوں۔
مودی جی۔ کیا آپ اتر پردیش سے ہیں؟
دنیش۔ ہاں! جی ہاں ! سر
مودی جی ۔
دنیش۔ ہمارا ایک لڑکا ، دو لڑکیاں اور ایک بیوی اور والدین ہیں۔
مودی جی - اور ، آپ کیا کرتے ہیں؟
دنیش۔ سر ، میں آکسیجن ٹینکر چلاتا ہوں ، رقیق آکسیجن ۔
مودی جی - کیا بچے مناسب طریقے سے پڑھ رہے ہیں؟
دنیش۔ ہاں صاحب! بچے پڑھ رہے ہیں۔ دونوں لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں ، اور میرا لڑکا بھی پڑھ رہا ہے ، جناب۔
مودی جی - کیا یہ آن لائن پڑھائی بھی ٹھیک طرح سے چلتی ہیں؟
دنیش۔ جی ہاں جناب ، اچھے ڈھنگ سے کر رہے ہیں ، ابھی لڑکیاں ہماری پڑھ رہی ہیں۔ آن لائن میں ہی پڑھ رہی ہیں سر ۔ سر 15 سے 17 سال ہوچکے ہیں ، میں آکسیجن کا ٹینکر چلا رہا ہوں ۔
جناب مودی - اچھا! آپ یہ 15 – 17 سال سے صرف آکسیجن لے کر جات ہیں ، پھر آپ صرف ٹرک ڈرائیور نہیں ہیں ! آپ ایک طرح سے لاکھوں جانیں بچانے میں مصروف ہیں۔
دنیش۔ سر ، ہمارا کام ہی ایسا ہے ، آکسیجن ٹینکر کی ، جو ہماری کمپنی ہے ، آئینوکس کمپنی ، وہ بھی ہم لوگوں کا بہت خیال رکھتی ہےاور اگر ہم کہیں بھی جاتے ہیں اور آکسیجن خالی کرتے ہیں تو ہمیں بہت خوش ملتی ہے ۔
مودی جی۔ لیکن اب آپ کی ذمہ داری کورونا کے وقت میں بہت بڑھ گئی ہے؟
دنیش۔ ہاں سر ، اس میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
مودی جی - جب آپ اپنے ٹرک کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے ہیں تو ، آپ کے دل میں کیا جذبہ ہوتا ہے؟ پہلے سے مختلف تجربات کیا ہیں؟ کافی دباؤ بھی رہتا ہوگا؟ ذہنی دباؤ بھی رہتا ہوگا؟ خاندان کی فکر ، کورونا کا ماحول ، لوگوں کی طرف سے دباؤ ، مانگ ، کیا کچھ ہوتا ہوگا؟
دنیش۔ سر ، ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ ہمیں صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ ہم جو اپنا کام کر رہے ہیں ، وہ ٹائم پر لے کر اگر اپنی آکسیجن سے کسی کو زندگی ملتی ہے ، تو یہ ہمارے لئے بہت فخر کی بات ہے ۔
مودی جی - آپ اپنے جذبات کا اظہار بہت اچھے انداز میں کر رہے ہیں۔ اچھا بتایئے ، آج جب لوگ اس وبائی مرض کے وقت آپ کے کام کی اہمیت کو دیکھ رہے ہیں ، جسے شاید پہلے سمجھا نہیں گیا تھا ، اب وہ سمجھ رہے ہیں ، تو کیا آپ اور آپ کے کام کے بارے میں ان کا رویہ تبدیل ہوا ہے؟
دنیش۔ ہاں سر ! پہلے ، ہم آکسیجن کے ڈرائیور کہیں بھی ادھر ادھر جام میں پھنسے رہتے تھے ، لیکن آج کی تاریخ میں ، انتظامیہ نے بھی ہم لوگوں کی بہت مدد کی ہے اور جہاں بھی ہم جاتے ہیں تو ہمارے اندر بھی تجسس پیدا ہوتا ہے ، کہ ہم کتنی جلدی پہنچ کر لوگوں کی جان بچائیں ۔ چاہے کھانا ملے یا نہ ملے ۔ کچھ بھی پریشانی ہو لیکن ہم اسپتال پہنچتے ہیں ، جب ٹینکر لے کر اور دیکھتے ہیں کہ اسپتال والے ہم لوگوں کو دیکھ کر وی کا اشارہ کرتے ہیں ، اُس خاندان کے لوگ بھی ، جن کے گھر والے اسپتال میں داخل ہیں۔
مودی جی – اچھا ، وکٹری کا وی بناتے ہیں؟
دنیش۔ ہاں سر ! وی بناتے ہیں ، کوئی انگوٹھا دکھاتا ہے۔ ہم کو بہت سکون ملتا ہے ۔ ہماری زندگی میں کہ کہ ہم نے اچھا کام ضرور کیا ہے ، جو مجھے ایسی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے۔
مودی جی - ساری تھکن اتر جاتی ہوگی؟
دنیش۔ ہاں سر ! ہاں سر !
مودی جی - تو آپ گھر آکر بچوں سے باتیں بتاتے ہوں گے؟
دنیش۔ نہیں سر ۔ بچے تو ہمارے گاؤں میں رہتے ہیں۔ ہم تو یہاں آئینوکس ایئر پروڈکٹ میں ڈرائیوری کرتا ہوں ۔ 8 – 9 مہینوں کے بعد تب گھر جاتا ہوں ۔
مودی جی - تو کبھی فون پر بچوں سے بات کرتے ہوں گے ؟
دنیش۔ ہاں سر ! برابر کرتا ہوں ۔
مودی جی - تو اُن کے دل میں رہتا ہوگا کہ پتاجی ذرا سنبھلیئے ایسے وقت ۔
دنیش۔ سر ، وہ لوگ کہتے ہیں ، پاپا کام کرو ، لیکن اپنی حفاظت سے کرو اور سر ہم لوگ سیفٹی سے کام کرتے ہیں ۔ ہمارا مانگ گاؤں پلانٹ بھی ہے۔ آئینوکس ہم لوگوں کی بہت مدد کرتا ہے ۔
مودی جی - چلیں! دنیش جی ، مجھے بہت اچھا لگا ۔ آپ کی باتیں سن کر اور ملک کے لوگوں کو بھی لگے گا کہ اس کورونا کی لڑائی میں کیسے کیسے ، کس طرح سے لوگ کام کر رہے ہیں ۔ آپ 9-9 مہینوں تک اپنے بچوں سے نہیں مل رہےہیں ۔ خاندان سے نہیں مل رہے ہیں ، صرف لوگوں کی جان بچ جائے ۔ جب یہ ملک سنے گا تو ملک کو فخر ہو گا کہ یہ لڑائی ہم جیتیں گے کیونکہ دنیش اپادھیائے جیسے لاکھوں لوگ ایسے ہیں ، جو جی جان سے لگے ہوئے ہیں ۔ مودی جی چلیئے ،دنیش جی ، آپ کا یہ جذبہ ہی تو ملک کی طاقت ہے ۔ بہت بہت شکریہ دنیش جی اور اپنےبچوں کو میرا آشیرواد دییجئے گا ۔
دنیش۔ ٹھیک ہے سر! پرنام ۔
مودی جی۔ دھنیہ واد ۔
دنیش۔ پرنام پرنام سر ۔
مودی جی ۔ دھنیہ واد
ساتھیو ، جیسا کہ دنیش جی بتا رہے تھے ، جب ایک ٹینکر کا ڈرائیور آکسیجن لے کر اسپتال پہنچتا ہے تو بھگوان کابھیجا ہوا دوت لگتا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کتنی ذمہ داری کا ہوتا ہے اور اس میں کتنا ذہنی دباؤ بھی ہوتا ہے ۔
ساتھیو ، چیلنج کے اس وقت میں ، آکسیجن کی نقل و حمل کو آسان کرنے کے لئے بھارتی ریلوے بھی آگے آئی ہے ۔ آکسیجن ایکسپریس ، آکسیجن ریل نے سڑک پر چلنے والے آکسیجن ٹینکر سے کہیں زیادہ تیزی سے ، کہیں زیادہ مقدار میں آکسیجن ملک کے کونے کونے میں پہنچائی ہے ۔ ماؤں – بہنوں کو یہ سن کر فخر ہوگا کہ ایک آکسیجن ایکسپریس تو پوری طرح مہیلائیں ہی چلا رہی ہیں ۔ ملک کی ہر خواتین کو اس بات پر فخر ہوگا ۔ اتنا ہی نہیں ، ہر بھارتی کو فخر ہو گا ۔ میں نے آکسیجن ایکسپریس کی ایک لوکو پائلٹ شریشا گجنی جی کو ‘ من کی بات ’ میں مدعو کیا ہے ۔
مودی جی ۔شریشا جی نمستے!
شریشا۔ نمستے سر ! کیسے ہیں سر ؟
مودی جی۔ میں بہت ٹھیک ہوں شریشا جی ، میں نے سنا ہے کہ آپ ریلوے پائلٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی پوری خواتین ٹیم یہ آکسیجن ایکسپریس چلا رہی ہے۔ شریشا جی ، آپ بہت ہی شاندار کام کررہی ہیں۔ کرونا کے دور میں ، آپ کی طرح بہت سی خواتین نے ، آگے آکر کورونا سے لڑائی میں ملک کو قوت دی ہے ۔ آپ بھی ناری شکتی کی ایک بہت بڑی مثال ہیں ۔ لیکن ملک جاننا چاہے گا ، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ حوصلہ کہاں سے ملتی ہے ؟
شریشا۔ سر ، مجھے یہ حوصلہ میرے والد ، والدہ سے ملتا ہے سر ۔ میرے والد ایک سرکاری ملازم ہیں سر ۔ دراصل ، میری دو چھوٹی بہنیں ہیں ، ہم تین ممبران ہیں ۔ صرف خواتین لیکن میرے والد کام کرنے کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔میری پہلی بہن بینک میں سرکاری ملازمت کرتی ہے اور میں ریلوے میں ملازم ہوں۔ میرے والدین میری ہمت افزائی کرتے ہیں ۔
مودی جی - اچھا شریشا جی ، آپ نے عام دنوں میں بھی ریلوے کو اپنی خدمات دی ہیں۔ ٹرین کو چلایا ہے لیکن جب یہ ایک طرف آکسیجن کی اتنی بڑی مانگ اور جب آپ آکسیجن کو لے جارہی ہیں تو تھوڑا زیادہ ذمہ داری والا کام ہو گا ، تھوڑی زیادہ ذمہ داریاں ہوں گی؟ عام سامان کو لے جانا الگ بات ہے ، آکسیجن تو بہت نازک بھی ہوتی ہے ، یہ چیز ، تو آپ کیا محسوس کرتی ہیں ؟
شریشا ۔ میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کام کرنے کے لئے ۔ آکسیجن اسپیشل دینے کے وقت میں بھی سبھی دیکھ رہے تھے ۔ سیفٹی کے لئے پرمیشن کے لئے ، کوئی رساؤ ہو ۔ اس کے بعد ، بھارتی ریلوے بھی مدد کرنی ہے ، سر ۔ یہ آکسیجن چلانے کے لئے مجھ کو گرین پاتھ دیا گیا ، یہ گاڑی چلانے کے لئے 125 کلو میٹر ، ڈیڑھ گھنٹہ میں پہنچنا ہوتا ہے ۔ اتنی ریلوے نے بھی ذمہ داری لی اور میں نے بھی یہ ذمہ داری لے لی سر ۔
مودی جی - واہ! ... چلیئے شیرشا جی ، میں آپ کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے والد ، والدہ کو ،خاص طور سے پرنام کرتا ہوں ، جنہوں نے تینوں بیٹیوں کو اتنی تحریک دی اور ان کواتنا آگے بڑھایا اور اس طرح کا حوصلہ دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے والدین کو بھی پرنام اور آپ سبھی بہنوں کو بھی پرنام ، جنہوں نے اس طرح سے ملک کی خدمت کی اور جذبہ بھی دکھایا ہے ۔ بہت بہت شکریہ! شریشا جی ۔
شریشا۔ شکریہ سر۔ شکریہ سر ۔ آپ کی دعائیں چاہئیں سر مجھے ۔
مودی جی۔ بس ، پرماتما کا آشیرواد آپ پر بنا رہے ، آپ کے والد ، والدہ کا آشیرواد بنا رہے ۔ شکریہ جی!
شریشا۔ شکریہ سر۔
ساتھیو ، ہم نے ابھی شریشا جی کی بات سنی۔ ان کے تجربات ، تحریک بھی دیتے ہیں اور جذباتی بھی بناتے ہیں ۔ حقیقت میں ، یہ لڑائی اتنی بڑی ہے کہ اس میں ریلوے کی ہی طرح ہمارا ملک بحری ، بری اور فضائی ، تینوں راستوں سے کام کر رہا ہے ۔ ایک طرف، خالی ٹینکروں کو ایئر فورس کے طیاروں کے ذریعے آکسیجن پلانٹس تک پہنچانے کا کام ہو رہا ہے تو دوسری طرف آکسیجن پلانٹس بنانا کا بھی کام پورا کیا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی بیرونی ملکوں سے آکسیجن ، آکسیجن کنسنٹریٹرس اور کرائیوجینک ٹینکر بھی ملک میں لائے جارہے ہیں ۔اس لئے ، اس میں بحریہ بھی لگی ہوئی ہے ، ایئرفورس بھی لگی ہوئی ہے ، آرمی بھی اور ڈی آر ڈی او جیسی ہماری تنظیمیں بھی جٹی ہیں ۔ ہمارے کتنےہی سائنسداں ، صنعت کے ماہرین اور تکنیکی ماہرین بھی جنگی پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ ان سب کے کام کو جاننے کا ، سمجھنے کا تجسس سبھی ہم وطنوں کے دلوں میں ہے ۔ اس لئے ہمارے ساتھ ، ہماری فضائیہ کے گروپ کیپٹن پٹنائک جی جڑ رہے ہیں ۔
مودی جی۔ پٹنائک جی ، جے ہند۔
گروپ کیپٹن - سر جے ہند ۔ سر میں گروپ کیپٹن اے کے پٹنائک ہوں ۔ فضائیہ کے اسٹیشن ہنڈن سے بات کر رہا ہوں ۔
مودی جی۔ پٹنائک جی ، کورونا سے لڑائی کے دوران ، آپ بہت بڑی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں جاکر ٹینکر لانا ، ٹینکر یہاں پہنچانا ۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایک فوجی کی حیثیت سے ایک مختلف قسم کا کام آپ نے کیا۔ مرنے مارنے کے لئے دوڑنا ہوتا ہے ۔ آج آپ زندگی بچانے کے لئے دوڑ رہےہیں ۔ کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟
گروپ کیپٹن ۔ سر ، اس بحران کے دور میں ،ہمارے ہم وطنوں کو مدد کر سکتے ہیں ، یہ ہمارے لئے بہت ہی خوش قسمتی کا کام ہے ۔ سر اور یہ جو بھی ہمیں مشن ملے ہیں ، ہم بخوبی اُس کو نبھا رہے ہیں ۔ ہماری ٹریننگ اور امدادی خدمات ، جو ہیں ، ہماری پوری مدد کر رہے ہیں اور سب سے بڑی چیز یہ ہے سر ، اس میں جو ہمیں جوب پر اطمینان مل رہا ہے ، وہ بہت ہی اعلیٰ درجے کا ہے اور اسی کی وجہ سے ہم مسلسل آپریشن کر پا رہے ہیں ۔
مودی جی ۔ کیپٹن ، آپ نے ان دنوں جو جو کوششیں کی ہیں ، اور وہ بھی کم سے کم وقت میں ، سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ اس میں اب ان دنوں کیا رہا آپ کا؟
گروپ کیپٹن ۔ سر پچھلے ایک مہینے سے ہم مسلسل آکسیجن ٹینکر ، رقیق آکسیجن کنٹینر ، گھریلو مقامات سے اور بین الاقوامی مقامات سے ، دونوں جگہ سے اٹھا رہے ہیں ۔ سر تقریباً 1600 پروازوں سے زیادہ ایئر فورس کر چکی ہے اور 3000 سے زیادہ گھنٹے ہم اُڑ چکے ہیں ۔ تقریباً 160 بین الاقوامی مشن کر چکے ہیں ۔ اس وجہ سے ہم ہر جگہ سے آکسیجن ٹینکر ، جو پہلے اگر ملک میں 2 سے 3 دن لگتے تھے ، ہم اُس کو 2 سے 3 گھنٹے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکتے ہیں ، سر اور بین الاقوامی مشنوں میں بھی 24 گھنٹے کے اندر اندر مسلسل ، ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے آپریشن کرکے پوری فضائیہ اس میں لگی ہوئی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ہم زیادہ سے زیادہ ٹینکر لائیں اور ملک کی مدد کریں۔
مودی جی۔ کیپٹن آپ کو بین الاقوامی ملکوں میں ابھی کہاں تک جانے کا اتفاق ہوا ؟
گروپ کیپٹن ۔ سر مختصر نوٹس کے ساتھ ہمیں ، سنگا پور ، دوبئی ، بیلجیم ، جرمنی اور یو کے ، ان سب مقامات پر انڈین ایئر فورس کی مختلف پروازیں ، آئی ایل – 76 ، سی – 17 ، جو بہت ہی چھوٹے سے نوٹس پر مشن پلان کرکے ہماری ٹریننگ اور جوش کی وجہ سے ، ہم وقت پر ان مشنوں کو مکمل کر سکیں گے ۔
مودی جی – دیکھیئے ، اس بار ملک اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ بحری ہو ،بری ہو یا فضائیہ ہو ، ہمارے سارے جوان ، اس کورونا کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں اور کیپٹن آپ نے بھی بہت بڑی ذمہ داری نبھائی ہے تو میں آپ کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
گروپ کیپٹن ۔ سر ، تھینک یو سو مچ سر ، ہم اپنی پوری کوشش میں ، جی جان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور میری بیٹی بھی آدیتی بھی میرے ساتھ ہے سر۔
مودی جی - ارے واہ !
آدیتی ۔ نمستے مودی جی ۔
مودی جی۔ نمستے بیٹی نمستے ، آدیتی ، آپ کتنے سال کی ہیں ؟
آدیتی – میں 12 سال کی ہوں اور آٹھویں کلاس میں پڑھتی ہوں ۔
مودی جی۔ تو یہ پتاجی باہر جاتے ہیں ، یونیفارم میں رہتے ہیں ۔
آدیتی - ہاں! اُن کے لئے مجھے بہت پراؤڈ لگتا ہے ، بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اتنا اہم کام کر رہے ہیں ، جو سارے کورونا سے متاثرہ لوگ ہیں ، اُن کی مدد اتنی زیادہ کر رہے ہیں اور اتنے سارے ملکوں سے آکسیجن ٹینکر لا رہے ہیں ، کنٹینرس لا رہے ہیں ۔
مودی جی - لیکن بیٹی تو پاپا کو بہت مِس کرتی ہو نا ؟
آدیتی - ہاں ، بہت مِس کرتی ہوں ، انہیں ۔وہ آج کل زیادہ گھر پر نہیں رہ پا رہے ہیں کیونکہ اتنی ساری بین الاقوامی پروازوں میں جا رہے ہیں اور کنٹینر اور ٹینکر ، اُن کے پروڈکشن پلانٹ تک پہنچا رہے ہیں تاکہ جو لوگ کورونا سے متاثر ہیں ، اُن کو وقت پر آکسیجن مل سکے اور اُن کی جان بچ سکے ۔
مودی جی۔ تو بیٹایہ جو آکسیجن کی وجہ سے لوگوں کی جان بچانے والا کام ، تو اب گھر گھر میں لوگوں کو پتہ چل گیا ہے ۔
آدیتی - ہاں۔
مودی جی۔ جب آپ کےدوستوں کا حلقہ ، تمہارے ساتھی طلباء جانتے ہوں گے کہ تمہارے والد آکسیجن کی خدمت میں لگے ہیں تو تمہیں وہ بہت احترام سے دیکھتے ہو ں گے ؟
آدیتی - جی ہاں ، میرے تمام دوست بھی کہتے ہیں کہ تمہارے پاپا اتنا زیادہ اہم کام کر رہے ہیں اور تمہیں بھی بہت فخر ہوتا ہوگا اور تب مجھے اتنا زیادہ فخر محسوس ہوتاہے اور میری جو ساری فیملی ہے ، میرے نانا نانی ، دادی ، سب لوگ ہی میرے پاپا کے لئے بہت فخر محسوس کرتے ہیں ۔ میری ممی اور وہ لوگ بھی ، ڈاکٹر ہیں ، وہ لوگ بھی دن رات کام کر رہے ہیں اور ساری مسلح افواج ، میرے پاپا کے سارے اسکواڈرن کے انکل اور ساری جو فورس ہے ، سب لوگ ، ساری سینا بہت کام کر رہی ہے اور مجھے یقین ہےکہ سب کی کوششوں کے ساتھ ہم لوگ کورونا سے یہ لڑائی ضروری جیتیں گے ۔
مودی جی ۔ہمارے یہاں کہتے ہیں کہ بیٹی جب بولتی ہے نا تو اس کےالفاظ میں سرسوتی وراجمان ہوتی ہے ، اور جب آدیتی بول رہی ہے کہ ہم ضرور جیتیں گے تو ایک طرح سے یہ ایشور کی آواز بن جاتی ہے ۔ اچھا آدیتی ، ابھی تو آن لائن پڑھتی ہوں گے ۔
آدیتی - ہاں ، ابھی تو ہماری تمام آن لائن کلاسز چل رہی ہیں اور ابھی ہم لوگ گھر میں بھی پوری احتیاطی تدابیر کر رہے ہیں اور اگر کہیں اگر باہر جانا ہے تو پھر ڈبل ماسک پہن کر ، اور سب کچھ ، ساری احتیاط اور ذاتی صفائی ستھرائی کر رہے ہیں ، سب چیزوں کا دھیان رکھ رہے ہیں ۔
مودی جی - اچھا بیٹا ، تمہاری کیا ہوبیز ہیں ، کیا پسند ہیں ؟
آدیتی – میری ہوبیز ہیں کہ میں سوئمنگ کرتی ہوں اورباسکٹ بال کھیلتی ہوں لیکن ابھی تو وہ تھوڑا بند ہو گیا ہے اور اس لاک ڈاؤن اور کورونا وارئس کے دوران میں نے بیکنگ اور کوکنگ کا مجھے بہت زیادہ شوق ہے اور میں ابھی سارے بیکنگ اور کوکنگ کرکے ، جب پاپا اتنا سارا کام کرکے آتے ہیں تو میں ان کے لئے کوکیز اور کیک بناتی ہوں ۔
مودی جی - واہ ، واہ ، واہ! چلیئے بیٹا ، بہت دنوں کے بعد تمہیں پاپا کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے ۔ بہت اچھا لگا اور کیپٹن آپ کو بھی میں بہت مبارکباد دیتا ہوں لیکن جب میں کیپٹن کو مبارکباد دیتا ہوں تو اس کا مطلب صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ یہ ہماری فضائیہ، بحریہ اور بری افواج کے لئے بھی ہے ، جو اس طرح مصروف ہیں ۔ میں سب کو سلام کرتا ہوں ، شکریہ بھائیوں ۔
گروپ کیپٹن – شکریہ سر
ساتھیو، ہمارے ان جوانوں نے، ان واریئرز نے جو کام کیا ہے، اسکے لیے ملک انہیں سلام کرتا ہے۔ اسی طرح لاکھوں لوگ دن رات مصروف ہیں۔ جو کام وہ کر رہے ہیں، وہ انکے معمول کے کام کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح کی آفت تو دنیا میں سو سال بعد آئی ہے ، ایک صدی کے بعد اتنا بڑا بحران! اسلئے، اس طرح کے کام کا کسی کے پاس کوئی بھی تجربہ نہیں تھا۔ اسکے پیچھے ملک کی خدمت کا جذبہ ہے اور ایک عزم کی طاقت ہے۔ اسی سے ملک نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، عام دنوں میں ہمارے یہاں ایک دن میں 900 میٹرک ٹن، مائع طبی آکسیجن کی پیداوار ہوتی تھی ۔ اب 10 گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر،اس کی پیداوار تقریبا 9500 میٹرک ٹن ہو رہی ہے۔ اس آکسیجن کو ہمارے واریئرزملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچا رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، آکسیجن پہنچانے کے لیے ملک میں اتنی کوشش ہوئی ، اتنے لوگ مصروف ہوئے ، ایک شہری کے طور پر یہ سارے کام تحریک دیتے ہیں۔ ایک ٹیم بن کر ہر کسی نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ مجھے بینگلورو سے ارملا جی نے کہا ہے کہ انکے خاوند لیب ٹیکنیشین ہیں، اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے اتنے چیلنجوں کے درمیان وہ مسلسل ٹیسٹنگ کا کام کرتے رہے ہیں۔
ساتھیو، کو رونا کی شروعات میں ملک میں صرف ایک ہی ٹیسٹنگ لیب تھا ، لیکن آج ڈھائی ہزار سے زیادہ لیب کام کر رہے ہیں۔ شروع میں کچھ سو ٹیسٹ ایک دن میں ہو پاتے تھے، اب 20 لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ ایک دن میں ہونے لگے ہیں۔ اب تک ملک میں 33 کروڑ سے زیادہ نمونوں کی جانچ کی جا چکی ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ان ساتھیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہو رہا ہے۔ کتنے ہی فرنٹ لائن کارکنان نمونے اکٹھے کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ متاثرہ مریضوں کے درمیان جانا، انکا سمپل لینا، یہ کتنی بڑی خدمت ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے ان ساتھیوں کو اتنی گرمی میں بھی لگاتار پی پی ای کٹ پہن کے ہی رہنا پڑتا ہے۔ اسکے بعد یہ سمپل لیب میں پہنچتا ہے۔ اسلئے، جب میں آپ سب کے مشورے اور سوال پڑھ رہا تھا تو میں نے طے کیا کہ اپنے ان ساتھیوں کا بھی ذکر ضرور ہونا چاہیئے۔ انکے تجربات سے ہمیں بھی بہت کچھ جاننے کو ملےگا۔ تو آئیے دلی میں ایک لیب ٹیکنیشین کے طور پر کام کرنے والے اپنے ساتھی پرکاش کانڈپال جی سے بات کرتے ہیں۔
مودی جی – پرکاش جی نمسکار۔
پرکاش جی – نمسکار معزز وزیر اعظم صاحب۔
مودی جی – پرکاش جی، سب سے پہلے تو آپ ‘من کی بات’ کے ہمارے سبھی سامعین کو اپنے بارے میں بتائیے۔ آپ کتنے وقت سے یہ کام کر رہے ہیں اور کو رونا کے وقت آپ کا تجربہ کیسا رہا ہے کیونکہ ملک کے لوگوں کو اس طرح سے نہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں، نہ اخبار میں دیکھتے ہیں۔ پھر بھی ایک رشی کی طرح لیب میں رہ کرکے کام کر رہے ہیں۔ تو میں چاہونگا کہ آپ جب بتائیں گے تو ہم وطنوں کو بھی جانکاری ملے گی کہ ملک میں کام کیسے ہو رہا ہے ؟
پرکاش جی – میں دلی سرکار کے خود مختار ادارے انسٹی ٹیوٹ آف لیور اینڈ بلیئری سائنسز(آئی ایل بی ایس) نام کے ہاسپٹل میں پچھلے 10 سالوں سے لیب ٹیکنیشین کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ میرا صحت کے شعبہ میں کام کرنے کا تجربہ 22 سالوں پر محیط ہے۔ آئی ایل بی ایس سے پہلے بھی میں دلی کے اپولوہاسپٹل، راجیو گاندھیؔ کینسر ہاسپٹل، روٹری بلڈ بینک جیسے معروف اداروں میں کام کر چکا ہوں۔ سر، اگرچہ سبھی جگہ میں نےبلڈ بینک کے شعبہ میں اپنی خدمات انجام دیں تاہم گذشتہ سال یکم اپریل، 2020 سے میں آئی ایل بی ایس کے ویرولوجی ڈیپارٹمنٹ کے کووڈ ٹیسٹنگ لیب میں کام کر رہا ہوں۔ بلاشبہ، کووڈ وبا میں صحت اور صحت سے متعلق سبھی وسائل پر بہت دباؤ پڑا، لیکن میں اس جنگ کے دور کو ذاتی طور پر ایک ایسا موقع مانتا ہوں، جب ملک، انسانیت ، سماج ہم سے زیادہ فرض کی ادائیگی، تعاون ، ہم سے زیادہ ، ہم سے زیادہ اچھی کارکردگی اور ہم سے زیادہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی توقع کرتا ہے اور امید کرتا ہے۔ اور سر، جب ہم ملک کے ، انسانیت کے ، معاشرہ کے توقعات اور امیدوں کے مطابق اپنی سطح پر جو کہ ایک قطرے کے برابر ہے ، ہم اس پر کام کرتے ہیں،کھرا اترتے ہے تو ایک فخر کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی جب ہمارے گھر والے بھی خوفزدہ ہوتے ہے یا تھوڑا انہیں ڈر لگتا ہے تو ایسے موقعوں پر ان کو یاد دلاتا ہوں، کہ ہمارے ملک کے جوان جو کہ ہمیشہ ہی اپنے کنبے سے دور سرحدوں پر سخت اور غیر معمولی صورتحال میں ملک کی حفاظت کر رہے ہیں، ان کے مقابلے میں تو ہمارا خطرہ جو ہے کم ہے، بہت کم ہے۔ تو وہ بھی اس چیز کو سمجھتے ہیں اور میرے ساتھ ایک طرح سے وہ بھی معاونت کرتے ہیں اور وہ بھی اس مصیبت میں عام طور سے جو بھی تعاون ہے اس میں اپنی حصہ داری پیش کرتے ہیں۔
مودی جی – پرکاش جی ایک طرف حکومت سب کو کہہ رہی ہے کہ دوری رکھو - دوری رکھو،کو رونا میں ایک دوسرے سے دور رہو۔ اور آپ کو تو سامنے سے ہوکر، کو رونا وائرس کے بیچ میں رہنا ہی پڑتا ہے ، سامنے سے جانا پڑتا ہے۔ تو، یہ اپنے آپ میں ایک زندگی کو مشکل میں ڈالنے والا معاملہ رہتا ہے تو کنبے کو فکر لاحق ہونا بہت فطری ہے۔ لیکن پھر بھی یہ لیب ٹیکنیشین کا کام عام کاموں میں سے ایک ہے۔ اور ایسی عالمی وباء کی صورت میں دوسرا ہے اور وہ آپ کر رہے ہیں۔تو کام کے گھنٹے بھی بہت بڑھ گئے ہوں گے ؟ رات رات لیب میں گذارنا پڑتا ہوگا ؟ کیونکہ کروڑوں لوگوں کی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے تو بوجھ بھی بڑھا ہوگا ؟ لیکن اپنی حفاظت کے لیے بھی یہ احتیاط رکھتے ہیں کہ نہیں رکھتے ہیں ؟
پرکاش جی – بالکل رکھتے ہیں سر۔ ہمارے آئی ایل بی ایس کا جو لیب ہے ، وہ ڈبلیو ایچ او سے تصدیق شدہ ہے۔ تو جو سارےپروٹوکول ہیں وہ بین الاقوامی معیار کے ہیں،یہ جو ہماری تین سطحی پوشاک ہے اسے پہن کر ہم جاتے ہیں لیب میں، اور اسی میں ہم کام کرتے ہیں۔ اور اسکا پورا ڈسکارڈنگ کا، لیبلنگ کا اور ان کی ٹیسٹنگ کا ایک پورا پروٹوکول ہے تو اس پروٹوکول کے تحت کام کرتے ہیں۔ تو سر یہ بھی ایشور کی مہربانی ہے کہ میرا اور میرے جاننے والے زیادہ تر جو ابھی تک اس وباء سے بچے ہوئے ہیں۔ تو ایک چیز ہے کہ، اگر آپ احتیاط برتتے ہیں اور حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ تھوڑا بہت اس سے بچے رہ سکتے ہیں۔
مودی جی – پرکاش جی، آپ جیسے ہزاروں لوگ پچھلے ایک سال سے لیب میں بیٹھے ہیں اور اتنی زحمت کر رہے ہیں۔ اتنے لوگوں کو بچانے کا کام کر رہے ہیں۔ جو ملک آج جان رہا ہے۔ لیکن پرکاش جی میں آپکے توسط سے آپکی برادری کے سبھی ساتھیوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم وطنوں کی طرف شکریہ ادا کرتا ہوںاور آپ صحت مند رہیں ۔ آپ کا کنبہ صحت مند رہے۔ میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔
پرکاش جی – شکریہ وزیر اعظم صاحب ۔ میں آپ کا بہت بہت ممنون ہوں، کہ آپ نے مجھے یہ موقع فراہم کیا۔
مودی جی – شکریہ بھیا۔
ساتھیوں، ایک طرح سے بات تو میں نے بھائی پرکاش جی سے کی ہے، لیکن انکی باتوں میں ہزاروں لیب ٹیکنیشین کی خدمات کو خوشبو ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ان باتوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کے خدمت کا جذبہ تو نظر آتا ہی ہے، ہم سبھی کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ جتنی محنت اور لگن سے بھائی پرکاش جی جیسے ہمارے ساتھی کام کر رہے ہیں، اتنی ہی ایمانداری سے ان کا تعاون ، کو رونا کو ہرانے میں بہت مدد کرے گا۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، ابھی ہم اپنے 'کورونا واریئر' کا ذکر کر رہے تھے۔ پچھلے ڈیڑھ سالوں میں ہم نے ان کی لگن اور جانفشانی خوب دیکھی ہے۔ لیکن اس لڑائی میں بہت اہم کردار ملک کے کئی علاقوں کے متعدد واریئرز کی بھی ہے۔ آپ سوچئے، ہمارے ملک میں اتنا بڑا بحران آیا، اسکا اثر ملک کے ایک نظام پر پڑا۔ زرعی نظام نے خود کو اس حملے سے کافی حد تک محفوظ رکھا ۔ محفوظ ہی نہیں رکھا، بلکہ ترقی بھی کی، آگے بھی بڑھا! کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس وباء میں بھی ہمارے کسانوں نے ریکارڈ پیداوار کی ہے ؟ کسانوں نے ریکارڈ پیداوار کی ، تو اس مرتبہ ملک نے ریکارڈ فصل خریدی بھی ہے۔ اس بار کئی جگہوں پر تو سرسوں کے لیے کسانوں کو ایم ایس پی سے بھی زیادہ قیمت ملی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی ریکارڈ پیداوار کی وجہ سے ہی ہمارا ملک ہرشہری کو مدد فراہم کر پا رہا ہے۔آج اس بحران کی گھڑی میں 80 کروڑ غریبوں کو مفت راشن مہیا کرایا جا رہا ہے تاکہ غریب کے گھر میں بھی کبھی ایسا دن نہ آئے جب چولہا نہ جلے۔
ساتھیوں، آج ہمارے ملک کے کسان، کئی علاقوں میں نئے نظام کا فائدہ اٹھاکر کمال کر رہے ہیں۔ جیسے کہ اگرتلہ کے کسانوں کو ہی لیجئے ! یہ کسان بہت اچھے کٹہل کی پیداوار کرتے ہیں۔ انکی مانگ ملک و بیرون ملک میں ہو سکتی ہے، اسلئے اس بار اگرتلہ کے کسانوں کے کٹہل ریل کے ذریعہ گوہاٹی تک لائے گئے۔ گوہاٹی سے اب یہ کٹہل لندن بھیجے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی آپ نے بہار کی ‘شاہی لیچی’ کا نام بھی سنا ہوگا۔ 2018 میں حکومت نے شاہی لیچی کوجی آئی ٹیگ بھی دیا تھا تاکہ اسکی پہچان مستحکم ہو اور کسانوں کو زیادہ فائدہ ہو۔ اس بار بہار کی یہ ‘شاہی لیچی’ بھی فضائی راستے سے لندن بھیجی گئی ہے۔ مشرق سے مغرب ، شمال سے جنوب ہمارا ملک ایسے ہی انوکھے ذائقوں اور پیداوار سے بھر پور ہے۔ جنوبی ہند میں، وجے نگرم کے آم کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا ؟ اب بھلا یہ آم کون نہیں کھانا چاہے گا ! اسلئے، اب کسان -ریل، سیکڑوں ٹن وجے نگرم آم دلی پہنچا رہی ہے۔ دلی اور شمالی ہند کے لوگوں کو وجے نگرم کے آم کھانے کو ملے گا اور وجے نگرم کے کسانوں کی اچھی کمائی ہوگی۔ کسان ریل اب تک تقریبا 2 لاکھ ٹن پیداوار کا نقل و حمل کر چکی ہے۔ اب کسان بہت کم قیمت پر پھل، سبزیاں ، اناج، ملک کے دوسرے دور دراز علاقوں میں بھیج پا رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج 30 مئی کو ہم ‘من کی بات’ کر رہے ہیں اور اتفاق سے یہ حکومت کے 7 سال پورے ہونے کا بھی وقت ہے۔ ان سالوں میں ملک ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’ کے منتر پر چلا ہے۔ ملک کی خدمت میں ہر لمحہ لگن کے ساتھ ہم سبھی نے کام کیا ہے۔ مجھے کئی ساتھیوں نے خط ارسال کیے ہیں اور کہا ہے کہ ‘من کی بات’ میں 7 سال کے ہمارے آپ کے اس مشترکہ سفر کا بھی ذکر کروں۔ ساتھیوں، ان 7 سالوں میں جو کچھ بھی حصولیابی رہی ہے، وہ ملک کی رہی ہے، ہم وطنوں کی رہی ہے۔ کتنے ہی قومی فخر کے لمحوں کا ہم نے ان سالوں میں ساتھ مل کر مشاہدہ کیا ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اب ہندوستان دوسرے ملکوں کی سوچ اور انکے دباؤ میں نہیں، اپنے عزم سے چلتا ہے، تو ہم سب کو فخر ہوتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اب ہندوستان اپنے خلاف سازش کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیتا ہے تو ہماری خود اعتمادی اور بڑھتی ہے۔ جب ہندوستان قومی سلامتی کے امور پر سمجھوتہ نہیں کرتا، جب ہماری افواج کی طاقت بڑھتی ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ ہاں، ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں۔
ساتھیوں، مجھے کتنے ہی ہم وطنوں کے پیغامات ، انکے خطوط، ملک کے گوشے گوشے سے ملتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ملک کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ 70 سال بعد انکے گاؤں میں پہلی بار بجلی پہنچی ہے، انکے بیٹے بیٹیاں اجالے میں، پنکھے میں بیٹھ کرکے پڑھ رہے ہیں۔ کتنے ہی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا بھی گاؤں اب پکی سڑک سے، شہر سے مربوط ہو گیا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک قبائلی علاقے سے کچھ ساتھیوں نے مجھے پیغام بھیجا تھا کہ سڑک بننے کے بعد پہلی بار انہیں ایسا لگا کہ وہ بھی باقی دنیا سے جڑ گئے ہیں۔ ایسے ہی کہیں کوئی بینک کھاتہ کھلنے کی خوشی شیئر کرتا ہے، تو کوئی الگ الگ منصوبوں کی مدد سے جب نیا روزگار شروع کرتا ہے تو اس خوشی میں مجھے بھی مدعو کرتا ہے۔ ‘پردھان منتری آواس یوجنا’ کے تحت گھر ملنے کے بعد گرہ پرویش کی تقریب میں کتنی ہی دعوت مجھے اپنے وطنوں کی جانب سے لگاتار ملتے رہتے ہیں۔ ان 7 سالوں میں آپ سب کی ایسی کروڑوں خوشیوں میں، میں شامل ہوا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے گاؤں سے ایک پریوار نے ‘جل جیون مشن’ کے تحت گھر میں لگے پانی کے نل کی ایک فوٹو بھیجی۔ انہوں نے اس فوٹو کی سرخی لگائی تھی–‘میرے گاؤں کی جیون دھارا’۔ ایسے کتنے ہی کنبے ہیں۔ آزادی کے بعد 7 عشروں میں ہمارے ملک کے صرف ساڑھے تین کروڑ دیہی گھروں میں ہی پانی کے کنکشن تھے۔ لیکن پچھلے 21 مہینوں میں ہی ساڑھے چار کروڑ گھروں کو صاف پانی کے کنکشن دیے گئے ہیں۔ ان میں سے 15 مہینے تو کوروناکے ہی تھے ! اسی طرح کا ایک اعتماد ملک میں ‘آیوشمان یوجنا’ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ جب کوئی غریب مفت علاج سے صحت مند ہوکر گھر آتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اسے نئی زندگی ملی ہے۔ اسے بھروسہ ہوتا ہے کہ ملک اسکے ساتھ ہے۔ ایسے کتنے ہی کنبوں کی برکت، کروڑوں ماؤں کی دعائیں لیکر ہمارا ملک مضبوطی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ساتھیوں،ان 7 سالوں میں ہندوستان نے ڈیجیٹل 'لین دین’ میں دنیا کو نئی سمت کھانے کا کام کیا ہے۔ آج کسی بھی جگہ جتنی آسانی سے آپ چٹکیوں میں ڈیجیٹل ادائیگی کر دیتے ہیں، وہ کو رونا کی اس گھڑی میں بھی بہت کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ آج صفائی کے تئیں ہم وطنوں کی سنجیدگی اور احتیاط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم ریکارڈ سیٹلائٹ بھی لانچ کر رہے ہیں اورریکارڈ سڑکیں بھی بنا رہے ہیں۔ ان 7 سالوں میں ہی ملک کے متعدد قدیم تنازعے بھی مکمل امن و ہم آہنگی کے ساتھ طے کیے گئے ہیں۔شمال مشرق سے لیکر کشمیر تک امن و ترقی کا ایک نیا بھروسہ جگا ہے۔ساتھیوں،کیا آپ نے سوچا ہے، یہ سب کام جو دہائیوں میں بھی نہیں ہو سکے، ان 7 سالوں میں کیسے ہوئے ؟ یہ سب اسی لئے ممکن ہوا کیونکہ ان 7 سالوں میں ہم نے حکومت اور عوام سے زیادہ ایک ملک کے طور پر کام کیا،ایک ٹیم کی شکل میں کام کیا،'ٹیم انڈیا' کی شکل میں کام کیا۔ ہرشہری نےملک کو آگے بڑھانے میں ایک آدھا قدم آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ہاں ! جہاں کامیابیاں ہوتی ہیں، وہاں آزمائشیں بھی ہوتی ہیں۔ ان 7 سالوں میں ہم نے ساتھ ملکر ہی کئی مشکل آزمائشوں سے بھی گزرے ہیں اور ہر بار ہم سبھی مضبوط ہوکر نکلے ہیں۔ کو رونا وبائی مرض کی شکل میں، اتنی بڑی آزمائش تو لگاتار چل رہی ہے۔ یہ تو ایک ایسا بحران ہے جس نے پوری دنیا کو پریشان کیا ہے، کتنے ہی لوگوں نے اپنوں کو کھویا ہے۔ بڑے بڑے ملک بھی اسکی تباہی سے بچ نہیں سکے ہیں۔ اس عالمی وباء کے درمیان ہندوستان ، ‘خدمت اور تعاون’ کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم نے پہلی لہر میں بھی پورے حوصلے کے ساتھ لڑائی لڑی تھی، اس بار بھی وائرس کے خلاف چل رہی لڑائی میں ہندوستان کی فتح ہوگی۔ ‘دو گز کی دوری’، ماسک سے جڑے اصول ہو یا پھرویکسین ہمیں ڈھلائی نہیں کرنی ہے۔ یہی ہماری جیت کا راستہ ہے۔ اگلی بار جب ہم ‘من کی بات’ میں ملیں گے، تو ہم وطنوں کے کئی اور حوصلہ افزا مثالوں پر بات کریں گے اور نئے موضوعات پر بات چیت کریں گے۔ آپ اپنے مشورے مجھے ایسے ہی بھیجتے رہیں۔ آپ سبھی صحت مند رہیں، ملک کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہیں ۔بہت –بہت شکریہ ۔
نئی دہلی۔ 25 اپریل میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار ۔ آج آپ سے ‘من کی بات’، ایک ایسے وقت میں کر رہا ہوں، جب کو رونا، ہم سبھی کے صبر وتحمل ، ہم سبھی کے دکھ برداشت کرنے کی حد کا امتحان لے رہا ہے ۔ بہت سے اپنے، ہمیں، بے وقت ، چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔ کورونا کی پہلی لہر کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے بعد ملک کا حوصلہ بلند تھا، ملک خود اعتمادی سے سے لبریز تھا، لیکن اس طوفان نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔
ساتھیو، پچھلے دنوں اس بحران سے نمٹنے کے لیے، میری، الگ الگ شعبوں کے ایکسپرٹ کے ساتھ، ماہرین کے ساتھ طویل بات چیت ہوئی ہے ۔ ہماری دوا ساز صنعت کے لوگ ہوں، ویکسین بنانے والے ہوں ، آکسیجن بنانے کے عمل سے منسلک لوگ ہوں یا پھر طبی شعبہ کے جانکار، انہوں نے، اپنے اہم مشورے حکومت کو دیے ہیں۔ اس وقت ، ہمیں اس لڑائی کو جیتنے کے لیے، ماہرین اور سائنسی صلاح کو ترجیح دینی ہے ۔ ریاستی سرکار کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں حکومت ہند پوری طاقت سے مصروف عمل ہے۔ ریاستی حکومتیں بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کی بھر پور کوششیں کر رہی ہیں۔
ساتھیو، کو رونا کے خلاف اس وقت بہت بڑی لڑائی ملک کے ڈاکٹر اور صحت کارکنان لڑ رہے ہیں ۔ پچھلے ایک سال میں انہیں اس بیماری کے بارے میں ہر قسم کے تجربات بھی ہوئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ، اس وقت ، ممبیٔ سے مشہور ڈاکٹر ششانک جوشی جی جڑ رہے ہیں ۔
ڈاکٹر ششانک جی کو کو رونا کے علاج اور اس سے متعلق تحقیق کا بہت زمینی تجربہ ہے۔ وہ انڈین کالج آف فیزیسین کے ڈین بھی رہ چکے ہیں ۔ آئیے بات کرتے ہیں ڈاکٹر ششانک سے :-
مودی جی - نمسکار ڈاکٹر ششانک جی
ڈاکٹر ششانک – نمسکار سر ۔
مودی جی - ابھی کچھ دن پہلے ہی آپ سے بات کرنے کا موقع ملا تھا ۔ آپکے خیالات کی توضیح مجھے بہت اچھی لگی تھی ۔ مجھے لگا ملک کے سبھی شہری کو آپ کے خیالات جاننے چاہیئے ۔ جو باتیں سننے میں آتی اسی کو میں ایک سوال کی شکل میں آپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر ششانک – آپ لوگ اس وقت دن رات زندگی کی حفاظت کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سب سے پہلے تو میں چاہونگا کہ آپ دوسری لہر کے بارے میں لوگوں کو بتائیں۔ طبی طور پر یہ کیسے الگ ہے اور کیا کیا احتیاط ضروری ہے ۔
ڈاکٹر ششانک – شکریہ سر، یہ جو دوسری لہر (wave) آئی ہے ۔ یہ تیزی سے آئی ہے، تو جتنی پہلی لہر (wave) تھی اس سے یہ وائرس زیادہ تیز چل رہا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس سے زیادہ رفتار سےصحت یابی بھی ہو رہی ہے اور اموات کی شرح کافی کم ہے ۔ اس میں دو تین فرق ہے، پہلا تو یہ نوجوانوں میں اور بچوں میں بھی تھوڑا دکھائی دے رہا ہے ۔ اسکی جو علامت ہے، پہلے جیسی علامت تھی سانس چڑھنا، سوکھی کھانسی آنا، بخار آنا یہ تو سب ہے ہی اور اسکے ساتھ تھوڑی بو کا ختم ہو جانا، ذائقہ چلا جانا یہ بھی ہے ۔ اور لوگ تھوڑے خوفزدہ ہیں ۔ خوفزدہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ۔ 80-90 فیصد لوگوں میں اس کی کوئی بھی علامت دکھائی نہیں دیتی ہے، یہ میوٹیشن - میوٹیشن جو بولتے ہیں، گھبرانے کی بات نہیں ہے ۔ یہ میوٹیشن ہوتے رہتے ہیں جیسے ہم کپڑے بدلتے ہیں ویسے وائرس بھی اپنا رنگ بدل رہا ہے اور اسلئے بالکل ڈرنے کی بات نہیں ہے اور یہ لہر ہم پار کر لیں گے ۔ لہرآتی جاتی ہے، اور یہ وائرس آتاجاتا رہتا ہے تو یہی الگ الگ علامتیں ہیں ہے اور طبی طور پر ہم کو محتاط رہنا چاہیئے ۔ ایک 14 سے 21 دن کا یہ کووڈ کا ٹائم ٹیبل ہے اس میں ویدیہ (ڈاکٹر) کی صلاح لینی چاہیے ۔
مودی جی - ڈاکٹر ششانک میرے لیے بھی آپ نے جو تجزیہ پیش کیا ، بہت دلچسپ ہے، مجھے کئی خطوط ملے ہیں ، جس میں علاج کے بارے میں بھی لوگوں کو بہت سے شکوک و شبہات ہیں، کچھ دواؤں کی مانگ بہت زیادہ ہے، اسلئے میں چاہتا ہوں کہ کووڈ کے علاج کے بارے میں بھی آپ لوگوں کو ضرور بتائیں ۔
ڈاکٹر ششانک – ہاں سر، کلینکل علاج لوگ بہت تاخیر سے شروع کرتے ہیں اور اپنے آپ بیماری سے دب جائے گی ، اس بھروسے پر رہتے ہیں، اور، موبائل پر آنے والی باتوں پر بھروسہ رکھتے ہیں، اور اگر حکومتی معلومات پر عمل کریں تو یہ دشواری پیش نہیں آتی ہے ۔ تو کووڈ میں کلینکل علاج کا پروٹوکول ہے اس میں تین طرح کی شدت ہے ، ہلکا یا معمولی کووڈ، درمیانہ یا متوسط کووڈ اور تیز کووڈ جسے severe covid بولتے ہیں، اسکے لیے ہے ۔ تو جو ہلکا کووڈ ہے اسکے لیے تو ہم آکسیجن کی نگرانی کرتے ہیں ، نبض کی نگرانی کرتے ہیں، بخار کی نگرانی کرتے ، بخار بڑھ جاتا ہے تو کبھی کبھی پیراسیٹامول (Paracetamol) جیسی دواؤں کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے ڈاکٹر سےرجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ صحیح اور سستی دوائیں دستیاب ہیں۔ اس میں اسٹرائیوڈ، جو ہے ، جان بچا سکتی ہے، ہم اِن ہیلر دے سکتے ہیں، ہم ٹیبلیٹ دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آکسیجن ہے وہ دینا پڑتا ہے اور اس کے لیے چھوٹے چھوٹے علاج ہیں ۔ لیکن اکثر کیا ہو رہا ہے کہ ایک نئی تجرباتی دوا ہے ، جس کا نام ہے ریمڈیسیویر۔ اس دوا سے ایک چیز ضرور ہوتی کہ اسپتال میں دو–تین دن کم رہنا پڑتا ہے اورکلینکل صحت یابی میں تھوڑی سی اس سے مدد ملتی ہے ۔ یہ بھی دوا کب کام کرتی ہے، جب، پہلے 9-10 دن میں دی جاتی ہے اور یہ پانچ ہی دن دینی پڑتی ہے، تو یہ لوگ جو دوڑ رہے ہیں ریمڈیسیویر کے پیچھے یہ بالکل دوڑنا نہیں چاہیئے ۔ یہ دواکا تھوڑا کام ہے، جن کو آکسیجن لگتی ہے، زندگی بخشنے والی آکسیجن لگتی ہے، جو اسپتال میں بھرتی ہوتے ہیں اور ڈاکٹر جب بتاتے ہیں تبھی لینا چاہیئے ۔ تو سب لوگوں کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ ہم پرانایام کریں گے، ہمارےجسم میں جو پھیپھڑے ہیں انہیں تھوڑا کشادہ کریں گے اور جو ہمارے خون کو پتلا کرنے والی انجکشن ہے جس کو ہم ہیپارین (heparin) کہتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی دوائیں دیں گے تو 98 فیصد لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں، اس لیے پازیٹو رہنا بہت ضروری ہے ۔علاج کا پروٹوکول ڈاکٹروں کی صلاح سے لینا بہت ضروری ہے ۔ اور یہ جو مہنگی مہنگی دوائیں ہیں ، اسکے پیچھے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سر، اپنے پاس بہتر علاج ہو رہا ہے ، زندگی بخشنے والی آکسیجن ہے وینٹیلٹر کی بھی سہولت ہے ، سب کچھ ہے سر، اور کبھی کبھی یہ دوائیں اگر مل جاتی ہیں تو اہل لوگوں میں ہی دینی چاہیے ، تو اس کے لیے بھرم پھیلا ہوا ہے اور اس لیے یہ وضاحت دینا چاہتا ہوں سر کہ اپنے پاس دنیا کا سب سے بہترین علاج دستیاب ہے آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں سب سے اچھی صحت یابی کی شرح ہے ۔ آپ اگر موازنہ کریں گے یورپ کے لیے، امریکہ وہیں سے ہمارے یہاں کے علاج کے پروٹوکول سے مریض ٹھیک ہو رہے ہیں سر ۔
مودی جی - ڈاکٹر ششانک آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ڈاکٹر ششانک نے جو جانکاریاں ہمیں دیں، وہ بہت ضروری ہیں اور ہم سب کے کام آئیں گی۔
ساتھیو، میں آپ سب سے گذارش کرتا ہوں،، آپ کو اگر کوئی بھی جانکاری چاہیئے ہو، کوئی اور ضرورت ہو، تو سہی حوالے سے ہی جانکاری لیں ۔ آپکے جو فیملی ڈاکٹر ہوں ، آس پاس کے جو ڈاکٹرس ہوں، آپ ان سے فون سے رابطہ کرکے صلاح لیجیے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے بہت سے ڈاکٹر خود بھی یہ ذمہ داری اٹھا رہے ہیں ۔ کئی ڈاکٹر سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو جانکاری دے رہے ہیں۔ فون پر، واٹس اپ پرمشورے دے رہے ہیں ۔ کئی ہاسپٹل کی ویب سائٹیں ہیں، جہاں جانکاریاں بھی دستیاب ہیں، اور وہاں آپ ڈاکٹروں سے،صلاح و مشورہ بھی لے سکتے ہیں ۔ یہ بہت قابل تحسین ہے ۔
میرے ساتھ سرینگر سے ڈاکٹر نوید نذیر شاہ جڑ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر نوید سرینگر کے ایک گورنمنٹ میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں ۔ نوید جی اپنی نگہداشت میں متعدد کورونا مریضوں کو ٹھیک کر چکے ہیں اور رمضان کے اس مقدس مہینے میں ڈاکٹر نوید اپنی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، اور، انہوں نے ہم سے بات چیت کے لیے وقت بھی نکالا ہے ۔ آئیے انہیں سے بات کرتے ہیں ۔
مودی جی – نوید جی نمسکار ۔
ڈاکٹر نوید – نمسکار سر ۔
ڈاکٹر نوید ‘من کی بات’ کے ہمارے سامعین نے اس مشکل گھڑی میں panic management کا سوال اٹھایا ہے ۔ آپ اپنے تجربہ سے انہیں کیا جواب دیں گے ؟
ڈاکٹر نوید – دیکھیے جب کو رونا شروع ہوا تو کشمیر میں جو سب سے پہلا hospital designate ہوا کووڈ ہاسپٹل کے طور پر تو وہ ہمارا سٹی ہاسپٹل تھا ۔ جو میڈیکل کالج کے ماتحت ہے تو اس وقت ایک خوف کا ماحول تھا ۔ لوگو میں تو تھا ہی وہ سمجھتے تھے شاید کووڈ انفیکشن اگر کسی کو ہو جاتا ہے تو سزائے موت مانا جائے گا یہ ، اور ایسے میں ہمارے ہسپتال میں ڈاکٹر صاحبان یا نیم طبی عملے کام کرتے تھے، ان میں بھی ایک خوف کا ماحول تھا کہ ہم ان مریض کا کیسے سامنا کریں گے ہمیں انفیکشن ہونے کا خطرہ تو نہیں ہے۔ لیکن جو وقت گذرا ہم نے بھی دیکھا کہ اگر پورے طریقے سے ہم جو protective gear پہنے احتیاطی تدابیر جو ہے، ان پر عمل کریں تو ہم بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور ہمارا جو باقی عملہ ہے وہ بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور آگے آگے ہم دیکھتے گئے مریض یا کچھ لوگ بیمار تھے جو asymptomaticتھے جن میں بیماری کی کوئی علامت نہیں تھی۔ ہم نے دیکھا تقریبا 90-95 فیصد سے زیادہ جو مریض ہیں وہ بغیر دواؤں کے بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں تو وقت جیسے گزرتا گیا لوگوں میں جو کو رونا کا ایک ڈر تھا وہ بہت کم ہو گیا ۔ آج کی بات جو یہ second wave جو اس ٹائم ہماری آئی ہے اس کو رونا میں اس ٹائم بھی ہمیں panic ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس موقع پر جو بھی احتیاطی تدابیر ہیں ، جو SOPs ہے اگر ان پر ہم عمل کریں گے جیسے ماسک پہننا، hand sanitizer کا استعمال کرنا، اسکے علاوہ جسمانی دوری برقرار رکھنا یا سماجی اجتماع سے اجتناب کریں تو ہم اپنے روزمرہ کا کام بھی بخوبی کر سکتے ہیں اور اس بیماری سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں ۔
مودی جی - ڈاکٹر نوید ویکسین کے بارے میں بھی لوگوں کے کئی سوال ہیں، جیسے کہ ویکسین سے کتنی حفاظت ملے گی، ویکسین کے بعد کتنا مطمئن رہ سکتے ہیں ؟ آپ کچھ بات اس کے بارے میں بتائیں سامعین کو بہت فائدہ پہنچے گا ۔
ڈاکٹر نوید – جب کو رونا کا انفیکشن سامنے آیا تب سے آج تک ہمارے پاس کووڈ 19 کے لیے کوئی مؤثر علاج دستیاب نہیں ہے، تو ہم اس بیماری کا مقابلہ دو ہی چیزوں سے کر سکتے ہیں ایک توحفاظتی تدابیر اور ہم پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی مؤثر ویکسین ہمارے پاس آئے تو وہ ہمیں اس بیماری سے نجات دلا سکتا ہے اور ہمارے ملک میں دو ویکسین اس وقت دستیاب ہے، Covaxin and Covishield ہے جو یہیں بنی ہوئی ویکسین ہے ۔ اور کمپنیوں نے بھی جو اپنا تجربہ کیا ہے تو اس میں بھی دیکھا گیا ہے کہ اسکی اثر انگیزی 60 فیصد سے زیادہ ہے، اور اگر ہم، جموں کشمیر کی بات کریں تو مرکز کے زیر انتظام ہماری ریاست میں ابھی تک 15 سے 16 لاکھ تک لوگوں نے ابھی یہ ویکسین لگائی ہے ۔ ہاں سوشل میڈیا میں اس کے بارے میں کافی misconception یا myths ہیں، اس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے side effect ہیں، ابھی تک یہاں جو بھی ویکسین لگے ہیں کوئی side effect میں نہیں پایا گیا ہے ۔ صرف، جو، عام vaccine کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، کسی کو بخار آنا، پورے بدن میں درد یا جہاں پر انجکشن لگتا ہے وہاں پر درد ہونا ایسے ہی side effects ہم نے ہر مریض میں دیکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی adverse effect ہم نے نہیں دیکھا ہے ۔ اور ہاں دوسری بات لوگوں میں یہ بھی شکوک و شبہات تھے کہ کچھ لوگ ٹیکہ کاری یعنی ویکسین لینے کے بعد پازیٹو ہو گئے اس میں کمپنیوں سے ہی گائیڈ لائن ہے کہ اس میں اگر کسی کو ٹیکہ لگا ہے ، اسکے بعد اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے وہ پازیٹو ہو سکتا ہے ۔ لیکن جو بیماری کی شدت ہے، یعنی بیماری کی شدت جو ہے، ان مریض میں، اتنی نہیں ہوگی یعنی کی وہ پازیٹو ہو سکتے ہیں لیکن جو بیماری ہے وہ ایک جان لیوا بیماری ان میں ثابت نہیں ہو سکتی، اسلئے جو بھی یہ misconception ہیں ویکسین کے بارے میں وہ ہمیں دماغ سے نکال دینا چاہیئے اور جس جس کی باری آئے کیونکہ یکم مئی سے ہمارے پورے ملک میں جو بھی 18 سال سے زیادہ کی عمر کا ہے انکو ویکسین لگانے کا پروگرام شروع ہوگا تو لوگوں سے اپیل یہی کریں گےکہ آپ ویکسین لگوائیں اور اپنے آپ کو بھی محفوظ رکھیں کریں اور مجموعی طور پر ہماری سوسائٹی اور ہماری کمیونٹی اس سے محفوظ رہے گی کووڈ 19 کے انفیکشن سے ۔
مودی جی - ڈاکٹر نوید آپ کا بہت بہت شکریہ ، اور آپ کو رمضان کے مقدس مہینے کی بہت بہت مبارکباد ۔
ڈاکٹر نوید – بہت بہت شکریہ۔
مودی جی : ساتھیو، کو رونا کے اس بحران میں ویکسین کی اہمیت سبھی کو پتہ چل رہی ہے، اسلئے، میری گذارش ہے کہ ویکسین کے بارے میں کسی افواہ پر دھیان نہ دیں ۔ آپ سبھی کو معلوم بھی ہوگا کہ حکومت ہند کی طرف سے تمام ریاستی حکومتوں کو مفت ویکسین بھیجی گئی ہے جس کافائدہ 45 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگ اٹھا سکتے ہیں ۔ اب تو یکم مئی سے ملک میں 18 سال سے زیادہ کی عمر کے ہر فرد کے لیے ویکسین دستیاب ہونے والی ہے ۔ اب ملک کا کارپوریٹ سیکٹر, کمپنیاں بھی اپنے کرمچاریوں کو ویکسین لگانے کی مہم شرکت کر پائیں گی۔ مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے مفت ویکسین کا جوپروگرام ابھی چل رہا ہے، وہ، آگے بھی چلتا رہیگا ۔ میری ریاستوں سے بھی گذارش ہے، کہ، وہ حکومت ہند کی اس مفت ویکسین مہم کا فائدہ اپنی ریاست کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایں ۔
ساتھیو، ہم سب جانتے ہیں کہ بیماری میں ہمارے لیے اپنی، اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنا، ذہنی طور پر کتنا مشکل ہوتا ہے، لیکن، ہمارے اسپتالوں کے نرسنگ اسٹاف کو تو، یہی کام، لگاتار، کتنے ہی مریضوں کے لیے ایک ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ یہ خدمت کا جذبہ ہمارے سماج کی بہت بڑی طاقت ہے ۔نرسنگ اسٹاف کے ذریعہ کی جا رہی خدمات اور جانفشانی کے بارے میں، سب سے اچھا تو کوئی نرس ہی بتا سکتی ہے ۔ اسلئے میں نے رائے پور کے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر میڈیکل کالج ہاسپٹل میں اپنی خدمات سر انجام دے رہیں sister بھاونا دھرو جی کو ‘من کی بات’ میں مدعو کیا ہے، وہ،متعدد کو رونا مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں ۔ آئیے ! ان ہی سے بات کرتے ہیں –
مودی جی:- نمسکار بھاونا جی !
بھاونا:- معزز وزیر اعظم صاحب ، نمسکار !
مودی جی:- بھاونا جی۔۔۔
بھاونا:- یس سر
مودی جی:- ‘من کی بات’ سننے والوں کو آپ ضرور یہ بتائیےکہ آپکے کنبے میں اتنی ساری ذمہ داریاں یعنی multitask اور اسکے بعد بھی آپ کو رونا کے مریضوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں ۔ کو رونا کے مریضوں کے ساتھ آپ کا جو تجربہ رہا، وہ ضرور ہم وطن سننا چاہیں گے کیونکہ sister جو ہوتی ہے، نرسیں جو ہوتی ہیں، مریض کے سب سے قریب ہوتی ہیں اور سب سے طویل وقت تک ہوتی ہیں تو وہ ہر چیز کو بڑی باریکی سے سمجھ سکتی ہیں جی بتائیے ۔
بھاونا:- جی سر، میرا total experience کووڈ میں سر، دو مہینے کا ہے سر ۔ ہم 14 دنوں کی ڈیوٹی کرتے ہیں اور 14 دنوں کے بعد ہمیں rest دیا جاتا ہے ۔ پھر 2 مہینے بعد ہماری یہ کووڈ کی ڈیوٹی دوبارہ ہوتی ہے سر ۔ جب سب سے پہلے میری کووڈ کی ڈیوٹی لگی تو سب سے پہلے میں اپنےفیملی کے لوگوں کو کووڈ ڈیوٹی کی بات شیئر کی ۔ یہ مئی کی بات ہے اور میں، یہ، جیسے ہی میں نے شیئر کیا سب کے سب ڈر گئے، گھبرا گئے مجھ سے، کہنے لگے کہ بیٹا ٹھیک سے کام کرنا، ایک جذباتی صورتحال تھی سر ۔ درمیان میں جب، میری بیٹی مجھ سے پوچھی، ممی آپ کووڈ ڈیوٹی پر جا رہی ہیں تو اس وقت بہت ہی زیادہ میرے لیے جذباتی لمحہ تھا، لیکن، جب میں کووڈ کے مریض کے پاس گئی تو میں ایک ذمہ داری گھر میں چھوڑ کر گئی اور جب میں کووڈ کے مریض سے ملی سر، تو وہ ان سے اور زیادہ گھبرایے ہوئے تھے، کووڈ کے نام سے سارے مریض اتنا ڈرے ہوئے تھے سر، کہ، انکو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ہم آگے کیا کریں گے ۔ ہم انکے ڈر کو دور کرنے کے لیے ان کو بہت اچھے سے دوستانہ ماحول دیا ، سر ، انہیں ۔ ہمیں جب یہ کووڈ ڈیوٹی کرنے کو کہا گیا تو سر سب سے پہلے ہم کو پی پی ای کٹ پہننے کے لیے کہا گیا سر، جو کہ بہت ہی مشکل ہے، پی پی ای کٹ پہن کر ڈیوٹی کرنا ۔ سر یہ بہت ہی مشکل تھا ہمارے لیے، میں نے دو مہینے کی ڈیوٹی میں ہر جگہ 14-14 دن ڈیوٹی کی وارڈ میں، آئی سی یو میں، آئسولیشن میں سر ۔
مودی:- یعنی کل ملا کر تو آپ ایک سال سے اسی کام کو کر رہی ہیں ۔
بھاونا: یس سر، وہاں جانے سے پہلے مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے colleagues کون ہے ۔ ہم نے ایک ٹیم ممبر کی طرح کام کیا سر، ان کی جو بھی مشکلیں تھیں ، انکو شیئر کیا ، ہم نے مریض کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور انکا stigma دور کیاسر، کئی لوگ ایسے تھے سر جو کووڈ کے نام سے ہی ڈرتے تھے ۔ وہ ساری علامتیں ان میں تھیں جب ہم history لیتے تھے ان سے، لیکن وہ ڈر کے باعث اپنا ٹیسٹ نہیں کروا پاتے تھے، تو ہم انکو سمجھاتے تھے، اور سر، جب شدت بڑھ جاتی تھی تب ان کا پھیپھڑا متاثر ہو چکا ہوتا تھا تب انکو آئی سی یو کی ضرورت ہوتی تھی تب وہ آتے تھے اور ساتھ میں انکی پوری فیملی آتی تھی ۔ تو ایسا 1-2 معاملہ ہم نے دیکھا سر اور ایسا بھی نہیں کہ ہر ایک age group کے ساتھ کام کیا سر ہم نے ۔جس میں چھوٹے بچے تھے، خواتین، مرد ، بزرگ، ہر طرح کے مریض تھے سر ۔ ان سب سے ہم نے بات کی تو سب نے کہا کہ ہم ڈر کی وجہ سے نہیں آ پاے، سب کا یہی جواب ہمیں ملا سر ۔ تو ہم انکو سمجھائے سر، کہ، ڈر کچھ نہیں ہوتا ہے آپ ہمارا ساتھ دیجیے ہم آپ کا ساتھ دینگے بس آپ جو بھی پروٹول ہے اس پر عمل کیجیے بس ہم اتنا ان سے کر پاے سر ۔
مودی جی:- بھاونا جی، مجھے بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے، آپ نے کافی اچھی جانکاریاں دی ہیں ۔ اپنے خود کے تجربے پیش کئے ہیں ، تو ضرور ہم وطنوں میں اس سے ایک اثباتیت کا پیغام پہنچے گا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ بھاونا جی!
بھاونا:- Thank you so much sir... Thank you so much... جے ہند سر ۔
مودی جی:- جے ہند
بھاونا جی اور Nursing Staff کے آپ جیسے ہزاروں لاکھوں بھائی بہن بخوبی اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ یہ ہم سبھی کے لیے بہت بڑی ترغیب ہے ۔ آپ اپنی صحت پر بھی خوب دھیان دیجیے ۔ اپنے پریوار کا بھی دھیان رکھیے ۔
ساتھیو، ہمارے ساتھ، اس وقت مینگلورو سے Sister سریکھا جی بھی جڑی ہوئی ہیں ۔ سریکھا جی K.C. General Hospital میں Senior Nursing Officer ہیں ۔ آئیے ! انکے تجربات بھی جانتے ہیں –
مودی جی:- نمستے سریکھا جی !
सुरेखा:- I am really proud and honoured sir to speak to Prime Minister of our country.
Modi ji:-Surekha ji, you along with all fellow nurses and hospital staff are doing excellent work. India is thankful to you all. What is your message for the citizens in this fight against COVID-19.
Surekha:- Yes sir... Being a responsible citizen I would really like to tell something like please be humble to your neighbors and early testing and proper tracking help us to reduce the mortality rate and moreover please if you find any symptoms isolate yourself and consult nearby doctors and get treated as early as possible. So, community need to know awareness about this disease and be positive, don’t be panic and don’t be stressed out. It worsens the condition of the patient. We are thankful to our Government proud to have a vaccine also and I am already vaccinated with my own experience I wanted to tell the citizens of India, no vaccine provides 100% protection immediately. It takes time to build immunity. Please don’t be scared to get vaccinated. Please vaccinate yourself; there is a minimal side effects and I want to deliver the message like, stay at home, stay healthy, avoid contact with the people who are sick and avoid touching the nose, eyes and mouth unnecessarily. Please practice physically distancing, wear mask properly, wash your hands regularly and home remedies you can practice in the house. Please drink Ayurvedic Kadha (आयुर्वेदिक काढ़ा), take steam inhalation and mouth gargling everyday and breathing exercise also you can do it. And one more thing last and not the least please have a sympathy towards frontline workers and professionals. We need your support and co-operation. We will fight together. We will get through with the pandemic. This is what my message to the people sir.
Modi ji:- Thank you Surekha ji.
Surekha:- Thank you sir.
سریکھا جی، واقعی، آپ بہت مشکل گھڑی میں مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ آپ اپنا دھیان رکھیے ! آپکے پریوار کو بھی میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں ۔ میں، ملک کے لوگوں سے بھی اپیل کرونگا کہ جیسے بھاونا جی، سریکھا جی نے، اپنے تجربات کا اظہار کیا ہے ۔ کو رونا سے لڑنے کے لیے مثبت جذبہ بہت زیادہ ضرری ہے اور ہم وطنوں کو اسے بنائے رکھنا ہے ۔
ساتھیو، ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کے ساتھ ساتھ اس وقت Lab-Technicians اور Ambulance Drivers جیسے Frontline Workers بھی بھگوان کی طرح ہی کام کر رہے ہیں ۔ جب کوئی Ambulance کسی مریض تک پہنچتی ہے تو انہیں Ambulance Driver دیودوت جیسا ہی لگتا ہے ۔ ان سب کی خدمات کے بارے میں، انکےاحساسات کے بارے میں، ملک کو ضرور جاننا چاہیئے ۔ میرے ساتھ ابھی ایسے ہی ایک شخص ہیں – شریمان پریم ورما جی، جو کہ ایک Ambulance Driver ہیں، جیسا کہ انکے نام سے ہی پتہ چلتا ہے ۔ پریم ورما جی اپنے کام کو، اپنے فرض کو، پورے پریم اور لگن سے کرتے ہیں ۔ آئیے ! ان سے بات کرتے ہیں –
مودی جی – نمستے پریم جی ۔
پریم جی – نمستے سر جی ۔
مودی جی – بھائی ! پریم ۔
پریم جی – ہاں جی سر ۔
مودی جی – آپ اپنے کام کے بارے میں ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – ذرا تفصیل سے بتائیے ۔ آپ کا جو تجربہ ہے، وہ بھی بتائیے ۔
پریم جی – میں CATS Ambulance میں driver کی post پر ہوں، اور جیسے ہی Control ہمیں ایک tab پر call دیتا ہے ۔ 102 سے جو call آتی ہے ہم move کرتے ہیں patient کے پاس ۔ ہم patient کی طرف جاتے ہیں، انکے پاس، تو دو سال سے ہم مسلسل کر رہے ہیں یہ کام ۔ اپنا کٹ پہن کر، اپنےماسک، دستانہ پہن کرمریض کو، جہاں وہ drop کرنے کے لیے کہتے ہیں، جو بھی ہاسپیٹل میں، ہم جلدی سے جلدی انکو drop کرتے ہیں ۔
مودی جی – آپ کو تو ویکسین کی دونوں dose لگ گئی ہوں گی ۔
پریم جی – بالکل سر ۔
مودی جی – تو دوسرے لوگوں کو ویکسین vaccine لگوائیں ۔ اسکے لیے آپ کا کیا پیغام ہے ؟
پریم جی – سر بالکل ۔ سبھی کو یہ dose لگوانا چاہیئے اور اچھی ہی ہے family کے لیے بھی ۔ اب مجھے میری ممی کہتی ہیں یہ نوکری چھوڑ دو ۔ میں نے بولا، ممی، اگر میں بھی نوکری چھوڑ کر بیٹھ جاؤنگا تو سب اور patient کو کیسے کون چھوڑنے جائیگا ؟ کیونکہ سب اس کورونا کال میں سب بھاگ رہے ہیں ۔ سب نوکری چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ممی بھی مجھے بولتی ہیں کہ بیٹا وہ نوکری چھوڑ دے ۔ میں نے بولا نہیں ممی میں نوکری نہیں چھوڑوں گا ۔
مودی جی – پریم جی ماں کو دکھی مت کرنا ۔ ماں کو سمجھانا ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – لیکن یہ جو آپ نے ماں والی بات بتائی نا
پریم جی – ہاں جی ۔
مودی جی – یہ بہت ہی چھونے والی ہے ۔
پریم جی – ہاں جی ۔
مودی جی – آپکی ماتا جی کو بھی ۔
پریم جی – ہاں جی ۔
مودی جی – میرا پرنام کہئے گا ۔
پریم جی – بالکل
مودی جی – ہاں
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – اور پریم جی میں آپ کے ذریعہ
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – یہ ambulance چلانے والے ہمارے driver بھی
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – کتنا بڑا risk لے کر کام کر رہے ہیں ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – اور ہر ایک کی ماں کیا سوچتی ہے ؟
پریم جی – بالکل سر
مودی جی – یہ بات جب سامعین تک پہنچے گی
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – میں ضرور مانتا ہوں، کہ ان کے بھی دل کو چھو جائیگی ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – پریم جی بہت بہت شکریہ ۔ آپ ایک طرح سے پریم کی گنگا بہا رہے ہیں ۔
پریم جی – شکریہ سر جی
مودی جی – شکریہ بھیا
پریم جی – شکریہ ۔
ساتھیو، پریم ورما جی اور ان جیسے ہزاروں لوگ، آج اپنی زندگی داو پر لگاکر، لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں ۔ کو رونا کے خلاف اس لڑائی میں جتنی بھی زندگی بچ رہی ہے اس میں Ambulance Drivers کا بھی بہت بڑی خدمت ہے ۔ پریم جی آپ کو اور ملک بھر میں آپ کے سبھی ساتھیوں کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، ۔ آپ وقت پر پہنچتے رہیے، زندگی بچاتے رہیے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ صحیح ہے کہ، کو رونا سے بہت لوگ متاثر ہو رہے ہیں، لیکن، کو رونا سے ٹھیک ہونے والے لوگوں کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ ہے ۔ گروگرام کی پریتی چترویدی جی نے بھی حال ہی میں کو رونا کو ہرایا ہے۔ پریتی جی ‘من کی بات’ میں ہمارے ساتھ جڑ رہی ہیں۔ انکے تجربات ہم سب کےلیے بہت کام آئیں گی ۔
مودی جی – پریتی جی نمستے
پریتی – نمستے سر ۔ کیسے ہیں آپ ؟
مودی جی – میں ٹھیک ہوں، جی ۔ سب سے پہلے تو میں آپ کی کووڈ 19 سے
پریتی – جی
مودی جی – کامیابی کے ساتھ لڑنے کے لیے
پریتی – جی
مودی جی – ستائش کروں گا
پریتی – Thank you so much sir
مودی جی – میری تمنا ہے آپ کی صحت اور تیزی سے بہتر ہو ۔
پریتی – جی شکریہ سر
مودی جی – پریتی جی
پریتی –ہاں جی سر
مودی جی –پوری لہر میں صرف آپ ہی کا نمبر لگا ہے کہ خاندان دیگر لوگ بھی اس میں پھنس گئے ہیں ۔
پریتی – نہیں نہیں سر میں اکیلی ہی ہوئی تھی ۔
مودی جی – چلیے بھگوان کی کرپا رہی ۔ اچھا میں چاہونگا
پریتی – ہاں جی سر ۔
مودی جی –آپ اپنی اس تکلیف کی صورتحال کے کچھ تجربات اگر شیئر کریں تو شاید جو سامعین ہیں انکو بھی ایسے وقت میں کیسے اپنے آپ کو سنبھالنا چاہیئے اس کی رہنمائی ملے گی ۔
پریتی – جی سر، ضرور ۔ سر initially stage میں میرے کو بہت زیادہ lethargy, مطلب بہت سستی سستی آئی اور اسکے بعد نا میرے گلے میں تھوڑی سی خراش ہونے لگی ۔ تو اسکے بعد تھوڑا سا مجھے لگا کہ یہ علامت ہے تو میں نے جانچ کے لیے ٹیسٹ کرایا ۔ دوسرے دن report آتے ہی جیسے ہی مجھے positive ہوا، میں نے اپنے آپ کو quarantine کر لیا ۔ ایک Room میں isolate کرکےdoctors سے رابطہ کیا میں نے سے ۔ انکی medication start کر دی ۔
مودی جی – تو آپ کا پریوار بچ گیا آپکےفوری اقدام کی وجہ سے ۔
پریتی – جی سر ۔ وہ باقی سب کا بھی بعد میں کرایا تھا ۔ باقی سب negative تھے ۔ میں ہی positive تھی ۔ اس سے پہلے میں نے اپنے آپ کو isolate کر لیا تھا ایک room کے اندر ۔ اپنی ضرورت کا سارا سامان رکھ کر اسکو میں اپنے آپ اندر کمرے میں بند ہو گئی تھی ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ میں نے پھر ڈاکٹر کے ساتھ medication start کر دی ۔ سر میں نے medication کے ساتھ ساتھ ، یوگا، آیورویدک، اور، میں یہ سب start کیا اور ساتھ میں ، میں نے، کاڑھا بھی لینا شروع کر دیا تھا ۔ قوت مدافعت بہتر کرنے کے لیے اور سر میں دن میں مطلب جب بھی کھانا کھاتی تھی ، اس میں میں نے healthy food جو کہ protein rich diet تھی، وہ لیا میں نے ۔ میں نے بہت سارا fluid لیا میں نے steam لیا gargle کیا اور hot water لیا ۔ میں نے دن بھر میں ان سب چیزوں کو ہی اپنی زندگی میں لیتی آئی روزانہ ۔ اور سر ان دنوں میں نا، سب سے بڑی بات میں بولنا چاہونگی گھبرانا تو بالکل نہیں ہے ۔ ذہنی طور پر بہت مضبوط رہنا ہے جسکے لیے مجھے یوگا نے بہت زیادہ، breathing exercise کرتی تھی اچھا لگتا تھا اسکو کرنے سے مجھے ۔
مودی جی – ہاں ۔ اچھا پریتی جی جب آپ کا process پورا ہو گیا ۔ آپ بحران سے باہر نکل آئیں ۔
پریتی – ہاں جی
مودی جی – اب آپ کا test بھی negative آ گیا ہے ۔
پریتی – ہاں جی سر
مودی جی – تو پھر آپ اپنی صحت کے لیے اسکی دیکھ بھال کے لیے ابھی کیا کر رہی ہیں ؟
پریتی – سر میں نے ایک تو یوگابند نہیں کیا ہے ۔
مودی جی – ہاں
پریتی – ٹھیک ہے میں نے کاڑھا ابھی بھی لے رہی ہوں، اور اپنی قوت مدافعت برقرار رکھنے کے لیے میں اچھا healthy food کھا رہی ہوں، ابھی ۔
مودی جی – ہاں
پریتی – جو کہ میں بہت اپنے آپ کونظر انداز کرتی تھی اس پر بہت دھیان دے رہی ہوں، میں ۔
مودی جی – شکریہ پریتی جی ۔
پریتی – Thank you so much sir.
مودی جی – آپ نے جو جانکاری دی مجھے لگتا ہے یہ بہت سارے لوگوں کے کام آئے گی ۔ آپ صحت مند رہیں، آپ کنبے کے لوگ صحت مند رہیں، میری جانب سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ۔
میرے پیارے ہم وطنو، جیسے آج ہمارے طبی شعبہ کے لوگ، صف اول کے کارکنان دن رات خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ ویسے ہی سماج کے دیگر لوگ بھی، اس وقت پیچھے نہیں ہیں ۔ ملک ایک بار پھرمتحد ہوکر کو رونا کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے ۔ ان دنوں میں دیکھ رہا ہوں، کوئی قرنطینہ میں رہ رہے کنبوں کے لیے دوا پہنچا رہا ہے، کوئی، سبزیاں ، دودھ، پھل وغیرہ پہنچا رہا ہے۔ کوئی ایمبولینس کی مفت خدمات مریضوں کو دے رہا ہے ۔ ملک کے الگ الگ گوشے میں اس چیلنج سے بھرپور گھڑی میں بھی اپنی مدد آپ تنظیمیں آگے آکر دوسروں کی مدد کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس بار، گاؤوں میں بھی نئی بیداری دیکھی جا رہی ہے ۔ کووڈ ضابطوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے لوگ اپنے گاؤں کی کو رونا سے حفاظت کر رہے ہیں، جو لوگ، باہر سے آ رہے ہیں انکے لیے صحیح انتظامات بھی کی جا رہی ہیں ۔ شہروں میں بھی کئی نوجوان سامنے آئے ہیں، جو اپنے علاقوں میں، کو رونا کے معاملے نہ بڑھیں ، اسکے لیے، مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کوشش کر رہے ہیں، یعنی ایک طرف ملک ، دن رات اسپتالوں، Ventilators اور دوائیوں کے لیے کام کر رہا ہے، تو دوسری جانب ، ہم وطن بھی، جی جان سے کو رونا کے چیلنجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ یہ جذبہ ہمیں کتنی طاقت دیتا ہے، کتنا اعتماد پیدا کرتا ہے ۔ یہ جو بھی کوشش ہو رہی ہے ، سماج کی بہت بڑی خدمت ہے ۔ یہ سماج کی طاقت شکتی بڑھاتی ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ کی پوری بات چیت کو ہم نے کو رونا وبا کے لیے ہی مخصوص رکھا، کیونکہ، آج، ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے، اس بیماری کو ہرانا ۔ آج بھگوان مہاویر جینتی بھی ہے ۔ اس موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کونیک خواہشات پیش کرتا ہوں، ۔ بھگوان مہاویر کے پیغام ، ہمیں، حوصلہ اور خود اعتمادی کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ابھی رمضان کا مقدس مہینہ بھی چل رہا ہے ۔ آگے بدھ پورنما بھی ہے ۔ گرو تیغ بہادر جی کا 400واں پرکاش پرو بھی ہے ۔ ایک اہم دن پوچشے بوئی شاک - ٹیگور جینتی کا ہے ۔ یہ سبھی ہمیں ترغیب دیتے ہیں اپنے فرائض کی انجام دہی کی ۔ ایک شہری کے طور پر ہم اپنی زندگی میں جتنی مہارت سے اپنے فرائض انجام دیں گے ، بحران سے نکل کر مستقبل کے راستے پر اتنی ہی تیزی سے آگے بڑھیں گے ۔ اسی تمنا کے ساتھ میں آپ سبھی سے ایک بار پھر اپیل کرتا ہوں، کہ ویکسین ہم سب کو لگوانا ہے اور پوری احتیاط بھی برتنی ہے ۔ ‘دوائی بھی - کڑائی بھی’ ۔ اس منتر کو کبھی بھی نہیں بھولنا ہے ۔ ہم جلد ہی ساتھ مل کر اس آفت سے باہر آئیں گے ۔ اسی امید کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ ۔ نمسکار ۔
نئی دہلی۔ 28 مارچ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! اس بار، جب میں،‘من کی بات’ کے لیے، جو بھی خطوط آتے ہیں،تبصرے آتے ہیں، مختلف قسم کی جانکاری ملتی ہیں، جب انکی طرف نظر دوڑا رہا تھا، تو کئی لوگوں نے ایک بہت ہی اہم بات یاد کی۔مائی گو پر آرین شری، بینگلورو سے انوپ راؤ، نوئیڈا سے دیویش، تھانے سے سجیت، ان سبھی نے کہا – مودی جی اس بار ‘من کی بات’ کی 75ویں ہے، اسکے لیے آپ کو مبارکباد ۔ میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ نے اتنی باریک بینی سے ‘من کی بات’ کو سنتے رہے ہیں اور آپ جڑے رہے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت ہی فخر کا باعث ہے، خوشی کا باعث ہے۔ میری طرف سے بھی، آپ سبھی کو مبارکباد، ‘من کی بات’ کے سبھی سامعین کا شکر گزار ہوں ، کیونکہ آپ کے ساتھ کے بغیر یہ سفر ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ کل کی ہی بات ہو، جب ہم سبھی نے ایک ساتھ مل کر یہ فکری سفر کا آغاز کیا تھا۔ تب 3 اکتوبر، 2014 کو وجے دشمی کا مقدس تہوار تھا اور اتفاق دیکھیے، کہ آج، ہولیکا دہن ہے۔ ‘ایک دیپ سے جلے دوسرا اور ملک روشن ہو ہمارا’ – اس جذبے کے ساتھ چلتے چلتے ہم نے یہ راستہ طے کیا ہے۔ ہم لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے لوگوں سے بات کی اور ان کے غیر معمولی کارناموں کے بارے میں جانا۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، ہمارے ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی، کتنی بے مثال صلاحیت موجود ہے۔ بھارت ماں کی گود میں، کیسے کیسے رتن پل رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بھی ایک سماج کے تئیں دیکھنے کا، سماج کو جاننے کا، سماج کی صلاحیت کو پہچاننے کا، میرے لیے تو ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ان 75 قسطوں کے دوران کتنے کتنے موضوعات سے گزرنا ہوا۔ کبھی ندی کی بات تو کبھی ہمالیہ کی چوٹیوں کی بات، تو کبھی ریگستان کی بات، کبھی قدرتی آفات کی بات، تو کبھی انسانی خدمات بے شمار کہانیوں کا احساس ، کبھی ٹکنالوجی کی ایجاد، تو کبھی کسی انجان گوشے میں، کچھ نیا کر کےدکھانے والے کسی کے تجربہ کی کہانی ۔ اب آپ دیکھیے، کیا صفائی کی بات ہو، چاہے ہماری وراثت کو سنبھالنے کا ذکر ہو، اور اتنا ہی نہیں، کھلونے بنانے کی بات ہو، کیا کچھ نہیں تھا۔ شاید، کتنے موضوعات پرہم نے بات کی ہے تو وہ بھی شاید بے شمار ہو جائیں گے۔ اس دوران ہم نے وقفے وقفے سے عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کی، انکے بارے میں جانا، جنہوں نے ہندوستان کی تعمیر میں بے نظیر خدمات پیش کی ہیں۔ ہم لوگوں نے کئی عالمی امور پر بھی بات کی، ان سے تحریک لینے کی کوشش کی ہے۔ کئی باتیں آپ نے مجھے بتائی، کئی آئیڈیاز دیے،۔ ایک طرح سے، اس فکری سفر میں، آپ، ساتھ ساتھ چلتے رہے، جڑتے رہے اور کچھ نہ کچھ نیا جوڑتے بھی رہے۔ میں آج، اس 75ویں قسط کے موقع پر سب سے پہلے ‘من کی بات’ کو کامیاب بنانے کے لیے، خوشگوار بنانے کے لیے اور اس سے جڑے رہنے کے لیے ہر سامع کا بہت بہت شکر گزار ہوں،۔
میرے پیارے ہم وطنو، دیکھیے یہ کیسا حسن اتفاق ہے آج مجھے 75ویں ‘من کی بات’ کا موقع ملا اور یہی مہینہ آزادی کے 75 سال کے ‘امرت مہوتسو’کے آغاز کا مہینہ۔ امرت مہوتسو ڈانڈی یاترا کے دن سے شروع ہوا تھا اور 15 اگست 2023 تک چلےگا۔‘امرت مہوتسو’ سے منسلک پروگرام پورے ملک میں مسلسل ہو رہے ہیں، الگ الگ جگہوں سے ان پروگراموں کی تصویریں، جانکاریاں لوگ شیئر کر رہے ہیں۔نمو ایپ پر ایسی ہی کچھ تصویروں کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ کے نوین نے مجھے ایک پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے ‘امرت مہوتسو’ کے پروگرام دیکھے اور طے کیا کہ وہ بھی جد وجہد آزادی سے جڑے کم سے کم 10 مقامات پر جائیں گے۔ ان کی فہرست میں پہلا نام، بھگوان برسا منڈا کے جائے پیدائش کا ہے۔ نوین نے لکھا ہے کہ جھارکھنڈ کے قبائلی مجاہدین آزادی کی کہانیاں وہ ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچائیں گے۔ بھائی نوین، آپکی سوچ کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، کسی مجاہدین آزادی کی جد و جہد کی داستان ہو، کسی جگہ کی تاریخ ہو، ملک کی کوئی ثقافتی کہانی ہو، ‘امرت مہوتسو’ کے دوران آپ اسے ملک کے سامنے لا سکتے ہیں، ہم وطنوں کو اس سے جوڑ نے کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔آپ دیکھئے گا، دیکھتے ہی دیکھتے ‘امرت مہوتسو’ ایسے بہت سے قابل ترغیب امرت سے بھر جائے گا، اور پھر امرت کی ایسی دھارا بہے گی جو ہمیں ہندوستان کی آزادی کی سو سال تک ترغیب دے گی۔ ملک کو نئی بلندی پر لے جائے گی، کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے گی۔ آزادی کے لڑائی میں ہمارے مجاہدین نے کتنے ہی تکلیف اسلئے برداشت کیے ، کیونکہ، وہ ملک کے لیے قربانی کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی قربانی کی لازوال داستانیں اب ہمیں مسلسل فرائض کی ادائیگی کے لیے راغب کرے اور جیسے گیتا میں بھگوان کرشن نے کہا ہے –
نیتں کورو کرم توں کرم جیایو ہیکرمن:
اسی جذبے کے ساتھ، ہم سب، اپنے مقررہ فرائض کو پوری ایمانداری سے انجام دیں اور آزادی کا ‘امرت مہوتسو’ کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے عزم کی تجدید کریں۔ ان عزائم کو ثابت کرنے کے لیے جی جان سے مصروف ہو جائیں اور عزم وہ ہو جو سماج کی بھلائی کاہو، دیش کی بھلائی کا ہو،ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے ہو، اور عزم وہ ہو، جس میں، میری ، اپنی، خود کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہو، میرا اپنا فرض جڑا ہوا ہو۔ مجھے یقین ہے، گیتا کو جینے کا یہ سنہرا موقع ، ہم لوگوں کے پاس ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے سال یہ مارچ کا ہی مہینہ تھا، ملک نے پہلی بار جنتا کرفیو کا لفظ سنا تھا۔ لیکن اس عظیم ملک کے عظیم باشندوں کی عظیم قوت تجربہ دیکھیے، جنتا کرفیو پوری دنیا کے لیے حیران کن بن گیا تھا۔نظم و ضبط کی یہ غیر معمولی مثال تھی، آنے والی نسلیں اس ایک بات پر ضرور فخر کرے گی۔ اسی طرح ہمارے کو رونا واریئر کے احترام ،عزت ، تھالی بجانا، تالی بجانا، دیا جلانا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کو رونا واریئر کے دل کو کتنا چھو گیا تھا وہ، اور، وہ ہی تو سبب ہے، جو پورےسال بھر،وہ ، بغیر تھکاوٹ محسوس کیے ، بغیر رکے، ڈٹے رہے۔ ملک کے ایک ایک شہری کی جان بچانے کے لیے جی جان سے مصروف عمل رہے۔ پچھلے سال اس وقت سوال تھا کہ کو رونا کی ویکسین کب تک آئے گی۔ ساتھیو، ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے، کہ آج ہندوستان ، دنیا کا، سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام چلا رہا ہے۔ٹیکہ کاری پروگرام کی تصویروں کے بارے میں مجھے بھوونیشور کی پشپا شکلا جی نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے بڑے بزرگوں میں ویکسین کے بارے میں جو جوش نظر آ رہا ہے ، اس کا ذکر میں ‘من کی بات’ میں کروں۔ساتھیو درست بھی ہے، ملک کے گوشے گوشے سے، ہم، ایسی خبریں سن رہے ہیں، ایسی تصویریں دیکھ رہے ہیں جو ہمارے دل کو چھو جاتی ہیں۔ یوپی کے جونپور میں 109 برس کی بزرگ ماں، رام دو لیا جی نے ٹیکہ لگوایا ہے، ایسے ہی، دلی میں بھی، 107 سال کے، کیول کرشن جی نےٹیکہ کی خوراک لی ہے۔ حیدرآباد میں 100 سال کے جے چودھری جی نے ٹیکہ لگوائی اور سبھی سے اپیل بھی ہے کہ ٹیکہ ضرور لگوائیں۔ میں ٹوئٹر – فیس بک پر بھی یہ دیکھ رہا ہوں، کہ کیسے لوگ اپنے گھر کے بزرگوں کو ٹیکہ لگوانے کے بعد، انکی فوٹو اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ کیرالہ سے ایک نوجوان آنندن نائر نے تو اسے ایک نیا لفظ دیا ہے – 'ویکسین سیوا'۔ ایسے ہی پیغامات دلی سے شیوانی، ہماچل سے ہمانشو اوردوسرے کئی نوجوانوں نے بھی بھیجے ہیں۔ میں آپ سبھی سامعین کی ان آراء کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،۔ ان سب کےدرمیان ، کو رونا سے لڑائی کا منتر بھی ضرور یاد رکھیئے ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔اور صرف مجھے بولنا ہے – ایسا نہیں ! ہمیں جینا بھی ہے، بولنا بھی ہے، بتانا بھی ہے اور لوگوں کو بھی، ‘دوائی بھی، کڑائی بھی’، اسکے لیے، عہد پر بھی قائم رہنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے آج اندور کی رہنے والی سومیا جی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ انہوں نے، ایک موضوع کے بارے میں میری توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا ذکر ‘من کی بات’ میں کرنے کے لیے کہا ہے۔یہ موضوع ہے – بھارت کی کرکٹ کھلاڑی متالی راج جی کا نیا ریکارڈ ۔ متالی جی، حال ہی میں بین الاقوامی کرکٹ میں دس ہزار رن بنانے والی پہلی ہندوستانی خاتون کرکٹر بنی ہیں۔ انکی اس کامیابی پر بہت بہت مبارکباد۔ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سات ہزار رن بنانے والی بھی وہ اکیلی بین الاقوامی خاتون کھلاڑی ہیں۔ خاتون کرکٹ کے شعبہ میں ان کی خدمات بہت شاندار ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ کے کیریر میں متالی راج جی نے ہزاروں لاکھوں کو تحریک دی ہے۔ ان کی سخت جانفشانی اور کامیابی کی کہانی، نہ صرف خواتین کرکٹروں، بلکہ، مرد کرکٹروں کے لیے بھی ایک ترغیب ہے۔
ساتھیو، یہ دلچسپ ہے، اسی مارچ کے مہینے میں، جب ہم یوم خواتین منا رہے تھے ، تب کئی خاتون کھلاڑیوں نے میڈل اور ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ دلی میں منعقدہ شوٹنگ میں آئی ایس ایس ایف ورلڈ کپ میں ہندوستان سرفہرست رہا۔ سونے کے تمغے کی تعداد کے معاملے میں ہندوستان بازی ماری۔ یہ ہندوستان کی خواتین اور مرد نشانہ بازوں کے شاندار کارکردگی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ اس درمیان پی وی سندھو جی نے بی ڈبلیو ایف سوئس اوپن سوپر 300 ٹورنامنٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آج،تعلیم سے لے کر کاروبار تک، مسلح افواج سے لے کرسائنس و ٹکنالوجی تک، ہر جگہ ملک کی بیٹیاں، اپنی، الگ شناخت بنا رہی ہیں۔ مجھے خاص طور پر اس بات سے خوشی ہے، کہ، بیٹیاں کھیلوں میں، اپنا ایک نیا مقام بنا رہی ہیں۔ پیشہ ورانہ انتخاب کی شکل میں اسپورٹس ایک پسند بن کر ابھر رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ عرصہ قبل ہوئی میری ٹائم انڈیا سمٹ آپ کو یاد ہے نا ؟ اس سمّٹ میں میں نے کیا کہا تھا، کیا یہ آپ کو یاد ہے ؟ قدرتی ہے، اتنے پروگرام ہوتے رہتے ہیں، اتنی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ہر بات کہاں یاد رہتی ہیں اور اتنا دھیان بھی کہاں جاتا ہے – فطری عمل ہے۔ لیکن، مجھے اچھا لگا کہ میری ایک گزارش کو گرو پرساد جی نے بہت دلچسپی لے کر آگے بڑھایا ہے۔ میں نے اس سمٹ میں ملک کے لائٹ ہاؤس کمپلیکس کے آس پاس سیاحت کی سہولتیں فروغ دینے کے بارے میں بات کی تھی۔ گرو پرساد جی نے تمل ناڈو کے دو لائٹ ہاؤسوں چنئی لائٹ ہاؤس اور مہابلی پورام لائٹ ہاؤس کی 2019 کے اپنے سفر کے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دلچسپ حقائق شیئر کی ہیں جو ‘من کی بات’ سننے والوں کو بھی حیران کریں گی۔ جیسے، چنئی لائٹ ہاؤس دنیا کے ان چنندہ لائٹ ہاؤس میں سے ایک ہے، جس میں الیویٹر موجود ہے۔ یہی نہیں،ہندوستان کا یہ اکلوتا لائٹ ہاؤس ہے، جو شہر کے حدود کے اندر قائم ہے۔ اس میں، بجلی کے لیے شمسی پینل بھی لگے ہیں۔گرو پرساد جی نے لائٹ ہاؤس کےہیرٹیج میوزیم کے بارے میں بھی بات کی، جو میرین نیوی گیشن کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے۔ میوزیم میں، تیل سے جلنے والی بڑی بڑی لائٹیں ، کیروسین لائٹ ، پٹرولیم ویپراور قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے بجلی کے لیمپ کی نمائش کی گئی ہے۔ ہندوستان کے سب سے قدیم لائٹ ہاؤس مہا بلی پورم لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی گرو پرساد جی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس لائٹ ہاؤس کے بغل میں سینکڑوں برس پہلے، پلو راجا مہیندر ورمن اول کے ذریعہ بنایا گیا ‘الکنیشورمندر' ہے۔
ساتھیو، ‘من کی بات’ کے دوران، میں نے، سیاحت کے مختلف پہلوؤں پر متعدد بار بات کی ہے، لیکن، یہ لائٹ ہاؤس ٹورزم کے لحاظ سے انوکھے ہوتے ہیں۔ اپنی شاندار تعمیر کے سبب لائٹ ہاؤس ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ہندوستان میں بھی71 لائٹ ہاؤس کی شناخت کی گئی ہے۔ ان سبھی لائٹ ہاؤسوں میں ان کی صلاحیت کے مطابق میوزیم، امپی تھیٹر، اوپن ایئر تھیٹر، کیفیٹریا، چلڈرن پارک، ماحول دوست جھونپڑیاں اور لینڈ اسکیپنگ تیار کیے جائیں گے۔ ویسے، لائٹ ہاؤس کی بات چل رہی ہے تو میں ایک انوکھے لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی آپ کو بتانا چاہوں گا۔ یہ لائٹ ہاؤس گجرات کے سریندر نگر ضلع میں جنجھوواڑا نام کے ایک مقام پر ہے۔ جانتے ہیں، یہ لائٹ ہاؤس کیوں خاص ہے ؟ خاص اسلئے ہے کیونکہ جہاں یہ لائٹ ہاؤس ہے، وہاں سے اب ساحل سمندر سو کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔ آپ کو اس گاؤں میں ایسے پتھر بھی مل جائیں گے، جو یہ بتاتے ہیں کہ، یہاں، کبھی، ایک مصروف بندرگاہ رہا ہوگا۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے ساحلی پٹی جنجھوواڑا تک تھی۔ سمندر کا گھٹنا، بڑھنا، پیچھے ہو جانا، اتنی دور چلے جانا، یہ بھی اس کی ایک شکل ہے۔ اسی مہینے جاپان میں آئی بھیانک سونامی کو 10 سال ہو رہے ہیں۔ اس سونامی میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ ایسی ایک سونامی ہندوستان میں 2004 میں آئی تھی۔ سونامی کے دوران ہم نے اپنے لائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے، اپنے،14 ملازمین کو کھو دیا تھا، انڈمان نکوبار اور تمل ناڈو میں لائٹ ہاؤس میں وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ کڑی محنت کرنے والے،ہمارے ان لائٹ کیپرس کو میں بڑے احترام سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، اور لائٹ کیپرس کے کام کی بہت بہت ستائش کرتا ہوں،۔
عزیرہم وطنو،زندگی کے ہر شعبے میں نیاپن ، جدت ضروری ہوتی ہے، ورنہ، وہی، کبھی کبھی، ہمارے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ہندوستان کی زرعی شعبہ میں جدت وقت کی ضرورت ہے۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔زرعی شعبہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے، روایتی زراعت کے ساتھ ہی، نئے متبادل کو، نئے نئے اختراعات کو، اپنانا بھی، اتنا ہی ضروری ہے۔سفید انقلاب کے دوران، ملک نے، اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ اب شہد کی مکھی کی کھیتی بھی ایسا ہی ایک متبادل بن کرابھر رہا ہے۔شہد کی مکھی کی زراعت ملک میں شہد کرانتی یا شیریں انقلاب کی بنیاد بنا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں کسان اس سے وابستہ ہو رہے ہیں، اختراعات کر رہے ہیں۔ جیسے کہ مغربی بنگال کے دارجلنگ میں ایک گاؤں ہے گردم۔ پہاڑوں کی اتنی بلندی ، جغرافیائی دقتیں، لیکن، یہاں کے لوگوں نے شہد کی مکھی کی زراعت کا کام شروع کیا، اور آج، اس جگہ پر بنے شہد کی، مدھو کی، اچھی مانگ ہو رہی ہے۔ اس سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کے ہی سندر بن علاقوں کا قدرتی آرگینک شہد تو ملک اور بیرون ممالک پسند کیا جاتا ہے۔ایسا ہی ایک ذاتی تجربہ مجھے گجرات کا بھی ہے۔ گجرات کے بناسکانٹھا میں سال 2016 میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں میں نے لوگوں سے کہا یہاں اتنے امکانات ہیں، کیوں نہ بناسکانٹھا اور ہمارے یہاں کے کسان شیریں انقلاب کا نیا باب لکھیں ؟ آپ کو جان کر خوشی ہوگی، اتنے کم عرصے میں، بناسکانٹھا، شہد پیدا کرنے کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ آج بناسکانٹھا کے کسان شہد سے لاکھوں روپئے سالانہ کما رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال ہریانہ کے جمنا نگر کا بھی ہے۔ جمنا نگر میں، کسان،شہد کی کھیتی کرکے، سالانہ، کئی سو ٹن شہد پیدا کر رہے ہیں، اپنی آمدنی بڑھا رہے ہیں۔ کسانوں کی اس محنت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں شہد کی پیداوار لگاتار بڑھ رہی ہے، اور سالانہ،تقریبا سوا لاکھ ٹن پہنچا ہے، اس میں سے، بڑی مقدار میں، شہد، بیرون ممالک میں ایکسپورٹ بھی ہو رہا ہے۔
ساتھیو،شہد کی مکھی کی زراعت میں صرف شہد سے ہی آمدنی نہیں ہوتی، بلکہ بی ویکس بھی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔دوا سازی کی صنعت، خوراک کی صنعت، کپڑا اور زیبائش کی صنعتیں ، ہر جگہ بی ویکس کی مانگ ہے۔ ہمارا ملک فی الحال بی ویکس درآمد کرتا ہے، لیکن، ہمارے کسان، اب یہ صورتحال ، تیزی سے بدل رہے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے خود انحصار ہندوستان مہم میں مدد کر رہے ہیں۔ آج تو پوری دنیا آیوروید اورنیچرل ہیلتھ پروڈکٹس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں شہد کی مانگ اور بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں، ملک کے زیادہ سے زیادہ کسان اپنی کھیتی کے ساتھ ساتھ شہد کی زراعت سے بھی جڑیں۔ یہ کسانوں کی آمدنی بھی بڑھائے گا اور ان کی زندگی میں مٹھاس بھی گھولے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،ابھی کچھ دن پہلےورلڈ اسپیرو ڈےمنایا گیا۔ اسپیرو یعنی گوریا۔ کہیں اسے چکلی بولتے ہیں، کہیں چمنی بولتے ہیں، کہیں گھان چرکا کہا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے گھروں کی دیواروں میں، آس پاس کے پیڑوں پر گوریا چہکتی رہتی تھی۔ لیکن اب لوگ گوریا کو یہ کہہ کر یاد کرتے ہیں کہ پچھلی بار، برسوں پہلے، گوریا دیکھا تھا۔ آج اسے بچانے کے لیے ہمیں کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ میرے بنارس کے ایک ساتھی اندرپال سنگھ بترا جی نے ایسا کام کیا ہے جسے میں، ‘من کی بات’ کے سامعین کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ بترا جی نے اپنے گھر کو ہی گوریا کا آشیانہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کے ایسے گھونسلے بنوائے جن میں گوریا آسانی سے رہ سکے۔ آج بنارس کے کئی گھر اس مہم سے جڑ رہے ہیں۔ اس سے گھروں میں ایک غیر معمولی قدرتی ماحول بھی بن گیا ہے۔ میں چاہوں گا قدرتی ، ماحولیات ،جاندار، پرندے جن کے لیے بھی بن سکے، کم زیادہ کوششیں ہمیں بھی کرنی چاہیئے۔ جیسے ایک ساتھی ہیں وجے کمار کا بی جی۔ وجے جی اوڈیشہ کے کیندرپاڑا کے رہنے والے ہیں۔ کیندرپاڑا سمندر کے کنارے ہے۔ اسلئے اس ضلع کے کئی گاؤں ایسے ہیں، جن پر سمندر کی اونچی لہروں اور طوفان کا خطرہ رہتا ہے۔ اس سے کئی بار بہت نقصان بھی ہوتا ہے۔ وجے جی نے محسوس کیا کہ اگر اس قدرتی تباہی کو کوئی روک سکتا ہے تو وہ قدرت ہی روک سکتی ہے۔ پھر کیا تھا – وجے جی نےبڑاکوٹ گاؤں سے اپنا مشن شروع کیا۔ انہوں نے 12 سال، ساتھیوں، 12 سال، محنت کرکے، گاؤں کے باہر، سمندر کی جانب 25 ایکڑ میں مینگروو کا جنگل کھڑا کر دیا۔آج یہ جنگل اس گاؤں کی حفاظت کر رہا ہے۔ایسا ہی کام اوڈیشہ کے ہی پردیپ ضلع میں ایک انجینئر امریش سامنت جی نے کیا ہے۔امریش جی نے چھوٹے چھوٹے جنگل لگائے ہیں، جن سے آج کئی گاؤں کی حفاظت ہو رہی ہے۔ساتھیو،اس طرح کے کاموں میں، اگر ہم، سماج کو ساتھ جوڑ لیں، تو بڑے نتائج سامنے آتے ہیں۔جیسے، تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں بس کنڈکٹر کا کام کرنے والے مرمتھو یوگناتھن جی ہیں۔ یوگناتھن جی، اپنی بس کے مسافروں کو ٹکٹ دیتے ہیں، تو ساتھ میں ہی ایک پودا بھی مفت دیتے ہیں۔اس طرح یوگناتھن جی نہ جانے کتنے ہی پیڑ لگوا چکے ہیں۔یوگناتھن جی اپنے تنخواہ کا کافی حصہ اسی کام میں خرچ کرتے آ رہے ہیں۔اب اسکو سننے کے بعد ایسا کون شہری ہوگا جو مرمتھو یوگناتھن جی کے کام کی تعریف نہ کرے۔میں دل سے ان کی کوششوں کو بہت مبارکباد دیتا ہوں، انکے اس قابل ترغیب کام کے لیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ویسٹ سے ویلتھ یعنی کچرے سے کنچن بنانے کے بارے میں ہم سب نے دیکھا بھی ہے، سنا بھی ہے، اور ہم بھی اوروں کو بتاتے رہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح فضلہ کو قیمت میں بدلنے کا بھی کام کیا جا رہا ہے۔ایسی ہی ایک مثال کیرالہ کے کوچی کے سینٹ ٹیریسا کالج کا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 2017 میں، میں اس کالج کے کیمپس میں، ایک بُک ریڈنگ پر مبنی پروگرام میں شامل ہوا تھا۔اس کالج کے طلباء دوبارہ استعمال شدہ کھلونا بنا رہے ہیں، وہ بھی بہت ہی تخلیقی طریقے سے۔یہ طلباء پرانے کپڑوں، پھینکے گئے لکڑی کے ٹکڑوں،بیگ اور بکس کا استعمال کھلونے بنانے میں کر رہے ہیں۔کوئی طالب علم معمہ بنا رہا ہے تو کوئی کار اور ٹرین بنا رہا ہے۔یہاں اس بات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ کھلونے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ماحول دوست بھی ہوں۔ اور اس پوری کوششوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ کھلونے آنگن باڑی کے بچوں کو کھیلنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔آج جب ہندوستان کھلونوں کی مینوفکچرنگ میں کافی آگے بڑھ رہا ہے تو فضلہ سے قیمت کی یہ مہم یہ اختراعی استعمال بہت معنی رکھتے ہیں۔
آندھرا پردیش کے وجےواڑا میں ایک پروفیسر شرینواس پدکانڈلا جی ہیں۔ وہ بہت ہی دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے آٹو موبائل اسکریپ سے مجسمے بنائے ہیں۔ ان کے ذریعہ بنائے گئے یہ شاندار مجسمے عوامی پارکوں میں لگائے گئے ہیں اور لوگ انہیں بہت جوش و خروش سے دیکھ رہے ہیں۔ الیکٹرونک اور آٹو موبائل فضلہ کی ری سائیکلنگ کا یہ اختراعی استعمال ہے۔ میں ایک بار پھر کوچی اور وجے واڑا کی ان کوششوں کی ستائش کرتا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ مزید لوگ بھی ایسی کوششوں میں آگے آئیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،ہندوستان کے لوگ دنیا کے کسی خطے میں جاتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ ہم اپنے یوگ، آیوروید، فلسفہ نہ جانے کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس جس کے لیے ہم فخر کرتے ہیں ، فخر کی باتیں کرتے ہیں ساتھ ہی اپنی مقامی زبان ، بولی، پہچان، پوشاک ، کھان پان اس پر بھی فخر کرتے ہیں۔ہمیں نیا تو پانا ہے، اور وہی تو زندگی ہوتی ہے لیکن ساتھ ساتھ قدیم کو گنوانا بھی نہیں ہے۔ ہمیں بہت محنت کے ساتھ اپنے آس پاس موجود لامحدود ثقافتی ورثے کو فروغ دینا ہے ، نئی نسل تک پہنچانا ہے۔یہی کام، آج، آسام کے رہنے والے ‘سکاری ٹسو’ بہت ہی لگن کے ساتھ کر رہے ہے۔ کربی انلونگ ضلع کے ‘سکاری ٹسو’ جی پچھلے 20 سالوں سے کربی زبان کی دستاویز تیار کر رہے ہیں۔کسی زمانہ میں کسی عہد میں ‘کربی قبائلی بھائی بہنوں کی زبان ‘کربی’آج قومی دھارے سے غائب ہو رہی ہے۔جناب ‘سکاری ٹسو’ جی نے طے کیا تھا کہ اپنی اس پہچان کو وہ بچائیں گے ، اور آج ان کی کوششوں سے کربی زبان کی کافی جانکاری دستاویز کی شکل میں تیار ہوگئی ہے۔ انہیں ان کوششوں کے کے لیے کئی جگہ ان کی ستائش بھی ہوئی ہے۔ اور ایوارڈبھی ملے ہیں۔‘من کی بات’ کے ذریعہ جناب ‘سکاری ٹسو’ جی کو میں تو مبارکباد دیتا ہی ہوں، لیکن ملک کے کئی کونے میں اس طرح کئی کامل افراد ہوں گے جو ایک کام لے کر کے کوشاں رہتے ہو ں گے میں ان سب کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں،کوئی بھی نئی شروعات ہمیشہ بہت خاص ہوتی ہیں۔نئی شروعات کا مطلب ہوتا ہےنئے امکانات، نئی کوششیں اور نئی کوششوں کا مطلب ہے نئی توانائی اور نیا جوش۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں الگ الگ راجیوں اور شیتروں میں اور تنوع سے بھری ہماری ثقافت میں کسی بھی شروعات کو اتسو کے طور پر منانے کی روایت رہی ہے۔اور یہ وقت نئی شروعات اور نئے اتسو کی آمد کا ہے۔ہولی بھی تو بسنت کو اتسو کے طور پر ہی منانے کی ایک روایت ہے۔جس وقت ہم رنگوں کے ساتھ ہولی منارہے ہوتے ہیں، اسی وقت ، بسنت بھی، ہمارے چاروں جانب نئے رنگ بکھیر رہا ہوتا ہے۔ اسی وقت پھولوں کا کھلنا شروع ہوتا ہے اور قدرت زندہ ہو اٹھتی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں جلد ہی نیا سال بھی منایا جائے گا۔چاہے اگادی ہو یا پوتھنڈو، گڑی پڑوا ہو یا بیہو، نورہ ہو یا پوئیلا، یا پھر بوئیشاکھ ہو یا بیساکھی – پورا ملک ، امنگ، جوش اور نئی امیدوں کے رنگ میں شرابور نظر آئے گا۔ اسی وقت کیرالہ بھی خوبصورت تہوار وشو مناتا ہے۔اسکے بعد، جلد ہی چیتر نوراتری کا مقدس موقع بھی آ جائے گا۔ چیتر مہینے کے نوویں دن ہمارے یہاں رام نومی کا تہوار ہوتا ہے۔ اسے بھگوان رام کے جنم اتسو کے ساتھ ہی انصاف اورپراکرم کے ایک نئے عہد کی شروعات کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔اس دوران چاروں طرف دھوم دھام کے ساتھ ہی بھکتی کے جذبے سے بھرا ماحول ہوتا ہے، جو لوگوں کو اور قریب لاتا ہے، انہیں خاندان اور سماج سے جوڑتا ہے، آپسی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ان تہواروں کے موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،اس دوران 4 اپریل کو ملک ایسٹر بھی منائے گا۔عیسی مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے اتسو کی شکل میں ایسٹر کا تہوار منایا جاتا ہے۔ علامتی طور پر کہیں تو ایسٹر زندگی کی نئی شروعات سے جڑا ہے۔ایسٹر امیدوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی علامت ہے۔
On this holy and auspicious occasion, I greet not only the Christian Community in India, but also Christians globally.
میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ میں ہم نے ‘امرت مہوتسو’ اور ملک کے لیے اپنے فرائض کی بات کی۔ہم نے دیگر تہواروں کا بھی ذکر کیا ۔ اسی دوران ایک اور تہوار آنے والا ہے جو ہمارے آئینی حقوق اور فرائض کی یاد دلاتا ہے۔ وہ ہے 14 اپریل – ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جی کا یوم پیدائش ۔اس بار ‘امرت مہوتسو’ میں تو یہ موقع اور بھی خاص بن گیا ہے۔مجھے یقین ہے، بابا صاحب کی اس یوم پیدائش کو ہم ضرور یادگار بنائیں گے، اپنے فرائض عہد لے کر انہیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سبھی کو تہواروں کی ایک بار پھر نیک خواہشات ۔آپ سب خوش رہیں، صحت مند رہیں، سوستھ رہیے، اور خوب خوشی منائیں۔ اسی آرزو کے ساتھ پھر سے یاد کراتا ہوں، ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔بہت بہت شکریہ ۔
نئی دلّی ، 28 فروری / میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ کل ماگھ پورنیما کا تہوار تھا ۔ ماگھ کا مہینہ ، خاص طور پر دریاؤں ، جھیلوں اور آبی وسائل سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کا ذکر ہمارے صحیفوں میں بھی کیا گیا ہے ۔
‘‘ ماگھے نمگنا : سلیلے سوشیتے ، ویمکت پاپا : دتری دیوم پرایانتی ’’
یعنی ماگھ کے مہینے میں کسی بھی مقدس آبی وسائل میں نہانے کو مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ دنیا کے ہر سماج میں دریا کے ساتھ جڑی ہوئی کوئی نہ کوئی روایت موجود ہوتی ہی ہے ۔ دریاؤں کے کناروں پر بہت سی تہذیبوں نے فروغ پایا ہے کیونکہ ہماری تہذیب بھی ہزاروں سال پرانی ہے ۔ اِس لئے یہ روایت یہاں بھی واضح نظر آتی ہے ۔ ہندوستان میں کوئی ایک بھی ایسا دن ہے ، جس میں ملک کے کسی نہ کسی کونے میں پانی سے مربوط کوئی تہوار نہ ہو ۔ ماگھ کے دوران لوگ اپنے گھروں اور اپنے قریبی لوگوں تک کو اور آسائش اور آرام کو چھوڑ کر دریا کے کناروں پر کلپ واس رکھتے ہیں ۔ اس مرتبہ ہریدوار میں کمبھ بھی منعقد کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے لئے پانی زندگی ہے ، عقیدہ بھی ہے اور ترقی کی علامت بھی ہے ۔ ایک طرح سے پانی پارس یا فلوسفر کے پتھر سے زیادہ اہم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پارس رگڑنے سے لوہا سونے میں بدل جاتا ہے ۔ اسی طرح پانی بھی زندگی کے لئے ضروری ہے ، ترقی کے لئے نا گزیر ہے ۔
دوستو ، ماگھ مہینے کو پانی سے جوڑنے کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ اس کے بعد سے ہی سردیاں ختم ہو جاتی ہیں اور گرمیاں دستک دینے لگتی ہیں ۔ اس لئے پانی کے تحفظ کے لئے ہمیں ابھی سے ہی کوششیں شروع کر دینی چاہئیں ۔ کچھ دنوں بعد مارچ کے مہینے میں ہی 22 تاریخ کو پانی کا عالمی دن بھی ہے ۔
مجھے یو پی کی آرادھیا جی نے لکھا ہے کہ دنیا میں کروڑوں لوگ اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ پانی کی کمی کو پورا کرنے میں ہی لگا دیتے ہیں ۔ ‘بن پانی سب سون ’ ایسے ہی نہیں کہا گیا ہے ۔ پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک بہت ہی اچھا پیغام مغربی بنگال کے شمالی دیناج پور سے سجیت جی نے مجھے بھیجا ہے ۔ سجیت جی نے لکھا ہے کہ قدرت نے پانی کی شکل میں ہمیں ایک اجتماعی تحفہ دیا ہے ۔ اس لئے اِسے بچانے کی ذمہ داری بھی اجتماعی ہے ۔ یہ بات صحیح ہے ، جیسا اجتماعی تحفہ ہے ، ویسے ہی اجتماعی جوابدہی بھی ہے ۔ سجیت جی کی بات بالکل صحیح ہے ۔ دریا ، تالاب ، جھیل ، بارش یا زمین کا پانی یہ سب ہر ایک کے لئے ہیں ۔
ساتھیو ، ایک وقت تھا ، جب گاؤں میں کنویں ، تالاب ، اِن کی دیکھ بھال سب مل کر کرتے تھے ۔ اب ایسی ہی ایک کوشش تمل ناڈو کے ترووناّ ملائی میں ہو رہی ہے ۔ یہاں مقامی لوگوں نے اپنے کنووں کو محفوظ کرنے کے لئے مہم چلائی ہے ۔ یہ لوگ اپنے علاقے میں برسوں سے بند پڑے عوامی کنووں کو پھر سے بحال کر رہے ہیں ۔
مدھیہ پردیش کے اگروتھا گاؤں کی ببیتا راجپوت جی بھی ، جو کر رہی ہیں ، اُس سے آپ سبھی کو تحریک ملے گی ۔ ببیتا جی کا گاؤں بندیل کھنڈ میں ہے ۔ اُن کے گاؤں کے پاس کبھی ایک بہت بڑی جھیل تھی ، جو سوکھ گئی تھی ۔ انہوں نے گاؤں کی ہی دوسری خواتین کو ساتھ لیا اور جھیل تک پانی لے جانے کے لئے ایک نہر بنا دی ۔ اس نہر سے بارش کا پانی سیدھے جھیل میں جانے لگا ۔ اب یہ جھیل پانی سے بھری رہتی ہے ۔
ساتھیو ، اترا کھنڈ کے باگیشور میں رہنے والے جگدیش کنیال جی کا کام بھی بہت کچھ سکھاتا ہے ۔ جگدیش جی کا گاؤں اور آس پاس کا علاقہ پانی کی ضرورتوں کے لئے ایک قدرتی چشمہ پر منحصر تھا لیکن کئی سال پہلے یہ چشمہ سوکھ گیا ۔ اس سے پورے علاقے میں پانی کا بحران بڑھتا چلا گیا ۔ جگدیش جی نے ، اِس مسئلے کا حل شجر کاری سے کرنے کا عزم کیا ۔ انہوں نے پورے علاقے میں گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کر ہزاروں پیڑ لگائے اور آج اُن کے علاقے کا سوکھ چکا چشمہ پھر سے بھر گیا ہے ۔
ساتھیو ، پانی کو لے کر ہمیں ، اِسی طرح اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا ۔ ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں مئی – جون میں بارش ہوتی ہے ۔ کیا ہم ابھی سے اپنے آس پاس کے پانی کے وسائل کی صفائی کے لئے ، بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے 100 دن کی کوئی مہم شروع کر سکتے ہیں ؟ اسی سوچ کے ساتھ اب سے کچھ دن بعد جل شکتی کی وزارت کے ذریعے بھی ‘ جل شکتی ابھیان ’ – ‘ کیچ دا – رین ’ بھی شروع کیا جا رہا ہے ۔ اس مہم کا خاص مقصد ہے ، ‘ کیچ دا – رین ویئر اِٹ فال ، وہین اِٹ فالس ’ ۔ ہم ابھی سے محنت کریں گے ، ہم ابھی سے ، جو رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹم ہے ، انہیں درست کروا لیں گے ، گاؤوں میں ، تالابوں میں پوکھروں کی صفائی کروا لیں گے ، ان میں پہنچنے والے پانی کے راستے کی رکاوٹیں دور کر لیں گے تو زیادہ سے زیادہ بارش کا پانی محفوظ کر سکیں گے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، جب بھی ماگھ کے مہینے اور اس کے سماجی اہمیت کی بات ہوتی ہے تو یہ بات ایک نام کے بغیر پوری نہیں ہوتی ۔ یہ نام ہے ، سنت روی داس جی کا ۔ ماگھ پورنیما کے دن ہی سنت روی داس جی کی جینتی ہوتی ہے ۔ آج بھی ، سنت روی داس جی کے الفاظ ، اُن کی تعلیم ، ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا تھا –
ایکے ماتی کے سبھ بھانڈے ،
سبھ کا ایکو سرجن ہار ۔
روی داس ویاپے ایکے گھٹ بھیتر ،
سبھ کو ایکے گھڑے کمہار ۔
ہم سبھی ایک ہی مٹی کے برتن ہیں ۔ ہم سبھی کو ایک نے ہی گھڑا ہے ۔ سنت روی داس جی نے سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر ہمیشہ کھل کر اپنی بات کہی ہے ۔ انہوں نے ، اِن برائیوں کو سماج کے سامنے رکھا ، اُسے سدھارنے کی راہ دکھائی اور تبھی تو میرا جی نے کہا تھا –
‘ گرو ملیا ریداس ، دینہی گیان کی گٹکی ’ ۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں سنت روی داس جی کے پیدائشی مقام وارانسی سے جڑا ہوا ہوں ۔ سنت روی داس جی کی زندگی انتہائی اونچائی کو اور اُن کی توانائی کو میں نے ، اُس مقدس مقام پر محسوس کیا ہے ۔
ساتھیوں روی داس جی کہتے تھے –
کرم بندھن میں بندھ رہیو ، پھل کی نا تجّیو آس ۔
کرم مانوش کا دھرم ہے ، ست بھاکھے روی داس ۔
یعنی ہمیں مسلسل اپنا عمل کرتے رہنا چاہیئے ۔ پھر پھل تو ملے گا ہی ملے گا ، یعنی عمل کا نتیجہ تو نکلتا ہی نکلتا ہے ۔ ہمارے نو جوانوں کو ایک اور بات سنت روی داس جی سے ضرور سیکھنی چاہیئے ۔ نو جوانوں کو کوئی بھی کام کرنے کے لئے خود کو پرانے طور طریقوں میں باندھنا نہیں چاہیئے ۔ آپ اپنی زندگی کو خود ہی طے کریئے ۔ اپنے طور طریقے بھی خود ہی بنائیے اور اپنے ہدف بھی خود ہی طے کریئے ۔ اگر آپ کا ذہن ، آپ کی خود اعتمادی مضبوط ہے تو آپ کو دنیا میں کسی بھی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں ایسا اِس لئے کہتا ہوں کیونکہ کئی مرتبہ ہمارے نو جوان ، اِس چلی آ رہی سوچ کے دباؤ میں ، وہ کام نہیں کر پاتے ، جو واقعی انہیں پسند ہوتا ہے ۔ اس لئے آپ کو کبھی بھی نیا سوچنے ، نیا کرنے میں ، ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیئے ۔ اسی طرح سنت روی داس جی نے ایک اور اہم پیغام دیا ہے ۔ یہ پیغام ہے ، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ۔ ہم اپنے خوابوں کے لئے کسی دوسرے پر منحصر رہیں ، یہ بالکل درست نہیں ہے ۔ جو جیسا ہے ، وہ ویسا چلتا رہے ، روی داس جی کبھی بھی اِس کی حمایت میں نہیں تھے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کا نو جوان بھی ، اِس سوچ کے حق میں بالکل نہیں ہے ۔ آج جب میں ملک کے نو جوانوں میں اننوویشن کا جذبہ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں پر سنت روی داس جی کو ضرور فخر ہوتا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج نیشنل سائنس ڈے بھی ہے ۔ آج کا دن ہندوستان کے عظیم سائنسداں ڈاکٹر سی وی رمن جی کے ذریعے کی گئی ‘ رمن اِفکیٹ ’ کی دریافت کے لئے وقف ہے ۔ کیرالہ کے یوگیشورن جی نے نمو ایپ پر لکھا ہے کہ رمن اِفکیٹ کی دریافت نے پوری سائنس کی سمت کو ہی بدل دیا تھا ۔ اس سے جڑا ہوا ایک بہت اچھا پیغام مجھے ناسک کے اسنیہل جی نے بھیجا ہے ۔ اسنیہل جی نے لکھا ہے کہ ہمارے ملک کے اَنگنت سائنسداں ہیں ، جن کے تعاون کے بغیر سائنس اتنی ترقی نہیں کر سکتی تھی ۔ ہم جیسے دنیا کے دوسرے سائنس دانوں کے بارے میں جانتے ہیں ، ویسے ہی ہمیں ہندوستان کے سائنس دانوں کے بارے میں بھی جاننا چاہیئے ۔ میں بھی من کی بات کے اِن سامعین کی بات سے متفق ہوں ۔ میں ضرور چاہوں گا کہ ہمارے نو جوان ہندوستان کے سائنس دانوں – تاریخ کو ہمارے سائنس دانوں کو جانیں ، سمجھیں اور خوب پڑھیں ۔
ساتھیو ، جب ہم سائنس کی بات کرتے ہیں تو کئی بار اسے لوگ فزکس – کیمسٹری یا پھر لیبس تک ہی محدود کر دیتے ہیں لیکن سائنس کا وسعت تو اِس سے کہیں زیادہ ہے اور آتم نربھر مہم میں سائنس کی طاقت کا بہت تعاون بھی ہے ۔ ہمیں سائنس کو ‘ لیب تو لینڈ ’ کے منتر کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا ۔
مثال کے طور پر حیدر آباد کے چنتلا وینکٹ ریڈی جی ہیں ۔ ریڈی جی کے ایک ڈاکٹر دوست نے ، انہیں ایک مرتبہ ویٹامن ڈی کی کمی سے ہونے والی بیماریوں اور اُس کے خطروں سے نمٹنے کے بارے میں بتایا تھا ۔ ریڈی جی کسان ہیں ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے محنت کی اور گیہوں چاول کی ایسی نسل کو فروغ دیا ، جو خاص طور پر ویٹامن ڈی سے بھر پور ہے ۔ اسی مہینے انہیں ورلڈ انٹلیکچوول پراپرٹری آرگنائزیشن ، جینیوا سے پیٹنٹ بھی ملا ہے ۔ یہ ہماری حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ وینکٹ ریڈی جی کو پچھلے سال پدم شری سے بھی نوازا گیا تھا ۔
ایسے ہی بہت اننو ویٹیو طریقے سے لداخ کے اُرگین فتسوگ بھی کام کر رہے ہیں ۔ ارگین بھی اتنی اونچائی پر آرگینک طریقے سے کھیتی کرکے تقریباً 20 فصلیں اگا رہے ہیں ۔ وہ بھی سائکلک طریقے سے ، یعنی وہ ایک فصل کے کچرے کو دوسری فصل میں کھاد کے طور پر استعمال کرلیتے ہیں ۔ ہے نا کمال کی بات ۔
اسی طرح گجرات کے پاٹن ضلع میں کام راج بھائی چودھری نے گھر میں ہی سہجن کے اچھے بیج فروغ دیئے ہیں ۔ سہجن کو کچھ لوگ سرگوا بولتے ہیں ۔ اسی مورنگا یا ڈرم اسٹک بھی کہا جاتا ہے ۔ اچھے بیجوں کی مدد سے ، جو سہجن پیدا ہوتا ہے ، اُس کی کوالٹی بھی اچھی ہوتی ہے ۔ اپنی پیداوار کو وہ اب تمل ناڈو اور مغربی بنگال بھیج کر اپنی آمدنی بھی بڑا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج کل چیا کے بیج کا نام آپ لوگ بہت سن رہے ہوں گے ۔ ہیلتھ اویئر نیس سے جڑے لوگ اِسے کافی اہمیت دیتے ہیں اور دنیا میں اس کی کافی مانگ ہے ۔ ہندوستان میں اسے زیادہ تر باہر سے منگواتے ہیں لیکن اب چیا بیج میں خود انحصاری کا بیڑا بھی لوگ اٹھا رہے ہیں ۔ ایسے ہی یو پی کے بارابنکی میں ہریش چندر جی نے چیا کے بیج کی کھیتی شروع کی ہے ۔ چیا کے بیج کی کھیتی ، اُن کی آمدنی بھی بڑھائے گی اور خود کفیل بھارت مہم میں بھی مدد کرے گی ۔
ساتھیو ، زرعی کچرے سے دولت پیدا کرنے کے بھی کئی تجربے ملک بھر میں کامیابی سے چل رہے ہیں ۔ جیسے مدورئی کے مروگیسن جی نے کیلے کے کچرے سے رسی بنانے کی ایک مشین بنائی ہے ۔ مروگیسن جی کے اِس اننوویشن سے ماحولیات اور گندگی کا بھی حل ہوگا اور کسانوں کے لئے اضافی آمدنی کا راستہ بھی کھلے گا ۔
ساتھیو ، ‘ من کی بات ’ کے سامعین کو اتنے سارے لوگوں کے بارے میں بتانے کا میرا مقصد یہی ہے کہ ہم سبھی اِن سے ترغیب لیں ۔ جب ملک کا ہر شہری اپنی زندگی کے ہر شعبے میں سائنس کو وسعت دے گاتو ترقی کے راستے بھی کھلیں گے اور ملک خود کفیل بھی بنے گا اور مجھے یقین ہے کہ ملک کا ہر شہری کر سکتا ہے ۔
میرے پیارے ساتھیو ، کولکاتہ کے رنجن جی نے اپنے خط میں بہت ہی دلچسپ اور بنیادی سوال پوچھا ہے اور ساتھ ہی بہترین طریقے سے ، اس کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم خود کفیل ہونے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے لئے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں ، خود انہوں نے مزید لکھا ہے کہ – "آتم نربھر بھارت مہم" صرف ایک حکومتی پالیسی نہیں ہے ، بلکہ ایک قومی روح بھی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ خود کفیل ہونے کا مطلب ہے کہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا یعنی خود اپنی قسمت کا بنانے والا بننا ۔ رنجن بابو کی بات سو ٹکا صحیح ہے ۔ اُن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ بھی کہوں گا کہ خود کفالت کی پہلی شرط ہوتی ہے – اپنے ملک کی چیزوں پر فخر ہونا ، اپنے ملک کے لوگوں کے ذریعے بنائی گئی چیزوں پر فخر ہونا ۔ جب ہر ایک ہم وطن فخر کرتا ہے ، ہر ایک ہم وطن جڑتا ہے ، تو آتم نربھر بھارت ، صرف ایک معاشی مہم نہ رہ کر ایک قومی روح بن جاتی ہے ۔ جب آسمان میں ہم اپنے ملک میں بنے لڑاکو طیارے تیجس کو کلابازیاں کھاتے دیکھتے ہیں ، جب بھارت میں بنے ٹینک ، بھارت میں بنی میزائلیں ، ہمارے فخر میں اضافہ کرتی ہیں ، جب ترقی یافتہ ملکوں میں ہم میٹرو ٹرین کے میڈ اِن انڈیا کوچیز دیکھتے ہیں ، جب درجنوں ملکوں تک میڈ اِن انڈیا کورونا ویکسین کو پہنچتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارا سر اور اونچا ہو جاتا ہے اور ایسا ہی نہیں ہے کہ بڑی بڑی چیزیں ہی بھارت کو خود کفیل بنائیں گی ۔ بھارت میں بنے کپڑے ، بھارت کے ہنرمند کاریگروں کے ذریعے بنایا گیا ہینڈی کرافٹ کا سامان ، بھارت کی الیکٹرانک اشیاء ، بھارت کے موبائل ، ہر شعبے میں ، ہمیں اِس فخر کو بڑھانا ہو گا ۔ جب ہم اِسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے ، تبھی صحیح معنی میں آتم نربھر بن پائیں گے اور ساتھیو ں ، مجھے خوشی ہے کہ خود کفیل بھارت کا یہ منتر ، ملک کے گاؤں – گاؤں میں پہنچ رہا ہے ۔ بہار کے بیتیا میں یہی ہوا ہے ، جس کے بارے میں مجھے میڈیا میں پڑھنے کو ملا ۔
بیتیا کے رہنے والے پرمود جی ، دلّی میں ایک ٹیکنیشئن کے طور پر ایل ای ڈی بلب بنانے والی فیکٹری میں کام کرتے تھے ۔ انہوں نے اِس فیکٹری میں کام کے دوران پوری طریقے کو بہت باریکی سے سمجھا ۔ لیکن کورونا کے دوران پرمود جی کو اپنے گھر پاس لوٹنا پڑا ۔ آپ جانتے ہیں ، لوٹنے کے بعد پرمود جی نے کیا کیا ؟ انہوں نے خود ایل ای ڈی بلب بنانے کی ایک چھوٹی سی یونٹ ہی شروع کر دی ۔ انہوں نے اپنے علاقے کے کچھ نو جوانوں کو ساتھ لیا اور کچھ ہی مہینوں میں فیکٹری ورکر سے لے کر فیکٹری اونر بننے تک کا سفر پورا کر دیا ۔ وہ بھی اپنے ہی گھر میں رہتے ہوئے ۔
ایک اور مثال ہے – یو پی کے گڑھ مکتیشور کی ۔ گڑھ مکتیشور سے شری مان سنتوش جی نے لکھا ہے کہ کیسے کورونا دور میں ، انہوں نے آفت کو موقع میں بدلا ۔ سنتوش جی کے پُرکھے شاندار کاریگر تھے ، چٹائی بنانے کا کام کرتے تھے ۔ کورونا کے وقت جب باقی کام رُکے تو اِن لوگوں نے بڑی طاقت اور جوش کے ساتھ چٹائی بنانا شروع کیا ۔ جلد ہی ، انہیں نہ صرف اتر پردیش بلکہ دوسری ریاستوں سے بھی چٹائی کے آڈر ملنے شروع ہو گئے ۔ سنتوش جی نے یہ بھی بتایا ہے کہ اِس سے اِس علاقے کے سینکڑوں سال پرانے خوبصورت فن کو بھی ایک نئی طاقت ملی ہے ۔
ساتھیو ، ملک بھر میں ایسی کئی مثالیں ہیں ، جہاں لوگ ، ‘ آتم نربھر بھارت مہم ’ میں ، اسی طرح اپنا حصہ لے رہے ہیں ۔ آج یہ ایک جذبہ بن چکا ہے ، جو عام لوگوں کے دلوں میں رواں دواں ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، میں نے نمو ایپ پر گڑ گاؤں کے رہنے والے میور کی ایک دلچسپ پوسٹ دیکھی ۔ وہ پیشنیٹ برڈ واچر اور قدر سے محبت کرنے والے ( نیچر لور ) ہیں ۔ میور جی نے لکھا ہے کہ میں تو ہریانہ میں رہتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ ، آسام کے لوگوں اور خاص طور پر کازی رنگا کے لوگوں سے گفتگو کریں۔ مجھے لگا کہ میور جی ، رائنوس کے بارے میں بات کریں گے ، جنہیں وہاں کا فخر کا کہا جاتا ہے لیکن میور جی نے کازی رنگا میں واٹر فولس کی تعداد میں ہوئے اضافے کو لے کر آسام کے لوگوں کو سراہنے کے لئے کہا ہے ۔ میں ڈھونڈ رہاتھا کہ ہم واٹر فولس کو عام زبان میں کیا کہہ سکتے ہیں تو ایک لفظ ملا – جل پکشی ( پانی کا پرندہ ) ۔ ایسے پرندے ، جن کا گھونسلا ، پیڑوں پر نہیں ، پانی پر ہوتا ہے ، جیسے بطخ وغیرہ ۔ کازی رنگا نیشنل پارک اینڈ ٹائیگر ریزرو اتھارٹی کچھ وقت سے سالانہ واٹر فولس سینسز ( مردم شماری ) کرتی آ رہی ہے ۔ اس مردم شماری سے پانی کے پرندوں کی تعداد کا پتہ چلتا ہے اور ان کی پسندیدہ رہائش گاہ کی معلومات ملتی ہیں ۔ ابھی دو تین ہفتے پہلے ہی سروے پھر سے ہوا ہے ۔ آپ کو بھی یہ جانکر خوشی ہو گی کہ اس بار پانی کے پرندوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 175 فی صد زیادہ آئی ہے ۔ اس مردم شماری کے دوران کازی رنگا نیشنل پارک میں برڈس کی کل 112 قسموں کو دیکھا گیا ہے ۔ ان میں سے 58 قسمیں یوروپ ، وسطی ایشیا اور مشرقی ایشیا سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے آئے وِنٹر مائیگرینٹس کی ہیں ۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں پانی کا بہتر تحفظ ہونے کے ساتھ انسانی مداخلت بہت کم ہے ۔ ویسے کچھ معاملوں میں مثبت انسانی مداخلت بھی بہت اہم ہوتی ہے ۔
آسام کے جناب جادو پائینگ کو ہی دیکھ لیجئے ۔ آپ میں سے کچھ لوگ اُن کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے ۔ اپنے کاموں کے لئے انہیں پدم سمان ملا ہے ۔ شری جادو پائینگ وہ شخص ہیں ، جنہوں نے آسام کے مجولی آئی لینڈ میں قریب 300 ہیکٹیئر شجر کاری میں اپنا فعال تعاون دیا ہے ۔ وہ جنگلات کے تحفظ کے لئے کام کرتے رہے ہیں اور لوگوں کو شجر کاری اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے تحریک دلا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آسام میں ہمارے مندر بھی ، قدرت کے تحفظ میں ، اپنا الگ ہی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر آپ ہمارے مندروں کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر مندر کے پاس ایک تالاب ہے۔ ہاجو کے ہیاگریو مادھیب مندر ، سونیت پور کے ناگ شنکر مندر اور گوہاٹی کے اُگر تارا مندر کے پاس ، اسی طرح کے کئی تالاب ہیں ۔ ان کا استعمال معدوم ہو رہے کچھوؤں کو بچانے کے لئے کیا جا رہا ہے ۔ آسام میں کچھوؤں کی سب سے زیادہ نسلیں پائی جاتی ہیں ۔ مندروں کے یہ تالاب کچھوؤں کے تحفظ ، افزائش اور ان کے بارے میں جاننے کے لئے ایک بہترین مقام بن سکتے ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اننوویشن کرنے کے لئے ، آپ کا سائنسدان ہونا ضروری ہے ۔ کچھ سوچتے ہیں کہ دوسروں کو کچھ سکھانے کے لئے آپ کا ٹیچر ہونا ضروری ہے ۔ اس سوچ کو چیلنج کرنے والے لوگ ہمیشہ تعریف کے لائق ہوتے ہیں ۔ اب جیسے ، کیا کوئی ، کسی کی فوجی بنانے کے لئے تربیت کرتا ہے تو کیا اُس کا فوجی ہونا ضروری ہے ؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہاں ، ضروری ہے ۔ لیکن یہاں تھوڑا سا ٹوئیسٹ ہے ۔
مائی گو پر کمل کانتھ جی نے میڈیا کی ایک رپورٹ ساجھا کی ہے ، جو کچھ الگ بات کہتی ہے ۔ اڈیشہ میں اراکھڑا میں ایک صاحب ہیں – نائک سَر ۔ ویسے تو اِن کا نام سلو نائک ہے ، پر سب انہیں نائک سَر ہی بلاتے ہیں ۔ دراصل ، وہ مین آن اے مشن ہیں ۔ وہ اُن نو جوانوں کی مفت میں تربیت کرتے ہیں ، جو فوج میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ نائک سر کی آرگنائزیشن کا نام مہاگرو بٹالین ہے ۔ اس میں فزیکل فٹنیس سے لے کر انٹر ویو تک اور رائٹنگ سے لے کر ٹریننگ تک ، ان سبھی پہلوؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔ آپ کو یہ جانکر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے جن لوگوں کو تربیت دی ہے ، انہوں نے بری ، بحری اور فضائی فوج ، سی آر پی ایف ، بی ایس ایف جیسی فورسیز میں اپنی جگہ بنائی ہے ۔ ویسے آپ کو یہ جانکر بھی حیرت ہو گی کہ سلو نائک جی نے خود اڈیشہ پولیس میں بھرتی ہونے کے لئے کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائے ۔ اس کے باوجود ، انہوں نے اپنی تربیت کے دم پربہت سے نوجوانوں کو ملک کی خدمت کے قابل بنایا ہے ۔ آئیے ، ہم سب مل کر نائک سر کو مبارکباد دیں کہ وہ ہمارے ملک کے لئے اور زیادہ جانبازوں کو تیار کریں ۔
ساتھیو ، کبھی کبھی بہت چھوٹا اور عام سا سوال بھی ذہن کو ہلا دیتا ہے ۔ یہ سوال لمبے نہیں ہوتے ہیں ، بہت آسان ہوتے ہیں ، پھر بھی وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے حیدر آباد کی اپرنا ریڈی جی نے مجھ سے ایسا ہی ایک سوال پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ – آپ اتنے سال سے وزیر اعظم ہیں ، اتنے سال وزیر اعلیٰ رہے ، کیا آپ کو کبھی لگتا ہے کہ کہ کچھ کمی رہ گئی ۔ اپرنا جی کا سوال جتنا آسان ہے ، اس کا جواب اتنا ہی مشکل بھی ۔ میں نے اس سوال پر سوچا اور خود سے کہا میری ایک کمی یہ رہی کہ میں دنیا کی سب سے تاریخی زبان تمل سیکھنے کے لئے بہت کوشش نہیں کرپایا ۔ میں تمل نہیں سیکھ پایا ۔ یہ ایک ایسی خوبصورت زبان ہے ، جو دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ بہت سے لوگوں نے مجھے تمل ادب کے معیار اور اس میں لکھے گئے اشعار کی گہرائی کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے ۔ بھارت ایسی بہت سی زبانوں کا مقام ہے ، جو ہماری ثقافت اور فخر کی علامت ہے ۔ زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، میں ایک چھوٹی سی دلچسپ کلپ آپ سب کے ساتھ ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔
## (ساؤنڈ کلپ مجسمہ اتحاد)
دراصل ، ابھی جو آپ سن رہے تھے ، وہ مجسمہ ٔاتحاد پر ایک گائڈ ہے ، جو سنسکرت میں لوگوں کو سردار پٹیل کی دنیا کی سب سے بلند مجسمے کے بارے میں بتا رہی ہے ۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ کیوڑیا میں 15 سے زیادہ گائیڈ ، سنسکرت میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اب میں آپ کو ایک اور آواز سنواتا ہوں ۔
## (ساؤنڈ کلپ کرکٹ کمنٹری)
آپ بھی اِسے سن کر حیران ہو گئے ہوں گے ۔ در اصل ، یہ سنسکرت میں کی جا رہی کرکٹ کمنٹری ہے ۔ وارانسی میں ، سنسکرت کالجوں کے بیچ ایک کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا ہے ۔ یہ کالج ہیں – شاستھارتھ مہا ودیالیہ ، سوامی ویدانتی وید ودیا پیٹھ ، شری برہم وید ودیالیہ اور انٹرنیشنل چندر مولی چیریٹبل ٹرسٹ ۔ اس ٹورنامنٹ کے میچوں کے دوران کمنٹری سنسکرت میں بھی کی جاتی ہے۔ ابھی میں نے اس کمنٹری کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ آپ کو سنایا ۔ یہی نہیں ، اس ٹورنامنٹ میں ، کھلاڑی اور کمنٹیٹر روایتی لباس میں نظر آتے ہیں ۔ اگر آپ کو توانائی ، جوش و خروش ، سسپنس سب کچھ ایک ساتھ چاہیئے تو آپ کو کھیلوں کی کمنٹری سننی چاہیئے ۔ ٹی وی آنے سے بہت پہلے کھیلوں کے تبصرے ہی وہ وہ ذریعہ تھے ، جس کے ذریعے کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیلوں کی سنسنی ملک بھر کے لوگ محسوس کرتے تھے ۔ ٹینس اور فٹ بال میچوں کی کمنٹری بھی بہت اچھی طرح سے پیش کی جاتی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جن کھیلوں کی کمنٹری میں وسعت ہے ، ان کھیلوں کو مقبولیت بہت تیزی سے حاصل ہوتی ہے ۔ ہمارے یہاں بھی بہت سے بھارتی کھیل ہیں لیکن ان میں کمنٹری کلچر نہیں آیا ہے اور اس وجہ سے وہ معدوم ہونے کی حالت میں ہیں ۔ میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے ۔ – کیوں نہ الگ الگ کھیلوں اور خاص طور پر بھارتی کھیلوں کی اچھی کمنٹری زیادہ سے زیادہ زبانوں میں ہو ، ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے ۔ میں کھیل کی وزارت اور پرائیویٹ اداروں کے ساتھیوں سے اس بارے میں سوچنے کی درخواست کروں گا ۔
میرے پیارے نو جوان ساتھیو ، آنے والے کچھ مہینے آپ سب کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ زیادہ تر نو جوان ساتھیوں کے امتحانات ہوں گے ۔ آپ سب کو یاد ہے نا – واریئر بننا ہے ، ووریئر نہیں ۔ ہنستے ہوئے امتحان دینے جانا ہے اور مسکراتے ہوئے لوٹنا ہے۔ کسی اور سے نہیں ، اپنے آپ سے ہی مقابلہ کرنا ہے ۔ ضرورت کے مطابق نیند بھی لینی ہے اور ٹائم مینجمنٹ بھی کرنا ہے ۔ کھیلنا بھی نہیں چھوڑنا ہے کیونکہ جو کھیلے وہ کھِلے ۔ نظر ثانی اور یاد کرنے کے اسمارٹ طریقے اپنانے ہیں یعنی کل ملاکر ، ان امتحانات میں اپنی بہترین کارکردگی کو باہر لانا ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ، یہ سب ہوگا کیسے ۔ ہم سب مل کر یہ کرنے والے ہیں ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم سب کریں گے ‘ پریکشا پے چرچا ’ ۔ لیکن مارچ میں ہونے والی ‘ پریکشا پے چرچا ’ سے پہلے میری آپ سبھی ایگزام واریئر سے ، والدین سے اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ اپنے تجربات ضرور شیئر کریں ۔ آپ مائی گو ایپ پر شیئر کر سکتے ہیں ۔ نریندر مودی ایپ پر شیئر کر سکتے ہیں ۔ اس بار ‘ پریکشا پے چرچا ’ میں نو جونواں کے ساتھ ساتھ ، والدین اور اساتذہ بھی مدعو ہیں ۔ کیسے حصہ لینا ہے ، کیسے انعام جیتنے ہیں ، کیسے میرے ساتھ گفتگو کا موقع حاصل کرنا ہے ، یہ ساری معلومات آپ کو مائی گو ایپ پر ملیں گی ۔ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ طالب علم ، قریب 40 ہزار والدین اور تقریباً 10 ہزار اساتذہ حصہ لے چکے ہیں ۔ آپ بھی آج ہی حصہ لیجئے ۔ اس کورونا کے وقت میں ، میں نے کچھ وقت نکال کر ایگزام واریئر بُک میں بھی کئی نئے منتر جوڑ دیئے ہیں ، اب اس میں والدین کے لئے بھی کچھ منتر جوڑے گئے ہیں ۔ ان منتروں سے جڑی بہت ساری دلچسپ سرگرمیاں نریندر مودی ایپ پر دی گئی ہیں ، جو آپ کے اندر کے ایگزام واریئر کو اکسانے میں مدد کریں گی ۔ آپ ان کو ضرور آزماکر دیکھئے ۔ سبھی نوجوان ساتھیوں کو آنے والے امتحانات کے لئے بہت بہت نیک خواہشات ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، مارچ کا مہینہ ہمارے مالی سال کا آخری مہینہ بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے آپ میں سے بہت سے لوگوں کے لئے کافی مصروفیت بھی رہے گی ۔ اب جس طرح سے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں ، اس سے ہمارے کاروباریوں اور صنعت کاروں کی مصروفیت بھی بہت بڑھ رہی ہے ۔ ان سارے معاملوں کے بیچ ہمیں کورونا سے متعلق احتیاط میں کمی نہیں کرنی ہے ۔ آپ سب صحت مند رہیں گے ، خوش رہیں گے ، فرائض کی انجام دہی پر ڈتے رہیں گے تو ملک تیزی سے آگے بڑھتا رہے گا ۔
آپ سبھی کو تہواروں کی پیشگی مبارکباد ، ساتھ ساتھ کورونا سے متعلق ، جو بھی قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ہے ، ان میں کسی طرح کی کمی نہیں آنی چاہیئے ۔ بہت بہت شکریہ !
نئی دہلی۔ 31 جنوری میرے عزیز ہم وطنو! نمسکار! جب میں "من کی بات" کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے ، جیسے آپ کے درمیان، آپ کے پریوار کے رکن کی حیثیت سے حاضر ہوں ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی باتیں، جو ایک دوسرے کو، کچھ، سکھا جائے، زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات ، جی بھر کے جینے کی ترغیب بن جائے – بس یہی تو ہے ‘من کی بات’۔ آج، 2021 کی جنوری کا آخری دن ہے۔ کیا آپ بھی میری طرح یہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے تو 2021 شروع ہوا تھا ؟ لگتا ہی نہیں کہ جنوری کا پورا مہینہ گذر گیا ہے – وقت کی رفتار اسی کو تو کہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی ہی تو بات لگتی ہے جب ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے، پھر ہم نے لوہڑی منائی، مکر سنکرانتی منائی، پونگل، بہو منایا۔ دیش کے الگ الگ حصوں میں تہواروں کی دھوم رہی۔ 23 جنوری کو ہم نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے جنم دن کو ‘پراکرم دوس’ کے طور پر منایا اور 26 جنوری کو ‘یوم جمہوریہ ’ کی شاندار پریڈ بھی دیکھی۔ صدر جمہوریہ کے ذریعہ ایوان کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کے بعد ‘بجٹ اجلاس’ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ان سبھی کے درمیان ایک اور کام یہ ہوا، جس کا ہم سبھی کو بہت انتظار رہتا ہے – یہ ہے پدم ایوارڈوں کا اعلان ۔ ملک غیر معمولی کارنامہ انجام دے رہے لوگوں کو انکی حصولیابیوں اور انسانیت کے تئیں ان کی خدمات کو اعزاز سے نوازا۔ اس سال بھی، ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں، وہ لوگ شامل ہیں، جنہوں نے، مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اپنے کارناموں سے کسی کی زندگی بدلی، ملک کو آگے بڑھایاہے۔ یعنی، زمینی سطح پر کام کرنے والے گمنام ہیرو کو پدم اعزاز دینے کی جو روایت ملک نے کچھ سال پہلے شروع کی تھی، وہ، اس بار بھی قائم رکھی گئی ہے۔ میری آپ سبھی سے گذارش ہے، کہ، ان لوگوں کے بارے میں، ان کی خدمات کے بارے میں ضرور جانیں، اپنے کنبے میں، انکے بارے میں،باتیں کریں۔ دیکھیں گے ، سبھی کو اس سے کتنی تحریک ملتی ہے۔
اس مہینے، کرکٹ کے میدان سے بھی بہت اچھی خبر ملی۔ ہماری کرکٹ ٹیم نے شروعاتی دقتوں کے بعد، شاندار واپسی کرتے ہوئے آسٹریلیا میں سیریز جیتی۔ ہمارے کھلاڑیوں کی کڑی محنت اور ٹیم ورک حوصلہ افزا ہے۔ ان سب کے درمیان دلی میں، 26 جنوری کو ترنگے کا بے حرمتی دیکھ کر ملک بہت افسردہ بھی ہوا۔ ہمیں آنے والے وقت کو نئی امید اور جدت سے معمور کرنا ہے۔ ہم نےگذشتہ سال غیر معمولی حوصلہ اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ اس سال بھی ہمیں کڑی محنت کرکے اپنے عزائم کوثابت کرنا ہے۔ اپنے ملک کو، اور تیز رفتاری سے، آگے لے جانا ہے۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، اس سال کی شروعات کے ساتھ ہی کو رونا کے خلاف ہماری لڑائی کو بھی قریب قریب ایک سال پورا ہو گیا ہے۔ جیسے کو رونا کے خلاف ہندوستان کی لڑائی ایک مثال بنی ہے، ویسے ہی، اب، ہماراٹیکہ کاری پروگرام بھی دنیا میں، ایک مثال بن رہا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا سب سے بڑاکووڈ ویکسین پروگرام چلا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں، اور بھی زیادہ فخر کی بات کیا ہے ؟ ہم سب سے بڑے ویکسین پروگرام کے ساتھ ہی دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے اپنے شہریوں کی ٹیکہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ صرف 15 دنوں میں،ہندوستان ، اپنے 30 لاکھ سے زیادہ،کورونا واریرس کی ٹیکہ کاری کر چکا ہے، جبکہ، امریکہ جیسے خوشحال ملک کو، اسی کام میں، 18 دن لگے تھے اور برطانیہ کو 36 دن۔
ساتھیو! ہندوستان میں بنی ویکسین آج، خود انحصار ہندوستان کی تو علامت ہے ہی،ہندوستان کے لیے قابل فخر ہونے کی علامت بھی ہے۔نمو اَیپ پر اتر پردیش بھائی ہمانشو یادو نے لکھا ہے کہ' میڈ اِن انڈیا ویکسین' سے دل میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ مدورے سے کیرتی جی لکھتی ہیں، کہ انکے کئی غیر ملکی دوست، انکو، میسیج بھیج کرہندوستان کا شکریا ادا کر رہے ہیں۔ کیرتی جی کے دوستوں نے انہیں لکھا ہے کہ ہندوستان نے جس طرح کو رونا سے لڑائی میں دنیا کی مدد کی ہے، اس سے ہندوستان کے بارے میں، انکے من میں، عزت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کیرتی جی، ملک کے بارے میں یہ قابل فخر باتیں سن کر، ‘من کی بات’ کے سامعین کو بھی فخر ہوتا ہے۔ آج کل مجھے بھی مختلف ممالک کے صدور اور وزراء اعظم کی جانب سے ہندوستان کے لیے ایسے ہی پیغامات ملتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا، ابھی، برازیل کے صدر نے، ٹویٹ کرکے جس طرح سے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا ہے، وہ دیکھ کر ہرہندوستانی کو کتنا اچھا لگا۔ ہزاروں کلومیٹر دور، دنیا کے دور درراز گوشوں میں رہنے والوں کو ، رامائن کے اس سیاق و سباق کی اتنی گہری جانکاری ہے، وہ اس سے اس قدر متاثر ہیں، – یہ ہمارے کلچر کی خصوصیت ہے۔
ساتھیو! اس ٹیکہ کاری مہم میں، آپ نے ایک اور بات پر ضرور دھیان دیا ہوگا۔ بحران کے وقت ہندوستان ، دنیا کی خدمت اسلئے کر پا رہا ہے، کیونکہ،ہندوستان ، آج، دواؤں اورویکسین کو لیکراہل اور خود انحصار ہے۔ یہی فکر خود انحصار ہندوستان مہم کی بھی ہے۔ ہندوستان جتنا اہل ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت کی خدمت کرے گا ، اتنا ہی زیادہ دنیا کو فائدہ ہوگا۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہر بار آپ کے ڈھیر سارے خطوط ملتے ہیں ، نمو اَپ اور مائی گو پر آپ کے پیغامات اور فون کال کے ذریعہ آپ کی باتیں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ ان ہی پیغامات میں ایک ایسا بھی پیغام ہے، جس نے، میری توجہ مبذول کرائی – یہ پیغام ہے، بہن پرینکا پانڈے جی کا۔ 23 سال کی بیٹی پرینکا جی، ہندی ادب کی طالبہ ہیں ، اور، بہار کے سیوان میں رہتی ہیں۔ پرینکا جی نے نمو اَیپ پر لکھا ہے، کہ انہیں ، ملک کے 15 گھریلو سیاحتی مقامات پر جانے کے میرے مشورے سے بہت حوصلہ ملا تھا ، اسلئے یکم جنوری کو وہ ایک جگہ کے لیے نکلیں، جو بہت خاص تھی۔ وہ جگہ تھی، انکے گھر سے 15 کلومیٹر دور، ملک پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کا آبائی گاؤں۔ پرینکا جی نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ اپنے ملک کی عظیم ہستیوں کو جاننے کی سمت میں انکا یہ پہلا قدم تھا۔ پرینکا جی کو وہاں ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کے ذریعہ لکھی گئی کتابیں ملیں، متعدد تاریخی تصویریں ملیں۔ انہوں نے، ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جب پوجیہ باپو، راجیندر جی کے گھر میں ٹھہرے تھے۔ واقعی، پرینکا جی آپ کا یہ تجربہ دوسروں کو بھی تحریک دے گا۔
ساتھیو! اس سال ہندوستان اپنی آزادی کی75 سالہ تقریب– امرت مہوتسو شروع کرنے جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ ہمارے ان عظیم ہیرو سےمنسلک علاقائی مقامات کا پتہ لگانے کا بہترین وقت ہے، جن کی وجہ سے ہمیں آزادی ملی۔
ساتھیو! ہم آزادی کی تحریک اور بہار کی بات کر رہیں ہیں، تو میں نمو اَیپ پر ہی کیا گیا ایک اورتبصرے کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔ مونگیر کے رہنے والے جے رام وپلو جی نے مجھے یوم شہیدانِ تاراپور کے بارے میں لکھا ہے۔ 15 فروری، 1932 کو، قوم پرستوں کی ایک جماعت کے کئی بہادر نوجوانوں کا انگریزوں نے بڑی ہی بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ ان کا صرف ایک جرم یہ تھا کہ وہ ‘وندے ماترم’ اور ‘بھارت ماں کی جے’ کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں ان شہیدوں کو نمن کرتا ہوں، اور ان کی جرات کو بڑی عقیدت یاد کرتا ہوں،۔ میں جے رام وپلو جی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک ایسے واقعہ کو ملک کے سامنے لیکر آئے، جس پر اتنی باتیں نہیں ہو پائیں، جتنی ہونی چاہیئے تھی۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہندوستان کے ہر حصہ میں، ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں آزادی کی لڑائی پوری طاقت کے ساتھ لڑی گئی تھی۔ سر زمین ہندوستان کے ہر گوشے میں ایسے عظیم سپوتوں اور بہادروں نے جنم لیا، جنہوں نے، ملک و قوم کے لیے اپنی زندگی نچھاور کر دی، ایسے میں، یہ، بہت اہم ہے کہ ہمارے لیے کی گئی ان کی جد و جہد اور ان سے وابستہ یادوں کو ہم سنبھال رکھیں اور اسکے لیے انکے بارے میں لکھ کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے انکی یادوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ میں، سبھی ہم وطنوں کو اور خاص کر اپنے نوجوان ساتھیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ملک کے مجاہدین آزادی کے بارے میں، آزادی سے جڑے واقعات کے بارے میں لکھیں۔ اپنے علاقے میں جنگ آزادی کے دور کی بہادری کی داستانوں کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ اب جبکہ ہندوستان اپنی آزادی کا 75 واں سال منائے گا ، تو آپ کی تحریر آزادی کے ہیروؤں کے تئیں خراج عقیدت ہوگی۔جواں سال لکھنے والوں کے لیے 'انڈیا سوینٹی فائیو' کے نام سے ایک پہل کی جا رہی ہے۔ اس سے سبھی ریاستوں اور زبانوں کے جواں سال لکھنے والوں کو تحریک ملے گی۔ ملک میں بڑی تعداد میں ایسے موضوعات پر لکھنے والے تیار ہوں گے، جن کا ہندوستانی وراثت اور ثقافت پر گہرا مطالعہ ہوگا۔ ہمیں ایسی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کی بھرپور مدد کرنی ہے۔ اس سے مستقل کی سمت متعین کرنے والے قائدین کا ایک طبقہ بھی تیار ہوگا۔ میں اپنے نوجوان دوستوں کو اس پہل کا حصہ بننے اور اپنی ادبی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اس سے جڑی جانکاریاں وزارت تعلیم کی ویب سائٹ پر حاصل کر سکتے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ‘من کی بات’ میں سامعین کو کیا پسند آتا ہے، یہ آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن مجھے ‘من کی بات’ میں سب سے اچھا یہ لگتا ہے کہ مجھے بہت کچھ جاننے سیکھنے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ ایک طرح سے بالواسطہ طور پر آپ سب سے، جڑنے کاموقع ملتا ہے۔ کسی کی کوشش ، کسی کا جذبہ، کسی کا ملک کے لیے کچھ کرگذر جانے کا جنون – یہ سب، مجھے، بہت تحریک دیتے ہیں، توانائی سے لبریز کر دیتے ہیں۔
حیدرآباد کے بوین پلی میں، ایک مقامی سبزی منڈی، کس طرح، اپنے فرائض انجام دے رہی ہے، یہ پڑھکر بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ سبزی منڈیوں میں متعدد وجوہات سے کافی سبزی خراب ہو جاتی ہے۔ یہ سبزی ادھرادھر پھیلتی ہے، گندگی بھی پھیلاتی ہے لیکن، بوین پلی کی سبزی منڈی نے طے کیا کہ، ہر روز بچنے والی ان سبزیوں کو ایسے ہی پھینکا نہیں جائے گا۔ سبزی منڈی سے جڑے لوگوں نے طے کیا، اس سے، بجلی بنائی جائیگی۔ بیکار ہوئی سبزیوں سے بجلی بنانے کے بارے میں شاید ہی آپ نے کبھی سنا ہو – یہی تو اختراعات کی طاقت ہے۔ آج بوین پلی کی منڈی میں پہلے جوفضلہ تھا، آج اسی سے دولت پیدا ہو رہی ہے – یہی تو کچرے سے کنچن بنانے کا سفر ہے۔ وہاں ہر دن قریب 10 ٹن فضلہ نکلتا ہے، اسے ایک پلانٹ میں اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ پلانٹ کے اندر اس فضلہ سے ہر دن 500 یونٹ بجلی بنتی ہے، اور قریب 30 کلو حیاتیاتی ایندھن بھی بنتا ہے۔ اس بجلی سے ہی سبزی منڈی میں روشنی ہوتی ہے اور جو حیاتیاتی ایندھن بنتا ہے، اس سے منڈی کی کینٹین میں کھانا بنایا جاتا ہے – ہے نہ کمال کی کوشش!
ایسا ہی ایک کمال، ہریانہ کے پنچ کولہ کی بڑوت گرام پنچایت نے بھی کرکے دکھایا ہے۔ اس پنچایت کے علاقے میں پانی کی نکاسی کا مسئلہ تھا ۔ اس کی وجہ سے گندہ پانی ادھرادھر پھیل رہا تھا، بیماری پھیلتی تھی، لیکن، بڑوت کے لوگوں نے طے کیا کہ اس خراب پانی سے بھی دولت پیدا کریں گے۔ گرام پنچایت نے پورے گاؤں سے آنے والے گندے پانی کو ایک جگہ اکٹھا کرکے فلٹر کرنا شروع کیا، اورفلٹر کیا ہوا یہ پانی، اب گاؤں کے کسان، کھیتوں میں سینچائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یعنی آلودگی ، گندگی اور بیماریوں سے چھٹکارا بھی، اور کھیتوں میں سینچائی بھی۔
ساتھیو!ماحولیات کے تحفظ سے کیسے آمدنی کے راستے بھی کھلتے ہیں، اس کی ایک مثال اروناچل پردیش کے توانگ میں بھی دیکھنے کو ملی ۔ اروناچل پردیش کے اس پہاڑی علاقے میں صدیوں سے ‘مون شوگو’ نام کا ایک پیپر بنایا جاتا ہے۔ یہ کاغذ یہاں کے مقامی شوگو شینگ نام کے ایک پودے کی چھال سے بناتے ہیں، اسلئے، اس کاغذ کو بنانے کے لیے پیڑوں کو نہیں کاٹنا پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ، اسے بنانے میں کسی کیمیاوی مواد کا استعمال بھی نہیں ہوتا ہے، یعنی، یہ کاغذ ماحولیات کے لیے بھی محفوظ ہے، اور صحت کے لیے بھی۔ ایک وہ بھی وقت تھا، جب، اس کاغذ کی بر آمدات ہوتی تھی ، لیکن، جب جدید تکنیک سے بڑی تعداد میں کاغذ بننے لگے، تو یہ مقامی آرٹ بند ہونے کی دہلیز پر پہنچ گئے ۔ اب ایک مقامی سماجی خدمتگار کلنگ گومبو نے اس آرٹ کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ہے، اس سے، یہاں کے قبائلی بھائی بہنوں کو روزگار بھی مل رہا ہے۔
میں نے ایک اور خبر کیرالہ کی دیکھی ہے، جو ہم سبھی کو اپنے فرض کا احساس دلاتی ہے۔ کیرالہ کے کو ٹیم میں ایک معذور بزرگ ہیں – این ایس راجپن صاحب۔ راجپن جی لقوہ کے باعثت چل نہیں سکتے ہیں ، لیکن اس سے، صفائی کے تئیں ان کی سرشاری میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ، پچھلے کئی سالوں سے ناؤ سے ویمبناڈ جھیل میں جاتے ہیں اور جھیل میں پھینکی گئی پلاسٹک کی بوتلیں باہر نکال کرلے آتے ہیں۔ سوچیں، راجپن جی کی سوچ کتنی اونچی ہے۔ ہمیں بھی، راجپن جی سے تحریک لے کر ، صفائی کے لیے، جہاں ممکن ہو، اپنا تعاون پیش کرنا چاہیئے۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا، امریکہ کے سان فرانسسکو سے بنگلورو کے لیے ایک نان اسٹاپ فلائٹ کی کمان ہندوستان کی چار خواتین پائلٹ نے سنبھالی۔ دس ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ لمبا سفر طے کرکے یہ فلائٹ سوا دو سو سے زیادہ مسافروں کو ہندوستان لیکر آئی۔ آپ نے اس بار 26 جنوری کی پریڈ میں بھی غور کیا ہوگا، جہاں، ہندوستانی فضائیہ کی دو خاتون افسروں نے نئی تاریخ لکھی ہے۔علاقہ کوئی بھی ہو، ملک کی خواتین کی شراکت داری مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ، ملک کے گاؤں میں ہو رہے اسی طرح کی تبدیلی کا اتنا ذکر نہیں ہوپاتا ۔ اسلئے، جب میں نے ایک خبر مدھیہ پردیش کے جبل پور کی دیکھی، تو مجھے لگا کہ اسکا ذکر تو مجھے ‘من کی بات’ میں ضرور کرنا چاہیئے۔ یہ خبر بہت ہی تحریک دینے والی ہے۔ جبل پور کے چچگاؤں میں کچھ قبائلی خواتین ایک چاول مل میں دہاڑی پر کام کرتی تھیں۔ کو رونا عالمی وبا نے جس طرح دنیا کے ہر فرد کو متاثر کیا اسی طرح یہ خواتین بھی متاثر ہوئیں۔ ان کی چاول میں کام رک گیا۔ قدرتی بات ہے کہ اس سے آمدنی کی بھی دقت آنے لگی، لیکن یہ ناامید نہیں ہوئیں، انہوں نےہار نہیں مانی۔ انہوں نے طے کیا کہ یہ ساتھ ملکر اپنی خود کی چاول مل شروع کریں گی، جس مل میں یہ کام کرتی تھیں، وہ اپنی مشین بھی بیچنا چاہتی تھی۔ ان میں سے مینا راہنگ ڈالے جی نے سبھی خواتین کو جوڑکر ‘سیلف ہیلف گروپ’ بنایا، اور سب نے اپنی بچائی ہوئی پونجی سے پیسہ جٹایا، جو پیسہ کم پڑا، اسکے لیے ‘آجیوکا مشن’ کے تحت بینک سے قرض لے لیا، اور اب دیکھیے، ان قبائلی بہنوں نے وہی چاول مل خرید لی، جس میں وہ کبھی کام کیا کرتی تھیں۔ آج وہ اپنی خود کی چاول مل چلا رہی ہیں۔ اتنے ہی دنوں میں اس مل نے تقریباً تین لاکھ روپے کا منافع بھی کما یا ہے۔ اس منافع سے مینا جی اور انکی ساتھی، سب سے پہلے، بینک کا لون چکانے اور پھر اپنے بیوپار کو بڑھانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ کو رونا نے جو صورتحال بنائی ، اس سے مقابلے کے لیے ملک کے کونے کونے میں ایسے حیرت انگیز کام ہوئے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، اگر میں آپ سےبندیل کھنڈ کے بارے میں بات کروں تو وہ کون سی چیزیں ہیں، جو آپ کےذہن میں آئیں گی! تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اس علاقہ کو جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے ساتھ جوڑیں گے۔ وہیں، کچھ لوگ خوبصورت اور پرسکون ‘اورچھا’ کے بارے میں سوچیں گے۔ کچھ لوگوں کو اس علاقے میں پڑنے والی سخت گرمی کی بھی یاد آ جائے گی، لیکن، ان دنوں، یہاں، کچھ الگ ہو رہا ہے، جو، کافی جوش بڑھانے والا ہے، اور جسکے بارے میں ہمیں ضرور جاننا چاہیئے۔گذشتہ دنوں جھانسی میں ایک مہینے تک چلنے والا 'اسٹرا بیری فیسٹیول' شروع ہوا۔ ہر کسی کوحیرانی ہوتی ہے – اسٹرا بیری اور بندیل کھنڈ ! لیکن یہی سچائی ہے۔ اب بندیل کھنڈ میں اسٹرا بیری کی کھیتی کو لیکرجوش بڑھ رہا ہے، اور اس میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے، جھانسی کی ایک بیٹی – گرلین چاؤلہ نے۔قانون کی طالبہ گرلین نے پہلے اپنے گھر اور پھر اپنے کھیت میں اسٹرابیری کی کھیتی کا کامیاب تجربہ کر کے یہ اعتماد بحال کیا کہ جھانسی میں بھی یہ ہو سکتا ہے۔ جھانسی کا 'اسٹرابیری فیسٹیول' "گھر پر رہیں " کے تصور پر زور دیتا ہے۔ اس فیسٹیول کے ذریعہ کسانوں اورنوجوانوں کو اپنے گھر کے پیچھے خالی جگہ میں ، یا چھت پر باغبانی کرنے اور اسٹرا بیری اگانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ نئی ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے ہی کوششیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہو رہی ہیں، جو اسٹرا بیری کبھی، پہاڑوں کی پہچان تھی، وہ اب، کچھ کی رتیلی زمین پر بھی ہونے لگی ہے، کسانوں کی آمدنی بڑھ رہی ہے۔
ساتھیو! اسٹرابیری فیسٹیول جیسے استعمال اختراعات کی روح کو تو ظاہر کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی یہ بھی دکھاتے ہیں کہ ہمارے دیش کا زرعی شعبہ کیسے نئی ٹکنالوجی اختیار کر رہا ہے۔
ساتھیو، زراعت کو جدید بنانے کے لیے حکومت پر عزم ہے اور متعدد اقدامات بھی کر رہی ہے۔ حکومت کی کوششیں آگے بھی جاری رہیں گی۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ ہی دن پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھا۔ وہ ویڈیومغربی بنگال کے مغربی مدناپور میں واقع ‘نیا پنگلا’ گاؤں کے ایک مصور سرم الدین کا تھا۔ وہ خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ رامائن پر بنائی انکی پینٹنگ دو لاکھ روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ اس سے انکے گاؤں والوں کو بھی کافی خوشی ملی ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد مجھے اسکے بارے میں اور زیادہ جاننے کا تجسس ہوا۔ اسی سلسلے میں مجھے مغربی بنگال سے وابستہ ایک بہت اچھی پہل کے بارے میں جانکاری ملی، جسے میں آپ سے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہونگا۔ وزارت سیاحت کے علاقائی دفتر نے مہینے کے شروع میں ہی بنگال کے گاؤں میں ایک 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے' کی شروعات کی۔ اس میں مغربی مدناپور، بانکرا، بیربھوم، پرو لیا، پورو بردھمان، وہاں کےدستکاروں نے آنے والوں کے لیے 'ہینڈی کرافٹ ورکشاپ' کا انعقاد کیا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے کے دوران دستکاری کی جو فروخت ہوئی وہ دستکاروں کے لیے بیحد حوصلہ افزا ہے۔ ملک بھر میں لوگ بھی نئے نئے طریقوں سے ہمارے آرٹ کو مقبول عام بنا رہے ہیں۔ اڈیشہ کے راورکیلا کی بھاگیشری ساہو کو دیکھ لیجئے۔ ویسے تو وہ انجنیئرنگ کی طالبہ ہیں، لیکن، پچھلے کچھ مہینوں میں انہوں نےاسکرین آرٹ کو سیکھنا شروع کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن، کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نےپینٹ کہاں کیا – نرم نرم پتھروں پر، کالج جانے کے راستے میں بھاگیہ شری کو یہ نرم پتھر ملے، انہوں نے، انہیں جمع کیا اور صاف کیا۔ بعد میں، انہوں نے، روزانہ دو گھنٹے ان پتھروں پراسکرین آرٹ کی پینٹنگ کی۔ وہ ان پتھروں کو پینٹ کر کے انہیں اپنے دوستوں کو بطور تحفہ دینے لگیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے بوتلوں پر بھی پینٹ کرنا شروع کر دیا۔ اب تو وہ اس آرٹ پر ورکشاپ بھی منعقد کرتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی، سبھاش بابو کی جینتی پر، بھاگیہ شری نے پتھر پر ہی انہیں انوکھی شردھانجلی دی۔ میں، بھاگیہ شری کو ان کی کوششوں کے مبارکباد دیتا ہوں۔آرٹ اور رنگوں کے ذریعہ بہت کچھ نیا سیکھا جا سکتا ہے، کیا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے دمکا میں کئے گئے ایک ایسے ہی انوکھی کوشش کے بارے میں مجھے بتایا گیا۔ یہاں میڈل اسکول کے ایک پرنسپل نے بچوں کو پڑھانے اور سکھانے کے لیے گاؤں کی دیواروں کو ہی انگریزی اور ہندی کے حروف سے پینٹ کروا دیا، ساتھ ہی، اس میں، مختلف تصویریں بھی بنائی گئی ہیں، اس سے، گاؤں کے بچوں کو کافی مدد مل رہی ہے۔ میں، ایسے سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اس طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور، کئی سمندروں ، بر اعظموں کے پار ایک ملک ، جس کا نام ہے چلی۔ ہندوستان سے چلی پہنچنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے، لیکن ہندوستانی ثقافت کی خوشبو وہاں بہت پہلے سے ہی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے، کہ، وہاں یوگا بہت زیادہ مقبول ہے۔ آپ کو یہ جان کر اچھا لگےگا کہ چلی کی راجدھانی سینٹیاگو میں 30 سے زیادہ یوگا اسکول ہیں۔چلی میں بین الاقوامی یوگ دوس بھی بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہاؤس آف ڈیوپٹیز میں یوگ دوس کو لیکر بہت ہی گرم جوشی بھرا ماحول ہوتا ہے۔ کو رونا کے اس دور میں قوت مدافعت پر زور اور قوت مدافعت بڑھانے میں، یوگا کی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اب وہ لوگ یوگا کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔چلی کی کانگریس، یعنی وہاں کی پارلیمنٹ نے تجویز منظور کی ہے۔ وہاں، 4 نومبر کو قومی یوگا ڈے منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آخر 4 نومبر میں ایسا کیا ہے ؟ 4 نومبر 1962 کو ہی چلی کا پہلا یوگا کا ادارہ ہوزے رافال ایسٹراڈا کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا۔ اس دن کوقومی یوگا ڈے کا اعلان کرکے ایسٹراڈا جی کو بھی خراج عقیدت پیش کی گئی ہے۔ چلی کی پارلیمنٹ کے ذریعہ ایک خاص اعزاز ہے جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔ ویسے چلی کی پارلیمنٹ سے جڑی ایک اور بات آپ کو دلچسپ لگےگی۔ چلی کی سینٹ کےنائب صدر کا نام رابندرناتھ کونٹیراس ہے۔ انکا یہ نام وشو کوی گرودیو ٹیگور سے تحریک حاصل کر کے رکھا گیا ہے۔
میرے عزیز ہم وطنو! مائی گو پر مہاراشٹر کے جالنا کے ڈاکٹر سوپ نیل منتری اور کیرالہ کے پلکاڈ کے پرہلاد راج گوپالن نے گذارش کی ہے کہ میں ‘من کی بات’ میں سڑک تحفظ پر بھی آپ سے بات کروں۔ اسی مہینے 18 جنوری سے 17 فروری تک، ہمارا ملک ‘سڑک تحفظ ماہ’ یعنی 'روڈ سیفٹی منتھ" منا رہا ہے۔ سڑک حادثے آج ہمارے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں تشویش کا موضوع ہیں۔ آج ہندوستان میں روڈ سیفٹی کے لیےحکومت کے ساتھ ہی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کئی طرح کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ زندگی بچانے کی ان کوششوں میں ہم سب کو سرگرمی سے شراکت دار بننا چاہیئے۔
ساتھیو! آپ نے غور کیا ہوگا، بارڈر روڈ آرگنائزیشن جو سڑکیں بناتی ہیں اس سے گذرتے ہوئے آپ کو بڑے ہی اختراعی نعرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ‘This is highway not runway’ یا پھر ‘Be Mr. Late than Late Mr.’ یہ نعرے سڑک پر احتیاط برتنے کو لیکر لوگوں کو بیدار کرنے میں کافی مؤثر ہوتے ہیں۔ اب آپ بھی ایسے ہی اختراعی سلوگن یا پرکشش فقرے مائی گو پر بھیج سکتے ہیں۔ آپکے اچھے سلوگن بھی اس مہم میں استعمال کئے جائیں گے۔
ساتھیو، روڈ سیفٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، میں نمو اَیپ پر کولکاتہ کی اپرنا داس جی کی ایک پوسٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اپرنا جی نے مجھے 'فاسٹ ٹیگ' پروگرام پر بات کرنے کی صلاح دی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 'فاسٹ ٹیگ' سے سفر کرنے تجربہ ہی بدل گیا ہے۔ اس سے وقت کی تو بچت ہوتی ہی ہے، ٹال پلازہ پر رکنے، نقد ادائیگی کی فکر کرنے جیسی دقتیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ اپرنا جی کی بات سہی بھی ہے۔ پہلے ہمارے یہاں ٹال پلازہ پر ایک گاڑی کو اوسطاً 7 سے 8 منٹ لگ جاتے تھے، لیکن'فاسٹ ٹیگ' آنے کے بعد، یہ وقت ، اوسطاً صرف ڈیڑھ دو منٹ رہ گیا ہے۔ ٹال پلازہ پر انتظار کرنے کے وقت میں کمی آنے سے گاڑی کے ایندھن کی بچت بھی ہو رہی ہے۔ اس سے ہم وطنوں کے تقریباً 21 ہزار کروڑ روپے بچنے کا اندازہ ہے، یعنی پیسے کی بھی بچت، اور وقت کی بھی بچت۔ میری آپ سبھی سے گذارش ہے کہ سبھی رہنما اصولوں پر عمل کرتے ہوئے، اپنا بھی دھیان رکھیں اور دوسروں کی زندگی بھی بچائیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے – “جل بندو نپاتین کرمش پوریتے گھٹ”۔ یعنی ایک ایک بوند سے ہی گھڑا بھرتا ہے۔ ہماری ایک ایک کوشش سے ہی ہمارے عزم پورے ہوتے ہیں۔ اسلئے، 2021 کی شروعات جن اہداف کے ساتھ ہم نے کی ہے، انکو، ہم سب کو مل کر ہی پورا کرنا ہے تو آئیے، ہم سب مل کر اس سال کو مثبت بنانے کے لیے اپنے اپنے قدم بڑھائیں۔ آپ اپنا پیغام اپنےخیالات ضرور بھیجتے رہیئے گا۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے۔
ابھی وداع لیتے ہیں ، پھر ملیں گے!
نئی دہلی۔27 دسمبر میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج 27 دسمبر ہے۔ چار دن بعد ہی 2021 کی شروعات ہونے جا رہی ہے۔ آج کی ‘من کی بات’ ایک طرح سے 2020 کی آخری ‘من کی بات’ ہے۔ اگلی ‘من کی بات’ 2021 میں شروع ہوگی۔ ساتھیو، میرے سامنے آپ کے لکھے ہوئے بہت سے خطوط ہیں۔' مائی گو' پر جو آپ اپنی رائے بھیجتے ہیں، وہ بھی میرے سامنے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے فون کرکے اپنی بات بتائی ہے۔ زیادہ تر پیغامات میں، گذرے ہوئے سال کے تجربات ، اور، 2021 سے وابستہ عہد ہیں۔ کولہاپور سے انجلی جی نے لکھا ہے کہ نئے سال پر، ہم، ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں تو اس بار ہم ایک نیا کام کریں۔ کیوں نہ ہم، اپنے ملک کو مبارکباد دیں، ملک کے تئیں بھی نیک خواہشات کا اظہار کریں۔ انجلی جی، واقعی، بہت ہی اچھی رائے ہے۔ ہمارا ملک 2021 میں کامیابیوں کی نئی بلندیوں پر جائے ، دنیا میں ہندوستان کی شناخت اورمضبوط ہو، اس سے بڑی تمنا اور کیا ہوسکتی ہے۔
دوستو ، ممبئی کے ابھیشیک جی نے نمو ایپ پر ایک پیغام پوسٹ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2020 نے جو کچھ دکھایا ، جوکچھ سکھایا ، اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ کو رونا سے جڑی تمام باتیں انہوں نے لکھی ہیں۔ ان خطوں میں، ان پیغامات میں، مجھے، ایک بات جومشترک نظر آ رہی ہے، خاص نظر آ رہی ہے، وہ میں آج آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔زیادہ تر خطوں میں لوگوں نے ملک کی صلاحیت ، ہم وطنوں کی اجتماعی طاقت کی بھرپور ستائش کی ہے۔ جب جنتا کرفیو جیسا جدید تجربہ پوری دنیا کے لیے تحریک بن گئی ، جب، تالی تھالی بجاکر ملک نے کورونا واریرس کو عزت بخشی تھی، اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا، اسے بھی کئی لوگوں نے یاد کیا ہے ۔
ساتھیو، ملک کے عام آدمی نے اس تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ میں نے ملک میں امید کا ایک حیرت انگیز بہاؤ بھی دیکھا ہے۔ بہت سارے چیلنجزآئے۔ بہت سارے بحران بھی آئے۔کورونا کے باعث دنیا میں سپلائی چین کے سلسلے میں بہت سی رکاوٹیں بھی درپیش ہوئیں، لیکن ، ہم نے ہر بحران سے نیا سبق لیا۔ ملک میں ایک نئی صلاحیت نے بھی جنم لیا۔ اگر آپ الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں تو اس صلاحیت کا نام 'خود انحصاری' ہے۔
دوستو ، دہلی میں رہنے والے ابھینو بنرجی نے اپناجو تجربہ مجھے لکھ کر بھیجا ہے ،وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ ابھینو جی کو اپنی رشتہ داری میں بچوں کو تحفے دینے کے لئے کچھ کھلونے خریدنے تھے ، لہذا ، وہ دہلی کے جھنڈے والان بازار گئے تھے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا ، یہ بازار دہلی میں سائیکلوں اور کھلونوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ پہلے وہاں مہنگے کھلونوں کا مطلب بھی درآمد شدہ کھلونے ہوتا تھا اور سستے کھلونے بھی باہر سے آئے تھے۔ لیکن ابھینو جی نے خط میں لکھا ہے کہ اب وہاں کئی دکاندار ، صارفین کو یہ کہہ کر کھلونے بیچ رہے ہیں کہ یہ اچھا کھلونا ہے ، کیونکہ یہ ہندوستان میں بنایا گیا ہے 'میڈ اِن انڈیا' ہے۔ صارفین بھی ہندوستان میں بنے کھلونوں کی ہی مانگ کر رہے ہیں۔ یہ تو ہے ، یہ ایک سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی ہے۔ یہ ایک زندہ و جاوید ثبوت ہے۔ ہم وطنوں کی سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے ، اور وہ بھی ایک سال کے اندر ۔اس تبدیلی کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ ماہرین معاشیات بھی اپنے پیمانے پر اسے وزن نہیں کرسکتے ہیں۔
دوستو ، مجھے وشاکھاپٹنم سےوینکٹ مرلی پرساد جی نے جو لکھا ہے اس میں بھی ایک الگ ہی قسم کا تصور ہے۔ وینکٹ جی نے لکھا ہے میں آپ کو 2021 کے لئےاپنا اے بی سی اٹیچ کر رہا ہوں ۔ مجھےکچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر اے بی سی سے ان کا کیا مطلب ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ وینکٹ جی نے خط کے ساتھ ایک چارٹ بھی منسلک کیا ہے۔ میں نے اس چارٹ کو دیکھا ، اور پھر سمجھ گیا کہ اے بی سی کا ان کا مطلب ہے – خود انحصار بھارت چارٹ – اے بی سی۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ وینکٹ جی نے ان تمام چیزوں کی ایک مکمل فہرست بنائی ہے جنہیں وہ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں الیکٹرانکس ، اسٹیشنری ، خود کی دیکھ بھال کرنے والی اشیاء، اس کے علاوہ اور بہت کچھ شامل ہے۔ وینکٹ جی نے کہا ہے کہ ، ہم جانے انجانے میں ان غیر ملکی مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں جن کا متبادل ہندوستان میں آسانی سے دستیاب ہے۔ اب انہوں نے قسم کھائی ہے کہ میں ان ہی مصنوعات کا استعمال کروں گا جن میں ہمارے ہم وطنوں کی محنت اور پسینہ شامل ہے۔
دوستو ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ، انہوں نے کچھ اوربھی کہا ہے ، جو مجھے کافی دلچسپ لگا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ہم ایک خود انحصار ہندوستان کی حمایت کر رہے ہیں ، لیکن ہمارے مینوفیکچررز کے لیے بھی واضح پیغام ہونا چاہئے کہ وہ مصنوعات کے معیار سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ بات تو درست ہے ۔ صفر اثر ، صفر عیب کی سوچ کے ساتھ کام کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ میں ملک کے صنعت کاروں اور صنعتوں کے رہنماؤں سے گزارش کرتا ہوں کہ ملک کے عوام نے مضبوط قدم اٹھایا ہے ، مضبوط قدم آگے بڑھایا ہے۔ ووکل فار لوکل کا نعرہ آج گھر گھر میں گونج رہا ہے۔ ایسے میں اب یہ یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے کہ ہماری مصنوعات عالمی معیار کی ہوں۔ جو بھی عالمی طور پر بہترین ہے ، ہم اسے ہندوستان میں بنا کر دکھائیں۔ اس کے لیے ہمارے کاروباری ساتھیوں کو آگے آنا ہوگا۔ اسٹارٹ اپ کو بھی آگے آنا ہوگا۔ ایک بار پھر ، میں وینکٹ جی کو ان کی بہترین کاوشوں کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوستو ، ہمیں اس جذبے کو برقرار رکھنا ہے ، زندہ رکھنا ہے اور اسے فروغ دیتے رہنا ہے ۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور ہم وطنوں سے ایک بار پھر گذارش کروں گا ۔ آپ بھی ایک فہرست تیار کریں ۔دن بھر ہم جن چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچیں اور دیکھیں کہ غیر دانستہ طور پر بیرون ملک بنی کون سی چیزیں ہماری زندگی میں داخل ہوگئی ہیں۔ایک طرح سے ، ہمیں قیدی بنا لیا ہے۔ان کے ہندوستان میں بنائے گئے متبادل کا پتہ لگائیں ، اور یہ بھی طے کریں کہ آئندہ سے ہندوستان کے محنت کش لوگوں ، ان کے پسینے سے تیار کردہ مصنوعات کا ہم استعمال کریں ۔ آپ ہر سال نئے سال کی قراردادیں لیتے ہیں ، اس بارایک قرار دار اپنے ملک کی خاطر بھی ضرور لینا چاہیے ۔
میرے پیارےہم وطنو ، ہمارے ملک میں ، دہشت گردوں سے، ظالموں سے ، ملک کے ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت ، اپنے رسم و رواج کو بچانے کے لئے کتنی قربانیاں دی گئی ہیں ، آج انہیں یاد کرنے کا بھی دن ہے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند جی کے صاحبزادے جوراور سنگھ اور فتح سنگھ کو دیوارمیں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ ظالم چاہتے تھے کہ صاحبزادے اپنا عقیدہ ترک کردیں ، عظیم گرو روایت کی تعلیمات چھوڑ دیں۔ لیکن ہمارے صاحبزادوں نے اتنی کم عمر میں بھی غضب کی ہمت اور خواہش کا مظاہرہ کیا۔ دیوار میں چنے جانے کے وقت ، پتھر لگتے رہے ، دیواریں اونچی ہوتی رہیں، موت سامنے ہی منڈلا رہی تھی ، لیکن پھر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند سنگھ جی کی ماں ماتا گوجری کی بھی شہادت ہوئی تھی۔ تقریبا ایک ہفتہ قبل ، گرو تیغ بہادر جی کا بھی یوم شہادت تھا۔ مجھے یہاں ، دہلی میں ، گرودوارہ رکاب گنج جا کر ، گرو تیغ بہادر جی کو خراج عقیدت پیش کرنے ، ماتھا ٹیکنے کا موقع ملا۔ اسی مہینے گرو گووند سنگھ جی سے تحریک حاصل کر کے متعدد لوگ زمین پر سوتے ہیں۔ لوگ گرو گووند سنگھ جی کےخاندان کے لوگوں کے ذریعہ دی گئی شہادت کو انتہائی جذباتی طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس شہادت نے پوری انسانیت ، ملک کو، ایک نئی تعلیم عطا کی۔ اس شہادت نے ہماری تہذیب کو محفوظ رکھنے کا بہت بڑا کام کیا۔ ہم سب اس شہادت کے مقروض ہیں۔ ایک بار پھر ، میں گرو تیغ بہادر جی ، ماتا گوجری جی ، گرو گووند سنگھ جی ، اور چاروں صاحبزادوں کی شہادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ، متعدد شہادتوں نے ہندوستان کی موجودہ شکل کو محفوظ رکھا ہے، برقرار رکھا ہے۔
میرے پیارےہم وطنو ، اب میں آپ کو ایسی بات بتانے جارہا ہوں ، جس سے آپ کو خوش بھی ہوں گے اور فخر بھی ہوگا۔ 2014 اور 2018 کے درمیان ، ہندوستان میں چیتوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں ، ملک میں چیتے کی تعداد لگ بھگ 7،900 تھی ، جبکہ 2019 میں ان کی تعداد بڑھ کر 12،852 ہوگئی۔ یہ وہی چیتے ہیں جن کے بارے میں جم کاربیٹ نے کہا تھا : "جن لوگوں نے چیتوں کو فطرت میں آزادانہ طور پر گھومتے نہیں دیکھا ، وہ اس کے حسن کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اس کے رنگوں کی خوبصورتی اور اس کے چال کے دلکشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ " ملک کی بیشتر ریاستوں میں ، خاص طور پر وسطی ہندوستان میں ، چیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چیتے کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاستوں میں مدھیہ پردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹر سرفہرست ہیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ چیتے کو برسوں سے پوری دنیا میں خطرات لاحق ہیں ، دنیا بھر میں ان کے رہنے کی جگہ کو نقصان ہوا ہے۔ ایسے وقت میں ، ہندوستان نے چیتوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ کرکے پوری دنیا کو راستہ دکھایا ہے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ پچھلے کچھ سالوں میں ، ہندوستان میں شیروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے ، شیروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیز ہندوستانی جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ بہت سارے افراد ، سول سوسائٹی ، کئی ادارے بھی ہمارے درختوں اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ میں شامل ہیں وہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ساتھیو، میں نے تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں دلوں کو چھو لینے والی کوششوں کے بارے میں پڑھا۔ آپ نے بھی سوشل میڈیا پر اس کے نظارے دیکھے ہوں گے۔ ہم سبھی نے انسانوں کے لیے وہیل چیئر دیکھی ہے ، لیکن کوئمبٹور کی ایک بیٹی گایتری نے اپنے والد کے ساتھ مل کر ایک متاثر کتے کے لئے وہیل چیئر بنادی۔ یہ حساسیت حوصلہ افزا ہے ، اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان ہر جاندار کے ساتھ ہمدردی اور شفقت سے بھر پور ہو۔ دہلی این سی آر اور ملک کے دوسرے شہروں میں سخت سردی کی لپیٹ میں بے گھر جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کئی لوگ بہت کچھ کر رہے ہیں۔ وہ ان جانوروں کے لئے کھانا پینا اور یہاں تک کہ ان کے لئے سویٹر اور بستر کا انتظام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے جانوروں کے لئے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔اس طرح کی کوششوں کی ستائش کی جانی چاہئے۔ کچھ اسی طرح کی نیک کوششیں اترپردیش کے کوشامبی میں بھی کی جارہی ہیں۔وہاں جیل میں بند قیدی ، گایوں کو سردی سے بچانے کے لئے پرانے اور پھٹے ہوئے کمبلوں سےکوور بنا رہے ہیں۔ ان کمبلوں کو کوشامبی سمیت دیگر اضلاع کی جیلوں سے جمع کیا جاتا ہے اور پھر انہیں سِل کر گو شالہ بھیجا جاتا ہے۔ کوشامبی جیل کے قیدی ہر ہفتے کئی کور تیار کر رہے ہیں۔ آئیے ، دوسروں کی دیکھ بھال کےلیے خدمت کے جذبے سے معمور ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ واقعتا یہ ایک ایسا کام ہے جو معاشرے کی حساسیت کو تقویت بخشتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، اب جو خط میرے سامنے ہے اس میں دو بڑی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر ایک مندر کی ہیں اور پہلے اور بعد کی ہیں۔ ان تصاویر کے ہمراہ جو خط ہے اس میں نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم کے بارے میں بتایا گیا ہے جو خود کو نوجوان بریگیڈ کہتے ہیں۔ در اصل ، اس نوجوان بریگیڈ نے کرناٹک میں سری رنگ پٹن کے قریب واقع ویربھدرا سوامی نامی کے ایک قدیم شیو مندر کو از سرنو بحال کر دیا۔ مندرمیں ہر طرف گھاس پھوس اور جھاڑیاں بھری ہوئی تھیں۔ اتنی کہ راہگیر بھی نہیں بتاسکتے کہ یہاں ایک مندر ہے۔ ایک دن ، کچھ سیاحوں نے اس بھولے بسرے مندر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ جب نوجوان بریگیڈ نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ان سے رہا نہیں گیا اور پھر اس ٹیم نے مل کر اس کی تجدیدکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نےمندر کے احاطے میں اُگ آئی کانٹے کی جھاڑیوں ، گھاس اور پودوں کو ہٹا یا ۔ جہاں مرمت اور تعمیر کی ضرورت تھی ، وہ کیا ۔ ان کے اچھے کام کو دیکھتے ہوئے ، مقامی لوگوں نے بھی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ کچھ لوگوں نے سیمنٹ دیا اور کچھ لوگوں نے پینٹ اور بہت سی دوسری چیزوں سے اپنی اپنی شراکت داری کی۔ یہ تمام نوجوان مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، انہوں نے اختتام ہفتہ کے دوران وقت نکالا اور مندر کے لئے کام کیا ، نوجوانوں نے مندر میں دروازہ لگوانے کے ساتھ بجلی کا کنکشن بھی لگوایا۔ اس طرح انہوں مندر کی پرانی شان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کام کیا۔ جنون اور عزم ایسی دو چیزیں ہیں جن سے لوگ ہر مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ جب میں ہندوستان کے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور اعتماد کا احساس ہوتا ہے۔ خوشی اورپر اعتمادی اس لیے کیونکہ میرے ملک کے نوجوانوں کے پاس 'کر سکتے ہیں' اور 'کریں گے ' کا جذبہ ہے۔ ان کے لئے کوئی بھی چیلنج بڑا نہیں ہے۔ ان کی پہنچ سے کچھ بھی دور نہیں ہے۔ میں نے تمل ناڈو کی ایک ٹیچر کے بارے میں پڑھا۔ اس کا نام ہیم لتا این کے ہے ، جو وڈوپورم کے ایک اسکول میں ، دنیا کی قدیم ترین زبان تمل کی تعلیم دیتی ہیں۔ کووڈ 19 کی وبا بھی ان کے پڑھانے کے کام میں آڑے نہیں آئی ۔ جی ہاں ! ان کے سامنے چیلنجز ضرور تھے ، لیکن ، انہوں ایک اختراعی راستہ نکالا۔ انہوں نے کورس کے تمام 53 ابواب کو ریکارڈ کیا ، متحرک ویڈیوز تیار کیں اور انہیں اپنے طالب علموں میں ایک پین ڈرائیو میں لے کر تقسیم کر دی۔ اس سے ان کے طلباء کو بہت مدد ملی ، وہ ابواب کو ویزول طریقے سے بھی سمجھ پائے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے طلباء سے ٹیلیفون پر بھی بات کرتی رہیں۔ اس سے طلباء کےلیے پڑھائی کافی دلچسپ ہوگئی۔ ملک بھر میں کورونا کے اس زمانے میں ، اساتذہ نے جو اختراعی طریقے اپنائے جو کورس مواد تخلیقی طور پر تیار کیا ہے ، وہ آن لائن تعلیم کے اس مرحلے میں انمول ہے۔ میں تمام اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کورس مٹیریل کو وزارت تعلیم کےدکشا پورٹل پر اپ لوڈ کریں۔ اس سے ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلبہ کو بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، آئیے اب جھارکھنڈ کے کوروا قبیلے کے ہیرامن جی کی بات کرتے ہیں۔ ہیرامن جی گڑھوا ضلع کے سنجو گاؤں میں رہتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کوروا قبیلے کی آبادی صرف 6،000 ہے ، جو شہروں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ اپنی برادری کی ثقافت اور شناخت کو بچانے کے لئے ہیرامن جی نے ایک پیش قدمی کی ہے۔ انہوں نے 12 سال کی انتھک محنت کے بعد ،، معدوم ہوتی کوروا زبان کی ایک لغت تیار کی ہے۔ اس لغت میں انہوں نے گھریلو استعمال میں آنے والے الفاظ سے لے کر روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والےکوروا زبان کے بہت سارے الفاظ کو معنی کے ساتھ لکھا ہے۔ ہیرامن جی نے کوروا برادری کے لئے جو کیا ہے وہ ملک کے لئے ایک مثال ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ایسا کہتے ہیں کہ اکبر کے دربار میں ایک ممتاز رکن ابوالفضل تھے۔ انہوں نے ایک بار کشمیرکے دورے کے بعد کہا تھا کہ کشمیر میں ایسا نظارہ ہے ، جسے دیکھ کر چڑچڑے اورغصہ ور لوگ بھی خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ دراصل ، وہ کشمیر میں زعفران کے کھیتوں کا ذکر کر رہے تھے۔ زعفران صدیوں سے کشمیر سے وابستہ ہیں۔ کشمیری زعفران بنیادی طور پر پلوامہ ، بڈگام اور کشتواڑ جیسی جگہوں پر اگایا جاتا ہے۔ اس سال مئی میں ، کشمیری زعفران کو جغرافیائی اشارے کا ٹیگ یعنی جی آئی ٹیک دیا گیا ۔ اس کے ذریعہ ، ہم کشمیری زعفران کو عالمی سطح پر مقبول برانڈ بنانا چاہتے ہیں۔ کشمیری زعفران ایک مصالحے کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہے جس میں طرح طرح کی دواؤں کی خصوصیات ہیں۔ یہ بہت خوشبودارہوتا ہے ، اس کا رنگ گاڑھا ہوتا ہے اور اس کے دھاگے لمبے اور موٹے ہوٹے ہوتے ہیں۔ جو اس کی طبی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ جموں وکشمیر کی خوشحال ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتا ہے۔ معیار کی بات کریں تو کشمیر کا زعفران بہت ہی منفرد اور دوسرے ممالک کے زعفران سے بالکل مختلف ہے۔ کشمیر کے زعفران کو جی آئی ٹیگ شناخت سے الگ پہچان ملی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جی آئی ٹیگ کی سند ملنے کے بعد ، کشمیری زعفران کو دبئی کے ایک سپر مارکیٹ میں لانچ کیا گیا۔ اب اس کی برآمدات بڑھنے لگیں گی۔ اس سے خود انحصار ہندوستان بنانے کی ہماری کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔ اس سے خاص طور پر زعفران کاشتکار وں کو فائدہ ہوگا۔ پلوامہ میں ترال کے شار علاقے کے رہائشی عبد المجید وانی کو ہی دیکھ لیں ۔ وہ اپنے جی آئی ٹیگ والے زعفران کو قومی زعفران مشن کی مدد سے پمپور کے تجارتی مرکز میں ای ٹریڈنگ کے ذریعہ فروخت کررہے ہیں ۔کشمیر میں اس طرح کے بہت سے لوگ یہ کام کررہے ہیں۔ اگلی بار جب آپ زعفران خریدنے کا فیصلہ کریں تو کشمیر کا زعفران ہی خریدنے کا سوچیں۔ کشمیریوں کی گرمجوشی ایسی ہے کہ وہاں کے زعفران کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی دو دن پہلے گیتا جینتی تھی۔ گیتا، ہمیں اپنی زندگی کے ہر تناظر میں تحریک دیتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گیتا اتنی حیرت انگیز کتاب کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خود بھگوان کرشن کے کلمات ہیں۔ لیکن گیتا کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے تجسس سے شروع ہوتی ہے۔ ارجن نے خدا سے سوال کیا ، تجسس کا اظہار کیا ، تبھی تو گیتا کا علم دنیا نے حاصل کیا۔ گیتا کی ہی طرح ، ہماری ثقافت میں تمام علم تجسس کے ساتھ شروع ہوتے ہیں۔ ویدانت کا تو پہلا منتر ہی ہے – 'اتھاتو برہما جیگیاسا' یعنی آؤ ہم برہماکا تجسس کریں۔ اسی لئے تو ہمارے یہاں برہما کے باقیات کی بات کہی جاتی ہے۔ تجسس کی طاقت ایسی ہی ہے۔ تجسس مستقل طور پر آپ کو نئی چیز کی ترغیب دیتا ہے۔ بچپن میں ہم اسی لیے تو سیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر تجسس ہوتا ہے۔ یعنی جب تک تجسس ہے تب تک زندگی ہے۔ جب تک تجسس ہے ، تب تک نیا سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں کوئی عمر ، کسی صورتحال معانی ہی نہیں رکھتی۔ تجسس کی ایسی توانائی کی ایک مثال کا مجھے پتہ چلا ، تمل ناڈو کےبزرگ شری ٹی سرینواسچاریہ سوامی جی کے بارے میں! جناب ٹی سرینواساچاریہ سوامی جی 92 سال کے ہیں، وہ اس عمر میں بھی کمپیوٹر پر اپنی کتاب لکھ رہے ہیں ، وہ بھی خود ٹائپ کرکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کتاب لکھنا تو ٹھیک ہے ، لیکن سرینواساچاریہ جی کے وقت میں تو کمپیوٹر رہا ہی نہیں ہوگا۔ پھر انہوں نے کمپیوٹر کب سیکھا؟ یہ سچ ہے کہ اس کے کالج کے دور میں کمپیوٹر نہیں تھا۔ تاہم ان کے دل میں تجسس اور خود اعتمادی اب بھی اتنی ہی ہے جتنی ان کی اپنی جوانی میں تھی۔ دراصل ، سرینواساچاریہ سوامی جی سنسکرت اور تامل کے اسکالر ہیں۔ انہوں نے اب تک تقریبا 16 روحانی نصوص بھی لکھ چکے ہیں۔ لیکن ، کمپیوٹر آنے کے بعد ، جب انہیں لگا کہ اب تو کتاب لکھنے اور طباعت کا طریقہ بدل گیا ہے ، تو انہوں نے 86 سال کی عمر میں کمپیوٹر سیکھا ، اپنے لئے ضروری سافٹ ویئر سیکھا۔ اب وہ اپنی کتاب مکمل کر رہے ہیں ۔
ساتھیو ، جناب ٹی شرینواساچاریہ سوامی جی کی زندگی اس بات کا براہ راست ثبوت ہے کہ زندگی اس وقت تک توانائی سے بھرپور رہتی ہے جب تک زندگی میں تجسس نہیں مرجاتی ہے ، سیکھنے کی خواہش مر نہیں جاتی۔ لہذا ، ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم پچھڑ گئے ، ہم چوک گئے۔ کاش ہم بھی سیکھ لیتے! ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم سیکھ نہیں سکتے ، یا آگے نہیں بڑھ سکتے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ابھی ہم تجسس سے کچھ نیاسیکھنے اور کرنے کی بات کر رہے تھے۔ نئے سال کے موقع پر نئے عزائم کی بات کر رہے تھے۔ لیکن ، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مستقل طور پر کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہتے ہیں ،نئے نئے عزائم کو ثابت کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے بھی اپنی زندگی میں محسوس کیا ہوگا ، جب ہم معاشرے کے لئے کچھ کرتے ہیں تو معاشرہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی توانائی خود ہی دیتا ہے۔ عام سی لگنے والی محرکات سے بہت بڑے کام بھی ہوسکتے ہیں۔ جناب پردیپ سانگوان ایک ایسے ہی نوجوان ہیں! گروگرام کے پردیپ سانگوان 2016 سے ہیلنگ ہمالیاز کے نام سے مہم چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم اور رضاکاروں کے ساتھ ہمالیہ کے مختلف علاقوں میں جاتے ہیں اور جو پلاسٹک کے فضلہ سیاح وہاں چھوڑ جاتے ہیں، وہ صاف کرتے ہیں۔ پردیپ جی اب تک ہمالیہ کے مختلف سیاحتی مقامات سے کئی ٹن پلاسٹک کی صفائی کر چکے ہیں۔ اسی طرح ، انودیپ اور منوشا کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جوڑے ہیں۔ انودیپ اور منوشا کی گذشتہ ماہ نومبر میں شادی ہوئی ہے۔ بہت سے نوجوان شادی کے بعد سیر پر جاتے ہیں ، لیکن ان دونوں نے کچھ مختلف کیا۔ ان دونوں نے ہمیشہ دیکھا کہ لوگ اپنے گھر سے باہر گھومنے تو جاتے ہیں ، لیکن ، جہاں جاتے ہیں ، وہیں ڈھیر سارا کچرا اور کوڑا چھوڑ کر آ جاتے ہیں۔ کرناٹک کے سومیشورساحل پر بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ انودیپ اور منوشا نے فیصلہ کیا کہ وہ لوگ ان کچرے کو صاف کریں گے جسے لوگ سومیشور کے ساحل پر چھوڑ کر گئے ہیں۔ دونوں شوہر اور بیوی نے شادی کے بعد اپنا پہلا عہد کیا۔ دونوں نے مل کر سمندری ساحل پر بہت سارا کوڑا صاف کیا۔ انودیپ نے اپنے اس عہد کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔ پھر کیا تھا ، ان کی اتنی شاندار سوچ سے متاثر ہوکر ، بہت سارے نوجوان ان کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔ ان لوگوں نے مل کر سومیشور ساحل سمندر سے 800 کلوگرام سے زیادہ کچرا صاف کیا ہے۔
ساتھیو ، ان کوششوں کے درمیان ہمیں یہ بھی سوچنا ہے یہ کوڑا کرکٹ ان ساحلوں ، ان پہاڑوں تک کیسے پہنچتا ہے۔ آخر ہم میں سے ہی کئی لوگ اس کوڑے کو وہاں چھوڑ کر آتے ہیں ۔ ہمیں پردیپ اور انودیپ منوشا کی طرح صفائی مہم چلانی چاہئے۔ لیکن اس سےبھی پہلے ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہئے کہ ہم گندگی پھیلائیں گے ہی نہیں۔ آخر سوچھ بھارت مہم مہم کابھی تو پہلاعہد یہی ہے۔ ہاں ، ایک اور بات میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اس سال کورونا کی وجہ سے ، اس پر زیادہ بات چیت نہیں ہوپائی ہے۔ ہمیں ملک کوسنگل یوز پلاسٹک سے آزاد کرنا ہے۔ یہ بھی 2021 کی قراردادوں میں سے ایک ہے۔ آخر میں ، میں آپ کو نئے سال کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ خود صحتمند رہیں ، اپنے کنبے کو صحت مند رکھیں۔ اگلے سال جنوری میں ، نئے موضوعات پر 'من کی بات' ہوگی۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ‘من کی بات’ کی شروعات میں آج میں، آپ سب کے ساتھ ایک خوشخبری ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔ ہر ہندوستانی کو یہ جانکر فخر ہوگا کہ دیوی انّ پورناکی ایک بہت پرانی مورتی، کینیڈا سے واپس ہندوستان آرہی ہے۔ یہ مورتی لگ بھگ 100 سال پہلے، 1913 کے قریب، وارانسی کے ایک مندر سے چرا کر ملک سے باہر بھیج دی گئی تھی۔ میں، کینیڈا کی حکومت اور اس نیک کام کو ممکن بنانے والے سبھی لوگوں کا اس بڑے دل کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ماتا انّ پورنا کا کاشی سے بہت ہی خاص رشتہ ہے۔ اب، ان کی مورتی کا واپس آنا، ہم سبھی کیلئے خوشی کی بات ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی طرح ہی ہماری وراثت کے متعدد انمول ورثے بین الاقوامی گروہوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ یہ گروہ بین الاقوامی بازار میں، انہیں بہت اونچی قیمت پر بیچتے ہیں۔ اب ان پر سختی تو لگائی جارہی ہے ان کی واپسی کیلئے ہندوستان نے اپنی کوششیں بھی بڑھائی ہیں۔ ایسی کوششوں کی وجہ سے پچھلے کچھ برسوں میں ہندوستان کئی مورتیوں اور فن پاروں کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی واپسی کے سا تھ، ایک اتفاق یہ بھی جڑا ہے کہ کچھ دن پہلے ہی عالمی ورثہ کا ہفتہ منایا گیا ہے۔ عالمی ورثہ ہفتہ، ثقافت کے محبین کیلئے، پرانے وقت میں واپس جانے، ان کی تاریخ کے اہم سنگ میل کا پتہ لگانے کا ایک شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ کورونا کے دور کے باوجود بھی اس بار ہم نے اختراعی طریقے سے لوگوں کو یہ ورثہ ہفتہ مناتے دیکھا۔ بحران کے دور میں ثقافت بڑے کام آتی ہے۔ اس سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے توسط سے بھی ثقافت ایک جذباتی ریچارج کی طرح کام کرتی ہے۔ آج ملک میں کئی میوزیم اور لائبریریاں اپنے کلیکشن کو پوری طرح ڈیجیٹل بنانے پر کام کررہی ہیں۔ دہلی میں ہمارے قومی میوزیم نے اس سلسلے میں قابل ستائش کوششیں کی ہیں۔ قومی میوزیم کے ذریعے تقریباً 10 ورچوول گیلریوں کو متعارف کرانے کی سمت میں کام چل رہا ہے۔ ہے نا مزیدار! اب آپ گھر بیٹھے نیشنل میوزیم گیلریز کا ٹور کرپائیں گے، جہاں ایک جانب ثقافتی ورثے کو ٹیکنالوجی کے توسط سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اہم ہے وہیں ان ورثوں کے تحفظ کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی اہم ہے۔ حال ہی میں ایک دلچسپ پروجیکٹ کے بارے میں پڑھ رہا تھا، ناروے کے شمال میں سولباڈ نام کا ایک جزیرہ ہے ، اس جزیرے میں ایک پروجیکٹ آرکٹک ورلڈ آرکائیو بنایا گیا ہے۔ اس آرکائیو میں بیش قیمتی ہیریٹیج ڈاٹا کو اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے قدرتی یا انسانی پیدا کردہ مصیبتوں سے متاثر نہ ہوسکیں۔ ابھی حال ہی میں یہ بھی جانکاری آئی ہے کہ اجنتا گپھاؤں کے ورثے کو بھی ڈیجیٹائز کرکے اس پروجیکٹ میں محفوظ کیا جارہا ہے۔ اس میں اجنتا گپھاؤں کی پوری جھلک دیکھنے کو ملے گی۔ اس میں ڈیجیٹلائزڈ اور ریسٹورڈ پینٹنگ کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق دستاویز اور اقتباسات بھی شامل ہوں گے۔ ساتھیو،وبا نے ایک جانب جہاں ہمارے کام کرنے کے طور طریقوں کو بدلا ہے تو دوسری جانب فطرت کا نئے ڈھنگ سے تجربہ کرنے کا بھی موقع دیا ہے۔ فطرت کو دیکھنے کے ہمارے نظریے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب ہم سردیوں کے موسم میں قدم رکھ رہے ہیں، ہمیں فطرت کے الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ پچھلے کچھ دنوں سے انٹرنیٹ، چیری بلوزم کی وائرل تصویروں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے جب میں چیری بلوزم کی بات کررہا ہوں تو جاپان کے اس اہم شناخت کی بات کررہا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ جاپان کی تصویریں نہیں ہیں، یہ اپنے میگھالیہ کے شیلانگ کی تصویریں ہیں۔ میگھالیہ کی خوبصورتی کو ان چیری بلوزم نے اور بڑھادیا ہے۔
ساتھیو، اس مہینے 12 نومبر سے ڈاکٹر سلیم علی جی کی 125ویں سالگرہ کی تقریبات شروع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم نے چڑیوں کی دنیا میں برڈ واچنگ کو لیکر قابل ذکر کام کیا ہے۔ دنیا کے برڈ واچرس کو ہندوستان کے تئیں راغب بھی کیا ہے۔ میں ہمیشہ سے برڈ واچنگ کے شوقین لوگوں کا مداح رہا ہوں۔ بہت دلجمعی کے ساتھ وہ گھنٹوں تک صبح سے شام تک برڈ واچنگ کرسکتے ہیں۔ فطرت کے انوکھے نظاروں کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور اپنی معلومات کو ہم لوگوں تک بھی پہنچاتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی بہت سی برڈ واچنگ سوسائٹی سرگرم ہیں۔ آپ بھی ضرور اس موضوع کے ساتھ جڑیے۔ میری بھاگ دوڑ کی زندگی میں مجھے بھی پچھلے دنوں کیواڈیا میں چڑیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا بہت ہی یادگار موقع ملا۔ چڑیوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت آپ کو فطرت سے بھی جوڑے گااور ماحولیات کے لئے بھی تحریک دیگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان کا کلچر اور شاسترہمیشہ سے ہی پوری دنیا کیلئے توجہ کے مرکز رہے ہیں۔ کئی لوگ تو ان کی تلاش میں ہندوستان آئے اور ہمیشہ کیلئے یہیں کے ہوکر رہ گئے، تو کئی لوگ واپس اپنے ملک جاکر اس کلچر کے محافظ بن گئے۔ مجھے جونس میسیٹی کے کام کے بارے میں جاننے کا موقع ملا جنہیں وشوناتھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جونس برازیل میں لوگوں کو ویدانت اور گیتا سکھاتے ہیں، وہ وشوویدھانام کا ایک ادارہ چلاتے ہیں جو ریوڈی جنیروں سے ایک گھنٹے کی دوری پر پیٹرو پولیس کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ جونس نے میکنیکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد اسٹاک مارکٹ میں اپنی کمپنی میں کام کیا۔ بعد میں ان کا رجحان ہندوستانی ثقافت اور بالخصوص ویدانت کی طرف ہوگیا۔ اسٹاک سے لیکر کے اسپریچولٹی (روحانیت )تک حقیقت میں ان کا ایک طویل سفر ہے۔ جونس نے بھارت میں ویدانت درشن کا مطالعہ کیا اور چار سال تک وہ کوئمبٹور کے ارشا ودیا گروکولم میں رہے ہیں۔ جونس میں ایک اور خاصیت ہے وہ اپنے میسیج کو آگے پہنچانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے آن لائن پروگرام کرتے ہیں۔ وہ ہردن پوڈکاسٹ کرتے ہیں۔ پچھلے سات برسوں میں جونس نے ویدانت پر اپنے فری اوپن کورسیز کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلباء کو پڑھایا ہے۔ جونس نہ صرف ایک بڑا کام کررہے ہیں بلکہ اسے ایک ایسی زبان میں کررہے ہیں جسے سمجھنے والوں کی تعدا دبھی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں میں اس کو لیکر کافی دلچسپی ہے کہ کورونا اور کوارنٹائن کے اس وقت میں ویدانت کیسے مدد کرسکتا ہے۔ من کی بات کے توسط سے، میں جونس کی ان کی کوششوں کیلئے مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے مستقبل کی کوششوں کیلئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، اسی طرح ابھی ایک خبر پر آپ کا دھیان ضرور گیا ہوگا۔ نیوزیلینڈ میں وہاں کے نومنتخب ایم پی ڈاکٹر گورو شرما نے دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک سنسکرت زبان میں حلف لیا ہے۔ ایک ہندوستانی کے طور پر ہندوستانی ثقافت کی یہ ترویج واشاعت ہم سب کو فخر سے بھردیتی ہے۔ من کی بات کے توسط سے میں گورو شرما جی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم سبھی کی تمنا ہے، وہ نیوزیلینڈ کے لوگوں کی خدمت میں نئی حصولیابیاں حاصل کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کل 30 نومبر کو ہم شری گرونانک دیوجی کا 551واں پرکاش پرو منائیں گے۔ پوری دنیا میں گرونانک دیو جی کا اثر واضح طور سے دکھائی دیتا ہے۔
وینکوور سے ویلنگٹن تک، سنگاپور سے ساؤتھ افریقہ تک ان کے پیغامات ہر طرف سنائی دیتے ہیں۔ گروگرنتھ صاحب میں کہا گیا ہے-‘‘سیوک کو سیوا بن آئی’’، یعنی سیوک کا کام سیوا کرنا ہے، پچھلے کچھ برسوں میں کئی اہم پڑاؤ آئے اور ایک سیوک کے طور پر ہمیں بہت کچھ کرنے کا موقع ملا۔ گروصاحب نے ہماری سیوا لی۔ گرونانک دیو جی کی 550واں پرکاش پرو شری گروگوبند سنگھ جی کا 350واں پرکاش پرو اگلے برس شری گروتیغ بہادر جی کا 400واں پرکاش پرو بھی ہے، مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ گرو صاحب کی مجھ پر خصوصی مہربانی رہی جو انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنے کاموں میں بہت قریب سے جوڑا ہے۔
ساتھیو، کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ میں ایک گرودوارہ ہے، لکھپت گرودوارہ صاحب۔ شری گرونانک جی اپنے اداسی کے دوران لکھپت گرودوارہ صاحب میں رُکے تھے۔ 2001 کے زلزلے سے اس گرودوارہ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ یہ گرو صاحب کی مہربانی ہی تھی کہ میں اس کی بازیابی وتزئین کاری کو یقینی کرپایا۔ نہ صرف گرودوارہ کی مرمت کی گئی بلکہ اس کے فخر اور شان کو بھی پھر سے قائم کیا گیا۔ ہم سب کو گروصاحب کا بھرپور آشیرواد بھی ملا۔ لکھپت گرودوارہ کے تحفظ کی کوششوں کو 2004 میں یونیسیکو ایشیا پیسیفک ہیریٹیج ایوارڈ میں ایوارڈ آف ڈسٹنکشن دیا گیا۔ ایوارڈ دینے والی جیوری نے یہ پایا کہ مرمت کے دوران آرٹ اور آرکیٹیکچر سے جڑی باریکیوں کا خصوصی دھیان رکھا گیا۔ جیوری نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گرودوارہ کے تعمیر نو کے کام میں سکھ برادری کی نہ صرف سرگرم شراکت داری رہی بلکہ ان کی ہی رہنمائی میں یہ کام ہوا۔ لکھپت گرودوارہ جانے کا خوش نصیبی مجھے تب بھی ملی تھی جب میں وزیراعلیٰ بھی نہیں تھا۔ مجھے وہاں جاکر بے پناہ توانائی ملتی تھی، اس گرودوارے میں جاکر ہر کوئی خود کو خوش نصیب محسوس کرتا ہے۔ میں اس بات کیلئے بہت شکر گزار ہوں کہ گرو صاحب نے مجھ سے مسلسل خدمت لی ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ہی کرتاپور صاحب کوریڈور کا کھلنا بہت ہی تاریخی رہا۔ اس بات کو میں زندگی بھر اپنے دل میں محفوظ کرکے رکھوں گا۔ یہ ہم سبھی کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں شری دربار صاحب کی سیوا کرنے کا ایک اور موقع ملا۔ بیرون ملک رہنے والے ہمارے سکھ بھائی بہنوں کیلئے اب دربار صاحب کی سیوا کیلئے رقم بھیجنا اور آسان ہوگیا ہے۔ اس قدم سے دنیا بھر کی سنگت دربار صاحب کے اور قریب آگئی ہے۔
ساتھیو، یہ گروناک دیوجی ہی تھے جنہوں نے لنگر کی روایت شروع کی تھی اور آج ہم نے دیکھا کہ دنیا بھرمیں سکھ فرقہ نے کس طرح کورونا کے اس دور میں لوگوں کو کھانا کھلانے کی اپنی روایت کو جاری رکھا ہے۔ انسانیت کی خدمت کی یہ روایت ہم سبھی کیلئے مسلسل ترغیب دینے کاکام کرتی ہے۔ میری تمنا ہے ہم سبھی سیوک کی طرح کام کرتے رہیں، گرو صاحب مجھ سے اور ملک کے باشندوں سے اسی طرح خدمت لیتے رہیں۔ ایک بار پھر بھی گروناک جینتی پر میری بہت بہت نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے دنوں مجھے ملک بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ بات چیت کا ان کی تعلیمی سفر کے اہم پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے میں آئی آئی ٹی گوہاٹی، آئی آئی ٹی دہلی، گاندھی نگر کی دین دیال پٹرولیم یونیورسٹی، دہلی کی جے این یو، میسور یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے طلباء سے کنیکٹ ہوپایا۔ ملک کے نوجوانوں کے درمیان ہونا بیحد تروتازہ کرنے والا اور توانائی سے بھرنے والا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے کیمپس تو ایک طرح سے منی انڈیا کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان کیمپسوں میں ہندوستان کی کثرت کے درشن ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف وہاں نیو انڈیا کے لئے بڑے بڑے بدلاؤ کا جذبہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ کورونا سے پہلے کے دنوں میں جب میں روبرو کسی ادارے کے پروگرام میں جاتا تھا تو یہ گزارش بھی کرتا تھا کہ آس پاس کے اسکولوں سے غریب بچوں کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا جائے۔ وہ بچے اس پروگرام میں، میرے خصوصی مہمان بن کر آتے رہے ہیں۔ ایک چھوٹا سا بچہ اس پُررونق پروگرام میں کسی نوجوان کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ بنتے دیکھتا ہے، کسی کو میڈل لیتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس میں نئے سپنے جگتے ہیں، میں بھی کرسکتا ہوں، یہ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ عہد کے لئے تحریک ملتی ہے۔
ساتھیو، اس کے علاوہ ایک اور بات جاننے میں میری ہمیشہ دلچسپی رہتی ہے کہ اس ادارے کے ایلومنی کون ہے، اس ادارے کے اپنے ایلومنی سے ریگولر انگیجمنٹ کا انتظام ہے کیا؟ ان کا ایلومنی نیٹ ورک کتنا متحرک ہے۔
میرے نوجوان دوستو، آپ سب تک ہی کسی ادارے کے طالب علم ہوتے ہیں جب تک آپ وہاں پڑھائی کرتے ہیں، لیکن وہاں کے ایلومنی ، آپ زندگی بھر بنے رہتے ہیں۔ اسکول، کالج سے نکلنے کے بعد دو چیزیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں۔ ایک آپ کی تعلیم کا اثر، اور دوسرا آپ کا اپنے اسکول کالج سے لگاؤ۔ جب کبھی ایلومنی آپس میں بات کرتے ہیں تو اسکول کالج کی ان کی یادوں میں کتابوں اور پڑھائی سے زیادہ کیمپس میں گزارا گیا وقت اور دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے ہوتے ہیں، اور انہیں یادوں میں سے جنم لیتا ہے ایک جذبہ ادارے کیلئے کچھ کرنے کا۔ جہاں آپ کی شخصیت کا ارتقاء ہوا ہے، وہاں کی ترقی کیلئے آپ کچھ کریں ، اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔ میں نے کچھ ایسی کوششوں کے بارے میں پڑھا ہے، جہاں سابق طالب علموں نے اپنے پرانے اداروں کو بڑھ چڑھ کر کے دیا ہے۔ آج کل ایلومنی اس کو لیکر بہت سرگرم ہیں۔ آئی آئی ٹی کے فارغ التحصیل افراد نے اپنے اداروں کو کانفرنس سینٹر، مینجمنٹ سینٹر، انکیوبیشن سینٹر جیسے کئی الگ الگ انتظامات خود بناکر دیے ہیں۔ یہ ساری کوشش موجودہ طالب علموں کے لرننگ تجربے کو بہترکرتے ہیں۔ آئی آئی ٹی دہلی نے ایک عطیہ فنڈ کی شروعات کی ہے، جو کہ ایک شاندار تصور ہے۔ دنیا کی جانی مانی یونیورسٹی میں اس طرح کے عطیات قائم کرنے کا کلچر رہا ہے، جو طلبا کی مدد کرتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی یونیورسٹیاں بھی اس کلچر کو ادارہ جاتی بنانے میں اہل ہیں۔
جب کچھ لوٹانے کی بات ہوتی ہے تو کچھ بھی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی مدد بھی معنی رکھتی ہے۔ ہر کوشش اہم ہوتی ہے۔ اکثر سابق طلباء اپنے اداروں کے ٹیکنالوجی کی جدیدکاری میں، عمارتوں کی تعمیر میں، ایوارڈس اور اسکالر شپ شروع کرنے میں، ہنرمندی کے فروغ کے پروگرام شروع کرنے میں، بہ تاہم کردار نبھاتے ہیں۔ کچھ اسکولوں کی اولڈ اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن نے مینٹرشپ پروگرامشروع کئے ہیں۔ اس میں وہ الگ الگ بیچ کے طلباء کو گائیڈ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تعلیمی پہلوؤں پر چرچا کرتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں خاص طور سے رہائشی اسکولوں کی ایلومنی ایسوسی ایشن بہت مضبوط ہے، جو اسپورٹس ٹورنامنٹ اور کمیونیٹی سروس جیسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ میں سابق طلباء سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے جن اداروں میں پڑھائی کی ہے وہاں سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کرتے رہیں۔ چاہے وہ اسکول ہو، کالج ہو یا یونیورسٹی۔ میرا اداروں سے بھی گزارش ہے کہ ایلومنی انگیجمنٹ کے نئے اور اختراعی طریقوں پر کام کریں۔ کریٹیو پلیٹ فارم ڈیولپ کریں تاکہ ایلومنی کی فعال شراکت داری ہوسکے۔ بڑے کالج اور یونیورسٹیز ہی نہیں، ہمارے گاؤں کے اسکول کا بھی اسٹرانگ وائبرینٹ ایکٹیو ایلومنی نیٹ ورک ہو۔
میرے پیارے ہم وطنو، 5دسمبر کو شری اربندو کی برسی ہے۔ شری اربندو کو ہم جتنا پڑھتے ہیں، اتنی ہی گہرائی ہمیں ملتی جاتی ہے۔ میرے نوجوان ساتھی شری اربندو کو جتنا جانیں گے، اتنا ہی اپنے آپ کو جانیں گے، خود کو مضبوط کریں گے۔ زندگی کے جس دور میں آپ ہیں، جن عہدوں کو حقیقت بنانے کے لئے آپ کوشش کررہے ہیں،ان کے درمیان آپ ہمیشہ سے ہی شری اربندو کو ایک نئی تحریک دیتے پائیں گے، ایک نیا راستہ دکھاتے ہوئے پائیں گے۔ جیسے، آج، جب ہم ‘لوکل کے لئے ووکل’ اس ابھیان کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو شری اربندو کا سودیشی کا درشن ہمیں راہ دکھاتا ہے۔ بنگلہ میں ایک بڑی ہی مؤثر نظم ہے۔
‘چھوئی شوتو پائے۔ مانتو آشے تُنگ ہوتے۔
دیا۔شلائی کاٹھی، تاؤ آسے پوتے۔۔
پرو۔ دپیتی جالتے کھوتے، شوتے، جوتے۔
کچھوتے لوک نائے شادھین۔۔
یعنی ہمارے یہاں سوئی اور دیا سلائی تک ولایتی جہاز سے آتے ہیں۔ کھانے۔ پینے ، سونے، کسی بھی بات میں، لوگ آزاد نہیں ہیں۔
وہ کہتے بھی تھے سودیشی کا مطلب ہے کہ ہم، اپنے ہندوستانی مزدوروں، کاریگروں کی بنائی ہوئی چیزوں کو ترجیح دیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شری اربندو نے غیرملکوں سے کچھ سیکھنے کا بھی کبھی مخالفت کی ہو۔ جہاں جو نیا ہے وہاں سے ہم سیکھیں۔ جو ہمارے ملک میں اچھا ہوسکتا ہے اس کا ہم تعاون اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہی تو آتم نربھر بھارت ابھیان میں ‘‘ووکل فار لوکل’’منتر کی بھی بھاؤنا ہے۔ خاص کر سودیشی اپنانے کو لیکر انہوں نے جو کچھ کہا وہ آج ہر ملک کے شہری کو پڑھناچاہئے۔ ساتھیو، اسی طرح تعلیم کو لیکر بھی شری اربندو کے خیالات بہت واضح تھے۔ وہ تعلیم کو صرف کتابی معلومات، ڈگری اور نوکری تک ہی محدود نہیں مانتے تھے۔ جناب اروبندو کہتے تھے ہماری قومی تعلیم ہماری نوجوان نسل کے دل اور دماغ کی تربیت ہونی چاہئے۔ یعنی ذہن کی سائنٹفک ترقی ہو اور دل میں ہندوستانی جذبات بھی ہوں، تب ہی ایک نوجوان ملک کا ایک بہتر شہری بن پاتا ہے۔ شری اربندو نے قومی تعلیم کو لیکر جو بات تب کہی تھی ، جو امید کی تھی آج ملک اسے نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے پورا کررہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان میں کھیتی اور اس سے جڑی چیزوں کے ساتھ نئی جہتیں جڑی رہی ہیں۔ پچھلے دنوں ہوئے زرعی اصلاحات میں کسانوں کے لئے نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے ہیں۔ برسوں سے کسانوں کی جو مانگ تھی، جن مانگوں کو پورا کرنے کیلئے کسی نہ کسی وقت میں ہر سیاسی پارٹی نے ان سے وعدہ کیا تھا، وہ مانگیں پوری ہوئی ہیں۔ کافی غور وخوض کے بعد ہندوستان کے پارلیمنٹ نے زرعی اصلاحات کو قانونی شکل دیا۔ ان اصلاحات سے نہ صرف کسانوں کو متعدد بندھن ختم ہوئے ہیں، بلکہ انہیں نئے حقوق بھی ملے ہیں، نئے مواقع بھی ملے ہیں۔ ان حقوق نے بہت ہی کم وقت میں، کسانوں کی پریشانیوں کو کم کرنا شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹر کے دھولے ضلع کے کسان، جتیندر بھوئی جی نے، نئے زرعی قوانین کا استعمال کیسے کیا وہ آپ کو بھی جاننا چاہئے۔ جتیندر بھوئی جی نے مکے کی کھیتی کی تھی اور صحیح داموں کیلئے اسے کاروباریوں کو بیچنا طے کیا۔ فصل کی کُل قیمت طے ہوئی قریب تین لاکھ بتیس ہزار روپئے۔ جتیندر بھوئی کو پچیس ہزار روپئے پیشگی بھی مل گئے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ باقی کا پیسہ انہیں پندرہ دن میں چکا دیا جائیگا۔ لیکن بعد میں حالات ایسے بنے کہ انہیں باقی کا پیمنٹ نہیں ملا۔ کسان سے فصل خرید لو، مہینوں- مہینوں پیمنٹ نہ کرو، ممکنہ طور پر مکاّ خریدنے والے برسوں سے چلی آرہی اسی روایت کو نبھا رہے تھے۔ اسی طرح چار مہینے تک جتیندر جی کا پیمنٹ نہیں ہوا۔ اس صورتحال میں ان کی مدد کی ستمبر میں جو پاس ہوئے ہیں، جو نئے زرعی قوانین بنے ہیں، وہ ان کے کام آئے۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا ہے کہ فصل خریدنے کے تین دن میں ہی، کسان کو پورا پیمنٹ کرنا پڑتا ہے اور اگر پیمنٹ نہیں ہوتا ہے، تو کسان شکایت درج کرسکتا ہے۔ قانون میں ایک اور بہت بڑی بات ہے، اس قانون میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ علاقے کے ایس ڈی ایم کو ایک مہینے کے اندر ہی کسان کی شکایت کا نپٹارہ کرنا ہوگا۔ اب، جب، ایسے قانون کی طاقت ہمارے کسان بھائی کے پاس تھی، تو ان کے مسئلے کا حل تو ہونا ہی تھا، انہوں نے شکایت کی اور چند ہی دن میں ان کا بقایہ چکا دیا گیا۔ یعنی کہ قانون کی صحیح اور پوری جانکاری ہی جتیندر جی کی طاقت بنی۔ علاقہ کوئی بھی ہو، ہر طرح کی افواہوں سے دور، صحیح جانکاری ہر شخص کیلئے بہت بڑاسمبل ہوتی ہے۔ کسانوں میں بیداری بڑھانے کا ایسا ہی ایک کام کررہے ہیں، راجستھان کے باراں ضلع میں رہنے والے محمد اسلم جی۔ یہ ایک کسان پروڈیوسر تنظیم کے سی ای او بھی ہیں۔ جی ہاں، آپ نے صحیح سنا۔ کسان پروڈیوسر تنظیم کے سی ای او ۔ امید ہے، بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوکو یہ سن کر اچھا لگے گا کہ اب ملک کے دور دراز والے علاقوں میں کام کررہے کسان تنظیموں میں بھی سی ای او ہونے لگے ہیں۔ تو ساتھیو، محمد اسلم جی نے اپنے علاقے کے متعدد کسانوں کو ملاکر ایک وہاٹس ایپ گروپ بنالیا ہے۔ اس گروپ پر وہ ہر روز، آس پاس کی منڈیوں میں کیا قیمت چل رہی ہے، اس کی جانکاری کسانوں کو دیتے ہیں۔ خود ان کا ایف پی او بھی کسانوں سے فصل خریدتا ہے، اس لئے ، ان کی اس کوشش سے کسانوں کو فیصلہ لینے میں مدد ملتی ہے۔
ساتھیو، بیداری ہے تو زندگی ہے۔ اپنی بیداری سے ہزاروں لوگوں کی زندگی متاثر کرنے والے ایک زرعی صنعتکار جناب ویریندر یادو جی ہیں۔ ویریندر یادو جی، کبھی آسٹریلیا میں رہا کرتے تھے۔ دو سال پہلے ہی وہ ہندوستان آئے اور اب ہریانہ کے کیتھل میں رہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح ہی، کھیتی میں پرالی ان کے سامنے بھی ایک بڑا ایشو تھا۔ اس کے حل کے لئے بہت وسیع سطح پر کام ہورہا ہے، لیکن، آج، من کی بات میں، میں ویریندر جی کو خصوصی طور پر ذکر اس لئے کررہا ہوں، کیوں کہ ان کی کوشش الگ ہے، ایک نئی راہ دکھاتی ہے۔ پرالی کا حل کرنے کیلئے ویریندر جی نے پوال کی گانٹھ بنانے والی اسٹرابیلر مشین خریدی۔ اس کے لئے انہیں محکمہ زراعت سے مالی مدد بھی ملی۔ اس مشین سے انہوں نے پرالی کے گٹھے بنانا شروع کردیا۔ گٹھے بنانے کے بعد انہوں نے پرالی کو ایگروانرجی پلانٹ اور پیپر مل کو بیچ دیا۔ آپ جانکر حیران رہ جائیں گے کہ ویریندر جی نے پرالی سے صرف دو برس میں ڈیڑھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے اور اس میں بھی لگ بھگ 50 لاکھ روپئے منافع کمایا ہے۔ اس کا فائدہ ان کسانوں کو بھی ہورہا ہے جن کے کھیتوں سے ویریندر جی پرالی اٹھاتے ہیں۔ ہم نے کچرے سے کنچن کی بات تو بہت سنی ہے، لیکن،پرالی کا نپٹارہ کرکے پیسہ اور ثواب کمانے کی یہ انوکھی مثال ہے۔ میرا نوجوانوں، خاص کر زراعت کی پڑھائی کررہے طلباء سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے گاؤں میں جاکر کسانوں کو جدید ترین زراعت کے بارے میں، حال میں ہوئے زرعی اصلاحات کے بارے میں بیدار کریں۔ ایسا کرکے آپ ملک میں ہورہے بڑے بدلاؤ کے معاون بنیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
‘من کی بات’ میں ہم الگ الگ، طرح طرح کے متعدد موضوعات پربات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی بات کو بھی ایک سال ہورہا ہے، جس کو ہم کبھی خوشی سے یاد نہیں کرنا چاہیں گے۔ قریب قریب ایک سال ہورہے ہیں، جب دنیا کو کورونا کے پہلے کیس کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ تب سے لیکر اب تک، پوری دنیا نے متعدد اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دور سے باہر نکل کر، اب، ویکسین پر بحث ہونے لگی ہے۔ لیکن کورونا کو لیکر کسی بھی طرح کی لاپرواہی اب بھی بہت نقصاندہ ہے۔ ہمیں، کورونا کے خلاف اپنی لڑائی کو مضبوطی سے جاری رکھنا ہے۔
ساتھیو، کچھ دنوں بعد ہی، 6دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی بھی ہے۔ یہ دن بابا صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہی ملک کے تئیں اپنے عہدوں، آئین نے ایک شہری کے طور پر اپنے فرض کو نبھانے کی جو سیکھ ہمیں دی ہے، اسے دوہرانے کا ہے۔ ملک کے بڑے حصے میں سردی کا موسم بھی زور پکڑ رہا ہے۔ متعدد جگہوں پر برف باری ہورہی ہے۔ اس موسم میں ہمیں خاندان کے بچوں اور بزرگوں کا، بیمار لوگوں کا خاص دھیان رکھنا ہے، خود بھی احتیاط برتنی ہے، مجھے خوشی ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے آس پاس کے ضرورتمندوں کی بھی فکر کرتے ہیں۔ گرم کپڑے دیکر ان کی مدد کرتے ہیں۔ بے سہارا جانوروں کیلئے بھی سردیاں بہت مشکلات لیکر آتی ہیں۔ ان کی مدد کیلئے بھی بہت لوگ آگے آتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اس طرح کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ ساتھیو، اگلی بار جب ہم ‘من کی بات’ میں ملیں گے تو 2020 کا یہ برس اختتام کی جانب ہوگا۔ نئی امیدوں، نئے اعتماد کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے۔ اب، جو بھی تجاویز ہوں، افنکار ونظریات ہوں، انہیں مجھ تک ضرور ساجھا کرتے رہیے۔ آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ آپ سب صحتمند رہیں، ملک کے لئے سرگرم رہیں۔ بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج وجے دشمی یعنی دشہرے کا تہوار ہے۔ اس مبارک موقع پر آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ دشہرہ کا یہ تہوار جھوٹ پر سچائی کی جیت کا تہوار ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک طرح سے مشکلات پڑنے پر صبر کی جیت کا تہوار بھی ہے۔ آج آپ سبھی بہت تحمل کے ساتھ جی رہے ہیں۔ مریادہ میں رہ کر تہوار منارہےہیں اس لئے جو لڑائی ہم لڑ رہے ہیں، اس میں جیت بھی یقینی ہے۔ پہلے درگا پنڈال میں، ماں کے درشنوں کے لئے اتنی بھیڑ جمع ہوجاتی تھی۔ ایکدم، میلے جیسا ماحول رہتا تھا، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوپایا۔ پہلے دشہرے پر بھی بڑے بڑے میلے لگتے تھے۔ لیکن اس بار ان کی شکل بھی مختلف ہے۔ رام لیلا کا تہوار بھی، اس کی بڑی کشش تھی۔ لیکن اس میں بھی کچھ نہ کچھ پابندیاں لگی ہیں۔پہلے نو راتر پر، گجرات کے گربا کی گونج ہر طرف چھائی رہتی تھی، اس بار بڑے بڑے پروگرام سب بند ہیں۔ ابھی آگے اور بھی کئی تہوار آنے والے ہیں۔ابھی عید ہے، شرد پورنیما ہے، والمیکی جینتی ہے، پھر دھن تیرس ، دیوالی، بھائی دوج، چھٹی میا کی پوجا ہے،گورو نانک دیو جی کی جینتی ہے۔ کورونا کے اس مصیبت کے دور میں ہمیں صبر و تحمل سے ہی کام لینا ہے،مریادہ میں ہی رہنا ہے۔
ساتھیو، جب ہم تہوار کی بات کرتے ہیں، تیاری کرتے ہیں، تو سب سے پہلے من میں یہی آتا ہے کہ بازار کب جانا ہے؟ کیا کیا خریداری کرنی ہے؟خاص طور پر بچوں میں تو اس کے لئے خصوصی جوش ہوتا ہے۔ اس بار تہوار پر نیا کیا ملنے والا ہے؟ تہواروں کی یہ امنگ اور بازار کی چمک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے لیکن اس بار جب آپ خریداری کرنے جائیں تو ’ووکل فار لوکل‘ کا اپنا عزم ضرور یاد رکھیں۔ بازار سے سامان خریدتے وقت ہمیں مقامی مصنوعات اولیت دینی ہے۔
ساتھیو، تہواروں کی اس خوشی اور امنگ کے درمیان میں لاک ڈاؤن کے وقت کو بھی یاد کرنا چاہیے۔ لاک ڈاؤن میں ہم نے معاشرے کے ان ساتھیوں کو اور قریب سے جانا ہے، جن کے بغیر ہماری زندگی بہت ہی مشکل ہوجاتی۔ صفائی ملازمین، گھر میں کام کرنے والے بھائی بہن ، مقامی سبزی والے، دودھ والے، سکیورٹی گارڈ، ان سب کا ہماری زندگی میں کیا رول ہے، ہم نے اب اچھی طرح محسوس کیا ہے۔ مشکل وقت میں یہ آپ کے ساتھ تھے، ہم سب کے ساتھ تھے۔ اب اپنے تہواروں میں، اپنی خوشیوں میں بھی، ہمیں ان کو ساتھ رکھنا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، انہیں اپنی خوشیوں میں شامل ضرور کیجئے۔ خاندان کے رکن کی طرح شامل کیجئے، پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی خوشیوں میں کتنا زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
ساتھیو، ہمیں اپنے ان جانباز فوجیوں کو بھی یاد رکھنا ہے، جو ان تہواروں میں بھی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت ماتا کی خدمت اور حفاظت کررہے ہیں۔ ہمیں ان کو یاد کرکے ہی اپنے تہوار منانے ہیں۔ ہمیں گھر میں ایک دیا، بھارت ماتا کے ان بہادر بیٹے بیٹیوں کے اعزاز میں بھی جلانا ہے۔میں، اپنے ان بہادر جوانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بھلے ہی سرحد پر ہیں، لیکن پورا ملک آپ کے ساتھ ہے، آپ کے لئے نیک خواہشات رکھتاہے۔ میں ان خاندانوں کے ایثار کو بھی سلام کرتا ہوں، جن کے بیٹے بیٹیاں آج سرحد پر ہیں۔ ہر وہ شخص جو ملک سے متعلق کسی نہ کسی ذمہ داری کی وجہ سے اپنے گھر پر نہیں ہے، اپنے خاندان سے دور ہے۔ میں دل سے اس کے لئے ممنوعیت کا اظہار کرتاہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم لوکل کے لئے ووکل ہو رہے ہیں تو دنیا بھی ہمارے لوکل پروڈکٹس کی فین ہور ہی ہے۔ہمارے کئی لوکل پروڈکٹس میں گلوبل ہونے کی بہت بڑی طاقت ہے۔ جیسے ایک مثال ہے کھادی کی۔ طویل وقت تک کھادی سادگی کی پہچان رہی ہے، لیکن ہماری کھادی آج ایکو فرینڈلی فیبرک کے طور پر جانی جارہی ہے۔ صحت کے نظریہ سے یہ باڈی فرینڈلی فیبرک ہے، آل ویدر فیبرک ہے اور آج کھادی فیشن اسٹیٹمنٹ تو بن ہی رہی ہے۔ کھادی کی مقبولیت میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے، ساتھ ہی دنیا میں کئی جگہ، کھادی بنائی بھی جارہی ہے۔ میکسکو میں ایک جگہ ہے ’اوہاکا‘۔ اس علاقے میں کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں مقامی دیہاتی افراد کھادی بننے کا کام کرتے ہیں۔ آج یہاں کی کھادی ’اوہاکا کھادی‘ کےنام سے مشہور ہوچکی ہے۔ اوہاکا میں کھادی کیسے پہنچی، یہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ دراصل، میکسکو کے ایک نوجوان مارک براؤن نے ایک بار مہاتما گاندھی پر ایک فلم دیکھی۔ براؤن یہ فلم دیکھ کر باپو سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ بھارت میں باپو کے آشرم آئے اور باپو کے بارے میں زیادہ گہرائی سے سمجھا۔ تب براؤن کو احساس ہوا کہ کھادی صرف ایک کپڑا ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پورا طریقہ زندگی ہے۔ اس سے کس طرح سے دیہی معیشت اور خود کفیلی کا فلسفہ جڑ اہے براؤن اس سے بہت متاثر ہوئے۔ یہاں سے براؤن نے عہد کیا کہ وہ میکسکو میں جاکر کھادی کا کام شروع کریں گے۔ انہوں نے میکسکو کے اوہاکا میں گاؤں والوں کو کھادی کا کام سکھایا، انہیں تربیت دی اور آج ’اوہاکا کھادی‘ ایک برانڈ بن گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے ’دی سیمبل آف دھرما ان موشن‘۔ اس ویب سائٹ میں مارک براؤن کا بہت ہی دلچسپ انٹرویو بھی ملے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شروع میں لوگ کھادی کے تعلق سے شبے میں تھے، لیکن آخرکار اس میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی اور اس کا بازار تیار ہوگیا۔ یہ کہتے ہیں، یہ رام راجیہ سے جڑی باتیں ہیں جب آپ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں تو پھر لوگ بھی آپ سے جڑنے چلے آتے ہیں۔
ساتھیو، دلی کے کناٹ پلیس کے کھادی اسٹور میں اس بار گاندھی جینتی پر ایک ہی دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی خریداری ہوئی۔ اسی طرح کورونا کے دور میں کھادی کے ماسک بھی بہت مقبول ہورہے ہیں۔ ملک بھر میں کئی جگہ سیلف ہیلپ گروپ اور دوسرے ادارے کھادی کے ماسک بنا رہے ہیں۔ یو پی میں بارا بنکی میں ایک خاتون ہیں۔ سمن دیوی جی۔ سمن جی نے سیلف ہیپ گروپ کی اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ مل کر کھادی ماسک بنانا شروع کئے۔ آہستہ آہستہ ان کے ساتھ دیگر خواتین بھی جڑتی گئیں، اب وہ سبھی مل کر ہزاروں کھادی ماسک بنارہی ہیں۔ ہمارے لوکل پروڈکٹس کی خوبی ہے کہ ان کے ساتھ اکثر ایک پورا فلسفہ جڑ ا ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہمیں اپنی چیزوں پر فخر ہوتا ہے تو دنیا میں بھی ان کے بارے میں کے تجسس بڑھتا ۔ جیسے ہماری روحانیت نے،یوگ نے، آیوروید نے، پوری دنیا کو راغب کیا ہے۔ ہمارے کئی کھیل بھی دنیا کو راغبب کررہے ہیں۔ آج کل ہمارا ملکھمب بھی کئی ملکوں میں مقبول ہورہا ہے۔ امریکہ میں چنمے پاٹنکر اور پرگیا پاٹنکر نے جب اپنے گھر سے ہی ملکھمب سکھانا شروع کیا تھا تو انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسے اتنی کامیابی ملے گی۔ امریکہ میں آج کئی مقامات پر ملکھمب تربیتی مراکز چل رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں امریکہ کے نوجوان اس سے جڑ رہے ہیں، ملکھمب سیکھ رہے ہیں۔ آج جرمنی ہو، پولینڈ ہو، ملیشیا ہو، ایسے تقریباً 20 دیگر ممالک میں بھی ملکھمب خوب مقبول ہورہا ہے۔ اب تو اس کی عالمی چمپئن شپ شروع کی گئی ہے، جس میں کئی ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ بھارت میں تو دور قدیم سے کئی ایسے کھیل رہے ہیں جو ہمیں غیر معمولی طور پر فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہمارے ذہن، باڈی بیلنس کو ایک نئی جہت پر لے جاتے ہیں۔ لیکن ممکنہ طور پر نئی نسل کے ہمارے نوجوان ساتھ، ملکھمب سے اتنا واقف نہ ہوں ۔ آپ اسے انٹرنیٹ پر ضرور سرچ کیجئے اور دیکھئے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں کتنے ہی مارشل آرٹ ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ساتھی ان کے بارے میں بھی جانیں، انہیں سیکھیں اور وقت کے لحاظ سے اختراع بھی کریں۔
جب زندگی میں بڑے چیلنجز نہیں ہوتے ہیں تو شخصیت کا بہترین عنصر بھی باہر نکل کر نہیں آتاہے۔ اس لئے خود کو ہمیشہ چیلنج کرتے رہئے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کہا جاتا ہے کہ ’لرننگ از گروئنگ‘۔ آج ’من کی بات‘ میں، میں آپ کا تعارف ایک ایسے شخص سے کراؤں گا جس میں ایک منفرد جنون ہے۔ یہ جنون ہے دوسروں کے ساتھ مطالعہ کرنے اور سیکھینے کی خوشیوں کو باٹنے کا۔ یہ ہیں پون مریپّن، پون مریپّن تمل ناڈو کے تُتکڑی میں رہتے ہیں۔ تتکڑی کو پرل سٹی یعنی موتیوں کے شہر کے طورپر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کبھی پانڈین سامراج کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں رہنے والے میرے دوست پون مریپن ہیئر کٹنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں اور ایک سیلون چلاتے ہیں۔ بہت چھوٹا سا سیلون ہے۔ انہوں نے ایک منفرد اور تحریک دینے والا کام کیا ہے۔ اپنے سیلون کے ایک حصے کو ہی لائبریری بنا دیا ہے۔ اگر کوئی شخص سیلون میں اپنی باری کا انتظار کرنے کے دوران وہاں کچھ پڑھتا ہے اور جو پڑھا ہے اس کے بارے میں کچھ لکھتا ہے تو پون مریپن جی اس گاہک کو ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ ہے نہ مزے دار!
آیئے تتکڑی چلتے ہیں۔ پون مریپّن جی سے بات کرتے ہیں۔
وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم… نلّہ اِر کنگڈا؟
(وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم ۔ آپ کیسے ہیں؟)
پون مریپّن: …(تمل میں جواب)
(پون مریپّن: عزت مآب وزیراعظم جی، ونکّم (نمسکار)۔)
وزیراعظم: ونکّم ، ونکّم… انگلکّے اند لائبریری آئیڈیا یّڑی ونددا
(وزیراعظم: ونکّم، ونکّم ۔ آپ کو یہ لائبریری کا جو آئیڈیا ہے، یہ کیسے آیا؟)
پون مریپّن: … (تمل میں جواب)…
(پون مریپّن کے جواب کا ترجمہ: میں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس سے آگے میرےخاندان کے حالات کی وجہ سے میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ جب میں پڑھے لوگوں کو یکھتا ہوں، تب میرے دل میں ایک کمی محسوس ہورہی تھی۔ اس لئے میرے من میں آیا کہ ہم کیوں نہ ایک لائبریری قائم کریں اور اس سے بہت سے لوگوں کو یہ فائدہ ہوگا ، یہی میرے لئے ایک تحریک بنی۔
وزیراعظم: انگلکے یند پُتہم پڈکّم؟
(وزیراعظم: آپ کو کون سی کتاب بہت پسند ہے؟)
پون مریپّن: (تمل میں جواب)
(پون مریپّن: مجھے ’تروکورول بہت پسند ہے)
وزیراعظم: اَنگ کٹّ پیسئے دل ینکّ۔ رومبا مگلچی۔ نل واڑ تکّل
(وزیراعظم: آپ سے بات کرکے مجھے خوشی ہوئی۔ آپ کا بہت بہت نیک خواہشات)
پون مریپّن: …. (تمل میں جواب)
(پون مریپّن: میں بھی عزت مآب وزیراعظم جی سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہا ہوں)
وزیراعظم: نل واڑ تکّل
(وزیراعظم: بہت ساری نیک خواہشات)
پون مریپّن: (تمل میں جواب)…..
(پون مریپّن: شکریہ وزیراعظم جی)
وزیراعظم: شکریہ۔
ہم نے ابھی پون مریپّن جی سے بات کی۔ دیکھئے، کیسے وہ لوگوں کے بالوں کو تو سنوارتے ہی ہیں، انہیں اپنی زندگی سنوارنے کا بھی موقع دیتے ہیں۔ تھروکورل کی مقبولیت کے بارے میں سن کر بہت اچھا لگا۔ تھروکورل کی مقبولیت کے بارے میں آپ سب نے بھی سنا۔ آج بھارت کی سبھی زبانوں میں تھروکورل دستیاب ہے۔اگر موقع ملے تو ضرور پڑھنا چاہیے۔ زندگی کے لئے وہ ایک طرح سے رہنمائی کرنے والی ہے۔
ساتھیو، لیکن آپ کو یہ جان کر خوش ہوگی کہ پورے بھارت میں متعدد لوگ ہیں جنہیں علم کی ترسیل سے بہت خوشی ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار رہتے ہیں کہ ہر کوئی پڑھنے کے لئے تحریک حاصل کرے۔ مدھیہ پردیش کے سنگرولی کی ٹیچر، اوشا دوبے جی نے تو اسکوٹی کو ہی موبائل لائبریری میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ ہر روز اپنی چلتی پھرتی لائبریری کے ساتھ کسی نہ کسی گاؤں میں پہنچ جاتی ہیں اور وہاں بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ بچے انہیں پیار سے کتابوں والی دیدی کہہ کر بلاتےہیں۔ اس سال اگست میں اروناچل پردیش کے نرجولی کے رایو گاؤں میں ایک سیلف ہیلپ لائبریری بنائی گئی ہے۔ دراصل یہاں کی مینا گورنگ اور دیوانگ ہوسائی کو جب پتہ چلا کہ قصبے میں کوئی لائبریری نہیں ہے تو انہوں نے اس کی فنڈنگ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس لائبریری کے لئے کوئی ممبر شپ نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص دو ہفتے کے لئے کتاب لے جاسکتا ہے۔ پڑھنے کے بعد اسے واپس کرنا ہوتا ہے۔ یہ لائبریری ساتوں دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ پاس پڑوس کے سرپرست یہ دیکھ کر کافی خوش ہیں کہ ان کے بچے کتاب پڑھنے میں مصروف ہیں۔ خاص طور سے اس وقت جب اسکولوں نے بھی آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں۔ وہیں چنڈی گڑھ میں ایک این جی او چلانے والے سندیپ کمار جی نے ایک منی وین میں موبائل لائبریری بنائی ہے، اس کے ذریعہ غریب بچوں کو پڑھنے کے لئے مفت میں کتابیں دی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گجرات کے بھاؤ نگر کے بھی دو اداروں کے بارے میں جانتا ہوں جو بہترین کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے ’وکاس ورتل ٹرسٹ‘۔ یہ ادارہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبا کے لئے بہت مددگار ہے۔ یہ ٹرسٹ 1975 سے کام کررہا ہے اور یہ 5000 کتابوں کے ساتھ 140 سے زیادہ رسالے دستیاب کراتا ہے۔ ایسا ایک ادارہ ’پستک پرب‘ ہے۔ یہ اختراعی پروجیکٹ ہے جو ادبی کتابوں کے ساتھ ہی دوسری کتابیں مفت فراہم کراتا ہے۔ اس لائبریری میں روحانیت، آیورویدک طریقہ علاج اور کئی دیگر موضوعات سے متعلق کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر آپ کو اس طرح کی اور کوششوں کے بارے میں کچھ پتہ ہے تو میرا اصرار ہے کہ آپ اسے سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔ یہ مثال کتابیں پڑھنے یا لائبریری کھولنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ اس نئے بھارت کے جذبے کی بھی علامت ہے جس میں سماج کی ترقی کے لئے ہر علاقے اور ہر طبقے کے لوگ نئے نئے اور اختراعی طریقے اختیار کررہے ہیں۔ گیتا میں کہا گیا ہے :
نہ ہی گیانین سدرشم پوتر مہ ودیاتے
یعنی ، علم کی طرح دنیا میں کچھ بھی مقدس نہیں ہے۔ میں علم کی ترسیل کرنے والے ایسی نیک کوششیں کرنے والے سبھی لوگوں کو دل سے سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ ہی دنوں بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کا یوم پیدائش 31 اکتوبر کو ہم سب ’قومی یکجہتی کے دن‘ کے طور پر منائیں گے۔ ’من کی بات‘ میں پہلے بھی ہم نے سردار پٹیل پر تفصیل سے بات کی ہے۔ ہم نے ان کی عظیم شخصیت کی کئی جہتوں کا ذکر کیا ہے۔ بہت کم لوگ ملیں گے جن کی شخصیت میں ایک ساتھ کئی عناصر موجود ہوں۔ نظریاتی گہرائی ، اخلاقی جرأت، سیاسی انفرادیت، زرعی شعبے کا گہرا علم اور قومی یکجہتی کے بارے میں اپنے آپ کو وقف کرنے کا جذبہ ۔ کیا آپ سردار پٹیل کے بارے میں ایک بات جانتے ہیں جو ان کے سینس آف ہیومر کو ظاہر کرتی ہے۔ ذرا اس مرد آہن کی شبیہ کا تصور کیجئے جو راجے رجواڑوں سے بات کررہے تھے، پوجیہ باپو، کی عوامی تحریک کا انتظام کررہے تھے، ساتھ ہی انگریزوں سے لڑائی بھی لڑ رہے تھے اور ان سب کے درمیان بھی ان کا سینس آف ہیومر پورے رنگ میں ہوتا تھا۔ باپو نے سردار پٹیل کے بارے میں کہا تھا ۔ ان کی پر مزہ باتیں مجھے اتنا ہنساتی تھیں کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ ایسا دن میں ایک بار نہیں کئی کئی بار ہوتا تھا۔ اس میں ہمارےلئے بھی ایک سبق ہے۔ حالات کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں، اپنے سینس آف ہیومر کو زندہ رکھئے، یہ ہمیں معمول پر تو رکھے گا ہی ہم اپنے مسائل کا حل بھی نکال پائیں گے۔ سردار صاحب نے یہی تو کیا تھا!
میرے پیارے ہم وطنو، سردار پٹیل نے اپنی پوری زندگی ملک کے اتحاد کے لئے وقف کردی۔ انہوں نے بھارتی عوام کے ذہن کو تحریک آزادی سے جوڑا۔ انہوں نے آزادی کے ساتھ کسانوں کے معاملات کو جوڑنے کا کام کیا۔ انہوں نے راجے رجواڑوں کو ہماری قوم کے ساتھ ملانے کا کام کیا۔وہ تنوع میں اتحاد کے منتر کو ہر بھارتی کے ذہن میں جگا رہے تھے۔
ساتھیو، آج ہمیں اپنی زبان ، اپنے رویہ، اپنے کام سے ہر لمحہ ان سب چیزوں کو آگے بڑھانا ہے جو ہمیں ’متحد‘ کرے ، جو ملک کے ایک حصے میں رہنے والے شہریوں کے ذہن میں دوسرے کونے میں رہنے والے شہریوں کے لئے خلوص اور اپنے پن کا جذبہ پیدا کرسکے۔ ہمارے اباؤ اجداد نے صدیوں سے مسلسل یہ کوششیں کی ہیں۔ اب دیکھئے، کیرلا میں پیدا ہوئے پوچیہ آدی شنکر چاریہ جی نے بھارت کی چاروں سمتوں میں چار اہم مٹھ قائم کئے۔ شمال میں بدری کاشرم، مشرق میں پوری، جنوب میں شرنگیری اور مغرب میں دوارکا۔ انہوں نے سری نگر کا سفر بھی کیا، یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک ’شنکراچاریہ ہل‘ ہےتیرٹھاٹن اپنے آپ میں بھارت کو ایک دھاگے میں پروتا ہے۔ جیوتر لنگوں اور شکتی پیٹھوں کا سلسلہ بھارت کو ایک دھاگے میں باندھتا ہے۔ تریپورہ سے لیکر گجرات تک جموں کشمیر سے لیکر تمل ناڈو تک قائم کئے گئے ہمارے آستھا کے مرکز ہمیں ایک کرتے ہیں۔ بھگتی تحریک پورے بھارت میں ایک بڑی عوامی تحریک بن گئی جس نے ہمیں بھگتی کے ذریعہ متحد کیا۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی یہ باتیں اس طرح گھل گئی ہیں، جس میں اتحاد کی طاقت ہے۔ ہر ایک انوشٹھان سے پہلے مختلف دریاؤں کو پکارا جاتا ہے۔ اس میں دور دراز شمال میں واقع دریا ئے سندھو سے لیکر جنوبی ہند کا زندگی عطا کرنے والادریائے کاویری تک شامل ہیں۔ اکثر ہمارے یہاں لوگ کہتے ہیں، اشنان کرتےوقت پاک جذبے کے ساتھ ایکتا کا منتر ہی بولتے ہیں:
گنگے چ یمنے چیو گوداوری سروتی۔
نرمدے سندھو کاویری جلیسمن سنّدھم کرو۔
اسی طرح سکھوں کے مقدس مقامات میں ’نانڈیڑ صاحب‘ اور ’پٹنہ صاحب‘گورودوارے شامل ہیں۔ ہمارے سکھ گوروؤں نے بھی اپنی زندگی اور اچھے کاموں کے ذریعہ سے اتحاد کے جذبے کو تقویت بخشی ہے۔ گزشتہ صدی میں ہمارے ملک میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جیسی عظیم شخصیات رہی ہیں۔ جنہوں نے ہم سبھی کو آئین کے ذریعہ سے متحد کیا۔
ساتھیو،
Unity is Power, Unity is strength,
Unity is Progress, Unity is Empowerment,
United we will scale new heights
ویسے۔ ایسی طاقتیں بھی موجود رہی ہیں جو مسلسل ہمارے ذہن میں شکوک و شبہات کے بیچ بونے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ملک میں نے بھی ہر بار، ان بد ارادوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ہمیں مسلسل اپنی تخلیقی صلاحیت سے، محبت سے، ہر لمحہ کوشش کرکے اپنے چھوٹے سے چھوٹے کاموں میں ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ کے خوبصورت رنگوں کو سامنے لانا ہے۔ اتحاد کے نئے رنگ بھرنے ہیں، اور، ہر شہری کو بھرنے ہیں۔ اس ضمن میں آپ سب سے ایک ویب سائٹ دیکھنے کا اصرار کرتا ہوں۔ ekbharat.gov.in (ایک بھارت ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان)۔ اس میں قومی یکجہتی کی ہماری مہم کو آگے بڑھانے کی کئی کوششیں نظر آئیں گی۔ اس کا ایک دلچسپ کارنر ہے ۔ آج کا واکیہ۔ اس سیکشن میں ہم ہر روز ایک واکیہ کو الگ الگ زبانوں میں کیسے بولتے ہیں، یہ سیکھ سکتے ہیں۔ آپ اس ویب سائٹ کے لئے کنٹریبوٹ بھی کریں، جیسے ہر ریاست اور ثقافت میں علیحدہ علیحدہ خورد و نوش ہوتا ہے۔ یہ پکوان مقامی سطح کی خاص اشیا یعنی اناج اور مسالوں سے بنائے جاتے ہیں۔ کیا ہم ان لوکل فوڈ کی ریسیپی کو مقامی اجزا کے ناموں کے ساتھ ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ ویب سائٹ پر شیئر کرسکتے ہیں؟ یونٹی اور امیونٹی کو بڑھانے کے لئے اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے!
ساتھیو، اس مہینے کی 31 تاریخ کو مجھے کیوڑیا میں تاریخی اسٹیچو آف یونٹی پر ہورہے کئی پروگرامیوں میں شرکت کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ لوگ بھی ضرور جڑیئے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر کو ہم ‘والمیکی جینتی’ بھی منائیں گے۔ میں مہارشی والمیکی کو نمن کرتا ہوں اور اس خاص موقع کے لئے اہل وطن کو دلی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مہارشی والمیکی کے عظیم خیالات کروڑوں لوگوں کو تحریک دیتے ہیں، تقویت عطا کرتے ہیں۔ وہ لاکھوں، کروڑوں غریبوں اور دلتوں کے لئے بہت بڑی امید ہیں۔ ان کے اندر امید اور اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ کسی بھی شخص کی قوت ارادی اگر اس کے ساتھ ہو تو وہ کوئی بھی کام بڑی آسانی سے کرسکتا ہے۔ یہ قوت ارادی ہی ہے جو کئی نوجوانوں کو غیر معمولی کام کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ مہارشی والمیکی نے مثبت سوچ پر زور دیا۔ ان کے لئے، خدمت اور انسانی وقار کا مقام سب سے اوپر ہے۔مہارشی والمیکی کا اخلاق ، خیالات اور آئیڈیل آج نیو انڈیا کے ہمارے عزم کے لئے محرک بھی ہیں اور رہنما خطوط بھی ہیں۔ ہم مہارشی والمیکی کے ہمیشہ ممنون رہیں گے کہ انہوں نے آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لئے رامائن جیسے عظیم گرنتھ کی تخلیق کی۔
اکتیس اکتوبر کو بھارت کی سابق وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی جی کو ہم نے کھو دیا۔ میں احترام کے ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج کشمیر کا پلوامہ پورے ملک کو تعلیم دینے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ آج ملک بھر میں بچے اپنا ہوم ورک کرتے ہیں، نوٹس بناتے ہیں، تو کہیں نہ کہیں اس کے پیچھے پلوامہ کے لوگوں کی سخت محنت بھی ہے۔ وادی کشمیر پورے ملک کی تقریباً 90 فیصد پنسل سلیٹ، لکڑی تختی کی مانگ کو پورا کرتی ہے اور اس میں بہت بڑی حصے داری پلوامہ کی ہے۔ ایک وقت میں ہم لوگ بیرون ممالک سے پنسل کے لئے لکڑی منگواتے تھے، لیکن اب ہمارا پلوامہ ، اس شعبے میں ملک کو خود کفیل بنا رہا ہے۔ حقیقت میں پلوامہ کے یہ پنسل سلیٹ، ریاستوں کے درمیان کے گیپ کو کم کررہے ہیں۔ وادی کی چنار کی لکڑی میں اب بہت زیادہ نمی اور سافٹ نیس ہوتی ہے جو پنسل تیار کرنے کےلئے اسے سب سے مناسب بناتی ہے۔ پلوامہ میں اکھو کو پنسل ولیج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پنسل سلیٹ تیار کرنے کی کئی اکائیاں ہیں جو روزگار فراہم کرا رہی ہیں اور ان میں کافی تعداد میں خواتین کام کرتی ہیں۔
ساتھیو، پلوامہ کی اپنی یہ پہچان اس وقت قائم ہوئی ہے جب یہاں کے لوگوں نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی۔ کام کو لیکر جوکھم اٹھایا اور خود کو اس کے لئے وقف کردیا۔ ایسے ہی محنتی لوگوں میں سے ایک ہیں منظور احمد علائی ۔ پہلے منظور بھائی لکڑی کاٹنے والے ایک عام مزدور تھے۔ منظور بھائی کچھ نیا کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں غریبی میں زندگی نہ گزاریں۔ انہوں نے اپنی پشتینی زمین فروخت کردی اور ایپل وڈن باکس یعنی سیب رکھنے والے لکڑی کے بکسے بنانے کی یونٹ شروع کی۔ وہ اپنے چھوٹے سے بزنس میں جٹے ہوئے تھے، تبھی منظوری بھائی کو کہیں سے پتہ چلا کہ پنسل تیار کرنے میں پوپلر وڈ یعنی چنار کی لکڑی کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد منظور بھائی نے اپنی صنعت کاری کی صلاحیت کا تعارف کراتے ہوئے کچھ فیمس پنسل مینوفیکچرنگ یونٹس کو پوپلر وڈن باکس کی سپلائی شروع کی۔ منظور جی کو یہ بہت فائدے مند لگا اور ان کی آمدنی بھی اچھی خاصی بڑھنے لگی۔ وقت کے ساتھ انہوں نے پنسل سلیٹ مینوفیکچرنگ مشینری لے لی اور اس کے بعد انہوں نے ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں کو پنسل سلیٹ کی سپلائی شروع کردی۔ آج منظور بھائی کے اس کاروبار کا ٹرن اوور کروڑوں میں ہے اور وہ تقریباً 200 لوگوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں۔ آج ’من کی بات‘ کے ذریعہ تمام اہل وطن کی جانب سے میں منظور بھائی سمیت پلوامہ کے محنت کش بھائی بہنوں کو اور ان کے خاندان والوں کو ، ان کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ سب ملک کے نوجوان ذہنوں کو، تعلیم دینے کےلئے اپنا بیش قیمت تعاون کررہے ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، لاک ڈاؤن کے دوران ٹکنالوجی بیسڈ سروس ڈلیوری کے کئی تجربات ہمارے ملک میں کئے گئے ہیں اوراب ایسا نہیں رہا کہ بہت بڑی ٹکنالوجی اور لاجسٹکس کمپنیاں ہی یہ کرسکتی ہیں۔ جھارکھنڈ میں یہ کام خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ نے کرکے دکھایا ہے۔ ان خواتین نے کسانوں کے کھیتوں سے سبزیاں اور پھل لئے اور سیدھے گھروں تک پہنچائے۔ ان خواتین نے ’آجیوکا فارم فریش‘ نام سےایک ایپ بنوانا جس کے ذریعہ لوگ آسانی سے سبزیاں منگوا سکتے تھے۔ اس پوری کوشش سے کسانوں کو اپنی سبزیوں اور پھلوں کے اچھے دام ملے اور لوگوں کو بھی فریش سبزیاں ملتی رہیں۔ وہاں ’اجیوکا فارم فریش‘ ایپ کا آئیڈیا بہت مقبول ہورہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں انہوں نے 50 لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی پھل سبزیاں لوگوں تک پہنچائی ہیں۔ ساتھیو، زراعت کے شعبے میں نئے امکانات پیدا ہوتے دیکھ کر ہمارے نوجوان بھی کافی تعداد میں اس سے جڑنے لگے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے بڑوانی میں اتل پاٹیدار اپنے علاقے کے 4000 کسانوں کو ڈیجیٹل طریقے سے جوڑ چکے ہیں۔ یہ کسان اتل پاٹیدار کے ای۔ پلیٹ فارم فارم ارڈ کے ذریعہ کھیتی کے سامان، جیسے کھاد، بیچ، پیسٹی سائڈ، فنجی سائٹ وغیرہ کی ہوم ڈلیوری پا رہے ہیں، یعنی کسانوں کو گھر تک ان کی ضرورت کی چیزیں مل رہی ہیں۔ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر جدید زرعی آلات بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے وقت بھی اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعہ کسانوں کو ہزاروں پیکٹ ڈلیور کئے گئے، جس میں کپاس اور سبزیوں کے بیچ بھی تھے۔ اتل جی اور ان کی ٹیم کسانوں کو تکنیکی طور پر بیدار بنارہی ہے۔ آن لائن پیمنٹ اور خریداری سکھا رہی ہے۔
ساتھیو، ان دنوں مہاراشٹر کے ایک واقعہ پر میرا دھیان گیا۔ وہاں ایک فارمر پروڈیوسر کمپنی نے مکئی کی کھیتی کرنے والے کسانوں سے مکئی خریدی۔ کمپنی نے کسانوں کو اس بار قیمت کے علاوہ بونس بھی دیا۔ کسانوں کو بھی حیران کن خوشی ہوئی۔ جب اس کمپنی سے پوچھا تو انہوں نے کہا بھارت سرکار نے جو نئے زرعی قوانین بنائے ہیں اب ان کے تحت کسان بھارت میں کہیں پر بھی فصل فروخت کرپارہے ہیں اور انہیں اچھے دام مل رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ اس فاضل پروفٹ کو کسانوں کے ساتھ بھی بانٹنا چاہیے۔ اس پر ان کا بھی حق ہے اور انہوں نے کسانوں کو بونس دیا ہے۔ ساتھیو، بونس بھلے ہی ابھی چھوٹا ہو، لیکن شروعات بہت بڑی ہے۔اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نئے زرعی قوانین سے زمینی سطح پر کس طرح کی تبدیلیاں کسانوں کے حق میں آنے کے امکانات بھرے پڑے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات میں‘ اہل وطن کی غیر معمولی کامیابیوں ، ہمارے ملک، ہماری ثقافت کی علیحدہ علیحدہ جہتوں کے بارے میں آپ سب سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا ملک باصلاحیت لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ اگر آپ بھی ایسے لوگوں کو جانتے ہوں، ان کے بارے میں بات کیجئے، لکھئے اور ان کی کامیابیوں کو شیئر کیجئے۔ آنے والے تہواروں کی آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو بہت بہت مبارکباد۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے اور تہواروں میں، ذرا خصوصی طور پر یاد رکھئے۔ ماسک پہننا ہے، ہاتھ صابن سے دھوتے رہنا ہے، دو گز کی دوری بنائی رکھنی ہے۔
ساتھیو، اگلے مہینے پھر آپ سے من کی بات ہوگی بہت بہت شکریہ۔
نئی دلّی ،27 ستمبر / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ۔ کورونا کے اِس بحرانی دور میں پوری دنیا مختلف تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے ۔ آج جب دو گز کی دوری ایک نا گزیر ضرورت بن گئی ہے تو اسی بحرانی دور نے کنبے کے ارکان کو آپس میں جوڑنے اور قریب لانے کا بھی کام کیا ہے لیکن اتنے لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنا ، کیسے رہنا ، وقت کیسے گزارنا ، ہر پل خوشی بھرا کیسے ہو ؟ تو ، کئی کنبوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اُس کی وجہ تھی کہ جو ہماری اقدار تھیں ، جو کنبے میں ایک طرح سے روایتی نظام کی طرح چلتی تھی ، اُس کی کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سے کنبے ہیں ، جہاں یہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے اُس کمی کے رہتے ہوئے ، بحران کے اِس دور کو گزارنا بھی کنبوں کے لئے تھوڑا مشکل ہو گیا اور اس میں ایک اہم بات کیا تھی ؟ ہر کنبے میں کوئی نہ کوئی بزرگ ، کنبے کے بڑے شخص کہانیاں سنایا کرتے تھے اور گھر میں نیا جوش اور نئی توانائی بھر دیتے تھے ۔ ہمیں ضرور احساس ہوا ہو گا کہ ہمارے اجداد نے ، جو طریقے بنائے تھے ، وہ آج بھی کتنے اہم ہیں اور جب نہیں ہوتے ہیں تو کتنی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ ایسا ہی ایک ہنر ، جیسا میں نے کہا ، کہانی سنانے کا آرٹ ، اسٹوری ٹیلنگ ہے ۔ ساتھیو ، کہانیوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ، جتنا کہ انسانی تہذیب کی تاریخ پرانی ہے ۔
" جہاں کوئی روح ہے ، وہاں کہانی بھی ہے ۔ "
کہانیاں لوگوں کے تخلیقی اور حساس پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں اور اس کا اظہار کرتی ہیں ۔ کہانی کی طاقت کو محسوس کرنا ہو ، تو جب کوئی ماں اپنے چھوٹے بچے کو سلانے کے لئے یا پھر اُسے کھانا کھلانے کےلئے کہانی سنا رہی ہوتی ہے ، تب دیکھیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں بڑے عرصے تک ایک سیاح کے طور پر گزارا ہے ۔ گھومنا ہی میری زندگی تھی ۔ ہر دن نیا گاؤں ، نئے لوگ ، نئے کنبے لیکن جب میں کنبوں میں جاتا تھا تو میں بچوں سے ضرور بات کرتا تھا اور کبھی کبھی بچوں سے کہتا تھا کہ چلو بھائی مجھے کوئی کہانی سناؤ ۔ تو میں حیران تھا ، بچے مجھ سے کہتے تھے کہ نہیں انکل ہم چٹکلا سنائیں گے اور مجھ سے بھی وہ یہی کہتے تھے کہ انکل آپ ہمیں چٹکلے سنائیے یعنی اُن کو کہانی سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا ۔ زیادہ تر اُن کی زندگی چٹکلوں میں ہی ختم ہو گئی ۔
ساتھیو ، ہندوستان میں کہانی سنانے یا قصہ گوئی کی ایک اہم روایت رہی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں ، جہاں ہیتوپدیش اور پنچ تنتر کی روایت رہی ہے ، جہاں کہانیوں میں جانوروں اور پرندوں اور پریوں کی خیالی دنیا تشکیل دی گئی تھی تاکہ عقل اور ذہانت کی باتوں کو آسانی سے سمجھایا جا سکے ۔ ہمارے یہاں کتھا کی روایت رہی ہے۔ یہ مذہبی کہانیاں سنانے کا یہ قدیم طریقہ ہے۔ اس میں 'کٹا کالیش وَم' بھی شامل رہا ہے ۔ ہمارے یہاں طرح طرح کی لوک کہانیاں رائج ہیں۔ تمل ناڈو اور کیرالہ میں کہانی سنانے کا ایک بہت ہی دلچسپ طریقہ ہے۔ اسے 'ویلو پاٹ' کہا جات ہے ۔ اس میں کہانی اور موسیقی کی ایک بہت ہی پرکشش ہم آہنگی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں کٹھ پتلی کی بھی روایت رہی ہے۔ ان دنوں سائنس اور سائنس فکشن سے جڑی کہانیاں اور کہانی کہنے کا طریقہ مقبول ہو رہا ہے ۔ میں دیکھ رہا ہوں ، کئی لوگ قصہ گوئی کے آرٹ کو بڑھانے کے لئے قابلِ ستائش پہل کر رہے ہیں ۔ مجھے gaathastory.in جیسی ویب سائٹ کے بارے میں پتہ چلا ، جسے ، امر ویاس ، باقی لوگوں کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں ۔ امر ویاس آئی آئی ایم احمد آباد سے ایم بی اے کرنے کے بعد بیرون ملک چلا گئے ، پھر واپس آئے ۔ فی الحال بنگلورو میں رہ رہے ہیں اور وقت نکال کر کہانیوں سے جڑے اِس طرح کے دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ کئی ایسی کوششیں بھی ہیں ، جو دیہی بھارت کی کہانیوں کو خوب مقبول بنا رہی ہیں ۔ ویشالی ویہوہارے دیش پانڈے جیسے کئی لوگ ہیں ، جو اسے مراٹھی میں بھی مقبول بنا رہے ہیں ۔
چنئی کی شری وِدھا اور وی راگھون بھی ہمارے تہذیب سے جڑی کہانیوں کی نشر و اشاعت کرنے میں لگی ہیں ۔ وہیں کتھالیہ اور دی انڈین اسٹوری ٹیلنگ نیٹ ورک نام کی دو ویب سائٹ بھی اِس شعبے میں زبردست کام کر رہی ہیں ۔ گیتا راما نجن نے kathalaya.org میں کہانیوں کو مرکوز کیا ہے ، وہیں The Indian Story Telling Network کے ذریعے بھی الگ الگ شہروں کے اسٹوری ٹیلرس کا نیٹ ورک تیار کیا جا رہا ہے ۔ بنگلورو میں ایک وکرم شری دھر ہیں ، جو باپو سے جڑی کہانیوں کو لے کر بہت پُر جوش ہیں اور بھی کئی لوگ اِس شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔ آپ ضرور ا ن کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر کریں ۔
آج ہمارے ساتھ بنگلورو اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی بہن اپرنا آتریا اور دیگر ارکان جڑے ہیں ، آئیے ، انہیں سے بات کرتے ہیں اور جانتے ہیں ، اُن کا تجربہ ۔
وزیر اعظم : ہیلو
اپرنا : نمسکار محترم وزیر اعظم جی کیسے ہیں آپ ۔
وزیر اعظم : میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسی ہیں اپرنا جی ؟
اپرنا : بالکل بڑھیا سر جی ۔ سب سے پہلے میں بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی طرف سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے ہم جیسے فن کاروں کو اِس فورم پر بلایا ہے اور بات کر رہے ہیں ۔
وزیر اعظم : اور میں نے سنا ہے کہ آج تو شاید آپ کی پوری ٹیم بھی آپ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے ۔
اپرنا : جی – – جی بالکل – – بالکل سر ۔
وزیر اعظم : تو اچھا ہوگا کہ آپ اپنی ٹیم کا تعارف کرا دیں تاکہ من کی بات کے ، جو سامعین ہیں ، اُن کے لئے تعرف ہو جائے کہ آپ لوگ کیسے بڑی مہم چلا رہے ہیں ۔
اپرنا : سر میں اپرنا آتریہ ہوں ، میں دو بچوں کی ماں ہوں ، ایک بھارتی فضائیہ کے افسر کی بیوی ہوں اور ایک جذباتی قصہ گو ہوں سر ۔ اسٹوری ٹیلنگ کی شروعات 15 سال پہلے ہوئی تھی ، جب میں سافٹ ویئر انڈسٹری میں کام کر رہی تھی ۔ تب میں سی ایس آر پروجیکٹوں میں رضا کارانہ طور پر کام کرنے کے لئے ، جب گئی تھی ، تب ہزاروں بچوں کو کہانیوں کے ذریعے تعلیم دینے کا موقع ملا اور یہ کہانی ، جو میں بتا رہی تھی ، وہ اپنی دادی ماں سے سنی تھی لیکن جب کہانی سنتے وقت میں نے ، جو خوشی ، اُن بچوں میں دیکھی ، میں کیا بولوں آپ کو ، کتنی مسکراہٹ تھی ، کتنی خوشی تھی تو اُس وقت میں نے طے کیا کہ اسٹوری ٹیلنگ میری زندگی کا ہدف ہو گا سر ۔
وزیر اعظم : آپ کی ٹیم میں اور کون ہے وہاں ؟
اپرنا : میرے ساتھ ہیں ، شیلجا سمپت ۔
شیلجا : نمسکار سیر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
شیلجا : میں شیلجا سمپت بات کر رہی ہوں ۔ میں تو پہلے ٹیچر تھی ۔ اُس کے بعد جب میرے بچے بڑے ہوئے تب میں نے تھیٹر میں کام شروع کیا اور آخر کار کہانیوں کو سنانے میں سب سے زیادہ دلی سکون ملا ۔
وزیر اعظم : شکریہ !
شیلجا : میرے ساتھ سومیا ہیں ۔
سومیا : نمسکار سر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
سومیا : میں ہوں سومیا سری نواسن ۔ میں ایک سائکلوجسٹ ہوں ۔ میں جب کام کرتی ہوں ، بچے اور بڑے لوگوں کے ساتھ ، اُس میں کہانیوں کے ذریعے انسان کے جذبات کو جگانے کی کوشش کرتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی تبادلۂ خیال بھی کرتی ہوں ۔ میرا مقصد ہے – Healing and transformative storytelling ۔
اپرنا : نمستے سر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
اپرنا : میرا نام اپرنا جے شنکر ہے ۔ ویسے تو میری خوش قسمتی ہے کہ میں اپنے نانا نانی اور دادی کے ساتھ اس ملک کے مختلف حصوں میں پلی ہوں ۔ اس لئے رامائن ، پرانوں اور گیتا کی کہانیاں مجھے وراثت میں ہر رات کو ملتی تھیں اور بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی جیسی تنظیم ہے تو مجھے اسٹوری ٹیلر بننا ہی تھا ۔ میرے ساتھ میری ساتھی لاونیا پرساد ہیں ۔
وزیر اعظم : لاونیا جی ، نمستے ۔
لاونیا : نمستے سر ۔ میں ایک الیکٹریکل انجینئر ہوں ، جو پیشہ ور قصہ گو بن گئی ہوں ۔ سر ، میں اپنے دادا سے کہانیاں سن کر بڑی ہوئی ہوں ۔ میں بزرگ شہریوں کے ساتھ کام کرتی ہوں ۔ میرے خصوصی پروجیکٹ میں ، جس کا نام روٹس ہے ، جہاں میں ، اُن کی زندگی اور اُن کے کنبوں کی زندگی کو دستاویزی شکل دینے میں مدد کرتی ہوں ۔
وزیر اعظم : لاونیا جی آپ کو بہت بہت مبارک ہو اور جیسا آپ نے کہا ہے ، میں نے بھی ایک بار من کی بات میں سب سے کہا تھا کہ آپ کنبے میں دادا ، دادی ، نانا ، نانی ہیں تو اُن سے ، اُن کے بچپن کی کہانیاں پوچھیئے اور اُسے ٹیپ کر لیجئے ، ریکارڈ کر لیجئے ۔ میں نے کہا تھا کہ بہت کام آئے گا لیکن مجھے اچھا لگا کہ ایک تو آپ سب نے ، جو اپنا تعارف کرایا ، اُس میں بھی آپ کا فن ، مواصلات کی آپ کی صلاحیت اور بہت ہی کم الفاظ میں ، بہت اچھے طریقے سے آپ نے اپنا تعارف کرایا ، اس لئے بھی میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔
لاونیا : شکریہ سر ، آپ کا شکریہ ۔
اب جو ہمارے سامعین لوگ ہیں ، من کی بات کے ، اُن کا بھی دل چاہتا ہوگا ، کہانی سننے کا ۔ کیا میں آپ سے درخواست کر سکتا ہوں کہ ایک دو کہانی سنائے آپ لوگ ؟
گروپ کی آواز : جی بالکل ، یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے ۔
چلئے چلئے سنتے ہیں کہانی ایک راجا کی ۔ راجا کا نام تھا ، کرشن دیو رائے اور سلطنت کا نام تھا ، وجے نگر ۔ اب راجا ہمارے تھے تو بڑے خوبیوں کے مالک ۔ اگر اُن میں کوئی کھوٹ بتانا ہی تھا ، تو وہ تھا ، زیادہ محبت اپنے وزیر تینالی راما کی جانب اور دوسرے کھانے کی ۔ راجا جی ہر دن دوپہر کے کھانے کے لئے بڑے شان سے بیٹھے تھے – کہ آج کچھ اچھا بنا ہوگا اور ہر دن اُن کے باورچی انہیں وہی بے جان سبزیاں کھلاتے تھے ، تورئی ، لاکی ، کدو ، ٹنڈا – اُف ۔ ایسے ہی ایک دن راجا نے کھاتے کھاتے غصے میں تھالی پھینک دی اور اپنے باورچی کو حکم دیا کہ یا تو کل کوئی دوسری مزیدار سبزی بنانا یا پھر کل میں تمہیں سولی پر چڑھا دوں گا ۔ باورچی بے چارہ ڈر گیا ۔ اب نئی سبزی کے لئے وہ کہاں جائے ۔ باورچی بھاگا بھاگا چلا سیدھے تینالی راما کے پاس اور اُسے پوری کہانی سنائی ۔ سن کر تینالی راما نے باورچی کو ترکیب بتائی ۔ اگلے دن راجا دوپہر کو کھانے کے لئے آئے اور باورچی کو آواز دی ۔ آج کچھ نیا مزیدار بنا ہے یا میں سولی تیار کر دوں ۔ ڈرے ہوئے باورچی نے جھٹ پٹ تھالی کو سجایا اور راجا کے لئے گرما گرم کھانا پیش کیا ۔ تھالی میں نئی سبزی تھی ۔ راجا بہت خوش ہوئے اور تھوڑی سی سبزی چکھی ۔ اوہ واہ ، کیا سبزی تھی ، نہ تورئی کی طرح پھیکی تھی ، نہ کدو کی طرح میٹھی تھی ۔ باورچی نے ، جو بھی مسالحہ بھون کر ، کوٹ کر ڈالا تھا ، سب اچھی طرح سے چڑھی تھی ۔ انگلیاں چاٹتے ہوئے مطمئن راجا نے باورچی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کون سی سبزی ہے ، اس کا نام کیا ہے ۔ جیسے سکھایا گیا تھا ، ویسے ہی باورچی نے جواب دیا ۔ مہا راج ، یہ مکٹ دھاری بیگن ہیں ۔ پربھو ٹھیک آپ ہی کی طرح یہ بھی سبزیوں کے راجا ہیں اور اسی لئے باقی سبزیوں نے بیگن کو تاج پہنایا ہے ۔ راجا خوش ہوئے اور اعلان کیا ، آج سے ہم یہی مکٹ دھاری بیگن کھائیں گے اور صرف ہم ہی نہیں ، ہماری سلطنت میں بھی صرف بیگن ہی بنے گا اور کوئی سبزی نہیں بنے گی ۔ راجا اور پرچا دونوں خوش تھے ۔ یعنی پہلے پہلے تو سب خوش تھے کہ انہیں نئی سبزی ملی ہے لیکن جیسے ہی دن بڑھتے گئے ، سُر تھوڑا کم ہوتا گیا ۔ ایک گھر میں بیگن کا بھرتا تو دوسرے گھر میں بیگن بھاجی ۔ ایک کے یہاں کاتے کا سمبھر تو دوسرے کے یہاں وانگی بھات ۔ ایک ہی بیگن بے چارا کتنے روپ دھارن کرے ۔ آہستہ آہستہ راجا بھی تنگ آ گئے ۔ روزانہ وہی بیگن اور ایک دن ایسا آیا کہ راجا نے باورچی کو بلایا اور خوب ڈانٹا ۔ تم سے کس نے کہا کہ بیگن کے سر پر تاج ہے ۔ اس سلطنت میں اب کوئی بیگن نہیں کھائے گا ۔ کل سے باقی کوئی بھی سبزی بنانا لیکن بیگن نہیں بنانا ۔ باورچی جیسے آپ کی آگیا مہا راج ، کہہ کر سیدھا تینالی راما کے پاس پہنچا ۔ تینالی راما کے پاؤں پکٹرتے ہوئے کہا کہ منتری جی شکریہ ۔ آپ نے ہماری جان بچا لی ۔ آپ کے مشورے کی وجہ سے اب ہم کوئی بھی سبزی راجا کو کھلا سکتے ہیں ۔ تینالی راما نے ہنستے ہو کہا ، وہ وزیر ہی کیا ، جو راجا کو خوش نہ رکھ سکے اور اسی طرح راجا کرشن دیو رائے اور اُن کے وزیر تینالی راما کی کہانیاں بنتی رہیں اور لوگ سنتے رہے ۔ شکریہ ۔
وزیر اعظم : آپ نے ، بات میں ، اتنی درستگی تھی ، اتنی باریکیوں کو پکڑا تھا ، میں سمجھتا ہوں ، بچے ، بڑے ، جو بھی سنیں گے ، کئی چیزوں کو یاد رکھیں گے ۔ بہت اچھے طریقے سے آپ نے بتایا اور خاص اتفاق یہ ہے کہ ملک میں تغذیہ کا مہینہ چل رہا ہے اور آپ کی کہانی کھانے سے جڑی ہوئی ہے ۔
خاتون : جی
وزیر اعظم : اور میں ضرور ، یہ جو اسٹوری ٹیلر آپ لوگ ہیں ، اور بھی لوگ ہیں ۔ ہمیں کس طرح سے اپنے ملک کی نئی پیڑھی کو اپنی عظیم شخصیتوں، عظیم ماؤں بہنوں کے ساتھ ، جو عظیم ہو گئے ہیں ، کہانیوں کے ذریعے کیسے جوڑا جائے ۔ ہم قصہ گوئی کو اور زیادہ کیسے مقبول بنائیں اور ہر گھرمیں اچھی کہانی کہنا ، اچھی کہانی بچوں کو سنانا ، یہ عام آدمی کی زندگی کی بہت بڑی کریڈٹ ہو ۔ یہ ماحول کیسے بنائیں ۔ اُس سمت میں ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیئے لیکن مجھے بہت اچھا لگا ، آپ لوگوں سے بات کرکے اور میں آپ سب کو بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ شکریہ ۔
گروپ کی آواز : شکریہ سر ۔
کہانی کے ذریعے تہذیب کے ماحول کو آگے بڑھانے والی اِن بہنوں کو اپنے سنا ۔ میں جب اُن سے فون پر بات کر رہا تھا ، اتنی لمبی بات تھی تو مجھے لگا کہ من کی بات کے وقت کی حد ہے تو میری اُن سے جو باتیں ہوئی ہیں ، وہ ساری باتیں ، میں اپنے نریندر مودی ایپ پر اَپ لوڈ کروں گا – پوری کہانیاں ضرور وہاں سنیئے ۔ ابھی من کی بات میں تو میں نے اُس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہی آپ کے سامنے پیش کیا ہے ۔ میں ضرور آپ سے درخواست کروں گا ، خاندان میں ، ہر ہفتے آپ کہانیوں کے لئے کچھ وقت نکالئے اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ خاندان کے ہر رکن کو ہر ہفتے کے لئے ایک موضوع طے کریں ، جیسے مان لو ہمدردی ہے ، حساسیت ہے ، ہمت ہے ، قربانی ہے ، بہادری ہے ، کوئی ایک جذبہ اور خاندان کے سبھی ارکان اُس ہفتے ایک ہی موضوع پر سب کے سب لوگ کہانی ڈھونڈیں گے اور خاندان کے سب لوگ مل کر ایک ایک کہانی کہیں گے ۔
آپ دیکھئے کہ کنبہ میں کتنا بڑا خزانہ ہو جائے گا ، کتنا بڑا تحقیقی کام ہوگا ، ہر ایک اور کتنی خوشی خوشی لطف اٹھائے گا ، کنبے میں نئی توانائی آئے گی ۔ اسی طرح ہم ایک کام اور بھی کرسکتے ہیں۔ میں ، کہانی سنانے والے سب سے اپیل کروں گا کہ ہم آزادی کے 75 سالوں کو منانے جا رہے ہیں ۔ کیا ہم اپنی کہانیوں میں پورے غلامی کے دور کے جتنے متاثر کن واقعات کو کہانیوں میں متعارف کرا سکتے ہیں! خاص طور پر ، 1857 ء سے لے کر 1947 ء تک ، ہم ہر چھوٹے موٹے نئے واقعہ سے ، اب اپنی کہانیوں کے ذریعے اپنی نئی نسل کو متعارف کروا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ یہ کام ضرور کریں گے۔ کہانی کہنے کا یہ فن ملک میں زیادہ مضبوط ، زیادہ عام اور زیادہ آرام دہ اور پرسکون ہوتا ہے ، لہذا ، آئیے ہم سب کوشش کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آئیے ، اب ہم کہانیوں کی دنیا سے نکل کر ، اب ہم سات سمندر پار چلتے ہیں ، یہ آواز سنیئے ۔
" نمستے ، بھائیو اور بہنوں ، میرا نام سیدو دیم بیلے ہے۔ میں مغربی افریقہ کے ایک ملک مالی سے ہوں۔ فروری میں ، مجھے ہندوستان کے سب سے بڑے مذہبی تہوار کمبھ میلے میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات ہے۔ مجھے کمبھ میلے میں شرکت کرکے بہت اچھا لگا اور ہندوستان کی ثقافت کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک بار پھر ہندوستان جانے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ ہم ہندوستان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکیں۔ نمستے " ۔
وزیر اعظم: ہے نہ مزیدار ، تو یہ تھے مالی کی سیدو دیم بیلے ۔ مالی بھارت سے بہت دور مغربی افریقہ کا ایک بہت بڑا اور لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ سیدو دیم بیلے مالی کے ایک شہر کیٹا کے ایک پبلک اسکول میں ٹیچر ہیں ۔ وہ بچوں کو انگلش ، میوزک ، پینٹنگ اور ڈرائنگ پڑھاتے اور سکھاتے ہیں ۔ لین اُن کی ایک اور شناخت بھی ہے۔ لوگ انہیں مالی کے ہندوستان کا بابو کہتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے انہیں بہت فخر ہوتا ہے۔ ہر اتوار کی دوپہر ، وہ مالی میں ایک گھنٹہ کا ریڈیو پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ اس پروگرام کا نام ہے ، انڈین فریکونسی آن بالی ووڈ سانگس ۔ وہ پچھلے 23 سالوں سے اسے پیش کررہے ہیں۔ اس پروگرام کے دوران ، وہ فرانسیسی زبان کے ساتھ ساتھ مالی کی مقامی زبان 'بمبارا' میں بھی اپنی کمنٹری کرتے ہیں اور ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ انہیں ہندوستان سے دِلی محبت ہے۔ ہندوستان سے ان کی گہری وابستگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ، ان کی پیدائش بھی 15 اگست کو ہوئی تھی۔ سیدو جی نے اب ہر اتوار کے روز دو گھنٹے کا ایک اور پروگرام شروع کیا ہے ، جس میں وہ بالی ووڈ کی ایک مکمل فلم کی کہانی فرانسیسی اور بمبارا میں سناتے ہیں ۔ کبھی کبھی کسی جذباتی منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ، وہ خود اور ان کے سننے والے ایک ساتھ رو پڑتے ہیں۔ سیدو جی کے والد نے ہی ہندوستانی ثقافت سے ان کا تعارف کرایا تھا ۔ ان کے والد سینما ، تھیٹر میں کام کرتے تھے اور وہاں ہندوستانی فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں ۔ اس 15 اگست کو ، انہوں نے ہندی میں ایک ویڈیو کے ذریعہ ہندوستان کے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد دی تھی ۔ آج ان کے بچے آسانی سے ہندوستان کا قومی ترانہ گاتے ہیں۔ آپ ان دونوں ویڈیوز کو ضرور دیکھیں اور ان کی ہندوستان سے محبت کو محسوس کریں۔ جب سیدوجی نے کمبھ کا دورہ کیا تھا ، اس وقت وہ، اُس وفد کا حصہ تھے ، جس سے میں نے ملاقات کی تھی ۔ ندوستان کے لئے ، اُن کا اس طرح کا جنون ، محبت اور پیار واقعی ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے
میرے پیارے ہم وطنوں ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے ، جو شخص زمین سے جتنا جڑا ہوا ہے ، وہ بڑے سے بڑے طوفان میں اتنا ہی ڈٹا رہتا ہے۔ کورونا کے اس مشکل دور میں ہمارا زرعی شعبہ ، ہمارا کسان ، اِس کی زندہ مثال ہے ۔ مشکل کے اس دور میں بھی ہمارے ملک کے زرعی شعبے نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ساتھیو ، ملک کا زرعی شعبہ ، ہمارے کسان ، ہمارے دیہات ، خود کفیل بھارت کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ مضبوط ہوں گے تو پھر خود کفیل بھارت کی بنیاد مضبوط ہوگی۔ حالیہ دنوں میں ، ان شعبوں نے خود کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کیا ہے ، بہت سے مفروضوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے ایسے بہت سے کسانوں کے خطوط ملتے ہیں ، میں کسان تنظیموں سے بات کرتا ہوں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح کاشتکاری میں نئی جہتیں شامل کی جارہی ہیں ، زراعت کیسے تبدیل ہورہی ہے۔ میں نے ان سے کیا سنا ہے ، میں نے دوسروں سے کیا سنا ہے ، میرا دِل چاہتا ہے کہ آج 'من کی بات' میں ، میں آپ کو ان کسانوں کی کچھ باتیں ضرور بتاؤں۔ ہمارا ایک کسان بھائی ہے ، جس کا نام جناب کنور چوہان ہے ، جو ہریانہ کے سونی پت ضلع میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب انہیں منڈی سے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرنے میں دشواری پیش آتی تھی۔ اگر وہ اپنے پھل اور سبزیاں منڈی کے باہر بیچ دیتے تھے تو پھر کئی بار ان کے پھل ، سبزیاں اور گاڑیاں تک ضبط ہوجاتی تھیں۔ تاہم ، 2014 ء میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی ایکٹ سے باہر کردیا گیا ، جس سے انہیں اور آس پاس کے کسانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ چار سال پہلے ، انہوں نے اپنے گاؤں میں ساتھی کسانوں کے ساتھ مل کر ایک کسان پروڈیوسر گروپ تشکیل دیا تھا۔ آج ، گاؤں کے کسان سویٹ کارن اور بیبی کارن کی کھیتی کرتے ہیں۔ آج ، ان کی پیداوار دلّی کی آزاد پور منڈی ، بڑی ریٹیل چین اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں براہ راست سپلائی ہو رہی ہے ۔ آج گاؤں کے کسان سویٹ کارن اور بیبی کارن کی کاشت کرکے سالانہ ایکڑ ڈھائی سے تین لاکھ کما رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں ، اس گاؤں کے 60 سے زیادہ کاشتکار ، نیٹ ہاؤس بنا کر ، پولی ہاؤس بنا کر ، ٹماٹر ، کھیرا ، شملہ مرچ ، اس کی مختلف اقسام تیار کرکے ہر سال فی ایکڑ 10 سے 12 لاکھ روپئے تک کمائی کر رہے ہیں۔ جانتے ہیں ، ان کسانوں کے پاس کیا الگ ہے ، اپنے پھل ، سبزیوں کو کہیں پر بھی ، کسی کو بھی ، بیچنے کی طاقت ہے اور یہ طاقت ہی اُن کی اس ترقی کی بنیاد ہے ۔ اب ملک کے دوسرے کسانوں کو بھی وہی طاقت ملی ہے۔ نہ صرف پھل اور سبزیوں کے لئے ہی نہیں ، بلکہ اپنے کھیت میں وہ جو پیدا کر رہے ہیں – دھان ، گیہوں ، سرسوں ، گنا ، جو بھی پیدا کر رہے ہیں ، اُس کو اپنی مرضی کے مطابق زیادہ دام ملیں ، وہیں پر بیچنے کی اب اُن کو آزادی مل گئی ہے ۔
ساتھیو ، تین چار سال پہلے ، مہاراشٹر میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی کے دائرہ کار سے باہر کردیا گیا تھا۔ اس تبدیلی نے مہاراشٹر کے پھلوں اور سبزیوں کے کاشتکاروں کی صورتحال کو کس طرح تبدیل کیا ہے ، اس کی ایک مثال یہ کسانوں کا ایک گروپ ہے ، جس کا نام سری سوامی سامرتھ فارمرس پروڈیوسر کمپنی لمیٹیڈ ہے ۔ پونے اور ممبئی کے کسان خود ہفتہ وار بازار چلا رہے ہیں۔ ان منڈیوں میں ، تقریباً لگ بھگ 70 گاؤوں کے ساڑھے چار ہزار کسانوں کی پیداوار براہ راست فروخت ہوتی ہے ، کوئی بچولیہ نہیں ہے ۔ دیہی نوجوان منڈی ، کاشتکاری اور بیچنے کے عمل میں براہ راست شامل ہوتے ہیں ۔ اس سے کاشتکاروں کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے ، گاؤں کے نوجوانوں کو روزگار میں فائدہ ہوتا ہے ۔
اس کی ایک اور مثال تمل ناڈو کے تھینی ضلع کی ہے ۔ یہاں تمل ناڈو کے کیلے کے کسانوں کی کمپنی ہے ۔ پیداوار کرنے والے کسانوں کی یہ کمپنی کہنے کو تو کمپنی ہے لیکن حقیقت میں ، ان کسانوں نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ ایک بہت ہی لچکدار نظام موجود ہے ، اور وہ بھی پانچ چھ سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اس کسان گروپ نے لاک ڈاؤن کے دوران قریب کے گاؤوں سے سیکڑوں میٹرک ٹن سبزیاں ، پھل اور کیلے خریدے اور چنئی شہر کو سبزی کمبو کٹ دیا۔ آپ سوچئے ، انہوں نے کتنے نوجوانوں کو روز گار دیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ بچولیا نہ ہونے کی وجہ سے کسان کو بھی فائدہ ہوا اور صارفین کو بھی فائدہ ہوا ۔ ایسا ہی ایک لکھنؤ کا کسانوں کا گروپ ہے ۔ انہوں نے نام رکھا ہے ، " ارادہ فارمر پروڈیوسر " ۔ انہوں نے بھی لاک ڈاؤن کے دوران براہ راست کسانوں کے کھیتوں سے پھل اور سبزیاں لیں اور سیدھے جاکر لکھنؤ کے بازاروں میں فروخت کیں ۔ بچولیوں سے آزادی مل گئی اور من پسند قیمت انہوں نے حاصل کی ۔ ساتھیو ، گجرات میں بناس کے رام پورہ گاؤں میں اسماعیل بھائی کرکے ایک کسان ہیں۔ ان کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ اسماعیل بھائی کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے لیکن ، جیسا کہ اب زیادہ تر سوچ بن گئی ہے ، ان کے اہل خانہ بھی یہ سوچتے تھے کہ اسماعیل بھائی کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ اسماعیل بھائی کے والد کھیتی باڑی کرتے تھے ، لیکن اس میں اکثر انہیں نقصان ہوتا تھا تو والد نے بھی منع کیا لیکن خاندان والوں کے منع کرنے کے باوجود اسماعیل بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ کھیتی باڑی ہی کریں گے۔ اسماعیل بھائی کا خیال تھا کہ کھیتی باڑی نقصان کا سودا ہے ، وہ اس سوچ اور صورتحال دونوں کو بدل کر دکھائیں گے ۔ انہوں نے کھیتی باڑی شروع کی لیکن ، نئے طریقوں سے ، اختراعی طریقوں سے۔ انہوں نے ڈرپ سے آبپاشی کرکے آلو کی کاشت شروع کردی اور آج ان کے آلو ایک پہچان بن گئے ہیں ۔ وہ ایسے آلو اگا رہے ہیں ، جن کی کوالٹی بہت ہی اچھی ہوتی ہے ۔ اسماعیل بھائی ، یہ آلو براہ راست بڑی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں ۔ بچولیوں کا نام و نشان نہیں اور نتیجہ – اچھا منافع کما رہے ہیں ۔ اب تو انہوں نے اپنے والد کا سارا قرض بھی ادا کر دیا ہے اور سب سے بڑی بات جانتے ہیں : اسماعیل بھائی ، آج اپنے علاقے کے سینکڑوں اور کسانوں کی بھی مدد کر رہے ہیں ۔ ان کی زندگی بھی بدل رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج کی تاریخ میں ، ہم کھیتی باڑی کو جتنا جدید متبادل دیں گے ، اتنا ہی وہ آگے بڑھے گی ۔ اس میں نئے نئے طور طریقے آئیں گے ، نئی اختراعات جڑیں گی ۔ منی پور کی رہنے والی بجے شانتی ایک نئی اختراع کی وجہ سے کافی بحث میں ہیں ۔ انہوں نے کمل کی نال سے دھاگہ بنانے کا اسٹارٹ اَپ شروع کیا ہے ۔ آج اُن کی اختراع کی وجہ سے کمل کی کھیتی اور ٹیکسٹائل میں ایک نیا راستہ بن گیا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، میں آپ کو ماضی کے ایک حصے میں لے جانا چاہتا ہوں۔ یہ ایک سو سال پرانی بات ہے۔ 1919 ء کا سال تھا۔ جلیانوالا باغ میں برطانوی حکومت نے بے گناہ لوگوں کو قتل عام کیا تھا۔ اس قتل عام کے بعد ، ایک بارہ سالہ لڑکا جائے وقوع پر گیا۔ وہ خوشگوار اور چنچل بچہ ، تاہم ، اس نے جلیانوالا باغ میں جو کچھ دیکھا ، وہ اس کے تصور سے بالاتر تھا۔ وہ حیران رہ گیا ، حیرت سے کہ کوئی بھی اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ معصوم غصے کی آگ میں جلنے لگا ۔ اسی جلیانوالہ باغ میں ، اس نے انگریزی حکومت کے خلاف لڑنے کی قسم کھائی ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں؟ جی ہاں! میں شہید ویر بھگت سنگھ کی بات کر رہا ہوں۔ کل ، 28 ستمبر کو ، ہم شہید ویر بھگت سنگھ کی یوم پیدائش منائیں گے۔ میں ، تمام شہریوں کے ساتھ ، شہید ویر بھگت سنگھ ، جو بہادری اور بہادری کی علامت ہے ، کو سلام کرتا ہوں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں ، ایسی حکومت ، جس نے دنیا کے اتنے بڑے حصے پر حکمرانی کی ، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی حکومت میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا ۔ اتنی طاقتور حکومت کو 23 سالہ شخص نے خوفزدہ کردیا۔ شہید بھگت سنگھ با ہمت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھے ، مفکر تھے ۔ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر ، بھگت سنگھ اور ان کے انقلابی ساتھیوں نے ایسے جرات مندانہ کام انجام دیئے ، جس کا ملک کی آزادی میں بہت بڑا تعاون تھا ۔ شہید ویر بھگت سنگھ کی زندگی کا ایک اور خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ ٹیم ورک کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے ۔ لالہ لاجپت رائے کے تئیں اُن کی لگن ہو یا چندر شیکھر آزاد ، سکھ دیو ، راج گرو سمیت انقلابیوں کے ساتھ ، اُن کا اتحاد ، اُن کے لئے کبھی ذاتی فخر کبھی اہم نہیں رہا ۔ وہ جب تک جئے ، صرف ایک مشن کے لئے جئے اور اسی کے لئے انہوں نے اپنی قربانی دے دی – وہ مشن تھا ، بھارت کو نا انصافی اور انگریزی حکمرانی سے آزادی دلانا ۔ میں نے نمو ایپ پر حیدر آباد کے اجے ایس جی کا ایک کمنٹ پڑا ۔ اجے جی لکھتے ہیں – آج کے نو جوان کیسے بھگت سنگھ جیسے بن سکتے ہیں ۔ دیکھئے ، ہم بھگت سنگھ بن پائیں یا نہ بن پائیں لیکن بھگت سنگھ جیسی حب الوطنی ، ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ضرور ہم سب کے دلوں میں ہے ۔ شہید بھگت سنگھ کو یہ ہمارا سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔ 4 سال پہلے تقریباً یہی وقت تھا ، جب سرجیکل اسٹرائک کے دوران دنیا نے ہمارے جوانوں کے حوصلے ، بہادری اور بے خوفی کا مشاہدہ کیا ۔ ہمارے بہادر فوجیوں کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی ہدف تھا ، ہر قیمت پر بھارت ماتا کے فخر اور عزت کا دفاع کرنا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی ۔ وہ اپنے فرض کے راستے پر آگے بڑھتے گئے اور ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح وہ فاتح ہوکر سامنے آئے ۔ بھارت ماتا کے فخر میں اضافہ کیا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آنے والے دنوں میں ہم کئی عظیم لوگوں کو یاد کریں گے ، جن کا بھارت کی تعمیر میں بہ بھلایا جانے والا تعاون ہے ۔ 2 اکتوبر ہم سب کے لئے مقدس ہے اور تحریک دلانے والا دن ہے ۔ یہ دن مادر وطن کے 2 سپوتوں ، مہاتما گاندھی اور لال بہادر شاستری کو یاد کرنے کا دن ہے ۔
پوجیا باپو کے افکار اور نظریات آج کے مقابلے میں آج پہلے سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ، مہاتما گاندھی کی معاشی سوچ ، اگر اس جذبے کو پکڑا جاتا ، سمجھا جاتا ، اسی راہ پر گامزن ہوتا ، تب ، آج خود انحصاری ہندوستان مہم کی ضرورت ہے گر نہیں ہوتا ہے۔ گاندھی کی معاشی سوچ کو ہندوستان کے اعصاب ، ہندوستان کی خوشبو کی سمجھ تھی۔ پوجیا باپو کی زندگی ہمیں اس بات کی یاد دلانے کی یاد دلاتی ہے کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ غریبوں کے غریب لوگوں کے مفاد کے لئے کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ، شاستری کی زندگی ہمیں عاجزی اور سادگی کا پیغام دیتی ہے۔ 11 اکتوبر کا دن بھی ہمارے لئے خاص ہے۔ اس دن ہم بھارت رتن لوک ہیرو جئے پرکاش جی کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یاد کرتے ہیں۔ جے پی نے ہماری جمہوری اقدار کے تحفظ میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں ہندوستان رتن ناناجی دیشمکھ بھی یاد ہے ، جن کی یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہے۔ نانا جی دیشمکھ جئے پرکاش نارائن جی کے بہت قریبی ساتھی تھے۔ جب جے پی بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے تو پٹنہ میں اس پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ پھر ، ناناجی دیشمکھ نے خود جنگ لڑ لی۔ اس حملے میں نانا جی کو شدید چوٹ پہنچی تھی ، لیکن ، وہ جے پی کی جان بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ یہ 12 اکتوبر راجماتا وجئےارجے سنڈیا جی کی یوم پیدائش بھی ہے ، انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ وہ ایک شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ، اسے جائیداد ، طاقت اور دیگر وسائل کی کمی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی ، اس نے اپنی زندگی ، ایک ماں کی طرح ، عوامی مفاد میں ، عوامی خدمت کے لئے صرف کی۔ اس کا دل بہت فراخ دل تھا۔ یہ 12 اکتوبر ان کے یوم پیدائش کے سو سالہ سال کی تقریبات کا اختتامی دن ہوگا اور آج جب میں راجماتا جی کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو مجھے بھی ایک بہت ہی جذباتی واقعہ یاد آیا۔ ویسے ، مجھے اس کے ساتھ کئی سالوں تک کام کرنے کا موقع ملا ، بہت سارے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن ، مجھے لگتا ہے ، آج ، مجھے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ہوگا۔ کنیاکماری سے کشمیر تک ، ہم ایکتا یاترا کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ سفر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی سربراہی میں جاری تھا۔ دسمبر ، جنوری سرد دن تھے۔ ہم مدھیہ پردیش کے گوالیار ، رات بارہ بجے کے قریب شیوپوری پہنچے ، ٹھکانے جاتے ہوئے ، کیوں کہ ، دن بھر تھکن ہوتی تھی ، نہاتے اور سوتے تھے ، اور صبح کی تیاری کرتے تھے۔ 2 بجے کے قریب ، میں نہانے اور سونے کی تیاری کر رہا تھا ، پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو سامنے راجماتا صاحب کھڑے تھے۔ کڑوی سردی اور راجمتا صاحب کو دیکھ کر میں حیران ہوا۔ میں نے ماں کو سجدہ کیا ، میں نے کہا ، آدھی رات میں ماں! انہوں نے کہا ، نہیں بیٹا ، تم یہ کرو مودی جی ، دودھ پی لو اور گرم دودھ پی کر سو جاؤ۔ خود ہلدی کا دودھ لے کر آیا تھا۔ ہاں ، لیکن جب ، دوسرے دن ، میں نے دیکھا ، وہ صرف میں ہی نہیں تھا ، ہمارے سفر کے انتظامات میں ، 30-40 افراد تھے ، ڈرائیور تھے ، اور خود بھی ، ہر کمرے میں جانے والے کارکن تھے۔ رات کے 2 بجے سب کو دودھ چھڑوایا۔ ماں کی محبت کیا ہے ، واٹسالیہ کیا ہے ، میں اس واقعے کو کبھی نہیں بھول سکتا ہوں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ایسی عظیم شخصیات نے اپنی قربانی اور توبہ سے ہماری زمین کو پانی پلایا۔ آؤ ، آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا ہندوستان تشکیل دیں جس پر یہ عظیم آدمی فخر محسوس کریں۔ ان کے خوابوں کو ان کی قراردادیں بنائیں۔
محترم باپو کے خیالات اور اصول آج پہلے سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ۔ مہاتما گاندھی کی ، جو اقتصادی فکر تھی ، اگر اُس جذبے پر کام کیا گیا ہوتا ، سمجھا گیا ہوتا ، اُس راستے پر چلا گیا ہوتا تو آج خود کفیل بھارت مہم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ گاندھی جی کی اقتصادی فکر میں بھارت کی نس نس کی سمجھ تھی ، بھارت کی خوشبو تھی ۔ مہاتما کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارا ہر کام ایسا ہو ، جس سے غریب سے غریب تر شخص کا بھلا ہو ۔ وہیں شاستری جی کی زندگی ہمیں انکسار اور سادگی کا پیغام دیتی ہے ۔ 11 اکتوبر کا دن بھی ہمارے لئے بہت خاص ہوتا ہے ۔ اس دن ہم بھارت رتن لوک نائک جے پرکاش جی کو ، اُن کے یومِ پیدائش پر یاد کرتے ہیں ۔ جے پی نے ہماری جمہوریت کی اقدار کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ہم بھارت رتن نانا جی دیش مکھ کو بھی یاد کرتے ہیں ، جن کا یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہی ہے ۔ نانا جی دیش مکھ ، جے پرکاش نارائن جی کے بہت قریبی ساتھی تھے ۔ جب جے پی بد عنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے ، تو پٹنہ میں اُن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ تب نانا جی دیش مکھ نے ، وہ وار اپنے اوپر لے لیا تھا ۔ اس حملے میں نانا جی کو کافی چوٹ لگی تھی لیکن جے پی کی زندگی بچانے میں وہ کامیاب رہے ۔ اس 12 اکتوبر ، راج ماتا وجے راجے سندھیا جی کا بھی یومِ پیدائش ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں وقف کر دی ۔ وہ ایک شاہی خاندان سے تھیں ۔ اُن کے پاس دولت ، طاقت اور دیگر وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی ایک ماں کی طرح ممتا کے جذبے سے عوامی خدمت کے لئے وقف کر دی ۔ ان کا دل بہت نرم تھا ۔ اس 12 اکتوبر کو ان کی یومِ پیدائش کا صد سالہ تقریبات کا اختتام کا دن ہو گا اور آج جب میں راج ماتا جی کی بات کر رہا ہوں تو مجھے بھی ایک بہت ہی جذباتی واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ ویسے تو اُن کے ساتھ بہت سالوں تک کام کرنے کا موقع ملا ، کئی واقعات ہیں ، لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ ایک واقعہ کا ذکر کروں ۔ کنیا کماری سے کشمیر ، ہم اتحاد ی یاترا لے کر نکلے تھے ۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جی کی قیادت میں یاتر ا چل رہی تھی ۔ دسمبر ، جنوری ، سخت سردی کے دن تھے ۔ ہم رات کو تقریباً بارہ ایک بجے مدھیہ پردیش میں گوالیار کے پاس شیو پوری پہنچے ۔ ٹھہرنے کی جگہ پر جاکر ، کیونکہ دن بھر کی تھکان ہوتی تھی ، نہا دھوکر سوتے تھے اور صبح ہی تیاری کر لیتے تھے ۔ تقریباً 2 بجے ہوں گے ، میں نہا دھوکر سونے کی تیاری کر رہا تھا ، تو دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا ۔ میں نے دروازہ کھولا تو راج ماتا صاحب سامنے کھڑی تھیں ۔ سخت سردی میں اور راج ماتا صاحب کو دیکھ کر میں حیران تھا ۔ میں نے ماں کو پرنام کیا ، میں نے کہا ، ماں آدھی رات میں : بولیں کہ نہیں بیٹا ۔ آپ ایسا کرو ، مودی جی دودھ پی لیجئے ۔ یہ گرم دودھ پی کر سو جائیے ۔ ہلدی والا دودھ لے کر خود آئیں ۔ ہاں ، لیکن جب دوسرے دن میں نے دیکھا ، وہ صرف مجھے ہی نہیں ہماری یاترا میں ، جو 30 – 40 لوگ تھے ، اُس میں ڈرائیور بھی تھے اور بھی ورکر تھے ، ہر ایک کے کمرے میں جاکر خود نے رات کو دو بجے سب کو دودھ پلایا ۔ ماں کا پیار کیا ہوتا ہے ، ممتا کیا ہوتی ہے ، اس واقعہ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ یہ ہماری خوشی قسمتی ہے ، کہ ایسی مہان شخصیتوں نے ہماری سر زمین کو اپنے تیاگ اور تپسیا سے سینچا ہے ۔ آئیے ، ہم سب مل کر کے ایک ایسے بھارت کی تعمیر کریں ، جس پر ان عظیم شخصیتوں کو فخر ہو ، اُن کے خوابوں کو اپنا عہد بنائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کورونا کے اِس وبائی دور میں ، میں پھر ایک بار آپ کو یاد کراؤں گا ، ماسک ضرور رکھیں ، فیس کور کے بغیر باہر نہ جائیں ، دو گز کی دوری کا اصول آپ کو بھی بچا سکتا ہے ، آپ کے خاندان کو بھی بچا سکتا ہے ۔ یہ کچھ اصول ہیں ، اس کورونا کے خلاف ، لڑائی کے ہتھیار ہیں ، ہر شہری کی زندگی کو بچانے کا مضبوط ذریعہ ہیں اور ہم نہ بھولیں ، جب تک دوائی نہیں ، تب تک ڈھیلائی نہیں ۔ آپ صحت مند رہیں ، آپ کا خاندان صحت مند رہے ، انہی نیک خواہشات کے ساتھ ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار!
عام طور پر یہ وقت اُتسو کا ہوتا ہے، جگہ جگہ میلے لگتے ہیں، مذہبی پوجا پاٹھ ہوتے ہیں، کورونا کے اس مشکل دور میں لوگوں میں امنگ تو ہے اُتساہ بھی ہے لیکن ہم سب کے من کو چھو جائے ویسا ڈسپلن بھی ہے۔ بہت ایک روپ میں دیکھا جائے تو شہریوں میں ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ لوگ اپنا دھیان رکھتے ہوئے، دوسروں کا دھیان رکھتے ہوئے اپنے روز مرہ کےکام بھی کررہے ہیں۔ ملک میں ہورہے ہر پروگرام میں جس طرح کی قوت برداشت اور سادگی اس بار دیکھی جارہی ہے وہ غیرمعمولی ہے۔ گنیش اُتسو بھی کہیں آن لائن منایا جارہا ہے تو زیادہ تر جگہوں پر اس بار ایکو فرینڈلی گنیش جی کامجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ ساتھیو، ہم بہت باریکی سے اگر دیکھیں گے تو ایک بار ضرور ہمارے ذہن میں آئے گی، ہمارے تہوار اور ماحولیات ان دونوں کے درمیان ایک بہت گہرا ناطہ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ہمارے تہواروں میں ماحولیات اور فطرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا پیغام چھپا ہوتا ہے تو دوسری جانب کئی سارے تہوار فطرت کے تحفظ کیلئے ہی منائے جاتے ہیں۔ جیسے بہار کے مغربی چمپارن میں صدیوں سے تھارو آدیواسی سماج کے لوگ 60 گھنٹے کے لاک ڈاؤن یا ان کے ہی الفاظ میں کہیں تو 60 گھنٹے کے برنا کا پالن کرتے ہیں۔ فطرت کے تحفظ کیلئے برنا کو تھارو سماج نے اپنی روایت کاحصہ بنالیا ہے اور صدیوں سے بنایا ہے۔ اس دوران نہ کوئی گاؤں میں آتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے گھروں سے باہر نکلتا ہے اور لوگ مانتے ہیں کہ اگر وہ باہر نکلے یا کوئی باہر سے آیا تو ان کے آنے جانے سے لوگوں کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے نئے پیڑ پودوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ برنا کی شروعات میں شاندار طریقے سے ہمارے آدیواسی بھائی بہن پوجاپاٹھ کرتے ہیں اور اس کے اختتام پر آدیواسی روایت کے گیت، سنگیت، رقص جم کرکے اس کے پروگرام بھی ہوتے ہیں۔
ساتھیو، ان دنوں اونم کا تہوار بھی دھوم دھام سے منایاجارہا ہے۔ یہ تہوار چن گم مہینے میں آتا ہے، اس دوران لوگ کچھ نیا خریدتے ہیں، اپنے گھروں کو سجاتے ہیں، کوک کلم بناتے ہیں، اونم – سادیہ کا لطف لیتے ہیں۔ طرح طرح کے کھیل اور مسابقے بھی ہوتے ہیں۔ اونم کی دھوم تو آج دور دراز ملکوں تک پہنچی ہوئی ہے، امریکہ ہو ، یورپ ہو یا خلیجی ملک ہوں اونم کا جشن آپ کو ہر جگہ مل جائے گا۔ اونم ایک انٹرنیشنل فیسٹول بنتا جارہا ہے۔
ساتھیو، اونم ہماری زراعت سے جڑا ہوا تہوار ہے، یہ ہماری دیہی معیشت کیلئے بھی ایک نئی شروعات کا وقت ہوتا ہے۔ کسانوں کی طاقت سے ہی تو ہماری زندگی، ہمارا سماج چلتا ہے، ہمارے تہوار کسانوں کی محنت سے ہی رنگ برنگے بنتے ہیں۔ ہمارے اَن داتا کو کسانوں کی زندگی دینے والی طاقت کو تو ویدوں میں بھی بہت فخریہ طور سے سلام کیا گیا ہے۔ رگ وید میں ایک منتر ہے۔
اَنّا نم پتائے نماہ
چھیترا نام پتائے نماہ
جس کا مطلب ہے اَن داتا کو سلام ہے ، کسان کو سلام ہے۔ ہمارے کسانوں نے کورونا کےاس مشکل حالات میں بھی اپنی طاقت کو ثابت کیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس بار خریف کی فصل کی بوائی پچھلے سال کے مقابلے سات فیصد زیادہ ہوئی ہے۔
دھان کی روپائی اس بار تقریباً 10فیصد ، دالیں لگ بھگ 5فیصد، موٹے اناج لگ بھگ 3 فیصد، تلہن لگ بھگ 13فیصد، کپاس لگ بھگ 3فیصد زیادہ بوئی گئی ہے۔ میں اس کے لئے ملک کے کسانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ان کی محنت کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوٍ! کورونا کے اس دور میں ملک کئی مورچے پر ایک ساتھ لڑرہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی بار من میں یہ بھی سوال آتا رہا کہ اتنے لمبے عرصے تک گھروں میں رہنے کے سبب میرے چھوٹے چھوٹے بچے دوستوں کا وقت کیسے گزرتا ہوگا اور اسی سے میں نے گاندھی نگر کی چلڈرن یونیورسٹی جو دنیا میں ایک الگ طرح کا پریوگ ہے۔ حکومت ہند کی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، تعلیم کی وزارت ، بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کی وزارت ان سبھی کے ساتھ ملکر ہم بچوں کیلئے کیاکرسکتے ہیں، اس پر غور وفکر کیا۔ میرے لیے یہ بہت خوش آئند تھا۔ فائدے مند بھی تھا کیوں کہ ایک طرح سے یہ میرے لیے بھی کچھ نیا جاننے کانیا سیکھنے کا موقع بن گیا۔
ساتھیو، ہمارے غور وفکر کا موضوع تھا کھلونے اور بالخصوص ہندوستانی کھلونے۔ ہم نے اس بات پر غور وفکر کیا کہ ہندوستان کے بچوں کو نئے نئے کھلونے کیسے ملے ، ہندوستان ٹوائے پروڈکشن کابہت بڑا ہب کیسے بنے، ویسے میں، من کی بات سن رہے بچوں کے ماں باپ سے معافی مانگتا ہوں کیوں کہ ہوسکتا ہے انہیں اب یہ من کی بات سننے کے بعد کھلونوں کی نئی نئی مانگ سننے کا شاید ایک نیا کام سامنے آجائیگا۔
ساتھیو، کھلونے جہاں ایکٹیویٹی کو بڑھانے والے ہوتے ہیں تو کھلونے ہماری آرزوؤں کو بھی اُڑان دیتے ہیں۔ کھلونے صرف من ہی نہیں بہلاتے،کھلونے من بناتے بھی ہیں اور مقصد گڑھتے بھی ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ کھلونوں کے معاملے میں گرو دیورابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ بہترین کھلونا وہ ہوتا ہے جو نامکمل ہو۔ ایسا کھلونا جو ادھورا ہو اور بچے مل کر کھیل کھیل میں اسے پورا کریں۔ گرو دیو ٹیگور نے کہا تھا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو خود کے تصور سے گھر میں ملنے والے سامانوں سے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے کھلونے اور کھیل بنایا کرتے تھے لیکن ایک دن بچپن کے ان موج مستی بھرے پلوں میں بڑوں کا دخل ہوگیا۔ ہوایہ تھا کہ ان کا ایک ساتھی ، ایک بڑا اور سندر سا غیرملکی کھلونا لیکر آگیا۔ کھلونے کو لیکر اتراتے ہوئے اب سب ساتھی کا دھیان کھیل سے زیادہ کھلونے پر رہ گیا۔ ہر کسی کے توجہ کا مرکز کھیل نہیں رہا،کھلونا بن گیا۔ جو بچہ کل تک سب کے ساتھ کھیلتا تھا، سب کے ساتھ رہتا تھا، گھل مل جاتا تھا، کھیل میں ڈوب جاتا تھا وہ اب دور رہنے لگا۔ ایک طرح سے باقی بچوں سے بھید کا بھاؤ اس کے من میں بیٹھ گیا۔ مہنگے کھلونے میں بنانے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا، سیکھنے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا۔ یعنی ایک جاذب نظر کھلونے نے ایک متجسس بچے کو کہیں دبا دیا، چھپادیا، مرجھا دیا۔ اس کھلونے نے دولت کا، جائیداد کا، ذرا برکپن کی نمائش کرلی لیکن اس بچے کے تخلیقی جذبے کو بڑھنے اور سنورنے سے روک دیا۔ کھلونا تو آگیا پر کھیل ختم ہوگیا اور بچے کا کھلنا بھی کھوگیا۔ اس لئے گرودیو کہتے تھے کہ کھلونے ایسے ہونے چاہئے جو بچے کے بچپن کو باہر لائے اس کی تخلیقیت کو سامنے لائے۔ بچوں کی زندگی کے الگ الگ پہلو پر کھلونوں کا جو اثر ہے اس پر قومی تعلیمی پالیسی میں بھی بہت دھیان دیا گیا ہے۔ کھیل کھیل میں سیکھنا، کھلونے بنانا سیکھنا، کھلونے جہاں بنتے ہیں وہاں کی وِزٹ کرنا، ان سب کو تعلیمی نصاب کاحصہ بنایا گیا ہے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں لوکل کھلونوں کی بہت عظیم روایت رہی ہے، کئی ہنرمند اور ماہر کاریگر ہیں جو اچھے کھلونے بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے کچھ علاقے ٹوائے کلسٹر یعنی کھلونوں کے مرکز کے طور پر بھی ترقی پارہے ہیں۔ جیسے کرناٹک کے رام نگرم میں چنّاپٹنا، آندھرا پردیش کے کرشنا میں کنڈاپلی، تملناڈو میں تنجور، آسام میں ڈھبری، اترپردیش کا وارانسی کئی ایسی جگہ ہیں، کئی نام گنا سکتے ہیں، آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ عالمی کھیلوں کی صنعت 7 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کی ہے۔ سات لاکھ کروڑ روپئے کا اتنا بڑا کاروبار لیکن ہندوستان کا حصہ اس میں بہت کم ہے۔
اب آپ سوچئے کہ جس ملک کے پاس اتنی وراثت ہو، روایت ہو، تنوع ہو، نوجوان آبادی ہو، کیا کھلونوں کے بازار میں اس کی حصے داری اتنی کم ہونی، ہمیں اچھا لگے گاکیا، جی نہیں۔ یہ سننے کے بعد آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔ دیکھئے ساتھیو، کھیلوں کی صنعت بہت وسیع ہے ۔ گھریلو صنعت ہو، چھوٹے اور بہت چھوٹی صنعت ہو، ایم ایس ایم ای ہو، اس کے ساتھ ساتھ بڑی صنعت اور نجی صنعت بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسے آگے بڑھانے کیلئے ملک کو ملکر محنت کرنی ہوگی۔ اب جیسے آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم میں سری مان سی وی راجو ہیں، ان کے گاؤں کے اے پی- کوپکا ٹوائس ایک وقت میں بہت مقبول تھے۔ ان کی خاصیت یہ تھی کہ یہ کھلونے لکڑی سے بنتے تھے اور دوسری بات یہ کہ ان کھلونوں میں آپ کو کہیں کوئی اینگل یا کون نہیں ملتا تھا۔ یہ کھلونے ہر طرف سے راؤنڈ ہوتے تھے اس لئے بچوں کو چوٹ کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ سی وی راجو نے اے پی کوپکا ٹوائس کیلئے اب اپنے گاؤں کے کاریگروں کے ساتھ ملکر ایک طرح سےنئی تحریک شروع کردی ہے۔ بہترین کوالٹی کے اے پی کوپکا ٹوائز بناکر سی وی راجو نے مقامی کھلونوں کی کھوئی ہوئی عزت کو واپس لادیا ہے۔ کھلونوں کے ساتھ ہم دو چیزیں کرسکتے ہیں۔ اپنے قابل فخر ماضی کو اپنی زندگی میں پھر سے اتار سکتے ہیں اور اپنے سنہرے مستقبل کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپ دوستوں کو اپنے نئے صنعت کاروں سے کہتاہوں، ٹیم اپ فار ٹوائز، آئیے ملکر کھلونے بنائیں۔ ہم سبھی کیلئے لوکل کھلونوں کیلئے ووکل ہونے کا وقت ہے۔ آئیے ہم اپنے نوجوانوں کیلئے کچھ نئے قسم کے اچھی کوالٹی والے کھلونے بناتے ہیں۔ کھلونا وہ ہو جس کی موجودگی میں بچپن کھلے بھی، کھلکھلائے بھی۔ ہم ایسے کھلونے بنائیں جو ماحولیات کے بھی موافق ہوں۔
ساتھیو، اسی طرح اب کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کے اس زمانے میں کمپیوٹر گیمس کا بھی بہت ٹرینڈ ہے۔ یہ گیمس بچے بھی سیکھتے ہیں، بڑے بھی کھیلتے ہیں ، لیکن ان میں بھی جتنے گیمس ہوتے ہیں ان کی تھیم بھی زیادہ تر باہر کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اتنے آئیڈیاز ہیں، اتنے تصورات ہیں، بہت مضبوط ہماری تاریخ رہی ہے۔ کیا ہم ان پر گیمس بناسکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوان ٹیلنٹ سے کہتا ہوں آپ بھارت میں بھی گیمس بنائیے اور بھارت کے بھی گیمس بنائیے۔ کہا بھی جاتا ہے لیٹ دی گیمس بیگن ، تو چلو کھیل شروع کرتے ہیں۔
ساتھیو، آتم نربھر بھارت ابھیان میں ورچوول گیمس ہوں، ٹوائز کا سیکٹر ہو، سب کو بہت اہم کردار نبھانی ہے اور یہ موقع بھی ہے۔ جب آج سے 100 برس پہلے عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی تو گاندھی جی نے لکھا تھا کہ ‘‘عدم تعاون کی تحریک ہم وطنوں میں عزت نفس اور اپنی طاقت بتلانے کی ایک کوشش ہے’’۔
آج جب ہم ملک کو آتم نربھر بنانے کی کوشش کررہے ہیں تو پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہر علاقے میں ملک کو آتم نربھر بنانا ہے۔ تحریک عدم تعاون کی شکل میں جو بیج بویا گیا تھا اب آتم نربھر بھارت کے تن آور درخت میں اضافہ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستانیوں کے انّوویشن اور سولوشن دینے کی صلاحیت کا لوہا ہر کوئی مانتا ہے اور جب مکمل جذبہ ہو، سمویدنا ہو تو یہ طاقت عظیم بن جاتی ہے۔ اس مہینے کی شروعات میں ملک کے نوجوانوں کے سامنے ایک ایپ انّوویشن چیلنج رکھا گیا۔ اس آتم نربھر بھارت ایپ انّوویشن چیلنج میں ہمارے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ قریب 7 ہزار انٹریز آئی، اس میں بھی قریب قریب دو تہائی ایپس ٹیئرٹو اور ٹیئر تھری شہروں کے نوجوانوں نے بنائے ہیں۔ یہ آتم نربھر بھارت کے لئے ملک کے مستقبل کیلئے بہت ہی خوش آئند ہیں۔ آتم نربھر ایپ انّوویشن چیلنج کے نتائج دیکھ کر آپ ضرور متاثر ہوں گے۔ کافی جانچ پرکھ کے بعد الگ الگ کٹیگری میں لگ بھگ دو درجن ایپس کو ایوارڈ بھی دیے گئے ہیں۔ آپ ضرور ان ایپس کے بارے میں جانیں اور ان سے جڑیں ہوسکتا ہے آپ بھی ایسا کچھ بنانے کیلئے حوصلہ پاجائیں۔ ان میں ایک ایپ ہے اوٹوکی، کڈس،لرننگ ایپ، یہ چھوٹے بچوں کیلئے ایسا انٹرایکٹیو ایپ ہے جس میں گانوں اور کہانیوں کے ذریعے بات بات میں ہی بچے میتھ سائنس میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس میں ایکٹیویٹیز بھی ہیں،کھیل بھی ہیں، اسی طرح ایک مائیکروبلاگنگ پلیٹ فارم کا بھی ایپ ہے جس کا نام ہے کو-کے او او کو، اس میں ہم اپنی مادری زبان میں ٹیکس ویڈیو اور آڈیو کے ذریعے اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح چنگاری ایپ بھی نوجوانوں کے درمیان کافی مقبول ہورہا ہے۔ ایک ایپ ہے آسک سرکار، اس میں چیٹ بورڈ کے ذریعے آپ انٹرایکٹ کرسکتے ہیں اور کسی بھی سرکاری یوجنا کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ بھی ٹیکس آڈیو اور ویڈیو تینوں طریقے سے یہ آپ کی بڑی مدد کرسکتا ہے۔ ایک اور ایپ ہے اسٹیپ سیٹ گو، یہ فٹنیس ایپ ہے ، آپ کتنا چلے، کتنی کیلوریز برن کی، یہ سارا حساب یہ ایپ رکھتا ہے اور آپ کو فٹ رہنے کیلئے تحریک بھی دیتا ہے۔ میں نے یہ کچھ ہی مثال دیے ہیں ، کئی اور ایپس نے بھی اس چیلنج کو جیتا ہے۔ کئی بزنس ایپس ہیں، گیمس ک ایپ ہیں جیسے اِز ایکول ٹو ،بکس اینڈ اسپینس، زوہو، ورک پلیس، ایف ٹی سی ٹیلنٹ، آپ ان کے بارے میں نیٹ پر سرچ کریئے آپ کو بہت جانکاری ملے گی۔ آپ بھی آگے آئیے، کچھ انّوویٹ کریں، کچھ ایمپلی مینٹ کریں آپ کی کوشش آج کے چھوٹے چھوٹے اسٹارٹ اپس کل بڑی بڑی کمپنیوں میں بدلیں گے اور دنیا میں بھارت کی پہچان بنیں گے اور آپ یہ مت بھولیے کہ آج جو دنیا میں بہت بڑی بڑی کمپنیاں نظرآتی ہیں نا، یہ بھی کبھی اسٹارٹ اپ ہوا کرتی تھی۔
پیارے ہم وطنو! ہمارے یہاں کے بچے ، ہمارے طلباء اپنی پوری طاقت دکھا پائیں، اپنی قوت دکھا پائیں، اس میں بہت بڑا رول نیوٹریشن کا بھی ہوتا ہے، تغذیہ کا بھی ہوتا ہے ، پورے ملک میں ستمبر مہینے کو تغذیے کا مہینہ نیوٹریشن منتھ کی شکل میں منایا جائیگا، نیشن اور نیوٹریشن کا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے ، یتھا انّم تتھا منّم، یعنی جیسی غذا ہوتی ہے ویسی ہی ہماری ذہنی اور دماغی ترقی بھی ہوتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو رحم میں اور بچپن میں جتنی اچھی غذا ملتی ہے اتنا اچھا اس کی ذہنی ترقی ہوتی ہے اور صحتمند رہتا ہے۔ بچوں کے تغذیے کےلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ماں کو بھی پوری غذا ملے اور تغذیہ یا نیوٹریشن کامطلب صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ آپ کیا کھا رہے ہیں ، کتنا کھا رہے ہیں، کتنی بار کھا رہے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ کے جسم کو کتنے ضروری غذائی اجزاء، نیوٹرینس مل رہے ہیں۔ آپ کو آئرن کیلشیم مل رہے ہیں یا نہیں،سوڈیم مل رہا ہے یا نہیں، وٹامنس مل رہے ہیں یا نہیں، یہ سب نیوٹریشن کے بہت اہم پہلو ہیں۔ نیوٹریشن کی اس مہم میں عوامی شراکت داری بھی بہت ضروری ہے۔ عوامی شراکت داری ہی اس کو کامیاب بناتی ہے۔پچھلے کچھ برسوں میں اس سمت میں ملک میں کافی کوششیں کی گئیں۔ خاص کر ہمارے گاؤں میں اسے جن بھاگیداری سے جن آندولن بنایاجارہا ہے۔ تغذیہ ہفتہ ہو، تغذیہ ماہ ہو، ان کے ذریعے سے زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کی جارہی ہے۔ اسکولوں کو جوڑا گیا ہے۔ بچوں کیلئے مقابلے ہوں، ان میں بیداری بڑھے، اس کے لئے بھی لگاتار کوشش جاری ہے۔ جیسے کلاس میں ایک کلاس مانیٹر ہوتاہے اسی طرح نیوٹریشن مانیٹر بھی ہو۔ رپورٹ کارڈ کی طرح نیوٹریشن کارڈ بھی بنے اس طرح کی بھی شروعات کی جارہی ہے۔ تغذیہ ماہ نیوٹریشن منتھ کے دوران MyGov پورٹل پر ایک فوڈ ا ور نیوٹریشن کوئز کا بھی انعقاد کیاجائیگا اور ساتھ ہی ایک میم مسابقہ بھی ہوگا، آپ خود شرکت کریں اور دوسروں کو بھی تحریک دیں۔
ساتھیو، اگر آپ کو گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اسٹیچو آف یونٹی،مجسمہ اتحاد جانے کا موقع ملا ہوگا اور کووڈ کے بعد جب وہ کھلے گا اور آپ کو جانے کا موقع ملے گا تو وہاں ایک نادر قسم کا نیوٹریشن پارک بنایا گیا ہے، کھیل کھیل میں ہی نیوٹریشن کی تعلیم لطف کے ساتھ وہاں ضرور دیکھ سکتے ہیں۔
ساتھیو، بھارت ایک عظیم ملک ہے ، کھان پان میں ڈھیر ساری تنوع ہے ، ہمارے ملک میں چھ الگ الگ موسم ہوتےہیں،الگ الگ علاقوں میں وہاں کے موسم کے لحاظ سے الگ الگ چیزیں پیداہوتی ہیں، اس لئے یہ بہت ہی اہم ہے کہ ہر علاقے کے موسم وہاں کے مقامی کھانے اور وہاں پیدا ہونے والے اناج، پھل، سبزیوں کے مطابق ایک تغذیہ سے بھرپور ڈائٹ پلان بنے۔ اب جیسے ملیٹس موٹے اناج راگی ہے، جوار ہے یہ بہت فائدے مند تغذیاتی غذا ہے۔ ایک بھارتی کرشی کوش تیار کیا جارہا ہے اس میں ہمارے ایک ضلع میں کیا کیا فصل ہوتی ہے ان کی تغذیاتی ویلو کتنی ہے اس کی پوری جانکاری ہوگی۔ یہ آپ سب کیلئے بڑے کام کا کوش ہوسکتا ہے۔ آئیے تغذیہ ماہ میں غذائیت سے بھرپور کھانے اور صحتمند رہنے کیلئے ہم سبھی کو ترغیب دیں۔
پیارے ہم وطنو، بیتے دنوں جب ہم اپنا یوم آزادی منارہے تھے تب ایک دلچسپ خبر پر میرا دھیان گیا۔ یہ خبر ہے ہمارے سیکورٹی فورسز کے دو جانباز کرداروں کی، ایک ہے سوفی اور دوسرا وِدا، سوفی اور وِدا انڈین آرمی کے ڈاگس ہیں اور انہیں چیف آف آرمی اسٹاف کمنڈیشن کارڈس سے نوازا گیا ہے۔ سوفی اور وِدا کو یہ اعزاز اسلئے ملا کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔ ہماری افواج میں ہمارے سیکورٹی فورسز کے پاس ایسے کتنے ہی بہادر ڈاگس ہیں جو ملک کے لئے جیتے ہیں اور ملک کے اپنی قربانی بھی دیتے ہیں۔ کتنے ہی بم دھماکوں کو، کتنی ہی دہشت گردانہ سازشوں کو روکنے میں ایسے ڈاگس نے بہت اہم رول نبھایا ہے۔ کچھ وقت پہلے مجھے ملک کی سیکورٹی میں ڈاگس کے رول کے بارے میں نہایت تفصیل سے جاننے کو ملا، کئی قصے بھی سنے، ایک ڈاگ بلرام نے 2006 میں امرناتھ یاترا کے راستے میں بڑی مقدار میں گولہ بارود کھوج نکالا تھا۔ 2002 میں ڈاگ بھاؤنا نے آئی ای ڈی کھوجا تھا، آئی ای ڈی نکالنے کے دوران دہشت گردوں نے دھماکہ کردیا اور ڈاگ شہید ہوگئے۔ دو تین برس پہلے چھتیس گڑھ کے بیجا پور میں سی آر پی ایف کا اسنیفر ڈاگ ‘‘کریکر’’ بھی آئی ای ڈی بلاسٹ میں شہید ہوگیا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی آپ نے شاید ٹی وی پر ایک بڑا جذباتی بنا دینے والا منظر دیکھا ہوگا جس میں بیڈ پولیس اپنے ساتھی ڈاگ راکی کو پورے اعزاز کے ساتھ آخری وداعی دے رہی تھی۔ راکی نے 300 سے زیادہ کیسوں کو سلجھانے میں پولیس کی مدد کی تھی، ڈاگس کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور رسکیو مشن میں بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ بھارت میں تو نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس این ڈی آر ایف نے ایسے درجنوں ڈاگس کو خصوصی طور پر ٹرینڈ کیا ہے۔ کہیں زلزلہ آنے پر عمارت گرنے پر ملبے میں دبے زندہ لوگوں کو کھوج نکالنے میں یہ ڈاگس بہت ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔
ساتھیو، مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ انڈین بریڈ کے ڈاگس بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، بہت اہل ہوتے ہیں ، انڈین بیڈس میں موگھول ہاؤنڈ ہیں، ہماچلی ہاؤنڈ ہیں،یہ بہت ہی اچھی نسلیں ہیں۔ راجا پلایم، کنّی چپی پرائی اور کومبائی بھی بہت شاندار انڈین بریڈس ہیں۔ ان کو پالنے میں خرچ بھی کافی کم آتا ہے اور یہ ہندوستانی ماحول میں ڈھلے بھی ہوتے ہیں۔ اب ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے انڈین بریڈس کے ڈاگس کو اپنے سیکورٹی دستے میں شامل کررہی ہیں۔ پچھلے کچھ وقت میں آرمی، سی آئی ایس ایف ، این ایس جی نے موگھول ہاؤنڈ ڈاگس کو ٹرینڈ کرکے ڈاگ اسکوارڈ میں شامل کیا ہے۔ سی آر پی ایف نے کومبائی ڈاگس کو شامل کیا ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ بھی بھارتی نسل کے ڈاگس پر ریسرچ کررہی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انڈین بریڈس کو اور بہتر بنایا جاسکے اور سودمند بنایا جاسکے۔ آپ انٹرنیٹ پر ان کے نام سرچ کریے ان کے بارے میں جانیے، آپ ان کی خوبصورتی، ان کی کوالٹیز دیکھ کر حیران ہوجائیں گے۔ اگلی بار جب بھی آپ ڈاگ پالنے کی سوچیں، آپ ضرور ان میں سے ہی کسی انڈین بریڈ کے ڈاگ کو گھر لائیں۔ آتم نربھر بھارت جب جن من کا منتر بن ہی رہا ہے تو کوئی بھی شعبہ اس سے پیچھے کیسے چھوٹ سکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ دنوں بعد 5 ستمبر کو ہم یوم اساتذہ منائیں گے، ہم سب جب اپنی زندگی کی کامیابیوں کو اپنی زندگی کے سفر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے کسی نہ کسی استاذ کی یاد ضرور آتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے وقت اور کورونا کے مشکل دور میں ہمارے اساتذہ کے سامنے بھی وقت کے ساتھ بدلاؤ کی ایک چنوتی لگتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے اساتذہ نے اس چنوتی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے موقع میں بدل بھی دیا ہے۔ پڑھائی میں تکنیک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے ہو، نئے طریقوں کو کیسے اپنائیں، طلباء کو مدد کیسے کریں، یہ ہمارے اساتذہ نے بحسن وخوبی اپنایا ہے اور اپنے طلباء کو بھی سکھایا ہے۔ آج ملک میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ انّوویشن ہورہے ہیں، استاذ اور طالب علم ملکر کچھ نیا کررہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ جس طرح ملک میں قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ایک بڑا بدلاؤ ہونے جارہا ہے ہمارے اساتذہ اس کا بھی فائدہ طلباء تک پہنچانے میں اہم رول نبھائیں گے۔
ساتھیو اور بالخصوص میرے اساتذہ ساتھیو، سال 2022 میں ہمارا ملک آزادی کے 75 سال کا جشن منائیگا، آزادی کے پہلے متعدد برسوں تک ہمارے ملک میں آزادی کی جنگ اس کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اس دوران ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں تھا جہاں آزادی کے متوالوں نے اپنی جان نچھاور نہ کی ہوں، اپناسب کچھ قربان نہ کیاہو، یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری آج کی نسل ، ہمارے طلباء آزادی کی جنگ، ہمارے ملک کے جانبازوں سے واقف رہیں، اسے اتنا ہی محسوس کریں، اپنے ضلع سے اپنے علاقے میں آزادی کی تحریک کے وقت کیا ہوا، کیسے ہوا، کون شہید ہوا، کون کتنے وقت تک ملک کے لئے جیل میں رہا، یہ باتیں ہمارے طلباء جانیں گے تو ان کی شخصیت میں بھی اس کا اثر دِکھے گا۔ اس کے لئے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جس میں ہمارے اساتذہ کی بڑی ذمہ داری ہے۔ جیسے آپ جس ضلع میں ہیں وہاں صدیوں تک جو آزادی کا جنگ چلا ان آزادیوں کے جنگ میں وہاں کوئی واقعات رونما ہوئے ہیں کیا؟ اسے لیکر طلباء سے تحقیق کروائی جاسکتی ہے۔ اسے اسکول کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نمبر کے طور پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے شہر میں آزادی کی تحریک سے جڑا کوئی جگہ ہو تو طلباء اور طالبات کو وہاں لے جاسکتے ہیں۔ کسی اسکول کے طلباء ٹھان سکتے ہیں کہ وہ آزادی کے 75برس میں اپنے علاقے کے 75مجاہدین آزادی پر نظمیں لکھیں گے، ڈرامے لکھیں گے، آپ کی کوشش ملک کے ہزاروں، لاکھوں، نامعلوم جانبازوں کو سامنے لائیں گے جو ملک کیلئے جیے، جو ملک کے لیے کھپ گئے، جن کے نام وقت کے ساتھ کھوگئے۔ ایسی اہم شخصیات کو اگر ہم سامنے لائیں گے، آزادی کے 75برس میں انہیں یاد کریں گے تو ان کو سچا خراج عقیدت ہوگا اور جب 5ستمبر کو یوم اساتذہ منارہے ہیں تب میں اپنے اساتذہ ساتھیوں سے ضرور اپیل کروں گا کہ وہ اس کے لئے ایک ماحول بنائیں ، سب کو جوڑیں اور سب مل کر جٹ جائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک آج جس ترقی کے سفر پر چل رہا ہے، اس کی کامیابی خوش آئند تبھی ہوگی جب ہرایک ملک کا شہری اس میں شامل ہو، اس سفر کا مسافر ہو، اس منزل کا راہی ہو، اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک شہری صحتمند رہے، سکھی رہے اور ہم ملکر کے کورونا سے پوری طرح سے ہرائیں۔کورونا تبھی ہارے گا جب آپ محفوظ رہیں گے، جب آپ ‘‘دو گز کی دوری، ماسک ضروری’’ اس عہد کی پوری طرح سے اتباع کریں گے۔ آپ سب صحتمند رہیے، خوش رہیے، ان ہی نیک تمناؤں کے ساتھ اگلی من کی بات میں پھر ملیں گے۔
بہت بہت شکریہ ، نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ آج 26 جولائی ہے ، اور، آج کا دن بہت خاص ہے۔ آج، ‘کارگل وجے دِوس’ ہے۔ آج سے 21 سال قبل آج کے ہی دن ہماری فوج نے کارگل جنگ میں فتح کا پرچم لہرایا تھا۔ ساتھیو، بھارت ان حالات کو کبھی بھول نہین سکتا جس کے تحت کارگل کی جنگ ہوئی تھی۔ پاکستان نے ہندوستان کی سرزمین پر تجاوزات کرنے کے غلط فہمیاں پیدا کیں، تاکہ وہاں موجود داخلی تنازعات کی طرف سے توجہ مبذول ہو سکے۔ اس وقت ہندوستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ جیساکہ کہا جاتا ہے :
‘‘بیرو اکارن سب کاہو سوں۔ جو کر ہیت ان ہیت تاہو سوں۔’’
یعنی ، شریروں کی فطرت ہی ہوتی ہے، بغیر کسی وجہ کے ہر کسی سے دشمنی کرنا۔ اس طرح کے رجحان رکھنے والے لوگ اپنے خیر خواہوں کو بھی نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں… یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستان نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو پاکستان نے پیٹھ میں چھرا گھونپ کر جواب دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے بعد ، جب ہماری بہادر فوج نے بہادری کا مظاہرہ کیا تو، اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں – اونچے پہاڑوں پر بیٹھا ہوا دشمن اور نیچے سے لڑ رہے ہماری فوجیں، ہمارے بہادر جوان، لیکن ، فتح پہاڑ کی اونچائی کی نہیں – بھارتی فوجوں کے اونچے حوصلے اور بہادری کی ہوئی۔ ساتھیوں، اس وقت مجھے بھی کرگل جانے اور ہمارے جوانوں کی بہادری کو دیکھنے کا موقع ملا، وہ دن، میری زندگی کا سب سے بیش قیمت لمحہ ہے۔ میں، دیکھ رہا ہوں کہ آج ملک بھر میں لوگ کارگل وجے دوس کو یاد کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ہیش ٹیگ #courageinkargil کے ساتھ لوگ اپنے بہادروں کو سلام کر رہے ہیں، اور جو شہید ہوئے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ میں، آج سبھی ہم وطنوں کی طرف سے ، ہمارے ان بہادر جوانوں کے ساتھ ساتھ ، ان بہادر ماؤں کو بھی سلام کرتا ہوں جنہوں نے ماں بھارتی کے سچے بیٹوں کو جنم دیا، میرا ملک کے نوجوانوں سے گزارش ہے، کہ آج دن بھر کارگل فتح سے جڑے ہمارے جانبازوں کی کہانیاں، بہادر ماؤں کی قربانی کے بارے میں، ایک دوسرے کو بتائیں ، شیئر کریں۔ میں، ساتھیوں، آپ سے ایک گزارش کرتا ہوں – آج ۔ ایک ویب سائٹ ہے www.gallantryawards.gov.in آپ اس کو ضرور دیکھیں۔ وہاں آپ کو ، ہمارے بہادر جنگجوؤں کے بارے میں، ان کی بہادری سے متعلق ، بہت ساری جانکاریاں حاصل ہوں گی، اور ان جانکاریوں کو ، جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کریں گے – ان کے لیے بھی الہام کی ایک وجہ بنے گی۔ آپ اس ویب سائٹ پر ضرورت ویزٹ کیجیے، اور میں تو کہوں گا بار بار کیجیے۔
ساتھیو، کارگل جنگ کے وقت اٹل جی نے لال قلعے سے جو بھی کہا تھا، وہ آج بھی ہم سبی کے لیے بہت موزوں ہے۔ اٹل جی نے، اس وقت ملک کو گاندھی جی کے ایک قول کی یاد دلائی تھی۔ مہاتما گاندھی کا قول تھا کہ اگر کسی کو کبھی کوئی الجھن ہو کہ اسے کیا کرنا ، کیا نہ کرنا ہے تو اسے بھارت کے سب سے غریب اور بے سہارا شخص کے بارے میں غور و فکر کرنی چاہیے۔ اسے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے، اس سے اس شخص کو فائدہ ہوگیا یا نہیں۔ گاندھی جی کے اس خیالات سے آگےبڑھ کر اٹل جی نے کہا تھا کہ کارگل جنگ نے ہمیں ایک دوسرا منتر دیا ہے – یہ منتر تھا کہ کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے، ہم یہ سوچیں کہ کیا ہمارا یہ قدم ، اس سپاہی کے اعزاز کے مطابق ہے جس نے ان تکلیف دہ پہاڑیوں میں اپنی جان قربان کر دی تھی۔ آیئے اٹل جی کی آواز میں ہی، ان کے اس احساسات کو ہم سنیں، سمجھیں اور وقت کا تقاضہ ہے کہ اسے قبول کریں :
Sound bite of sh. Atal Ji ###
‘‘ہم سبھی کو یاد ہے کہ گاندھی جے نے ہمیں ایک منتر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی الجھن ہو کہ تمہیں کیا کرنا ہے، تو تم بھارت کے اس سب سے بے سہارا شخص کے بارے میں سوچو اور خود سے پوچھو کہ کیا تم جو کرنے جا رہے ہو اس سے اس شخص کی بہتری ہوگی۔ کارگل نے ہمیں دوسرا منتر دیا ہے - کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے ہم یہ سوچیں کہ کیا ہمارا یہ قدم اس سپاہی کے اعزاز کے مطابق ہے، جس نے ان ناقابل رسائی میں اپنے جانوں کی قربانی دی تھی۔’’
ساتھیو، جنگ کے حالات میں ، ہم جو بات کہتے ہیں، کرتے ہیں، اس کا سرحد پر تعینات فوجیوں کے حوصلوں پر ، اس کے کنبوں کے حوصلوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ بات ہمیں کبھی بھولنی نہیں چاہیے اور اس لیے ہمارے اخلاقیات ، طرز عمل ، ہماری بولی، ہمارے بیانات ، ہمارے وقار ، مقاصد ، سبھی کچھ ضرور رہنا چاہیے کہ ہم جو کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں، اس سے فوجیوں کے حوصلوں اور عزاز میں اضافہ ہو۔ ملک سب سے اوپر ہے کی سوچ کے ساتھ ، یکجہتی کے دھاگے میں بندھے ہوئے ہم وطنوں، ہمارے فوجیوں کی طاقت کو کئی ہزار گنا بڑھا دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو کہا گیا ہے کہ ‘سنگھے شکتی کلو یوگے’۔
کبھی-کبھی ہم اس بات کو سمجھے بغیر سوشل میڈیا پر ایسی چیزوں کو بڑھاوا دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تجسس کی وجہ سے فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہے یہ غلط ہے پھر بھی کرتے رہتے ہ یں۔ آج کل، جنگ، صرف سرحوں پر ہی نہیں لڑی جاتی ہیں، ملک میں بھی کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑی جاتی ہے ، اور ہر ایک باشندے کو اپنا کردار کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اپنا کردار، ملک کی سرحد پر، مشکل ترین حالات میں لڑ رہے فوجیوں کو یاد کرتے ہوئے طے کرنی ہوگی۔
میرے پیارے ہم وطنوں، گزشتہ کچھ مہینوں سے پورے ملک میں ایک ساتھ مل کر کورونا سے مقابلہ کیا ہے، اس نے ، بہت سے خدشات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ آج، ہمارے ملک میں صحتیابی کی شرح دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہتر ہے، ساتھ ہی ، ہمارے ملک میں کورونا سے مرنے والوں کی شرح بھی دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے کافی کم ہے۔ یقینی طور پر ایک بھی شخص کو کھونا افسوسناک ہے، لیکن بھارت، اپنے لاکھوں باشندوں کی زندگی بچانے میں کامیاب بھی رہا ہے۔ لیکن ساتھیو، کورونا کا خطرہ ابھی برقرار ہے۔ کئی حصوں میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمیں بہت ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ خیال رکھنا ہے کہ کورونا اب بھی اتنا ہی مہلک ہے جتنا کہ شروع میں تھا، اس لیے ہمیں پوری احتیاط برتنی ہوگی۔ چہرے پر ماسک لگانا یا گمچھے کا استعمال کرنا، دو گز کی دوری، مسلسل ہاتھ دھونا، کہیں پر بھی تھوکنا نہیں، صفائی ستھرائی کا پورا خیال رکھنا – یہی ہمارے ہتھیار ہیں جو ہمیں کورونا سے بچا سکتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں ماسک سے تکلیف ہوتی ہے اور من کرنا ہے کہ چہرے پر سے ماسک ہٹا دیں۔ بات چیت کرنا شروع کرتے ہیں۔ جب ماسک کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، اسی وقت ماسک ہٹا دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، میں آپ سے گزارش کرونگا کہ جب بھی آپ کو ماسک کی وجہ سے پریشانی محسوس ہوتی ہو، ماسک اتارنے کا من کرتا ہو، تو لمحہ بھر کے لیے ان ڈاکٹرس کو یاد کیجیے، ان نرسوں کو یاد کیجیے، ہمارے ان کورونا واریئرس کو یاد کیجیے، آپ دیکھیے ، وہ ماسک پہن کر کے گھنٹوں مسلسل ، ہم سب کی زندگی کو بچانے کے لیے لگے رہتے ہیں۔ آٹھ -آٹھ ، دس – دس گھنٹے تک ماسک پہنے رکھتے ہیں۔ کیا ان کو تکلیف نہیں ہوتی ہوگی۔ ذرا ان کا بھی خیال کیجیے، آپ کو بھی لگے گا کہ ہمیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اس میں ذرا سی بھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے اور نہ ہی کسی کو برتنے دینی چاہیے۔ ایک طرف ہمیں کورونا کے خلاف لڑائی کو پوری چوکسی اور بیداری کے ساتھ لڑنی ہے تو دوسری جانب، سخت محنت سے، تجارت، نوکری، تعلیم ، جو بھی فرائض ہم انجام دیتے ہیں ، ان کو تیز کرنا ہوگا، اسے بھی نئی اونچائی پر لے جانی ہے۔ ساتھیو، کورونا کے اس دور میں تو ہمارے دیہی علاقوں نے پورے ملک کو راہ دکھائی ہے۔ گاؤوں سے مقامی لوگوں کے، گرام پنچایتوں کے، دیگر اچھی کوششیں مسلسل سامنے آ رہی ہیں۔ جموں میں ایک گرام تریوا گرام پنچایت ہے۔ وہاں کی سرپنچ ہیں بلبیر کور جی۔ مجھے بتایا گیا کہ بلبیر کور جی نے اپنے پنچایت میں 30 بستروں والا ایک قرنطینہ مرکز بنوایا ہے۔ پنچایت آنے والے راستوں پر ، پانی کی معقول انتظام کی ہے۔ لوگوں کو ہاتھ دھونے میں کوئی دشواری نہ ہو ، اس بات کو یقینی بنایا ہے۔ اتنا ہی نہیں، یہ بلبیر کور جی، خود اپنے کندھوں پر اسپرے پمپ ٹانگ کر، رضاکروں کے ساتھ مل کر، پورے پنچایت میں، آس – پاس کے علاقوں میں، سینی ٹائزیشن کا کام بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور کشمیری خواتین سرپنچ ہیں، گندربل کے چونٹلی وار کی زیتون بیگم ۔ زیتون بیگم جی نے عہد کیا کہ ان کی پنچایت کورونا کے خلاف جنگ میں لڑے گی اور کمائی کے لیے مواقع بھی پیدا کریں گی۔ انہوں نے ، پورے علاقے میں فری ماسک اور راشن تقسیم کیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے لوگوں کو فصلوں کے بیج اور سیب کے پودے بھی دیئے، تاکہ لوگوں کو کھیتی میں ، باغبانی میں، کوئی دشواری نہ آئے۔ ساتھیو، کشمیر سے ایک اور تحریک دینے والا واقعہ ہے۔ یہاں ، اننت ناگ میں میونسپل صدر ہیں – جناب محمد اقبال۔ انہوں اپنے علاقے میں سینی ٹائزیشن کے لیے اسپریئر کی ضرورت تھی۔ انہوں نے جانکاری حاصل کی تو معلوم ہوا ہے کہ دوسرے شہر سے مشین لانی ہوگی اور مشین کی قیمت ہے 6 لاکھ روپے، تو جناب اقبال جی نے خود ہی کوشش کر کے اپنے آپ سپریئر مشین بنا لی اور وہ بھی صرف پچاس ہزار روپے میں – اس طرح کی نہ جانے کتنے ہی مثالیں ہیں۔ پورے ملک میں ، کونے – کونے میں، ایسی ہی کئی متحرک واقعات روز سامنے آتی ہیں، یہ سبھی مبارکباد کے حقدار ہیں۔ چیلنجز آئے، لیکن لوگوں نے اتنی ہی قوت سے ، اس کا سامنا بھی کیا۔
میرے پیارے ہم وطنوں، صحیح اور مثبت نقطہ نظر سے ہمیشہ آفات کو مواقع میں، مشکلات کو ترقی میں بدلنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ابھی ہم کورونا کے وقت بھی دیکھ رہے ہیں، کہ کیسے ہمارے ملک کے نوجوان – خواتین نے اپنے ہنر اور اسکل کے دم پر کچھ نئی کوششیں شروع کی ہیں۔ بہار میں کئی وومین سیلف ہیلپ گروپس نے مدھوبنی پینٹنگ والے ماسک بنانا شروع کیا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے ، یہ خوب مشہور ہو گئے ہیں۔ یہ مدھوبنی ماسک ایک طرح سے اپنی روایت کو فروغ تو دے ہی رہے ہیں، لوگوں کو ، صحت کے ساتھ، روزگار بھی مہیا کرا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں شامل مشرق میں بانس کتنی بڑی مقدار میں ہوتی ہے، اب اسی بانس سے ترپورہ ، منی پور ، آسام کے کریگروں نے اعلیٰ درجے کا پانی کی بوتل اور ٹفن باکس بنانا شروع کیا ہے۔ اگر آپ بانس کوالیٹی دیکھیں گے تو آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ بانس کی بوتلیں بھی اتنی شاندار ہو سکتی ہیں، اور پھر یہ بوتلیں ایکو فرینڈلی بھی ہیں۔ انہیں، جب بناتے ہیں، تو بانس کو پہلے نیم اور دوسرے ادویاتی پودوں کے ساتھ اوبالا جاتا ہے، اس سے ان میں ادویاتی خصوصیات بھی مل جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مقامی مصنوعات سے کس طرح بڑی کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس کی ایک مثال جھارکھنڈ سے بھی ملتی ہے۔ جھارکھنڈ کے بشنوپور میں ان دنوں 30 سے زیادہ گروپس مل کر لیمن گراس کی کاشت کر رہے ہیں۔ لیمن گراس چار مہینوں میں تیار ہو جاتی ہے، اور اس کا تیل بازار میں اچھے قیمتوں میں فروخت ہوتا ہے۔ آج کل اس کی مانگ بھی کافی ہے۔ میں ملک کے دو علاقوں کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں، دونوں ہی ایک دوسرے سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے، اور اپنے اپنے طریقے سے بھارت کو آتم نربھر بنانے کے لیے کچھ مختلف کام کر رہے ہیں – ایک ہے لداخ اور دوسرا ہے کچھ۔ لیہ اور لداخ کا نام سامنے آتے ہی خوبصورت وادیوں اور اونچے اونچے پہاڑوں کے مناظر ہمارے آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں، تازی ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ وہیں کچھ کا ذکر ہوتے ہی ریگستان، دور – دور تک ریگستان، کہیں پیڑ – پودے، بھی نظر نہ آئے، یہ سب ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ لداخ میں ایک خاص طرح کا پھل ہوتا ہے جس کا نام چولی یا اپری کوٹ یعنی خوبانی ہے۔ یہ فصل اس علاقے کی معیشت کو بدلنے کی قوت رکھتی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سپلائی چین، موسم کی مار جیسے کئی چیلنجز سے دوچار رہتا ہے۔ اس کی کم سے کم بربادی ہو، اس کےلیے آج کل ایک نئے انوویشن کا استعمال شروع ہوا ہے – ایک ڈوول سسٹم ہے، جس کا نام ہے، سولر ایپریکوٹ ڈرائر اینڈ اسپیس ہیٹر۔ یہ، خوبانی اور دوسرے دیگر پھلوں و سبزیوں کو ضرورت کے مطابق سکھا سکتا ہے، اور وہ بھی صحت مند طریقے سے۔ پہلے جب خوبانی کو کھیتوں کے پاس سکھاتے تھے، تو اس سے بربادی تو ہوتی ہی تھی، ساتھ ہی گرد اور بارش کے پانی کی وجہ سے پھلوں کی کوالیٹی بھی متاثر ہوتی تھی۔ دوسری جانب ، آج کل کچھ میں کسان ڈریگن فرٹس کی کھیتی کے لیے قابل ستائش کوششیں کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ جب سنتے ہیں تو انہیں حیرت ہوتی ہے – کچھ اور ڈریگن فرٹس۔ لیکن وہاں آج کئی کسان اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ پھل کی کوالیٹی اور کم زمین میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کی وجہ سے کافی اختراع کیے جا رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈریگن فرٹس کی مقبولیت دن دن بڑھ رہی ہے، خاص کر ، ناشتے میں اس کا استعمال بڑھا ہے۔ کچھ کے کسانوں کا عزم ہے کہ ملک کو ڈریگن فرٹس درآمد نہ کرنا پڑے – یہی تو آتم نربھرتا کی بات ہے۔
ساتھیو، جب ہم کچھ نیا کرنے کی سوچتے ہیں ، انوویٹیو سوچتے ہیں، تو ایسے کام بھی آسان ہو جاتے ہیں، جن کی عام طور پر کوئی تصور بھی نہیں کرتا، جیسا کہ بہار کے کچھ نوجوانوں کو ہی لیجیے۔ پہلے یہ عام نوکری کرتے تھے، ایک دن انہوںنے طے کیا کہ وہ موتی یعنی پرلس کی کھیتی کریں گے۔ ان کے علاقے میں لوگوں کو اس بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں تھی، لیکن ان لوگوں نے پہلے ساری جانکاری حاصل کی ، جے پور اور بھوبنیشور جاکر ٹریننگ لی اور اپنے گاؤں میں ہی موتی کی کھیتی شروع کر دی۔ آج، یہ خود تو اس سے کافی اچھی کمائی کر ہی رہے ہیں، انہوں نے مظفرپور، بیگوسرائے اور پٹنہ میں دیگر ریاستوں سے لوٹے مائیگرینٹ مزدوروں کو اس کی ٹریننگ بھی دینی شروع کر دی ہے۔ کتنے ہی لوگوں کے لیے ، اس سے آتم نربھرتا کے راستے کھل گئے ہیں۔
ساتھیو، ابھی کچھ دن بعد رکشا بندھن کا مقدس تہوار آ رہا ہے۔ میں ان دنوں دیکھ رہا ہوں کہ کئی لوگ اور تنظیمیں اس بار رکشا بندھن کو الگ طریقے سے منانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ کئی لوگ اسے وکل فار لوکل سے بھی جوڑ رہے ہیں، اور بات بھی صحیح ہے۔ ہمارے تہوار، ہمارے سماج کے ، ہمارے گھر کے پاس ہی کسی فرد کے کاروبار میں اضافہ ہو، اس کا بھی تہوار خوشحال ہو، تب ، تہوار کی خوشی، کچھ اور ہی ہو جاتی ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو رکشا بندھن کی بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو، 7 اگست کو نیشنل ہینڈلوم ڈے ہے۔ بھارت کا ہینڈلوم ، ہمارا ہینڈی کرافٹس ، خود سینکڑوں سالوں کی ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ ہم سبھی کی کوشش ہونی چاہیے کہ نہ صرف ہندوستانی ہینڈلوم اور ہینڈی کرافٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، بلکہ اس سے متعلق ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھی بتانی چاہیے۔ بھارت کا ہینڈلوم اور ہینڈی کرافٹ کتنا اعلیٰ درجے کا ہے ، اس میں بہت زیادہ تنوع ہے، یہ دنیا جتنی زیادہ اس کے بارے میں جانے گی ، ہمارے لوکل کاریگروں اور بن کروں کو اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، خاص کر میرے نوجوان ساتھیو، ہمارا ملک بدل رہا ہے۔ کیسے بدل رہا ہے؟ کتنی تیزی سے بدل رہا ہے؟ کیسے کیسے شعبوں میں بدل رہا ہے؟ ایک مثبت سوچ کے ساتھ اگر نظرثانی کریں تو ہم خود حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ ایک وقت تھا، جب کھیل – کود سے لے کر کے دیگر شعبے میں زیادہ تر لوگ یا تو بڑے بڑے شہروں سے ہوتے تھے یا بڑے – بڑے خاندان سے یا پھر مشہور اسکول یا کالج سے ہوتے تھے۔ اب، ملک بدل رہا ہے۔ گاؤوں سے ، چھوٹے شہروں سے، عام کنبوں سے ہمارے نوجوان آگے آرہے ہیں۔ کامیابی کی نئی اونچائی چوم رہی ہے۔ یہ لوگ مصیبت کے دوران بھی نئے نئے خواب سجاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہمیں ابھی حال ہی میں جو بورڈ ایگزام کے ریزلٹ آئے ہیں، اس میں بھی دکھتا ہے۔ آج ‘من کی بات’ میں ہم کچھ ایسے ہی باصلاحیت بیٹے بیٹیوں سے بات کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک باصلاحیت بیٹی ہے کرتیکا ناندل۔ کرتیکا جی ہریانہ میں پانی پت سے ہیں۔
مودی جی - ہیلو ، کریتکا جی نمستے۔
کرتیکا - نمستے سر۔
مودی جی - اچھے نتائج کے لئے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
کرتیکا - شکریہ سر۔
مودی جی - اور آپ تو ان دنوں ٹیلی فون ریسیو کرتے کرتے آپ تھک گئی ہوں گی۔ اتنے سارے لوگوں کا فون آتے ہوں گے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - اور جو لوگ مبارکباد دیتے ہیں وہ بھی فخر محسوس کرتے ہوں گے کہ وہ آپ کو جانتے ہیں۔ آپ کو کیسا لگ رہا ہے۔
کرتیکا - سر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ والدین کو فخر محسوس کرا کر خود کو بھی اتنا فخر محسوس ہو رہا ہے۔
مودی جی - اچھا یہ بتایئے کہ آپ سب سے زیادہ تحریک کن سے ملتی ہے؟
کرتیکا - سر ، مجھے میری ماں سے سب سے زیادہ تحریک ملتی ہے۔
مودی جی - واہ! اچھا ، آپ ممی سے کیا سیکھ رہی ہو۔
کرتیکا - سر، انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی مشکلیں دیکھی ہیں، پھر بھی وہ اتنی بولڈ اور اتنی مضبوط ہیں، سر، انہیں دیکھ دیکھ کر مجھے اتنی تحریک ملتی ہے کہ میں بھی انہیں کی طرح بنوں۔
مودی جی - ماں کتنی تعلیم یافتہ ہیں۔
کرتیکا - سر بی اے کیا ہوا ہیں انہوں نے۔
مودی جی - بی اے کیا ہوا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - اچھا! تو ، ماں آپ کو سکھاتی بھی ہوں گی۔
کرتیکا - جی سر! سکھاتی ہیں، دنیا داری کے بارے میں ہر بات بتاتی ہیں۔
مودی جی - وہ ، ڈانٹتی بھی ہوں گی۔
کرتیکا - جی سر، ڈانٹتی بھی ہیں۔
مودی جی - اچھا بیٹا، آپ آگے کیا کرنا چاہتی ہیں؟
کرتیکا - سر ہم ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔
مودی جی - ارے واہ!
کرتیکا - ایم بی بی ایس۔
مودی جی - دیکھیے ڈاکٹر بننا آسان کام نہیں ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - ڈگری تو حاصل کر لیں گی کیونکہ آپ بہت ہی ہوشیار ہیں بیٹا؛ لیکن ڈاکٹر کی زندگی جو ہے ، وہ معاشرے کے لیے سرشار ہوتا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - ڈاکٹر رات میں، کبھی سکون سے سو نہیں سکتا ہے۔ کبھی مریض کا فون آجاتا ہے، اسپتال سے فون آجاتا ہے تو پھر دوڑنا پڑتا ہے۔ یعنی ایک طرح سے 24x7 ، 365 دن ۔ ڈاکٹر کی زندگی لوگوں کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔
کرتیکا - یس سر۔
مودی جی - اور خطرہ بھی رہتا ہے، کیونکہ ، کبھی پتا نہیں، آج کل جس طرح کی بیماریاں ہیں تو ڈاکٹر کے سامنے بھی بہت بڑی مصیبت رہتا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - اچھا کرتیکا، ہریانہ تو کھیل – کود میں پورے ہندوستان کے لیے ہمیشہ ہی ایک حوصلہ افزا اور تحریک دینے والا ریاست رہا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - تو آپ بھی تو کھیل کود میں حصہ لیتی ہیں کیا، کچھ کھیل – کود پسند ہے کیا آپ کو؟
کرتیکا - سر، باسکیٹ بال کھیلتے تھے، اسکول میں۔
مودی جی - اچھا ، آپ کی اونچائی کتنی ہے، زیادہ ہے اونچائی۔
کرتیکا - نہیں سر، پانچ دو کی ہے۔
مودی جی - اچھا، تو کیا آپ کو کھیل پسند ہے؟
کرتیکا - سر وہ تو بس جنون ہے، کھیل لیتے ہیں۔
مودی جی - اچھا – اچھا! چلیے کرتیکا جی، آپ کی والدہ کو میری طرف سے سلام کہیے، انہوں نے آپ کو اس طرح قابل بنایا۔ آپ کی زندگی کو سنوارا۔ آپ کی والدہ کو سلام اور آپ کو بہت بہت مبارکباد، اور بہت بہت نیک خواہشات۔
کرتیکا - شکریہ سر۔
آیئے ! اب ہم چلتے ہیں کیرلہ، ایرناکّلم۔ کیرلہ کے نوجوان سے بات کریں گے۔
مودی جی - ہیلو۔
وینایک - ہیلو سر نمسکار!
مودی جی - تو وینایک، مبارک ہو!
وینایک - ہاں ، شکریہ سر۔
مودی جی - شاباش وینایک، شاباش۔
وینایک - ہاں، شکریہ سر۔
مودی جی - ہاؤ از دا جوش؟
وینایک - ہائی سر۔
مودی جی - کیا آپ کوئی کھیل کھیلتے ہیں؟
وینایک - بیڈمنٹن۔
مودی جی - بیڈمنٹن۔
وینایک - ہاں۔
مودی جی - کسی اسکول میں یا آپ کو کوئی ٹریننگ کا موقع ملا ہے؟
وینایک - نہیں، اسکول میں ہم نے پہلے کچھ تربیت حاصل کر لی تھی۔
مودی جی - ہوں ہوں۔
وینایک - ہمارے اساتذہ سے۔
مودی جی - ہوں ہوں۔
ونایک - تاکہ ہمیں باہر حصہ لینے کا موقع ملے۔
مودی جی - واہ!
وینایک - اسکول ہی سے۔
مودی جی - آپ نے کتنی ریاستوں کا دورہ کیا ہے؟
وینایک - میں نے صرف کیرالہ اور تمل ناڈو کا دورہ کیا ہے۔
مودی جی - صرف کیرل اور تمل ناڈو ۔
وینایک - اوہ ہاں۔
مودی جی - تو ، کیا آپ دہلی جانا پسند کریں گے؟
وینایک - جی ہاں سر ، اب ، میں اعلی تعلیم کے لیے دہلی یونیورسٹی میں درخواست دے رہا ہوں۔
مودی جی - واہ ، تو آپ دہلی آرہے ہیں؟
وینایک - ہاں ہاں سر۔
مودی جی - مجھے بتائیں ، کیا آپ کے ساتھی طلبا کے لئے کوئی پیغام ہے،جو مستقبل میں بورڈ کے امتحانات دے گا؟
وینایک - سخت محنت اور وقت کا مناسب استعمال۔
مودی جی - اتنا صحیح وقت کا استعمال ۔
وینایک - جی ہاں ، سر۔
مودی جی - ونایاک ، میں آپ کے مشاغل جاننا چاہتا ہوں۔
وینایک - ……… بیڈمنٹن اور اس کے بعد روئنگ ۔
مودی جی - تو ، آپ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔
وینایک - نہیں ، ہمیں اسکول میں کسی بھی گیجٹ،الیکٹرانک اشیاء کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مودی جی - تو آپ خوش قسمت ہیں۔
وینایک - جی ہاں سر۔
مودی جی - ٹھیک ہے ، وینایک ، ایک بار پھر مبارکباد اور آپ سب کی نیک خواہشات۔
وینایک - شکریہ، سر۔
آیئے ! ہم اترپردیش چلتے ہیں۔ اترپردیش میں امروہا کے جناب عثمان سیفی سے بات کریں گے۔
مودی جی - ہیلو عثمان، بہت بہت مبارکباد، آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔
عثمان - شکریہ سر۔
مودی جی - اچھا آپ عثمان بتایئے، کہ آپنے جو چاہا تھا وہی ریزلٹ آیا کہ کچھ کم آیا۔
عثمان - نہیں، جو چاہا تھا وہی ملا ہے۔ میرے والدین بھی بہت خوش ہیں۔
مودی جی - واہ، اچھا خاندان میں اور بھائی بھی، بہت ہی ہوشیار ہیں کہ گھر میں آپ ہی ہیں جو اتنے ہوشیار ہیں۔
عثمان - صرف میں ہی ہوں، میرا بھائی تھوڑا شرارتی ہے۔
مودی جی - ہاں، ہاں۔
عثمان - باقی مجھ سے سب بہت خوش رہتے ہیں۔
مودی جی - اچھا، اچھا۔ اچھا آپ جب پڑھ رہے تھے ، تو عثمان آپکا پسندیدہ موضوع کون سا تھا؟
عثمان - میتھ میٹکس۔
مودی جی - ارے واہ! تو کیا میتھ میٹکس میں کس چیز میں دلچسپی تھی؟کیسے ہوئی؟ کس ٹیچر نے آپ کو تحریک دی؟
عثمان - جی ہمارے ایک سبجیکٹ ٹیچر رجت سر۔ انہوں نے مجھے تحریک دی اور وہ بہت اچھا پڑھاتے ہیں اور میتھ میٹکس شروع سے ہی میرا اچھا رہا ہے اور کافی انٹریسٹنگ سبجیکٹ بھی ہے۔
مودی جی - ہوں، ہوں۔
عثمان - تو جتنا زیادہ کرتےہیں، اتنا زیادہ انٹریسٹ آتا ہے تو اس لیے میرا پسندیدہ موضوع ہے۔
مودی جی - ہوں، ہوں۔ آ پ کو معلوم ہے ایک آن لائن ویدک میٹھ میٹکس کے کلاس چلتے ہیں۔
عثمان - ہاں سر۔
مودی جی - ہاں کبھی ٹرائی کیا ہے اس کا؟
مثمان - نہیں سر، ابھی نہیں کیا۔
مودی جی - آپ دیکھیے، آپ کے بہت سارے دوستوں کو لگے گا کہ جیسے آپ جادوگر ہیں کیونکہ کمپیوٹر کی اسپیڈ سے آپ گنتی کر سکتے ہیں ویدک میتھ میٹکس کی۔ بہت آسان ٹیکنک ہے اور آج کل وہ آن لائن پر بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
عثمان - جی سر۔
مودی جی - اچھا عثمان ، آپ خالی وقت میں کیا کرتے ہیں؟
عثمان - خالی وقت میں سر، کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں میں۔ مجھے لکھنے میں بہت مزہ آتا ہے۔
مودی جی - ارے واہ! مطلب آپ میتھ میٹکس میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور لٹریچر میں بھی ۔
عثمان - ہاں سر۔
مودی جی - کیا لکھتے ہیں؟ نظمیں لکھتے ہیں، شاعری لکھتے ہیں۔
عثمان - کچھ بھی کرنٹ افیئرس سے متعلق کوئی بھی ٹاپک ہو اس پر لکھتا رہتا ہوں۔
مودی جی - ہاں، ہاں۔
عثمان - نئی نئی جانکاریاں ملتی رہتی ہیں جیسے جی ایس ٹی چلا تھا اور نوٹ بندی – سب کچھ۔
مودی جی - ارے واہ! تو آپ کالج کی تعلیم کے لیے آگے کیا پلان بنا رہے ہیں؟
عثمان - کالج کی پڑتعلیم، سر میرا جی مینس کا فرسٹ اٹیمپٹ کلیئر ہو چکا ہے اور اب میں ستمبر کے لیے سیکنڈ اٹیمپٹ میں بیٹھونگا۔ میرا اصل مقصد ہے کہ میں پہلے آئی آئی ٹی سے بیچلر ڈگری لوں اور اس کے بعد سول سروسز میں جاؤ اور ایک آئی اے ایس بنوں۔
مودی جی - ارے واہ! اچھا آپ ٹکنالوجی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں؟
عثمان - ہاں سر، اس لیے میں آئی ٹی اوپٹ کیا ہے فرسٹ ٹائم آئی آئی ٹی کا۔
مودی جی - اچھا چلیے عثمان، میری طرف سے بہت بہت مبارکباد اور آپ کا بھائی شرارتی ہے ، تو آپ کا وقت بھی اچھا جاتا ہوگا اور آپ کے والدین کو بھی میری طرف سے سلام کہیے۔ انہوں نے آپ کو اس طرح سے مواقع فراہم کیے، حوصلہ بلند کیا اور یہ مجھے اچھا لگا کہ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر بھی مطالعہ کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ دیکھیے لکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات میں شارپ نیس آتی ہے۔ بہت اچھا فائدہ حاصل ہوتا ہے لکھنے سے۔ تو بہت بہت مبارکباد میری طرف سے۔
عثمان - شکریہ سر۔
آیئے ! چلیے پھر ایک قدم سے نیچے جنوب میں چلتے ہیں۔ تمل ناڈو، ناماکل سے بیٹی کننگا سے بات کریں گے اور کننگا کی بات تو بہت ہی متاثر کن ہے۔
مودی جی - کننگا جی، وڈکم۔
کننگا - وڈکم، سر۔
مودی جی - ہاؤ آر یو؟
کننگا - فائن سر۔
مودی جی - سب سے پہلے میں آپ کی بڑی کامیابی کے لیے آپ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔
کننگا - شکریہ سر۔
مودی جی - جب میں نمکل کے بارے میں سنتا ہوں تو میں انجنئر مندر کے بارے میں سوچتا ہوں۔
کننگا - جی سر۔
مودی جی - اب میں آپ کے ساتھ اپنی بات چیت کو بھی یاد کروں گا۔
کننگا - ہاں سر۔
مودی جی - تو، پھر سے مبارکباد ۔
کننگا - شکریہ سر۔
مودی جی - آپ نے امتحانات کے لیے بہت محنت کیا، تیاری کرتے وقت آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
کننگا - سر، ہم شروع سے ہی سخت محنت کر رہے ہیں۔ لہذا مجھے اس نتیجے کی توقع نہیں تھی لیکن میں نے اچھا لکھا ہے اور لیے مجھے اچھا ریزلٹ حاصل ہوا۔
مودی جی - آپ کی توقع کیا تھی؟
کننگا - 485 اور 486 کے قریب، میں نے سوچا تھا۔
مودی جی - اور اب
کننگا - 490
مودی جی - تو آپ کے اہل خانہ اور آپ کے اساتزہ کا کیا رد عمل ہے؟
کننگا - وہ بہت خوش تھے اور انہیں بہت فخر تھاسر۔
مودی جی - آپ کا پسندیدہ مضمون کون سا ہے؟
کننگا - میتھ میٹکس
مودی جی - اوہ! اور آپ کے مستقبل کے منصوبے کیا ہیں؟
کننگا - اے ایف ایم سی سر میں اگر ممکن ہو تو میں ڈاکٹر بننے جا رہا ہوں۔
مودی جی - اور آپ کے کنبے کے ممبر بھی میڈیکل پیشہ میں ہیں یا کہیں اور؟
کننگا - نہیں سر، میرے والد ڈرائیور ہیں لیکن میری بہت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
مودی جی - ارے واہ! لہذا سب سے پہلے میں آپ کے والد کو سلام کروں گا جو آپ کی بہن اور آپ کی بہت دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی خدمت ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
کننگا - جی سر۔
مودی جی - اور وہ سب کو تحریک دینے والے ہے۔
کننگا - جی سر۔
مودی جی - تو آپ کو ، آپ کی بہن اور آپ کے والد اور آپ کے اہل خانہ کو میری طرف سے مبارکباد۔
کننگا - شکریہ سر۔
ساتھیو، ایسے اور بھی کتنے نوجوان دوست ہیں ، مشکل حالات میں بھی جن کے حوصلے کی، جن کی کامیابی کی کہانیاں ہمیں تحریک دیتی ہے۔ میرا من تھا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ساتھیوں سے بات کرنے کا موقع ملے، لیکن، وقت کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ میں سبھی نوجوان ساتھیوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اپنی کہانی ، اپنی زبانی جو ملک کو تحریک دے، وہ ہم سب کے ساتھ، ضرور شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، سات سمندر پار، ہندوستان سے ہزاروں میل دور ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا نام ہے سورینام۔ ہندوستان کا سورینام کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات ہیں۔ سو سال سے بھی زیادہ وقت پہلے، ہندوستان سے لوگ وہاں گئے اور اسے ہی اپنا گھر بنا لیا۔ آج ، چوتھی ، پانچویں نسل وہاں موجود ہے۔ آج، سورینام میں ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی ہندوستانیوں کی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ، وہاں کی عام زبان میں سے ایک سرنامی بھی ، بھوجپوری کی ہی ایک زبان ہے۔ ان ثقافتی تعلقات کی وجہ سے ہم ہندوستانی کافی فخر محسوس کرتے ہیں۔
حال ہی میں ، شری چندریکا پرساد سنتوکھی سورینام کے نئے صدر بن گئے ہیں۔ وہ ہندوستان کے دوست ہیں ، اور ، انہوں نے سال 2018 میں منعقدہ پرسن آف انڈین آریجن (پی آئی او)پارلیمانی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے تھے۔ شری چندریکا پرساد سنتوکھی جی نےحلف برداری کی شروعات وید منتروں کےساتھ کی، وہ سنسکرت میں بولے۔ انہوں نے ، ویدوں کا ذکر کیا اور ’’اوم شانتی، شانتی‘‘ کے ساتھ اپنی حلف برداری مکمل کی۔ اپنے ہاتھ میں وید لے کر وہ بولے – میں چندریکا پرساد سنتوکھی اور آگے، انہوں نے حلف میں کیا کہا؟ انہوں نے وید کا ہی ایک منتر پڑھا۔ انہوں نے کہا –
اوم اگنے ورتپتے ورتم چریشیامی تجھ کیئم تنمے رادھیاتام۔ اِدم ہمنرتات ستیہ مو پیمی۔
یعنی۔ ہے اگنی ، عزم کے خدا، میں ایک عہد کر رہا ہوں۔ مجھے اس کے لیے قوت فراہم کریں۔ مجھے جھوٹ سے دور رہنے اور حق کی جانب گامزن ہونے کا آشرواد پردان کریں۔ سچ میں، یہ ہم سبھی کے لیے ، فخر کی بات ہے۔
میں شری چندریکا پرساد سنتوکھی کو مبارک دیتا ہوں ، اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کے لیے ، 130 کروڑ ہندستانیوں کی طرف سے ، انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے ہم وطنوں ، اس وقت بارش کا موسم بھی ہے۔ پچھلی بار بھی میں نے آپ سے کہا تھا ، کہ برسات میں گندگی اور ان سے ہونے والی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اسپتالوں میں بھیڑ بھی بڑھ جاتی ہے، اس لیے ، آپ صاف صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھیں۔ قوت مدافعت بڑھانے والی چیزیں، آیورویدک کاڑھا وغیرہ لیتے رہیں۔ کورونا انفیکشن کے وقت ، ہم، دیگر بیماریوں سے دور رہیں۔ ہمیں اسپتال کے چکر نہ لگانے پڑیں، اس کا پورا خیال رکھنا ہوگا۔
ساتھیو، بارش کے موسم میں، ملک کا ایک بڑا حصہ ، سیلاب کا سامنا کر رہا ہے۔ بہار، آسام جیسے ریاستوں کے کئی علاقوں میں تو سیلاب نے کافی مشکلیں پیدا کی ہوئی ہیں۔ یعنی ایک طرف کورونا ہے ، تو دوسری طرف یہ ایک اور چیلنج ہے، ایسے میں، سبھی حکومتیں ، این ڈی آر ایف کی ٹیمیں ریاست کی آفات سے نمٹنے والی ٹیمیں، رضاکارانہ تنظیمیں، سب ایک ساتھ مل کر ، ہر طرح سے راحت اور بچاؤ کے کام کر رہے ہیں۔ اس آفات سے متاثرہ سبھی لوگوں کے ساتھ پورا ملک کھڑا ہے۔
ساتھیوں، اگلی بار ، جب ہم، ‘من کی بات’ میں ملیں گے، اس کے پہلے ہی 15 اگست بھی آنے والا ہے۔ اس بات 15 اگست بھی، مختلف حالات میں ہو گا۔ کورونا وبا کی اس مشکل وقت کے درمیان ہوگا۔
میرا ، اپنے نوجوانوں سے، سبھی ہم وطنوں سے، گزارش ہے، کہ ہم یوم آزادی پر، وبائی امراض سے آزادی کا عہد کریں، آتم نربھر بھارت کا عہد کریں، کچھ نیا سیکھنے، اور سکھانے کا، عہد کریں، اپنے فرائض کی تکمیل کریں۔ ہمارا ملک آج جس اونچائی پر ہے، وہ بہت ساری عظیم شخصیات کی تپسیا کی وجہ سے ہے، جنہوں نے اپنی زندگی قوم کی تعمیر کے لیے وقف کر دی ہے، ان عظیم شخصیات میں سے ایک لوک مانیہ تلک۔ یکم اگست 2020 کو لوک مانیہ تلک جی کی 100ویں یوم وفات ہے۔ لوک مانیہ تلک جی کی زندگی ہم سب کے لیے بہت ہی تحریک دینے والی ہے۔ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔
اگلی بار جب ہم ملیں گے ، تو ، پھر بہت ساری باتیں کریں گے، مل کر کچھ نیا سیکھیں گے، اور سب کے ساتھ شیئر کریں گے۔ آپ سب ، اپنا خیال رکھیے ، اپنے کنبے کا خیال رکھیے، اور صحتمند رہیے۔ سبھی ہم وطنوں کو آنے والے سبھی تہواروں کی بہت بہت نیک کواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔
میرےپیارےہموطنو،نمسکار۔ ‘منکیبات’ نےاببرس 2020 میںاپناآدھاسفرمکملکرلیاہے۔ اسدوران،ہمنےبہتسارےموضوعاتکےبارےمیںباتکی۔یہفطریباتہےکہانسانینسلپرآنےوالےبحرانپرہماریگفتگوبہتزیادہرہی،لیکن،اندنوںمیںدیکھرہاہوں،لوگوںمیںمسلسلایکموضوعپرباتہورہیہے،کہیہسالکبگزرےگا ۔کوئیکسیکوفونبھیکررہاہے،توباتچیتاسیموضوعسےشروعہورہیہے،کہآخریہسالجلدنہیںگزررہاہے،کوئیلکھرہاہے،دوستوںسےگفتگوکرتےہوئے،یہکہتےہوئےکہ،یہسالاچھانہیںہے،کوئیکہہرہاہےکہ 2020 اچھاسالنہیںہے،بسچاہتےہیںکہلوگکسیبھیصورتیہسالجلدازجلدگزرجائے۔
دوستو،کبھیکبھیمجھےحیرتہوتیہےکہایساکیوںہورہاہے،اسطرحکیگفتگوکیکچھوجوہاتہوسکتیہیں۔ چھساتمہینےپہلے،یہہمیںکہاںمعلومتھا،کوروناجیسابحرانآجائےگااوریہلڑائیاتنےعرصےتکجاریرہےگی،یہبحراناببھیباقیہے،ملکمیںنئےچیلنجزآرہےہیں۔ ابھیکچھہیدنپہلے،ملککےمشرقیحصہپرطوفانامفانپہنچا،تب،طوفاننسارگمغربیسرےپرآیا۔ ٹڈیکےحملےسےہمارےکسانبھائیاوربہنیںکتنیریاستوںمیںپریشانہیں،اورکچھنہیںتوبہتسارے،ملککےحصوںمیںچھوٹےزلزلےرکنےکانامنہیںلےرہےہیںاورانسبکےبیچیہملکانچیلنجوںسےبھینمٹرہاہےجوہمارےکچھہمسایہممالککررہےہیں۔ واقعتااسطرحکییہآفاتایکساتھبہتکمہیدیکھنےکوملتیہیں۔ صورتحالایسیبنگئیہےکہ،یہاںتککہاگرکوئیچھوٹاساواقعہپیشآرہاہو،تولوگاسےانچیلنجوںسےجوڑکردیکھرہےہیں۔
دوستو،مشکلاتآتیہیں،بحرانآتےہیں،لیکنسوالیہہےکہکیاہمیںانآفاتکیوجہسےسال 2020 کوبراسمجھناچاہئے؟کیایہپچھلے 6 مہینوںکیوجہسےہے،کیونکہ،یہفرضکرلیناکہیہساراسالایساہیہے،کیایہسوچنادرستہے؟نہیں،میرےپیارےہموطنو – بالکلنہیں۔ ایکسالمیںایکچیلنجآئےیاپچاسچیلنجآئیں،تعدادکمیازیادہہوجانےسےوہسالخرابنہیںہوجاتاہے۔ ہندوستانکیتاریخآفاتاورچیلنجوںپرفتححاصلکرکےاوراسسےزیادہنکھرکرنکلنےرہیہے،سینکڑوںسالوںتک،مختلفحملہآوروںنےہندوستانپرحملہکیا،اسےبحرانمیںڈالدیا،لوگوںکاخیالتھاکہہندوستانکاڈھانچہتباہہوجائےگا،ہندوستانکیثقافتختمہوجائےگی،لیکن،انبحرانوںسےابھرکرہندستاناوربھیمضبوطہوکرسامنےآیاہے۔
دوستو،ہمارےیہاںیہکہاجاتاہے،سجنشاوستہے،سجننرنترہے
مجھےایکگاناکیکچھلائنیںیادآرہیہیں۔
یہکلکلچھلچھلبہتی،کیاکہتیگنگادھارا؟
یگیگسےبہتاآتا،یہپونیہپرواہمارا
اسیگیتمیںآگےآتاہے
کیااسکوروکسکیںگے،مٹنےوالےمٹجائیں
کنکرپتھرکیہستی،کیابادھابنکرآئے
یہاںتککہہندوستانمیں،جہاںایکطرف،بہتبڑےبحرانپیداہوئے،اسیوقتبہتساریرکاوٹیںپیداہوئیں،تمامرکاوٹیںدورکردیگئیں۔ نیاادبتخلیقہوا،نئیتحقیقکیگئی،نئےنظریےتخلیقہوئے،یعنیبحرانکےدورانبھی۔ ،ہرشعبےمیں،تخلیقکاعملجاریرہااورہماریثقافتپروانچڑھتیرہی،ملکآگےبڑھتارہا،ہندوستاننےہمیشہبحرانوںکوکامیابیکےمراحلمیںتبدیلکیاہے۔ اسیجذبےکےساتھ،ہمیںانتمامبحرانوںکےدرمیانآگےبڑھتےرہناہے،آپبھیاسخیالکےساتھآگےبڑھیںگے، 130 کروڑعوامآگےبڑھیںگے،تب،یہسالملککےلئےایکنیاریکارڈثابتہوگا۔ | اسیسالمیں،ملکنئےمقاصدحاصلکرےگا،نئیمنزلیںطےکرےگا،نئیبلندیوںکوچھوئےگا۔میںپورےاعتمادکےساتھ،اسملککیعظیمروایتپر،آپسبھی، 130 کروڑعوامکیطاقتپربھروسہکرتاہوں۔
میرےپیارےہموطنو،بحرانچاہےجتنابھیبڑاہو،ہندستانکیثقافتاوراقداربےلوثخدمتکیترغیبدیتیہیں۔ آججسطرحہندوستاننےمشکلوقتمیںدنیاکیمددکی،اسنےامناورترقیمیںہندوستانکےکردارکومستحکمکیاہے۔ دنیانےاسعرصےکےدورانہندوستانکیعالمیبرادریکےجذباتکوبھیمحسوسکیاہے،اوراسکےساتھہی،دنیانےہندوستانکیطاقتاوراپنیخودمختاریاورسرحدوںکےتحفظکےلئےبھارتکےعزمکوبھیدیکھاہے۔ لداخمیںہندوستانکیسرزمینپر،آنکھاٹھاکردیکھنےوالوںکوکڑاجوابملاہے۔ ہندوستانجسطرحدوستیبرقراررکھناجانتاہےاسیطرحوہآنکھوںمیںآنکھیںڈالکرمناسبجوابدینابھیجانتاہے۔ ہمارےبہادرفوجیوںنےیہدکھادیاہےکہ،وہکبھیبھیوطنعزیزکیعظمتپرآنچنہیںآنےدیںگے۔
دوستو،پوریقوماپنےبہادرفوجیوںکیبہادریکوخراجعقیدتپیشکررہیہےجولداخمیںشہیدہوئےہیں،پوراملکانکاشکرگزارہے،انکےسامنےانکاسرفخرسےبلندہے۔ انساتھیوںکےاہلخانہکیطرح،ہرہندوستانیبھیانکوکھونےکادرداٹھارہاہے۔ اپنےبہادربیٹوںاوربیٹوںکیقربانیپرانکےاہلخانہمیںفخرکااحساس،وہجذبہجوملککےلئےہے,یہملککیطاقتہے۔ آپنےدیکھاہوگاکہوہوالدین،جنکےبیٹےشہیدہوئےتھے،اپنےدوسرےبیٹوںکوبھی،گھرکےدوسرےبچوںکوبھیفوجمیںبھیجنےکیباتکررہےہیں۔ بہارسےتعلقرکھنےوالےشہیدکندنکمارکےوالدکےالفاظانکےکانوںمیںگونجرہےہیں۔ وہکہہرہےتھے،میںاپنےپوتےپوتیوںکوملککیحفاظتکےلئےفوجمیںبھیجوںگا۔ یہشہیدوںکےاہلخانہکیہمتہے۔ درحقیقت،انکےلواحقینکیقربانیقابلاحترامہے۔ ہمیںزندگیکامقصدبھیبناناہے،ہرہندوستانیکواپنیسرزمیںہندستانکےتحفظکےلئےیکساںعزمکرناہوگا۔ اسسمتمیںہرممکنکوششکیجانیچاہئے،تاکہسرحدوںکےتحفظکےلئےملککیطاقتمیںاضافہہو،ملککومزیدمضبوطبنایاجاسکے،تاکہملکخودکفیلہوجائے۔ یہبھیہمارےشہیدوںکوسچیخراجعقیدتہوگی۔ آسامسےتعلقرکھنےوالےرجنیجینےمجھکوخطلکھاہے،انہوںنےمشرقیلداخمیںپیشآنےوالےواقعاتکودیکھنےکےبعد،ایکعہدکیاہےکہوہصرفمقامیچیزیںخریدیںگے،نہصرفمقامیلوگوںکےلئےوہآوازاٹھاسکیںگے۔ اسطرحکےپیغاما