نئی دہلی۔ 28 مارچ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! اس بار، جب میں،‘من کی بات’ کے لیے، جو بھی خطوط آتے ہیں،تبصرے آتے ہیں، مختلف قسم کی جانکاری ملتی ہیں، جب انکی طرف نظر دوڑا رہا تھا، تو کئی لوگوں نے ایک بہت ہی اہم بات یاد کی۔مائی گو پر آرین شری، بینگلورو سے انوپ راؤ، نوئیڈا سے دیویش، تھانے سے سجیت، ان سبھی نے کہا – مودی جی اس بار ‘من کی بات’ کی 75ویں ہے، اسکے لیے آپ کو مبارکباد ۔ میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ نے اتنی باریک بینی سے ‘من کی بات’ کو سنتے رہے ہیں اور آپ جڑے رہے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت ہی فخر کا باعث ہے، خوشی کا باعث ہے۔ میری طرف سے بھی، آپ سبھی کو مبارکباد، ‘من کی بات’ کے سبھی سامعین کا شکر گزار ہوں ، کیونکہ آپ کے ساتھ کے بغیر یہ سفر ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ کل کی ہی بات ہو، جب ہم سبھی نے ایک ساتھ مل کر یہ فکری سفر کا آغاز کیا تھا۔ تب 3 اکتوبر، 2014 کو وجے دشمی کا مقدس تہوار تھا اور اتفاق دیکھیے، کہ آج، ہولیکا دہن ہے۔ ‘ایک دیپ سے جلے دوسرا اور ملک روشن ہو ہمارا’ – اس جذبے کے ساتھ چلتے چلتے ہم نے یہ راستہ طے کیا ہے۔ ہم لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے لوگوں سے بات کی اور ان کے غیر معمولی کارناموں کے بارے میں جانا۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، ہمارے ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی، کتنی بے مثال صلاحیت موجود ہے۔ بھارت ماں کی گود میں، کیسے کیسے رتن پل رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بھی ایک سماج کے تئیں دیکھنے کا، سماج کو جاننے کا، سماج کی صلاحیت کو پہچاننے کا، میرے لیے تو ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ان 75 قسطوں کے دوران کتنے کتنے موضوعات سے گزرنا ہوا۔ کبھی ندی کی بات تو کبھی ہمالیہ کی چوٹیوں کی بات، تو کبھی ریگستان کی بات، کبھی قدرتی آفات کی بات، تو کبھی انسانی خدمات بے شمار کہانیوں کا احساس ، کبھی ٹکنالوجی کی ایجاد، تو کبھی کسی انجان گوشے میں، کچھ نیا کر کےدکھانے والے کسی کے تجربہ کی کہانی ۔ اب آپ دیکھیے، کیا صفائی کی بات ہو، چاہے ہماری وراثت کو سنبھالنے کا ذکر ہو، اور اتنا ہی نہیں، کھلونے بنانے کی بات ہو، کیا کچھ نہیں تھا۔ شاید، کتنے موضوعات پرہم نے بات کی ہے تو وہ بھی شاید بے شمار ہو جائیں گے۔ اس دوران ہم نے وقفے وقفے سے عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کی، انکے بارے میں جانا، جنہوں نے ہندوستان کی تعمیر میں بے نظیر خدمات پیش کی ہیں۔ ہم لوگوں نے کئی عالمی امور پر بھی بات کی، ان سے تحریک لینے کی کوشش کی ہے۔ کئی باتیں آپ نے مجھے بتائی، کئی آئیڈیاز دیے،۔ ایک طرح سے، اس فکری سفر میں، آپ، ساتھ ساتھ چلتے رہے، جڑتے رہے اور کچھ نہ کچھ نیا جوڑتے بھی رہے۔ میں آج، اس 75ویں قسط کے موقع پر سب سے پہلے ‘من کی بات’ کو کامیاب بنانے کے لیے، خوشگوار بنانے کے لیے اور اس سے جڑے رہنے کے لیے ہر سامع کا بہت بہت شکر گزار ہوں،۔
میرے پیارے ہم وطنو، دیکھیے یہ کیسا حسن اتفاق ہے آج مجھے 75ویں ‘من کی بات’ کا موقع ملا اور یہی مہینہ آزادی کے 75 سال کے ‘امرت مہوتسو’کے آغاز کا مہینہ۔ امرت مہوتسو ڈانڈی یاترا کے دن سے شروع ہوا تھا اور 15 اگست 2023 تک چلےگا۔‘امرت مہوتسو’ سے منسلک پروگرام پورے ملک میں مسلسل ہو رہے ہیں، الگ الگ جگہوں سے ان پروگراموں کی تصویریں، جانکاریاں لوگ شیئر کر رہے ہیں۔نمو ایپ پر ایسی ہی کچھ تصویروں کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ کے نوین نے مجھے ایک پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے ‘امرت مہوتسو’ کے پروگرام دیکھے اور طے کیا کہ وہ بھی جد وجہد آزادی سے جڑے کم سے کم 10 مقامات پر جائیں گے۔ ان کی فہرست میں پہلا نام، بھگوان برسا منڈا کے جائے پیدائش کا ہے۔ نوین نے لکھا ہے کہ جھارکھنڈ کے قبائلی مجاہدین آزادی کی کہانیاں وہ ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچائیں گے۔ بھائی نوین، آپکی سوچ کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، کسی مجاہدین آزادی کی جد و جہد کی داستان ہو، کسی جگہ کی تاریخ ہو، ملک کی کوئی ثقافتی کہانی ہو، ‘امرت مہوتسو’ کے دوران آپ اسے ملک کے سامنے لا سکتے ہیں، ہم وطنوں کو اس سے جوڑ نے کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔آپ دیکھئے گا، دیکھتے ہی دیکھتے ‘امرت مہوتسو’ ایسے بہت سے قابل ترغیب امرت سے بھر جائے گا، اور پھر امرت کی ایسی دھارا بہے گی جو ہمیں ہندوستان کی آزادی کی سو سال تک ترغیب دے گی۔ ملک کو نئی بلندی پر لے جائے گی، کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے گی۔ آزادی کے لڑائی میں ہمارے مجاہدین نے کتنے ہی تکلیف اسلئے برداشت کیے ، کیونکہ، وہ ملک کے لیے قربانی کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی قربانی کی لازوال داستانیں اب ہمیں مسلسل فرائض کی ادائیگی کے لیے راغب کرے اور جیسے گیتا میں بھگوان کرشن نے کہا ہے –
نیتں کورو کرم توں کرم جیایو ہیکرمن:
اسی جذبے کے ساتھ، ہم سب، اپنے مقررہ فرائض کو پوری ایمانداری سے انجام دیں اور آزادی کا ‘امرت مہوتسو’ کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے عزم کی تجدید کریں۔ ان عزائم کو ثابت کرنے کے لیے جی جان سے مصروف ہو جائیں اور عزم وہ ہو جو سماج کی بھلائی کاہو، دیش کی بھلائی کا ہو،ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے ہو، اور عزم وہ ہو، جس میں، میری ، اپنی، خود کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہو، میرا اپنا فرض جڑا ہوا ہو۔ مجھے یقین ہے، گیتا کو جینے کا یہ سنہرا موقع ، ہم لوگوں کے پاس ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے سال یہ مارچ کا ہی مہینہ تھا، ملک نے پہلی بار جنتا کرفیو کا لفظ سنا تھا۔ لیکن اس عظیم ملک کے عظیم باشندوں کی عظیم قوت تجربہ دیکھیے، جنتا کرفیو پوری دنیا کے لیے حیران کن بن گیا تھا۔نظم و ضبط کی یہ غیر معمولی مثال تھی، آنے والی نسلیں اس ایک بات پر ضرور فخر کرے گی۔ اسی طرح ہمارے کو رونا واریئر کے احترام ،عزت ، تھالی بجانا، تالی بجانا، دیا جلانا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کو رونا واریئر کے دل کو کتنا چھو گیا تھا وہ، اور، وہ ہی تو سبب ہے، جو پورےسال بھر،وہ ، بغیر تھکاوٹ محسوس کیے ، بغیر رکے، ڈٹے رہے۔ ملک کے ایک ایک شہری کی جان بچانے کے لیے جی جان سے مصروف عمل رہے۔ پچھلے سال اس وقت سوال تھا کہ کو رونا کی ویکسین کب تک آئے گی۔ ساتھیو، ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے، کہ آج ہندوستان ، دنیا کا، سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام چلا رہا ہے۔ٹیکہ کاری پروگرام کی تصویروں کے بارے میں مجھے بھوونیشور کی پشپا شکلا جی نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے بڑے بزرگوں میں ویکسین کے بارے میں جو جوش نظر آ رہا ہے ، اس کا ذکر میں ‘من کی بات’ میں کروں۔ساتھیو درست بھی ہے، ملک کے گوشے گوشے سے، ہم، ایسی خبریں سن رہے ہیں، ایسی تصویریں دیکھ رہے ہیں جو ہمارے دل کو چھو جاتی ہیں۔ یوپی کے جونپور میں 109 برس کی بزرگ ماں، رام دو لیا جی نے ٹیکہ لگوایا ہے، ایسے ہی، دلی میں بھی، 107 سال کے، کیول کرشن جی نےٹیکہ کی خوراک لی ہے۔ حیدرآباد میں 100 سال کے جے چودھری جی نے ٹیکہ لگوائی اور سبھی سے اپیل بھی ہے کہ ٹیکہ ضرور لگوائیں۔ میں ٹوئٹر – فیس بک پر بھی یہ دیکھ رہا ہوں، کہ کیسے لوگ اپنے گھر کے بزرگوں کو ٹیکہ لگوانے کے بعد، انکی فوٹو اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ کیرالہ سے ایک نوجوان آنندن نائر نے تو اسے ایک نیا لفظ دیا ہے – 'ویکسین سیوا'۔ ایسے ہی پیغامات دلی سے شیوانی، ہماچل سے ہمانشو اوردوسرے کئی نوجوانوں نے بھی بھیجے ہیں۔ میں آپ سبھی سامعین کی ان آراء کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،۔ ان سب کےدرمیان ، کو رونا سے لڑائی کا منتر بھی ضرور یاد رکھیئے ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔اور صرف مجھے بولنا ہے – ایسا نہیں ! ہمیں جینا بھی ہے، بولنا بھی ہے، بتانا بھی ہے اور لوگوں کو بھی، ‘دوائی بھی، کڑائی بھی’، اسکے لیے، عہد پر بھی قائم رہنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے آج اندور کی رہنے والی سومیا جی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ انہوں نے، ایک موضوع کے بارے میں میری توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا ذکر ‘من کی بات’ میں کرنے کے لیے کہا ہے۔یہ موضوع ہے – بھارت کی کرکٹ کھلاڑی متالی راج جی کا نیا ریکارڈ ۔ متالی جی، حال ہی میں بین الاقوامی کرکٹ میں دس ہزار رن بنانے والی پہلی ہندوستانی خاتون کرکٹر بنی ہیں۔ انکی اس کامیابی پر بہت بہت مبارکباد۔ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سات ہزار رن بنانے والی بھی وہ اکیلی بین الاقوامی خاتون کھلاڑی ہیں۔ خاتون کرکٹ کے شعبہ میں ان کی خدمات بہت شاندار ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ کے کیریر میں متالی راج جی نے ہزاروں لاکھوں کو تحریک دی ہے۔ ان کی سخت جانفشانی اور کامیابی کی کہانی، نہ صرف خواتین کرکٹروں، بلکہ، مرد کرکٹروں کے لیے بھی ایک ترغیب ہے۔
ساتھیو، یہ دلچسپ ہے، اسی مارچ کے مہینے میں، جب ہم یوم خواتین منا رہے تھے ، تب کئی خاتون کھلاڑیوں نے میڈل اور ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ دلی میں منعقدہ شوٹنگ میں آئی ایس ایس ایف ورلڈ کپ میں ہندوستان سرفہرست رہا۔ سونے کے تمغے کی تعداد کے معاملے میں ہندوستان بازی ماری۔ یہ ہندوستان کی خواتین اور مرد نشانہ بازوں کے شاندار کارکردگی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ اس درمیان پی وی سندھو جی نے بی ڈبلیو ایف سوئس اوپن سوپر 300 ٹورنامنٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آج،تعلیم سے لے کر کاروبار تک، مسلح افواج سے لے کرسائنس و ٹکنالوجی تک، ہر جگہ ملک کی بیٹیاں، اپنی، الگ شناخت بنا رہی ہیں۔ مجھے خاص طور پر اس بات سے خوشی ہے، کہ، بیٹیاں کھیلوں میں، اپنا ایک نیا مقام بنا رہی ہیں۔ پیشہ ورانہ انتخاب کی شکل میں اسپورٹس ایک پسند بن کر ابھر رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ عرصہ قبل ہوئی میری ٹائم انڈیا سمٹ آپ کو یاد ہے نا ؟ اس سمّٹ میں میں نے کیا کہا تھا، کیا یہ آپ کو یاد ہے ؟ قدرتی ہے، اتنے پروگرام ہوتے رہتے ہیں، اتنی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ہر بات کہاں یاد رہتی ہیں اور اتنا دھیان بھی کہاں جاتا ہے – فطری عمل ہے۔ لیکن، مجھے اچھا لگا کہ میری ایک گزارش کو گرو پرساد جی نے بہت دلچسپی لے کر آگے بڑھایا ہے۔ میں نے اس سمٹ میں ملک کے لائٹ ہاؤس کمپلیکس کے آس پاس سیاحت کی سہولتیں فروغ دینے کے بارے میں بات کی تھی۔ گرو پرساد جی نے تمل ناڈو کے دو لائٹ ہاؤسوں چنئی لائٹ ہاؤس اور مہابلی پورام لائٹ ہاؤس کی 2019 کے اپنے سفر کے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دلچسپ حقائق شیئر کی ہیں جو ‘من کی بات’ سننے والوں کو بھی حیران کریں گی۔ جیسے، چنئی لائٹ ہاؤس دنیا کے ان چنندہ لائٹ ہاؤس میں سے ایک ہے، جس میں الیویٹر موجود ہے۔ یہی نہیں،ہندوستان کا یہ اکلوتا لائٹ ہاؤس ہے، جو شہر کے حدود کے اندر قائم ہے۔ اس میں، بجلی کے لیے شمسی پینل بھی لگے ہیں۔گرو پرساد جی نے لائٹ ہاؤس کےہیرٹیج میوزیم کے بارے میں بھی بات کی، جو میرین نیوی گیشن کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے۔ میوزیم میں، تیل سے جلنے والی بڑی بڑی لائٹیں ، کیروسین لائٹ ، پٹرولیم ویپراور قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے بجلی کے لیمپ کی نمائش کی گئی ہے۔ ہندوستان کے سب سے قدیم لائٹ ہاؤس مہا بلی پورم لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی گرو پرساد جی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس لائٹ ہاؤس کے بغل میں سینکڑوں برس پہلے، پلو راجا مہیندر ورمن اول کے ذریعہ بنایا گیا ‘الکنیشورمندر' ہے۔
ساتھیو، ‘من کی بات’ کے دوران، میں نے، سیاحت کے مختلف پہلوؤں پر متعدد بار بات کی ہے، لیکن، یہ لائٹ ہاؤس ٹورزم کے لحاظ سے انوکھے ہوتے ہیں۔ اپنی شاندار تعمیر کے سبب لائٹ ہاؤس ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ہندوستان میں بھی71 لائٹ ہاؤس کی شناخت کی گئی ہے۔ ان سبھی لائٹ ہاؤسوں میں ان کی صلاحیت کے مطابق میوزیم، امپی تھیٹر، اوپن ایئر تھیٹر، کیفیٹریا، چلڈرن پارک، ماحول دوست جھونپڑیاں اور لینڈ اسکیپنگ تیار کیے جائیں گے۔ ویسے، لائٹ ہاؤس کی بات چل رہی ہے تو میں ایک انوکھے لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی آپ کو بتانا چاہوں گا۔ یہ لائٹ ہاؤس گجرات کے سریندر نگر ضلع میں جنجھوواڑا نام کے ایک مقام پر ہے۔ جانتے ہیں، یہ لائٹ ہاؤس کیوں خاص ہے ؟ خاص اسلئے ہے کیونکہ جہاں یہ لائٹ ہاؤس ہے، وہاں سے اب ساحل سمندر سو کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔ آپ کو اس گاؤں میں ایسے پتھر بھی مل جائیں گے، جو یہ بتاتے ہیں کہ، یہاں، کبھی، ایک مصروف بندرگاہ رہا ہوگا۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے ساحلی پٹی جنجھوواڑا تک تھی۔ سمندر کا گھٹنا، بڑھنا، پیچھے ہو جانا، اتنی دور چلے جانا، یہ بھی اس کی ایک شکل ہے۔ اسی مہینے جاپان میں آئی بھیانک سونامی کو 10 سال ہو رہے ہیں۔ اس سونامی میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ ایسی ایک سونامی ہندوستان میں 2004 میں آئی تھی۔ سونامی کے دوران ہم نے اپنے لائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے، اپنے،14 ملازمین کو کھو دیا تھا، انڈمان نکوبار اور تمل ناڈو میں لائٹ ہاؤس میں وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ کڑی محنت کرنے والے،ہمارے ان لائٹ کیپرس کو میں بڑے احترام سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، اور لائٹ کیپرس کے کام کی بہت بہت ستائش کرتا ہوں،۔
عزیرہم وطنو،زندگی کے ہر شعبے میں نیاپن ، جدت ضروری ہوتی ہے، ورنہ، وہی، کبھی کبھی، ہمارے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ہندوستان کی زرعی شعبہ میں جدت وقت کی ضرورت ہے۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔زرعی شعبہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے، روایتی زراعت کے ساتھ ہی، نئے متبادل کو، نئے نئے اختراعات کو، اپنانا بھی، اتنا ہی ضروری ہے۔سفید انقلاب کے دوران، ملک نے، اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ اب شہد کی مکھی کی کھیتی بھی ایسا ہی ایک متبادل بن کرابھر رہا ہے۔شہد کی مکھی کی زراعت ملک میں شہد کرانتی یا شیریں انقلاب کی بنیاد بنا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں کسان اس سے وابستہ ہو رہے ہیں، اختراعات کر رہے ہیں۔ جیسے کہ مغربی بنگال کے دارجلنگ میں ایک گاؤں ہے گردم۔ پہاڑوں کی اتنی بلندی ، جغرافیائی دقتیں، لیکن، یہاں کے لوگوں نے شہد کی مکھی کی زراعت کا کام شروع کیا، اور آج، اس جگہ پر بنے شہد کی، مدھو کی، اچھی مانگ ہو رہی ہے۔ اس سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کے ہی سندر بن علاقوں کا قدرتی آرگینک شہد تو ملک اور بیرون ممالک پسند کیا جاتا ہے۔ایسا ہی ایک ذاتی تجربہ مجھے گجرات کا بھی ہے۔ گجرات کے بناسکانٹھا میں سال 2016 میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں میں نے لوگوں سے کہا یہاں اتنے امکانات ہیں، کیوں نہ بناسکانٹھا اور ہمارے یہاں کے کسان شیریں انقلاب کا نیا باب لکھیں ؟ آپ کو جان کر خوشی ہوگی، اتنے کم عرصے میں، بناسکانٹھا، شہد پیدا کرنے کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ آج بناسکانٹھا کے کسان شہد سے لاکھوں روپئے سالانہ کما رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال ہریانہ کے جمنا نگر کا بھی ہے۔ جمنا نگر میں، کسان،شہد کی کھیتی کرکے، سالانہ، کئی سو ٹن شہد پیدا کر رہے ہیں، اپنی آمدنی بڑھا رہے ہیں۔ کسانوں کی اس محنت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں شہد کی پیداوار لگاتار بڑھ رہی ہے، اور سالانہ،تقریبا سوا لاکھ ٹن پہنچا ہے، اس میں سے، بڑی مقدار میں، شہد، بیرون ممالک میں ایکسپورٹ بھی ہو رہا ہے۔
ساتھیو،شہد کی مکھی کی زراعت میں صرف شہد سے ہی آمدنی نہیں ہوتی، بلکہ بی ویکس بھی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔دوا سازی کی صنعت، خوراک کی صنعت، کپڑا اور زیبائش کی صنعتیں ، ہر جگہ بی ویکس کی مانگ ہے۔ ہمارا ملک فی الحال بی ویکس درآمد کرتا ہے، لیکن، ہمارے کسان، اب یہ صورتحال ، تیزی سے بدل رہے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے خود انحصار ہندوستان مہم میں مدد کر رہے ہیں۔ آج تو پوری دنیا آیوروید اورنیچرل ہیلتھ پروڈکٹس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں شہد کی مانگ اور بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں، ملک کے زیادہ سے زیادہ کسان اپنی کھیتی کے ساتھ ساتھ شہد کی زراعت سے بھی جڑیں۔ یہ کسانوں کی آمدنی بھی بڑھائے گا اور ان کی زندگی میں مٹھاس بھی گھولے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،ابھی کچھ دن پہلےورلڈ اسپیرو ڈےمنایا گیا۔ اسپیرو یعنی گوریا۔ کہیں اسے چکلی بولتے ہیں، کہیں چمنی بولتے ہیں، کہیں گھان چرکا کہا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے گھروں کی دیواروں میں، آس پاس کے پیڑوں پر گوریا چہکتی رہتی تھی۔ لیکن اب لوگ گوریا کو یہ کہہ کر یاد کرتے ہیں کہ پچھلی بار، برسوں پہلے، گوریا دیکھا تھا۔ آج اسے بچانے کے لیے ہمیں کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ میرے بنارس کے ایک ساتھی اندرپال سنگھ بترا جی نے ایسا کام کیا ہے جسے میں، ‘من کی بات’ کے سامعین کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ بترا جی نے اپنے گھر کو ہی گوریا کا آشیانہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کے ایسے گھونسلے بنوائے جن میں گوریا آسانی سے رہ سکے۔ آج بنارس کے کئی گھر اس مہم سے جڑ رہے ہیں۔ اس سے گھروں میں ایک غیر معمولی قدرتی ماحول بھی بن گیا ہے۔ میں چاہوں گا قدرتی ، ماحولیات ،جاندار، پرندے جن کے لیے بھی بن سکے، کم زیادہ کوششیں ہمیں بھی کرنی چاہیئے۔ جیسے ایک ساتھی ہیں وجے کمار کا بی جی۔ وجے جی اوڈیشہ کے کیندرپاڑا کے رہنے والے ہیں۔ کیندرپاڑا سمندر کے کنارے ہے۔ اسلئے اس ضلع کے کئی گاؤں ایسے ہیں، جن پر سمندر کی اونچی لہروں اور طوفان کا خطرہ رہتا ہے۔ اس سے کئی بار بہت نقصان بھی ہوتا ہے۔ وجے جی نے محسوس کیا کہ اگر اس قدرتی تباہی کو کوئی روک سکتا ہے تو وہ قدرت ہی روک سکتی ہے۔ پھر کیا تھا – وجے جی نےبڑاکوٹ گاؤں سے اپنا مشن شروع کیا۔ انہوں نے 12 سال، ساتھیوں، 12 سال، محنت کرکے، گاؤں کے باہر، سمندر کی جانب 25 ایکڑ میں مینگروو کا جنگل کھڑا کر دیا۔آج یہ جنگل اس گاؤں کی حفاظت کر رہا ہے۔ایسا ہی کام اوڈیشہ کے ہی پردیپ ضلع میں ایک انجینئر امریش سامنت جی نے کیا ہے۔امریش جی نے چھوٹے چھوٹے جنگل لگائے ہیں، جن سے آج کئی گاؤں کی حفاظت ہو رہی ہے۔ساتھیو،اس طرح کے کاموں میں، اگر ہم، سماج کو ساتھ جوڑ لیں، تو بڑے نتائج سامنے آتے ہیں۔جیسے، تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں بس کنڈکٹر کا کام کرنے والے مرمتھو یوگناتھن جی ہیں۔ یوگناتھن جی، اپنی بس کے مسافروں کو ٹکٹ دیتے ہیں، تو ساتھ میں ہی ایک پودا بھی مفت دیتے ہیں۔اس طرح یوگناتھن جی نہ جانے کتنے ہی پیڑ لگوا چکے ہیں۔یوگناتھن جی اپنے تنخواہ کا کافی حصہ اسی کام میں خرچ کرتے آ رہے ہیں۔اب اسکو سننے کے بعد ایسا کون شہری ہوگا جو مرمتھو یوگناتھن جی کے کام کی تعریف نہ کرے۔میں دل سے ان کی کوششوں کو بہت مبارکباد دیتا ہوں، انکے اس قابل ترغیب کام کے لیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ویسٹ سے ویلتھ یعنی کچرے سے کنچن بنانے کے بارے میں ہم سب نے دیکھا بھی ہے، سنا بھی ہے، اور ہم بھی اوروں کو بتاتے رہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح فضلہ کو قیمت میں بدلنے کا بھی کام کیا جا رہا ہے۔ایسی ہی ایک مثال کیرالہ کے کوچی کے سینٹ ٹیریسا کالج کا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 2017 میں، میں اس کالج کے کیمپس میں، ایک بُک ریڈنگ پر مبنی پروگرام میں شامل ہوا تھا۔اس کالج کے طلباء دوبارہ استعمال شدہ کھلونا بنا رہے ہیں، وہ بھی بہت ہی تخلیقی طریقے سے۔یہ طلباء پرانے کپڑوں، پھینکے گئے لکڑی کے ٹکڑوں،بیگ اور بکس کا استعمال کھلونے بنانے میں کر رہے ہیں۔کوئی طالب علم معمہ بنا رہا ہے تو کوئی کار اور ٹرین بنا رہا ہے۔یہاں اس بات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ کھلونے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ماحول دوست بھی ہوں۔ اور اس پوری کوششوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ کھلونے آنگن باڑی کے بچوں کو کھیلنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔آج جب ہندوستان کھلونوں کی مینوفکچرنگ میں کافی آگے بڑھ رہا ہے تو فضلہ سے قیمت کی یہ مہم یہ اختراعی استعمال بہت معنی رکھتے ہیں۔
آندھرا پردیش کے وجےواڑا میں ایک پروفیسر شرینواس پدکانڈلا جی ہیں۔ وہ بہت ہی دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے آٹو موبائل اسکریپ سے مجسمے بنائے ہیں۔ ان کے ذریعہ بنائے گئے یہ شاندار مجسمے عوامی پارکوں میں لگائے گئے ہیں اور لوگ انہیں بہت جوش و خروش سے دیکھ رہے ہیں۔ الیکٹرونک اور آٹو موبائل فضلہ کی ری سائیکلنگ کا یہ اختراعی استعمال ہے۔ میں ایک بار پھر کوچی اور وجے واڑا کی ان کوششوں کی ستائش کرتا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ مزید لوگ بھی ایسی کوششوں میں آگے آئیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،ہندوستان کے لوگ دنیا کے کسی خطے میں جاتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ ہم اپنے یوگ، آیوروید، فلسفہ نہ جانے کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس جس کے لیے ہم فخر کرتے ہیں ، فخر کی باتیں کرتے ہیں ساتھ ہی اپنی مقامی زبان ، بولی، پہچان، پوشاک ، کھان پان اس پر بھی فخر کرتے ہیں۔ہمیں نیا تو پانا ہے، اور وہی تو زندگی ہوتی ہے لیکن ساتھ ساتھ قدیم کو گنوانا بھی نہیں ہے۔ ہمیں بہت محنت کے ساتھ اپنے آس پاس موجود لامحدود ثقافتی ورثے کو فروغ دینا ہے ، نئی نسل تک پہنچانا ہے۔یہی کام، آج، آسام کے رہنے والے ‘سکاری ٹسو’ بہت ہی لگن کے ساتھ کر رہے ہے۔ کربی انلونگ ضلع کے ‘سکاری ٹسو’ جی پچھلے 20 سالوں سے کربی زبان کی دستاویز تیار کر رہے ہیں۔کسی زمانہ میں کسی عہد میں ‘کربی قبائلی بھائی بہنوں کی زبان ‘کربی’آج قومی دھارے سے غائب ہو رہی ہے۔جناب ‘سکاری ٹسو’ جی نے طے کیا تھا کہ اپنی اس پہچان کو وہ بچائیں گے ، اور آج ان کی کوششوں سے کربی زبان کی کافی جانکاری دستاویز کی شکل میں تیار ہوگئی ہے۔ انہیں ان کوششوں کے کے لیے کئی جگہ ان کی ستائش بھی ہوئی ہے۔ اور ایوارڈبھی ملے ہیں۔‘من کی بات’ کے ذریعہ جناب ‘سکاری ٹسو’ جی کو میں تو مبارکباد دیتا ہی ہوں، لیکن ملک کے کئی کونے میں اس طرح کئی کامل افراد ہوں گے جو ایک کام لے کر کے کوشاں رہتے ہو ں گے میں ان سب کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں،کوئی بھی نئی شروعات ہمیشہ بہت خاص ہوتی ہیں۔نئی شروعات کا مطلب ہوتا ہےنئے امکانات، نئی کوششیں اور نئی کوششوں کا مطلب ہے نئی توانائی اور نیا جوش۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں الگ الگ راجیوں اور شیتروں میں اور تنوع سے بھری ہماری ثقافت میں کسی بھی شروعات کو اتسو کے طور پر منانے کی روایت رہی ہے۔اور یہ وقت نئی شروعات اور نئے اتسو کی آمد کا ہے۔ہولی بھی تو بسنت کو اتسو کے طور پر ہی منانے کی ایک روایت ہے۔جس وقت ہم رنگوں کے ساتھ ہولی منارہے ہوتے ہیں، اسی وقت ، بسنت بھی، ہمارے چاروں جانب نئے رنگ بکھیر رہا ہوتا ہے۔ اسی وقت پھولوں کا کھلنا شروع ہوتا ہے اور قدرت زندہ ہو اٹھتی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں جلد ہی نیا سال بھی منایا جائے گا۔چاہے اگادی ہو یا پوتھنڈو، گڑی پڑوا ہو یا بیہو، نورہ ہو یا پوئیلا، یا پھر بوئیشاکھ ہو یا بیساکھی – پورا ملک ، امنگ، جوش اور نئی امیدوں کے رنگ میں شرابور نظر آئے گا۔ اسی وقت کیرالہ بھی خوبصورت تہوار وشو مناتا ہے۔اسکے بعد، جلد ہی چیتر نوراتری کا مقدس موقع بھی آ جائے گا۔ چیتر مہینے کے نوویں دن ہمارے یہاں رام نومی کا تہوار ہوتا ہے۔ اسے بھگوان رام کے جنم اتسو کے ساتھ ہی انصاف اورپراکرم کے ایک نئے عہد کی شروعات کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔اس دوران چاروں طرف دھوم دھام کے ساتھ ہی بھکتی کے جذبے سے بھرا ماحول ہوتا ہے، جو لوگوں کو اور قریب لاتا ہے، انہیں خاندان اور سماج سے جوڑتا ہے، آپسی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ان تہواروں کے موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،اس دوران 4 اپریل کو ملک ایسٹر بھی منائے گا۔عیسی مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے اتسو کی شکل میں ایسٹر کا تہوار منایا جاتا ہے۔ علامتی طور پر کہیں تو ایسٹر زندگی کی نئی شروعات سے جڑا ہے۔ایسٹر امیدوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی علامت ہے۔
On this holy and auspicious occasion, I greet not only the Christian Community in India, but also Christians globally.
میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ میں ہم نے ‘امرت مہوتسو’ اور ملک کے لیے اپنے فرائض کی بات کی۔ہم نے دیگر تہواروں کا بھی ذکر کیا ۔ اسی دوران ایک اور تہوار آنے والا ہے جو ہمارے آئینی حقوق اور فرائض کی یاد دلاتا ہے۔ وہ ہے 14 اپریل – ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جی کا یوم پیدائش ۔اس بار ‘امرت مہوتسو’ میں تو یہ موقع اور بھی خاص بن گیا ہے۔مجھے یقین ہے، بابا صاحب کی اس یوم پیدائش کو ہم ضرور یادگار بنائیں گے، اپنے فرائض عہد لے کر انہیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سبھی کو تہواروں کی ایک بار پھر نیک خواہشات ۔آپ سب خوش رہیں، صحت مند رہیں، سوستھ رہیے، اور خوب خوشی منائیں۔ اسی آرزو کے ساتھ پھر سے یاد کراتا ہوں، ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔بہت بہت شکریہ ۔
نئی دہلی۔ 28 مارچ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! اس بار، جب میں،‘من کی بات’ کے لیے، جو بھی خطوط آتے ہیں،تبصرے آتے ہیں، مختلف قسم کی جانکاری ملتی ہیں، جب انکی طرف نظر دوڑا رہا تھا، تو کئی لوگوں نے ایک بہت ہی اہم بات یاد کی۔مائی گو پر آرین شری، بینگلورو سے انوپ راؤ، نوئیڈا سے دیویش، تھانے سے سجیت، ان سبھی نے کہا – مودی جی اس بار ‘من کی بات’ کی 75ویں ہے، اسکے لیے آپ کو مبارکباد ۔ میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ نے اتنی باریک بینی سے ‘من کی بات’ کو سنتے رہے ہیں اور آپ جڑے رہے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت ہی فخر کا باعث ہے، خوشی کا باعث ہے۔ میری طرف سے بھی، آپ سبھی کو مبارکباد، ‘من کی بات’ کے سبھی سامعین کا شکر گزار ہوں ، کیونکہ آپ کے ساتھ کے بغیر یہ سفر ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ کل کی ہی بات ہو، جب ہم سبھی نے ایک ساتھ مل کر یہ فکری سفر کا آغاز کیا تھا۔ تب 3 اکتوبر، 2014 کو وجے دشمی کا مقدس تہوار تھا اور اتفاق دیکھیے، کہ آج، ہولیکا دہن ہے۔ ‘ایک دیپ سے جلے دوسرا اور ملک روشن ہو ہمارا’ – اس جذبے کے ساتھ چلتے چلتے ہم نے یہ راستہ طے کیا ہے۔ ہم لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے لوگوں سے بات کی اور ان کے غیر معمولی کارناموں کے بارے میں جانا۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، ہمارے ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی، کتنی بے مثال صلاحیت موجود ہے۔ بھارت ماں کی گود میں، کیسے کیسے رتن پل رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بھی ایک سماج کے تئیں دیکھنے کا، سماج کو جاننے کا، سماج کی صلاحیت کو پہچاننے کا، میرے لیے تو ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ان 75 قسطوں کے دوران کتنے کتنے موضوعات سے گزرنا ہوا۔ کبھی ندی کی بات تو کبھی ہمالیہ کی چوٹیوں کی بات، تو کبھی ریگستان کی بات، کبھی قدرتی آفات کی بات، تو کبھی انسانی خدمات بے شمار کہانیوں کا احساس ، کبھی ٹکنالوجی کی ایجاد، تو کبھی کسی انجان گوشے میں، کچھ نیا کر کےدکھانے والے کسی کے تجربہ کی کہانی ۔ اب آپ دیکھیے، کیا صفائی کی بات ہو، چاہے ہماری وراثت کو سنبھالنے کا ذکر ہو، اور اتنا ہی نہیں، کھلونے بنانے کی بات ہو، کیا کچھ نہیں تھا۔ شاید، کتنے موضوعات پرہم نے بات کی ہے تو وہ بھی شاید بے شمار ہو جائیں گے۔ اس دوران ہم نے وقفے وقفے سے عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کی، انکے بارے میں جانا، جنہوں نے ہندوستان کی تعمیر میں بے نظیر خدمات پیش کی ہیں۔ ہم لوگوں نے کئی عالمی امور پر بھی بات کی، ان سے تحریک لینے کی کوشش کی ہے۔ کئی باتیں آپ نے مجھے بتائی، کئی آئیڈیاز دیے،۔ ایک طرح سے، اس فکری سفر میں، آپ، ساتھ ساتھ چلتے رہے، جڑتے رہے اور کچھ نہ کچھ نیا جوڑتے بھی رہے۔ میں آج، اس 75ویں قسط کے موقع پر سب سے پہلے ‘من کی بات’ کو کامیاب بنانے کے لیے، خوشگوار بنانے کے لیے اور اس سے جڑے رہنے کے لیے ہر سامع کا بہت بہت شکر گزار ہوں،۔
میرے پیارے ہم وطنو، دیکھیے یہ کیسا حسن اتفاق ہے آج مجھے 75ویں ‘من کی بات’ کا موقع ملا اور یہی مہینہ آزادی کے 75 سال کے ‘امرت مہوتسو’کے آغاز کا مہینہ۔ امرت مہوتسو ڈانڈی یاترا کے دن سے شروع ہوا تھا اور 15 اگست 2023 تک چلےگا۔‘امرت مہوتسو’ سے منسلک پروگرام پورے ملک میں مسلسل ہو رہے ہیں، الگ الگ جگہوں سے ان پروگراموں کی تصویریں، جانکاریاں لوگ شیئر کر رہے ہیں۔نمو ایپ پر ایسی ہی کچھ تصویروں کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ کے نوین نے مجھے ایک پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے ‘امرت مہوتسو’ کے پروگرام دیکھے اور طے کیا کہ وہ بھی جد وجہد آزادی سے جڑے کم سے کم 10 مقامات پر جائیں گے۔ ان کی فہرست میں پہلا نام، بھگوان برسا منڈا کے جائے پیدائش کا ہے۔ نوین نے لکھا ہے کہ جھارکھنڈ کے قبائلی مجاہدین آزادی کی کہانیاں وہ ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچائیں گے۔ بھائی نوین، آپکی سوچ کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، کسی مجاہدین آزادی کی جد و جہد کی داستان ہو، کسی جگہ کی تاریخ ہو، ملک کی کوئی ثقافتی کہانی ہو، ‘امرت مہوتسو’ کے دوران آپ اسے ملک کے سامنے لا سکتے ہیں، ہم وطنوں کو اس سے جوڑ نے کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔آپ دیکھئے گا، دیکھتے ہی دیکھتے ‘امرت مہوتسو’ ایسے بہت سے قابل ترغیب امرت سے بھر جائے گا، اور پھر امرت کی ایسی دھارا بہے گی جو ہمیں ہندوستان کی آزادی کی سو سال تک ترغیب دے گی۔ ملک کو نئی بلندی پر لے جائے گی، کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے گی۔ آزادی کے لڑائی میں ہمارے مجاہدین نے کتنے ہی تکلیف اسلئے برداشت کیے ، کیونکہ، وہ ملک کے لیے قربانی کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی قربانی کی لازوال داستانیں اب ہمیں مسلسل فرائض کی ادائیگی کے لیے راغب کرے اور جیسے گیتا میں بھگوان کرشن نے کہا ہے –
نیتں کورو کرم توں کرم جیایو ہیکرمن:
اسی جذبے کے ساتھ، ہم سب، اپنے مقررہ فرائض کو پوری ایمانداری سے انجام دیں اور آزادی کا ‘امرت مہوتسو’ کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے عزم کی تجدید کریں۔ ان عزائم کو ثابت کرنے کے لیے جی جان سے مصروف ہو جائیں اور عزم وہ ہو جو سماج کی بھلائی کاہو، دیش کی بھلائی کا ہو،ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے ہو، اور عزم وہ ہو، جس میں، میری ، اپنی، خود کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہو، میرا اپنا فرض جڑا ہوا ہو۔ مجھے یقین ہے، گیتا کو جینے کا یہ سنہرا موقع ، ہم لوگوں کے پاس ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے سال یہ مارچ کا ہی مہینہ تھا، ملک نے پہلی بار جنتا کرفیو کا لفظ سنا تھا۔ لیکن اس عظیم ملک کے عظیم باشندوں کی عظیم قوت تجربہ دیکھیے، جنتا کرفیو پوری دنیا کے لیے حیران کن بن گیا تھا۔نظم و ضبط کی یہ غیر معمولی مثال تھی، آنے والی نسلیں اس ایک بات پر ضرور فخر کرے گی۔ اسی طرح ہمارے کو رونا واریئر کے احترام ،عزت ، تھالی بجانا، تالی بجانا، دیا جلانا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کو رونا واریئر کے دل کو کتنا چھو گیا تھا وہ، اور، وہ ہی تو سبب ہے، جو پورےسال بھر،وہ ، بغیر تھکاوٹ محسوس کیے ، بغیر رکے، ڈٹے رہے۔ ملک کے ایک ایک شہری کی جان بچانے کے لیے جی جان سے مصروف عمل رہے۔ پچھلے سال اس وقت سوال تھا کہ کو رونا کی ویکسین کب تک آئے گی۔ ساتھیو، ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے، کہ آج ہندوستان ، دنیا کا، سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام چلا رہا ہے۔ٹیکہ کاری پروگرام کی تصویروں کے بارے میں مجھے بھوونیشور کی پشپا شکلا جی نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے بڑے بزرگوں میں ویکسین کے بارے میں جو جوش نظر آ رہا ہے ، اس کا ذکر میں ‘من کی بات’ میں کروں۔ساتھیو درست بھی ہے، ملک کے گوشے گوشے سے، ہم، ایسی خبریں سن رہے ہیں، ایسی تصویریں دیکھ رہے ہیں جو ہمارے دل کو چھو جاتی ہیں۔ یوپی کے جونپور میں 109 برس کی بزرگ ماں، رام دو لیا جی نے ٹیکہ لگوایا ہے، ایسے ہی، دلی میں بھی، 107 سال کے، کیول کرشن جی نےٹیکہ کی خوراک لی ہے۔ حیدرآباد میں 100 سال کے جے چودھری جی نے ٹیکہ لگوائی اور سبھی سے اپیل بھی ہے کہ ٹیکہ ضرور لگوائیں۔ میں ٹوئٹر – فیس بک پر بھی یہ دیکھ رہا ہوں، کہ کیسے لوگ اپنے گھر کے بزرگوں کو ٹیکہ لگوانے کے بعد، انکی فوٹو اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ کیرالہ سے ایک نوجوان آنندن نائر نے تو اسے ایک نیا لفظ دیا ہے – 'ویکسین سیوا'۔ ایسے ہی پیغامات دلی سے شیوانی، ہماچل سے ہمانشو اوردوسرے کئی نوجوانوں نے بھی بھیجے ہیں۔ میں آپ سبھی سامعین کی ان آراء کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،۔ ان سب کےدرمیان ، کو رونا سے لڑائی کا منتر بھی ضرور یاد رکھیئے ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔اور صرف مجھے بولنا ہے – ایسا نہیں ! ہمیں جینا بھی ہے، بولنا بھی ہے، بتانا بھی ہے اور لوگوں کو بھی، ‘دوائی بھی، کڑائی بھی’، اسکے لیے، عہد پر بھی قائم رہنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے آج اندور کی رہنے والی سومیا جی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ انہوں نے، ایک موضوع کے بارے میں میری توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا ذکر ‘من کی بات’ میں کرنے کے لیے کہا ہے۔یہ موضوع ہے – بھارت کی کرکٹ کھلاڑی متالی راج جی کا نیا ریکارڈ ۔ متالی جی، حال ہی میں بین الاقوامی کرکٹ میں دس ہزار رن بنانے والی پہلی ہندوستانی خاتون کرکٹر بنی ہیں۔ انکی اس کامیابی پر بہت بہت مبارکباد۔ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سات ہزار رن بنانے والی بھی وہ اکیلی بین الاقوامی خاتون کھلاڑی ہیں۔ خاتون کرکٹ کے شعبہ میں ان کی خدمات بہت شاندار ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ کے کیریر میں متالی راج جی نے ہزاروں لاکھوں کو تحریک دی ہے۔ ان کی سخت جانفشانی اور کامیابی کی کہانی، نہ صرف خواتین کرکٹروں، بلکہ، مرد کرکٹروں کے لیے بھی ایک ترغیب ہے۔
ساتھیو، یہ دلچسپ ہے، اسی مارچ کے مہینے میں، جب ہم یوم خواتین منا رہے تھے ، تب کئی خاتون کھلاڑیوں نے میڈل اور ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ دلی میں منعقدہ شوٹنگ میں آئی ایس ایس ایف ورلڈ کپ میں ہندوستان سرفہرست رہا۔ سونے کے تمغے کی تعداد کے معاملے میں ہندوستان بازی ماری۔ یہ ہندوستان کی خواتین اور مرد نشانہ بازوں کے شاندار کارکردگی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ اس درمیان پی وی سندھو جی نے بی ڈبلیو ایف سوئس اوپن سوپر 300 ٹورنامنٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آج،تعلیم سے لے کر کاروبار تک، مسلح افواج سے لے کرسائنس و ٹکنالوجی تک، ہر جگہ ملک کی بیٹیاں، اپنی، الگ شناخت بنا رہی ہیں۔ مجھے خاص طور پر اس بات سے خوشی ہے، کہ، بیٹیاں کھیلوں میں، اپنا ایک نیا مقام بنا رہی ہیں۔ پیشہ ورانہ انتخاب کی شکل میں اسپورٹس ایک پسند بن کر ابھر رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ عرصہ قبل ہوئی میری ٹائم انڈیا سمٹ آپ کو یاد ہے نا ؟ اس سمّٹ میں میں نے کیا کہا تھا، کیا یہ آپ کو یاد ہے ؟ قدرتی ہے، اتنے پروگرام ہوتے رہتے ہیں، اتنی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ہر بات کہاں یاد رہتی ہیں اور اتنا دھیان بھی کہاں جاتا ہے – فطری عمل ہے۔ لیکن، مجھے اچھا لگا کہ میری ایک گزارش کو گرو پرساد جی نے بہت دلچسپی لے کر آگے بڑھایا ہے۔ میں نے اس سمٹ میں ملک کے لائٹ ہاؤس کمپلیکس کے آس پاس سیاحت کی سہولتیں فروغ دینے کے بارے میں بات کی تھی۔ گرو پرساد جی نے تمل ناڈو کے دو لائٹ ہاؤسوں چنئی لائٹ ہاؤس اور مہابلی پورام لائٹ ہاؤس کی 2019 کے اپنے سفر کے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دلچسپ حقائق شیئر کی ہیں جو ‘من کی بات’ سننے والوں کو بھی حیران کریں گی۔ جیسے، چنئی لائٹ ہاؤس دنیا کے ان چنندہ لائٹ ہاؤس میں سے ایک ہے، جس میں الیویٹر موجود ہے۔ یہی نہیں،ہندوستان کا یہ اکلوتا لائٹ ہاؤس ہے، جو شہر کے حدود کے اندر قائم ہے۔ اس میں، بجلی کے لیے شمسی پینل بھی لگے ہیں۔گرو پرساد جی نے لائٹ ہاؤس کےہیرٹیج میوزیم کے بارے میں بھی بات کی، جو میرین نیوی گیشن کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے۔ میوزیم میں، تیل سے جلنے والی بڑی بڑی لائٹیں ، کیروسین لائٹ ، پٹرولیم ویپراور قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے بجلی کے لیمپ کی نمائش کی گئی ہے۔ ہندوستان کے سب سے قدیم لائٹ ہاؤس مہا بلی پورم لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی گرو پرساد جی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس لائٹ ہاؤس کے بغل میں سینکڑوں برس پہلے، پلو راجا مہیندر ورمن اول کے ذریعہ بنایا گیا ‘الکنیشورمندر' ہے۔
ساتھیو، ‘من کی بات’ کے دوران، میں نے، سیاحت کے مختلف پہلوؤں پر متعدد بار بات کی ہے، لیکن، یہ لائٹ ہاؤس ٹورزم کے لحاظ سے انوکھے ہوتے ہیں۔ اپنی شاندار تعمیر کے سبب لائٹ ہاؤس ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ہندوستان میں بھی71 لائٹ ہاؤس کی شناخت کی گئی ہے۔ ان سبھی لائٹ ہاؤسوں میں ان کی صلاحیت کے مطابق میوزیم، امپی تھیٹر، اوپن ایئر تھیٹر، کیفیٹریا، چلڈرن پارک، ماحول دوست جھونپڑیاں اور لینڈ اسکیپنگ تیار کیے جائیں گے۔ ویسے، لائٹ ہاؤس کی بات چل رہی ہے تو میں ایک انوکھے لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی آپ کو بتانا چاہوں گا۔ یہ لائٹ ہاؤس گجرات کے سریندر نگر ضلع میں جنجھوواڑا نام کے ایک مقام پر ہے۔ جانتے ہیں، یہ لائٹ ہاؤس کیوں خاص ہے ؟ خاص اسلئے ہے کیونکہ جہاں یہ لائٹ ہاؤس ہے، وہاں سے اب ساحل سمندر سو کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔ آپ کو اس گاؤں میں ایسے پتھر بھی مل جائیں گے، جو یہ بتاتے ہیں کہ، یہاں، کبھی، ایک مصروف بندرگاہ رہا ہوگا۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے ساحلی پٹی جنجھوواڑا تک تھی۔ سمندر کا گھٹنا، بڑھنا، پیچھے ہو جانا، اتنی دور چلے جانا، یہ بھی اس کی ایک شکل ہے۔ اسی مہینے جاپان میں آئی بھیانک سونامی کو 10 سال ہو رہے ہیں۔ اس سونامی میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ ایسی ایک سونامی ہندوستان میں 2004 میں آئی تھی۔ سونامی کے دوران ہم نے اپنے لائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے، اپنے،14 ملازمین کو کھو دیا تھا، انڈمان نکوبار اور تمل ناڈو میں لائٹ ہاؤس میں وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ کڑی محنت کرنے والے،ہمارے ان لائٹ کیپرس کو میں بڑے احترام سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، اور لائٹ کیپرس کے کام کی بہت بہت ستائش کرتا ہوں،۔
عزیرہم وطنو،زندگی کے ہر شعبے میں نیاپن ، جدت ضروری ہوتی ہے، ورنہ، وہی، کبھی کبھی، ہمارے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ہندوستان کی زرعی شعبہ میں جدت وقت کی ضرورت ہے۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔زرعی شعبہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے، روایتی زراعت کے ساتھ ہی، نئے متبادل کو، نئے نئے اختراعات کو، اپنانا بھی، اتنا ہی ضروری ہے۔سفید انقلاب کے دوران، ملک نے، اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ اب شہد کی مکھی کی کھیتی بھی ایسا ہی ایک متبادل بن کرابھر رہا ہے۔شہد کی مکھی کی زراعت ملک میں شہد کرانتی یا شیریں انقلاب کی بنیاد بنا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں کسان اس سے وابستہ ہو رہے ہیں، اختراعات کر رہے ہیں۔ جیسے کہ مغربی بنگال کے دارجلنگ میں ایک گاؤں ہے گردم۔ پہاڑوں کی اتنی بلندی ، جغرافیائی دقتیں، لیکن، یہاں کے لوگوں نے شہد کی مکھی کی زراعت کا کام شروع کیا، اور آج، اس جگہ پر بنے شہد کی، مدھو کی، اچھی مانگ ہو رہی ہے۔ اس سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کے ہی سندر بن علاقوں کا قدرتی آرگینک شہد تو ملک اور بیرون ممالک پسند کیا جاتا ہے۔ایسا ہی ایک ذاتی تجربہ مجھے گجرات کا بھی ہے۔ گجرات کے بناسکانٹھا میں سال 2016 میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں میں نے لوگوں سے کہا یہاں اتنے امکانات ہیں، کیوں نہ بناسکانٹھا اور ہمارے یہاں کے کسان شیریں انقلاب کا نیا باب لکھیں ؟ آپ کو جان کر خوشی ہوگی، اتنے کم عرصے میں، بناسکانٹھا، شہد پیدا کرنے کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ آج بناسکانٹھا کے کسان شہد سے لاکھوں روپئے سالانہ کما رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال ہریانہ کے جمنا نگر کا بھی ہے۔ جمنا نگر میں، کسان،شہد کی کھیتی کرکے، سالانہ، کئی سو ٹن شہد پیدا کر رہے ہیں، اپنی آمدنی بڑھا رہے ہیں۔ کسانوں کی اس محنت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں شہد کی پیداوار لگاتار بڑھ رہی ہے، اور سالانہ،تقریبا سوا لاکھ ٹن پہنچا ہے، اس میں سے، بڑی مقدار میں، شہد، بیرون ممالک میں ایکسپورٹ بھی ہو رہا ہے۔
ساتھیو،شہد کی مکھی کی زراعت میں صرف شہد سے ہی آمدنی نہیں ہوتی، بلکہ بی ویکس بھی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔دوا سازی کی صنعت، خوراک کی صنعت، کپڑا اور زیبائش کی صنعتیں ، ہر جگہ بی ویکس کی مانگ ہے۔ ہمارا ملک فی الحال بی ویکس درآمد کرتا ہے، لیکن، ہمارے کسان، اب یہ صورتحال ، تیزی سے بدل رہے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے خود انحصار ہندوستان مہم میں مدد کر رہے ہیں۔ آج تو پوری دنیا آیوروید اورنیچرل ہیلتھ پروڈکٹس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں شہد کی مانگ اور بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں، ملک کے زیادہ سے زیادہ کسان اپنی کھیتی کے ساتھ ساتھ شہد کی زراعت سے بھی جڑیں۔ یہ کسانوں کی آمدنی بھی بڑھائے گا اور ان کی زندگی میں مٹھاس بھی گھولے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،ابھی کچھ دن پہلےورلڈ اسپیرو ڈےمنایا گیا۔ اسپیرو یعنی گوریا۔ کہیں اسے چکلی بولتے ہیں، کہیں چمنی بولتے ہیں، کہیں گھان چرکا کہا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے گھروں کی دیواروں میں، آس پاس کے پیڑوں پر گوریا چہکتی رہتی تھی۔ لیکن اب لوگ گوریا کو یہ کہہ کر یاد کرتے ہیں کہ پچھلی بار، برسوں پہلے، گوریا دیکھا تھا۔ آج اسے بچانے کے لیے ہمیں کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ میرے بنارس کے ایک ساتھی اندرپال سنگھ بترا جی نے ایسا کام کیا ہے جسے میں، ‘من کی بات’ کے سامعین کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ بترا جی نے اپنے گھر کو ہی گوریا کا آشیانہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کے ایسے گھونسلے بنوائے جن میں گوریا آسانی سے رہ سکے۔ آج بنارس کے کئی گھر اس مہم سے جڑ رہے ہیں۔ اس سے گھروں میں ایک غیر معمولی قدرتی ماحول بھی بن گیا ہے۔ میں چاہوں گا قدرتی ، ماحولیات ،جاندار، پرندے جن کے لیے بھی بن سکے، کم زیادہ کوششیں ہمیں بھی کرنی چاہیئے۔ جیسے ایک ساتھی ہیں وجے کمار کا بی جی۔ وجے جی اوڈیشہ کے کیندرپاڑا کے رہنے والے ہیں۔ کیندرپاڑا سمندر کے کنارے ہے۔ اسلئے اس ضلع کے کئی گاؤں ایسے ہیں، جن پر سمندر کی اونچی لہروں اور طوفان کا خطرہ رہتا ہے۔ اس سے کئی بار بہت نقصان بھی ہوتا ہے۔ وجے جی نے محسوس کیا کہ اگر اس قدرتی تباہی کو کوئی روک سکتا ہے تو وہ قدرت ہی روک سکتی ہے۔ پھر کیا تھا – وجے جی نےبڑاکوٹ گاؤں سے اپنا مشن شروع کیا۔ انہوں نے 12 سال، ساتھیوں، 12 سال، محنت کرکے، گاؤں کے باہر، سمندر کی جانب 25 ایکڑ میں مینگروو کا جنگل کھڑا کر دیا۔آج یہ جنگل اس گاؤں کی حفاظت کر رہا ہے۔ایسا ہی کام اوڈیشہ کے ہی پردیپ ضلع میں ایک انجینئر امریش سامنت جی نے کیا ہے۔امریش جی نے چھوٹے چھوٹے جنگل لگائے ہیں، جن سے آج کئی گاؤں کی حفاظت ہو رہی ہے۔ساتھیو،اس طرح کے کاموں میں، اگر ہم، سماج کو ساتھ جوڑ لیں، تو بڑے نتائج سامنے آتے ہیں۔جیسے، تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں بس کنڈکٹر کا کام کرنے والے مرمتھو یوگناتھن جی ہیں۔ یوگناتھن جی، اپنی بس کے مسافروں کو ٹکٹ دیتے ہیں، تو ساتھ میں ہی ایک پودا بھی مفت دیتے ہیں۔اس طرح یوگناتھن جی نہ جانے کتنے ہی پیڑ لگوا چکے ہیں۔یوگناتھن جی اپنے تنخواہ کا کافی حصہ اسی کام میں خرچ کرتے آ رہے ہیں۔اب اسکو سننے کے بعد ایسا کون شہری ہوگا جو مرمتھو یوگناتھن جی کے کام کی تعریف نہ کرے۔میں دل سے ان کی کوششوں کو بہت مبارکباد دیتا ہوں، انکے اس قابل ترغیب کام کے لیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ویسٹ سے ویلتھ یعنی کچرے سے کنچن بنانے کے بارے میں ہم سب نے دیکھا بھی ہے، سنا بھی ہے، اور ہم بھی اوروں کو بتاتے رہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح فضلہ کو قیمت میں بدلنے کا بھی کام کیا جا رہا ہے۔ایسی ہی ایک مثال کیرالہ کے کوچی کے سینٹ ٹیریسا کالج کا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 2017 میں، میں اس کالج کے کیمپس میں، ایک بُک ریڈنگ پر مبنی پروگرام میں شامل ہوا تھا۔اس کالج کے طلباء دوبارہ استعمال شدہ کھلونا بنا رہے ہیں، وہ بھی بہت ہی تخلیقی طریقے سے۔یہ طلباء پرانے کپڑوں، پھینکے گئے لکڑی کے ٹکڑوں،بیگ اور بکس کا استعمال کھلونے بنانے میں کر رہے ہیں۔کوئی طالب علم معمہ بنا رہا ہے تو کوئی کار اور ٹرین بنا رہا ہے۔یہاں اس بات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ کھلونے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ماحول دوست بھی ہوں۔ اور اس پوری کوششوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ کھلونے آنگن باڑی کے بچوں کو کھیلنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔آج جب ہندوستان کھلونوں کی مینوفکچرنگ میں کافی آگے بڑھ رہا ہے تو فضلہ سے قیمت کی یہ مہم یہ اختراعی استعمال بہت معنی رکھتے ہیں۔
آندھرا پردیش کے وجےواڑا میں ایک پروفیسر شرینواس پدکانڈلا جی ہیں۔ وہ بہت ہی دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے آٹو موبائل اسکریپ سے مجسمے بنائے ہیں۔ ان کے ذریعہ بنائے گئے یہ شاندار مجسمے عوامی پارکوں میں لگائے گئے ہیں اور لوگ انہیں بہت جوش و خروش سے دیکھ رہے ہیں۔ الیکٹرونک اور آٹو موبائل فضلہ کی ری سائیکلنگ کا یہ اختراعی استعمال ہے۔ میں ایک بار پھر کوچی اور وجے واڑا کی ان کوششوں کی ستائش کرتا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ مزید لوگ بھی ایسی کوششوں میں آگے آئیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،ہندوستان کے لوگ دنیا کے کسی خطے میں جاتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ ہم اپنے یوگ، آیوروید، فلسفہ نہ جانے کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس جس کے لیے ہم فخر کرتے ہیں ، فخر کی باتیں کرتے ہیں ساتھ ہی اپنی مقامی زبان ، بولی، پہچان، پوشاک ، کھان پان اس پر بھی فخر کرتے ہیں۔ہمیں نیا تو پانا ہے، اور وہی تو زندگی ہوتی ہے لیکن ساتھ ساتھ قدیم کو گنوانا بھی نہیں ہے۔ ہمیں بہت محنت کے ساتھ اپنے آس پاس موجود لامحدود ثقافتی ورثے کو فروغ دینا ہے ، نئی نسل تک پہنچانا ہے۔یہی کام، آج، آسام کے رہنے والے ‘سکاری ٹسو’ بہت ہی لگن کے ساتھ کر رہے ہے۔ کربی انلونگ ضلع کے ‘سکاری ٹسو’ جی پچھلے 20 سالوں سے کربی زبان کی دستاویز تیار کر رہے ہیں۔کسی زمانہ میں کسی عہد میں ‘کربی قبائلی بھائی بہنوں کی زبان ‘کربی’آج قومی دھارے سے غائب ہو رہی ہے۔جناب ‘سکاری ٹسو’ جی نے طے کیا تھا کہ اپنی اس پہچان کو وہ بچائیں گے ، اور آج ان کی کوششوں سے کربی زبان کی کافی جانکاری دستاویز کی شکل میں تیار ہوگئی ہے۔ انہیں ان کوششوں کے کے لیے کئی جگہ ان کی ستائش بھی ہوئی ہے۔ اور ایوارڈبھی ملے ہیں۔‘من کی بات’ کے ذریعہ جناب ‘سکاری ٹسو’ جی کو میں تو مبارکباد دیتا ہی ہوں، لیکن ملک کے کئی کونے میں اس طرح کئی کامل افراد ہوں گے جو ایک کام لے کر کے کوشاں رہتے ہو ں گے میں ان سب کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں،کوئی بھی نئی شروعات ہمیشہ بہت خاص ہوتی ہیں۔نئی شروعات کا مطلب ہوتا ہےنئے امکانات، نئی کوششیں اور نئی کوششوں کا مطلب ہے نئی توانائی اور نیا جوش۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں الگ الگ راجیوں اور شیتروں میں اور تنوع سے بھری ہماری ثقافت میں کسی بھی شروعات کو اتسو کے طور پر منانے کی روایت رہی ہے۔اور یہ وقت نئی شروعات اور نئے اتسو کی آمد کا ہے۔ہولی بھی تو بسنت کو اتسو کے طور پر ہی منانے کی ایک روایت ہے۔جس وقت ہم رنگوں کے ساتھ ہولی منارہے ہوتے ہیں، اسی وقت ، بسنت بھی، ہمارے چاروں جانب نئے رنگ بکھیر رہا ہوتا ہے۔ اسی وقت پھولوں کا کھلنا شروع ہوتا ہے اور قدرت زندہ ہو اٹھتی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں جلد ہی نیا سال بھی منایا جائے گا۔چاہے اگادی ہو یا پوتھنڈو، گڑی پڑوا ہو یا بیہو، نورہ ہو یا پوئیلا، یا پھر بوئیشاکھ ہو یا بیساکھی – پورا ملک ، امنگ، جوش اور نئی امیدوں کے رنگ میں شرابور نظر آئے گا۔ اسی وقت کیرالہ بھی خوبصورت تہوار وشو مناتا ہے۔اسکے بعد، جلد ہی چیتر نوراتری کا مقدس موقع بھی آ جائے گا۔ چیتر مہینے کے نوویں دن ہمارے یہاں رام نومی کا تہوار ہوتا ہے۔ اسے بھگوان رام کے جنم اتسو کے ساتھ ہی انصاف اورپراکرم کے ایک نئے عہد کی شروعات کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔اس دوران چاروں طرف دھوم دھام کے ساتھ ہی بھکتی کے جذبے سے بھرا ماحول ہوتا ہے، جو لوگوں کو اور قریب لاتا ہے، انہیں خاندان اور سماج سے جوڑتا ہے، آپسی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ان تہواروں کے موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،اس دوران 4 اپریل کو ملک ایسٹر بھی منائے گا۔عیسی مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے اتسو کی شکل میں ایسٹر کا تہوار منایا جاتا ہے۔ علامتی طور پر کہیں تو ایسٹر زندگی کی نئی شروعات سے جڑا ہے۔ایسٹر امیدوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی علامت ہے۔
On this holy and auspicious occasion, I greet not only the Christian Community in India, but also Christians globally.
میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ میں ہم نے ‘امرت مہوتسو’ اور ملک کے لیے اپنے فرائض کی بات کی۔ہم نے دیگر تہواروں کا بھی ذکر کیا ۔ اسی دوران ایک اور تہوار آنے والا ہے جو ہمارے آئینی حقوق اور فرائض کی یاد دلاتا ہے۔ وہ ہے 14 اپریل – ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جی کا یوم پیدائش ۔اس بار ‘امرت مہوتسو’ میں تو یہ موقع اور بھی خاص بن گیا ہے۔مجھے یقین ہے، بابا صاحب کی اس یوم پیدائش کو ہم ضرور یادگار بنائیں گے، اپنے فرائض عہد لے کر انہیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سبھی کو تہواروں کی ایک بار پھر نیک خواہشات ۔آپ سب خوش رہیں، صحت مند رہیں، سوستھ رہیے، اور خوب خوشی منائیں۔ اسی آرزو کے ساتھ پھر سے یاد کراتا ہوں، ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔بہت بہت شکریہ ۔
نئی دلّی ، 28 فروری / میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ کل ماگھ پورنیما کا تہوار تھا ۔ ماگھ کا مہینہ ، خاص طور پر دریاؤں ، جھیلوں اور آبی وسائل سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کا ذکر ہمارے صحیفوں میں بھی کیا گیا ہے ۔
‘‘ ماگھے نمگنا : سلیلے سوشیتے ، ویمکت پاپا : دتری دیوم پرایانتی ’’
یعنی ماگھ کے مہینے میں کسی بھی مقدس آبی وسائل میں نہانے کو مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ دنیا کے ہر سماج میں دریا کے ساتھ جڑی ہوئی کوئی نہ کوئی روایت موجود ہوتی ہی ہے ۔ دریاؤں کے کناروں پر بہت سی تہذیبوں نے فروغ پایا ہے کیونکہ ہماری تہذیب بھی ہزاروں سال پرانی ہے ۔ اِس لئے یہ روایت یہاں بھی واضح نظر آتی ہے ۔ ہندوستان میں کوئی ایک بھی ایسا دن ہے ، جس میں ملک کے کسی نہ کسی کونے میں پانی سے مربوط کوئی تہوار نہ ہو ۔ ماگھ کے دوران لوگ اپنے گھروں اور اپنے قریبی لوگوں تک کو اور آسائش اور آرام کو چھوڑ کر دریا کے کناروں پر کلپ واس رکھتے ہیں ۔ اس مرتبہ ہریدوار میں کمبھ بھی منعقد کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے لئے پانی زندگی ہے ، عقیدہ بھی ہے اور ترقی کی علامت بھی ہے ۔ ایک طرح سے پانی پارس یا فلوسفر کے پتھر سے زیادہ اہم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پارس رگڑنے سے لوہا سونے میں بدل جاتا ہے ۔ اسی طرح پانی بھی زندگی کے لئے ضروری ہے ، ترقی کے لئے نا گزیر ہے ۔
دوستو ، ماگھ مہینے کو پانی سے جوڑنے کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ اس کے بعد سے ہی سردیاں ختم ہو جاتی ہیں اور گرمیاں دستک دینے لگتی ہیں ۔ اس لئے پانی کے تحفظ کے لئے ہمیں ابھی سے ہی کوششیں شروع کر دینی چاہئیں ۔ کچھ دنوں بعد مارچ کے مہینے میں ہی 22 تاریخ کو پانی کا عالمی دن بھی ہے ۔
مجھے یو پی کی آرادھیا جی نے لکھا ہے کہ دنیا میں کروڑوں لوگ اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ پانی کی کمی کو پورا کرنے میں ہی لگا دیتے ہیں ۔ ‘بن پانی سب سون ’ ایسے ہی نہیں کہا گیا ہے ۔ پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک بہت ہی اچھا پیغام مغربی بنگال کے شمالی دیناج پور سے سجیت جی نے مجھے بھیجا ہے ۔ سجیت جی نے لکھا ہے کہ قدرت نے پانی کی شکل میں ہمیں ایک اجتماعی تحفہ دیا ہے ۔ اس لئے اِسے بچانے کی ذمہ داری بھی اجتماعی ہے ۔ یہ بات صحیح ہے ، جیسا اجتماعی تحفہ ہے ، ویسے ہی اجتماعی جوابدہی بھی ہے ۔ سجیت جی کی بات بالکل صحیح ہے ۔ دریا ، تالاب ، جھیل ، بارش یا زمین کا پانی یہ سب ہر ایک کے لئے ہیں ۔
ساتھیو ، ایک وقت تھا ، جب گاؤں میں کنویں ، تالاب ، اِن کی دیکھ بھال سب مل کر کرتے تھے ۔ اب ایسی ہی ایک کوشش تمل ناڈو کے ترووناّ ملائی میں ہو رہی ہے ۔ یہاں مقامی لوگوں نے اپنے کنووں کو محفوظ کرنے کے لئے مہم چلائی ہے ۔ یہ لوگ اپنے علاقے میں برسوں سے بند پڑے عوامی کنووں کو پھر سے بحال کر رہے ہیں ۔
مدھیہ پردیش کے اگروتھا گاؤں کی ببیتا راجپوت جی بھی ، جو کر رہی ہیں ، اُس سے آپ سبھی کو تحریک ملے گی ۔ ببیتا جی کا گاؤں بندیل کھنڈ میں ہے ۔ اُن کے گاؤں کے پاس کبھی ایک بہت بڑی جھیل تھی ، جو سوکھ گئی تھی ۔ انہوں نے گاؤں کی ہی دوسری خواتین کو ساتھ لیا اور جھیل تک پانی لے جانے کے لئے ایک نہر بنا دی ۔ اس نہر سے بارش کا پانی سیدھے جھیل میں جانے لگا ۔ اب یہ جھیل پانی سے بھری رہتی ہے ۔
ساتھیو ، اترا کھنڈ کے باگیشور میں رہنے والے جگدیش کنیال جی کا کام بھی بہت کچھ سکھاتا ہے ۔ جگدیش جی کا گاؤں اور آس پاس کا علاقہ پانی کی ضرورتوں کے لئے ایک قدرتی چشمہ پر منحصر تھا لیکن کئی سال پہلے یہ چشمہ سوکھ گیا ۔ اس سے پورے علاقے میں پانی کا بحران بڑھتا چلا گیا ۔ جگدیش جی نے ، اِس مسئلے کا حل شجر کاری سے کرنے کا عزم کیا ۔ انہوں نے پورے علاقے میں گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کر ہزاروں پیڑ لگائے اور آج اُن کے علاقے کا سوکھ چکا چشمہ پھر سے بھر گیا ہے ۔
ساتھیو ، پانی کو لے کر ہمیں ، اِسی طرح اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا ۔ ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں مئی – جون میں بارش ہوتی ہے ۔ کیا ہم ابھی سے اپنے آس پاس کے پانی کے وسائل کی صفائی کے لئے ، بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے 100 دن کی کوئی مہم شروع کر سکتے ہیں ؟ اسی سوچ کے ساتھ اب سے کچھ دن بعد جل شکتی کی وزارت کے ذریعے بھی ‘ جل شکتی ابھیان ’ – ‘ کیچ دا – رین ’ بھی شروع کیا جا رہا ہے ۔ اس مہم کا خاص مقصد ہے ، ‘ کیچ دا – رین ویئر اِٹ فال ، وہین اِٹ فالس ’ ۔ ہم ابھی سے محنت کریں گے ، ہم ابھی سے ، جو رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹم ہے ، انہیں درست کروا لیں گے ، گاؤوں میں ، تالابوں میں پوکھروں کی صفائی کروا لیں گے ، ان میں پہنچنے والے پانی کے راستے کی رکاوٹیں دور کر لیں گے تو زیادہ سے زیادہ بارش کا پانی محفوظ کر سکیں گے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، جب بھی ماگھ کے مہینے اور اس کے سماجی اہمیت کی بات ہوتی ہے تو یہ بات ایک نام کے بغیر پوری نہیں ہوتی ۔ یہ نام ہے ، سنت روی داس جی کا ۔ ماگھ پورنیما کے دن ہی سنت روی داس جی کی جینتی ہوتی ہے ۔ آج بھی ، سنت روی داس جی کے الفاظ ، اُن کی تعلیم ، ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا تھا –
ایکے ماتی کے سبھ بھانڈے ،
سبھ کا ایکو سرجن ہار ۔
روی داس ویاپے ایکے گھٹ بھیتر ،
سبھ کو ایکے گھڑے کمہار ۔
ہم سبھی ایک ہی مٹی کے برتن ہیں ۔ ہم سبھی کو ایک نے ہی گھڑا ہے ۔ سنت روی داس جی نے سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر ہمیشہ کھل کر اپنی بات کہی ہے ۔ انہوں نے ، اِن برائیوں کو سماج کے سامنے رکھا ، اُسے سدھارنے کی راہ دکھائی اور تبھی تو میرا جی نے کہا تھا –
‘ گرو ملیا ریداس ، دینہی گیان کی گٹکی ’ ۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں سنت روی داس جی کے پیدائشی مقام وارانسی سے جڑا ہوا ہوں ۔ سنت روی داس جی کی زندگی انتہائی اونچائی کو اور اُن کی توانائی کو میں نے ، اُس مقدس مقام پر محسوس کیا ہے ۔
ساتھیوں روی داس جی کہتے تھے –
کرم بندھن میں بندھ رہیو ، پھل کی نا تجّیو آس ۔
کرم مانوش کا دھرم ہے ، ست بھاکھے روی داس ۔
یعنی ہمیں مسلسل اپنا عمل کرتے رہنا چاہیئے ۔ پھر پھل تو ملے گا ہی ملے گا ، یعنی عمل کا نتیجہ تو نکلتا ہی نکلتا ہے ۔ ہمارے نو جوانوں کو ایک اور بات سنت روی داس جی سے ضرور سیکھنی چاہیئے ۔ نو جوانوں کو کوئی بھی کام کرنے کے لئے خود کو پرانے طور طریقوں میں باندھنا نہیں چاہیئے ۔ آپ اپنی زندگی کو خود ہی طے کریئے ۔ اپنے طور طریقے بھی خود ہی بنائیے اور اپنے ہدف بھی خود ہی طے کریئے ۔ اگر آپ کا ذہن ، آپ کی خود اعتمادی مضبوط ہے تو آپ کو دنیا میں کسی بھی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں ایسا اِس لئے کہتا ہوں کیونکہ کئی مرتبہ ہمارے نو جوان ، اِس چلی آ رہی سوچ کے دباؤ میں ، وہ کام نہیں کر پاتے ، جو واقعی انہیں پسند ہوتا ہے ۔ اس لئے آپ کو کبھی بھی نیا سوچنے ، نیا کرنے میں ، ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیئے ۔ اسی طرح سنت روی داس جی نے ایک اور اہم پیغام دیا ہے ۔ یہ پیغام ہے ، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ۔ ہم اپنے خوابوں کے لئے کسی دوسرے پر منحصر رہیں ، یہ بالکل درست نہیں ہے ۔ جو جیسا ہے ، وہ ویسا چلتا رہے ، روی داس جی کبھی بھی اِس کی حمایت میں نہیں تھے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کا نو جوان بھی ، اِس سوچ کے حق میں بالکل نہیں ہے ۔ آج جب میں ملک کے نو جوانوں میں اننوویشن کا جذبہ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں پر سنت روی داس جی کو ضرور فخر ہوتا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج نیشنل سائنس ڈے بھی ہے ۔ آج کا دن ہندوستان کے عظیم سائنسداں ڈاکٹر سی وی رمن جی کے ذریعے کی گئی ‘ رمن اِفکیٹ ’ کی دریافت کے لئے وقف ہے ۔ کیرالہ کے یوگیشورن جی نے نمو ایپ پر لکھا ہے کہ رمن اِفکیٹ کی دریافت نے پوری سائنس کی سمت کو ہی بدل دیا تھا ۔ اس سے جڑا ہوا ایک بہت اچھا پیغام مجھے ناسک کے اسنیہل جی نے بھیجا ہے ۔ اسنیہل جی نے لکھا ہے کہ ہمارے ملک کے اَنگنت سائنسداں ہیں ، جن کے تعاون کے بغیر سائنس اتنی ترقی نہیں کر سکتی تھی ۔ ہم جیسے دنیا کے دوسرے سائنس دانوں کے بارے میں جانتے ہیں ، ویسے ہی ہمیں ہندوستان کے سائنس دانوں کے بارے میں بھی جاننا چاہیئے ۔ میں بھی من کی بات کے اِن سامعین کی بات سے متفق ہوں ۔ میں ضرور چاہوں گا کہ ہمارے نو جوان ہندوستان کے سائنس دانوں – تاریخ کو ہمارے سائنس دانوں کو جانیں ، سمجھیں اور خوب پڑھیں ۔
ساتھیو ، جب ہم سائنس کی بات کرتے ہیں تو کئی بار اسے لوگ فزکس – کیمسٹری یا پھر لیبس تک ہی محدود کر دیتے ہیں لیکن سائنس کا وسعت تو اِس سے کہیں زیادہ ہے اور آتم نربھر مہم میں سائنس کی طاقت کا بہت تعاون بھی ہے ۔ ہمیں سائنس کو ‘ لیب تو لینڈ ’ کے منتر کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا ۔
مثال کے طور پر حیدر آباد کے چنتلا وینکٹ ریڈی جی ہیں ۔ ریڈی جی کے ایک ڈاکٹر دوست نے ، انہیں ایک مرتبہ ویٹامن ڈی کی کمی سے ہونے والی بیماریوں اور اُس کے خطروں سے نمٹنے کے بارے میں بتایا تھا ۔ ریڈی جی کسان ہیں ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے محنت کی اور گیہوں چاول کی ایسی نسل کو فروغ دیا ، جو خاص طور پر ویٹامن ڈی سے بھر پور ہے ۔ اسی مہینے انہیں ورلڈ انٹلیکچوول پراپرٹری آرگنائزیشن ، جینیوا سے پیٹنٹ بھی ملا ہے ۔ یہ ہماری حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ وینکٹ ریڈی جی کو پچھلے سال پدم شری سے بھی نوازا گیا تھا ۔
ایسے ہی بہت اننو ویٹیو طریقے سے لداخ کے اُرگین فتسوگ بھی کام کر رہے ہیں ۔ ارگین بھی اتنی اونچائی پر آرگینک طریقے سے کھیتی کرکے تقریباً 20 فصلیں اگا رہے ہیں ۔ وہ بھی سائکلک طریقے سے ، یعنی وہ ایک فصل کے کچرے کو دوسری فصل میں کھاد کے طور پر استعمال کرلیتے ہیں ۔ ہے نا کمال کی بات ۔
اسی طرح گجرات کے پاٹن ضلع میں کام راج بھائی چودھری نے گھر میں ہی سہجن کے اچھے بیج فروغ دیئے ہیں ۔ سہجن کو کچھ لوگ سرگوا بولتے ہیں ۔ اسی مورنگا یا ڈرم اسٹک بھی کہا جاتا ہے ۔ اچھے بیجوں کی مدد سے ، جو سہجن پیدا ہوتا ہے ، اُس کی کوالٹی بھی اچھی ہوتی ہے ۔ اپنی پیداوار کو وہ اب تمل ناڈو اور مغربی بنگال بھیج کر اپنی آمدنی بھی بڑا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج کل چیا کے بیج کا نام آپ لوگ بہت سن رہے ہوں گے ۔ ہیلتھ اویئر نیس سے جڑے لوگ اِسے کافی اہمیت دیتے ہیں اور دنیا میں اس کی کافی مانگ ہے ۔ ہندوستان میں اسے زیادہ تر باہر سے منگواتے ہیں لیکن اب چیا بیج میں خود انحصاری کا بیڑا بھی لوگ اٹھا رہے ہیں ۔ ایسے ہی یو پی کے بارابنکی میں ہریش چندر جی نے چیا کے بیج کی کھیتی شروع کی ہے ۔ چیا کے بیج کی کھیتی ، اُن کی آمدنی بھی بڑھائے گی اور خود کفیل بھارت مہم میں بھی مدد کرے گی ۔
ساتھیو ، زرعی کچرے سے دولت پیدا کرنے کے بھی کئی تجربے ملک بھر میں کامیابی سے چل رہے ہیں ۔ جیسے مدورئی کے مروگیسن جی نے کیلے کے کچرے سے رسی بنانے کی ایک مشین بنائی ہے ۔ مروگیسن جی کے اِس اننوویشن سے ماحولیات اور گندگی کا بھی حل ہوگا اور کسانوں کے لئے اضافی آمدنی کا راستہ بھی کھلے گا ۔
ساتھیو ، ‘ من کی بات ’ کے سامعین کو اتنے سارے لوگوں کے بارے میں بتانے کا میرا مقصد یہی ہے کہ ہم سبھی اِن سے ترغیب لیں ۔ جب ملک کا ہر شہری اپنی زندگی کے ہر شعبے میں سائنس کو وسعت دے گاتو ترقی کے راستے بھی کھلیں گے اور ملک خود کفیل بھی بنے گا اور مجھے یقین ہے کہ ملک کا ہر شہری کر سکتا ہے ۔
میرے پیارے ساتھیو ، کولکاتہ کے رنجن جی نے اپنے خط میں بہت ہی دلچسپ اور بنیادی سوال پوچھا ہے اور ساتھ ہی بہترین طریقے سے ، اس کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم خود کفیل ہونے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے لئے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں ، خود انہوں نے مزید لکھا ہے کہ – "آتم نربھر بھارت مہم" صرف ایک حکومتی پالیسی نہیں ہے ، بلکہ ایک قومی روح بھی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ خود کفیل ہونے کا مطلب ہے کہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا یعنی خود اپنی قسمت کا بنانے والا بننا ۔ رنجن بابو کی بات سو ٹکا صحیح ہے ۔ اُن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ بھی کہوں گا کہ خود کفالت کی پہلی شرط ہوتی ہے – اپنے ملک کی چیزوں پر فخر ہونا ، اپنے ملک کے لوگوں کے ذریعے بنائی گئی چیزوں پر فخر ہونا ۔ جب ہر ایک ہم وطن فخر کرتا ہے ، ہر ایک ہم وطن جڑتا ہے ، تو آتم نربھر بھارت ، صرف ایک معاشی مہم نہ رہ کر ایک قومی روح بن جاتی ہے ۔ جب آسمان میں ہم اپنے ملک میں بنے لڑاکو طیارے تیجس کو کلابازیاں کھاتے دیکھتے ہیں ، جب بھارت میں بنے ٹینک ، بھارت میں بنی میزائلیں ، ہمارے فخر میں اضافہ کرتی ہیں ، جب ترقی یافتہ ملکوں میں ہم میٹرو ٹرین کے میڈ اِن انڈیا کوچیز دیکھتے ہیں ، جب درجنوں ملکوں تک میڈ اِن انڈیا کورونا ویکسین کو پہنچتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارا سر اور اونچا ہو جاتا ہے اور ایسا ہی نہیں ہے کہ بڑی بڑی چیزیں ہی بھارت کو خود کفیل بنائیں گی ۔ بھارت میں بنے کپڑے ، بھارت کے ہنرمند کاریگروں کے ذریعے بنایا گیا ہینڈی کرافٹ کا سامان ، بھارت کی الیکٹرانک اشیاء ، بھارت کے موبائل ، ہر شعبے میں ، ہمیں اِس فخر کو بڑھانا ہو گا ۔ جب ہم اِسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے ، تبھی صحیح معنی میں آتم نربھر بن پائیں گے اور ساتھیو ں ، مجھے خوشی ہے کہ خود کفیل بھارت کا یہ منتر ، ملک کے گاؤں – گاؤں میں پہنچ رہا ہے ۔ بہار کے بیتیا میں یہی ہوا ہے ، جس کے بارے میں مجھے میڈیا میں پڑھنے کو ملا ۔
بیتیا کے رہنے والے پرمود جی ، دلّی میں ایک ٹیکنیشئن کے طور پر ایل ای ڈی بلب بنانے والی فیکٹری میں کام کرتے تھے ۔ انہوں نے اِس فیکٹری میں کام کے دوران پوری طریقے کو بہت باریکی سے سمجھا ۔ لیکن کورونا کے دوران پرمود جی کو اپنے گھر پاس لوٹنا پڑا ۔ آپ جانتے ہیں ، لوٹنے کے بعد پرمود جی نے کیا کیا ؟ انہوں نے خود ایل ای ڈی بلب بنانے کی ایک چھوٹی سی یونٹ ہی شروع کر دی ۔ انہوں نے اپنے علاقے کے کچھ نو جوانوں کو ساتھ لیا اور کچھ ہی مہینوں میں فیکٹری ورکر سے لے کر فیکٹری اونر بننے تک کا سفر پورا کر دیا ۔ وہ بھی اپنے ہی گھر میں رہتے ہوئے ۔
ایک اور مثال ہے – یو پی کے گڑھ مکتیشور کی ۔ گڑھ مکتیشور سے شری مان سنتوش جی نے لکھا ہے کہ کیسے کورونا دور میں ، انہوں نے آفت کو موقع میں بدلا ۔ سنتوش جی کے پُرکھے شاندار کاریگر تھے ، چٹائی بنانے کا کام کرتے تھے ۔ کورونا کے وقت جب باقی کام رُکے تو اِن لوگوں نے بڑی طاقت اور جوش کے ساتھ چٹائی بنانا شروع کیا ۔ جلد ہی ، انہیں نہ صرف اتر پردیش بلکہ دوسری ریاستوں سے بھی چٹائی کے آڈر ملنے شروع ہو گئے ۔ سنتوش جی نے یہ بھی بتایا ہے کہ اِس سے اِس علاقے کے سینکڑوں سال پرانے خوبصورت فن کو بھی ایک نئی طاقت ملی ہے ۔
ساتھیو ، ملک بھر میں ایسی کئی مثالیں ہیں ، جہاں لوگ ، ‘ آتم نربھر بھارت مہم ’ میں ، اسی طرح اپنا حصہ لے رہے ہیں ۔ آج یہ ایک جذبہ بن چکا ہے ، جو عام لوگوں کے دلوں میں رواں دواں ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، میں نے نمو ایپ پر گڑ گاؤں کے رہنے والے میور کی ایک دلچسپ پوسٹ دیکھی ۔ وہ پیشنیٹ برڈ واچر اور قدر سے محبت کرنے والے ( نیچر لور ) ہیں ۔ میور جی نے لکھا ہے کہ میں تو ہریانہ میں رہتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ ، آسام کے لوگوں اور خاص طور پر کازی رنگا کے لوگوں سے گفتگو کریں۔ مجھے لگا کہ میور جی ، رائنوس کے بارے میں بات کریں گے ، جنہیں وہاں کا فخر کا کہا جاتا ہے لیکن میور جی نے کازی رنگا میں واٹر فولس کی تعداد میں ہوئے اضافے کو لے کر آسام کے لوگوں کو سراہنے کے لئے کہا ہے ۔ میں ڈھونڈ رہاتھا کہ ہم واٹر فولس کو عام زبان میں کیا کہہ سکتے ہیں تو ایک لفظ ملا – جل پکشی ( پانی کا پرندہ ) ۔ ایسے پرندے ، جن کا گھونسلا ، پیڑوں پر نہیں ، پانی پر ہوتا ہے ، جیسے بطخ وغیرہ ۔ کازی رنگا نیشنل پارک اینڈ ٹائیگر ریزرو اتھارٹی کچھ وقت سے سالانہ واٹر فولس سینسز ( مردم شماری ) کرتی آ رہی ہے ۔ اس مردم شماری سے پانی کے پرندوں کی تعداد کا پتہ چلتا ہے اور ان کی پسندیدہ رہائش گاہ کی معلومات ملتی ہیں ۔ ابھی دو تین ہفتے پہلے ہی سروے پھر سے ہوا ہے ۔ آپ کو بھی یہ جانکر خوشی ہو گی کہ اس بار پانی کے پرندوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 175 فی صد زیادہ آئی ہے ۔ اس مردم شماری کے دوران کازی رنگا نیشنل پارک میں برڈس کی کل 112 قسموں کو دیکھا گیا ہے ۔ ان میں سے 58 قسمیں یوروپ ، وسطی ایشیا اور مشرقی ایشیا سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے آئے وِنٹر مائیگرینٹس کی ہیں ۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں پانی کا بہتر تحفظ ہونے کے ساتھ انسانی مداخلت بہت کم ہے ۔ ویسے کچھ معاملوں میں مثبت انسانی مداخلت بھی بہت اہم ہوتی ہے ۔
آسام کے جناب جادو پائینگ کو ہی دیکھ لیجئے ۔ آپ میں سے کچھ لوگ اُن کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے ۔ اپنے کاموں کے لئے انہیں پدم سمان ملا ہے ۔ شری جادو پائینگ وہ شخص ہیں ، جنہوں نے آسام کے مجولی آئی لینڈ میں قریب 300 ہیکٹیئر شجر کاری میں اپنا فعال تعاون دیا ہے ۔ وہ جنگلات کے تحفظ کے لئے کام کرتے رہے ہیں اور لوگوں کو شجر کاری اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے تحریک دلا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آسام میں ہمارے مندر بھی ، قدرت کے تحفظ میں ، اپنا الگ ہی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر آپ ہمارے مندروں کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر مندر کے پاس ایک تالاب ہے۔ ہاجو کے ہیاگریو مادھیب مندر ، سونیت پور کے ناگ شنکر مندر اور گوہاٹی کے اُگر تارا مندر کے پاس ، اسی طرح کے کئی تالاب ہیں ۔ ان کا استعمال معدوم ہو رہے کچھوؤں کو بچانے کے لئے کیا جا رہا ہے ۔ آسام میں کچھوؤں کی سب سے زیادہ نسلیں پائی جاتی ہیں ۔ مندروں کے یہ تالاب کچھوؤں کے تحفظ ، افزائش اور ان کے بارے میں جاننے کے لئے ایک بہترین مقام بن سکتے ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اننوویشن کرنے کے لئے ، آپ کا سائنسدان ہونا ضروری ہے ۔ کچھ سوچتے ہیں کہ دوسروں کو کچھ سکھانے کے لئے آپ کا ٹیچر ہونا ضروری ہے ۔ اس سوچ کو چیلنج کرنے والے لوگ ہمیشہ تعریف کے لائق ہوتے ہیں ۔ اب جیسے ، کیا کوئی ، کسی کی فوجی بنانے کے لئے تربیت کرتا ہے تو کیا اُس کا فوجی ہونا ضروری ہے ؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہاں ، ضروری ہے ۔ لیکن یہاں تھوڑا سا ٹوئیسٹ ہے ۔
مائی گو پر کمل کانتھ جی نے میڈیا کی ایک رپورٹ ساجھا کی ہے ، جو کچھ الگ بات کہتی ہے ۔ اڈیشہ میں اراکھڑا میں ایک صاحب ہیں – نائک سَر ۔ ویسے تو اِن کا نام سلو نائک ہے ، پر سب انہیں نائک سَر ہی بلاتے ہیں ۔ دراصل ، وہ مین آن اے مشن ہیں ۔ وہ اُن نو جوانوں کی مفت میں تربیت کرتے ہیں ، جو فوج میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ نائک سر کی آرگنائزیشن کا نام مہاگرو بٹالین ہے ۔ اس میں فزیکل فٹنیس سے لے کر انٹر ویو تک اور رائٹنگ سے لے کر ٹریننگ تک ، ان سبھی پہلوؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔ آپ کو یہ جانکر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے جن لوگوں کو تربیت دی ہے ، انہوں نے بری ، بحری اور فضائی فوج ، سی آر پی ایف ، بی ایس ایف جیسی فورسیز میں اپنی جگہ بنائی ہے ۔ ویسے آپ کو یہ جانکر بھی حیرت ہو گی کہ سلو نائک جی نے خود اڈیشہ پولیس میں بھرتی ہونے کے لئے کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائے ۔ اس کے باوجود ، انہوں نے اپنی تربیت کے دم پربہت سے نوجوانوں کو ملک کی خدمت کے قابل بنایا ہے ۔ آئیے ، ہم سب مل کر نائک سر کو مبارکباد دیں کہ وہ ہمارے ملک کے لئے اور زیادہ جانبازوں کو تیار کریں ۔
ساتھیو ، کبھی کبھی بہت چھوٹا اور عام سا سوال بھی ذہن کو ہلا دیتا ہے ۔ یہ سوال لمبے نہیں ہوتے ہیں ، بہت آسان ہوتے ہیں ، پھر بھی وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے حیدر آباد کی اپرنا ریڈی جی نے مجھ سے ایسا ہی ایک سوال پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ – آپ اتنے سال سے وزیر اعظم ہیں ، اتنے سال وزیر اعلیٰ رہے ، کیا آپ کو کبھی لگتا ہے کہ کہ کچھ کمی رہ گئی ۔ اپرنا جی کا سوال جتنا آسان ہے ، اس کا جواب اتنا ہی مشکل بھی ۔ میں نے اس سوال پر سوچا اور خود سے کہا میری ایک کمی یہ رہی کہ میں دنیا کی سب سے تاریخی زبان تمل سیکھنے کے لئے بہت کوشش نہیں کرپایا ۔ میں تمل نہیں سیکھ پایا ۔ یہ ایک ایسی خوبصورت زبان ہے ، جو دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ بہت سے لوگوں نے مجھے تمل ادب کے معیار اور اس میں لکھے گئے اشعار کی گہرائی کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے ۔ بھارت ایسی بہت سی زبانوں کا مقام ہے ، جو ہماری ثقافت اور فخر کی علامت ہے ۔ زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، میں ایک چھوٹی سی دلچسپ کلپ آپ سب کے ساتھ ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔
## (ساؤنڈ کلپ مجسمہ اتحاد)
دراصل ، ابھی جو آپ سن رہے تھے ، وہ مجسمہ ٔاتحاد پر ایک گائڈ ہے ، جو سنسکرت میں لوگوں کو سردار پٹیل کی دنیا کی سب سے بلند مجسمے کے بارے میں بتا رہی ہے ۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ کیوڑیا میں 15 سے زیادہ گائیڈ ، سنسکرت میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اب میں آپ کو ایک اور آواز سنواتا ہوں ۔
## (ساؤنڈ کلپ کرکٹ کمنٹری)
آپ بھی اِسے سن کر حیران ہو گئے ہوں گے ۔ در اصل ، یہ سنسکرت میں کی جا رہی کرکٹ کمنٹری ہے ۔ وارانسی میں ، سنسکرت کالجوں کے بیچ ایک کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا ہے ۔ یہ کالج ہیں – شاستھارتھ مہا ودیالیہ ، سوامی ویدانتی وید ودیا پیٹھ ، شری برہم وید ودیالیہ اور انٹرنیشنل چندر مولی چیریٹبل ٹرسٹ ۔ اس ٹورنامنٹ کے میچوں کے دوران کمنٹری سنسکرت میں بھی کی جاتی ہے۔ ابھی میں نے اس کمنٹری کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ آپ کو سنایا ۔ یہی نہیں ، اس ٹورنامنٹ میں ، کھلاڑی اور کمنٹیٹر روایتی لباس میں نظر آتے ہیں ۔ اگر آپ کو توانائی ، جوش و خروش ، سسپنس سب کچھ ایک ساتھ چاہیئے تو آپ کو کھیلوں کی کمنٹری سننی چاہیئے ۔ ٹی وی آنے سے بہت پہلے کھیلوں کے تبصرے ہی وہ وہ ذریعہ تھے ، جس کے ذریعے کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیلوں کی سنسنی ملک بھر کے لوگ محسوس کرتے تھے ۔ ٹینس اور فٹ بال میچوں کی کمنٹری بھی بہت اچھی طرح سے پیش کی جاتی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جن کھیلوں کی کمنٹری میں وسعت ہے ، ان کھیلوں کو مقبولیت بہت تیزی سے حاصل ہوتی ہے ۔ ہمارے یہاں بھی بہت سے بھارتی کھیل ہیں لیکن ان میں کمنٹری کلچر نہیں آیا ہے اور اس وجہ سے وہ معدوم ہونے کی حالت میں ہیں ۔ میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے ۔ – کیوں نہ الگ الگ کھیلوں اور خاص طور پر بھارتی کھیلوں کی اچھی کمنٹری زیادہ سے زیادہ زبانوں میں ہو ، ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے ۔ میں کھیل کی وزارت اور پرائیویٹ اداروں کے ساتھیوں سے اس بارے میں سوچنے کی درخواست کروں گا ۔
میرے پیارے نو جوان ساتھیو ، آنے والے کچھ مہینے آپ سب کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ زیادہ تر نو جوان ساتھیوں کے امتحانات ہوں گے ۔ آپ سب کو یاد ہے نا – واریئر بننا ہے ، ووریئر نہیں ۔ ہنستے ہوئے امتحان دینے جانا ہے اور مسکراتے ہوئے لوٹنا ہے۔ کسی اور سے نہیں ، اپنے آپ سے ہی مقابلہ کرنا ہے ۔ ضرورت کے مطابق نیند بھی لینی ہے اور ٹائم مینجمنٹ بھی کرنا ہے ۔ کھیلنا بھی نہیں چھوڑنا ہے کیونکہ جو کھیلے وہ کھِلے ۔ نظر ثانی اور یاد کرنے کے اسمارٹ طریقے اپنانے ہیں یعنی کل ملاکر ، ان امتحانات میں اپنی بہترین کارکردگی کو باہر لانا ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ، یہ سب ہوگا کیسے ۔ ہم سب مل کر یہ کرنے والے ہیں ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم سب کریں گے ‘ پریکشا پے چرچا ’ ۔ لیکن مارچ میں ہونے والی ‘ پریکشا پے چرچا ’ سے پہلے میری آپ سبھی ایگزام واریئر سے ، والدین سے اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ اپنے تجربات ضرور شیئر کریں ۔ آپ مائی گو ایپ پر شیئر کر سکتے ہیں ۔ نریندر مودی ایپ پر شیئر کر سکتے ہیں ۔ اس بار ‘ پریکشا پے چرچا ’ میں نو جونواں کے ساتھ ساتھ ، والدین اور اساتذہ بھی مدعو ہیں ۔ کیسے حصہ لینا ہے ، کیسے انعام جیتنے ہیں ، کیسے میرے ساتھ گفتگو کا موقع حاصل کرنا ہے ، یہ ساری معلومات آپ کو مائی گو ایپ پر ملیں گی ۔ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ طالب علم ، قریب 40 ہزار والدین اور تقریباً 10 ہزار اساتذہ حصہ لے چکے ہیں ۔ آپ بھی آج ہی حصہ لیجئے ۔ اس کورونا کے وقت میں ، میں نے کچھ وقت نکال کر ایگزام واریئر بُک میں بھی کئی نئے منتر جوڑ دیئے ہیں ، اب اس میں والدین کے لئے بھی کچھ منتر جوڑے گئے ہیں ۔ ان منتروں سے جڑی بہت ساری دلچسپ سرگرمیاں نریندر مودی ایپ پر دی گئی ہیں ، جو آپ کے اندر کے ایگزام واریئر کو اکسانے میں مدد کریں گی ۔ آپ ان کو ضرور آزماکر دیکھئے ۔ سبھی نوجوان ساتھیوں کو آنے والے امتحانات کے لئے بہت بہت نیک خواہشات ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، مارچ کا مہینہ ہمارے مالی سال کا آخری مہینہ بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے آپ میں سے بہت سے لوگوں کے لئے کافی مصروفیت بھی رہے گی ۔ اب جس طرح سے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں ، اس سے ہمارے کاروباریوں اور صنعت کاروں کی مصروفیت بھی بہت بڑھ رہی ہے ۔ ان سارے معاملوں کے بیچ ہمیں کورونا سے متعلق احتیاط میں کمی نہیں کرنی ہے ۔ آپ سب صحت مند رہیں گے ، خوش رہیں گے ، فرائض کی انجام دہی پر ڈتے رہیں گے تو ملک تیزی سے آگے بڑھتا رہے گا ۔
آپ سبھی کو تہواروں کی پیشگی مبارکباد ، ساتھ ساتھ کورونا سے متعلق ، جو بھی قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ہے ، ان میں کسی طرح کی کمی نہیں آنی چاہیئے ۔ بہت بہت شکریہ !
نئی دہلی۔ 31 جنوری میرے عزیز ہم وطنو! نمسکار! جب میں "من کی بات" کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے ، جیسے آپ کے درمیان، آپ کے پریوار کے رکن کی حیثیت سے حاضر ہوں ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی باتیں، جو ایک دوسرے کو، کچھ، سکھا جائے، زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات ، جی بھر کے جینے کی ترغیب بن جائے – بس یہی تو ہے ‘من کی بات’۔ آج، 2021 کی جنوری کا آخری دن ہے۔ کیا آپ بھی میری طرح یہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے تو 2021 شروع ہوا تھا ؟ لگتا ہی نہیں کہ جنوری کا پورا مہینہ گذر گیا ہے – وقت کی رفتار اسی کو تو کہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی ہی تو بات لگتی ہے جب ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے، پھر ہم نے لوہڑی منائی، مکر سنکرانتی منائی، پونگل، بہو منایا۔ دیش کے الگ الگ حصوں میں تہواروں کی دھوم رہی۔ 23 جنوری کو ہم نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے جنم دن کو ‘پراکرم دوس’ کے طور پر منایا اور 26 جنوری کو ‘یوم جمہوریہ ’ کی شاندار پریڈ بھی دیکھی۔ صدر جمہوریہ کے ذریعہ ایوان کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کے بعد ‘بجٹ اجلاس’ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ان سبھی کے درمیان ایک اور کام یہ ہوا، جس کا ہم سبھی کو بہت انتظار رہتا ہے – یہ ہے پدم ایوارڈوں کا اعلان ۔ ملک غیر معمولی کارنامہ انجام دے رہے لوگوں کو انکی حصولیابیوں اور انسانیت کے تئیں ان کی خدمات کو اعزاز سے نوازا۔ اس سال بھی، ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں، وہ لوگ شامل ہیں، جنہوں نے، مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اپنے کارناموں سے کسی کی زندگی بدلی، ملک کو آگے بڑھایاہے۔ یعنی، زمینی سطح پر کام کرنے والے گمنام ہیرو کو پدم اعزاز دینے کی جو روایت ملک نے کچھ سال پہلے شروع کی تھی، وہ، اس بار بھی قائم رکھی گئی ہے۔ میری آپ سبھی سے گذارش ہے، کہ، ان لوگوں کے بارے میں، ان کی خدمات کے بارے میں ضرور جانیں، اپنے کنبے میں، انکے بارے میں،باتیں کریں۔ دیکھیں گے ، سبھی کو اس سے کتنی تحریک ملتی ہے۔
اس مہینے، کرکٹ کے میدان سے بھی بہت اچھی خبر ملی۔ ہماری کرکٹ ٹیم نے شروعاتی دقتوں کے بعد، شاندار واپسی کرتے ہوئے آسٹریلیا میں سیریز جیتی۔ ہمارے کھلاڑیوں کی کڑی محنت اور ٹیم ورک حوصلہ افزا ہے۔ ان سب کے درمیان دلی میں، 26 جنوری کو ترنگے کا بے حرمتی دیکھ کر ملک بہت افسردہ بھی ہوا۔ ہمیں آنے والے وقت کو نئی امید اور جدت سے معمور کرنا ہے۔ ہم نےگذشتہ سال غیر معمولی حوصلہ اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ اس سال بھی ہمیں کڑی محنت کرکے اپنے عزائم کوثابت کرنا ہے۔ اپنے ملک کو، اور تیز رفتاری سے، آگے لے جانا ہے۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، اس سال کی شروعات کے ساتھ ہی کو رونا کے خلاف ہماری لڑائی کو بھی قریب قریب ایک سال پورا ہو گیا ہے۔ جیسے کو رونا کے خلاف ہندوستان کی لڑائی ایک مثال بنی ہے، ویسے ہی، اب، ہماراٹیکہ کاری پروگرام بھی دنیا میں، ایک مثال بن رہا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا سب سے بڑاکووڈ ویکسین پروگرام چلا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں، اور بھی زیادہ فخر کی بات کیا ہے ؟ ہم سب سے بڑے ویکسین پروگرام کے ساتھ ہی دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے اپنے شہریوں کی ٹیکہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ صرف 15 دنوں میں،ہندوستان ، اپنے 30 لاکھ سے زیادہ،کورونا واریرس کی ٹیکہ کاری کر چکا ہے، جبکہ، امریکہ جیسے خوشحال ملک کو، اسی کام میں، 18 دن لگے تھے اور برطانیہ کو 36 دن۔
ساتھیو! ہندوستان میں بنی ویکسین آج، خود انحصار ہندوستان کی تو علامت ہے ہی،ہندوستان کے لیے قابل فخر ہونے کی علامت بھی ہے۔نمو اَیپ پر اتر پردیش بھائی ہمانشو یادو نے لکھا ہے کہ' میڈ اِن انڈیا ویکسین' سے دل میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ مدورے سے کیرتی جی لکھتی ہیں، کہ انکے کئی غیر ملکی دوست، انکو، میسیج بھیج کرہندوستان کا شکریا ادا کر رہے ہیں۔ کیرتی جی کے دوستوں نے انہیں لکھا ہے کہ ہندوستان نے جس طرح کو رونا سے لڑائی میں دنیا کی مدد کی ہے، اس سے ہندوستان کے بارے میں، انکے من میں، عزت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کیرتی جی، ملک کے بارے میں یہ قابل فخر باتیں سن کر، ‘من کی بات’ کے سامعین کو بھی فخر ہوتا ہے۔ آج کل مجھے بھی مختلف ممالک کے صدور اور وزراء اعظم کی جانب سے ہندوستان کے لیے ایسے ہی پیغامات ملتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا، ابھی، برازیل کے صدر نے، ٹویٹ کرکے جس طرح سے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا ہے، وہ دیکھ کر ہرہندوستانی کو کتنا اچھا لگا۔ ہزاروں کلومیٹر دور، دنیا کے دور درراز گوشوں میں رہنے والوں کو ، رامائن کے اس سیاق و سباق کی اتنی گہری جانکاری ہے، وہ اس سے اس قدر متاثر ہیں، – یہ ہمارے کلچر کی خصوصیت ہے۔
ساتھیو! اس ٹیکہ کاری مہم میں، آپ نے ایک اور بات پر ضرور دھیان دیا ہوگا۔ بحران کے وقت ہندوستان ، دنیا کی خدمت اسلئے کر پا رہا ہے، کیونکہ،ہندوستان ، آج، دواؤں اورویکسین کو لیکراہل اور خود انحصار ہے۔ یہی فکر خود انحصار ہندوستان مہم کی بھی ہے۔ ہندوستان جتنا اہل ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت کی خدمت کرے گا ، اتنا ہی زیادہ دنیا کو فائدہ ہوگا۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہر بار آپ کے ڈھیر سارے خطوط ملتے ہیں ، نمو اَپ اور مائی گو پر آپ کے پیغامات اور فون کال کے ذریعہ آپ کی باتیں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ ان ہی پیغامات میں ایک ایسا بھی پیغام ہے، جس نے، میری توجہ مبذول کرائی – یہ پیغام ہے، بہن پرینکا پانڈے جی کا۔ 23 سال کی بیٹی پرینکا جی، ہندی ادب کی طالبہ ہیں ، اور، بہار کے سیوان میں رہتی ہیں۔ پرینکا جی نے نمو اَیپ پر لکھا ہے، کہ انہیں ، ملک کے 15 گھریلو سیاحتی مقامات پر جانے کے میرے مشورے سے بہت حوصلہ ملا تھا ، اسلئے یکم جنوری کو وہ ایک جگہ کے لیے نکلیں، جو بہت خاص تھی۔ وہ جگہ تھی، انکے گھر سے 15 کلومیٹر دور، ملک پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کا آبائی گاؤں۔ پرینکا جی نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ اپنے ملک کی عظیم ہستیوں کو جاننے کی سمت میں انکا یہ پہلا قدم تھا۔ پرینکا جی کو وہاں ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کے ذریعہ لکھی گئی کتابیں ملیں، متعدد تاریخی تصویریں ملیں۔ انہوں نے، ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جب پوجیہ باپو، راجیندر جی کے گھر میں ٹھہرے تھے۔ واقعی، پرینکا جی آپ کا یہ تجربہ دوسروں کو بھی تحریک دے گا۔
ساتھیو! اس سال ہندوستان اپنی آزادی کی75 سالہ تقریب– امرت مہوتسو شروع کرنے جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ ہمارے ان عظیم ہیرو سےمنسلک علاقائی مقامات کا پتہ لگانے کا بہترین وقت ہے، جن کی وجہ سے ہمیں آزادی ملی۔
ساتھیو! ہم آزادی کی تحریک اور بہار کی بات کر رہیں ہیں، تو میں نمو اَیپ پر ہی کیا گیا ایک اورتبصرے کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔ مونگیر کے رہنے والے جے رام وپلو جی نے مجھے یوم شہیدانِ تاراپور کے بارے میں لکھا ہے۔ 15 فروری، 1932 کو، قوم پرستوں کی ایک جماعت کے کئی بہادر نوجوانوں کا انگریزوں نے بڑی ہی بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ ان کا صرف ایک جرم یہ تھا کہ وہ ‘وندے ماترم’ اور ‘بھارت ماں کی جے’ کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں ان شہیدوں کو نمن کرتا ہوں، اور ان کی جرات کو بڑی عقیدت یاد کرتا ہوں،۔ میں جے رام وپلو جی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک ایسے واقعہ کو ملک کے سامنے لیکر آئے، جس پر اتنی باتیں نہیں ہو پائیں، جتنی ہونی چاہیئے تھی۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہندوستان کے ہر حصہ میں، ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں آزادی کی لڑائی پوری طاقت کے ساتھ لڑی گئی تھی۔ سر زمین ہندوستان کے ہر گوشے میں ایسے عظیم سپوتوں اور بہادروں نے جنم لیا، جنہوں نے، ملک و قوم کے لیے اپنی زندگی نچھاور کر دی، ایسے میں، یہ، بہت اہم ہے کہ ہمارے لیے کی گئی ان کی جد و جہد اور ان سے وابستہ یادوں کو ہم سنبھال رکھیں اور اسکے لیے انکے بارے میں لکھ کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے انکی یادوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ میں، سبھی ہم وطنوں کو اور خاص کر اپنے نوجوان ساتھیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ملک کے مجاہدین آزادی کے بارے میں، آزادی سے جڑے واقعات کے بارے میں لکھیں۔ اپنے علاقے میں جنگ آزادی کے دور کی بہادری کی داستانوں کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ اب جبکہ ہندوستان اپنی آزادی کا 75 واں سال منائے گا ، تو آپ کی تحریر آزادی کے ہیروؤں کے تئیں خراج عقیدت ہوگی۔جواں سال لکھنے والوں کے لیے 'انڈیا سوینٹی فائیو' کے نام سے ایک پہل کی جا رہی ہے۔ اس سے سبھی ریاستوں اور زبانوں کے جواں سال لکھنے والوں کو تحریک ملے گی۔ ملک میں بڑی تعداد میں ایسے موضوعات پر لکھنے والے تیار ہوں گے، جن کا ہندوستانی وراثت اور ثقافت پر گہرا مطالعہ ہوگا۔ ہمیں ایسی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کی بھرپور مدد کرنی ہے۔ اس سے مستقل کی سمت متعین کرنے والے قائدین کا ایک طبقہ بھی تیار ہوگا۔ میں اپنے نوجوان دوستوں کو اس پہل کا حصہ بننے اور اپنی ادبی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اس سے جڑی جانکاریاں وزارت تعلیم کی ویب سائٹ پر حاصل کر سکتے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ‘من کی بات’ میں سامعین کو کیا پسند آتا ہے، یہ آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن مجھے ‘من کی بات’ میں سب سے اچھا یہ لگتا ہے کہ مجھے بہت کچھ جاننے سیکھنے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ ایک طرح سے بالواسطہ طور پر آپ سب سے، جڑنے کاموقع ملتا ہے۔ کسی کی کوشش ، کسی کا جذبہ، کسی کا ملک کے لیے کچھ کرگذر جانے کا جنون – یہ سب، مجھے، بہت تحریک دیتے ہیں، توانائی سے لبریز کر دیتے ہیں۔
حیدرآباد کے بوین پلی میں، ایک مقامی سبزی منڈی، کس طرح، اپنے فرائض انجام دے رہی ہے، یہ پڑھکر بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ سبزی منڈیوں میں متعدد وجوہات سے کافی سبزی خراب ہو جاتی ہے۔ یہ سبزی ادھرادھر پھیلتی ہے، گندگی بھی پھیلاتی ہے لیکن، بوین پلی کی سبزی منڈی نے طے کیا کہ، ہر روز بچنے والی ان سبزیوں کو ایسے ہی پھینکا نہیں جائے گا۔ سبزی منڈی سے جڑے لوگوں نے طے کیا، اس سے، بجلی بنائی جائیگی۔ بیکار ہوئی سبزیوں سے بجلی بنانے کے بارے میں شاید ہی آپ نے کبھی سنا ہو – یہی تو اختراعات کی طاقت ہے۔ آج بوین پلی کی منڈی میں پہلے جوفضلہ تھا، آج اسی سے دولت پیدا ہو رہی ہے – یہی تو کچرے سے کنچن بنانے کا سفر ہے۔ وہاں ہر دن قریب 10 ٹن فضلہ نکلتا ہے، اسے ایک پلانٹ میں اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ پلانٹ کے اندر اس فضلہ سے ہر دن 500 یونٹ بجلی بنتی ہے، اور قریب 30 کلو حیاتیاتی ایندھن بھی بنتا ہے۔ اس بجلی سے ہی سبزی منڈی میں روشنی ہوتی ہے اور جو حیاتیاتی ایندھن بنتا ہے، اس سے منڈی کی کینٹین میں کھانا بنایا جاتا ہے – ہے نہ کمال کی کوشش!
ایسا ہی ایک کمال، ہریانہ کے پنچ کولہ کی بڑوت گرام پنچایت نے بھی کرکے دکھایا ہے۔ اس پنچایت کے علاقے میں پانی کی نکاسی کا مسئلہ تھا ۔ اس کی وجہ سے گندہ پانی ادھرادھر پھیل رہا تھا، بیماری پھیلتی تھی، لیکن، بڑوت کے لوگوں نے طے کیا کہ اس خراب پانی سے بھی دولت پیدا کریں گے۔ گرام پنچایت نے پورے گاؤں سے آنے والے گندے پانی کو ایک جگہ اکٹھا کرکے فلٹر کرنا شروع کیا، اورفلٹر کیا ہوا یہ پانی، اب گاؤں کے کسان، کھیتوں میں سینچائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یعنی آلودگی ، گندگی اور بیماریوں سے چھٹکارا بھی، اور کھیتوں میں سینچائی بھی۔
ساتھیو!ماحولیات کے تحفظ سے کیسے آمدنی کے راستے بھی کھلتے ہیں، اس کی ایک مثال اروناچل پردیش کے توانگ میں بھی دیکھنے کو ملی ۔ اروناچل پردیش کے اس پہاڑی علاقے میں صدیوں سے ‘مون شوگو’ نام کا ایک پیپر بنایا جاتا ہے۔ یہ کاغذ یہاں کے مقامی شوگو شینگ نام کے ایک پودے کی چھال سے بناتے ہیں، اسلئے، اس کاغذ کو بنانے کے لیے پیڑوں کو نہیں کاٹنا پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ، اسے بنانے میں کسی کیمیاوی مواد کا استعمال بھی نہیں ہوتا ہے، یعنی، یہ کاغذ ماحولیات کے لیے بھی محفوظ ہے، اور صحت کے لیے بھی۔ ایک وہ بھی وقت تھا، جب، اس کاغذ کی بر آمدات ہوتی تھی ، لیکن، جب جدید تکنیک سے بڑی تعداد میں کاغذ بننے لگے، تو یہ مقامی آرٹ بند ہونے کی دہلیز پر پہنچ گئے ۔ اب ایک مقامی سماجی خدمتگار کلنگ گومبو نے اس آرٹ کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ہے، اس سے، یہاں کے قبائلی بھائی بہنوں کو روزگار بھی مل رہا ہے۔
میں نے ایک اور خبر کیرالہ کی دیکھی ہے، جو ہم سبھی کو اپنے فرض کا احساس دلاتی ہے۔ کیرالہ کے کو ٹیم میں ایک معذور بزرگ ہیں – این ایس راجپن صاحب۔ راجپن جی لقوہ کے باعثت چل نہیں سکتے ہیں ، لیکن اس سے، صفائی کے تئیں ان کی سرشاری میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ، پچھلے کئی سالوں سے ناؤ سے ویمبناڈ جھیل میں جاتے ہیں اور جھیل میں پھینکی گئی پلاسٹک کی بوتلیں باہر نکال کرلے آتے ہیں۔ سوچیں، راجپن جی کی سوچ کتنی اونچی ہے۔ ہمیں بھی، راجپن جی سے تحریک لے کر ، صفائی کے لیے، جہاں ممکن ہو، اپنا تعاون پیش کرنا چاہیئے۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا، امریکہ کے سان فرانسسکو سے بنگلورو کے لیے ایک نان اسٹاپ فلائٹ کی کمان ہندوستان کی چار خواتین پائلٹ نے سنبھالی۔ دس ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ لمبا سفر طے کرکے یہ فلائٹ سوا دو سو سے زیادہ مسافروں کو ہندوستان لیکر آئی۔ آپ نے اس بار 26 جنوری کی پریڈ میں بھی غور کیا ہوگا، جہاں، ہندوستانی فضائیہ کی دو خاتون افسروں نے نئی تاریخ لکھی ہے۔علاقہ کوئی بھی ہو، ملک کی خواتین کی شراکت داری مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ، ملک کے گاؤں میں ہو رہے اسی طرح کی تبدیلی کا اتنا ذکر نہیں ہوپاتا ۔ اسلئے، جب میں نے ایک خبر مدھیہ پردیش کے جبل پور کی دیکھی، تو مجھے لگا کہ اسکا ذکر تو مجھے ‘من کی بات’ میں ضرور کرنا چاہیئے۔ یہ خبر بہت ہی تحریک دینے والی ہے۔ جبل پور کے چچگاؤں میں کچھ قبائلی خواتین ایک چاول مل میں دہاڑی پر کام کرتی تھیں۔ کو رونا عالمی وبا نے جس طرح دنیا کے ہر فرد کو متاثر کیا اسی طرح یہ خواتین بھی متاثر ہوئیں۔ ان کی چاول میں کام رک گیا۔ قدرتی بات ہے کہ اس سے آمدنی کی بھی دقت آنے لگی، لیکن یہ ناامید نہیں ہوئیں، انہوں نےہار نہیں مانی۔ انہوں نے طے کیا کہ یہ ساتھ ملکر اپنی خود کی چاول مل شروع کریں گی، جس مل میں یہ کام کرتی تھیں، وہ اپنی مشین بھی بیچنا چاہتی تھی۔ ان میں سے مینا راہنگ ڈالے جی نے سبھی خواتین کو جوڑکر ‘سیلف ہیلف گروپ’ بنایا، اور سب نے اپنی بچائی ہوئی پونجی سے پیسہ جٹایا، جو پیسہ کم پڑا، اسکے لیے ‘آجیوکا مشن’ کے تحت بینک سے قرض لے لیا، اور اب دیکھیے، ان قبائلی بہنوں نے وہی چاول مل خرید لی، جس میں وہ کبھی کام کیا کرتی تھیں۔ آج وہ اپنی خود کی چاول مل چلا رہی ہیں۔ اتنے ہی دنوں میں اس مل نے تقریباً تین لاکھ روپے کا منافع بھی کما یا ہے۔ اس منافع سے مینا جی اور انکی ساتھی، سب سے پہلے، بینک کا لون چکانے اور پھر اپنے بیوپار کو بڑھانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ کو رونا نے جو صورتحال بنائی ، اس سے مقابلے کے لیے ملک کے کونے کونے میں ایسے حیرت انگیز کام ہوئے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، اگر میں آپ سےبندیل کھنڈ کے بارے میں بات کروں تو وہ کون سی چیزیں ہیں، جو آپ کےذہن میں آئیں گی! تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اس علاقہ کو جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے ساتھ جوڑیں گے۔ وہیں، کچھ لوگ خوبصورت اور پرسکون ‘اورچھا’ کے بارے میں سوچیں گے۔ کچھ لوگوں کو اس علاقے میں پڑنے والی سخت گرمی کی بھی یاد آ جائے گی، لیکن، ان دنوں، یہاں، کچھ الگ ہو رہا ہے، جو، کافی جوش بڑھانے والا ہے، اور جسکے بارے میں ہمیں ضرور جاننا چاہیئے۔گذشتہ دنوں جھانسی میں ایک مہینے تک چلنے والا 'اسٹرا بیری فیسٹیول' شروع ہوا۔ ہر کسی کوحیرانی ہوتی ہے – اسٹرا بیری اور بندیل کھنڈ ! لیکن یہی سچائی ہے۔ اب بندیل کھنڈ میں اسٹرا بیری کی کھیتی کو لیکرجوش بڑھ رہا ہے، اور اس میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے، جھانسی کی ایک بیٹی – گرلین چاؤلہ نے۔قانون کی طالبہ گرلین نے پہلے اپنے گھر اور پھر اپنے کھیت میں اسٹرابیری کی کھیتی کا کامیاب تجربہ کر کے یہ اعتماد بحال کیا کہ جھانسی میں بھی یہ ہو سکتا ہے۔ جھانسی کا 'اسٹرابیری فیسٹیول' "گھر پر رہیں " کے تصور پر زور دیتا ہے۔ اس فیسٹیول کے ذریعہ کسانوں اورنوجوانوں کو اپنے گھر کے پیچھے خالی جگہ میں ، یا چھت پر باغبانی کرنے اور اسٹرا بیری اگانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ نئی ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے ہی کوششیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہو رہی ہیں، جو اسٹرا بیری کبھی، پہاڑوں کی پہچان تھی، وہ اب، کچھ کی رتیلی زمین پر بھی ہونے لگی ہے، کسانوں کی آمدنی بڑھ رہی ہے۔
ساتھیو! اسٹرابیری فیسٹیول جیسے استعمال اختراعات کی روح کو تو ظاہر کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی یہ بھی دکھاتے ہیں کہ ہمارے دیش کا زرعی شعبہ کیسے نئی ٹکنالوجی اختیار کر رہا ہے۔
ساتھیو، زراعت کو جدید بنانے کے لیے حکومت پر عزم ہے اور متعدد اقدامات بھی کر رہی ہے۔ حکومت کی کوششیں آگے بھی جاری رہیں گی۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ ہی دن پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھا۔ وہ ویڈیومغربی بنگال کے مغربی مدناپور میں واقع ‘نیا پنگلا’ گاؤں کے ایک مصور سرم الدین کا تھا۔ وہ خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ رامائن پر بنائی انکی پینٹنگ دو لاکھ روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ اس سے انکے گاؤں والوں کو بھی کافی خوشی ملی ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد مجھے اسکے بارے میں اور زیادہ جاننے کا تجسس ہوا۔ اسی سلسلے میں مجھے مغربی بنگال سے وابستہ ایک بہت اچھی پہل کے بارے میں جانکاری ملی، جسے میں آپ سے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہونگا۔ وزارت سیاحت کے علاقائی دفتر نے مہینے کے شروع میں ہی بنگال کے گاؤں میں ایک 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے' کی شروعات کی۔ اس میں مغربی مدناپور، بانکرا، بیربھوم، پرو لیا، پورو بردھمان، وہاں کےدستکاروں نے آنے والوں کے لیے 'ہینڈی کرافٹ ورکشاپ' کا انعقاد کیا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے کے دوران دستکاری کی جو فروخت ہوئی وہ دستکاروں کے لیے بیحد حوصلہ افزا ہے۔ ملک بھر میں لوگ بھی نئے نئے طریقوں سے ہمارے آرٹ کو مقبول عام بنا رہے ہیں۔ اڈیشہ کے راورکیلا کی بھاگیشری ساہو کو دیکھ لیجئے۔ ویسے تو وہ انجنیئرنگ کی طالبہ ہیں، لیکن، پچھلے کچھ مہینوں میں انہوں نےاسکرین آرٹ کو سیکھنا شروع کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن، کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نےپینٹ کہاں کیا – نرم نرم پتھروں پر، کالج جانے کے راستے میں بھاگیہ شری کو یہ نرم پتھر ملے، انہوں نے، انہیں جمع کیا اور صاف کیا۔ بعد میں، انہوں نے، روزانہ دو گھنٹے ان پتھروں پراسکرین آرٹ کی پینٹنگ کی۔ وہ ان پتھروں کو پینٹ کر کے انہیں اپنے دوستوں کو بطور تحفہ دینے لگیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے بوتلوں پر بھی پینٹ کرنا شروع کر دیا۔ اب تو وہ اس آرٹ پر ورکشاپ بھی منعقد کرتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی، سبھاش بابو کی جینتی پر، بھاگیہ شری نے پتھر پر ہی انہیں انوکھی شردھانجلی دی۔ میں، بھاگیہ شری کو ان کی کوششوں کے مبارکباد دیتا ہوں۔آرٹ اور رنگوں کے ذریعہ بہت کچھ نیا سیکھا جا سکتا ہے، کیا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے دمکا میں کئے گئے ایک ایسے ہی انوکھی کوشش کے بارے میں مجھے بتایا گیا۔ یہاں میڈل اسکول کے ایک پرنسپل نے بچوں کو پڑھانے اور سکھانے کے لیے گاؤں کی دیواروں کو ہی انگریزی اور ہندی کے حروف سے پینٹ کروا دیا، ساتھ ہی، اس میں، مختلف تصویریں بھی بنائی گئی ہیں، اس سے، گاؤں کے بچوں کو کافی مدد مل رہی ہے۔ میں، ایسے سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اس طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور، کئی سمندروں ، بر اعظموں کے پار ایک ملک ، جس کا نام ہے چلی۔ ہندوستان سے چلی پہنچنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے، لیکن ہندوستانی ثقافت کی خوشبو وہاں بہت پہلے سے ہی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے، کہ، وہاں یوگا بہت زیادہ مقبول ہے۔ آپ کو یہ جان کر اچھا لگےگا کہ چلی کی راجدھانی سینٹیاگو میں 30 سے زیادہ یوگا اسکول ہیں۔چلی میں بین الاقوامی یوگ دوس بھی بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہاؤس آف ڈیوپٹیز میں یوگ دوس کو لیکر بہت ہی گرم جوشی بھرا ماحول ہوتا ہے۔ کو رونا کے اس دور میں قوت مدافعت پر زور اور قوت مدافعت بڑھانے میں، یوگا کی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اب وہ لوگ یوگا کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔چلی کی کانگریس، یعنی وہاں کی پارلیمنٹ نے تجویز منظور کی ہے۔ وہاں، 4 نومبر کو قومی یوگا ڈے منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آخر 4 نومبر میں ایسا کیا ہے ؟ 4 نومبر 1962 کو ہی چلی کا پہلا یوگا کا ادارہ ہوزے رافال ایسٹراڈا کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا۔ اس دن کوقومی یوگا ڈے کا اعلان کرکے ایسٹراڈا جی کو بھی خراج عقیدت پیش کی گئی ہے۔ چلی کی پارلیمنٹ کے ذریعہ ایک خاص اعزاز ہے جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔ ویسے چلی کی پارلیمنٹ سے جڑی ایک اور بات آپ کو دلچسپ لگےگی۔ چلی کی سینٹ کےنائب صدر کا نام رابندرناتھ کونٹیراس ہے۔ انکا یہ نام وشو کوی گرودیو ٹیگور سے تحریک حاصل کر کے رکھا گیا ہے۔
میرے عزیز ہم وطنو! مائی گو پر مہاراشٹر کے جالنا کے ڈاکٹر سوپ نیل منتری اور کیرالہ کے پلکاڈ کے پرہلاد راج گوپالن نے گذارش کی ہے کہ میں ‘من کی بات’ میں سڑک تحفظ پر بھی آپ سے بات کروں۔ اسی مہینے 18 جنوری سے 17 فروری تک، ہمارا ملک ‘سڑک تحفظ ماہ’ یعنی 'روڈ سیفٹی منتھ" منا رہا ہے۔ سڑک حادثے آج ہمارے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں تشویش کا موضوع ہیں۔ آج ہندوستان میں روڈ سیفٹی کے لیےحکومت کے ساتھ ہی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کئی طرح کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ زندگی بچانے کی ان کوششوں میں ہم سب کو سرگرمی سے شراکت دار بننا چاہیئے۔
ساتھیو! آپ نے غور کیا ہوگا، بارڈر روڈ آرگنائزیشن جو سڑکیں بناتی ہیں اس سے گذرتے ہوئے آپ کو بڑے ہی اختراعی نعرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ‘This is highway not runway’ یا پھر ‘Be Mr. Late than Late Mr.’ یہ نعرے سڑک پر احتیاط برتنے کو لیکر لوگوں کو بیدار کرنے میں کافی مؤثر ہوتے ہیں۔ اب آپ بھی ایسے ہی اختراعی سلوگن یا پرکشش فقرے مائی گو پر بھیج سکتے ہیں۔ آپکے اچھے سلوگن بھی اس مہم میں استعمال کئے جائیں گے۔
ساتھیو، روڈ سیفٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، میں نمو اَیپ پر کولکاتہ کی اپرنا داس جی کی ایک پوسٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اپرنا جی نے مجھے 'فاسٹ ٹیگ' پروگرام پر بات کرنے کی صلاح دی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 'فاسٹ ٹیگ' سے سفر کرنے تجربہ ہی بدل گیا ہے۔ اس سے وقت کی تو بچت ہوتی ہی ہے، ٹال پلازہ پر رکنے، نقد ادائیگی کی فکر کرنے جیسی دقتیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ اپرنا جی کی بات سہی بھی ہے۔ پہلے ہمارے یہاں ٹال پلازہ پر ایک گاڑی کو اوسطاً 7 سے 8 منٹ لگ جاتے تھے، لیکن'فاسٹ ٹیگ' آنے کے بعد، یہ وقت ، اوسطاً صرف ڈیڑھ دو منٹ رہ گیا ہے۔ ٹال پلازہ پر انتظار کرنے کے وقت میں کمی آنے سے گاڑی کے ایندھن کی بچت بھی ہو رہی ہے۔ اس سے ہم وطنوں کے تقریباً 21 ہزار کروڑ روپے بچنے کا اندازہ ہے، یعنی پیسے کی بھی بچت، اور وقت کی بھی بچت۔ میری آپ سبھی سے گذارش ہے کہ سبھی رہنما اصولوں پر عمل کرتے ہوئے، اپنا بھی دھیان رکھیں اور دوسروں کی زندگی بھی بچائیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے – “جل بندو نپاتین کرمش پوریتے گھٹ”۔ یعنی ایک ایک بوند سے ہی گھڑا بھرتا ہے۔ ہماری ایک ایک کوشش سے ہی ہمارے عزم پورے ہوتے ہیں۔ اسلئے، 2021 کی شروعات جن اہداف کے ساتھ ہم نے کی ہے، انکو، ہم سب کو مل کر ہی پورا کرنا ہے تو آئیے، ہم سب مل کر اس سال کو مثبت بنانے کے لیے اپنے اپنے قدم بڑھائیں۔ آپ اپنا پیغام اپنےخیالات ضرور بھیجتے رہیئے گا۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے۔
ابھی وداع لیتے ہیں ، پھر ملیں گے!
نئی دہلی۔27 دسمبر میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج 27 دسمبر ہے۔ چار دن بعد ہی 2021 کی شروعات ہونے جا رہی ہے۔ آج کی ‘من کی بات’ ایک طرح سے 2020 کی آخری ‘من کی بات’ ہے۔ اگلی ‘من کی بات’ 2021 میں شروع ہوگی۔ ساتھیو، میرے سامنے آپ کے لکھے ہوئے بہت سے خطوط ہیں۔' مائی گو' پر جو آپ اپنی رائے بھیجتے ہیں، وہ بھی میرے سامنے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے فون کرکے اپنی بات بتائی ہے۔ زیادہ تر پیغامات میں، گذرے ہوئے سال کے تجربات ، اور، 2021 سے وابستہ عہد ہیں۔ کولہاپور سے انجلی جی نے لکھا ہے کہ نئے سال پر، ہم، ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں تو اس بار ہم ایک نیا کام کریں۔ کیوں نہ ہم، اپنے ملک کو مبارکباد دیں، ملک کے تئیں بھی نیک خواہشات کا اظہار کریں۔ انجلی جی، واقعی، بہت ہی اچھی رائے ہے۔ ہمارا ملک 2021 میں کامیابیوں کی نئی بلندیوں پر جائے ، دنیا میں ہندوستان کی شناخت اورمضبوط ہو، اس سے بڑی تمنا اور کیا ہوسکتی ہے۔
دوستو ، ممبئی کے ابھیشیک جی نے نمو ایپ پر ایک پیغام پوسٹ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2020 نے جو کچھ دکھایا ، جوکچھ سکھایا ، اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ کو رونا سے جڑی تمام باتیں انہوں نے لکھی ہیں۔ ان خطوں میں، ان پیغامات میں، مجھے، ایک بات جومشترک نظر آ رہی ہے، خاص نظر آ رہی ہے، وہ میں آج آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔زیادہ تر خطوں میں لوگوں نے ملک کی صلاحیت ، ہم وطنوں کی اجتماعی طاقت کی بھرپور ستائش کی ہے۔ جب جنتا کرفیو جیسا جدید تجربہ پوری دنیا کے لیے تحریک بن گئی ، جب، تالی تھالی بجاکر ملک نے کورونا واریرس کو عزت بخشی تھی، اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا، اسے بھی کئی لوگوں نے یاد کیا ہے ۔
ساتھیو، ملک کے عام آدمی نے اس تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ میں نے ملک میں امید کا ایک حیرت انگیز بہاؤ بھی دیکھا ہے۔ بہت سارے چیلنجزآئے۔ بہت سارے بحران بھی آئے۔کورونا کے باعث دنیا میں سپلائی چین کے سلسلے میں بہت سی رکاوٹیں بھی درپیش ہوئیں، لیکن ، ہم نے ہر بحران سے نیا سبق لیا۔ ملک میں ایک نئی صلاحیت نے بھی جنم لیا۔ اگر آپ الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں تو اس صلاحیت کا نام 'خود انحصاری' ہے۔
دوستو ، دہلی میں رہنے والے ابھینو بنرجی نے اپناجو تجربہ مجھے لکھ کر بھیجا ہے ،وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ ابھینو جی کو اپنی رشتہ داری میں بچوں کو تحفے دینے کے لئے کچھ کھلونے خریدنے تھے ، لہذا ، وہ دہلی کے جھنڈے والان بازار گئے تھے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا ، یہ بازار دہلی میں سائیکلوں اور کھلونوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ پہلے وہاں مہنگے کھلونوں کا مطلب بھی درآمد شدہ کھلونے ہوتا تھا اور سستے کھلونے بھی باہر سے آئے تھے۔ لیکن ابھینو جی نے خط میں لکھا ہے کہ اب وہاں کئی دکاندار ، صارفین کو یہ کہہ کر کھلونے بیچ رہے ہیں کہ یہ اچھا کھلونا ہے ، کیونکہ یہ ہندوستان میں بنایا گیا ہے 'میڈ اِن انڈیا' ہے۔ صارفین بھی ہندوستان میں بنے کھلونوں کی ہی مانگ کر رہے ہیں۔ یہ تو ہے ، یہ ایک سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی ہے۔ یہ ایک زندہ و جاوید ثبوت ہے۔ ہم وطنوں کی سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے ، اور وہ بھی ایک سال کے اندر ۔اس تبدیلی کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ ماہرین معاشیات بھی اپنے پیمانے پر اسے وزن نہیں کرسکتے ہیں۔
دوستو ، مجھے وشاکھاپٹنم سےوینکٹ مرلی پرساد جی نے جو لکھا ہے اس میں بھی ایک الگ ہی قسم کا تصور ہے۔ وینکٹ جی نے لکھا ہے میں آپ کو 2021 کے لئےاپنا اے بی سی اٹیچ کر رہا ہوں ۔ مجھےکچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر اے بی سی سے ان کا کیا مطلب ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ وینکٹ جی نے خط کے ساتھ ایک چارٹ بھی منسلک کیا ہے۔ میں نے اس چارٹ کو دیکھا ، اور پھر سمجھ گیا کہ اے بی سی کا ان کا مطلب ہے – خود انحصار بھارت چارٹ – اے بی سی۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ وینکٹ جی نے ان تمام چیزوں کی ایک مکمل فہرست بنائی ہے جنہیں وہ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں الیکٹرانکس ، اسٹیشنری ، خود کی دیکھ بھال کرنے والی اشیاء، اس کے علاوہ اور بہت کچھ شامل ہے۔ وینکٹ جی نے کہا ہے کہ ، ہم جانے انجانے میں ان غیر ملکی مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں جن کا متبادل ہندوستان میں آسانی سے دستیاب ہے۔ اب انہوں نے قسم کھائی ہے کہ میں ان ہی مصنوعات کا استعمال کروں گا جن میں ہمارے ہم وطنوں کی محنت اور پسینہ شامل ہے۔
دوستو ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ، انہوں نے کچھ اوربھی کہا ہے ، جو مجھے کافی دلچسپ لگا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ہم ایک خود انحصار ہندوستان کی حمایت کر رہے ہیں ، لیکن ہمارے مینوفیکچررز کے لیے بھی واضح پیغام ہونا چاہئے کہ وہ مصنوعات کے معیار سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ بات تو درست ہے ۔ صفر اثر ، صفر عیب کی سوچ کے ساتھ کام کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ میں ملک کے صنعت کاروں اور صنعتوں کے رہنماؤں سے گزارش کرتا ہوں کہ ملک کے عوام نے مضبوط قدم اٹھایا ہے ، مضبوط قدم آگے بڑھایا ہے۔ ووکل فار لوکل کا نعرہ آج گھر گھر میں گونج رہا ہے۔ ایسے میں اب یہ یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے کہ ہماری مصنوعات عالمی معیار کی ہوں۔ جو بھی عالمی طور پر بہترین ہے ، ہم اسے ہندوستان میں بنا کر دکھائیں۔ اس کے لیے ہمارے کاروباری ساتھیوں کو آگے آنا ہوگا۔ اسٹارٹ اپ کو بھی آگے آنا ہوگا۔ ایک بار پھر ، میں وینکٹ جی کو ان کی بہترین کاوشوں کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوستو ، ہمیں اس جذبے کو برقرار رکھنا ہے ، زندہ رکھنا ہے اور اسے فروغ دیتے رہنا ہے ۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور ہم وطنوں سے ایک بار پھر گذارش کروں گا ۔ آپ بھی ایک فہرست تیار کریں ۔دن بھر ہم جن چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچیں اور دیکھیں کہ غیر دانستہ طور پر بیرون ملک بنی کون سی چیزیں ہماری زندگی میں داخل ہوگئی ہیں۔ایک طرح سے ، ہمیں قیدی بنا لیا ہے۔ان کے ہندوستان میں بنائے گئے متبادل کا پتہ لگائیں ، اور یہ بھی طے کریں کہ آئندہ سے ہندوستان کے محنت کش لوگوں ، ان کے پسینے سے تیار کردہ مصنوعات کا ہم استعمال کریں ۔ آپ ہر سال نئے سال کی قراردادیں لیتے ہیں ، اس بارایک قرار دار اپنے ملک کی خاطر بھی ضرور لینا چاہیے ۔
میرے پیارےہم وطنو ، ہمارے ملک میں ، دہشت گردوں سے، ظالموں سے ، ملک کے ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت ، اپنے رسم و رواج کو بچانے کے لئے کتنی قربانیاں دی گئی ہیں ، آج انہیں یاد کرنے کا بھی دن ہے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند جی کے صاحبزادے جوراور سنگھ اور فتح سنگھ کو دیوارمیں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ ظالم چاہتے تھے کہ صاحبزادے اپنا عقیدہ ترک کردیں ، عظیم گرو روایت کی تعلیمات چھوڑ دیں۔ لیکن ہمارے صاحبزادوں نے اتنی کم عمر میں بھی غضب کی ہمت اور خواہش کا مظاہرہ کیا۔ دیوار میں چنے جانے کے وقت ، پتھر لگتے رہے ، دیواریں اونچی ہوتی رہیں، موت سامنے ہی منڈلا رہی تھی ، لیکن پھر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند سنگھ جی کی ماں ماتا گوجری کی بھی شہادت ہوئی تھی۔ تقریبا ایک ہفتہ قبل ، گرو تیغ بہادر جی کا بھی یوم شہادت تھا۔ مجھے یہاں ، دہلی میں ، گرودوارہ رکاب گنج جا کر ، گرو تیغ بہادر جی کو خراج عقیدت پیش کرنے ، ماتھا ٹیکنے کا موقع ملا۔ اسی مہینے گرو گووند سنگھ جی سے تحریک حاصل کر کے متعدد لوگ زمین پر سوتے ہیں۔ لوگ گرو گووند سنگھ جی کےخاندان کے لوگوں کے ذریعہ دی گئی شہادت کو انتہائی جذباتی طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس شہادت نے پوری انسانیت ، ملک کو، ایک نئی تعلیم عطا کی۔ اس شہادت نے ہماری تہذیب کو محفوظ رکھنے کا بہت بڑا کام کیا۔ ہم سب اس شہادت کے مقروض ہیں۔ ایک بار پھر ، میں گرو تیغ بہادر جی ، ماتا گوجری جی ، گرو گووند سنگھ جی ، اور چاروں صاحبزادوں کی شہادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ، متعدد شہادتوں نے ہندوستان کی موجودہ شکل کو محفوظ رکھا ہے، برقرار رکھا ہے۔
میرے پیارےہم وطنو ، اب میں آپ کو ایسی بات بتانے جارہا ہوں ، جس سے آپ کو خوش بھی ہوں گے اور فخر بھی ہوگا۔ 2014 اور 2018 کے درمیان ، ہندوستان میں چیتوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں ، ملک میں چیتے کی تعداد لگ بھگ 7،900 تھی ، جبکہ 2019 میں ان کی تعداد بڑھ کر 12،852 ہوگئی۔ یہ وہی چیتے ہیں جن کے بارے میں جم کاربیٹ نے کہا تھا : "جن لوگوں نے چیتوں کو فطرت میں آزادانہ طور پر گھومتے نہیں دیکھا ، وہ اس کے حسن کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اس کے رنگوں کی خوبصورتی اور اس کے چال کے دلکشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ " ملک کی بیشتر ریاستوں میں ، خاص طور پر وسطی ہندوستان میں ، چیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چیتے کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاستوں میں مدھیہ پردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹر سرفہرست ہیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ چیتے کو برسوں سے پوری دنیا میں خطرات لاحق ہیں ، دنیا بھر میں ان کے رہنے کی جگہ کو نقصان ہوا ہے۔ ایسے وقت میں ، ہندوستان نے چیتوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ کرکے پوری دنیا کو راستہ دکھایا ہے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ پچھلے کچھ سالوں میں ، ہندوستان میں شیروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے ، شیروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیز ہندوستانی جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ بہت سارے افراد ، سول سوسائٹی ، کئی ادارے بھی ہمارے درختوں اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ میں شامل ہیں وہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ساتھیو، میں نے تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں دلوں کو چھو لینے والی کوششوں کے بارے میں پڑھا۔ آپ نے بھی سوشل میڈیا پر اس کے نظارے دیکھے ہوں گے۔ ہم سبھی نے انسانوں کے لیے وہیل چیئر دیکھی ہے ، لیکن کوئمبٹور کی ایک بیٹی گایتری نے اپنے والد کے ساتھ مل کر ایک متاثر کتے کے لئے وہیل چیئر بنادی۔ یہ حساسیت حوصلہ افزا ہے ، اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان ہر جاندار کے ساتھ ہمدردی اور شفقت سے بھر پور ہو۔ دہلی این سی آر اور ملک کے دوسرے شہروں میں سخت سردی کی لپیٹ میں بے گھر جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کئی لوگ بہت کچھ کر رہے ہیں۔ وہ ان جانوروں کے لئے کھانا پینا اور یہاں تک کہ ان کے لئے سویٹر اور بستر کا انتظام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے جانوروں کے لئے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔اس طرح کی کوششوں کی ستائش کی جانی چاہئے۔ کچھ اسی طرح کی نیک کوششیں اترپردیش کے کوشامبی میں بھی کی جارہی ہیں۔وہاں جیل میں بند قیدی ، گایوں کو سردی سے بچانے کے لئے پرانے اور پھٹے ہوئے کمبلوں سےکوور بنا رہے ہیں۔ ان کمبلوں کو کوشامبی سمیت دیگر اضلاع کی جیلوں سے جمع کیا جاتا ہے اور پھر انہیں سِل کر گو شالہ بھیجا جاتا ہے۔ کوشامبی جیل کے قیدی ہر ہفتے کئی کور تیار کر رہے ہیں۔ آئیے ، دوسروں کی دیکھ بھال کےلیے خدمت کے جذبے سے معمور ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ واقعتا یہ ایک ایسا کام ہے جو معاشرے کی حساسیت کو تقویت بخشتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، اب جو خط میرے سامنے ہے اس میں دو بڑی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر ایک مندر کی ہیں اور پہلے اور بعد کی ہیں۔ ان تصاویر کے ہمراہ جو خط ہے اس میں نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم کے بارے میں بتایا گیا ہے جو خود کو نوجوان بریگیڈ کہتے ہیں۔ در اصل ، اس نوجوان بریگیڈ نے کرناٹک میں سری رنگ پٹن کے قریب واقع ویربھدرا سوامی نامی کے ایک قدیم شیو مندر کو از سرنو بحال کر دیا۔ مندرمیں ہر طرف گھاس پھوس اور جھاڑیاں بھری ہوئی تھیں۔ اتنی کہ راہگیر بھی نہیں بتاسکتے کہ یہاں ایک مندر ہے۔ ایک دن ، کچھ سیاحوں نے اس بھولے بسرے مندر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ جب نوجوان بریگیڈ نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ان سے رہا نہیں گیا اور پھر اس ٹیم نے مل کر اس کی تجدیدکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نےمندر کے احاطے میں اُگ آئی کانٹے کی جھاڑیوں ، گھاس اور پودوں کو ہٹا یا ۔ جہاں مرمت اور تعمیر کی ضرورت تھی ، وہ کیا ۔ ان کے اچھے کام کو دیکھتے ہوئے ، مقامی لوگوں نے بھی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ کچھ لوگوں نے سیمنٹ دیا اور کچھ لوگوں نے پینٹ اور بہت سی دوسری چیزوں سے اپنی اپنی شراکت داری کی۔ یہ تمام نوجوان مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، انہوں نے اختتام ہفتہ کے دوران وقت نکالا اور مندر کے لئے کام کیا ، نوجوانوں نے مندر میں دروازہ لگوانے کے ساتھ بجلی کا کنکشن بھی لگوایا۔ اس طرح انہوں مندر کی پرانی شان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کام کیا۔ جنون اور عزم ایسی دو چیزیں ہیں جن سے لوگ ہر مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ جب میں ہندوستان کے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور اعتماد کا احساس ہوتا ہے۔ خوشی اورپر اعتمادی اس لیے کیونکہ میرے ملک کے نوجوانوں کے پاس 'کر سکتے ہیں' اور 'کریں گے ' کا جذبہ ہے۔ ان کے لئے کوئی بھی چیلنج بڑا نہیں ہے۔ ان کی پہنچ سے کچھ بھی دور نہیں ہے۔ میں نے تمل ناڈو کی ایک ٹیچر کے بارے میں پڑھا۔ اس کا نام ہیم لتا این کے ہے ، جو وڈوپورم کے ایک اسکول میں ، دنیا کی قدیم ترین زبان تمل کی تعلیم دیتی ہیں۔ کووڈ 19 کی وبا بھی ان کے پڑھانے کے کام میں آڑے نہیں آئی ۔ جی ہاں ! ان کے سامنے چیلنجز ضرور تھے ، لیکن ، انہوں ایک اختراعی راستہ نکالا۔ انہوں نے کورس کے تمام 53 ابواب کو ریکارڈ کیا ، متحرک ویڈیوز تیار کیں اور انہیں اپنے طالب علموں میں ایک پین ڈرائیو میں لے کر تقسیم کر دی۔ اس سے ان کے طلباء کو بہت مدد ملی ، وہ ابواب کو ویزول طریقے سے بھی سمجھ پائے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے طلباء سے ٹیلیفون پر بھی بات کرتی رہیں۔ اس سے طلباء کےلیے پڑھائی کافی دلچسپ ہوگئی۔ ملک بھر میں کورونا کے اس زمانے میں ، اساتذہ نے جو اختراعی طریقے اپنائے جو کورس مواد تخلیقی طور پر تیار کیا ہے ، وہ آن لائن تعلیم کے اس مرحلے میں انمول ہے۔ میں تمام اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کورس مٹیریل کو وزارت تعلیم کےدکشا پورٹل پر اپ لوڈ کریں۔ اس سے ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلبہ کو بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، آئیے اب جھارکھنڈ کے کوروا قبیلے کے ہیرامن جی کی بات کرتے ہیں۔ ہیرامن جی گڑھوا ضلع کے سنجو گاؤں میں رہتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کوروا قبیلے کی آبادی صرف 6،000 ہے ، جو شہروں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ اپنی برادری کی ثقافت اور شناخت کو بچانے کے لئے ہیرامن جی نے ایک پیش قدمی کی ہے۔ انہوں نے 12 سال کی انتھک محنت کے بعد ،، معدوم ہوتی کوروا زبان کی ایک لغت تیار کی ہے۔ اس لغت میں انہوں نے گھریلو استعمال میں آنے والے الفاظ سے لے کر روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والےکوروا زبان کے بہت سارے الفاظ کو معنی کے ساتھ لکھا ہے۔ ہیرامن جی نے کوروا برادری کے لئے جو کیا ہے وہ ملک کے لئے ایک مثال ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ایسا کہتے ہیں کہ اکبر کے دربار میں ایک ممتاز رکن ابوالفضل تھے۔ انہوں نے ایک بار کشمیرکے دورے کے بعد کہا تھا کہ کشمیر میں ایسا نظارہ ہے ، جسے دیکھ کر چڑچڑے اورغصہ ور لوگ بھی خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ دراصل ، وہ کشمیر میں زعفران کے کھیتوں کا ذکر کر رہے تھے۔ زعفران صدیوں سے کشمیر سے وابستہ ہیں۔ کشمیری زعفران بنیادی طور پر پلوامہ ، بڈگام اور کشتواڑ جیسی جگہوں پر اگایا جاتا ہے۔ اس سال مئی میں ، کشمیری زعفران کو جغرافیائی اشارے کا ٹیگ یعنی جی آئی ٹیک دیا گیا ۔ اس کے ذریعہ ، ہم کشمیری زعفران کو عالمی سطح پر مقبول برانڈ بنانا چاہتے ہیں۔ کشمیری زعفران ایک مصالحے کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہے جس میں طرح طرح کی دواؤں کی خصوصیات ہیں۔ یہ بہت خوشبودارہوتا ہے ، اس کا رنگ گاڑھا ہوتا ہے اور اس کے دھاگے لمبے اور موٹے ہوٹے ہوتے ہیں۔ جو اس کی طبی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ جموں وکشمیر کی خوشحال ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتا ہے۔ معیار کی بات کریں تو کشمیر کا زعفران بہت ہی منفرد اور دوسرے ممالک کے زعفران سے بالکل مختلف ہے۔ کشمیر کے زعفران کو جی آئی ٹیگ شناخت سے الگ پہچان ملی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جی آئی ٹیگ کی سند ملنے کے بعد ، کشمیری زعفران کو دبئی کے ایک سپر مارکیٹ میں لانچ کیا گیا۔ اب اس کی برآمدات بڑھنے لگیں گی۔ اس سے خود انحصار ہندوستان بنانے کی ہماری کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔ اس سے خاص طور پر زعفران کاشتکار وں کو فائدہ ہوگا۔ پلوامہ میں ترال کے شار علاقے کے رہائشی عبد المجید وانی کو ہی دیکھ لیں ۔ وہ اپنے جی آئی ٹیگ والے زعفران کو قومی زعفران مشن کی مدد سے پمپور کے تجارتی مرکز میں ای ٹریڈنگ کے ذریعہ فروخت کررہے ہیں ۔کشمیر میں اس طرح کے بہت سے لوگ یہ کام کررہے ہیں۔ اگلی بار جب آپ زعفران خریدنے کا فیصلہ کریں تو کشمیر کا زعفران ہی خریدنے کا سوچیں۔ کشمیریوں کی گرمجوشی ایسی ہے کہ وہاں کے زعفران کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی دو دن پہلے گیتا جینتی تھی۔ گیتا، ہمیں اپنی زندگی کے ہر تناظر میں تحریک دیتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گیتا اتنی حیرت انگیز کتاب کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خود بھگوان کرشن کے کلمات ہیں۔ لیکن گیتا کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے تجسس سے شروع ہوتی ہے۔ ارجن نے خدا سے سوال کیا ، تجسس کا اظہار کیا ، تبھی تو گیتا کا علم دنیا نے حاصل کیا۔ گیتا کی ہی طرح ، ہماری ثقافت میں تمام علم تجسس کے ساتھ شروع ہوتے ہیں۔ ویدانت کا تو پہلا منتر ہی ہے – 'اتھاتو برہما جیگیاسا' یعنی آؤ ہم برہماکا تجسس کریں۔ اسی لئے تو ہمارے یہاں برہما کے باقیات کی بات کہی جاتی ہے۔ تجسس کی طاقت ایسی ہی ہے۔ تجسس مستقل طور پر آپ کو نئی چیز کی ترغیب دیتا ہے۔ بچپن میں ہم اسی لیے تو سیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر تجسس ہوتا ہے۔ یعنی جب تک تجسس ہے تب تک زندگی ہے۔ جب تک تجسس ہے ، تب تک نیا سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں کوئی عمر ، کسی صورتحال معانی ہی نہیں رکھتی۔ تجسس کی ایسی توانائی کی ایک مثال کا مجھے پتہ چلا ، تمل ناڈو کےبزرگ شری ٹی سرینواسچاریہ سوامی جی کے بارے میں! جناب ٹی سرینواساچاریہ سوامی جی 92 سال کے ہیں، وہ اس عمر میں بھی کمپیوٹر پر اپنی کتاب لکھ رہے ہیں ، وہ بھی خود ٹائپ کرکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کتاب لکھنا تو ٹھیک ہے ، لیکن سرینواساچاریہ جی کے وقت میں تو کمپیوٹر رہا ہی نہیں ہوگا۔ پھر انہوں نے کمپیوٹر کب سیکھا؟ یہ سچ ہے کہ اس کے کالج کے دور میں کمپیوٹر نہیں تھا۔ تاہم ان کے دل میں تجسس اور خود اعتمادی اب بھی اتنی ہی ہے جتنی ان کی اپنی جوانی میں تھی۔ دراصل ، سرینواساچاریہ سوامی جی سنسکرت اور تامل کے اسکالر ہیں۔ انہوں نے اب تک تقریبا 16 روحانی نصوص بھی لکھ چکے ہیں۔ لیکن ، کمپیوٹر آنے کے بعد ، جب انہیں لگا کہ اب تو کتاب لکھنے اور طباعت کا طریقہ بدل گیا ہے ، تو انہوں نے 86 سال کی عمر میں کمپیوٹر سیکھا ، اپنے لئے ضروری سافٹ ویئر سیکھا۔ اب وہ اپنی کتاب مکمل کر رہے ہیں ۔
ساتھیو ، جناب ٹی شرینواساچاریہ سوامی جی کی زندگی اس بات کا براہ راست ثبوت ہے کہ زندگی اس وقت تک توانائی سے بھرپور رہتی ہے جب تک زندگی میں تجسس نہیں مرجاتی ہے ، سیکھنے کی خواہش مر نہیں جاتی۔ لہذا ، ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم پچھڑ گئے ، ہم چوک گئے۔ کاش ہم بھی سیکھ لیتے! ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم سیکھ نہیں سکتے ، یا آگے نہیں بڑھ سکتے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ابھی ہم تجسس سے کچھ نیاسیکھنے اور کرنے کی بات کر رہے تھے۔ نئے سال کے موقع پر نئے عزائم کی بات کر رہے تھے۔ لیکن ، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مستقل طور پر کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہتے ہیں ،نئے نئے عزائم کو ثابت کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے بھی اپنی زندگی میں محسوس کیا ہوگا ، جب ہم معاشرے کے لئے کچھ کرتے ہیں تو معاشرہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی توانائی خود ہی دیتا ہے۔ عام سی لگنے والی محرکات سے بہت بڑے کام بھی ہوسکتے ہیں۔ جناب پردیپ سانگوان ایک ایسے ہی نوجوان ہیں! گروگرام کے پردیپ سانگوان 2016 سے ہیلنگ ہمالیاز کے نام سے مہم چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم اور رضاکاروں کے ساتھ ہمالیہ کے مختلف علاقوں میں جاتے ہیں اور جو پلاسٹک کے فضلہ سیاح وہاں چھوڑ جاتے ہیں، وہ صاف کرتے ہیں۔ پردیپ جی اب تک ہمالیہ کے مختلف سیاحتی مقامات سے کئی ٹن پلاسٹک کی صفائی کر چکے ہیں۔ اسی طرح ، انودیپ اور منوشا کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جوڑے ہیں۔ انودیپ اور منوشا کی گذشتہ ماہ نومبر میں شادی ہوئی ہے۔ بہت سے نوجوان شادی کے بعد سیر پر جاتے ہیں ، لیکن ان دونوں نے کچھ مختلف کیا۔ ان دونوں نے ہمیشہ دیکھا کہ لوگ اپنے گھر سے باہر گھومنے تو جاتے ہیں ، لیکن ، جہاں جاتے ہیں ، وہیں ڈھیر سارا کچرا اور کوڑا چھوڑ کر آ جاتے ہیں۔ کرناٹک کے سومیشورساحل پر بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ انودیپ اور منوشا نے فیصلہ کیا کہ وہ لوگ ان کچرے کو صاف کریں گے جسے لوگ سومیشور کے ساحل پر چھوڑ کر گئے ہیں۔ دونوں شوہر اور بیوی نے شادی کے بعد اپنا پہلا عہد کیا۔ دونوں نے مل کر سمندری ساحل پر بہت سارا کوڑا صاف کیا۔ انودیپ نے اپنے اس عہد کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔ پھر کیا تھا ، ان کی اتنی شاندار سوچ سے متاثر ہوکر ، بہت سارے نوجوان ان کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔ ان لوگوں نے مل کر سومیشور ساحل سمندر سے 800 کلوگرام سے زیادہ کچرا صاف کیا ہے۔
ساتھیو ، ان کوششوں کے درمیان ہمیں یہ بھی سوچنا ہے یہ کوڑا کرکٹ ان ساحلوں ، ان پہاڑوں تک کیسے پہنچتا ہے۔ آخر ہم میں سے ہی کئی لوگ اس کوڑے کو وہاں چھوڑ کر آتے ہیں ۔ ہمیں پردیپ اور انودیپ منوشا کی طرح صفائی مہم چلانی چاہئے۔ لیکن اس سےبھی پہلے ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہئے کہ ہم گندگی پھیلائیں گے ہی نہیں۔ آخر سوچھ بھارت مہم مہم کابھی تو پہلاعہد یہی ہے۔ ہاں ، ایک اور بات میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اس سال کورونا کی وجہ سے ، اس پر زیادہ بات چیت نہیں ہوپائی ہے۔ ہمیں ملک کوسنگل یوز پلاسٹک سے آزاد کرنا ہے۔ یہ بھی 2021 کی قراردادوں میں سے ایک ہے۔ آخر میں ، میں آپ کو نئے سال کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ خود صحتمند رہیں ، اپنے کنبے کو صحت مند رکھیں۔ اگلے سال جنوری میں ، نئے موضوعات پر 'من کی بات' ہوگی۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ‘من کی بات’ کی شروعات میں آج میں، آپ سب کے ساتھ ایک خوشخبری ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔ ہر ہندوستانی کو یہ جانکر فخر ہوگا کہ دیوی انّ پورناکی ایک بہت پرانی مورتی، کینیڈا سے واپس ہندوستان آرہی ہے۔ یہ مورتی لگ بھگ 100 سال پہلے، 1913 کے قریب، وارانسی کے ایک مندر سے چرا کر ملک سے باہر بھیج دی گئی تھی۔ میں، کینیڈا کی حکومت اور اس نیک کام کو ممکن بنانے والے سبھی لوگوں کا اس بڑے دل کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ماتا انّ پورنا کا کاشی سے بہت ہی خاص رشتہ ہے۔ اب، ان کی مورتی کا واپس آنا، ہم سبھی کیلئے خوشی کی بات ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی طرح ہی ہماری وراثت کے متعدد انمول ورثے بین الاقوامی گروہوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ یہ گروہ بین الاقوامی بازار میں، انہیں بہت اونچی قیمت پر بیچتے ہیں۔ اب ان پر سختی تو لگائی جارہی ہے ان کی واپسی کیلئے ہندوستان نے اپنی کوششیں بھی بڑھائی ہیں۔ ایسی کوششوں کی وجہ سے پچھلے کچھ برسوں میں ہندوستان کئی مورتیوں اور فن پاروں کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی واپسی کے سا تھ، ایک اتفاق یہ بھی جڑا ہے کہ کچھ دن پہلے ہی عالمی ورثہ کا ہفتہ منایا گیا ہے۔ عالمی ورثہ ہفتہ، ثقافت کے محبین کیلئے، پرانے وقت میں واپس جانے، ان کی تاریخ کے اہم سنگ میل کا پتہ لگانے کا ایک شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ کورونا کے دور کے باوجود بھی اس بار ہم نے اختراعی طریقے سے لوگوں کو یہ ورثہ ہفتہ مناتے دیکھا۔ بحران کے دور میں ثقافت بڑے کام آتی ہے۔ اس سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے توسط سے بھی ثقافت ایک جذباتی ریچارج کی طرح کام کرتی ہے۔ آج ملک میں کئی میوزیم اور لائبریریاں اپنے کلیکشن کو پوری طرح ڈیجیٹل بنانے پر کام کررہی ہیں۔ دہلی میں ہمارے قومی میوزیم نے اس سلسلے میں قابل ستائش کوششیں کی ہیں۔ قومی میوزیم کے ذریعے تقریباً 10 ورچوول گیلریوں کو متعارف کرانے کی سمت میں کام چل رہا ہے۔ ہے نا مزیدار! اب آپ گھر بیٹھے نیشنل میوزیم گیلریز کا ٹور کرپائیں گے، جہاں ایک جانب ثقافتی ورثے کو ٹیکنالوجی کے توسط سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اہم ہے وہیں ان ورثوں کے تحفظ کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی اہم ہے۔ حال ہی میں ایک دلچسپ پروجیکٹ کے بارے میں پڑھ رہا تھا، ناروے کے شمال میں سولباڈ نام کا ایک جزیرہ ہے ، اس جزیرے میں ایک پروجیکٹ آرکٹک ورلڈ آرکائیو بنایا گیا ہے۔ اس آرکائیو میں بیش قیمتی ہیریٹیج ڈاٹا کو اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے قدرتی یا انسانی پیدا کردہ مصیبتوں سے متاثر نہ ہوسکیں۔ ابھی حال ہی میں یہ بھی جانکاری آئی ہے کہ اجنتا گپھاؤں کے ورثے کو بھی ڈیجیٹائز کرکے اس پروجیکٹ میں محفوظ کیا جارہا ہے۔ اس میں اجنتا گپھاؤں کی پوری جھلک دیکھنے کو ملے گی۔ اس میں ڈیجیٹلائزڈ اور ریسٹورڈ پینٹنگ کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق دستاویز اور اقتباسات بھی شامل ہوں گے۔ ساتھیو،وبا نے ایک جانب جہاں ہمارے کام کرنے کے طور طریقوں کو بدلا ہے تو دوسری جانب فطرت کا نئے ڈھنگ سے تجربہ کرنے کا بھی موقع دیا ہے۔ فطرت کو دیکھنے کے ہمارے نظریے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب ہم سردیوں کے موسم میں قدم رکھ رہے ہیں، ہمیں فطرت کے الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ پچھلے کچھ دنوں سے انٹرنیٹ، چیری بلوزم کی وائرل تصویروں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے جب میں چیری بلوزم کی بات کررہا ہوں تو جاپان کے اس اہم شناخت کی بات کررہا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ جاپان کی تصویریں نہیں ہیں، یہ اپنے میگھالیہ کے شیلانگ کی تصویریں ہیں۔ میگھالیہ کی خوبصورتی کو ان چیری بلوزم نے اور بڑھادیا ہے۔
ساتھیو، اس مہینے 12 نومبر سے ڈاکٹر سلیم علی جی کی 125ویں سالگرہ کی تقریبات شروع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم نے چڑیوں کی دنیا میں برڈ واچنگ کو لیکر قابل ذکر کام کیا ہے۔ دنیا کے برڈ واچرس کو ہندوستان کے تئیں راغب بھی کیا ہے۔ میں ہمیشہ سے برڈ واچنگ کے شوقین لوگوں کا مداح رہا ہوں۔ بہت دلجمعی کے ساتھ وہ گھنٹوں تک صبح سے شام تک برڈ واچنگ کرسکتے ہیں۔ فطرت کے انوکھے نظاروں کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور اپنی معلومات کو ہم لوگوں تک بھی پہنچاتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی بہت سی برڈ واچنگ سوسائٹی سرگرم ہیں۔ آپ بھی ضرور اس موضوع کے ساتھ جڑیے۔ میری بھاگ دوڑ کی زندگی میں مجھے بھی پچھلے دنوں کیواڈیا میں چڑیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا بہت ہی یادگار موقع ملا۔ چڑیوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت آپ کو فطرت سے بھی جوڑے گااور ماحولیات کے لئے بھی تحریک دیگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان کا کلچر اور شاسترہمیشہ سے ہی پوری دنیا کیلئے توجہ کے مرکز رہے ہیں۔ کئی لوگ تو ان کی تلاش میں ہندوستان آئے اور ہمیشہ کیلئے یہیں کے ہوکر رہ گئے، تو کئی لوگ واپس اپنے ملک جاکر اس کلچر کے محافظ بن گئے۔ مجھے جونس میسیٹی کے کام کے بارے میں جاننے کا موقع ملا جنہیں وشوناتھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جونس برازیل میں لوگوں کو ویدانت اور گیتا سکھاتے ہیں، وہ وشوویدھانام کا ایک ادارہ چلاتے ہیں جو ریوڈی جنیروں سے ایک گھنٹے کی دوری پر پیٹرو پولیس کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ جونس نے میکنیکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد اسٹاک مارکٹ میں اپنی کمپنی میں کام کیا۔ بعد میں ان کا رجحان ہندوستانی ثقافت اور بالخصوص ویدانت کی طرف ہوگیا۔ اسٹاک سے لیکر کے اسپریچولٹی (روحانیت )تک حقیقت میں ان کا ایک طویل سفر ہے۔ جونس نے بھارت میں ویدانت درشن کا مطالعہ کیا اور چار سال تک وہ کوئمبٹور کے ارشا ودیا گروکولم میں رہے ہیں۔ جونس میں ایک اور خاصیت ہے وہ اپنے میسیج کو آگے پہنچانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے آن لائن پروگرام کرتے ہیں۔ وہ ہردن پوڈکاسٹ کرتے ہیں۔ پچھلے سات برسوں میں جونس نے ویدانت پر اپنے فری اوپن کورسیز کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلباء کو پڑھایا ہے۔ جونس نہ صرف ایک بڑا کام کررہے ہیں بلکہ اسے ایک ایسی زبان میں کررہے ہیں جسے سمجھنے والوں کی تعدا دبھی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں میں اس کو لیکر کافی دلچسپی ہے کہ کورونا اور کوارنٹائن کے اس وقت میں ویدانت کیسے مدد کرسکتا ہے۔ من کی بات کے توسط سے، میں جونس کی ان کی کوششوں کیلئے مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے مستقبل کی کوششوں کیلئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، اسی طرح ابھی ایک خبر پر آپ کا دھیان ضرور گیا ہوگا۔ نیوزیلینڈ میں وہاں کے نومنتخب ایم پی ڈاکٹر گورو شرما نے دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک سنسکرت زبان میں حلف لیا ہے۔ ایک ہندوستانی کے طور پر ہندوستانی ثقافت کی یہ ترویج واشاعت ہم سب کو فخر سے بھردیتی ہے۔ من کی بات کے توسط سے میں گورو شرما جی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم سبھی کی تمنا ہے، وہ نیوزیلینڈ کے لوگوں کی خدمت میں نئی حصولیابیاں حاصل کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کل 30 نومبر کو ہم شری گرونانک دیوجی کا 551واں پرکاش پرو منائیں گے۔ پوری دنیا میں گرونانک دیو جی کا اثر واضح طور سے دکھائی دیتا ہے۔
وینکوور سے ویلنگٹن تک، سنگاپور سے ساؤتھ افریقہ تک ان کے پیغامات ہر طرف سنائی دیتے ہیں۔ گروگرنتھ صاحب میں کہا گیا ہے-‘‘سیوک کو سیوا بن آئی’’، یعنی سیوک کا کام سیوا کرنا ہے، پچھلے کچھ برسوں میں کئی اہم پڑاؤ آئے اور ایک سیوک کے طور پر ہمیں بہت کچھ کرنے کا موقع ملا۔ گروصاحب نے ہماری سیوا لی۔ گرونانک دیو جی کی 550واں پرکاش پرو شری گروگوبند سنگھ جی کا 350واں پرکاش پرو اگلے برس شری گروتیغ بہادر جی کا 400واں پرکاش پرو بھی ہے، مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ گرو صاحب کی مجھ پر خصوصی مہربانی رہی جو انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنے کاموں میں بہت قریب سے جوڑا ہے۔
ساتھیو، کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ میں ایک گرودوارہ ہے، لکھپت گرودوارہ صاحب۔ شری گرونانک جی اپنے اداسی کے دوران لکھپت گرودوارہ صاحب میں رُکے تھے۔ 2001 کے زلزلے سے اس گرودوارہ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ یہ گرو صاحب کی مہربانی ہی تھی کہ میں اس کی بازیابی وتزئین کاری کو یقینی کرپایا۔ نہ صرف گرودوارہ کی مرمت کی گئی بلکہ اس کے فخر اور شان کو بھی پھر سے قائم کیا گیا۔ ہم سب کو گروصاحب کا بھرپور آشیرواد بھی ملا۔ لکھپت گرودوارہ کے تحفظ کی کوششوں کو 2004 میں یونیسیکو ایشیا پیسیفک ہیریٹیج ایوارڈ میں ایوارڈ آف ڈسٹنکشن دیا گیا۔ ایوارڈ دینے والی جیوری نے یہ پایا کہ مرمت کے دوران آرٹ اور آرکیٹیکچر سے جڑی باریکیوں کا خصوصی دھیان رکھا گیا۔ جیوری نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گرودوارہ کے تعمیر نو کے کام میں سکھ برادری کی نہ صرف سرگرم شراکت داری رہی بلکہ ان کی ہی رہنمائی میں یہ کام ہوا۔ لکھپت گرودوارہ جانے کا خوش نصیبی مجھے تب بھی ملی تھی جب میں وزیراعلیٰ بھی نہیں تھا۔ مجھے وہاں جاکر بے پناہ توانائی ملتی تھی، اس گرودوارے میں جاکر ہر کوئی خود کو خوش نصیب محسوس کرتا ہے۔ میں اس بات کیلئے بہت شکر گزار ہوں کہ گرو صاحب نے مجھ سے مسلسل خدمت لی ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ہی کرتاپور صاحب کوریڈور کا کھلنا بہت ہی تاریخی رہا۔ اس بات کو میں زندگی بھر اپنے دل میں محفوظ کرکے رکھوں گا۔ یہ ہم سبھی کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں شری دربار صاحب کی سیوا کرنے کا ایک اور موقع ملا۔ بیرون ملک رہنے والے ہمارے سکھ بھائی بہنوں کیلئے اب دربار صاحب کی سیوا کیلئے رقم بھیجنا اور آسان ہوگیا ہے۔ اس قدم سے دنیا بھر کی سنگت دربار صاحب کے اور قریب آگئی ہے۔
ساتھیو، یہ گروناک دیوجی ہی تھے جنہوں نے لنگر کی روایت شروع کی تھی اور آج ہم نے دیکھا کہ دنیا بھرمیں سکھ فرقہ نے کس طرح کورونا کے اس دور میں لوگوں کو کھانا کھلانے کی اپنی روایت کو جاری رکھا ہے۔ انسانیت کی خدمت کی یہ روایت ہم سبھی کیلئے مسلسل ترغیب دینے کاکام کرتی ہے۔ میری تمنا ہے ہم سبھی سیوک کی طرح کام کرتے رہیں، گرو صاحب مجھ سے اور ملک کے باشندوں سے اسی طرح خدمت لیتے رہیں۔ ایک بار پھر بھی گروناک جینتی پر میری بہت بہت نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے دنوں مجھے ملک بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ بات چیت کا ان کی تعلیمی سفر کے اہم پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے میں آئی آئی ٹی گوہاٹی، آئی آئی ٹی دہلی، گاندھی نگر کی دین دیال پٹرولیم یونیورسٹی، دہلی کی جے این یو، میسور یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے طلباء سے کنیکٹ ہوپایا۔ ملک کے نوجوانوں کے درمیان ہونا بیحد تروتازہ کرنے والا اور توانائی سے بھرنے والا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے کیمپس تو ایک طرح سے منی انڈیا کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان کیمپسوں میں ہندوستان کی کثرت کے درشن ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف وہاں نیو انڈیا کے لئے بڑے بڑے بدلاؤ کا جذبہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ کورونا سے پہلے کے دنوں میں جب میں روبرو کسی ادارے کے پروگرام میں جاتا تھا تو یہ گزارش بھی کرتا تھا کہ آس پاس کے اسکولوں سے غریب بچوں کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا جائے۔ وہ بچے اس پروگرام میں، میرے خصوصی مہمان بن کر آتے رہے ہیں۔ ایک چھوٹا سا بچہ اس پُررونق پروگرام میں کسی نوجوان کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ بنتے دیکھتا ہے، کسی کو میڈل لیتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس میں نئے سپنے جگتے ہیں، میں بھی کرسکتا ہوں، یہ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ عہد کے لئے تحریک ملتی ہے۔
ساتھیو، اس کے علاوہ ایک اور بات جاننے میں میری ہمیشہ دلچسپی رہتی ہے کہ اس ادارے کے ایلومنی کون ہے، اس ادارے کے اپنے ایلومنی سے ریگولر انگیجمنٹ کا انتظام ہے کیا؟ ان کا ایلومنی نیٹ ورک کتنا متحرک ہے۔
میرے نوجوان دوستو، آپ سب تک ہی کسی ادارے کے طالب علم ہوتے ہیں جب تک آپ وہاں پڑھائی کرتے ہیں، لیکن وہاں کے ایلومنی ، آپ زندگی بھر بنے رہتے ہیں۔ اسکول، کالج سے نکلنے کے بعد دو چیزیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں۔ ایک آپ کی تعلیم کا اثر، اور دوسرا آپ کا اپنے اسکول کالج سے لگاؤ۔ جب کبھی ایلومنی آپس میں بات کرتے ہیں تو اسکول کالج کی ان کی یادوں میں کتابوں اور پڑھائی سے زیادہ کیمپس میں گزارا گیا وقت اور دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے ہوتے ہیں، اور انہیں یادوں میں سے جنم لیتا ہے ایک جذبہ ادارے کیلئے کچھ کرنے کا۔ جہاں آپ کی شخصیت کا ارتقاء ہوا ہے، وہاں کی ترقی کیلئے آپ کچھ کریں ، اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔ میں نے کچھ ایسی کوششوں کے بارے میں پڑھا ہے، جہاں سابق طالب علموں نے اپنے پرانے اداروں کو بڑھ چڑھ کر کے دیا ہے۔ آج کل ایلومنی اس کو لیکر بہت سرگرم ہیں۔ آئی آئی ٹی کے فارغ التحصیل افراد نے اپنے اداروں کو کانفرنس سینٹر، مینجمنٹ سینٹر، انکیوبیشن سینٹر جیسے کئی الگ الگ انتظامات خود بناکر دیے ہیں۔ یہ ساری کوشش موجودہ طالب علموں کے لرننگ تجربے کو بہترکرتے ہیں۔ آئی آئی ٹی دہلی نے ایک عطیہ فنڈ کی شروعات کی ہے، جو کہ ایک شاندار تصور ہے۔ دنیا کی جانی مانی یونیورسٹی میں اس طرح کے عطیات قائم کرنے کا کلچر رہا ہے، جو طلبا کی مدد کرتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی یونیورسٹیاں بھی اس کلچر کو ادارہ جاتی بنانے میں اہل ہیں۔
جب کچھ لوٹانے کی بات ہوتی ہے تو کچھ بھی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی مدد بھی معنی رکھتی ہے۔ ہر کوشش اہم ہوتی ہے۔ اکثر سابق طلباء اپنے اداروں کے ٹیکنالوجی کی جدیدکاری میں، عمارتوں کی تعمیر میں، ایوارڈس اور اسکالر شپ شروع کرنے میں، ہنرمندی کے فروغ کے پروگرام شروع کرنے میں، بہ تاہم کردار نبھاتے ہیں۔ کچھ اسکولوں کی اولڈ اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن نے مینٹرشپ پروگرامشروع کئے ہیں۔ اس میں وہ الگ الگ بیچ کے طلباء کو گائیڈ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تعلیمی پہلوؤں پر چرچا کرتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں خاص طور سے رہائشی اسکولوں کی ایلومنی ایسوسی ایشن بہت مضبوط ہے، جو اسپورٹس ٹورنامنٹ اور کمیونیٹی سروس جیسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ میں سابق طلباء سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے جن اداروں میں پڑھائی کی ہے وہاں سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کرتے رہیں۔ چاہے وہ اسکول ہو، کالج ہو یا یونیورسٹی۔ میرا اداروں سے بھی گزارش ہے کہ ایلومنی انگیجمنٹ کے نئے اور اختراعی طریقوں پر کام کریں۔ کریٹیو پلیٹ فارم ڈیولپ کریں تاکہ ایلومنی کی فعال شراکت داری ہوسکے۔ بڑے کالج اور یونیورسٹیز ہی نہیں، ہمارے گاؤں کے اسکول کا بھی اسٹرانگ وائبرینٹ ایکٹیو ایلومنی نیٹ ورک ہو۔
میرے پیارے ہم وطنو، 5دسمبر کو شری اربندو کی برسی ہے۔ شری اربندو کو ہم جتنا پڑھتے ہیں، اتنی ہی گہرائی ہمیں ملتی جاتی ہے۔ میرے نوجوان ساتھی شری اربندو کو جتنا جانیں گے، اتنا ہی اپنے آپ کو جانیں گے، خود کو مضبوط کریں گے۔ زندگی کے جس دور میں آپ ہیں، جن عہدوں کو حقیقت بنانے کے لئے آپ کوشش کررہے ہیں،ان کے درمیان آپ ہمیشہ سے ہی شری اربندو کو ایک نئی تحریک دیتے پائیں گے، ایک نیا راستہ دکھاتے ہوئے پائیں گے۔ جیسے، آج، جب ہم ‘لوکل کے لئے ووکل’ اس ابھیان کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو شری اربندو کا سودیشی کا درشن ہمیں راہ دکھاتا ہے۔ بنگلہ میں ایک بڑی ہی مؤثر نظم ہے۔
‘چھوئی شوتو پائے۔ مانتو آشے تُنگ ہوتے۔
دیا۔شلائی کاٹھی، تاؤ آسے پوتے۔۔
پرو۔ دپیتی جالتے کھوتے، شوتے، جوتے۔
کچھوتے لوک نائے شادھین۔۔
یعنی ہمارے یہاں سوئی اور دیا سلائی تک ولایتی جہاز سے آتے ہیں۔ کھانے۔ پینے ، سونے، کسی بھی بات میں، لوگ آزاد نہیں ہیں۔
وہ کہتے بھی تھے سودیشی کا مطلب ہے کہ ہم، اپنے ہندوستانی مزدوروں، کاریگروں کی بنائی ہوئی چیزوں کو ترجیح دیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شری اربندو نے غیرملکوں سے کچھ سیکھنے کا بھی کبھی مخالفت کی ہو۔ جہاں جو نیا ہے وہاں سے ہم سیکھیں۔ جو ہمارے ملک میں اچھا ہوسکتا ہے اس کا ہم تعاون اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہی تو آتم نربھر بھارت ابھیان میں ‘‘ووکل فار لوکل’’منتر کی بھی بھاؤنا ہے۔ خاص کر سودیشی اپنانے کو لیکر انہوں نے جو کچھ کہا وہ آج ہر ملک کے شہری کو پڑھناچاہئے۔ ساتھیو، اسی طرح تعلیم کو لیکر بھی شری اربندو کے خیالات بہت واضح تھے۔ وہ تعلیم کو صرف کتابی معلومات، ڈگری اور نوکری تک ہی محدود نہیں مانتے تھے۔ جناب اروبندو کہتے تھے ہماری قومی تعلیم ہماری نوجوان نسل کے دل اور دماغ کی تربیت ہونی چاہئے۔ یعنی ذہن کی سائنٹفک ترقی ہو اور دل میں ہندوستانی جذبات بھی ہوں، تب ہی ایک نوجوان ملک کا ایک بہتر شہری بن پاتا ہے۔ شری اربندو نے قومی تعلیم کو لیکر جو بات تب کہی تھی ، جو امید کی تھی آج ملک اسے نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے پورا کررہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان میں کھیتی اور اس سے جڑی چیزوں کے ساتھ نئی جہتیں جڑی رہی ہیں۔ پچھلے دنوں ہوئے زرعی اصلاحات میں کسانوں کے لئے نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے ہیں۔ برسوں سے کسانوں کی جو مانگ تھی، جن مانگوں کو پورا کرنے کیلئے کسی نہ کسی وقت میں ہر سیاسی پارٹی نے ان سے وعدہ کیا تھا، وہ مانگیں پوری ہوئی ہیں۔ کافی غور وخوض کے بعد ہندوستان کے پارلیمنٹ نے زرعی اصلاحات کو قانونی شکل دیا۔ ان اصلاحات سے نہ صرف کسانوں کو متعدد بندھن ختم ہوئے ہیں، بلکہ انہیں نئے حقوق بھی ملے ہیں، نئے مواقع بھی ملے ہیں۔ ان حقوق نے بہت ہی کم وقت میں، کسانوں کی پریشانیوں کو کم کرنا شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹر کے دھولے ضلع کے کسان، جتیندر بھوئی جی نے، نئے زرعی قوانین کا استعمال کیسے کیا وہ آپ کو بھی جاننا چاہئے۔ جتیندر بھوئی جی نے مکے کی کھیتی کی تھی اور صحیح داموں کیلئے اسے کاروباریوں کو بیچنا طے کیا۔ فصل کی کُل قیمت طے ہوئی قریب تین لاکھ بتیس ہزار روپئے۔ جتیندر بھوئی کو پچیس ہزار روپئے پیشگی بھی مل گئے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ باقی کا پیسہ انہیں پندرہ دن میں چکا دیا جائیگا۔ لیکن بعد میں حالات ایسے بنے کہ انہیں باقی کا پیمنٹ نہیں ملا۔ کسان سے فصل خرید لو، مہینوں- مہینوں پیمنٹ نہ کرو، ممکنہ طور پر مکاّ خریدنے والے برسوں سے چلی آرہی اسی روایت کو نبھا رہے تھے۔ اسی طرح چار مہینے تک جتیندر جی کا پیمنٹ نہیں ہوا۔ اس صورتحال میں ان کی مدد کی ستمبر میں جو پاس ہوئے ہیں، جو نئے زرعی قوانین بنے ہیں، وہ ان کے کام آئے۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا ہے کہ فصل خریدنے کے تین دن میں ہی، کسان کو پورا پیمنٹ کرنا پڑتا ہے اور اگر پیمنٹ نہیں ہوتا ہے، تو کسان شکایت درج کرسکتا ہے۔ قانون میں ایک اور بہت بڑی بات ہے، اس قانون میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ علاقے کے ایس ڈی ایم کو ایک مہینے کے اندر ہی کسان کی شکایت کا نپٹارہ کرنا ہوگا۔ اب، جب، ایسے قانون کی طاقت ہمارے کسان بھائی کے پاس تھی، تو ان کے مسئلے کا حل تو ہونا ہی تھا، انہوں نے شکایت کی اور چند ہی دن میں ان کا بقایہ چکا دیا گیا۔ یعنی کہ قانون کی صحیح اور پوری جانکاری ہی جتیندر جی کی طاقت بنی۔ علاقہ کوئی بھی ہو، ہر طرح کی افواہوں سے دور، صحیح جانکاری ہر شخص کیلئے بہت بڑاسمبل ہوتی ہے۔ کسانوں میں بیداری بڑھانے کا ایسا ہی ایک کام کررہے ہیں، راجستھان کے باراں ضلع میں رہنے والے محمد اسلم جی۔ یہ ایک کسان پروڈیوسر تنظیم کے سی ای او بھی ہیں۔ جی ہاں، آپ نے صحیح سنا۔ کسان پروڈیوسر تنظیم کے سی ای او ۔ امید ہے، بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوکو یہ سن کر اچھا لگے گا کہ اب ملک کے دور دراز والے علاقوں میں کام کررہے کسان تنظیموں میں بھی سی ای او ہونے لگے ہیں۔ تو ساتھیو، محمد اسلم جی نے اپنے علاقے کے متعدد کسانوں کو ملاکر ایک وہاٹس ایپ گروپ بنالیا ہے۔ اس گروپ پر وہ ہر روز، آس پاس کی منڈیوں میں کیا قیمت چل رہی ہے، اس کی جانکاری کسانوں کو دیتے ہیں۔ خود ان کا ایف پی او بھی کسانوں سے فصل خریدتا ہے، اس لئے ، ان کی اس کوشش سے کسانوں کو فیصلہ لینے میں مدد ملتی ہے۔
ساتھیو، بیداری ہے تو زندگی ہے۔ اپنی بیداری سے ہزاروں لوگوں کی زندگی متاثر کرنے والے ایک زرعی صنعتکار جناب ویریندر یادو جی ہیں۔ ویریندر یادو جی، کبھی آسٹریلیا میں رہا کرتے تھے۔ دو سال پہلے ہی وہ ہندوستان آئے اور اب ہریانہ کے کیتھل میں رہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح ہی، کھیتی میں پرالی ان کے سامنے بھی ایک بڑا ایشو تھا۔ اس کے حل کے لئے بہت وسیع سطح پر کام ہورہا ہے، لیکن، آج، من کی بات میں، میں ویریندر جی کو خصوصی طور پر ذکر اس لئے کررہا ہوں، کیوں کہ ان کی کوشش الگ ہے، ایک نئی راہ دکھاتی ہے۔ پرالی کا حل کرنے کیلئے ویریندر جی نے پوال کی گانٹھ بنانے والی اسٹرابیلر مشین خریدی۔ اس کے لئے انہیں محکمہ زراعت سے مالی مدد بھی ملی۔ اس مشین سے انہوں نے پرالی کے گٹھے بنانا شروع کردیا۔ گٹھے بنانے کے بعد انہوں نے پرالی کو ایگروانرجی پلانٹ اور پیپر مل کو بیچ دیا۔ آپ جانکر حیران رہ جائیں گے کہ ویریندر جی نے پرالی سے صرف دو برس میں ڈیڑھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے اور اس میں بھی لگ بھگ 50 لاکھ روپئے منافع کمایا ہے۔ اس کا فائدہ ان کسانوں کو بھی ہورہا ہے جن کے کھیتوں سے ویریندر جی پرالی اٹھاتے ہیں۔ ہم نے کچرے سے کنچن کی بات تو بہت سنی ہے، لیکن،پرالی کا نپٹارہ کرکے پیسہ اور ثواب کمانے کی یہ انوکھی مثال ہے۔ میرا نوجوانوں، خاص کر زراعت کی پڑھائی کررہے طلباء سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے گاؤں میں جاکر کسانوں کو جدید ترین زراعت کے بارے میں، حال میں ہوئے زرعی اصلاحات کے بارے میں بیدار کریں۔ ایسا کرکے آپ ملک میں ہورہے بڑے بدلاؤ کے معاون بنیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
‘من کی بات’ میں ہم الگ الگ، طرح طرح کے متعدد موضوعات پربات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی بات کو بھی ایک سال ہورہا ہے، جس کو ہم کبھی خوشی سے یاد نہیں کرنا چاہیں گے۔ قریب قریب ایک سال ہورہے ہیں، جب دنیا کو کورونا کے پہلے کیس کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ تب سے لیکر اب تک، پوری دنیا نے متعدد اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دور سے باہر نکل کر، اب، ویکسین پر بحث ہونے لگی ہے۔ لیکن کورونا کو لیکر کسی بھی طرح کی لاپرواہی اب بھی بہت نقصاندہ ہے۔ ہمیں، کورونا کے خلاف اپنی لڑائی کو مضبوطی سے جاری رکھنا ہے۔
ساتھیو، کچھ دنوں بعد ہی، 6دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی بھی ہے۔ یہ دن بابا صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہی ملک کے تئیں اپنے عہدوں، آئین نے ایک شہری کے طور پر اپنے فرض کو نبھانے کی جو سیکھ ہمیں دی ہے، اسے دوہرانے کا ہے۔ ملک کے بڑے حصے میں سردی کا موسم بھی زور پکڑ رہا ہے۔ متعدد جگہوں پر برف باری ہورہی ہے۔ اس موسم میں ہمیں خاندان کے بچوں اور بزرگوں کا، بیمار لوگوں کا خاص دھیان رکھنا ہے، خود بھی احتیاط برتنی ہے، مجھے خوشی ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے آس پاس کے ضرورتمندوں کی بھی فکر کرتے ہیں۔ گرم کپڑے دیکر ان کی مدد کرتے ہیں۔ بے سہارا جانوروں کیلئے بھی سردیاں بہت مشکلات لیکر آتی ہیں۔ ان کی مدد کیلئے بھی بہت لوگ آگے آتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اس طرح کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ ساتھیو، اگلی بار جب ہم ‘من کی بات’ میں ملیں گے تو 2020 کا یہ برس اختتام کی جانب ہوگا۔ نئی امیدوں، نئے اعتماد کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے۔ اب، جو بھی تجاویز ہوں، افنکار ونظریات ہوں، انہیں مجھ تک ضرور ساجھا کرتے رہیے۔ آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ آپ سب صحتمند رہیں، ملک کے لئے سرگرم رہیں۔ بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج وجے دشمی یعنی دشہرے کا تہوار ہے۔ اس مبارک موقع پر آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ دشہرہ کا یہ تہوار جھوٹ پر سچائی کی جیت کا تہوار ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک طرح سے مشکلات پڑنے پر صبر کی جیت کا تہوار بھی ہے۔ آج آپ سبھی بہت تحمل کے ساتھ جی رہے ہیں۔ مریادہ میں رہ کر تہوار منارہےہیں اس لئے جو لڑائی ہم لڑ رہے ہیں، اس میں جیت بھی یقینی ہے۔ پہلے درگا پنڈال میں، ماں کے درشنوں کے لئے اتنی بھیڑ جمع ہوجاتی تھی۔ ایکدم، میلے جیسا ماحول رہتا تھا، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوپایا۔ پہلے دشہرے پر بھی بڑے بڑے میلے لگتے تھے۔ لیکن اس بار ان کی شکل بھی مختلف ہے۔ رام لیلا کا تہوار بھی، اس کی بڑی کشش تھی۔ لیکن اس میں بھی کچھ نہ کچھ پابندیاں لگی ہیں۔پہلے نو راتر پر، گجرات کے گربا کی گونج ہر طرف چھائی رہتی تھی، اس بار بڑے بڑے پروگرام سب بند ہیں۔ ابھی آگے اور بھی کئی تہوار آنے والے ہیں۔ابھی عید ہے، شرد پورنیما ہے، والمیکی جینتی ہے، پھر دھن تیرس ، دیوالی، بھائی دوج، چھٹی میا کی پوجا ہے،گورو نانک دیو جی کی جینتی ہے۔ کورونا کے اس مصیبت کے دور میں ہمیں صبر و تحمل سے ہی کام لینا ہے،مریادہ میں ہی رہنا ہے۔
ساتھیو، جب ہم تہوار کی بات کرتے ہیں، تیاری کرتے ہیں، تو سب سے پہلے من میں یہی آتا ہے کہ بازار کب جانا ہے؟ کیا کیا خریداری کرنی ہے؟خاص طور پر بچوں میں تو اس کے لئے خصوصی جوش ہوتا ہے۔ اس بار تہوار پر نیا کیا ملنے والا ہے؟ تہواروں کی یہ امنگ اور بازار کی چمک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے لیکن اس بار جب آپ خریداری کرنے جائیں تو ’ووکل فار لوکل‘ کا اپنا عزم ضرور یاد رکھیں۔ بازار سے سامان خریدتے وقت ہمیں مقامی مصنوعات اولیت دینی ہے۔
ساتھیو، تہواروں کی اس خوشی اور امنگ کے درمیان میں لاک ڈاؤن کے وقت کو بھی یاد کرنا چاہیے۔ لاک ڈاؤن میں ہم نے معاشرے کے ان ساتھیوں کو اور قریب سے جانا ہے، جن کے بغیر ہماری زندگی بہت ہی مشکل ہوجاتی۔ صفائی ملازمین، گھر میں کام کرنے والے بھائی بہن ، مقامی سبزی والے، دودھ والے، سکیورٹی گارڈ، ان سب کا ہماری زندگی میں کیا رول ہے، ہم نے اب اچھی طرح محسوس کیا ہے۔ مشکل وقت میں یہ آپ کے ساتھ تھے، ہم سب کے ساتھ تھے۔ اب اپنے تہواروں میں، اپنی خوشیوں میں بھی، ہمیں ان کو ساتھ رکھنا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، انہیں اپنی خوشیوں میں شامل ضرور کیجئے۔ خاندان کے رکن کی طرح شامل کیجئے، پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی خوشیوں میں کتنا زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
ساتھیو، ہمیں اپنے ان جانباز فوجیوں کو بھی یاد رکھنا ہے، جو ان تہواروں میں بھی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت ماتا کی خدمت اور حفاظت کررہے ہیں۔ ہمیں ان کو یاد کرکے ہی اپنے تہوار منانے ہیں۔ ہمیں گھر میں ایک دیا، بھارت ماتا کے ان بہادر بیٹے بیٹیوں کے اعزاز میں بھی جلانا ہے۔میں، اپنے ان بہادر جوانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بھلے ہی سرحد پر ہیں، لیکن پورا ملک آپ کے ساتھ ہے، آپ کے لئے نیک خواہشات رکھتاہے۔ میں ان خاندانوں کے ایثار کو بھی سلام کرتا ہوں، جن کے بیٹے بیٹیاں آج سرحد پر ہیں۔ ہر وہ شخص جو ملک سے متعلق کسی نہ کسی ذمہ داری کی وجہ سے اپنے گھر پر نہیں ہے، اپنے خاندان سے دور ہے۔ میں دل سے اس کے لئے ممنوعیت کا اظہار کرتاہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم لوکل کے لئے ووکل ہو رہے ہیں تو دنیا بھی ہمارے لوکل پروڈکٹس کی فین ہور ہی ہے۔ہمارے کئی لوکل پروڈکٹس میں گلوبل ہونے کی بہت بڑی طاقت ہے۔ جیسے ایک مثال ہے کھادی کی۔ طویل وقت تک کھادی سادگی کی پہچان رہی ہے، لیکن ہماری کھادی آج ایکو فرینڈلی فیبرک کے طور پر جانی جارہی ہے۔ صحت کے نظریہ سے یہ باڈی فرینڈلی فیبرک ہے، آل ویدر فیبرک ہے اور آج کھادی فیشن اسٹیٹمنٹ تو بن ہی رہی ہے۔ کھادی کی مقبولیت میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے، ساتھ ہی دنیا میں کئی جگہ، کھادی بنائی بھی جارہی ہے۔ میکسکو میں ایک جگہ ہے ’اوہاکا‘۔ اس علاقے میں کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں مقامی دیہاتی افراد کھادی بننے کا کام کرتے ہیں۔ آج یہاں کی کھادی ’اوہاکا کھادی‘ کےنام سے مشہور ہوچکی ہے۔ اوہاکا میں کھادی کیسے پہنچی، یہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ دراصل، میکسکو کے ایک نوجوان مارک براؤن نے ایک بار مہاتما گاندھی پر ایک فلم دیکھی۔ براؤن یہ فلم دیکھ کر باپو سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ بھارت میں باپو کے آشرم آئے اور باپو کے بارے میں زیادہ گہرائی سے سمجھا۔ تب براؤن کو احساس ہوا کہ کھادی صرف ایک کپڑا ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پورا طریقہ زندگی ہے۔ اس سے کس طرح سے دیہی معیشت اور خود کفیلی کا فلسفہ جڑ اہے براؤن اس سے بہت متاثر ہوئے۔ یہاں سے براؤن نے عہد کیا کہ وہ میکسکو میں جاکر کھادی کا کام شروع کریں گے۔ انہوں نے میکسکو کے اوہاکا میں گاؤں والوں کو کھادی کا کام سکھایا، انہیں تربیت دی اور آج ’اوہاکا کھادی‘ ایک برانڈ بن گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے ’دی سیمبل آف دھرما ان موشن‘۔ اس ویب سائٹ میں مارک براؤن کا بہت ہی دلچسپ انٹرویو بھی ملے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شروع میں لوگ کھادی کے تعلق سے شبے میں تھے، لیکن آخرکار اس میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی اور اس کا بازار تیار ہوگیا۔ یہ کہتے ہیں، یہ رام راجیہ سے جڑی باتیں ہیں جب آپ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں تو پھر لوگ بھی آپ سے جڑنے چلے آتے ہیں۔
ساتھیو، دلی کے کناٹ پلیس کے کھادی اسٹور میں اس بار گاندھی جینتی پر ایک ہی دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی خریداری ہوئی۔ اسی طرح کورونا کے دور میں کھادی کے ماسک بھی بہت مقبول ہورہے ہیں۔ ملک بھر میں کئی جگہ سیلف ہیلپ گروپ اور دوسرے ادارے کھادی کے ماسک بنا رہے ہیں۔ یو پی میں بارا بنکی میں ایک خاتون ہیں۔ سمن دیوی جی۔ سمن جی نے سیلف ہیپ گروپ کی اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ مل کر کھادی ماسک بنانا شروع کئے۔ آہستہ آہستہ ان کے ساتھ دیگر خواتین بھی جڑتی گئیں، اب وہ سبھی مل کر ہزاروں کھادی ماسک بنارہی ہیں۔ ہمارے لوکل پروڈکٹس کی خوبی ہے کہ ان کے ساتھ اکثر ایک پورا فلسفہ جڑ ا ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہمیں اپنی چیزوں پر فخر ہوتا ہے تو دنیا میں بھی ان کے بارے میں کے تجسس بڑھتا ۔ جیسے ہماری روحانیت نے،یوگ نے، آیوروید نے، پوری دنیا کو راغب کیا ہے۔ ہمارے کئی کھیل بھی دنیا کو راغبب کررہے ہیں۔ آج کل ہمارا ملکھمب بھی کئی ملکوں میں مقبول ہورہا ہے۔ امریکہ میں چنمے پاٹنکر اور پرگیا پاٹنکر نے جب اپنے گھر سے ہی ملکھمب سکھانا شروع کیا تھا تو انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسے اتنی کامیابی ملے گی۔ امریکہ میں آج کئی مقامات پر ملکھمب تربیتی مراکز چل رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں امریکہ کے نوجوان اس سے جڑ رہے ہیں، ملکھمب سیکھ رہے ہیں۔ آج جرمنی ہو، پولینڈ ہو، ملیشیا ہو، ایسے تقریباً 20 دیگر ممالک میں بھی ملکھمب خوب مقبول ہورہا ہے۔ اب تو اس کی عالمی چمپئن شپ شروع کی گئی ہے، جس میں کئی ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ بھارت میں تو دور قدیم سے کئی ایسے کھیل رہے ہیں جو ہمیں غیر معمولی طور پر فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہمارے ذہن، باڈی بیلنس کو ایک نئی جہت پر لے جاتے ہیں۔ لیکن ممکنہ طور پر نئی نسل کے ہمارے نوجوان ساتھ، ملکھمب سے اتنا واقف نہ ہوں ۔ آپ اسے انٹرنیٹ پر ضرور سرچ کیجئے اور دیکھئے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں کتنے ہی مارشل آرٹ ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ساتھی ان کے بارے میں بھی جانیں، انہیں سیکھیں اور وقت کے لحاظ سے اختراع بھی کریں۔
جب زندگی میں بڑے چیلنجز نہیں ہوتے ہیں تو شخصیت کا بہترین عنصر بھی باہر نکل کر نہیں آتاہے۔ اس لئے خود کو ہمیشہ چیلنج کرتے رہئے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کہا جاتا ہے کہ ’لرننگ از گروئنگ‘۔ آج ’من کی بات‘ میں، میں آپ کا تعارف ایک ایسے شخص سے کراؤں گا جس میں ایک منفرد جنون ہے۔ یہ جنون ہے دوسروں کے ساتھ مطالعہ کرنے اور سیکھینے کی خوشیوں کو باٹنے کا۔ یہ ہیں پون مریپّن، پون مریپّن تمل ناڈو کے تُتکڑی میں رہتے ہیں۔ تتکڑی کو پرل سٹی یعنی موتیوں کے شہر کے طورپر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کبھی پانڈین سامراج کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں رہنے والے میرے دوست پون مریپن ہیئر کٹنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں اور ایک سیلون چلاتے ہیں۔ بہت چھوٹا سا سیلون ہے۔ انہوں نے ایک منفرد اور تحریک دینے والا کام کیا ہے۔ اپنے سیلون کے ایک حصے کو ہی لائبریری بنا دیا ہے۔ اگر کوئی شخص سیلون میں اپنی باری کا انتظار کرنے کے دوران وہاں کچھ پڑھتا ہے اور جو پڑھا ہے اس کے بارے میں کچھ لکھتا ہے تو پون مریپن جی اس گاہک کو ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ ہے نہ مزے دار!
آیئے تتکڑی چلتے ہیں۔ پون مریپّن جی سے بات کرتے ہیں۔
وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم… نلّہ اِر کنگڈا؟
(وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم ۔ آپ کیسے ہیں؟)
پون مریپّن: …(تمل میں جواب)
(پون مریپّن: عزت مآب وزیراعظم جی، ونکّم (نمسکار)۔)
وزیراعظم: ونکّم ، ونکّم… انگلکّے اند لائبریری آئیڈیا یّڑی ونددا
(وزیراعظم: ونکّم، ونکّم ۔ آپ کو یہ لائبریری کا جو آئیڈیا ہے، یہ کیسے آیا؟)
پون مریپّن: … (تمل میں جواب)…
(پون مریپّن کے جواب کا ترجمہ: میں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس سے آگے میرےخاندان کے حالات کی وجہ سے میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ جب میں پڑھے لوگوں کو یکھتا ہوں، تب میرے دل میں ایک کمی محسوس ہورہی تھی۔ اس لئے میرے من میں آیا کہ ہم کیوں نہ ایک لائبریری قائم کریں اور اس سے بہت سے لوگوں کو یہ فائدہ ہوگا ، یہی میرے لئے ایک تحریک بنی۔
وزیراعظم: انگلکے یند پُتہم پڈکّم؟
(وزیراعظم: آپ کو کون سی کتاب بہت پسند ہے؟)
پون مریپّن: (تمل میں جواب)
(پون مریپّن: مجھے ’تروکورول بہت پسند ہے)
وزیراعظم: اَنگ کٹّ پیسئے دل ینکّ۔ رومبا مگلچی۔ نل واڑ تکّل
(وزیراعظم: آپ سے بات کرکے مجھے خوشی ہوئی۔ آپ کا بہت بہت نیک خواہشات)
پون مریپّن: …. (تمل میں جواب)
(پون مریپّن: میں بھی عزت مآب وزیراعظم جی سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہا ہوں)
وزیراعظم: نل واڑ تکّل
(وزیراعظم: بہت ساری نیک خواہشات)
پون مریپّن: (تمل میں جواب)…..
(پون مریپّن: شکریہ وزیراعظم جی)
وزیراعظم: شکریہ۔
ہم نے ابھی پون مریپّن جی سے بات کی۔ دیکھئے، کیسے وہ لوگوں کے بالوں کو تو سنوارتے ہی ہیں، انہیں اپنی زندگی سنوارنے کا بھی موقع دیتے ہیں۔ تھروکورل کی مقبولیت کے بارے میں سن کر بہت اچھا لگا۔ تھروکورل کی مقبولیت کے بارے میں آپ سب نے بھی سنا۔ آج بھارت کی سبھی زبانوں میں تھروکورل دستیاب ہے۔اگر موقع ملے تو ضرور پڑھنا چاہیے۔ زندگی کے لئے وہ ایک طرح سے رہنمائی کرنے والی ہے۔
ساتھیو، لیکن آپ کو یہ جان کر خوش ہوگی کہ پورے بھارت میں متعدد لوگ ہیں جنہیں علم کی ترسیل سے بہت خوشی ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار رہتے ہیں کہ ہر کوئی پڑھنے کے لئے تحریک حاصل کرے۔ مدھیہ پردیش کے سنگرولی کی ٹیچر، اوشا دوبے جی نے تو اسکوٹی کو ہی موبائل لائبریری میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ ہر روز اپنی چلتی پھرتی لائبریری کے ساتھ کسی نہ کسی گاؤں میں پہنچ جاتی ہیں اور وہاں بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ بچے انہیں پیار سے کتابوں والی دیدی کہہ کر بلاتےہیں۔ اس سال اگست میں اروناچل پردیش کے نرجولی کے رایو گاؤں میں ایک سیلف ہیلپ لائبریری بنائی گئی ہے۔ دراصل یہاں کی مینا گورنگ اور دیوانگ ہوسائی کو جب پتہ چلا کہ قصبے میں کوئی لائبریری نہیں ہے تو انہوں نے اس کی فنڈنگ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس لائبریری کے لئے کوئی ممبر شپ نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص دو ہفتے کے لئے کتاب لے جاسکتا ہے۔ پڑھنے کے بعد اسے واپس کرنا ہوتا ہے۔ یہ لائبریری ساتوں دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ پاس پڑوس کے سرپرست یہ دیکھ کر کافی خوش ہیں کہ ان کے بچے کتاب پڑھنے میں مصروف ہیں۔ خاص طور سے اس وقت جب اسکولوں نے بھی آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں۔ وہیں چنڈی گڑھ میں ایک این جی او چلانے والے سندیپ کمار جی نے ایک منی وین میں موبائل لائبریری بنائی ہے، اس کے ذریعہ غریب بچوں کو پڑھنے کے لئے مفت میں کتابیں دی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گجرات کے بھاؤ نگر کے بھی دو اداروں کے بارے میں جانتا ہوں جو بہترین کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے ’وکاس ورتل ٹرسٹ‘۔ یہ ادارہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبا کے لئے بہت مددگار ہے۔ یہ ٹرسٹ 1975 سے کام کررہا ہے اور یہ 5000 کتابوں کے ساتھ 140 سے زیادہ رسالے دستیاب کراتا ہے۔ ایسا ایک ادارہ ’پستک پرب‘ ہے۔ یہ اختراعی پروجیکٹ ہے جو ادبی کتابوں کے ساتھ ہی دوسری کتابیں مفت فراہم کراتا ہے۔ اس لائبریری میں روحانیت، آیورویدک طریقہ علاج اور کئی دیگر موضوعات سے متعلق کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر آپ کو اس طرح کی اور کوششوں کے بارے میں کچھ پتہ ہے تو میرا اصرار ہے کہ آپ اسے سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔ یہ مثال کتابیں پڑھنے یا لائبریری کھولنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ اس نئے بھارت کے جذبے کی بھی علامت ہے جس میں سماج کی ترقی کے لئے ہر علاقے اور ہر طبقے کے لوگ نئے نئے اور اختراعی طریقے اختیار کررہے ہیں۔ گیتا میں کہا گیا ہے :
نہ ہی گیانین سدرشم پوتر مہ ودیاتے
یعنی ، علم کی طرح دنیا میں کچھ بھی مقدس نہیں ہے۔ میں علم کی ترسیل کرنے والے ایسی نیک کوششیں کرنے والے سبھی لوگوں کو دل سے سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ ہی دنوں بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کا یوم پیدائش 31 اکتوبر کو ہم سب ’قومی یکجہتی کے دن‘ کے طور پر منائیں گے۔ ’من کی بات‘ میں پہلے بھی ہم نے سردار پٹیل پر تفصیل سے بات کی ہے۔ ہم نے ان کی عظیم شخصیت کی کئی جہتوں کا ذکر کیا ہے۔ بہت کم لوگ ملیں گے جن کی شخصیت میں ایک ساتھ کئی عناصر موجود ہوں۔ نظریاتی گہرائی ، اخلاقی جرأت، سیاسی انفرادیت، زرعی شعبے کا گہرا علم اور قومی یکجہتی کے بارے میں اپنے آپ کو وقف کرنے کا جذبہ ۔ کیا آپ سردار پٹیل کے بارے میں ایک بات جانتے ہیں جو ان کے سینس آف ہیومر کو ظاہر کرتی ہے۔ ذرا اس مرد آہن کی شبیہ کا تصور کیجئے جو راجے رجواڑوں سے بات کررہے تھے، پوجیہ باپو، کی عوامی تحریک کا انتظام کررہے تھے، ساتھ ہی انگریزوں سے لڑائی بھی لڑ رہے تھے اور ان سب کے درمیان بھی ان کا سینس آف ہیومر پورے رنگ میں ہوتا تھا۔ باپو نے سردار پٹیل کے بارے میں کہا تھا ۔ ان کی پر مزہ باتیں مجھے اتنا ہنساتی تھیں کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ ایسا دن میں ایک بار نہیں کئی کئی بار ہوتا تھا۔ اس میں ہمارےلئے بھی ایک سبق ہے۔ حالات کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں، اپنے سینس آف ہیومر کو زندہ رکھئے، یہ ہمیں معمول پر تو رکھے گا ہی ہم اپنے مسائل کا حل بھی نکال پائیں گے۔ سردار صاحب نے یہی تو کیا تھا!
میرے پیارے ہم وطنو، سردار پٹیل نے اپنی پوری زندگی ملک کے اتحاد کے لئے وقف کردی۔ انہوں نے بھارتی عوام کے ذہن کو تحریک آزادی سے جوڑا۔ انہوں نے آزادی کے ساتھ کسانوں کے معاملات کو جوڑنے کا کام کیا۔ انہوں نے راجے رجواڑوں کو ہماری قوم کے ساتھ ملانے کا کام کیا۔وہ تنوع میں اتحاد کے منتر کو ہر بھارتی کے ذہن میں جگا رہے تھے۔
ساتھیو، آج ہمیں اپنی زبان ، اپنے رویہ، اپنے کام سے ہر لمحہ ان سب چیزوں کو آگے بڑھانا ہے جو ہمیں ’متحد‘ کرے ، جو ملک کے ایک حصے میں رہنے والے شہریوں کے ذہن میں دوسرے کونے میں رہنے والے شہریوں کے لئے خلوص اور اپنے پن کا جذبہ پیدا کرسکے۔ ہمارے اباؤ اجداد نے صدیوں سے مسلسل یہ کوششیں کی ہیں۔ اب دیکھئے، کیرلا میں پیدا ہوئے پوچیہ آدی شنکر چاریہ جی نے بھارت کی چاروں سمتوں میں چار اہم مٹھ قائم کئے۔ شمال میں بدری کاشرم، مشرق میں پوری، جنوب میں شرنگیری اور مغرب میں دوارکا۔ انہوں نے سری نگر کا سفر بھی کیا، یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک ’شنکراچاریہ ہل‘ ہےتیرٹھاٹن اپنے آپ میں بھارت کو ایک دھاگے میں پروتا ہے۔ جیوتر لنگوں اور شکتی پیٹھوں کا سلسلہ بھارت کو ایک دھاگے میں باندھتا ہے۔ تریپورہ سے لیکر گجرات تک جموں کشمیر سے لیکر تمل ناڈو تک قائم کئے گئے ہمارے آستھا کے مرکز ہمیں ایک کرتے ہیں۔ بھگتی تحریک پورے بھارت میں ایک بڑی عوامی تحریک بن گئی جس نے ہمیں بھگتی کے ذریعہ متحد کیا۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی یہ باتیں اس طرح گھل گئی ہیں، جس میں اتحاد کی طاقت ہے۔ ہر ایک انوشٹھان سے پہلے مختلف دریاؤں کو پکارا جاتا ہے۔ اس میں دور دراز شمال میں واقع دریا ئے سندھو سے لیکر جنوبی ہند کا زندگی عطا کرنے والادریائے کاویری تک شامل ہیں۔ اکثر ہمارے یہاں لوگ کہتے ہیں، اشنان کرتےوقت پاک جذبے کے ساتھ ایکتا کا منتر ہی بولتے ہیں:
گنگے چ یمنے چیو گوداوری سروتی۔
نرمدے سندھو کاویری جلیسمن سنّدھم کرو۔
اسی طرح سکھوں کے مقدس مقامات میں ’نانڈیڑ صاحب‘ اور ’پٹنہ صاحب‘گورودوارے شامل ہیں۔ ہمارے سکھ گوروؤں نے بھی اپنی زندگی اور اچھے کاموں کے ذریعہ سے اتحاد کے جذبے کو تقویت بخشی ہے۔ گزشتہ صدی میں ہمارے ملک میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جیسی عظیم شخصیات رہی ہیں۔ جنہوں نے ہم سبھی کو آئین کے ذریعہ سے متحد کیا۔
ساتھیو،
Unity is Power, Unity is strength,
Unity is Progress, Unity is Empowerment,
United we will scale new heights
ویسے۔ ایسی طاقتیں بھی موجود رہی ہیں جو مسلسل ہمارے ذہن میں شکوک و شبہات کے بیچ بونے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ملک میں نے بھی ہر بار، ان بد ارادوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ہمیں مسلسل اپنی تخلیقی صلاحیت سے، محبت سے، ہر لمحہ کوشش کرکے اپنے چھوٹے سے چھوٹے کاموں میں ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ کے خوبصورت رنگوں کو سامنے لانا ہے۔ اتحاد کے نئے رنگ بھرنے ہیں، اور، ہر شہری کو بھرنے ہیں۔ اس ضمن میں آپ سب سے ایک ویب سائٹ دیکھنے کا اصرار کرتا ہوں۔ ekbharat.gov.in (ایک بھارت ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان)۔ اس میں قومی یکجہتی کی ہماری مہم کو آگے بڑھانے کی کئی کوششیں نظر آئیں گی۔ اس کا ایک دلچسپ کارنر ہے ۔ آج کا واکیہ۔ اس سیکشن میں ہم ہر روز ایک واکیہ کو الگ الگ زبانوں میں کیسے بولتے ہیں، یہ سیکھ سکتے ہیں۔ آپ اس ویب سائٹ کے لئے کنٹریبوٹ بھی کریں، جیسے ہر ریاست اور ثقافت میں علیحدہ علیحدہ خورد و نوش ہوتا ہے۔ یہ پکوان مقامی سطح کی خاص اشیا یعنی اناج اور مسالوں سے بنائے جاتے ہیں۔ کیا ہم ان لوکل فوڈ کی ریسیپی کو مقامی اجزا کے ناموں کے ساتھ ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ ویب سائٹ پر شیئر کرسکتے ہیں؟ یونٹی اور امیونٹی کو بڑھانے کے لئے اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے!
ساتھیو، اس مہینے کی 31 تاریخ کو مجھے کیوڑیا میں تاریخی اسٹیچو آف یونٹی پر ہورہے کئی پروگرامیوں میں شرکت کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ لوگ بھی ضرور جڑیئے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر کو ہم ‘والمیکی جینتی’ بھی منائیں گے۔ میں مہارشی والمیکی کو نمن کرتا ہوں اور اس خاص موقع کے لئے اہل وطن کو دلی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مہارشی والمیکی کے عظیم خیالات کروڑوں لوگوں کو تحریک دیتے ہیں، تقویت عطا کرتے ہیں۔ وہ لاکھوں، کروڑوں غریبوں اور دلتوں کے لئے بہت بڑی امید ہیں۔ ان کے اندر امید اور اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ کسی بھی شخص کی قوت ارادی اگر اس کے ساتھ ہو تو وہ کوئی بھی کام بڑی آسانی سے کرسکتا ہے۔ یہ قوت ارادی ہی ہے جو کئی نوجوانوں کو غیر معمولی کام کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ مہارشی والمیکی نے مثبت سوچ پر زور دیا۔ ان کے لئے، خدمت اور انسانی وقار کا مقام سب سے اوپر ہے۔مہارشی والمیکی کا اخلاق ، خیالات اور آئیڈیل آج نیو انڈیا کے ہمارے عزم کے لئے محرک بھی ہیں اور رہنما خطوط بھی ہیں۔ ہم مہارشی والمیکی کے ہمیشہ ممنون رہیں گے کہ انہوں نے آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لئے رامائن جیسے عظیم گرنتھ کی تخلیق کی۔
اکتیس اکتوبر کو بھارت کی سابق وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی جی کو ہم نے کھو دیا۔ میں احترام کے ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج کشمیر کا پلوامہ پورے ملک کو تعلیم دینے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ آج ملک بھر میں بچے اپنا ہوم ورک کرتے ہیں، نوٹس بناتے ہیں، تو کہیں نہ کہیں اس کے پیچھے پلوامہ کے لوگوں کی سخت محنت بھی ہے۔ وادی کشمیر پورے ملک کی تقریباً 90 فیصد پنسل سلیٹ، لکڑی تختی کی مانگ کو پورا کرتی ہے اور اس میں بہت بڑی حصے داری پلوامہ کی ہے۔ ایک وقت میں ہم لوگ بیرون ممالک سے پنسل کے لئے لکڑی منگواتے تھے، لیکن اب ہمارا پلوامہ ، اس شعبے میں ملک کو خود کفیل بنا رہا ہے۔ حقیقت میں پلوامہ کے یہ پنسل سلیٹ، ریاستوں کے درمیان کے گیپ کو کم کررہے ہیں۔ وادی کی چنار کی لکڑی میں اب بہت زیادہ نمی اور سافٹ نیس ہوتی ہے جو پنسل تیار کرنے کےلئے اسے سب سے مناسب بناتی ہے۔ پلوامہ میں اکھو کو پنسل ولیج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پنسل سلیٹ تیار کرنے کی کئی اکائیاں ہیں جو روزگار فراہم کرا رہی ہیں اور ان میں کافی تعداد میں خواتین کام کرتی ہیں۔
ساتھیو، پلوامہ کی اپنی یہ پہچان اس وقت قائم ہوئی ہے جب یہاں کے لوگوں نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی۔ کام کو لیکر جوکھم اٹھایا اور خود کو اس کے لئے وقف کردیا۔ ایسے ہی محنتی لوگوں میں سے ایک ہیں منظور احمد علائی ۔ پہلے منظور بھائی لکڑی کاٹنے والے ایک عام مزدور تھے۔ منظور بھائی کچھ نیا کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں غریبی میں زندگی نہ گزاریں۔ انہوں نے اپنی پشتینی زمین فروخت کردی اور ایپل وڈن باکس یعنی سیب رکھنے والے لکڑی کے بکسے بنانے کی یونٹ شروع کی۔ وہ اپنے چھوٹے سے بزنس میں جٹے ہوئے تھے، تبھی منظوری بھائی کو کہیں سے پتہ چلا کہ پنسل تیار کرنے میں پوپلر وڈ یعنی چنار کی لکڑی کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد منظور بھائی نے اپنی صنعت کاری کی صلاحیت کا تعارف کراتے ہوئے کچھ فیمس پنسل مینوفیکچرنگ یونٹس کو پوپلر وڈن باکس کی سپلائی شروع کی۔ منظور جی کو یہ بہت فائدے مند لگا اور ان کی آمدنی بھی اچھی خاصی بڑھنے لگی۔ وقت کے ساتھ انہوں نے پنسل سلیٹ مینوفیکچرنگ مشینری لے لی اور اس کے بعد انہوں نے ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں کو پنسل سلیٹ کی سپلائی شروع کردی۔ آج منظور بھائی کے اس کاروبار کا ٹرن اوور کروڑوں میں ہے اور وہ تقریباً 200 لوگوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں۔ آج ’من کی بات‘ کے ذریعہ تمام اہل وطن کی جانب سے میں منظور بھائی سمیت پلوامہ کے محنت کش بھائی بہنوں کو اور ان کے خاندان والوں کو ، ان کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ سب ملک کے نوجوان ذہنوں کو، تعلیم دینے کےلئے اپنا بیش قیمت تعاون کررہے ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، لاک ڈاؤن کے دوران ٹکنالوجی بیسڈ سروس ڈلیوری کے کئی تجربات ہمارے ملک میں کئے گئے ہیں اوراب ایسا نہیں رہا کہ بہت بڑی ٹکنالوجی اور لاجسٹکس کمپنیاں ہی یہ کرسکتی ہیں۔ جھارکھنڈ میں یہ کام خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ نے کرکے دکھایا ہے۔ ان خواتین نے کسانوں کے کھیتوں سے سبزیاں اور پھل لئے اور سیدھے گھروں تک پہنچائے۔ ان خواتین نے ’آجیوکا فارم فریش‘ نام سےایک ایپ بنوانا جس کے ذریعہ لوگ آسانی سے سبزیاں منگوا سکتے تھے۔ اس پوری کوشش سے کسانوں کو اپنی سبزیوں اور پھلوں کے اچھے دام ملے اور لوگوں کو بھی فریش سبزیاں ملتی رہیں۔ وہاں ’اجیوکا فارم فریش‘ ایپ کا آئیڈیا بہت مقبول ہورہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں انہوں نے 50 لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی پھل سبزیاں لوگوں تک پہنچائی ہیں۔ ساتھیو، زراعت کے شعبے میں نئے امکانات پیدا ہوتے دیکھ کر ہمارے نوجوان بھی کافی تعداد میں اس سے جڑنے لگے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے بڑوانی میں اتل پاٹیدار اپنے علاقے کے 4000 کسانوں کو ڈیجیٹل طریقے سے جوڑ چکے ہیں۔ یہ کسان اتل پاٹیدار کے ای۔ پلیٹ فارم فارم ارڈ کے ذریعہ کھیتی کے سامان، جیسے کھاد، بیچ، پیسٹی سائڈ، فنجی سائٹ وغیرہ کی ہوم ڈلیوری پا رہے ہیں، یعنی کسانوں کو گھر تک ان کی ضرورت کی چیزیں مل رہی ہیں۔ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر جدید زرعی آلات بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے وقت بھی اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعہ کسانوں کو ہزاروں پیکٹ ڈلیور کئے گئے، جس میں کپاس اور سبزیوں کے بیچ بھی تھے۔ اتل جی اور ان کی ٹیم کسانوں کو تکنیکی طور پر بیدار بنارہی ہے۔ آن لائن پیمنٹ اور خریداری سکھا رہی ہے۔
ساتھیو، ان دنوں مہاراشٹر کے ایک واقعہ پر میرا دھیان گیا۔ وہاں ایک فارمر پروڈیوسر کمپنی نے مکئی کی کھیتی کرنے والے کسانوں سے مکئی خریدی۔ کمپنی نے کسانوں کو اس بار قیمت کے علاوہ بونس بھی دیا۔ کسانوں کو بھی حیران کن خوشی ہوئی۔ جب اس کمپنی سے پوچھا تو انہوں نے کہا بھارت سرکار نے جو نئے زرعی قوانین بنائے ہیں اب ان کے تحت کسان بھارت میں کہیں پر بھی فصل فروخت کرپارہے ہیں اور انہیں اچھے دام مل رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ اس فاضل پروفٹ کو کسانوں کے ساتھ بھی بانٹنا چاہیے۔ اس پر ان کا بھی حق ہے اور انہوں نے کسانوں کو بونس دیا ہے۔ ساتھیو، بونس بھلے ہی ابھی چھوٹا ہو، لیکن شروعات بہت بڑی ہے۔اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نئے زرعی قوانین سے زمینی سطح پر کس طرح کی تبدیلیاں کسانوں کے حق میں آنے کے امکانات بھرے پڑے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات میں‘ اہل وطن کی غیر معمولی کامیابیوں ، ہمارے ملک، ہماری ثقافت کی علیحدہ علیحدہ جہتوں کے بارے میں آپ سب سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا ملک باصلاحیت لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ اگر آپ بھی ایسے لوگوں کو جانتے ہوں، ان کے بارے میں بات کیجئے، لکھئے اور ان کی کامیابیوں کو شیئر کیجئے۔ آنے والے تہواروں کی آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو بہت بہت مبارکباد۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے اور تہواروں میں، ذرا خصوصی طور پر یاد رکھئے۔ ماسک پہننا ہے، ہاتھ صابن سے دھوتے رہنا ہے، دو گز کی دوری بنائی رکھنی ہے۔
ساتھیو، اگلے مہینے پھر آپ سے من کی بات ہوگی بہت بہت شکریہ۔
نئی دلّی ،27 ستمبر / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ۔ کورونا کے اِس بحرانی دور میں پوری دنیا مختلف تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے ۔ آج جب دو گز کی دوری ایک نا گزیر ضرورت بن گئی ہے تو اسی بحرانی دور نے کنبے کے ارکان کو آپس میں جوڑنے اور قریب لانے کا بھی کام کیا ہے لیکن اتنے لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنا ، کیسے رہنا ، وقت کیسے گزارنا ، ہر پل خوشی بھرا کیسے ہو ؟ تو ، کئی کنبوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اُس کی وجہ تھی کہ جو ہماری اقدار تھیں ، جو کنبے میں ایک طرح سے روایتی نظام کی طرح چلتی تھی ، اُس کی کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سے کنبے ہیں ، جہاں یہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے اُس کمی کے رہتے ہوئے ، بحران کے اِس دور کو گزارنا بھی کنبوں کے لئے تھوڑا مشکل ہو گیا اور اس میں ایک اہم بات کیا تھی ؟ ہر کنبے میں کوئی نہ کوئی بزرگ ، کنبے کے بڑے شخص کہانیاں سنایا کرتے تھے اور گھر میں نیا جوش اور نئی توانائی بھر دیتے تھے ۔ ہمیں ضرور احساس ہوا ہو گا کہ ہمارے اجداد نے ، جو طریقے بنائے تھے ، وہ آج بھی کتنے اہم ہیں اور جب نہیں ہوتے ہیں تو کتنی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ ایسا ہی ایک ہنر ، جیسا میں نے کہا ، کہانی سنانے کا آرٹ ، اسٹوری ٹیلنگ ہے ۔ ساتھیو ، کہانیوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ، جتنا کہ انسانی تہذیب کی تاریخ پرانی ہے ۔
" جہاں کوئی روح ہے ، وہاں کہانی بھی ہے ۔ "
کہانیاں لوگوں کے تخلیقی اور حساس پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں اور اس کا اظہار کرتی ہیں ۔ کہانی کی طاقت کو محسوس کرنا ہو ، تو جب کوئی ماں اپنے چھوٹے بچے کو سلانے کے لئے یا پھر اُسے کھانا کھلانے کےلئے کہانی سنا رہی ہوتی ہے ، تب دیکھیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں بڑے عرصے تک ایک سیاح کے طور پر گزارا ہے ۔ گھومنا ہی میری زندگی تھی ۔ ہر دن نیا گاؤں ، نئے لوگ ، نئے کنبے لیکن جب میں کنبوں میں جاتا تھا تو میں بچوں سے ضرور بات کرتا تھا اور کبھی کبھی بچوں سے کہتا تھا کہ چلو بھائی مجھے کوئی کہانی سناؤ ۔ تو میں حیران تھا ، بچے مجھ سے کہتے تھے کہ نہیں انکل ہم چٹکلا سنائیں گے اور مجھ سے بھی وہ یہی کہتے تھے کہ انکل آپ ہمیں چٹکلے سنائیے یعنی اُن کو کہانی سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا ۔ زیادہ تر اُن کی زندگی چٹکلوں میں ہی ختم ہو گئی ۔
ساتھیو ، ہندوستان میں کہانی سنانے یا قصہ گوئی کی ایک اہم روایت رہی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں ، جہاں ہیتوپدیش اور پنچ تنتر کی روایت رہی ہے ، جہاں کہانیوں میں جانوروں اور پرندوں اور پریوں کی خیالی دنیا تشکیل دی گئی تھی تاکہ عقل اور ذہانت کی باتوں کو آسانی سے سمجھایا جا سکے ۔ ہمارے یہاں کتھا کی روایت رہی ہے۔ یہ مذہبی کہانیاں سنانے کا یہ قدیم طریقہ ہے۔ اس میں 'کٹا کالیش وَم' بھی شامل رہا ہے ۔ ہمارے یہاں طرح طرح کی لوک کہانیاں رائج ہیں۔ تمل ناڈو اور کیرالہ میں کہانی سنانے کا ایک بہت ہی دلچسپ طریقہ ہے۔ اسے 'ویلو پاٹ' کہا جات ہے ۔ اس میں کہانی اور موسیقی کی ایک بہت ہی پرکشش ہم آہنگی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں کٹھ پتلی کی بھی روایت رہی ہے۔ ان دنوں سائنس اور سائنس فکشن سے جڑی کہانیاں اور کہانی کہنے کا طریقہ مقبول ہو رہا ہے ۔ میں دیکھ رہا ہوں ، کئی لوگ قصہ گوئی کے آرٹ کو بڑھانے کے لئے قابلِ ستائش پہل کر رہے ہیں ۔ مجھے gaathastory.in جیسی ویب سائٹ کے بارے میں پتہ چلا ، جسے ، امر ویاس ، باقی لوگوں کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں ۔ امر ویاس آئی آئی ایم احمد آباد سے ایم بی اے کرنے کے بعد بیرون ملک چلا گئے ، پھر واپس آئے ۔ فی الحال بنگلورو میں رہ رہے ہیں اور وقت نکال کر کہانیوں سے جڑے اِس طرح کے دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ کئی ایسی کوششیں بھی ہیں ، جو دیہی بھارت کی کہانیوں کو خوب مقبول بنا رہی ہیں ۔ ویشالی ویہوہارے دیش پانڈے جیسے کئی لوگ ہیں ، جو اسے مراٹھی میں بھی مقبول بنا رہے ہیں ۔
چنئی کی شری وِدھا اور وی راگھون بھی ہمارے تہذیب سے جڑی کہانیوں کی نشر و اشاعت کرنے میں لگی ہیں ۔ وہیں کتھالیہ اور دی انڈین اسٹوری ٹیلنگ نیٹ ورک نام کی دو ویب سائٹ بھی اِس شعبے میں زبردست کام کر رہی ہیں ۔ گیتا راما نجن نے kathalaya.org میں کہانیوں کو مرکوز کیا ہے ، وہیں The Indian Story Telling Network کے ذریعے بھی الگ الگ شہروں کے اسٹوری ٹیلرس کا نیٹ ورک تیار کیا جا رہا ہے ۔ بنگلورو میں ایک وکرم شری دھر ہیں ، جو باپو سے جڑی کہانیوں کو لے کر بہت پُر جوش ہیں اور بھی کئی لوگ اِس شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔ آپ ضرور ا ن کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر کریں ۔
آج ہمارے ساتھ بنگلورو اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی بہن اپرنا آتریا اور دیگر ارکان جڑے ہیں ، آئیے ، انہیں سے بات کرتے ہیں اور جانتے ہیں ، اُن کا تجربہ ۔
وزیر اعظم : ہیلو
اپرنا : نمسکار محترم وزیر اعظم جی کیسے ہیں آپ ۔
وزیر اعظم : میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسی ہیں اپرنا جی ؟
اپرنا : بالکل بڑھیا سر جی ۔ سب سے پہلے میں بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی طرف سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے ہم جیسے فن کاروں کو اِس فورم پر بلایا ہے اور بات کر رہے ہیں ۔
وزیر اعظم : اور میں نے سنا ہے کہ آج تو شاید آپ کی پوری ٹیم بھی آپ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے ۔
اپرنا : جی – – جی بالکل – – بالکل سر ۔
وزیر اعظم : تو اچھا ہوگا کہ آپ اپنی ٹیم کا تعارف کرا دیں تاکہ من کی بات کے ، جو سامعین ہیں ، اُن کے لئے تعرف ہو جائے کہ آپ لوگ کیسے بڑی مہم چلا رہے ہیں ۔
اپرنا : سر میں اپرنا آتریہ ہوں ، میں دو بچوں کی ماں ہوں ، ایک بھارتی فضائیہ کے افسر کی بیوی ہوں اور ایک جذباتی قصہ گو ہوں سر ۔ اسٹوری ٹیلنگ کی شروعات 15 سال پہلے ہوئی تھی ، جب میں سافٹ ویئر انڈسٹری میں کام کر رہی تھی ۔ تب میں سی ایس آر پروجیکٹوں میں رضا کارانہ طور پر کام کرنے کے لئے ، جب گئی تھی ، تب ہزاروں بچوں کو کہانیوں کے ذریعے تعلیم دینے کا موقع ملا اور یہ کہانی ، جو میں بتا رہی تھی ، وہ اپنی دادی ماں سے سنی تھی لیکن جب کہانی سنتے وقت میں نے ، جو خوشی ، اُن بچوں میں دیکھی ، میں کیا بولوں آپ کو ، کتنی مسکراہٹ تھی ، کتنی خوشی تھی تو اُس وقت میں نے طے کیا کہ اسٹوری ٹیلنگ میری زندگی کا ہدف ہو گا سر ۔
وزیر اعظم : آپ کی ٹیم میں اور کون ہے وہاں ؟
اپرنا : میرے ساتھ ہیں ، شیلجا سمپت ۔
شیلجا : نمسکار سیر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
شیلجا : میں شیلجا سمپت بات کر رہی ہوں ۔ میں تو پہلے ٹیچر تھی ۔ اُس کے بعد جب میرے بچے بڑے ہوئے تب میں نے تھیٹر میں کام شروع کیا اور آخر کار کہانیوں کو سنانے میں سب سے زیادہ دلی سکون ملا ۔
وزیر اعظم : شکریہ !
شیلجا : میرے ساتھ سومیا ہیں ۔
سومیا : نمسکار سر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
سومیا : میں ہوں سومیا سری نواسن ۔ میں ایک سائکلوجسٹ ہوں ۔ میں جب کام کرتی ہوں ، بچے اور بڑے لوگوں کے ساتھ ، اُس میں کہانیوں کے ذریعے انسان کے جذبات کو جگانے کی کوشش کرتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی تبادلۂ خیال بھی کرتی ہوں ۔ میرا مقصد ہے – Healing and transformative storytelling ۔
اپرنا : نمستے سر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
اپرنا : میرا نام اپرنا جے شنکر ہے ۔ ویسے تو میری خوش قسمتی ہے کہ میں اپنے نانا نانی اور دادی کے ساتھ اس ملک کے مختلف حصوں میں پلی ہوں ۔ اس لئے رامائن ، پرانوں اور گیتا کی کہانیاں مجھے وراثت میں ہر رات کو ملتی تھیں اور بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی جیسی تنظیم ہے تو مجھے اسٹوری ٹیلر بننا ہی تھا ۔ میرے ساتھ میری ساتھی لاونیا پرساد ہیں ۔
وزیر اعظم : لاونیا جی ، نمستے ۔
لاونیا : نمستے سر ۔ میں ایک الیکٹریکل انجینئر ہوں ، جو پیشہ ور قصہ گو بن گئی ہوں ۔ سر ، میں اپنے دادا سے کہانیاں سن کر بڑی ہوئی ہوں ۔ میں بزرگ شہریوں کے ساتھ کام کرتی ہوں ۔ میرے خصوصی پروجیکٹ میں ، جس کا نام روٹس ہے ، جہاں میں ، اُن کی زندگی اور اُن کے کنبوں کی زندگی کو دستاویزی شکل دینے میں مدد کرتی ہوں ۔
وزیر اعظم : لاونیا جی آپ کو بہت بہت مبارک ہو اور جیسا آپ نے کہا ہے ، میں نے بھی ایک بار من کی بات میں سب سے کہا تھا کہ آپ کنبے میں دادا ، دادی ، نانا ، نانی ہیں تو اُن سے ، اُن کے بچپن کی کہانیاں پوچھیئے اور اُسے ٹیپ کر لیجئے ، ریکارڈ کر لیجئے ۔ میں نے کہا تھا کہ بہت کام آئے گا لیکن مجھے اچھا لگا کہ ایک تو آپ سب نے ، جو اپنا تعارف کرایا ، اُس میں بھی آپ کا فن ، مواصلات کی آپ کی صلاحیت اور بہت ہی کم الفاظ میں ، بہت اچھے طریقے سے آپ نے اپنا تعارف کرایا ، اس لئے بھی میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔
لاونیا : شکریہ سر ، آپ کا شکریہ ۔
اب جو ہمارے سامعین لوگ ہیں ، من کی بات کے ، اُن کا بھی دل چاہتا ہوگا ، کہانی سننے کا ۔ کیا میں آپ سے درخواست کر سکتا ہوں کہ ایک دو کہانی سنائے آپ لوگ ؟
گروپ کی آواز : جی بالکل ، یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے ۔
چلئے چلئے سنتے ہیں کہانی ایک راجا کی ۔ راجا کا نام تھا ، کرشن دیو رائے اور سلطنت کا نام تھا ، وجے نگر ۔ اب راجا ہمارے تھے تو بڑے خوبیوں کے مالک ۔ اگر اُن میں کوئی کھوٹ بتانا ہی تھا ، تو وہ تھا ، زیادہ محبت اپنے وزیر تینالی راما کی جانب اور دوسرے کھانے کی ۔ راجا جی ہر دن دوپہر کے کھانے کے لئے بڑے شان سے بیٹھے تھے – کہ آج کچھ اچھا بنا ہوگا اور ہر دن اُن کے باورچی انہیں وہی بے جان سبزیاں کھلاتے تھے ، تورئی ، لاکی ، کدو ، ٹنڈا – اُف ۔ ایسے ہی ایک دن راجا نے کھاتے کھاتے غصے میں تھالی پھینک دی اور اپنے باورچی کو حکم دیا کہ یا تو کل کوئی دوسری مزیدار سبزی بنانا یا پھر کل میں تمہیں سولی پر چڑھا دوں گا ۔ باورچی بے چارہ ڈر گیا ۔ اب نئی سبزی کے لئے وہ کہاں جائے ۔ باورچی بھاگا بھاگا چلا سیدھے تینالی راما کے پاس اور اُسے پوری کہانی سنائی ۔ سن کر تینالی راما نے باورچی کو ترکیب بتائی ۔ اگلے دن راجا دوپہر کو کھانے کے لئے آئے اور باورچی کو آواز دی ۔ آج کچھ نیا مزیدار بنا ہے یا میں سولی تیار کر دوں ۔ ڈرے ہوئے باورچی نے جھٹ پٹ تھالی کو سجایا اور راجا کے لئے گرما گرم کھانا پیش کیا ۔ تھالی میں نئی سبزی تھی ۔ راجا بہت خوش ہوئے اور تھوڑی سی سبزی چکھی ۔ اوہ واہ ، کیا سبزی تھی ، نہ تورئی کی طرح پھیکی تھی ، نہ کدو کی طرح میٹھی تھی ۔ باورچی نے ، جو بھی مسالحہ بھون کر ، کوٹ کر ڈالا تھا ، سب اچھی طرح سے چڑھی تھی ۔ انگلیاں چاٹتے ہوئے مطمئن راجا نے باورچی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کون سی سبزی ہے ، اس کا نام کیا ہے ۔ جیسے سکھایا گیا تھا ، ویسے ہی باورچی نے جواب دیا ۔ مہا راج ، یہ مکٹ دھاری بیگن ہیں ۔ پربھو ٹھیک آپ ہی کی طرح یہ بھی سبزیوں کے راجا ہیں اور اسی لئے باقی سبزیوں نے بیگن کو تاج پہنایا ہے ۔ راجا خوش ہوئے اور اعلان کیا ، آج سے ہم یہی مکٹ دھاری بیگن کھائیں گے اور صرف ہم ہی نہیں ، ہماری سلطنت میں بھی صرف بیگن ہی بنے گا اور کوئی سبزی نہیں بنے گی ۔ راجا اور پرچا دونوں خوش تھے ۔ یعنی پہلے پہلے تو سب خوش تھے کہ انہیں نئی سبزی ملی ہے لیکن جیسے ہی دن بڑھتے گئے ، سُر تھوڑا کم ہوتا گیا ۔ ایک گھر میں بیگن کا بھرتا تو دوسرے گھر میں بیگن بھاجی ۔ ایک کے یہاں کاتے کا سمبھر تو دوسرے کے یہاں وانگی بھات ۔ ایک ہی بیگن بے چارا کتنے روپ دھارن کرے ۔ آہستہ آہستہ راجا بھی تنگ آ گئے ۔ روزانہ وہی بیگن اور ایک دن ایسا آیا کہ راجا نے باورچی کو بلایا اور خوب ڈانٹا ۔ تم سے کس نے کہا کہ بیگن کے سر پر تاج ہے ۔ اس سلطنت میں اب کوئی بیگن نہیں کھائے گا ۔ کل سے باقی کوئی بھی سبزی بنانا لیکن بیگن نہیں بنانا ۔ باورچی جیسے آپ کی آگیا مہا راج ، کہہ کر سیدھا تینالی راما کے پاس پہنچا ۔ تینالی راما کے پاؤں پکٹرتے ہوئے کہا کہ منتری جی شکریہ ۔ آپ نے ہماری جان بچا لی ۔ آپ کے مشورے کی وجہ سے اب ہم کوئی بھی سبزی راجا کو کھلا سکتے ہیں ۔ تینالی راما نے ہنستے ہو کہا ، وہ وزیر ہی کیا ، جو راجا کو خوش نہ رکھ سکے اور اسی طرح راجا کرشن دیو رائے اور اُن کے وزیر تینالی راما کی کہانیاں بنتی رہیں اور لوگ سنتے رہے ۔ شکریہ ۔
وزیر اعظم : آپ نے ، بات میں ، اتنی درستگی تھی ، اتنی باریکیوں کو پکڑا تھا ، میں سمجھتا ہوں ، بچے ، بڑے ، جو بھی سنیں گے ، کئی چیزوں کو یاد رکھیں گے ۔ بہت اچھے طریقے سے آپ نے بتایا اور خاص اتفاق یہ ہے کہ ملک میں تغذیہ کا مہینہ چل رہا ہے اور آپ کی کہانی کھانے سے جڑی ہوئی ہے ۔
خاتون : جی
وزیر اعظم : اور میں ضرور ، یہ جو اسٹوری ٹیلر آپ لوگ ہیں ، اور بھی لوگ ہیں ۔ ہمیں کس طرح سے اپنے ملک کی نئی پیڑھی کو اپنی عظیم شخصیتوں، عظیم ماؤں بہنوں کے ساتھ ، جو عظیم ہو گئے ہیں ، کہانیوں کے ذریعے کیسے جوڑا جائے ۔ ہم قصہ گوئی کو اور زیادہ کیسے مقبول بنائیں اور ہر گھرمیں اچھی کہانی کہنا ، اچھی کہانی بچوں کو سنانا ، یہ عام آدمی کی زندگی کی بہت بڑی کریڈٹ ہو ۔ یہ ماحول کیسے بنائیں ۔ اُس سمت میں ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیئے لیکن مجھے بہت اچھا لگا ، آپ لوگوں سے بات کرکے اور میں آپ سب کو بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ شکریہ ۔
گروپ کی آواز : شکریہ سر ۔
کہانی کے ذریعے تہذیب کے ماحول کو آگے بڑھانے والی اِن بہنوں کو اپنے سنا ۔ میں جب اُن سے فون پر بات کر رہا تھا ، اتنی لمبی بات تھی تو مجھے لگا کہ من کی بات کے وقت کی حد ہے تو میری اُن سے جو باتیں ہوئی ہیں ، وہ ساری باتیں ، میں اپنے نریندر مودی ایپ پر اَپ لوڈ کروں گا – پوری کہانیاں ضرور وہاں سنیئے ۔ ابھی من کی بات میں تو میں نے اُس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہی آپ کے سامنے پیش کیا ہے ۔ میں ضرور آپ سے درخواست کروں گا ، خاندان میں ، ہر ہفتے آپ کہانیوں کے لئے کچھ وقت نکالئے اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ خاندان کے ہر رکن کو ہر ہفتے کے لئے ایک موضوع طے کریں ، جیسے مان لو ہمدردی ہے ، حساسیت ہے ، ہمت ہے ، قربانی ہے ، بہادری ہے ، کوئی ایک جذبہ اور خاندان کے سبھی ارکان اُس ہفتے ایک ہی موضوع پر سب کے سب لوگ کہانی ڈھونڈیں گے اور خاندان کے سب لوگ مل کر ایک ایک کہانی کہیں گے ۔
آپ دیکھئے کہ کنبہ میں کتنا بڑا خزانہ ہو جائے گا ، کتنا بڑا تحقیقی کام ہوگا ، ہر ایک اور کتنی خوشی خوشی لطف اٹھائے گا ، کنبے میں نئی توانائی آئے گی ۔ اسی طرح ہم ایک کام اور بھی کرسکتے ہیں۔ میں ، کہانی سنانے والے سب سے اپیل کروں گا کہ ہم آزادی کے 75 سالوں کو منانے جا رہے ہیں ۔ کیا ہم اپنی کہانیوں میں پورے غلامی کے دور کے جتنے متاثر کن واقعات کو کہانیوں میں متعارف کرا سکتے ہیں! خاص طور پر ، 1857 ء سے لے کر 1947 ء تک ، ہم ہر چھوٹے موٹے نئے واقعہ سے ، اب اپنی کہانیوں کے ذریعے اپنی نئی نسل کو متعارف کروا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ یہ کام ضرور کریں گے۔ کہانی کہنے کا یہ فن ملک میں زیادہ مضبوط ، زیادہ عام اور زیادہ آرام دہ اور پرسکون ہوتا ہے ، لہذا ، آئیے ہم سب کوشش کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آئیے ، اب ہم کہانیوں کی دنیا سے نکل کر ، اب ہم سات سمندر پار چلتے ہیں ، یہ آواز سنیئے ۔
" نمستے ، بھائیو اور بہنوں ، میرا نام سیدو دیم بیلے ہے۔ میں مغربی افریقہ کے ایک ملک مالی سے ہوں۔ فروری میں ، مجھے ہندوستان کے سب سے بڑے مذہبی تہوار کمبھ میلے میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات ہے۔ مجھے کمبھ میلے میں شرکت کرکے بہت اچھا لگا اور ہندوستان کی ثقافت کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک بار پھر ہندوستان جانے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ ہم ہندوستان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکیں۔ نمستے " ۔
وزیر اعظم: ہے نہ مزیدار ، تو یہ تھے مالی کی سیدو دیم بیلے ۔ مالی بھارت سے بہت دور مغربی افریقہ کا ایک بہت بڑا اور لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ سیدو دیم بیلے مالی کے ایک شہر کیٹا کے ایک پبلک اسکول میں ٹیچر ہیں ۔ وہ بچوں کو انگلش ، میوزک ، پینٹنگ اور ڈرائنگ پڑھاتے اور سکھاتے ہیں ۔ لین اُن کی ایک اور شناخت بھی ہے۔ لوگ انہیں مالی کے ہندوستان کا بابو کہتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے انہیں بہت فخر ہوتا ہے۔ ہر اتوار کی دوپہر ، وہ مالی میں ایک گھنٹہ کا ریڈیو پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ اس پروگرام کا نام ہے ، انڈین فریکونسی آن بالی ووڈ سانگس ۔ وہ پچھلے 23 سالوں سے اسے پیش کررہے ہیں۔ اس پروگرام کے دوران ، وہ فرانسیسی زبان کے ساتھ ساتھ مالی کی مقامی زبان 'بمبارا' میں بھی اپنی کمنٹری کرتے ہیں اور ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ انہیں ہندوستان سے دِلی محبت ہے۔ ہندوستان سے ان کی گہری وابستگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ، ان کی پیدائش بھی 15 اگست کو ہوئی تھی۔ سیدو جی نے اب ہر اتوار کے روز دو گھنٹے کا ایک اور پروگرام شروع کیا ہے ، جس میں وہ بالی ووڈ کی ایک مکمل فلم کی کہانی فرانسیسی اور بمبارا میں سناتے ہیں ۔ کبھی کبھی کسی جذباتی منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ، وہ خود اور ان کے سننے والے ایک ساتھ رو پڑتے ہیں۔ سیدو جی کے والد نے ہی ہندوستانی ثقافت سے ان کا تعارف کرایا تھا ۔ ان کے والد سینما ، تھیٹر میں کام کرتے تھے اور وہاں ہندوستانی فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں ۔ اس 15 اگست کو ، انہوں نے ہندی میں ایک ویڈیو کے ذریعہ ہندوستان کے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد دی تھی ۔ آج ان کے بچے آسانی سے ہندوستان کا قومی ترانہ گاتے ہیں۔ آپ ان دونوں ویڈیوز کو ضرور دیکھیں اور ان کی ہندوستان سے محبت کو محسوس کریں۔ جب سیدوجی نے کمبھ کا دورہ کیا تھا ، اس وقت وہ، اُس وفد کا حصہ تھے ، جس سے میں نے ملاقات کی تھی ۔ ندوستان کے لئے ، اُن کا اس طرح کا جنون ، محبت اور پیار واقعی ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے
میرے پیارے ہم وطنوں ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے ، جو شخص زمین سے جتنا جڑا ہوا ہے ، وہ بڑے سے بڑے طوفان میں اتنا ہی ڈٹا رہتا ہے۔ کورونا کے اس مشکل دور میں ہمارا زرعی شعبہ ، ہمارا کسان ، اِس کی زندہ مثال ہے ۔ مشکل کے اس دور میں بھی ہمارے ملک کے زرعی شعبے نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ساتھیو ، ملک کا زرعی شعبہ ، ہمارے کسان ، ہمارے دیہات ، خود کفیل بھارت کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ مضبوط ہوں گے تو پھر خود کفیل بھارت کی بنیاد مضبوط ہوگی۔ حالیہ دنوں میں ، ان شعبوں نے خود کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کیا ہے ، بہت سے مفروضوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے ایسے بہت سے کسانوں کے خطوط ملتے ہیں ، میں کسان تنظیموں سے بات کرتا ہوں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح کاشتکاری میں نئی جہتیں شامل کی جارہی ہیں ، زراعت کیسے تبدیل ہورہی ہے۔ میں نے ان سے کیا سنا ہے ، میں نے دوسروں سے کیا سنا ہے ، میرا دِل چاہتا ہے کہ آج 'من کی بات' میں ، میں آپ کو ان کسانوں کی کچھ باتیں ضرور بتاؤں۔ ہمارا ایک کسان بھائی ہے ، جس کا نام جناب کنور چوہان ہے ، جو ہریانہ کے سونی پت ضلع میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب انہیں منڈی سے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرنے میں دشواری پیش آتی تھی۔ اگر وہ اپنے پھل اور سبزیاں منڈی کے باہر بیچ دیتے تھے تو پھر کئی بار ان کے پھل ، سبزیاں اور گاڑیاں تک ضبط ہوجاتی تھیں۔ تاہم ، 2014 ء میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی ایکٹ سے باہر کردیا گیا ، جس سے انہیں اور آس پاس کے کسانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ چار سال پہلے ، انہوں نے اپنے گاؤں میں ساتھی کسانوں کے ساتھ مل کر ایک کسان پروڈیوسر گروپ تشکیل دیا تھا۔ آج ، گاؤں کے کسان سویٹ کارن اور بیبی کارن کی کھیتی کرتے ہیں۔ آج ، ان کی پیداوار دلّی کی آزاد پور منڈی ، بڑی ریٹیل چین اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں براہ راست سپلائی ہو رہی ہے ۔ آج گاؤں کے کسان سویٹ کارن اور بیبی کارن کی کاشت کرکے سالانہ ایکڑ ڈھائی سے تین لاکھ کما رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں ، اس گاؤں کے 60 سے زیادہ کاشتکار ، نیٹ ہاؤس بنا کر ، پولی ہاؤس بنا کر ، ٹماٹر ، کھیرا ، شملہ مرچ ، اس کی مختلف اقسام تیار کرکے ہر سال فی ایکڑ 10 سے 12 لاکھ روپئے تک کمائی کر رہے ہیں۔ جانتے ہیں ، ان کسانوں کے پاس کیا الگ ہے ، اپنے پھل ، سبزیوں کو کہیں پر بھی ، کسی کو بھی ، بیچنے کی طاقت ہے اور یہ طاقت ہی اُن کی اس ترقی کی بنیاد ہے ۔ اب ملک کے دوسرے کسانوں کو بھی وہی طاقت ملی ہے۔ نہ صرف پھل اور سبزیوں کے لئے ہی نہیں ، بلکہ اپنے کھیت میں وہ جو پیدا کر رہے ہیں – دھان ، گیہوں ، سرسوں ، گنا ، جو بھی پیدا کر رہے ہیں ، اُس کو اپنی مرضی کے مطابق زیادہ دام ملیں ، وہیں پر بیچنے کی اب اُن کو آزادی مل گئی ہے ۔
ساتھیو ، تین چار سال پہلے ، مہاراشٹر میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی کے دائرہ کار سے باہر کردیا گیا تھا۔ اس تبدیلی نے مہاراشٹر کے پھلوں اور سبزیوں کے کاشتکاروں کی صورتحال کو کس طرح تبدیل کیا ہے ، اس کی ایک مثال یہ کسانوں کا ایک گروپ ہے ، جس کا نام سری سوامی سامرتھ فارمرس پروڈیوسر کمپنی لمیٹیڈ ہے ۔ پونے اور ممبئی کے کسان خود ہفتہ وار بازار چلا رہے ہیں۔ ان منڈیوں میں ، تقریباً لگ بھگ 70 گاؤوں کے ساڑھے چار ہزار کسانوں کی پیداوار براہ راست فروخت ہوتی ہے ، کوئی بچولیہ نہیں ہے ۔ دیہی نوجوان منڈی ، کاشتکاری اور بیچنے کے عمل میں براہ راست شامل ہوتے ہیں ۔ اس سے کاشتکاروں کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے ، گاؤں کے نوجوانوں کو روزگار میں فائدہ ہوتا ہے ۔
اس کی ایک اور مثال تمل ناڈو کے تھینی ضلع کی ہے ۔ یہاں تمل ناڈو کے کیلے کے کسانوں کی کمپنی ہے ۔ پیداوار کرنے والے کسانوں کی یہ کمپنی کہنے کو تو کمپنی ہے لیکن حقیقت میں ، ان کسانوں نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ ایک بہت ہی لچکدار نظام موجود ہے ، اور وہ بھی پانچ چھ سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اس کسان گروپ نے لاک ڈاؤن کے دوران قریب کے گاؤوں سے سیکڑوں میٹرک ٹن سبزیاں ، پھل اور کیلے خریدے اور چنئی شہر کو سبزی کمبو کٹ دیا۔ آپ سوچئے ، انہوں نے کتنے نوجوانوں کو روز گار دیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ بچولیا نہ ہونے کی وجہ سے کسان کو بھی فائدہ ہوا اور صارفین کو بھی فائدہ ہوا ۔ ایسا ہی ایک لکھنؤ کا کسانوں کا گروپ ہے ۔ انہوں نے نام رکھا ہے ، " ارادہ فارمر پروڈیوسر " ۔ انہوں نے بھی لاک ڈاؤن کے دوران براہ راست کسانوں کے کھیتوں سے پھل اور سبزیاں لیں اور سیدھے جاکر لکھنؤ کے بازاروں میں فروخت کیں ۔ بچولیوں سے آزادی مل گئی اور من پسند قیمت انہوں نے حاصل کی ۔ ساتھیو ، گجرات میں بناس کے رام پورہ گاؤں میں اسماعیل بھائی کرکے ایک کسان ہیں۔ ان کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ اسماعیل بھائی کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے لیکن ، جیسا کہ اب زیادہ تر سوچ بن گئی ہے ، ان کے اہل خانہ بھی یہ سوچتے تھے کہ اسماعیل بھائی کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ اسماعیل بھائی کے والد کھیتی باڑی کرتے تھے ، لیکن اس میں اکثر انہیں نقصان ہوتا تھا تو والد نے بھی منع کیا لیکن خاندان والوں کے منع کرنے کے باوجود اسماعیل بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ کھیتی باڑی ہی کریں گے۔ اسماعیل بھائی کا خیال تھا کہ کھیتی باڑی نقصان کا سودا ہے ، وہ اس سوچ اور صورتحال دونوں کو بدل کر دکھائیں گے ۔ انہوں نے کھیتی باڑی شروع کی لیکن ، نئے طریقوں سے ، اختراعی طریقوں سے۔ انہوں نے ڈرپ سے آبپاشی کرکے آلو کی کاشت شروع کردی اور آج ان کے آلو ایک پہچان بن گئے ہیں ۔ وہ ایسے آلو اگا رہے ہیں ، جن کی کوالٹی بہت ہی اچھی ہوتی ہے ۔ اسماعیل بھائی ، یہ آلو براہ راست بڑی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں ۔ بچولیوں کا نام و نشان نہیں اور نتیجہ – اچھا منافع کما رہے ہیں ۔ اب تو انہوں نے اپنے والد کا سارا قرض بھی ادا کر دیا ہے اور سب سے بڑی بات جانتے ہیں : اسماعیل بھائی ، آج اپنے علاقے کے سینکڑوں اور کسانوں کی بھی مدد کر رہے ہیں ۔ ان کی زندگی بھی بدل رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج کی تاریخ میں ، ہم کھیتی باڑی کو جتنا جدید متبادل دیں گے ، اتنا ہی وہ آگے بڑھے گی ۔ اس میں نئے نئے طور طریقے آئیں گے ، نئی اختراعات جڑیں گی ۔ منی پور کی رہنے والی بجے شانتی ایک نئی اختراع کی وجہ سے کافی بحث میں ہیں ۔ انہوں نے کمل کی نال سے دھاگہ بنانے کا اسٹارٹ اَپ شروع کیا ہے ۔ آج اُن کی اختراع کی وجہ سے کمل کی کھیتی اور ٹیکسٹائل میں ایک نیا راستہ بن گیا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، میں آپ کو ماضی کے ایک حصے میں لے جانا چاہتا ہوں۔ یہ ایک سو سال پرانی بات ہے۔ 1919 ء کا سال تھا۔ جلیانوالا باغ میں برطانوی حکومت نے بے گناہ لوگوں کو قتل عام کیا تھا۔ اس قتل عام کے بعد ، ایک بارہ سالہ لڑکا جائے وقوع پر گیا۔ وہ خوشگوار اور چنچل بچہ ، تاہم ، اس نے جلیانوالا باغ میں جو کچھ دیکھا ، وہ اس کے تصور سے بالاتر تھا۔ وہ حیران رہ گیا ، حیرت سے کہ کوئی بھی اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ معصوم غصے کی آگ میں جلنے لگا ۔ اسی جلیانوالہ باغ میں ، اس نے انگریزی حکومت کے خلاف لڑنے کی قسم کھائی ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں؟ جی ہاں! میں شہید ویر بھگت سنگھ کی بات کر رہا ہوں۔ کل ، 28 ستمبر کو ، ہم شہید ویر بھگت سنگھ کی یوم پیدائش منائیں گے۔ میں ، تمام شہریوں کے ساتھ ، شہید ویر بھگت سنگھ ، جو بہادری اور بہادری کی علامت ہے ، کو سلام کرتا ہوں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں ، ایسی حکومت ، جس نے دنیا کے اتنے بڑے حصے پر حکمرانی کی ، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی حکومت میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا ۔ اتنی طاقتور حکومت کو 23 سالہ شخص نے خوفزدہ کردیا۔ شہید بھگت سنگھ با ہمت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھے ، مفکر تھے ۔ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر ، بھگت سنگھ اور ان کے انقلابی ساتھیوں نے ایسے جرات مندانہ کام انجام دیئے ، جس کا ملک کی آزادی میں بہت بڑا تعاون تھا ۔ شہید ویر بھگت سنگھ کی زندگی کا ایک اور خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ ٹیم ورک کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے ۔ لالہ لاجپت رائے کے تئیں اُن کی لگن ہو یا چندر شیکھر آزاد ، سکھ دیو ، راج گرو سمیت انقلابیوں کے ساتھ ، اُن کا اتحاد ، اُن کے لئے کبھی ذاتی فخر کبھی اہم نہیں رہا ۔ وہ جب تک جئے ، صرف ایک مشن کے لئے جئے اور اسی کے لئے انہوں نے اپنی قربانی دے دی – وہ مشن تھا ، بھارت کو نا انصافی اور انگریزی حکمرانی سے آزادی دلانا ۔ میں نے نمو ایپ پر حیدر آباد کے اجے ایس جی کا ایک کمنٹ پڑا ۔ اجے جی لکھتے ہیں – آج کے نو جوان کیسے بھگت سنگھ جیسے بن سکتے ہیں ۔ دیکھئے ، ہم بھگت سنگھ بن پائیں یا نہ بن پائیں لیکن بھگت سنگھ جیسی حب الوطنی ، ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ضرور ہم سب کے دلوں میں ہے ۔ شہید بھگت سنگھ کو یہ ہمارا سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔ 4 سال پہلے تقریباً یہی وقت تھا ، جب سرجیکل اسٹرائک کے دوران دنیا نے ہمارے جوانوں کے حوصلے ، بہادری اور بے خوفی کا مشاہدہ کیا ۔ ہمارے بہادر فوجیوں کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی ہدف تھا ، ہر قیمت پر بھارت ماتا کے فخر اور عزت کا دفاع کرنا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی ۔ وہ اپنے فرض کے راستے پر آگے بڑھتے گئے اور ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح وہ فاتح ہوکر سامنے آئے ۔ بھارت ماتا کے فخر میں اضافہ کیا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آنے والے دنوں میں ہم کئی عظیم لوگوں کو یاد کریں گے ، جن کا بھارت کی تعمیر میں بہ بھلایا جانے والا تعاون ہے ۔ 2 اکتوبر ہم سب کے لئے مقدس ہے اور تحریک دلانے والا دن ہے ۔ یہ دن مادر وطن کے 2 سپوتوں ، مہاتما گاندھی اور لال بہادر شاستری کو یاد کرنے کا دن ہے ۔
پوجیا باپو کے افکار اور نظریات آج کے مقابلے میں آج پہلے سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ، مہاتما گاندھی کی معاشی سوچ ، اگر اس جذبے کو پکڑا جاتا ، سمجھا جاتا ، اسی راہ پر گامزن ہوتا ، تب ، آج خود انحصاری ہندوستان مہم کی ضرورت ہے گر نہیں ہوتا ہے۔ گاندھی کی معاشی سوچ کو ہندوستان کے اعصاب ، ہندوستان کی خوشبو کی سمجھ تھی۔ پوجیا باپو کی زندگی ہمیں اس بات کی یاد دلانے کی یاد دلاتی ہے کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ غریبوں کے غریب لوگوں کے مفاد کے لئے کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ، شاستری کی زندگی ہمیں عاجزی اور سادگی کا پیغام دیتی ہے۔ 11 اکتوبر کا دن بھی ہمارے لئے خاص ہے۔ اس دن ہم بھارت رتن لوک ہیرو جئے پرکاش جی کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یاد کرتے ہیں۔ جے پی نے ہماری جمہوری اقدار کے تحفظ میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں ہندوستان رتن ناناجی دیشمکھ بھی یاد ہے ، جن کی یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہے۔ نانا جی دیشمکھ جئے پرکاش نارائن جی کے بہت قریبی ساتھی تھے۔ جب جے پی بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے تو پٹنہ میں اس پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ پھر ، ناناجی دیشمکھ نے خود جنگ لڑ لی۔ اس حملے میں نانا جی کو شدید چوٹ پہنچی تھی ، لیکن ، وہ جے پی کی جان بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ یہ 12 اکتوبر راجماتا وجئےارجے سنڈیا جی کی یوم پیدائش بھی ہے ، انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ وہ ایک شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ، اسے جائیداد ، طاقت اور دیگر وسائل کی کمی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی ، اس نے اپنی زندگی ، ایک ماں کی طرح ، عوامی مفاد میں ، عوامی خدمت کے لئے صرف کی۔ اس کا دل بہت فراخ دل تھا۔ یہ 12 اکتوبر ان کے یوم پیدائش کے سو سالہ سال کی تقریبات کا اختتامی دن ہوگا اور آج جب میں راجماتا جی کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو مجھے بھی ایک بہت ہی جذباتی واقعہ یاد آیا۔ ویسے ، مجھے اس کے ساتھ کئی سالوں تک کام کرنے کا موقع ملا ، بہت سارے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن ، مجھے لگتا ہے ، آج ، مجھے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ہوگا۔ کنیاکماری سے کشمیر تک ، ہم ایکتا یاترا کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ سفر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی سربراہی میں جاری تھا۔ دسمبر ، جنوری سرد دن تھے۔ ہم مدھیہ پردیش کے گوالیار ، رات بارہ بجے کے قریب شیوپوری پہنچے ، ٹھکانے جاتے ہوئے ، کیوں کہ ، دن بھر تھکن ہوتی تھی ، نہاتے اور سوتے تھے ، اور صبح کی تیاری کرتے تھے۔ 2 بجے کے قریب ، میں نہانے اور سونے کی تیاری کر رہا تھا ، پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو سامنے راجماتا صاحب کھڑے تھے۔ کڑوی سردی اور راجمتا صاحب کو دیکھ کر میں حیران ہوا۔ میں نے ماں کو سجدہ کیا ، میں نے کہا ، آدھی رات میں ماں! انہوں نے کہا ، نہیں بیٹا ، تم یہ کرو مودی جی ، دودھ پی لو اور گرم دودھ پی کر سو جاؤ۔ خود ہلدی کا دودھ لے کر آیا تھا۔ ہاں ، لیکن جب ، دوسرے دن ، میں نے دیکھا ، وہ صرف میں ہی نہیں تھا ، ہمارے سفر کے انتظامات میں ، 30-40 افراد تھے ، ڈرائیور تھے ، اور خود بھی ، ہر کمرے میں جانے والے کارکن تھے۔ رات کے 2 بجے سب کو دودھ چھڑوایا۔ ماں کی محبت کیا ہے ، واٹسالیہ کیا ہے ، میں اس واقعے کو کبھی نہیں بھول سکتا ہوں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ایسی عظیم شخصیات نے اپنی قربانی اور توبہ سے ہماری زمین کو پانی پلایا۔ آؤ ، آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا ہندوستان تشکیل دیں جس پر یہ عظیم آدمی فخر محسوس کریں۔ ان کے خوابوں کو ان کی قراردادیں بنائیں۔
محترم باپو کے خیالات اور اصول آج پہلے سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ۔ مہاتما گاندھی کی ، جو اقتصادی فکر تھی ، اگر اُس جذبے پر کام کیا گیا ہوتا ، سمجھا گیا ہوتا ، اُس راستے پر چلا گیا ہوتا تو آج خود کفیل بھارت مہم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ گاندھی جی کی اقتصادی فکر میں بھارت کی نس نس کی سمجھ تھی ، بھارت کی خوشبو تھی ۔ مہاتما کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارا ہر کام ایسا ہو ، جس سے غریب سے غریب تر شخص کا بھلا ہو ۔ وہیں شاستری جی کی زندگی ہمیں انکسار اور سادگی کا پیغام دیتی ہے ۔ 11 اکتوبر کا دن بھی ہمارے لئے بہت خاص ہوتا ہے ۔ اس دن ہم بھارت رتن لوک نائک جے پرکاش جی کو ، اُن کے یومِ پیدائش پر یاد کرتے ہیں ۔ جے پی نے ہماری جمہوریت کی اقدار کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ہم بھارت رتن نانا جی دیش مکھ کو بھی یاد کرتے ہیں ، جن کا یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہی ہے ۔ نانا جی دیش مکھ ، جے پرکاش نارائن جی کے بہت قریبی ساتھی تھے ۔ جب جے پی بد عنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے ، تو پٹنہ میں اُن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ تب نانا جی دیش مکھ نے ، وہ وار اپنے اوپر لے لیا تھا ۔ اس حملے میں نانا جی کو کافی چوٹ لگی تھی لیکن جے پی کی زندگی بچانے میں وہ کامیاب رہے ۔ اس 12 اکتوبر ، راج ماتا وجے راجے سندھیا جی کا بھی یومِ پیدائش ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں وقف کر دی ۔ وہ ایک شاہی خاندان سے تھیں ۔ اُن کے پاس دولت ، طاقت اور دیگر وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی ایک ماں کی طرح ممتا کے جذبے سے عوامی خدمت کے لئے وقف کر دی ۔ ان کا دل بہت نرم تھا ۔ اس 12 اکتوبر کو ان کی یومِ پیدائش کا صد سالہ تقریبات کا اختتام کا دن ہو گا اور آج جب میں راج ماتا جی کی بات کر رہا ہوں تو مجھے بھی ایک بہت ہی جذباتی واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ ویسے تو اُن کے ساتھ بہت سالوں تک کام کرنے کا موقع ملا ، کئی واقعات ہیں ، لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ ایک واقعہ کا ذکر کروں ۔ کنیا کماری سے کشمیر ، ہم اتحاد ی یاترا لے کر نکلے تھے ۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جی کی قیادت میں یاتر ا چل رہی تھی ۔ دسمبر ، جنوری ، سخت سردی کے دن تھے ۔ ہم رات کو تقریباً بارہ ایک بجے مدھیہ پردیش میں گوالیار کے پاس شیو پوری پہنچے ۔ ٹھہرنے کی جگہ پر جاکر ، کیونکہ دن بھر کی تھکان ہوتی تھی ، نہا دھوکر سوتے تھے اور صبح ہی تیاری کر لیتے تھے ۔ تقریباً 2 بجے ہوں گے ، میں نہا دھوکر سونے کی تیاری کر رہا تھا ، تو دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا ۔ میں نے دروازہ کھولا تو راج ماتا صاحب سامنے کھڑی تھیں ۔ سخت سردی میں اور راج ماتا صاحب کو دیکھ کر میں حیران تھا ۔ میں نے ماں کو پرنام کیا ، میں نے کہا ، ماں آدھی رات میں : بولیں کہ نہیں بیٹا ۔ آپ ایسا کرو ، مودی جی دودھ پی لیجئے ۔ یہ گرم دودھ پی کر سو جائیے ۔ ہلدی والا دودھ لے کر خود آئیں ۔ ہاں ، لیکن جب دوسرے دن میں نے دیکھا ، وہ صرف مجھے ہی نہیں ہماری یاترا میں ، جو 30 – 40 لوگ تھے ، اُس میں ڈرائیور بھی تھے اور بھی ورکر تھے ، ہر ایک کے کمرے میں جاکر خود نے رات کو دو بجے سب کو دودھ پلایا ۔ ماں کا پیار کیا ہوتا ہے ، ممتا کیا ہوتی ہے ، اس واقعہ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ یہ ہماری خوشی قسمتی ہے ، کہ ایسی مہان شخصیتوں نے ہماری سر زمین کو اپنے تیاگ اور تپسیا سے سینچا ہے ۔ آئیے ، ہم سب مل کر کے ایک ایسے بھارت کی تعمیر کریں ، جس پر ان عظیم شخصیتوں کو فخر ہو ، اُن کے خوابوں کو اپنا عہد بنائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کورونا کے اِس وبائی دور میں ، میں پھر ایک بار آپ کو یاد کراؤں گا ، ماسک ضرور رکھیں ، فیس کور کے بغیر باہر نہ جائیں ، دو گز کی دوری کا اصول آپ کو بھی بچا سکتا ہے ، آپ کے خاندان کو بھی بچا سکتا ہے ۔ یہ کچھ اصول ہیں ، اس کورونا کے خلاف ، لڑائی کے ہتھیار ہیں ، ہر شہری کی زندگی کو بچانے کا مضبوط ذریعہ ہیں اور ہم نہ بھولیں ، جب تک دوائی نہیں ، تب تک ڈھیلائی نہیں ۔ آپ صحت مند رہیں ، آپ کا خاندان صحت مند رہے ، انہی نیک خواہشات کے ساتھ ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار!
عام طور پر یہ وقت اُتسو کا ہوتا ہے، جگہ جگہ میلے لگتے ہیں، مذہبی پوجا پاٹھ ہوتے ہیں، کورونا کے اس مشکل دور میں لوگوں میں امنگ تو ہے اُتساہ بھی ہے لیکن ہم سب کے من کو چھو جائے ویسا ڈسپلن بھی ہے۔ بہت ایک روپ میں دیکھا جائے تو شہریوں میں ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ لوگ اپنا دھیان رکھتے ہوئے، دوسروں کا دھیان رکھتے ہوئے اپنے روز مرہ کےکام بھی کررہے ہیں۔ ملک میں ہورہے ہر پروگرام میں جس طرح کی قوت برداشت اور سادگی اس بار دیکھی جارہی ہے وہ غیرمعمولی ہے۔ گنیش اُتسو بھی کہیں آن لائن منایا جارہا ہے تو زیادہ تر جگہوں پر اس بار ایکو فرینڈلی گنیش جی کامجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ ساتھیو، ہم بہت باریکی سے اگر دیکھیں گے تو ایک بار ضرور ہمارے ذہن میں آئے گی، ہمارے تہوار اور ماحولیات ان دونوں کے درمیان ایک بہت گہرا ناطہ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ہمارے تہواروں میں ماحولیات اور فطرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا پیغام چھپا ہوتا ہے تو دوسری جانب کئی سارے تہوار فطرت کے تحفظ کیلئے ہی منائے جاتے ہیں۔ جیسے بہار کے مغربی چمپارن میں صدیوں سے تھارو آدیواسی سماج کے لوگ 60 گھنٹے کے لاک ڈاؤن یا ان کے ہی الفاظ میں کہیں تو 60 گھنٹے کے برنا کا پالن کرتے ہیں۔ فطرت کے تحفظ کیلئے برنا کو تھارو سماج نے اپنی روایت کاحصہ بنالیا ہے اور صدیوں سے بنایا ہے۔ اس دوران نہ کوئی گاؤں میں آتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے گھروں سے باہر نکلتا ہے اور لوگ مانتے ہیں کہ اگر وہ باہر نکلے یا کوئی باہر سے آیا تو ان کے آنے جانے سے لوگوں کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے نئے پیڑ پودوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ برنا کی شروعات میں شاندار طریقے سے ہمارے آدیواسی بھائی بہن پوجاپاٹھ کرتے ہیں اور اس کے اختتام پر آدیواسی روایت کے گیت، سنگیت، رقص جم کرکے اس کے پروگرام بھی ہوتے ہیں۔
ساتھیو، ان دنوں اونم کا تہوار بھی دھوم دھام سے منایاجارہا ہے۔ یہ تہوار چن گم مہینے میں آتا ہے، اس دوران لوگ کچھ نیا خریدتے ہیں، اپنے گھروں کو سجاتے ہیں، کوک کلم بناتے ہیں، اونم – سادیہ کا لطف لیتے ہیں۔ طرح طرح کے کھیل اور مسابقے بھی ہوتے ہیں۔ اونم کی دھوم تو آج دور دراز ملکوں تک پہنچی ہوئی ہے، امریکہ ہو ، یورپ ہو یا خلیجی ملک ہوں اونم کا جشن آپ کو ہر جگہ مل جائے گا۔ اونم ایک انٹرنیشنل فیسٹول بنتا جارہا ہے۔
ساتھیو، اونم ہماری زراعت سے جڑا ہوا تہوار ہے، یہ ہماری دیہی معیشت کیلئے بھی ایک نئی شروعات کا وقت ہوتا ہے۔ کسانوں کی طاقت سے ہی تو ہماری زندگی، ہمارا سماج چلتا ہے، ہمارے تہوار کسانوں کی محنت سے ہی رنگ برنگے بنتے ہیں۔ ہمارے اَن داتا کو کسانوں کی زندگی دینے والی طاقت کو تو ویدوں میں بھی بہت فخریہ طور سے سلام کیا گیا ہے۔ رگ وید میں ایک منتر ہے۔
اَنّا نم پتائے نماہ
چھیترا نام پتائے نماہ
جس کا مطلب ہے اَن داتا کو سلام ہے ، کسان کو سلام ہے۔ ہمارے کسانوں نے کورونا کےاس مشکل حالات میں بھی اپنی طاقت کو ثابت کیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس بار خریف کی فصل کی بوائی پچھلے سال کے مقابلے سات فیصد زیادہ ہوئی ہے۔
دھان کی روپائی اس بار تقریباً 10فیصد ، دالیں لگ بھگ 5فیصد، موٹے اناج لگ بھگ 3 فیصد، تلہن لگ بھگ 13فیصد، کپاس لگ بھگ 3فیصد زیادہ بوئی گئی ہے۔ میں اس کے لئے ملک کے کسانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ان کی محنت کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوٍ! کورونا کے اس دور میں ملک کئی مورچے پر ایک ساتھ لڑرہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی بار من میں یہ بھی سوال آتا رہا کہ اتنے لمبے عرصے تک گھروں میں رہنے کے سبب میرے چھوٹے چھوٹے بچے دوستوں کا وقت کیسے گزرتا ہوگا اور اسی سے میں نے گاندھی نگر کی چلڈرن یونیورسٹی جو دنیا میں ایک الگ طرح کا پریوگ ہے۔ حکومت ہند کی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، تعلیم کی وزارت ، بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کی وزارت ان سبھی کے ساتھ ملکر ہم بچوں کیلئے کیاکرسکتے ہیں، اس پر غور وفکر کیا۔ میرے لیے یہ بہت خوش آئند تھا۔ فائدے مند بھی تھا کیوں کہ ایک طرح سے یہ میرے لیے بھی کچھ نیا جاننے کانیا سیکھنے کا موقع بن گیا۔
ساتھیو، ہمارے غور وفکر کا موضوع تھا کھلونے اور بالخصوص ہندوستانی کھلونے۔ ہم نے اس بات پر غور وفکر کیا کہ ہندوستان کے بچوں کو نئے نئے کھلونے کیسے ملے ، ہندوستان ٹوائے پروڈکشن کابہت بڑا ہب کیسے بنے، ویسے میں، من کی بات سن رہے بچوں کے ماں باپ سے معافی مانگتا ہوں کیوں کہ ہوسکتا ہے انہیں اب یہ من کی بات سننے کے بعد کھلونوں کی نئی نئی مانگ سننے کا شاید ایک نیا کام سامنے آجائیگا۔
ساتھیو، کھلونے جہاں ایکٹیویٹی کو بڑھانے والے ہوتے ہیں تو کھلونے ہماری آرزوؤں کو بھی اُڑان دیتے ہیں۔ کھلونے صرف من ہی نہیں بہلاتے،کھلونے من بناتے بھی ہیں اور مقصد گڑھتے بھی ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ کھلونوں کے معاملے میں گرو دیورابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ بہترین کھلونا وہ ہوتا ہے جو نامکمل ہو۔ ایسا کھلونا جو ادھورا ہو اور بچے مل کر کھیل کھیل میں اسے پورا کریں۔ گرو دیو ٹیگور نے کہا تھا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو خود کے تصور سے گھر میں ملنے والے سامانوں سے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے کھلونے اور کھیل بنایا کرتے تھے لیکن ایک دن بچپن کے ان موج مستی بھرے پلوں میں بڑوں کا دخل ہوگیا۔ ہوایہ تھا کہ ان کا ایک ساتھی ، ایک بڑا اور سندر سا غیرملکی کھلونا لیکر آگیا۔ کھلونے کو لیکر اتراتے ہوئے اب سب ساتھی کا دھیان کھیل سے زیادہ کھلونے پر رہ گیا۔ ہر کسی کے توجہ کا مرکز کھیل نہیں رہا،کھلونا بن گیا۔ جو بچہ کل تک سب کے ساتھ کھیلتا تھا، سب کے ساتھ رہتا تھا، گھل مل جاتا تھا، کھیل میں ڈوب جاتا تھا وہ اب دور رہنے لگا۔ ایک طرح سے باقی بچوں سے بھید کا بھاؤ اس کے من میں بیٹھ گیا۔ مہنگے کھلونے میں بنانے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا، سیکھنے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا۔ یعنی ایک جاذب نظر کھلونے نے ایک متجسس بچے کو کہیں دبا دیا، چھپادیا، مرجھا دیا۔ اس کھلونے نے دولت کا، جائیداد کا، ذرا برکپن کی نمائش کرلی لیکن اس بچے کے تخلیقی جذبے کو بڑھنے اور سنورنے سے روک دیا۔ کھلونا تو آگیا پر کھیل ختم ہوگیا اور بچے کا کھلنا بھی کھوگیا۔ اس لئے گرودیو کہتے تھے کہ کھلونے ایسے ہونے چاہئے جو بچے کے بچپن کو باہر لائے اس کی تخلیقیت کو سامنے لائے۔ بچوں کی زندگی کے الگ الگ پہلو پر کھلونوں کا جو اثر ہے اس پر قومی تعلیمی پالیسی میں بھی بہت دھیان دیا گیا ہے۔ کھیل کھیل میں سیکھنا، کھلونے بنانا سیکھنا، کھلونے جہاں بنتے ہیں وہاں کی وِزٹ کرنا، ان سب کو تعلیمی نصاب کاحصہ بنایا گیا ہے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں لوکل کھلونوں کی بہت عظیم روایت رہی ہے، کئی ہنرمند اور ماہر کاریگر ہیں جو اچھے کھلونے بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے کچھ علاقے ٹوائے کلسٹر یعنی کھلونوں کے مرکز کے طور پر بھی ترقی پارہے ہیں۔ جیسے کرناٹک کے رام نگرم میں چنّاپٹنا، آندھرا پردیش کے کرشنا میں کنڈاپلی، تملناڈو میں تنجور، آسام میں ڈھبری، اترپردیش کا وارانسی کئی ایسی جگہ ہیں، کئی نام گنا سکتے ہیں، آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ عالمی کھیلوں کی صنعت 7 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کی ہے۔ سات لاکھ کروڑ روپئے کا اتنا بڑا کاروبار لیکن ہندوستان کا حصہ اس میں بہت کم ہے۔
اب آپ سوچئے کہ جس ملک کے پاس اتنی وراثت ہو، روایت ہو، تنوع ہو، نوجوان آبادی ہو، کیا کھلونوں کے بازار میں اس کی حصے داری اتنی کم ہونی، ہمیں اچھا لگے گاکیا، جی نہیں۔ یہ سننے کے بعد آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔ دیکھئے ساتھیو، کھیلوں کی صنعت بہت وسیع ہے ۔ گھریلو صنعت ہو، چھوٹے اور بہت چھوٹی صنعت ہو، ایم ایس ایم ای ہو، اس کے ساتھ ساتھ بڑی صنعت اور نجی صنعت بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسے آگے بڑھانے کیلئے ملک کو ملکر محنت کرنی ہوگی۔ اب جیسے آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم میں سری مان سی وی راجو ہیں، ان کے گاؤں کے اے پی- کوپکا ٹوائس ایک وقت میں بہت مقبول تھے۔ ان کی خاصیت یہ تھی کہ یہ کھلونے لکڑی سے بنتے تھے اور دوسری بات یہ کہ ان کھلونوں میں آپ کو کہیں کوئی اینگل یا کون نہیں ملتا تھا۔ یہ کھلونے ہر طرف سے راؤنڈ ہوتے تھے اس لئے بچوں کو چوٹ کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ سی وی راجو نے اے پی کوپکا ٹوائس کیلئے اب اپنے گاؤں کے کاریگروں کے ساتھ ملکر ایک طرح سےنئی تحریک شروع کردی ہے۔ بہترین کوالٹی کے اے پی کوپکا ٹوائز بناکر سی وی راجو نے مقامی کھلونوں کی کھوئی ہوئی عزت کو واپس لادیا ہے۔ کھلونوں کے ساتھ ہم دو چیزیں کرسکتے ہیں۔ اپنے قابل فخر ماضی کو اپنی زندگی میں پھر سے اتار سکتے ہیں اور اپنے سنہرے مستقبل کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپ دوستوں کو اپنے نئے صنعت کاروں سے کہتاہوں، ٹیم اپ فار ٹوائز، آئیے ملکر کھلونے بنائیں۔ ہم سبھی کیلئے لوکل کھلونوں کیلئے ووکل ہونے کا وقت ہے۔ آئیے ہم اپنے نوجوانوں کیلئے کچھ نئے قسم کے اچھی کوالٹی والے کھلونے بناتے ہیں۔ کھلونا وہ ہو جس کی موجودگی میں بچپن کھلے بھی، کھلکھلائے بھی۔ ہم ایسے کھلونے بنائیں جو ماحولیات کے بھی موافق ہوں۔
ساتھیو، اسی طرح اب کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کے اس زمانے میں کمپیوٹر گیمس کا بھی بہت ٹرینڈ ہے۔ یہ گیمس بچے بھی سیکھتے ہیں، بڑے بھی کھیلتے ہیں ، لیکن ان میں بھی جتنے گیمس ہوتے ہیں ان کی تھیم بھی زیادہ تر باہر کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اتنے آئیڈیاز ہیں، اتنے تصورات ہیں، بہت مضبوط ہماری تاریخ رہی ہے۔ کیا ہم ان پر گیمس بناسکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوان ٹیلنٹ سے کہتا ہوں آپ بھارت میں بھی گیمس بنائیے اور بھارت کے بھی گیمس بنائیے۔ کہا بھی جاتا ہے لیٹ دی گیمس بیگن ، تو چلو کھیل شروع کرتے ہیں۔
ساتھیو، آتم نربھر بھارت ابھیان میں ورچوول گیمس ہوں، ٹوائز کا سیکٹر ہو، سب کو بہت اہم کردار نبھانی ہے اور یہ موقع بھی ہے۔ جب آج سے 100 برس پہلے عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی تو گاندھی جی نے لکھا تھا کہ ‘‘عدم تعاون کی تحریک ہم وطنوں میں عزت نفس اور اپنی طاقت بتلانے کی ایک کوشش ہے’’۔
آج جب ہم ملک کو آتم نربھر بنانے کی کوشش کررہے ہیں تو پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہر علاقے میں ملک کو آتم نربھر بنانا ہے۔ تحریک عدم تعاون کی شکل میں جو بیج بویا گیا تھا اب آتم نربھر بھارت کے تن آور درخت میں اضافہ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستانیوں کے انّوویشن اور سولوشن دینے کی صلاحیت کا لوہا ہر کوئی مانتا ہے اور جب مکمل جذبہ ہو، سمویدنا ہو تو یہ طاقت عظیم بن جاتی ہے۔ اس مہینے کی شروعات میں ملک کے نوجوانوں کے سامنے ایک ایپ انّوویشن چیلنج رکھا گیا۔ اس آتم نربھر بھارت ایپ انّوویشن چیلنج میں ہمارے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ قریب 7 ہزار انٹریز آئی، اس میں بھی قریب قریب دو تہائی ایپس ٹیئرٹو اور ٹیئر تھری شہروں کے نوجوانوں نے بنائے ہیں۔ یہ آتم نربھر بھارت کے لئے ملک کے مستقبل کیلئے بہت ہی خوش آئند ہیں۔ آتم نربھر ایپ انّوویشن چیلنج کے نتائج دیکھ کر آپ ضرور متاثر ہوں گے۔ کافی جانچ پرکھ کے بعد الگ الگ کٹیگری میں لگ بھگ دو درجن ایپس کو ایوارڈ بھی دیے گئے ہیں۔ آپ ضرور ان ایپس کے بارے میں جانیں اور ان سے جڑیں ہوسکتا ہے آپ بھی ایسا کچھ بنانے کیلئے حوصلہ پاجائیں۔ ان میں ایک ایپ ہے اوٹوکی، کڈس،لرننگ ایپ، یہ چھوٹے بچوں کیلئے ایسا انٹرایکٹیو ایپ ہے جس میں گانوں اور کہانیوں کے ذریعے بات بات میں ہی بچے میتھ سائنس میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس میں ایکٹیویٹیز بھی ہیں،کھیل بھی ہیں، اسی طرح ایک مائیکروبلاگنگ پلیٹ فارم کا بھی ایپ ہے جس کا نام ہے کو-کے او او کو، اس میں ہم اپنی مادری زبان میں ٹیکس ویڈیو اور آڈیو کے ذریعے اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح چنگاری ایپ بھی نوجوانوں کے درمیان کافی مقبول ہورہا ہے۔ ایک ایپ ہے آسک سرکار، اس میں چیٹ بورڈ کے ذریعے آپ انٹرایکٹ کرسکتے ہیں اور کسی بھی سرکاری یوجنا کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ بھی ٹیکس آڈیو اور ویڈیو تینوں طریقے سے یہ آپ کی بڑی مدد کرسکتا ہے۔ ایک اور ایپ ہے اسٹیپ سیٹ گو، یہ فٹنیس ایپ ہے ، آپ کتنا چلے، کتنی کیلوریز برن کی، یہ سارا حساب یہ ایپ رکھتا ہے اور آپ کو فٹ رہنے کیلئے تحریک بھی دیتا ہے۔ میں نے یہ کچھ ہی مثال دیے ہیں ، کئی اور ایپس نے بھی اس چیلنج کو جیتا ہے۔ کئی بزنس ایپس ہیں، گیمس ک ایپ ہیں جیسے اِز ایکول ٹو ،بکس اینڈ اسپینس، زوہو، ورک پلیس، ایف ٹی سی ٹیلنٹ، آپ ان کے بارے میں نیٹ پر سرچ کریئے آپ کو بہت جانکاری ملے گی۔ آپ بھی آگے آئیے، کچھ انّوویٹ کریں، کچھ ایمپلی مینٹ کریں آپ کی کوشش آج کے چھوٹے چھوٹے اسٹارٹ اپس کل بڑی بڑی کمپنیوں میں بدلیں گے اور دنیا میں بھارت کی پہچان بنیں گے اور آپ یہ مت بھولیے کہ آج جو دنیا میں بہت بڑی بڑی کمپنیاں نظرآتی ہیں نا، یہ بھی کبھی اسٹارٹ اپ ہوا کرتی تھی۔
پیارے ہم وطنو! ہمارے یہاں کے بچے ، ہمارے طلباء اپنی پوری طاقت دکھا پائیں، اپنی قوت دکھا پائیں، اس میں بہت بڑا رول نیوٹریشن کا بھی ہوتا ہے، تغذیہ کا بھی ہوتا ہے ، پورے ملک میں ستمبر مہینے کو تغذیے کا مہینہ نیوٹریشن منتھ کی شکل میں منایا جائیگا، نیشن اور نیوٹریشن کا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے ، یتھا انّم تتھا منّم، یعنی جیسی غذا ہوتی ہے ویسی ہی ہماری ذہنی اور دماغی ترقی بھی ہوتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو رحم میں اور بچپن میں جتنی اچھی غذا ملتی ہے اتنا اچھا اس کی ذہنی ترقی ہوتی ہے اور صحتمند رہتا ہے۔ بچوں کے تغذیے کےلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ماں کو بھی پوری غذا ملے اور تغذیہ یا نیوٹریشن کامطلب صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ آپ کیا کھا رہے ہیں ، کتنا کھا رہے ہیں، کتنی بار کھا رہے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ کے جسم کو کتنے ضروری غذائی اجزاء، نیوٹرینس مل رہے ہیں۔ آپ کو آئرن کیلشیم مل رہے ہیں یا نہیں،سوڈیم مل رہا ہے یا نہیں، وٹامنس مل رہے ہیں یا نہیں، یہ سب نیوٹریشن کے بہت اہم پہلو ہیں۔ نیوٹریشن کی اس مہم میں عوامی شراکت داری بھی بہت ضروری ہے۔ عوامی شراکت داری ہی اس کو کامیاب بناتی ہے۔پچھلے کچھ برسوں میں اس سمت میں ملک میں کافی کوششیں کی گئیں۔ خاص کر ہمارے گاؤں میں اسے جن بھاگیداری سے جن آندولن بنایاجارہا ہے۔ تغذیہ ہفتہ ہو، تغذیہ ماہ ہو، ان کے ذریعے سے زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کی جارہی ہے۔ اسکولوں کو جوڑا گیا ہے۔ بچوں کیلئے مقابلے ہوں، ان میں بیداری بڑھے، اس کے لئے بھی لگاتار کوشش جاری ہے۔ جیسے کلاس میں ایک کلاس مانیٹر ہوتاہے اسی طرح نیوٹریشن مانیٹر بھی ہو۔ رپورٹ کارڈ کی طرح نیوٹریشن کارڈ بھی بنے اس طرح کی بھی شروعات کی جارہی ہے۔ تغذیہ ماہ نیوٹریشن منتھ کے دوران MyGov پورٹل پر ایک فوڈ ا ور نیوٹریشن کوئز کا بھی انعقاد کیاجائیگا اور ساتھ ہی ایک میم مسابقہ بھی ہوگا، آپ خود شرکت کریں اور دوسروں کو بھی تحریک دیں۔
ساتھیو، اگر آپ کو گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اسٹیچو آف یونٹی،مجسمہ اتحاد جانے کا موقع ملا ہوگا اور کووڈ کے بعد جب وہ کھلے گا اور آپ کو جانے کا موقع ملے گا تو وہاں ایک نادر قسم کا نیوٹریشن پارک بنایا گیا ہے، کھیل کھیل میں ہی نیوٹریشن کی تعلیم لطف کے ساتھ وہاں ضرور دیکھ سکتے ہیں۔
ساتھیو، بھارت ایک عظیم ملک ہے ، کھان پان میں ڈھیر ساری تنوع ہے ، ہمارے ملک میں چھ الگ الگ موسم ہوتےہیں،الگ الگ علاقوں میں وہاں کے موسم کے لحاظ سے الگ الگ چیزیں پیداہوتی ہیں، اس لئے یہ بہت ہی اہم ہے کہ ہر علاقے کے موسم وہاں کے مقامی کھانے اور وہاں پیدا ہونے والے اناج، پھل، سبزیوں کے مطابق ایک تغذیہ سے بھرپور ڈائٹ پلان بنے۔ اب جیسے ملیٹس موٹے اناج راگی ہے، جوار ہے یہ بہت فائدے مند تغذیاتی غذا ہے۔ ایک بھارتی کرشی کوش تیار کیا جارہا ہے اس میں ہمارے ایک ضلع میں کیا کیا فصل ہوتی ہے ان کی تغذیاتی ویلو کتنی ہے اس کی پوری جانکاری ہوگی۔ یہ آپ سب کیلئے بڑے کام کا کوش ہوسکتا ہے۔ آئیے تغذیہ ماہ میں غذائیت سے بھرپور کھانے اور صحتمند رہنے کیلئے ہم سبھی کو ترغیب دیں۔
پیارے ہم وطنو، بیتے دنوں جب ہم اپنا یوم آزادی منارہے تھے تب ایک دلچسپ خبر پر میرا دھیان گیا۔ یہ خبر ہے ہمارے سیکورٹی فورسز کے دو جانباز کرداروں کی، ایک ہے سوفی اور دوسرا وِدا، سوفی اور وِدا انڈین آرمی کے ڈاگس ہیں اور انہیں چیف آف آرمی اسٹاف کمنڈیشن کارڈس سے نوازا گیا ہے۔ سوفی اور وِدا کو یہ اعزاز اسلئے ملا کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔ ہماری افواج میں ہمارے سیکورٹی فورسز کے پاس ایسے کتنے ہی بہادر ڈاگس ہیں جو ملک کے لئے جیتے ہیں اور ملک کے اپنی قربانی بھی دیتے ہیں۔ کتنے ہی بم دھماکوں کو، کتنی ہی دہشت گردانہ سازشوں کو روکنے میں ایسے ڈاگس نے بہت اہم رول نبھایا ہے۔ کچھ وقت پہلے مجھے ملک کی سیکورٹی میں ڈاگس کے رول کے بارے میں نہایت تفصیل سے جاننے کو ملا، کئی قصے بھی سنے، ایک ڈاگ بلرام نے 2006 میں امرناتھ یاترا کے راستے میں بڑی مقدار میں گولہ بارود کھوج نکالا تھا۔ 2002 میں ڈاگ بھاؤنا نے آئی ای ڈی کھوجا تھا، آئی ای ڈی نکالنے کے دوران دہشت گردوں نے دھماکہ کردیا اور ڈاگ شہید ہوگئے۔ دو تین برس پہلے چھتیس گڑھ کے بیجا پور میں سی آر پی ایف کا اسنیفر ڈاگ ‘‘کریکر’’ بھی آئی ای ڈی بلاسٹ میں شہید ہوگیا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی آپ نے شاید ٹی وی پر ایک بڑا جذباتی بنا دینے والا منظر دیکھا ہوگا جس میں بیڈ پولیس اپنے ساتھی ڈاگ راکی کو پورے اعزاز کے ساتھ آخری وداعی دے رہی تھی۔ راکی نے 300 سے زیادہ کیسوں کو سلجھانے میں پولیس کی مدد کی تھی، ڈاگس کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور رسکیو مشن میں بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ بھارت میں تو نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس این ڈی آر ایف نے ایسے درجنوں ڈاگس کو خصوصی طور پر ٹرینڈ کیا ہے۔ کہیں زلزلہ آنے پر عمارت گرنے پر ملبے میں دبے زندہ لوگوں کو کھوج نکالنے میں یہ ڈاگس بہت ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔
ساتھیو، مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ انڈین بریڈ کے ڈاگس بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، بہت اہل ہوتے ہیں ، انڈین بیڈس میں موگھول ہاؤنڈ ہیں، ہماچلی ہاؤنڈ ہیں،یہ بہت ہی اچھی نسلیں ہیں۔ راجا پلایم، کنّی چپی پرائی اور کومبائی بھی بہت شاندار انڈین بریڈس ہیں۔ ان کو پالنے میں خرچ بھی کافی کم آتا ہے اور یہ ہندوستانی ماحول میں ڈھلے بھی ہوتے ہیں۔ اب ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے انڈین بریڈس کے ڈاگس کو اپنے سیکورٹی دستے میں شامل کررہی ہیں۔ پچھلے کچھ وقت میں آرمی، سی آئی ایس ایف ، این ایس جی نے موگھول ہاؤنڈ ڈاگس کو ٹرینڈ کرکے ڈاگ اسکوارڈ میں شامل کیا ہے۔ سی آر پی ایف نے کومبائی ڈاگس کو شامل کیا ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ بھی بھارتی نسل کے ڈاگس پر ریسرچ کررہی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انڈین بریڈس کو اور بہتر بنایا جاسکے اور سودمند بنایا جاسکے۔ آپ انٹرنیٹ پر ان کے نام سرچ کریے ان کے بارے میں جانیے، آپ ان کی خوبصورتی، ان کی کوالٹیز دیکھ کر حیران ہوجائیں گے۔ اگلی بار جب بھی آپ ڈاگ پالنے کی سوچیں، آپ ضرور ان میں سے ہی کسی انڈین بریڈ کے ڈاگ کو گھر لائیں۔ آتم نربھر بھارت جب جن من کا منتر بن ہی رہا ہے تو کوئی بھی شعبہ اس سے پیچھے کیسے چھوٹ سکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ دنوں بعد 5 ستمبر کو ہم یوم اساتذہ منائیں گے، ہم سب جب اپنی زندگی کی کامیابیوں کو اپنی زندگی کے سفر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے کسی نہ کسی استاذ کی یاد ضرور آتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے وقت اور کورونا کے مشکل دور میں ہمارے اساتذہ کے سامنے بھی وقت کے ساتھ بدلاؤ کی ایک چنوتی لگتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے اساتذہ نے اس چنوتی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے موقع میں بدل بھی دیا ہے۔ پڑھائی میں تکنیک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے ہو، نئے طریقوں کو کیسے اپنائیں، طلباء کو مدد کیسے کریں، یہ ہمارے اساتذہ نے بحسن وخوبی اپنایا ہے اور اپنے طلباء کو بھی سکھایا ہے۔ آج ملک میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ انّوویشن ہورہے ہیں، استاذ اور طالب علم ملکر کچھ نیا کررہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ جس طرح ملک میں قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ایک بڑا بدلاؤ ہونے جارہا ہے ہمارے اساتذہ اس کا بھی فائدہ طلباء تک پہنچانے میں اہم رول نبھائیں گے۔
ساتھیو اور بالخصوص میرے اساتذہ ساتھیو، سال 2022 میں ہمارا ملک آزادی کے 75 سال کا جشن منائیگا، آزادی کے پہلے متعدد برسوں تک ہمارے ملک میں آزادی کی جنگ اس کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اس دوران ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں تھا جہاں آزادی کے متوالوں نے اپنی جان نچھاور نہ کی ہوں، اپناسب کچھ قربان نہ کیاہو، یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری آج کی نسل ، ہمارے طلباء آزادی کی جنگ، ہمارے ملک کے جانبازوں سے واقف رہیں، اسے اتنا ہی محسوس کریں، اپنے ضلع سے اپنے علاقے میں آزادی کی تحریک کے وقت کیا ہوا، کیسے ہوا، کون شہید ہوا، کون کتنے وقت تک ملک کے لئے جیل میں رہا، یہ باتیں ہمارے طلباء جانیں گے تو ان کی شخصیت میں بھی اس کا اثر دِکھے گا۔ اس کے لئے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جس میں ہمارے اساتذہ کی بڑی ذمہ داری ہے۔ جیسے آپ جس ضلع میں ہیں وہاں صدیوں تک جو آزادی کا جنگ چلا ان آزادیوں کے جنگ میں وہاں کوئی واقعات رونما ہوئے ہیں کیا؟ اسے لیکر طلباء سے تحقیق کروائی جاسکتی ہے۔ اسے اسکول کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نمبر کے طور پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے شہر میں آزادی کی تحریک سے جڑا کوئی جگہ ہو تو طلباء اور طالبات کو وہاں لے جاسکتے ہیں۔ کسی اسکول کے طلباء ٹھان سکتے ہیں کہ وہ آزادی کے 75برس میں اپنے علاقے کے 75مجاہدین آزادی پر نظمیں لکھیں گے، ڈرامے لکھیں گے، آپ کی کوشش ملک کے ہزاروں، لاکھوں، نامعلوم جانبازوں کو سامنے لائیں گے جو ملک کیلئے جیے، جو ملک کے لیے کھپ گئے، جن کے نام وقت کے ساتھ کھوگئے۔ ایسی اہم شخصیات کو اگر ہم سامنے لائیں گے، آزادی کے 75برس میں انہیں یاد کریں گے تو ان کو سچا خراج عقیدت ہوگا اور جب 5ستمبر کو یوم اساتذہ منارہے ہیں تب میں اپنے اساتذہ ساتھیوں سے ضرور اپیل کروں گا کہ وہ اس کے لئے ایک ماحول بنائیں ، سب کو جوڑیں اور سب مل کر جٹ جائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک آج جس ترقی کے سفر پر چل رہا ہے، اس کی کامیابی خوش آئند تبھی ہوگی جب ہرایک ملک کا شہری اس میں شامل ہو، اس سفر کا مسافر ہو، اس منزل کا راہی ہو، اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک شہری صحتمند رہے، سکھی رہے اور ہم ملکر کے کورونا سے پوری طرح سے ہرائیں۔کورونا تبھی ہارے گا جب آپ محفوظ رہیں گے، جب آپ ‘‘دو گز کی دوری، ماسک ضروری’’ اس عہد کی پوری طرح سے اتباع کریں گے۔ آپ سب صحتمند رہیے، خوش رہیے، ان ہی نیک تمناؤں کے ساتھ اگلی من کی بات میں پھر ملیں گے۔
بہت بہت شکریہ ، نمسکار۔
My dear countrymen, Namaskar. Today, is the 26th of July, a very special day…It is Kargil Vijay Diwas. It was on this very day 21 years ago, our Army unfurled the flag of victory in the battle of Kargil. Friends, India can never forget the circumstances under which the battle of Kargil took place. Pakistan had embarked upon this misadventure, nursing delusions of encroaching upon Indian soil, to distract attention from the internal strife prevailing there. India was then in the process of making efforts to foster good relations with Pakistan. But as it is said,
"बयरु अकारन सब काहू सों।
जो कर हित अनहित ताहू सों।।"
Which means, to the wicked, enmity with one and all for no reason comes naturally. People with such a disposition keep thinking of harming even their well-wishers… that is why when India extended a hand of friendship, Pakistan tried to respond, stabbing in the back. But after that, when our gallant Army displayed deeds of valour, when India demonstrated her might the whole world watched it. You can imagine….the enemy lodged in soaring mountainous heights and our armed forces, our brave soldiers fighting from down below! But it was not about victoriously conquering the heights…
It was the victory of high morale and bravery of our armed forces in the truest sense of the term. Friends, at that point of time, I too was blessed with the opportunity to go to Kargil and witness the gallantry of our Jawans. That day is one of the most precious moments of my life. I am noticing, today, people are reminiscing the Kargil Victory, throughout the country. On social media, they are saluting their brave heart heroes and paying tributes to those martyred with the #Courage in Kargil. Today, I, on behalf of all countrymen salute the brave soldiers….and along with them I also salute the brave mothers who gave rise to the real heroes, sons of Mother India. I urge the youth of the country to share stories of the heroic deeds of our brave hearts and sacrifices on part of the brave mothers, throughout the day. Friends, today I call upon you to visit, the website www.gallantryawards.gov.in positively. There, you will come across an array of information on our brave warriors and tales of their valour. And when you discuss these with your friends, they will become a source of inspiration. You must certainly visit this website... infect, I would like to insist on multiple visits. Friends, what Atal ji had said from Red Fort during the Kargil war is relevant to all of us even today. Atal ji, had then reminded the nation of a mantra of Gandhi ji. Mahatma Gandhi's mantra was...in the face of any dilemma, in order to decide what to do or what not to do, one must think of the poorest and the most helpless person of India. One must assess whether one’s deed will result in benefitting that particular person or not. Going beyond Gnadhi Ji’s thought, Atal ji had said that the Kargil war has given us another Mantra- And the Mantra was – before taking any important decision, we should think whether our step, our endeavor is befitting to the honour of the soldier who laid down his life in those remote mountains. Come, let us listen to the sentiment in the very voice of Atal ji- Let us understand it…the time too has come to accept it.
“All of us remember that Gandhi ji had given us a Mantra. He had said that in the face of any dilemma in order to decide what to do, you should think of the poorest and the most helpless person of India; ask yourself whether your deed will result in benefiting that particular person. Kargil has given us another Mantra- And the Mantra was – before taking any important decision, we should think whether our step, our endeavor is befitting to the honour of the soldier who laid down his life in those remote mountains.”
Friends in times of war, whatever we say or do has immense bearing on the morale of the soldier, ever vigilant at the border, as well as the morale of his family. We should never forget this… and that is why our conduct, our demeanour, our speech, our statements, our limits, our aims… whatever we do and say, must distinctly be conducive to enhancing the morale & honour of our soldiers. Countrymen bound by a thread of unity, with the Mantra that the Nation is above everything else bolster the strength of our soldiers much more than thousand fold. We are aware of the dictum
‘Sanghe Shakti, Kalau Yuge’; the essence of which tells us that there is strength in unity in the present era.
At times, without paying heed to the essence, we encourage certain things on Social Media that are detrimental to the country. There are times when we keep forwarding things out of sheer curiosity. Despite knowing that it is wrong, we keep doing it. These days, battles are fought not just on borders; they are fought within the country too, on many fronts simultaneously. And every countryman has to decide his or her role in that. We too should determine our roles, fully bearing in mind soldiers fighting on the borders under the harshest conditions.
My dear countrymen, over the last few months, the way the country fought against Corona unitedly, has proven many apprehensions wrong. Today, the recovery rate in our country is better compared to other countries; the mortality rate in the context of Corona in our country is much less as well, compared to most countries, of course, the loss of even one life is saddening, but India has also succeeded in saving the lives of millions of her people. But friends, the hazards of Corona are far from being over. At many places, it is spreading fast. We need to be extra vigilant. We have to bear in mind that Corona is as fatal today as it was in the beginning – that’s why we have to be fully cautions. Wearing a face mask, using a gamchcha or a light towel to cover, two yard distancing, frequently washing hands, avoiding spitting anywhere, taking full care of hygiene & sanitation- these are our weapons to protect us from Corona. There are times when masks cause inconvenience, one feels like removing them from the face- especially during a conversation. When a mask is required the most, we tend to remove it. At such times, I urge you that whenever you feel your mask is bothersome and you want to remove it, spare a thought for those doctors, those nurses; think of our Corona warriors. You will find them wearing masks for hours together, diligently working to save our lives- sometimes wearing masks for a span of eight to ten hours. Doesn’t that discomfort them? Just think about them… you too will feel that as citizens, we should not be negligent at all; nor let others be so. On the one hand, we have to fight the battle against Corona with full awareness & vigilance; on the other, whatever our responsibilities, through sheer perseverance… business, jobs or studies… we have to lend pace to it, taking it to greater heights. Friends, during the Corona times, our rural regions came up as a beacon of guidance for the entire country. Many examples of effective endeavours on part of local residents of villages & Gram Panchayats are coming to the fore. In Jammu there is a Gram Panchayat named Gram Treva. The sarpanch there is Balbir Kaur Ji. I am told that Balbir Kaur ji got a 30 bed Quarantine Centre constructed in her Panchayat. She also made arrangements for availability of water on roads leading to the Panchayat. She ensured that people did not have to face any problem in washing hands. Not just that Balbir Kaur ji, with a spray pump slung on her shoulder embarks upon sanitization of the entire Panchayat & its neighbourhood, along with volunteers. Similarly, there is a Kashmiri woman sarpanch- Zaitoona Begum ji of Chauntliwaar, Gaanderbal.
Zaitoona Begum ji decided that her Panchayat would fight the battle against Corona and along with that, create income opportunities too. She distributed free masks & free ration in the vicinity; at the same time she distributed crop seeds & apple saplings so that people were not subjected to inconvenience in farming & horticulture. Friends, there is another inspiring example from Kashmir. Shriman Mohd Iqbal is the Municipal President of Anantnag. He required a sprayer for sanitization of his area. He was informed that the machine would have to be brought from another town, that too at a cost of Six Lakh Rupees. On this, Shriman Iqbal ji, through his own efforts, designed & made a sprayer machine, and that too at a cost of Fifty Thousand Rupees. There are many similar examples. Such inspiring examples are emerging in the entire country, from all corners, everyday. All of these are worthy of accolades. Challenges did come; but people rose up to them with singular fortitude.
My dear countrymen, the correct approach, a positive approach always goes a long way in transforming distressing times into opportunities, adversities into triggers of development & progress. In the present times of Corona, we have witnessed how the youth & women of our country have come up with new experiments on the basis of their talent & skills. In Bihar, many women self help groups have begun making masks with Madhubani motifs… by and by, they turned out to be very popular. These Madhubani masks, in a way, propagate a regional tradition; besides protecting health, they also create opportunities for livelihood. You surely know of Bamboo which grows abundantly in the North East. Now, using the same Bamboo, artisans of Tripura, Manipur and Assam have started crafting high quality water bottles and Tiffin-boxes. If you glance at the craftsmanship of these bottles, you will not believe that Bamboo can be used to create such fine products. Moreover, these bottles are eco friendly. Before actually making them, the Bamboo is first boiled, adding Neem and other medicinal shrubs. Thus, these bottles also acquire medicinal value. An example from Jharkhand shows us how small local products can be hugely successful. In Bishunpur, Jharkhand, more than thirty groups are collectively cultivating lemongrass. It takes four months for lemongrass to mature and its oil fetches a decent price in the market. These days, this product is much in demand. I also wish to refer to two regions of the country- both are hundreds of kilometers apart; yet are contributing in making India self reliant in their own unique, novel ways. One is Ladakh; the other is Kutch. The mere mention of Leh-Ladakh creates images of picturesque valleys, mountain heights & whiffs of fresh air. On the other hand, reference to Kutch draws images of an unending desert with no vegetation in sight. In Ladakh, a distinct fruit called chooli or apricot also known as Khubani is grown. This produce has the capacity to transform the economy of the area. But unfortunately, vagaries of supply chains & weather are some of the formidable challenges it keeps facing. To reduce spoilage to the minimum, a new innovation has been adopted for use. This is a Dual system, called solar Apricot Dryer & space heater. This desiccates apricots, other fruits & vegetables as per requirement; that too in a hygienic manner. Earlier, when apricots used to be dried in the vicinity of farms, there would be spoilage, besides loss of quality of fruit on account of dust & rainwater. On the other side, these days, farmers of Kutch are making commendable efforts in the cultivation of Dragon fruit. Many people are perplexed when they hear Kutch & Dragon fruit together. But, today, many farmers there have taken to this activity. Many innovations are taking place for enhancing fruit quality, productivity & yield.
I have been told that the popularity of Dragon Fruits is constantly increasing, especially usage in breakfast has increased considerably. The farmers of Kutch have resolved that the country should not import Dragon Fruit and this is what self reliance is all about.
Friends, when we think of doing something new, think innovatively, then even such tasks become possible, which, in general, no one imagines, as exemplified by some youth of Bihar. Earlier they used to do routine jobs. One day, they decided to start cultivating pearls. In their area, people did not know much about this, but, this group of people, first, gathered all the requisite information, went to Jaipur and Bhubaneshwar and took training and started cultivating pearls in their village. Today, they are not just earning a lot from this activity but have also started training the migrant labourers returning from other states at Muzaffarpur, Begusarai and Patna. And for many people, this has opened the avenues to self-reliance.
Friends, a few days from now, the auspicious festival of Rakshabandhan will be celebrated. These days, I am noticing that many people and institutions are campaigning to celebrate Rakshabandhan this time in a different manner. And many people are linking the festival with Vocal for Local, and this is true too. In society, if the business of a person near our home increases on account of our festivals and thus, in turn, his festival becomes merrier, then the joy of the festival increases manifold. Many felicitations to all the countrymen on Rakshabandhan.
Friends, the 7th of August is National Handloom Day. The Handloom of India and our Handicrafts encompass a glorious history of hundreds of years. It should be an endeavour on part of all of us to use Indian Handloom and Handicrafts as much as possible, and also communicate to more and more people about them. The more the world knows about the richness and diversity of Indian handloom and handicrafts, the greater our local artisans and weavers will benefit.
Friends, especially my young friends, our country is changing. How is she changing? How fast is she changing? In what all fields is she undergoing change? If we look at it with a positive point of view, we ourselves will be astounded! There was a time, when whether in sports or other sectors, most people were either from big cities or from famous families or from well-known schools or colleges. Now, the country is changing. Our youth are coming forward from villages, from small towns and from ordinary families. New heights of success are being scaled. These people are moving forward in the midst of crises, fostering new dreams. We see something similar to this in the results of the board exams that have recently been announced. Today in this episode of Mann Ki Baat we will talk to some such talented sons and daughters. Kritika Nandal is one such talented daughter and she is from Panipat in Haryana.
Modi ji - Hello, Kritika ji Namaste |
Kritika - Namaste Sir |
Modi ji - Many congratulations to you for such a good result.
Kritika - Thank you sir.
Modi ji - And You must be tired taking so many calls on the telephone these days! So many people must be calling you!
Kritika - Yes sir.
Modi ji - And those who congratulate you must themselves also be feeling proud that they know you. How do you feel?
Kritika - Sir it feels very nice. I myself feel so proud after making parents feel honoured
Modi ji - Ok tell me who is your biggest inspiration?
Kritika - Sir, my mummy is my biggest inspiration.
Modi ji –Wah! Okay, what are you learning from your mother?
Kritika - Sir, she has faced so many difficulties in her life and yet
she is so bold and so strong, sir. Seeing her, I get so
inspired that I feel I should also become like her.
Modi ji –How educated is your mom?
Kritika - Sir, she has done her BA.
Modi ji –Ok she has done her BA!
Kritika - Yes sir.
Modi ji - Fine. So, mother must also be teaching you.
Kritika - Yes sir. She teaches me; tells me everything about the ways
of the world
Modi ji –She must also be scolding you?
Kritika–Yes Sir, she scolds me also.
Modi ji –Ok beta, what do you want to do next?
Kritika - Sir, I want to become a doctor.
Modi ji –That’s great!
Kritika– MBBS
Modi ji - Look, becoming a doctor is not an easy task!
Kritika - Yes sir.
Modi ji - You will get the degree because you are brilliant, beta;
But….’ the life of a doctor…. That is very dedicated to the
society.
Kritika - Yes sir.
Modi ji –Some nights ….. the doctor cannot sleep in peace! Sometimes it’s a call from the patient, sometimes its a call from the hospital and then one has to rush. And that is, in a way, 24x7, Three Sixty Five Days! The life of a doctor is dedicated in service of the people.
Kritika - Yes Sir.
Modi ji -And there is a risk too, because you never know nowadays, the kind of diseases that are there, a big crisis looms even in front of the doctor.
Kritika–Yes Sir,
Modi ji – Right Kritika, Haryana has always been an inspiring, encouraging state in the arena of sports in entire India!
Kritika–Yes Sir.
Modi ji - So do you participate in any sport? Do you like some sports?
Kritika - Sir, I played basketball at school.
Modi ji - Ah, what is your height, are you tall?
Kritika - No sir, I’m five feet two.
Modi ji - Well then do you like the game?
Kritika - Sir, its just passion, I just play the game
Modi ji – Good, good! Ok Kritikaji, do convey Pranaam to your mother on my behalf, she has made you able like this and has made your life worthy. Greetings to your mother and congratulations and best wishes to you.
Kritika - Thank you sir.
Come! We now go to Kerala, Ernakulam to talk to a young
man there. the youth of Kerala.
Modi ji - Hello
Vinayak - Hello Sir. Namaskar.
Modi ji - So Vinayak, congratulations!
Vinayak– Yes. Thank you sir.
Modi ji – Well done Vinayak, well done!
Vinayak– Yes. Thank you sir,
Modi ji - How is the Josh?
Vinayak – High sir
Modi ji – Do you play any sport?
Vinayak – Badminton.
Modi ji – Badminton?
Vinayak – Yes.. Yes.
Modi ji – In school ? Or did you have any chance to take a training?
Vinayak – No, in school we have already got some training
Modi ji – Hmm
Vinayak - From our teachers.
Modi ji – Hmm
Vinayak – So that we get opportunity to participate outside
Modi ji – Wow!
Vinayak – From the school itself!
Modi ji – How many states have you visited ?
Vinayak – I have visited only Kerala and Tamilnadu
Modi ji – Only Kerala and Tamilnadu?
Vinayak – Oh yes
Modi ji – So, would you like to visit Delhi ?
Vinayak – Yes Sir, now, I am applying in Delhi University for my
Higher Studies.
Modi ji – Wah, so you are coming to Delhi
Vinayak – Yes sir.
Modi ji – Tell me, do you have any message for fellow students who will give Board Exams in future
Vinayak – Hard work and proper time utilization
Modi ji – So perfect time management
Vinayak – Yes sir
Modi ji – Vinayak, I would like to know your hobbies.
Vinayak – ……… Badminton and then rowing.
Modi ji – So, you are active on social media
Vinayak – Not, we are not allowed to use any electronic items or gadgets in the school
Modi ji – So you are lucky
Vinayak – Yes Sir,
Modi ji – Well, Vinayak, congratulations again and wish you all the
best.
Vinayak – Thank you sir.
Come! let us go to Uttar Pradesh. Let us speak to Shriman Usman Saifi of Amroha in Uttar Pradesh.
Modi ji-Hello Usman, Many many congratulations, lots of congratulations to you.
Usman- thank you sir.
Modi ji- Ok Usman, tell us whether you got the results that you wanted or the results were a little less.
Usman- No, got what I wanted. My parents are also very happy.
Modi ji-Wow, ok in the family other brothers…. are also as brilliant or is it only you who is so brilliant at home?
Usman- It is just me, my brother is a little naughty.
Modi ji- yes, yes
Usman- rest he is very happy with me.
Modi ji- Good, good. Ok Usman what was your favourite subject when you were studying?
Usman – Mathematics
Modi ji- Wonderful! so what was the interest in mathematics? How
did it happen? Which teacher inspired you?
Usman- One of our subject teachers Rajat sir. He inspired me, taught me very well and my mathematics was good from the beginning….. and it is a very interesting subject too.
Modi hi – yes, yes
Usman- so the more you do, the more interested you get, so that is
why it is my favourite subject.
Modi ji- yes, yes. Do you know about online Vedic Mathematics
classes being run.
Usman- Yes sir
Modi ji- So, have you ever tried this?
Usman- No sir, not done yet
Modi ji- You try, many of your friends will feel as if you are a magician because you can calculate at the speed of a computer with Vedic mathematics. Very simple techniques and nowadays they are available online too.
Usman- Yes sir.
Modi ji- Since you are interested in Mathematics, you can contribute
many new things too.
Usman – Yes sir.
Modi ji- Ok Usman, what do you do in your spare time?
Usman- In my spare time sir, I keep writing one thing or the other. I
have a lot of interest in writing.
Modi ji- That’s great! Means you take interest in mathematics too and
literature as well.
Usman- yes sir.
Modi ji- What do you write? Write poems, write couplets?
Usman- Anything. I keep writing on any topic related to current
affairs.
Modi ji- Yes, yes
Usman- I keep getting new information like we had GST and our
demonetisation-all things.
Modi ji-That’s great! so what are you planning to do for college
education ahead.
Usman- College education? Sir, I have cleared my JEE Mains first attempt and now I will sit for second attempt in September. My main aim is that first I get a Bachelor Degree from IIT and after that go to Civil Services and become an IAS.
Modi ji- That’s great! Good, do you take interest in technology too?
Usman- Yes sir. That’s why I have opted for IT. For first time, best IIT.
Modi ji- Ok then Usman, many best wishes from my side. You must be having a good time with your naughty brother, convey my pranam to your parents. They gave you an opportunity like this, encouraged you and I liked that you study current issues and write too on them along with your studies. See, the benefit of writing is that your thinking gets sharpened. There are many benefits of writing. So, many congratulations from my side
Usman- Thank you sir.
Come! Let us again go far south. Will speak to our daughter Kaniga from Tamilnadu, Namakkal and talk with Kaniga is very inspirational.
Modi ji- Kaniga ji, Vanakkam !
Kaniga- Vanakkam sir
Modi ji – How are you
Kaniga- Fine sir
Modi ji- First of all I would like to congratulate you for your
great success.
Kaniga- Thank you sir.
Modi ji- When I hear of NamakkaI think of the Anjaneyar temple
Kaniga- Yes sir.
Modi ji -Now I will also remember my interaction with you.
Kaniga- Yes sir.
Modi ji- So, Congratulations again.
Kaniga- Thank you sir.
Modi ji- You would have worked very hard for exams, how was your experience while preparing.
Kaniga- Sir, we are working hard from the start so, I didn’t expect this
result but I have written well so I got a good result.
Modi ji- What were your expectation?
Kaniga - 485 or486 like that, I thought so
Modi ji- And now
Kaniga- 490
Modi ji- So what is the reaction of your family members & your
teachers?
Kaniga- They were so happy and they were so proud sir.
Modi ji - Which one is your favourite subject.
Kaniga- Mathematics
Modi ji- Oh! And what are your future plans?
Kaniga - I’m going to become a Doctor if possible, in AFMC sir.
Modi ji- And your family members are also in a medical profession or somewhere else?
Kaniga - No sir, my father is a driver but my sister is studying in
MBBS sir.
Modi ji- That’s great! so first of all I will do Pranaam to your father who is taking lot of care of your sister and yourself. It’s
great service he is doing.
Kaniga- Yes sir
Modi ji- And he is an inspiration for all.
Kaniga- Yes sir
Modi ji- So my congratulations to you, your sister and your father
and your family.
Kaniga- Thank you sir.
Friends, there are many other stories of such young friends whose courage and success in difficult conditions inspire us. I wanted to have as much as possible a chance to talk to young friends but time has its own limitations. I appeal to all young friends that they share with us their stories in their own voice that can inspire the country.
My dear countrymen, across the seven seas, thousands of miles away from India is a small country called “Suriname”. India has a very close relationship with ‘Suriname’. More than a hundred years ago, people from India went there, and made it their home. Today, the fourth or the fifth generation is there. Today in Suriname more than one fourth of the people are of Indian origin. Do you know? ‘Sarnami’ one of the common languages there is a dialect of Bhojpuri. We Indians feel very proud of these cultural relations.
Recently Shri Chandrika Parasad Santokhi has become the new president of Suriname. He is a friend of India and he had participated in the Person of Indian Origin (PIO) Parliamentary Conference organised in 2018. Shri Chandrika Prasad Santokhi ji started his oath with Veda hymns; he spoke in Sanskrit. He referred to vedas and concluded his oath with “Om Shanti: Shanti: Shanti:”. Holding the veda in his hand he said- I, Chandrika Prasad Santokhi, and, further what did he say in his oath? He recited a hymn from Veda itself. He said-
ॐ अग्ने व्रतपते व्रतं चरिष्यामि तच्छकेयम तन्मे राध्यताम |
इदमहमनृतात सत्यमुपैमि ||
That is, hey Agni, fire, God of resolve, I am taking an oath. Give me strength and capability for this. Bless me so that I keep away from untruth and move towards truth. Truly, this, for all of us, is a matter of pride.
I congratulate Shri Chandrika Prasad Santokhi, and, wish him the best on behalf of 130 crore Indians, for serving his nation.
My dear countrymen, it is also the season of rains. Last time too, I had said that the risk of diseases arising out of filth increases during this period. Consequently, it leads to overcrowding in hospitals. I urge you to pay special attention to cleanliness around you and keep taking immunity enhancers such as Ayurvedic kadha. During the times of Corona pandemic, it is imperative that we protect ourselves against other diseases. We will have to take complete care so that we do not have to frequent hospitals.
Friends, during this rainy season, there is a large part of the country that is grappling with floods. Many areas of states like Bihar and Assam are having to deal with a series of difficulties due to floods. On the one hand, we have Corona and on the other we have this challenge. In such a scenario, all Governments, NDRF teams, Disaster response teams, Self help groups are working in tandem to provide relief and rescue in all possible ways. The whole country stands by those affected by this disaster.
Friends, before we meet in the next Mann Ki Baat, 15th August would have already arrived. This time, our 15th August celebrations too will be in very different circumstances - in the midst of the Corona Virus pandemic.
I urge the youth, the people of my country to take a pledge of freedom from the pandemic this Independence day. Take a resolve for a Self reliant India, a resolve to learn and teach something new and a resolve to earnestly carry out our duties.
The glorious height attained by our country is only due to the Tapasya, the perseverance of many an illustrious soul who dedicated an entire life towards nation building.
One such luminary is Lokmanya Tilak. 1st August 2020 will mark the death centenary of Lokmanya Tilak ji. The life of Lokmanya Tilak ji is a source of immense inspiration for all of us; one which teaches us a lot.
The next time we meet, we will once again touch upon myriad things, learn something new together and share it with each other. I urge all of you to take care of yourself and your families and stay healthy. My best wishes to all the countrymen on the forthcoming festivals.
Many Many Thanks.
میرےپیارےہموطنو،نمسکار۔ ‘منکیبات’ نےاببرس 2020 میںاپناآدھاسفرمکملکرلیاہے۔ اسدوران،ہمنےبہتسارےموضوعاتکےبارےمیںباتکی۔یہفطریباتہےکہانسانینسلپرآنےوالےبحرانپرہماریگفتگوبہتزیادہرہی،لیکن،اندنوںمیںدیکھرہاہوں،لوگوںمیںمسلسلایکموضوعپرباتہورہیہے،کہیہسالکبگزرےگا ۔کوئیکسیکوفونبھیکررہاہے،توباتچیتاسیموضوعسےشروعہورہیہے،کہآخریہسالجلدنہیںگزررہاہے،کوئیلکھرہاہے،دوستوںسےگفتگوکرتےہوئے،یہکہتےہوئےکہ،یہسالاچھانہیںہے،کوئیکہہرہاہےکہ 2020 اچھاسالنہیںہے،بسچاہتےہیںکہلوگکسیبھیصورتیہسالجلدازجلدگزرجائے۔
دوستو،کبھیکبھیمجھےحیرتہوتیہےکہایساکیوںہورہاہے،اسطرحکیگفتگوکیکچھوجوہاتہوسکتیہیں۔ چھساتمہینےپہلے،یہہمیںکہاںمعلومتھا،کوروناجیسابحرانآجائےگااوریہلڑائیاتنےعرصےتکجاریرہےگی،یہبحراناببھیباقیہے،ملکمیںنئےچیلنجزآرہےہیں۔ ابھیکچھہیدنپہلے،ملککےمشرقیحصہپرطوفانامفانپہنچا،تب،طوفاننسارگمغربیسرےپرآیا۔ ٹڈیکےحملےسےہمارےکسانبھائیاوربہنیںکتنیریاستوںمیںپریشانہیں،اورکچھنہیںتوبہتسارے،ملککےحصوںمیںچھوٹےزلزلےرکنےکانامنہیںلےرہےہیںاورانسبکےبیچیہملکانچیلنجوںسےبھینمٹرہاہےجوہمارےکچھہمسایہممالککررہےہیں۔ واقعتااسطرحکییہآفاتایکساتھبہتکمہیدیکھنےکوملتیہیں۔ صورتحالایسیبنگئیہےکہ،یہاںتککہاگرکوئیچھوٹاساواقعہپیشآرہاہو،تولوگاسےانچیلنجوںسےجوڑکردیکھرہےہیں۔
دوستو،مشکلاتآتیہیں،بحرانآتےہیں،لیکنسوالیہہےکہکیاہمیںانآفاتکیوجہسےسال 2020 کوبراسمجھناچاہئے؟کیایہپچھلے 6 مہینوںکیوجہسےہے،کیونکہ،یہفرضکرلیناکہیہساراسالایساہیہے،کیایہسوچنادرستہے؟نہیں،میرےپیارےہموطنو – بالکلنہیں۔ ایکسالمیںایکچیلنجآئےیاپچاسچیلنجآئیں،تعدادکمیازیادہہوجانےسےوہسالخرابنہیںہوجاتاہے۔ ہندوستانکیتاریخآفاتاورچیلنجوںپرفتححاصلکرکےاوراسسےزیادہنکھرکرنکلنےرہیہے،سینکڑوںسالوںتک،مختلفحملہآوروںنےہندوستانپرحملہکیا،اسےبحرانمیںڈالدیا،لوگوںکاخیالتھاکہہندوستانکاڈھانچہتباہہوجائےگا،ہندوستانکیثقافتختمہوجائےگی،لیکن،انبحرانوںسےابھرکرہندستاناوربھیمضبوطہوکرسامنےآیاہے۔
دوستو،ہمارےیہاںیہکہاجاتاہے،سجنشاوستہے،سجننرنترہے
مجھےایکگاناکیکچھلائنیںیادآرہیہیں۔
یہکلکلچھلچھلبہتی،کیاکہتیگنگادھارا؟
یگیگسےبہتاآتا،یہپونیہپرواہمارا
اسیگیتمیںآگےآتاہے
کیااسکوروکسکیںگے،مٹنےوالےمٹجائیں
کنکرپتھرکیہستی،کیابادھابنکرآئے
یہاںتککہہندوستانمیں،جہاںایکطرف،بہتبڑےبحرانپیداہوئے،اسیوقتبہتساریرکاوٹیںپیداہوئیں،تمامرکاوٹیںدورکردیگئیں۔ نیاادبتخلیقہوا،نئیتحقیقکیگئی،نئےنظریےتخلیقہوئے،یعنیبحرانکےدورانبھی۔ ،ہرشعبےمیں،تخلیقکاعملجاریرہااورہماریثقافتپروانچڑھتیرہی،ملکآگےبڑھتارہا،ہندوستاننےہمیشہبحرانوںکوکامیابیکےمراحلمیںتبدیلکیاہے۔ اسیجذبےکےساتھ،ہمیںانتمامبحرانوںکےدرمیانآگےبڑھتےرہناہے،آپبھیاسخیالکےساتھآگےبڑھیںگے، 130 کروڑعوامآگےبڑھیںگے،تب،یہسالملککےلئےایکنیاریکارڈثابتہوگا۔ | اسیسالمیں،ملکنئےمقاصدحاصلکرےگا،نئیمنزلیںطےکرےگا،نئیبلندیوںکوچھوئےگا۔میںپورےاعتمادکےساتھ،اسملککیعظیمروایتپر،آپسبھی، 130 کروڑعوامکیطاقتپربھروسہکرتاہوں۔
میرےپیارےہموطنو،بحرانچاہےجتنابھیبڑاہو،ہندستانکیثقافتاوراقداربےلوثخدمتکیترغیبدیتیہیں۔ آججسطرحہندوستاننےمشکلوقتمیںدنیاکیمددکی،اسنےامناورترقیمیںہندوستانکےکردارکومستحکمکیاہے۔ دنیانےاسعرصےکےدورانہندوستانکیعالمیبرادریکےجذباتکوبھیمحسوسکیاہے،اوراسکےساتھہی،دنیانےہندوستانکیطاقتاوراپنیخودمختاریاورسرحدوںکےتحفظکےلئےبھارتکےعزمکوبھیدیکھاہے۔ لداخمیںہندوستانکیسرزمینپر،آنکھاٹھاکردیکھنےوالوںکوکڑاجوابملاہے۔ ہندوستانجسطرحدوستیبرقراررکھناجانتاہےاسیطرحوہآنکھوںمیںآنکھیںڈالکرمناسبجوابدینابھیجانتاہے۔ ہمارےبہادرفوجیوںنےیہدکھادیاہےکہ،وہکبھیبھیوطنعزیزکیعظمتپرآنچنہیںآنےدیںگے۔
دوستو،پوریقوماپنےبہادرفوجیوںکیبہادریکوخراجعقیدتپیشکررہیہےجولداخمیںشہیدہوئےہیں،پوراملکانکاشکرگزارہے،انکےسامنےانکاسرفخرسےبلندہے۔ انساتھیوںکےاہلخانہکیطرح،ہرہندوستانیبھیانکوکھونےکادرداٹھارہاہے۔ اپنےبہادربیٹوںاوربیٹوںکیقربانیپرانکےاہلخانہمیںفخرکااحساس،وہجذبہجوملککےلئےہے,یہملککیطاقتہے۔ آپنےدیکھاہوگاکہوہوالدین،جنکےبیٹےشہیدہوئےتھے،اپنےدوسرےبیٹوںکوبھی،گھرکےدوسرےبچوںکوبھیفوجمیںبھیجنےکیباتکررہےہیں۔ بہارسےتعلقرکھنےوالےشہیدکندنکمارکےوالدکےالفاظانکےکانوںمیںگونجرہےہیں۔ وہکہہرہےتھے،میںاپنےپوتےپوتیوںکوملککیحفاظتکےلئےفوجمیںبھیجوںگا۔ یہشہیدوںکےاہلخانہکیہمتہے۔ درحقیقت،انکےلواحقینکیقربانیقابلاحترامہے۔ ہمیںزندگیکامقصدبھیبناناہے،ہرہندوستانیکواپنیسرزمیںہندستانکےتحفظکےلئےیکساںعزمکرناہوگا۔ اسسمتمیںہرممکنکوششکیجانیچاہئے،تاکہسرحدوںکےتحفظکےلئےملککیطاقتمیںاضافہہو،ملککومزیدمضبوطبنایاجاسکے،تاکہملکخودکفیلہوجائے۔ یہبھیہمارےشہیدوںکوسچیخراجعقیدتہوگی۔ آسامسےتعلقرکھنےوالےرجنیجینےمجھکوخطلکھاہے،انہوںنےمشرقیلداخمیںپیشآنےوالےواقعاتکودیکھنےکےبعد،ایکعہدکیاہےکہوہصرفمقامیچیزیںخریدیںگے،نہصرفمقامیلوگوںکےلئےوہآوازاٹھاسکیںگے۔ اسطرحکےپیغاماتملککےکونےکونےسےآرہےہیں۔ بہتسارےلوگمجھےخطلکھرہےہیںکہمجھےیہکہتےہوئےکہوہاسطرفبڑھگئےہیں۔ اسیطرحتملناڈوکےمدورائیسےتعلقرکھنےوالےموہنرامامورتینےلکھاہےکہ،وہدفاعیمیدانمیںہندوستانکوخودکفیلہوتادیکھناچاہتےہیں۔
دوستو،آزادیسےپہلے،ہماراملکدفاعیشعبےمیںبہتسےممالکسےآگےتھا۔ ہمارےیہاںمتعددآرڈیننسفیکٹریاںتھیں۔ اسوقت،بہتسےممالک،جوہمسےبہتپیچھےتھے،آجہمسےآگےہیں۔ آزادیکےبعد،ہمدفاعیشعبےمیںجوکوششیںکرنیچاہئےتھیاسسےفائدہنہیںاٹھاسکتے،ہمیںاپنےپرانےتجرباتسےفائدہاٹھاناچاہئےتھا۔ لیکن،آج،دفاعیشعبےمیں،ٹکنالوجیکےمیدانمیں،ہندوستانمستقلطورپرآگےبڑھنےکیکوششکررہاہے،ہندوستانخودکفالتکیطرفگامزنہے۔
دوستو،کوئیبھیمشن،عوامیشراکتکےبغیرمکملنہیںہوسکتا،کامیابنہیںہوسکتاہے،لہذا،بحیثیتایکشہریکے،ہندوستانکوترقیکیسمتمیںآگےلےجانےکےلئےہمسبکاعزم،لگناورتعاونبہتضروریہے۔ | آپلوکلخریدیںگے،لوکلکےلئےووکلہوںگے،توسمجھئے،آپملککومضبوطبنانےمیںاپناکرداراداکررہےہیں۔ یہبھیایکطرحسےملککیخدمتہے۔ چاہےآپکسیبھیپیشےمیںہوں،ہرجگہ،خدمتکیگنجائشبہتہے۔ ملککیضرورتکااحساسکرتےہوئے،جوبھیکامہوتاہے،وہملککیخدمتہے۔ آپکیخدمتسےملککوایکطرحسےتقویتملتیہے،اور،ہمیںیہیادرکھناہوگا – ہماراملکجتنامضبوطہوگا،دنیامیںامنکےامکاناتاتنےہیمضبوطہوںگےہمارےیہاںکہاجاتاہے۔
ودیاودیاوےدھننمیتاے،شکتیپریشاپریپیڈنے |
خالصیاسادھو: وپریتماییت،گیانئےدانےچےرکشنائے
یعنی،اگرکوئیفطرتکےلحاظسےبراہے،تووہشخصتنازعہمیںعلم،پیسہکااستعمالغرورکرنے،اوردوسروںکوتکلیفپہنچانےکیطاقتکااستعمالکرتاہے۔ لیکن،ایکشریفآدمیکاتعلیم،علمکیمدد , پیسہمددکےلئےاورطاقتحفاظتکےلئےاستعمالہوتاہے۔ ہندوستاننےاپنیطاقتکوہمیشہاسیجذبےکےساتھاستعمالکیاہے۔ ہندوستانکاعزمیہہےکہہندوستانکیعزتنفساورخودمختاریکاتحفظکریں۔ ہندوستانکاہدفہے – خودپرمنحصرہندوستان۔ ہندوستانکیروایتہے – اعتماد،دوستی۔ ہندوستانکیروحہے – برادری،ہماننظریاتکےساتھآگےبڑھتےرہیںگے۔
میرےپیارےہموطنو،کروناکےبحرانکےدوران،ملکلاکڈاؤنسےباہرآگیاہے۔ ابہمانلاککےدورمیںہیں۔ آنلاکہونےکےاسدورمیں،دوچیزوںپربہتزیادہتوجہدیجارہیہیں ۔ دوستو،لاکڈاؤنکےبجائےانلاککےدورانہمیںزیادہمحتاطرہناچاہئے۔ آپکامحتاطہوناآپکوکوروناسےبچائےگا۔ ہمیشہیادرکھیںکہاگرآپماسکنہیںپہنیںگے،دوگزکیدوریبرقرارنہیںرکھیںگے،یادیگرضروریاحتیاطیتدابیراختیارنہیںکرتے،توآپخودکواوردوسروںکوبھیخطرہمیںڈالرہےہیں۔ خاصطورپر،گھرکےبچوںاوربزرگوںکو۔ اسیلئےمیںتمامملکسےدرخواستکرتاہوںاورمیںبارباریہدرخواستکرتاہوںاورمیریگذارشہےکہآپبےپرواہنہہوں،اپناخیالرکھیں،اوردوسروںکابھی۔
دوستو،آنلاکہونےکےدورمیں،ایسیبہتسیچیزوںکوکھولاجارہاہےجسمیںہندوستانکئیدہائیوںسےبندھاہواتھا۔ کئیسالوںسےہماراکانکنیکاشعبہلاکڈاؤنمیںتھا۔ تجارتینیلامیکیمنظوریکےفیصلےنےصورتحالکویکسربدلدیاہے۔ کچھدنپہلےخلائیشعبےمیںتاریخیاصلاحاتکیگئیں۔ اناصلاحاتکےذریعہ،اسشعبےکو،جوبرسوںسےلاکڈاؤنمیںبندتھا،کوآزادیملی۔ اسسےنہصرفخودانحصاریکیہندوستانکیمہمکوفروغملےگا،بلکہیہملکٹیکنالوجیمیںبھیترقیکرےگا۔ اگرآپاپنےزرعیشعبےکودیکھیںتواسشعبےمیںبہتساریچیزیںکئیدہائیوںسےلاکڈاؤنمیںپھنسگئیں۔ اسشعبےکوبھیآنلاککردیاگیاہے۔ اسسےکسانوںکواپنیفصلکہیںبھیبیچنےکیآزادیملگئیہے،ایکطرف،دوسریطرفانہیںزیادہقرضملنابھییقینیہوگیاہے،بہتسارےشعبےایسےہیںجہاںہماراملک،انتمامبحرانوںکےدرمیان،تاریخیفیصلےکرنا،ترقیکینئیراہیںکھولرہاہے۔
میرےپیارےہوطنو! ہرمہینےہمایسیخبریںپڑھتےاوردیکھتےہیںجوہمیںجذباتیبناتیہیں۔ یہہمیںیاددلاتاہے،کہکسطرح،ہرہندوستانیایکدوسرےکیمددکرنےکےلئےتیارہے،وہجوبھیکرسکتاہےکرنےمیںمصروفہے۔
اروناچلپردیشکیایسیہیایکمتاثرکنکہانی،مجھےمیڈیامیںپڑھنےکوملی۔ یہاں،ضلعسیانگکےمیریمگاؤںنےوہایکانوکھاکامکیاہے،جوپورےہندوستانکےلئےایکمثالبنگیاہے۔ اسگاؤںکےبہتسےلوگباہررہکرنوکریاںکرتےہیں۔ دیہاتیوںنےدیکھاکہکوروناکیوباکےدوران،وہسباپنےاپنےگاؤںلوٹرہےتھے۔ ایسیصورتحالمیں،دیہاتیوںنےپہلےہیگاؤںکےباہرکورنٹائنبندوبستکرنےکافیصلہکیاتھا۔ انہوںنےایکساتھملکرگاؤںسےکچھفاصلےپر، 14 عارضیجھونپڑیاںبنائیںاورفیصلہکیاکہجبگاؤںوالےواپسآئیںگےتوانہیںانجھونپڑوںمیںکچھدنکورنٹائنرکھاجائےگا۔ انجھونپڑیوںمیںروزانہکیہرطرحکیضروریاتفراہمکیگئیں،جنمیںبیتالخلا،بجلیاورپانیشاملہیں۔ ظاہرہے،اسمشترکہکوششاورمیرمگاؤںکےلوگوںکیبیدارینےسبکیتوجہاپنیطرفمبذولکرلی۔
دوستو،ہمارےیہاںکہاجاتاہے،
سمبھونہجاہتایو،سادھواپدترتوپیسن
کرپور،پاوکسپشٹی،سورنبھلبھتترم
یعنی،جیسےکافورآگمیںجلنےکےبعدبھیاپنیخوشبونہیںچھوڑتا،ویسےہیاچھےلوگبحرانمیںاپنیخصوصیات،اپنےاچھےبرتاؤکوترکنہیںکرتےہیں۔ آجہمارےملککیمزدورقوماسکیزندہمثالہیں۔ آپنےدیکھاکہاندنوںہمارےمہاجرمزدوروںکیبہتساریکہانیاںہیںجوپورےملککوترغیبدےرہیہیں۔ اترپردیشمیںبارہبانکیگاؤںواپسآنےوالےمزدوروںنےدریائےکلیانیکیفطریشکللوٹانےکےلئےکامشروعکیا۔ دریاکیصفائیستھرائیدیکھکرآسپاسکےکسان،آسپاسکےلوگبھیپرجوشہیں۔ گاؤںآنےکےبعد،الگتھلگمرکزمیں،کورنٹائنمرکزمیںرہتےہوئے،ہمارےمزدورساتھیوںنےاپنےآسپاسکےحالاتکوتبدیلکرنےکےلئےاپنیصلاحیتوںکوجسطرحاستعمالکیاہےوہحیرتانگیزہے،لیکن،دوستو،ایسےکتنیہیکہانیاںاورقصےملککےلاکھوںدیہاتکیہیں،جوہمتکنہیںپہنچیہیں۔
میرےدوستو،جیساکہہمارےملککینوعیتہےمجھےیقینہےکہ،آپکےگاؤںمیںبھی،آپکےآسپاسبھیایسےبہتسےواقعاترونماہوئےہوںگے۔ اگرایسیکوئیباتآپکےدھیانمیںآئیہےتوآپکولازمیطورپرمجھےایساہیمتاثرکنواقعہلکھناچاہئے۔ بحرانکےاسوقتمیں،یہمثبتواقعات،یہکہانیاںدوسروںکوترغیبدیتیہیں۔
میرے پیارےہموطنو، کورونا وائرس نے یقینا ہماری طرز زندگی کو تبدیل کردیا ہے۔ میں نے لندن سے شائع ہونے والے فنانشل ٹائمز کا ایک بہت ہی دلچسپ مضمون پڑھ رہا تھا۔ یہ لکھا گیا تھا کہ ، کورونا کے دور میں ، ایشیا کے علاوہ امریکہ میں بھی ادرک ، ہلدی سمیت دیگر مصالحوں کیمانگمیں اضافہ ہوا ہے۔ پوری دنیا کی توجہ اس وقت اپنیقوت مدافعت (امیونٹی) بڑھانے پر ہے ، اورقوت مدافعت ٰ کو بڑھانے والی یہ چیزیں ہمارے ملک سے وابستہ ہیں۔ ہمیں دنیا کے لوگوں کو ایسی آسان اور آسان زبان میں ان کی خصوصیات کے بارے میں بتانا چاہئے ، تاکہ وہ آسانی سے سمجھ سکیں اور ہم ایک صحت مند سیارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
میرے پیارےہم وطنو، کورونا جیسا بحران نہ ہوتا ، اس لئے شاید ، زندگی کیا ہے ، زندگی کیوں ہے ، زندگی کیسی ہے ، ہمیں یاد نہیں ہوتا ، شاید یہ بہت سارے لوگ ، اسی وجہ سے ، ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔ لہذا ، دوسری طرف ، لوگوں نے مجھ سے یہ بھی بتایا ہے کہ ، کس طرح ، لاک ڈاؤن کے دوران ، خوشی کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤں – جنہوں نے زندگی میں دوبارہ دریافت کیا۔ بہت سارے لوگوں نے مجھے روایتیان ڈور کھیل کھیلنے اور پورے کنبے کے ساتھ لطف اندوز ہونے کے تجربات بھیجے ہیں۔
دوستو ، ہمارے ملک میں روایتی کھیلوں کا بہت مالا مال ورثہ ہے۔ جیسے ، آپ نے کسی کھیل کا نام سنا ہو گا – پاسیسی۔ یہ کھیل تمل ناڈو میں “پلنگولی” ، کرناٹک میں “الی گلی مانے” اور آندھرا پردیش میں “ومن گنٹلو” کے طور پر کھیلا جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی کا ایک کھیل ہے ، جس میں ایک بورڈ استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ، بہت سے کھانچے ہوتےہیں ، جن میں کھلاڑیوں کو گولی یا بیجکو پکڑناپڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کھیل جنوبی ہندوستان سے جنوب مشرقی ایشیاء اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔
دوستو ، آج ہر بچہ سانپ اور سیڑھی کے کھیل کے بارے میں جانتا ہے۔ لیکن ، کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک ہندوستانی روایتی کھیل کی بھی شکل ہے ، جسے موکشا پٹام یا پیرپدم کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک اور روایتی کھیل ہے۔ گوٹا۔بڑےبھی گٹٹے کھیلتے ہیں اور بچوں کو بھی۔ آسانی سے ایک ہی سائز کے پانچ چھوٹے پتھر اٹھائیں اور آپ گٹگے کو کھیلنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک پتھر کو ہوا میںاچھالیںاور جب وہ پتھر ہوا میں ہو ، آپ کو باقی پتھر زمین میں سے اٹھانا ہوں گے۔ عام طور پر یہاں انڈور گیمز میں کسی بڑے ٹولز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ کوئی چاک یا پتھر لاتا ہے ، اس سے کچھ لائنیں کھینچتا ہے اور پھر کھیل شروع ہوتا ہے۔ کھیلوں میں جس میںڈائسکی ضرورت ہوتی ہے ، یہکوڑیوںیا املی کے بیج کے ساتھ بھی کام کرسکتا ہے۔
دوستو ، مجھے معلوم ہے ، آج ، جب میں اس کے بارے میں بات کر رہا ہوں ، کتنے ہی لوگ اپنے بچپن میں لوٹ آئے ہوں گے ، کتنے لوگوں نے اپنے بچپن کے دن یاد رکھے ہیں۔ میں کہوں گا کہ تم ان دنوں کو کیوں بھول گئے ہو؟ تم وہ کھیل کیوں بھول گئے؟ میری گھر کے دادا دادی ، نانا ، نانا ، بزرگوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ اس نسل کو نئی نسل میںتبدیل نہیں کریں گے تو کون کرے گا! جب آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو ، ہمیں یہ توازن برقرار رکھنے کےلیے اور آن لائن کھیلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک نیا موقع ہے ، اور ہمارے آغاز کےلئے، ایک مضبوط موقع ، یہاں تک کہ ہماری نوجوان نسل کے لئے۔ آئیے ، ہندوستان کے روایتی انڈور گیمز کو ایک نئی اور پرکشش شکل میں پیش کریں۔ متحرک افراد ، سپلائی کر نے والے ، اسٹارٹ اپ بہت مشہور ہوجائیں گے ، اور ، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ، ہمارے ہندوستانی کھیل بھی مقامی ہیں ، اور ہم نے پہلے ہی مقامی لوگوں کے لئے آواز اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔ ، اور ، میرے بچوں جیسے دوست ، ہر گھر کے بچوں ، یہاں تک کہ اپنے چھوٹے دوستوں سے ، آج ، میں ایک خصوصی درخواست کرتا ہوں۔ بچوں ، کیا آپ میری درخواست قبول کریں گے؟ دیکھو ، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میں جو کہوں اس پر عمل کرو ، ایک کام کرو – جب آپ کے پاس تھوڑا وقت ہو تو ، اپنے والدین سے پوچھیں اور موبائل اور اپنے دادا ، نانا ، دادی یا گھر میں جو بھی ہو اسے اٹھاؤ۔ ان کا انٹرویو ریکارڈ کریں ، اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کریں۔ جس طرح آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا ، کیا آپ صحافیوں کو انٹرویو نہیں دیتے ، بالکل وہی انٹرویو دیتے ہیں ، اور آپ ان کے ساتھ کیا کریں گے؟ میں تجویز کرتا ہوں آپ ان سے پوچھیں ، بچپن میں ان کی زندگ کیسے گزری تھی ، وہ کیا کھیل کھیلتے تھے ، کبھی وہ ڈرامے دیکھنے جاتے تھے ، سنیما جاتے تھے ، کبھی چھٹیوں پر ماموں کے گھر جاتے تھے ، کبھی فارم میں جاتے تھے ، تم تہواروں کو کس طرح سمجھتے ہو ، بہت سی چیزیں جو تم ان سے پوچھ سکتے ہو ، وہ بھی ، آپ کی زندگی میں ، 40-50 سال ، 60 سال ، بہت خوشی دیں گے اور 40-50 سال پہلے ہندوستان آپ کے لئے کیسا تھا؟ ، آپ کہاں رہتے تھے ، علاقہ کیسا تھا ، کیمپس کیسے تھا ، لوگوں کے طریقے کیا تھے – سب کچھ ، بہت آسانی سے ، آپ کو سیکھنے کو مل جائے گا ، جاننے کا موقع ملے گا ، اور ، آپ بھی ، بہت ہی ، دیکھیں گے۔ یہ تفریحی ہوگا ، اور ، کنبہ کے لئے ایک بہت ہی انمول خزانہ ، ایک اچھا ویڈیو البم بھی بن جائے گا۔
دوستو ، یہ سچ ہے۔ تاریخ کی سچائی کے قریب جانے کے لئے خودنوشت یا سوانح حیات ، ایک نہایت مفید ذریعہ ہے۔ آپ بھی اپنے بڑوں سے بات کریں گے ، تب آپ ان کے وقت ، ان کے بچپن ، جوانی کی باتوں کو سمجھ سکیں گے۔ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ بزرگ اپنے بچپن کے بارے میں ، اس عرصے کے بارے میں ، اپنے گھر کے بچوں کو بھی بتا ئیں۔
دوستو ، ملک کا ایک بہت بڑا حصہمیں ، اب مانسون پہنچ چکا ہے۔ اس بار موسمیات کے ماہرین بھی بڑی امید کا اظہار کرتے ہوئے بارش کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔ اگر بارش اچھی رہی تو ہمارے کسانوں کی فصلیں اچھی ہوں گی ، ماحول بھی سبز ہوگا۔ بارش کے موسم میں ، فطرت بھی اپنے آپ کو نو جوان کرتی ہے۔ جیسے جیسے انسان بارش کے دوران قدرتی وسائل ، فطرت کا ایک طرح سے استحصال کرتا ہے ، انہیں بھرتا اور بھرتا ہے۔ لیکن ، یہ ریفلنگ تب ہی ہوسکتی ہے جب ہم بھی اپنی ماں اور ماں کی مدد کریں تو ، اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ ہماری طرف سے ایک چھوٹی سی کوشش ، فطرت ، ماحول ، اور بہت مدد ملتی ہے۔ ہمارے بہت سارے شہری اس میں بہت بڑے کام کر رہے ہیں۔
کامی گوڈا | منڈاوالی ، کرناٹک ، میں ایک 80-85 سال پرانا ہے کامگوڑا جی ایک عام کسان ہیں ، لیکن ان کی شخصیت بہت ہی غیرمعمولی ہے۔ اس نے ایسا کام کیا ہے کہ کسی کو حیرت نہیں ہوگی۔ کامیگوڑا جی ، جو 80-85 سال پرانے ہیں ، اپنے جانور چراتے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے علاقے میں نئے تالاب بنانے کے لئے بھی پیش قدمی کی ہے۔ وہ اپنے علاقے میں پانی کے مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں ، لہذا ، پانی کے تحفظ کے کام میں ، وہ چھوٹے تالابوں کی تعمیر کے کام میں مصروف ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ 80-85 سالہ کامیگوڑا جی ، اپنی محنت اور محنت کے ذریعہ اب تک 16 تالاب کھود چکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان تالابوں کو جو انہوں نے تعمیر کیا ہے ، وہ بہت بڑے نہیں ہیں ، لیکن ، ان کی کوششیں بہت بڑی ہیں۔ آج ان تالابوں سے پورے علاقے کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔
دوستو ، گجرات میں وڈوڈرا بھی اس کی ایک مثال ہے۔ یہاں ، ضلعی انتظامیہ اور مقامی لوگوں نے مل کر ایک دلچسپ مہم چلائی۔ اس مہم کی وجہ سے ، وڈوڈرا میں ، ایک ہزار اسکولوں میں بارش کے پانی کو بچانے کی مہمشروع ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ، اس کی وجہ سے ، ہر سال ، اوسطا تقریبا 100، 100 ملین لیٹر پانی کو بہتے ہوئے فضلے سے بچایا جارہا ہے۔
دوستو ، فطرت کے تحفظ کے لئے ، اس بارش میں ماحولیات کی حفاظت کےلئے، ہمیں بھی کچھ ایسا ہی سوچنے اور کرنے کا اقدام کرنا چاہئے۔ بہت ساری جگہوں کی طرح ، گنیش چتروتیکیبھی تیاریوں کا آغاز ہونا ہے۔ اس بار ، ہم ماحول دوست گنیشے کے مجسمے بنانے اور ان کی پوجا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ایسے بتوں کی پوجا سے بچ سکتے ہیں ، جو دریا تالاب میں ڈوبنے کے بعد پانی ، جانوروں اور پانی میں رہنے والے جانوروں کے لئے بحران نہ بن جاتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ آپ یہ کریں گے ، اور ان سب چیزوں کے بیچ ، ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ مانسون کے موسم میں بھی بہت سی بیماریاں ہوتی ہیں۔ کرونا دور میں ، ہمیں ان سے بھی بچنا ہے۔ آیورویدک دوائیں ، کاڑھ ، گرم پانی ، ان کا استعمال کرتے رہیں ، صحت مند رہیں۔
میرے پیارے ہموطنو ، آج 28 جون کو ، ہندوستان اپنے ایک سابق وزیر اعظم کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے ، جس نے ایک نازک مرحلے میں ملک کی قیادت کی۔ آج ہمارے وزیر اعظم جناب پی وی نرسمہا راؤ کے یوم پیدائش کے سو سالہ سال کا دن ہے۔ جب ہم پی وی نرسمہا راؤ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ، ایک سیاست دان کی حیثیت سے ان کی شبیہ فطری طور پر ہمارے سامنے ابھرتی ہے ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ بہت سی زبانیں جانتے تھے۔ ہندوستانی اور غیر ملکی زبانیں بولتے تھے۔ وہ ایک طرف ہندوستانی اقدار میں آباد تھا اور دوسری طرف اسے مغربی ادب اور سائنس کا بھی علم تھا۔ وہ ہندوستان کے تجربہ کار قائدین میں سے ایک تھے۔ لیکن ، اس کی زندگی کا ایک اور پہلو بھی ہے ، اور وہ قابل ذکر ہے ، ہمیں بھی جان لینا چاہئے۔ دوستو ، نرسمہا راؤ جی نوعمری میں ہی تحریک آزادی میں شامل ہوئے تھے۔ جب حیدرآباد کے نظام نے وندے ماترم کو گانا کرنے کی اجازت سے انکار کر دیا تو ، اس نے بھی ان کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اس وقت ، اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔ چھوٹی عمر ہی سے ، مسٹر نرسمہا راؤ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے میں آگے تھے۔ اس نے آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نرسمہا راؤ بھی تاریخ کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایک بہت ہی سادہ پس منظر سے اس کا عروج ، تعلیم پر اس کا زور ، اس کے سیکھنے کا رجحان ، اور اس سب کے ساتھ ، ان کی قائدانہ صلاحیت – سب کچھ یادگار ہے۔ میری درخواست ہے کہ ، نرسمہا راؤ کے یوم پیدائش کے سالگرہ میں ، آپ سب ، ان کی زندگی اور افکار کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں۔ میں ان کو ایک بار پھر عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار من کی بات میں ، بہت سارے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اگلی بار جب ہم ملیں گے تو ، کچھ اور نئے موضوعات پر تبادلہ خیال ہوگا۔ آپ ، اپنے پیغامات ، اپنے جدید نظریات مجھے بھیجتے رہیں۔ ہم سب مل کر آگے بڑھیں گے ، اور آنے والے دن زیادہ مثبت ہوں گے ، جیسا کہ ، میں نے آج کے آغاز میں کہا تھا ، ہم اس سال یعنی 2020 میں بہتر کام کریں گے ، ہم آگے بڑھیں گے اور ملک بھی نئی بلندیوں کو چھو لے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس دہائی میں 2020 ہندستان کے لئے ایک نئی سمت دینے والا سال ثابت ہوگا۔ اس اعتماد کے ساتھ ، آپ کو بھی آگے بڑھنا چاہئے ، صحتمند رہنا چاہئے ، مثبت رہنا چاہئے۔ ان خواہشات کے ساتھ ، آپ کا بہت بہت شکریہ۔
شکریہ ۔
نئیدہلی یکم جون 2020۔ من کی بات 2.0 کے بارہویں ایپی سوڈ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم جناب نریند ر مودی نے کہا کہ ملک میں کرونا کے خلاف نبرد آزمائی اجتماعی کوششوں کے ذریعہ کی جارہی ہے ۔ انہوں نے عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ وہ کووڈ -19 وبائی مرض کے درمیان زیادہ خبردرا اورچوکس رہیں ۔ اگرچہ معیشت کا ایک بڑا حصہ اب معمول کے مطابق مصروف عمل بنادیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ شرمک اسپیشل ریل گاڑیوں او ر خصوصی ریل گاڑیوں سمیت ریل خدمات بحال کردی گئی ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ وافر حفط ماتقدم پر مبنی اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرواز کی خدمات بھی بحال کردی گئی ہیں اور صنعت بھی آہستہ آہستہ معمول کے مطابق صورتحال کے مطابق لوٹ رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کے کیا کہ کسی طرح کی لاپرواہی نہیں برتی جانی چاہئے اور عوام الناس کو دو گز کی دوری بنائے رکھنی چاہئے اور چہرے پرماسک پہننا چاہئے او ر جہاں تک ممکن ہوسکے گھر پر ہی قیام کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس قدر پریشانی اٹھانے کے بعد ملک نے صورتحال کو جس طرح سنبھالا ہے وہ عمل بے کار نہیں جانا چاہئے ۔
وزیراعظم نے کہا کہ خدمات کے معاملے میں ہمارے عوام نے جس قدر جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ لائق ستائش ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی قوت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیوا پرمودھرما کے اصول کے قائل ہیں اور خدمت بذات خود مسرت کا باعث ہوتی ہے اور اپنے آپ میں ایک طرح کی تسلی ہے ۔ ملک بھر کی طبی خدمت سے وابستہ عملے کی ستائش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ڈاکٹروں ، نرسنگ عملے ،صفائی ستھرائی کارکنان ، پولس کے عملے او ر میڈ یا کے نمائندگان کی ستائش کی ۔ انہوں نے ا س بحران کے دوران خواتین سیل ہیلپ گروپوں کے قابل ذکر تعاون کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے تمل ناڈو کے کے سی موہن اور اگرتلہ کے گوتم داس ، پٹھان کوٹ کے دویانگ راجو کا بھی ذکر کیا جنہوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اس بحرانی وقت میں دوسروں کی مد د کی ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کے ذریعہ انجام دی گئی ملک بھر میں مختلف النوع خدمات کی داستانیں بھی عام ہورہی ہیں ۔ انہوں نےکہا کہ کورناوائرس نے سمام کے تمام طبقات کو متاثر کیا ہے تاہم ہر طرح کی مراعات سے محروم مزدور طبقہ اور کارکنان سب سے زیاد ہ متاثر ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مرکز ،ریاستی حکومتیں اور ادارے اورمحکمے اپنے اپنے طور پر راحت کاری میں مصروف ہیں ۔ پورے ملک کو اس بات کا احساس ہے کہ ہم کس دورسے گزر رہے ہیں۔ اورمرکز سے لے کرریاستیں اور مقامی بلدیاتی ادارے 24 گھنٹے مصروف عمل ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ کورونا وبائی مرض کے دوران ہر جگہ عوام الناس یوگ اور آیوروید کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا اوراسے انداز حیات کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! نمسکار،
آپ سب لاک ڈاؤن میں اس ‘من کی بات ’ کو سن رہے ہیں، اس ‘من کی بات’ کی کے لئے آنے والی تجاویز ، فون کال کی تعداد عام طور سے موصول ہونےو الی تجاویز اور فون کال سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کئی سارے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے آپ کی یہ من کی باتیں مجھ تک پہنچی ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھ پاؤں، سن پاؤں ، آپ کی باتوں سے کئی ایسے پہلو جاننے کو ملے ہیں جن پر اس گہما گہمی میں دھیان ہی نہیں جاتا ہے۔ میرا من کرتا ہے کہ جنگ کے درمیان ہورہی اس ‘من کی بات’ میں ان ہی سب پہلوؤ ں کو آپ سبھی ہم وطنوں کے ساتھ بانٹوں۔
ساتھیو، ہندوستان کی کورونا کے خلاف لڑائی صحیح معنی میں پیپُل ڈرائیوین ہے۔ ہندوستان میں کورونا کے خلاف لڑائی عوام لڑرہی ہے، آپ لڑرہے ہیں، عوام کے ساتھ ملکر حکومت انتظامیہ لڑرہی ہے۔ ہندوستان جیسا وسیع ملک جو ترقی کیلئے عہد بند ہے۔ غریبی سے فیصلہ کن لڑائی لڑرہا ہے۔ اس کے پاس کورونا سے لڑنے اور جیتنے کا یہی ایک طریقہ ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ آج پورا ملک ، ملک کا ہر ایک شہری ، ہر فرد اس لڑائی کا سپاہی ہے، لڑائی کی قیادت کررہا ہے۔ آپ کہیں بھی نظر ڈالیے آپ کو احساس ہوجائیگا کہ ہندوستان کی لڑائی پیپُل ڈرائیوین ہے۔ جب پوری دنیا اس وبا کے بحران سے جوجھ رہی ہے ، مستقبل میں جب اس کی چرچا ہوگی ، اس کے طور طریقے کی چرچا ہوگی ، مجھے یقین ہے کہ بھارت کی یہ پیپُل ڈرائیوین لڑائی ، اس کی ضرور چرچا ہوگی۔ پورے ملک میں گلی محلے میں جگہ جگہ پر آج لوگ ایک دوسرے کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں۔ غریبوں کیلئے کھانے سے لے کر راشن کا بندوبست ہو، لاک ڈاؤن کا پالن ہو، اسپتال کا بندوبست ہو، طبی آلات کی ملک میں ہی تعمیر ہو۔ آج پورا ملک ایک ہدف ، ایک سمت، ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ تالی، تھالی، دیا، موم بتی ، ان ساری چیزوں نے جن جذبات کو جنم دیا ، جس جذبے سے ہم وطنوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھان لی۔ ہر کسی کو ان باتوں نے تحریک دیا۔ شہر ہو یا گاؤں ایسا لگ رہا ہے جیسے ملک میں ایک بہت بڑا مہایگیہ چل رہا ہے جس میں ہر کوئی اپنا تعاون دینے کیلئے پُرجوش ہے۔ ہمارے کسان بھائی بہنوں کو ہی دیکھئے ۔ ایک طرف وہ اس وبا کے درمیان اپنے کھیتوں میں دن رات محنت کررہے ہیں اور اس بات کی بھی فکر کررہے ہیں کہ ملک میں کوئی بھی بھوکا نہ سوئے، ہر کوئی اپنے اپنی طاقت کے حساب سے اس لڑائی کو لڑرہا ہے۔ کوئی کرایا معاف کررہا ہے تو کوئی اپنی پوری پنشن یا انعا م میں ملی رقم کو پی ایم کیئرس میں جمع کرا رہا ہے۔ کوئی کھیت کی ساری سبزیاں عطیہ دے رہا ہے تو کوئی ہر روز سینکڑوں غریبوں کو مفت کھانا کھلا رہا ہے، کوئی ماسک بنارہا ہے ، کہیں ہمارے مزدور بھائی بہن کوارنٹائن میں رہتے ہوئے جس اسکول میں رہ رہے ہیں اس کی رنگائی پوتائی کررہے ہیں۔
ساتھیو، دوسروں کی مدد کیلئے آپ کے اندر دل کے کسی کو نے میں جو یہ امنڈتا جذبہ ہے نا وہی ، وہی کورونا کے خلاف ہندوستان کی لڑائی کو طاقت دے رہا ہے۔ وہی اس لڑائی کو سچے معنی میں پیپُل ڈرائیوین بنارہا ہے او ر ہم نے دیکھا ہے پچھلے کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں یہ مزاج بنا ہے ، لگاتار مضبوط ہوتار ہا ہے، چاہے کروڑوں لوگوں کا گیس سبسیڈی چھوڑنا ہو، لاکھوں بزرگوں کا ریلوے سبسیڈی چھوڑنا ہو، سوچھ بھارت ابھیان کی قیادت کرنی ہو، بیت الخلا بنانے ہوں۔ ان گنت باتیں ایسی ہیں ان ساری باتوں سے پتہ چلتا ہے ہم سب کو ایک من ایک مضبوط دھاگے سے پرو دیا ہے۔ ایک ہوکر ملک کیلئے کچھ کرنے کی تحریک دی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، میں نہایت ادب ، بہت ہی احترام کے ساتھ آج 130 کروڑ ہم وطنوں کے اس جذبے کو سر جھکا کر سلام کرتاہوں۔ آپ اپنے جذبے کے مطابق ملک کے لئے اپنی دلچسپی کے حساب سے اپنے وقت کے مطابق کچھ کرسکیں اس کے لئے حکومت نے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی تیار کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم ہے ۔covidwarriors.gov.in ۔ میں دوبارہ بولتا ہوں، covidwarriors.gov.in حکومت نے اس پلیٹ فارم کے توسط سے تمام سماجی اداروں کے رضاکار ، سول سوسائٹی کے نمائندے اور مقامی انتظامیہ کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ بہت ہی کم وقت میں اس پورٹل سے سوا کروڑ لوگ جڑ چکے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ، نرسوں سے لیکر ہماری آشا ، اے این ایم بہنیں ، ہمارے این سی سی ، این ایس ایس کے ساتھی الگ الگ شعبے کے تمام پیشہ ور افراد ، انہوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنا پلیٹ فارم بنالیا ہے، یہ لوگ مقامی سطح پر بحران کے بندوبست سے متعلق منصوبہ بنانے والوں میں اور اس کے حصول میں بھی بہت مدد کررہے ہیں، آپ بھی covidwarriors.gov.in سے جڑ کر ملک کی خدمت کرسکتے ہیں، کووڈ واریئر س بن سکتے ہیں۔
ساتھیو، ہر مشکل حالات ،ہڑ لڑائی کچھ کچھ سبق دیتی ہے، کچھ نہ کچھ سکھا کر جاتی ہے ، سیکھ دیتی ہے ،کچھ امکانات کے راستے بناتی ہے اور کچھ نئی منزلوں کی سمت بھی دیتی ہے۔ اس حالات میں آپ سب ہم وطنوں نے جو عہد طاقت دکھائی ہے اس سے بھارت میں ایک نئے بدلاؤ کی شروعات بھی ہوئی ہے۔ ہمار ے بزنس ، ہمارے دفتر، ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا میڈیکل سیکٹر، ہر کوئی تیزی سے نئے تکنیکی بدلاؤ کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے محاذ پر تو واقعی ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کا ہر ایک اختراع کار نئے حالات کے مطابق کچھ نہ کچھ نیا تیار کررہا ہے۔
ساتھیو، ملک جب ایک ٹیم بن کر کام کرتا ہے تب کیا کچھ ہوتا ہے یہ ہم تجربہ کررہے ہیں۔آج مرکزی سرکار ہو ، ریاستی سرکار ہو ان کا ہر ایک شعبہ اور ادارہ راحت کیلئے مل جل کر پوری تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ ہماری ہوابازی سیکٹر میں کام کررہے لوگ ہوں ، ریلوے ملازمین ہوں، یہ دن رات محنت کررہے ہیں تاکہ ملک کے شہریوں کو کم سے کم پریشانی ہو، آپ میں سے شاید بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ملک کے ہر ایک حصے میں دوائیوں کو پہنچانے کیلئے لائف لائن اڑان نام سے ایک خصوصی ابھیان چل رہا ہے ، ہمارے ان ساتھیوں نے اتنے کم وقت میں ملک کے اندر ہی تین لاکھ کلو میٹر کی فضائی اڑان بھری ہے اور 500 ٹن سے زیادہ طبی ساز وسامان ملک کے کونے کونے میں آپ تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح ریلوے کے ساتھی لاک ڈاؤن میں بھی لگاتار محنت کررہے ہیں تاکہ ملک کے عام شہریوں کو ضروری اشیاء کی کمی نہ ہو۔ اس کام کیلئے بھارتی ریلوے قریب قریب 60 سے زیادہ ریل راستے پر 100 سے بھی زیادہ پارسل ٹرین چلا رہی ہے۔ اسی طرح دواؤں کی سپلائی میں ہمارے ڈاک محکمے کے لوگ بہت اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ ہمارے یہ سبھی ساتھی حقیقی معنی میں کورونا کے واریئر ہی ہیں۔
ساتھیو، ‘پردھان منتری غریب کلیان پیکیج’ کے تحت غریبوں کےاکاؤنٹ میں پیسے سیدھے ٹرانسفر کیے جارہے ہیں، بزرگوں کیلئے پنشن جاری کی گئی ہے، غریبوں کو تین مہینے کے مفت گیس سیلنڈر راشن جیسی سہولتیں بھی دی جارہی ہیں۔ ان سب کاموں میں حکومت کے الگ الگ محکموں کے لوگ بینکنگ سیکٹر کے لوگ ایک ٹیم کی طرح دن رات کام کررہے ہیں اور میں اپنے ملک کی ریاستی سرکاروں کی بھی اس بات کیلئے تعریف کروں گا کہ وہ اس وبا سے نمٹنے کیلئے بہت سرگرم کردار ادا کررہی ہیں۔ مقامی انتظامیہ ، ریاستی سرکاریں، جو ذمہ داری نبھا رہی ہیں اس کا کورونا کے خلاف لڑائی میں بہت بڑا کردار ہے، ان کی یہ کوشش بیحد قابل تعریف ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک بھر میں صحت خدمات سے جڑے لوگوں نے ابھی حال ہی میں جو آرڈیننس لایا گیا ہے اس پر اپنے اطمینان کااظہا ر کرچکے ہیں۔ اس آرڈیننس میں کورونا واریئرس کے ساتھ تشدد اور انہیں کسی بھی طرح سے چوٹ پہنچانے والے لوگوں کےخلاف بیحد سخت سزا تجویز کی گئی ہے، ہمارے ڈاکٹر ، نرسیز ، طبی عملہ، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور ایسے سبھی لوگ جو ملک کو کورونا سے پاک بنانے میں دن رات مصروف ہوئے ہیں ان کی حفاظت کرنے کیلئے یہ قدم بہت ضروری تھا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب تجربہ کررہے ہیں کہ وبا کے خلاف اس لڑائی کے دوران ہمیں اپنی زندگی کو، سماج کو، ہمارے آس پاس رونما ہورہے واقعات کو ایک تازہ نظریے سے دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے، سماج کے نظریے میں بھی مثبت بدلا ؤ آیا ہے، آج اپنی زندگی سے جڑے ہر شخص کی اہمیت کا ہمیں احساس ہورہا ہے ،ہمارے گھروں میں کام کرنے والے لوگ ہوں ، ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے کام کرنے والے ، ہمارے عام کام کرنے والے ہوں، پڑوس کی دوکانوں میں کام کرنے والے لوگ ہوں، ان سب کا کتنا بڑا رول ہے ہمیں یہ تجربہ ہورہا ہے۔ اسی طرح ضروری خدمات کی ڈیلیوری کرنے والےلوگ، منڈیوں میں کام کرنے والے ہمارے مزدور بھائی بہن، ہمارے آس پڑوس کے آٹو ڈرائیور، رکشا چلانے والے ۔ آج ہم تجربہ کررہے ہیں کہ ان سب کے بغیر ہماری زندگی کتنی مشکل ہوسکتی ہے۔
آج کل سوشل میڈیا میں ہم سب لوگ لگاتار دیکھ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نہ صرف اپنے ساتھیوں کو یاد کررہے ہیں ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھ رہے ہیں بلکہ ان کے بارے میں بہت عزت اور احترام سے لکھ بھی رہے ہیں۔ آج ملک ہر ایک کونے سے ایسی تصویریں آرہی ہیں کہ لوگ صفائی کرمچاریوں پر پھول برسا رہے ہیں، پہلے ان کے کام کو آپ بھی کبھی نوٹس نہیں کرتے تھے ، ڈاکٹر ہوں، صفائی کرمچاری ہوں، دیگر خدمات انجام دینے والے لوگ ہوں۔ اتنا ہی نہیں ہماری پولیس انتظامیہ کو لیکر بھی عام لوگوں کی سوچ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے پولیس کے بارے میں سوچتے ہی منفی سو چ کے سوا انہیں کچھ نظر نہیں آتا تھا ، ہمارے پولیس کارکنان آج غریبوں، ضرورتمندوں کو کھانا پہنچا رہے ہیں ، دوا پہنچا رہے ہیں، جس طرح سے ہر مدد کیلئے پولیس سامنے آرہی ہے اس سے پولیسنگ کا انسانی اور رحم دلی کا جذبہ ہمارے سامنے اُبھر کر آیا ہے ، ہمارے من کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ہمارے دل کو چھو لیا ہے، ایک ایسا موقع ہے جس میں عام لوگ پولیس کے ساتھ جذباتی طریقے سے جڑ رہے ہیں ، ہمارے پولیس اہلکاروں نے اسے عوام کی خدمت کے ایک موقع کے طو ر پر لیا ہے اور مجھے پورا یقین ہے ان واقعات سے آنے والے وقت میں صحیح معنی میں بہت ہی مثبت بدلاؤ آسکتا ہے اور ہم سب کو اس مثبت سوچ کو کبھی بھی منفی سوچ کے رنگ سے رنگنا نہیں ہے۔
ساتھیو، ہم اکثرسنتے ہیں ۔ پرکرتی ، ویکرتی اور سنسکرتی ان الفاظ کو ایک ساتھ دیکھیں اور اس کے پیچھے کے جذبے کو دیکھیں تو آپ کو زندگی کو سمجھنے کا بھی ایک نیا راستہ کھلتاہوا دِکھے گا، اگر انسانی پرکرتی کی چرچا کریں تو ‘یہ میرا ہے’ ، ‘میں اس کا استعمال کرتاہوں’، اس کو اور اس جذبے کو بہت فطری مانا جاتا ہے، کسی کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، اسے ہم ‘پرکرتی’ کہہ سکتے ہیں، لیکن ‘ جو میرا نہیں ہے’، ‘جس پر میرا حق نہیں ہے’ اسے میں دوسرے سے چھین لیتا ہوں، اسے چھین کر استعمال میں لاتا ہوں، تب ہم اسے ‘وِیکرتی’ کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں سے پرے پرکرتی او ر ویکرتی سے اوپر جب کوئی سنسکارت ۔ من سوچتا ہے یا سلوک کرتا ہے تو ہمیں ‘سنسکرتی’ نظر آتی ہے ۔ جب کوئی اپنے حق کی چیز ، اپنے محنت سے کمائی چیز اپنے لئے ضروری چیز کم ہو یا زیادہ اس کی پرواہ کیے بنا کسی شخص کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے خود کی فکر چھوڑ کر اپنے حق کےحصے کو بانٹ کرکے کسی دوسرے کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ وہی تو ‘سنسکرتی’ ہے۔ ساتھیو، جب کسوٹی کا دور ہوتا ہے تب ان اوصاف کاامتحان ہوتا ہے۔
آپ نے پچھلے دنوں دیکھا ہوگا کہ ہندوستان نے اپنے سنسکاروں کے مطابق ،ہماری سوچ کے مطابق، ہماری سنسکرتی کا استعمال کرتے ہوئے کچھ فیصلے لیے ہیں ، بحران کی اس گھڑی میں دنیا کے لئے بھی ، طاقتور ملکوں کیلئے بھی دوائیوں کا بحران بہت زیادہ رہاہے، ایک ایسا وقت ہے کہ اگر ہندوستان دنیا کو دوائیاں نہ بھی دے تو ہندوستان کو قصوروار نہیں مانتا ،ہر ملک سمجھ رہاہے کہ ہندوستان کیلئے بھی اس کی ترجیح اپنے شہریوں کی زندگی بچانا ہے لیکن ساتھیو، ہندوستان نے پرکرتی ، ویکرتی کی سوچ سے اوپر ہوکر فیصلہ لیا ، ہندوستان نے اپنی سنسکرتی کے مطابق فیصلہ لیا ،ہم نے بھارت کی ضرورتوں کیلئے جو کرنا تھا اس کی کوشش کو تو بڑھایا ہی لیکن دنیا بھر سے آرہی انسانیت کی حفاظت کی پُکار پر بھی پورا پورا دھیان دیا۔ ہم نے دنیا کے ہر ضرورتمند تک دوائیوں کو پہنچانے کابیڑااٹھایا اور انسانیت کے اس کام کو کرکے دکھایا، آج جب میری متعدد ممالک کے رہنماؤں سے فون پر بات ہوتی ہے تو وہ ہندوستان کے عوا م کا احسان ضرور مانتے ہیں، جب وہ لوگ کہتے ہیں تھینک یو انڈیا، تھینک یو پیپل آف انڈیا ، تو ملک کیلئے فخر اور بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اس وقت دنیا بھر میں ہندوستان کے آیوروید اوریوگ کی اہمیت کو بھی لوگ بڑے اہم جذبے سے دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دیکھئے ، ہر طرف قوت مدافعت بڑھانے کیلئے کس طرح سے بھارت کے آیوروید اور یوگا کی چرچا ہورہی ہے۔ کورونا کے نقطہ نظر سے آیوش کی وزارت نے امیونیٹی (قوت مدافعت) بڑھانے کیلئے جو پروٹوکول دیا تھا مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ اس کااستعمال ضرور کررہے ہوں گے۔ گرم پانی ، کاڑھا اور جو دیگر رہنما خطوط آیوش کی وزارت نے جاری کیے ہیں وہ آپ اپنے روز مرہ میں شامل کریں گے تو آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، ویسے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ کئی بار ہم اپنے ہی طاقتوں اور مضبوط روایت کو پہچاننے سے انکار کردیتےہیں لیکن جب دنیا کاکوئی دوسرا ملک شواہد پر مبنی تحقیق کی بنیاد پر وہی بات کرتا ہے ، ہمارا ہی فارمولہ ہمیں سکھاتا ہے ، تو ہم اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ممکن ہے اس کے پیچھے ایک بہت بڑا سبب ۔ سینکڑوں برسوں کی ہماری غلامی کا دور رہا ہے اس وجہ سے کبھی کبھی ہمیں اپنی ہی طاقت پر یقین نہیں ہوتا ہے ،ہماری خود اعتمادی کم نظر آتی ہے، اس لئے ہم اپنے ملک کی اچھی باتوں کو اپنے روایتی اصولوں کوشواہد پر مبنی تحقیق کی بنیاد پر آگے بڑھانے کے بجائے اسے چھوڑ دیتے ہیں، اسے کم تر سمجھنے لگتے ہیں، ہندوستان کی نوجوان نسل کو اب اس چنوتی کو تسلیم کرنا ہو گا ، جیسے دنیا بھر نے یوگا کو تسلیم کیا ہے ویسے ہی ہزاروں برس پرانے ہمار ے آیوروید کے اصولوں کے طریقوں کو بھی دنیا ضرور تسلیم کرے گی۔ ہاں، اس کے لئے نوجوان نسل کو عہد کرنا ہوگا اور دنیا جس زبان میں سمجھتی ہے اس سائنسی زبان میں ہمیں سمجھانا ہوگا ، کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔
ساتھیو، ویسے کووڈ-19 کے سبب کئی مثبت بدلاؤ ، ہمارے کام کرنے کے طریقے، ہماری طرز زندگی اور ہماری عادتو ں میں بھی فطری طور سے اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ آپ سب نے بھی محسوس کیا ہوگا اس بحران نے کیسے الگ الگ موضوعات پر ہماری سوچ اور سمجھ کو بیدار کیا ہے جو اثر ہمیں اپنے آس پاس دیکھنے کو مل رہے ہیں ان میں سب سے پہلا ہے ماسک پہننا اور اپنے چہرے کو ڈھک کر رکھنا، کورونا کی وجہ سے بدلتے ہوئے حالات میں ماسک بھی ہماری زندگی کاحصہ بن رہا ہے۔ ویسے میں اس کی بھی عادت کبھی نہیں رہی کہ ہمارے آس پاس کے بہت سارے لوگ ماسک میں دکھیں لیکن اب ہویہی رہا ہے ۔ ہاں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو ماسک لگاتے ہیں وہ سبھی بیمار ہیں اور جب میں ماسک کی بات کرتا ہوں تو مجھے پرانی بات یاد آتی ہے، آپ سب کو بھی یاد ہوگا ، ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک کے کئی ایسے علاقے ہوتے تھے کہ وہاں اگر کوئی شہری پھل خریدتا ہوا دکھائی دیتا تھا تو آس پڑوس کےلوگ اس کو ضرور پوچھتے تھے ۔ کیا گھر میں کوئی بیمار ہے؟ یعنی پھل ۔ مطلب بیماری میں ہی کھایا جاتا ہے۔ ایسی ایک سوچ بنی ہوئی تھی ، حالانکہ وقت بدلااور یہ سوچ بھی بدلی، ویسے ہی ماسک کو لیکر بھی سوچ اب بدلنے والی ہے، آپ دیکھئے گا ماسک جب مہذب سماج کا عکاس بن جائے گا ، اگر بیماری سے خود کو بچانا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے، تو آپ کو ماسک لگانا پڑے گا اور میرا تو معمولی مشورہ رہتا ہے ۔ گمچھا ، منہ ڈھکنا ہے۔
ساتھیو، ہمارے سماج میں ایک اور بڑی بیداری یہ آئی ہے کہ آپ سبھی لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عوامی مقامات پر تھوکنے کے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں ، یہاں وہاں ، کہیں پر بھی تھوک دینا غلط عادتوں کاحصہ بناہوا تھا، یہ سوچھتا اور صحت کو سنگین چیلنج بھی دیتا تھا، ویسے ایک طرح سے دیکھیں تو ہم ہمیشہ سے ہی اس مسئلے کو جانتے رہے ہیں، لیکن یہ مسئلہ سماج سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جب وہ وقت آگیا ہے کہ اس بری عادت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے ، کہتے بھی ہیں کہ“better late than never”۔ تو دیر بھلے ہی ہوگئی ہو لیکن اب یہ تھوکنے کی عادت چھوڑ دینی چاہئے، یہ باتیں جہاں بنیادی صفائی ستھرائی کی سطح بڑھائیں گی وہیں کورونا انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے میں بھی مدد کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ حسین اتفاق ہی ہے کہ آج جب آپ سے میں من کی بات کررہا ہوں تو اکچھیہ –ترتیہ کا مقدس تیوہار بھی ہے۔ساتھیو، ‘چھیہ’ کا مطلب ہوتا ہے برباد ی لیکن جو کبھی برباد نہیں ہو ہو ‘اکچھیہ، ہے اپنے گھروں میں ہم سب اس تیوہار کو ہر سال مناتے ہیں، لیکن اس سال ہمارے لیے اس کی خصوصی اہمیت ہے۔آج کے مشکل وقت میں یہ ایک ایسا دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری آتما ، ہماری بھاؤنا‘اکچھیہ’ ہے ، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ چاہے کتنی بھی مشکلات راستہ روکے ، چاہے کتنی بھی مصیبتیں آئیں، چاہے کتنی بھی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے ، ان سے لڑنے او ر جوجھنے کی انسانی جذبے ’اکچھیہ’ ہے۔ مانا جاتا ہے کہ یہی وہ دن ہے جس دن بھگوان شری کرشن اور بھگوان سوریہ دیو کے آشیرواد سے پانڈووں کو ‘اکچھیہ پاتر ’ملا تھا ،اکچھیہ پاتر یعنی ایک ایسا برتن جس میں کھانا کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ان داتا کسان ہر حالات میں ملک کے لئے ، ہم سب کیلئے اسی جذبے سے محنت کرتے ہیں، انہیں کی محنت سے آج ہم سب کیلئے ،غریبوں کیلئے، ملک کے پاس اکچھیہ اناج کا بھنڈار ہے۔ اس اکچھیہ ترتیہ پر ہمیں ماحولات، جنگل ، ندیوں اور پورے ماحولی نظام کے تحفظ کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جو ہماری زندگی میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ اگر ہم ‘اکچھیہ’ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری دھرتی اکچھیہ رہے ۔
کیاآپ جانتے ہیں کہ اکچھیہ ترتیہ کا یہ تیوہار دان کی شکتی، یعنی پاور آف گیونگ کا بھی ایک موقع ہوتا ہے۔ ہم دلی جذبے سے جو کچھ بھی دیتے ہیں حقیقت میں اہمیت اسی کی ہوتی ہے۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم کیا دیتے ہیں اور کتنا دیتے ہیں، مشکل کے اس دور میں ہماری چھوٹی سی کوشش ہمارے آس پاس کے بہت سے لوگوں کیلئے بہت بڑا نمونہ بن سکتا ہے۔ ساتھیو، جین روایت میں بھی یہ بہت مقدس دن ہے کیوں کہ پہلے تیرتھ کر بھگوان رشی بھدیو کی زندگی کا یہ ایک اہم دن رہا ہے۔ ایسے میں جین سماج اسے ایک تیوہار کی شکل میں مناتا ہے اور اس لئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ کیوں اس دن کو لوگ کسی بھی نیک کام کو شروع کرنا پسند کرتے ہیں چونکہ آج کچھ نیا شروع کرنے کا دن ہے تو ایسے میں کیا ہم سب ملکر اپنی کوششوں سے اپنی دھرتی کو اکچھیہ اور اویناشی بنانے کا عہد کرسکتے ہیں۔ ساتھیو، آج بھگوان بسویشور جی کی بھی جینتی ہے یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بھگوان بسویشورکی مورتیاں اور ان کے پیغامات سے بار بار جڑنے کا ، سیکھے کا موقع ملا ہے، ملک اور دنیا میں بھگوان بسویشور کے سبھی ماننے والوں کو ان کے یوم پیدائش پر بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو، رمضان کا بھی مقدس مہینہ شروع ہوچکا ہے، جب پچھلی بار رمضان منایا گیا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس بار رمضان میں اتنی بڑی مصیبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لیکن اب جب پوری دنیا میں یہ مصیبت آہی گئی ہے تو ہمارے سامنے موقع ہے اس رمضان کو خود ، آپسی بھائی چارہ، خدمت کےجذبے کا عکاس بنائیں۔ اس بار ہم پہلے سے زیادہ عبادت کریں تاکہ عید آنے سے پہلے دنیا کورونا سے پاک ہوجائے او رہم پہلے کی طرح امنگ اور خوشی کے ساتھ عید منائیں۔ مجھے یقین ہے کہ رمضان کے ان دنوں میں مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کورونا کے خلاف چل رہی اس لڑائی کو ہم اور مضبوط بنائیں گے۔ سڑکوں پر ، بازاروں میں، محلوں میں، جسمانی دوری کے اصولوں پر عمل آوری ابھی بہت ضروری ہے۔ آج ان سبھی کمیونٹی لیڈرس کے تئیں بھی شکریہ کا اظہار کرتا ہوں جو دو گز دوری اور گھرسے باہر نہیں نکلنے کو لیکر لوگوں کو بیدار کررہے ہیں۔ واقعی کورونا نے اس بار ہندوستان سمیت دنیا بھر میں تیوہاروں کو منانے کی شکل ہی بدل دی ہے۔ رنگ روپ بدل دیئے ہیں۔ ا بھی پچھلے دنوں ہی ہمارے یہاں بھی بیہو، بیساکھی، پوڈھنڈو، ویشو، اوڑیہ نیا سال، ایسے متعدد تیوہار آئے ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے کیسے ان تیوہاروں کو گھر میں رہ کر اور بڑی سادگی کے ساتھ سماج کے تئیں اچھی سوچ کے ساتھ تیوہاروں کو منایا، عام طور پر وہ ان تیوہاروں کو اپنے دوستوں اور فیملی کےساتھ پورے جوش ا ور امنگ کے ساتھ مناتے تھے ، گھر کے باہر نکل کر اپنی خوشی ساجھا کرتے تھے، لیکن اس بار ہر کسی نے صبر کیا ، لاک ڈاؤن کے اصولوں کا پالن کیا، ہم نے دیکھا ہے کہ اس بار ہمارے عیسائی دوستوں نے ایسٹر بھی گھر پر ہی منایا ہے، اپنے سماج ، اپنے ملک کے تئیں یہ ذمہ داری نبھانا آج کی بہت بڑی ضرورت ہے ، تبھی ہم کورونا کےپھیلاؤ کو روک پانے میں کامیاب ہوں گے۔ کورونا جیسی عالمی وبا کو شکست دے پائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس عالمی وبا کے بحران کے درمیان آپ کی فیملی کے ایک رکن کے ناطے اور آپ سب بھی میرے ہی کنبے کے فرد ہیں تب کچھ اشارہ کرنا ، کچھ مشورہ دینا یہ میرا فرض بھی بن جاتا ہے، میر ے ہم وطنو، میں آپ سے گزارش کروں گا۔ ہم قطعی حد سے زیادہ خود اعتمادی میں نہ پھنس جائیں ، ہم ایسا خیال نہ پال لیں کہ ہمارے شہر میں، ہمارے گاؤں میں، ہماری گلی میں، ہمارے دفتر میں، ابھی تک کورونا نہیں پہنچا ہے، اس لئے اب پہنچنے والا نہیں ہے۔ دیکھئے ایسی غلطی کبھی مت کرنا، دنیا کا تجربہ ہمیں بہت کچھ کہہ رہا ہے اور ہمارے یہاں تو بار بار کہا جاتا ہے ‘ساؤدھانی ہٹی تو دُرگھٹنا گھٹی’(احتیاط ختم ہوئی تو حادثہ رونماہوا)۔ یاد رکھئے ہمارے اسلاف نے ہمیں ان سارے معاملات میں بہت اچھا راستہ دکھایا ہے، ہمارے اسلاف نے کہا ہے
‘اگنی : شیسم ، رنا: شیسم،
ودیادھی: شیسم تتھیوچ۔
پونہ: پونہ: پرودھیت،
تسمات شیسم نہ کاریت۔
اس کا مطلب ہلکے میں لیکر چھوڑ دی گئی آگ، قرض اور بیماری موقع پاتے ہی دوبارہ بڑھ کر خطرناک ہوجاتی ہے۔ اس لئے ان کا پوری طرح علاج بہت ضروری ہوتا ہے۔اس لئے بہت زیادہ خوداعتمادی میں آکر مقامی سطح پر کہیں پر بھی کوئی لاپروائی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کاہمیشہ ہمیشہ ہمیں دھیان رکھنا ہی ہوگا اور میں پھر ایک بار کہوں گا ۔ دو گز دوری بنائے رکھئے ، خود کو صحتمند رکھئے ۔ ‘دو گز دوری ،بہت ہی ضروری’۔ آپ سب کی اچھی صحت کی تمنا کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ۔ اگلے ‘من کی بات’ کے وقت جب ملیں تب اس عالمی وبا سے کچھ نجات کی خبریں دنیا بھر سے آئیں۔ انسان ان مصیبتوں سے باہر آئے۔ اسی دعا کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
My dear countrymen, generally speaking, I touch upon varied subjects in Mann ki Baat. But today, the foremost concern in everyone’s mind in the country and all over the world is the catastrophic Corona Global Pandemic. Amidst that, it will not be appropriate on my part to reflect on anything else. But first of all, I extend a heartfelt apology to all countrymen. And I strongly feel from the core of my heart that you will forgive me – since certain decisions had to be taken, resulting in myriad hardships for you. And when it comes to my underprivileged brothers and sisters, they must be wondering on the kind of Prime Minister they have, who has pushed them to the brink! My wholehearted apologies, especially to them. It is possible that many are annoyed with me for their confinement in their homes. I fully understand your situation; I can feel what you are going through. But in order to battle Corona in a country of 130 crore people such as India, there was no other option. The fight against Corona is one between life and death itself…we have to win. And that is why such strong measures had to be resorted to. No one wants to go that way; looking at what the world is going through, this was the only way left. After all, the safety of you and your families has to be ensured. Once again, I apologize for any inconvenience, any hardship caused to you. Friends, we have an adage-“ Evam Evam Vikar, api tarunha Saadhyate Sukham”… which means, an illness and its scourge should be nipped in the bud itself. Later when it becomes incurable its treatment is very difficult. Today the whole of India, every Indian is doing just that. Brothers, Sisters, Mothers and the elderly, Corona virus has incarcerated the world. It is posing a challenge to Knowledge, science, the rich and the poor,
the strong and the weak alike. It is not confined to any nation's borders, nor does it make distinction of region or season. This virus has, in a way, obstinately picked up the gauntlet to annihilate the human race. And that is why humankind will have to rise unitedly, in the resolve to exterminate it. Some may feel that by complying with the lockdown, they are helping others! This is a misconception. This lockdown is a means to protect yourself. You have to protect yourself and your family. For the next many days, you have to continue displaying this patience; abide by the Lakshman Rekha. Friends, I know that no one wants to overstep the law and break rules wilfully. But there are some who are doing so, since they are not trying to understand the gravity of the matter. To them I will say that if they don’t comply with the lockdown rule, it will be difficult to save ourselves from the scourge of the Corona virus! The world over, many people nursed this delusion….all of them are regretting now. Friends, we are familiar with our adage “Aarogyam Param Bhagyam, Swasthyam Sarwaarth Sadhanam” -which means good health is the greatest fortune. Health is the only way to happiness in the world. In that backdrop, those breaking the rules are playing with their lives. Friends, in this war, there are many soldiers who are fighting the Corona virus, not in the confines of their homes but outside their homes. These are our front line soldiers-especially our brothers and sisters on duty as nurses, doctors and paramedical staff. These are people who have defeated corona. Today, we shall draw inspiration from them. During the course of the last few days, I spoke to a few such people over the phone, boosting their zeal, in turn raising my own enthusiasm too. I have learnt a lot from them. It was my earnest desire to share with you excerpts of the conversation I had with them, in Mann ki Baat. The first to join us is Shri RamagampaTeja Ji. He happens to be an IT professional….let’s listen to his experiences.
Yes Ram,
Ramgampa Teja: Namaste ji
PM: Yes Ram, Namaste
RT : Namaste, Namaste
PM: I have come to know that you have freed yourself from the clutches of the Corona virus!
RT: Yes
PM: I wanted to talk to you. Since you just came out of the danger zone, I wanted to listen to your experience.
RT: I am an employee of the IT sector. I had gone to Dubai for work; for meetings. It just happened willy-nilly. On my return it began with a fever. After 4 or 5 days, doctors conducted a test for Corona virus. It turned out positive. I was admitted to Gandhi Hospital, Government Hospital, Hyderabad, where I recovered after 14 days and was discharged. All this was a bit scary.
PM: You mean when you came to know of the infection?
RT: Yes
PM: And did you know earlier that virus was dangerous and could put you in trouble?
RT: Yes
PM: So, when it happened to you, what was your immediate response?
RT: First...I was very scared, not ready to believe that it had happened. And how? Because in India, there were only two or three cases, I didn’t know anything about it. When I was admitted to the hospital, they kept me in a quarantine. The first 2-3 days passed just like that. But the doctors and nurses there…
PM: Yes!
RT: They were very nice to me. They would call me up and talk to me and give me confidence that nothing will happen, I would be okay, they kept on saying. Twice or thrice a day, doctors would speak to me...nurses too. So first I was afraid, but later I felt I was with very good people, who knew what to do. I felt I would get better.
P.M : How were family members feeling?
R.T : When I was admitted to the hospital. Everyone was under stress. Media also created some problem there. Everyone’s attention was drawn to it. But yes. First they all had to undergo a test. The result was negative, which was the biggest blessing for us, for our family and all those around me. After that, there was improvement each day. Doctors were talking to me and informing family too.
P.M. : What precautions did you take? What precautions were there for family?
R.T : When the family first came to know, I was in quarantine. But even after quarantine, doctors told me to stay at home for 14 days…House quarantine for myself in my room. So even after coming home, I am at home mostly in my room, wearing a mask the whole day. When I come out for food, hand washing is most important.
PM: Fine Ram! You’ve returned to good health. Good wishes to you and family.
RT: Thank you.
PM: But I want this experience of yours
RT: Yes!
PM: You are from the IT profession,
RT: Yes
PM: So make an audio and…
RT: Yes
PM: Share it with people, make it viral on social media. What will happen is, people will not be scared and at the same time, points on adequate care and preventive measures will easily reach people.
RT: Yes, when I came out, I saw people feeling that being in quarantine is like being in a jail. It is not like that. Everyone should know that government quarantine is for their sake; for their families. On that I would like to ask maximum people to get the test done and not be afraid of quarantine. There should be no stigma attached to being on quarantine.
PM: Fine Ram. Many good wishes to you.
RT: Thank you, Thank you.
PM: Thank you Bhaiyya…Thanks a lot.
RT: Thank you.
Friends, as Ram said, he followed Doctor’s instructions fully when suspected of having Corona. And as a result, he is leading a healthy, normal life today. Another friend, who has defeated Corona is joining us now. His entire family had come under the clasp of this scourge, including a teenage son. Come let us speak to Shriman Ashok Kapoor from Agra.
PM: Ashok ji, Namaste!
Ashok Kapoor: Namaskar ji! I am lucky to be talking to you.
PM: Fine. Am fortunate too. I called you up, since your entire family had to hear the brunt.
AK: ji ji.
PM: I would certainly like to know as to how this infection was diagnosed. What had happened? What happened in the hospital? So that, after listening to you, if something important is to be conveyed to countrymen, I can use that.
AK: Absolutely Sir. I have two sons. They had gone to Italy to attend a shoe fair. We run a factory here, manufacturing shoes.
PM: Yes!
AK: So, when they returned from Italy...
PM: Yes!
AK: Our son in law too had gone there. He stays in Delhi. Feeling a health problem, He went to Ram Manohar Lohiya hospital.
PM: Ok
AK: They said it was positive. They shifted him to Safdurjung.
PM: Yes
AK: They called us up asking both my sons to get tested since they had been with him. Both sons went to Agra District hospital. There they were asked to call family members also. Just for a check. Ultimately all of us went there.
PM: Hmm…
AK: The next day they confirmed six of us positive... both my sons, myself, my wife, my son’s wife and my sixteen year old grandson...By the way, I am 73. I was told to take all of them to Delhi.
PM: O my God!
AK: But we didn’t fear. We thought it was good we came to know. We went to Safdarjung Hospital, Delhi. The Agra Doctors provided us with two ambulances. And we were not charged for that. We are grateful to them and the administration for their efforts and co-operation.
PM: You came in an ambulance!
AK: Yes. We were seated normally inside. Doctors accompanied us till Safdarjung Hospital where their doctors were waiting at the gate. They shifted us to a ward.
All six of us had separate rooms. The rooms were good; had everything. And then Sir, we stayed at the Hospital alone for 14 days. And as far as doctors are concerned, they were very helpful and treated us well….same for staff.
Sir, actually, when they used to enter wearing their dress, one could not make out if it was a doctor or a ward boy or nurse. We would obey their instructions fully. There we did not face even one percent problem.
PM: You come across as someone with immense self confidence.
AK: Sir, I am perfect...Yes. I have earlier undergone a knee surgery also. Even then I am perfect.
PM: No, but since your entire family went through a bad time, including the young sixteen year old…
AK: And Sir, it was time for his ICSE papers! We said no…that can be thought of later. If life stays on, all papers will be managed. Not to worry.
PM Modi: That is true. Your experience in life came to be of use in this crisis and imparted confidence as well as courage to the entire family.
Ashok Kapoor: Yes, we all went there, the entire family, we supported each other and though we did not meet, we would talk on the phone. We wouldn’t meet but the doctors took complete care of us –to the maximum extent possible. We are grateful to them for their compassion. The staff nurses took full care of us.
PM Modi: Let me extend my best wishes to you and your entire family.
Ashok Kapoor: Thank you ji | Thanks | We are all very happy that I have spoken to you.
PM Modi: No! It is a pleasure for us.
Ashok Kapoor: Even then, Sir, I speak for all of us, if it is needed to go anywhere to spread awareness, or to do something, we are ready at all times.
PM Modi: No, in your own way, do it in Agra. If someone is hungry, feed him, be empathetic to the poor, and follow the rules. You must explain to the people that your family was in the clutches of this disease, but you managed to save your family by following the rules, if everyone follows the rules then the country too will be saved.
Ashok Kapoor: We sir, Modi sir, we have shot our videos, and sent them to the TV channels.
PM Modi: Good.
Ashok Kapoor: The channels have also telecast them so awareness can be spread in people and…
PM Modi: This should be streamed in social media also so they become popular.
Ashok Kapoor: Yes. Yes. And in our colony where we live, it is a neat and clean colony, we have told everyone that, look, we have come back from Quarantine, so do not be afraid. If anyone has a health scare, go and get it tested. And those who met should also get their tests done, and remain protected by the mercy of God. Yes sir.
PM Modi: Alright. I wish everyone all the best.
Friends, we pray for the long life of Ashok ji and his entire family. As he mentioned, without panicking, following the right steps on time, contacting doctors on time without getting afraid and by taking proper precautions, we can defeat this pandemic. Friends, to know the capability with which we are dealing with this pandemic at the medical level, I also spoke to some doctors who are leading the front line in this battle. Their daily activity is synchronous with that of their patients. We now joined by Dr. Nitesh Gupta from Delhi…
PM Modi: Hello doctor.
Dr. Nitesh Gupta: Hello Sir
PM Modi: Namaste Niteshji, you are right there on the front, so I want to know what is the mood of the rest of your colleagues in the hospitals? Tell us how is it?
Dr. Nitesh Gupta: Everyone's mood is upbeat. Your blessings are with everyone. Whatever cause you are supporting in the given hospital or whatever we are asking for in line treatment, you are providing it all. So, we are engaged in exactly the same way just like the army battles on the border! And, our only duty is to get the patient back home after being cured.
PM Modi: You are right! This is a war-like situation and you all are managing a frontline.
Dr. Nitesh Gupta: Yes sir.
PM Modi: You must also be counselling the patient along with his treatment?
Dr. Nitesh Gupta: Yes sir that is the most important thing. Because the patient gets traumatized upon hearing what is happening with him. They have to be explained that there is nothing to fear and post quarantine lasting 14 days he will be fine and return home for sure!. So far we have managed to send 16 such patients home.
PM Modi: So what comes across over-all when you converse with such scared patients, are they plagued by worries?
Dr. Nitesh Gupta: They think mostly about what will happen next? What will happen now? It is because what they witness in the outside world with morbid mortality rates and wonder if the same will happen to them! So we explain to them which one of their afflictions will be cured during a particular time frame. We counsel them that their case is very mild akin to a case with a common cold and since one gets well in five-seven days, they too will be fine after a similar period of convalescence. Then we will tell them that after tests which are bound to report as negative and then they can be send home. So that's why we visit them repeatedly after intervals of two-three-four hours, we meet them, ask about their wellbeing. They also feel comfortable throughout the day.
PM Modi: So they have their confidence restored after being scared initially?
Dr. Nitesh Gupta: Initially, they are scared, but when we have counselled and by the second or third day when they start recovering, they also start believing that they can be cured.
PM Modi: But do all the doctors are imbued with the feeling that the work of rendering the greatest service in their lives has to be shouldered by them, is this emotion shared by all of them?
Dr. Nitesh Gupta: Yes, it is. We keep our team motivated to the utmost extent that there is nothing to fear, and there is no such thing that we should fear! If we observe precautions thoroughly, and explain these precautions to the patient that he is to follow, then everything will be fine.
PM Modi: Ok Doctor, a large amount of patients come to you and you are absolutely devoted to their cause. It was nice talking to you. But in this battle, I'm with you! Keep on fighting
Dr. Nitesh Gupta: We seek your blessings. This is what we wish.
PM Modi: Many good wishes Bhaiya
Dr. Nitesh Gupta: Sir Thank you.
PM Modi: Nitish ji, plenty of plaudits to you. Due to efforts of people like you, India will surely achieve victory in the battle against Corona. I urge you to take care of yourself...take care of your loved ones...take care of your family. The world’s experience tells us that in this illness, the number of patients infected with it suddenly grows exponentially. On account of this sudden rise, we have seen the best health systems crumble. In order to ensure that India does not have to face such a situation, we have to keep trying ceaselessly. Another doctor joins us from Pune...Shriman Doctor Borse.
PM Modi: Namaste Doctor
Doctor: Namaste Namaste
PM Modi: You are working relentlessly in the true spirit of ‘Service to Mankind is service to God’. I want to speak to you today on something that will be a message for our countrymen. Firstly, a question that strikes the minds of many is when to contact doctors and when to go for the Corona test! As a doctor, you have dedicated yourself completely in the service of patients. Your words carry weight. I want to hear it from you.
Doctor: Sir, I am a Professor at B.J.Medical College, Pune. And in Pune, there is a Muncipal Corporation Hospital, named Naidu Hospital. It has a fully functional screening centre since Januray 2020. Here till date, 16 Covid -19 positive cases
have been diagnosed. And out of those 16 cases, after due quarantine, isolation and treatment, 7 patients have been discharged Sir. And the remaining nine cases are also very stable and doing well. Despite the virus being inside their bodies, they are getting well; they are recovering out of the Corona virus. Here the sample size is tiny Sir...only 16 cases. But cases of the young population getting affected are coming to light. And despite that, the disease itself is not that serious a disease. It’s a mild disease and patients are successfully recovering. And those remaining 9 people are also going to be well, they are not going to deteriorate, we are keeping a watch on them on a daily basis. They are also going to be well in another 4-5 days. From people who come here as suspects; international travellers and those who come into contact with them...we take a swab... oropharyngeal and nasal. If the nasal swab report is positive, the patient is being admitted to the positive ward. If negative, we advise the patient on home quarantine, how it is to be done at home. After this advice, they are sent home.
PM Modi: What do you explain to them? While at home what aspects do you elucidate to them?
Doctor: Sir, even if one stays at home, one has to stay quarantined there. Observing a 6 feet distance is mandatory. Secondly, one has to use a mask and wash hands very frequently. If you do not have sanitisation, you can use simple soap and water to wash hands, but you have to keep doing it frequently. And while coughing or sneezing, use a simple handkerchief to cough on, so that droplets are not able to spread, nor fall on the floor, thus preventing hand contact and further spread. We explain this Sir. The second thing is, when they are supposed to be in a home quarantine, they are not supposed to leave home at all. During the current lockdown, they ought to be home quarantined properly for a minimum of 14 days...we are informing them, this is our message to them Sir.
PM Modi: Fine Doctor, you are doing a great service and with selfless dedication...your entire team is at work. I firmly believe that all our patients there return home safely. We shall win this battle...it will be victory for the country...with the help from all of you.
Doctor: Sir we believe we shall overcome. We shall win this battle.
PM Modi: Doctor, many good wishes to you. Thank You.
Doctor: Thank you, Thank You Sir.
Friends, all these people, all these friends are persevering to the best extent possible to chase out this scourge. What they tell us is not just for us to listen to; it is to be practised in life in the truest spirit. Today when I witness the sacrifice, perseverance and dedication on part of doctors, I am reminded of the touching words of Acharya Charak while referring to doctors. And it is so visible in Doctor’s lives today! Acharya Charak had said...
Na Aatmarthan Na Api Kaamartham Atbhoot Dayam Prati
Vartate yat Chikitsaym Sa Savarma Iti Vartate
Which means: The one who strives for his patient’s well being in the spirit of service and compassion, with no desire, monetary or otherwise, is the greatest Doctor.
Friends, today I salute the embodiment of humanity...the Nurse. The selfless spirit of service with which you perform your duty is beyond compare. It’s a coincidence that the world is celebrating year 2020 as the International year of the Nurse and Midwife. This goes back 200 years ago, i.e. 1820, the year that is associated with the birth of Florence Nightingale who lent a new identity, a new paradigm to the term ‘Service to humanity’ and the field of Nursing, taking it to newer heights. Dedicated to the spirit of service of every nurse in the world, this year has come as a challenging examination for the entire Nursing community...I believe, all of you will not only clear the exam successfully, you will also save many lives.
We are able to fight a battle on such a massive scale, only on account of the zeal and grit of frontline warriors like you...Be you a Doctor, a nurse, a para medic, Aasha, an ANM worker, sanitation worker, the country is also concerned about your health. Keeping that in mind , for around 20 lakhs colleagues from these fields, the government has announced a health insurance cover of upto Rs 50 lakhs, so that in this battle, you can lead the country with greater self confidence.
My dear countrymen, in this battle against Corona virus we have many examples of real heroes in the society. People who are at the forefront even in these conditions. On the Narendra Modi app, the Namo app, Niranjan Sudhaakar Hebbaale of BengaLuuru has written, that such people are daily life heroes. And that is quite right too. These are people due to whom our daily life runs smoothly.
Just imagine, if the water in your taps runs dry for just a day, or there is a sudden power outage in your house. At that time, it is these daily life heroes who banish
our troubles. Think about the small retail store in your neighbourhood. In these troubled times, he too is taking a great risk. After all, for whom? Isn't it because he wants to ensure that you do not face any difficulty in buying essential goods? Similar to that, think about those drivers and workers, who are continuing to work ceaselessly, so that the nation's supply chain of essential goods is not disrupted. You might have noticed that the government has kept the banking services open. And those working in the banking sector are there at your service – with full commitment and dedication – leading us in this fight. These services are not trivial at a time like this. We cannot thank these bank personnel enough for their service. Many of our friends are engaged with e-commerce companies as delivery personnel. These people are continuing delivering grocery even in these trying times.
Just think, as you watch television during this lock down, using the phone and internet even while being home bound, someone is working hard to ensure that these services continue uninterrupted. During this time, many of you are able to make digital payments with ease, many people are working hard to facilitate that. These are the people who are bearing the burden of the country's work during this lock down. On behalf of all countrymen, today I wish to express my gratitude to all these people, and request them, that they follow all the safety precautions, take care of themselves and their family members.
My dear countrymen, I have come to know of some instances, that some of those people who were suspected to have corona virus and asked to stay in home quarantine, are being ill-treated by others. I am greatly pained to learn of these instances. This is very unfortunate. We need to understand that in the current circumstances, we need to ensure social distance, not human or emotional distance. These people are not criminals. They are merely suspected to be infected with the virus. These people have isolated and quarantined themselves to protect other people from getting infected. At many places, people have taken
their responsibilities very seriously. They have quarantined themselves even when they were asymptomatic. They did so because they had travelled abroad recently and were being doubly cautious. They wanted to ensure that nobody else got infected by this virus. So when people are behaving so responsibly, it is unfair to ill-treat them. On the contrary, they need to be shown sympathy and cooperation.
Social distancing is the most effective way of fighting against corona virus. But we have to understand that social distancing does not mean ending social interaction. Actually, this is the time to give a new lease of life to all your existing social relationships. To energise these relationships. In a way, this time teaches us to reduce emotional distance and increase social distance. Yashvardhan from Kota have written on the Namo app, that they are increasing family bonding during the lock down. They are playing cricket and board games with kids; p reparing new dishes in the kitchen. Nirupama Harsheya from Jabalpur writes on the Namo app, that she finally got an opportunity to fulfil her wish to make a quilt. On top of that she is also fulfilling her gardening hobby. I also happened to read the posts of Pareekshit from Raipur, Aaryaman from Gurugram and Suraj from Jharkhand, and they have discussed about having an e-reunion with their school friends. Their idea is very interesting. It's possible that you too might not have gotten a chance to talk to your school and college mates for decades. You too can try out this idea. Pratyush of Bhubaneswar and Vasudha of Kolkata have mentioned that they are reading books that they had hitherto not been able to read. I also saw on social media, that many people took out musical instruments like table and Veena that were lying unused for years– and started practising on them. You too can do that.
That will not only give you the joy of music, but also take you on a trip down the memory lane. In this crisis, you have got a rare opportunity to not only connect with yourself but also with your passion. You will also get an opportunity to connect with your old friends and with your family.
Shashi ji from Roorke has asked me on the Namo App - what do I do for my fitness during the lock down? How do I observe the Navaraatri fast in these circumstances? Let me reiterate, that although I have urged you to
avoid stepping out of your houses, I have also given you an opportunity to take a look inwards at yourself. This is your chance, don't go out, but go inside, try to know yourself. As far as the navaraatri fast is concerned, that is between me and my faith and the supreme power. As regards fitness, I think that will be quite a lengthy topic, so what I'll do is, I'll upload some videos on this topic on the social media. You can surely see those videos on the Namo app. What I do, possibly, can aid and inspire some of you. But do remember, that I am not a fitness expert, I am also not a yoga teacher. I am merely a practitioner. I do concede however, that some yogaasanaas have greatly benefited me. It's possible that some of these tips might help you too during the lock down.
Friends, this battle against corona is unprecedented as well as challenging. Hence the decisions being taken during this time are unheard of in the history of the world. The steps being taken by Indians to stop the spread of corona, the efforts that we are currently making, will ensure that India conquers this corona pandemic. The determination and restraint of each Indian will also aid in facing this crisis. In addition, our sympathy for the poor should also be far greater. Our humanity stems from the fact that whenever we see a poor or hungry person, we first try and feed him or her in this time of crisis. We should think of their needs and India can do this. These are a part of our values and culture.
My dear countrymen, today every Indian is confined to the home, to ensure his or her own safety, but in the times to come, the very same Indian will tear down all walls on the road to our progress and take the country forward. Stay at home with your family, be careful and safe, we need to win this battle. And we will win. We will meet in Man ki baat again next month. By then we should have overcome this crisis – with this hope, and this wish, I thank you all.
میرے پیارے ہم وطنوں، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ‘من کی بات’ کے توسط سے مجھے کَچھ سے لے کر کوہیما ، کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ، ملک بھر کے سبھی شہریوں کو ایک بار پھر نمسکار کا موقع ملا ہے۔ آپ سب کو نمسکار! ہمارے ملک کی عظمت اور تنوع اس کو یاد کرنا، اس کو نمن کرنا ، ہر ہندوستانی کو فخر سے معمور کر دیتا ہے ۔ اور اسی تنوع کے احساس کا موقع تو ہمیشہ ہی مغلوب کر دینا والا ، لطف انگیز ، ایک طرح سے ترغیب کا پھول ہوتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے میں نے دہلی کے ہنر ہاٹ میں ایک چھوٹی سی جگہ میں ، اپنے ملک کی عظمت، ثقافت، روایات، کھانا پینا اور جذبات کی رنگارنگی کا مشاہدہ کیا۔ روایتی ملبوسات، دستکاری، قالین ، برتن، بانس اور پیپل کی پیداوار، پنجاب کی پھلکاری، آندھر پردیش کا شاندار چمڑے کا کام، تمل ناڈو کی خوبصورت پینٹنگ، اتر پردیش کے پیتل کی مصنوعات، بھدوہی کی قالین ، کَچھ کے تانبے کی مصنوعات، متعدد آلات موسیقی، بے شمار باتیں، پورے ہندوستان کی فنکاری اور ثقافت کی جھلک، واقعی انوکھی ہی تھی اور ان کے پیچھے دستکاروں کی لگن اور اپنے ہنر کے تئیں پریم کی کہانیاں بھی ، بہت ہی تحریک کا باعث ہوتی ہیں۔ ہنر ہاٹ میں ایک معذور خاتون کی باتیں سن کر بڑا اطمینان ہوا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پہلے وہ فٹ پاتھ پر اپنی پینٹنگ بیچتی تھی ۔ لیکن ہنر ہاٹ سے جڑنے کے بعد ان کی زندگی بدل گئی۔ آج وہ نہ صرف خود انحصار ہے بلکہ انہوں نے خود کا ایک گھر بھی خرید لیا ہے۔ ہنر ہاٹ میں مجھے کئی اور دستکاروں سے ملنے اور ان سے بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہنر ہاٹ میں حصہ لینے والے کاریگروں میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ اور گذشتہ تین برسوں میں ہنر ہاٹ کے توسط سے تقریباً تین لاکھ کاریگروں، دستکاروں کو روزگار کے متعدد مواقع ملے ہیں۔ ہنر ہاٹ ، فنکاری کی نمائش کے لیے پلیٹ فارم تو ہے ہی ، ساتھ ہی ساتھ یہ لوگوں کے خوابوں کو بھی پَر دے رہا ہے۔ایک جگہ ہے جہاں اس ملک کے تنوع کو نظر انداز کرنا ناممکن ہی ہے۔ دستکاری تو ہے ہی ، ساتھ ہی ساتھ ہمارے کھانے پینے کا تنوع بھی ہے۔ وہاں ایک ہی قطار میں اِڈلی ڈوسا، چھولے بٹورے، دال باٹی، کھمن کھانڈوی نہ جانے کیا کیا تھا۔ میں نے خود بھی بہار کے ذائقہ دار لِٹّی چوکھا کا لطف اٹھایا، بھرپور لطف اٹھایا۔ ہندوستان کے ہر گوشے میں ایسے میلے ، نمائشوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ ہندوستان کو جاننے کے لیے ، ہندوستان کو محسوس کرنے کے لیے جب بھی موقع ملے ، ضرور جانا چاہیے۔ ‘ایک بھارت –شریشٹھ بھارت’ کو جی بھر جینے کا یہ موقع بن جاتا ہے۔ آپ نہ صرف ملک کی فنکاری اور ثقافت سے جڑیں گے بلکہ آپ ملک کے محنتی کاریگروں کی خاص طور پر خواتین کی خوشحالی میں اپنا حصہ دے سکیں گے – ضرور جائیے۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، ہمارے ملک کی عظیم روایات ہیں ۔ ہمارے اجداد نے ہمیں جو وراثت میں دیا ہے ، جو تعلیم اور شعور ہمیں ملا ہے ، جس میں جانداروں کے تئیں رحم کا جذبہ، فطرت کے تئیں بے پناہ محبت، یہ ساری باتیں، ہماری ثقافتی وراثت ہیں اور ہندوستان کے اس ماحول میں مہمان نوازی کا لطف لینے کے لیےپوری دنیا سے مختلف نسلوں کے پرندے بھی ، ہر سال ہندوستان آتے ہیں۔ ہندوستان پورے سال نقل مکانی کرکے آنے والے کئی پرندوں کا آشیانہ بنا رہتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتےہیں کہ یہ جو پرندے آتے ہیں، پانچ سو سے بھی زیادہ، مختلف قسم کے اور مختلف علاقوں سے آتے ہیں۔ گذشتہ دنوں گاندھی نگر میں ‘سی او پی – 13 کنونشن ’ جس میں اس موضوع پر کافی غور و خوض بھی ہوا اور ہندوستان کی کوششوں کی بہت ستائش بھی ہوئی ۔ ساتھیو، یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ آنے والے تین سالوں تک نقل مکانی کر کے آنے والے پرندوں پر ہونے والے ‘سی او پی – 13 کنونشن ’ کی صدارت کرے گا۔ اس موقع کو کیسے مفید بنائیں ، اس کے لیے آپ اپنے آراء ضرور بھیجیں۔
سی او پی کنونشن پر ہو رہی اس مباحثے کے درمیان میرا دھیان میگھالیہ سے جڑی ایک اہم جانکاری کی طرف بھی گیا۔ حال ہی میں حیاتیات کے ماہرین نے مچھلی کی ایک ایسی نئی نسل کی دریافت کی ہے جو صرف میگھالیہ میں غاروں کے اندر پائی جاتی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ مچھلی غاروں میں زمین کے اندر رہنے والے آبی جانداروں کی نسلوں میں سے سب سے بڑی ہیں۔ یہ مچھلی ایسے گہرے اور اندھیرے زیر زمین غاروں میں رہتی ہے، جہاں روشنی بھی شاید ہی پہنچ پاتی ہے۔ سائنس داں بھی اس بات سے حیران ہیں کہ اتنی بڑی مچھلی اتنے گہرے غاروں میں کیسے زندہ رہتی ہے؟ یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ہندوستان اور خاص طور پر میگھالیہ ایک نایاب نسل کا گھر ہے۔ یہ ہندوستانی کی حیاتیاتی تنوع کو نئی منزل عطا کرنے والا ہے۔ ہمارے اِرد گرد ایسے بہت سے عجوبے ہیں جن کی ابھی تک دریافت نہیں ہوئی ہے۔ ان عجائب کا پتہ لگانے کے لیے تلاش کرنے کا جنون ضرور ہوتا ہے۔
عظیم تمل شاعرہ اوویّار نے لکھا ہے ،
‘‘کٹّت کماووں کلّا درو اڈگڑوو، کڈّت کییمن اڑوا کلّادر اولاآڈو’’
اس کا مطلب ہے کہ ہم جو جانتے ہیں ، وہ محض مٹھی بھر ایک ریت ہے لیکن جو ہم نہیں جانتے ہیں ، وہ اپنے آپ میں پوری کائنات کے برابر ہے۔ اس ملک کی تنوع کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے جتنا جانیں اتنا کم ہے۔ ہماری حیاتیاتی تنوع بھی پوری انسانیت کے لیے انوکھا خزانہ ہے جسے ہمیں سنوارنا ہے، حفاظت کرنی ہے اور تلاش بھی کرنی ہے۔
میرے پیارے نوجوان ساتھیو، اِن دنوں ہمارے ملک کے بچوں میں ، نوجوانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے تئیں دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ خلاء میں ریکارڈ سٹیلائٹ کا بھیجا جانا، نئے نئے ریکارڈ، نئے نئے مشن ہر ہندوستان کو فخر سے معمور کر دیتے ہیں۔ جب میں چندریان-2 کے وقت بنگلورو میں تھا، تو میں نے دیکھا تھا کہ وہاں موجود بچوں کا جوش دیکھنے کے قابل تھا۔ نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ ایک طرح سے پوری رات وہ جاگتے رہے ۔ ان میں سائنس، ٹکنالوجی اور اختراعات کو لے کر جو تجسس تھا وہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے ہیں۔ بچوں کے ، نوجوانوں کے ، اسی جوش کو فروغ دینے کے لیے ، ان میں سائنسی رجحان کو بڑھانے کے لیے ایک اور انتظام شروع ہوا ہے۔ اب آپ شری ہری کوٹا سے ہونے والے راکٹ لانچنگ کو سامنے بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ حال ہی میں ، اسے سب کے لیے کھول دیا گیا ہے۔وزیٹر گیلری بنائی گئی ہے جس میں 10 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہے ۔ اسرو کی ویب سائٹ پر دیے گئے لنک کے ذریعہ آن لائن بکنگ بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کئی اسکول اپنے طالب علموں کو راکٹ لانچنگ دکھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹور پر بھی لے جارہے ہیں۔ میں سبھی اسکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ سے درخواست کروں گا کہ آنے والے دنوں میں وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔
ساتھیو، میں آپ کو ایک اور دلچسپ جانکاری دینا چاہتا ہوں ۔ میں نمو ایپ پر جھارکھنڈ کے دھنباد کے رہنے والے پارس کا کمنٹ پڑھا ۔ پارس چاہتے ہیں کہ میں اسرو کے ‘یوویکا’ پروگرام کے بارے میں نوجوان ساتھیوں کو بتاؤں۔ نوجوانوں کو سائنس سے جوڑنے کے لیے ‘یوویکا’ اسرو کی بہت ہی قابل ستائش کوشش ہے۔ 2019 میں یہ پروگرام اسکول کے طالب علموں کے لیے شروع کیا گیا تھا ۔ ‘یوویکا’ کا مطلب ہے – ‘‘نوجوان سائنس داں پروگرام’’ ۔ یہ پروگرام ہمارے تصور ‘‘جے جوان ، جے کسان ، جے وگیان، جے انو سندھان’’ کے مطابق ہے۔ اس پروگرام میں اپنے امتحان کے بعد، چھٹیوں میں طلباء اسرو کے مختلف مراکز میں جا کر خلائی ٹکنالوجی ، خلائی سائنس اور خلائی اپلی کیشنز کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ آپ کو اگر یہ جاننا ہے ٹریننگ کیسی ہے؟ کس طرح کی ہے؟ کتنی دلچسپ ہے؟ پچھلی بار جنہوں نے اس میں شرکت کی ہے ، ان کے تجربات ضرور پڑھیں۔ آپ کو خود شرکت کرنا ہے تو اسرو سے منسلک ‘یوویکا’ کی ویب سائٹ پر جا کر اپنا رجسٹریشن بھی کرا سکتے ہیں ۔ میرے نوجوان ساتھیوں ، میں آپ کے لیے بتاتاہوں ، ویب سائٹ کا نام لکھ لیجیئے اور ضرور آج ہی وزٹ کیجئے – www.yuvika.isro.gov.in ۔ لکھ لیا نا؟
میرے پیارے ہم وطنوں، 31 جنوری 2020 کو لداخ کی خوبصورت وادیاں ، ایک تاریخی واقعہ کی گواہ بنی۔ لیہ کے کوشوک باکولا رمپوچی ایئر پورٹ سے ہندوستانی فضائیہ کے اے این – 32 جہاز نے جب اڑان بھری تو ایک نئی تاریک رقم ہوئی ۔ اس اڑان میں 10فیصد ہندوستانی بایو جیٹ ایندھن شامل کیا گیا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا جب دونوں انجنوں میں محلول کا استعمال کیا گیا ۔ یہی نہیں ، لیہ کے جس ہوائی اڈّے پر جہاز نے اڑان بھری، وہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا میں سب سے بلندی پر واقع ایئر پورٹ میں سے ایک ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بایو –جیٹ ایندھن کو نان ایڈیبل ٹری بورن آئل سے تیار کیا گیا ہے ۔ اسے ہندوستان کے مختلف قبائلی علاقوں سے خریدا جاتا ہے۔ ان کوششوں سے نہ صرف کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی بلکہ کچے تیل کی در آمدات پر بھی ہندوستان کی انحصاریت کم ہو سکتی ہے۔ میں اس بڑے پروگرام سے وابستہ سبھی لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر سی ایس آئی آر، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پٹرولیم، دہرادون کے سائنس دانوں کو جنہوں نے بایو-ایندھن سے جہاز اڑانے کی تکنیک کو ممکن کر دیا۔ ان کی یہ کوشش ‘میک اِن انڈیا’ کو بھی مضبوطی فراہم کرتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا نیا ہندوستان، اب پرانے طریقۂ کار کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔ خاص طور پر، نیو انڈیا کی ہماری بہنیں اور مائیں تو آگے بڑھ کر ان چیلنجوں کو اپنے ہاتھ میں لے رہی ہیں جن سے پورے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بہار کی پورنیہ کی کہانی پورے ملک کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو کئی دہائیوں سے سانحہ سیلاب سے لڑ رہا ہے۔ ایسے میں یہاں، کاشتکاری اور دیگر آمدنی کے وسائل کو پیدا کرنا بہت مشکل رہا ہے۔ لیکن ان حالات میں پورنیا کی کچھ خواتین نے ایک مختلف راستے کا انتخاب کیا۔ساتھیو، پہلے اس علاقے کی خواتین، شہتوت یا ملبری کے درختوں پر ریشم کے کیڑوں سے کوکون تیار کرتی تھیں، جس کی انہیں بہت ہی معمولی قیمت ملتی تھی۔ جب کہ اسے خریدنے والے لوگوں نے ان کوکونوں سے ریشمی سوت بنا کر ایک موٹا منافع کمایا۔ لیکن آج پورنیہ کی خواتین نے ایک نئی شروعات کی اور پوری تصویر کو بدل کر رکھ دیا ۔ان خواتین نے حکومت کے ساتھ مل کر شہتوت کی تیاری کی۔ اس کے بعد، انہوں نے کوکونوں سے ریشم کے دھاگے بنائے اور پھر ان سوتوں سے خودہی ساڑیاں بنوانا بھی شروع کردیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پہلے جس کوکون کو فروخت کرکے معمولی رقسم ملتی تھی، وہی اب اس سے بنی ساڑیاں ہزاروں روپئے میں بک رہی ہیں۔ ‘آدرش جیویکا مہیلا ملبری پروڈکشن گروپ’ کی بڑی بہنوں نے جو کمال کئے ہیں، اس کا اثر اب کئی گاؤں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پورنیہ کے متعدد گاؤں کی کسان دیدیاں، اب نہ صرف ساڑیاں تیار کروا رہی ہیں بلکہ بڑے مالوں میں، اپنے اسٹال لگا کر فروخت بھی کر رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال آج کی خواتین کی نئی طاقت، نئی سوچ کے ساتھ کس طرح نئے مقاصدکو حاصل کررہی ہے
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک کی خواتین، ہماری بیٹیوں کا کاروبار، ان کی ہمت، ہر کسی کے لئے باعث فخر ہے۔ اپنے اردگرد ہمیں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیٹیاں کس طرح پرانی بندشوں کو توڑ رہی ہیں، نئی بلندیوں کو حاصل کر رہی ہیں۔ میں آپ کے ساتھ بارہ سالہ بیٹی کامیا کارتکین کے کارنامے پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ کامیا نے، صرف بارہ سال کی عمر میں ہی، ماؤنٹ ایکونکاگو، اس کو فتح کرنے کا کارنامہ کردکھایا ہے۔ یہ جنوبی امریکہ کے اینڈیس پہاڑوں کی سب سے اونچی چوٹی ہے ، جو تقریبا 7000 میٹر اونچی ہے۔ ہر ہندوستانی کو اس بات کا احساس ہو گا کہ جب اس مہینے کے شروع میں کامیا نے چوٹی کو فتح کیا اور سب سے پہلے وہاں، ہمارا ترنگا لہرایا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کا سر فخر سے اونچا کرنے والی کامیا، ایک نئے مشن پر ہے، جس کا نام ‘مشن ہمت’ ہے۔ اس کے تحت وہ سبھی براعظموں کی سب سے اونچی چوٹیوں کو فتح کرنے میں مصروف ہے۔ اس مہم میں اسے شمالی اور جنوبی قطب پراسکائی بھی کرنا ہے۔ میں کامیا کو ‘مشن ہمت’ کے لئے اپنی مبارکباد دیتا ہوں ۔ ویسے، کامیا کا کارنامہ بھی ہر ایک کو فٹ رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اتنی کم عمری میں، کامیا جس بلندی پر پہنچی ہے اس میں فٹنس کا بھی بہت اہم رول رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جو فٹ ہے، ایک ایسی قوم ہوگی جو ہِٹ رہے گی۔ یعنی، جو ملک فٹ ہے، وہ ہمیشہ ہِٹ بھی رہے گا۔ ویسے، آنے والے مہینے تو ایڈونچر اسپورٹس کے لئے بھی بہت موزوں ہیں۔ ہندوستان کا جغرافیہ ایسا ہے جو ہمارے ملک میں ایڈونچر کھیلوں کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف، جہاں اونچے ا ونچے پہاڑ ہیں، وہیں دوسری طرف، دور دور تک پھیلا ریگستان ہے۔ ایک طرف جہاں گھنے جنگلات کا بسیرا ہے، تو وہیں دوسری طرف سمندر کی لامحدو توسیع ہے۔ اس لئے میری آپ سب سے خصوصی التجا ہے کہ آپ بھی اپنی پسند کی جگہ کا انتخاب کریں، اپنی دلچسپی کی سرگرمی کا انتخاب کریں اور اپنی زندگی کو ضرور ایڈونچر کے ساتھ شامل کریں۔ زندگی میں ایڈونچر ضرور ہونا چاہئے، ویسے ساتھیو، بارہ سالہ بیٹی کامیا کی کامیابی کے بعد، جب آپ 105 سالہ بھاگیرتھی اماں کی کامیابی کی کہانی سنیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ دوستو، اگر ہم زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ ہمارے اندر کے طالب علم کو کبھی مرنا نہیں چاہیے۔ ہماری 105 سالہ بھاگیرتھی اماں ہمیں یہی ترغیب دیتی ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھاگیرتھی اماں کون ہیں؟ بھاگیرتھی اماں کیرالہ کے کولم میں رہتی ہیں۔ بچپن میں ہی انھوں نے اپنی ماں کو کھو دیا۔ چھوٹی عمر میں شادی کے بعد شوہر کو بھی کھودیا۔ لیکن، بھاگیرتھی اماں نے ہمت نہیں ہاری، اپنا جذبہ نہیں کھویا۔ دس سال کی عمر میں، انھیں اپنا اسکول چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے 105 سال کی عمر میں دوبارہ اسکول کا آغاز کیا۔ پڑھنا شروع کیا۔ اتنی عمر ہونے کے باوجود بھاگیرتھی اماں نے لیول 4 کا امتحان دیا اور بے صبری سے نتائج کا انتظار کرنے لگیں۔ انھوں نے امتحان میں 75 فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ صرف یہی نہیں، ریاضی میں 100 نمبر حاصل کیے ہیں۔ اماں اب مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ مزید امتحانات دینا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے، بھاگیرتھی اماں جیسے لوگ اس ملک کی طاقت ہیں۔ تحریک کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ میں آج خاص طور پر بھاگیرتھی اماں کو سلام کرتا ہوں۔
دوستو، زندگی کی مشکل گھڑی میں، ہماری ہمت، ہماری مرضی کی طاقت کسی بھی صورتحال کو بدل دیتی ہے۔ حال ہی میں، میں نے میڈیا میں ایک کہانی پڑھی جسے میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سلمان کی کہانی ہے جو مراد آباد کے گاؤں حمیر پور میں رہتے ہیں۔ سلمان پیدائشی طور پر معذور ہے۔ ان کے پاؤں ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس مشکل کے باوجود، اس نے ہمت نہیں ہاری اور فیصلہ کیا کہ وہ خود ہی اپنا کام شروع کردے گا۔ ساتھ ہی، انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ، اب وہ، اپنے جیسے مختلف معذور افراد کی بھی مدد کریں گے۔ پھر کیا تھا، سلمان نے اپنے ہی گاؤں میں چپل اور ڈیٹرجنٹ بنانا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ساتھ 30 معذور ساتھی اس میں شامل ہوگئے۔ آپ یہ بھی غور کیجیے کہ سلمان کو خود چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس نے ایسی چپلیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو دوسروں کے چلنے میں آسان بنائے۔ خاص بات یہ ہے کہ سلمان نے، معذور ساتھیوں خود ہی ٹریننگ دی۔ اب وہ سب مل کر مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ بھی کرتے ہیں۔ اپنی محنت سے، ان لوگوں نے نہ صرف اپنے لئے روزگار کو یقینی بنایا بلکہ اپنی کمپنی کو بھی منافع میں پہنچا دیا۔ اب یہ لوگ ایک ساتھ مل کر ایک دن میں ڈیڑھ سو (150) جوڑی چپل تیار کرلیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، سلمان نے اس سال مزید 100 معذوروں کو روزگار دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ میں ان سب کے کاروبار کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ایسا ہی عزم گجرات کے علاقے کچھ میں ازرک گاؤں کے لوگوں نے بھی دکھایا ہے۔ 2001 میں تباہ کن زلزلے کے بعد ہر کوئی گاؤں چھوڑ رہا تھا، تبھی اسماعیل کھتری نامی شخص نے گاؤں میں ہی رہ کر ‘ازرک پرنٹ’ کی اپنی روایتی طرز دستکاری کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ پھر کیا تھا، قدرت کے رنگوں سے بنا ‘ازرک کالا’ ہر کسی کو پسند آنے لگا اور یہ سارا گاؤں اپنی روایتی طرز دستکاری سے وابستہ ہوگیا۔ گاؤں کے لوگوں نے، نہ صرف سیکڑوں سال پرانے اس فن کو بچایا بلکہ اسے جدید فیشن کے ساتھ بھی جوڑ دیا۔ اب بڑے ڈیزائنرز ، بڑے ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ، ازرک پرنٹ کا استعمال شروع کر چکے ہیں۔ گاؤں کے محنتی لوگوں کی وجہ سے آج ازرک پرنٹ ایک بڑا برانڈ بن رہا ہے۔ دنیا کے بڑے خریدار اس پرنٹ کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، حال ہی میں ملک بھر میں مہا شیوراتری کا تہوار منایا گیا ہے۔ بھگوان شیو اور دیوی پاروتی کی برکتوں سے ملک کا شعور بیدار ہوا ہے۔ مہا شیوراتری پر بھولے بابا کا آشیرواد آپ پر بنا رہے، آپ کی تمام خواہشات شیو جی پوری کریں، آپ توانائی سے بھر پور رہیں، صحتمند رہیں، خوش رہیں اور ملک کی طرف اپنے فرائض سرانجام دیں۔
دوستو، مہا شیوارتری کے ساتھ ساتھ، بہار کی چمک میں بھی دن بدن اضافہ ہوگا۔ آنے والے دنوں میں ہولی بھی ایک تہوار ہے، جلد ہی اس کے بعد گڈی پڈوا بھی آنے والا ہے۔ اس کے ساتھ نوراتری کا تہوار بھی وابستہ ہے۔ رام-نومی کا تہوار بھی آئے گا۔ تہوار اور تہوار ہمارے ملک میں معاشرتی زندگی کا لازمی جزو رہے ہیں۔ کچھ معاشرتی پیغام ہر تہوار کے پیچھے پوشیدہ ہوتا ہے، جو نہ صرف معاشرے بلکہ پورے ملک کو اتحاد کا پابند کرتا ہے۔ ہولی کے بعد، ہندوستانی وکرم نئے سال کا آغاز بھی چیترا شکلا-پرتی پڈا سے ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی، ہندوستانی نیا سال، میں آپ کو نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اگلے ‘من کی بات‘ تک، مجھے لگتا ہے کہ طلباء امتحان میں مصروف ہوں گے۔ جن کا امتحان مکمل ہوچکا ہوگا، وہ خوش ہوں گے۔ جو مصروف ہیں، جو خوش ہیں، ان کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے آیئے اگلی ‘من کی بات’ کے لئے بہت سی چیزوں کے ساتھ دوبارہ ملیں گے۔
بہت بہت شکریہ! نمسکار
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔
آج 26؍ جنوری ہے۔ جشن جمہوریہ کی بہت بہت نیک خواہشات۔2020 کا یہ پہلا ‘ من کی بات’ کی ملاقات ہے۔ اس سال کا بھی یہ پہلا پروگرام ہے، اس دہائی کا بھی یہ پہلا پروگرام ہے۔ ساتھیو، اس بار ‘ یوم جمہوریہ’ تقریب کی وجہ سے آپ سے ‘ من کی بات’، اس کے وقت میں تبدیلی کرنا، مناسب لگا اور اِسی لئے، ایک الگ وقت مقرر کرکے آج آپ سے ‘من کی بات’ کر رہا ہوں۔ ساتھیو، دن بدلتے ہیں، ہفتے بدل جاتے ہیں، مہینے بھی بدلتے ہیں، سال بدل جاتے ہیں، لیکن، بھارت کے لوگوں کا جوش اور ہم بھی کچھ کم نہیں ہیں، ہم بھی کچھ کر کے رہیں گے۔ ‘کین ڈو’، یہ ‘ کین ڈو’ کا جذبہ، عزم کی شکل ابھر رہا ہے۔ ملک اور سماج کیلئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ، ہر دن، پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھیو، ‘ من کی بات’ کے اسٹیج پر ، ہم سب، ایک بار پھر اکٹھا ہوئےہیں۔ نئے نئے موضوعات پر بات چیت کرنے کیلئے اور اہل وطن کی نئی نئی حصولیابیوں کو جشن منانے کیلئے ، بھارت کا جشن منانے کیلئے ‘من کی بات’ شیئرنگ، لرننگ اور گرووِنگ ٹوگیدر، کا ایک اچھا اور آسان پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کی تعداد میں لوگ، اپنے مشورے، اپنی کوششیں، اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔ ان میں سے، سماج کو ترغیب ملے، ایسی کچھ باتوں، لوگوں کی غیر معمولی کوششوں پر ہمیں بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔
‘ کسی نے کر کے دکھایا ہے’، تو کیا ہم بھی کر سکتے ہیں؟ کیا اُس تجربے کو پورے ملک میں استعمال کر کےایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ کیا اس کو، سماج کی ایک عام عادت کی شکل میں فروغ دے کر، اس تبدیلی کو ، مستقل بنا سکتے ہیں؟۔ ایسے ہی کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتے-کرتے ، ہر مہینے ‘من کی بات’ میں ، کچھ اپیل، کچھ درخواست، کچھ کر دکھانے کے عزائم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں ہم نے بہت سے چھوٹے چھوٹے عہد لئے ہوں گے، جیسےایک ہی بار استعمال میں آ سکنے والی پلاسٹک کومسترد کرنا، کھادی اور مقامی اشیاء خریدنے کی بات، سووچھتا کی بات ہو، بیٹیوں کے احترام اور وقار کی بات ہو، لیس کیش اکنامی کا یہ نیا پہلو، اس پر زوردیناہو، ایسے ڈھیرسارے عزائم کا جنم ہماری ان ہلکی پھلکی من کی باتوں سے ہوا ہے اور اسے طاقت بھی آپ ہی لوگوں نے دی ہے ۔
مجھے ایک بہت ہی پیارا خط ملا ہے۔ بہار کے جناب شیلیش کا۔ ویسے تو ابھی وہ بہار میں نہیں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ وہ دلی میں رہ کر کسی این جی او میں کام کرتے ہیں۔ جناب شیلیش جی لکھتے ہیں ‘‘ مودی جی آپ ہر من کی بات میں کچھ اپیل کرتے ہیں۔ میں نے ان میں سے کئی چیزوں کو کیا ہے۔ ان سردیوں میں، میں نے لوگوں کے گھروں میں سے کپڑے جمع کر کے ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کئے ہیں۔ میں نے من کی بات سے لے کر کئی چیزوں کو کرنا شروع کیا ہے، لیکن پھر دھیرے دھیرے کچھ میں بھول گیااور کچھ چیزیں چھوٹ گئیں۔ میں نے اس نئے سال پر ایک من کی بات پر چارٹر بنایا ہے، جس میں ان سبھی چیزوں کی ایک فہرست بنا ڈالی ہے۔ جیسے لوگ نئے سال پرنئے سال کے لئے عہد و پیماں تیار کرتے ہیں۔ مودی جی یہ میرے نئے سال کا سماجی پیمان ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، لیکن بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کیا آپ چارٹرپر اپنا آٹوگراف دے کر مجھے واپس بھیج سکتے ہیں۔ شیلیش جی آپ کا بہت بہت شکریہ اور مبارکباد۔ آپ کے نئے سال کے عہد کے لئے من کی بات چارٹر ، یہ بہت ہی اختراعاتی ہے۔ میں اپنی طرف سے مبارکباد لکھ کر اسے ضرورآپ کو واپس بھیجوں گا۔ ساتھیوں اس من کی بات چارٹر کو جب میں پڑھ رہا تھا، جب مجھے بھی حیرت ہوئی کہ اتنی ساری باتیں ہیں! اتنے سارے ہیش ٹیگس ہیں ! اور ہم سب نے مل کر ڈھیر ساری کوششیں بھی کی ہیں۔ کبھی ہم نے سندیش ٹوسولجرس کے ساتھ اپنے جوانوں سے جذباتی طورپر اور مضبوطی سے جڑنے کی مہم چلائی۔ ‘کھادی فار نیشن- کھادی فار فیشن’ کے ساتھ کھادی کی فروخت کونئے مقام پر پہنچایا۔ ‘ بائی لوکل’ کا اصول اپنایا۔ ‘ ہم فٹ تو انڈیا فِٹ’ سے فٹنس کے تئیں بیداری پیدا کی۔ ‘مائی کلین انڈیا’ یا ‘ اسٹیچو کلیننگ’ کی کوششوں سے سووچھتا کو عوامی تحریک بنایا۔ ہیش ٹیگ نوٹو ڈرگس، ہیش ٹیگ بھارت کی لکشمی ، ہیش ٹیگ سیلف فار سوسائٹی، ہیش ٹیگ اسٹریس فِری ایگزام، ہیش ٹیگ سرکشا بندھن، ہیش ٹیگ ڈیجیٹل اکنامی، ہیش ٹیگ روڈ سیفٹی، او ہو ہو! بے شمار ہیں۔
شیلیش جی آپ کے اس من کی بات کے چارٹر کو دیکھ کر احساس ہوا کہ واقعی یہ لسٹ بہت لمبی ہے۔ آئیے اس سفر کو مسلسل جاری رکھیں۔ اس من کی بات چارٹر میں سے اپنی دلچسپی کے کسی بھی کاز سے جڑیں۔ ہیش ٹیگ یوز کرکے سب کے ساتھ فخر سے اپنے تعاون کو مشترک کریں۔ دوستوں کو ، اہل خانہ کو اور سبھی کو رغبت دلائیں۔ جب ہر بھارت واسی ایک قدم چلتا ہے، تو ہمارا بھارت وَرش 130کروڑقدم آگے بڑھتا ہے۔ اسی لئے چریویتی-چریویتی-چریویتی، چلتے رہو، چلتے رہو، چلتے رہو، کا منتر لئے اپنی کوشش کرتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! ہم نے من کی بات چارٹر کے بارے میں بات کی۔ سووچھتا کے بعد جن بھاگیداری کا جذبہ پارٹیسپیٹیو اِسپرٹ آج ایک اور شعبے میں تیزی سے بڑھ رہی ہےاور وہ ہےجَل سنرکشن یعنی آبی تحفظ۔ آبی تحفظ کے لئے کئی وسیع اور اختراعاتی کوششیں ملک کے ہر کونے میں ہو رہی ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ مانسون کے وقت شروع کی گئی یہ جَل شکتی مہم جن بھاگیداری سے انتہائی کامیابی کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ بڑی تعداد میں تالابوں، پوکھروں آدی کی تعمیر کی گئی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس مہم میں سماج کے ہر طبقے کے لوگوں نے اپنا تعاون دیا۔ اب راجستھان کے جھارلو ضلعے کو ہی دیکھ لیجئے۔ یہاں کی دو تاریخی باؤڑیاں کوڑے اور گندے پانی کا ذخیرہ بن گئی تھیں۔ پھر کیا تھا! بھدرایوں اور تھان والا پنچایت کے سیکڑوں لوگوں نے جل شکتی ابھیان کے تحت اس کی بازیابی کا بیڑا اٹھایا۔ بارش سے پہلے ہی وہ لوگ ان باؤڑیوں میں جمعے ہوئے گندے پانی، کوڑے اور کیچڑ کو صاف کرنے میں جُٹ گئے۔ اس مہم کے لئے کسی نے شرم دان کیا، تو کسی نے دھن کا دان کیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ باؤڑیاں آج وہاں کی لائف لائن بن گئی ہیں۔ کچھ ایسی ہی کہانی ہے، اترپردیش کے بارہ بنکی کی۔ یہاں 43 ہیکٹیئرعلاقے میں پھیلی سَراہی جھیل اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی، لیکن گاؤں والوں نے اپنی قوت ارادی سے اس میں نئی جان ڈال دی۔ اتنے بڑے مشن کے راستے میں انہوں نے کسی بھی کمی کو آڑے نہیں آنے دیا۔ ایک کے بعد ایک کئی گاؤں آپس میں جڑتے چلے گئے۔ انہوں نے جھیل کے چاروں طرف ایک میٹر اونچا پُشتہ بنا ڈالا۔ اب جھیل پانی سے لبالب ہے اورآس پاس کا ماحول پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج رہا ہے۔
اتراکھنڈ کے الموڑہ-ہلدوانی ہائی وے سے متصل سُنیا کوٹ گاؤں سے بھی عوامی شراکت داری کی ایک ایسی ہی مثال سامنے آئی ہے۔ گاؤں والوں نے پانی کے بحران سے نمٹنے کیلئے خود ہی گاؤں تک پانی لانے کا عہد کیا۔پھر کیا تھا لوگوں نے آپس میں پیسے جمع کئے، منصوبہ بنایا، شرم دان ہوا اور تقریباً ایک کلومیٹر دور سے گاؤں تک پائپ بچھائی گئی، پمپنگ اسٹیشن لگایا گیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو دہائی پُرانا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ دوسری طرف تمل ناڈو میں بورویل کو رین واٹر ہارویسٹنگ یعنی بارش کا پانی جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کا بہت ہی اختراعاتی تصور سامنے آیا ہے۔ ملک بھر میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایسی بے شمار کہانیاں ہیں، جو نیو انڈیا کے عزائم کو تقویت دے رہی ہیں۔ آج ہمارے جَل شکتی چمپئنس کی کہانیاں سننے کا پورا ملک شائق ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ پانی جمع کرنے اور پانی کے تحفظ کے لئے کئے گئے اپنی یا اپنے قرب و جوار میں ہورہی کوششوں کی کہانیاں، تصاویر اور ویڈیو ہیش جل شکتی فار انڈیا(#jalshakti4India) پر ضرورشیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو! اور خاص طور پر میرےنوجوان ساتھیو!آج من کی بات کے ذریعے میں آسام کی حکومت اور آسام کے لوگوں کو ‘ کھیلو انڈیا’ کی شاندار میزبانی کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو! 22؍ جنوری کو ہی گوہاٹی میں تیسرے کھیلو انڈیا گیمز کا اختتام ہوا ہے۔ اس میں مختلف ریاستوں کے تقریباً 6000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کھیلوں کی اس تقریب کے اندر 80 ریکارڈ ٹوٹے اور مجھے فخر ہے کہ ان میں سے 56 ریکارڈ توڑنے کا کام ہماری بیٹیوں نے کیا ہے۔ یہ حصولیابی بیٹیوں کے نام رہی ہے۔ میں سبھی فاتحین کے ساتھ، اس میں حصہ لینے والے سبھی شرکا کو مبارکباد دیتاہوں۔ ساتھ ہی کھیلو انڈیا گیمز کے کامیاب انعقاد کےلئے اس سے وابستہ سبھی لوگوں تربیت دینے والوں او ر تکنیکی افسروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ہم سب کے لئے بہت ہی خوش آئند ہے کہ سال در سال ‘ کھیلو انڈیا گیمز’ میں کھلاڑیوں کی حصہ داری بڑھ رہی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ 2018 میں جب کھیلو انڈیا گیمز کی شروعات ہوئی تھی، جب اس میں 3500 کھلاڑیوں نے حصہ لیاتھا، لیکن محض 3 برسوں میں کھلاڑیوں کی تعداد 6000سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یعنی تقریباً دو گنی۔ اتنا ہی نہیں، صرف 3برسوں میں کھیلو انڈیا گیمز کے ذریعے 3200ہونہار بچے ابھرکرسامنے آئے ہیں۔ ان میں سے کئی بچے ایسے ہیں، جو محرومی اور غریبی کے درمیان پلے بڑھے ہیں۔ کھیلو انڈیا گیمز میں شامل ہونےوالے بچے ا ور ان کے والدین کے تحمل اور عزم مصمم کی کہانیاں ایسی ہیں، جو ہر ہندوستانی کو ترغیب دیں گی۔ اب گوہاٹی کی پورنیما منڈل کو ہی لے لیجئے۔ وہ خود گوہاٹی میونسپل کارپوریشن میں ایک صفائی ملازمہ ہیں، لیکن ان کی بیٹی مالویکا نے جہاں فُٹ بال میں دَم دکھایا، وہیں ان کے ایک بیٹے سُجیت نے کھوکھو میں ، تو دوسرے بیٹے پردیپ نے ہاکی میں آسام کی نمائندگی کی۔
کچھ ایسی ہی فخر سے بھردینے والی کہانی تملناڈو کے یوگا ننتھن کی ہے۔ وہ خود تو تمل ناڈو میں بیڑی بنانے کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کی بیٹی پورنا شری نے ویٹ لفٹنگ کا گولڈمیڈل حاصل کر کے ہر کسی کا دل جیت لیا۔ جب میں ڈیوڈ بیکھم کا نام لوں گا، تو آپ کہیں گے، مشہور بین الاقوامی فُٹ بالر، لیکن اب اپنے پاس بھی ایک ڈیوڈ بیکھم ہیں اور اس نے گوہاٹی کے یوتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا ہے، وہ بھی سائکلنگ مقابلے کے 200 میڑ کے اسپرنٹ ایونٹ میں ۔ میں جب انڈمان –نکوبار گیاتھا، کار-نکوبار جزیرے کے رہنے والے ڈیوڈ کے سرسے بچپن میں ہی والدین کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ چچا انہی فُٹ بالر بنانا چاہتے تھے، تو مشہور فٹبالر کے نام پر ان کا نام رکھ دیا، لیکن ان کا من تو سائیکلنگ میں بسا ہوا تھا۔ کھیلو انڈیا اسکیم کے تحت ان کا انتخاب بھی ہو گیا اور آج دیکھئے انہوں نے سائیکلنگ میں ایک نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔
بھوانی کے پرشانت سنگھ کنہیا نے پول وال ایونٹ میں خود اپنا ہی نیشنل ریکارڈ بریک کیا ہے۔ 19 سال کے پرشانت ایک کسان کنبے سے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ پرشانت مٹی میں پول والٹ کی پریکٹس کرتے تھے۔ یہ جاننے کے بعد محکمہ کھیل نے ان کے کوچ کو دلی کے جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میں اکیڈمی چلانے میں مدد کی اور آج پرشانت وہاں پر تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
ممبئی کی کرینہ شانکتا کی کہانی میں کسی بھی حالت میں ہار نہیں ماننے کا ایک جذبہ ہر کسی کو تحریک دلاتا ہے۔ کرینہ نے تیراکی میں 100 میٹر بریسٹ –اسٹروک مقابلے کی انڈر-17زمرے میں گولڈ میڈل جیتا اور نیا نیشنل ریکارڈ بنایا۔ 10ویں زیر تعلیم کرینہ کے لئے ایک وقت ایسا بھی آیا، جب گھٹنے کے زخم کے سبب ٹریننگ چھوڑنی پڑی تھی، لیکن کرینہ اور ان کی ماں نے ہمت نہیں ہاری اورآج نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ میں سبھی کھلاڑیوں کے روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں سبھی ہم وطنو کی طرف سے ان سب کے والدین کو بھی سلام کرتا ہوں، جنہوں نے غریبی کو بچوں کے مستقبل کا روڑا نہیں بننے دیا۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ قومی کھیل مقابلوں کے ذریعہ جہاں کھلاڑیوں کو اپنا پیشن دکھانے کا موقع ملتا ہے، وہیں وہ دوسری ریاستوں کی ثقافت سے بھی روبرو ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم نے کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کی طرز پر ہی ہر سال کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ساتھیو !آئندہ ماہ 22؍ فروری سے یکم مارچ تک اڈیشہ کے کٹک اور بھونیشور میں پہلے کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز منعقد ہو رہے ہیں۔ اس میں حصہ لینے کے لئے 3000سے زیادہ کھلاڑی کوالیفائی کر چکے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! امتحان کا موسم آ چکا ہے، تو ظاہر ہے ، سبھی طلبا اپنی اپنی تیاریوں کو آخری شکل دینے میں جٹے ہوں گے۔ ملک کے کروڑوں طلبہ ساتھیوں کے ساتھ ‘ پریکشا پے چرچا’ کے تجربے کے بعد میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ ملک کا نوجوان خود اعتمادی سے لبریز ہے اور ہر چیلنج کے لئے تیار ہے۔
ساتھیو! ایک طرف امتحانات اور دوسری طرف سردی کا موسم۔ ان دونوں کے درمیان میری گزارش ہے کہ خود کوفِٹ ضرور رکھیں۔ تھوڑی بہت کسرت ضرور کریں، تھوڑا کھیلیں کودیں، کھیل کود فٹ رہنے کا بنیادی اصول ہے۔ ویسے میں ان دنوں دیکھتا ہوں کہ فٹ انڈیا کے تعلق سے کئی سارے ایونٹ ہوتے ہیں۔ 18؍جنوری کو نوجوانوں نے ملک بھر میں سائیکلوتھن کا انعقاد کیا، جس میں شامل لاکھوں ہم وطنوں نے فٹنس کا پیغام دیا۔ ہمارا نیو انڈیا پوری طرح سے فٹ رہے، اس کے لئے ہر سطح پر جو کوشش دیکھنے کو مل رہی ہیں، وہ جوش و جذبے سے بھر دینے والی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں شروع ہوئی ‘فٹ انڈیا اسکول’ کی مہم بھی اب رنگ لا رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اب تک 65000 سے زیادہ اسکولوں نے آن لائن رجسٹریشن کر کے ‘ فٹ انڈیا اسکول’ سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔ ملک کے باقی سبھی اسکولوں سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ فزیکل ایکٹیویٹی اور کھیلوں کو پڑھائی کے ساتھ جوڑ کر ‘ فٹ اسکول’ ضروربنیں۔ اس کے ساتھ ہی میں سبھی ہم وطنوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی معمولات زندگی میں فزیکل ایکٹیویٹی کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوادیں۔ روز اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ ہم فٹ، تو انڈیا فٹ۔
میرے پیارے ہم وطنو! 2 ہفتہ پہلے ہندوستان کے الگ الگ حصوں میں، الگ الگ تہواروں کی دھوم تھی۔ جب پنجاب میں لوہڑی، جوش و جذبے کی گرماہٹ پھیلا رہی تھی، تمل ناڈو کی بہنیں اور بھائی پونگل کا تہوار منا رہے تھے، ترو ولور کی جینتی منا رہے تھے، آسام میں بیہو کا دلفریب نظارہ دیکھنے کو مل رہا تھا، گجرات میں ہر طرف اُتّرائن کی دھوم اور پتنگوں سے بھرا آسمان تھا۔ ایسے وقت میں دلی ایک تاریخی واقعے کی گواہ بن رہی تھی۔ دلی میں ایک اہم معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً 25 سال پرانے بُرورِیانگ پناہ گزیں بحران کے ایک دردناک باب کا خاتمہ ہوا۔ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔ اپنے مصروف اوقات اور تہواروں کے موسم کے سبب آپ شائد اس تاریخی معاہدے کے بارے میں تفصیل سے نہیں جان پائے ہوں۔ اس لئے مجھے لگا کہ اس کے بارے میں من کی بات میں آپ سے اس کا ذکر ضرور کروں۔ یہ مسئلہ 90 کی دہائی کا ہے۔ 1997 میں نسلی کشیدگی کے سبب بُروریانگ درج فہرست قبائل کے لوگوں کو میزورم سے نکل تریپورہ میں پناہ لینی پڑی تھی.۔ ان پناہ گزینوں کو شمالی تریپورہ کے کنچن پور واقع عارضی کیمپوں میں رکھا گیا۔ یہ انتۃائی تکلیف دہ ہے کہ گروریانگ برادری کے لوگوں نے پناہ گزینوں کی شکل میں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ گنوا دیا۔ ان کے لئے کیمپوں میں زندگی گزارنے کا مطلب تھا، ہر بنیادی سہولت سے محروم ہونا۔ 23 سال تک نہ گھر، نہ زمین، نہ خاندان کے لوگوں کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام اور نا ہی بچوں کی تعلیم کی فکر یا ان کے لئے سہولت۔ ذرا سوچئے کہ 23 سال تک کیمپوں میں مشکل حالات میں زندگی گزارنا ان کے لئے کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا۔ زندگی کے ہر پل ، ہر دن کا ایک غیرمعینہ مستقبل کے ساتھ بڑھنا، کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا۔ حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، لیکن اتنی بڑی تکلیف کا حل نہیں نکل پایا۔ تاہم اتنی تکلیف کے باوجود ہندوستانی آئین اور ثقافت کے تئیں ان کا بھروسہ غیر متزلزل رہا اور اسی بھروسے کا نتیجہ ہے کہ ان کی زندگی میں آج ایک نیا سویرا آیا ہے۔ معاہدے کے تحت اب ان کے لئے با وقار زندگی جینے کی راہ کھل گئی ہے۔ آخر کا ر2020 کی نئی دہائی بروریانگ برادری کی زندگی میں ایک نئی امیداورامنگوں کی کرن لے کر آئی ہے۔ تقریباً 34 ہزار برو پناہ گزینوں کو تریپورہ میں بسایا جائے گا۔ اتنا ہی نہیں ان کی بازآبادکاری اور جامع ترقی کے لئے مرکزی حکومت تقریباً 600کروڑروپے کی مدد بھی دے گی۔ ہر ایک بے گھر ہوئے کنبےکو زمین دی جائے گی۔ گھر بنانے میں ان کی مدد کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے راشن کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ وہ اب مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی فلاح و بہبود سے متعلق اسکیموں کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ معاہدہ دونوں ریاستوں کے عوام کی رضا مندی اور نیک خواہشات سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس کے لئے میں دونوں ریاستوں کی عوام کا ، وہاں کے وزرائے اعلیٰ کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معاہدہ ہندوستانی ثقافت میں شامل رحم اور فیاضی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سبھی کو اپنا مان کر چلنا اور اتحاد کے ساتھ رہنا اس مقدس سرزمین کے سنسکاروں میں رچا بسا ہے۔ ایک بار پھر ان ریاستوں کے باشندوں اور بروریانگ برادری کے لوگوں کو میں خاص طو رپر مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے ہم وطنو! اتنے بڑے کھیلو انڈیا گیمز کا کامیاب انعقاد کرنے والے آسام میں ایک اور بڑا کا م ہو اہے۔ آپ نے بھی نیوز میں دیکھا ہوگا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے آسام میں 8 الگ-الگ ملیٹینٹ گروپوں کے 644 لوگوں نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ خودسپردگی کی، جو پہلے تشدد کی راہ پر چلے گئے تھے، انہوں نے اپنا یقین امن میں جتایا اور ملک کی ترقی میں شراکت دار بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی دھارے میں واپس آئے ہیں۔ گزشتہ برس تریپور ہ میں بھی 80 سے زیادہ لوگ تشدد کا راستہ چھوڑ کر قومی دھارے میں شام ہوئے۔ جنہوں نے یہ سوچ کر ہتھیار اٹھا لئے تھے کہ تشدد سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ یقین پختہ ہوا ہے کہ امن اور اتحاد ہی کسی بھی تنازعے کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم وطنو کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ شمال-مشرق میں شورش بہت حد تک کم ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس علاقےسے متعلق ہر ایک معاملے کو امن کے ساتھ ، ایمانداری سے، بات چیت کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے۔ ملک کے کسی بھی کونے میں اب بھی تشدد اور ہتھیار کے زور پر مسائل کا حل تلاش کرنے والے لوگوں سےآج اس یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ واپس لوٹ آئیں۔ مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کرنے میں اپنی اور اس ملک کی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں۔ ہم 21ویں صدی میں ہیں، جو علم و سائنس او ر جمہوریت کا دور ہے۔ کیا آپ نے کسی ایسی جگہ کے بارے میں سنا ہے، جہاں تشدد سے زندگی بہتر ہوئی ہو۔ کیا آپ نےکسی ایسی جگہ کےبارے میں سنا ہے، جہاں امن و ہم آہنگی زندگی کے لئے مصیبت بنے ہوں۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں کرتا۔ دنیا کے کسی مسئلے کا حل کوئی دوسرا مسئلہ پیدا کرنے سے نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ حل ڈھونڈ کر ہی ہو سکتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسے نئے بھارت کی تعمیر میں جُٹ جائیں، جہاں امن، ہر سوال کے جواب کی بنیاد ہو۔اتحاد ہر مسئلے کے حل کی کوشش میں ہو اور بھائی چارہ ہر تقسیم اور بٹوارے کی کوشش کو نا کام کرے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر مجھے ‘گگن یان’ کے بارے میں بتاتے ہوئےانتہائی خوشی ہورہی ہے۔ ملک ، اس سمت میں ایک قدم اور آگے کی طرف گامزن ہے۔ 2022 میں، ہماری آزادی کے 75 سال پورے ہونے والے ہیں اور اس موقع پر ہمیں‘ گگن یان مشن’ کے ساتھ ایک بھارتی شہری کو خلاء میں لے جانے کے اپنے عہد کو پورا کرنا ہے۔ ‘ گگن یان مشن’ 21ویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کی ایک تاریخی حصولیابی ہوگا۔ نئے بھارت کیلئے، یہ ایک ‘میل کا پتھر’ ثابت ہوگا۔
ساتھیو، آپ ک وپتہ ہی ہوگا کہ اس مشن میں ایسٹرناٹ یعنی خلانوردی کیلئے 4 امیدواروں کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ یہ چاروں نوجوان بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ہیں۔ یہ ہونہار نوجوان، بھارت کی ہنرمندی، صلاحیت، اہلیت، ہمت اور سپنوں کی علامت ہیں۔ ہمارے چاروں دوست، اگلے کچھ ہی دنوں میں تربیت کیلئے روس جانے والے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بھارت اور روس کے درمیان دوستی اور تعاون کا ایک اور سنہرا باب بنے گا۔ انہیں ایک سال سے زیادہ وقت تک تربیت دی جائے گی۔ اس کے بعد ملک کی امیدوں اور توقعات کی پرواز کو خلاء تک لے جانے کا دارومدار، انہیں میں سے کسی ایک پر ہوگا۔ آج یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر ان چاروں نوجوانوں اور اس مشن سے مربوط بھارت اور روس کے سائنسدانوں اور انجینئروں کو میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے عزیز ہم وطنو،
گزشتہ مارچ میں ایک ویڈیو، میڈیا، سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ موضوع یہ تھا کہ کیسے 107 سال کی بزرگ ماں، راشٹر پتی بھون کی تقریب میں پروٹوکول توڑ کر صدر جمہوریہ ہند کو دعائیں دیتی ہے۔ یہ خاتون تھیں، سالو مردا تھمکّا، جو کرناٹک میں ورِکش ماتا کے نام سے معروف ہیں اور وہ تقریب تھی پدم انعامات کی۔ بہت ہی عام قسم کے پس منظر سے آنے والی تھمکا کے غیر معمولی تعاون کو ملک نے جانا، سمجھا اور احترام دیا۔ انہیں پدم شری کا اعزاز مل رہا تھا۔
ساتھیو! آج بھارت ان عزیم شخصیات کو لے کر فخر کا احساس کرتا ہے۔ زمین سے وابستہ لوگوں کو اعزاز سے نواز کر فخر کا احساس کرتا ہے۔ ہر سال کی طرح کل شام کو پدم انعامات کا اعلان کیا گیا۔ میرا اصرار ہے کہ آپ سب ان لوگوں کےبارے میں ضرور پڑھیں۔ ان کے تعاون کے بارے میں ذکر کریں۔ 2020 کے پدم انعامات کے لئے اس سال 46 ہزار سے زیادہ نامزدگیاں حاصل ہوئی ہیں۔ یہ تعداد 2014 کے مقابلے 20گنا سے بھی زائد ہے۔ یہ اعداد و شمار عوام الناس کے اس اعتماد کا مظہر ہے کہ پدم انعامات اب عوامی انعامات بن چکے ہیں۔ آج پدم اعزاز سے متعلق سبھی عمل آن لائن ہیں۔ پہلے جو فیصلے محدود لوگوں کے درمیان ہوتے تھے، وہ آج پوری طرح سےعوا م پر منحصر ہے۔ ایک طرح سے کہیں، تو پدم اعزازات کے تئیں ملک میں ایک نیا بھروسہ اور احترام پیدا ہوا ہے۔ اب اعزاز پانےوالوں میں سے کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جوسخت جدو جہدکے بعد زمین سے اٹھے ہیں۔ محدود وسائل کی رکاوٹوں اور اپنے آس پاس کی سخت ترین مایوسی کو توڑ کر آگے بڑھے ہیں۔ در حقیقت ، اس کی خدمت کے بے غرض اور بے لوث جذبے، ہم سب کو متاثرکرتے ہیں۔ میں ایک بار پھر تمام پدم ایوارڈ جیتنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوںاور آپ سبھی سے ان کے بارے میں پڑھنے کیلئے اور مزید معلومات کیلئے خاص طور سے اپیل کرتا ہوں۔ ان کی زندگی کی غیر معمولی کہانیاں، معاشرے کو حقیقی معنوں میں متاثر کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو! ایک بار پھر یوم جمہوریہ کی بہت بہت مبارکباد۔ یہ پوری دہائی ، آپ کی زندگی میں ، ہندوستان کیلئے ، نئے عہد والا بنےاور دنیا کو ہندوستان سے جو توقعات ہیں، ان توقعات کو پورا کرنے کی اہلیت، ہندوستان حاصل کر کے رہے۔ یقین کے ساتھ آئیے ہم نئی دہائی کا آغاز کرتے ہیں۔ نئے عزائم کے ساتھ ، ماں بھارتی کیلئے جُٹ جاتے ہیں۔
بہت بہت شکریہ! نمسکار
نئی دہلی، 29 دسمبر؍ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! 2019 کے وداع ہونے کا لمحہ ہمارے سامنے ہے۔ تین دن کے اندر اندر 2019 وداع ہوگا اور ہم نہ صرف 2020 میں داخل ہوں گے، نئے سال میں داخل ہوں گے، نئی دہائی میں داخل ہوں گے، 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہوں گے۔ میں سبھی ہم وطنوں کو 2020 کے لیے دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس دہائی کے بارے میں ایک بات تو یقینی ہے کہ اس میں، ملک کی ترقی کو رفتار دینے میں وہ لوگ سرگرم کردار ادا کریں گے جن کی پیدائش 21ویں صدی میں ہوئی ہے- جو اس صدی کے اہم مسئلوں کو سمجھتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے آج بہت سارے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے، کوئی انھیں ملی نیلس کی شکل میں جانتا ہے تو کچھ انھیں جنریشن زیڈ یا تو جین زیڈ یہ بھی کہتے ہیں اور وسیع طور پر ایک بات تو لوگوں کے دماغ میں فٹ ہوگئی ہے کہ یہ سوشل میڈیا جنریشن ہے۔ ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہماری یہ نسل بہت ہی باصلاحیت ہے۔ کچھ نیا کرنے کا، الگ کرنے کا، اس کا خواب رہتا ہے۔ اس کی اپنی رائے بھی ہوتی ہیں۔ اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے، اور خاص طور پر ، میں ،ہندوستان کے بارے میں کہنا چاہوں گا، کہ ، ان دنوں نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں، تو وہ ، نظام کو پسند کرتے ہیں، سسٹم کو پسند کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ، وہ سسٹم کو ، فالو بھی کرنا پسند کرتے ہیں۔ اور کبھی، کہیں سسٹم صحیح طورپر کام نہ کریں تو وہ بے چین بھی ہوجاتے ہیں اور ہمت کے ساتھ، نظام کو ، سوال بھی کرتے ہیں۔ میں اسے اچھا مانتا ہوں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، انتشار کے تئیں نفرت ہے۔ بدنظمی، عدم استحکام اس کے تئیں ان کو ، بڑی چڑھ ہے۔ وہ کنبہ پروری، ذات پات کے نظام ، اپنا پرایا، مرد وخواتین ان بھید بھاؤ کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہوائی اڈے پر، یا تو سینما کے تھیٹر میں بھی، اگر کوئی قطار میں کھڑا ہے اور بیچ میں کوئی گھس جاتا ہے تو سب سے پہلے آواز اٹھانے والے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ اور ہم نے تو دیکھا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو دوسرے نوجوان فوراً اپنا موبائل فون نکال کر اس کی ویڈیو بنا دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ویڈیو وائرل بھی ہوجاتا ہے اور جو غلطی کرتا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ کیا ہوگیا تو ایک نئے قسم کا نظام ، نئے قسم کا دور، نئے طرح کی سوچ، اس کی ہماری نوجوان نسل عکاسی کرتی ہے۔آج ہندوستان کو اس نسل سے بہت امید ہے ان ہی نوجوانوں کو ملک کو ، نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، سوامی وویکانند جی نے کہا تھا کہ “My faith is in the younger generation, the modern generation; out of them will come my workers” انھوں نے کہا تھا کہ ‘‘میرا یقین نوجوان نسل میں ہے، اس جدید نسل میں ہے، موڈرن جنریشن میں ہے، اور انھوں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا ان ہی میں سے ، میرے کارکنان نکلیں گے’’نوجوانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘‘جوانی کی قیمت کا نہ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے’’۔ یہ زندگی کا سب سے قیمتی عہد ہوتا ہے۔ آپ کا مستقبل اور آپ کی زندگی اس پر انحصار کرتی ہے کہ آپ اپنی جوانی کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ وویکانند جی کے مطابق جوان وہ ہے جو توانائی اور فعالیت سے بھرپور ہے اور تبدیلی کی طاقت رکھتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہندوستان میں ، یہ دہائی نہ صرف نوجوانوں کی ترقی کا ہوگا بلکہ نوجوانوں کی طاقت سے ملک کی ترقی کرنے والا بھی ثابت ہوگی اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں اس نسل کا بہت بڑا کردار ہونے والا ہے۔ یہ میں صاف طور پر مشاہدہ کرتا ہوں۔ آئندہ 12 جنوری کو وویکانند کی یوم پیدائش پر جب ملک یووا دیوس منا رہا ہو گا تب ہر نوجوان اس دہائی میں اپنے اس فرض پر ضرور غور بھی کرے اور اس دہائی کے لیے ضرور کوئی عہد بھی لے۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ میں سے کئی لوگوں کو کنیا کماری میں جس پتھر پر سوامی وویکانند جی نے مراقبہ کیا تھا، وہاں پر جو وویکانند راک میموریل بنا ہے، اس کے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں۔ پچھلے پانچ دہائی میں، یہ جگہ ہندوستان کے لیے باعث فخر رہا ہے۔ کنیا کماری، ملک اور دنیا کے لیے ایک قابل توجہ مرکز رہا ہے۔ قوم پرستی سے بھرے ہوئے روحانی شعور کو محسوس کرنے والے، ہر کسی کے لیے، یہ ایک زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔ عقیدت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سوامی جی کے اسمارک نے ہر پنتھ، ہر عمر کے، طبقہ کے لوگوں کو قوم پرستی کے لیے تحریک بخشا ہے۔ ‘دریدر نارائن کی سیوا’ اس منتر کو جینے کا راستہ دکھایا ہے۔ جو بھی وہاں گیا، اسے طاقت ملی، مثبت جذبات بیدار ہوئے، ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا- یہ بہت فطری ہے۔
ہمارے عزت مآب صدر جمہوریہ جی بھی پچھلے دنوں اس پچاس سال پہلے بنے راک میموریل کا دورہ کرکے آئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نائب صدر جمہوریہ جی بھی گجرات کے، کچھ کے رن میں، جہاں ایک بہت ہی عمدہ رن اتسو ہوتا ہے، اس کے افتتاح کے لیے گئے تھے۔ جب ہمارے صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ بھی، ہندوستان میں ہی ایسے اہم سیاحتی مقامات پر جارہے ہیں، ہم وطنوں کو، اس سے ضرور ترغیب ملتی ہے- آپ بھی ضرور جائیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم الگ الگ کالجوں میں، یونیورسٹیوں میں، اسکولوں میں پرھتے تو ہیں، لیکن، پڑھائی پوری ہونے کے بعدAlumni meet ایک بہت ہی خوشگوار موقع ہوتا ہے اور Alumni meet، یہ سب نوجوان مل کر کے پرانی یادوں میں کھو جاتے ہیں، جن کی 10 سال، 20 سال، 25 سال پیچھے چلی جاتی ہیں، لیکن، کبھی کبھی ایسی Alumni meet، خاص توجہ کا باعث بن جاتے ہیں، اس پر دھیان جاتا ہے اور ہم وطنوں کا بھی دھیان اس طرف جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ Alumni meet، دراصل، پرانے دوستوں کے ساتھ ملنا، یادوں کو تازہ کرنا، اس کا اپنا ایک الگ لطف ہے اور جب اس کے ساتھ مشترکہ مقصد ہو، کوئی عہد ہو، کوئی جذباتی لگاؤ جڑ جائے پھر تو، اس میں کئی رنگ بھر جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سابق طلبا کے گروپ کبھی کبھی اپنے اسکولوں کے لیے کچھ نہ کچھ خدمات پیش کرتے ہیں۔ کوئی کمپیوٹرائز کرنے کے لیےانتظامات فراہم کردیتے ہیں، کوئی اچھی لائبریری بنا دیتے ہیں کوئی پانی کی اچھی سہولتیں فراہم کردیتے ہیں، کچھ لوگ نئے کمرے بنانے کے لیے کرتے ہیں، کچھ لوگ اسپورٹس کمپلیکس کے لیے کرتے ہیں، کچھ نہ کچھ کرلیتے ہیں، ان کو لطف آتا ہے کہ جس جگہ پر اپنی زندگی سنورا اس کے لیے زندگی میں کچھ کرنا ہے۔ یہ ہر کسی کے دل میں رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے اور اس کے لیے لوگ آگے بھی آتے ہیں، لیکن میں آج کسی ایک خاص موقع کو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی پچھلےدنوں میڈیا میں بہار کے مغربی چمپارن ضلع کے بھیرو گنج ہیلتھ سینٹر کی کہانی جب میں نے سنی مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں آپ لوگوں کو بتائے بغیر رہ نہیں سکتا ہوں۔ اس بھیروگنج ہیلتھ سینٹر کے یعنی صحت مرکز میں، مفت میں ہیلتھ چیک اَپ کروانے کے لیے آس پاس کے گاؤں کے ہزاروں لوگوں کی بھیڑ جٹ گئی۔ اب یہ کوئی بات سن کرکے آپ کو تعجب نہیں ہوگا۔ آپ کو لگتا ہے، اس میں کیا نئی بات ہے؟ آئے ہوں گے لوگ! جی نہیں! بہت کچھ نیا ہے۔ یہ پروگرام حکومت کا نہیں تھا، نہ ہی حکومت کی پہل تھی۔ یہ وہاں کے ، کے آر ہائی اسکول، اس کے جو سابق طالب علم تھے، ان کی جو Alumni meet تھی، اس کے تحت اٹھایا گیا قدم تھا، اور اس کا نام دیا تھا ‘سنکلپ 95’۔ سنکلپ 95 کا مطلب ہے اس ہائی اسکول کے 1995 بیچ کے طالب علموں کا عہد۔ دراصل، اس بیچ کے طالب علموں نے ایک Alumni meetرکھی اور کچھ الگ کرنے کے لیے سوچا۔ اس میں سابق طالب علموں نے سماج کے لیے، کچھ کرنے کی ٹھانی۔ اور انھوں نے عہد کیا کہ عوامی صحت بیداری کا۔ ‘سنکلپ 95’ کی اس مہم میں بیتیا کے سرکاری میڈیکل کالج اور کئی اسپتال بھی شامل ہوگئے۔ اس کے بعد تو جیسے عوامی صحت کو لے کر ایک پوری مہم ہی چل پڑی۔ مفت چانچ ہو، مفت میں دوائیں دینا ہو یا پھر بیداری پیدا کرنے کا، ‘سنکلپ 95’ ہر کسی کے لیے ایک مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ ہم اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ جب ملک کا ہر شہری ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو یہ ملک 130 کروڑ قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے باتیں جب سماج میں براہِ راست دیکھنے کو ملتی ہے تو ہر کسی کو مزہ آتا ہے، اطمینان ہوتا ہے اور زندگی میں کچھ کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ ایک طرف جہاں بہار کے بیتیا میں سابق طالب علموں کے گروپ نے صحت خدمات کا بیڑا اٹھایا ہے وہیں اترپردیش کے پھولپور کی کچھ خواتین نے اپنی مہم جوئی سے پورے علاقے کو تحریک دی ہے۔ ان خواتین نے ثابت کیا ہے کہ اگر متحد ہوکر کوئی عہد کریں تو پھر حالات کو بدلنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ کچھ دنوں پہلے تک، پھولپور کی یہ خواتین معاشی تنگی اور غریبی سے پریشان تھیں، لیکن ان میں اپنے خاندان اور سماج کے لیے کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ ان خواتین نے، کادیپور کے اپنی مدد آپ گروپ، ویمن سیلف ہیلپ گرو، اس کے ساتھ جڑکر چپل بنانے کا ہنر سیکھا، اس سے انھوں نے، نہ صرف اپنے پیروں میں چبھے مجبوری کے کانٹے کو نکال پھینکا بلکہ خود انحصار بن کر اپنے خاندان کی علامت بھی بن گئیں۔ دیہی روزگار مشن کی مدد سے اب تو یہاں چپل بنانے کا پلانٹ بھی قائم ہوگیا ہے۔ جہاں جدید مشینوں سے چپل بنائی جارہی ہیں۔ میں خاص طور سے مقامی پولیس اور ان کے خاندانوں کو بھی مبارک باد دیتا ہوں، انھوں نے اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے، ان خواتین کے ذریعہ بنائی گئیں چپلیں خریدکر، ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ آج ان خواتین کے عہد سے نہ صرف ان کے خاندان کی اقتصادی حالت مضبوط ہوئی ہے بلکہ زندگی کا معیار بھی بلند ہوا ہے۔ جب پھولپور کی پولیس کے جوانوں کی یا ان کے خاندانوں کی باتیں سنتا ہوں تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں لال قلعہ سے 15 اگست کو ہم وطنوں کو ایک بات کی اپیل کی تھی اور میں نے کہا تھا کہ ہم مقامی پیداوار خریدیں، آج پھر سے ایک بار میری صلاح ہے ، کیا ہم مقامی سطح پر بنی پیداوار کو حوصلہ دے سکتے ہیں؟ کیا اپنی خریداری میں انھیں ترجیح دے سکتے ہیں؟ کیا ہم مقامی پیداوار کو اپنی شان وشوکت سے جوڑ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس جذبہ کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کے لیے خوشحالی لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ ساتھیو، مہاتما گاندھی نے، سودیشی کے اس جذبہ کو، ایک ایسے چراغ کی شکل میں دیکھا جو لاکھوں لوگوں کی زندگی کو روشن کرتا ہوں۔ غریب سے غریب کی زندگی میں خوشحالی لاتا ہوں۔ سو سال پہلے گاندھی جی نے ایک بڑی تحریک شروع کی تھی اس کا ایک مقصد تھا ۔ ہندوستانی پیداواروں کو فروغ دینا۔ خود انحصاری کا یہی راستہ گاندھی جی نے دکھایا تھا۔ 2022 میں، ہم اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کریں گے، جس آزاد ہندوستان میں ہم سانس لے رہے ہیں، اس ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے بامقصد سپوتوں نے، بیٹے بیٹیوں نے، بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں، بیشمار نےاپنی جانیں قربان کی ہیں۔ بامقصد لوگوں کے تیاگ، قربانی کے باعث، جہاں آزادی ملی، جس آزادی کا ہم بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، آزاد زندگی ہم جی رہے ہیں اور ملک کے لیے مر مٹنے والے، ملک کے لیے زندگی نچھاور کرنے والےمشہور اور غیر مشہور بے شمار لوگ، شاید، مشکل سے ہم، بہت کم ہی لوگوں کے لوگوں کے نام جانتے ہوں گے، لیکن، انھوں نے قربانی دیا، ان خوابوں کو لے کر، آزاد ہندوستان کے خوابوں کو لے کر – خوشحال، پرسکون، آزاد ہندوستان کے لیے!
میرے پیارے ہم وطنو، کیا ہم عہد کرسکتے ہیں، کہ 2022، آزادی کے 75 سال ہو رہے ہیں، کم سے کم، یہ دو تین سال، ہم مقامی پیداوار خریدنے کے پیش قدمی کریں؟ ہندوستان میں بنا، ہمارے ہم وطنوں کے ہاتھوں سے بنا، ہمارے ہم وطنوں کے پسینوں کی جس میں مہک ہو، ایسی چیزوں کو، ہم، خریدنے کی پہل کرسکتے ہیں کیا؟ میں طویل مدت کے لیے نہیں کہتاہوں، صرف 2022 تک، آزادی کے 75 سال ہو تب تک۔ اور یہ کام، سرکاری نہیں ہونا چاہیے۔ جگہ جگہ پر نوجوان آگے آئیں، چھوٹی چھوٹی تنظیم بنائیں، لوگوں کو ترغیب دیں، سمجھائیں اور طے کریں – آؤ ہم مقامی سامان خریدیں گے۔ مقامی پیداوار پر زور دیں گے۔ ہم وطنوں کے پیسنے کی جس میں مہک ہو – وہی، میرے آزاد ہندوستان کا خوشگوار پل ہو، ان خوابوں کو لے کر ہم چلیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، یہ، ہم سب کے لیے بہت ہی اہم ہے، کہ ملک کے شہری، خود انحصار بنیں اور وقات کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔ میں ایک ایسی پہل کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کی طرف میری توجہ گئی اور وہ پہل ہے، جموں-کشمیر اور لداخ کا حمایت پروگرام۔ حمایت دراصل ہنرمندی کے فروغ اور روزگار سے جڑا ہے۔ اس میں 15 سے 35 سال تک کے بچے اور جوان شامل ہوتے ہیں۔ یہ، جموں-کشمیر کے وہ لوگ ہیں جن کی پڑھائی، کسی وجہ سےپوری نہیں ہوپائی، جنھیں، بیچ میں ہی اسکول –کالج چھوڑنا پڑا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو جان کر بہت اچھا لگے گا، کہ اس پروگرام کے تحت، پچھلے دو سالوں میں، اٹھارہ ہزار نوجوانوں کو 77 الگ الگ ٹریڈ میں تربیت دی گئی ہے۔ ان میں سے، تقریباً پانچ ہزار لوگ تو، کہیں نہ کہیں نوکری کررہے ہیں اور بہت سارے خود روزگار کی طرف آگے بڑھے ہیں۔ حمایت پروگرام سے اپنی زندگی بدلنے والے ان لوگوں کی جو کہانیاں سننے کو ملی ہیں وہ سچ مچ دلوں کو چھو لیتی ہیں۔
پروین فاطمہ، تمل ناڈو کے تری پور کی ایک گارمنٹ یونٹ میں ترقی پانے کے بعد سپروائزر- کم- کوآرڈی نیٹر بنی ہیں۔ ایک سال پہلے تک، وہ کارگل کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہ رہی تھی۔ آج اس کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی، خوداعتمادی آئی- وہ خود انحصار ہوئی ہے اور اپنے پورے خاندان کے لیے بھی اقتصادی ترقی کا موقع لے کر آئی ہے۔ پروین فاطمہ کی طرح ہی حمایت پروگرام میں لیہہ، لداخ علاقے کے باشندوں، دیگر بیٹیوں کی بھی قسمت بدلی ہے اور یہ سبھی آج تمل ناڈو کی اسی فارم میں کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح حمایت ڈوڈا کے فیاض احمد کے لیے تحفہ بن کے آیا ہے۔ فیاض نے 2012 میں، 12ویں کا امتحان پاس کیا لیکن بیماری کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکے۔ فیاض دو سال تک دل کی بیماری میں مبتلا رہے۔ اس درمیان، ان کے ایک بھائی اور ایک بہن کا انتقال بھی ہوگیا۔ ایک طرح سے ان کے خاندان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آخر کار، انھیں حمایت سے مدد ملی۔ حمایت کے ذریعہ آئی ٹی ای ایس یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی انیبل سروسز میں ٹریننگ ملی اور وہ آج پنجاب میں نوکری کر رہے ہیں۔
فیاض احمد کی گریجویشن کی پڑھائی، جو انھوں نے ساتھ ساتھ جاری رکھی وہ بھی اب پوری ہونے والی ہے۔ حال ہی میں، حمایت کے ایک پروگرام میں انھیں اپنا تجربہ شیئر کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اپنی کہانی سناتے وقت انھیں آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ اسی طرح اننت ناگ کے رقیب الرحمان، معاشی تنگی کے باعث اپنی پڑھائی پوری نہیں کر پائے۔ ایک دن، رقیب کو اپنے بلاک میں جو ایک کیمپ لگا تھا موبیلائیزیشن کیمپ، اس کے ذریعہ حمایت پروگرام کا پتہ چلا۔ رقیب نے فوراً ریٹیل ٹیم لیڈر کورس میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ٹریننگ پوری کرنے کے بعد آج، وہ ایک کارپوریٹ ہاؤس میں نوکری کر رہے ہیں۔ ‘حمایت مشن’ سے مستفید، باصلاحیت نوجوانوں کی ایسی کئی ہیں جو جموں- کشمیر میں تبدیلی کی علامت بنے ہیں۔ حمایت پروگرام، سرکار، ٹریننگ پارٹنر، نوکری دینے والی کمپنیاں اور جموں کشمیر کے لوگوں کے درمیان ایک بہترین تال میل کی مثال ہے۔
اس پروگرام نے جموں وکشمیر میں نوجوانوں کے اندر ایک نئی خوداعتمادی پیدا کی ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ بھی ہموار کیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! 26 تاریخ کو ہم نے اس دہائی کا آخری سورج گرہن دیکھا۔ شاید سورج گرہن کے اس واقعہ سے ہی مائی گو پر ریپن نے بہت ہی دلچسپ تبصرہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ ‘نمسکار سر، میرا نام ریپن ہے۔ میں شمال مشرق کا رہنے والا ہوں لیکن ان دنوں جنوب میں کام کرتا ہوں۔ ایک بات میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ہمارے علاقے میں آسمان صاف ہونے کی وجہ سے ہم گھنٹوں، آسمان میں تاروں پر ٹکٹکی لگائے رکھتے تھے۔ تاروں پر ٹکٹکی لگانا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اب میں ایک پروفیشنل ہوں۔ اور اپنی روزمرہ کے باعث، میں ان چیزوں کے لیے وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔ کیا آپ اس موضوع پر کچھ بات کرسکتے ہیں کیا؟ خاص طور سے علم فلکیات کو نوجوانوں کے درمیان کیسے مقبول بنایا جاسکتا ہے؟
میرے پیارے ہم وطنو، میرے پاس مشورے بہت ہیں لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کا مشورہ شاید پہلی بار میرے پاس آیا ہے۔ ویسے سائنس پر، کئی پہلوؤں پر بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کی درخواست پر مجھے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن یہ موضوع تو انوکھا ہی تھا اور ابھی 26 تاریخ کو ہی سورج گرہن ہوا ہے تو لگتا ہے کہ شاید اس موضوع پر آپ کی بھی کچھ نہ کچھ دلچسپی رہے گی۔ تمام ہم وطنو، خاص طور پر میرے نوجوان دوستوں کی طرح میں بھی، جس دن، 26 تاریخ کو، سورج گرہن تھا، تو ہم وطنوں کی طرح مجھے بھی اور جیسے میری نوجوان نسل کے دل میں جو جوش تھا ویسے میرے دل میں بھی تھا، اور میں بھی سورج گرہن دیکھنا چاہتا تھا، لیکن، افسوس کی بات یہ رہی کہ اس دن ، دلی میں آسمان میں بادل چھائے ہوئے تھے اور میں وہ لطف تو نہیں لے پایا حالاں کہ ٹی وی پر کوزی کوڈ اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں دکھائی دے رہے سورج گرہن کی خوبصورت تصویریں دیکھنے کو ملیں۔ سورج چمکتی ہوئی رنگ کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ اور اس دن مجھے کچھ اس موضوع کے جو ماہرین ہیں ان سے بات کرنے کا موقع بھی ملا اور وہ بتا رہے تھے کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ چاند زمین سے کافی دور ہوتا ہے اور اس لیے، اس کی شکل، پوری طرح سے سورج کو ڈھک نہیں پاتی ہے۔ اس طرح سے، ایک دائرہ کی شکل بن جاتی ہے۔ یہ سورج گرہن، ایک دائرہ نما سورج گرہن جسے ‘ولیے گرہن’ یا ‘کنڈل گرہن’ بھی کہتے ہیں۔ گرہن ہمیں اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ ہم زمین پر رہ کر خلا میں گھوم رہے ہیں۔ خلا میں سورج، چاند اور دیگر سیاروں جیسے فلکیاتی اجسام گھومتے رہتے ہیں۔ چاند کے عکس سے ہی ہمیں، گرہن کی الگ الگ شکل دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ساتھیو، ہندوستان میں Astronomy یعنی علم فلکیات کی بہت ہی قدیم اور قابل فخر تاریخ رہی ہے۔ آسمان میں ٹمٹماتے تاروں کے ساتھ ہمارا رشتہ، اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی ہماری تہذیب ہے۔ آپ میں سے بہت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے الگ الگ جگہوں میں بہت ہی شاندار جنتر منتر ہیں، دیکھنے کے قابل ہیں۔ اور اس جنتر منتر کا علم فلکیات سے گہرا تعلق ہے۔ عظیم آریہ بھٹ کی حیرت انگیز صلاحیت کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ اپنے وقائع نگاری میں انھوں نے سورج گرہن کے ساتھ ساتھ چاند گرہن کی بھی تفصیل وضاحت کی ہے۔ وہ بھی فلسفیانہ اور اعداد وشمار دونوں ہی پہلو سے کی ہے۔ انھوں نے اعداد وشمار کے طور پر بتایا کہ زمین کا عکس یا شیڈو کے سائز کی شماری کیسے کرسکتے ہیں۔ انھوں نے گرہن کے دوران اور ایکس ٹینٹ کی شماری کرنے کی بھی درست جانکاریاں دیں۔ بھاسکر جیسے ان کے شاگردوں نے اس جذبہ کو اور اس جانکاری کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپورکوشش کی۔ بعد میں چودھویں، پندرہویں صدی میں، کیرالہ میں سنگم گرام کے مادھو، انھوں نے کائنات میں موجود سیاروں کی حالات شماری کرنے کے لیے کیلکولس کا استعمال کیا۔ رات میں دکھائی دینے والا آسمان، صرف تجسس کا ہی موضوع نہیں تھا بلکہ علم ریاضی کے نقطہ نظر سے سوچنے والوں اور سائنس دانوں کے لیے ایک اہم ذریعہ تھا۔ کچھ سال پہلے میں ‘‘Pre-modern Kutchi Navigation Techniques and Voyages’’، اس کتاب کی نقاب کشائی کی تھی۔ یہ کتاب ایک طرح سے تو مالم (Maalam) کی ڈائری ہے۔ مالم ایک جہاز راں کے طور پر جو مشاہدہ کرتے تھے، انھوں نے اپنے طریقے سے اس کو ڈائری میں لکھا تھا۔ جدید عہد میں اسی مالم کے مجموعہ کو اور وہ بھی گجراتی رسم الخط کا مجموعہ، جس میں قدیم نیوی گیشن ٹیکنالوجی کی وضاحت کرتی ہے اور اس میں بار بار ‘مالم نی پوتھی’ میں آسمان کی، تاروں کی، تاروں کی رفتار کی وضاحت کی ہے۔ اور یہ، صاف بتایا ہے کہ سمندر میں سفر کرتے وقت، تاروں کے سہارے، سمت طے کیے جاتے ہیں۔ منزل پر پہنچنےکا راستہ تارے دکھاتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، علم فلکیات کے شعبے میں ہندوستان کافی آگے ہے اور ہمارے اقدامات،مشعل راہ بھی ہیں۔ ہمارے پاس پونے کے نزدیک عظیم الشان میٹر ویو ٹیلی اسکوپ ہے۔ اتنا ہی نہیں ، کوڈئی کنال، اداگھمنڈلم، گروشیکھر اور ہنلے لداخ میں بھی طاقت ور ٹیلی اسکوپ ہیں۔ 2016 میں ، بلجیم کے اس وقت کے وزیر اعظم اور میں نے، نینی تال میں 3.6 میٹر دیواستھل آپٹیل ٹیلی اسکوپ کا افتتاح کیا تھا۔ اسے ایشیا کا سب سے بڑا ٹیلی اسکوپ کہا جاتا ہے۔ اسرو کے پاس اسٹرو سیٹ نام کا فلکیاتی سیارچہ ہے۔ سورج کے بارےمیں تحقیق کرنے کے لیے اسرو ‘آدتیہ’ کے نام سے ایک دوسرا سیارچہ بھی لانچ کرنے والا ہے۔ فلکیات سائنس کو لے کر، چاہے ہمارا قدیم علم ہو یا جدید حصولیابیاں، ہمیں انھیں ضرور سمجھنا چاہیے اور ان پر فخر کرنا چاہیے۔ آج ہمارے نوجوان سائنسدانوں نے نہ صرف اپنی سائنسی تاریخ کو جاننے کی چاہت دکھائی پڑتی ہے بلکہ وہ علم فلکیات کے مستقبل کو لے کر بھی ایک پرعزم خواہش رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک میں پلینٹوریم، نائٹ اسکائی کو سمجھنےکے ساتھ ساتھ اسٹار گیزنگ کو شوق کی شکل میں فروغ دینے کے لیے بھی ترغیب دیتے ہیں۔ کئی لوگ امیچیور ٹیلی اسکوپ کو چھتوں یابالکنی میں لگاتے ہیں۔ اسٹار گیزنگ سے دیہی کیمپس اور دیہی پکنک کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور کئی ایسے اسکول کالجز ہیں جس علم فلکیات کا کلب بھی تشکیل دیتے ہیں اور اس تجربہ کو آگے بھی بڑھانا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہماری پارلیمنٹ کو، جمہوریت کے مندر کے روپ میں ہم جانتے ہیں۔ ایک بات کا میں آج بڑے فخر سے ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جن نمائندوں کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے انھوں نے گذشتہ 60 سال کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ پچھلے چھ مہینے یں 17ویں لوک سبھا کے دونوں ایوان بہت ہی بارآور رہے ہیں۔ لوک سبھا نے تو 114 فیصد کام کیا، تو راجیہ سبھا نے 94 فیصد کام کیا۔ اور اس سے پہلے بجٹ اجلاس میں تقریباً 135 فیصد کام کیا تھا۔ دیر رات تک پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سبھی ارکان پارلیمنٹ اس کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آپ نے جن عوامی نمائندوں کو بھیجا ہے، انھوں نے ساٹھ سال کے سارے ریکار توڑ دیے ہیں۔ اتنا کام ہونا، اپنے آپ میں، ہندوستان کی جمہوریت کی طاقت کی بھی، اور جمہوریت کے تئیں یقین کی بھی، پہچان ہے۔ میں دونوں ایوانوں کے پریزائڈنگ افسران، سبھی سیاسی جماعتوں کو، سبھی ارکان پارلیمنٹ کو ان کے اس سرگرم رول کے لیے بہت بہت مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، سورج، زمین، چاند کی رفتار صرف گرہن طے نہیں کرتی ہیں، بلکہ کئی ساری چیزیں بھی اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سورج کی رفتار کی بنیاد پر جنوری کے وسط میں، پورے ہندوستان میں مختلف تہوار منائے جائیں گے۔ پنجاب سے لے کر تمل ناڈو تک اور گجرات سے لے کر آسام تک، لوک متعدد تہواروں کا جشن منائیں گے۔ جنوری میں بڑے ہی دھوم دھام سے مکر سنکرانتی اور اتراین منایا جاتا ہے۔ ان کو توانائی کی علامت بھی مانا جاتا ہے۔اسی دوران پنجاب میں لوہڑی، تمل ناڈو میں پونگل، آسام میں ماگھ بیہو بھی منائے جائیں گے۔ یہ تہوار، کسانوں کی خوشحالی اور فصلوں سے بہت قریب سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تہوار ہمیں ہندوستان کے اتحاد اور ہندوستان کی تنوع کے بارے میں یاد دلاتے ہیں۔ پونگل کے آخری دن، عظیم تروولور کی جینتی منانے کا موقع، ہم ، ہم وطنوں کو ملتا ہے۔ یہ دن، عظیم مصنف، مفکر سنت تروولور جی کو ان کی زندگی کو وقف ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 2019 کا یہ آخری ‘من کی بات’ پروگرام ہے۔ 2020 میں ہم پھر ملیں گے۔ نیا سال، نئی دہائی، نئی عہد، نئی توانائی، نئے امنگ، نئے جوش- آیئے چل پڑیں۔ عہد کی تکمیل کے لیے توانائی جٹاتے چلیں۔ دور تک چلنا ہے، بہت کچھ کرنا ہے، ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچانا ہے۔ 130 کروڑ ہم وطنوں کی طاقت پر، ان کی صلاحیت پر، ان کے عہد پر، زبردست یقین رکھتے ہوئے، آؤ، ہم چل پڑیں۔ بہت بہت شکریہ، بہت بہت نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنوں، ‘من کی بات’ میں آپ سب کاخیر مقدم ہے ۔ آج من کی بات کی شروعات، نوجوان ملک کے، نوجوان ، وہ گرمجوشی، وہ حب الوطنی، وہ سیوا کے رنگ میں رنگے نوجوان، آپ جانتے ہیں نا۔نومبر مہینے کا چھوتھا اتوار ہر سال این سی سی ڈےکی شکل میں منایا جاتا ہے۔ عام طور پر ہماری نوجوان نسل کو فرینڈ شپ ڈےبرابر یاد رہتا ہے۔ لیکن بہت لوگ ہیں جن کو این سی سی ڈےبھی اتنا ہی یاد رہتا ہے۔ تو چلئے آج این سی سی کے بارے میں باتیں ہو جائے۔ مجھے بھی کچھ یادیں تازہ کرنے کا موق مل جائے گا۔ سب سے پہلے توای سی سی کے سبھی سابق اور موجودہ کیڈیٹ کو این سی سی ڈےکی بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ میں بھی آپ ہی کی طرح کیڈٹ رہا ہوں، اور من سے بھی، آج بھی اپنے آپ کو کیڈٹ مانتا ہوں،۔ یہ تو ہم سب کو معلم ہی ہے این سی سی یعنی نیشنل کیڈٹ کورپس ۔ دنیا کے سب سے بڑے یونیفارم یوتھ آرگنائزیشن میں ہندوستان کی این سی سی ایک ہے۔ یہ ایک ٹری سروس آرگنائزیشن ہے جس میں فوج، بحریہ اور فضائیہ تینوں ہی شامل ہیں۔ قیادت، حب الوطنی، جدوجہد، ڈسپلین، بے لوث خدمت ان سب کو اپنے کردارکا حصہ بنا لیں، اپنی عادت بنانے کی ایک دلچسپ سفر مطلب – این سی سی اس سفرکے بارے میں کچھ اورزیادہ باتیں کرنے کے لیے آج فون کالس سے کچھ نوجوانوں سے، جنہوں نے این سی سی میں بھی اپنی جگہ بنائی ہے۔آئیے ان سے باتیں کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: ساتھیوں آپ سب کیسے ہیں۔
ترنم خان: جے ہند پردھان منتری جی۔
وزیر اعظم: جے ہند
ترنم خان: سر میرا نام جونیئر انڈر آفیسر ترنم خان ہے۔
وزیر اعظم: ترنم آپ کہاں سے ہیں۔
ترنم خان: میں دلی کی رہنے والی ہوں، سر۔
وزیر اعظم: اچھا۔ تواین سی سی میں کتنے سال، کیسے کیسے تجربات رہے آپ کے؟
ترنم خان: سر، میں این سی سی میں 2017 میں بھرتی ہوئی تھی اور یہ تین سال میری زندگی کے سب سے بہترین سال رہے ہیں۔
وزیر اعظم: واہ، سن کر کے بہت اچھا لگا۔
ترنم خان: سر، میں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ میرا سب سے اچھا ترجبہ جو رہا وہ ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کیمپ میں رہا تھا۔ یہ ہمارا کیمپ اگست میں ہوا تھا جس میں این ای آر ‘نارتھ ایسٹرن ریجن’ کے بچہ بھی آئے تھے۔ ان کیڈٹوں کے ساتھ ہم 10 دن کے لئے رہے۔ ہم نے ان کا رہن سہن سیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی زبان کیا ہے۔ ان کی روایت ان کی ثقافت ہم نے ان سے ایسی کئی ساری چیزیں سیکھی۔ جیسے وائیزوم کا مطلب ہوتا ہے۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔ ویسے ہی، ہماری کلچرل نائٹ ہوئی تھی،اس کے اندر انہوں نے ہمیں اپنا رقص سکھایا، تیہرا کہتے ہیں ان کے رقص کو۔ اور انہوں نے مجھے ‘میکھالا پہننا بھی سکھایا۔ میں سچ بتاتی ہوں، اس کے اندر بہت خوبصورت ہم سبھی لگ رہے تھے دلی والے اور ہمارے ناگالینڈ کے دوست بھی۔ ہم ان کو دلی درشن پر بھی لیکر گئے تھے ،جہاں ہم نے ان کو نیشنل وار میموریل اور انڈیا گیٹ دکھایا ۔ وہاں پر ہم نے ان کو دلی کی چاٹ بھی کھلائی، بھیل پوری بھی کھلائی لیکن ان کو تھوڑا تیکھا لگا کیونکہ جیسا انہوں نے بتایا ہم کو کہ وہ زیادہ تر سوپ پینا پسند کرتے ہیں، تھوڑی ابلی ہوئی سبزیاں کھاتے ہیں، تو ان کو کھانا تو اتنا اچھا نہیں لگا، لیکن، اس کے علاوہ ہم نے ان کے ساتھ کافی تصویریں کھینچیں، کافی ہم نے تجربہ شیئر کیے اپنے۔
وزیر اعظم : آپ نے ان سے رابطہ بنائے رکھا ہے ؟
ترنم خان : جی سر، ہمارے رابطے ان سے اب تک بنے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم : چلئے ،اچھا کیا آپ نے۔
ترنم خان : جی سر
وزیر اعظم : اور کون ہے ساتھی آپ کے ساتھ؟
شری ہری جی وی : جے ہند سر۔
وزیر اعظم: جے ہند
شری ہری جی وی : میں سینئر انڈر آفیسر شری ہری جی وی بول رہا ہوں۔ میں بنگلورو، کرناٹک کا رہنے والا ہوں۔
وزیر اعظم : اور آپ کہاں پڑھتے ہیں ؟
شری ہری جی وی: سر بنگلورو میں کرسٹوجینتی کالج میں۔
وزیر اعظم : اچھا، بنگلورو میں ہی ہیں !
شری ہری جیوی: یس سر
وزیر اعظم: بتایئے
شری ہری جی وی : سر، میں کل ہی یوتھ ایکسچینج پروگرام سنگاپور سے واپس آیا تھا
وزیر اعظم: ارے واہ!
شری ہری جی وی: ہاں سر
وزیر اعظم: تو آپ کو موقع مل گیا وہاں جانے کا
شری ہری جی وی: ہاں سر
وزیر اعظم: کیسا تجربہ رہا سنگاپور میں ؟
برطانیہ، امریکہ، سنگاپور، برونئی، ہانگ کانک اور نیپال، یہاں پر ہمیں لڑائی کی مشق اور بین الاقوامی فوجی مشق کا ایک ایکسچینج سیکھا تھا۔ یہاں پر ہماری کارکردگی کچھ الگ ہی تھی سر، ان میں سے ہمیں اوٹر اسپورٹس اور مہم جوئی کی سرگرمیاں سکھائی گئی تھی اور واٹرپولو ٹورنامنٹ میں ہندوستانی ٹیم نے جیت حاصل کی تھی سر اور ثقافتی میں ہم مجموعی طور پر کارکردگی کرنے والوں میں سے تھے سر، ہمارا ڈرل اور ورڈ آف کمانڈ بہت اچھا لگا تھا سر ان کو۔
وزیر اعظم: آپ کتنے لوگ تھے ہری ؟
شری ہری جی وی: 20 لوگ سر ہم 10 لڑکے اور 10 لڑکیاں تھے سر۔
وزیر اعظم: ہاں یہی، ہندوستان کے سبھی الگ الگ ریاست سے تھے؟
شری ہری جی وی: ہاں سر۔
وزیر اعظم : چلئے، آپ کے سارے ساتھی آپ کا تجربہ سننے کےلیے بہت بے تاب ہوں گے لیکن مجھے اچھا لگا۔ اور کون ہے آپ کے ساتھ ؟
ونولے کسو : جے ہند سر،
وزیر اعظم: جے ہند
ونولے کسو : میرا نام ہے سینئر انڈر آفیسرونولے کسو۔ میں نارتھ ایسٹرن ریجن ناگالینڈ ریاست سے ہوں سر
وزیر اعظم : ہاں، ونولے، بتائیے کیا تجربہ ہے آپ کا ؟
ونولے کسو : سر، میں جوزف کالج، جکھاما آٹومس میں پڑھائی کر رہا ہے ، بی اے ہسٹری (آنرس) میں۔ میں نے 2017 سال میں این سی سی جوائن کیا اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اور اچھا فیصلہ تھا، سر۔
وزیر اعظم: این سی سی کے باعث ہندستان میں کہاں کہاں جانے کاموقع ملا ہے ؟
ونولے کسو : سر، میں نے این سی سی جوائن کیا اور بہت سیکھا تھااور مجھے مواقع بھی بہت ملے تھے اور میرا ایک تجربہ وہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ میں نے اس سال 2019 جون مہینے سے ایک کیمپ میں شریک ہوا اور وہ سازولی کالج کوہیما میں ہوا۔ اس کیمپ میں 400 کیڈٹ نے شرکت کی
وزیر اعظم: تو ناگالینڈ میں سارے آپ کے ساتھی جاننا چاہتے ہوں گے کہ ہندستان میں کہاں گئے، کیا کیا دیکھا ؟ سب تجربہ بتاتے ہو سب کو ؟
ونولے کسو: یس سر
وزیر اعظم: اور کون ہے آپکے ساتھ ؟
اکھل: جے ہند سر، میرا نام جونیئر انڈر آفیسر اکھل ہے۔
وزیر اعظم: ہاں اکھل، بتایئے۔
اکھل: میں روہتک، ہریانہ کا رہنے والا ہوں، سر۔
وزیر اعظم: ہاں۔۔۔۔۔
اکھل: میں دیال سنگھ کالج، دلی یونیورسٹی سے فزکس آنرس کر رہا ہوں،۔
وزیر اعظم: ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔
اکھل: سر، مجھے این سی سی میں سب سے اچھا ڈسپلن لگا ہے، سر۔
وزیر اعظم: واہ۔۔۔۔۔۔
اکھل : اس نے مجھے اور زیادہ ذمہ دارشہری بنایا ہے ، سر این سی سی کیڈٹ کی ڈرل یونیفارم مجھے بیحد پسند ہے۔
وزیر اعظم : کتنے کیمپ کرنے کا موقع ملا، کہاں کہاںجانے کا موقع ملا ؟
اکھل : سر، میں نے 3 کیمپ کیے ہیں سر۔ میں حال ہی میں انڈین ملٹری اکیڈمی، دہرا دون میں اٹیچمنٹ کیمپ کا حصہ رہا ہوں۔
وزیر اعظم: کتنے دنوں کا تھا ؟
اکھل : سر، یہ 13 دن کا کیمپ کا تھا سر۔
وزیر اعظم : اچھا
اکھل : سر، میں نے وہاں پر ہندوستانی فوج میں افسر کیسےبنتے ہیں ،اسکو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور اس کے بعد میراہندستانی فوج میں افسر بننے کاعہد اور زیادہ مستحکم ہوا ہے سر۔
وزیر اعظم : واہ۔۔۔
اکھل : اور سر میں نے یوم جمہوریہ کے پیریڈ میں بھی حصہ لیا تھا اور وہ میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے بہت ہی فخر کی بات تھی۔
وزیر اعظم: شاباش۔۔۔
اکھل : مجھ سے زیادہ خوش میری ماں تھی سر۔ جب ہم صبح 2 بجے اٹھ کر راج پتھ پر مشق کرنے جاتے تھے تو جوش ہم میں اتنا ہوتا تھا کہ وہ دیکھنے لائق تھا۔ باقی فوجی دستوں کے لوگ جو ہماری اتنی حوصلہ افزائی کرتے تھے راج پتھ پرمارچ کرتے وقت ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے سر۔
وزیر اعظم : چلئے آپ چاروں سے بات کرنے کا موقع ملااور وہ بھی این سی سی ڈے پر۔ میرے لئے بہت خوشی کی بات ہے کیونکہ میری بھی خوش قسمتی رہی کہ میں بھی بچپن میں اپنے گاؤں کے اسکول میں این سی سی کیڈ ٹ رہا تھا تو مجھے معلوم ہے کہ یہ ڈسپلن، یہ یونیفارم اس کے باعث جو اعتماد کی سطح بڑھتی ہے، یہ ساری چیزیں بچپن میں مجھے ایک این سی سی کیڈٹ کی حیثیت سےتجربہ کرنے کا موقع ملا تھا۔
ونولے : پردھان منتری جی میرا ایک سوال ہے۔
وزیر اعظم: ہاں بتایئے۔۔۔۔
ونولے : کیا آپ بھی ایک این سی سی کا حصہ رہے ہیں؟
وزیر اعظم: کون؛ ونولے بول رہے ہو؟
ونولے یس سر، یس سر
وزیر اعظم: ہاں ونولے بتائیے۔۔۔
ونولے : کیا آپ کو کبھی بھی سزا ملی تھی ؟
وزیر اعظم: (ہنس کر) اس کا مطلب کہ آپ لوگوں کو سزا ملتی ہے؟
ونولے : ہاں سر۔
وزیر اعظم: جی نہیں، مجھے ایسا کبھی ہوا نہیں کیونکہ میں بہت ہی، ایک طرح سے ڈسپلن میں یقین رکھنے والا تھا لیکن ایک بار ضرورغلط فہمی ہوئی تھی۔جب ہم کیمپ میں تھے تو میں ایک پیڑ پر چڑھ گیا تھا۔ تو پہلے تو ایسا ہی لگا کہ میں نے کوئی قانون توڑ دیا ہے لیکن بعد میں سب کو دھیان آیا کہ وہاں، یہ پتنگ کی ڈور میں ایک چڑیا پھنس گئی تھی۔ تو اس کو بچانے کے لیے میں وہاں چڑھ گیا تھا۔ تو خیر، پہلے تو لگتا تھا کہ مجھ پر کوئی ڈسپلن ایکشن ہوں گے لیکن بعد میں میری بڑی واہ واہی ہوئی۔تو اس طرح سے ایک الگ ہی تجربہ ہوا مجھے ۔
ترنم خان : جی سر، یہ جان کر بہت اچھا لگا سر۔
وزیر اعظم : تھینک یو
ترنم خان: میں ترنم بات کر رہی ہوں،۔
وزیر اعظم : ہاں ترنم، بتائیے۔۔۔
ترنم خان : اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گی سر۔
وزیر اعظم : جی۔۔۔ جی۔۔۔ بتائیے۔
ترنم خان : سر، آپ نے اپنے پیغام میں ہمیں کہا ہے کہ ہر ہندوستانی شہری کو 3 سالوں میں 15 جگہ تو جانا ہی چاہیئے۔ آپ ہمیں بتانا چاہیں گے کہ ہمیں کہاں جانا چاہیئے ؟ اور آپ کو کس جگہ جا کر سب سے اچھا محسوس ہوا تھا ؟
وزیر اعظم: ویسے میں ہمالیہ کو بہت پسند کرتا رہتا ہوں،ہمیشہ۔
ترنم خان: جی ۔۔۔۔۔
وزیر اعظم: لیکن پھر بھی میں ہندستان کے لوگوں سے گذارش کروں گا کہ اگر آپ کو فطرت سے محبت ہے ۔
ترنم خان : جی۔۔۔
وزیر اعظم: گھنے جنگل، جھرنے، ایک الگ ہی طرح کا ماحول دیکھنا ہے تو میں سب کو کہتا ہوں، آپ شمال مشرق ضرور جائیں۔
ترنم خان : جی سر۔
وزیر اعظم : یہ میں ہمیشہ بتاتا ہوں، اور اس کے باعث شمال مشرق میں سیاحت بھی بڑھے گا۔ معیشت کو بھی بہت فائدہ ہوگا اور ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کے خواب کو بھی وہاں مضبوطی ملے گی۔
ترنم خان : جی سر۔
وزیر اعظم : لیکن ہندستان میں ہر جگہ پر بہت کچھ دیکھنے لائق ہے، مطالعہ کرنے کے لائق ہے اور ایک طرح سے روح صاف کرنے جیسا ہے۔
شری ہری جی وی : پردھان منتری جی، میں شری ہری بول رہا ہوں۔
وزیر اعظم : جی ہری بتائیے۔۔۔
شری ہری جی وی: میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں، کہ آپ ایک سیاستداں نہ ہوتے تو آپ کیا ہوتے ؟
وزیر اعظم : اب یہ تو بڑا مشکل سوال ہے کیونکہ ہر بچے کی زندگی میں کئی پڑاؤ آتے ہیں۔ کبھی یہ بننے کا من کرتا ہے، کبھی وہ بننے کا من کرتا ہے لیکن یہ بات صحیح ہے کہ مجھے کبھی سیاست میں آنے کا من نہیں تھا، نہ ہی کبھی سوچا تھا لیکن اب پہنچ گیا ہوں، تو جی جان سے ملک کے کام آؤں، اس کے لیے سوچتا رہتا ہوں، اور اسلئے اب میں ‘یہاں نہ ہوتا تو کہاں ہوتا’ یہ سوچنا ہی نہیں چاہیئے مجھے۔ اب تو جی جان سے جہاں ہوں، وہاں جی بھرکر کے جینا چاہیئے، جی جان سے جٹنا چاہیئے اور جم کر کے ملک کے لیے کام کرنا چاہیئے۔ نہ دن دیکھنا ہے، نہ رات دیکھنی ہے بس یہی ایک مقصد سے اپنے آپ کو میں نے کھپا دیا ہے۔
اکھل : پردھان منتری جی۔۔۔
وزیر اعظم: جی۔۔۔
اکھل : آپ دن میں اتنے مشغول رہتے ہیں تو میرا یہ تجسس تھا جاننے کے لیے کہ آپ کو ٹی وی۔ دیکھنے کا، فلم دیکھنے کا یا کتاب پڑھنے کا وقت ملتا ہے ؟
وزیر اعظم : ویسے مجھے کتاب پڑھنے کی دلچسپی تو رہتی تھی۔
فلم دیکھنے کی کبھی دلچسپی بھی نہیں رہی، اس میں وقت کی بندش تو نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح سے ٹی وی دیکھ پاتا ہوں،۔ بہت کم۔ کبھی کبھی پہلے ڈسکوری چینل دیکھا کرتا تھا، تجسس کے باعث اور کتابیں پڑھتا تھا لیکن ان دنوں تو پڑھ نہیں پاتا ہوں، اور دوسرا گوکل کی وجہ سے بھی عادتیں خراب ہو گئی ہیں کیونکہ اگر کسی حوالے کو دیکھنا ہے تو فوراً شارٹ کٹ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ تو کچھ عادتیں جو سب کی بگڑی ہیں، میری بھی بگڑی ہے۔چلئے دوستوں، مجھے بہت اچھا لگا آپ سب سے بات کرنے کے لیے اور میں آپ کے توسط سےاین سی سی کے سبھی کیڈٹ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں،۔ بہت بہت شکریہ دوستوں،تھینک یو
سبھی: این سی سی کیڈٹ بہت بہت شکریہ سر، تھینک یو
وزیر اعظم: تھینک یو، تھینک یو
سبھی: این سی سی کیڈٹ جے ہند، سر
وزیر اعظم : جے ہند۔
سبھی: این سی سی کیڈٹ جے ہند، سر
وزیر اعظم: جے ہند، جے ہند۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سبھی ہم وطنوں کو یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ 7 دسمبر کومسلح افواج کے پرچم کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہم اپنے بہادر سپاہیوں کو، ان کی طاقت کو، ان کی قربانی کو یاد تو کرتے ہی ہیں لیکن خدمات بھی کرتے ہیں۔ صرف احترام کا جذبہ اتنے سے بات چلتی نہیں ہے۔اشتراک ضروری ہوتا ہے اور 07 دسمبر کو ہر شہری کو آگے آنا چاہیئے۔ ہر ایک کے پاس اس دن مسلح افواج کاپرچم ہونا ہی چاہیئے اور ہر کسی کی شرکت بھی ہونی چاہیئے۔ آئیے، اس موقع پر ہم اپنی مسلح افواج کی بے مثال جرأت، بہادر اور خود سپردگی کے جذبے کے تئیں شکریہ ادا کریں اور بہادر فوجیوں کو یاد کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندستان میں فٹ انڈیا موومنٹ سے تو آپ متعارف ہو ہی گئے ہوں گے۔ سی بی ایس ای نے ایک قابل تعریف پہل کی ہے۔ فٹ انڈیا ہفتہ منانے کی۔ فٹ انڈیا، اسکول ہفتہ دسمبر مہینے میں کبھی بھی منا سکتے ہیں۔ اس میں فٹنس کو لیکر کئی طرح کے پروگرام منعقد کئے جانے ہیں۔ اس میں کوئز، مضامین، ڈرائنگ اور روایتی وعلاقائی کھیل، یوگاسن، رقص جیسے کھیل کود مقابلہ شامل ہیں۔ فٹ انڈیا ہفتہ میں طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ ما والدین بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ مت بھولنا کہ فٹ انڈیاکا مطلب صرف دماغی کسرت، کاغذی کسرت یا لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر یا موبائل فون پر فیٹنس کی ایپ دیکھتے رہنا۔ جی نہیں ! پسینہ بہانا ہے۔ کھانے کی عادتیں بدلنی ہے۔ زیادہ تر توجہ سرگرمی انجام دینے کی عادت بنانی ہے۔ میں ملک کی سبھی ریاستوں کے اسکول بورڈ اور اسکول انتظامیہ سے اپیل کرتا ہوں، کہ ہراسکول میں، دسمبر مہینے میں، فٹ انڈیاہفتہ منایا جائے۔ اس سے فٹنس کی عادت ہم سبھی کی روزمرہ میں شامل ہوگی۔ فٹ انڈیا مؤمنٹ میں فٹنس کو لیکر اسکولوں کی رینکنگ کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ اس رینکنگ کو حاصل کرنے والے سبھی اسکول، فٹ انڈیا لوگو اور پرچم کا استعمال بھی کر پائیں گے۔ فٹ انڈیا پورٹل پر جاکر اسکول خود کو فٹ قرار دے سکتے ہیں۔ فٹ انڈیا تھری اسٹار اور فٹ انڈیا فائیو اسٹار ریٹنگ بھی دی جائیگی۔ میں گذارش کرتا ہوں کہ سبھی اسکول، فٹ انڈیا رینکنگ میں شامل ہوں اور فٹ انڈیا یہ آسان بنے۔ ایک عوامی تحریک بنے۔ بیدار پیدا ہو۔اس کے لیے کوشش کرنی چاہئے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہمارا ملک اتنا عظیم ہے اتنے تنوع سے بھرا ہوا ہے کہ بہت سی ہمارے دھیان میں ہی نہیں آتی ہیں اور فطری بھی ہے۔ ویسے ایک بات میں آپ کو شیئر کرنا چاہتا ہوں،۔ کچھ دن پہلے مائی گو پر ایک کمنٹ پر میری نظر پڑی۔ یہ کمنٹ آسام کے نوگاؤں کے شریمان رمیش شرما جی نے لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا برہم پتر ندی پر ایک میلہ چل رہا ہے۔ جس کا نام ہے برہم پتر پشکر۔ 04 نومبر سے 16 نومبر تک یہ میلہ تھا اور اس برہم پتر پشکر میں شامل ہونے کے لیے ملک کے مختلف حصوں کئی لوگ وہاں شامل ہوئے ہیں۔ یہ سن کر آپ کو بھی حیرانی ہوئی نہ۔ ہاں یہی تو بات ہے یہ اہم میلہ اور ہمارے اجداد نے اس کی تخلیق کی ہے کہ جب پوری بات سنو گے تو آپ کو بھی حیرانی ہوگی۔لیکن بدقسمتی سے اس کی جتنی وسیع پیمانے پر تشہیر ہونی چاہئے۔ جتنی ملک کے گوشے گوشے میں جانکاری ہونی چاہیئے، اتنی تعداد میں نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ بھی بات صحیح ہے اس پورا انعقاد ایک طرح ایک ملک ایک پیغام اور ہم سب ایک ہیں۔ اس جذبے کو بھرنے والا ہے، طاقت دینے والا ہے۔
سب سے پہلے تو رمیش جی آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپنے ‘من کی بات’ کے توسط سے ہم وطنوں کے بیچ یہ بات شیئر کرنے کا عہد کیا۔آپ نے دکھ کا بھی اظہار کیا ہے کہ اتنی اہم بات کی کوئی وسیع پیمانے پر چرچا نہیں ہوتی ہے، پرچار نہیں ہوتا ہے۔آپ کا دکھ میں سمجھ سکتا ہوں،۔ملک میں زیادہ لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ ہاں،اگر شاید کسی نے اسکو بین الاقوامی دریا فیسٹیول کہہ دیا ہوتا، کچھ بڑے شاندار لفظوں کا استعمال کیا ہوتا، تو شاید، ہمارے ملک میں کچھ لوگ ہیں جو ضرور اس پر کچھ نہ کچھ رائے کا اظہار کرتے اور تشہیر بھی ہو جاتی۔
میرے پیارے ہم وطنو پشکرم، پشکرالو، پشکر کیا آپ نے کبھی یہ الفاظ سنے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں آپ کو پتہ ہے یہ کیا ہے، میں بتاتا ہوں، یہ ملک کہ بارہ الگ الگ ندیوں پر جو فیسٹیول منعقد ہوتے ہیں اس کے مختلف نام ہیں۔ہر سال ایک ندی پر یعنی اس ندی کا نمبر پھر بارہ سال کے بعد آتا ہے، اور یہ میلہ ملک کے الگ الگ گوشے کی بارہ ندیوں پر ہوتا ہے، باری باری سے ہوتا ہے اور بارہ دن چلتا ہے کنبھ کی طرح ہی یہ میلہ بھی قومی اتحاد کو فروغ دیتا ہے اور ‘ایک بھارت شریسٹھ بھارت’ کے درشن کراتا ہے۔پشکرم یہ ایسا اتسو ہے جس میں ندی کی اہمیت ، ندی کافخر ، زندگی میں ندی کی اہمیت ایک آسان طریقے سے اجاگر ہوتی ہے!
ہمارے اجداد نے فطرت کو ماحولیات، پانی کو، زمین کو ، جنگل کوبہت اہمیت دی۔انہوں نے ندیوں کی اہمیت کو سمجھا اور سماج کو ندیوں کے تئیں مثبت جذبہ کیسے پیدا ہو، ایک سنسکار کیسے بنیں ، ندی کے ساتھ سنسکرتی کی دھارا، ندی کے ساتھ سنسکار کی دھارا ، ندی کے ساتھ سماج کو جوڑ نے کی کوشش یہ مسلسل چلتا رہا اور مزیدار بات یہ ہے کہ سماج ندیوں سے بھی جڑا اور آپس میں بھی جڑا۔پچھلے سال تمل ناڈو کے تعمیر برنی ندی پر پشکرم ہوا تھا۔اس سال یہ برہم پتر ندی پر منعقد ہوا اور آنے والے سال میں تنگ بھدرا ندی آندھر پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک میں منعقد ہوگا۔ایک طرح سے آپ ان بارہ مقامات کا سفر ایک ٹورسٹ سرکٹ کی شکل میں بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں میں آسام کے لوگوں کی گرم جوشی ان کی ضیافت کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے پورے ملک سے آئے تیرتھ یاتریوں کے ساتھ بہت خوبصورت برتاؤ کیا۔منتظمین نے صفائی کا بھی پورا خیال رکھا۔ پلاسٹک فری زون یقینی بنایا ۔ جگہ جگہ بایو ٹوائلٹ کا بھی انتظام کیا ۔مجھے امید ہے کہ ندیوں کے تئیں اس طرح کے جذبے کو ابھارنے کا یہ ہزاروں سال پرانا ہمارا میلہ آئندہ نسل کو بھی جوڑے۔ فطرت ، ماحولیات ، پانی یہ ساری چیزیں ہماری سیاحت کا بھی حصہ بنیں، زندگی کا بھی حصہ بنیں۔
میرے پیارے ہم وطنو نمو ایپ پر مدھیہ پردیش سے بیٹی شویتا لکھتی ہے، اور اس نے لکھا ہے، سر،میں نویں کلاس میں ہوں، میرے بورڈ کے امتحان میں ابھی ایک سال کاوقت ہے لیکن میں طالب علموں اور ایگزام واریئر کے ساتھ آپ کی بات چیت لگاتار سنتی ہوں، میں نے آپ کو اسلئے لکھا ہے کیونکہ آپ نے ہمیں اب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ اگلے امتحان پربات چیت کب ہوگی۔ مہربانی کرکے آپ اسے جلد سے جلد کریں۔اگر، ممکن ہو تو ، جنوری میں ہی اس پروگرام کا انعقاد کریں ۔ ساتھیو،‘من کی بات’ کے بارے میں مجھے یہی بات بہت اچھی لگتی ہے – میرے نوجوان دوست مجھے، جس حق اور محبت کے ساتھ شکایت کرتے ہیں، حکم دیتے ہیں، صلاح دیتے ہیں – یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔شویتا جی، آپ نے بہت ہی صحیح وقت پر اس موضوع کو اٹھایا ہے۔ امتحانات آنے والے ہیں تو، ہر سال کی طرح ہمیں امتحانات کے بارے میں بات چیت بھی کرنی ہے۔ آپ کی بات صحیح ہے اس پروگرام کو تھوڑا پہلے منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے پروگرام کے بعد کئی لوگوں نے اسے اور زیادہ مؤثر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی بھیجی ہیں، اور، شکایت بھی کی تھی کہ پچھلی بار دیر سے ہوا تھا، امتحانات ایک دم قریب آگئے تھے۔ اور شویتا کی رائے صحیح ہے کہ مجھے، اسکو، جنوری میں کرنا چاہیئے۔ ایچ آر ڈی منسٹری اور مائی گو کی ٹیم ملکر، اس پر کام کر رہی ہیں۔ لیکن،میں، کوشش کروں گا، اس بار امتحان پر بات چیت جنوری کے شروع میں یا وسط میں ہو جائے۔ملک بھر کے طالب علم کے پاس دو مواقع ہیں۔ پہلا، اپنے اسکول سے ہی اس پروگرام کا حصہ بننا۔دوسرا، یہاں دلی میں ہونے والے پروگرام میں حصہ لینا۔ دلی کے لیے ملک بھر سے طالب علموں کا انتخاب مائی گو کے توسط سے کیا جائیگا۔ ساتھیو، ہم سب کو ملکر امتحان کے خوف کو بھگانا ہے۔ میرے نوجوان ساتھی امتحانات کے وقت ہنستے کھلکھلاتے دکھیں، والدین تناؤ سے آزاد ہوں، اساتذہ مطمئن ہوں، اسی مقصد کو لیکر، پچھلے کئی سالوں سے، ہم،‘من کی بات’ کے توسط سے ‘پریکشا پر چرچا’ ٹاؤن کے توسط سے یا پھر ایگزام واریئرس بک کے توسط سے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ اس مشن کو ملک بھر کے طلبا نے، والدین نے، اور اساتذ نے رفتار دی اسکے لیے میں ان سب کا شکر گذار ہوں۔ اور، آنے والی امتحان پر بات چیت کا پروگرام ہم سب مل کر کریں گے۔ آپ سب کو دعوت دیتا ہوں۔
ساتھیو، پچھلے ‘من کی بات’ میں ہم نے 2010 میں ایودھیا معاملے میں آئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بات چیت کی تھی، اور، میں نے کہا تھا کہ ملک نے تب کس طرح سے امن اور بھائی چارہ بنائے رکھا تھا۔ فیصلے آنے کے پہلے بھی، اور، فیصلہ آنے کے بعد بھی۔اس بار بھی، جب، 9 نومبر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، تو 130 کروڑ ہندوستانی نے،پھر سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے لیے ملک کے مفاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ملک میں امن، اتحاد اور یکجہتی کے اقدار سب سے اوپر ہیں۔ رام مندر پر جب فیصلہ آیا تو پورے ملک نے اسے دل کھول کر گلے لگایا۔ پوری دلجوئی اور امن وامان کے ساتھ قبول کیا۔آج،‘من کی بات’ کے توسط سے میں ہم وطنوں کو مبارکباد دیتا ہوں،شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے جس طرح کے صبر وتحمل اور باشعور ہونے کا ثبوت دیا ہے میں، اسکے لیے خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں،۔ایک طرف، جہاں، طویل عرصے کے بعد قانونی لڑائی ختم ہوئی ہے، وہیں، وہیں دوسری طرف عدلیہ کے تئیں ملک کا احترام اور بڑھا ہے۔ صحیح معنوں میں یہ فیصلہ ہماری عدالیہ کے لیے بھی سنگ میل کا ثابت ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد، اب ملک ، نئی امیدوں اور نئی تمناؤوں کے ساتھ نئے راستے پر، نئے ارادے لیکر چل پڑا ہے۔ جدید ہندوستان اسی جذبے کو اپنا کر امن، ایکتا اور یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھے – یہی میری تمنا ہے، ہم سب کی آرزو ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، ہماری تہذیب، ثقافت اور زبانیں پوری دنیا کو کثرت میں وحدت ، پیغام دیتی ہیں۔ 130 کروڑ ہندوستانیوں کا یہ وہ ملک ہے ہے، جہاں کہا جاتا تھا، کہ، ‘کوس کوس پر پانی بدلے اور چار کوس پر وانی’۔ہمارے ہندوستان کی سرزمین پر سیکڑوں زبانیں صدیوں سے پھل پھول رہی ہیں ۔حالانکہ، ہمیں اس بات کی بھی فکر ہوتی ہے کہ کہیں زبانیں اور بولیاں ختم تو نہیں ہو جائیں گی ! پچھلے دنوں، مجھے، اتراکھنڈ کے دھارچلا کی کہانی پڑھنے کو ملی۔مجھے کافی اطمینان ہوا ۔ اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح لوگ اپنی زبانوں ، اسے فروغ ا دینے کے لیے، آگے آ رہیں ہے۔ کچھ، اختراعات کر رہیں ہیں دھارچلا خبر میں نے، میرا، دھیان بھی، اسلئے گیا کہ کسی وقت ،میں، دھارچولا میں آتے جاتے رکا کرتا تھا۔ اُس پار نیپال، اِس پار کالی گنگا – تو فطری طور پر دھارچلا سنتے ہی، اس خبر پر، میرا دھیان گیا۔ پتوڑا گڑھ کے دھارچولا میں، رنگ طبقے کے کافی لوگ رہتے ہیں، انکی، آپسی بات چیت کی زبان رگلو ہے۔یہ لوگ اس بات کو سوچ کر بہت دکھی ہو جاتے تھے کہ ان کی زبان بولنے والے لوگ لگاتار کم ہوتے جا رہے ہیں – پھر کیا تھا، ایک دن، ان سب نے، اپنی زبان کو بچانے کا عہد کرلیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس مشن میں رنگ طبقے کے لوگ جڑتے چلے گئے۔آپ حیران ہو جائیں گے، اس طبقے کے لوگوں کی تعداد ، گنتی بھر کی ہے۔موٹا موٹا انداز کر سکتے ہیں کہ شاید دس ہزار ہو، لیکن، رنگ زبان کو بچانے کے لیے ہر کوئی مصروف ہو گیا، چاہے، چوراسی سال کے بزرگ دیوان سنگھ ہوں یا بائیس سال کی نو جوان ویشالی گبریال پروفیسر ہوں یا تاجر ، ہر کوئی،ہر ممکن کوشش میں لگ گیا۔اس مشن میں، سوشل مڈیا کا بھی بھرپور پر استعمال کیا گیا۔ کئی واٹس ایپ گروپ بنائے گئے۔ سیکڑوں لوگوں کو، اس پر بھی، جوڑا گیا۔ اس زبان کا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔صرف، بول چال میں ہی ایک طرح سے اسکا چلن ہے۔ایسے میں، لوگ کہانیاں، نظمیں اور گانے پوسٹ کرنے لگے۔ ایک دوسرے کی زبان ٹھیک کرنے لگے۔ ایک طرح سے واٹس ایپ ہی کلاس روم بن گیا بن گیا جہاں ہر کوئی استاد بھی ہے اور طالب علم بھی!رنگ لوک زبان کو تحفظ کرنے کی کوشش میں ہے۔ طرح طرح کے پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ رسالے نکالے جا رہے ہیں۔ اس میں سماجی اداروں کی بھی مدد مل رہی ہے۔
ساتھیو، خاص بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ نے 2019 یعنی اس سال کو ‘مقامی زبانوں کا بین الاقوامی سال’ قرار دیا ہے۔ یعنی ان زبانوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جو ختم ہونےکے قریب ہیں۔ ڈیڑھ سو سال پہلے، جدید ہندی کے بانی ، بھارتیندو ہریش چندر جی نے بھی کہا تھا :-
“نج بھاشا انتی اہے، سب انتی کو مول،
بن نج بھاشا گیان کے، مٹت نہ ہیہ کو سول۔
یعنی ، مادری زبان کے علم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں رنگ طبقے کی یہ پہل پوری دنیا کو ایک راہ دکھانے والی ہے۔ اگر آپ بھی اس کہانی سے متاثر ہوئے ہیں، تو، آج سے ہی، اپنی مادری زبان یا بولی کا خود استعمال کریں۔ خاندان کو، سماج کو ترغیب دیں۔
19ویں صدی کے آخری عہد میں عظیم شاعر سبرامنیم بھارتی جی نے کہا تھا اور تمل میں کہا تھا۔ وہ بھی ہم لوگوں کے لیے بہت ہی اثر انگیز ہے۔ سبرمنیم بھارتی جی نے تمل بھاشا میں کہا تھا :
مپدو کو ڈی مگمڈییال
ایر موئمبر اوندڈییال
اول سیپو مولی پدھنیٹوڈییال
اینرسندنیؤندڈ
اور اس وقت یہ 19ویں صدی کے یہ نصف آخر کی بات ہے اور انھوں نے کہا کہ مادر ہند کے 30 کروڑ چہرے ہیں، لیکن جسم ایک ہیں، یہ 18 زبانیں بولتی ہیں، لیکن سوچ ایک ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کبھی کبھی زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہمیں بہت بڑا پیغام دے جاتی ہیں۔ اب دیکھئے نہ میڈیا میں ہی اسکیوبا ڈائیورس کی ایک کہانی پڑھ رہا تھا۔ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر ہندوستانی کو تحریک دینے والی ہے۔ وشاکھاپٹم میں غوطہ خوری کی تربیت دینے والے اسکیوبا ڈائیورس ایک دن منگاماری پیٹا ساحل پر سمندر سے لوٹ رہے تھے تو سمندر میں تیرتی ہوئی کچھ پلاسٹک کی بوتلیں اور پاؤچ سے ٹکرا رہے تھے۔ اسے صاف کرتے ہوئے انھیں معاملہ بڑا سنجیدہ لگا۔ ہمارا سمندر کس طرح سے کچرے سے بھرا جارہا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے یہ غوطہ خور سمندر میں ساحل کے قریب 100 میٹر دور جاتے ہیں، گہرے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں اور پھر وہاں موجود کچرے کو باہر نکالتے ہیں۔ اور مجھے بتایا گیا ہے کہ 13 دنوں میں ہی یعنی دو ہفتہ کے اندر اندر تقریباً چار ہزار کلو سے زائد پلاسٹک فضلا انھوں نے سمندر سے نکالا ہے۔ ان اسکیوبا ڈائیورس کی چھوٹی سی شروعات ایک بڑی مہم کی شکل لیتی جارہی ہے۔ انھیں اب مقامی لوگوں کی بھی مدد ملنے لگی ہے۔ آس پاس کے ماہی گیروں نے بھی انھیں ہر طرح کی مدد دینے لگے ہیں۔ ذرا سوچئے اس اسکیوبا ڈائیورس سے تحریک لے کر اگر ہم بھی صرف اپنے آس پاس کے علاقے کو پلاسٹک کے کچرے سے آزاد کرنے کا عہد کرلیں تو پھر پلاسٹک سے آزاد پوری دنیا کے لیے ایک نئی مثال پیش کرسکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، دو دن بعد 26 نومبر ہے۔ یہ دن پورے ملک کے بہت خاص ہے۔ ہمارے جمہوریت کے لیے خاص طور سے اہم ہے۔ کیوں کہ اس دن کو ہم یوم آئین کی شکل میں منانے ہیں۔ اور اس بات کا یوم آئین اپنے آپ میں خاص ہے۔ کیوں کہ اس بار آئین کو اپنانے کے 70 سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس بار اس موقع پر پارلیمنٹ میں خاص پروگرام منعقد ہوں گے اور پھر سال بھر پورے ملک میں الگ الگ پروگرام ہوں گے۔ آیئے اس موقع پر ہم آئین ساز اسمبلی کے سبھی ارکان کو بصد احترام سلام کریں۔ اپنی خراج عقیدت پیش کریں۔ ہندوستان کا آئین ایسا ہے جو ہر شہری کے حقوق اور عزت کی حفاظت کرتا ہے۔ اور یہ ہمارے آئین سازوں کی دور اندیشی کی وجہ سے یقینی ہوسکا ہے۔ میں تمنا کرتا ہوں کہ یوم آئین ہمارے آئین کے اصولوں کو قائم رکھنے اور ملک کی تعمیر میں اپنی خدمت انجام دینے کی ہماری عہد بستگی کو مستحکم کریں۔ آخر، یہی خواب تو ہمارے آئین سازوں نے دیکھا تھا۔
میرے پیارے ہم وطنو! سردی کا موسم شروع ہو رہا ہے۔ گلابی سردی اب محسوس ہو رہی ہے۔ ہمالیہ کے کچھ حصے برف کی چادر اوڑھنا شروع کئے ہیں۔ لیکن یہ موسم فٹ انڈیا مومنٹ کا ہے۔ آپ، آپ کا خاندان، آپ کے دوست واحباب موقع مت گنوایئے، فٹ انڈیا مومنٹ کو آگے برھانے کے لیے موسم کا بھرپور فائدہ اٹھائیے۔
بہت بہت مبارکباد، بہت بہت شکریہ
نئی دہلی،27 اکتوبر/ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج دیوالی کا مقدس تہوار ہے۔ آپ سب کو دیوالی کی بہت بہت مبارکباد۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے۔
شبھم کروتی کلیانم آروگیم دھن سمپدا
شترو بدھی وناشیہ ، دیپا جیوتی نمستوتے
کتنا عمدہ پیغام ہے۔ اس شلوک میں کہا ہے — روشنی زندگی میں سکھ، صحت اور خوشحالی لے کر آتا ہے جو منفی سوچ کو ختم کرکے ،مثبت سوچ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی روشنی کو میرا سلام۔ اس دیوالی کو یاد رکھنے کے لیے اس سے بہتر فکر اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم روشنی کو بڑھاوا دیں، اثباتیت کی تشہیر کریں اور دشمن کے جذبات کو ہی ختم کرنے کی دعا کریں۔ آج کل دنیا کے متعدد ملکوں میں دیوالی منائی جاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف ہندوستانی برادری شامل ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ اب کئی ملکوں کی حکومتیں، وہاں کے شہری، وہاں کی سماجی تنظیمیں دیوالی کو پورے جوش وخروش کے ساتھ مناتی ہیں۔ ایک طرح سے وہاں ہندوستان کھڑا کردیتے ہیں۔
ساتھیو، دنیا میں فیسٹیول ٹورزم کا اپنی ہی کشش ہے۔ ہمارا ہندوستان، جو تہواروں کا ملک ہے، اس میں فیسٹیول ٹورزم کے بھی وسیع امکانات ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہولی ہو، دیوالی ہو، اونم ہو، پونگل ہو، بیہو ہو، ان جیسے تہواروں کو مشتہر کریں اور تہواروں کی خوشیوں میں، دیگر ریاستوں، دیگر ملکوں کے لوگوں کو بھی شامل کریں۔ ہمارے یہاں تو ہر ریاست، ہر علاقے کے اپنے اپنے اتنے مختلف تہوار ہوتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے لوگوں کی تو ان میں بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے، ہندوستان میں فیسٹیول ٹورزم کو فروغ دینے میں، ملک کے باہر رہنے والے ہندوستانیوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے ‘من کی بات’ میں ہم نے طے کیا تھا کہ اس دیوالی پر کچھ الگ کریں گے۔ میں نے کہا تھا ۔ آیئے، ہم سبھی اس دیوالی پر ہندوستان کی ناری شکتی اور ان کی حصولیابیوں کو سیلیبریٹ کریں، یعنی ہندوستان کی لکشمی کا احترام۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر بیشمار ترغیبی کہانیوں کا انبار لگ گیا۔ وارنگل کے کوڈی پاکا رمیش نے نمو ایپ پر لکھا کہ میری ماں میری شکتی ہے۔ 1999 میں ، جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو میری ماں نے ہی پانچوں بیٹوں کی ذمے داری اٹھائی۔ آج ہم پانچوں بھائی اچھے پروفیشن میں ہیں۔ میری ماں ہی میرے لیے بھگوان ہے۔ میرے لیے سب کچھ ہے اور وہ صحیح معنوں میں ہندوستان کی لکشمی ہے۔
رمیش جی، آپ کی ماتا جی کو میرا پرنام۔ ٹوئیٹر پر سرگرم رہنے والی گیتیکا سوامی کا کہنا ہے کہ ان کے لیے میجر خوشبو کنور، ‘ہندوستان کی لکشمی ہے’ جو بس کنڈیکٹر کی بیٹی ہے اور انھوں نے آسام رائفل کی کُل خواتین دستے کی قیادت کی تھی۔ کویتا تیواری جی کے لیے تو ہندوستان کی لکشمی، ان کی بیٹی ہیں، جو ان کی طاقت بھی ہے۔ انھیں فخر ہے کہ ان کی بیٹی بہترین پینٹنگ کرتی ہے۔ اس نے سی ایل اے ٹی کے امتحان میں بہت اچھے رینک بھی حاصل کیے ہیں۔ وہیں میگھا جین جی نے لکھا ہے کہ 92 سال کی ایک بزرگ خاتون، سالوں سے گوالیار ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کو مفت میں پانی پلاتی ہے۔ میگھا جی، اس ہندوستان کی لکشمی کی سادگی اور ہمدردی سے کافی متاثر ہوئی ہیں۔ ایسے متعدد کہانیاں لوگوں نے شیئر کی ہیں آپ ضرور پڑھیے ، تحریک حاصل کیجیے اور خود بھی ایسا ہی کچھ اپنے آس پاس سے شیئر کیجیے۔ اور میں ہندوستان کی ان سبھی لکشمیوں کو تہہ دل سے سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 17ویں صدی کی مشہور شاعرہ سانچی ہونمّا، انھوں نے 17ویں صدی میں، کنّڑ زبان میں، ایک نظم لکھی تھی۔ وہ جذبہ، وہ الفاظ، ہندوستان کی ہر لکشمی، یہ جو ہم بات کر رہے ہیں نا، ایسے لگتا ہے جیسے کہ اس کی بنیاد 17ویں صدی میں ہی رکھ دی گئی تھی۔ کتنے اچھے الفاظ، کتنے عمدہ جذبے اور کتنے عمدہ خیالات، کنّڑ زبان کی اس نظم میں ہیں۔
(پینندہ پرمیگوندانو ہماونتانو
پینندہ بروہو پرچیدانو
پینندہ جنک رایانو جسوولیندانو)
اس کا مطلب ہیمونت یعنی پہاڑوں کے بادشاہ نے اپنی بیٹی پاروتی کے باعث، رشی بریگھو نے اپنی بیٹی لکشمی کے باعث اور راجا جنک نے اپنی بیٹی سیتا کے باعث شہرت پائی۔ ہماری بیٹیاں، ہمارے لیے باعث فخر ہیں اور ان بیٹیوں کےعظمت سے ہی ہمارے سماج کی ایک مضبوط شناخت ہے اور اس کا روشن مستقبل ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 12 نومبر 2019 یہ وہ دن ہے، جس دن دنیا بھر میں، شری گرونانک دیو جی کا 550واں یوم پیدائش منایا جائے گا۔ گرونانک دیو جی کا اثر ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ہمارے سکھ بھائی بہن بسے ہوئے ہیں جو گرونانک دیو جی کے فلسفوں کے تئیں پوری طرح سے سرشار ہیں۔ میں وینکور اور تہران میں گرودواروں کے اپنے دوروں کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ شری گرونانک دیو جی کے بارے میں ایسا بہت کچھ ہے جسے میں آپ کے شیئر کرسکتا ہوں، لیکن اس کے لیے من کی بات کے کئی ایپی سوڈ لگ جائیں گے۔ انھوں نے، خدمت کو ہمیشہ سب سے پہلے رکھا۔ گرونانک دیو جی مانتے تھے کہ بے لوث جذبہ سے کی گئی خدمت کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔ وہ چھوا چھوت جیسی سماجی برائی کے خلاف مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہے۔ شری گرونانک دیو جی نے اپنا پیغام دنیا میں، دو دور تک پہنچایا۔ وہ اپنے وقت میں سب سے زیادہ سفر کرنے والوں میں سے۔ کئی جگہوں پر گئے اور جہاں بھی گئے، وہاں اپنی سادگی، سادہ لوحی سے سب کا دل جیت لیا۔ گرونانک دیو جی نے کئی اہم ترین مذہبی سفر کیے۔ جنھیں ‘اداسی’ کہا جاتا ہے۔ یکجہتی اور مساوات کا پیغام لے کر وہ شمال ہو یا جنوب، مشرق ہو یا مغرب، ہر سمت میں گئے، ہر جگہ لوگوں سے، سنتوں اور رشیوں سے ملے۔ مانا جاتا ہے کہ آسام کے مشہور سنت شنکر دیو بھی ان سے متاثر ہوئے تھے۔ انھوں نے ہریدوار کی مقدس سرزمین کا سفر کیا۔ کاشی میں ایک مقدس مقام، ‘گروباغ گرودوار’ ہے۔ ایسے کہا جاتا ہے کہ شری گرونانک دیو جی وہاں رکے تھے۔ وہ وہاں بودھ مذہب سے جڑی ‘راج گیر’ اور ‘گیا’ جیسی مذہبی جگہوں پر بھی گئے تھے۔ جنوب میں گرونانک دیو جی، شری لنکا تک کا سفر کیا۔ کرناٹک میں بیدر کے سفر کے دوران، گرونانک دیو جی نے ہی وہاں پانی کی مشکلات کا حل نکالا تھا۔ بیدر میں‘ گرونانک جیرا صاحب’ نام کا ایک مشہور مقام ہے جو گرونانک دیو جی کی ہمیں یاد بھی دلاتا ہے، انھیں کے نام یہ منسوب ہے۔ ایک اداسی کے دوران، گرونانک جی نے جواب میں کشمیر اور اور اس کے آس پاس کے علاقے کا بھی سفر کیا۔ اسے سکھ پیروکاروں اور کشمیر کے بیچ کافی مضبوط رشتہ قائم ہوا۔ گرونانک تبت بھی گئے جہاں کے لوگوں نے انھیں گرو تسلیم کیا۔ وہ ازبیکستان میں بھی قابل پرستش ہیں جس کا انھوں نے سفر کیا تھا۔ اپنی ایک اداسی کے دوران، انھوں نے بڑے پیمانے پر اسلامی ملکوں کا بھی سفر کیا تھا۔ جس میں سعودی عرب، عراق اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ وہ لاکھوں لوگوں کے دلوں میں بسے، جنھوں نے پوری عقیدت کے ساتھ ان کے پیغامات کی تعمیل کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی،تقریباً 85 مکلوں کے سفیروں نے، دلّی سے امرتسر کا سفر کیا تھا۔ وہاں انھوں نے امرتسر سے گولڈن ٹیمپل کی زیارت کی اور یہ سب گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو کے تحت ہوا تھا۔ وہاں ان سارے سفیروں نے گولڈ ٹیمپل کی زیارت تو کی ہی۔ انھیں سکھ روایت اور ثقافت کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ اس کے بعد کئی سفیروں نے سوشل میڈیا پر وہاں کی تصویریں شیئر کیں۔ بڑے قابل فخر اور اچھے تجربات کو بھی لکھا۔ میری تمنا ہے کہ گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو ہمیں ان کے خیالات اور فلسفوں کو اپنی زندگی میں اتارنے کی اور زیادہ تحریک دے۔ ایک بار پھر میں سر جھکا کر گرونانک دیو جی کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے بھائیو اور بہنو، مجھے یقین ہے کہ 31 اکتوبر کی تاریخ آپ سب کو یقینا یاد ہوگی۔ یہ دن ہندوستان کے مردآہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے جو ملک کو اتحاد کے دھاگے میں پرونے والے عظیم ہیرو تھے۔ سردار پٹیل میں جہاں لوگوں کو متحد کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی وہ لوگوں کے ساتھ بھی تال میل بٹھا لیتے تھے جن کے ساتھ فکری اختلاف ہوتے تھے۔ سردار پٹیل باریک سے باریک چیزوں کو بھی بہت گہرائی سے دیکھتے تھے، پرکھتے تھے، صحیح معنوں میں وہ ‘مین آف ڈیٹیل’ تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ منصوبوں کو تیار کرنے اور لائحہ عمل بنانے میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ سردار صاحب کے طریقہ کار کے موضوع پر جب پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی پلاننگ کتنی زبردست ہوتی تھی۔ 1921 میں احمد آباد میں کانگریس کے کنوینشن میں شامل ہونے کے لیے پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں وفود پہنچنے والےتھے۔ کنونشن کے سارے انتظامات کی ذمہ داری سردار پٹیل پر تھی۔ اس موقع کا استعمال انھوں نے شہر میں پانی، سپلائی کے نیٹ ورک کو بھی سدھارنے کے لیے کیا۔ یہ یقینی بنایا کہ کسی کو بھی پانی کی دقت نہ ہو۔ یہی نہیں انھیں اس بات کی بھی فکر تھی کہ کنونشن کے مقام سے کسی وفد کا سامان یا اس کے جوتے چوری نہ ہوجائیں اور اسے دھیان میں رکھتے ہوئے سردار پٹیل نے جو کیا وہ جانکر آپ بہت حیران ہوں گے۔ انھوں نے کسانوں سے رابطہ کیا اور ان سے کھادی کے بیگ بنانے کی درخواست کی۔ کسانوں نے بیگ بنائے اور نمائندگان کو فروخت کیے۔ اس بیگ میں جوتے ڈال کر اپنے ساتھ رکھنے سے وفود کے من سے جوتے چوری ہونے کی فکر ختم ہوگئی۔ وہیں دوسری طرف کھادی کے فروخت میں بھی کافی اضافہ ہوا۔ آئین ساز میں قابل ذکر کردار ادا کرنے کے لیے ہمارا ملک، سردار پٹیل کا ہمیشہ احسان مند رہے گا۔ انھوں نے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کا اہم ترین کام انجام دیا، جس سے ذات اور فرقہ کے آدھار پر ہونے والے کسی بھی بھید بھاؤ کی گنجائش نہ باقی رہے۔
ساتھیو، ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ کی حیثیت سے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے، ریاستوں کو ایک کرنے کا، ایک بہت بڑا اور تاریخی کام کیا۔ سردار ولبھ بھائی کی یہی خصوصیت تھی جن کی نظر ہر واقعے پر ٹکی تھی۔ ایک طرف ان کی نظریں حیدرآباد، جوناگڑھ اور دیگر ریاستوں پر مرکوز تھیں وہیں دوسری طرف ان کا دھیان دور دراز جنوب میں لکشدیپ پر بھی تھا۔ دراصل، جب ہم سردار پٹیل کی کوششوں کی بات کرتے ہیں تو ملک کے اتحاد میں کچھ خاص ریاستوں میں ہی ان کے رول کا ذکر ہوتا ہے۔ لکشدیپ جیسے چھوٹی جگہ کے لیے بھی انھوں نے اہم رول نبھایا تھا۔ اس بات کو لوگ شاید ہی یاد کرتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لکشدیپ کچھ جزیروں کا مجموعہ ہے۔ یہ ہندوستان کے سب سے خوبصورت علاقوں میں سے ایک ہے۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے فوراً بعد ہمارے پڑوسی کی نظر لکشدیپ پر تھی اور اس نے اپنے جھنڈے کے ساتھ جہاز بھیجا تھا۔ سردار پٹیل کو جیسے ہی اس بات کی جانکاری ہوئی انھوں نے بغیر وقت ضائع کیے، ذرا بھی دیر کیے بغیر فوراً سخت کارروائی شروع کردی۔ انھوں مدالیئر بھائیوں، آرکوٹ راماسامی مدالیئر اور آرکوٹ لکشمن سوامی مدالیئر سے کہا کہ وہ تراون کور کے لوگوں کو ساتھ لے کر فوراً کوچ کریں اور وہاں ترنگا لہرائیں۔ لکشدیپ میں ترنگا پہلے لہرانا چاہیے۔ ان کے حکم کے فوراً بعد وہاں ترنگا لہرایا گیا اور لکشدیپ پر قبضہ کرنے کے پڑوسی کے ہر منصوبے دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد سردار پٹیل نے مدولیئر بھائیوں سے کہا کہ وہ ذاتی طور پر یہ یقینی بنائیں کہ لکشدیپ کی ترقی کے لیے ہر ضروری امداد ملے۔ آج لکشدیپ ہندوستان کی ترقی میں اپنی اہم خدمات دے رہا ہے۔ یہ ایک پرکشش سیاحتی مقام بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب بھی اس کے خوبصورت جزیروں اور سمندری ساحلوں کا سفر کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر 2018 کا دن، جس دن سردار صاحب کی یاد میں بنا ‘مجسمہ اتحاد’ ملک اور دنیا کے نام وقف کیا گیا تھا۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہے۔ امریکہ میں ‘مجسمہ آزادی’ سے بھی اونچائی میں دوگنا ہے۔ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہر ہندوستان کو فخر سے معمور کردیتا ہے۔ ہر ہندوستان کا سر شان سے اونچا اٹھ جاتا ہے۔ آپ کو خوشی ہوگی ایک سال میں 26 لاکھ سے زیادہ سیاح ‘مجسمہ اتحاد’ کو دیکھنے کے لیے پہنچے۔ اس کا مطلب ہوا کہ یومیہ اوسطا ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں نے ‘مجسمہ اتحاد’ کی عظمت کا مشاہدہ کیا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے تئیں ان کے دل میں جویقین ہے، عقیدہ ہے، اس کا اظہار کیا اور اب تو وہاں کیکٹس گارڈن، بٹرفلائی گارڈن، جنگل سفاری، چلڈرن نیوٹریشن پارک، ایکتا نرسری، ایسے متعدد پرکشش کے مقامات مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اور اس سے مقامی معیشت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ او رلوگوں کو روزگار کے نئے نئے مواقع بھی مل رہے ہیں۔ اور آنے والے سیاحوں کی سہولتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کئی گاؤں والے اپنے اپنے گھروں میں ہوم اسٹے کی سہولت فراہم کروا رہے ہیں۔ ہوم اسٹے سہولتیں فراہم کرانے والے لوگوں کو پروفیشنل ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اب ڈریگن فروٹ کی کھیتی بھی شروع کردی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی یہ وہاں کے لوگوں کی زندگی کا خاص ذریعہ بھی بن جائے گا۔
ساتھیو، ملک کے لیے، سبھی ریاستوں کے لیے سیاحت کی صنعت کے لیے، یہ مجسمہ اتحاد ایک مطالعہ کا موضوع ہوسکتا ہے۔ ہم سب اس کے گواہ ہیں کہ کیسے ایک سال کے اندر ایک مقام عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام کے طور پر فروغ پاتا ہے۔ وہاں ملک اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں اور ٹرانسپورٹ کی ٹھہرنے کی ، رہنمائی کرنے والوں کی، ماحول دوست انتظامات، ایک کے بعد ایک اپنے آپ بہت سارے انتظامات فروغ پاتے چلے جارہے ہیں۔ بہت بڑی اقتصادی ترقی ہو رہی ہے اور مسافرین کی ضرورتوں کے مطابق لوگ وہاں سہولتیں پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت بھی اپنا رول ادا کر رہی ہے۔ ساتھیو کون ہندوستانی ہوگا جس کو اس بات کا فخر نہیں ہوگا کہ پچھلے دنوں ٹائم میگزین نے دنیا کے سو اہم ترین سیاحتی مقامات میں مجسمہ اتحاد کو بھی اہم مقام دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی لوگ اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کر مجسمہ اتحاد دیکھنے تو جائیں گے ہی، لیکن میری درخواست ہے کہ ہر ہندوستان جو سفر کرنے کے لیے وقت نکالتا ہے وہ ہندوستان کے کم سے کم 15 مقامات کا سفر اپنے خاندان کے ساتھ کرے جہاں جائے وہاں رات کو رکے، یہ میری درخواست تو برقرار ہی ہے۔
ساتھیو، جیسے کہ آپ جانتے ہی 2014 سے ہر سال 31 اکتوبر کو قومی ایکتا دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں اپنے ملک کے اتحاد، سالمیت اور سلامتی کی ہر قیمت پر حفاظت کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ 31 اکتوبر کو ہر بار کی طرح رن فار یونیٹی کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ اس میں سماج کے ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں گے۔ رن فار یونیٹی اس بات کی علامت ہے، یہ ملک ایک ہے، ایک سمت میں چل رہا ہے اور ایک مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک مقصد، ایک ہندوستان، عظیم ہندوستان۔
پچھلے پانچ سال دیکھا گیا ہے نہ صرف دلّی لیکن ہندوستان کے سیکڑوں شہروں میں، مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں، راجدھانیوں میں ضلعی مراکز میں چھوٹی چھوٹی ٹیئر ٹو ٹیئر تھری سٹی میں بھی بہت بڑی تعداد میں مرد ہو ، عورت ہو شہر کے لوگ ہوں ، گاؤں کے لوگ ہوں، بچے ہوں، نوجوان ہوں، عمر رسیدہ لوگ ہوں، معذور ہوں، سب لوگ بہت بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی آج کل دیکھیں تو لوگوں میر میراتھن کو لے کر ایک شوق اور جنون دیکھنے کو مل رہا ہے۔ رن فار یونیٹی بھی تو ایک ایسا ہی انوکھا پروویژن ہے۔ دوڑنا دل، دماغ اور جسم سب کے لیے مفید ہے۔ یہاں تو دوڑنا بھی فٹ انڈیا کے جذبے کو سچ ثابت کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ، ایک ہندوستان، عظیم ہندوستان اس مقصد سے بھی ہم جڑ جاتے ہیں۔ اور اسی لیے صرف جسم نہیں، دل اور سنسکار ہندوستان کی ایکتا کے لیے ہندوستان کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے اور اس لیے آپ جس بھی شہر میں رہتے ہوں وہاں اپنے آس پاس رن فار یونیٹی کے بارے میں پتہ کرسکتے ہیں اس کے لیے ایک پورٹل لانچ کیا گیا ہے۔ runforunity.gov.in اس پورٹل میں ملک بھر کی ان جگہوں کی جانکاری دی گئی ہے جہاں پر رن فار یونیٹی کا انعقاد ہونا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب 31 اکتوبر کو ضرور دوڑیں گے۔ ہندوستان کی ایکتا کے لیے، خود کی فٹنس کے لیے بھی۔
میرے پیارے ہم وطنو، سردار پٹیل نے ملک کو ایکتا کے دھاگے میں باندھا، ایکتا کا یہ منتر ہماری زندگی میں سنسکار کی طرح ہے اور ہندوستان جیسے تنوع سے بھرپور ملک میں ہمیں ہر سطح پر، ہر ڈگر پر، ہر موڑ پر، ہر پڑاؤ پر ایکتا کے اس منتر کو مضبوطی دیتے رہنا چاہیے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ملک کی ایکتا اور آپسی بھائی چارہ کو مضبوط کرنے کے ہمارا سماج ہمیشہ سے بہت سرگرم اور چوکنا رہا ہے۔ ہم اپنے آپس پاس ہی دیکھیں تو ایسی کئی مثالیں ملیں گی جو آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کام کرتے رہے ہیں لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سماج کی کوشش، اس کی خدمت، یادوں کی سطح سے بہت جلد اوجھل ہوجاتا ہے۔
ساتھیوں مجھے یاد ہے کہ ستمبر 2010 میں جب رام جنم بھومی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ ذرا ان دنوں کو یاد کیجیے، کیسے ماحول تھا۔ طرح طرح کے کتنے لوگ میدان میں آگئے تھے۔ کیسے کیسے انٹرسٹ گروپ اس صورتحال کا اپنے اپنے طریقے سے فائدہ اٹھانے کے لیے کھیل کھیل رہے تھے۔ ماحول میں گرمی پیدا کرنے کے لیے کس کس طرح کی زبان بولی جاتی تھی۔ مختلف آوازوں میں تیکھا پن بھرنے کی کوشش ہوتی تھی۔ کچھ بیان بازوں نے اور کچھ بڑبولوں نے صرف اور صرف خود کو چمکانے کے ارادے سے نہ جانے کیا کیا بول دیا تھا۔ کیسی کیسی غیر ذمہ دارانہ باتیں کی تھیں۔ ہمیں سب یاد ہے۔ لیکن یہ سب پانچ دن، سات دن، دس دن، چلتا رہا، لیکن جیسے ہی فیصلہ آیا، ایک لطف انگیز، حیران کن تبدیلی ملک نے محسوس کی۔ ایک طرف تو دو ہفتے تک گرماہٹ کے لیے سب کچھ ہوا تھا، لیکن جب رام جنم بھومی پر فیصلہ آیا تب حکومت نے، سیاسی جماعتوں نے سماجی تنظیموں نے، سول سوسائٹی نے، سبھی فرقوں کے نمائندوں نے سادھوں سنتوں نے بہت ہی متوازن اور صبر وتحمل سے بھر پور بیان دیئے۔ ماحول سے تناؤ کم کرنے کی کوشش کی، لیکن آج مجھے وہ دن برابر یاد ہے۔ جب بھی اس دن کو یاد کرتا ہوں من کو خوشی ہوتی ہے۔ عدلیہ کے وقار کو بہت ہی فخر سے احترام بخشا اور کہیں بھی گرماہٹ کا، تناؤ کا ماحول نہیں بننے دیا۔ یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ یہ ہمیں بہت طاقت دیتی ہے۔ وہ دن، وہ پل ہم سب کے لیے ایک فرض شناسی کا لمحہ ہے۔ ایکتا کی آواز، ملک کو کتنی بڑی طاقت دیتا ہے اس کی یہ مثال ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر ہمارے ملک کی سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا جی کا قتل بھی اسی دن ہوا تھا۔ ملک کو ایک بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا۔ میں آج ان کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج گھر گھر کی اگر کوئی ایک کہانی سب دور سنائی دیتی ہے، ہر گاؤں کی کوئی ایک کہانی سنائی دیتی ہے— شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب، ہندوستان کے ہر گوشے سے، ایک کہانی سنائی دیتی ہے تو وہ ہے سوچھتا کی۔ ہر شخص کو، ہر خاندان کو، ہر گاؤں کو، سوچھتا کے تعلق سے اپنے اچھے مشاہدات کو کہنے کا من کرتا ہے۔ کیونکہ، سوچھتا کی یہ کوشش سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی کوشش ہے۔ انجام کار بھی سوا سو کروڑ بھی ہندوستانی ہیں لیکن ایک اچھا تجربہ اور دلچسپ بھی ہے۔ میں نے سونا، میں سوچتا ہوں، میں آپ کو بھی سناؤ۔ آپ تصور کیجیے، دنیا کا سب سے اونچا میدان جنگ جہاں کا درجہ حرارت صفر سے پچاس ساٹھ ڈگری مائنس میں چلا جاتا ہے، ہوا میں آکسیجن بھی نام کا ہی ہوتا ہے۔ اتنی مخالف صورتحال میں، اتنے چیلنجوں کے بیچ رہنا بھا، کسی کمال سے کم نہیں ہے۔ ایسی مشکل حالت میں ہمارے بہادر جوان نہ صرف سینا تان کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ وہاں سوچھ سیاچین مہم بھی چلا رہے ہیں۔ ہندوستانی فوج کی اس غیر معمولی عہد بستگی کے لیے میں ہم وطنوں کی جانب سے ان کی ستائش کرتا ہوں۔ شکریے کا اظہار کرتا ہوں، وہاں اتنی سردی ہے کہ کچھ بھی ڈی کمپوز ہونا مشکل ہے۔ ایسے میں کوڑے کچرے کو الگ کرنا اور اس کا انتظام کرنا، اپنے آپ میں بہت اہم کام ہے۔ ایسے میں گلیشئر اور ان کے آس پاس کے علاقے سے 130 ٹن اور اس سے بھی زیادہ کچرا ہٹانا اور وہ بھی یہاں کے کمزور ماحولیاتی نظام کے بیچ۔ کتنی بڑی خدمت ہے یہ۔ یہ ایک ایسا ماحولیاتی نظام ہے جو ہیم تیندوے جیسی نایاب نسل کا گھر ہے۔ یہاں آئی بیکس اور بھورے بھالو جیسے نایاب جانور بھی رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سیاچین ایسا گلیشئر ہے جو ندیوں اور شفاف پانی کا منبع ہے۔ اس لیے یہاں سوچھتا مہم چلانے کا مطلب ہے ان لوگوں کے لیے صاف پانی کو یقینی بنانا جو نچلے علاقوں میں رہتے ہیں۔ ساتھ ہی نبرا اور شیوک جیسے ندیوں کے پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اتسو ، ہم سب کے جیون میں ایک نئے شعور کو جگانے والا تہوار ہوتا ہے۔ اور دیوالی میں تو خاص طور پر کچھ نہ کچھ نیا خریدنا بازار سے کچھ لانا ہر خاندان میں کم زیادہ مقدار میں ہوتا ہی ہوتا ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہم کوشش کریں مقامی چیزوں کو خریدیں۔ ہماری ضرورت کی چیز ہمارے گاؤں میں ملتی ہے تو تحصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تحصیل میں ملتی ہے تو ضلع تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا زیادہ ہم اپنی مقامی چیزیں خریدنے کی کوشش کریں گے ‘‘گاندھی 150’ اپنے آپ میں ایک عظیم موقع بن جائے گا۔ اور میری تو درخواستس رہتی ہی ہے کہ ہمارے بنکروں کے ہاتھ سے بنا ہوا ، ہمارے کھادی والوں کے ہاتھوں سے بنا ہوا کچھ نہ کچھ تو خریدنا ہی چاہیے۔ اس دیوالی میں بھی، دیوالی سے پہلے تو آپ نے بہت کچھ خرید کر لیا ہوگا۔ لیکن بہت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ دیوالی کے بعد جائیں گے تو تھوڑا سستا بھی مل جائے گا۔ تو بہت لوگ ہوں گے جن کی ابھی خریداری باقی بھی ہوگی۔ تو دیوالی کی نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ میں آپ سے اپیل کروں گا کہ آؤ ہم مقامی چیزیں خریدنے کے خریدار بنیں، مقامی چیزیں خریدیں، دیکھئے، مہاتما گاندھی کے خواب کو سچ کرنےمیں ہم بھی کتنا اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ میں پھر ایک بار اس دیوالی کے مقدس تہوار پر آپ کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، دیوالی میں ہم طرح طرح کے پٹاخے اس کا استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی بے احتیاطی میں آگ لگ جاتی ہے، کہیں زخمی ہوجاتے ہیں۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ خود کو بھی سنبھالیے اور تہوار کو بڑے امنگ سے منایئے۔ میری بہت بہت مبارکباد۔
بہت بہت شکریہ!
My dear countrymen, Namaskar,Friends, in today’s episode of Mann Ki Baat, I shall also talk about a great personality of the country, cherished by all Indians with respect and affection from the core of their hearts. There must be hardly an Indian citizen who does not show deep regard for her, does not revere her. She is elder to most of us and has been a witness to myriad phases, different eras the country has passed through. We address her as “DIDI”, elder sister…. Lata Didi. She turns ninety this 28th of September. Before leaving on the foreign tour, I was blessed with an opportunity to converse with her on the phone. This chat was akin to a younger brother speaking to his elder sister affectionately. I usually refrain from sharing such personal conversations; but today, I want you to listen to the tete a tete; listen to Lata Didi. Listen to it for yourself how Lata Didi is earnestly concerned and eager about everything concerning the country. Her satisfaction and reassurance too, lies in the progress being made by India; the India on the path of change; the India that is gaining newer heights.
Modi Ji : Lata Didi, Pranaam. This is Narendra Modi speaking.
Lata Didi: Pranaam.
Modi Ji : I gave you a call, since on your birthday this time, I would be travelling on a flight.
Lata Didi: Okay.
Modi Ji : So, I thought, before leaving, I would wish you in advance… heartiest best wishes on your birthday. May you stay healthy, may your blessings always be showered upon us, we pray. And I called you up before leaving to greet you.
Lata Didi: I was touched when I came to know that you would be giving me a call. When are you returning?
Modi Ji : I am returning in the intervening night of the 28th & the 29th, slightly past your birthday.
Lata Didi: Okay, Okay. What’s there to celebrate on a Birthday! Just at home with near & dear ones.
Modi Ji : Didi, you see….
Lata Didi: I seek your blessings.
Modi Ji : It is we who seek your blessings, you are much elder to us.
Lata Didi: There are many who are elder just by age, but greater are the blessings of those who do great work, and hence are greater.
Modi Ji : Didi, you are greater, not only in terms of age, but also, in terms of your illustrious work. Your attainment through your glorious achievements are the result of your perseverance, your Sadhana & Tapasya.
Lata Didi: All this is just the fruit of the blessings of my parents; the blessings of my listeners. I am a nobody.
Modi Ji : That is your humility. For everyone from the new generation, it is a lesson. For us it is an immense source of inspiration that even after reaching glorious heights, you have always accorded the highest priority to acknowledge the upbringing, the sanskar bestowed by your parents and also to being humble.
Lata Didi: Jee…
Modi Ji : And it gives me joy when you proudly say that your mother was a Gujarati.
Lata Didi: Yes.
Modi Ji : And whenever I visited you, you offered me a variety of Gujarati dishes.
Lata Didi: You do not have an idea of what you are. I know for sure that your advent is transforming the landscape of India. It gives me joy, feels nice.
Modi Ji : Didi, all we want is that you continue blessing us, blessing the whole country, may we keep on doing the good work. I keep getting your letters and gifts as well. Our close bond feels like family and gives me immense joy.
Lata Didi: Of course. I do not wish to trouble you further, since I can see how busy you are with myriad pressures on the work front. There are so many things that you have to think of. After you had gone to touch your mother’s feet, I too sent someone to her to seek her blessings.
Modi Ji : Yes. My mother remembered. She was telling me that.
Lata Didi: And she blessed me over the telephone. I felt overjoyed.
Modi Ji : Your affection made Mother very happy. And I am extremely thankful to you for the concern that you show towards me. Once again, I extend my heartiest wishes for your birthday. This time when I had come to Mumbai, I felt like meeting you in person.
Lata Didi: Yes, certainly.
Modi Ji : But I could not be there because of paucity of time. But I shall come very soon to your place. And I would love you to feed me a Gujarati dish.
Lata Didi: Of course, sure. I shall feel fortunate & privileged.
Modi Ji : Pranaam, Didi.
Lata Didi: Pranaam.
Modi Ji : Lots of good wishes to you
Lata Didi: Greetings to you.
Modi Ji : Pranaam Didi.
My dear countrymen, with the advent of Navaratri today, the air is bound to be full of new hopes, new energy, newer zest and newer resolves, once again. After all, it’s the festival season. The ensuing weeks shall be witness to the sparkle of festivals throughout the country. All of us shall celebrate the NavaratriMahotsava, Garba, Durga Puja, Dussehra, Diwali, BhaiyaDooj, Chhath Puja…. in fact innumerable festivals. Heartiest greetings to all of you for these festivals to come. During festivals, families come together. Homes will be filled with joy! But… you must have felt this… there are many people around us who remain deprived of these celebrations. And this is what is termed as “Chiragh Tale Andhera”, darkness just beneath the lamp! Perhaps this adage is not just a set of words; for us, it is an order a philosophical thought, or an inspiration. Just think about it; there are some homes, bathed in shimmering lights; on the other hand, just close by, there are some homes mired in darkness.
There are homes where sweetmeats are left to rot; there are homes where children yearn for a sweet; at places almirahs run out of space to store more clothes; elsewhere, people have to slog to earn a decent covering for their bodies. So, is thisnot the darkness, just beneath the lamp? Indeed it is. The true joy radiating out of festivals is only when the darkness subsides and dissipates and a radiant glow emerges. Let us distribute joy, where there is a paucity of it… let it come naturally to us. On the one hand, when we experience the ‘Delivery In’ of sweetmeats, apparel, gifts and so on, let us think for a moment on the process of ‘Delivery Out’. At least in our homes, items that are in excess and thus, not required anymore, could be allocated for ‘Delivery Out’. In many cities, many NGOs run by young friends have formed Start ups for this endeavor. They collect clothes, sweets, food from homes, look for the needy and hand them over discreetly. Can we, this time, during the festival season, dispel some of the darkness beneath the lamp with due awareness and resolve? The smiles thus accrued on the faces of numerous underprivileged families will more than double your joy during festivals… your faces will be lit up with a glow that will brighten your Diwali immensely.
My dear brothers and sisters, Laxmi, the goddess of wealth, makes an entry into each and every household in the form of fortune and prosperity. Of course, Laxmi should be welcomed in the traditional way. Can we, this time, introduce a novelty in welcoming her? In our culture, daughters are considered Laxmi, since they are harbinger of fortune and prosperity. Can we, this time around in society, organize programmes to felicitate daughters in villages, towns and cities? It could be in the form of a public function. There must be numerous daughters amongst us who, through there perseverance, diligence and talent have brought glory to their families, society and the country. This Diwali, can we arrange programmes to honor the Laxmi of India? If you look around, you’ll find many daughters and daughters-in-law who are performing extraordinarily. Some must be engaged in teaching underprivileged children, others could be occupied in spreading awareness in the field of sanitation and health, while many could be doing society a service by working as Doctor and Engineers. Or striving for justice to someone by working as Lawyer!
Our society must recognize such daughters, honor them and feel proud of them. Programmes to felicitate them should be held throughout the country. We could do something more; we could highlight the achievements of these daughters by sharing their achievements on social media, using the hashtag # BHARAT KI LAXMI. The way we jointly ran a mega campaign “Selfi with daughter”, which spread globally. Similarly, this time, let us do a campaign BHARAT KI LAXMI. Encouraging the Laxmi of Bharat amounts to strengthening the paths of prosperity for the country and her citizens.
My dear countrymen, as I have mentioned earlier, a great advantage of Mann Ki Baat is that, I’m blessed with the opportunity to converse with a lot of people, known or unknown, directly or indirectly.A few days ago, AleenaTaayang, a student from far off Arunachal has written an interesting letter to me. And the contents are… Let me read out the letter to you.
Respected Mr. Prime Minister, my name is Aleena Taayang. I hail from Roing, Arunachal Pradesh. On my exam result this time, some people asked me if I had read the book Exam Warriors! I replied in the negative. But on returning, I purchased the book and read it more than twice. My experience after that has been very good. I felt, had I read the book before my exams, I would’ve benefitted a great deal. I liked quite a few aspects of this book, but I noticed that it contains may mantras for students, but for parents and teachers this book does not have much. I wish;if you are thinking anew on a new edition, do include a few mantras for parents and teachers and of course new content.
See… even my young friends bear this trust that whatever they ask the Pradhan Sevak, the principal servant of the country to do; it will be done.
My young student friends, first of all, I thank you for writing to me. Thank you for reading Exam Warriors more than twice and special thanks for pointing out shortcomings in the book. At the same time, my little friend has entrusted me with a task, in fact there are orders for me. I shall certainly comply with your directions. As you have told me, I shall positively try to write something for parents as well as teachers, as and when I get the time to pen a new edition. But I urge all of you… can you be of help to me? It is about experiences in your daily lives. I call upon all students, teachers and parents to come up with your experiences and suggestions on aspects of stress free exams. I shall duly go through them, study them. I’ll give it due thought and whatever comes across as apt, I shall try and incorporate that in my own words. And quite possibly, if the suggestions are sufficiently large in number, it will lend certitude to the idea of a new edition. So, I shall eagerly wait for your thoughts to flow. Once again, I express my gratitude to our little friend, student Aleena Taayang from Arunachal.
My dear countrymen, you update yourselves with the busy schedule of the Prime Minister of the country through newspapers and television, you even discuss the engagements. But, I hope you are aware that I am just as common a being as you are. Being an ordinary citizen, whatever affects you has the same effect on me, since I’m just one amongst you. Just see how on the one hand, victory in the U.S. open was discussed; on the other, runner up Daniil Medvedev’s speech was equally doing the rounds in public discourse, especially on social media. Hence I too heard the speech and watched the match. The sheer simplicity and maturity displayed by the 23 year old Daniil Medvedev touched everyone. It surely stirred me. Moments before this speech, he had suffered defeat at the hands of Tennis legend Rafael Nadal, 19 times grand slam winner. An event such as this would have pushed anyone towards remorse and despair; in the case of Medvedev, there was no sign of the slightest pallor on his countenance. Rather, his expression lit up the faces of those watching him with meaningful smiles. He won hearts with his humility and simplicity; the epitome of the spirit of sportsmanship in the truest sense that he is, in letter and spirit. Spectators welcomed his reflections with warmth and fervor. He also touched upon Nadal being the inspiring force in Tennis for millions of young people, adding how difficult it was to face him in the game.
The way Medvedev heaped praise on his opponent after a defeat in a fierce duel makes him a living example of the true essence of the spirit of sportsmanship. Of course, on the other hand champion Nadal too showered glowing praise on Daniil’s game. The display of the indomitable ardour of the defeated and the sheer humility of the victorious in the same frame was a sight to behold. If you haven’t heard Medvedev’s speech yet, I shall urge you, especially young friends to watch this video. It holds much for people across the age and class spectra to see and learn. These are moments that go way beyond winning and losing, wherevictory and defeat cease to be. It is life that is victory…. This has been beautifully articulated in our scriptures. The wisdom of our ancestors is truly praiseworthy. Our ancient texts observe:
विद्या विनय उपेता हरति
न चेतांसि कस्य मनुजस्य
मणि कांचन संयोग:
जनयति लोकस्य लोचन आनन्दम
Meaning, when ability and humility amalgamate in a person, whose heart will he not be able to win over? As a matter of fact, this young player has won the hearts of people across the globe.
My dear countrymen and especially my young friends, what I am going to tellyou now is directly for your benefit. Discourses and debates will continue, the support and opposition will continue, but, if some things are checked before they proliferate, then there is a huge benefit. Things that spawn and spread a lot are very difficult to stop at later stages. But, if we become aware at an early stage and put a stop to it, then a lot can be saved. Continuing in the same vein, I feel, today, that I should definitely have a talk with my young friends.
We all know that addiction to, tobaccois very harmful for health and it becomes very difficult to quit this addiction. People who consume tobacco are vulnerable to high risk diseases like cancer, diabetes, blood pressure etc. Everyone knows that. Tobacco intoxication occurs due to the nicotine present in it. Brain development is hampered by its consumption during adolescence. But, today, I want to have a discourse with you on a new topic. You must be knowing that, recently the e-cigarette got banned in India. An e-cigarette is a type of electronic device unlike a typical cigarette.In ane-cigarette, theheating of nicotine-containing fluids creates a type of chemical smoke and this is the pathway through which nicotine is consumed. While we all understand the dangers of common cigarettes, a misconception has been generated about e-cigarettes.
The myth that has been spread is that e-cigarettes pose no danger. Like the conventional cigarette, it does not spread odour as fragrant chemicals are added to it. We have seen around us, that, even if the father in any house is a chain smoker, still he tries to stop the rest of the household from smoking and wants his children not to fall prey to the habit of cigarettes or bidis. His effort is that no family member should take to smoking. He knows that smoking or tobacco causes great damage to the body. There is no confusion about the dangers posed by a cigarette. It only causes harm and this even its seller too knows. The smoker also knows this fact and so do people around. But the case of e-cigarettes is quite different. There is little awareness among people about e-cigarette. They are also completely unaware of its danger and for this reason sometimes e-cigarettessneak into the house out of sheer curiosity. And Kids at times pretending to be showing some magical trick, blow smoke in the presence of Peer Company or their parents, without lighting a cigarette or striking a match to light it! And as if a magic show is going on, the family members respond with applause! There is no awareness! There is no knowledge that once the teenagers or our youth get caught in its clutches, then, slowly, they become hookedand fall prey to this noxious addiction.
And our real wealth -the youth become condemned to tread on the path of waste, quite unaware! In fact, many harmful chemicals are added to e-cigarettes, which have a deleterious effect on health. You are aware of the fact that when someone smokes around us, we come to know about it through its odour. Even if there is a packet of cigarettes in someone’s pocket, the smell can be detected. However, this is not the case with an e-cigarette and many teenagers and young people, unknowingly and sometimes proudly displaying an e-cigaretteas a fashion statement, keep itbetwixt their books, in their offices, in their pockets, sometimes hold it in their hands and thus fall prey to it. The younger generation is the future of our country. The e-cigarette has been banned so that this new form of intoxication does not destroy our demographically young country. It does not trample the dreams of a family and waste the lives of our children. This scourge and this obnoxious habit should not become rooted in our society.
I urge all of you to quit the addiction to tobacco and do not harbour any misconceptions about e-cigarettes. Come, let us all build a healthy India.
Oh Yes! Do you still remember Fit India? Fit India does not mean that if we go to the gym for two hours every morning and evening, it will suffice! All these addictions have to be avoided to be a part of Fit India. I am sure you will not misconstrue whatever I’ve said, but rather happily accept my counsel; I will definitely like it.
My dear brothers and sisters, it is a matter of great providence that our India has been the birthplace and work-place of extraordinary denizens, who spent all their lives, not for themselves, but for the good of the society.
Our Mother India, our country is a bountiful land! Many gems of human beings took birth here. India has not only been the birthplace of such extraordinary people, but also the land of their karma. And these are the people who have spent themselves in service of others. One such illustrious Indian is being honoured in Vatican City on 13th October. It is a matter of pride for every Indian that, on the coming 13thOctober, His Holiness Pope Francis will declare Sister MariamThresia a saint. Sister MariamThresia, in her short lifespan of 50 years, worked for the good of humanity becominganoble example for the entire world.Whatever task Sister MariamThresiaundertook and accomplished, she did so withutmost dedication and devotion.She rendered service in the fields of education and social service. She had built many schools, hostels and orphanages, and throughout her life, remained devoted to this cause.
She founded the Congregation of the Sisters of the Holy Family which is still continuing on the path of her life’s philosophy and mission. I once again pay heart felt tributes to Sister MariamThresia and congratulate the citizens of India, and especially our Christian brothers and sisters, for this achievement.
My dear countrymen, it is a matter of pride not only for India but for the entire world today, while we are celebrating ‘Gandhi 150’, our 130 crore countrymen have pledged to be rid from the menace of Single Use Plastic. In view of the kind of lead that India has taken towards environmental protection, today the countries of the entire world are looking towards India as a model example. I am confident that you will all be a part of the campaign for liberation from the menace of Single Use Plastic on 2ndOctober. In India, citizens are contributing in this campaign in their own way. But, a young man from our country has initiated a very unique campaign.
My attention was drawn towards his work, so, I talked to him on the phone and tried to understand the new experiment being attempted by him. It could be that this attempt of his may work for other people of our country. Mr. RipudamanBelviji is making an unique effort by attemptingplogging! When I first encountered the term Plogging, it was novel even to me. Perhaps this word is in usage in certain measure in foreign lands. But, in India, RipudamanBelviji has promoted it to a great extent. Let's talk to him.
PM’S PHONE CALL WITH RIPUDAMAN BELVI
That is why you are worthy of praise. Ripudaman ji, I felt nice talking to you. You have designed this entire programme in a very innovative manner, in a way that it will be liked, especially by young people. Heartiest congratulation to you. And friends this time on the anniversary of revered Bapu, the Ministry of Sports too is organizing a ‘Fit India Plogging Run’. On the 2nd of October, plogging for two kilometers; and it will be held across the country. We heard through the experiences of Ripudaman Ji, how this programme should be organised; what it should consist of. What we have to do in this campaign that commences on 2nd of Octoberis that while we jog for 2 kilometers; and on the way, collect all kinds of plastic waste. Through endeavor, we shall not only pay better attention to our health; we shall also take a step towards ensuring protection for Mother Earth. This campaign is resulting in raising awareness levels in people; as far as sanitation and cleanliness, along with fitness levels. I do believe that a single step towards freedom from single use plastic taken by 130 crore countrymen will give India a lead by a 130 crore steps. Ripudaman ji, once again, many thanks to you. And to your team, and your imaginative, innovative bent of mind, heartiest congratulations from my side. Thank you.
My dear countrymen, groundwork for 2ndOctober is going on all over the country and also the world over, but we want to transmute 'Gandhi 150' as a task on the path of our duty. We want to move forward devoting our lives in the interest of the nation. I would like to remind you one thing in advance. Although in the next episode of 'Mann Ki Baat' I shall dwell upon it in detail, still today I am telling this ina advance so that you get time to prepare. You do remember that, 31stOctober is the birth anniversary of Sardar Vallabhbhai Patel and that ‘Ek Bharat Shreshth Bharat’ is our common dream; hence for that reason, every year on 31 October, we run for fostering unison in the country as 'Run for Unity', all over the nation. We have to run for the unity of the country on that day in in large numbers; elders, everyone, schools, colleges, all of us have to run for unity in lakhs of villages across the span of Hindustan. So, better start preparing from this instant onwards! I shall talk about it in detail later, but right now we have time on our hands; some people can begin their practice, whereas some can chalk out a plan.
My dear countrymen, you will remember, that on 15 August, I had in my address said from the ramparts of Red Fort that by 2022, you should visit 15 tourist destinations in India. At least 15 places and if possible, make a program to stay over there for an over night, two-night stay. You should observe, understand and experience India. We have so much diversity. And when holidays come in the shape of Diwali and allied festivals, people do travel and that's why I urge you to visit any 15 such places in India.
My dear countrymen, the 27th of September, two days prior to today, was celebrated as World Tourism Day and you will be happy to know that certain reputed tourism agencies of the world which rank standards of travel & tourism have shown that India has displayed a lot of improvement in the Travel & Tourism Competitive Index. And all this has been possible due to your cooperation and especially because understanding the importance of tourism has increased. The Swachhata Abhiyan also has a big role to play in all of this. And you will be delighted to know that today our rank is thirty four on this index whereas five years ago we were ranked65th, which in a way is a big jump. If we tried all that harder, then by the 75th year of our independence, we would have carved a place for ourselves amidst the major tourist destinations of the world.
My dear countrymen, once again I wish you all the best for various festivals that would be celebrated in the oncoming season in India, which is filled with diversity! Yes! Also, please see to it that during the celebration of Diwali, firecrackers do not lead to incidents of fire or loss of a life. Whatever precautions or preventive care is to be taken, should be taken during Diwali. Happiness should co-exist with joy, and of course there must also be enthusiasm and our festivals do indeed bring the aroma of collectiveness, and also the rituals connected with communal harmony. Symbiotic living provides us with renewed vigour and the festive season is the symbol of culmination of that renewed vigour. Come! Together brimming with enthusiasm, renewed dreams and resolutions we should celebrate. Once again here’s wishing many felicitations to you all. Thank you.
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ! ہمارا ملک ان دنوں ایک طرف بارش سے لطف اندوز ہورہا ہے ، تو دوسری طرف ، ہندوستان کے گوشے گوشے میں کسی نہ کسی طرح سے تہوار اور میلے، دیوالی تک سب کچھ یہی چلتا ہے اور شاید ہمارے آباؤ اجداد نے ، موسم چکر ، زمینی چکر اور معاشرتی زندگی کے نظام کو بخوبی اس طرح سے ڈھال ہے کہ معاشرے میں کسی بھی حالت میں، کبھی بھی خالی پن نہ آئے۔ گزشتہ دنوں ، ہم لوگوں نے کئی تہوار منائے۔ کل پورے ہندوستان میں ، شری کرشن جنم اشٹمی کا تہوار منایا گیا۔ کوئی تصور بھی کرسکتا ہے کہ کیسی شخصیت ہوگی کہ آج ہزاروں سالوں کے بعد بھی ہر تہوار نیا پن لے کر آتا ہے ، نئی ترغیب لے کر آتا ہے ، نئی توانائی لاتا ہے اور ہزاروں سال پرانی زندگی ایسی کہ جو آج بھی مشکلات کے کے حل کے لیے تحریک دے سکتا ہو۔ ہر فرد شری کرشن کی زندگی میں ایسے حال کی مشکلات کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ اتنی صلاحیت کے باوجود بھی کبھی وہ راس میں رم جاتے تھے تو کبھی گایوں کے بیچ ، تو کبھی گالوں کے بیچ، کبھی کھیل کود کرنا تو کبھی بانسری بجانا۔ نہ جانے تنوع سے بھرپور یہ شخصیت بے مثال صلاحیت کا حامل، لیکن سماجی قوت کو وقف، عوامی قوت کو وقف، عوام کو یکجا کرنے والے کی صورت میں، نیا کارنامہ انجام دینے والی شخصیت، دوستی کیسے ہو، تو سوداما والا واقع کون بھول سکتا ہے اور میدان جنگ میں اتنی ساری عظمتوں کے باوجود بھی سارتھی کا کام منظور کر لینا۔ کبھی چٹان اٹھانے کا، کبھی کھانے کا برتن اٹھانے کا کام، یعنی ہر چیز میں ایک نیا پن سا محسوس ہوتا ہے اور اس لیے آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو میں دو موہن کی طرف میرا دھیان جاتا ہے ایک سودرشن چکر والے موہن تو دوسرے چرخہ والے موہن ۔ سودرشن چکر والے موہن جمنا کے کنارے کو چھوڑ کر گجرات میں سمندر کے ساحل پر جاکر دوارکا بستی میں قیام کیا اور سمندر کے ساحل پر پیدا ہوا موہن جمنا کے کنارے آکر دلی میں زندگی کی آخری سانس لیتے ہیں۔ سودرشن چکر والے موہن نے اُس وقت کی صورتحال میں ہزاروں سال پہلے بھی جنگ کو ٹالنے کے لیے ، اپنی دانشمندی کا، اپنے فرض کا، اپنی صلاحیت کا، اپنی عقل مندی کا بھرپور استعمال کیا تھا اور چرخہ والے موہن نے بھی تو ایک ایسا راستہ منتخب کیا، آزادی کے لیے انسانی اقدار کی کوشش کے لیے ، شخصیت کی بنیادی عنصر کوتقویت دے ، اس کے لیے آزادی کی جنگ کو ایک ایسی شکل دی، ایسا موڑ دیا جو پوری دنیا کے لیے آج بھی عجوبہ ہے۔بے لوث خدمت کی اہمیت ہو ، علم کی اہمیت ہو یا پھر زندگی میں تمام نشیب و فراض کے بیچ مسکراتے ہوئے آگے بڑھنے کی اہمیت ہو، یہ ہم بھگوان کرشن کے پیغام سے سیکھ سکتے ہیں اور اسی لیے تو شری کرشن جگت گرو کے روپ میں بھی جانے گئے ہیں۔
‘‘کرشن وندے جگد گروم’’
آج جب ہم تہواروں کا ذکر کر رہے ہیں تب ہندوستان ایک اور بڑے تہوار کی تیاری میں مصروف ہے اور ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں بھی اس کا ذکر ہو رہا ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، میں بات کر رہا ہوں مہاتما گاندھی کی 150ویں یوم پیدائش کی۔ 2 اکتوبر 1869، پوربندر ، سمندر کے ساحل پر ، جسے آج ہم کرتی مندر کہتے ہیں، اُس چھوٹے سے گھر میں ایک شخص نہیں ، ایک عہد کا جنم ہوا تھا۔ جس نے انسانی تاریخ کو نیا موڑ دیا، نیا کارنامہ انجام دیئے۔ مہاتما گاندھی سے ایک بات ہمیشہ منسلک رہی ، ایک طرح سے ان کی زندگی کا وہ حصہ بنی رہی اور وہ تھی ، خدمت، خدمت کا جذبہ اور خدمت کے تئیں فرض کی ادائیگی۔ اُن کی پوری زندگی دیکھیں تو جنوبی افریقہ میں اُن طبقوں کے لوگوں کی خدمت کی جو نسلی عصبیت کا شکار تھے۔ اُس عہد میں وہ بات چھوٹی نہیں تھی ، جی! انہوں نے ، اُن کسانوں کی خدمت کی جنہیں چمپارن میں عصبیت کا شکار بنایا جا رہا تھا۔ انہوں نے ، اُن مل مزدروں کی خدمت کی جنھیں مناسب اجرت نہیں دی جا رہی تھی۔ انہوں نے غریب، بے سہارا ، کمزور اور بھوکے لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا اولین فرض سمجھا۔ جذام کے سلسلے میں کتنی غلط فہمیاں تھیں۔ ان غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے خود جذام کے مریضوں کی خدمت کرتے تھے اور خود کے ، زندگی میں ، خدمت کے توسط سے مثال پیش کرتے تھے۔ خدمت، انہوں نے لفظوں میں نہیں – زندگی گزار کر سکھائی تھی۔ سچائی کے ساتھ گاندھی کا جتنا اٹوٹ رشتہ رہا ہے ، خدمت کے ساتھ بھی گاندھی کا اتنا ہی اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ جس کسی کو جب بھی ، جہاں بھی ضرورت پڑی مہاتما گاندھی خدمت کے لیے ہمیشہ موجود رہے۔ انہوں نے نہ صرف خدمت پر زور دیا بلکہ اس کے ساتھ منسلک اپنی خوشی پر بھی زور دیا۔ خدمت لفظ کی اہمیت اسی معنی میں ہے کہ اُسے خوشی کے ساتھ کیا جائے۔ خدمت ہی سب سے بڑا مذہب ہے (سیوا پرمو دھرم)۔ لیکن ساتھ ساتھ ، گہری اندرونی خوشی ،‘سوانتہ سکھایہ’ کا جوہر خدمت کے جذبے سے ہمکنار ہے۔ یہ ، بابائے قوم کی زندگی سے ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، بے حساب ہندوستانیوں کی آواز بنے ہی، لیکن ، انسانی اقدار اور انسانی وقار کے لئے ، دنیا کی آواز بن گئے تھے۔ مہاتما گاندھی کے لئے ،انسان اور معاشرہ ، انسان اور انسانیت ، یہی سب کچھ تھا۔ خواہ، افریقہ میں فونکس فارم ہو، یا ٹالسٹائے فارم، سابرمتی آشرم ہو یا وردھا سبھی مقامات پر ، اپنے ایک منفرد انداز میں، معاشرتی متحرک کمیونٹی کو متحرک کرنے کے لیے ایک قوت رہا ہے۔ یہ میرے لیے بہت ہی خوشی کی بات ہے ، کہ ، مجھے عزت مآب مہاتما گاندھی سے منسلک متعدد اہم مقامت پر جا کر نمن کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ گاندھی، خدمت کے جذبے سے تنظیم کے جذبے پر بھی زور دیتے تھے۔ معاشرتی خدمت اور سماجی فروغ اور سمانی متحرک جذبہ یہ وہ جذبہ ہے جسے ہم اپنے روز مرہ کی زندگی میں لانا ہے۔ صحیح معنی میں ، یہی مہاتما گاندھی کو سچی خراج عقیدت ہے، سچی کاریانجلی ہے۔ اس طرح کے مواقع تو بہت آتے ہیں، ہم منسلک بھی ہوتے ہیں، لیکن کیا گاندھی 150؟ ایسے ہی آکر کے چلا جائے، ہمیں منظور ہے کیا؟ جی نہیں ہم وطنوں۔ ہم سب اپنے آپ سے ؛سوال کریں، غور و فکر کریں، اجتماعی طور پر بات چیت کریں۔ ہم معاشرے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر ، سبھی زمروں کے ساتھ مل کر ، سبھی عمر کے لوگوں کے ساتھ مل کر – گاؤں ہو، شہر ہو، مرد ہو ، خواتین ہو، سب کے ساتھ مل کر ، معاشرے کے لیے ، کیا کریں – ایک شخص کے ناطے، میں ان کوششوں میں کیا جوڑوں۔ میری طرف سے ویلیو ایڈیشن کیا ہو؟ اور اجتماعیت کی اپنی ایک قوت ہوتی ہے۔ ان سبھی ، گاندھی 150، کے پروگراموں میں، اجتماعیت بھی ہو، اور خدمت بھی ہو۔ کیوں نہ ہم مل کر پورا گاؤں نکل پڑیں۔ اگر ہماری فٹبال کی ٹیم ہے، تو فٹبال کی ٹیم ، فٹبال تو کھیلیں گے ہی لیکن ایک –آدھ گاندھی کے نظریات کے مطابق بھی خدمات انجام دے گی۔ہماری خواتین کلب ہے۔ جدید دور کی خواتین کلب کے جو کام ہوتے ہیں وہ کرتے رہیں گے لیکن خواتین کلب کی سبھی سہیلیاں مل کر کوئی نہ کوئی ایک خدمت کا کام ساتھ مل کر کریں گی۔ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ کتابیں اکٹھا کریں، پرانی، غریبوں کو باٹیں، علم کی اشاعت کریں اور میں مانتا ہوں شاید 130 کروڑ ہم وطنوں کے پاس ، 130 کروڑ تصورات ہیں۔ 130 کروڑ انٹرپرائزز ہو سکتے ہیں۔ کوئی تحدید نہیں ہے، جو من میں آئے ، بس خواہش ہو ، نیک نیتی ہو اور پوری لگن ہو اور وہ بھی سوانتہ سُکھائیہ – ایک انوکھے جذبے کے احساس کے لیے ہو۔
میرے پیارے ہم وطنوں، کچھ مہینے پہلے میں گجرات میں ڈانڈی گیا تھا۔ آزادی کی تحریک میں، نمک ستیہ گرہ، ڈانڈی ایک بہت ہی بڑا اور اہم موڑ ہے۔ ڈانڈی میں، میں نے مہاتما گاندھی کے نام وقف نہایت جدید ایک میوزیم کا افتتاح کیا تھا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آنے والے وقت میں مہاتما گاندھی سے منسلک کسی نہ کسی ایک جگہ کا سفر ضرور کریں۔ یہ کوئی بھی مقام ہو سکتا ہے۔ جیسے پوربندر ہو، سابرمتی آشرم ہو، چمپارن ہو، وردھا کا آشرم ہو اور دلی میں مہاتما گاندھی سے منسلک مقامات ہوں۔ آپ جب ایسے مقامات پر جائیں تو اپنی تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر ضرور کریں تاکہ دیگر لوگ بھی اُس سے ترغیب حاصل کرے اور اس کے ساتھ اپنے جذبے کا اظہار کرنے والے دو چار جملے بھی لکھیں۔ آپ کے دل کے اندر سے اٹھے ہوئے جذبے کسی بھی بڑے ادب کی تخلیق سے زیادہ طاقتور ہوں گے اور ہو سکتا ہے آج کے وقت میں، آپ کی نظر میں ، آپ کے قلم سے لکھے ہوئے گاندھی کا روپ شاید یہ زیادہ موزوں بھی لگے۔ آنے والے وقت میں بہت سارے پروگراموں، مقابلوں، نمائشوں کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے لیکن اس تعلق سے ایک بات بہت دلچسپ ہے جو میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ وینس بی نیل نام کا ایک بہت مشہور آرٹ شو ہے جہاں دنیا بھر کے فن کار جمع ہوتے ہیں۔ اس بار وینس بی نیل کے انڈیا پویلین میں گاندھی جی کی یادوں سے جڑی بہت سی دلچسپ نمائشیں لگائی گئیں، اس میں ہری پوراپینل خاص طور سے دلچسپ تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گجرات کے ہری پورا میں کانگریس کا اجلاس ہوا تھا جہاں سبھاش چندر بوس کے صدر منتخب ہونے کا واقعہ تاریخ میں رقم ہے۔ ان آرٹ پینلوں کا ایک بہت ہی خوبصورت ماضی ہے۔ کانگریس کے ہری پورا اجلاس سے پہلے 38-1937 میں مہاتما گاندھی نے شانتی نکیتن کلا بھون کے اُس وقت کے پرنسپل نند لال بوس کو مدعو کیا تھا۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ وہ ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کی طرز زندگی کو آرٹ کے توسط سے دکھائیں اور ان کی اس آرٹ ورک کی نمائش اجلاس کے دوران ہو۔ یہ وہی نند لال بوس ہیں جن کا آرٹ ورک ہمارے آئین کی زینت بڑھاتا ہے۔ آئین کو ایک نئی شناخت دیتا ہے اور ان کے اس آرٹ نے آئین کے ساتھ ساتھ نند لال بوس کو بھی لافانی بنا دیا ہے۔ نند لال بوس نے ہری پورہ کے آس پاس کے گاؤں کا دورہ کیا اور آخر میں دیہی ہندوستان کی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے کچھ آرٹ کینوس بنایا۔ اس انمول فن کاری کی وینس میں زبردست ذکر ہوا۔ ایک بار پھر، گاندھی جی کی 150ویں یوم پیدائش کی مبارکبادیوں کے ساتھ میں ہر ہندوستانی سےکسی نہ کسی عزم کی توقع کرتا ہوں۔ ملک کے لیے ، معاشرے کے لیے، کسی اور کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے، یہی باپو کو اچھی، سچی ، مستند خراج عقیدت ہوگی۔
مادرِ وطن کے سپوتوں، آپ کو یاد ہوگا کی گذشتہ کچھ سالوں میں 2 اکتوبرسے پہلے تقریبا دو ہفتہ تک ملک بھر میں ‘سوچھتا ہی سیوا ’ مہم چلاتے ہیں۔ اس بار ےیہ 11 ستمبر سے شروع ہوگا۔ اس دوران ہم اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل کر شرم دان کے ذریعہ مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ گھر ہو یا گلیاں، چوک چوراہے ہوں یا نالیاں، اسکول، کالج سے لے کر سبھی عوامی مقامات پر سوچھتا کی بڑی مہم چلانی ہے۔ اس بار پلاسٹک پر خصوصی زور دینا ہے۔ 15 اگست کہ لال قلعہ سع میں نے یہ کہا کہ جس جوش اور توانائی کے ساتھ سوا سو کروڑ ہم وطنوں نے سوچھتا کے لیے مہم چلائی ۔ کھلے میں رفع حاجت سے نجات کے لیے کام کیا۔ اسی طرح ہمیں ساتھ مل کر سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال کو ختم کرنا ہے۔ اس مہم کو لے کر معاشرے کے سبھی طبقوں میں جوش ہے ۔ میرے متعدد بیوپاری بھائی –بہنوں نے دکان میں ایک تختی لگا دی ہے، ایک پلے کارڈ لگا دیا ہے۔ جس پر یہ لکھا ہے کہ خریدار اپنا تھیلا ساتھ لے کر ہی آئیں۔ اس سے پیسہ بھی بچے گا اور ماحول کے تحفظ میں وہ اپنا تعاون بھی دے پائیں گے۔ اس بار 2 اکتوبر کو جب باپو کے 150 ویں یوم پیدائش منائیں گے تو اس موقع پر ہم انہیں نہ صرف کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہندوستان وقف کریں گے بلکہ اس دن پورے ملک میں پلاسٹک کے خلاف ایک نئی عوامی تحریک کی بنیاد رکھیں گے۔ میں معاشرے کے سبھی طبقوں سے ، ہر گاؤں، قصبے میں اور شہر کے مکینوں سے اپیل کرتا ہوں ، درخواست کرتا ہوں کہ اس سال گاندھی جینتی ایک طرح سے ہماری اس بھارت ماتا کو پلاسٹک کچڑے سے نجات کے روپ میں منائیں۔ 2 اکتوبر کو خاص دن کے روپ میں منائیں ۔ مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش ایک خاص شرم دان کا تہوار بن جائے ۔ ملک کی سبھی نگر پالیکا، نگر نگم ، ضلع انتظامیہ ، گرام پنچایت، سرکاری و غیر سرکاری سبھی انتظامات ، سبھی ادارے ، ایک ایک شہری ہر کسی سے میری گذارش ہے کہ پلاسٹک کچڑے کے کلکشن اور اسٹوریج کے لیے معقول انتظام ہو۔ میں کارپوریٹ سیکٹر سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ جب پلاسٹک کے یہ سارے فضلہ جمع ہو جائیں تو اسے مناسب طور پر ٹھکانے لگانے کے لیے آگے آئیں، ڈسپوزل کے انتظامات کریں۔ اسے ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس دیوالی تک ہم اس پلاسٹک کچڑے سے محفوظ طریقے سے نمٹنے کا بھی کام پورا کر سکتے ہیں۔ بس عزم کرنا ہے۔ تحریک کے لیے ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ، گاندھی سے بڑی تحریک کیا ہو سکتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں، ہمارے سنسکرت سبھاشت میں ایک طرح سے علم کے جوہر موجود ہیں ۔ ہمیں زندگی میں جو چاہیے وہ اس میں مل سکتا ہے۔ ان دنوں تو میرا رابطہ بہت کم ہو گیا ہے لیکن پہلے میرا رابطہ تھا۔ آج میں سنسکرت سے ایک بہت اہم بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور یہ صدیوں پہلے لکھی گئی باتیں ہیں، تاہم آج بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔ ایک عمدہ سبھاشت ہے اور اسے سنسکرت کے سبھاشت نے کہا ہے :
‘‘پرتھویان ترینی رتنانی جلامنن سبھاشیتم۔
مودھے: پاشان کھنڈیشو رتن سنگیا پرادیتے’’۔
یعنی کہ زمین میں پانی، اناج اور سبھاشت – یہ تین رتن ہیں۔ احمق لوگ پتھر کو رتن کہتے ہیں۔ ہماری ثقافت میں اناج کی بہت زیادہ عظمت رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے اناج کے علم کو بھی سائنس میں بدل دیا ہے۔ متوازن اور قوت بخش غذا ہم سبھی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے ، کیونکہ یہ ہی ہمارے معاشرے کے مستقبل کی بنیاد ہیں۔ ‘قوت بخش مہم’ کے تحت پورے ملک بھر میں جدید سائنسی طریقوں سے تغذیہ کو عوامی تحریک بنایا جا رہا ہے ۔ لوگ نئے اور دلچسپ انداز سے غذائی قلت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ کبھی میری توجہ ایک بات کی دلائی گئی تھی۔ ناسک میں ‘مٹھی بھر دھان’ ایک بڑی تحریک بن گئی ہے۔ اس میں فصل کی کٹائی کے دنوں میں آگن واڑی سے جڑی رضاکارخواتین لوگوں سے ایک مٹھی اناج جمع کرتی ہیں۔ اس اناج کا استعمال بچوں اور خواتین کے لیے گرم کھانا بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں عطیہ دینے والا شخص ایک طرح سے باشعور شہری معاشرہ خدمتگار بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ خود کو اس مقصد کے لیے وقف کردیتا ہے۔ اس تحریک کا وہ ایک سپاہی بن جاتا ہے ۔ ہم سبھی نے کنبوں میں ہندوستان کے ہر خطے میں‘ اَنّ پراشن سنسکار’ کے بارے میں سنا ہے۔ یہ سنسکار تب کیا جاتا ہے جب بچے کو پہلی بار ٹھوس اناج کھلانا شروع کرتے ہیں۔ لیکوئیڈ فوڈ نہیں سولڈ فود۔ گجرات نے 2010 میں سوچا کہ کیوں نہ‘ اَنّ پراشن سنسکار’ کے موقع پر بچوں کو کمپلمنٹری فوڈ دیا جائے تاکہ لوگوںکو اس سلسلے میں بیدارکیا جا سکے ۔ کئی ریاستوں میں لوگ ‘تیتھی بھوجن ابھیان’ چلاتے ہیں۔ اگر خاندان میں یوم پیدائش ہو، کوئی مبارک دن ہو، کوئی یادگار دن ہو، تو خاندان کے لوگ قوت بخش اور لذیذ کھانا بنا کر آگن واڑی میں جاتے ہیں، اسکولوں میں جاتے ہیں اور خاندان کے لوگ خود بچوں کو پیش کرتے ہیں، کھلاتے ہیں۔ اپنی خوشی بھی بانٹتے ہیں اور خوشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ خدمت کے جذبے اور خوشی کے جذبے کا انوکھا ملن نظر آتا ہے۔ ساتھیوں، ایسی کئی ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن سے ہمارا ملک غذائی قلت کے خلاف ایک مؤثر لڑائی لڑ سکتا ہے۔ آج بیداری کی کمی کے باعث غذائی قلت سے غریب بھی اور خوشحال بھی دونوں طرح کے خاندان متاثر ہیں۔ پورے ملک میں ستمبر کا مہینہ ‘غذائی مہم’ کے طور پر منایا جائے گا۔ آپ ضرور اس سے جڑیں، معلومات حاصل کریں، کچھ نیا کریں، آپ بھی تعاون دیں۔ اگر آپ ایک فردکو بھی غذائی قلت سے باہر لاتے ہیں تو مطلب ہم ملک کو غذائی قلت سے باہر لاتے ہیں۔
‘‘ہیلو سر، میرا نام سرشٹی ودّیا ہے اور میں سکنڈ ایر کی اسٹوڈنٹ ہوں، سر میں نے 12 اگست کو آپ کا اپیسوڈ دیکھا تھا ، بیئر گریلس کے ساتھ، جس میں آپ آئے تھے۔ تو سر مجھے وہ آپ کا اپیسوڈ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ سب سے پہلے تو یہ سن کر اچھا لگا کہ آپ کو ہمارے نیچر ، وائلڈ لائف اور انوارنمنٹ کی کتنی فکر ہے ، کتنی زیادہ کیئر ہے اور سر مجھے بہت اچھا لگا آپ کو اس نئے روپ میں، ایک ایڈونچرس روپ میں دیکھ کر۔ تو سر ، میں جاننا چاہوں گی کہ آپ کا اس اپیسوڈ کے دوران تجربہ کیسا رہا اور سر لاسٹ میں ایک بات اور جوڑنا چاہوں گی کہ آپ کا فٹنیس لیول دیکھ کر ہم جیسے ینگسٹر بہت زیادہ امپریس اور بہت زیادہ موٹیویٹ ہوئے ہیں، آپ کو اتنا فٹ اور فائن دیکھ کر ۔’’
سریشٹی جی آپ کے فون کال کا شکریہ۔ آپ ہی کی طرح ، ہریانہ میں ، سوہنا سے کے کے پانڈے جی اور سورت کے ایشوریا شرما جی کے ساتھ ، بہت سارے لوگوں نے ڈسکوری چینل پر دکھائے گئے ‘مین ورسز وائلڈ’ اپیسوڈ کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔ اس بار جب من کی بات کے لیے میں سوچ رہا تھا تو مجھے پورا بھروسہ تھا کہ اس موضوع پر بہت سارے سوال آئیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی اور پچھلے کچھ ہفتوں میں میں جہاں بھی گیا لوگوں سے ملا ہوں وہاں ‘‘مین ورسز وائلڈ’’ کا بھی ذکر آ ہی جاتا ہے۔ اس ایک اپیسوڈ سے میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر سے جڑ گیا ہوں۔ میں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا کہ دلوں میں اس طرح سے میرے لیے جگہ بن جائے گی۔ میں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہمارے ملک کے اور دنیا کے نوجوان کتنی متنوع چیزوں کی طرف دھیان دیتے ہیں ۔ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کبھی دنیا بھر کے نوجوان کے دل کو چھونے کا میری زندگی میں موقع آئے گا۔ اور ہوتا کیا؟ ابھی پچھلے ہفتہ میں بھوٹان گیا تھا ۔ میں نے دیکھا ہے کہ وزیر اعظم کے روپ میں مجھے جب سے جہاں بھی جانے کا موقع ملا اور بین الاقوامی یوگ دیوس کی وجہ سے صوتحال یہ ہوگئی ہے کہ دنیا میں جس کسی کے پاس جاتا ہوں ، بیٹھتا ہوں، کوئی نہ کوئی پانچ سات منٹ تو یوگ سے متعلق مجھ سے سوال جواب کرتے ہی کرتے ہیں۔ شاید ہی دنیا کا کوئی بڑا ایسا لیڈر ہوگا جس نے مجھ سے یوگ سے متعلق پوچھا نہ ہو اور یہ پوری دنیا میں میں میرا تجربہ آیا ہے۔ لیکن ان دنوں ایک تجربہ ہو رہا ہے ۔ جو بھی ملتا ہے ، جہاں بھی بات کرنے کا موقع ملتا ہے ، وہ وائلڈ لائف کے موضوع پر بات کرتا ہے، ماحولیات سے متعلق بات کرتا ہے۔ ٹائیگر ، لائن ، جاندار فطرت اور میں حیران ہوں کہ لوگوں کی کتنی دلچسپی ہوتی ہے۔ ڈسکوری نے اس پروگرام کو 165 ملکوں میں ان کی زبان میں نشر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ آج جب ماحولیات ، عالمی حدت، ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی فکر کا دور چل رہا ہے، مجھے امید ہے کہ ایسے میں یہ پروگرام ہندوستان کا پیغام ، ہندوستان کی روایت، ہندوستان کے سنسکار کے سفر میں قدرت کے تئیں جذباتیت، اتنی ساری باتوں سے دنیا کو متعارف کرانے میں یہ ڈسکوری چینل کی یہ قسط بہت معاون ہوگا۔ ایسا میرا پختہ یقین ہو گیا ہے اور ہمارے ہندوستان میں ماحولیاتی انصاف اور صاف ماحولیات کی سمت میں اٹھائے گئے اقدامات کو لوگ اب جاننا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک اور دلچسپ بات ہے کچھ لوگ تذبذب کے ساتھ مجھے ایک بات ضرور پوچھتے ہیں کہ مودی جی بتائیے آپ ہندی بول رہے تھے اور بیئر گریلس ہندی جانتے نہیں ہیں تو اتنی تیزی سے آپ کے درمیان بات چیت کیسے ہوتی تھی؟ یہ کیا بعد میں ایڈٹ کیا ہوا ہے؟ یہ بار بار شوٹنگ ہوئی ہے؟ کیا ہوا ہے؟ بڑے تجسس کے ساتھ پوچھتے ہیں۔ دیکھئے اس میں کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ کئی لوگوں کے من میں یہ سول ہے، تو میں اس راز کو کھول ہی دیتا ہوں۔ ویسے وہ راز ہے ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیئر گریلس کے ساتھ بات چیت میں ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا گیا ۔ جب میں کچھ بھی بولتا تھا تو فوراً ہی انگریزی میں بیک وقت ترجمہ ہوتا تھا ۔ بیک وقت تشریح ہوتا تھا اور بیئر گریلس کے کان میں ایک کورڈ لیس چھوٹا سا اوزار لگا ہوا تھا ۔ تو میں بولتا تھا ہندی لیکن اس کو سنائی دیتا تھا انگریزی اور اس کی وجہ سے بات چیت بہت آسان ہو جاتی تھی اور ٹکنالوجی کا یہی تو کمال ہے۔ اس شو کے بعد بڑی تعداد میں لوگ مجھے جم کاربوٹ، نیشنل پارک کے موضوع پر بات چیت کرتے نظر آئے ۔ آپ لوگ بھی نیچر اور وائلڈ لائف ، فطرت اور حیوانات سے جڑے مقامات پر ضرور جائیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا ، میں ضرور کہتا ہوں آپ کو۔ اپنی زندگی میں شمال مشرقی خطے میں ضرور جائیں۔ کیا فطرت ہے وہاں۔ آپ دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ آپ کے اندر کی توسیع ہوجائے گی۔ 15 اگست کو لال قلعہ سے میں آپ سبھی سے اپیل کی تھی کہ آئندہ تین سال میں کم از کم 15 مقامات اور ہندوستان کے اندر 15 مقامات اور پوری طرح سو فیصد سیاحت کے لیے ہی ایسے 15 مقامات پر جائیں، دیکھیں، مطالعہ کریں، خاندان کو لے کر جائیں، کچھ وقت وہاں گزاریں۔ تنوع سے بھرپور ملک آپ کو بھی یہ تنوع ایک استاذ کی شکل میں ، آپ کو بھی ، اندر سے تنوع سے بھر دیں گے۔ آپ کی اپنی زندگی کی توسیع ، نئی توانائی ، نیا امنگ، نئی تحریک لے کر آئیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ مقامات پر تو بار بار جانے کا دل آپ کو بھی ہوگا، آپ کے خاندان کو بھی ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنوں، ہندوستان میں ماحولیات کے تحفظ اور تشویش یعنی دیکھ بھال کی فکر فطری نظر آ رہی ہے۔ پچھلے مہینے مجھے ملک میں شیروں کی شماری جاری کرنے کا موقع ملا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں کتنے شیر ہیں ؟ ہندوستان میں شیروں کی آبادی 2967ہے۔ کچھ سال پہلے اس سے آدھے بھی بڑی مشکل سے تھے ۔ ہم شیروں کو لے کر 2010 میں روس کے سینٹ پیٹرس برگ میں ٹائیگر چوٹی کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں دنیا میں شیروں کی گھٹتی تعداد کو لے تشویش ظاہر کرتے ہوئے ایک عہد کیا گیا تھا ۔ یہ عہد تھا 2022 تک پوری دنیا میں شیروں کی تعداد کو دوگنا کرنا ۔ لیکن یہ نیو انڈیا ہے ہم ہدف کو جلدی سے جلدی پورا کرتے ہیں ۔ ہم نے 2019 میں ہی اپنے یہاں شیروں کی تعداد دوگنی کر دی۔ ہندوستان میں صرف شیروں کی تعداد ہی نہیں بلکہ محفوظ مقامات اور کمیونٹی ریزورس کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ جب میں شیروں کا ڈاٹا ریلیز کر رہا تھا تو مجھے گجرات کے گیر کے شیر کی بھی یاد آئی ۔ جب میں نے وہاں وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا تھا۔ تب گیر کے جنگل میں شیروں کی آباد کم ہور ہی تھی۔ ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ ہم نے گیر میں ایک کے بعد ایک کئی قدم اٹھائے ۔ 2007 میں وہاں خواتین گارڈس کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائی ۔ جب بھی ہم فطرت اور حیوانات کی بات کرتے ہیں تو صرف کنزرویشن کی ہی بات کرتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں کنزرویشن سے آگے بڑھ کر کمپیشن کو لے کر سوچنا ہی ہوگا۔ ہمارے شاستروں سے اس موضوع پر بھی اچھی رہنمائی ملی ہے۔ صدیوں پہلے اپنے شاستروں میں ہم نے کہا ہے :
نرونو بدھیتا ویاگھرو، نرویاگھرن چھدیتے ونم
تسماد ویاگھرون ونن رکچھتو، ون ویاگھرن نہ پالیتہ
یعنی ، اگر جنگل نہ ہوں تو شیر انسانوں کی آبادی میں آنے کو مجبور ہو جاتے ہیں اور مارے جاتے ہیں اور اگر جنگل میں شیر نہ ہوں ت انسان جنگل کاٹ کر اسے برباد کر دیتے ہیں۔ اس لیے حقیقت میں شیر جنگل کی حفاظت کرتا ہے، نہ کہ جنگل شیر کی۔ کتنے عمدہ طریقے سے موضوع کو ہمارے آباء اجداد نے سمجھا یا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے جنگلوں ، نباتات اور حیوانات کا نہ صرف تحفظ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسا ماحول بھی بنانا ہوگا جس سے وہ صحیح طریقے سے پھل پھول سکیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، 11 ستمبر 1893 سوامی وویکانند جی کی تاریخی تقریر کون بھلا سکتا ہے۔ پوری دنیا کی انسانی برادری کے جھنجھوڑ دینے والے ہندوستان کا یہ نوجوان سنیاسی دنیا کے اندر ہندوستان کی ایک شاندار شناخت چھوڑ کر آگیا۔ جس غلام ہندوستان کی طرف دنیا بڑی عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہی تھی، اس دنیا کہ 11 ستمبر 1893 سوامی وویکانند جیسی عظیم شخصیت کے الفاظ نے دنیا کو ہندوستان کی طرف دیکھنے کا نظریہ بدلنے کے لیے مجبور کر دیا ۔ آئیے ، سوامی وویکانند جی نے جس ہندوستان کے روپ کو دیکھا تھا۔ سوامی وویکانند جی نے ہندوستان کی جس صلاحیت کو جانا تھا ، ہم اسے جینے کی کوشش کریں ۔ ہمارے اندر ہے ، سب کچھ ہے۔ خود اعتمادی کے ساتھ چل پڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سبھی کو یاد ہوگا کہ 29 اگست کو ‘قومی کھیل کے دن’ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر ملک بھر میں ‘فٹ انڈیا موومنٹ’ لانچ کرنے والے ہیں۔ خود کو فٹ رکھنا ہے، ملک کو فٹ بنانا ہے۔ ہر ایک کے لیے بچے ، بزرگ، نوجوان ، خواتین سب کے لیے یہ بڑی دلچسپ مہم ہوگی اور یہ آپ کی اپنی ہوگی۔ لیکن اس کی باریکیاں آج میں بتانے نہیں جا رہا ہوں۔ 29 اگست کا انتظار کیجئے ۔ میں خود اس دن تفصیل سے اس موضوع پر بتانے والا ہوں اور آپ کو جوڑے بغیر رہنے والا نہیں ہوں۔ کیونکہ آپ کو میں فٹ دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ کو فٹنس کے لیے بیدار بنانا چاہتا ہوں اور فٹ انڈیا کے لیے ملک کے لیے ہم مل کر کچھ ہدف کا بھی تعین کریں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، مجھے آپ کا انتظار رہے گا 29 اگست کو فٹ انڈیا میں۔ ستمبر مہینے میں ‘غذائی مہم’ میں اور خاص طور پر 11 ستمبر سے 02 اکتوبر ‘سوچھتا ابھیان’ میں ۔ اور 02 اکتوبر پوری طرح سے پلاسٹک کے لیے وقف ۔ پلاسٹک سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہم سب ، گھر گھر کے باہر سبھی جگہوں پر پوری طاقت سے لگیں گے اور مجھے پتہ ہے کہ یہ سبھی مہم سوشل میڈیا میں تو دھوم مچا دیں گے۔ آئیے ، ایک نئے امنگ ، نئے عزم نئی طاقت کے ساتھ چل پڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، آج ‘من کی بات’ میں اتنا ہی ۔ پھر ملیں گے۔ میں آپ کی باتوں کا ، آپ کے مشوروں کا انتظار کروں گا۔ آئیے ہم سب مل کر آزادی کے دیوانوں کے خوابوں کا ہندوستان بنانے کے لیے گاندھی کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے چل پڑیں۔ ‘سوانتہ: سوکھائے:’۔ باطن کی خوشی کو خدمت کے جذبے سے ظاہر کرتے ہوئے چل پڑیں۔
بہت بہت شکریہ
نمسکار!
نئی دہلی،28 جولائی/ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! ‘من کی بات’ ہمیشہ کی طرح میری طرف سے بھی اور آپ کی طرف سے بھی انتظار رہتا ہے۔ اس بار بھی میں نے دیکھا کہ بہت سے سارے خطوط، کمینٹس، فون کال ملے ہیں۔ ڈھیرے ساری کہانیاں ہیں، سجھاؤ ہیں، ترغیب ہیں، ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور کہنا بھی چاہتا ہے۔ ایک جذبہ محسوس ہوتا ہے اور ان سبھی میں بہت کچھ ہے جو میں سمیٹنا چاہوں گا لیکن وقت کی تحدید ہے اس لیے سمیٹ بھی نہیں پاتا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آپ میری بہت کسوٹی کر رہے ہیں۔ پھر بھی آپ ہی کی باتوں کو اس ‘من کی بات’ کے دھاگے میں پروکر پھر سے ایک بار آپ کو بانٹنا چاہتا ہوں۔
آپ کو یاد ہوگا پچھلی بار میں نے پریم چند جی کی کہانیوں کی ایک کتاب کے بارے میں ذکر کیا تھا اور ہم نے طے کیا تھا کہ جو بھی کتاب پڑھے اس کے بارے میں کچھ باتیں نریندر مودی ایپ کے توسط سے سب کے ساتھ شیئر کریں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے مختلف قسم کی کتابوں کی جانکاری شیئر کی ہیں۔ مجھے اچھا لگا کہ لوگ سائنس، ٹیکنالوجی، اختراعات، تاریخ، ثقافت، کاروبار، زندگی کا فلسفہ ایسےکئی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں پر اور اس کو لے کر غور وفکر کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو مجھے یہ بھی صلاح دی ہے کہ میں کئی اور کتابوں کے بارے میں بات کروں۔ ٹھیک ہے! میں ضرور کچھ مزید کتابوں کے بارے میں آپ سے بات کروں گا لیکن ایک بات مجھے تسلیم کرنی ہوگی کہ اب میں بہت زیادہ کتاب پڑھنے میں وقت نہیں صرف کر پا رہا ہوں لیکن ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ آپ لوگ جو لکھ کر بھیجتے ہیں تو کئی کتابوں کے بارے میں مجھے جاننے کا موقع ضرور مل رہا ہے لیکن یہ جو پچھلے ایک مہینے کا تجربہ ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ اس کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔ کیوں نہ ہم نریندر مودی ایپ پر ایک پرماننٹ بک کارنر ہی بنا دیں۔ اور جب بھی ہم نئی کتاب پڑھیں اس کے بارے میں وہاں لکھیں، بحث کریں اور آپ ہمارے اس بک کارنر کے لیے کوئی اچھا سا نام بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بک کارنر قارئین اور قلمکاروں کے لیے ایک سرگرم پلیٹ فارم بن جائے۔ آپ پڑھتے لکھتے رہیں اور ‘من کی بات’ کے سبھی ساتھیوں کے ساتھ شیئر بھی کرتے رہیں۔
ساتھیوں؛ ایسا لگتا ہے کہ آبی تحفظ-‘من کی بات’ میں جب میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا، لیکن شاید آج میں تجربہ کر رہا ہوں کہ میرے کہنے سے پہلے بھی آبی تحفظ یہ آپ کے دل کو چھونے والا موضوع تھا،عام انسانوں کا پسندیدہ موضوع تھا اور میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ پانی کے موضوع پر ان دنوں ہندوستان کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ آبی تحفظ کو لے کر ملک بھر میں مختلف قسم کی مؤثر کوششیں ہو رہی ہیں۔ لوگوں نے روایتی طور طریقوں کے بارے میں جانکاریاں تو شیئر کی ہیں، میڈیا نے آبی تحفظ پر کئی اختراعی مہم شروع کی ہیں۔حکومت ہو، غیرسرکاری تنظیموں ہوں- جنگی سطح پر کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ اجتماعیت کی حمایت کو دیکھ کر دل کو بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بہت اطمینان ہو رہا ہے۔ جیسے جھارکھنڈ میں رانچی سے کچھ دور اورمانجھی بلاک کے آرا کیرم گاؤں میں وہاں کے گاؤں والوں نے آبی بندوبست کو لے کر جو حوصلہ دکھایا ہے وہ ہر کسی کے لیے مثال بن گیا ہے۔ گاؤں والوں نے شرم دان کرکے پہاڑ سے بہتے جھرنے کو ایک متعین سمت دینے کا کام کیا ہے۔ وہ بھی خالص دیسی طریقہ۔ اس سے نہ صرف مٹی کا کٹاؤ اور فصل کی بربادی رکی ہے بلکہ کھیتوں کو بھی پانی مل رہا ہے۔ گاؤں والو ںکا یہ شرم دان اب پورے گاؤں کے لیے جیون دان سے کم نہیں۔ آپ سب کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ شمال مشرق کی خوبصورت ریاست میگھالیہ ملک کی پہلی ایسی ریاست بن گئی ہے جس نے اپنی آبی پالیسی تیار کی ہے۔میں وہاں کی حکومت کو مبارک باد دیتا ہوں۔
ہریانہ میں ان فصلوں کی کھیتی کو فروغ دیا جارہا ہے جن میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور کسان کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔ میں حکومت ہریانہ کو خاص طور سے مبارکباد دینا چاہوں گا کہ انھوں نے کسانوں کے ساتھ مذاکرات کرکے انھیں روایتی زراعت سے ہٹ کر کم پانی والی فصلوں کے لیے آمادہ کیا۔
اب تو تہواروں کا موسم آگیا ہے۔ تہواروں کے موقع پر کئی میلے بھی لگتے ہیں۔ آبی تحفظ کے لیے کیوں نہ اس میلوں کا بھی استعمال کریں۔ میلوں میں سماج کے ہر طبقہ کے لوگ پہنچتے ہیں ان میلوں میں پانی بچانے کا پیغام ہم بڑے ہی مؤثر ڈھنگ سے دے سکتے ہیں۔ نمائش لگا سکتے ہیں، نکڑناٹک کرسکتے ہیں۔ جشن کے ساتھ ساتھ آبی تحفظ کا پیغام بہت آسانی سے ہم پہنچا سکتے ہیں۔
ساتھیو؛ زندگی میں کچھ باتیں ہمیں جوش سے بھر دیتے ہیں اور خاص طور سے بچوں کی حصولیابیاں ان کے کارنامے ہم سب کو نئی توانائی دیتے ہیں۔ اور اس لیے آج مجھے کچھ بچوں کے بارے میں بات کرنے کا من کرتاہے اور یہ بچے ہیں ندھی بائی پوٹو منیش جوشی، دیوانشی راوت، تنش جین، ہرش دیودھرکر، اننت دیواری، پریتی ناگ، اتھرودیش مکھ، ارون تیش، گنگولی اور ہریتک الا مندا۔
میں ان کے بارے میں جو بتاؤں گا اسے آپ بھی فخر اور جوش سے بھر جائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کینسر ایک ایسا لفظ ہے جس سے پوری دنیا ڈرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موت دروازےپر کھڑی ہے۔ لیکن ان سبھی دس بچوں نے اپنی زندگی کی جنگ میں نہ صرف کینسر کو کینسر جیسی مہلک بیماری کو شکست دیا ہے بلکہ اپنے کارناموں سے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔ کھیلوں میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کھلاڑی ٹورنامنٹ جیتنے یا میڈل حاصل کرنے کے بعد چمپئن بنتے ہیں لیکن یہ ایک انوکھا موقع رہا جہاں یہ لوگ کھیل کے مقابلوں میں حصہ لینے سے پہلے ہی چمپئن تھے اور وہ بھی زندگی کی جنگ کے چمپئن۔
دراصل اسی مہینے ماسکو میں ورلڈ چلڈرن ونرس گیمس کا انعقاد ہوا۔ یہ ایک ایسا انوکھا اسپورٹس ٹورنامنٹ ہے جس میں ینگ کینسرسروائورس یعنی جو لوگ اپنی زندگی میں کینسر سے لڑکر باہر نکلے ہیں وہیں حصہ لیتے ہیں۔ اس مقابلہ میں شوٹنگ، شطرنج، تیراکی، دوڑ، فٹ بال اور ٹیبل ٹینس جیسے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ہمارے ملک کے ان سبھی دس چمپئن نے اس ٹورنامنٹ میں میڈل جیتے۔ ان میں سے کچھ کھلاڑیوں نے ایک سے زیادہ میڈل جیتے۔
میرے پیارے ہم وطنو؛ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو آسمان کے بھی پار، خلا میں ہندوستان کی کامیابی کے بارے میں ضرور فخر محسوس ہوا ہوگا۔ چندریان-2۔
راجستھان کے جودھپور سے سنجیو ہری پورا، کولکاتہ سے مہندرکمار ڈاگا، تلنگانہ سے پی اروند راؤ ایسے متعدد، ملک بھر کے مختلف حصوں سے کئی لوگوں نے مجھے نریندر مودی ایپ اور مائی گو پر لکھا ہے اور انھوں نے ‘من کی بات’ میں چندریان-2 کے بارے میں ذکر کرنے کی اپیل کی ہے۔
دراصل خلا کے نقطہ نظر سے 2019 ہندوستان کے لیے بہت اچھا سال رہا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے مارچ میں، اے سیٹ لانچ کیا تھا اور اس کے بعد چندریان-2۔ چناؤ کی گہماگہمی میں اس وقت اے سیٹ جیسی بڑی اور اہم خبر کی زیادہ چرچا نہیں ہوپائی تھی جبکہ ہم نے اے سیٹ میزائل سے ، صرف تین منٹ میں، 300 کلو میٹر دور سیٹلائٹ کو مارگرانے کی صلاحیت حاصل کی۔ یہ کامیابی حاصل کرنے والا ہندوستان دنیا کا چوتھا ملک بنا اور اب 22 جولائی کو پورے ملک نے فخر کے ساتھ دیکھا کیسے چندریان-2 نے سری ہری کوٹہ سے خلا کی جانب اپنے قدم بڑھائے۔ چندریان-2 کے تجربے کی تصویروں نے ہم وطنوں کو فخر اور جوش سے خوشی سے بھر دیا۔
چندریان-2 یہ مشن کئی معنوں میں خاص ہے۔چندریان-2، چاند کے بارے میں ہماری سمجھ کو اور بھی واضح کرے گا۔ اس سے ہمیں چاند کے بارے میں زیادہ تفصیل سے جانکاریاں مل سکیں گی لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ چندریان-2 سے مجھے کون سا دو بڑاسبق ملا تو میں کہوں گا یہ دو سبق ہیں، یقین اور بے خوفی۔ ہمیں اپنی صلاحیت اور قابلیت پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ اپنی قابلیت اور صلاحیت پر اعتماد کرنا چاہیے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ چندریان-2 پوری طرح سے ہندوستانی رنگ میں ڈھلا ہے۔ یہ روح اور جذبے سے ہندوستانی ہے۔پوری طرح سے ایک سودیشی مشن ہے۔ اس مشن نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ جب بات نئے نئے شعبوں میں کچھ نیا کر گزرنے کی ہو، اختراعی جذبے کی ہو تو ہمارے سائنسداں سب سے آگے ہیں، عالمی سطح کے ہیں۔
دوسرا، اہم سبق یہ ہے کہ کسی بھی رکاوٹ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جس طرح ہمارے سائنسدانوں نے ریکارڈ وقت میں دن رات ایک کرکے سارے تکنیکی مسائل کو درست کر چندریان-2 کو لانچ کیا وہ اپنے آپ میں غیرمعمولی ہیں۔ سائنسدانوں کی اس عظیم تپسیا کو پوری دنیا نے دیکھا اس پر ہم سبھی کو فخر ہونا چاہیے۔ اور رکاوٹ کے باوجود بھی پہنچنے کا وقت انھوں نے بدلا نہیں۔ اس بات کی بھی بہتوں کو حیرانی ہے۔ ہمیں اپنے زندگی میں بھی عارضی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیشہ یاد رکھئے اس سے نجات پانے کا حوصلہ بھی ہمارے اندر ہی ہوتا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ چندریان-2 مہم ملک کے نوجوانو ں کو سائنس اور اختراع کے لیے راغب کرے گا۔ آخر کار سائنس ہی تو ترقی کا راستہ ہے۔ اب ہمیں بے صبری سے ستمبر مہینے کا انتظار ہے جب چاند کی سطح پر اترنے والے وکرم اور روورپرگیان کی لینڈنگ ہوگی۔
آج ‘من کی بات’ کی بات کے توسط سے میں ملک کے طلبا دوستوں کے ساتھ، نوجوانوں ساتھیوں کے ساتھ ایک بہت ہی دلچسپ مقابلہ کے بارے میں، کمپٹیشن کے بارے میں جانکاری شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اور ملک کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو مدعو کرتا ہوں- ایک کوئز کمپٹیشن خلا سے متعلق تجسس، ہندوستان کا خلائی مشن سائنس اور ٹیکنالوجی- اس کوئز کمپٹیشن کے خاص موضوع ہوں گے، جیسے کہ راکٹ لانچ کرنے کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ سیٹلائٹ کو کیسے مدار میں قائم کیا جاتا ہے اور سیٹلائٹ سے ہم کیا کیا جانکاریاں حاصل کرتے ہیں۔ اے سیٹ کیا ہوتا ہے۔ بہت ساری باتیں ہیں۔ مائی گو ویپ سائٹ پر یکم اگست کو مقابلہ کی تفصیلات دی جائیں گی۔ میں نوجوان ساتھیوں سے، طالب علموں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کوئز کمپٹیشن میں حصہ لیں اوراپنی حصے داری سے اسے دلچسپ، پر لطف اور یادگار بنائیں۔ میں اسکولوں سے ، سرپرستوں سے جوشیلے آچاریوں اور اساتذہ سے خاص اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے اسکول کو کامیاب بنانے کے لیے پوری محنت کریں۔ سبھی طالب علموں کو اس سے جوڑنے کے لیے ترغیب دیں۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر ریاست سے سب سے زیادہ اسکور کرنے والے طالب علموں کو حکومت ہند اپنے خرچ پر سری ہری کوٹہ لے کر جائے گی اور ستمبر میں انھیں اُس پل کا گواہ بننے کا موقع ملے گا جب چندریان چاند کی سطح پر اتر رہا ہوگا۔ ان کامیاب طالب علموں کے لیے ان کی زندگی کا تاریخی لمحہ ہوگا۔ لیکن اس کے لیے آپ کو کوئز کمپٹیشن میں حصہ لینا ہوگا۔ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے آپ کو کامیاب ہونا ہوگا۔
ساتھیو؛ میرا یہ مشورہ آپ کو ضرور اچھا لگا ہو۔ ہے نہ مزیدار موقع! تو ہم کوئز میں حصہ لینا نہ بھولیں اور زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کو بھی ترغیب دلائیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں آپ نے ایک بات محسوس کی ہوگی کہ ہماری ‘من کی بات’ کی باتوں نے صفائی مہم کو لمحہ بہ لمحہ رفتار دی ہے اور اسی طرح سے صفائی کے لیے کی جارہی کوششوں میں بھی من کی بات کو ہمیشہ ہی تحریک دی ہے۔پانچ سال پہلے شروع ہوا سفر آج عوام کی شراکت سے صفائی کے نئے نئے معیارقائم کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے صفائی میں مثالی صورت حاصل کرلی ہے۔ لیکن جس طرح سے او ڈی ایف سے لے کر عوامی مقامات تک صفائی مہم میں کامیابی ملی ہے وہ 130 کروڑ ہم وطنوں کے عزم کی طاقت ہے لیکن ہم اتنے پر رکنے والے نہیں ہیں۔ یہ تحریک اب سوچھتا سے سندرتا کی طرف بڑھ چلا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میں میڈیا میں جناب یوگیش سینی اور ان کی ٹیم کی کہانی دیکھ رہا تھا۔ یوگیش سینی انجینئر ہیں اور امریکہ میں اپنی نوکری چھوڑ کر ماں بھارتی کی خدمت کے لیے واپس آئے ہیں۔ انھوں نے کچھ وقت پہلے دلی کو صاف ہی نہیں بلکہ سندر بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ لودھی گارڈن کے کوڑے دانوں سے شروعات کی۔ اسٹریٹ آرٹ کے ذریعے دلّی کے کئی علاقوں کو خوبصورت پینٹنگ سے سجانے سنوارنے کا کام کیا۔ اوور برج اور اسکول کی دیواروں سے لے کر جھگی جھونپڑیوں تک انھوں نے اپنا ہنر دکھانا شروع کیا تو لوگوں کا ساتھ بھی ملتا چلا گیا اور ایک طرح سے یہ سلسلہ چل پڑا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کنبھ کے دوران پریاگ راج کو کس طرح اسٹریٹ پینٹنگ سے سجایا گیا تھا۔ مجھے پتہ چلا بھائی یوگیش سینی نے اور ان کی ٹیم نے اس میں بھی بہت بڑا کردار انجام دیا تھا۔ رنگ اور لکیروں میں کوئی آواز بھلے نہ ہوتی ہو لیکن ان سے بنی تصویروں سے جو قوس وقزح بنتے ہیں ان کا پیغام ہزاروں الفاظ سے بھی کہیں زیادہ اثر انگیز ثابت ہوتا ہے۔ اور صفائی مہم کی خوبصورتی میں بھی یہ بات ہم محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ویسٹ ٹو ویلتھ بنانے کا کلچر ہمارے سماج میں فروغ پائے۔ ایک طرح سےکہیں تو ہمیں کچرے سے کنچن بنانے کی جانب آگے بڑھنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں، پچھلے دنوں مائی گو پر میں نے ایک بڑا ہی دلچسپ تبصرہ پڑھا۔ یہ تبصرہ جموں وکشمیر کے شوپیاں کے رہنے والے بھائی محمد اسلم کا تھا۔
انھوں نے لکھا-‘من کی بات’ پروگرام سننا اچھا لگتا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے اپنی ریاست جموں وکشمیر میں کمیونٹی موبیلائیزیشن پروگرام – بیک ٹو ولیج کے انعقاد میں سرگرم رول ادا کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد جون کے مہینے میں ہوا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے پروگرام ہر تین مہینے کے وقفے سے منعقد کیے جانے چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی پروگرام کی آن لائن مانیٹرنگ کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ میرے خیال سے یہ اپنی طرح کا ایسا پہلا پروگرام تھا جس میں عوام نے سرکار سے براہِ راست مذاکرہ کیا۔
بھائی محمد اسلم جی نے یہ جو پیغام مجھے بھیجا اور اس کو پڑھنے کے بعد بیک ٹو ولیج پروگرام کے بارے میں جاننے کی میرا تجسس بڑھ گیا اور جب میں نے اس کے بارے میں تفصیل سے جانا تو مجھے لگاکہ پورے ملک کو بھی اس کی جانکاری ہونی چاہیے۔ کشمیر کے لوگ ترقی کے قومی دھارے سے جڑنے کے لیے اتنے بیتاب ہیں، کتنے متحرک ہیں، اس کا مذکورہ پروگرام سے پتہ چلتاہے۔ اس پروگرام نے پہلی بار بڑے بڑے افسران سیدھے گاؤں تک پہنچے۔ جن افسروں کو کبھی گاؤں والوں نے دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ خود چل کر ان کے دروازے تک پہنچے تاکہ ترقی کے کام میں آرہی رکاوٹوں کو سمجھا جاسکے۔ مسائل کو دور کیا جاسکے۔ یہ پروگرام ہفتہ بھر چلا اور ریاست کی سبھی لگ بھگ ساڑھے چار ہزار پنچایتوں میں سرکاری حکام نے گاؤں والوں کو سرکاری یوجناؤں اور پروگراموں کی تفصیل سے جانکاری دی۔ یہ بھی جانا کہ ان تک سرکاری خدمات پہنچتی بھی ہیں یا نہیں۔ پنچایتوں کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے؟ ان کی آمدنی کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟ ان کی خدمات عام لوگوں کی زندگی میں کیسے اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ گاؤں والوں نے بھی مل کر اپنے مسائل کو بتایا۔ خواندگی جنسی شرح، صحت، صفائی، آبی تحفظ، بجلی ، پانی، بچیوں کی تعلیم، عمر رسیدہ افراد کے سوال ایسے کئی موضوعات پربات چیت ہوئی۔
ساتھیوں یہ پروگرام کوئی سرکاری خانہ پری نہیں تھا کہ حکام دن بھر گاؤں میں گھوم کر واپس لوٹ آئیں لیکن اس بار ادھیکاریوں نے دو دن اور ایک رات میں پنچایت میں ہی گزاری۔ اس میں انہیں گاؤں میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ہر کسی سے ملنے کی کوشش کی۔ ہر مقام تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس پروگرام کو دلچسپ بنانے کے لیے کئی اور چیزوں کو بھی شامل کیا گیا۔ کھیلو انڈیا کے تحت بچوں کے لیے کھیلوں کا مقابلہ کرایا گیا۔ وہیں اسپورٹس کٹس، منریگا کے جاب کارڈس اور ایس سی ایس ٹی سرٹیفکیٹس بھی بانٹے گئے۔ مالی خواندگی کیمپس لگائے گئے۔ زراعت، باغبانی جیسے سرکاری محکموں کی طرف سے اسٹال لگائے گئے۔ اور سرکاری یوجناؤں کی جانکاری دی گئی۔ اس طرح سے یہ انعقاد ایک ترقی کا جشن بن گیا۔ عوامی شراکت داری کا جشن بن گیا۔ عوامی بیداری کا تہوار بن گیا۔ کشمیر کے لوگوں نے ترقی کے اس جشن میں کھل کر شامل ہوئے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ‘بیک ٹو ولیج’ پروگرام کا انعقاد ایسے دور دراز گاؤں میں بھی کیا گیا جہاں پہنچنے میں سرکاری حکام کو دشوار گزار راستوں سے ہوکر پہاڑیوں کو چڑھتے چڑھتے کبھی کبھی ایک دن ڈیڑھ دن پیدل سفر بھی کرنا پڑا۔ یہ حکام ان سرحدی پنچایتوں تک بھی پہنچے جو ہمیشہ سرحد پار فائرنگ کے سایے میں رہتے ہیں۔ یہی نہیں شوپیاں ، پلوامہ، کلگام اور اننت ناگ اضلاع کے انتہائی حساس علاقوں میں بھی حکام بغیر کسی خوف کے پہنچے۔ کئی افسر تو اپنے استقبال سے اتنےشرابورہوئے کہ وہ دو دنوں سے زیادہ وقت تک گاؤں میں رکے رہے۔ ان علاقوں میں گرام سبھاؤں کا انعقاد ہونا، اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کا حصہ لینا اور اپنے لیے منصوبے تیار کرنا یہ سب بہت ہی خوش آئند ہے۔ نیا عزم، نیا جوش اور شاندار نتیجے ایسے پروگرام اور اس میں لوگوں کی شرکت یہ بتاتی ہے کہ کشمیر کے ہمارے بھائی بہن اچھی حکمرانی چاہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ترقی کی طاقت بم اور بندوق کی طاقت پر ہمیشہ غالب آتی ہے۔ یہ صاف ہے کہ جو لوگ ترقی کی راہ میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں، رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں وہ کبھی اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
میرے پیارے ہم وطنوں، گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ جناب دتّاترے رام چندر بیندرے نے اپنی ایک نظم میں ساون کے مہینے کی عظمت کچھ اس طرح پیش کی ہے۔ اس کویتا میں انھوں نے جوکہا ہے اس کا مطلب یہ ہے:
بارش کی پھوہار اور پانی کی دھار کارشتہ انوکھا ہے اور اس کی خوبصورتی دیکھ کر زمین مگن ہے۔
پورے ملک میں الگ الگ ثقافت اور زبانوں کے لوگ ساون کے مہینے کو اپنے اپنے طریقے سے مناتے ہیں۔ اس موسم میں ہم جب بھی اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے گویا زمین نے ہریالی کی چادر اوڑھ لی ہو۔ چاروں طرف ایک نئی توانائی کی تخلیق ہونے لگتی ہے۔ اس مقدس مہینے میں کئی شردھالو کانوڑ یاترا اور امرناتھ یاترا پر جاتے ہیں جبکہ کئی لوگ باضابطہ اُپواس رکھتے ہیں۔ اور پورے جوش سے جنم اشٹمی اور ناگ پنچمی جیسے تہواروں کا انتظار کرتے ہیں۔ اس دوران ہی بھائی بہن کے پیار کی علامت رکشا بندھن کا تہوار بھی آتا ہے۔ ساون کے مہینے کی جب بات ہو رہی ہے تو آپ کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ اس بار امرناتھ یاترا نے پچھلے چار سالوں میں سب سے زیادہ شردھالو شامل ہوئے ہیں۔ یکم جولائی سے اب تک تین لاکھ سے زیادہ تیرتھ یاتری مقدس امرناتھ گپھا کے درشن کرچکے ہیں۔ 2015 میں پورے ساٹھ دنوں تک چلنے والی اس یاترا میں جتنے تیرتھ یاتری شامل ہوئے تھے اس سے زیادہ اس بار صرف 28 دنوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
امرناتھ یاترا کی کامیابی کے لیے میں خاص طو رپر جموں وکشمیر کے لوگوں اور ان کی مہمان نوازی کی تھی ستائش کرنا چاہتا ہوں۔ جو لوگ بھی سفر سے لوٹ کر آتے ہیں وہ ریاست کے لوگوں کی گرم جوشی اور اپنا پن کے جذبے کے قائل ہوجاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں مستقبل میں سیاحت کے لیے بہت مفید ثابت ہونے والے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں بھی اس سال جب سے چار دھام یاترا کا آغاز ہوا ہے تب سے ڈیڑھ مہینے کے اندر آٹھ لاکھ سے زیادہ زائرین کیدار ناتھ دھام کے درشن کرچکے ہیں۔ 2013 میں آئے بھیانک سیلاب کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں زائرین وہاں پہنچے ہیں۔
میری آپ سبھی سے اپیل ہے کہ ملک کے اُن حصوں میں آپ ضرور جائیں جن کی خوبصوری مانسون کے دوران دیکھتے ہی بنتی ہے۔
اپنے ملک کی اس خوبصورتی کو دیکھنے اور اپنے ملک کے لوگوں کے جذبے کو سمجھنے کے لیے سیاحت اور سفر شاید اس سے بڑی کوئی تعلیم نہیں ہوسکتی ہے۔
میری جانب سے آپ سبھی کو نیک خواہشات کہ ساون کا یہ خوبصورت اور زندگی سے بھرپور مہینے آپ سب میں نئی توانائی، نئی امید اور نیا یقین پیدا کرے۔ اسی طرح سے اگست کا مہینہ ‘بھارت چھوڑو’ اس کی یاد لے کر آتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ 15 اگست کی کچھ خاص تیار کریں آپ لوگ۔ آزادی کے اس تہوار کو منانے کا نیا طریقہ ڈھونڈیں۔ عوامی شراکت داری بڑھائیں۔ 15 اگست عوامی تہوار کیسے بنے؟ جن اُتسو کیسے بنے؟ اس کی فکر ضرور کریں آپ۔ دوسری طرف یہی وہ وقت ہے جب ملک کے کئی حصوں میں زبردست بارش ہو رہی ہے۔ کئی حصوں میں ہم وطن سیلاب سے متاثر ہیں۔ سیلاب سے کئی قسم کے نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ سیلاب کے بحران میں گھرے اُن سبھی لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مرکز، ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر متاثرین کو ہر قسم کی امداد فراہم کرانے کا کام بہت تیز رفتاری سے کر رہا ہے۔ ویسے جب ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو بارش کا ایک ہی پہلو دکھتا ہے۔ ہر طرف سیلاب، بھرا ہوا پانی، آمد ورفت میں ٹریفک جام۔ مانسون کی دوسری تصویر- جس میں خوش ہوتا ہوا ہمارا کسان، چہکتے پرندے، بہتے جھرنے، ہریالی کی چادر اوڑھے زمین- یہ دیکھنے کے لیے تو آپ کو خود ہی اپنے خاندان کے ساتھ باہر نکلنا پڑے گا۔ بارش ، تازگی اور خوشی دونوں ہی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ میری تمنا ہے کہ یہ مانسون آپ سب کو مسلسل خوشیوں سے بھرتا رہے۔ آپ سبھی صحت مند رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو؛ ‘من کی بات’-کہاں شروع کریں، کہاں رکیں- بڑا مشکل کام لگتا ہے لیکن آخر وقت کی تحدید ہوتی ہے ایک مہینے کے انتظار کے بعد پھر آؤں گا، پھر ملوں گا، مہینے بھر آپ مجھے بہت کچھ باتیں بتانا، میں آنے والی ‘من کی بات’ میں اس کو جوڑنے کی کوشش کروں گا۔ اور میرے نوجوان ساتھیوں پھر سے یاد دلاتا ہوں۔ آپ کوئز کمپٹیشن کا موقع مت چھوڑیئے آپ سری ہری کوٹہ جانے کا جو موقع ملنے والا ہے اس کو کسی بھی حالت میں جانے مت دینا۔
آپ سب کا بہت بہت شکریہ! نمسکار
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! ایک لمبے وقفے کے بعد، پھر سے ایک بار، آپ سب کے بیچ، ‘من کی بات’، جن کی بات، جن-جن کی بات، جن-من کی بات اس کا ہم سلسلے وار شروعات کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں بہت مشغولیت تھی لیکن ‘من کی بات’ کا جو مزہ ہے، وہ غائب تھا۔ ایک کمی محسوس کر رہا تھا۔ اپنوں کے بیچ بیٹھ کے، ہلکے پھلکے ماحول میں، 130 کروڑ ہم وطنو کے باشندوں کےخاندانوں کے ایک رکن کے طور پر، کئی باتیں سنتے تھے، دہراتے تھے اور کبھی کبھی اپنی ہی باتیں، اپنوں کے لیے تحریک بن جاتی تھی۔آپ تصور کرسکتے ہیں اس بیچ کاوقت گیا ہوگا، کیسے گیا ہوگا۔اتوار، آخری اتوار-11 بجے، مجھے بھی لگتا تھا کہ ارے، کچھ چھوٹ گیا – آپ کو بھی لگتا تھا نا! ضرور لگتا ہوگا۔ شاید، یہ کوئی بے جان پروگرام نہیں تھا۔ اس پروگرام میں زندگی تھی ،، اپنا پن تھا، من کا لگاؤ تھا، دلوں کو جڑاؤ تھا، اور اس کی وجہ، بیچ کا جو وقت تھا، وہ وقت بہت ہی مشکل لگا مجھے۔ میں ہر پل کچھ کھویا ہوا محسوس کر رہا تھا اور جب میں ‘من کی بات’ کرتا ہوں تب، بولتا بھلے میں ہوں، الفاظ شاید میرے ہیں، آواز میری ہے، لیکن، داستان آپ کی ہے، خواہشات آپ کے ہیں، طاقت آپ کی ہے، میں تو صرف، اپنے الفاظ، اپنی آواز کا استعمال کرتا تھا اور اس کی وجہ سے اس پروگرام کو نہیں، آپ کویاد کر رہا تھا۔ ایک خالی پن محسوس کر رہا تھا۔ ایک بار تو من کر گیا تھا کہ انتخاب ختم ہوتے ہی فوراً آپ کے بیچ ہی چلا جاؤں۔ لیکن پھر لگا نہیں، وہ اتواروالا سلسلہ بنا رہنا چاہیے۔ لیکن اس اتوار نے بہت انتظار کروایا۔ خیر ، آخر موقع مل ہی گیا ہے۔ ایک خاندانی ماحول میں ‘من کی بات’، چھوٹی- چھوٹی، ہلکی-پھلکی، سماج، زندگی میں، جو بدلاؤ کی وجہ بنتی ہے ایک طرح سے اس کا یہ سلسلہ، ایک نئے جذبے کو جنم دیتا ہوا اور ایک طرح سے نیو انڈیا کی روح کو طاقت دیتا ہوا یہ سلسلہ آگے بڑھے۔
کئی سارے پیغام پچھلے کچھ مہینوں میں آئے ہیں جس میں لوگوں نے کہا کہ وہ ‘من کی بات’ کو یاد کر رہے ہیں۔ جب میں پڑھتا ہوں، سنتا ہوں، مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں اپناپن محسوس کرتا ہوں، کبھی کبھی مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ میری خود سے روح کا سفر ہے۔ یہ میری اہم سے ویم کا سفر ہے۔ میرے لیے آپ کے ساتھ میرا یہ خاموش پیغام ایک طرح سے میرے روحانی سفر کے احساس کا بھی حصہ تھا۔ کئی لوگوں نے مجھے انتخابات کی مشغولیت میں، میں کیدارناتھ کیوں چلا گیا؟ بہت سارے سوالات پوچھے ہیں۔ آپ کا حق ہے، آپ کا تجسس بھی، میں سمجھ سکتا ہوں اور مجھے بھی لگتا ہے کہ کبھی اپنے ان جذبات کو آپ تک کبھی پہنچا ہوں، لیکن آج مجھے لگتا ہے کہ اگر میں اس سمت میں چل پڑوں گا تو شاید ‘من کی بات’ کی تصویر ہی بدل جائے گی۔ اور اس لیے انتخابات کی اس مشغولیت، ہار جیت کے تخمینے، ابھی پولنگ بھی باقی تھی اور میں چل پڑا۔ زیادہ تر لوگوں نے اس کا سیاسی مطلب نکالا ہے۔ میرے لیے خود سے ملنے کا وہ موقع تھا۔ ایک طرح سے میں خود سے ملنے چلا گیا تھا۔ میں اور باتیں تو آج نہیں بتاؤں گا لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ ‘من کی بات’ کے کس مختصر وقفے کے باعث جو خالی پن تھا کیدار کی گھاٹی میں اُس تنہائی والے غار میں شاید اس میں کچھ بھرنے کا موقع ضرور دیا تھا۔ باقی آپ کا تجسس ہے۔ سوچتا ہوں کبھی اس پر بھی بات کروں گا۔ کب کروں گا میں نہیں کہ سکوں گا، لیکن کروں گا ضرور، آپ کا مجھ پر حق بنتا ہے۔ جیسے کیدار کے حوالے سے لوگوں نے جاننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ویسے ایک مثبت چیزوں کو مستحکم کرنے کی آپ کی کوشش، آپ کی باتوں میں لگاتار میں محسوس کرتا ہوں۔ ‘من کی بات’ کے لیے جو خطوط آتے ہیں، جو ان پٹ حاصل ہوتے ہیں وہ حسب معمول سرکاری کام کاج سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے آپ کے خطوط بھی میرے لیے کبھی ترغیب کا باعث بن جاتے ہیں تو کبھی توانائی کی وجہ بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو میرے فطری عمل کو دھار دینے کا کام آپ کے کچھ الفاظ کر دیتے ہیں۔ لوگ، ملک اور سماج کے سامنے درپیش چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہیں۔تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے حل بھی بتاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ خطوط میں لوگ مسائل کی تو وضاحت کرتے ہی ہیں لیکن یہ بھی خصوصیات ہیں کہ ساتھ ساتھ حل کا بھی کچھ نہ کچھ مشورے، کچھ نہ کچھ تصور، بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ظاہر کردیتے ہیں۔اگر کوئی صفائی کے بارے میں لکھتا ہے تو گندگی کے تئیں اپنی ناراضگی تو ظاہر کر رہا ہے لیکن صفائی کی کوششوں کی ستائش بھی کرتاہے۔ کوئی ماحولیات کی باتیں کرتاہے تو اپنی تکلیف تو محسوس کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس نے ، خود نے جو تجربہ کئے ہیں وہ بھی بتاتا ہے۔ جو استعمال اس نے دیکھے ہیں وہ بھی بتاتا ہے۔ اور جو تصورات اس کے ذہن میں ہیں اسے بھی پیش کرتاہے۔ یعنی ایک طرح سے مسائل کا حل پورے سماج کے لیے کیسے ہو اس کی جھلک آپ کی باتوں میں میں محسوس کرتا ہوں۔ ‘من کی بات’ ملک اور سماج کے لیے ایک آئینے کی طرح ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم وطنوں کے اندر باطنی مضبوطی طاقت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ضرورت ہے، ان مضبوطیوں اور صلاحیتوں کو شامل کرنے کی، موقع فراہم کرنے کی، اس کو بروئے کار لانے کی ۔ ‘من کی بات’ یہ بھی بتاتا ہے کہ ملک کی ترقی میں سبھی 130 کروڑ ہم وطن مضبوطی اور فعال طریقے سے جڑنا چاہتے ہیں اور میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ ‘من کی بات’ میں مجھے اتنے خطوط آتے ہیں، اتنے ٹیلی فون کال آتے ہیں، اتنے پیغامات حاصل ہوتے ہیں لیکن شکایات کا عنصر بہت کم ہوتا ہے۔ اور کسی نے کچھ مانگا ہو، اپنے لیے مانگا ہو، ایسی تو ایک بھی بات گذشتہ پانچ برسوں میں، مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، ملک کے وزیر اعظم کو کوئی خط لکھے لیکن خود کے لیے کچھ مانگے نہیں یہ ملک کے کروڑوں لوگوں کا جذبہ کتنا بلند ہوگا۔ میں جب ان چیزوں کا تجزیہ کرتا ہوں ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں میرے دل کو کتنا سکون ہوتا ہوگا۔ مجھے کتنی توانائی ملتی ہوگی۔ آپ تصور نہیں کرسکتے کہ آپ مجھے چلاتے ہیں، آپ مجھے دوڑاتے ہیں، آپ مجھے لمحہ بہ لمحہ کتنا اہم بناتے رہتے ہیں۔ اور یہی ناطہ میں کچھ مس کرتا تھا۔ آج میرا من خوشیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جب میں نے آخر میں کہا تھا کہ ہم تین چار مہینے کے بعد ملیں گے تو لوگوں نے اس کے بھی سیاسی مطلب نکالے تھے اور لوگوں نے کہا کہ ارے! مودی جی کو کتنا یقین ہے، کتنا بھروسہ ہے۔ یقین مودی کو نہیں تھا۔ یہ اعتماد آپ کے اعتماد کی بنیاد کا تھا۔ آپ ہی تھے جس نے اعتماد کی شکل اختیار کر لی تھی اور اس کے باعث آسانی سے آخری ‘من کی بات’ میں ، میں نے کہہ دیا تھا کہ میں کچھ مہینوں کے بعد پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ درحقیقت میں آیا نہیں ہوں آپ نے مجھے لایا ہے، آپ نے ہی مجھے بٹھایا ہے اور آپ نے پھر سے مجھے ایک بار بولنے کا موقع دیا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ چلیے ‘من کی بات’ کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
جب ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوا تب اس کی مخالفت صرف سیاسی دائرے تک محدود نہیں رہی تھی، سیاسی قائدین تک محدود نہیں رہی تھی، جیل کی سلاخوں تک آندولن سمٹ نہیں گیا تھا۔ جن جن کے دل میں ایک غصہ تھا، کھوئی ہوئی جمہوریت کی ایک تڑھ تھی، دن رات جب وقت پر کھانا کھاتے ہیں تب بھوک کیا ہوتی ہے اس کا پتہ نہیں ہوتا ہے۔ ویسے ہی عام زندگی میں جمہوریت کے حقوق کا کیا مزہ ہے وہ تو تب پتہ چلتا ہے جب کوئی جمہوری حقوق کو چھین لیتا ہے۔ ایمرجنسی میں ملک کے ہر شہری کو لگنے لگا تھا کہ اس کا کچھ چھین لیا گیا ہے۔ اس کا اس نے زندگی میں کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ وہ اگر چھن گیا ہے تو اس کا درد اس کے دل میں تھا اور یہ اس لئے نہیں تھا کہ ہندوستان کے آئین میں کچھ انتظامات کیے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت فروغ پایا ہے۔ سماجی انتظام کو چلانے کے لیے، آئین کی بھی ضرورت ہوتی ہے، قاعدے قانون اور ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، حقوق اور فرائض کی بھی بات ہوتی ہے لیکن ہندوستان فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے لیے قانون وضوابط سے پرے، جمہوریت ہمارے سنسکار ہیں۔جمہوریت ہماری ثقافت ہے، جمہوریت ہماری وراثت ہے اور اس وراثت کو لیکر ہم پلے بڑھے لوگ ہیں۔ اور اس لیے اس کی کمی ہم وطن محسوس کرتے ہیں۔ اور ایمرجنسی میں ہم نے محسوس کیا تھا کہ اسی لیے ملک ، اپنے لیے نہیں، ایک مکمل انتخاب اپنے مفاد کے لیے نہیں جمہوریت کے تحفظ کے لیے وقف کرچکاتھا۔ شاید دنیا کے کسی ملک نے وہاں کے عوام میں جمہوریت کے لیے اپنے باقی حقوق کی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف جمہوریت کے لیے رائے دہی کی ہو۔ تو ایسا ایک انتخاب اس ملک میں 77 نے دیکھا تھا۔ حال ہی میں جمہوریت کا بڑا تہوار بہت بڑی انتخابی مہم ہمارے ملک میں اختتام پذیر ہوئی ہے۔ امیر سے لے کر غریب سبھی لوگ اس تہوار میں خوشی سے ہمارے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مستعد تھے۔
جب کوئی چیز ہمارے بہت قریب ہوتی ہے تو ہم اس کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں، اس کے حیرت انگیز حقائق بھی نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ ہمیں جو قیمتی جمہوریت ملی ہے اسے ہم بہت آسانی سے مان لیتےہیں لیکن، ہمیں خود کو یہ یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ ہماری جمہوریت بہت ہی عظیم ہے اور اس جمہوریت کو ہماری رگوں میں جگہ ملی ہے۔ صدیوں کی محنت سے نسل در نسل کے سنسکاروں سے ایک عظیم وسیع ذہنی رجحان سے۔ ہندوستان میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، 61 کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ووٹ دیئے، 61 کروڑ۔ یہ اعداد وشمار ہمیں بہت ہی معمولی لگ سکتا ہے لیکن اگر دنیا کے حساب سے میں کہوں اگر ایک چین کو ہم چھوڑ دیں تو ہندوستان میں دنیا کے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ کی تھی۔ جتنے رائے دہندگان نے 2019 کے انتخابات میں ووٹ دیئے ان کی تعداد امریکہ کی کُل آبادی سے بھی زیادہ ہے تقریباً دوگنی ہے۔ ہندوستان میں مجموعی رائے دہندگانوں کی جتنی تعداد ہے وہ پورے یوروپ کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کی عظمت اور وسعت کا ثبوت ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات اب تک کی تاریخ میں دنیا کا سب سے بڑا جمہوری انتخاب تھا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، اس قسم کے انتخابات کرانے میں کتنی بڑی سطح پر وسائل اور افرادی قوت کی ضرورت ہوئی ہوگی۔ لاکوں اساتذہ، افسران اور حکام کی دن رات محنت سے انتخابات ممکن ہوا۔ جمہوریت کے اس عظیم تہوار کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جہاں نیم فوجی دستوں کے تقریباً تین لاکھ عملوں نے اپنا فرض نبھایا وہیں الگ الگ ریاستوں کے 20 لاکھ پولیس حکام نے بھی، بڑی جدوجہد کی۔ انھیں لوگوں کی کڑی محنت کے نتیجے میں اس بار پچھلی بار سے بھی زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹنگ کے لیے پورے ملک میں تقریباً 10 لاکھ پولنگ مراکز تقریباً 40 لاکھ سے زیادہ ای وی ایم مشین، 17 لاکھ سے زیادہ وی وی پیٹ مشین، آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کتنا بڑا تام جھام۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی رائے دہندہ اپنے حق رائے دہندگی سے محروم نہ ہو۔ اروناچل پردیش کے ایک دور دراز علاقے میں صرف ایک خاتون رائے دہندہ کے لیے پولنگ اسٹیشن بنایا گیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انتخابی کمیشن کے افسران کو وہاں پہنچنے کے لیے دو دو دن تک سفر کرنا پڑا- یہی تو جمہوریت کی سچی عزت افزائی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بلندی پر قائم پولنگ مرکز بھی ہندوستان میں ہی ہے۔ یہ پولنگ مرکز ہماچل پردیش کے لاہول اسپتی علاقے میں 15000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس انتخاب میں فخر سے معمور کردینے والی ایک اور حقیقت بھی ہے۔ شاید تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ خواتین نے مردوں کی طرح جوش وخروش کے ساتھ ووٹنگ کی ہے۔ اس انتخاب میں خواتین اور مردوں کا ووٹنگ فیصد تقریباً برابر تھا۔ اسی سے جڑا ایک اور حوصلہ افزا حقیقت یہ ہے کہ آج ایوان میں ریکارڈ 78 خواتین اراکین پارلیمان ہیں۔میں انتخابی کمیشن کو اور انتخابی عمل سے جڑے ہر فرد کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ اور ہندوستان کے باشعور رائے دہندگان کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ نے کئی بار میرے منھ سے سنا ہوگا ‘بُکے نہیں بک’ میری درخواست تھی کہ کیا ہم استقبال کرنے میں پھولوں کے بجائے کتابیں دے سکتے ہیں ۔ تب سے کافی جگہ لوگ کتابیں دینے لگے ہیں۔ مجھے حال ہی میں کسی نے ‘پریم چند کی مقبول کہانیاں’ نام کی کتاب دی۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ حالاں کہ، بہت وقت تو نہیں مل پایا، لیکن سفر کے دوران مجھے ان کی کچھ کہانیاں پھر سے پڑھنے کا موقع مل گیا۔ پریم چند نے اپنی کہانیوں میں سماج کی سچائی کی جو تصویر کشی کی ہے، پڑھتے وقت اس کی تصویر آپ کے ذہن میں بننے لگتی ہے۔ ان کی لکھی ایک ایک بات زندہ ہو اٹھتی ہے۔ آسان، سادہ زبان میں انسانی جذبات کو اظہار کرنے والی ان کی کہانیاں میرے من کو بھی چھو گئی۔ ان کی کہانیوں میں پورے ہندوستان کے جذبات شامل ہیں۔ جب میں ان کی لکھی ‘نشہ’ نام کی کہانی پڑھ رہا تھا تو میرا ذہن اپنے آپ ہی سماج میں موجود اقتصادی مساوات پر چلا گیا۔ مجھے اپنی جوانی کے دن یاد آگئے کہ کیسے اس موضوع پر رات رات بھر بحث ہوتی تھی۔ زمین دار کے بیٹے ایشوری اور غریب خاندان کے بیر کی اس کانی سے سبق ملتا ہے کہ اگر آپ محتاط نہیں ہیں تو بری صحبت کا اثر کب پڑ جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ دوسری کہانی جس نے میرے دل کو اندر تک چھو لیا وہ تھی ‘عیدگاہ’، ایک بچے کی حساسیت، اس کا اپنی دادی کے لیے بے لوث محبت اتنی کم عمر میں اتنا پختہ جذبہ، 5-4 سال کا حامد جب میلے سے چمٹا لے کر اپنی دادی کے پاس پہنچتا ہے تو صحیح معنوں میں انسانی حساسیت اپنے بلندی پر پہنچ جاتی ہے اس کہانی کی آخری سطر بہت ہی جذبات انگیز ہے۔ کیونکہ اس میں زندگی کی ایک بہت بڑی سچائی ہے، ‘‘بچے حامد نے بورھے حامد کا کردار ادا کیا تھا – بوڑھی امینہ، بچی امینہ بن گئی تھی’’۔
ایسی ہی ایک بڑی جذباتی کہانی ہے ‘‘پوس کی رات’’۔ اس کہانی میں ایک غریب کسان زندگی کی ستم ظریفی کی زندہ تصویر دیکھنے کو ملی۔ اپنی فصل برباد ہونے کے بعد بھی ہلدو کسان اس لیے خوش ہوتا ہے کیوں کہ اب اسے کڑاکے کی سردی میں کھیت میں نہیں سونا پڑے گا۔ حالاں کہ یہ کہانیاں تقریباً صدی بھر پہلے ہی لیکن ان کی موزونیت آج بھی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے۔ انہیں پڑھنے کے بعد مجھے ایک الگ قسم کا احساس ہوا۔
جب پڑھنے کی بات ہو رہی ہے تبھی کسی میڈیا میں ، میں کیرل کی اکشرا لائبریری کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ لائبریری ایڈوکی کے گھنے جنگل کے درمیان بسے ایک گاؤں میں ہے یہاں کے پرائمری اسکول کے استاد پی کے مرلی دھرن اور چھوٹی سی چائے دکان چلانے والے چنا تھمپی، ان دونوں نے اس لائبریری کے لیے انتھک کوشش کی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی رہا جب گٹھر میں بھر کر اور پیٹھ پر لاد کر کتابیں لائی گئیں، آج یہ لائبریری قبائلی بچوں کے ساتھ ہر کسی کو ایک نئی راہ دکھا رہی ہے۔
گجرات میں وانچے گجرات مہم ایک کامیاب تجربہ رہا۔ لاکھوں کی تعداد میں ہر عمر، طبقہ کے لوگوں نے کتابیں پڑھنے کی اس مہم میں حصہ لیا تھا۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں، گوگل گرو کے وقت میں میں آپ سے بھی درخواست کروں گا کہ کچھ وقت نکال کر روز مردہ کے معمول میں کتاب کو بھی ضرور جگہ دیں۔ آپ سچ مچ بہت لطف اندوز ہوں گے اور جو بھی کتاب پڑھیں اس کے بارے میں نریندر مودی ایپ پر ضرور لکھیں تاکہ من کی بات کے سبھی سامعین بھی اس کے بارے میں جان پائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ ان مسئلوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کے لیے بھی بڑی چیلنج ہے۔ میں نریندر مودی ایپ اور مائی گوو پر آپ کے رد عمل پڑھ رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ پانی کے مسئلے کو لے کر کئی لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ بیل گاوی کے پون گورائی، بھوبنیشور کے سیتانشو موہن پریدا۔ اس کے علاوہ یش شرما ، شہاب الطاف اور بھی کئی لوگوں نے مجھے پانی سے جڑے چیلنجوں کے بارے میں لکھا ہے۔پانی کا ہماری ثقافت میں بہت اہمیت ہے۔ ری گریٹ کے آپہ سکتمے میں پانی کے بارے میں کہا گیا ہے:
आपो हिष्ठा मयो भुवः, स्था न ऊर्जे दधातन, महे रणाय चक्षसे,
यो वः शिवतमो रसः, तस्य भाजयतेह नः, उषतीरिव मातरः |
یعنی پانی ہی زندگی دینے والی طاقت، توانائی کی وسیلہ ہے۔ آپ ماں کو احترام یعنی ماں جیسا آشیرواد دیں۔ اپنی رحمت ہم پر برساتے رہیں۔ پانی کی کمی سے ملک کے کئی حصے ہر سال متاثر ہوتے ہیں۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ سال بھر میں بارش سے جو پانی حاصل ہوگا ہے اس کا صرف آٹھ فیصد ہمارے ملک میں بچایا جاتا ہے۔ صرف اور صرف آٹھ فیصد۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلہ کاحل نکالا جائے۔ مجھے یقین ہے ، ہم دوسرے اور مسائل کی طرح ہی عوامی شراکت داری سے، عوامی طاقت سے 130 کروڑ ہم وطنوں کی صلاحیت، تعاون اور عزم سے اس بحران کو بھی حل کرلیں گے۔ پانی کی اہمیت کو سب سے عزیز رکھتے ہوئے ملک میں نئی آبی طاقت وزارت بنائی گئی ہے۔ اس سے پانی سے متعلق سبھی موضوعات پر تیزی سے فیصلے لیے جاسکیں گے۔ کچھ دن پہلے میں نے کچھ الگ کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ملک بھر کے سرپنچوں کو خط لکھا۔ گرام پردھان کو۔ میں نے گرام پردھان کو لکھا کہ پانی بچانے کے لیے ، پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے، بارش کے بوند بوند پانی کو بچانے کے ، وہ گرام سبھا کی میٹنگ بلا کر گاؤں والوں کے ساتھ بیٹھ کر غور وفکر کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے اس کام میں پوری سرگرمی دکھائی ہے۔ اور اس مہینے کی 22 تاریخ کو ہزاروں پنچایتوں میں کروڑوں لوگوں نے شرمدان کیا۔ گاؤں گاؤں میں لوگوںن ے پانی کی ایک ایک بوند کو جمع کرنے کا عزم کیا۔
آج ‘من کی بات’ پروگرام میں میں آپ کو ایک سرپنچ کی بات سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے جھارکھنڈ کے ہزاری باغ ضلع کے کٹکم سانڈی بلاک کی لوپنگ پنچایت کے سرپنچ نے ہم سب کو کیا پیغام دیا ہے۔
میرا نام دلپ کمار روی داس ہے۔ پانی بچانے کے لیے جب وزیر اعظم نے ہمیں خط لکھا تو ہمیں یقین ہی نہیں ہوا کہ وزیر اعظم نے ہمیں خط لکھا ہے۔ جب ہم نے 22 تاریخ کو گاؤں کے لوگوں کو جمع کرکے وزیر اعظم کا خط پڑھ کر سنایا تو گاؤں کے لوگ بہت جوش میں آگئے اور پانی بچانے کے لیے تالاب کی صفائی اور نیا تالاب بنانے کے لیے شرمدان کرکے اپنی اپنی حصہ داری نبھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ بارش سے پہلے یہ کام کرکے آنے والے وقت میں ہمیں پانی کی کمی نہیں ہوگی۔ یہ اچھا ہوا کہ ہمارے وزیر اعظم نے ہمیں صحیح وقت پر آگاہ کردیا’’۔
برسا منڈا کی سرزمین جہاں فطرت کے ساتھ تال میل بٹھا کر رہنا ثقافت کا حصہ ہے، وہاں کے لوگ ایک بار پھر پانی کے تحفظ کے لیے اپنا سرگرم کردار نبھانے کے لیے تیار ہیں۔ میری طرف سے سبھی گرام پردھانوں کو ، سبھی سرپنچوں کو ، ان کی اس سرگرمی کے لیے بہت بہت مبارکباد۔ ملک بھر میں ایسے کئی سرپنچ ہیں جنھوں نے پانی کے تحفظ کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ایک طرح سے پورے گاؤں کا ہی وہ موقع بن گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ گاؤں کے لوگ اب اپنے گاؤں میں جیسے پانی کا مندر بنانے کے کوشش میں مصروف ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اجتماعی کوشش سے بڑے مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ پورے ملک میں پانی کے بحران سے نمٹنے کا کوئی ایک فارمولہ نہیں ہوسکتا ہے اس کے لیے ملک کے الگ الگ حصوں میں الگ الگ طریقے سے کوشش کئے جارہے ہیں۔ لیکن سب کا ہدف ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے پانی بچانا، آبی تحفظ۔
پنجاب میں ڈریمج لائن کو ٹھیک کیا جارہا ہے۔ اس کوشش سے پانی کے جماؤ کے مسئلہ سے نجات مل رہا ہے۔ تلنگانہ کے تھیمائی پلی میں ٹینک کی تعمیر سے گاؤں کے لوگوں کی زندگی بدل رہی ہے۔ راجستھان کے کبیر دھام میں کھیتوں میں بنائے گئے چھوٹے تالابوں سے ایک بڑا بدلاؤ آیا ہے۔ میں تمل ناڈو کے ویلور میں ایک اجتماعی کوشش کے بارے میں پڑھ رہا تھا جہاں ناگ ندی کے از سر نو احیا کے لیے 20000 خواتین ایک ساتھ آئیں۔ میں نے گڑھوال کی ان خواتین کے بارے میں بھی پڑھا ہے جو آپس میں مل کر رین واٹر ہار ویسٹنگ پر بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی کئی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور اب ہم متحد ہوکر مضبوطی سے کوشش کرتے ہیں تو ناممکن کو بھی ممکن کرسکتے ہیں۔ جب جن جن جڑے گا جل بچے گا۔ آج من کی بات کے توسط سے میں ہم وطنوں سے تین درخواست کر رہا ہوں۔
میری پہلی درخواست ہے۔ جیسے ہم وطنوں نے سوچھتا کو ایک عوامی تحریک کا روپ دے دیا۔ آیئے ویسے ہی پانی کے تحفظ کے لیے ایک عوامی تحریک کی شروعات کریں۔ ہم سب ساتھ مل کر پانی کے ہر بوند کو بچانے کا عزم کریں۔ اور مجھے تو یقین ہے کہ پانی خدا کا دیا ہوا عطیہ ہے۔ پانی پارس کا روپ ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ پارس کے لمس سے لوہا سونا بن جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں پانی پارس ہے اور پارس سے پانی کے لمس سے نئی زندگی تعمیر ہوجاتی ہے۔ پانی کے ایک ایک قطرے کو بچانے کے لیے ایک بیداری مہم کی شروعات کریں اس میں پانی سے جڑے مسئلوں کے بارے میں بتائیں۔ ساتھ ہی پانی بچانے کے طریقوں کی تشہیر کریں۔ میں خاص طور سے الگ الگ علاقوں کی ہستیوں سے پانی کے تحفظ کے لیے اختراعی مہم کی قیادت کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ فلمی دنیا ہو، کھیل کی دنیا ہو، میڈیا کے ہمارے ساتھی ہوں، سماجی تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ ہوں، ثقافتی تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ ہوں، کتھا کرتن کرنے والے لوگ ہوں، ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے اس تحریک کی قیادت کرے۔ سماج کو بیدار کریں، سماج کو جوڑیں، سماج کے ساتھ جڑیں۔ آپ دیکھئے اپنی آنکھوں کے سامنے ہم تبدیلی دیکھ پائیں گے۔
ہم وطنوں سے میری دوسری درخواست ہے ۔ ہمارے ملک میں پانی کے تحفظ کے لیے کئی روایتی طور طریقے صدیوں سے استعمال میں لائے جارہے ہیں۔ میں آپ سبھی سے پانی کے تحفظ کے ان روایتی طریقوں کو شیئر کرنے کی درخواست کرتا ہوں ۔ آپ میں سے کسی کو اگر پور بندر قابل پرستش باپو کی جائے پیدائش پر جانے کا موقع ملا ہوگا تو قابل پرستش باپو کے گھر کے پیچھے ہی ایک دوسرا گھر ہے وہاں پر 200 سال پرانی پانی کی ٹنکی ہے اور آج بھی اس میں پانی ہے۔ اور برسات کے پانی کو روکنے کا انتظام ہے۔ تو میں ہمیشہ کہتا تھا کہ جو بھی کرتی مندر جائیں وہ اس پانی کے ٹینک کو ضرور دیکھیں۔ ایسے کئی قسم کے استعمال ہرجگہ ہوں گے۔
آپ سبھی سے میری تیسری درخواست ہے۔ پانی کے تحفظ کی سمت میں اہم خدمات دینے والے افراد کا، خود سے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا اور اس شعبہ میں کام کرنے والے ہر کسی کا ان کی جو جانکاری ہو اسے آپ شیئر کریں تاکہ ایک بہت ہی خوشحال پانی کے لیے وقف ، پانی کے سرگرم سنگٹھن کا، لوگوں کا ایک ڈاٹا بیس بنایا جاسکے۔ آیئے ہم پانی کے تحفظ سے جڑیں، زیادہ سے زیادہ طریقوں کی ایک فہرست بناکر لوگوں کو پانی کے تحفظ کے لیے ترغیب دیں۔ آپ سبھی # JanShakti4JalShakti کا استعمال کرکے اپنا مواد شیئر کرسکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! مجھے اور ایک بات کے لیے بھی آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور دنیا کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے۔ 21 جون کو پھر سے ایک بار یوگ دیوس میں جس سرگرمی کے ساتھ امنگ کے ساتھ ایک ایک خاندان کے تین- تین، چار- چار نسل ایک ساتھ آکر یوگ دیوس کو منایا۔ مجموعی حفظان صحت کے لیے جو بیداری آئی ہے اس میں یوگ دیوس کی اہمیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہر کوئی دنیا کے ہر خطے میں سورج طلوع ہوتے ہی اگر کوئی یوگ سے پریم کرنے والا استقبال کرتا ہے تو سورج ڈھلتے کا پورا سفر ہے۔ شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہوگی جہاں انسان ہو اور یوگ کے ساتھ جڑا ہوا نہ ہو۔ اتنا بڑا، یوگ نے روپ لے لیا ہے۔ ہندوستان نے ہمالیہ سے بحر ہند تک ، سیاچین سے لے کر سب مرین تک ، ایئرفورس سے لے کر ایئرکرافٹ کیریئر تک، اے سی جیم سے لے کر تپتے ریگستان تک، گاؤں سے لے کر شہروں تک۔ جہاں بھی ممکن تھا ایسی ہر جگہ پر نہ صرف یوگ کیا گیا بلکہ اس کی تقریب اجتماعی طور پر بھی منائی گئی۔
دنیا کے کئی ملکوں کے صدور، وزرائے اعظم، جانی مانی ہستیاں، اہم شہریوں نے مجھے ٹوئٹر پر دکھایا کہ کیسے انھوں نے اپنے اپنے ملکوں میں یوگ منایا۔ اس دن دنیا ایک بڑے خوشحال خاندان کی طرح لگ رہی تھی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ایک صحت مند سماج کی تعمیر کے لیے صحتمند اور حساس افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یوگ یہی یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے یوگ کی تشہیر سماجی خدمت کا ایک عظیم کام ہے۔ کیا ایسی خدمت کو تسلیم کرکے اس کی عزت افزائی نہیں کی جانی چاہیے؟ سال 2019 میں یوگا کے فروغ اور ترقی میں زبردست خدمات دینے کے لیے وزیر اعظم ایوارڈ کا اعلان اپنے آپ میں میرے لیے ایک بہت ہی اطمینان کی بات تھی۔ یہ ایوارڈ دنیا بھر کی ان تنظیموں کو دیا گیا ہے جس کے بارے میں آپ نے سوچا تک نہیں ہوگا کہ انھوں نے کیسے یوگا کی تشہیر میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔ مثال کے طور پر جاپان یوگ نکیتن کو لیجیے جس نے یوگا کو پورے جاپان میں مقبول بنایا ہے۔ جاپان یوگ نکیتن وہاں کے کئی ادارے اور تربیتی کورسز چلاتا ہے۔ یا پھر اٹلی کی مسز اینٹونی ایٹا روزی انہیں کا نام لے لیجیے جنھوں نے سرو یوگ انٹرنیشنل کی شروعات کی اور پورے یورپ میں یوگ کی تشہیر کی۔ یہ اپنے آپ میں ترغیب دینے والی مثالیں ہیں۔ اگر یہ یوگا سے جڑے وشے ہیں تو کیا ہندوستانی اس میں پیچھے رہ سکتے ہیں؟ بہار یوگ ودیالیہ مونگیر اس کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ پچھلے کئی دہائیوں سے یوگا کے لیے وقف ہے۔ اسی طرح سوامی راج شری منی کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے لائیف مشن اور لکولش یوگا یونیورسٹی قائم کی۔ یوگا کو وسیع پیمانے پر منانا اور یوگا کا پیغام گھر گھر پہنچانے والوں کو اعزاز بخشنا دونوں نے ہی اس یوگا دیوس کو خاص بنا دیا۔
میرے پیارے ہم وطنو! یہ سفر آج شروع ہو رہا ہے۔ نئے جذبے، نئے احساس، نئے تصور، نئی صلاحیت لیکن ہاں میں آپ کے مشوروں کا انتظار کرتا رہوں گا۔ آپ کی رایوں سے وابستہ رہنا میرے لیے ایک بہت اہم سفر ہے۔ من کی بات تو مسلسل ہے۔ آیئے ہم ملتے رہیں، باتیں کرتے رہیں، آپ کے جذبات کو سنتا رہوں، سنوارتا رہوں، سمجھتا رہوں۔ کبھی کبھی ان جذبوں کو جینے کی کوشش کرتا رہوں ۔ آپ کا آشیرواد بنا رہے۔ آپ ہی میری ترغیب ہیں، آپ ہی میری توانائی ہیں۔آؤ مل بیٹھ کر من کی بات کا مزہ لیتے لیتے زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھاتے چلیں۔ پھر ایک اگلے مہینے من کی بات کے لیے پھر سے ملیں گے۔ آپ سب کو میری جانب سے بہت بہت شکریہ۔
نمسکار!
نئی دہلی،24 فروری / میرے پیارے اہل وطن ، آداب! من کی بات شروع کرتے ہوئے آج من بھرا ہوا ہے۔ 10 دن قبل بھارت ماتا نے اپنے بہادر سپوتوں کو کھو دیا۔ ان بلند اقبال بہادروں نے ہم سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی حفاظت میں خود کو کھپا دیا۔ اہل وطن چین کی نیند سو سکیں اس لئے ہمارے ان بہادروں سپوتوں نے رات دن ایک کر رکھا تھا۔ پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے میں بہادر جوانوں کی شہادت کے بعد ملک بھر میں لوگوں کو اور لوگوں کے من میں زخم اور غصہ ہے۔ شہیدوں اور ان کے کنبوں کے تئیں چاروں طرف احساسات امڈ پڑے ہیں۔ اس دہشت گردانہ تشدد کی مخالفت میں جو غصہ آپ کے اور میرے من میں ہے وہی جذبہ ہر اہل وطن کے من میں ہے۔ اور انسانیت میں یقین کرنے والی دنیا کے بھی انسانیت نواز برادریوں میں ہے۔ بھارت کی حفاظت کرنے میں اپنے جان نچھاور کرنے والے ملک کے سبھی بہادر سپوتوں کو میں سلام کرتا ہوں۔ یہ شہادت دہشت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ہمیں مسلسل ترغیب دیتی رہے گی، ہمارے عزم کو اور مضبوط کرے گی۔ ملک کے سامنے آئے اس چیلنج کا سامنا ہم سب کو ذات پات ، فرقہ پرستی ، علاقائیت اور دیگر سبھی طرح کے اختلافات کو بھولا کر کرنا ہے۔ تاکہ دہشت کے خلاف ہمارے قدم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوں، طاقت ور ہوں اور فیصلہ کن ہوں ۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ ہی غیر معمولی حوصلہ اور ہمت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ امن کے قیام کے لئے جہاں انہوں نے غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا وہیں حملہ آوروں کو بھی ان ہی کی زبان میں جواب دینے کا کام کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حملے کے سو گھنٹے کے اندر ہی کس قدر سے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ فوج نے دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کو جڑ سے ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔ بہادر فوجیوں کی شہادت کے بعد میڈیا کے ذریعے سے ان کے رشتے داروں کی جو حوصلہ افزا باتیں سامنے آئی ہیں اس نے پورے ملک کےحوصلے کو مزید تقویت دی ہے۔ بہار کے بھاگل پور کے شہید رتن ٹھاکر کے والد رام نرنجن جی نے دکھ کی اس گھڑی میں بھی جس جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہم سب کو ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے کو بھی دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھیجیں گے اور ضرورت پڑی تو خود بھی لڑنے جائیں گے۔ اڈیشہ کے جگت سنگھ پور کے شہید پرسنہ ساہو کی بیوی مینا جی کے غیر معمولی حوصلے کو پورا ملک سلام کر رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی سی آر پی ایف جوائن کرانے کا عہد کیا ہے۔ جب ترنگے میں لپٹے شہید وجے شورین کی لاش جھارکھنڈ کے گملا پہنچی تو معصوم بیٹے نے یہی کہا کہ میں بھی فوج میں جاؤں گا۔ اس معصوم کا جذبہ آج بھارت کے بچے بچے کی جذبے کو ظاہر کرتا ہے ۔ایسے ہی جذبات ہمارے بہادر ، حوصلہ مند ، شہیدوں کے گھر گھر میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہمارا ایک بھی بہادر شہید اس کا استثنیٰ نہیں ہے۔ چاہے وہ دیوریا کے شہید وجے موریہ کا خاندان ہو ، کانگڑا کے شہید تلک راج کے والدین ہوں یا پھر کوٹہ کے شہید ہیمراج کا 6 سالہ بیٹا ہو ، شہیدوں کے ہر خاندان کی کہانی ترغیب سے بھری ہوئی ہے۔ میں نوجوان نسل سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کنبوں نے جو جذبہ دکھایا ہے جن جذبات کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کو جانیں ، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں ، وطن سے محبت کیا ہوتی ہے، ایثار وقربانی کیا ہوتی ہے ، اس کے لئے ہمیں تاریخ کے پرانے واقعات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے یہ جیتی جاگتی مثالیں ہیں اور یہی روشن بھارت کے مستقبل کے لئے باعث تحریک ہے۔
میرے پیارے اہل وطن ! آزادی کے اتنے طویل عرصے تک ہم سب کو جس وار میموریل کا انتظار تھا وہ اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں اہل وطن کا تجسس ، ان کا شوق انتہائی فطری ہے۔ نریندر مودی ایپ پر اُڈوپی ، کرناٹک کے جناب اونکار شیٹی جی نے نیشنل وار میموریل تیار ہونے پر اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ مجھے حیرت بھی ہوتی تھی اور درد بھی کہ ہندوستان میں کوئی نیشنل وار میموریل (قومی جنگی یادگار) نہیں تھا۔ ایک ایسا میموریل جہاں قوم کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے والے بہادر جوانوں کی بہادری کی کہانیوں کو سنبھال کر رکھا جا سکے ۔ میں طے کیا کہ ملک میں ایک ایسی یادگار ضرور ہونی چاہئے ۔
ہم نے نیشنل وار میموریل کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور مجھے خوشی ہے کہ یہ یادگار اتنے کم وقت میں بن کر تیار ہو چکی ہے۔ کل یعنی 25 فروری ہو ہم کروڑوں اہل وطن اس قومی فوجی یادگار کو ، اپنی فوج کے سپرد کریں گے۔ ملک اپنا قرض ادا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرے گا۔
دلی کے دل یعنی وہ جگہ جہاں پر انڈیا گیٹ اور امر جوان جیوتی موجود ہے ، بس اس کے بالکل قریب یہ ایک نئی یادگار بنائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اہل وطن کے لئے قومی فوجی یادگار جانا کسی تیرتھ استھل جانے کے برابر ہوگا۔ قومی فوجی یادگار آزادی کے بعد عظیم ترین قربانی دینے والے جوانوں کے تئیں قوم کی احسان مندی کی علامت ہے۔ یادگار کا ڈیزائن ، ہمارے لافانی فوجیوں کے غیر معمولی حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔ قومی فوجی یادگار کا تصور چار کنسنٹرک سرکل یعنی چار چکروں پر مرکوز ہے۔ جہاں ایک فوجی کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے سفر کا بیان ہے۔ اگر چکر کی لو ، شہید فوجی کے امر ہونےکی علامت ہے۔ دوسرا سرکل ویرتا چکر کا ہے جو فوجیوں کے حوصلے اور بہادری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی گیلری ہے جہاں دیواروں پر فوجیوں کی بہادری کے کارناموں کو ابھارا گیا ہے ۔ اس کے بعد تیاگ چکر ہے۔ یہ سرکل فوجیوں کی قربانی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس میں ملک کے لئے عظیم ترین قربانی دینے والے فوجیوں کے نام سنہرے الفاظ میں لکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد رکشک چکر ہے جو سیکورٹی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس سرکل میں گھنے پیڑوں کی قطار ہے۔ یہ پیڑ فوجیوں کی علامت ہیں اور ملک کے شہریوں کو یہ یقین دلاتے ہوئے پیغام دے رہےہیں کہ ہر پہر فوجی سرحد پر تعینات ہے اور اہل وطن محفوظ ہیں۔ کل ملاکر دیکھیں تو قومی فوجی یادگار کی پہچان ایک ایسے مقام کے طور پر بنے گی جہاں لوگ ملک کے عظیم شہیدوں کے بارے میں جانکاری لینے ، اپنے احسان مندی ظاہر کرنے ، اس پر ریسرچ کرنے کے مقصد سے آئیں گے۔ یہاں ان بلیدانیوں (قربانی کا نذرانہ پیش کرنے والوں ) کی کہانی ہے جنہوں نے ملک کے لئے اپنی جان نچھاور کر دی ، تاکہ ہم زندہ رہ سکیں ، تاکہ ملک محفوظ رہے اور ترقی کر سکے۔ ملک کی ترقی میں ہماری مسلح افواج ، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے عظیم تعاون کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں مجھے نیشنل پولیس میموریل ، (قومی پولیس یادگار ) کو بھی ملک کے نام وقف کرنے کی خوش بختی حاصل ہوئی تھی۔ وہ بھی ہمارے اس خیال کا عکس تھا جس کے تحت ہم مانتے ہیں کہ ملک کو ان مرد اور خاتون پولیس اہلکاروں کا احسان مند ہونا چاہئے جو مسلسل ہماری حفاظت میں مصروف رہتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ قومی فوجی یادگار اور نیشنل پولیس میموریل کو دیکھنے ضرور جائیں گے۔ آپ جب بھی جائیں وہاں لی گئی اپنی تصویروں کو سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے ترغیب ملے اور وہ بھی اس مقدس مقام ، اس یادگار کو دیکھنے کے آرزور مند بنیں ۔
میرے پیارے اہل وطن! من کی بات کے لئے آپ کے ہزاروں خطوط اور کمنٹ مجھے الگ الگ ذرائع سے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں اس بار جب میں آپ کے کمنٹ پڑھ رہا تھا تب مجھے آتش مکھو پادھیائے جی کاایک بہت ہی دلچسپ کمنٹ میرے دھیان میں آیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سال 1900 میں 3 مارچ کو انگریزوں نے برسا منڈا کو گرفتار کیا تھا تب ان کی عمر صرف 25 سال کی تھی ۔ اتفاق ہی ہے کہ 3 مارچ کو ہی جمشید جی ٹاٹا کی جینتی ہوئی ہے اور وہ آگے لکھتے ہیں کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ خاندانی پیس منظر سے ہیں جنہوں نے جھارکھنڈ کی وراثت اور تعریف کو خوشحال بنایا۔ من کی بات میں برسا منڈا اور جمشید جی ٹاٹا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مطلب ایک طرح سے جھارکھنڈ کی قابل فخر تاریخ اور وراثت کو سلام کرنے جیسا ہے۔ آتش جی میں آپ سے متفق ہوں ان دو عظیم شخصیات نے جھارکھنڈ کا ہی نہیں پورے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ پورا ملک ان کے تعاون کے لئے ان کا احسان مند ہے ۔ آج ہمارے نوجوانوں کو رہنمائی کے لئے کسی باعث تحریک شخصیت کی ضرورت ہے تو وہ ہیں بھگوان برسا منڈا ۔ انگریزوں نے چھپ کر بڑی ہی چالاکی سے انہیں اُس وقت پکڑا تھا جب وہ سو رہے تھے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایسی بزدلانہ کارروائی کا سہارا کیوں لیا؟ کیوں کہ اتنی بڑی سلطنت کھڑی کرنے والے انگریز بھی ان سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ بھگوان برسا منڈا نے نہ صرف اپنے روایتی تیر کمان سے ہی بندوقوں اور توپوں سے لیس انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ در اصل جب لوگوں کو ایک تحریک افزا قیادت ملتی ہے تو پھر ہتھیاروں کی طاقت پر لوگوں کی اجتماعی قوت ارادی بھاری پڑتی ہے۔ بھگوان برسا منڈا نے انگریزوں سے نہ صرف سیاسی آزادی کے لئے جدو جہد کی بلکہ آدیواسیوں کے سماجی اور اقتصادی حقوق کے لئے بھی لڑائی لڑی۔
اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے یہ سب کر دکھایا ۔ محروموں اور استحصال زدہ لوگوں کی تاریکی سے پُر زندگی میں سورج کی طرح روشنی بکھیری۔ بھگوان برسا منڈا نے 25 سال کی مختصر عمر میں ہی اپنی قربانی دے دی ۔ برسا منڈا جیسے بھارت ماں کے سپوت ملک کے ہر حصے میں ہوئے ہیں ۔ شاید ہندوستان کا کوئی کونا ایسا ہو گا جہاں صدیوں تک چلی ہوئی آزادی کی اس جنگ میں کسی نے تعاون نہ دیا ہو۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے ایثار ، بہادری اور قربانی کی کہانیاں نئی نسل تک پہنچی ہی نہیں ۔ اگر بھگوان برسا منڈا جیسی شخصیت نے ہمیں اپنے وجود کا احساس کرایا تو جمشید جی ٹاٹا جیسی شخصیت نے ملک کو بڑے بڑے ادارے دیئے۔ جمشید جی ٹاٹا صحیح معنوں میں ایک دور اندیش شخص تھے جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کے مستقبل کو دیکھا بلکہ اس کی مضبوط بنیاد بھی رکھی۔ وہ اچھی طرح واقف تھے کہ ہندوستان کو سائنس ، ٹیکنالوجی اور صنعتی مرکز بنانا مستقبل کے لئے ضروری ہے۔ یہ ان کا ہی ویژن تھا جس کے نتیجے میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کا قیام عمل میں آیا جسے اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے ٹاٹا اسٹیل جیسے کئی عالمی معیار کے ادارےاور صنعتیں بھی قائم کیں۔ جمشید جی ٹاٹا اور سوامی وویکا نند جی کی ملاقات دورۂ امریکہ کے دوران جہاز میں ہوئی تھی تب ان دونوں کی گفتگو میں ایک اہم موضوع ہندوستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی نشر و اشاعت تھی۔ کہتے ہیں اسی گفتگو سے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی بنیاد پڑی۔
میرے پیارے اہل وطن! ہمارے ملک کے سابق وزیراعظم جناب مرار جی دیسائی کی پیدائش 29 فروری کو ہوئی تھی ۔جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ دن چار سال میں ایک بار ہی آتا ہے۔ سادہ، پر امن شخصیت کے دھنی ، مرار جی دیسائی ملک کے سب سے ڈسپلنڈ لیڈروں میں سے تھے ۔ آزاد ہندوستان میں پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ مرار جی بھائی دیسائی کے ہی نام ہے ۔ مرار جی دیسائی نے اس مشکل وقت میں ہندوستان کی صلاحیت مندی کے ساتھ قیادت کی جب ملک کے جمہوری تانے بانے کو خطرہ لاحق تھا۔ اس کے لئے ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔ مرار جی بھائی دیسائی نے جمہوریت کی حفاظت کے لئے ایمرجنسی کے خلاف تحریک میں خود کو جھونک دیا۔ اس کے لئے انہیں ضعیفی میں بھی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ اس وقت کی حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ لیکن 1977 میں جب جنتا پارٹی نے انتخاب جیتا تب وہ ملک کے وزیراعظم بنے۔ ان کی مدت کار کے دوران ہی 44 واں آئینی ترمیمی بل لایا گیا ۔یہ اہم اس لئے ہے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران جو 42 ویں ترمیم لائی گئی تھی ، جس میں سپریم کورٹ کے اختیار کو کم کرنے اور دوسرے ایسے التزامات تھے ، جو ہماری جمہوری قدروں کے منافی تھے، ان کو واپس لیا گیا۔ جیسے 44 ویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی کارگزاری کو اخبارات میں شائع کرنے کا التزام کیا گیا۔ اسی کے تحت سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات کو بحال کیا گیا۔ اسی ترمیم میں یہ بھی التزام کیا گیا کہ آئین کی دفعی 20 اور 21 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ایمرجنسی کے دوران بھی نہیں کی جاسکتی۔ پہلی مرتبہ ایسا نظم کیا گیا کہ کابینہ کی تحریری سفارش پر ہی صدر جمہوریہ ایمرجنسی کا اعلان کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ ایمرجنسی کی مدت کو ایک بار میں چھ مہینے سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے مرار جی بھائی نے یہ یقینی بنایا کہ ایمرجنسی نافذ کرکے 1975 میں جس طرح جمہوریت کا قتل کیا گیا تھا ۔ مستقبل میں اس کا اعادہ پھر نہ ہوسکے۔ ہندستانی جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنے میں ان کے گراں قدر تعاون کو آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ ایک بار پھر ایسے عظیم لیڈر کو میں خراج عقید ت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو!
ہر سال کی طرح اس بار بھی پدم ایوارڈ کے تعلق سے لوگوں میں بڑا اشتیاق تھا۔ آج ہم ایک نیو انڈیا کی طرف مائل ہیں۔ اس میں ہم ان لوگوں کا احترام کرنا چاہتے ہیں جو زمینی سطح پر اپنا کام بے لوث جذبے سے کررہے ہیں۔ اپنی محنت کی دم پر الگ الگ طریقے سے دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لارہے ہیں۔ دراصل وہ سچے کرم یوگی ہیں جو عوامی خدمت ، سماج کی خدمت اور ان سب سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں بے لوث جذبے کے ساتھ مصروف رہتےہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب پدم ایوارڈ کا اعلان ہوتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ ایک طرح سے اسے میں بہت بڑی کامیابی مانتا ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹی وی، میگزین یا اخباروں کے فرنٹ پیج پر نہیں ہیں۔یہ چکاچوند کی دنیا سے دور ہیں لیکن یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے نام کی پروا ہ نہیں کرتے بس زمینی سطح پر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ‘یوگہ کرم سو کوشلم ’ گیتا کے پیغام کو وہ ایک طرح سے جیتے ہیں۔ میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اڈیشہ کے دیتاری نائیک کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ انہیں کینال مین آف دی اڈیشہ یونہی نہیں کہا جاتا۔ دیتاری نائیک نے اپنے گاؤں میں اپنے ہاتھوں سے پہاڑ کاٹ کر تین کلو میٹر تک نہر کا راستہ بنادیا۔ اپنی محنت سے سنچائی اور پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دور کردیا۔ گجرات کے عبدالغفور کھتری جی کو ہی لیجیئے، انہوں نے کچھ کے روایتی روغن پیٹنگ کے احیا کا بے مثال کام کیا۔ وہ اس نایاب پیٹنگ کو نئی نسل تک پہچانے کا بڑا کام کررہے ہیں۔ عبدالغفور کے ذریعہ بنائی گئی ‘ٹری آف لائف، فن پارے ’’ کو ہی میں نے امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ کو تحفہ میں دیا تھا۔ پدم ایوارڈ پانے والوں میں مراٹھواڑہ کے شبیر سید گئو ماتا کے سیوک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح اپنی پوری زندگی گئو ماتا کی خدمت میں کھپا دی ، یہ اپنے آپ میں انوکھا ہے۔ مدورے چنا پلئی وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے تمل ناڈو میں کلن جیئم تحریک کے ذریعہ مصیبت زدوں اور استحصال زدوں کو بااختیار بنانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی کمیونٹی چھوٹے مالی نظام کی شروعات کی ۔ امریکہ کی ٹاؤپورچون ۔ لینچ کے بارے میں سن کرآپ حیرت سے بھر جائیں گے لینچ آج یوگ کا جیتا جاگتا ادارہ بن گیا ہے۔ سو برس کی عمر میں بھی وہ دنیا بھر کے لوگوں کو یوگ کی ٹریننگ دے رہی ہیں اور اب تک ڈیڑھ ہزار لوگوں کو یوگ ٹیچر بناچکی ہیں۔جھاڑکھنڈ میں لیڈی ٹارزن کے نام سے مشہور جمنا ٹوڈو نے ٹمبر مافیا اور نکسلیوں سے لوہا لینے کا جرات مندانہ کام کیا۔ انہوں نے نہ صرف پچاس ہیکٹر جنگل کو اجڑنے سے بچایا بلکہ دس ہزار خواتین کو متحد کرکے پیڑوں اور جاندار وں کے تحفظ کے لئے آمادہ کیا۔ یہ جمنا جی کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج گاؤں والے ہر بچے کی پیدائش پر 18 پیڑ اور لڑکی کی شادی پر دس پیڑ لگاتے ہیں۔ گجرات کی مکتا بین پنکج کمار دگلی کہانی آپ کو تحریک سے بھر دے گی۔ خود دیویانگ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے دیویانگ خواتین کی ترقی کے لئے جو کام کئے ، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ چکشو مہیلا سیوا گنج نام کا ادارہ قائم کرکے وہ بینائی سے محروم بچوں کو خود کفیل بنانے کے مقدس کام میں مصروف ہیں۔ بہار کے مظفر پور کی کسان چاچی یینی راج کماری دیو کی کہانی بھی بہت حوصلہ افزا ہے۔ خواتین امپاورمنٹ اور زراعت کو نفع بخش بنانے کی سمت میں انہوں نے ایک مثال پیش کی ہے۔ کسان چاچی نے اپنے علاقے کی تین سو خواتین کو خود امدادی گروپ سے جوڑا اور اقتصادی اعتبار سے خودکفیل بنانے کے لئے راغب کیا۔ انہوں نے گاؤں کی خواتین کو کھیتی کے ساتھ ہی روزگار کے دیگر وسائل کی ٹریننگ دی۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کھیتی کے ساتھ ٹکنالوجی کوجوڑنے کا کام کیا اور میرے ہم وطنو ، شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس سال جو پدم ایوارڈ دیئے گئے ہیں ان میں سے بارہ کسانوں کو پدم ایوارڈ ملے ہیں۔ عام طو رپر زرعی شعبے سے وابستہ بہت ہی کم لوگ اور براہ راست زراعت کا کام کرنے والے بہت ہی کم لوگ پدم شری کی فہرست میں آئے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بدلتے ہوئے ہندستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں آج آپ سب کے ساتھ ایک ایسے دل کو چھو لینے والے تجربے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ چند دنوں سے میں محسوس کررہا ہوں۔ آج کل ملک میں جہاں بھی جارہا ہوں ، میری کوشش رہتی ہے کہ ‘ آیوشمان بھارت’ کی اسکیم پی ایم ۔جے اے وائی یعنی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کے کچھ مستفدین سے ملاقات کروں۔ کچھ لوگوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے ۔ اکیلی ماں اس کے چھوٹے بچے ، پیسوں کی کمی کی سبب علاج نہیں کراپارہی تھی۔ اسکیم سے اس کا علاج ہوا اور وہ صحت مند ہوگئی ۔ گھر کا سربراہ ، محتنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے والا حادثہ کا شکا ہوگیا، کام نہیں کرپارہا تھا، اس اسکیم سے اس کو فائدہ ملا اور وہ دوبارہ صحت مند ہوگیا، نئی زندگی جینے لگا۔
بھائیوں-بہنوں! گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران تقریباً 12 لاکھ کنبے اس اسکیم کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ غریب کی زندگی میں اس سے کتنی تبدیلی آرہی ہے۔ آپ سب بھی اگر کسی بھی ایسے غریب شخص کو جانتے ہیں جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے علاج نہیں کرا پارہا ہے تو ، اسے اس اسکیم کے بارے میں ضرور بتائیں۔ یہ اسکیم ہر ایسے غریب شخص کے لئے ہی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں! اسکولوں میں امتحانات کا وقت شروع ہونے والا ہے۔ پورے ملک میں علیحدہ علیحدہ ایجوکیشن بورڈ آئندہ کچھ ہفتوں میں دسویں اور بارہویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات کا عمل شروع کردیں گے۔ امتحانات میں شامل ہونے والے تمام طلباء کو ان کے گارجین کو تمام اساتذہ کو میری جانب سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
کچھ قبل دہلی میں ‘پریکشا پہ چرچا ’ کا ایک بہت بڑا انعقاد ٹاؤن ہال کے فارمیٹ میں ہوا ۔ اس ٹاؤن ہال کے پروگرام میں مجھے ٹیکنالوجی کی وساطت سے اندرون اور بیرون ملک کے کروڑوں طلباء کے ساتھ ان کے گارجین، اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا۔ ‘پریکشا پہ چرچا’ ، اس کی ایک خصوصیت یہ رہی کہ امتحان سے متعلق مختلف موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی۔کئی ایسے پہلو سامنے آئے کہ یقینی طورپر طلباء کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ تمام طلباء ، ان کے اساتذہ ، والدین یوٹیوب پر اس پروگرام کی پوری ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہیں تو آنے والے امتحان کے لئے میرے سبھی ایگزام ویریئرز کو ڈھیر ساری نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنوں! بھارت کی بات ہو تو تیوہار کی بات نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاید ہی ہمارے ملک میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہے جس کی اہمیت نہ ہو، جس کا کوئی تیوہار نہ ، کیونکہ ہزار وں سال پرانی تہذیب و ثقافت کی وراثت ہمارے پاس ہے۔ کچھ ہی دن بعد مہاشیو راتری کا تیوہار آنے والا اور اس بار تو شیو راتری تو سوموار کو ہے اور جب شیو راتری سوموار کو ہوتو اس کی ایک خاص اہمیت ہمارے دل و ماغ پر حاوی ہوجاتی ہے۔ اس شیوراتری کے مبارک تیوہار پر میری آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔
میرے پیارے ہم وطنوں! کچھ دن قبل میں کاشی گیا تھا۔ وہاں مجھے دِویانگ بھائی -بہنوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ۔ ان سے کئی موضوع پر بات چیت ہوئی۔ ان کا اعتماد واقعی متاثر کرنے والا اور تحریک دینے والا تھا۔بات چیت کے دوران ان میں سے ایک نوجوان کے ساتھ جب میں بات کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو ایک اسٹیج آرٹسٹ ہوں۔ میں تفریحی پروگراموں میں می میکری کرتا ہوں، تو میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ کس کی می میکری کرتی ہو تو اس نے بتایا کہ میں پردھان منتری کی می میکری کرتا ہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ذرا کر کے دیکھائیے۔ میرے لیے یہ بڑا خوشگوار اور حیرت انگیز واقع تھا۔ انہوں نے‘ من کی بات’ میں جس طرح میں بات کرتاہوں اسی کی پوری می میکری کی اور من کی بات کی ہی می میکری کی۔ مجھے یہ سن کر بہت اچھا محسوس ہوا کہ لوگ نہ صرف من کی بات سنتے ہیں، بلکہ اسے کئی موقع پر یاد بھی کرتے ہیں۔ میں سچ مچ اس دویانگ نوجوان کی صلاحیت سے بہت ہی متاثر ہوا۔
میرے پیارے ہم وطنوں! من کی بات پروگرام کے ذریعے میں آپ سب کے ساتھ جڑنا میرے لئے ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ ریڈیو کے ذریعے سے میں ایک طرح سے کروڑوں کنبوں کے ساتھ ہر مہینے روبرو ہوتا ہوں۔ کئی بارتو آپ سب سے بات کرتے ، آپ کے خطوط پڑھتے یا آپ کے ذریعے فون پر بھیجے گئے خیالات کو سنتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ مان لیا ہے۔ یہ میرے لئے ایک انتہائی خوشگوار تجربہ رہا ہے۔
دوستوں!انتخابات جمہوریت کا سب سے بڑا جشن ہوتا ہے۔ آئندہ دو ماہ ہم سب الیکشن کی گہما گہمی میں مصروف عمل رہیں گے۔ میں خود بھی اس الیکشن میں امیدوار رہوں گا۔ صحت مند جمہوری روایت کا احترام کرتے ہوئے اگلا من کی بات مئی مہینے کے آخری اتوار کو ہوگا ۔یعنی مارچ ، اپریل اور مئی کا مہینہ ، ان تینوں مہینے ہمارے جو جذبات ہیں ان سب کو انتخابات کے بعد ایک بار نئے اعتماد کے ساتھ ، آپ کی دعاؤں کی طاقت کے ساتھ پھر ایک بار من کی بات کے ذریعے اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کروں گا اور برسوں تک آپ سے بات چیت کرتا رہوں گا۔ پھر ایک بار آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
نئی دہلی 27جنوری ؛ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار، اس مہینے کی 21 تاریخ کو ملک کو ایک بہت ہی افسوسناک خبر ملی۔ کرناٹک میں ٹمکور ضلع کے شری سدھ گنگا مٹھ کے ڈاکٹر شری شری شری شیوکمار سوامی جی ہمارے درمیان نہیں رہے۔ شیو کمار سوامی جی نے اپنی پوری زندگی معاشرے کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔ بھگوان بسویشور نے ہمیں سکھایا ہے۔ ‘کائے کوے کیلاس’۔ یعنی سخت محنت کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھاتے جانا، بھگوان شیو کی رہائش گاہ کیلاش دھام میں ہونے کے برابر ہے۔ شیو کمار سوامی جی اسی فلسفے کو مانتے تھے اور انھوں نے اپنی 111 برسوں کی زندگی میں ہزاروں لوگوں کی سماجی، تعلیمی اور مالیاتی ترقی کے لیے کام کیا۔ ان کی شہرت ایک ایسے عالم کے روپ میں تھی جن کی انگریزی، سنسکرت اور کنڑ زبانوں پر حیرت انگیز گرفت تھی۔ وہ ایک سماج سدھارک تھے انھو ں انے اپنی پوری زندگی اس بات میں لگا دی کہ لوگوں کو کھانا، پناہ، تعلیم اور روحانی علم ملے۔ کسانوں کی ہر طرح سے فلاح ہو، یہ سوامی جی کی زندگی میں اوّلیت رہتی تھی۔ سدھ گنگا مٹھ مستقل طورپر مویشیوں اور زرعی میلوں کا انعقاد کرتا تھا۔ مجھے کئی بار پرم پوجیہ سوامی جی کا آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ سال 2007 میں شری شری شری شیو کمار سوامی جی کے صد سالہ جشن کے موقع پر ہمارے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ٹمکور گئے تھے۔ کلام صاحب نے اس موقع پر پوجیہ سوامی جی کے لیے ایک نظم سنائی تھی۔ انھوں نے کہا
“O my Fellow Citizens – In giving, you receive happiness,
In Body and Soul- You have everything to give,
If you have knowledge – share it,
If you have resources – share them with the needy,
You, your mind and heart.
To remove the pain and suffering, and cheer the sad hearts.
In giving, you receive happiness Almighty will bless, all your actions”
ڈاکٹر کلام صاحب کی یہ نظم شری شری شری شیو کمار سوامی جی کی زندگی اور سدھ گنگا مٹھ کے مشن کو خوبصورت طریقے سے پیش کرتی ہے۔ ایک بارپھر میں ایسے عظیم شخص کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 26 جنوری 1950 کو ہمارے ملک میں آئین نافذ ہوا اور اس دن ہمارا ملک جمہوری بنا اور کل ہی ہم نے آن بان شان کے ساتھ یوم جمہوریہ بھی منایا۔ لیکن میں آج کچھ اور بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک میں ایک بہت ہی اہم ادارہ ہے جو ہماری جمہوریت کا تو اٹوٹ حصہ ہے ہی اور ہماری جمہوریت سے بھی پرانا ہے۔ میں ہندوستان کے الیکشن کمیشن کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ 25 جنوری کو الیکشن کمیشن کا یوم تاسیس تھا جسے قومی یوم رائے دہندگان، نیشنل ووٹرس ڈے، کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں جس پیمانے پر انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اُسے دیکھ کر دنیا کے لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اور ہمارا الیکشن کمیشن جس خوبی سے اس کا انعقاد کرتا ہے اسے دیکھ کر ہر ایک ہم وطن کو الیکشن کمیشن پر فخر ہونا فطری بات ہے۔ ہمارے ملک میں یہ یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ہے کہ ہندوستان کا ہر ایک شہری جو ایک رجسٹرڈ ووٹر ہے، رجسٹرڈ رائے دہندہ ہے، اسے رائے دہندگی کا موقع ملے۔
جب ہم سنتے ہیں کہ ہماچل پردیش میں سمندری سطح سے 15 ہزار فٹ کی بلندی والے علاقے میں بھی پولنگ سینٹر قائم کیا جاتا ہے تو انڈمان ونکوبار جزائر میں دور دراز کے جزائر میں بھی ووٹنگ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور آپ نے تو گجرات کے بارے میں ضرور سنا ہوگا کہ گیر کے جنگل میں ایک دور دراز علاقے میں ایک پولنگ بوتھ جو صرف ایک ووٹر کے لیے ہے۔ تصور کیجئے صرف ایک ووٹر کے لیے، جب ان باتوں کو سنتے ہیں تو الیکشن کمیشن پر فخر ہونا بہت فطری بات ہے۔ اس ایک ووٹر کا خیال رکھتے ہوئے اُس ووٹر کو اُس کے حق رائے دہی کا موقع ملے، اس کے لیے الیکشن کمیشن کے ملازمین کی پوری ٹیم دور دراز علاقوں میں جاتی ہے اور ووٹنگ کا انتظام کرتی ہے اور یہی تو ہماری جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔
میں ہندوستان کی جمہوریت کو مضبوط بنانے کی مسلسل کوشش کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کی ستائش کرتا ہوں۔ میں سبھی ریاستوں کے الیکشن کمیشن کی ،تمام سکیورٹی ملازمین، دیگر ملازمین کی بھی ستائش کرتا ہوں، جو ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیتے ہیں اور آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بناتے ہیں۔
اس سال ہمارے ملک میں لوک سبھا کے انتخابات ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جہاں 21ویں صدی میں جنم لینے والے نوجوان لوک سبھا انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان کے لیے ملک کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کا موقع آگیا ہے۔ اب وہ ملک میں فیصلہ لینے کے عمل کے حصے دار بننے جارہے ہیں۔ اپنے خوابوں کو ملک کے خوابوں کے ساتھ جوڑنے کا وقت آچکا ہے۔ میں نوجوان پیڑھی سے اصرار کرتا ہوں کہ اگر وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں تو خود کو ضرور ووٹر کے طور پر رجسٹر کروائیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو احساس ہونا چاہیے کہ ملک میں ووٹر بننا، حق رائے دہی حاصل کرنا، وہ زندگی کی اہم حصولیابیوں میں سے ایک اہم پڑاؤ ہے۔ ساتھ ساتھ ووٹ ڈالنا یہ میرا فرض ہے۔ یہ جذبہ ہمارے اندر پنپنا چاہیے۔ زندگی میں کبھی کسی بھی وجہ سے اگر ووٹ نہیں ڈال پائے تو بڑی تکلیف ہونی چاہیے۔ کبھی کہیں ملک میں کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھیں تو افسوس ہونا چاہیے۔ ہاں! میں نے ووٹ نہیں دیا تھا۔ اس دن میں ووٹ دینے نہیں گیا تھا۔ اس کا ہی خمیازہ آج میرا ملک بھگت رہا ہے۔ ہمیں اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے ہمارا طریقہ یہ ہماری فطرت بننی چاہیے یہ ہمارے سنسکار ہونے چاہئیں۔ میں ملک کی جانی مانی ہستیوں سے اصرار کرتا ہوں کہ ہم سب ملک کر ووٹر رجسٹریشن ہو، یا پھر پولنگ کے دن ووٹ دینا ہو، اس بارے میں مہم چلا کرکے لوگوں کو بیدار کریں۔ مجھے امید ہے کہ بھاری تعداد میں نوجوان رائے دہندگان کے طور پر رجسٹرڈ ہوں گے۔ اور اپنی حصے داری سے ہماری جمہوریت کو اور مضبوطی دیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! ہندوستان کی اس عظیم سرزمین نے بہت سی عظیم شخصیتوں کو جنم دیا ہے اور ان عظیم شخصیتوں نے انسانیت کے لیے کچھ حیرت انگیز ناقابل فراموش کام کیے ہیں۔ ہمارا ملک ‘‘بہورتنا وسندھرا ہے’’۔ ایسی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے، نیتا جی سبھاش چندر بوس۔ 23 جنوری کو پورے ملک نے ایک الگ انداز میں ان کا یوم پیدائش منایا۔ نیتا جی کے یوم پیدائش پر مجھے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے بہادروں کے لیے وقف ایک میوزیم کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ آپ جانتے ہیں کہ لال قلعہ کے اندر آزادی سے اب تک کئی ایسے کمرے، عمارتیں بند پڑی تھیں۔ ان بند پڑے لال قلعہ کے کمروں کو بہت خوبصورت عجائب گھروں میں تبدیل کیا گیا۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس اور انڈین نیشنل آرمی کو وقف کئے گئے عجائب گھر ؛یادِ جلیاں؛ اور 1857ایٹین ففٹی سیون، ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کو وقف عجائب گھر اور اس پورے احاطے کو‘ کرانتی مندر’ کے طور پر ملک کو وقف کیا گیا ہے۔ ان عجائب گھروں کی ایک ایک اینٹ میں ہماری شاندار تاریخ کی خوشبو بسی ہے۔ عجائب گھر کے چپے چپے پر ہماری جنگ آزادی کے بہادروں کی کہانیوں کو بیان کرنے والی باتیں ہمیں تاریخ کے اندر جانے کی تحریک دیتی ہیں۔ اسی جگہ پر بھارت ماں کے بہادر بیٹوں، کرنل پریم سہگل، کرنل گربخش سنگھ ڈھلّوں اور میجرجنرل شاہنواز خاں پر انگریز حکومت نے مقدمہ چلایا تھا۔
جب میں لال قلعہ میں، کرانتی مندر میں، وہاں نیتاجی سے جڑی یادوں کا دیدار کر رہا تھا تب مجھے نیتا جی کے خاندان کے ارکان نے ایک بہت ہی خاص کیپ ، ٹوپی تحفتاً پیش کی۔ کبھی نیتا جی اسی ٹوپی کو پہنا کرتے تھے۔ میں نے عجائب گھر میں ہی اس ٹوپی کو رکھوا دیا، جس سے وہاں آنے والے لوگ بھی اس ٹوپی کو دیکھیں اور اس سے حب الوطنی کی ترغیب حاصل کریں۔ دراصل اپنے قومی ہیرو کی بہادری اور حب الوطنی کو نئی نسل تک بار بار الگ الگ شکل میں مسلسل پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی مہینے بھر پہلے ہی 30 دسمبر کو میں انڈومان اور نکوبار جزائر گیا تھا۔ ایک پروگرام میں ٹھیک اسی مقام پر ترنگا لہرایا گیا جہاں نیتا جی سبھاش بوس نے 75 سال قبل ترنگا لہرایا تھا۔ اسی طرح سے اکتوبر 2018 میں لال قلعہ پر جب ترنگا لہرایا گیا تو سب کو حیرت ہوئی کیوں کہ وہاں تو 15 اگست کو ہی یہ روایت ہے۔ یہ موقع تھا آزاد ہند سرکار کے قیام کے 75 برس پورے ہونے کا۔
سبھاش بابو کو ہمیشہ ایک بہادر فوجی اور ماہر تنظیم کار کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ ایک ایسا بہادر فوجی جس نے آزادی کی لڑائی میں اہم کردار نبھایا ‘‘دلّی چلو، تم مجھے خون دو میں تمھیں آزادی دوں گا’’ جیسے عظیم نعروں سے نیتا جی نے ہر ہندوستانی کے دل میں جگہ بنائی۔ کئی برسوں تک یہ مطالبہ رہا کہ نیتا جی سے متعلق فائلوں کو عام کیا جائے اور مجھے اس بات کی خوشی ہے یہ کام ہم لوگ کرپائے، مجھے وہ دن یاد ہے جب نیتا جی کا سارا خاندان وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر آیا تھا ہم نے مل کر نیتا جی سے متعلق بہت ساری باتیں کیں اور نیتاجی سبھاش بوس کو خراج عقیدت پیش کیا۔
مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان کی عظیم شخصیتوں سے متعلق کئی مقامات کو دلّی میں یادگار بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ چاہے وہ بابا صاحب امبیڈکر سے متعلق 26 علی پور روڈ ہو یا پھر سردار پٹیل میوزیم ہو یا وہ کرانتی مندر ہو۔ اگر آپ دلّی آئیں تو ان مقامات کو ضرورت دیکھنے جائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! آج جب ہم سبھاش چندر بوس کے بارے میں چرچا کر رہے ہیں اور وہ بھی ‘من کی بات’ میں تو میں آپ کے ساتھ نیتاجی کی زندگی سے متعلق ایک قصہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ سے ریڈیو کو لوگوں کے ساتھ جڑنے کا ایک اہم ذریعہ مانا ہے۔ اسی طرح نیتاجی کا بھی ریڈیو کے ساتھ کافی گہرا تعلق تھا اور انھوں نے بھی ملک کے لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے ریڈیو کو منتخب کیا تھا۔
سن 1942 میں سبھاش بابو نے آزاد ہند ریڈیو کی شروعات کی تھی اور ریڈیو کے ذریعے سے وہ ‘‘آزاد ہند فوج’’ کے فوجیوں سے اور ملک کے لوگوں سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ سبھاش بابو کا ریڈیو پر بات چیت کرنے کا ایک الگ ہی انداز تھا وہ بات چیت شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے کہتے تھے ۔ “This is Subhash Chandra Bose speaking to you over the Azad Hind Radio...”. اور اتنا سنتے ہی سامعین میں گویا ایک نیا جوش، ایک نئی توانائی بھر جاتی تھی۔
مجھے بتایا گیا کہ یہ ریڈیو اسٹیشن ہفتہ وار خبروں کا بلیٹن بھی نشر کرتا تھا جو انگریزی، ہندی ، تمل، بنگلہ، مراٹھی، پنجابی، پشتو اور اردو وغیرہ زبانوں میں ہوتے تھے، اس ریڈیو اسٹیشن کو چلانے میں گجرات کے رہنے والے ایم آر ویاس جی نے بہت ہی اہم رول ادا کیا۔ آزاد ہند ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگرام عام لوگوں کے درمیان کافی مقبول تھے اور ان پروگراموں سے ہمارے جنگ آزادی کے مجاہدین کو بہت تقویت ملی۔
اسی کرانتی مندر میں ایک ویژول آرٹس میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ ہندوستانی آرٹ اور ثقافت کے بارے میں بہت ہی جاذب نظر طریقے سے بتانے کی یہ کوشش ہوئی ہے۔ میوزیم میں چار تاریخی نمائشیں ہیں اور وہاں تین صدیوں پرانی 450 سے زیادہ پینٹنگز اور آرٹ ورکس موجود ہیں۔ میوزیم میں امرتا شیر گل، راجا روی ورما، اونیندر ناتھ ٹیگور، گگنیندر ناتھ ٹیگور، نند لال بوس، جامنی رائے، سیلوج مکھرجی جیسے عظیم فنکاروں کے اعلیٰ درجے کے فن پاروں کی بہت اچھی طرح سے نمائش کی گئی ہے۔ اور میں آپ سب سے خصوصی طورپر اصرار کروں گا کہ آپ وہاں جائیں اور گرو دیورویندر ناتھ ٹیگور جی کے فن پاروں کو ضرور دیکھیں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں بات آرٹ کی ہو رہی ہے اور میں آپ سے گرودیو ٹیگور کے اعلیٰ درجے کی تخلیقات کو دیکھنے کی بات کر رہا ہوں آپ نے ابھی تک گرودیو رویندر ناتھ ٹیگور کو ایک مصنف اور ایک موسیقار کے طور پر جانا ہوگا لیکن میں بتانا چاہوں گا کہ گرودیو ایک مصور بھی تھے۔ انھوں نے کئی موضوعات پر پینٹنگز بنائی ہیں۔ انھوں نے جانوروں، پرندوں کی بھی تصویریں بنائی ہیں۔ انھوں نے کئی خوبصورت منظروں کی بھی تصویریں بنائیں ہیں۔ اور اتنا ہی نہیں انھوں نے انسانی کرداروں کو بھی آرٹ کے ذریعے کینوس پر اتارنے کا کام کیا ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ گرودیو ٹیگور نے اپنے زیادہ تر فن پاروں کو کوئی نام ہی نہیں دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کی پینٹنگز دیکھنے والا خود ہی اس پینٹنگ کو سمجھے، پینٹنگ میں ان کے ذریعے دیئے گئے پیغام کو اپنے نظریے سے جانے۔ ان کی پینٹنگز کی یوروپی ملکوں میں، روس اور امریکہ میں بھی نمائش کی گئی ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ کرانتی مندر میں ان کی پینٹنگز کو ضرور دیکھنے جائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! ہندوستان سنتوں کی سرزمین ہے، ہمارے سنتوں نے اپنے خیالات اور اپنے کاموں سے ہم آہنگی، برابری اور معاشرتی تفویض اختیارات کا پیغام دیا ہے۔ ایسے ہی ایک سنت تھے سنت روی داس۔ 19 فروری کو روی داس جینتی ہے۔ سنت روی داس جی کے دوہے بہت مشہور ہیں۔ سنت روی داس جی چند ہی سطروں میں بڑے سے بڑا پیغام دیتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا:
‘‘جاتی-جاتی میں جاتی ہے،
جو کیتن کے پات،
رے داس منش نہ جڑ سکے
جب تک جاتی نہ جات’’۔
جس طرح کیلے کے تنے کو چھیلا جائے تو پتّے کے نیچے پتّہ، پھر پتّے کے نیچے پتّہ اور آخر میں کچھ نہیں نکلتا ہے لیکن پورا پیڑ ختم ہوجاتا ہے ٹھیک اسی طرح انسان کو بھی ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور انسان رہا ہی نہیں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر حقیقت میں بھگوان ہر انسان میں ہوتے ہیں، تو انھیں ذات پنتھ اور دیگر سماجی بنیادوں پر تقسیم کرنا مناسب نہیں ہے۔
گرو روی داس جی کا جنم وارانسی کی پاکیزہ سرزمین پر ہوا تھا۔ سنت روی داس جی نے اپنے پیغامات کے ذریعے اپنی پوری زندگی میں محنت اور محنت کشوں کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی، یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے دنیا کو محنت کے احترام کا حقیقی مطلب سمجھایا ہے۔ وہ کہتے تھے۔
‘‘من چنگا تو کٹھوتی میں گنگا’’۔
یعنی اگر آپ کا من اور دل پاک ہے تو ساکشات ایشور آپ کے دل میں قیام کرتے ہیں۔ سنت روی داس جی کے پیغام نے ہر طبقے ، ہر کلاس کے لوگوں کو متاثر کیا ہے چاہے چتوڑ کے مہاراجا اور رانی ہوں یا پھر میرا بائی ہوں سبھی ان کے معتقد تھے۔
میں ایک بار پھر سنت روی داس جی کی تعظیم میں سر جھکاتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو! کرن سِدر نے MyGov پر لکھا ہے کہ میں ہندوستان کے خلائی پروگرام اور اس کے مستقبل سے جڑے پہلوؤں پر روشنی ڈالوں۔ وہ مجھ سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ میں طلبا سے خلائی پروگراموں میں دلچسپی لینے اور کچھ الگ ہٹ کر آسمان سے بھی آگے جاکر سوچنے کا اصرار کروں۔ کرن جی ، میں آپ کے اس خیال اور خاص طور سے ملک کے بچوں کے لیے دیئے گئے پیغام کی ستائش کرتا ہوں۔
کچھ دن پہلے میں احمد آباد میں تھا، جہاں مجھے ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کے مجسمے کی نقاب کشائی کا موقع ملا۔ ڈاکٹر وکرم سارا بھائی نے ہندوستان کے خلائی پروگرام میں بہت ہی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ ہمارے خلائی پروگرام میں ملک کے لاتعداد نوجوان سائنسدانوں کا تعاون رہا ہے۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آج ہمارے طلبا کے ذریعے تیار کئے گئے سیٹلائٹ اور ساؤنڈنگ راکٹس خلاء تک پہنچ رہے ہیں۔ اسی 24 جنوری کو ہمارے طلبا کے ذریعے بنایا گیا ‘‘کلام- سیٹ’’ لانچ کیا گیا ہے، اڈیشہ میں یونیورسٹی کے طلبا کے ذریعے بنائے گئے ساؤنڈنگ راکٹس نے بھی کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک آزاد ہونے سے لے کر 2014 تک جتنے خلائی مشن ہوئے ہیں لگ بھگ اتنے ہی خلائی مشن کی شروعات گزشتہ چار برسوں میں ہوئی ہے۔ ہم نے ایک ہی اسپیس کرافٹ سے ایک ساتھ 104 سیٹلائٹ لانچ کرنے کا عالمی ریکارڈ بھی بنایا ہے۔ ہم جلد ہی چندریان-2 مہم کے ذریعے سے چاند پر ہندوستان کی موجودگی درج کرانے والے ہیں۔
ہمارا ملک خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال جان ومال کی حفاظت میں بھی بخوبی کر رہا ہے۔ چاہے سائیکلون ہو یا پھر ریل اور سڑک حفاظت۔ ان سب میں خلائی ٹیکنالوجی سے کافی مدد مل رہی ہے۔۔ ہمارے ماہی گیر بھائیوں کے درمیان ناوِک ڈوائسز تقسیم کئے گئے ہیں۔ جو ان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی میں بھی مددگار ہیں۔ ہم خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال سرکاری خدمات کی ڈلیوری اور احتساب کو اور بہتر کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ ‘‘ہاؤس فار آل’’ یعنی ‘‘سب کے لیے گھر’’۔ اس اسکیم میں 23 ریاستوں کے قریب 10 لاکھ گھروں کو جیو ٹیگ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی منریگا کے تحت قریب ساڑھے تین کروڑ جائیدادوں کو بھی جیو ٹیگ کیا گیا۔ ہمارے سیٹلائٹس آج ملک کی بڑھتی ہوئی طاقت کی علامت ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں کے ساتھ ہمارے بہتر تعلقات میں اس کا بڑا رول ہے۔ ساؤتھ ایشیا سیٹلائٹس تو ایک انوکھی پہل رہی ہے جس نے ہمارے پڑوسی دوست ملکوں کو بھی ترقی کا تحفہ دیا ہے۔اپنی بیحد مسابقتی لانچ خدمات کے ذریعے ہندوستان آج نہ صرف ترقی پذیر ممالک کے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے سیٹلائٹس کو بھی لانچ کرتا ہے۔ بچوں کے لیے آسمان اور ستارے ہمیشہ قابل رغبت ہوتے ہیں۔ ہمارا خلائی پروگرام بچوں کو بڑا سوچنے اور ان حدود سے آگے بڑھنے کا موقع دیتا ہے جو اب تک ناممکن سمجھی جاتی تھیں۔ یہ ہمارے بچوں کے لیے ستاروں کو دیکھتے رہنے کے ساتھ نئے نئے ستاروں کی کھوج کرنے کی طرف راغب کرنے کا ویژن ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں ہمیشہ کہتا ہوں جو کھیلے وہ کھلے اور اس بار کے کھیلو انڈیا میں بہت سارے نوعمر اور نوجوان کھلاڑی کِھل کے سامنے آئے ہیں۔ جنوری مہینے میں پُنے میں کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں 18 کھیلوں میں تقریبا 6 ہزاروں کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ جب ہمارا اسپورٹس کا مقامی ایکوسسٹم مضبوط ہوگا یعنی جب ہماری بنیاد مضبوط ہوگی تب ہی ہمارے نوجوان ، ملک اور دنیا بھر میں اپنی صلاحیت کا بہترین مظاہرہ کر پائیں گے۔ جب مقامی سطح پر کھلاڑی بہترین مظاہرہ کرے گا تب ہی وہ عالمی سطح پر بھی بہترین مظاہرہ کرے گا۔ اس بار ‘کھیلو انڈیا’ میں ہر ریاست کے کھلاڑیوں نے اپنی اپنی سطح پر اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ میڈل جیتنے والے کئی کھلاڑیوں کی زندگی زبردست تحریک دینے والی ہے۔
مکے بازی میں نوجوان کھلاڑی آکاش گورکھا نے سلور میڈل جیتا۔ میں پڑھ رہا تھا آکاش کے والد رمیش جی پُنے میں ایک کمپلیکس میں واچ مین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک پارکنگ شیڈ میں رہتے ہیں۔ وہیں مہاراشٹر کی انڈر-21 خواتین کبڈی ٹیم کی کپتان سونالی ہیلوی ستارا کی رہنے والی ہیں، انھوں نے بہت کم عمر میں ہی اپنے والد کو کھو دیا اور ان کے بھائی اور ان کی ماں نے سونالی کے ہنر کو فروغ دیا۔ اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ کبڈی جیسے کھیلوں میں بیٹیوں کو اتنا بڑھاوا نہیں ملتا ہے اس کے باوجود سنالی نے کبڈی کو چنا اور بہترین مظاہرہ کیا۔ آسن سول کے 10 سال کے ابھینوشا کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں سب سے کم عمر کے گولڈ میڈل جیتنے والے ہیں۔کرناٹک سے ایک کسان کی بیٹی، اکشتا باسوانی کمتی نے ویٹ لفٹنگ میں گولڈ میڈل جیتا۔ انھوں نے اپنی جیت کا کریڈٹ اپنے والد کو دیا۔ ان کے والد بیل گام میں ایک کسان ہیں۔ جب ہم انڈیا کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں تو وہ نوجوانوں کی طاقت کے عزم کا ہی تو نیو انڈیا ہے۔ کھیلو انڈیا کی یہ کہانیاں بتا رہی ہیں کہ نیو انڈیا کی تعمیر میں صرف بڑے شہروں کے لوگوں کا ہی رول نہیں رہا ہے بلکہ چھوٹے شہروں، گاؤں، قصبوں سے آنے والے نوجوانوں، بچوں، ینگ اسپورٹنگ ٹیلنٹ، ان کا بھی بہت بڑا رول ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ نے بہت سے مؤقر بیوٹی کنٹیسٹ کے بارے میں سنا ہوگا لیکن کیا آپ نے ٹوائلیٹ چمکانے کے کنٹیسٹ کے بارے میں سنا ہے۔ پچھلے تقریبا ایک مہینے سے چل رہے اس انوکھے کنٹیسٹ میں 50 لاکھ سے زیادہ ٹوائیلٹس نے حصہ لے بھی لیا ہے۔ اس انوکھے کنٹیسٹ کا نام ہے ‘‘سوچھ سندر شوچالیہ’’۔ لوگ اپنے ٹوائلیٹ کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُسے رنگ روغن کرکے کچھ پینٹنگز بنا کر خوبصورت بھی بنا رہے ہیں۔ آپ کو کشمیر سے کنیا کماری، کَچھ سے کامروپ تک کی ‘‘سوچھ سندر شوچالیہ’’ کی بہت ساری فوٹو سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے کو مل جائیں گی۔ میں سبھی سرپنچوں اور گرام پردھانوں سے اپنی پنچایت میں اس مہم کی قیادت کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ اپنے ‘‘سوچھ سندر شوچالیہ’’ کی فوٹو کو #MylzzatGhar پر ضرور شیئر کریں۔
ساتھیو! 2 اکتوبر 2014 کو ہم نے اپنے ملک کو صاف ستھرا بنانے اور کھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنے کے لیے ایک ساتھ مل کر ایک یادگار سفر کی شروعات کی تھی۔ ہندوستان کے عوام کے تعاون سے آج ہندوستان 2 اکتوبر 2019 سے کافی پہلے ہی کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس سے کہ باپو کو ان کی 150ویں جینتی پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا جاسکے۔
سوچھ بھارت کے اس یادگار سفر میں ‘من کی بات’ کے سامعین کا بھی بہت بڑا رول رہا ہے۔ اور اسی لیے اور آپ سب سے یہ بات شیئر کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پانچ لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ گاؤوں نے اور چھ سو ضلعوں نے خود کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک قرار دیا ہے۔ اور دیہی ہندوستان میں صفائی ستھرائی کا کوریج 98 فیصد کو پار کر گیا ہے۔ قریب 9 کروڑ خاندانوں کو ٹوائلیٹ کی سہولت فراہم کرائی گئی ہے۔
میرے ننھےمنے ساتھیو! امتحانات کے دن آنے والے ہیں۔ ہماچل پردیش کے رہنے والے انشل شرما نے MyGov پر لکھا ہے کہ مجھے امتحانات اور ایگزام واریئرس کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ انشل جی یہ معاملہ اٹھانے کے لیے آپ کا شکریہ۔ ہاں، کئی خاندانوں کے لیے سال کا پہلا حصہ ایگزام سیزن ہوتا ہے۔ طلبا، ان کے والدین سے لے کر ٹیچرس تک سب لوگ امتحانات سے متعلق کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔
میں سبھی طلبا، ان کے والدین اور ٹیچرس کو نیک خواہشات دیتا ہوں۔ میں اس موضوع پر آج ‘من کی بات’ کے اس پروگرام میں چرچا کرنا ضرور پسند کرتا لیکن آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میں دو دن بعد ہی 29 جنوری کو سویرے گیارہ بجے ‘‘پریکشا پہ چرچا’’ پروگرام میں ملک بھر کے طلبا کے ساتھ بات چیت کرنے والا ہوں۔ اس بار طلبا کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ بھی اس پروگرام کا حصہ بننے والے ہیں اور اس بار کئی دیگر ملکوں کے طلبا بھی اس پروگرام میں شرکت کریں گے۔ اس ‘پریکشا پہ چرچا’ میں امتحانات سے متعلق تمام پہلوؤں، خصوصی طور پر اسٹریس فری ایگزام یعنی تناؤ سے پاک امتحان، کے بارے میں اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ بہت ساری باتیں کروں گا۔ میں نے اس کے لیے لوگوں سے اِن پٹ اور آئیڈیا بھیجنے کا اصرار کیا تھا اور مجھے بہت خوشی ہی کہ MyGov پر بڑی تعداد میں لوگ اپنے خیالات شیئر کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ خیالات اور تجاویز کو میں یقینی طور پر ٹاؤن ہال پروگرام کے دوران آپ کے سامنے رکھوں گا۔ آپ ضرور اس پروگرام کا حصہ بنیں۔ سوشل میڈیا اور نمو ایپ کے ذریعے سے آپ اس کا لائیو ٹیلی کاسٹ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! 30 جنوری پوجیہ باپو کا یوم وفات ہے۔ گیارہ بجے پورا ملک شہیدوں کو خراج عقیدت دیتا ہے۔ ہم بھی جہاں ہوں دو منٹ شہیدوں کو ضرور خراج عقیدت پیش کریں۔ پوجیہ باپو کو یاد کریں اور پوجیہ باپو کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنا ، نئے بھارت کی تعمیر کرنا، شہری ہونے کے ناطے اپنے فرائض کو پورا کرنا اس عزم کے ساتھ آؤ ہم آگے بڑھیں۔ 2019 کے اس سفر کو کامیابی سے آگے بڑھائیں۔ میری جانب سے آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔
My Dear countrymen, Namaskar. The year 2018 is about to conclude. We shall soon enter 2019. At such a juncture, it is natural to reflect on the year gone by; it is equally so, to hear about resolutions for the year being ushered in. Whether it be the life of an individual, the life of a society at large or the life of a Nation collectively, everybody has to look back & ponder; at the same time one has to try & look forward to the best extent possible. Only then can the gains of experience be availed of, only then can one’s self-confidence renew further. What exactly should we do in order to ensure a change in our lives, simultaneously contributing our bit in taking our country & society forward? Many good wishes to all of you for the year 2019. You must have wondered how to keep 2018 etched in your memory! It is important to bear in mind HOW India as a country, as a collective entity powered by the might of a hundred & thirty crore people remembers the year 2018; something that swells our hearts with pride.
The year 2018 saw the launching of the world’s biggest health insurance scheme ‘Ayushman Bharat’. Electricity reached each & every village of the country this year. Noted world institutions have accepted that the country has taken strides in the area of poverty alleviation at a record pace. On account of the unwavering resolve of our countrymen, swachchata, sanitation coverage is rapidly advancing towards crossing the 95% mark.
After Independence, for the first time ever, the tricolor was hoisted at Red Fort on the 75th anniversary of the formation of the Azad Hind Government. In honour of SardarVallabhbhai Patel who bonded the entire country around a common thread of unity, India witnessed the coming up of the tallest statue in the world, ‘Statue of Unity’. The country secured a place of pride & glory in the entire world. The highest United Nations Environment Award ‘Champions of the Earth’ was conferred upon India. The world duly took notice of India’s efforts in the areas of Solar Energy & Climate Change. The first General Assembly of the International Solar Alliance was held in India. It is due to our collective efforts that our country has seen unprecedented improvement in the ‘Ease of doing business’ rankings. The country’s self defence mechanism got further reinforced. It was during this very year that our country has successfully accomplished the Nuclear Triad, which means we are now armed with nuclear capabilities-in water, on land and in the sky as well. Daughters of the country have done her proud by circumnavigating the globe through the NavikaSagarParikrama. India’s first inland waterway was launched in Varanasi. This has laid the foundation of a new revolution in the waterways sector.
The longest rail-road bridge, Bogibeel Bridge was dedicated to the Nation- Sikkim’s first & India’s hundredth airport, Pakyong commenced operations. India scripted a thumping win in the under- 19 Cricket World Cup and the Blind Cricket World Cup. This time, India clinched a large number of medals in the Asian Games. India also performed very well in the Para Asian Games too. By the way, if I continue enumerating examples of the Purusharth, the character & the mettle of Indians, or those of our collective endeavour, this episode of Mann Ki Baat will go on and on, perhaps to the point when 2019 makes an entry! And all this has been possible due to the relentless efforts of a 130 crore countrymen. I sincerely hope that India’s journey on the path of advancement & progress continues through 2019 too. Taking her to newer heights with her inner strengths.
My dear countrymen, this December we had to bear the loss of some extraordinary, exemplary countrymen. On the 19th of December, Dr. Jayachandran passed away in Chennai. People fondly called him ‘MakkalMaaruthuvar’ since he had a special place in their hearts. Dr. Jayachandran was known for his efforts of making the most economical treatment possible available to the poor. People tell us that he would be ever ready & eager, when it came to treatment of patients. In the case of elderly patients, he would even bear the cost of their travelling to and fro. On the betterindia.com website, I have read about many of his endeavours that serve as an inspiration to society.
On similar lines, on the 25th of December, I learnt of the loss of SulagittiNarsamma in Karnataka. SulagittiNarsamma was a midwife, aiding pregnant women during childbirth. In Karnataka, especially in far-off, remote places, thousands of women availed of her services. In the beginning of this year, she was honoured with a Padma Shri. There are many exemplary personalities such as Dr. Jaya Chandran and SulagittiNarsamma, who dedicated their lives to the welfare of all in society. Since we are referring to healthcare, I would like to mention the social endeavour of doctors in Bijnor, Uttar Pradesh. Recently, I was told by some of our party workers that a few young doctors in the town set up camps offering free treatment for the underprivileged. Every month, the Heart Lungs Critical Centre there organizes such camps, where free diagnosis and treatment for a host of ailments is done. Every month, hundreds of poor patients are benefitting from these camps. The dedication of these doctor friends engaged in selfless service is truly worthy of praise. Today, I’m saying it with pride that it was collective efforts that made the ‘Swachch Bharat Mission’ a successful campaign. I was told that a few days ago, in Jabalpur, Madhya Pradesh, over three lakh people came together to work for the sanitation campaign.
In this ‘Mahayagya’, grand undertaking, the Municipal Corporation, voluntary bodies, School- College students, the people of Jabalpur; in fact everyone participated with enthusiasm & Zest. I just referred to the betterindia.com, where I got to read about Dr. Jaya Chandran. Whenever I get the opportunity, I visit the better India website and try to know more about such shining, inspiring deeds. I am glad to observe that these days, there are many websites apprising us of inspiring life- stories of such remarkable gems. Just as thepoitiveindia.com is doing great work in spreading positivity and infusing more sensitivity into society. Similarly, success stories of young innovators & entrepreneurs are women beautifully on yourstory.com. In the same way, you can easily learn the Sanskrit language sitting at home through samskritabharati.in. Can we join hands in one endeavour?.. Let us share such websites amongst ourselves. Let’s come together to make positivity viral.
I do believe that by doing so more and more people will get to know about our heroes who brought a change in society. Spreading negativity is fairly easy. But some really good work is being done around us, in our society. And all this has been possible through the collective efforts of a 130 crore countrymen.
Sports has its own significance in every society. When a game is being played, the spectators too experience a rush of energy in their beings. We observe name, fame and laurels when it comes to sportspersons. But, at times, in the background, there exist many things that are much higher, much greater than the world of sports. Let me tell you about one of our daughters from Kashmir who won a gold medal in a Karate Championship in Korea. Hanaya is 12 years old and lives in Anantnag, Kashmir. Hanaya trained hard in Karate with perseverance & fervor, studied its nuances and proved herself. On behalf of all countrymen, I wish her a bright future. Best wishes and blessings to Hanaya. Similarly, the media discussed extensively about the 16 year old Rajani. You too must have read it. Rajani has won a gold medal at the Junior Women’s Boxing Championship. The moment Rajani won the medal she rushed to a nearby milk stall & drank a glass of milk. After that, she wrapped a cloth around the medal & kept it in a bag. You must be wondering why Rajani did that ! She did it in honour of her father Jasmer Singh ji who sells lassi, at a stall in Panipat. According to Rajani, her father has sacrificed a lot, undergone hardships to help her reach where she is. Early every morning, Jasmer Singh used to leave for work before Rajani and her siblings woke up. When Rajani approached her father, expressing her wish to learn boxing, he encouraged her, arranging for whatever possible resources that he could. Rajani had to start her training in boxing with old gloves, since those days, the family was not too well, financially. Despite so many hurdles, Rajani did not lose heart & went ahead with her training in boxing. She has won a medal in Serbia too.
My best wishes and blessings to Rajani. I also congratulate her parents Jasmer Singh ji and Usha Rani Ji for supporting & encouraging Rajani. This very month, 20 year old Vedangi Kulkarni from Pune became the fastest Asian to traverse the globe riding a bicycle. She rode for 159 days, covering around 300 kilometres every day. Just imagine… 300 kms of cycling every day ! Her passion for cycling is indeed commendable. Don’t news of such achievements, such accomplishments inspire us? Especially my young friends, when we hear about such feats, we derive inspiration to touch heights despite obstacles.
If your resolve is strong, if your fervor, your enthusiasm is without bounds, all your hurdles halt in their tracks. Hardships can never turn into obstacles. When we come to know of such examples, we too feel inspired every moment of our life.
My dear countrymen, the month of January ushers in many festivals filled with hope & joy- such as Lohri, Pongal, MakrSankranti, Uttarayan, MaghBihu, Maaghi; on the occasion of these festivities, the length & breadth of India will be replete… with the verve of traditional dances at places, the embers of Lohri symbolizing the joy of a bountiful harvest at others. Somewhere the skies dotted with colourful flying kites, elsewhere the funfilled air of a mela or carnival. The spirit of Sports & games will come to the fore… and at places, people will joyfully feed each other til&gur… sesame &jaggery… people will be heard exchanging the greeting phrase ‘Tilgurghyaaanigorgor bola’!
All these festivals may carry different names but the underlying or inherent feeling of celebrating them is singular - these are harvest festivals and somewhere or the other are connected with crops and farming, connected with the farmer, with the village and with our barns. It is during this period that the sun enters Uttarayan due to Northward movement of the earth on the celestial sphere and enters the Makardasha. It is during this period that days begin to lengthen and the winter harvesting of our crops begins. Best wishes to our food providers, the farming brothers and sisters.
Our festivals are replete with fragrance of the essence of Unity in Diversity and the spirit of One India Great India. We can witness how closely our festivals are interlinked with nature. In Indian culture society and nature are indistinguishable, in our culture the person and his environment are considered in totality. A great example of the interconnection between us and Nature is the calendar based on our festivals. It comprises festivals all around the year as well as the movements of the celestial bodies. This traditional calendar depicts our bonding with natural and astronomical events. The lunar and solar Calendars based on the movement of earth with respect to moon and sun decide the occurrence and dates of our festivals. It is also dependant on the fact which calendar you follow. In many regions the position of the planetary constellations determines the occurrence and celebration of festivals. GudiPadva, Chettichand, Ugadi and others are all celebrated according to the lunar Calendar, whereas Tamil PutanduVishnu, Baisakh, Baisakhi, PoilaBoisakh, Bihu are all celebrated in accordance with solar calendar.
The sagacity of conserving rivers and water is inherently reflected in many of our festivals. Chhath festival is associated with the worship of the sun, rivers and ponds. Millions of people take a dip in the holy rivers on theoccasion of MakarSankranti. Our festivals, impart to us many social values. On the one hand, where they have mythological significance, on the other, every festival quite easily in itself teaches the important lesson of life - the value of staying together, imbued with a feeling of brotherhood. I wish all of you a great year 2019 and do hope that you all to enjoy the oncoming festive season. Doo share the photographs taken on these festivals with one another so that everyone can witness the diversity of India and the beauty of Indian culture.
My dear countrymen, there is an abundance of events in our culture, of which we can be proud and display them in the entire world with pride - and one of them is the Kumbh Mela. You must have heard a lot about Kumbh. Even in films, a lot is exhibited regarding its grandeur and magnificence and most truly so, the dimensions ofKumbh are vast – supremely divine, as much magnificent. People from all over the country and around the world come and participate in the Kumbh. In the Kumbh Mela, there is a tidal upsurge of faith and reverence. Millions and millions of people from India and around the world congregate at one place.
The tradition of Kumbh has bloomed and flourished as part of our great cultural heritage. This time the world famous Kumbh Mela is going to be held in Prayagraj from January 15, and many of you might be waiting eagerly for it to take place. The process of Sant- Mahatmas converging at the Kumbh Mela has already started. It is a measure of its global importance that last year UNESCO has marked Kumbh Mela in the list of Intangible Cultural Heritage of Humanity. A few days ago the Ambassadors of many countries witnessed for themselves the preparations for Kumbh. The national flags of many countries were together hoisted at the Kumbh. The festival of Kumbh, to be organized in Prayagraj, is expected to have footfalls from more than 150 countries; the divinity emanating from Kumbhwill spread the colours of India's splendour throughout the world.
Kumbh Mela is also a huge medium of self discovery, where every visitor experiences a unique feeling and learns to look at the worldly things from a spiritual perspective. This can be a huge learning experience especially for the youth. I myself went to Prayagraj a few days ago and saw that the preparations for the Kumbh were progressing on a war footing. People of Prayagraj are also very enthusiastic about the Kumbh. I inaugrated the Integrated Command & Control Center at the Kumbh which will be of great benefit to the devotees.
This time much emphasis is being laid on cleanliness during Kumbh. If during the course of this event sanitation prevails along with reverence, then it will lead to a positive message reaching far and wide. This time every devotee will be able to have a darshan of the pious Akshayavat after the holy dip in the confluence. This great symbol of people’s faith was locked up in the fort for hundreds of years, due to which the devotees despite a deep seated desire could not get a glimpse of. Now the entrance gate of Akshayavat have been opened for everyone. I urge all of you to share different aspects of Kumbh and photos on social media when you go to Kumbh so that more and more people feel inspired to go to Kumbh.
May this Kumbh of Spirituality become Mahakumbh of Indian Philosophy.
May this Kumbh of faith also become Mahakumbh of ofnationalism.
And a Mahakumbh of National integration
May this Kumbh of the devotees also become Mahakumbh of global tourists.
May this Kumbh of aesthetics also become the Mahakumbh of creativity.
My dear countrymen, there is a lot of curiosity regardingthe celebration of RepublicDay on 26th January, when we remember those great men who gave us our Constitution.This year we are celebrating the 150th birth anniversary of revered Bapu. We are fortunate that South African President Mr. Cyril Ramaphosa is going to grace the Republic Day celebrations as chief guest. Our revered Bapu and South Africa shared an unbreakable bond. It was South Africa, where Mohan transformed into the 'Mahatma'. It was in South Africa, where Mahatma Gandhi had started his first Satyagraha and stood rock steady in protest of apartheid. He also founded the Phoenix and Tolstoy Farms, from where the demand for peace and justice echoed to the whole world.
The year2018 is also being celebrated as Birth centenary of Nelson Mandela,also known as 'Madiba'. We all know that Nelson Mandela was the role model of struggle against racism all over the world and who was the inspiration for Mandela? He derivedinspiration and endurancefor spending many years in jail from Bapu himself. Mandela said this about Bapu - "Mahatma is an integral part of our history, because it was here that he used his first experiment with truth; It was here, That he had displayed a great deal of determination for justice; It was here, he developed the philosophy of his satyagraha and his methods of struggle. "Mandela used to consider Bapu as his role model. Both Bapu and Mandela are not only sources of inspiration for the entire world, but their ideals have always encouraged us to create a society full of love and compassion.
My dear countrymen, a few days ago, a DGP conference was held at Kevdia on the banks of Narbada in Gujarat, where the world's highest statue 'Statue of Unity' is situated, there I had a meaningful discussion with the top policemen of the country. What kind of steps should be taken to strengthen the security of the country and that of the countrymen, was discussed in detail. At the same conference, I also announced the awarding of 'Sardar Patel Award' for National Integration to be given to those who have contributed for national unity in any form. Sardar Patel dedicated his entire life for the unity of the country. He always remained engaged in keeping India's integrity intact. SardarSaheb believed that the power of India lay in the diversity of the land. It is our way of paying homage to Sardar Patel's aspirations through this award for National Integration.
My dear countrymen, January 13 is the date ofthe sacred festival observed in honour of Guru Gobind Singh ji’s birth anniversary. Guru Gobind Singh Ji was born in Patna. For most of his life, his work was centred in North India and he sacrificed his life in Nanded, Maharashtra. His birthplace was Patna, Karmabhoomi was north India and the last moments were spent in Nanded. In a way, entire India received his blessings. A glimpse of his life span reflects a glimpse of the entire India. After the martyrdom of his father Shri Guru TeghBahadurji, Guru Gobind Singh Ji attained the hallowed position of the Guru at a tender ageof nine years. Guru Gobind Singh ji had inherited courage to fight for justice from the legacy of Sikh Gurus. He was bestowed with a quiet and simple personality, but whenever, an attempt was made to suppress the voice of the poor and the weak, or injustice was done to them, then Guru Gobind Singh ji raised his voice firmly for the poor and the weak and therefore it is said -
"I can make one fight against one hundred and fifteen thousands,
I can make the sparrow fight against the hawk
That be the reason that Gobindsingh be my name.”
He used to preach that strength cannot be demonstrated by fighting against the weaker sections. Shri Gobind Singh Ji believed that the biggest service is to alleviate human suffering. He was a divine figure full of heroism, valor, courage, sacrifice and devotion. He had beatific knowledge of both weapons andShaastras. He was an archer, and a pundit of Gurmukhi, BrajBhasha, Sanskrit, Persian, Hindi and Urdu and many other languages. I once again bow paying my obeisance to Shri Guru Gobind Singh ji.
My dear countrymen, there are many good events happening in the country, which are not widely discussed. Such a unique effort is being attempted by F.S.S.A.I viz Food Safety and Standard Authority of India. Many programs are being organized across the country in celebration of the 150th birth anniversary of Mahatma Gandhi. In this regard F.SA.A.I. is engaged in promoting good eating or Safe and Healthy Diet habits. Under the aegis of "Eat Right India" campaign, ‘Swasth Bharat’ trips are being carried out across the country. These campaigns will last till Jan 27th. At times, government organizations are tagged as a regulator, but it is commendable that F.SA.A.I has been working beyond this brief for public awareness and public education. A clean and healthy India will spell a prosperous India also. Nutritious food is most essential for good health. In this context, I extend hearty greetings to F.S.S.A.I for this initiative. I urge you to the utmost, let's join this initiative. You should participate in this initiative and especially I urge you to make you children witness these campaigns. The education regarding importance of food is essential right from childhood.
My dear countrymen, this is the last episode of the year 2018, we will meet again in 2019, and will engage in another episode of Mann Ki Baat. Whether it is the life of a person, life of a nation, or the lifespan of a society, inspiration, is the basis of progress. Come, imbued with renewed inspiration, renewed zeal, renewed resolution, new accomplishments, loftier goals – let’s move on, keep moving, change oneself and change the country too.
Thank you very much.
My dear countrymen, Namaskar. On the 3rd of October, 2014, the pious occasion of Vijayadashmi, we embarked upon a journey together through the medium of ‘Mann Ki Baat’. This journey has reached its 50th episode today. Thus, this Golden Jubilee Episode is indeed gilt-edged in every sense of the term. Your letters and phone calls this time pertain mostly to these 50 episodes. Anshu Kumar & Amar Kumar from Delhi on Mygov, Vikas Yadav from Patna; on similar lines Monica Jain from Delhi, Prosenjit Sarkar from Bardhaman, West Bengal and Sangeeta Shastri from Nagpur converge in asking a shared question. They are of the view that broadly speaking, their Prime Minister being associated with the latest in technology, Social Media and Mobile Apps; WHY did he choose radio as a medium to connect with his countrymen? Your curiosity is but natural; in this age when Radio was fading into oblivion, why did Modi opt for the airwaves? Let me quote an incident.
The year was 1998. I was then a party worker with the Bharatiya Janata Party organization in Himachal. It was the month of May; and I was travelling to a certain place. Evenings tend to get cold in the hilly terrain of Himachal Pradesh, and I stopped by at a wayside tea stall and placed an order for tea. It was a tiny joint; there was only one person who would make & serve tea. He was not even adequately clad; it was a standalone kiosk on the edge of the road. He first picked up a Laddoo from a glass container, offered the sweetmeat to me & said, “Sir, eat this before the tea get ready”. I was taken aback and asked him “What is the matter? Is it in celebration of an occasion like a wedding?” He replied, “No brother, nothing like that! Don’t you know? It’s a momentous, joyous occasion”. On seeing his rather jubilant exuberance, I asked him, “But what exactly happened?” And he replied, “India has exploded the bomb today!” I exclaimed, “India has exploded the bomb! I don’t get it!” Said he “Sir, just listen to the radio”. Indeed, that exactly was the topic of discussion on the radio. It was then that he elaborated on how on the day of the nuclear test, the then Prime Minister Atal Bihari Vajpayee had announced to the Media and how he broke into a dance on listening to it on the radio. It was matter of great intrigue to me to see a lone tea seller in a remote, snow - clad hilly place, who possibly kept listening to the radio the entire day… watching that particular effect of the news on radio led me to realize & internalise that this was a medium that was truly connected with the masses… and that it was a mighty means of getting across.
In terms of the reach & depth of communication, radio has been incomparable. I have been nursing that feeling ever since, acknowledging its power & strength. Hence when I became the Prime Minister, it was natural for me to turn towards a strong, effective medium. And in 2014, when I took charge as the Pradhan Sevak, Principal Servant, it was my wish to reach out to the masses with the glorious saga of our country’s unity, her grand history, her valour, India’s diversity, our cultural diversity, virtues embedded in our society such as Purusharth, Tapasya, Passion & sacrifice; in a nutshell, the great story of India. From remote villages to Metro cities, from farmers to young professionals … the array just prompted me to embark upon this journey of ‘Mann Ki Baat’.
Every month, we would read letters to the tune of lakhs, listen to phone calls, watch comments on the App & Mygov. Weaving a common thread comprising them all into a fabric of informal conversation, we have been able to travel together, over this rather long distance of 50 episodes. Recently, All India Radio got a survey done on ‘Mann Ki Baat’. I came across some feedback that is very interesting. Out of the designated sample in the survey, 70% of respondents on an average happen to be listeners who regularly tune in to ‘’Mann Ki Baat’. Most people believe that the greatest contribution of ‘Mann Ki Baat’ has been the enhancement of a feeling of positivity in our society. The medium of ‘Mann Ki Baat’ has promoted many a mass revolution. #indiapositive has been the subject of quite an extensive discussion. This is an exemplary glimpse of the feeling of positivity, innate to our countrymen. People have shared their experiences, conveying the rise of selfless volunteerism as a consequence of ‘Mann Ki Baat’. It is a change where people are increasingly willing to contribute for the sake of service to society. I am overjoyed on account of the fact that through ‘Mann Ki Baat’, radio is rising as a popular medium, more than ever before. But it’s not about just radio… people are connecting with this programme and ensuring their participation through T.V., FM Radio, Mobile, Internet, Facebook Live; along with periscope, through the NarendraModiApp too. I express my gratitude to the entire family of ‘Mann Ki Baat’ for being a part of it & trusting it wholeheartedly.
Thank you very much for your phone call. Your apprehension is not misplaced. The fact is, if a leader gets hold of a microphone with assured listeners to the tune of millions, what else does he need? Significantly, some young friends have attempted a study on the myriad subjects touched upon, over the many episodes of ‘Mann Ki Baat’. They did a lexical analysis of all the episodes to calculate the frequency of occurrence of particular words; whether there were some words that were oft-repeated! One of their findings was that, this programme has remained apolitical. When ‘Mann Ki Baat’ commenced, I had firmly decided that it would carry nothing political, or any praise for the Government, nor Modi for that matter anywhere. The greatest bulwark in ensuring adherence to my resolve; in fact my highest inspiration, have been YOU. As a run up to each episode of ‘Mann Ki Baat’, the expectations & aspirations of listeners through their letters, online comments & phone calls are crystal clear. Modi may come and go, but this country will never let go of its UNITY & permanence, our culture will always be immortal. These minute stories encompassing a 130 crore countrymen will always stay alive. This new inspiration & zest will keep taking her to greater heights. At times, when I look back, I am taken aback. Sometimes people who write in from different corners of the country say, “We should not haggle beyond limits with marginal shopkeepers, auto drivers, vegetable sellers et al”. I read a letter & then try to weave it with the essence of a similar letter. I would like to share a couple of personal experiences with you … who knows how soon these will reach our families; who knows when social media will circulate them to usher in a revolution!. The stories that you’ve sent across in the context of cleanliness, myriad examples of common folk… you never know where a tiny brand ambassador of cleanliness comes into being in various homes; someone who reprimands elders at home; or even admonishingly orders the Prime Minister through a phone call!
Who would have imagined that a small campaign “selfie with daughter” starting from a small village in Haryana would spread not only throughout the country but also across other countries as well. Every section of the society including celebrities joined in to ignite a process of transformation in a new modern language of change that th