We will send you 4 digit OTP to confirm your number
میرے پیارے ہم وطنوں کو نمسکار ! ایک بار پھر، 'من کی بات' میں آپ کا بہت بہت خیر مقدم ہے ۔ اس بار 'من کی بات' کا یہ ایپیسوڈ دوسری صدی کا آغاز ہے۔ پچھلے مہینے ہم سب نے اس کی خصوصی صدی منائی تھی ۔ آپ کی شرکت اس پروگرام کی سب سے بڑی قوت ہے، 100ویں ایپیسوڈ کے نشر ہونے کے وقت ایک طرح سے پورا ملک ایک دھاگے میں بندھ گیا تھا۔ہمارے صفائی ورکر بھائی بہن ہوں یا الگ الگ شعبوں کی اہم شخصیات ، ’ من کی بات ‘ نے سب کو ساتھ لانے کا کام کیا ہے۔ آپ سب نے 'من کی بات' کے لیے جو قربت اور پیار دکھایا ہے وہ بے مثال ہے اور جذباتی کر دینے والا ہے۔ جب 'من کی بات' نشر ہوئی تو اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ٹائم زونز میں کہیں شام ہو رہی تھی اور کہیں رات ہو چکی تھی، اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے 100ویں ایپیسوڈ کو سننے کے لیے وقت نکالا ۔ میں نے ہزاروں میل دور نیوزی لینڈ کی وہ ویڈیو بھی دیکھی ، جس میں ایک سو سال کی بزرگ ماتا جی اپنا آشیرواد دے رہی ہیں ۔ 'من کی بات' پر ملک اور بیرون ملک سے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے تعمیری تجزیہ بھی کیا ہے۔ لوگوں نے اس بات کی تعریف کی ہے کہ 'من کی بات' میں صرف ملک اور اہل وطن کی کامیابیوں کی ہی بات کی جاتی ہے۔ میں ایک بار پھر اس آشیرواد کے لیے پورے احترام کے ساتھ آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، گذشتہ دنوں میں ہم نے 'من کی بات' میں کاشی-تمل سنگم، سوراشٹر-تمل سنگم کے بارے میں بات کی۔ کچھ وقت پہلے ہی وارانسی میں کاشی-تیلگو سنگمم بھی ہوا تھا۔ ایسی ہی ایک انوکھی کوشش ملک میں ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبے کو تقویت دینے کے لیے کی گئی ہے۔ یہ کوشش ہے ، یووا سنگم کی ۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بارے میں ان لوگوں سے تفصیل سے پوچھا جائے ، جو اس انوکھی کوشش کا حصہ رہے ہیں۔ اس لیے ابھی میرے ساتھ فون پر دو نوجوان جڑے ہوئے ہیں - ایک اروناچل پردیش سے گیامر نیوکُم جی اور دوسری بیٹی ہے ، بہار کی بٹیا کی وشاکھا سنگھ جی ۔ آئیے پہلے گیامر نیوکُم سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: گیامر جی، نمستے!
گیامر جی: نمستے مودی جی!
وزیر اعظم: اچھا گیامر جی، سب سے پہلے میں آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔
گیامر جی – مودی جی، سب سے پہلے میں آپ کا اور حکومت ہند کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنا بہت قیمتی وقت نکالا اور مجھے بات کرنے کا موقع دیا، میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، اروناچل پردیش میں مکینیکل انجینئرنگ کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہوں۔
وزیر اعظم: اور والد وغیرہ خاندان میں کیا کرتے ہیں ؟
گیامر جی: جی ، میرے والد چھوٹے موٹے بزنس اور اس کے بعد فارمنگ میں سب کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: آپ کو یووا سنگم کے بارے میں کیسے پتہ چلا، آپ یووا سنگم کہاں گئے، کیسے گئے، کیا ہوا؟
گیامر جی: مودی جی، مجھے یووا سنگم کے بارے میں ، ہمارا جو انسٹی ٹیوٹ ہے ، جو این آئی ٹی ہیں ، انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ اس میں شرکت کر سکتے ہیں تو میں نے تھوڑا انٹرنیٹ میں سرچ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت اچھا پروگرام ہے، جو میرے ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے ویژن میں بہت زیادہ تعاون کر سکتا ہے اور مجھے فوراً کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملے گا، پھر میں نے ویب سائٹ پر جا کر اس میں اینرول کرا ۔ میرا تجربہ بہت ہی مزیدار رہا ، بہت ہی اچھا تھا ۔
وزیراعظم: کیا آپ کو کوئی سلیکشن کرنا تھا؟
گیامر جی: مودی جی ، جب ویب سائٹ کھولا تھا تو اروناچل کے لوگوں کے لیے دو آپشن تھے۔ پہلا تھا ، آندھرا پردیش ، جس میں آئی آئی ٹی تروپتی تھا اور دوسرا تھا ، سنٹرل یونیورسٹی، راجستھان ۔ تو میں نے راجستھان میں کیا تھا ، اپنا فرسٹ پریفرینس ۔ دوسری ترجیح میں نے آئی آئی ٹی تروپتی کو دی تھی تو میں راجستھان کے لیے سلیکٹ ہوا اور میں راجستھان گیا تھا ۔
وزیر اعظم: آپ کا راجستھان دورہ کیسا رہا؟ آپ پہلی بار راجستھان گئے تھے!
گیامر جی: جی ، میں پہلی بار اروناچل سے باہر گیا تھا، میں نے راجستھان کے ان تمام قلعوں کو صرف فلموں میں اور فون پر دیکھا تھا، اس لیے جب میں پہلی بار گیا تو وہاں بہت سے لوگوں کا تجربہ ہوا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں اور جو ہمیں ٹریٹمنٹ دیا ، بہت ہی زیادہ اچھے تھے ۔ ہمیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں ۔ راجستھان کی بڑی بڑی جھیلیں اور وہاں کے لوگ کیسے رین واٹر ہارویسٹنگ کرتے ہیں ، بہت کچھ نیا نیا سیکھنے کو ملا ، جو مجھے بالکل ہی معلوم نہیں تھا تو یہ پروگرام میرے لیے بہت ہی اچھا تھا ، راجستھان کا دورہ ۔
وزیر اعظم: دیکھیں، آپ کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اروناچل بھی بہادروں کی سرزمین ہے، راجستھان بھی بہادروں کی سرزمین ہے اور فوج میں راجستھان کے لوگ بڑی تعداد میں ہیں اور اروناچل میں سرحد پر جو فوجی ہیں ، اُن میں جب بھی راجستھان کے لوگ ملیں گے تو آپ ضرور ، اُن سے بات کریں گے کہ دیکھیے ، میں راجستھان گیا تھا، تو ایسا تجربہ تھا ، تو آپ کی قربت ایکدم سے بڑھ جائے گی۔ اچھا ، آپ کو وہاں کوئی یکسانیت بھی دھیان میں آئی ہوگی ، آپ کو لگا ہوگا کہ ہاں یار یہ تو اروناچل میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔
گیامر جی: مودی جی، مجھے ایک مماثلت یہ ملی کہ ملک سے محبت کا نعرہ اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا ویژن اور وہ احساس ، جو میں نے دیکھا کیونکہ اروناچل میں بھی لوگ اپنے آپ پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ ایک بھارتی ہیں اور اس لیے راجستھان میں بھی لوگ اپنی مادر وطن کے لیے بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ چیز مجھے بہت زیادہ نظر آئی اور خاص طور پر ، جو نوجوان نسل ہے ۔ میں نے وہاں کے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کی ، تو وہ چیز ، جو مجھے بہت یکسر نظر آئی کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے لیے ، جو کچھ کرنے کا اور جو اپنے ملک کے لیے محبت ہے ، وہ چیز مجھے بہت ہی دونوں ریاستوں میں بہت ہی یکسانیت نظر آئی ۔
وزیر اعظم: تو وہاں ، جو دوست ملے ہیں ، اُن سے تعارف بڑھایا یا آکر کے بھول گئے ؟
گیامر جی: نہیں، ہم نے بڑھایا ، تعارف کیا ۔
وزیراعظم: جی ہاں...! تو کیا آپ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں؟
گیامر جی: ہاں مودی جی، میں ایکٹیو ہوں۔
وزیر اعظم: تو آپ کو ایک بلاگ لکھنا چاہیے، اس یووا سنگم کا آپ کا تجربہ کیسا رہا، آپ نے اس میں کیسے داخلہ لیا، راجستھان میں آپ کا تجربہ کیسا رہا، تاکہ ملک کے نوجوانوں کو ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی عظمت کا پتہ چل سکے۔ یہ کیسی اسکیم ہے؟ نوجوان اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اپنے تجربے سے بھرپور بلاگ لکھیں، پھر بہت سے لوگوں کے لیے پڑھنا مفید ہوگا۔
گیامر جی: جی ، میں ضرور کروں گا۔
وزیر اعظم: گیامر جی، آپ سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی ہوئی اور آپ سبھی نوجوانوں کو ملک کے لیے، ملک کے تابناک مستقبل کے لیے، کیونکہ یہ 25 سال بہت اہم ہیں - آپ کی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کی زندگی میں بھی ، تو میری بہت بہت نیک خواہشات ، شکریہ ۔
گیامر جی: مودی جی آپ کا بھی شکریہ۔
وزیراعظم: نمسکار بھیاّ ۔
دوستو، اروناچل کے لوگ اتنے گرمجوش ہیں کہ مجھے ان سے بات کرنے میں مزہ آتا ہے۔ یواا سنگم میں گیامر جی کا تجربہ شاندار رہا۔ آؤ، اب بات کرتے ہیں بہار کی بیٹی وشاکھا سنگھ جی سے۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، نمسکار۔
وشاکھا جی: سب سے پہلے، بھارت کے معزز وزیر اعظم کو میرا سلام اور میرے ساتھ تمام مندوبین کی طرف سے آپ کو بہت بہت سلام۔
وزیر اعظم: اچھا وشاکھا جی، پہلے اپنے بارے میں بتائیں۔ پھر میں یووا سنگم کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔
وشاکھا جی: میں بہار کے ساسارام شہر کی رہنے والی ہوں اور مجھے یووا سنگم کے بارے میں سب سے پہلے اپنے کالج کے واٹس ایپ گروپ کے پیغام کے ذریعے معلوم ہوا۔ تو اس کے بعد مجھے اس کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم ہوئیں، یہ کیا ہے؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ وزیر اعظم کی اسکیم 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے ذریعے نوجوانوں کا سنگم ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے اپلائی کیا اور جب میں نے اپلائی کیا تو میں اس میں شامل ہونے کے لیے پرجوش تھی لیکن جب وہاں سے گھوم کر تمل ناڈو جاکر واپس آئی ۔ وہ جو ایکسپوژر ، میں نے گین کیا ، اس کے بعد مجھے ا بھی بہت زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں اس پروگرام کا حصہ رہی ہوں، اس لیے مجھے اس پروگرام میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی اور میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمارے جیسے نوجوانوں کے لیے اتنا شاندار پروگرام بنایا ، جس سے ہم بھارت کے مختلف حصوں کی ثقافت کو اپنا سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، آپ کیا پڑھتی ہیں؟
وشاکھا جی: میں کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کی دوسرے سال کی طالبہ ہوں۔
وزیر اعظم: ٹھیک ہے وشاکھا جی، آپ کو کس ریاست میں جانا ہے، کہاں جانا ہے؟ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا؟
وشاکھا جی: جب میں نے اس یووا سنگم کے بارے میں گوگل پر سرچ کرنا شروع کیا، تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ بہار کے مندوبین کا تبادلہ تمل ناڈو کے مندوبین سے ہو رہا ہے۔ تمل ناڈو ہمارے ملک کی ثقافت سے مالا مال ایک ریاست ہے ، تو اس وقت بھی ، جب میں نے جانا ، یہ دیکھا کہ بہار سے لوگوں کو تمل ناڈو بھیجا جا رہا ہے، تو اس نے مجھے فیصلہ کرنے میں بہت مدد کی کہ مجھے فارم بھرنا چاہیئے ، وہاں جانا چاہیے یا نہیں اور سچ میں آج میں بہت زیادہ فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اس میں حصہ لیا اور مجھے بہت خوشی ہے ۔
وزیر اعظم: آپ کا پہلی بار جانا ہوا تھا تمل ناڈو ؟
وشاکھا جی: جی ، میں پہلی بار گئی تھی۔
وزیراعظم: اچھا، اگر آپ کوئی خاص یادگار بات کہنا چاہتی ہیں، تو آپ کیا کہیں گی ؟ ملک کے نوجوان آپ کی بات سن رہے ہیں۔
وشاکھا جی: ہاں، اگر ہم پورے سفر پر غور کریں تو یہ میرے لیے بہت اچھا رہا ہے۔ ہر مرحلے پر، ہم نے بہت اچھی چیزیں سیکھی ہیں۔ میں نے تمل ناڈو میں جاکر اچھے دوست بنائے ہیں۔ وہاں کے کلچر کو اپنایا ہے۔ میں وہاں کے لوگوں سے ملی ہوں لیکن سب سے اچھی چیز ، جو مجھے وہاں ملی وہ یہ ہے کہ پہلی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اسرو جانے کا موقع نہیں ملتا اور ہم ڈیلیگیٹ تھے اس لیے ہمیں اسرو میں جانے کا موقع ملا، دوسری بات سب سے اچھی تھی کہ جب ہم راج بھون میں گئے اور ہم تمل ناڈو کے گورنر جی سے ملے تو وہ دو موقع تھے ، میرے لیے کافی اچھا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ جس عمر میں ہم ہیں، ہمیں وہ موقع نہیں ملتا ، جو ہمیں یووا سنگم کے ذریعے ملا۔ تو یہ میرے لیے بہترین اور یادگار لمحہ تھا۔
وزیر اعظم: بہار میں کھانے کا طریقہ الگ ہے، تمل ناڈو میں کھانے کا طریقہ الگ ہے۔
وشاکھا جی: جی ۔
وزیراعظم: تو وہ سیٹ ہو گیا تھا پوری طرح ؟
وشاکھا جی: جب ہم وہاں گئے تو تمل ناڈو میں جنوبی ہند کے کھانے ہیں چنانچہ جیسے ہی ہم وہاں گئے ہمیں ڈوسا، اڈلی، سانبھر ، اُتپم، وڈا، اپما پیش کیا گیا۔ اس لیے جب ہم نے پہلی بار اسے ٹرائی کرا تو یہ بہت مزے کا تھا ! وہاں کا جو کھانا ہے ، وہ بہت صحت بخش ہے، حقیقت میں یہ ذائقے میں بہت اچھا ہے اور یہ ہمارے شمال کے کھانے سے بہت مختلف ہے، اس لیے مجھے وہاں کا کھانا بھی بہت اچھا لگا اور وہاں کے لوگ بھی بہت اچھے لگے ۔
وزیر اعظم: تو اب تمل ناڈو میں بھی آپ کے دوست بن گئے ہوں گے؟
وشاکھا جی: جی ! جی! ہم وہاں پر رکے تھے ، این آئی ٹی تریچی میں ۔ اس کے بعد آئی آئی ٹی مدراس میں، ان دونوں جگہوں کے طلبا سے میری دوستی ہوگئی، اس کے علاوہ درمیان میں سی آئی آئی کی ایک استقبالیہ تقریب تھی، تو قریب کے کالجوں سے بھی کافی طلبا موجود تھے ، طالب علم آئے تھے تو وہاں ہم نے ان طلباء سے بھی بات چیت کی اور مجھے ان سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوئی، ان میں سے بہت سے میرے دوست بھی ہیں اور تمل ناڈو سے بہار آنے والے کچھ مندوبین سے بھی ملاقات کی، تو ہم نے ان کے ساتھ بھی بات چیت کی اور ہم اب بھی ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، اس لیے میں بہت خوش ہوں۔
وزیر اعظم: تو وشاکھا جی، آپ ایک بلاگ لکھیں اور سوشل میڈیا پر اس یووا سنگم کا پورا تجربہ شیئر کریں، پھر 'ایک بھارت-شریشٹھ بھارت' کا اور پھر تمل ناڈو میں آپ کو جو اپنا پن ملا ، آپ کا استقبال اور مہمان نوازی ہوئی ، تمل لوگوں کا پیار ملا، یہ سب باتیں ملک کو بتائیں۔ تو آپ لکھیں گی ؟
وشاکھا جی: جی بالکل!
وزیر اعظم: تو میں آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور آپ کا بہت بہت شکریہ۔
وشاکھا جی: جی بہت شکریہ۔ نمسکار ۔
گیامر اور وشاکھا کے لیے میری بہت بہت نیک خواہشات ، جو کچھ آپ نے یووا سنگم میں سیکھا ہے وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔ یہ آپ سب کے لیے میری نیک خواہش ہے۔
دوستو، بھارت کی قوت اس کے تنوع میں پنہاں ہے۔ ہمارے ملک میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت تعلیم نے 'یوواسنگم' کے نام سے ایک بہترین پہل کی ہے۔ اس اقدام کا مقصد پیپل ٹو پیپل کنیکٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مختلف ریاستوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس سے جوڑا گیا ہے۔ 'یوواسنگم' میں نوجوان دوسری ریاستوں کے شہروں اور گاؤوں کا دورہ کرتے ہیں، انہیں مختلف قسم کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ یووا سنگم کے پہلے دور میں تقریباً 1200 نوجوانوں نے ملک کی 22 ریاستوں کا دورہ کیا ہے۔ وہ تمام نوجوان ، جو اس کا حصہ رہے ہیں، ایسی یادیں لے کر لوٹ رہے ہیں، جو زندگی بھر ان کے دلوں میں رہیں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی بڑی کمپنیوں کے سی ای او، بزنس لیڈرز، انہوں نے بھارت میں بیگ پائپر کے طور پر وقت گزارا ہے۔ جب میں دوسرے ممالک کے لیڈروں سے ملتا ہوں تو کئی بار وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ اپنی جوانی میں بھارت کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے بھارت میں جاننے اور دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ آپ کا تجسس ہر بار بڑھتا ہی جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ ان دلچسپ تجربات کو جاننے کے بعد، آپ کو بھی یقیناً ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرنے کی ترغیب ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے میں جاپان کے شہر ہیروشیما میں تھا، وہاں مجھے ہیروشیما پیس میموریل میوزیم دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ ایک جذباتی تجربہ تھا۔ جب ہم تاریخ کی یادوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں تو اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بہت مدد ملتی ہے۔ کبھی ہمیں میوزیم میں نئے اسباق ملتے ہیں اور کبھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ چند روز قبل بھارت میں انٹرنیشنل میوزیم ایکسپو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں دنیا کے 1200 سے زیادہ عجائب گھروں کی خصوصیات کو دکھایا گیا تھا ۔ ہمارے پاس بھارت میں بہت سے مختلف قسم کے عجائب گھر ہیں، جو ہمارے ماضی سے متعلق بہت سے پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے، گروگرام میں ایک انوکھا میوزیم ہے - موزیو کیمرہ، اس میں 1860 کے بعد کے 8 ہزار سے زیادہ کیمروں کا کلیکشن موجود ہے۔ اس طرح تمل ناڈو کے میوزیم آف پوسیبلٹیز کو ہمارے دِویانگ جنوں کو دھیان میں رکھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ ممبئی کا چھترپتی شیواجی مہاراج واستو سنگرہالیہ ایسا میوزیم ہے، جس میں 70 ہزار سے زیادہ چیزیں محفوظ کی گئی ہیں۔ سال 2010 ء میں قائم کیا گیا، انڈین میموری پروجیکٹ ایک قسم کا آن لائن میوزیم ہے۔ وہ جو دنیا بھر سے بھیجی گئی تصویروں اور کہانیوں کے ذریعے بھارت کی شاندار تاریخ کی کڑیوں کو جوڑنے میں مصروف ہے۔ تقسیم کی ہولناکیوں سے جڑی یادوں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پچھلے سالوں میں بھی ہم نے بھارت میں نئی قسم کے عجائب گھر اور یادگاریں بنتے دیکھی ہیں۔ جنگ آزادی میں قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے تعاون کے لیے دس نئے عجائب گھر قائم کیے جا رہے ہیں۔ کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں بپلوبی بھارت گیلری ہو یا جلیانوالہ باغ کی یادگار کی بحالی، ملک کے تمام سابق وزرائے اعظم کے لیے وقف پی ایم میوزیم بھی آج دلّی کی شان میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہر روز بہت سے لوگ دلّی میں ہی نیشنل وار میموریل اور پولیس میموریل میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ چاہے وہ تاریخی ڈانڈی مارچ کے لیے وقف ڈانڈی کی یادگار ہو یا اسٹیچو آف یونٹی میوزیم۔ ویسے مجھے یہیں رکنا پڑے گا کیونکہ ملک بھر کے عجائب گھروں کی فہرست بہت طویل ہے اور پہلی بار ملک کے تمام عجائب گھروں کے بارے میں ضروری معلومات بھی مرتب کی گئی ہیں، یہ میوزیم کس موضوع پر مبنی ہے، کس قسم کا ہے؟ کیسی اشیاء وہاں رکھی جاتی ہیں رابطہ کی تفصیلات کیا ہیں - یہ سب ایک آن لائن ڈائریکٹری میں موجود ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کو موقع ملے آپ اپنے ملک کے ان عجائب گھروں کو ضرور دیکھیں۔ وہاں کی دلکش تصاویر ’’# میوزیم میموریز ‘‘ پر شیئر کرنا نہ بھولیں۔ اس سے ہم بھارتیوں کا ہماری شاندار ثقافت سے تعلق مضبوط ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب نے ایک کہاوت کئی بار سنی ہو گی، بار بار سنی ہو گی- پانی کے بغیر سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی پر ہمیشہ بحران رہتا ہے، فرد اور ملک کی ترقی بھی رک جاتی ہے۔ مستقبل کے اس چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے ، آج ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارا امرت سروور اس لیے خاص ہے کہ اسے آزادی کے امرت دور میں بنایا جا رہا ہے اور اس میں لوگوں کی امرت کاوشیں ڈالی گئی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ اب تک 50 ہزار سے زیادہ امرت سروور تعمیر ہو چکے ہیں۔ یہ پانی کے تحفظ کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔
دوستو، ہم ہر موسم گرما میں پانی سے متعلق چیلنجوں کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔ اس بار بھی ہم اس موضوع پر بات کریں گے لیکن اس بار ہم پانی کے تحفظ سے متعلق اسٹارٹ اپس کے بارے میں بات کریں گے۔ ایک اسٹارٹ اپ – فلکس جین ہے۔ یہ اسٹارٹ اپ آئی او ٹی والی تکنیک کے ذریعے پانی کے بندوبست کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پانی کے استعمال کے نمونے بتائے گی اور پانی کے موثر استعمال میں مدد کرے گی۔ ایک اور اسٹارٹ اپ لائیو این سینس ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پر مبنی ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مدد سے پانی کی تقسیم کی موثر نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ کہاں اور کتنا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ ' کُمبھی کاغذ' ہے۔ یہ کمبھی کاغذ ایک ایسا ہی موضوع ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ بہت پسند آئے گا۔ 'کُنبھی کاغذ' اسٹارٹ اپ نے ایک خاص کام شروع کیا ہے۔ وہ جل کمبھی سے کاغذ بنانے پر کام کر رہے ہیں، یعنی جل کمبھی جو کبھی آبی ذخائر کے لیے مسئلہ سمجھی جاتی تھی، اب کاغذ بنانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
دوستو، اگر بہت سے نوجوان اختراعات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کر رہے ہیں، تو بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو چھتیس گڑھ کے بلود ضلع کے نوجوانوں کی طرح سماج کو بیدار کرنے کے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کے نوجوانوں نے پانی بچانے کی مہم شروع کی ہے۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو پانی کے تحفظ سے آگاہ کرتے ہیں۔ کہیں شادی جیسی تقریب ہوتی ہے تو نوجوانوں کا یہ گروپ وہاں جا کر معلومات دیتا ہے کہ پانی کے غلط استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے کھنٹی ضلع میں بھی پانی کے موثر استعمال سے متعلق ایک متاثر کن کوشش ہو رہی ہے۔ کھنٹی کے لوگوں نے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بوری ڈیم سے نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ بوری ڈیم سے پانی جمع ہونے سے یہاں ساگ سبزیاں بھی اگنا شروع ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور علاقے کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں۔ کھنٹی اس بات کی ایک روشن مثال بن گیا ہے کہ کس طرح عوامی شرکت کی کوئی بھی کوشش اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیاں لاتی ہے۔ میں اس کوشش کے لیے یہاں کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 1965 ء کی جنگ کے دوران ہمارے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی نے جئے جوان، جئے کسان کا نعرہ دیا تھا۔ بعد میں اٹل جی نے اس میں جئے وگیان کو بھی شامل کیا تھا۔ کچھ سال پہلے میں نے ملک کے سائنسدانوں سے بات کرتے ہوئے ، جئے انوسندھان کے بارے میں بات کی تھی۔ 'من کی بات' میں، آج ہم نے ایک ایسے شخص، ایسی تنظیم کے بارے میں بات کی، جو ان چاروں، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان اور جئے انوسندھان کے تئیں عہد بستہ ہیں ۔ یہ شخص ہیں ، مہاراشٹر کے جناب شیواجی شامراؤ ڈولے جی ۔ شیواجی ڈولے کا تعلق ناسک ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ وہ ایک غریب قبائلی کسان خاندان سے آتے ہے اور ایک سابق فوجی بھی ہیں ۔ فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی ملک کے لیے وقف کر دی، ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کچھ نیا سیکھنے کا فیصلہ کیا اور زراعت میں ڈپلومہ کیا یعنی وہ جئے جوان سے جئے کسان میں چلے گئے۔ اب ہر لمحہ ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ زراعت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ حصہ کیسے لیا جائے۔ اس مہم میں شیواجی ڈولے جی نے 20 لوگوں کی ایک چھوٹی ٹیم بنائی اور اس میں کچھ سابق فوجیوں کو شامل کیا۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے وینکٹیشورا کوآپریٹو پاور اینڈ ایگرو پروسیسنگ لمیٹیڈ نام کی ایک کوآپریٹو تنظیم کا انتظام سنبھالا ، یہ کوآپریٹو تنظیم غیر فعال تھی، جسے انہو ں نے بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ آج وینکٹیشورا کوآپریٹیو نے بہت سے اضلاع میں توسیع کی ہے۔ آج یہ ٹیم مہاراشٹرا اور کرناٹک میں کام کر رہی ہے۔ تقریباً 18,000 لوگ اس سے وابستہ ہیں ، جن میں ہمارے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس ٹیم کے ارکان ناسک کے مالیگاؤں میں 500 ایکڑ سے زیادہ اراضی میں ایگرو فارمنگ کر رہے ہیں۔ یہ ٹیم پانی کے تحفظ کے لیے کئی تالاب بنانے میں بھی لگی ہوئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس نے آرگینک فارمنگ اور ڈیری بھی شروع کی ہے۔ اب اس کے اگائے ہوئے انگور یوروپ کو بھی برآمد کیے جا رہے ہیں۔ اس ٹیم کی دو بڑی خصوصیات، جنہوں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی، یہ ہیں - جئے وگیان اور جئے انوسندھان۔ اس کے اراکین ٹیکنالوجی اور جدید زرعی طریقوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ برآمدات کے لیے ضروری مختلف سرٹیفیکیشنز پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ میں 'تعاون کے ذریعے خوشحالی' کے جذبے کے ساتھ کام کرنے والی اس ٹیم کی ستائش کرتا ہوں۔ اس کوشش نے نہ صرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بااختیار بنایا ہے بلکہ روزی روٹی کے بہت سے ذرائع بھی پیدا کیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کوشش 'من کی بات' کے ہر سننے والے کو متاثر کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 28 مئی عظیم مجاہد آزادی ویر ساورکر جی کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی قربانی، ہمت اور عزم و استقلال سے جڑی کہانیاں آج بھی ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتا ، جب میں انڈمان کے اس سیل میں گیا ، جہاں ویر ساورکر نے کالاپانی کی سزا کاٹی تھی ۔ ویر ساورکر کی شخصیت پختگی اور عظمت سے پُر تھی۔ ان کی نڈر اور خوددار طبیعت کو غلامی کی ذہنیت بالکل پسند نہ تھی۔ نہ صرف تحریک آزادی بلکہ ویر ساورکر نے سماجی مساوات اور سماجی انصاف کے لیے جو کچھ بھی کیا اسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
دوستو، کچھ دنوں بعد 4 جون کو سنت کبیر داس جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کبیرداس جی کا دکھایا ہوا راستہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کبیرداس جی کہا کرتے تھے :
"کبیرا کنواں ایک ہے، پانی بھرے انیک ۔
برتن میں ہی بھید ہے ، پانی سب میں ایک ۔ ‘‘
یعنی کنویں پر اگرچہ طرح طرح کے لوگ پانی بھرنے کے لیے آتے ہیں لیکن کنواں کسی میں فرق نہیں کرتا، پانی تو سبھی برتنوں میں ایک ہی ہوتا ہے۔ سنت کبیر نے سماج کو تقسیم کرنے والے ہر برے عمل کی مخالفت کی، سماج کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ آج جب ملک ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو ہمیں سنت کبیر سے تحریک لیتے ہوئے سماج کو بااختیار بنانے کی کوششوں کو بڑھانا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے ملک کی ایک ایسی عظیم شخصیت کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں ، جنہوں نے سیاست اور فلم جگت میں اپنی شاندار شخصیت کے بل پر انمٹ چھاپ چھوڑی ہے ۔ اس عظیم شخصیت کا نام ہے ، این ٹی راما راؤ ، جنہیں ہم سب این ٹی آر کے نام سے جانتے ہیں۔ آج این ٹی آر کی 100 ویں یوم پیدائش ہے۔ اپنی کثیر رخی شخصیت کی وجہ سے وہ نہ صرف تیلگو سنیما کے سپر اسٹار بن گئے بلکہ کروڑوں لوگوں کے دل بھی جیت لیے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا تھا ۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے بل بوتے پر کئی تاریخی کرداروں کو زندہ کیا۔ بھگوان کرشن، رام اور اس طرح کے دیگر کئی کرداروں میں لوگوں نے این ٹی آر کی اداکاری کو اتنا پسند کیا کہ لوگ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔ این ٹی آر نے سنیما کی دنیا کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اپنی الگ شناخت بنائی تھی۔ یہاں بھی انہیں لوگوں کی طرف سے بے پناہ محبت اور آشیرواد ملا ۔ ملک اور دنیا کے کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا کرنے والے این ٹی راما راؤ جی کے تئیں میں عاجزانہ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار 'من کی بات' میں اتنا ہی ۔ اگلی بار کچھ نئے موضوعات لے کر آؤں گا، تب تک کچھ علاقوں میں گرمی بڑھ چکی ہوگی۔ کہیں بارش بھی شروع ہو جائے گی۔ آپ کو ہر موسم میں اپنی صحت کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہم 21 جون کو 'ورلڈ یوگا ڈے' بھی منائیں گے۔ اس کے لیے ملک اور بیرون ملک بھی تیاریاں جاری ہیں۔ ان تیاریوں کے بارے میں بھی آپ مجھے اپنی 'من کی بات' لکھتے رہیں۔ اگر آپ کسی اور موضوع پر مزید معلومات حاصل کریں تو مجھے بھی بتائیں۔ میری کوشش ہوگی کہ 'من کی بات' میں زیادہ سے زیادہ تجاویز لے سکوں۔ ایک بار پھر آپ سب کا بہت شکریہ۔ اگلے مہینے ملتے ہیں، تب تک کے لیے مجھے وداع دیجیے ۔
نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنوں کو نمسکار ! ایک بار پھر، 'من کی بات' میں آپ کا بہت بہت خیر مقدم ہے ۔ اس بار 'من کی بات' کا یہ ایپیسوڈ دوسری صدی کا آغاز ہے۔ پچھلے مہینے ہم سب نے اس کی خصوصی صدی منائی تھی ۔ آپ کی شرکت اس پروگرام کی سب سے بڑی قوت ہے، 100ویں ایپیسوڈ کے نشر ہونے کے وقت ایک طرح سے پورا ملک ایک دھاگے میں بندھ گیا تھا۔ہمارے صفائی ورکر بھائی بہن ہوں یا الگ الگ شعبوں کی اہم شخصیات ، ’ من کی بات ‘ نے سب کو ساتھ لانے کا کام کیا ہے۔ آپ سب نے 'من کی بات' کے لیے جو قربت اور پیار دکھایا ہے وہ بے مثال ہے اور جذباتی کر دینے والا ہے۔ جب 'من کی بات' نشر ہوئی تو اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ٹائم زونز میں کہیں شام ہو رہی تھی اور کہیں رات ہو چکی تھی، اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے 100ویں ایپیسوڈ کو سننے کے لیے وقت نکالا ۔ میں نے ہزاروں میل دور نیوزی لینڈ کی وہ ویڈیو بھی دیکھی ، جس میں ایک سو سال کی بزرگ ماتا جی اپنا آشیرواد دے رہی ہیں ۔ 'من کی بات' پر ملک اور بیرون ملک سے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے تعمیری تجزیہ بھی کیا ہے۔ لوگوں نے اس بات کی تعریف کی ہے کہ 'من کی بات' میں صرف ملک اور اہل وطن کی کامیابیوں کی ہی بات کی جاتی ہے۔ میں ایک بار پھر اس آشیرواد کے لیے پورے احترام کے ساتھ آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، گذشتہ دنوں میں ہم نے 'من کی بات' میں کاشی-تمل سنگم، سوراشٹر-تمل سنگم کے بارے میں بات کی۔ کچھ وقت پہلے ہی وارانسی میں کاشی-تیلگو سنگمم بھی ہوا تھا۔ ایسی ہی ایک انوکھی کوشش ملک میں ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبے کو تقویت دینے کے لیے کی گئی ہے۔ یہ کوشش ہے ، یووا سنگم کی ۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بارے میں ان لوگوں سے تفصیل سے پوچھا جائے ، جو اس انوکھی کوشش کا حصہ رہے ہیں۔ اس لیے ابھی میرے ساتھ فون پر دو نوجوان جڑے ہوئے ہیں - ایک اروناچل پردیش سے گیامر نیوکُم جی اور دوسری بیٹی ہے ، بہار کی بٹیا کی وشاکھا سنگھ جی ۔ آئیے پہلے گیامر نیوکُم سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: گیامر جی، نمستے!
گیامر جی: نمستے مودی جی!
وزیر اعظم: اچھا گیامر جی، سب سے پہلے میں آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔
گیامر جی – مودی جی، سب سے پہلے میں آپ کا اور حکومت ہند کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنا بہت قیمتی وقت نکالا اور مجھے بات کرنے کا موقع دیا، میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، اروناچل پردیش میں مکینیکل انجینئرنگ کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہوں۔
وزیر اعظم: اور والد وغیرہ خاندان میں کیا کرتے ہیں ؟
گیامر جی: جی ، میرے والد چھوٹے موٹے بزنس اور اس کے بعد فارمنگ میں سب کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: آپ کو یووا سنگم کے بارے میں کیسے پتہ چلا، آپ یووا سنگم کہاں گئے، کیسے گئے، کیا ہوا؟
گیامر جی: مودی جی، مجھے یووا سنگم کے بارے میں ، ہمارا جو انسٹی ٹیوٹ ہے ، جو این آئی ٹی ہیں ، انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ اس میں شرکت کر سکتے ہیں تو میں نے تھوڑا انٹرنیٹ میں سرچ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت اچھا پروگرام ہے، جو میرے ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے ویژن میں بہت زیادہ تعاون کر سکتا ہے اور مجھے فوراً کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملے گا، پھر میں نے ویب سائٹ پر جا کر اس میں اینرول کرا ۔ میرا تجربہ بہت ہی مزیدار رہا ، بہت ہی اچھا تھا ۔
وزیراعظم: کیا آپ کو کوئی سلیکشن کرنا تھا؟
گیامر جی: مودی جی ، جب ویب سائٹ کھولا تھا تو اروناچل کے لوگوں کے لیے دو آپشن تھے۔ پہلا تھا ، آندھرا پردیش ، جس میں آئی آئی ٹی تروپتی تھا اور دوسرا تھا ، سنٹرل یونیورسٹی، راجستھان ۔ تو میں نے راجستھان میں کیا تھا ، اپنا فرسٹ پریفرینس ۔ دوسری ترجیح میں نے آئی آئی ٹی تروپتی کو دی تھی تو میں راجستھان کے لیے سلیکٹ ہوا اور میں راجستھان گیا تھا ۔
وزیر اعظم: آپ کا راجستھان دورہ کیسا رہا؟ آپ پہلی بار راجستھان گئے تھے!
گیامر جی: جی ، میں پہلی بار اروناچل سے باہر گیا تھا، میں نے راجستھان کے ان تمام قلعوں کو صرف فلموں میں اور فون پر دیکھا تھا، اس لیے جب میں پہلی بار گیا تو وہاں بہت سے لوگوں کا تجربہ ہوا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں اور جو ہمیں ٹریٹمنٹ دیا ، بہت ہی زیادہ اچھے تھے ۔ ہمیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں ۔ راجستھان کی بڑی بڑی جھیلیں اور وہاں کے لوگ کیسے رین واٹر ہارویسٹنگ کرتے ہیں ، بہت کچھ نیا نیا سیکھنے کو ملا ، جو مجھے بالکل ہی معلوم نہیں تھا تو یہ پروگرام میرے لیے بہت ہی اچھا تھا ، راجستھان کا دورہ ۔
وزیر اعظم: دیکھیں، آپ کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اروناچل بھی بہادروں کی سرزمین ہے، راجستھان بھی بہادروں کی سرزمین ہے اور فوج میں راجستھان کے لوگ بڑی تعداد میں ہیں اور اروناچل میں سرحد پر جو فوجی ہیں ، اُن میں جب بھی راجستھان کے لوگ ملیں گے تو آپ ضرور ، اُن سے بات کریں گے کہ دیکھیے ، میں راجستھان گیا تھا، تو ایسا تجربہ تھا ، تو آپ کی قربت ایکدم سے بڑھ جائے گی۔ اچھا ، آپ کو وہاں کوئی یکسانیت بھی دھیان میں آئی ہوگی ، آپ کو لگا ہوگا کہ ہاں یار یہ تو اروناچل میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔
گیامر جی: مودی جی، مجھے ایک مماثلت یہ ملی کہ ملک سے محبت کا نعرہ اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا ویژن اور وہ احساس ، جو میں نے دیکھا کیونکہ اروناچل میں بھی لوگ اپنے آپ پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ ایک بھارتی ہیں اور اس لیے راجستھان میں بھی لوگ اپنی مادر وطن کے لیے بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ چیز مجھے بہت زیادہ نظر آئی اور خاص طور پر ، جو نوجوان نسل ہے ۔ میں نے وہاں کے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کی ، تو وہ چیز ، جو مجھے بہت یکسر نظر آئی کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے لیے ، جو کچھ کرنے کا اور جو اپنے ملک کے لیے محبت ہے ، وہ چیز مجھے بہت ہی دونوں ریاستوں میں بہت ہی یکسانیت نظر آئی ۔
وزیر اعظم: تو وہاں ، جو دوست ملے ہیں ، اُن سے تعارف بڑھایا یا آکر کے بھول گئے ؟
گیامر جی: نہیں، ہم نے بڑھایا ، تعارف کیا ۔
وزیراعظم: جی ہاں...! تو کیا آپ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں؟
گیامر جی: ہاں مودی جی، میں ایکٹیو ہوں۔
وزیر اعظم: تو آپ کو ایک بلاگ لکھنا چاہیے، اس یووا سنگم کا آپ کا تجربہ کیسا رہا، آپ نے اس میں کیسے داخلہ لیا، راجستھان میں آپ کا تجربہ کیسا رہا، تاکہ ملک کے نوجوانوں کو ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی عظمت کا پتہ چل سکے۔ یہ کیسی اسکیم ہے؟ نوجوان اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اپنے تجربے سے بھرپور بلاگ لکھیں، پھر بہت سے لوگوں کے لیے پڑھنا مفید ہوگا۔
گیامر جی: جی ، میں ضرور کروں گا۔
وزیر اعظم: گیامر جی، آپ سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی ہوئی اور آپ سبھی نوجوانوں کو ملک کے لیے، ملک کے تابناک مستقبل کے لیے، کیونکہ یہ 25 سال بہت اہم ہیں - آپ کی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کی زندگی میں بھی ، تو میری بہت بہت نیک خواہشات ، شکریہ ۔
گیامر جی: مودی جی آپ کا بھی شکریہ۔
وزیراعظم: نمسکار بھیاّ ۔
دوستو، اروناچل کے لوگ اتنے گرمجوش ہیں کہ مجھے ان سے بات کرنے میں مزہ آتا ہے۔ یواا سنگم میں گیامر جی کا تجربہ شاندار رہا۔ آؤ، اب بات کرتے ہیں بہار کی بیٹی وشاکھا سنگھ جی سے۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، نمسکار۔
وشاکھا جی: سب سے پہلے، بھارت کے معزز وزیر اعظم کو میرا سلام اور میرے ساتھ تمام مندوبین کی طرف سے آپ کو بہت بہت سلام۔
وزیر اعظم: اچھا وشاکھا جی، پہلے اپنے بارے میں بتائیں۔ پھر میں یووا سنگم کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔
وشاکھا جی: میں بہار کے ساسارام شہر کی رہنے والی ہوں اور مجھے یووا سنگم کے بارے میں سب سے پہلے اپنے کالج کے واٹس ایپ گروپ کے پیغام کے ذریعے معلوم ہوا۔ تو اس کے بعد مجھے اس کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم ہوئیں، یہ کیا ہے؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ وزیر اعظم کی اسکیم 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے ذریعے نوجوانوں کا سنگم ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے اپلائی کیا اور جب میں نے اپلائی کیا تو میں اس میں شامل ہونے کے لیے پرجوش تھی لیکن جب وہاں سے گھوم کر تمل ناڈو جاکر واپس آئی ۔ وہ جو ایکسپوژر ، میں نے گین کیا ، اس کے بعد مجھے ا بھی بہت زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں اس پروگرام کا حصہ رہی ہوں، اس لیے مجھے اس پروگرام میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی اور میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمارے جیسے نوجوانوں کے لیے اتنا شاندار پروگرام بنایا ، جس سے ہم بھارت کے مختلف حصوں کی ثقافت کو اپنا سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، آپ کیا پڑھتی ہیں؟
وشاکھا جی: میں کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کی دوسرے سال کی طالبہ ہوں۔
وزیر اعظم: ٹھیک ہے وشاکھا جی، آپ کو کس ریاست میں جانا ہے، کہاں جانا ہے؟ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا؟
وشاکھا جی: جب میں نے اس یووا سنگم کے بارے میں گوگل پر سرچ کرنا شروع کیا، تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ بہار کے مندوبین کا تبادلہ تمل ناڈو کے مندوبین سے ہو رہا ہے۔ تمل ناڈو ہمارے ملک کی ثقافت سے مالا مال ایک ریاست ہے ، تو اس وقت بھی ، جب میں نے جانا ، یہ دیکھا کہ بہار سے لوگوں کو تمل ناڈو بھیجا جا رہا ہے، تو اس نے مجھے فیصلہ کرنے میں بہت مدد کی کہ مجھے فارم بھرنا چاہیئے ، وہاں جانا چاہیے یا نہیں اور سچ میں آج میں بہت زیادہ فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اس میں حصہ لیا اور مجھے بہت خوشی ہے ۔
وزیر اعظم: آپ کا پہلی بار جانا ہوا تھا تمل ناڈو ؟
وشاکھا جی: جی ، میں پہلی بار گئی تھی۔
وزیراعظم: اچھا، اگر آپ کوئی خاص یادگار بات کہنا چاہتی ہیں، تو آپ کیا کہیں گی ؟ ملک کے نوجوان آپ کی بات سن رہے ہیں۔
وشاکھا جی: ہاں، اگر ہم پورے سفر پر غور کریں تو یہ میرے لیے بہت اچھا رہا ہے۔ ہر مرحلے پر، ہم نے بہت اچھی چیزیں سیکھی ہیں۔ میں نے تمل ناڈو میں جاکر اچھے دوست بنائے ہیں۔ وہاں کے کلچر کو اپنایا ہے۔ میں وہاں کے لوگوں سے ملی ہوں لیکن سب سے اچھی چیز ، جو مجھے وہاں ملی وہ یہ ہے کہ پہلی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اسرو جانے کا موقع نہیں ملتا اور ہم ڈیلیگیٹ تھے اس لیے ہمیں اسرو میں جانے کا موقع ملا، دوسری بات سب سے اچھی تھی کہ جب ہم راج بھون میں گئے اور ہم تمل ناڈو کے گورنر جی سے ملے تو وہ دو موقع تھے ، میرے لیے کافی اچھا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ جس عمر میں ہم ہیں، ہمیں وہ موقع نہیں ملتا ، جو ہمیں یووا سنگم کے ذریعے ملا۔ تو یہ میرے لیے بہترین اور یادگار لمحہ تھا۔
وزیر اعظم: بہار میں کھانے کا طریقہ الگ ہے، تمل ناڈو میں کھانے کا طریقہ الگ ہے۔
وشاکھا جی: جی ۔
وزیراعظم: تو وہ سیٹ ہو گیا تھا پوری طرح ؟
وشاکھا جی: جب ہم وہاں گئے تو تمل ناڈو میں جنوبی ہند کے کھانے ہیں چنانچہ جیسے ہی ہم وہاں گئے ہمیں ڈوسا، اڈلی، سانبھر ، اُتپم، وڈا، اپما پیش کیا گیا۔ اس لیے جب ہم نے پہلی بار اسے ٹرائی کرا تو یہ بہت مزے کا تھا ! وہاں کا جو کھانا ہے ، وہ بہت صحت بخش ہے، حقیقت میں یہ ذائقے میں بہت اچھا ہے اور یہ ہمارے شمال کے کھانے سے بہت مختلف ہے، اس لیے مجھے وہاں کا کھانا بھی بہت اچھا لگا اور وہاں کے لوگ بھی بہت اچھے لگے ۔
وزیر اعظم: تو اب تمل ناڈو میں بھی آپ کے دوست بن گئے ہوں گے؟
وشاکھا جی: جی ! جی! ہم وہاں پر رکے تھے ، این آئی ٹی تریچی میں ۔ اس کے بعد آئی آئی ٹی مدراس میں، ان دونوں جگہوں کے طلبا سے میری دوستی ہوگئی، اس کے علاوہ درمیان میں سی آئی آئی کی ایک استقبالیہ تقریب تھی، تو قریب کے کالجوں سے بھی کافی طلبا موجود تھے ، طالب علم آئے تھے تو وہاں ہم نے ان طلباء سے بھی بات چیت کی اور مجھے ان سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوئی، ان میں سے بہت سے میرے دوست بھی ہیں اور تمل ناڈو سے بہار آنے والے کچھ مندوبین سے بھی ملاقات کی، تو ہم نے ان کے ساتھ بھی بات چیت کی اور ہم اب بھی ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، اس لیے میں بہت خوش ہوں۔
وزیر اعظم: تو وشاکھا جی، آپ ایک بلاگ لکھیں اور سوشل میڈیا پر اس یووا سنگم کا پورا تجربہ شیئر کریں، پھر 'ایک بھارت-شریشٹھ بھارت' کا اور پھر تمل ناڈو میں آپ کو جو اپنا پن ملا ، آپ کا استقبال اور مہمان نوازی ہوئی ، تمل لوگوں کا پیار ملا، یہ سب باتیں ملک کو بتائیں۔ تو آپ لکھیں گی ؟
وشاکھا جی: جی بالکل!
وزیر اعظم: تو میں آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور آپ کا بہت بہت شکریہ۔
وشاکھا جی: جی بہت شکریہ۔ نمسکار ۔
گیامر اور وشاکھا کے لیے میری بہت بہت نیک خواہشات ، جو کچھ آپ نے یووا سنگم میں سیکھا ہے وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔ یہ آپ سب کے لیے میری نیک خواہش ہے۔
دوستو، بھارت کی قوت اس کے تنوع میں پنہاں ہے۔ ہمارے ملک میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت تعلیم نے 'یوواسنگم' کے نام سے ایک بہترین پہل کی ہے۔ اس اقدام کا مقصد پیپل ٹو پیپل کنیکٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مختلف ریاستوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس سے جوڑا گیا ہے۔ 'یوواسنگم' میں نوجوان دوسری ریاستوں کے شہروں اور گاؤوں کا دورہ کرتے ہیں، انہیں مختلف قسم کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ یووا سنگم کے پہلے دور میں تقریباً 1200 نوجوانوں نے ملک کی 22 ریاستوں کا دورہ کیا ہے۔ وہ تمام نوجوان ، جو اس کا حصہ رہے ہیں، ایسی یادیں لے کر لوٹ رہے ہیں، جو زندگی بھر ان کے دلوں میں رہیں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی بڑی کمپنیوں کے سی ای او، بزنس لیڈرز، انہوں نے بھارت میں بیگ پائپر کے طور پر وقت گزارا ہے۔ جب میں دوسرے ممالک کے لیڈروں سے ملتا ہوں تو کئی بار وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ اپنی جوانی میں بھارت کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے بھارت میں جاننے اور دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ آپ کا تجسس ہر بار بڑھتا ہی جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ ان دلچسپ تجربات کو جاننے کے بعد، آپ کو بھی یقیناً ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرنے کی ترغیب ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے میں جاپان کے شہر ہیروشیما میں تھا، وہاں مجھے ہیروشیما پیس میموریل میوزیم دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ ایک جذباتی تجربہ تھا۔ جب ہم تاریخ کی یادوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں تو اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بہت مدد ملتی ہے۔ کبھی ہمیں میوزیم میں نئے اسباق ملتے ہیں اور کبھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ چند روز قبل بھارت میں انٹرنیشنل میوزیم ایکسپو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں دنیا کے 1200 سے زیادہ عجائب گھروں کی خصوصیات کو دکھایا گیا تھا ۔ ہمارے پاس بھارت میں بہت سے مختلف قسم کے عجائب گھر ہیں، جو ہمارے ماضی سے متعلق بہت سے پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے، گروگرام میں ایک انوکھا میوزیم ہے - موزیو کیمرہ، اس میں 1860 کے بعد کے 8 ہزار سے زیادہ کیمروں کا کلیکشن موجود ہے۔ اس طرح تمل ناڈو کے میوزیم آف پوسیبلٹیز کو ہمارے دِویانگ جنوں کو دھیان میں رکھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ ممبئی کا چھترپتی شیواجی مہاراج واستو سنگرہالیہ ایسا میوزیم ہے، جس میں 70 ہزار سے زیادہ چیزیں محفوظ کی گئی ہیں۔ سال 2010 ء میں قائم کیا گیا، انڈین میموری پروجیکٹ ایک قسم کا آن لائن میوزیم ہے۔ وہ جو دنیا بھر سے بھیجی گئی تصویروں اور کہانیوں کے ذریعے بھارت کی شاندار تاریخ کی کڑیوں کو جوڑنے میں مصروف ہے۔ تقسیم کی ہولناکیوں سے جڑی یادوں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پچھلے سالوں میں بھی ہم نے بھارت میں نئی قسم کے عجائب گھر اور یادگاریں بنتے دیکھی ہیں۔ جنگ آزادی میں قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے تعاون کے لیے دس نئے عجائب گھر قائم کیے جا رہے ہیں۔ کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں بپلوبی بھارت گیلری ہو یا جلیانوالہ باغ کی یادگار کی بحالی، ملک کے تمام سابق وزرائے اعظم کے لیے وقف پی ایم میوزیم بھی آج دلّی کی شان میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہر روز بہت سے لوگ دلّی میں ہی نیشنل وار میموریل اور پولیس میموریل میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ چاہے وہ تاریخی ڈانڈی مارچ کے لیے وقف ڈانڈی کی یادگار ہو یا اسٹیچو آف یونٹی میوزیم۔ ویسے مجھے یہیں رکنا پڑے گا کیونکہ ملک بھر کے عجائب گھروں کی فہرست بہت طویل ہے اور پہلی بار ملک کے تمام عجائب گھروں کے بارے میں ضروری معلومات بھی مرتب کی گئی ہیں، یہ میوزیم کس موضوع پر مبنی ہے، کس قسم کا ہے؟ کیسی اشیاء وہاں رکھی جاتی ہیں رابطہ کی تفصیلات کیا ہیں - یہ سب ایک آن لائن ڈائریکٹری میں موجود ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کو موقع ملے آپ اپنے ملک کے ان عجائب گھروں کو ضرور دیکھیں۔ وہاں کی دلکش تصاویر ’’# میوزیم میموریز ‘‘ پر شیئر کرنا نہ بھولیں۔ اس سے ہم بھارتیوں کا ہماری شاندار ثقافت سے تعلق مضبوط ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب نے ایک کہاوت کئی بار سنی ہو گی، بار بار سنی ہو گی- پانی کے بغیر سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی پر ہمیشہ بحران رہتا ہے، فرد اور ملک کی ترقی بھی رک جاتی ہے۔ مستقبل کے اس چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے ، آج ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارا امرت سروور اس لیے خاص ہے کہ اسے آزادی کے امرت دور میں بنایا جا رہا ہے اور اس میں لوگوں کی امرت کاوشیں ڈالی گئی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ اب تک 50 ہزار سے زیادہ امرت سروور تعمیر ہو چکے ہیں۔ یہ پانی کے تحفظ کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔
دوستو، ہم ہر موسم گرما میں پانی سے متعلق چیلنجوں کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔ اس بار بھی ہم اس موضوع پر بات کریں گے لیکن اس بار ہم پانی کے تحفظ سے متعلق اسٹارٹ اپس کے بارے میں بات کریں گے۔ ایک اسٹارٹ اپ – فلکس جین ہے۔ یہ اسٹارٹ اپ آئی او ٹی والی تکنیک کے ذریعے پانی کے بندوبست کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پانی کے استعمال کے نمونے بتائے گی اور پانی کے موثر استعمال میں مدد کرے گی۔ ایک اور اسٹارٹ اپ لائیو این سینس ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پر مبنی ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مدد سے پانی کی تقسیم کی موثر نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ کہاں اور کتنا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ ' کُمبھی کاغذ' ہے۔ یہ کمبھی کاغذ ایک ایسا ہی موضوع ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ بہت پسند آئے گا۔ 'کُنبھی کاغذ' اسٹارٹ اپ نے ایک خاص کام شروع کیا ہے۔ وہ جل کمبھی سے کاغذ بنانے پر کام کر رہے ہیں، یعنی جل کمبھی جو کبھی آبی ذخائر کے لیے مسئلہ سمجھی جاتی تھی، اب کاغذ بنانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
دوستو، اگر بہت سے نوجوان اختراعات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کر رہے ہیں، تو بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو چھتیس گڑھ کے بلود ضلع کے نوجوانوں کی طرح سماج کو بیدار کرنے کے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کے نوجوانوں نے پانی بچانے کی مہم شروع کی ہے۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو پانی کے تحفظ سے آگاہ کرتے ہیں۔ کہیں شادی جیسی تقریب ہوتی ہے تو نوجوانوں کا یہ گروپ وہاں جا کر معلومات دیتا ہے کہ پانی کے غلط استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے کھنٹی ضلع میں بھی پانی کے موثر استعمال سے متعلق ایک متاثر کن کوشش ہو رہی ہے۔ کھنٹی کے لوگوں نے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بوری ڈیم سے نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ بوری ڈیم سے پانی جمع ہونے سے یہاں ساگ سبزیاں بھی اگنا شروع ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور علاقے کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں۔ کھنٹی اس بات کی ایک روشن مثال بن گیا ہے کہ کس طرح عوامی شرکت کی کوئی بھی کوشش اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیاں لاتی ہے۔ میں اس کوشش کے لیے یہاں کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 1965 ء کی جنگ کے دوران ہمارے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی نے جئے جوان، جئے کسان کا نعرہ دیا تھا۔ بعد میں اٹل جی نے اس میں جئے وگیان کو بھی شامل کیا تھا۔ کچھ سال پہلے میں نے ملک کے سائنسدانوں سے بات کرتے ہوئے ، جئے انوسندھان کے بارے میں بات کی تھی۔ 'من کی بات' میں، آج ہم نے ایک ایسے شخص، ایسی تنظیم کے بارے میں بات کی، جو ان چاروں، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان اور جئے انوسندھان کے تئیں عہد بستہ ہیں ۔ یہ شخص ہیں ، مہاراشٹر کے جناب شیواجی شامراؤ ڈولے جی ۔ شیواجی ڈولے کا تعلق ناسک ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ وہ ایک غریب قبائلی کسان خاندان سے آتے ہے اور ایک سابق فوجی بھی ہیں ۔ فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی ملک کے لیے وقف کر دی، ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کچھ نیا سیکھنے کا فیصلہ کیا اور زراعت میں ڈپلومہ کیا یعنی وہ جئے جوان سے جئے کسان میں چلے گئے۔ اب ہر لمحہ ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ زراعت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ حصہ کیسے لیا جائے۔ اس مہم میں شیواجی ڈولے جی نے 20 لوگوں کی ایک چھوٹی ٹیم بنائی اور اس میں کچھ سابق فوجیوں کو شامل کیا۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے وینکٹیشورا کوآپریٹو پاور اینڈ ایگرو پروسیسنگ لمیٹیڈ نام کی ایک کوآپریٹو تنظیم کا انتظام سنبھالا ، یہ کوآپریٹو تنظیم غیر فعال تھی، جسے انہو ں نے بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ آج وینکٹیشورا کوآپریٹیو نے بہت سے اضلاع میں توسیع کی ہے۔ آج یہ ٹیم مہاراشٹرا اور کرناٹک میں کام کر رہی ہے۔ تقریباً 18,000 لوگ اس سے وابستہ ہیں ، جن میں ہمارے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس ٹیم کے ارکان ناسک کے مالیگاؤں میں 500 ایکڑ سے زیادہ اراضی میں ایگرو فارمنگ کر رہے ہیں۔ یہ ٹیم پانی کے تحفظ کے لیے کئی تالاب بنانے میں بھی لگی ہوئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس نے آرگینک فارمنگ اور ڈیری بھی شروع کی ہے۔ اب اس کے اگائے ہوئے انگور یوروپ کو بھی برآمد کیے جا رہے ہیں۔ اس ٹیم کی دو بڑی خصوصیات، جنہوں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی، یہ ہیں - جئے وگیان اور جئے انوسندھان۔ اس کے اراکین ٹیکنالوجی اور جدید زرعی طریقوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ برآمدات کے لیے ضروری مختلف سرٹیفیکیشنز پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ میں 'تعاون کے ذریعے خوشحالی' کے جذبے کے ساتھ کام کرنے والی اس ٹیم کی ستائش کرتا ہوں۔ اس کوشش نے نہ صرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بااختیار بنایا ہے بلکہ روزی روٹی کے بہت سے ذرائع بھی پیدا کیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کوشش 'من کی بات' کے ہر سننے والے کو متاثر کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 28 مئی عظیم مجاہد آزادی ویر ساورکر جی کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی قربانی، ہمت اور عزم و استقلال سے جڑی کہانیاں آج بھی ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتا ، جب میں انڈمان کے اس سیل میں گیا ، جہاں ویر ساورکر نے کالاپانی کی سزا کاٹی تھی ۔ ویر ساورکر کی شخصیت پختگی اور عظمت سے پُر تھی۔ ان کی نڈر اور خوددار طبیعت کو غلامی کی ذہنیت بالکل پسند نہ تھی۔ نہ صرف تحریک آزادی بلکہ ویر ساورکر نے سماجی مساوات اور سماجی انصاف کے لیے جو کچھ بھی کیا اسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
دوستو، کچھ دنوں بعد 4 جون کو سنت کبیر داس جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کبیرداس جی کا دکھایا ہوا راستہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کبیرداس جی کہا کرتے تھے :
"کبیرا کنواں ایک ہے، پانی بھرے انیک ۔
برتن میں ہی بھید ہے ، پانی سب میں ایک ۔ ‘‘
یعنی کنویں پر اگرچہ طرح طرح کے لوگ پانی بھرنے کے لیے آتے ہیں لیکن کنواں کسی میں فرق نہیں کرتا، پانی تو سبھی برتنوں میں ایک ہی ہوتا ہے۔ سنت کبیر نے سماج کو تقسیم کرنے والے ہر برے عمل کی مخالفت کی، سماج کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ آج جب ملک ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو ہمیں سنت کبیر سے تحریک لیتے ہوئے سماج کو بااختیار بنانے کی کوششوں کو بڑھانا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے ملک کی ایک ایسی عظیم شخصیت کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں ، جنہوں نے سیاست اور فلم جگت میں اپنی شاندار شخصیت کے بل پر انمٹ چھاپ چھوڑی ہے ۔ اس عظیم شخصیت کا نام ہے ، این ٹی راما راؤ ، جنہیں ہم سب این ٹی آر کے نام سے جانتے ہیں۔ آج این ٹی آر کی 100 ویں یوم پیدائش ہے۔ اپنی کثیر رخی شخصیت کی وجہ سے وہ نہ صرف تیلگو سنیما کے سپر اسٹار بن گئے بلکہ کروڑوں لوگوں کے دل بھی جیت لیے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا تھا ۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے بل بوتے پر کئی تاریخی کرداروں کو زندہ کیا۔ بھگوان کرشن، رام اور اس طرح کے دیگر کئی کرداروں میں لوگوں نے این ٹی آر کی اداکاری کو اتنا پسند کیا کہ لوگ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔ این ٹی آر نے سنیما کی دنیا کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اپنی الگ شناخت بنائی تھی۔ یہاں بھی انہیں لوگوں کی طرف سے بے پناہ محبت اور آشیرواد ملا ۔ ملک اور دنیا کے کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا کرنے والے این ٹی راما راؤ جی کے تئیں میں عاجزانہ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار 'من کی بات' میں اتنا ہی ۔ اگلی بار کچھ نئے موضوعات لے کر آؤں گا، تب تک کچھ علاقوں میں گرمی بڑھ چکی ہوگی۔ کہیں بارش بھی شروع ہو جائے گی۔ آپ کو ہر موسم میں اپنی صحت کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہم 21 جون کو 'ورلڈ یوگا ڈے' بھی منائیں گے۔ اس کے لیے ملک اور بیرون ملک بھی تیاریاں جاری ہیں۔ ان تیاریوں کے بارے میں بھی آپ مجھے اپنی 'من کی بات' لکھتے رہیں۔ اگر آپ کسی اور موضوع پر مزید معلومات حاصل کریں تو مجھے بھی بتائیں۔ میری کوشش ہوگی کہ 'من کی بات' میں زیادہ سے زیادہ تجاویز لے سکوں۔ ایک بار پھر آپ سب کا بہت شکریہ۔ اگلے مہینے ملتے ہیں، تب تک کے لیے مجھے وداع دیجیے ۔
نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! آج 'من کی بات' کا 100 واں ایپیسوڈ ہے ۔ مجھے آپ سب کے ہزاروں خطوط موصول ہوئے ہیں، لاکھوں پیغامات ملے ہیں اور میں نے کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خطوط پڑھوں، انہیں دیکھوں، پیغامات کو ذرا سمجھنے کی کوشش کروں۔ آپ کے خط پڑھتے ہوئے کئی بار میں جذباتی ہوا، جذبات سے لبریز ہوا، جذبات میں بہہ گیا اور خود کو بھی سنبھالا۔ آپ نے مجھے 'من کی بات' کی 100ویں قسط پر مبارکباد دی ہے لیکن میں سچے دِل سے کہتا ہوں کہ در اصل مبارکباد کے مستحق تو آپ سبھی 'من کی بات' کے سننے والے ہمارے ہم وطن ہیں ۔ 'من کی بات' کروڑوں بھارتیوں کی 'دِل کی بات' ہے، یہ ان کے جذبات کی عکاسی ہے۔
ساتھیو ، 3 اکتوبر ، 2014 ء کو وجے دشمی کا تہوار تھا اور ہم سب نے مل کر وجے دشمی کے دن 'من کی بات' کا سفر شروع کیا تھا ۔ وجے دشمی کا مطلب ہے برائی پر اچھائی کی جیت کا تہوار۔ 'من کی بات' بھی ہم وطنوں کی اچھائیوں اور مثبتیت کا ایک منفرد تہوار بن گیا ہے۔ ایسا ہی ایک تہوار ، جو ہر مہینے آتا ہے، جس کا ہم سبھی کو انتظار ہوتا ہے ۔ ہم اس میں مثبتیت کا جشن مناتے ہیں۔ ہم اس میں لوگوں کی شرکت کا بھی جشن مناتے ہیں۔ کبھی کبھی یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ 'من کی بات' کو اتنے مہینے اور اتنے سال گزر چکے ہیں۔ ہر ایپیسوڈ اپنے آپ میں خاص رہا ۔ ہر بار نئی مثالوں کی نوید، ہر بار وطن عزیز کی نئی کامیابیوں کی توسیع ۔ 'من کی بات' میں ملک کے کونے کونے سے ہر عمر کے لوگ شامل ہوئے۔ چاہے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی بات ہو ، سووچھ بھارت مہم ہو ، کھادی سے محبت ہو یا فطرت کی بات ہو ، آزادی کا امرت مہوتسو ہو یا امرت سروور کی بات ہو ، 'من کی بات' ، جس موضوع سے جڑی ، وہ عوامی تحریک بن گئی اور آپ لوگوں نے بنا دیا ۔ جب میں نے اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ 'من کی بات' شیئر کی تو پوری دنیا میں اس کا چرچا ہوا۔
ساتھیو ، 'من کی بات' میرے لیے دوسروں کی خوبیوں کی پوجا کرنے کی طرح ہی رہا ہے۔ میرے ایک رہنما تھے - جناب لکشمن راؤ جی انعامدار۔ ہم انہیں وکیل صاحب کہا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں دوسروں کی خوبیوں کی پرستش کرنی چاہیے۔ کوئی بھی آپ کے سامنے ہو، آپ کے ساتھ ہو، آپ کا مخالف ہو، ہمیں ان کی خوبیوں کو جاننے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کی یہ بات ہمیشہ مجھے متاثر کرتی رہی ہے۔ 'من کی بات' دوسروں کی خوبیوں سے سیکھنے کا ایک بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس پروگرام نے مجھے آپ سے کبھی دور نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو وہاں عام لوگوں سے ملنا جلنا فطری طور پر ہو ہی جاتا تھا۔ وزیراعلیٰ کا کام کاج اور آفس ایسا ہی ہوتا ہے، ملاقات کے بہت مواقع ملتے رہتے ہیں لیکن 2014 ء میں دلّی آنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہاں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ کام کی نوعیت مختلف ہے، ذمہ داریاں مختلف ہیں، صورتِ حال کی پابندی ، سکیورٹی کا تام جھام ، وقت کی حد۔ ابتدائی دنوں میں کچھ مختلف محسوس ہوا، خالی خالی سا محسوس کرتا تھا ۔ پچاس سال پہلے میں نے اپنا گھر اس لیے نہیں چھوڑا تھا کہ ایک دن اپنے ہی ملک کے لوگوں سے رابطہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اہل وطن ، جو میرا سب کچھ ہیں، میں ان سے جدا نہیں رہ سکتا۔ 'من کی بات' نے مجھے اس چیلنج کا حل دیا، عام آدمی سے جڑنے کا ایک طریقہ فراہم کیا ۔ دفتر اور پروٹوکول نظام تک محدود رہا اور عوامی جذبات، کروڑوں عوام کے ساتھ، میرے جذبات، دنیا کا لازم و ملزوم حصہ بن گئے۔ میں ہر ماہ ملک کے لوگوں کے ہزاروں پیغامات پڑھتا ہوں، ہر ماہ مجھے اہل وطن کا ایک شاندار روپ نظر آتا ہے۔ میں ہم وطنوں کے تپ اور تیاگ کی انتہا کو دیکھتا ہوں اور محسوس کر تا ہوں۔ مجھے تو یہ بھی نہیں لگتا کہ میں آپ سے ذرا بھی دور ہوں۔ میرے لیے 'من کی بات' کوئی پروگرام نہیں، میرے لیے یہ ایک عقیدت ، پوجا ، وَرَت ہے۔ جیسے لوگ ایشور کی پوجا کرنے جاتے ہیں تو پرساد کی تھال لاتے ہیں ۔ میرے لیے 'من کی بات' ایشور کی صورت میں عوام کے قدموں میں پرساد کی تھال کی طرح ہے ۔ 'من کی بات' میرے دِل کا روحانی سفر بن گیا ہے۔
‘मन की बात’ स्व से समिष्टि की यात्रा है।
‘मन की बात’ अहम् से वयम् की यात्रा है।
यह तो मैं नहीं तू ही इसकी संस्कार साधना है।
آپ تصور کریں ، میرے کچھ ہم وطن 40-40 سالوں سے ویران پہاڑیوں اور بنجر زمینوں پر درخت لگا رہے ہیں، تو بہت سے لوگ 30-30 سالوں سے پانی کے تحفظ کے لیے باولیاں اور تالاب بنا رہے ہیں، ان کی صفائی کر رہے ہیں۔ کوئی 25-30 سال سے غریب بچوں کو پڑھا رہا ہے، کوئی غریبوں کے علاج میں مدد کر رہا ہے۔ 'من کی بات' میں کئی بار ان کا ذکر کرتے ہوئے میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو کے ساتھیوں کو اسے کئی بار دوبارہ ریکارڈ کرنا پڑا۔ آج چاہے ماضی کتنا ہی آنکھوں کے سامنے آرہا ہو۔ ہم وطنوں کی ان کوششوں نے مجھے مسلسل محنت کرنے کی ترغیب دی ہے۔
ساتھیو ، جن لوگوں کا ہم 'من کی بات' میں ذکر کرتے ہیں وہ سب ہمارے ہیرو ہیں ، جنہوں نے اس پروگرام کو جاندار بنایا ہے۔ آج جب ہم 100ویں قسط کے سنگ میل پر پہنچ چکے ہیں، میری یہ خواہش بھی ہے کہ ہم ایک بار پھر ان تمام ہیروز کے پاس جاکر ، ان کے سفر کے بارے میں جانیں ۔ آج ہم کچھ ساتھیوں سے بھی بات کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہریانہ کے بھائی سنیل جگلان میرے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ سنیل جگلان جی کا میرے ذہن پر اتنا اثر ہوا کیونکہ ہریانہ میں صنفی تناسب پر کافی بحث ہوتی تھی اور میں نے بھی ہریانہ سے ہی 'بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ' کی مہم شروع کی تھی اور اس دوران، جب میں نے سنیل جی کی 'سیلفی ود ڈاٹر' مہم دیکھی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے بھی ان سے سیکھا اور اانہیں 'من کی بات' میں شامل کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ، 'سیلفی ود ڈاٹر' ایک عالمی مہم میں تبدیل ہو گئی اور اس میں مسئلہ سیلفی کا نہیں تھا ، ٹیکنالوجی کا نہیں تھا ،اس میں ڈاٹر کو ، بیٹی کو اہمیت دی گئی تھی ۔ زندگی میں بیٹی کا مقام کتنا اہم ہوتا ہے ، اس مہم سے یہ بھی واضح ہوا ۔ ایسی بہت سی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہریانہ میں صنفی تناسب میں بہتری آئی ہے۔ چلو آج سنیل جی کے ساتھ کچھ گپ شپ کرتے ہیں۔
محترم وزیر اعظم - نمسکار سنیل جی ،
سنیل- نمسکار سر، آپ کی آواز سن کر میری خوشی بہت بڑھ گئی ہے۔
وزیر اعظم- سنیل جی ' سیلفی وِد ڈاٹر ‘ ہر کسی کو یاد ہے... اب جب اس پر دوبارہ بات ہو رہی ہے تو آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟
سنیل – محترم وزیر اعظم ، اصل میں آپ نے ،ہماری ریاست ہریانہ سے پانی پت کی چوتھی لڑائی بیٹیوں کی چہروں پر مسکراہٹ لانے کے لئے شروع کی تھی ، جسے پورے ملک نے آپ کی قیادت میں جیتنے کی کوشش کی ہے، واقعی ہر بیٹی کے والد اور بیٹیوں کے چاہنے والوں کے لئے بہت بڑی بات ہے ۔
وزیر اعظم- سنیل جی، آپ کی بیٹی اب کیسی ہے، ان دنوں کیا کر رہی ہے؟
سنیل- جی ، میری بیٹیاں نندنی اور یاچیکا ہیں، ایک ساتویں کلاس میں پڑھ رہی ہے اور ایک چوتھی کلاس میں پڑھ رہی ہے اور وہ آپ کی بہت بڑی مداح ہے ۔ انہوں نے آپ کے لئے تھینک یو پرائم منسٹر کرکے اپنی کلاس میٹس جو ہیں ، لیٹر بھی لکھوائے تھے ۔
وزیراعظم - واہ واہ! اچھی بیٹیوں کو آپ میرا اور من کی بات سننے والوں کا ڈھیروں آشیر واد دیجئے ۔
سنیل- آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ کی وجہ سے ملک کی بیٹیوں کے چہروں پر مسکراہٹ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
وزیر اعظم - بہت بہت شکریہ سنیل جی۔
سنیل - شکریہ۔
ساتھیو ، میں بہت مطمئن ہوں کہ 'من کی بات' میں ہم نے ملک کی خواتین کی طاقت کی سینکڑوں متاثر کن کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ہماری فوج ہو یا کھیلوں کی دنیا، میں نے جب بھی خواتین کی کامیابیوں کی بات کی ہے، ان کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے چھتیس گڑھ کے دِیور گاؤں کی خواتین کے بارے میں بات کی۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے گاؤں کے چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کو صاف کرنے کی مہم چلاتی ہیں۔ اسی طرح، ملک نے تمل ناڈو کی قبائلی خواتین سے بھی بہت زیادہ ترغیب لی، جنہوں نے ہزاروں ماحول دوست ٹیراکوٹا کپ برآمد کیے۔ تمل ناڈو میں ہی 20,000 خواتین ویلور میں ناگ ندی کو زندہ کرنے کے لیے اکٹھی ہوئیں۔ ایسی بہت سی مہمات کی قیادت ہماری ناری شکتی نے کی ہے اور 'من کی بات' ان کی کوششوں کو سامنے لانے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔
ساتھیو، اب ہمارے پاس فون لائن پر ایک اور شخص موجود ہیں ۔ ان کا نام منظور احمد ہے۔ 'من کی بات' میں جموں و کشمیر کی پینسل سلیٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے منظور احمد جی کا ذکر کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم - جناب منظور صاحب کیسے ہیں آپ؟
منظور- شکریہ سر … بہت اچھے سے ہیں سر ۔
وزیر اعظم- من کی بات کے اس 100ویں ایپی سوڈ میں آپ سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔
منظور۔ شکریہ سر ۔
وزیر اعظم- اچھا، یہ پینسل سلیٹس والا کام کیسا چل رہا ہے؟
منظور - بہت اچھا چل رہا ہے سر ، بہت اچھا سر ، جب سے آپ نے 'من کی بات' میں ہمارے بارے میں بات کی ہے، تب سے بہت کام بڑھ گیا ہے اور دوسروں کا اس کام میں روزگار بہت بڑھ گیا ہے۔
وزیراعظم: اب کتنے لوگوں کو روزگار ملتا ہوگا؟
منظور - اب میرے پاس 200 پلس ہیں...
وزیر اعظم - اوہ واہ! مجھے بہت خوشی ہوئی ۔
منظور - سر جی.. سر جی … اب میں اسے ایک دو مہینے میں اس کو اور بڑھا رہا ہوں اور 200 لوگوں کا روزگار بڑھ جائے گا سر ۔
وزیراعظم - واہ واہ! دیکھئے منظور جی...
منظور - جی سر...
وزیر اعظم- مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس دن آپ نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ایسا کام ہے ، جس کی کوئی پہچان نہیں، کوئی اپنی شناخت نہیں اور آپ کو بہت تکلیف بھی تھی اور اس کی وجہ سے آپ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ لیکن اب تو آپ کی پہچان بھی بن گئی ہے اور 200 سے زیادہ لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں۔
منظور - جی سر – جی سر ۔
وزیراعظم- آپ نے نئی توسیع کرکے اور 200 لوگوں کو روزگار دے کر بڑی خوشی کی خبر دی ہے۔
منظور - یہاں تک کہ جناب، یہاں کے کسانوں کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوا، سر ۔ ایک درخت 2000 میں بکتا تھا، اب وہی درخت 5000 تک پہنچ گیا ہے سر ۔ اس کے بعد سے اس کی مانگ اتنی بڑھ گئی ہے..اور یہ اس کی اپنی پہچان بھی بن گئی ہے، سر میرے پاس اس کے بہت سے آرڈرز ہیں، ابھی میں آئندہ ایک دو مہینے میں اور ایکسپینڈ کرکے دو – ڈھائی سو ، دو چار گاؤوں میں جتنے بھی لڑکے لڑکیاں ہیں ، اس میں کام کر سکتے ہیں ، اُن کی بھی روزی روٹی چل سکتی ہے سر ۔
وزیر اعظم- دیکھیے منظور جی، ووکل فار لوکل کی طاقت کتنی زبردست ہے، آپ نے اسے زمین پر اتار کر دکھا دیا ہے ۔
منظور - جی سر ۔
وزیر اعظم- آپ کو اور گاؤں کے تمام کسانوں اور آپ کے ساتھ کام کرنے والے تمام ساتھیوں کے لیے میری طرف سے بہت سی نیک خواہشات، شکریہ بھائی۔
منظور ۔ شکریہ سر ۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں بہت سے ایسے باصلاحیت لوگ ہیں ، جو اپنی محنت کی بدولت کامیابی کے معراج پر پہنچے ہیں۔ مجھے یاد ہے، وشاکھاپٹنم کے وینکٹ مرلی پرساد جی نے خود کفیل بھارت کا چارٹ شیئر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ بھارتی مصنوعات کا استعمال کریں گے۔ جب بیتیا کے پرمود جی نے ایل ای ڈی بلب بنانے کے لیے ایک چھوٹا یونٹ قائم کیا تھا ، گڑھ مکتیشور کے سنتوش جی نے چٹائیاں بنانے کا کام کیا ، 'من کی بات' ہی ، اُن کی مصنوعات کو سب کے سامنے لانے کا ذریعہ بنی ۔ ہم نے 'من کی بات' میں میک ان انڈیا سے لے کر اسپیس اسٹارٹ اپس تک کی بات چیت کی ہے ۔
ساتھیو، آپ کو یاد ہوگا کہ چند ایپیسوڈ پہلے ، میں نے منی پور کی بہن وجے شانتی دیوی کا بھی ذکر کیا تھا۔ وجے شانتی جی کمل کے ریشوں سے کپڑے بناتی ہیں۔ جب 'من کی بات' میں ان کے اس منفرد ماحول دوست آئیڈیا کے بارے میں بات کی گئی تو ان کا کام زیادہ مقبول ہوا۔ آج وجے شانتی جی فون پر ہمارے ساتھ ہیں۔
وزیر اعظم:- نمستے وجے شانتی جی! آپ کیسی ہو؟
وجے شانتی جی:- سر، میں ٹھیک ہوں۔
وزیراعظم:- اور آپ کا کام کیسا چل رہا ہے؟
وجے شانتی جی:- جناب، اب بھی میں 30 خواتین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہوں ۔
وزیراعظم:- اتنی مختصر مدت میں آپ 30 افراد کی ٹیم تک پہنچ گئی ہیں!
جے شانتی جی:- ہاں سر ، اس سال میں اپنے علاقے میں 100 خواتین کے ساتھ اور توسیع کروں گی ۔
وزیراعظم: تو آپ کا ہدف 100 خواتین ہیں۔
وجے شانتی جی :- جی! 100 خواتین
وزیر اعظم:- اور اب لوگ اس لوٹس اسٹیم فائبر سے واقف ہیں۔
وجے شانتی جی:- ہاں سر ، پورے بھارت میں 'من کی بات' پروگرام کے ذریعے اب سب جان چکے ہیں۔
وزیر اعظم: - تو اب یہ بہت مشہور ہے۔
وجے شانتی جی:- ہاں سر ، وزیر اعظم کے 'من کی بات' پروگرام سے ہر کوئی کمل کے فائبر کے بارے میں جان گیا ہے ۔
وزیراعظم: تو اب آپ کو مارکیٹ بھی مل گیا ہے ؟
وجے شانتی جی:- ہاں، مجھے امریکہ کا ایک مارکیٹ ملا ہے ، وہ اسے بڑی مقدار میں خریدنا چاہتے ہیں، لیکن میں اس سال سے یہ امریکہ بھیجنا شروع کروں گی ۔
وزیر اعظم:- یعنی اب آپ ایک بر آمد کار بن گئی ہیں؟
وجے شانتی جی:- جی سر ، اس سال سے میں بھارت میں بنی ہوئی لوٹس فائبر کی مصنوعات برآمد کر رہی ہوں۔
وزیر اعظم:- تو، جب میں کہتا ہوں ووکل فار لوکل اور اب لوکل فار گلوبل ۔
وجے شانتی جی:- جی سر ، میں اپنی مصنوعات کو پورے عالم میں ، پوری دنیا تک پہنچانا چاہتی ہوں ۔
وزیر اعظم: - تو مبارکباد اور آپ کے لیے نیک خواہشات ۔
وجے شانتی جی:- شکریہ سر ۔
وزیر اعظم:- شکریہ، شکریہ وجئے شانتی ۔
وجے شانتی جی:- آپ کا شکریہ سر ۔
ساتھیو، 'من کی بات' کی ایک اور خاصیت رہی ہے۔ 'من کی بات' کے ذریعے کئی عوامی تحریکوں نے جنم لیا اور رفتار بھی پکڑی ہے ۔ مثال کے طور پر، ہمارے کھلونے ، ہماری ٹوئے انڈسٹری کو دوبارہ قائم کرنے کا مشن 'من کی بات' سے ہی شروع ہوا تھا ۔ بھارتی نسل کے دیسی کتوں کو لے کر بیداری بڑھانے کا آغاز بھی تو 'من کی بات' سے ہی کیا گیا تھا ۔ ہم نے ایک اور مہم شروع کی تھی کہ ہم غریب چھوٹے دکانداروں سے مول بھاؤ نہیں کریں گے، جھگڑا نہیں کریں گے۔ جب 'ہر گھر ترنگا' مہم شروع ہوئی تب بھی 'من کی بات' نے ، ہم وطنوں کو اس عہد سے جوڑنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایسی ہر مثال معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنی ہے۔ پردیپ سنگوان جی نے بھی سماج کو تحریک دینے کا ایسا کام کیا ہے۔ 'من کی بات' میں، ہم نے پردیپ سنگوان جی کی 'ہیلنگ ہمالیہ' مہم پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔ وہ فون لائن پر ہمارے ساتھ ہیں ۔
مودی جی - پردیپ جی نمسکار!
پردیپ جی - سر جئے ہند۔
مودی جی - جئے ہند، جئے ہند، بھائی! آپ کیسے ہو ؟
پردیپ جی - سر بہت بڑھیا ، آپ کی آواز سن کر اور بھی اچھا ۔
مودی جی - آپ نے ہمالیہ کو ہیل کرنے کا سوچا ۔
پردیپ جی - جی سر ۔
مودی جی - مہم چلائی ، آج کل آپ کی مہم کیسی چل رہی ہے؟
پردیپ جی - سر یہ بہت اچھی چل رہی ہے۔ 2020 ء سے یقین کریں ، جو کام ہم پانچ سال میں کرتے تھے ، وہ اب ایک سال میں ہو جاتا ہے۔
مودی جی - ارے واہ!
پردیپ جی - جی ہاں، سر ۔ شروع میں، میں بہت گھبرایا ہوا تھا، مجھے اس بات کا بہت ڈر تھا کہ کیا میں ساری زندگی یہ کام کر پاؤں گا یا نہیں کر پاؤں گا لیکن مجھے کچھ سہارا ملا اور 2020 ء تک، ہم بہت جدو جہد بھی کر رہے تھے ۔ لوگ بہت کم جڑ رہے تھے، بہت سے لوگ ایسے تھے ، جو تعاون نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ ہماری مہم پر بھی اتنی توجہ نہیں دے رہے تھے لیکن 2020 ء کے بعد جب 'من کی بات' میں اس کا ذکر آیا تو بہت سی چیزیں بدل گئیں۔ مطلب کہ پہلے ہم ایک سال میں 6-7 کلیننگ ڈرائیوز کرتے تھے، اب ہم 10 کلیننگ ڈرائیوز کرتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں ہم روزانہ کی بنیاد پر الگ الگ مقامات سے پانچ ٹن کچرا جمع کرتے ہیں۔
مودی جی - واہ واہ!
پردیپ جی - سر، 'من کی بات' میں ذکر ہونے کے بعد، یقین کریں کہ میں ایک وقت میں تقریباً چھوڑنے کے مرحلے پر پہنچ گیا تھا اور اس کے بعد میری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور چیزیں اتنی تیز رفتار ہو گئیں کہ جو چیزیں ہم نے سوچی بھی نہیں تھی ، وہ ہونے لگیں ۔ میں واقعی شکر گزار ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ ہم جیسے لوگوں کو کیسے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اتنے دور افتادہ علاقے میں کون کام کرتا ہے، ہم ہمالیائی علاقے میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ ہم اس بلندی پر کام کر رہے ہیں۔ آپ نے ہمیں وہاں ڈھونڈ لیا ۔ ہمارے کام کو دنیا کے سامنے لے کر آئے ۔ اس لیے یہ میرے لیے ، اس وقت بھی اور آج بھی بہت جذباتی لمحہ تھا کہ میں اپنے ملک کے اوّلین خادم ( پرتھم سیوک ) کے ساتھ بات چیت کر پا رہا ہوں۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات کوئی نہیں ہو سکتی۔
مودی جی - پردیپ جی! آپ ہمالیہ کی چوٹیوں پر حقیقی معنوں میں سادھنا کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اب آپ کا نام سن کر لوگوں کو یاد آتا جاتا ہے کہ آپ کیسے پہاڑوں کی سووچھتا مہم میں جڑے ہیں۔
پردیپ جی - جی سر ۔
مودی جی – اور جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اب ایک بہت بڑی ٹیم بنتی جا رہی ہے اور آپ روزانہ اتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔
پردیپ جی - جی سر ۔
مودی جی – اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ آپ کی ان کوششوں کی وجہ سے، اس پر بات چیت سے ، اب تو کتنے ہی کوہ پیما صفائی ستھرائی سے متعلق تصاویر پوسٹ کرنے لگے ہیں۔
پردیپ جی - جی سر ! بہت
مودی جی - یہ اچھی بات ہے، آپ جیسے ساتھیو کی کوششوں سے، کچرا بھی دولت بن رہا ہے ، یہ بات اب لوگوں کے دماغ میں بیٹھ رہی ہے اور ماحولیات کا بھی تحفظ ہو رہا ہے اور ہمالیہ کا ، جو ہمارا فخر ہے ، اسے سنوارنا اور سنبھالنا ، اس سے لوگ جڑ رہے ہیں ۔ پردیب جی ، بہت اچھا لگا مجھے ، بہت شکریہ بھیا ۔
پردیپ جی - شکریہ سر آپ کا بہت بہت شکریہ جئے ہند۔
ساتھیو، آج ملک میں سیاحت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمارے قدرتی وسائل ہوں، دریا ہوں، پہاڑ ہوں، تالاب ہوں یا ہمارے مقدس مقامات ہوں ، ان کو صاف ستھرا رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس سے سیاحت کی صنعت کو بہت مدد ملے گی۔ سیاحت میں صفائی کے ساتھ ساتھ ہم نے بے مثال بھارت مہم پر بھی کئی مرتبہ بات کی ہے۔ اس تحریک کی وجہ سے پہلی بار لوگوں کو بہت سی ایسی جگہوں کے بارے میں معلوم ہوا، جو ان کے آس پاس ہی موجود تھیں ۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ بیرون ملک سیاحت پر جانے سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے کم از کم 15 سیاحتی مقامات کی سیر کرنی چاہیے اور یہ مقام ، اس ریاست کا نہیں ہونا چاہیے ، جہاں آپ رہتے ہیں، آپ کی ریاست سے باہر کسی دوسری ریاست کے ہونے چاہئیں ۔ اسی طرح ہم نے سووچھ سیاچن، سنگل یوز پلاسٹک اور ای ویسٹ جیسے سنجیدہ موضوعات پر مسلسل بات کی ہے۔ آج 'من کی بات' کی یہ کوشش ماحولیاتی مسئلے کو حل کرنے میں بہت اہم ہے ، جس پر پوری دنیا پریشان ہے۔
ساتھیو، اس بار مجھے یونیسکو کے ڈی جی، آدرے ازولے کی طرف سے 'من کی بات' کے حوالے سے ایک اور خاص پیغام ملا ہے۔ انہوں نے تمام ہم وطنوں کو 100 ایپیسوڈ کے اس شاندار سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کچھ سوالات پوچھے ہیں ۔ آئیے ، پہلے یونیسکو کے ڈی جی کے دِل کی بات سنتے ہیں۔
#Audio (UNESCO DG)#
ڈی جی یونیسکو: نمستے ایکسی لینسی، محترم وزیر اعظم یونیسکو کی جانب سے میں 'من کی بات' ریڈیو نشریات کے 100ویں ایپی سوڈ کا حصہ بننے کے لیے ، اس موقع کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یونیسکو اور بھارت کی ایک طویل مشترکہ تاریخ رہی ہے۔ ہمارے مینڈیٹ کے تمام شعبوں میں ایک ساتھ بہت مضبوط شراکت داری ہے - تعلیم، سائنس، ثقافت اور معلومات اور میں آج اس موقع پر تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ یونیسکو اپنے رکن ممالک کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ 2030 ء تک دنیا میں ہر کسی کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے ساتھ، کیا آپ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بھارتی طریقہ کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ یونیسکو ثقافت کی حمایت اور ورثے کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتا ہے اور بھارت اس سال جی – 20 کی صدارت کر رہا ہے۔ اس تقریب میں عالمی رہنما دلّی آئیں گے۔ محترم، بھارت کس طرح ثقافت اور تعلیم کو بین الاقوامی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنا چاہتا ہے؟ میں ایک بار پھر یہ موقع دینے کے لئے ، آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کے ذریعے بھارت کے لوگوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں.... جلد ہی ملتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ ۔
وزیر اعظم مودی: آپ کا شکریہ، سر ۔ مجھے 100ویں 'من کی بات' پروگرام میں آپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے خوشی ہو ئی ہے۔ میں اس بات پر بھی خوش ہوں کہ آپ نے تعلیم اور ثقافت کے اہم مسائل کو اٹھایا ہے۔
ساتھیو، یونیسکو کے ڈی جی نے تعلیم اور ثقافتی تحفظ کے سلسلے میں بھارت کی کوششوں کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔ یہ دونوں موضوعات 'من کی بات' کے پسندیدہ موضوعات رہے ہیں۔
چاہے بات تعلیم کی ہو یا ثقافت کی، چاہے اس کے تحفظ کی ہو یا فروغ کی، یہ بھارت کی قدیم روایت رہی ہے۔ آج ملک ، اس سمت میں ، جو کام کر رہا ہے ، وہ واقعی قابل ستائش ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی ہو یا علاقائی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا اختیار، تعلیم میں ٹیکنالوجی کا انضمام، آپ کو ایسی بہت سی کوششیں دیکھنے کو ملیں گی۔ برسوں پہلے گجرات میں بہتر تعلیم دینے اور اسکول چھوڑنے والوں کی شرح کو کم کرنے کے لئے ، 'گنو اُتسو اور شالا پرویشو اُتسو' جیسے پروگرام عوامی شراکت کی شاندار مثال بنے تھے ۔ 'من کی بات' میں، ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کی کوششوں کو اجاگر کیا ہے، جو تعلیم کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، ایک بار ہم نے اوڈیشہ میں ٹھیلے پر چائے بیچنے والے آنجہانی ڈی پرکاش راؤ جی کے بارے میں بات کی تھی ، جو غریب بچوں کو پڑھانے کے مشن میں لگے ہوئے تھے۔ جھارکھنڈ کے دیہات میں ڈیجیٹل لائبریریاں چلانے والے سنجے کشیپ ہوں، کووڈ کے دوران ای لرننگ کے ذریعے بہت سے بچوں کی مدد کرنے والی ہیم لتا این کے جی ہوں ، ایسے بہت سے اساتذہ کی مثالیں ہم نے 'من کی بات' میں شامل کی ہیں ۔ ہم نے 'من کی بات' میں ثقافتی تحفظ کی کوششوں کو بھی مستقل جگہ دی ہے۔
لکشدیپ کے کمیل برادرس چیلنجرز کلب ہو یا کرناٹک کے 'کوئیم شری' ، 'کلا چیتنا' جیسے فورم ہوں ، ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے مجھے خط لکھ کر ایسی مثالیں بھیجی ہیں۔ ہم نے ان تین مقابلوں کے بارے میں بھی بات کی ، جو حب الوطنی پر 'گیت'، 'لوری' اور 'رنگولی' سے جڑے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا، ایک بار ہم نے ملک بھر سے داستان گو افراد سے داستان گوئی کے ذریعے تعلیم کے بھارتی طریقوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اجتماعی کوششیں سب سے بڑی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ اس سال جہاں ہم آزادی کے امرت کال میں آگے بڑھ رہے ہیں ، وہیں جی – 20 کی صدارت بھی کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ متنوع عالمی ثقافتوں کو تقویت دینے کا ہمارا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اپنشدوں کا ایک منتر صدیوں سے ہمیں ترغیب دیتا آیا ہے۔
चरैवेति चरैवेति चरैवेति।
चलते रहो-चलते रहो-चलते रहो।
آج ہم اسی چریویتی چریویتی کے جذبے کے ساتھ 'من کی بات' کا 100واں ایپیسوڈ مکمل کر رہے ہیں۔ بھارت کے سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے میں، 'من کی بات' ایک مالا کے دھاگے کی طرح ہے ، جو ہر ایک موتی جوڑے رکھتا ہے۔ ہر ایپیسوڈ میں اہل وطن کی خدمت اور صلاحیت نے دوسروں کو تحریک دی ہے ۔ اس پروگرام میں ہر ہم وطن دوسرے ہم وطنوں کے لیے تحریک بنتا ہے۔ ایک طرح سے من کی بات کا ہر ایپیسوڈ اگلے ایپیسوڈ کے لئے بنیاد تیار کرتا ہے۔ 'من کی بات' ہمیشہ خیر سگالی، خدمت اور فرض کے احساس کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ آزادی کے امرت کال میں یہ مثبتیت ملک کو آگے لے جائے گی، اسے ایک نئی بلندی پر لے جائے گی اور مجھے خوشی ہے کہ 'من کی بات' سے جو شروعات ہوئی تھی ، وہ آج ملک میں ایک نئی روایت بن رہی ہے۔ ایک ایسی روایت ، جس میں ہمیں ، سب کی کوششوں کا جذبہ نظر آتا ہے ۔
ساتھیو، آج میں آل انڈیا ریڈیو کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ، جو بہت صبر کے ساتھ ، اس پورے پروگرام کو ریکارڈ کرتے ہیں ۔ وہ مترجم ، جو بہت ہی کم وقت میں ، بہت تیزی کے ساتھ 'من کی بات' کا مختلف علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہیں ، میں اُن کا بھی شکر گزار ہوں ۔ میں دوردرشن کے اور مائی گوو کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ملک بھر کے تمام ٹی وی چینلز، الیکٹرانک میڈیا والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو کمرشل وقفے کے بغیر 'من کی بات' دکھاتے ہیں اور آخر میں، میں ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ، جو 'من کی بات' کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں – بھارت کے لوگ ، بھارت میں یقین رکھنے والے لوگ ، یہ سب کچھ آپ کی تحریک اور طاقت سے ہی ممکن ہو پایا ہے ۔
ساتھیو ، ویسے تو میرے دِل میں آج اتنا کچھ کہنے کو ہے کہ وقت اور الفاظ دونوں کم پڑ رہے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرے جذبات کو سمجھیں گے ۔ آپ کے خاندان کے ایک فرد کے طور پر، میں 'من کی بات' کی مدد سے آپ کے درمیان رہا ہوں، آپ کے درمیان رہوں گا۔ ہم اگلے مہینے پھر ملیں گے۔ ہم ایک بار پھر نئے موضوعات اور نئی جانکاریوں کے ساتھ ہم وطنوں کی کامیابیوں کا جشن منائیں گے، تب تک کے لئے مجھے وداع دیجیے اور اپنا اور اپنوں کا خوب خیال رکھیے ۔ بہت بہت شکریہ ۔ نمسکار ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں آپ سبھی کا ایک بار پھر بہت بہت خیر مقدم ہے۔ آج اس گفتگو کو شروع کرتے ہوئے ذہن و دل میں کتنے ہی جذبات امنڈ رہے ہیں۔ ہمارا اور آپ کا ’من کی بات‘ کا یہ ساتھ، اپنے ننیانوے (99ویں) پائیدان پر آ پہنچا ہے۔ عام طور پر ہم سنتے ہیں کہ ننیانوے (99ویں) کا پھیر بہت کٹھن ہوتا ہے۔ کرکٹ میں تو ’نروَس نائنٹیز‘ کو بہت مشکل پڑاؤ مانا جاتا ہے۔ لیکن، جہاں بھارت کے ہر شہری کے ’من کی بات‘ ہو، وہاں کی ترغیب ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ کو لے کر ملک کے لوگوں میں بہت جوش ہے۔ مجھے بہت سارے پیغام مل رہے ہیں، فون آ رہے ہیں۔ آج جب ہم آزادی کا امرت کال منا رہے ہیں، نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، تو سوویں (100ویں) ’من کی بات‘ کو لے کر، آپ کے مشوروں، اور خیالات کو جاننے کے لیے میں بھی بہت پرجوش ہوں۔ مجھے، آپ کے ایسے مشوروں کا بے صبری سے انتظار ہے۔ ویسے تو انتظار ہمیشہ ہوتا ہے لیکن اس بار ذرا انتظار زیادہ ہے۔ آپ کے یہ مشورے اور خیالات ہی 30 اپریل کو ہونے والے سوویں (100ویں) ’من کی بات‘ کو اور یادگار بنائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم نے ایسے ہزاروں لوگوں کی چرچہ کی ہے، جو دوسروں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اپنی پوری پنشن لگا دیتے ہیں، کوئی اپنی پوری زندگی کی کمائی ماحولیات اور جانداروں کی خدمت کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں خدمت کو اتنا اوپر رکھا گیا ہے کہ دوسروں کی خوشی کے لیے، لوگ اپنا سب کچھ قربان کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس لیے تو ہمیں بچپن سے شیوی اور ددھیچی جیسے عظیم لوگوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
ساتھیو، جدید میڈیکل سائنس کے اس دور میں آرگن ڈونیشن، کسی کو زندگی دینے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ کہتے ہیں، جب ایک آدمی موت کے بعد اپنا جسم عطیہ کرتا ہے، تو اس سے 8 سے 9 لوگوں کو ایک نئی زندگی ملنے کی امید بنتی ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ آج ملک میں آرگن ڈونیشن کے تئیں بیداری بھی بڑھ رہی ہے۔ سال 2013 میں، ہمارے ملک میں، آرگن ڈونیشن کے 5 ہزار سے بھی کم معاملے تھے، لیکن 2022 میں، یہ تعداد بڑھ کر، 15 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ آرگن ڈونیشن کرنے والے افراد نے، ان کی فیملی نے، واقعی بہت ثواب کا کام کیا ہے۔
ساتھیو، میرا کافی عرصے سے من تھا کہ میں ایسا نیک کام کرنے والے لوگوں کے ’من کی بات‘ جانوں اور اسےہم وطنوں کے ساتھ بھی شیئر کروں۔ اس لیے آج ’من کی بات‘ میں ہمارے ساتھ ایک پیاری سی بٹیا، ایک خوبصورت گڑیا کے والد اور ان کی والدہ ہمارے ساتھ جڑنے جا رہے ہیں۔ والد کا نام ہے سکھبیر سنگھ سندھو جی اور والدہ کا نام ہے سپریت کور جی، یہ فیملی پنجاب کے امرتسر میں رہتی ہے۔ بہت منتوں کے بعد انہیں، ایک بہت خوبصورت گڑیا، بٹیا ہوئی تھی۔ گھر کے لوگوں نے بہت پیار سے اس کا نام رکھا تھا – ابابت کور۔ ابابت کا معنی، دوسرے کی خدمت سے جڑا ہے، دوسروں کی تکلیف دور کرنے سے جڑا ہے۔ ابابت جب صرف انتالیس (39) دن کی تھی، تبھی وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ لیکن سکھبیر سنگھ سندھو جی اور ان کی بیوی سپریت کور جی نے، ان کی فیملی نے، بہت ہی مثالی فیصلہ لیا۔ یہ فیصلہ تھا – انتالیس (39) دن کی عمر والی بیٹی کے آرگن ڈونیشن کا، جسم کے عضو کے عطیہ کا۔ ہمارے ساتھ اس وقت فون لائن پر سکھبیر سنگھ اور ان کی بیوی موجود ہیں۔ آئیے، ان سے بات کرتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی نمستے۔
سکھبیر جی – نمستے جناب وزیر اعظم صاحب۔ ست شری اکال
جناب وزیر اعظم – ست شری اکال جی، ست شری اکال جی، سکھبیر جی میں آج ’من کی بات‘ کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھے لگا کہ ابابت کی بات اتنی حوصلہ افزا ہے وہ آپ ہی کے منہ سے سنوں کیوں کہ گھر میں بیٹی کی پیدائش جب ہوتی ہے تو کئی خواب کئی خوشیاں لے کر آتی ہے، لیکن بیٹی اتنی جلدی چلی جائے وہ درد کتنا خطرناک ہوگا اس کا بھی میں اندازہ لگا سکتا ہوں۔ جس طرح سے آپ نے فیصلہ لیا، تو میں ساری بات جاننا چاہتا ہوں جی۔
سکھبیر جی – سر، بھگوان نے بہت اچھا بچہ دیا تھا ہمیں، بہت پیاری گڑیا ہمارے گھر میں آئی تھی۔ اس کے پیدا ہوتے ہی ہمیں پتہ چلا کہ اس کے دماغ میں ایک ایسا نسوں کا گچھا بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے۔ تو ہم حیران ہو گئے کہ بچے کی صحت اتنی اچھی ہے، اتنا خوبصورت بچہ ہے اور اتنا بڑا مسئلہ لے کر پیدا ہوا ہے تو پہلے 24 دن تک تو بہت ٹھیک رہا، بچہ بالکل نارمل رہا۔ اچانک اس کا دل ایک دم کام کرنا بند ہو گیا، تو ہم جلدی سے اس کو اسپتال لے گئے، وہاں ڈاکٹروں نے اس کو ریوائیو تو کر دیا لیکن سمجھنے میں ٹائم لگا کہ اس کو کیا دقت آئی، اتنی بڑی دقت کہ چھوٹا سا بچہ اور اچانک دل کا دورہ پڑ گیا تو ہم اس کو علاج کے لیے پی جی آئی چنڈی گڑھ لے گئے۔ وہاں بڑی بہادری سے اس بچہ نے علاج کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن بیماری ایسی تھی کہ اس کا علاج اتنی چھوٹی عمر میں ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی کہ اس کو ریوائیو کروایا جائے، اگر چھ مہینے کے آس پاس بچہ چلا جائے تو اس کا آپریشن کرنے کی سوچی جا سکتی تھی۔ لیکن بھگوان کو کچھ اور منظور تھا، انہوں نے، صرف 39 دنوں کی جب ہوئی تب ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو دوبارہ دل کا دوڑہ پڑا ہے، اب امید بہت کم رہ گئی ہے۔ تو ہم دونوں میاں بیوی روتے ہوئے اس فیصلہ پر پہنچے کہ ہم نے دیکھا تھا اس کو بہادری سے لڑتے ہوئے، بار بار ایسا لگ رہا تھا جیسے اب چلی جائے گی، لیکن پھر ریوائیو کر رہی تھی تو ہمیں لگاکہ اس بچے کا یہاں آنے کا کوئی مقصد ہے، تو انہوں نے جب بالکل ہی جواب دے دیا تو ہم دونوں نے ڈیسائڈ کیا کہ کیوں نہ ہم اس بچے کے آرگن ڈونیٹ کر دیں۔ شاید کسی اور کی زندگی میں اجالا آ جائے، پھر ہم نے پی جی آئی کے جو ایڈمنسٹریٹو بلاک ہے ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں گائیڈ کیا کہ اتنے چھوٹے بچے کی صرف کڈنی ہی لی جا سکتی ہے۔ پرماتما نے ہمت دی، گرو نانک صاحب کا فلسفہ ہے، اسی سوچ سے ہم نے فیصلہ لے لیا۔
جناب وزیر اعظم – گروؤں نے جو تعلیمات دی ہیں جی اسے آپ نے جی کر کے دکھایا ہے جی۔ سپریت جی ہیں کیا؟ ان سے بات ہو سکتی ہے؟
سکھبیر جی – جی سر۔
سپریت جی – ہیلو۔
جناب وزیر اعظم – سپریت جی، میں آپ کو پرنام کرتا ہوں
سپریت جی – نمسکار سر نمسکار، سر یہ ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ آپ ہم سے بات کر رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – آپ نے اتنا بڑا کام کیا ہے اور میں مانتا ہوں، ملک یہ ساری باتیں جب سنے گا تو بہت لوگ کسی کی زندگی بچانے کے لیے آگے آئیں گے۔ ابابت کا یہ تعاون ہے، یہ بہت بڑا ہے جی۔
سپریت جی – سر یہ بھی گرو نانک بادشاہ جی شاید بخشش تھی کہ انہوں نے ہمت دی ایسا فیصلہ لینے میں۔
جناب وزیراعظم – گروؤں کی کرپا کے بنا تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا جی۔
سپریت جی – بالکل سر، بالکل۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی، جب آپ اسپتال میں ہوں گے اور یہ ہلا دینے والی خبر جب ڈاکٹر نے آپ کو دی، اس کے بعد بھی آپ نے صحت مند ذہن سے آپ نے اور آپ کی شریمتی جی نے اتنا بڑا فیصلہ کیا، گروؤں کی سیکھ تو ہے ہی ہے کہ آپ کے من میں اتنا بڑا عمدہ خیال اور واقعی میں ابابت کا جو معنی عام زبان میں کہیں تو مددگار ہوتا ہے۔ یہ کام کر دیا یہ اس پل کو میں سننا چاہتا ہوں۔
سکھبیر جی – سر، دراصل ہمارے ایک فیملی فرینڈ ہیں پریہ جی، انہوں نے اپنے آرگن ڈونیٹ کیے تھے۔ ان سے بھی ہمیں حوصلہ ملا تو اس وقت تو ہمیں لگاکہ جسم جو ہے، پانچ عناصر میں تحلیل ہو جائے گا۔ جب کوئی بچھڑ جاتا ہے، چلا جاتا ہے، تو اسک ے جسم کو جلا دیا جاتا ہے یا دبا دیا جاتا ہے، لیکن اگر اس کے آرگن کسی کے کام آ جائیں، تو یہ بھلے کا ہی کام ہے، اور اس وقت ہمیں اور فخر محسوس ہوا، جب ڈاکٹروں نے یہ بتایا ہمیں کہ آپ کی بیٹی، انڈیا کی ینگیسٹ ڈونر بنی ہے، جس کے آرگن کامیابی سے ٹرانس پلانٹ ہوئے، تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہو گیا کہ جو نام ہم اپنے والدین کا اس عمر تک نہیں کر پائے، ایک چھوٹا سا بچہ آ کر اتنے دنوں میں ہمارا نام اونچا کر گیا اور اس سے اور بڑی بات ہے کہ آج آپ سے بات ہو رہی ہے اس موضوع پر۔ ہم پراؤڈ فیل کر رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی، آج آپ کی بیٹی کا صرف ایک عضو زندہ ہے، ایسا نہیں ہے۔ آپ کی بیٹی انسانیت کی لازوال کہانی کی لازوال مسافر بن گئی ہے۔ اپنے جسم کے حصہ کے ذریعے وہ آج بھی موجود ہے۔ اس نیک کام کے لیے، میں آپ کی، آپ کی شریمتی جی کی، آپ کی فیملی کی تعریف کرتا ہوں۔
سکھبیر جی – تھینک یو سر۔
ساتھیو، آرگن ڈونیشن کے لیے سب سے بڑا جذبہ یہی ہوتا ہے کہ جاتے جاتے بھی کسی کا بھلا ہو جائے، کسی کی زندگی بچ جائے۔ جو لوگ، آرگن ڈونیشن کا انتظار کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انتظار کا ایک ایک لمحہ گزرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اور ایسے میں جب کوئی عضو یا جسم کا عطیہ کرنے والا مل جاتا ہے، تو اس میں ایشور کی شکل ہی نظر آتی ہے۔ جھارکھنڈ کی رہنے والی اسنیہ لتا چودھری جی بھی ایسی ہی تھیں جنہوں نے ایشور بن کر دوسروں کو زندگی دی۔ 63 سال کی اسنیہ لتا چودھری جی، اپنا دل، کڈنی اور لیور، عطیہ کر گئیں۔ آج ’من کی بات‘ میں، ان کے بیٹے بھائی ابھجیت چودھری جی ہمارے ساتھ ہیں۔ آئیے ان سے سنتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی نمسکار۔
ابھجیت جی – پرنام سر۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی، آپ ایک ایسی ماں کے بیٹے ہیں جس نے آپ کو جنم دے کر ایک طرح سے زندگی تو دی ہے، لیکن اور جو اپنی موت کے بعد بھی آپ کی ماتا جی کئی لوگوں کو زندگی دے کر گئیں۔ ایک بیٹے کے ناطے ابھجیت آپ ضرور فخر محسوس کرتے ہوں گے
ابھجیت جی – ہاں جی سر۔
جناب وزیر اعظم – آپ، اپنی ماتا جی کے بار میں ذرا بتائیے، کن حالات میں آرگن ڈونیشن کا فیصلہ لیا گیا؟
ابھجیت جی – میری ماتا جی، سرائیکیلا بول کر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جھارکھنڈ میں، وہاں پر میرے ممی پاپا دونوں رہتے ہیں۔ یہ پچھلے پچیس سال سے لگاتار مارننگ واک کرتے تھے اور اپنے ہیبٹ کے مطابق صبح 4 بجے اپنے مارننگ واک کے لیے نکلی تھیں۔ اس وقت ایک موٹر سائیکل والے نے ان کو پیچھے سے دھکہ مارا اور وہ اسی وقت گر گئیں جس سے ان کو سر پہ بہت زیادہ چوٹ لگا۔ فوراً ہم لوگ ان کو صدر اسپتال سرائیکیلا لے گئے جہاں ڈاکٹر صاحب نے ان کی مرہم پٹی کی، مگر خون بہت نکل رہا تھا۔ اور ان کو کوئی ہوش نہیں تھا۔ فوراً ہم لوگ ان کو ٹاٹا مین ہاسپیٹل لے کر چلے گئے۔ وہاں ان کی سرجری ہوئی، 48 گھنٹے کے آبزرویشن کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بولا کہ وہاں سے چانسز بہت کم ہیں۔ پھر ہم نے ان کو ایئرلفٹ کرکے ایمس دہلی لے کر آئے ہم لوگ۔ یہاں پر ان کی ٹریٹمنٹ ہوئی تقریباً 8-7 دن۔ اس کے بعد پوزیشن ٹھیک تھا، ایک دم ان کا بلڈ پریشر کافی گر گیا، اس کے بعد چلا ان کی برین ڈیتھ ہو گئی ہے۔ تب پھر ڈاکٹر صاحب ہمیں پروٹوکال کے ساتھ بریف کر رہے تھے آرگن ڈونیشن کے بارے میں۔ ہم اپنے والد صاحب کو شاید یہ نہیں بتا پاتے کہ آرگن ڈونیشن ٹائپ کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، کیوں کہ ہمیں لگا، وہ اس بات کو ہضم نہیں کر پائیں گے، تو ان کے دماغ سے ہم یہ نکالنا چاہتے تھے کہ ایسا کچھ چل رہا ہے۔ جیسے ہی ہم نے ان کو بولا کہ آرگن ڈونیشن کی باتیں چل رہی ہیں۔ تب انہوں نے یہ بولا کہ نہیں نہیں، یہ ممی کا بہت من تھا اور ہمیں یہ کرنا ہے۔ ہم کافی مایوس تھے اس وقت تک جب تک ہمیں یہ پتہ چلا تھا کہ ممی نہیں بچ سکیں گی، مگر جیسے ہی یہ آرگن ڈونیشن والا ڈسکشن چالو ہوا وہ مایوسی ایک بہت ہی پازیٹو سائڈ چلی گئی اور ہم کافی اچھے ایک بہت ہی پازیٹو انوائرمنٹ میں آ گئے۔ اس کو کرتے کرتے پھر ہم لوگ، رات میں 8 بجے کاؤنسلنگ ہوئی۔ دوسرے دن ہم لوگوں نے آرگن ڈونیشن کیا۔ اس میں ممی کی ایک سوچ بہت بڑی تھی کہ پہلے وہ کافی آنکھوں کے عطیہ اور ان چیزوں میں، سوشل اکٹیوٹیز میںیہ بہت ایکٹو تھیں۔ شاید یہی سوچ کو لے کر کے یہ اتنی بڑی چیز ہم لوگ کر پائے، اور میرے والد صاحب کا جو ڈسیزن میکنگ تھا اس چیز کے بارے میں، اس وجہ سے یہ چیز ہو پائی۔
جناب وزیر اعظم – کتنے لوگوں کو کام آیا آرگن؟
ابھجیت جی – ان کا ہارٹ، دو کڈنی، لیور اور دونوں آنکھ، یہ ڈونیشن ہوا تھا تو چار لوگوں کی جان اور دو لوگوں کو آنکھ ملی ہے۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی، آپ کے والد اور والدہ دونوں تعریف کے مستحق ہیں۔ میں ان کو پرنام کرتا ہوں اور آپ کے والد نے اتنے بڑے فیصلہ میں، آپ کی فیملی کے لوگوں کی قیادت کی، یہ واقعی بہت ہی حوصلہ افزا ہے اور میں مانتا ہوں کہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں ایک اپنے آپ میں حوصلہ بھی ہوتی ہے۔ لیکن ماں جو روایات چھوڑ کر جاتی ہیں، وہ نسل در نسل، ایک بہت بڑی طاقت بن جاتی ہیں۔ آرگن ڈونیشن کے لیے آپ کی ماتا جی کی ترغیب پورے ملک تک پہنچ رہی ہے۔ میں آپ کے اس مقدس کام اور عظیم کام کے لیے آپ کی پوری فیملی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ابھجیت جی شکریہ، اور آپ کے والد کو ہمارا پرنام ضرور کہہ دینا۔
ابھجیت جی – ضرور ضرور، تھینک یو۔
ساتھیو، 39 دن کی بابت کور ہو یا 63 سال کی اسنیہ لتا چودھری، ان کے جیسے دان ویر، ہمیں زندگی کی اہمیت سمجھا کر جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں، آج بڑی تعداد میں ایسے ضرورت مند ہیں، جو صحت مند زندگی کی امید میں کسی آرگن ڈونیٹ کرنے والے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے اطمینان ہے کہ آرگن ڈونیشن کو کو آسام بنانے اور ترغیب دینے کے لیے پورے ملک میں ایک جیسی پالیسی پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس سمت میں ریاستوں کے ڈومیسائل کی شرط کو ہٹانے کا فیصلہ بھی لیا گیا ہے، یعنی اب ملک کی کسی بھی ریاست میں جا کر مریض آرگن حاصل کرنے کے لیے رجسٹر کروا پائے گا۔ سرکار نے آرگن ڈونیشن کے لیے 65 سال سے کم عمر کی عمر کی حد کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ان کوششوں کے درمیان، میری ہم وطنوں سے اپیل ہے کہ آرگن ڈونر زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں۔ آپ کا ایک فیصلہ، کئی لوگوں کی زندگی بچا سکتا ہے، زندگی بنا سکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ نوراتر کا وقت ہے، شکتی کی اپاسنا کا وقت ہے۔ آج، بھارت کی جو صلاحیت نئے سرے سے نکھر کر سامنے آ رہی ہے، اس میں بہت بڑا رول ہماری خواتین کی طاقت کا ہے۔ حالیہ دنوں ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ آپ نے سوشل میڈیا پر، ایشیا کی پہلی خاتون لوکو پائلٹ سریکھا یادو جی کو ضرور دیکھا ہوگا۔ سریکھا جی، ایک اور ریکارڈ بناتے ہوئے وندے بھارت ایکسپریس کی بھی پہلی خاتون لوکو پائلٹ بن گئی ہیں۔ اسی مہینے، پروڈیوسر گنیت مونگا اور ڈائرکٹر کارتکی گونزالویس ان کی ڈاکیومنٹری ’ایلیفنٹ وسپیررز‘ نے آسکر جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ملک کے لیے ایک اور کامیابی بھابھا ایٹامک ریسرچ سنٹر کی سائنٹسٹ، بہن جیوترمئی موہنتی جی نے بھی حاصل کی ہے۔ جیوترمئی جی کو کیمسٹری اور کیمیکل انجینئرنگ کی فیلڈ میں آئی یو پی اے سی کا اسپیشل ایوارڈ ملا ہے۔ اس سال کی شروعات میں ہی بھارت کی انڈر-19 خواتین کرکٹ ٹیم نے ٹی 20 ورلڈ کپ جیت کر نئی تاریخ رقم کی۔ اگر آپ سیاست کی طرف دیکھیں گے، تو ایک نئی شروعات ناگالینڈ میں ہوئی ہے۔ ناگالینڈ میں 75 برسوں میں پہلی بار دو خاتون ایم ایل اے جیت کر اسمبلی پہنچی ہیں۔ ان میں سے ایک کو ناگالینڈ حکومت میں وزیر بھی بنایا گیا ہے، یعنی ریاست کے لوگوں کو پہلی بار ایک خاتون وزیر بھی ملی ہیں۔
ساتھیو، کچھ دنوں پہلے میری ملاقات ان جانباز بیٹیوں سے بھی ہوئی، جو ترکی تباہ کن زلزلہ کے بعد وہاں کے لوگوں کی مدد کے لیے گئی تھیں۔ یہ سبھی این ڈی آر ایف کے دستہ میں شامل تھیں۔ ان کی شجاعت اور مہارت کی پوری دنیا میں تعریف ہو رہی ہے۔ بھارت نے یو این مشن کے تحت امن فوج میں ویمن آنلی پلاٹون کی بھی تعیناتی کی ہے۔
آج، ملک کی بیٹیاں تینوں افواج میں اپنی شجاعت کا پرچم بلند کر رہی ہیں۔ گروپ کیپٹن شالیجا دھامی کامبیٹ یونٹ میں کمانڈ اپائنٹمنٹ پانے والی پہلی خاتون فضائیہ افسر بنی ہیں۔ ان کے پاس تقریباً 3 ہزار گھنٹے کا فلائنگ ایکسپیرئنس ہے۔ اسی طرح، ہندوستانی فوج کی جانباز کیپٹن شیوا چوہان، سیاچن میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون افسر بنی ہیں۔ سیاچن میں جہاں درجہ حرارت مائنس ساٹھ (60-) ڈگری تک چلا جاتا ہے، وہاں شیوا تین مہینوں کے لیے تعینات رہیں گی۔
ساتھیو، یہ لسٹ اتنی لمبی ہے کہ یہاں سب کا ذکر کرنا بھی مشکل ہے۔ ایسی تمام خواتین، ہماری بیٹیاں، آج بھارت اور بھارت کے خوابوں کو توانائی بخش رہی ہیں۔ خواتین کی طاقت کی یہ توانائی ہی ترقی یافتہ ہندوستان کی جان ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ان دنوں پوری دنیا میں صاف توانائی، قابل تجدید توانائی کی خوب بات ہو رہی ہے۔ میں جب دنیا کے لوگوں سے ملتا ہوں، تو وہ اس شعبے میں بھارت کی غیر معمولی کامیابی کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ خاص کر، بھارت سولر انرجی کے شعبے میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ بھارت کے لوگ تو صدیوں سے سورج سے خاص طور پر ناطہ رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں سورج کی طاقت کو لے کر جو سائنسی سمجھ رہی ہے، سورج کی عبادت کی جو روایات رہی ہیں، وہ دیگر جگہوں پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ملک کا ہر شہری شمسی توانائی کی اہمیت بھی سمجھ رہا ہے، اور کلیئر انرجی میں اپنا تعاون بھی دینا چاہتا ہے۔ ’سب کا پریاس‘ کا یہی جذبہ آج بھارت کے سولر مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مہاراشٹر کے پونے میں، ایسی ہی ایک بہترین کوشش نے میری توجہ اپنی جانب کھینچی ہے۔ یہاں ایم ایس آر-اولیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے لوگوں نے طے کیا کہ وہ سوسائٹی میں پینے کے پانی، لفٹ اور لائٹ جیسی مجموعی استعمال کی چیزیں، اب سولر انرجی سے ہی چلائیں گے۔ اس کے بعد اس سوسائٹی میں سب نے مل کر سولر پینل لگوائے۔ آج ان سولر پینلز سے ہر سال تقریباً 90 ہزار کلو واٹ گھنٹے بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سے ہر مہینے تقریباً 40 ہزار روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ اس بچت کا فائدہ سوسائٹی کے سبھی لوگوں کو ہو رہا ہے۔
ساتھیو، پونے کی طرح ہی دمن و دیو میں جو دیو ہے، جو ایک الگ ضلع ہے، وہاں کے لوگوں نے بھی، ایک انوکھا کام کرکے دکھایا ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ دیو، سومناتھ کے پاس ہے۔ دیو بھارت کا پہلا ایسا ضلع بنا ہے، جو دن کے وقت سبھی ضرورتوں کے لیے سو فیصد کلین انرجی کا استعمال کر رہا ہے۔ دیو کی اس کامیابی کا منتر بھی سب کی کوشش ہی ہے کبھی یہاں بجلی کی پیداوار کے لیے وسائل کی چنوتی تھی۔ لوگوں نے اس چنوتی کے حل کے لیے سولر انرجی کا انتخاب کیا۔ یہاں بنجر زمین اور کئی بلڈنگوں پر سولر پینلز لگائے گئے۔ ان پینلز سے، دیو میں دن کے وقت جتنی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے زیادہ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سولر پروجیکٹ سے، بجلی خرید پر خرچ ہونے والے تقریباً 52 کروڑ روپے بھی بچے ہیں۔ اس سے ماحولیات کی بھی بڑی حفاظت ہوئی ہے۔
ساتھیو، پونے اور دیو انہوں ے جو کر دکھایا ہے، ایسی کوششیں ملک بھر میں کئی اور جگہوں پر بھی ہو رہی ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیات اور فطرت کو لے کر ہم ہندوستانی کتنے حساس ہیں، اور ہمارا ملک کس طرح مستقبل کی نسل کے لیے بہت بیدار ہے۔ میں اس قسم کی تمام کوششوں کی تہ دل سے تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں وقت کے ساتھ، حالات کے مطابق، متعدد روایات پروان چڑھی ہیں۔ یہی روایات، ہماری ثقافت کی صلاحیت بڑھاتی ہے اور اسے ہمیشہ طاقت بھی بخشتی ہے۔ کچھ مہینے پہلے ایسی ہی ایک روایت شروع ہوئی کاشی میں۔ کاشی-تمل سنگمم کے دوران، کاشی اور تمل علاقے کے درمیان صدیوں سے چلے آ رہے تاریخی اور ثقافتی رشتوں کو سیلیبریٹ کیا گیا۔ ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کا جذبہ ہمارے ملک کو مضبوط دیتا ہے۔ ہم جب ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہیں، سیکھتے ہیں، تو اتحاد کا یہ جذبہ اور مضبوط ہوتا ہے۔ اتحاد کے اسی جذبہ کے ساتھ اگلے مہینے گجرات کے مختلف حصوں میں ’سوراشٹر-تمل سنگمم‘ ہونے جا رہا ہے۔ ’سوراشٹر-تمل سنگمم‘ 17 سے 30 اپریل تک چلے گا۔ ’من کی بات‘ کے کچھ سامعین ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ گجرات کے سوراشٹر کا تمل ناڈو سے کیا تعلق ہے؟ دراصل، صدیوں پہلے سوراشٹر کے کئی لوگ تمل ناڈو کے الگ الگ حصوں میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ لوگ آجب ھی ’سوراشٹری تمل‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے کھان پان، رہن سہن، سماجی اخلاقیات میں آج بھی کچھ کچھ سوراشٹر کی جھلک مل جاتی ہے۔ مجھے اس پروگرام کو لے کر تمل ناڈو سے بہت سے لوگوں نے سراہنا بھرے خط لکھے ہیں۔ مدورئی میں رہنے والے جے چندرن جی نے ایک بڑی ہی جذباتی بات لکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہزار سال کے بعد، پہلی بار کسی نے سوراشٹر تمل کے ان رشتوں کے بارے میں سوچا ہے، سوراشٹر سے تمل ناڈو آ کر آباد ہوئے لوگوں کو پوچھا ہے۔‘‘ جے چندرن جی کی باتیں، ہزاروں تمل بھائی بہنوں کے دل کی بات ہے۔
ساتھیو، ’من کی بات‘ کے سامعین کو میں آسام سے جڑی ہوئی ایک خبر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ بھی ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبہ کو مضبوط کرتی ہے۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہم ویر لاست بورپھوکن جی کی 400ویں جینتی منا رہے ہیں۔ ویر لاست بورپھوکن نے ظالم مغل سطنت کے ہاتھوں سے گوہاٹی کو آزاد کروایا تھا۔ آج ملک، اس عظیم جانباز کی بے پناہ شجاعت سے متعارف ہو رہا ہے۔ کچھ دن پہلے لاست بورپھوکن کی زندگی پر مبنی مضمون نگاری کی ایک مہم چلائی گئی تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس کے لیے تقریباً 45 لاکھ لوگوں نے مضمون بھیجے۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ اب یہ ایک گنیز ریکارڈ بن چکا ہے۔ اور سب سے بڑی بات ہے اور جو زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ویر لاست بورپھوکن پر یہ جو مضامین لکھے گئے ہیں،اس میں قریب قریب 23 الگ الگ زبانوں میں لکھا گیا ہے اور لوگوں نے بھیجا ہے۔ ان میں، آسامی زبان کے علاوہ، ہندی، انگریزی، بنگالی، بوڈو، نیپالی، سنسکرت، سنتھالی جیسی زبانوں میں لوگوں نے مضمون بھیجے ہیں۔ میں اس کوشش کا حصہ بنے سبھی لوگوں کی دل سے تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کشمیر یا سرینگر کی بات ہوتی ہے، تو سب سے پہلے ہمارے سامنے اس کی وادیاں اور ڈل جھیل کی تصویر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی ڈل جھیل کے نظاروں کا لطف اٹھانا چاہتا ہے، لیکن ڈل جھیل میں ایک اور بات خاص ہے۔ ڈل جھیل، اپنے ذائقہ دار لوٹس اسٹیمس – کمل کے تنوں یا کمل ککڑی کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ کمل کے تنوں کو ملک میں الگ الگ جگہ، الگ الگ نام سے، جانتے ہیں۔ کشمیر میں انہیں نادرو کہتے ہیں۔ کشمیر کے نادرو کی ڈیمانڈ لگاتار بڑھ رہی ہے۔ اس ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے ڈل جھیل میں نادرو کی کھیتی کرنے والے کسانوں نے ایک ایف پی او بنایا ہے اس ایف پی او می تقریباً 250 کسان شامل ہوئے ہیں۔ آج یہ کسان اپنے نادرو کو بیرونی ممالک تک بھیجنے لگے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ان کسانوں نے دو کھیپ یو اے ای بھیجی ہے۔ یہ کامیابی کشمیر کا نام تو کر ہی رہی ہے، ساتھ ہی اس سے سینکڑوں کسانوں کی آمدنی بھی بڑھی ہے۔
ساتھیو، کشمیر کے لوگوں کا زراعت سے ہی جڑئی ہوئی ایک اور کوشش ان دنوں اپنی کامیابی کی خوشبو پھیلا رہی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کامیابی کی خوشبو کیوں بول رہا ہوں – بات ہے ہی خوشبو کی! دراصل، جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں ایک قصبہ ہے ’بھدرواہ‘! یہاں کے کسان دہائیوں سے مکئی کی روایتی کھیتی کرتے آ رہے تھے، لیکن کچھ کسانوں نے کچھ الگ کرنے کی سوچی۔ انہوں نے فلوری کلچر، یعنی پھولوں کی کھیتی کا رخ کیا۔ آج یہاں کے تقریباً 25 سو کسان (ڈھائی ہزار کسان) لیونڈر کی کھیتی کر رہے ہیں۔ انہیں مرکزی حکومت کے ایروما مشن سے مدد بھی ملی ہے۔ اس نئی کھیتی نے کسانوں کی آمدنی میں بڑا اضافہ کیا ہے، اور آج لیونڈر کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابی کی خوشبو بھی دور دور تک پھیل رہی ہے۔
ساتھیو، جب کشمیر کی بات ہو، کمل کی بات ہو، پھول کی بات ہو، خوشبو کی بات ہو، تو کمل کے پھول پر تشریف فرما ماں شاردا کی یاد آنا بہت فطری ہے۔ کچھ دن پہلے ہی کپواڑہ میں ماں شاردا کے عالیشان مندر کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ مندر اسی راستے پر بنا ہے، جہاں سے کبھی شاردا پیٹھ کے درشنوں کے لیے جایا کرتے تھے مقامی لوگوں نے اس مندر کی تعمیر میں بہت مدد کی ہے۔ میں، جموں کشمیر کے لوگوں کو اس نیک کام کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں بس اتنا ہی۔ اگلی بار، آپ سے ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ میں ملاقات ہوگی۔ آپ سبھی، اپنے مشورے ضرور بھیجئے۔ مارچ کے اس مہینہ میں، ہم ہولی سے لے کر نوراتری تک، کئی پرو اور تہواروں میں مصروف رہے ہیں۔ رمضان کا مقدس مہینہ بھی شروع ہو چکا ہے اگلے کچھ دنوں میں شری رام نومی کا مہا پرو بھی آنے والا ہے۔ اس کے بعد مہاویر جینتی، گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بھی آئیں گے۔ اپریل کے مہینہ میں ہم بھارت کی دو عظیم شخصیات کی جینتی بھی مناتے ہیں۔ یہ دو عظیم شخصیات ہیں – مہاتما جیوتبا پھلے، اور بابا صاحب امبیڈکر ان دونوں ہی شخصیات نے سماج میں بھید بھاؤ مٹانے کے لیے غیر معمولی تعاون دیا۔ آج، آزادی کے امرت کال میں، ہمیں ایسی عظیم شخصیات سے سیکھنے اور مسلسل ترغیب حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں، اپنے فرائض کو سب سے آگے رکھنا ہے۔ ساتھیو، اس وقت کچھ جگہوں پر کورونا بھی بڑھ رہا ہے۔ اس لیے آپ سبھی کو احتیاط برتنی ہے، صفائی کا بھی دھیان رکھنا ہے۔ اگلے مہینے ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ میں ہم لوگ پھر ملیں گے، تب تک کے لیے مجھے وداع دیجئے۔ شکریہ۔ نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ’من کی بات‘ کے اس 98ویں ایپی سوڈ میں آپ سبھی کے ساتھ جڑ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ سینچری کی طرف بڑھتے اس سفر میں، ’من کی بات‘ کو، آپ سبھی نے، عوامی حصہ داری کے اظہار کا شاندار پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ ہر مہینے، لاکھوں پیغامات میں، کتنے ہی لوگوں کے ’من کی بات‘ مجھ تک پہنچتی ہے۔ آپ، اپنے من کی طاقت تو جانتے ہی ہیں، ویسے ہی، سماج کی طاقت سے کیسے ملک کی طاقت بڑھتی ہے، یہ ہم نے ’من کی بات‘ کے الگ الگ ایپی سوڈ میں دیکھا ہے، سمجھا ہے، اور میں نے محسوس کیا ہے – تسلیم بھی کیا ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہے، جب ہم نے ’من کی بات‘ میں ہندوستان کے روایتی کھیلوں کو ترغیب دینے کی بات کی تھی۔ فوراً اس وقت ملک میں ایک لہر سی اٹھ گئی ہندوستانی کھیلوں سے جڑنے کی، ان میں مشغول ہونے کی، انہیں سیکھنے کی۔ ’من کی بات‘ میں، جب ہندوستانی کھلونوں کی بات ہوئی، تو ملک کے لوگوں نے اسے بھی ہاتھوں ہاتھ فروغ دیا۔ اب تو ہندوستانی کھلونوں کا اتنا کریز ہو گیا ہے کہ ملک کے باہر بھی ان کی ڈیمانڈ بہت بڑھ رہی ہے۔ جب ’من کی بات‘ میں ہم نے اسٹوری ٹیلنگ کی ہندوستانی مہارت پر بات کی، تو ان کی شہرت بھی دور دور تک پہنچ گئی۔ لوگ، زیادہ سے زیادہ ہندوستانی اسٹوری ٹیلنگ کی مہارت کی طرف متوجہ ہونے لگے۔
ساتھیو، آپ کو یاد ہوگا سردار پٹیل کی جینتی یعنی ’ایکتا دیوس‘ کے موقع پر ’من کی بات‘ میں ہم نے تین کمپٹیشنز کی بات کی تھی۔ یہ مقابلے حب الوطنی پر ’گیت‘، ’لوری‘ اور ’رنگولی‘ اس سے جڑی تھیں۔ مجھے، یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے، ملک بھر کے 700 سے زیادہ ضلعوں کے 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا ہے۔ بچے، بڑے، بزرگ، سبھی نے، اس میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور 20 سے زیادہ زبانوں میں اپنی اینٹٹیز بھیجی ہیں۔ ان کمپٹیشنز میں حصہ لینے والے سبھی امیدواروں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ہے۔ آپ میں سے ہر کوئی، اپنے آپ میں، ایک چمپئن ہے، فن کا ماہر ہے۔ آپ سبھی نے یہ دکھایا ہے کہ اپنے ملک کی تکثیریت اور ثقافت کے لیے آپ کے دل میں کتنا پیار ہے۔
ساتھیو، آج اس موقع پر مجھے لتا منگیشکر جی، لتا دیدی کی یاد آنا بہت فطری ہے۔ کیوں کہ جب یہ مقابلہ شروع ہوا تھا، اس دن لتا دیدی نے ٹوئٹ کرکے ملک کے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس روایت سے ضرور جڑیں۔
ساتھیو، لوری رائٹنگ کمپٹیشن میں، پہلا انعام، کرناٹک کے چامراج نگر ضلع کے بی ایم منجو ناتھ جی نے جیتا ہے۔ انہیں یہ انعام کنڑ میں لکھی ان کی لوری ’ملگو کندا‘ کے لیے ملا ہے۔ اسے لکھنے کی ترغیب انہیں اپنی ماں اور دادی کے گائے لوری گیتوں سے ملی۔ آپ اسے سنیں گے تو آپ کو بھی مزہ آئے گا۔
(کنڑ ساؤنڈ کلپ (35 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
’’سو جاؤ، سو جاؤ، بیبی،
میرے سمجھدار لاڈلے، سو جاؤ،
دن چلا گیا ہے اور اندھیرا ہے،
نیند کی دیوی آ جائے گی،
ستاروں کے باغ سے،
خواب کاٹ لائے گی،
سو جاؤ، سو جاؤ،
جو جو…جو…جو
جو جو…جو…جو‘‘
آسام میں کامروپ ضلع کے رہنے والے دنیش گووالا جی نے اس مقابلہ میں سیکنڈ پرائز جیتا ہے۔ انہوں نے جو لوری لکھی ہے، اس میں مقامی مٹی اور میٹل کے برتن بنانے والے کاریگروں کے پاپولر کرافٹ کی چھاپ ہے۔
(آسامی ساؤنڈ کلپ (35 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
کمہار دادا جھولا لے کر آئے ہیں،
جھولے میں بھلا کیا ہے؟
کھول کر دیکھا کمہار کے جھولے کو تو،
جھولے میں تھی پیاری سی کٹوری!
ہماری گڑیا نے کمہار سے پوچھا،
کیسی ہے یہ چھوٹی سی کٹوری!
گیتوں اور لوری کی طرح ہی رنگولی کمپٹیشن بھی کافی مقبول رہا۔ اس میں حصہ لینے والوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت رنگولی بنا کر بھیجی۔ اس میں وِننگ انٹری، پنجاب کے، کمل کمار جی کی رہی۔ انہوں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس اور امر شہید ویر بھگت سنگھ کی بہت ہی خوبصورت رنگولی بنائی۔ مہاراشٹر کے سانگلی کے سچن نریندر اوساری جی نے اپنی رنگولی میں جلیاں والا باغ، اس کا قتل عام اور شہید اودھم سندھ کی بہادری کو پیش کیا۔ گوا کے رہنے والے گرودت وانٹیکر جی نے گاندھی جی کی رنگولی بنائی، جب کہ پڈوچیری کے مالا تلیسوم جی نے بھی آزادی کے کئی عظیم سپاہیوں پر اپنا فوکس رکھا۔ حب الوطنی کے گیت کے مقابلہ میں جیت حاصل کرنے والی ٹی وجے درگا جی آندھرا پردیش کی ہیں۔ انہوں نے تیلگو میں اپنی انٹری بھیجی تھی۔ وہ اپنے علاقے کے مشہور مجاہد آزادی نرسمہا ریڈی گارو جی سے کافی متاثر رہی ہیں۔ آپ بھی سنئے وجے درگا جی کی انٹری کا یہ حصہ
(تیلگو ساؤنڈ کلپ (27 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
ریناڈو صوبہ کے سورج،
اے ویر نرسنگھ!
ہندوستانی جدوجہد آزادی کے تخم ہو، لگام ہو!
انگریزوں کے انصاف سے عاری بے لگام جبرو استحصال کو دیکھ
خون تیرا کھولا اور آگ اُگلا!
ریناڈو صوبہ کے سورج،
اے ویر نرسنگھ!
تیلگو کے بعد، اب میں آپ کو میتھلی میں ایک کلپ سناتا ہوں۔ اسے دیپک وتس جی نے بھیجا ہے۔ انہوں نے بھی اس مقابلہ میں انعام جیتا ہے۔
(میتھلی ساؤنڈ کلپ (30 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
ہندوستان دنیا کی شان ہے بھیا،
اپنا ملک عظیم ہے،
تین جانب سمندر سے گھرا،
شمال میں کیلاش طاقتور ہے،
گنگا، یمنا، کرشنا، کاویری،
کوشی، کملا بلان ہے،
اپنا ملک عظیم ہے بھیا،
ترنگے میں بس جان ہے
ساتھیو، مجھے امید ہے، آپ کو یہ پسند آئی ہوگی۔ مقابلہ میں آئی اس طرح کی اینٹٹیز کی لسٹ بہت لمبی ہے۔ آپ، وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر جا کر انہیں اپنی فیملی کے ساتھ دیکھیں اور سنیں – آپ کو بہت ترغیب ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، بات بنارس کی ہو، شہنائی کی ہو، استاد بسم اللہ خاں جی کی ہو تو ظاہر ہے کہ میرا ذہن اس طرف جائے گا ہی۔ کچھ دن پہلے ’استاد بسم اللہ خاں یوا پرسکار‘ دیے گئے۔ یہ ایوارڈ میوزک اور پرفارمنگ آرٹس کے شعبے میں ابھر رہے باصلاحیت فنکاروں کو دیے جاتے ہیں۔ یہ فن و موسیقی کی دنیا کی مقبولیت کو آگے بڑھانے کے ساتھ ہی اسے تقویت بخشنے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ ان میں، وہ فنکار بھی شامل ہیں جنہوں نے ان انسٹرومنٹ میں نئی جان پھونکی ہے، جن کی مقبولیت وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی تھی۔ اب، آپ سبھی اس ٹیون کو غور سے سنئے…
(ساؤنڈ کلپ (21 سیکنڈ) انسٹرومنٹ – ’سُر سنگار‘، آرٹسٹ – جوائے دیپ مکھرجی)
کیا آپ جانتے ہیں یہ کون سا انسٹرومنٹ ہے؟ ممکن ہے آپ کو پتہ نہ بھی ہو! اس ساز کا نام ’سُر سنگار‘ ہے اور اس دُھن کو تیار کیا ہے جوائے دیپ مکھرجی نے۔ جوائے دیپ جی، استاد بسم اللہ خاں ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے نوجوانوں میں شامل ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کی دُھنوں کو سننا پچھلی 50 اور 60 کی دہائی سے ہی نایاب ہو چکا تھا، لیکن، جوائے دیپ، سرسنگار کو پھر سے پاپولر بنانے میں جی جان سے مصروف ہیں۔ اسی طرح، بہن اُپّلو ناگ منی جی کی کوشش بھی بہت ہی متاثرکن ہے، جنہیں مینڈولن میں کارنیٹک انسٹرومینٹل کے لیے یہ انعام دیا گیا ہے۔ وہیں، سنگرام سنگھ سہاس بھنڈارے جی کو وارکری کیرتن کے لیے یہ انعام ملا ہے۔ اس لسٹ میں صرف موسیقی سے جڑے فنکار ہی نہیں ہیں – وی درگا دیوی جی نے رقص کی ایک قدیم شکل ’کرکٹم‘ کے لیے یہ انعام جیتا ہے۔ اس انعام کے ایک اور فاتح، راج کمار نائک جی نے تلنگانہ کے 31 ضلعوں میں، 101 دن تک چلنے والی پیرنی اوڈیسی کا اہتام کیا تھا۔ آج، لوگ انہیں پیرنی راج کمار کے نام سے جاننے لگے ہیں۔ پیرنی ناٹیم، بھگوان شیو کو پیش کیا گیا ایک رقص ہے، جو کاکتیہ سلطنت کے دور میں کافی مقبول تھا۔ اس سلطنت کی جڑیں آج کے تلنگانہ سے جڑی ہیں۔ ایک دوسرے انعام یافتہ سائیکھم سرچندر سنگھ جی ہیں۔ یہ میتیئی پُنگ انسٹرومنٹ بنانے میں اپنی مہارت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کا منی پور سے ناطہ ہے۔ پورن سنگھ ایک دویانگ فنکار ہیں، جو راجولا- ملوشاہی، نیولی، ہڑکا بول، جاگر جیسی موسیقی کی مختلف شکلوں کو مقبول بنا رہے ہیں۔ انہوں نے ان سے جڑی کئی آڈیو ریکارڈنگ بھی تیار کی ہیں۔ اتراکھنڈ کے فوک میوزک میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرکے پورن سنگھ جی نے کئی انعامات بھی جیتے ہیں۔ وقت محدود ہونے کی وجہ سے، میں یہاں سبھی انعام یافتگان کی باتیں بھلے ہی نہ کر پاؤں، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ ان کے بارے میں ضرور پڑھیں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سبھی فنکار، پرفارمنگ آرٹس کو مزید مقبول بنانے کے لیے گراس روٹس پر سبھی کو ترغیب دیتے رہیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، تیزی سے آگے بڑھتے ہمارے ملک میں ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت کونے کونے میں دکھائی دے رہی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت کو گھر گھر پہنچانے میں الگ الگ ایپس کا بڑا رول ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک ایپ ہے، ای سنجیونی۔ اس ایپ سے ٹیلی کنسلٹیشن، یعنی دور بیٹھے، ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ڈاکٹر سے، اپنی بیماری کے بارے میں صلاح کر سکتے ہیں۔ اس ایپ کا استعمال کرکے اب تک ٹیلی کنسلٹیشن کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ کی عدد کو پار کر گئی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے 10 کروڑ کنسلٹیشنز! مریض اور ڈاکٹر کے ساتھ شاندار ناطہ – یہ بہت بڑی اچیومنٹ ہے۔ اس حصولیابیکے لیے، میں سبھی ڈاکٹروں اور اس سہولت کا فائدہ اٹھانے والے مریضوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہندوستان کے لوگوں نے، ٹیکنالوجی کو کیسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے، یہ اس کی زندہ مثال ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کورونا کے دور میں ای سنجیونی ایپ اس کے ذریعے ٹیلی کنسلٹیشن لوگوں کے لیے ایک بڑی نعمت ثابت ہوئی ہے۔ میرا بھی من ہوا کہ کیوں نہ اس کے بارے میں ’من کی بات‘ میں ہم ایک ڈاکٹر اور ایک مریض سے بات کریں، مذاکرہ کریں اور آپ تک بات کو پہنچائیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ٹیلی کنسلٹیشن لوگوں کے لیے آخر کتنا مؤثر رہا ہے۔ ہمارے ساتھ سکم سے ڈاکٹر مدن منی جی ہیں۔ ڈاکٹر مدن منی جی رہنے والے سکم کے ہی ہیں، لیکن انہوں نے ایم بی بی ایس دھنباد سے کیا اور پھر بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایم ڈی کیا۔ وہ دیہی علاقوں کے سینکڑوں لوگوں کو ٹیلی کنسلٹیشن دے چکے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: نمسکار… نمسکار مدن جی۔
ڈاکٹر مدن منی: جی نمسکار سر۔
جناب وزیر اعظم: میں نریندر مودی بول رہا ہوں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی سر۔
جناب وزیر اعظم: آپ تو بنارس میں پڑھے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی میں بنارس میں پڑھا ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم: آپ کا میڈیکل ایجوکیشن وہیں ہوا۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔
جناب وزیر اعظم: تو جب آپ بنارس میں تھے تب کا بنارس اور آج بدلا ہوا بنارس کبھی دیکھنے گئے کہ نہیں گئے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی وزیر اعظم صاحب میں جا نہیں پایا ہوں جب سے میں واپس سکم آیا ہوں، لیکن میں نے سنا ہے کہ کافی بدل گیا ہے۔
جناب وزیر اعظم: تو کتنے سال ہو گئے آپ کو بنارس چھوڑے؟
ڈاکٹر مدن منی: بنارس 2006 سے چھوڑا ہوا ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم: اوہ… پھر تو آپ کو ضرور جانا چاہیے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔
جناب وزیر اعظم: اچھا، میں نے فون تو اس لیے کیا کہ آپ سکم کے اندر دور افتادہ پہاڑوں میں رہ کر وہاں کے لوگوں کو ٹیلی کنسلٹیشن کی بہت بڑی خدمات دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی۔
جناب وزیر اعظم: میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو آپ کا تجربہ سنانا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی۔
جناب وزیر اعظم: ذرا مجھے بتائیے، کیسا تجربہ رہا؟
ڈاکٹر مدن منی: تجربہ، بہت اچھا رہا وزیر اعظم صاحب۔ کیا ہے کہ سکم میں بہت نزدیک کا جو پی ایچ سی ہے، وہاں جانے کے لیے بھی لوگوں کو گاڑی میں چڑھ کر کم از کم ایک دو سو روپے لے کر جانا پڑتا ہے۔ اور ڈاکٹر ملے، نہیں ملے یہ بھی ایک پرابلم ہے۔ تو ٹیلی کنسلٹیشن کے ذریعے لوگ ہم لوگ سے سیدھے جڑ جاتے ہیں، دور دراز کے لوگ۔ ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر کے جو سی ایچ اوز ہوتے ہیں، وہ لوگ، ہم لوگ سے، کنیکٹ کروا دیتے ہیں۔ اور ہم لوگ کا جو پرانی ان کی بیماری ہے ان کی رپورٹس، ان کا ابھی کا پریزنٹ کنڈیشن ساری چیزیں وہ ہم لوگ کو بتا دیتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: یعنی ڈاکیومنٹ ٹرانسفر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔ ڈاکیومنٹ ٹرانسفر بھی کرتے ہیں اور اگر ٹرانسفر نہیں کر سکے تو وہ پڑھ کے ہم لوگوں کو بتاتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: وہاں کا ویلنس سینٹر کا ڈاکٹر بتاتا ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، ویلنس سینٹر میں جو سی ایچ او رہتا ہے، کمیونٹی ہیلتھ آفیسر۔
جناب وزیر اعظم: اور جو پیشنٹ ہے وہ اپنی پریشانیاں آپ کو سیدھے بتاتا ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، پیشنٹ بھی پریشانی ہم کو بتاتا ہے۔ پھر پرانے ریکارڈز دیکھ کے پھر اگر کوئی نئی چیزیں ہم لوگوں کو جاننا ہے۔ جیسے کسی کا چیسٹ آسلٹیٹ کرنا ہے، اگر ان کو پیر سوجا ہے کہ نہیں؟ اگر سی ایچ او نے نہیں دیکھا ہے تو ہم لوگ اس کو بولتے ہیں کہ جا کر دیکھو سوجن ہے، نہیں ہے، آنکھ دیکھو، اینیمیا ہے کہ نہیں ہے، اس کا اگر کھانسی ہے تو چیسٹ کو آسلٹیٹ کرو اور پتہ کرو کہ وہاں پہ ساؤنڈ ہے کہ نہیں۔
جناب وزیر اعظم: آپ وائس کال سے بات کرتے ہیں یا ویڈیو کال کا بھی استعمال کرتے ہیں؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، ویڈیو کال کا استعمال کرتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: تو آپ پیشنٹ کو بھی، آپ بھی دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: پیشنٹ کو بھی دیکھ پاتے ہیں، جی۔
جناب وزیر اعظم: پیشنٹ کو کیا فیلنگ آتا ہے؟
ڈاکٹر مدن منی: پیشنٹ کو اچھا لگتا ہے کیوں کہ ڈاکٹر کو نزدیک سے وہ دیکھ پاتا ہے۔ اس کو کنفیوزن رہتا ہے کہ اس کا دوا گھٹانا ہے، بڑھانا ہے، کیوں کہ سکم میں زیادہ تر جو پیشنٹ ہوتے ہیں، وہ ڈائبٹیز، ہائپر ٹینشن کے آتے ہیں اور ایک ڈائبٹیز اور ہائپر ٹینشن کے دوا کو چینج کرنے کے لیے اس کو ڈاکٹر سے ملنے کے لیے کتنا دور جانا پڑتا ہے۔ لیکن ٹیلی کنسلٹیشن کے تھرو وہیں مل جاتا ہے اور دوا بھی ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر میں فری ڈرگز انیشیٹو کے تھرو مل جاتا ہے۔ تو وہیں سے دوا بھی لے کر جاتا ہے وہ۔
جناب وزیر اعظم: اچھا مدن منی جی، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پیشنٹ کا ایک مزاج رہتا ہے کہ جب تک وہ ڈاکٹر آتا نہیں ہے، ڈاکٹر دیکھتا نہیں ہے، اس کو اطمینان نہیں ہوتا ہے اور ڈاکٹر کو بھی لگتا ہے ذرا مریض کو دیکھنا پڑے گا، اب وہاں سارا ہی ٹیلی کام میں کنسلٹیشن ہوتاہ ے تو ڈاکٹر کو کیا فیل ہوتاہ ے، پیشنٹ کو کیا فیل ہوتا ہے؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، وہ ہم لوگ کو بھی لگتا ہے کہ اگر پیشنٹ کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر کو دیکھنا چاہیے، تو ہم لوگ کو، جو جو چیزیں دیکھنا ہے وہ ہم لوگ سی ایچ او کو بول کے، ویڈیو میں ہی ہم لوگ دیکھنے کے لیے بولتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو پیشنٹ کو ویڈیو میں ہی نزدیک میں آ کے اس کی جو پریشانیاں ہیں اگر کسی کو جلد کا پرابلم ہے، اسکن کا پرابلم ہے، تو وہ ہم لوگ کو ویڈیو سے ہی دکھا دیتے ہیں۔ تو اطمینان رہتا ہے ان لوگوں کو۔
جناب وزیر اعظم: اور بعد میں اس کا علاج کرنے کے بعد اس کو اطمینان ملتا ہے، کیا تجربہ آتا ہے؟ پیشنٹ ٹھیک ہو رہے ہیں؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، بہت اطمینان ملتا ہے۔ ہم کو بھی اطمینان ملتا ہے سر۔ کیوں کہ میں ابھی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ہوں اور ساتھ ساتھ میں ٹیلی کنسلٹیشن بھی کرتا ہوں تو فائل کے ساتھ ساتھ پیشنٹ کو بھی دیکھنا میرے لیے بہت اچھا، خوشگوار تجربہ رہتاہ ے۔
جناب وزیر اعظم: اوسطاً کتنے پیشنٹ آپ کو ٹیلی کنسلٹیشن کیس آتے ہوں گے؟
ڈاکٹر مدن منی: ابھی تک میں نے 536 پیشنٹ دیکھے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اوہ… یعنی آپ کو کافی اس میں مہارت آ گئی ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، اچھا لگتا ہے دیکھنے میں۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، میں آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آپ سکم کے دور افتادہ جنگلوں میں، پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کی اتنی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ اور خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے دور دراز علاقے میں بھی ٹیکنالوجی کا اتنا بہتر استعمال ہو رہا ہے۔ چلئے، میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
ڈاکٹر مدن منی: تھینک یو۔
ساتھیو، ڈاکٹر مدن منی جی کی باتوں سے صاف ہے کہ ای سنجیونی ایپ کس طرح ان کی مدد کر رہا ہے۔ ڈاکٹر مدن جی کے بعد اب ہم ایک اور مدن جی سے جڑتے ہیں۔ یہ اتر پردیش کے چندولی ضلع کے رہنے والے مدن موہن لال جی ہیں۔ اب یہ بھی اتفاق ہے کہ چندولی بھی بنارس سے سٹا ہوا ہے۔ آئیے، مدن موہن جی سے جانتے ہیں کہ ای سنجیونی کو لے کر ایک مریض کے طور پر ان کا تجربہ کیا رہا ہے؟
جناب وزیر اعظم: مدن موہن جی، پرنام!
مدن موہن جی: نمسکار، نمسکار صاحب۔
جناب وزیر اعظم: نمسکار! اچھا، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ڈائبٹیز کے مریض ہیں۔
مدن موہن جی: جی۔
جناب وزیر اعظم: اور آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ٹیلی کنسلٹیشن کر کر کے اپنی بیماری کے سلسلے میں مدد لیتے ہیں۔
مدن موہن جی: جی۔
جناب وزیر اعظم: ایک پیشنٹ کے ناطے، ایک دردی کے طور پر، میں آپ کے تجربات سننا چاہتا ہوں، تاکہ میں ملک کے شہریوں تک اس بات کو پہنچانا چاہوں کہ آج کی ٹیکنالوجی سے ہمارے گاؤں میں رہنے والے لوگ بھی کس طرح سے اس کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ ذرا بتائیے کیسے کرتے ہیں؟
مدن موہن جی: ایسا ہے سر جی، ہاسپٹیل دور ہیں اور جب ڈائبٹیز ہم کو ہوا تو ہم کو جو ہے 6-5 کلومیٹر دور جا کر کے علاج کروانا پڑتا تھا، دکھانا پڑتا تھا۔ اور جب سے سسٹم آپ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ اسیے ہے کہ ہم اب جاتا ہوں، ہمارا جانچ ہوتا ہے، ہم کو باہر کے ڈاکٹروں سے بات بھی کرا دیتی ہیں اور دوا بھی دے دیتی ہیں۔ اس سے ہم کو بڑا فائدہ ہے اور، اور لوگوں کو بھی فائدہ ہے اس سے۔
جناب وزیر اعظم: تو ایک ہی ڈاکٹر ہر بار آپ کو دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر بدلتے جاتے ہیں؟
مدن موہن جی: جیسے ان کونہیں سمجھ، ڈاکٹر کو دکھا دیتی ہیں۔ وہ ہی بات کرکے دوسرے ڈاکٹر سے ہم سے بات کراتی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اور ڈاکٹر آپ کو جو گائیڈنس دیتے ہیں وہ آپ کو پورا فائدہ ہوتا ہے اس سے۔
مدن موہن جی: ہم کو فائدہ ہوتا ہے۔ ہم کو اس سے بہت بڑا فائدہ ہے۔ اور گاؤں کے لوگوں کو بھی فائدہ اس سے ہے۔ سبھی لوگ وہاں پوچھتے ہیں کہ بھیا ہمارا بی پی ہے، ہمارا شوگر ہے، ٹیسٹ کرو، جانچ کرو، دوا بتاؤ۔ اور پہلے تو 6-5 کلومیٹر دور جاتے تھے، لمبی لائن لگی رہتی تھی، پیتھالوجی میں لائن لگی رہتی تھی۔ ایک ایک دن کا وقت نقصان ہوتا تھا۔
جناب وزیر اعظم: مطلب، آپ کا وقت بھی بچ جاتا ہے۔
مدن موہن جی: اور پیسہ بھی خرچ ہوتا تھا اور یہاں پر مفت خدمات سب ہو رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اچھا، جب آپ اپنے سامنے ڈاکٹر کو ملتے ہیں تو ایک اعتماد بنتا ہے۔ چلو بھائی، ڈاکٹر ہے، انہوں نے میری نبض دیکھ لی ہے، میری آنکھیں دیکھ لی ہیں، میری جیبھ کو بھی چیک کر لیا ہے۔ تو ایک الگ فیلنگ آتا ہے۔ اب یہ ٹیلی کنسلٹیشن کرتے ہیں تو ویسا ہی اطمینان ہوتا ہے آپ کو؟
مدن موہن جی: ہاں، اطمینان ہوتا ہے کہ وہ ہماری نبض پکڑ رہے ہیں، آلہ لگا رہے ہیں، ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے اور ہم کو بڑا طبیعت خوش ہوتا ہے کہ بھئی اتنا اچھا نظام آپ کے ذریعے بنایا گیا ہے کہ جس سے کہ ہم کو یہاں پریشانی سے جانا پڑتا تھا، گاڑی کا کرایہ دینا پڑتا تھا، وہاں لائن لگانا پڑتا تھا۔ اور ساری سہولیات ہم کو گھر بیٹھے بیٹھے مل رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، مدن موہن جی میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات۔ عمر کے اس پڑاؤ پر بھی آپ ٹیکنالوجی کو سیکھتے ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ اوروں کو بھی بتائیے تاکہ لوگوں کا وقت بھی بچ جائے، پیسہ بھی بچ جائے اور ان کو جو بھی رہنمائی ملتی ہے، اس سے دوائیں بھی اچھے طریقے سے ہو سکتی ہیں۔
مدن موہن جی: ہاں، اور کیا۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات مدن موہن جی۔
مدن موہن جی: بنارس کو صاحب آپ نے کاشی وشوناتھ اسٹیشن بنا دیا، ڈیولپمنٹ کر دیا۔ یہ آپ کو مبارکباد ہے ہماری طرف سے۔
جناب وزیر اعظم: میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم نے کیا بنایا جی، بنارس کے لوگوں نے بنارس کو بنایا ہے۔ نہیں تو، ہم تو ماں گنگا کی خدمت کے لیے، ماں گنگا نے بلایا ہے، بس، اور کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے جی، بہت بہت مبارکباد آپ کو۔ پرنام جی۔
مدن موہن جی: نمسکار سر!
جناب وزیر اعظم: نمسکار جی!
ساتھیو، ملک کے عام انسانوں کے لیے، متوسط طبقہ کے لیے، پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے، ای سنجیونی، زندگی کو بچانے والا ایپ بن رہا ہے۔ یہ ہے ہندوستان کے ڈیجیٹل انقلاب کی طاقت۔ اور اس کا اثر آج ہم ہر علاقے میں دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کے یو پی آئی کی طاقت بھی آپ جانتے ہی ہیں۔ دنیا کے کتنے ہی ملک، اس کی طرف راغب ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ہندوستان اور سنگاپور کے درمیان یو پی آئی- پے ناؤ لنک لانچ کیا گیا۔ اب، سنگاپور اور ہندوستان کے لوگ اپنے موبائل فون سے اسی طرح پیسے ٹرانسفر کر رہے ہیں جیسے وہ اپنے اپنے ملک کے اندر کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ لوگوں نے اس کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ہندوستان کا ای سنجیونی ایپ ہو یا پھر یو پی آئی، یہ ایز آف لیونگ کو بڑھانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کسی ملک میں غائب ہو رہی کسی پرندے کی نسل کو، کسی جاندار کو بچا لیا جاتا ہے، تو اس کی پوری دنیا میں چرچہ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی متعدد عظیم روایات بھی ہیں، جو غائب ہو چکی تھیں، لوگوں کے ذہن و دماغ سے ہٹ چکی تھیں، لیکن اب انہیں عوامی حصہ داری کی طاقت سے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو اس کی چرچہ کے لیے ’من کی بات‘ سے بہتر پلیٹ فارم اور کیا ہوگا؟
اب جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں، وہ جان کر واقعی آپ کو بہت خوشی ہوگی، وراثت پر ناز ہوگا۔ امریکہ میں رہنے والے جناب کنچن بنرجی نے وراثت کے تحفظ سے جڑی ایسی ہی ایک مہم کی طرف میری توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، مغربی بنگال میں ہگلی ضلع کے بانس بیریا میں اس مہینہ ’تربینی کمبھو مہوتشو‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں آٹھ لاکھ سے زیادہ عقیدت مند شامل ہوئے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اتنا خاص کیوں ہے؟ خاص اس لیے، کیوں کہ اس روایت کو 700 سال کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ یوں تو یہ روایت ہزاروں سال پرانی ہے لیکن بدقسمتی سے 700 سال پہلے بنگال کے تربینی میں ہونے والا یہ مہوتسو بند ہو گیا تھا۔ اسے آزادی کے بعد شروع کیا جانا چاہیے تھا، لیکن وہ بھی نہیں ہو پایا۔ دو سال پہلے، مقامی لوگ اور ’تربینی کمبھو پاریچالونا شامیتی‘ کے توسط سے، یہ مہوتسو پھر شروع ہوا ہے۔ میں اس کے انعقاد سے جڑے سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ صرف ایک روایت کو ہی زندہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ آپ ہندوستان کی ثقافتی وراثت کی بھی حفاظت کر رہے ہیں۔
ساتھیو، مغربی بنگال میں تربینی کو صدیوں سے ایک مقدم مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کا ذکر مختلف منگل کاویہ، ویشنو ساہتیہ، شاک ادب اور دیگر بنگالی ادبی تخلیقات میں ملتا ہے۔ مختلف تاریخی دستاویزوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہ علاقہ سنسکرت، تعلیم اور ہندوستانی ثقافت کا مرکز تھا۔ کئی سنت اسے ماگھ سنکرانتی میں کمبھ کے اشنان کے لیے مقدس جگہ مانتے ہیں۔ تربینی میں آپ کو کئی گنگا گھاٹ، شیو مندر اور ٹیراکوٹا فن تعمیر سے سجی قدیم عمارتیں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ تربینی کی وراثت کو دوبارہ قائم کرنے اور کمبھ کی روایت کے امتیاز کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے یہاں پچھلے سال کمبھ میلہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ سات صدیوں بعد، تین دن کے کمبھ مہا اشنان اور میلہ نے، اس علاقے میں ایک نئی توانائی پھونکی ہے۔ تین دنوں تک ہر روز ہونے والی گنگا آرتی، رودرابھشیک اور یگیہ میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔ اس بار ہوئے مہوتسو میں مختلف آشرم، مٹھ اور اکھاڑے بھی شامل تھے۔ بنگالی روایات سے جڑے مختلف فنون جیسے کیرتن، باؤل، گوڑیو نرتیہ، سری کھول، پوٹیر گان، چھوؤ ناچ، شام کے پروگراموں میں توجہ کا مرکز بنے تھے۔ ہمارے نوجوانوں کو ملک کے سنہرے ماضی سے جوڑنے کی یہ بہت ہی قابل تعریف کوشش ہے۔ ہندوستان میں ایسی کئی اور پریکٹسز ہیں جنہیں ریوائیو کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے بارے میں ہونے والی گفتگو لوگوں کو اس سمت میں ضرور متوجہ کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، سووچھ بھارت ابھیان نے ہمارے ملک میں عوامی حصہ داری کے معنی ہی بدل دیے ہیں۔ ملک میں کہیں پر بھی کچھ صفائی سے جڑا ہوا ہوتا ہے تو لوگ اس کی جانکاری مجھ تک ضرور پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی میرا دھیان گیا ہے، ہریانہ کے نوجوانوں کے ایک سووچھتا ابھیان پر۔ ہریانہ میں ایک گاؤں ہے دُلہیڑی۔ یہاں کے نوجوانوں نے طے کیا کہ ہمیں بھوانی شہر کو صفائی کے معاملے میں ایک مثال بنانا ہے۔ انہوں نے یوا سووچھتا ایوم جن سیوا سمیتی نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کمیٹی سے جڑے نوجوان صبح 4 بجے بھوانی پہنچ جاتے ہیں۔ شہر کے الگ الگ مقامات پر یہ مل کر صفائی مہم چلاتے ہیں۔ یہ لوگ اب تک شہر کے الگ الگ علاقوں سے کئی ٹن کوڑا صاف کر چکے ہیں۔
ساتھیو، سووچھ بھارت ابھیان کا ایک اہم گوشہ ویسٹ ٹو ویلتھ بھی ہے۔ اوڈیشہ کے کیندر پاڑہ ضلع کی ایک بہن کملا موہرانا ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں۔ اس گروپ کی عورتیں دودھ کی تھیلی اور دوسری پلاسٹک پیکنگ سے ٹوکری اور موبائل اسٹینڈ جیسی کئی چیزیں بناتی ہیں۔ یہ ان کے لیے صفائی کے ساتھ ہی آمدنی کا بھی ایک اچھا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہم اگر ٹھان لیں تو سووچھ بھارت میں اپنا بہت بڑا تعاون دے سکتے ہیں۔ کم از کم پلاسٹک کے بیگ کی جگہ کپڑے کے بیگ کا عہد تو ہم سب کو ہی لینا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے، آپ کا یہ عہد آپ کو کتنا سکون دے گا، اور دوسرے لوگوں کو ضرور آمادہ کرے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے اور آپ نے ساتھ جڑ کر ایک بار پھر کئی حوصلہ افزا موضوعات پر بات کی۔ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کے اسے سنا اور اب اسے دن بھر گنگنائیں گے بھی۔ ہم ملک کی جفاکشی کی جتنی بھی بات کرتے ہیں، اتنی ہی ہمیں توانائی ملتی ہے۔ اسی توانائی کے ساتھ چلتے چلتے آج ہم ’من کی بات‘ کے 98ویں ایپی سوڈ کے مقام تک پہنچ گئے ہیں۔ آج سے کچھ دن بعد ہی ہولی کا تہوار ہے۔ آپ سبھی کو ہولی کی مبارکباد۔ ہمیں، ہمارے تہوار ووکل فار لوکل کے عہد کے ساتھ ہی منانے ہیں۔ اپنے تجربات بھی میرے ساتھ شیئر کرنا نہ بھولئے گا۔ تب تک کے لیے مجھے وداع دیجئے۔ اگلی بار ہم پھر نئے موضوعات پر ساتھ ملیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار!
یہ 2023 کی پہلی 'من کی بات' ہے اور اس کے ساتھ یہ پروگرام کی 97ویں کڑی بھی ہے۔ آپ سب کے ساتھ ایک بار پھر بات چیت کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ہر سال جنوری کے مہینے میں کافی واقعات پیش آتے ہیں۔ اس مہینے، 14 جنوری کے آس پاس، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورے ملک میں تہواروں کی رونق چھائی رہی ۔ ملک نے اپنا یوم جمہوریہ بھی مناتا ہے۔ اس بار بھی یوم جمہوریہ کی تقریبات کے کئی پہلوؤں کی خوب تعریف کی جا رہی ہے۔ جیسلمیر سے پلکت نے مجھے لکھا ہے کہ 26 جنوری کی پریڈ میں کرتویہ پتھ بنانے والے مزدوروں کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ کانپور سے جیا لکھتی ہیں کہ انہیں پریڈ میں شامل جھانکیوں میں بھارتی ثقافت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھ کر بہت لطف آیا۔ خواتین اونٹ سواروں اور سی آر پی ایف کے خواتین دستے کی، جس نے پہلی بار اس پریڈ میں حصہ لیا، کا بھی ستائش کی جا رہی ہے۔
دوستو، دہرادون سے وتسل جی نے مجھے لکھا ہے کہ میں ہمیشہ 25 جنوری کا انتظار کرتا ہوں کیونکہ اس دن پدم ایوارڈز کا اعلان ہوتا ہے اور ایک طرح سے، 25 کی شام 26 جنوری کے لیے میرے جوش و خروش کو بڑھاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو دیئے جانے والے پدم ایوارڈ کے بارے میں اپنے خیالات کو بھی شیئر کیا ہے جنہوں نے بنیادی سطح پر اپنی لگن اور خدمات کے ذریعے یہ ایوارڈ حاصل کیا۔ اس بار پدم ایوارڈ پانے والوں میں قبائلی برادری اور قبائلی زندگی سے وابستہ لوگوں کو اچھی نمائندگی ملی ہے۔ قبائلی زندگی شہروں کی ہلچل سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اس کے چیلنجز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود قبائلی معاشرے اپنی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ قبائلی برادریوں سے متعلق پہلوؤں کے تحفظ اور تحقیق کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ٹوٹو، ہو، کوی، کوی اور منڈا جیسی قبائلی زبانوں پر کام کرنے والی بہت سی عظیم شخصیات کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔ یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے۔ دھنی رام ٹوٹو، جنم سنگھ سویا اور بی رام کرشن ریڈی جی… اب پورا ملک انہیں جان چکا ہے۔ سدھی، جاراوا اور اونگے جیسے قبائلیوں کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کو بھی اس بار اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ جیسے… ہیرا بائی لوبی، رتن چندر کار اور ایشور چندر ورما جی۔ قبائلی برادریاں ہماری سرزمین، ہمارے ورثے کا اٹوٹ حصہ رہی ہیں۔ ملک اور معاشرے کی ترقی میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔ ان کے لیے کام کرنے والی شخصیات کو عزت افزائی سے نئی نسل کو بھی حوصلہ ملے گا۔ اس سال پدم ایوارڈز کی بازگشت ان علاقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے جو پہلے نکسلیوں متاثر ہوا کرتے تھے۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے نکسلیوں سے متاثرہ علاقوں میں گمراہ نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے والوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس کے لیے کانکیر میں لکڑی کی نقاشی کرنے والے اجے کمار منڈاوی اور گڈچرولی کی مشہور جھاڑی پٹی رنگ بھومی سے وابستہ پرشورام کوماجی کھنے کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح، رامکویوانگبے نیومے، بکرم بہادر جماعتیہ اور کرما وانگچو کو، جو شمال مشرق میں اپنی ثقافت کے تحفظ میں مصروف ہیں، بھی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
دوستو، اس بار پدم ایوارڈز سے نوازے جانے والوں میں موسیقی کی دنیا میں زبردست تعاون کرنے والے کئی لوگ شامل ہیں۔ موسیقی کس کو پسند نہیں؟ موسیقی کے لیے ہر ایک کا انتخاب مختلف ہو سکتا ہے، لیکن موسیقی ہر ایک کی زندگی کا حصہ ہے۔ اس بار پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو ہماری موسیقی کے روایتی آلات جیسے سنتور، بمہم، دوی تارا کی دھن میں مہارت رکھتے ہیں۔ غلام محمد زاز، ماؤ سو-پونگ، ری-سنگھبور کورکا-لانگ، مونی وینکٹپا اور منگل کانتی رائے ان چند ناموں میں شامل ہیں جن کا ہر طرف چرچا ہے۔
دوستو، بہت سے پدم ایوارڈ یافتہ ہمارے درمیان ایسے دوست ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ملک کا سر فخر سے بلند کیا ، اور اپنی زندگیوں کو ’’قوم پہلے‘‘ کے اصول کے لیے وقف کیا۔ وہ اپنے کام میں پوری لگن سے مصروف رہے اور اس کے بدلے کسی اجر کی امید نہ رکھی۔ جن کے لیے وہ کام کر رہے ہیں ان کے چہرے پر اطمینان ہی ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ ایسے سرشار لوگوں کی عزت افزائی کر کے ہم وطنوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ میں یہاں تمام پدم ایوارڈ یافتہ افراد کے نام تو نہیں لے سکتا، لیکن میں آپ سے ضرور گزارش کرتا ہوں کہ ان پدم ایوارڈ یافتہ افراد کی متاثر کن زندگی کے بارے میں تفصیل سے جانیں اور دوسروں کو بھی بتائیں۔
دوستو، آج جب ہم آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران اپنے یوم جمہوریہ پر بات کر رہے ہیں تو میں یہاں ایک دلچسپ کتاب کا بھی ذکر کروں گا۔ اس کتاب میں ایک بہت ہی دلچسپ موضوع پر بات کی گئی ہے جو مجھے چند ہفتے قبل موصول ہوئی تھی۔ اس کتاب کا نام ہے انڈیا - دی مدر آف ڈیموکریسی اور اس میں کئی بہترین مضامین ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور ہم بھارتیوں کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ ہمارا ملک جمہوریت کی ماں ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں ہے، یہ ہماری ثقافت میں ہے - یہ صدیوں سے ہمارے کام کا اٹوٹ حصہ رہی ہے۔ فطرتاً ہم ایک جمہوری معاشرہ ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے بودھ بھکشو یونین کا موازنہ بھارتی پارلیمنٹ سے کیا تھا۔ انہوں نے اسے ایک ایسا ادارہ قرار دیا جہاں تحریکوں، قراردادوں، کورم، ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی کے بہت سے اصول تھے۔ بابا صاحب کا خیال تھا کہ بھگوان بدھ کو اس وقت کے سیاسی نظام سے تحریک ملی ہوگی۔
تمل ناڈو میں ایک چھوٹا لیکن مشہور گاؤں ہے - اترمیرور۔ یہاں 1200-1100 سال پرانا ایک کتبہ ہے جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ایک پتھر پر لکھا یہ کتبہ ایک چھوٹے آئین کی طرح ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ گرام سبھا کا انعقاد کیسے ہونا چاہیے اور اس کے اراکین کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں جمہوری اقدار کی ایک اور مثال 12ویں صدی کے بھگوان بسویشور کا انوبھو منڈپم ہے۔ یہاں آزادانہ بحث ومباحثہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ میگنا کارٹا سے بھی کافی پہلے کا ہے۔ ورنگل کے کاکتیہ خاندان کے بادشاہوں کی جمہوری روایات بھی بہت مشہور تھیں۔ بھکتی تحریک نے مغربی بھارت میں جمہوریت کے کلچر کو آگے بڑھایا۔ کتاب میں سکھ پنتھ کے جمہوری جذبے پر ایک مضمون بھی شامل کیا گیا ہے جو گرو نانک دیو جی کے اتفاق رائے سے لیے گئے فیصلوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کتاب میں وسطی بھارت کے اوراون اور منڈا قبائل میں کمیونٹی پر مبنی اور اتفاق رائے سے چلنے والے فیصلہ سازی کے بارے میں بھی اچھی معلومات ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ کس طرح صدیوں سے ملک کے ہر حصے میں جمہوریت کی روح رواں ہے۔ جمہوریت کی ماں ہونے کے ناطے ہمیں اس موضوع پر مسلسل گہرائی سے سوچنا چاہیے، اس پر بحث کرنی چاہیے اور دنیا کو بھی مطلع کرنا چاہیے۔ اس سے ملک میں جمہوریت کا جذبہ مزید مضبوط ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، اگر میں آپ سے پوچھوں کہ یوگا ڈے اور ہمارے مختلف قسم کے موٹے اناج - جوار میں کیا مشترک ہے، تو آپ سوچیں گے… یہ کیا موازنہ ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ دونوں میں بہت کچھ مشترک ہے تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ حقیقت، اقوام متحدہ نے بھارت کی تجویز کے بعد یوگا کے بین الاقوامی دن اور موٹے اناج کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یوگا کا تعلق صحت سے بھی ہے اور جوار بھی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تیسری چیز زیادہ اہم ہے - دونوں مہمات میں عوامی شرکت کی وجہ سے انقلاب آنے والا ہے۔ جس طرح لوگوں نے بڑے پیمانے پر فعال حصہ لے کر یوگا اور فٹنس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ اسی طرح لوگ بڑے پیمانے پر جوار کو اپنا رہے ہیں۔ لوگ اب باجرے کو اپنی خوراک کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا بہت بڑا اثر بھی نظر آرہا ہے۔ ایک طرف، چھوٹے کسان جو روایتی طور پر باجرا پیدا کرتے تھے، بہت پرجوش ہیں۔ وہ بہت خوش ہیں کہ دنیا اب باجرے کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہے۔ دوسری طرف، ایف پی اوز اور تاجروں نے باجرے کی مارکیٹنگ اور انہیں لوگوں تک پہنچانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
آندھرا پردیش کے نندیال ضلع کا رہنے والا کے وی راما سبا ریڈی جی نے باجرے کی خاطر اچھی تنخواہ والی نوکری چھوڑ دی۔ اپنی والدہ کے ہاتھوں سے بنائے گئے باجرے کا ذائقہ ایسا تھا کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں باجرا پروسیسنگ یونٹ شروع کیا۔ سبا ریڈی جی لوگوں کو باجرے کے فوائد بھی بتاتے ہیں اور اسے آسانی سے دستیاب بھی کراتے ہیں۔ مہاراشٹر کے علی باغ کے قریب کناڈ گاؤں کی رہنے والی شرمیلا اوسوال گزشتہ 20 سالوں سے باجرے کی پیداوار میں منفرد انداز میں اپنا تعاون دے رہی ہیں۔ وہ کسانوں کو اسمارٹ زراعت کی تربیت فراہم کر رہی ہے۔ ان کی کوششوں سے نہ صرف باجرے کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگر آپ کو چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ جانے کا موقع ملے تو آپ کو یہاں ملٹس کیفے ضرور جانا چاہیے۔ چند ماہ قبل شروع ہونے والے اس ملیٹس کیفے میں چِلا، ڈوسا، موموز، پیزا اور منچورین جیسی اشیا بہت مقبول ہو رہی ہیں۔
کیا میں آپ سے ایک اور بات پوچھ سکتا ہوں؟ آپ نے لفظ انٹرپرینیور تو سنا ہوگا، لیکن کیا آپ نے میلیٹ پرینیورس سنا ہے؟ ان دنوں اوڈیشہ کے میلیت پرینیور سرخیوں میں ہیں۔ قبائلی ضلع سندر گڑھ کی تقریباً 1500 خواتین کا ایک خود امدادی گروپ اوڈیشہ ملیٹس مشن سے وابستہ ہے۔ یہاں خواتین باجرے سے لے کر کوکیز، رسگلہ، گلاب جامن اور یہاں تک کہ کیک وغیرہ بھی بنا رہی ہیں۔ مارکیٹ میں ان کی بہت زیادہ مانگ کی وجہ سے خواتین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
الند بھوتائی ملیٹس فارمرز پروڈیوسر کمپنی نے گزشتہ سال کرناٹک کے کلبرگی میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ملٹس ریسرچ کی نگرانی میں کام شروع کیا۔ لوگ یہاں کے کھاکرا، بسکٹ اور لڈو بہت پسند کر رہے ہیں۔ کرناٹک کے بیدر ضلع میں، ہلسور ملیٹ پروڈیوسر کمپنی سے وابستہ خواتین جوار کی کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا آٹا بھی تیار کر رہی ہیں۔ اس کے ذریعے ان کی آمدنی میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ قدرتی کھیتی سے وابستہ چھتیس گڑھ کے سندیپ شرما کے ایف پی او میں 12 ریاستوں کے کسان شامل ہوئے ہیں۔ بلاس پور کا یہ ایف پی او 8 قسم کے موٹے اناجوں کا آٹا اور ان کے پکوان تیار کر رہا ہے۔
دوستو، آج بھارت کے کونے کونے میں جی -20 سربراہی اجلاس کی تقریبات جاری ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ملک کے کونے کونے میں جہاں بھی جی -20 سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، اس میں جوار سے تیار کردہ غذائیت سے بھرپور اور لذیذ پکوان شامل ہیں۔ باجرے کی کھچڑی، پوہا، کھیر اور روٹی کے ساتھ ساتھ راگی پر مبنی پیاسم، پوری اور ڈوسا جیسے پکوان بھی یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ جی 20 کے تمام مقامات پر جوار کی نمائشوں میں صحت سے متعلق مشروبات، اناج اور جوار سے بنائے گئے نوڈلز کی نمائش کی گئی۔ دنیا بھر میں بھارتی مشن بھی اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے بہت کوششیں کر رہے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کی یہ کوشش اور دنیا میں جوار کی بڑھتی ہوئی مانگ ہمارے چھوٹے کسانوں کو تقویت دینے والی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ آج کل موٹے اناجوں سے مختلف قسم کی نئی چیزیں بننا شروع ہو گئی ہیں جو نوجوان نسل میں یکساں طور پر پسند کی جا رہی ہیں۔ میں 'من کی بات' کے سننے والوں کو موٹے اناجوں کے بین الاقوامی دن کی اتنی شاندار آغاز اور اسے مسلسل آگے بڑھانے کے لیے بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کوئی سیاحوں کے مرکز گوا کے بارے میں بات کرتا ہے تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟
قدرتی طور پر، جیسے ہی گوا کا نام لیا جاتا ہے؛ سب سے پہلے، خوبصورت ساحل، ساحل اور پسندیدہ کھانے کی اشیاء ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن اس مہینے گوا میں کچھ ایسا ہوا، جو سرخیوں میں ہے۔ آج 'من کی بات' میں، میں یہ آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ واقعہ گوا - پرپل فیسٹ میں پیش آیا۔ اس فیسٹیول کا اہتمام پانا جی میں 6 سے 8 جنوری تک کیا گیا تھا۔ دیویانگوں کی فلاح و بہبود کے لیے یہ اپنے آپ میں ایک منفرد کوشش تھی۔ پرپل فیسٹیول کتنا بڑا موقع تھا، آپ سب اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں ہمارے 50 ہزار سے زیادہ بھائی بہنوں نے شرکت کی۔ یہاں آنے والے لوگ اس حقیقت کے بارے میں بہت پرجوش تھے کہ اب وہ 'میرامار بیچ' کا بھرپور لطف اٹھا سکتے ہیں۔ درحقیقت، 'میرامار بیچ' ہمارے دیویانگ بھائیوں اور بہنوں کے لیے گوا کے قابل رسائی ساحلوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ یہاں کرکٹ ٹورنامنٹ، ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ، میراتھن مقابلے کے ساتھ ساتھ ایک بہرے اور نابینا افراد کے کنونشن کا بھی انعقاد کیا گیا۔ منفرد برڈ واچنگ پروگرام کے علاوہ یہاں ایک فلم بھی دکھائی گئی۔ اس کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے، تاکہ ہمارے تمام دیویانگ بھائی بہن اور بچے اس سے بھرپور لطف اندوز ہوسکیں۔
پرپل فیسٹیول کی ایک خاص بات اس میں ملک کے نجی شعبے کی شرکت تھی۔ ان کی جانب سے دیویانگوں دوست مصنوعات کی نمائش کی گئی۔ دیویانگوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اس فیسٹیول میں بہت سی کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ پرپل فیسٹ کو کامیاب بنانے کے لیے، میں اس میں حصہ لینے والے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اس کے ساتھ میں ان رضاکاروں کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اس کو منظم کرنے کے لیے دن رات کام کیا۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ ایسی مہمات قابل رسائی بھارت کے ہمارے وژن کو عملی جامہ پہنانے میں بہت کارآمد ثابت ہوں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب 'من کی بات' میں میں ایک ایسے موضوع پر بات کروں گا، جس میں آپ کو خوشی اور فخر محسوس ہوگا اور آپ کا دماغ کہے گا - واہ کیا بات ہے! ملک کے قدیم ترین سائنسی اداروں میں سے ایک، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور، یعنی آئی آئی ایس سی، ایک شاندار مثال پیش کر رہا ہے۔ 'من کی بات' میں، میں نے پہلے کہا تھا کہ کس طرح بھارت کی دو عظیم شخصیاتوں جمشید جی ٹاٹا اور سوامی وویکانند اس ادارے کے قیام کے پیچھے محرک رہے ہیں اور ہمارے لیے خوشی اور فخر کی بات یہ ہے کہ سال 2022 میں اس ادارے کے نام کل 145 پیٹنٹ ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے - ہر پانچ دن میں دو پیٹنٹ۔ یہ ریکارڈ اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے۔ میں اس کامیابی پر آئی آئی ایس سی کی ٹیم کو بھی مبارکباد دینا چاہوں گا۔ دوستو، آج بھارت کی درجہ بندی پیٹنٹ فائلنگ میں 7ویں اور ٹریڈ مارکس میں 5ویں نمبر پر ہے۔ صرف پیٹنٹ کی بات کریں تو پچھلے پانچ سالوں میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس میں بھی بھارت کی رینکنگ میں زبردست بہتری آئی ہے اور اب وہ 40ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے، جب کہ 2015 میں بھارت گلوبل انوویشن انڈیکس میں 80ویں پوزیشن سے بھی پیچھے تھا۔ میں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتانا چاہتا ہوں۔ بھارت میں گزشتہ 11 سالوں میں پہلی بار گھریلو پیٹنٹ فائلنگ کی تعداد غیر ملکی فائلنگ سے زیادہ دیکھی گئی۔ یہ بھارت کی بڑھتی ہوئی سائنسی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
دوستو، ہم سب جانتے ہیں کہ 21ویں صدی کی عالمی معیشت میں علم سب سے اہم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے ٹیک ایڈ کا خواب یقینی طور پر ہمارے اختراع کاروں اور ان کے پیٹنٹ کی طاقت سے پورا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے ملک میں تیار کردہ عالمی معیار کی ٹیکنالوجی اور مصنوعات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، میں نے نمو ایپ پر تلنگانہ کے انجینئر وجے جی کی ایک پوسٹ دیکھی۔ اس میں وجے جی نے ای ویسٹ کے بارے میں لکھا ہے۔ وجے جی درخواست کرتے ہیں کہ میں 'من کی بات' میں اس پر تبادلہ خیال کروں۔ اس سے پہلے بھی اس پروگرام میں ہم 'ویسٹ ٹو ویلتھ' یعنی 'کچرے سے کنچن' کے بارے میں بات کر چکے ہیں، لیکن آئیے، آج اس سے متعلق ای ویسٹ پر بات کرتے ہیں۔
دوستو! آج موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ جیسے آلات ہر گھر میں عام ہو چکے ہیں۔ ان کی تعداد ملک بھر میں اربوں میں ہوگی۔ آج کے جدید ترین آلات بھی مستقبل کا ای ویسٹ ہیں۔ جب بھی کوئی نیا ڈیوائس خریدتا ہے یا کسی کی پرانی ڈیوائس کو تبدیل کرتا ہے تو یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ آیا اسے صحیح طریقے سے ضائع کیا گیا ہے یا نہیں۔ اگر ای ویسٹ کو صحیح طریقے سے ٹھکانے نہ لگایا جائے تو یہ ہمارے ماحولیات کے لیے نقصادن دہ ہو سکتا ہے۔ لیکن، اگر یہ کام احتیاط سے کیا جائے، تو یہ ری سائیکل اور دوبارہ استعمال کی سرکلر معیشت کی ایک بڑی قوت بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر سال 50 ملین ٹن ای ویسٹ پھینکا جاتا ہے۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا؟ اگر بنی نوع انسان کی تاریخ میں بنائے گئے تمام تجارتی طیاروں کا وزن بھی ملایا جائے تو یہ ای ویسٹ کی مقدار کے برابر نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ہے جیسے ہر ایک سیکنڈ میں 800 لیپ ٹاپ پھینکے جا رہے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اس ای ویسٹ سے تقریباً 17 قسم کی قیمتی دھاتیں مختلف عمل کے ذریعے نکالی جا سکتی ہیں۔ اس میں سونا، چاندی، تانبا اور نکل شامل ہیں، اس لیے ای ویسٹ کا استعمال 'کچرے کو کنچن' بنانے سے کم نہیں ہے۔ آج ایسے اسٹارٹ اپس کی کمی نہیں ہے جو اس سمت میں اختراعی کام کررہے ہیں۔ اس وقت تقریباً 500 ای ویسٹ ری سائیکلرز اس شعبے سے وابستہ ہیں اور بہت سے نئے کاروباری افراد بھی اس سے منسلک ہو رہے ہیں۔ اس شعبے نے ہزاروں لوگوں کو براہ راست روزگار بھی دیا ہے۔ بنگلورو کا ای پرسارا ایسی ہی ایک کوشش میں مصروف ہے۔ اس نے پرنٹڈ سرکٹ بورڈز سے قیمتی دھاتیں نکالنے کے لیے ایک دیسی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔
اسی طرح ممبئی میں کام کرنے والی ایکو ریکو نے موبائل ایپ کے ذریعے ای ویسٹ کو جمع کرنے کا ایک نظام تیار کیا ہے۔ اتراکھنڈ کے روڑکی میں اٹیرو ری سائیکلنگ نے دنیا بھر میں اس شعبے میں کئی پیٹنٹ حاصل کیے ہیں۔ اس نے اپنی ای ویسٹ ری سائیکلنگ ٹیکنالوجی تیار کرکے بہت سارے ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں۔ بھوپال میں ایک موبائل ایپ اور ویب سائٹ 'کباڑی والا' کے ذریعے ٹن ای ویسٹ جمع کیا جا رہا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہ سب بھارت کو عالمی ری سائیکلنگ کا مرکز بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔ لیکن، اس طرح کے اقدامات کی کامیابی کے لیے ایک لازمی شرط بھی ہے - یعنی لوگوں کو ای ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے محفوظ مفید طریقوں کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ ای ویسٹ کے شعبے میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ فی الحال ہر سال صرف 15 سے 17 فیصد ای ویسٹ کو ہی ری سائیکل کیا جا رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے بارے میں بہت بات ہو رہی ہے۔ ہم اس سمت میں بھارت کی ٹھوس کوششوں کے بارے میں مسلسل بات کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوگی کہ بھارت نے اپنی آبی زمینوں کے لیے کیا کیا ہے۔ کچھ سامعین سوچ رہے ہوں گے کہ گیلی زمینیں کیا ہیں؟ 'ویٹ لینڈ سائٹس' سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں دلدلی مٹی جیسی زمین پر سال بھر پانی جمع رہتا ہے۔ کچھ دنوں بعد، 2 فروری کو، یہ عالمی ویٹ لینڈ ڈے منایا جائے گا۔ ویٹ لینڈز یا آبی ذخائر ہماری زمین کے وجود کے لیے بہت اہم ہیں، کیونکہ بہت سے پرندے اور جانور ان پر انحصار کرتے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کی افزودگی کے ساتھ، وہ سیلاب پر قابو پانے اور زمینی پانی کے ریچارج کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ رامسر سائٹس ایسی آبی ذخائر ہیں جس کی بین الاقوامی اہمیتہے۔ ویٹ لینڈز کسی بھی ملک میں ہو سکتی ہیں۔ لیکن انہیں بہت سے معیارات پورے کرنے ہوں گے۔ تب ہی انہیں رامسر سائٹس قرار دیا جاتا ہے۔ رامسر سائٹس میں 20,000 یا اس سے زیادہ آبی پرندے ہونے چاہئیں۔ مقامی مچھلیوں کی بڑی تعداد کا ہونا ضروری ہے۔ امرت مہوتسو کے دوران آزادی کے 75 سال پر، میں رامسر سائٹس سے متعلق کچھ اچھی معلومات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اب ہمارے ملک میں رامسر سائٹس کی کل تعداد بڑھ کر 75 ہو گئی ہے، جب کہ 2014 سے پہلے ملک میں صرف 26 رامسر سائٹس تھیں۔ اس کے لیے مقامی کمیونٹی مبارکباد کی مستحق ہے، جنہوں نے اس حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھا ہے۔ یہ ہماری قدیم ثقافت اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی روایت کو بھی خراج تحسین ہے۔ بھارت کی یہ آبی ذکائر بھی ہماری قدرتی صلاحیت کی ایک مثال ہیں۔ اڈیشہ کی چیلکا جھیل 40 سے زیادہ آبی پرندوں کی انواع کو پناہ دینے کے لیے جانی جاتی ہے۔ کائبول –لامجا، لوکتک کو دلدلی ہرن کا واحد قدرتی مسکن سمجھا جاتا ہے۔
تمل ناڈو کے ویدانتھنگل کو 2022 میں رامسر سائٹ قرار دیا گیا تھا۔ یہاں پرندوں کی آبادی کو محفوظ رکھنے کا سارا سہرا آس پاس کے کسانوں کے سر جاتا ہے۔ کشمیر میں پنجات ناگ برادری سالانہ پھلوں کے پھلنے کے تہوار کے دوران گاؤں کے موسم بہار کی صفائی میں خاص طور پر ایک دن گزارتی ہے۔ زیادہ تر ورڈز رامسر سائٹس کا بھی ایک منفرد ثقافتی ورثہ ہے۔ منی پور کی ثقافتوں کا لوکتک اور مقدس جھیل رینوکا سے گہرا تعلق ہے۔ اسی طرح سامبھر کا تعلق شکمبھری دیوی سے بھی ہے، جو ماں درگا کے اوتار ہیں۔ بھارت میں آبی ذخائر کی توسیع رامسر سائٹس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی وجہ سے ممکن ہے۔ میں 'من کی بات' کے سننے والوں کی طرف سے ایسے تمام لوگوں کی بہت ستائش کرتا ہوں، اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ہمارے ملک میں، خاص کر شمالی بھارت میں سخت سردی تھی۔ اس سردی میں لوگوں نے پہاڑوں پر برف باری کا بھی مزہ لیا۔ جموں و کشمیر سے کچھ ایسی تصویریں سامنے آئیں جنہوں نے پورے ملک کے دل موہ لیے۔ سوشل میڈیا پر دنیا بھر سے لوگ ان تصاویر کو پسند کر رہے ہیں۔ برف باری کی وجہ سے ہماری وادی کشمیر ہر سال کی طرح اس بار بھی بہت خوبصورت ہو گئی ہے۔ لوگ خاص طور پر بانہال سے بڈگام جانے والی ٹرین کی ویڈیو کو بھی پسند کر رہے ہیں۔ خوبصورت برف باری، چاروں طرف برف جیسی سفید چادر۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ منظر پریوں کی کہانی لگتا ہے! بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کسی بیرونی ملک کی نہیں، ہمارے اپنے ملک کے کشمیر کی تصویریں ہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا - 'اس جنت سے زیادہ خوبصورت اور کیا ہوگا؟' یہ بالکل درست ہے- اسی لیے کشمیر کو زمین پر جنت کہا جاتا ہے۔ یہ تصاویر دیکھ کر آپ بھی کشمیر کی سیر پر جانے کا سوچ رہے ہوں گے۔ میں چاہوں گا کہ آپ خود وہاں جائیں اور اپنے دوستوں کو ساتھ لے جائیں۔ کشمیر میں برف پوش پہاڑ، قدرتی حسن کے ساتھ؛ دیکھنے اور جاننے کے لیے اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر، کشمیر کے سید آباد میں سرمائی کھیلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان گیمز کا تھیم تھا - اسنو کرکٹ! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسنو کرکٹ ایک بہت ہی دلچسپ کھیل ہو گا - اور آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
کشمیری نوجوانوں نے برف میں کرکٹ کو مزید حیرت انگیز بنا دیا۔ اس کے ذریعے کشمیر میں نوجوان کھلاڑیوں کی بھی تلاش ہے، جو بعد میں ٹیم انڈیا کے طور پر کھیلیں گے۔ ایک طرح سے یہ کھیلو انڈیا تحریک کی توسیع بھی ہے۔ کشمیر میں نوجوانوں میں کھیلوں کے حوالے سے کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ آنے والے وقتوں میں ان میں سے بہت سے نوجوان ملک کے لیے تمغے جیتیں گے، اور ترنگا لہرائیں گے۔ میں تجویز کروں گا کہ اگلی بار جب آپ کشمیر کے دورے کا ارادہ کریں تو اس طرح کے پروگراموں کو دیکھنے کے لیے وقت نکالیں۔ یہ تجربات آپ کے سفر کو مزید یادگار بنا دیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اپنی جمہوریہ کو مضبوط بنانے کی ہماری کوششوں کو مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ جمہوریت 'عوامی شرکت سے'، 'سب کی کوشش سے'، 'ملک کے تئیں اپنے فرائض کی انجام دہی سے' مضبوط ہوتی ہے، اور مجھے اطمینان ہے کہ ہماری 'من کی بات' ایسے فرض شناس لوگوں کی مضبوط آواز ہے۔ ہم اگلی بار ایسے ہی سرشار لوگوں کی دلچسپ اور متاثر کن کہانیوں کے ساتھ پھر ملیں۔
بہت بہت شکریہ!
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ آج ہم من کی بات کے چھیانوے (96) ایپیسوڈ میں شامل ہو رہے ہیں۔ 'من کی بات' کا اگلا ایپی سوڈ سال 2023 کا پہلا ایپی سوڈ ہو گا ۔ آپ لوگوں کے بھیجے گئے پیغامات کو دیکھتے ہوئے ، آپ نے 2022 ء کے بارے میں بات کرنے کو کہا ہے ۔ ماضی کا مشاہدہ ہمیشہ ہمیں حال اور مستقبل کی تیاریوں کے لیے تحریک دیتا ہے۔ 2022 ء میں ملک کے لوگوں کی صلاحیت، ان کا تعاون، ان کا عزم، ان کی کامیابی اتنی زیادہ تھی کہ ان سب کو 'من کی بات' میں شامل کرنا مشکل ہو گا۔ 2022 ء واقعی بہت متاثر کن، بہت سے طریقوں سے شاندار رہا ہے۔ اس سال بھارت نے اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کیے اور اسی سال امرت کال کا آغاز ہوا۔ اس سال ملک نے نئی رفتار پکڑی، تمام اہل وطن نے ایک سے بڑھ کر ایک کام کیا۔ 2022 ء کی مختلف کامیابیوں نے ، آج پوری دنیا میں بھارت کے لیے ایک خاص مقام بنایا ہے۔ 2022 ء یعنی بھارت کا دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل کرنا ، لوگوں کے ذریعہ 'خود کفیل بھارت ' کی قرارداد کو اپنانا، اسے جینا، 2022 ء کا مطلب ہے بھارت کے پہلے مقامی طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کا خیرمقدم کرنا، 2022 ء کا مطلب ہے خلا، ڈرون اور دفاعی شعبے میں بھارت کی شان ، 2022 ء کا مطلب ہر میدان میں بھارت کی کامیابی ہے۔ کھیلوں کے میدان میں بھی، کامن ویلتھ گیمز ہوں یا ہماری خواتین کی ہاکی ٹیم کی جیت، ہمارے نوجوانوں نے زبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا ۔
ساتھیو ، ان سب کے ساتھ ساتھ سال 2022 ء ایک اور وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ 'ایک بھارت-شریشٹھ بھارت' کے جذبے کی توسیع ہے۔ ملک کے لوگوں نے بھی اتحاد اور یکجہتی کا جشن منانے کے لیے بہت سی شاندار تقریبات کا اہتمام کیا۔ گجرات کا مادھو پور میلہ ہو، جہاں رکمنی کی شادی اور بھگوان کرشن کا شمال مشرق سے رشتہ منایا جاتا ہے، یا کاشی تمل سنگم، ان تہواروں میں اتحاد کے کئی رنگ نظر آتے تھے۔ 2022 ء میں اہل وطن نے ایک اور لازوال تاریخ لکھی ہے۔ اگست کے مہینے میں شروع کی گئی 'ہر گھر ترنگا' مہم کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ وہ لمحات تھے ، جب ہر ملک کے باشندے کو خوشی محسوس ہوتی تھی۔ آزادی کے 75 سال کی اس مہم میں پورا ملک ترنگا بن گیا۔ 6 کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ترنگے کے ساتھ سیلفی بھی بھیجی۔ آزادی کا یہ امرت مہوتسو اگلے سال بھی اسی طرح جاری رہے گا - یہ امرت کال کی بنیاد کو مزید مضبوط کرے گا۔
ساتھیو ، اس سال بھارت کو جی – 20 گروپ کی صدارت کی ذمہ داری بھی ملی ہے۔ میں نے پچھلی بار بھی اس پر تفصیل سے بات کی تھی۔ سال 2023 ء میں ہمیں جی – 20 کے جوش کو ایک نئی بلندی پر لے جانا ہے، اس تقریب کو ایک عوامی تحریک بنانا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج کرسمس کا تہوار بھی پوری دنیا میں بڑی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے۔ یہ یسوع مسیح کی زندگی اور تعلیمات کو یاد کرنے کا دن ہے۔ میں آپ سب کو کرسمس کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ، آج اٹل بہاری واجپئی جی کا بھی یوم پیدائش ہے، جو ہم سب کے لیے قابل احترام ہیں۔ وہ ایک عظیم سیاستدان تھے ، جنہوں نے ملک کو غیر معمولی قیادت دی۔ ہر بھارتی کے دل میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ مجھے کولکاتہ سے آستھا جی کا خط ملا ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنے حالیہ دلّی کے دورے کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس دوران ، انہوں نے پی ایم میوزیم کا دورہ کرنے کے لیے وقت نکالا۔ اس میوزیم میں اٹل جی کی گیلری انہیں بہت پسند آئی ۔ اٹل جی کے ساتھ وہاں کلک کی گئی تصویر ان کے لیے یادگار بن گئی ہے۔ اٹل جی کی گیلری میں، ہم ملک کے لیے ، ان کی گرانقدر شراکت کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ ہو، تعلیم ہو یا خارجہ پالیسی، انہوں نے ہر میدان میں بھارت کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا کام کیا۔ میں ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے اٹل جی کو سلام پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو ، کل 26 دسمبر کو 'ویر بال دِوس' ہے اور اس موقع پر مجھے دلّی میں صاحبزادہ زوراوَر سنگھ جی اور صاحبزادہ فتح سنگھ جی کی شہادت کے لیے وقف پروگرام میں شرکت کی سعادت حاصل ہوگی۔ ملک ، صاحبزادے اور ماتا گجری کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہاں کہا جاتا ہے-
ستیم کِم پرامنم، پرتیاکم کِم پرامنم
یعنی سچ کو ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، جو سیدھی ہو ، اسے بھی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جب جدید میڈیکل سائنس کی بات آتی ہے تو سب سے اہم چیز ہے - ثبوت۔ ہمارے صحیفوں جیسے یوگا اور آیوروید کے سامنے ثبوت پر مبنی تحقیق کا فقدان، جو صدیوں سے بھارتی زندگی کا حصہ رہے ہیں، ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے - نتائج نظر آتے ہیں لیکن ثبوت نہیں ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ ثبوت پر مبنی ادویات کے دور میں، اب یوگا اور آیوروید جدید دور کے امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ آپ سب نے ممبئی میں ٹاٹا میموریل سینٹر کے بارے میں سنا ہوگا۔ اس ادارے نے ریسرچ، انوویشن اور کینسر کیئر میں بہت نام کمایا ہے۔ اس مرکز کی جانب سے کی گئی ایک گہری تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یوگا بریسٹ کینسر کے مریضوں کے لیے بہت موثر ہے۔ ٹاٹا میموریل سنٹر نے اپنی تحقیق کے نتائج کو امریکہ میں منعقدہ بریسٹ کینسر کانفرنس میں پیش کیا ہے۔ ان نتائج نے دنیا کے بڑے ماہرین کی توجہ مبذول کرائی ہے کیونکہ ٹاٹا میموریل سینٹر نے ثبوت کے ساتھ بتایا ہے کہ یوگا سے مریضوں کو کس طرح فائدہ ہوا ہے۔ اس مرکز کی تحقیق کے مطابق یوگا کی باقاعدہ مشق سے چھاتی کے کینسر کے مریضوں کے دوبارہ ٹھیک ہونے اور موت کے خطرات میں 15 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ پہلی مثال ہے کہ بھارتی روایتی ادویات کو مغربی طریقوں کے عین مطابق معیار پر آزمایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ پہلا مطالعہ ہے، جس میں چھاتی کے کینسر سے متاثرہ خواتین کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لیے یوگا کو اپنایا گیا ہے۔ اس کے طویل مدتی فائدے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ ٹاٹا میموریل سینٹر نے پیرس میں یوروپی سوسائٹی آف میڈیکل آنکولوجی (آنکولوجی) کانفرنس میں اپنے مطالعے کے نتائج پیش کیے ہیں۔
ساتھیو ، آج کے دور میں جتنے زیادہ ثبوتوں پر مبنی بھارتی طبی نظام ہوں گے، پوری دنیا میں ان کی قبولیت اتنی ہی بڑھے گی۔ اسی سوچ کے ساتھ دلّی کے ایمس میں بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں، ہمارے روایتی طبی طریقوں کو درست کرنے کے لیے چھ سال قبل انٹیگریٹیو میڈیسن اینڈ ریسرچ سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ اس میں جدید ترین تکنیک اور تحقیقی طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ سنٹر پہلے ہی معروف بین الاقوامی جرائد میں 20 مقالے شائع کر چکا ہے۔ امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے جریدے میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں سنکوپ کے شکار مریضوں کے لیے یوگا کے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح نیورولوجی جرنل کے مقالے میں مائیگرین میں یوگا کے فوائد بتائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی دیگر بیماریوں میں بھی یوگا کے فوائد کے بارے میں مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ جیسے دل کی بیماری، ڈپریشن، نیند کی خرابی اور حمل کے دوران خواتین کو درپیش مسائل۔
ساتھیو ، کچھ دن پہلے میں ورلڈ آیوروید کانگریس کے لیے گوا میں تھا۔ اس میں 40 سے زائد ممالک کے مندوبین نے شرکت کی اور یہاں 550 سے زیادہ سائنسی مقالے پیش کیے گئے۔ یہاں کی نمائش میں بھارت سمیت دنیا بھر سے تقریباً 215 کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی نمائش کی۔ چار دن تک جاری رہنے والے اس ایکسپو میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے آیوروید سے متعلق اپنے تجربات بتائے۔ آیوروید کانگریس میں بھی، میں نے دنیا بھر سے جمع ہوئے آیوروید ماہرین کے سامنے ثبوت پر مبنی تحقیق کی درخواست کو دہرایا۔ کورونا عالمی وباء کے اس وقت میں ، جس طرح ہم سب یوگا اور آیوروید کی طاقت کو دیکھ رہے ہیں، ان سے متعلق شواہد پر مبنی تحقیق بہت اہم ثابت ہوگی۔ میں آپ سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس یوگا، آیوروید اور ہمارے روایتی طبی طریقوں سے متعلق ایسی کوششوں کے بارے میں کوئی معلومات ہیں، تو انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے صحت کے شعبے سے متعلق کئی بڑے چیلنجوں پر قابو پایا ہے۔ اس کا پورا سہرا ہمارے طبی ماہرین، سائنسدانوں اور اہل وطن کی قوت ارادی کو جاتا ہے۔ ہم نے بھارت سے چیچک، پولیو اور گائنی ورم جیسی بیماریوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
آج میں 'من کی بات' کے سننے والوں کو ایک اور چیلنج کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، جو اب ختم ہونے کو ہے۔ یہ چیلنج، یہ بیماری ہے - 'کالا آزار'۔ یہ بیماری سینڈ فلائی یعنی بالو کی مکھی کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ جب کسی کو 'کالا آزار' ہوتا ہے تو اسے مہینوں بخار رہتا ہے، خون کی کمی ہوتی ہے، جسم کمزور ہو جاتا ہے اور وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری بچوں سے لے کر بڑوں تک کسی کو بھی ہو سکتی ہے لیکن سب کی کوششوں سے 'کالا آزار' نامی یہ بیماری اب تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ حال ہی میں، کالا آزار کی وباء 4 ریاستوں کے 50 سے زیادہ اضلاع میں پھیل چکی تھی لیکن اب یہ بیماری بہار اور جھارکھنڈ کے صرف 4 اضلاع تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہار-جھارکھنڈ کے لوگوں کی طاقت اور بیداری ان چار اضلاع سے 'کالا آزار' کو ختم کرنے کی حکومت کی کوششوں میں بھی مدد کرے گی۔ میں 'کالا آزار' سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ دو باتوں کو ذہن میں رکھیں۔ ایک تو سینڈ فلائی پر قابو پانا اور دوسرا اس بیماری کی جلد از جلد شناخت اور مکمل علاج۔ 'کالا آزار' کا علاج آسان ہے، اس کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں بھی بہت کارآمد ہیں۔ آپ کو صرف محتاط رہنا ہوگا۔ بخار ہو تو غفلت نہ برتیں اور ایسی ادویات کا چھڑکاؤ کرتے رہیں ، جو سینڈ فلائی کو مار دیتی ہیں۔ ذرا سوچئے ، جب ہمارا ملک 'کالا آزار' سے آزاد ہو گا تو ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہو گی۔ سب کا پریاس کے اس جذبے میں، ہم، بھارت کو 2025 ء تک ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے بھی کام کر رہے ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گذشتہ دنوں ، جب ٹی بی سے پاک بھارت مہم شروع ہوئی تو ہزاروں لوگ ٹی بی مریضوں کی مدد کے لیے آگے آئے ۔ یہ لوگ بے لوث دوست بن کر ٹی بی مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور ان کی مالی مدد کر رہے ہیں ۔ عوامی خدمت اور عوامی شرکت کی یہ طاقت ہر مشکل مقصد کو حاصل کرکے ہی دکھاتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہماری روایت اور ثقافت کا ماں گنگا سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ گنگا کا پانی ہمارے طرز زندگی کا ایک لازمی حصہ رہا ہے اور یہ ہمارے شاستروں میں بھی کہا گیا ہے:-
नमामि गंगे तव पाद पंकजं,
सुर असुरै: वन्दित दिव्य रूपम्।
भुक्तिम् च मुक्तिम् च ददासि नित्यम्,
भाव अनुसारेण सदा नराणाम्।|
یعنی اے گنگا ماں! آپ اپنے عقیدت مندوں کو ان کی خواہشات کے مطابق دنیاوی خوشی اور نجات عطا کرتی ہیں۔ ہر کوئی آپ کے پوتر چرنوں کا وندن کرتا ہے۔ میں بھی آپ کے پوتر چرنوں میں اپنا پرنام پیش کرتا ہوں۔ ایسے میں ماں گنگا کو صدیوں سے صاف رکھنا ہم سب کی بڑی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے ساتھ، آٹھ سال پہلے، ہم نے 'نمامی گنگے مہم' شروع کی تھی۔ یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے کہ آج بھارت کے اس اقدام کو دنیا بھر سے پذیرائی مل رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے 'نمامی گنگے' مشن کو ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے دنیا کے ٹاپ ٹین اقدامات میں شامل کیا ہے۔ یہ اور بھی خوشی کی بات ہے کہ 'نمامی گنگے' کو یہ اعزاز دنیا بھر سے 160 ایسے اقدامات میں ملا ہے۔
ساتھیو ، 'نمامی گنگے' مہم کی سب سے بڑی توانائی لوگوں کی مسلسل شرکت ہے۔ 'نمامی گنگے' مہم میں گنگا پریہریوں اور گنگا دوتوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ وہ درخت لگانے، گھاٹوں کی صفائی، گنگا آرتی، اسٹریٹ ڈرامے، پینٹنگ اور نظموں کے ذریعے بیداری پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اس مہم کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع میں بھی کافی بہتری دیکھی جا رہی ہے۔ ہلسا مچھلی، گنگا ڈولفن اور کچھوؤں کی مختلف اقسام کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گنگا کا ماحولیاتی نظام صاف ہونے کی وجہ سے روزگار کے دیگر مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہاں میں ایکویٹک لائیولی ہُڈ ماڈل پر بات کرنا چاہوں گا، جو حیاتیاتی تنوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ سیاحت پر مبنی یہ بوٹ سفاری 26 مقامات پر شروع کی گئی ہے۔ ظاہر ہے، نمامی گنگا مشن کی توسیع ، دائرہ دریا کی صفائی سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جہاں یہ ہماری قوتِ ارادی اور انتھک کوششوں کا براہِ راست ثبوت ہے، وہیں یہ دنیا کو ماحولیاتی تحفظ کی جانب ایک نیا راستہ بھی دکھانے والا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہمارا عزم مضبوط ہوتا ہے تو بڑے سے بڑا چیلنج بھی آسان ہو جاتا ہے۔ سکم کے تھیگو گاؤں کے سنگے شیرپا جی نے اس کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ پچھلے 14 سالوں سے وہ 12,000 فٹ سے زیادہ کی بلندی پر ماحولیاتی تحفظ کے کام میں مصروف ہیں۔ سنگے جی نے ثقافتی اور افسانوی اہمیت کی حامل سومگو جھیل کو صاف رکھنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اپنی انتھک کوششوں سے انہوں نے اس گلیشیئر جھیل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ سال 2008 ء میں ، جب سنگے شیرپا جی نے صفائی کی یہ مہم شروع کی تو انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کچھ ہی دنوں میں نوجوانوں اور گاؤں والوں کے ساتھ ساتھ پنچایت کا بھی اس نیک کام میں بھرپور تعاون ملنے لگا۔ آج اگر آپ سومگو جھیل دیکھنے جائیں تو آپ کو وہاں چاروں طرف کچرا ڈالنے کے لئے بڑے بڑے گاربیج بِن نظر آئیں گے۔ اب یہاں جمع ہونے والے کچرے کو ری سائیکلنگ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کو کپڑے سے بنے کچرے کے تھیلے بھی دیئے جاتے ہیں تاکہ کچرا ادھر ادھر نہ پھینکا جائے۔ اب اس انتہائی صاف ستھری جھیل کو دیکھنے کے لیے ہر سال تقریباً 5 لاکھ سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔ سنگے شیرپا کو کئی تنظیموں نے سومگو جھیل کے تحفظ کی اس منفرد کوشش کے لیے اعزاز سے نوازا ہے۔ انہی کوششوں کی بدولت آج سکم کا شمار بھارت کی صاف ستھری ریاستوں میں ہوتا ہے۔ سنگے شیرپا جی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ میں ان لوگوں کی بھی تہہ دل سے تعریف کرتا ہوں ، جو پورے ملک میں ماحولیاتی تحفظ کی عظیم کوشش میں مصروف ہیں۔
ساتھیو ، مجھے خوشی ہے کہ 'سووچھ بھارت مشن' آج ہر بھارتی کے ذہن میں رچ بس چکا ہے۔ سال 2014 ء میں اس عوامی تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک عوام کی جانب سے اسے نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے بہت سی انوکھی کوششیں کی گئی ہیں اور یہ کوششیں نہ صرف معاشرے کے اندر بلکہ حکومت کے اندر بھی ہو رہی ہیں۔ ان مسلسل کوششوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کچرا ہٹانے، غیر ضروری اشیاء کو ہٹانے سے دفاتر میں کافی جگہ کھل جاتی ہے، نئی جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ اس سے قبل جگہ کی کمی کی وجہ سے دور دراز مقامات پر دفاتر کرائے پر رکھنے پڑتے تھے۔ ان دنوں اس صفائی کی وجہ سے اتنی جگہ دستیاب ہے کہ اب تمام دفاتر ایک ہی جگہ پر موجود ہیں۔ ماضی میں وزارت اطلاعات و نشریات نے ممبئی، احمد آباد، کولکاتہ، شیلانگ سمیت کئی شہروں میں اپنے دفاتر میں بھی بہت کوشش کی اور اسی کی وجہ سے آج ان کے پاس دو – دو ، تین - تین منزلیں پوری طرح سے نئے کام میں لی جا سکتی ہیں ۔ یہ اپنے آپ میں اس صفائی کی وجہ سے ہمیں اپنے وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا بہترین تجربہ دے رہا ہے۔ یہ مہم ملک کے لیے ہر طرح سے کارآمد ثابت ہو رہی ہے، معاشرے میں، دیہاتوں اور شہروں میں، اسی طرح دفاتر میں بھی۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں اپنے فن اور ثقافت کے بارے میں ایک نیا شعور آ رہا ہے، ایک نیا شعور بیدار ہو رہا ہے۔ 'من کی بات' میں ہم اکثر ایسی مثالوں پر بات کرتے ہیں۔ جس طرح فن، ادب اور ثقافت معاشرے کا اجتماعی سرمایہ ہیں، اسی طرح ان کو آگے لے جانا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ایسی ہی ایک کامیاب کوشش لکشدیپ میں ہو رہی ہے۔ کلپینی جزیرے پر ایک کلب ہے - کمیل برادرز چیلنجرز کلب۔ یہ کلب نوجوانوں کو مقامی ثقافت اور روایتی فنون کو محفوظ رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہاں نوجوانوں کو مقامی فن کولکلی، پریچاکلی، کلی پاٹہ اور روایتی گانوں کی تربیت دی جاتی ہے یعنی پرانا ورثہ نئی نسل کے ہاتھوں میں محفوظ ہو رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے اور دوستو، مجھے خوشی ہے کہ ایسی کوششیں نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں دوبئی سے خبر آئی کہ وہاں کے کلاری کلب نے اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا لیا ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ دوبئی کے کلب نے ریکارڈ بنایا تو اس کا بھارت سے کیا تعلق؟ درحقیقت، یہ ریکارڈ بھارت کے قدیم مارشل آرٹ کلاریپائیتو سے متعلق ہے۔ یہ ریکارڈ کلاری کی ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ کلاری کلب دوبئی نے دوبئی پولیس کے ساتھ مل کر اس کی منصوبہ بندی کی اور اسے متحدہ عرب امارات کے قومی دن پر دکھایا۔ اس تقریب میں 4 سال کی عمر کے بچوں سے لے کر 60 سال تک کے لوگوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کلاری کی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک شاندار مثال ہے کہ کس طرح مختلف نسلیں ایک قدیم روایت کو پوری لگن کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہیں۔
ساتھیو ، میں 'من کی بات' کے سننے والوں کو کرناٹک کے گڈک ضلع میں رہنے والی 'کویم شری' جی کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ 'کویم شری' پچھلے 25 سالوں سے کرناٹک کے جنوب میں آرٹ کلچر کو دوبارہ زندہ کرنے کے مشن میں لگاتار مصروف ہیں ۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی تپسیا کتنی عظیم ہے۔ اس سے قبل وہ ہوٹل مینجمنٹ کے پیشے سے وابستہ تھے ۔ تاہم اپنی ثقافت اور روایت سے ان کا لگاؤ اتنا گہرا تھا کہ انہوں نے اسے اپنا مشن بنا لیا۔ انہوں نے 'کلا چیتنا' کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا۔ یہ پلیٹ فارم آج کرناٹک اور بھارت اور بیرون ملک سے فنکاروں کے بہت سے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ مقامی فن اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے اس میں بہت سے اختراعی کام بھی کیے جاتے ہیں۔
ساتھیو ، ہم وطنوں کا اپنے فن اور ثقافت کے تئیں یہ جوش و جذبہ 'اپنے ورثے پر فخر' کے احساس کا مظہر ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار رنگ ہر کونے میں بکھرے پڑے ہیں۔ ہمیں انہیں سجانے اور محفوظ کرنے کے لیے بھی لگاتار کام کرنا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے کئی علاقوں میں بانس سے بہت سی خوبصورت اور مفید چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں بانس کے ماہر کاریگر، ہنر مند فنکار موجود ہیں۔ جب سے ملک نے بانس سے متعلق برطانوی دور کے قوانین میں تبدیلی کی ہے، تب سے اس کے لیے ایک بہت بڑا بازار تیار ہوا ہے۔ مہاراشٹر کے پال گھر جیسے علاقوں میں بھی قبائلی سماج کے لوگ بانس سے بہت سی خوبصورت چیزیں بناتے ہیں۔ بانس سے بننے والے باکس، کرسیاں، چائے کے برتن، ٹوکریاں اور بانس سے بنی ٹرے جیسی چیزیں بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ یہی نہیں یہ لوگ بانس کی گھاس سے خوبصورت کپڑے اور سجاوٹ بھی بناتے ہیں، جس کی وجہ سے قبائلی خواتین کو روزگار بھی مل رہا ہے اور ان کے ہنر کو بھی پہچان مل رہی ہے۔
ساتھیو ، کرناٹک کا ایک جوڑا بین الاقوامی مارکیٹ میں آرکینوٹ فائبر سے بنی کئی منفرد مصنوعات فراہم کر رہا ہے۔ یہ کرناٹک کے شیوموگا سے تعلق رکھنے والا ایک جوڑا ہے – جناب سریش اور ان کی اہلیہ محترمہ میتھلی۔ یہ لوگ سپاری کے ریشے سے ٹرے، پلیٹ اور ہینڈ بیگ سے لے کر بہت سی آرائشی چیزیں بنا رہے ہیں۔ اس فائبر سے بنی چپل بھی آج کل بہت پسند کی جارہی ہے۔ آج ان کی مصنوعات لندن اور یوروپ کے دیگر بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں۔ یہ ہمارے قدرتی وسائل اور روایتی ہنر کی خوبی ہے، جسے سب پسند کر رہے ہیں۔ بھارت کے اس روایتی علم میں دنیا پائیدار مستقبل کا راستہ دیکھ رہی ہے۔ ہمیں خود بھی اس سمت میں زیادہ سے زیادہ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خود بھی ایسی دیسی اور مقامی مصنوعات کو استعمال کرنا چاہیے اور دوسروں کو بھی تحفہ دینا چاہیے۔ یہ ہماری شناخت کو بھی مضبوط کرے گا، مقامی معیشت کو مضبوط کرے گا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے، ایک روشن مستقبل بھی فراہم کرے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب ہم آہستہ آہستہ 'من کی بات' کے 100ویں ایپیسوڈ کے بے مثال سنگ میل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے بہت سے اہل وطن کے خطوط موصول ہوئے ہیں، جن میں انہوں نے 100ویں قسط کے بارے میں بہت تجسس کا اظہار کیا ہے۔ مجھے اچھا لگے گا اگر آپ مجھے اپنی تجاویز بھیجیں کہ ہمیں 100 ویں ایپی سوڈ میں کس چیز کے بارے میں بات کرنی چاہئے اور اسے کس طرح خاص بنانا ہے۔ اگلی بار ہم 2023 ء میں ملیں گے۔ میں آپ سب کو سال 2023 ء کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ یہ سال بھی ملک کے لیے خاص ہو، ملک نئی بلندیوں کو چھوتا رہے، ہمیں مل کر ایک عہد بھی لینا ہے اور اسے پورا بھی کرنا ہے۔ اس وقت بہت سے لوگ چھٹیوں کے موڈ میں بھی ہیں۔ آپ ان تہواروں سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن تھوڑا محتاط رہیں۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں کورونا بڑھ رہا ہے، اس لیے ہمیں ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے جیسی احتیاطی تدابیر کا زیادہ خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ہم احتیاط کریں گے تو ہم محفوظ بھی رہیں گے اور ہماری خوشیوں میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں پڑے گی۔ اسی کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ، نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔
میں ایک بار پھر ’ من کی بات ‘ میں آپ سب کا پرتپاک استقبال کرتا ہوں۔ یہ پروگرام کا 95واں ایپیسوڈ ہے۔ ہم تیزی سے 100 ویں ’ من کی بات ‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ پروگرام میرے لئے 130 کروڑ ہم وطنوں سے جڑنے کا ایک اور ذریعہ ہے۔ ہر ایپیسوڈ سے پہلے گاؤں اور شہروں کے خطوط پڑھنا ؛ بچوں سے لے کر بڑوں تک آڈیو پیغامات سننا؛ یہ میرے لئے ایک روحانی تجربے جیسا ہے۔
دوستو، میں آج کا پروگرام ایک منفرد تحفہ کے حوالے کے ساتھ شروع کرنا چاہتا ہوں۔ تلنگانہ کے راجنا سرسیلا ضلع میں ایک بنکر بھائی ہیں - یلدھی ہری پرساد گارو۔ انہوں نے مجھے یہ جی – 20 کا لوگو اپنے ہاتھوں سے بن کر بھیجا ہے۔ میں یہ شاندار تحفہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہری پرساد جی اپنے فن میں ایسے ماہر ہیں کہ وہ سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ہری پرساد جی نے ہاتھ سے بنے اس جی – 20 لوگو کے ساتھ مجھے ایک خط بھی بھیجا ہے۔ اس میں ، انہوں نے لکھا ہے کہ بھارت کے لئے اگلے سال جی -20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا بڑے فخر کی بات ہے۔ ملک کی ، اس کامیابی کی خوشی میں ، انہوں نے جی – 20 کا یہ لوگو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ بُنائی کا یہ شاندار ہنر ، انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے اور آج وہ پورے جذبے کے ساتھ اس میں مصروف ہیں۔
دوستو، کچھ دن پہلے مجھے جی - 20 لوگو اور بھارت کی صدارت کی ویب سائٹ لانچ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس لوگو کا انتخاب ایک عوامی مقابلے کے ذریعے کیا گیا تھا۔ جب مجھے ہری پرساد گارو کا یہ تحفہ ملا تو میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تلنگانہ کے ایک ضلع میں بیٹھا ایک شخص بھی جی - 20 جیسے سمٹ سے کتنا جڑا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ آج، ہری پرساد گارو جیسے بہت سے لوگوں نے مجھے خطوط بھیجے ہیں کہ ان کے دل اتنے بڑے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والے ملک پر فخر سے بھر گئے ہیں۔ میں آپ کو پونے سے سبا راؤ چلّرا جی اور کولکاتہ سے تشار جگموہن کے پیغام کا بھی ذکر کروں گا۔ انہوں نے جی - 20 کے حوالے سے بھارت کی فعال کوششوں کی بہت تعریف کی ہے۔
دوستو، جی - 20 کی شراکت داری دنیا کی دو تہائی آبادی، عالمی تجارت کا تین چوتھائی حصہ اور عالمی جی ڈی پی کا 85 فی صد حصہ پر مشتمل ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں - بھارت اب سے 3 دن بعد یعنی یکم دسمبر سے اتنے بڑے گروپ، اتنے طاقتور گروپ کی صدارت کرنے جا رہا ہے۔ بھارت کے لئے، ہر بھارتی کے لئے کتنا بڑا موقع آیا ہے! یہ اور بھی خاص ہو جاتا ہے کیونکہ آزادی کا امرت کال کے دوران بھارت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے ۔
دوستو، جی - 20 کی صدارت ہمارے لئے ایک بڑے موقع کے طور پر آئی ہے۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور استفادہ کرنا ہوگا اور عالمی بھلائی، عالمی بہبود پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ چاہے امن ہو یا اتحاد، ماحولیات کے تئیں حساسیت، یا پائیدار ترقی، بھارت کے پاس ان سے متعلق چیلنجوں کا حل موجود ہے۔ ہم نے ، جو موضوع دیا ہے ، ’’ ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل ‘‘، وہ ہمارے واسو دیوا کٹمبکم کے عہد کا اظہار کرتا ہے ۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں :
اوم سرویشم سواستیربھواتو
سرویشم شانتی بھواتو
سرویشم پورنم بھواتو
سرویشم منگلم بھواتو
اوم شانتی: شانتی: شانتی:
یعنی سب کی بھلائی ہو، سب کے لئے امن ہو، سب کی تکمیل ہو اور سب کی بھلائی ہو۔ آنے والے دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں جی - 20 سے متعلق بہت سے پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ اس عرصے کے دوران دنیا کے مختلف حصوں سے لوگوں کو آپ کی ریاستوں کا دورہ کرنے کا موقع ملے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی ثقافت کے متنوع اور مخصوص رنگوں کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے اور آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جی - 20 میں آنے والے لوگ، چاہے وہ اب بطور مندوبین ہی کیوں نہ آئیں، مستقبل کے سیاح ہیں۔ میں آپ سب سے، خاص کر اپنے نوجوان دوستوں سے ایک اور بات کی درخواست کرتا ہوں۔ ہری پرساد گارو کی طرح، آپ کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے جی - 20 میں شامل ہونا چاہیئے۔ جی - 20 کے بھارتی لوگو بہت خوبصورت انداز میں، بہت اسٹائلش انداز میں، کپڑوں پر پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی زور دوں گا کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر جی - 20 سے متعلق مباحثوں اور مقابلوں وغیرہ کا انعقاد کریں ۔ اگر آپ G20.inویب سائٹ پر جائیں گے تو وہاں آپ کو اپنی دلچسپی کے مطابق بہت سی چیزیں ملیں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، 18 نومبر کو پورے ملک نے خلائی شعبے میں نئی تاریخ رقم ہونے کا مشاہدہ کیا ۔ اس دن بھارت نے اپنا پہلا ایسا راکٹ خلا میں بھیجا، جسے بھارت کے نجی شعبے نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔ اس راکٹ کا نام ’ وکرم-ایس ‘ہے۔ جیسے ہی دیسی خلائی اسٹارٹ اَپ کے اس پہلے راکٹ نے سری ہری کوٹا سے تاریخی اڑان بھری، ہر بھارتی کا سینا فخر پھول گیا۔
دوستو، ’ وکرم-ایس ‘ راکٹ بہت سی خصوصیات سے لیس ہے۔ یہ دوسرے راکٹوں سے ہلکا بھی ہے اور سستا بھی ہے ۔ اس کو بنانے کی لاگت خلائی مشنوں میں شامل دیگر ممالک کے خرچ سے بہت کم ہے۔ خلائی ٹیکنالوجی میں، کم قیمت پر عالمی درجے کا معیار، اب بھارت کی پہچان بن گیا ہے۔ اس راکٹ کو بنانے میں ایک اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس راکٹ کے کچھ اہم حصے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔ یقینی طور پر، ’ وکرم-ایس ‘ کے لانچنگ مشن کو جو نام ’ پرارمبھ ‘ دیا گیا ہے، وہ پوری طرح اس سے میل کھاتا ہے۔ یہ بھارت میں نجی خلائی شعبے کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ ملک کے لئے خود اعتمادی سے بھرے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ، وہ بچے جو کبھی کاغذ کے ہوائی جہاز بناتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اڑاتے تھے ، اب انہیں بھارت میں ہی ہوائی جہاز بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ بچے ، جو کبھی آسمان پر چاند اور ستاروں کو دیکھ کر شکلیں بناتے تھے، اب انہیں بھارت میں ہی راکٹ بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ نجی شعبے کے لئے مواقع کھولنے کے بعد نوجوانوں کے یہ خواب بھی پورے ہونے لگے ہیں۔ گویا راکٹ بنانے والے یہ نوجوان کہہ رہے ہیں، آسمان کی حد نہیں ہے۔
دوستو، بھارت خلائی شعبے میں اپنی کامیابی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی بانٹ رہا ہے۔ ابھی کل ہی بھارت نے ایک سیٹلائٹ لانچ کیا ہے ، جسے بھارت اور بھوٹان نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ بہت اچھی ریزولوشن کی تصاویر بھیجے گا ، جس سے بھوٹان کو اس کے قدرتی وسائل کے انتظام میں مدد ملے گی۔ اس سیٹلائٹ کی لانچنگ بھارت -بھوٹان کے مضبوط تعلقات کی عکاس ہے۔
دوستو، آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ ’ من کی بات ‘ کی پچھلی چند قسطوں میں، ہم نے خلاء ، ٹیکنالوجی اور اختراع پر کافی بات کی ہے۔ اس کی دو خاص وجوہات ہیں ایک یہ کہ ہمارے نوجوان اس میدان میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ وہ بڑا سوچ رہے ہیں اور بڑا حاصل کر رہے ہیں۔ اب وہ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں سے مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جدت اور قدر پیدا کرنے کے اس دلچسپ سفر میں ، وہ اپنے دوسرے نوجوان ساتھیوں اور اسٹارٹ اپس کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
دوستو، جب ہم ٹیکنالوجی سے متعلق ایجادات کی بات کر رہے ہیں تو ہم ڈرون کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ بھارت ڈرون کے میدان میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماچل پردیش کے کنور میں ڈرون کے ذریعے سیب لے جائے گئے ۔ کنور ہماچل کا ایک دور افتادہ ضلع ہے اور اس موسم میں بھاری برف باری ہوتی ہے۔ اتنی زیادہ برف باری کے ساتھ، کنور کا ریاست کے باقی حصوں سے رابطہ ہفتوں تک بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وہاں سے سیب کی نقل و حمل بھی اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے۔ اب ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے ہماچل کے مزیدار کنوری سیب لوگوں تک تیزی سے پہنچنے شروع ہو جائیں گے۔ اس سے ہمارے کسان بھائیوں اور بہنوں کے اخراجات میں کمی آئے گی - سیب وقت پر منڈی پہنچیں گے، سیب کا زیاں بھی کم ہوگا۔
دوستو، آج ہمارے ہم وطن اپنی اختراعات سے وہ کام ممکن بنا رہے ہیں ، جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ دیکھ کر کون خوش نہیں ہوگا؟ حالیہ برسوں میں ہمارے ملک نے کامیابیوں کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم بھارتی اور خاص طور پر ہماری نوجوان نسل اب رکنے والی نہیں ہے۔
پیارے ہم وطنو، میں آپ کے لئے ایک چھوٹا سا کلپ چلانے جا رہا ہوں.....
##(Song)##
آپ سب نے کبھی نہ کبھی یہ گانا ضرور سنا ہوگا۔ بہر حال، یہ باپو کا پسندیدہ گانا ہے، لیکن اگر میں آپ کو بتاؤں کہ جن گلوکاروں نے اسے گایا ہے ، وہ یونان سے ہیں، تو آپ یقیناً حیران ہوں گے! اور یہ آپ کو بھی فخر سے بھر دے گا۔ یہ گانا یونان سے تعلق رکھنے والے گلوکار – ’ کونسٹنٹائنس کلیٹزس ‘ نے گایا ہے۔ انہوں نے اسے گاندھی جی کے 150ویں یوم پیدائش کی تقریبات کے دوران گایا تھا لیکن آج میں ، اس پر کسی اور وجہ سے بات کر رہا ہوں۔ انہیں بھارت اور بھارتی موسیقی سے بڑا لگاؤ ہے۔ انہیں بھارت سے اس قدر لگاؤ ہے کہ پچھلے 42 سالوں میں وہ تقریباً ہر سال بھارت آئے ہیں۔ انہوں نے بھارتی موسیقی کی ابتداء، مختلف بھارتی موسیقی کے نظاموں، مختلف قسم کے راگوں، تالوں اور راسوں کے ساتھ ساتھ مختلف گھرانوں کے بارے میں بھی مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی موسیقی کی بہت سی عظیم شخصیات کے تعاون کا مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے کلاسیکی رقص کے مختلف پہلوؤں کو بھی قریب سے سمجھا ہے۔ اب انہوں نے بھارت سے متعلق ان تمام تجربات کو ایک کتاب میں بہت خوبصورتی سے جمع کیا ہے۔ ان کی انڈین میوزک نامی کتاب میں تقریباً 760 تصویریں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تصاویر ، انہوں نے خود لی ہیں۔ دوسرے ممالک میں بھارتی ثقافت کے لئے ، اس طرح کا جوش و جذبہ واقعی دل کو خوش کرنے والا ہے۔
دوستو، چند ہفتے پہلے ایک اور خبر آئی ، جو ہمارا سر فخر سے اونچا کرنے والی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ گزشتہ 8 سالوں میں بھارت سے موسیقی کے آلات کی برآمدات میں ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ برقی موسیقی کے آلات کے بارے میں بات کریں تو ان کی برآمدات میں 60 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں بھارتی ثقافت اور موسیقی کا جنون بڑھ رہا ہے۔ بھارتی موسیقی کے آلات کے سب سے بڑے خریدار امریکہ، جرمنی، فرانس، جاپان اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں موسیقی، رقص اور فن کا اتنا بھرپور ورثہ موجود ہے۔
دوستو، ہم سب عظیم بابا شاعر بھرتری ہری کو ان کے ’ نیتی شتک ‘ کے لئے جانتے ہیں۔ ایک شعر میں وہ کہتے ہیں کہ فن، موسیقی اور ادب سے لگاؤ ہی انسانیت کی اصل پہچان ہے۔ درحقیقت ہماری ثقافت اسے انسانیت سے اوپر، الوہیت تک لے جاتی ہے۔ ویدوں میں ساموید کو ہماری متنوع موسیقی کا ماخذ کہا گیا ہے۔ ماں سرسوتی کی وینا ہو، بھگوان کرشن کی بانسری ہو یا بھولے ناتھ کا ڈمرو، ہمارے دیوی دیوتاؤں کو بھی موسیقی سے لگاؤ ہے۔ ہم بھارتی ہر چیز میں موسیقی تلاش کرتے ہیں۔ دریا کی گنگناہٹ ہو، بارش کی بوندیں، پرندوں کی چہچہاہٹ ہو یا ہوا کی گونجتی ہوئی آواز، موسیقی ہماری تہذیب میں ہر جگہ موجود ہے۔ یہ موسیقی نہ صرف جسم کو سکون دیتی ہے بلکہ دماغ کو بھی خوشی دیتی ہے۔ موسیقی ہمارے معاشرے کو بھی جوڑتی ہے۔ اگر بھنگڑا اور لاوانی میں جوش اور مسرت کا احساس ہے تو رابندر سنگیت ہماری روح کو بلند کر دیتا ہے۔ ملک بھر کے قبائلیوں کی موسیقی کی مختلف روایات ہیں۔ وہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
دوستو، ہماری موسیقی کی شکلوں نے نہ صرف ہماری ثقافت کو تقویت بخشی ہے بلکہ دنیا کی موسیقی پر بھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں۔ بھارتی موسیقی کی شہرت دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔ مجھے آپ ایک اور آڈیو کلپ چلانے دیں۔
##(Song)##
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پڑوس کے کسی مندر میں بھجن کیرتن ہو رہا ہے لیکن یہ دُھن بھارت سے ہزاروں میل دور جنوبی امریکی ملک گیانا سے آپ تک پہنچی ہے ۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں یہاں سے بڑی تعداد میں لوگ گیانا گئے۔ وہ یہاں سے بھارت کی بہت سی روایات بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ مثال کے طور پر، جیسا کہ ہم بھارت میں ہولی مناتے ہیں، گیانا میں بھی ہولی کے رنگ جوش و خروش کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں۔ جہاں ہولی کے رنگ ہیں وہیں پھگوا کی موسیقی بھی ہے ، جو پھگوا ہے۔ گیانا کے پھگوا میں بھگوان رام اور بھگوان کرشن سے منسلک شادی کے گیت گانے کی ایک خاص روایت ہے۔ ان گیتوں کو چوتل کہتے ہیں۔ انہیں اسی قسم کی دھن پر اور اونچی آواز پر گایا جاتا ہے جیسا کہ ہم یہاں کرتے ہیں۔ یہی نہیں گیانا میں چوتل مقابلے بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے بھارتی، خاص طور پر مشرقی اتر پردیش اور بہار کے لوگ بھی فجی گئے تھے۔ وہ روایتی بھجن کیرتن گاتے تھے، خاص طور پر رام چرتر مانس کے دوہے ۔ انہوں نے فجی میں بھجن کیرتن سے وابستہ کئی منڈلیاں بھی بنائیں۔ آج بھی فجی میں رامائن منڈلی کے نام سے دو ہزار سے زیادہ بھجن کیرتن منڈلیا ں ہیں۔ آج وہ ہر گاؤں اور محلے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
میں نے یہاں صرف چند مثالیں دی ہیں۔ اگر آپ پوری دنیا کو دیکھیں تو بھارتی موسیقی سے محبت کرنے والوں کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کی قدیم ترین روایات کا گھر ہے۔ لہٰذا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی روایات اور روایتی علم کو محفوظ رکھیں، اسے فروغ دیں اور اسے زیادہ سے زیادہ آگے لے جائیں۔ ایسی ہی ایک قابل تحسین کوشش ہماری شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کے کچھ دوست کر رہے ہیں۔ مجھے یہ کاوش بہت پسند آئی، اس لئے میں نے سوچا، اسے ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کے ساتھ شیئر کروں۔
دوستو، ناگا لینڈ میں ناگا کمیونٹی کا طرز زندگی، ان کا فن ثقافت اور موسیقی سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے شاندار ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ ناگالینڈ کے لوگوں کی زندگی اور ان کی مہارتیں بھی پائیدار طرز زندگی کے لئے بہت اہم ہیں۔ ان روایات اور ہنر کو بچانے اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لئے وہاں کے لوگوں نے ایک تنظیم بنائی ہے، جس کا نام ’ لِڈی – کرو - یو ‘ ہے۔ تنظیم نے ناگا ثقافت کے ، ان خوبصورت پہلوؤں کو زندہ کرنے کا کام شروع کیا ہے ، جو ختم جانے کے دہانے پر تھے۔ مثال کے طور پر، ناگا لوک موسیقی اپنے آپ میں ایک بہت مالا مال صنف ہے۔ اس تنظیم نے ناگا میوزک البمز لانچ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اب تک ایسے تین البم لانچ ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ لوک موسیقی اور لوک رقص سے متعلق ورک شاپس کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ ان سب کے لئے نوجوانوں کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔ یہی نہیں، نوجوانوں کو ناگالینڈ کے روایتی انداز میں ملبوسات سازی، سلائی اور بُنائی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ شمال مشرق میں بانس سے کئی قسم کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ نئی نسل کے نوجوانوں کو بانس کی مصنوعات بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ اس سے یہ نوجوان نہ صرف اپنی ثقافت سے جڑتے ہیں بلکہ ان کے لئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ لڈی – کرو – یو کے لوگ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ناگا لوک ثقافت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوستو، آپ کے علاقے میں بھی ایسے ثقافتی انداز اور روایات ہوں گی۔ آپ بھی اپنے اپنے علاقوں میں ایسی کوششیں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہے کہ ایسی کوئی انوکھی کوشش کہیں کی جا رہی ہے تو آپ وہ معلومات میرے ساتھ ضرور شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم نے یہاں کہا ہے
ودیا دھانم سروا دھانم پردھانم
یعنی اگر کوئی علم عطیہ کر رہا ہے تو وہ معاشرے کے مفاد میں بہترین کام کر رہا ہے۔ تعلیم کے میدان میں جلنے والا ایک چھوٹا سا چراغ بھی پورے معاشرے کو روشن کر سکتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج ملک بھر میں ایسی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بنسا یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ سے 70-80 کلومیٹر دور ہردوئی کا ایک گاؤں ہے۔ مجھے اس گاؤں کے جتن للت سنگھ جی کے بارے میں معلوم ہوا ہے، جو تعلیم کا شعلہ جلانے میں مصروف ہیں۔ جتن جی نے دو سال پہلے یہاں ایک ’کمیونٹی لائبریری اینڈ ریسورس سنٹر ‘ شروع کیا تھا۔
ان کے سینٹر میں ہندی اور انگریزی ادب، کمپیوٹر، قانون اور کئی سرکاری امتحانات کی تیاری سے متعلق 3000 سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ اس لائبریری میں بچوں کی پسند کا بھی پورا خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں موجود مزاحیہ کتابیں ہوں یا تعلیمی کھلونے، بچے انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ چھوٹے بچے یہاں کھیلتے ہوئے نئی چیزیں سیکھنے آتے ہیں۔ آف لائن ہو یا آن لائن تعلیم، اس مرکز میں تقریباً 40 رضاکار طلباء رہنمائی میں مصروف ہیں۔ اس لائبریری میں روزانہ گاؤں کے تقریباً 80 طلباء پڑھنے آتے ہیں۔
دوستو، جھارکھنڈ کے سنجے کشیپ جی بھی غریب بچوں کے خوابوں کو نئے پنکھ دے رہے ہیں۔ طالب علمی کی زندگی میں سنجے جی کو اچھی کتابوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ کتابوں کی کمی کے باعث اپنے علاقے کے بچوں کا مستقبل تاریک نہیں ہونے دیں گے۔ اس مشن کی وجہ سے آج وہ جھارکھنڈ کے کئی اضلاع میں بچوں کے لئے ’لائبریری مین‘ بن چکے ہیں۔ جب سنجے جی نے کام کرنا شروع کیا تھا تو انہوں نے اپنے آبائی مقام پر پہلی لائبریری بنوائی تھی۔ ملازمت کے دوران ، جہاں بھی ان کا تبادلہ ہوتا وہ غریب اور قبائلی بچوں کی تعلیم کے لئے لائبریری کھولنے کے مشن میں لگ جاتے۔ یہ کرتے ہوئے ، انہوں نے جھارکھنڈ کے کئی اضلاع میں بچوں کے لئے لائبریریاں کھولی ہیں۔ لائبریری کھولنے کا ان کا مشن آج ایک سماجی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ سنجے جی ہوں یا جتن جی، میں خاص طور پر ان کی بے شمار کوششوں کے لئے ، ان کی تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، طبی سائنس کی دنیا نے تحقیق اور اختراع کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات کی مدد سے بہت ترقی کی ہے لیکن کچھ بیماریاں آج بھی ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک بیماری ہے – مسکولر ڈسٹرافی ! یہ بنیادی طور پر ایک جینیاتی بیماری ہے ، جو کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے ، جس میں جسم کے پٹھے کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مریض کے لئے روزمرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے کام بھی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لئے خدمت کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماچل پردیش کے سولن میں ہمارا ایسا مرکز ہے، جو مسکولر ڈسٹرافی کے مریضوں کے لئے امید کی نئی کرن بن گیا ہے۔ اس مرکز کا نام ’ مانو مندر ‘ ہے۔ اسے انڈین ایسوسی ایشن آف مسکولر ڈسٹرافی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ مانو مندر اپنے نام کے مطابق انسانی خدمت کی ایک شاندار مثال ہے۔ مریضوں کے لئے او پی ڈی اور داخلے کی خدمات یہاں تین چار سال قبل شروع ہوئی تھیں۔ مانو مندر میں تقریباً 50 مریضوں کے لئے بستروں کی سہولت بھی موجود ہے۔ فیزیو تھیراپی، الیکٹرو تھیراپی اور ہائیڈرو تھیراپی کے ساتھ ساتھ یہاں یوگا-پرانایام کی مدد سے بھی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
دوستو، ہر قسم کی ہائی ٹیک سہولیات کے ذریعے یہ سنٹر مریضوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ مسکولر ڈسٹرافی سے جڑا ایک چیلنج ، اس کے بارے میں آگاہی کی کمی بھی ہے۔ اسی لئے، یہ مرکز نہ صرف ہماچل پردیش بلکہ پورے ملک میں مریضوں کے لئے بیداری کیمپوں کا اہتمام کرتا ہے۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس تنظیم کا انتظام بنیادی طور پر اس بیماری میں مبتلا لوگ کرتے ہیں، جیسے سماجی کارکن ارمیلا بالدی جی، انڈین ایسوسی ایشن آف مسکولر ڈسٹرافی کی صدر سسٹر سنجنا گوئل جی اور اس ایسوسی ایشن کے دیگر ممبران۔ شریمان وپل گوئل جی، جنہوں نے اس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے ، اس ادارے کے لئے بہت اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ مانو مندر کو ایک ہسپتال اور تحقیقی مرکز کے طور پر تیار کرنے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔ اس سے یہاں مریض بہتر علاج کر سکیں گے۔ میں اس سمت میں کوشش کرنے والے تمام لوگوں کی تہہ دل سے تعریف کرتا ہوں اور ساتھ ہی مسکولر ڈسٹرافی میں مبتلا تمام لوگوں کی صحت یابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم نے آج’ من کی بات ‘ میں اپنے ہم وطنوں کی ، جن تخلیقی اور سماجی کوششوں کی بات کی، وہ ہمارے ملک کی توانائی اور جوش و خروش کی مثالیں ہیں۔ آج ہر ہم وطن کسی نہ کسی میدان میں، ہر سطح پر ملک کے لئے کچھ مختلف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آج کی گفتگو میں ہی ہم نے دیکھا کہ جی - 20 جیسے بین الاقوامی ایونٹ میں ہمارے ایک بنکر ساتھی نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور اسے نبھانے کے لئے آگے آئے۔ اسی طرح کچھ ماحولیات کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، کچھ پانی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ تعلیم، طب اور سائنس ٹیکنالوجی سے لے کر ثقافت روایات تک غیر معمولی کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ہر شہری اپنے فرائض کا احساس کر رہا ہے۔ جب کسی قوم کے شہریوں کے اندر فرض شناسی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو اس کا سنہرا مستقبل خود بخود یقینی ہو جاتا ہے اور خود اس ملک کے سنہرے مستقبل میں ہم سب کا سنہرا مستقبل بھی مضمر ہے۔
میں ایک بار پھر ہم وطنوں کو ، ان کی کوششوں کے لئے سلام کرتا ہوں۔ ہم اگلے ماہ دوبارہ ملیں گے اور اس طرح کے بہت سے حوصلہ افزا موضوعات پر ضرور بات کریں گے۔ اپنی تجاویز اور خیالات بھیجتے رہیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ!
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج، ملک کے کئی حصوں میں سورج کی اُپاسنا کا بڑا تہوار ’چھٹھ‘ منایا جا رہا ہے۔ ’چھٹھ‘ تہوار کا حصہ بننے کے لیے لاکھوں عقیدت مند اپنے گاؤں، اپنے گھر، اپنی فیملی کے درمیان پہنچے ہیں۔ میری پرارتھنا ہے کہ چھٹھ میاّ سب کی خوشحالی، سب کی فلاح کا آشیرواد دیں۔
ساتھیو، سورج کی اُپاسنا کی روایت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری تہذیب، ہماری عقیدت کا، فطرت سے کتنا گہرا رشتہ ہے۔ اس پوجا کے ذریعے ہماری زندگی میں سورج کی روشنی کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اتار چڑھاؤ، زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس لیے، ہمیں ہر حالات میں ایک جیسا جذبہ رکھنا چاہیے۔ چھٹھ میاّ کی پوجا میں الگ الگ قسم کے پھلوں اور ٹھیکوا کا پرساد چڑھایا جاتا ہے۔ اس کا برت بھی کسی مشکل سادھنا سے کم نہیں ہوتا۔ چھٹھ پوجا کی ایک اور خاص بات ہوتی ہے کہ اس میں پوجا کے لیے جن اشیاء کا استعمال ہوتا ہے اسے سماج کے مختلف لوگ مل کر تیار کرتے ہیں۔ اس میں بانس کی بنی ٹوکری یا سُپالی کا استعمال ہوتا ہے۔ مٹی کے دیوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے چنے کی پیداوار کرنے والے کسان اور بتاشے بنانے والے چھوٹے کاروباریوں کی سماج میں اہمیت بتائی گئی ہے۔ ان کے تعاون کے بغیر چھٹھ کی پوجا مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ چھٹھ کا تہوار ہماری زندگی میں صفائی کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ اس تہوار کے آنے پر عوامی سطح پر سڑک، ندی، گھاٹ، پانی کے مختلف ذرائع، سب کی صفائی کی جاتی ہے۔ چھٹھ کا تہوار ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کی بھی مثال ہے۔ آج بہار اور پوروانچل کے لوگ ملک کے جس بھی کونے میں ہیں، وہاں دھوم دھام سے چھٹھ کا پروگرام ہو رہا ہے۔ دہلی، ممبئی سمیت مہاراشٹر کے الگ الگ ضلعوں اور گجرات کے کئی حصوں میں چھٹھ کا بڑے پیمانے پر پروگرام ہونے لگا ہے۔ مجھے تو یاد ہے، پہلے گجرات میں اتنی چھٹھ پوجا نہیں ہوتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ آج قریب قریب پورے گجرات میں چھٹھ پوجا کے رنگ نظر آنے لگے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہوتی ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں، بیرونی ممالک سے بھی چھٹھ پوجا کی کتنی شاندار تصویریں آتی ہیں۔ یعنی بھارت کی بیش قیمتی وراثت، ہماری عقیدت، دنیا کے کونے کونے میں اپنی پہچان بڑھا رہی ہے۔ اس بڑے تہوار میں شامل ہونے والے ہر عقیدت مند کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی ہم نے مقدس چھٹھ پوجا کی بات کی، بھگوان سوریہ کی اُپاسنا کی بات کی۔ تو کیوں نہ سوریہ اُپاسنا کے ساتھ ساتھ آج ہم ان کے وردان کی بھی چرچہ کریں۔ سوریہ دیو کا یہ وردان ہے – ’شمسی توانائی‘۔ سولر انرجی آج ایک ایسا موضوع ہے، جس میں پوری دنیا اپنا مستقبل دیکھ رہی ہے اور بھارت کے لیے تو سوریہ دیو صدیوں سے اُپاسنا ہی نہیں، طرز زندگی کے بھی مرکز میں رہ رہے ہیں۔ بھارت، آج اپنے روایتی تجربات کو جدید سائنس سے جوڑ رہا ہے، تبھی، آج ہم، شمسی توانائی سے بجلی بنانے والے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہو گئے ہیں۔ شمسی توانائی سے کیسے ہمارے ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کی زندگی میں تبدیلی آ رہی ہے، وہ بھی مطالعہ کا موضوع ہے۔
تمل ناڈو میں، کانچی پورم میں ایک کسان ہیں، تھیرو کے ایجھیلن۔ انہوں نے ’پی ایم کسم یوجنا‘ سے فائدہ حاصل کیا اور اپنے کھیت میں دس ہارس پاور کا سولر پمپ سیٹ لگوایا۔ اب انہیں اپنے کھیت کے لیے بجلی پر کچھ خرچ نہیں کرنا ہوتا ہے۔ کھیت میں سینچائی کے لیے اب وہ سرکار کی بجلی سپلائی پر منحصر نہیں ہیں۔ ویسے ہی راجستھان کے بھرت پور میں ’پی ایم کسان یوجنا‘ سے استفادہ کرنے والے ایک اور کسان ہیں – کمل جی مینا۔ کمل جی نے کھیت میں سولر پمپ لگایا، جس سے ان کی لاگت کم ہو گئی ہے۔ لاگت کم ہوئی تو آمدنی بھی بڑھ گئی۔ کمل جی سولر بجلی سے دوسری کئی صنعتوں کو بھی جوڑ رہے ہیں۔ ان کے علاقے میں لکڑی کا کام ہے، گائے کے گوبر سے بننے والی مصنوعات ہیں، ان میں بھی سولر بجلی کا استعمال ہو رہا ہے۔ وہ، 12-10 لوگوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں، یعنی کسم یوجنا سے کمل جی نے شروعات کی، اس کی مہک کتنے ہی لوگوں تک پہنچے لگی ہے۔
ساتھیو، کیا آپ کبھی تصور کر سکتے ہیں کہ آپ مہینے بھر بجلی کا استعمال کریں اور آپ کا بجلی بل آنے کی بجائے، آپ کو بجلی کے پیسے ملیں؟ شمسی توانائی نے یہ بھی کر دکھایا ہے۔ آپ نے کچھ دن پہلے، ملک کے پہلے سوریہ گرام – گجرات کے موڈھیرا کی خوب چرچہ سنی ہوگی۔ موڈھیرا سوریہ گرام کے زیادہ تر گھر، سولر پاور سے بجلی پیدا کرنے لگے ہیں۔ اب وہاں کے کئی گھروں میں مہینہ کے آخر میں بجلی کا بل نہیں آ رہا ہے، بلکہ، بجلی سے کمائی کا چیک آ رہا ہے۔ یہ ہوتا دیکھ، اب ملک کے بہت سے گاؤوں کے لوگ مجھے خط لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے گاؤں کو بھی سوریہ گرام میں بدلا جائے، یعنی وہ دن دور نہیں جب بھارت میں سوریہ گراموں کی تعمیر بہت بڑی تحریک بنے گی اور اس کی شروعات موڈھیرا گاؤں کے لوگ کر ہی چکے ہیں۔
آئیے، ’من کی بات‘ کے سامعین کو بھی موڈھیرا کے لوگوں سے ملواتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اس وقت فون لائن پر جڑے ہیں محترم وپن بھائی پٹیل۔
محترم وزیراعظم:- وپن بھائی نمستے! دیکھئے، اب تو موڈھیرا پورے ملک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر چرچہ میں آ گیا ہے۔ لیکن جب آپ کو اپنے رشتہ دار، شناسا لوگ سب باتیں پوچھتے ہوں گے تو آپ ان کو کیا کیا بتاتے ہیں، کیا فائدہ ہوا؟
وپن جی:- سر، لوگ ہمارے کو پوچھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں جو بل آتا تھا، لائٹ بل وہ ابھی زیرو آ رہا ہے اور کبھی 70 روپے آتا ہے مگر ہمارے پورے گاؤں میں جو مالی حالت ہے وہ بہتر ہو رہی ہے۔
محترم وزیر اعظم:- اب اپنے گھر میں ہی خود ہی بجلی کا کارخانہ کے مالک بن گئے۔ خود کا اپنا گھر کے چھت پر بجلی بن رہی ہے۔
وپن جی:- ہاں سر، صحیح ہے سر۔
محترم وزیر اعظم:- تو کیا یہ تبدیلی جو آئی ہے اس کا گاؤں کے لوگوں پر کیا اثر ہے؟
وپن جی:- سر وہ پورے گاؤں کے لوگ، وہ کھیتی کر رہے ہیں، تو پھر ہمارے کو بجلی کی جو جھنجھٹ تھی تو اس میں آزادی ہو گئی ہے۔ بجلی کا بل تو بھرنا نہیں ہے، بے فکر ہو گئے ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- مطلب، بجلی کا بل بھی گیا اور سہولت بڑھ گئی۔
وپن جی:- جھنجھٹ ہی گیا سر اور سر جب آپ یہاں آئے تھے اور وہ 3ڈی شو جو یہاں افتتاح کیا تو اس کے بعد تو موڈھیرا گاؤں میں چار چاند لگ گئے ہیں سر۔ اور وہ جو سکریٹری آئے تھے سر…
محترم وزیر اعظم:- جی جی…
وپن جی:- تو وہ گاؤں فیمس (مشہور) ہو گیا سر۔
محترم وزیر اعظم:- جی ہاں، یو این کے سکریٹری جنرل ان کی خود کی خواہش تھی۔ انہوں نے مجھ سے بڑی گزارش کی کہ بھئی اتنا بڑا کام کیا ہے تو میں وہاں جا کر دیکھنا چاہتا ہوں۔ چلئے وپن بھائی آپ کو اور آپ کے گاؤں کے سب لوگوں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد اور دنیا آپ میں سے سبق لے اور یہ سولر انرجی کی مہم گھر گھر چلے
وپن جی:- ٹھیک ہے سر۔ وہ ہم سب لوگوں کو بتائیں سر کہ بھئی سولر لگواؤ، آپ کے پیسے سے بھی لگواؤں، تو بہت فائدہ ہے۔
محترم وزیر اعظم:- ہاں لوگوں کو سمجھائیے۔ چلئے بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ بھیا۔
وپن جی:- تھینک یو سر، تھینک یو سر، میری زندگی مالامال ہو گئی آپ سے بات کرکے۔
وپن بھائی کا بہت بہت شکریہ۔
آئیے اب موڈھیرا گاؤں میں ورشا بہن سے بھی بات کریں گے۔
ورشا بین:- ہیلو نمستے سر!
محترم وزیر اعظم:- نمستے نمستے ورشا بین۔ کیسی ہیں آپ؟
ورشا بین:- ہم بہت اچھے ہیں سر۔ آپ کیسے ہیں؟
محترم وزیر اعظم:- میں بہت ٹھیک ہوں۔
ورشا بین:- ہم مالا مال ہو گئے سر آپ سے بات کرکے۔
محترم وزیر اعظم:- اچھا ورشا بین۔
ورشا بین:- ہاں۔
محترم وزیر اعظم:- آپ موڈھیرا میں، آپ تو ایک تو فوجی فیملی سے ہیں۔
ورشا بین:- میں فوجی فیملی سے ہوں ہیں۔ آرمی ایکس مین کی وائف بول رہی ہوں سر۔
محترم وزیر اعظم:- تو پہلے ہندوستان میں کہاں کہاں جانے کا موقع ملا آپ کو؟
ورشا بین:- مجھے راجستھان میں ملا، گاندھی نگر میں ملا، کچرا کانجھور جموں ہے وہاں پر ملا موقع، ساتھ میں رہنے کا۔ بہت سہولت وہاں پر مل رہی تھی سر۔
محترم وزیر اعظم:- ہاں۔ یہ فوج میں ہونے کی وجہ سے آپ ہندی بھی بڑھیا بول رہی ہو۔
ورشا بین:- ہاں ہاں۔ سیکھا ہے سر ہاں۔
محترم وزیر اعظم:- مجھے بتائیے موڈھیرا میں جو اتنی بڑی تبدیلی آئی تو یہ سولر روف ٹاپ پلانٹ آپ نے لگوا دیا۔ جو شروع میں لوگ کہہ رہے ہوں گے، تب تو آپ کو من میں آیا ہوگا، یہ کیا مطلب ہے؟ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہوگا؟ ایسے تھوڑی بجلی آتی ہے؟ یہ سب باتیں ہیں کہ آپ کے من میں آئی ہوں گی۔ اب کیا تجربہ آ رہا ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہوا ہے؟
ورشا بین:- بہت سر فائدہ تو فائدہ ہی فائدہ ہوا ہے سر۔ سر ہمارے گاؤں میں تو روز دیوالی منائی جاتی ہے آپ کی وجہ سے۔ 24 گھنٹے ہمیں بجلی مل رہی ہے، بل تو آتا ہی نہیں ہے بالکل۔ ہمارے گھر میں ہم نے الیکٹرک سب چیزیں گھر میں لا رکھی ہیں سر، سب چیزیں یوز کر رہے ہیں – آپ کی وجہ سے سر۔ بل آتا ہی نہیں ہے، تو ہم فری مائنڈ سے، سب یوز کر سکتے ہیں ناٍ!
محترم وزیر اعظم:- یہ بات صحیح ہے، آپ نے بجلی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لیے بھی من بنا لیا ہے۔
ورشا بین:- بنا لیا سر، بنا لیا۔ ابھی ہمیں کوئی دقت ہی نہیں ہے۔ ہم فری مائنڈ سے، سب یہ جو واشنگ مشین ہے، اے سی ہے سب چلا سکتے ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- اور گاؤں کے باقی لوگ بھی خوش ہیں اس کی وجہ سے؟
ورشا بین:- بہت بہت خوش ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- اچھا یہ آپ کے پتی دیو (شوہر) تو وہاں سوریہ مندر میں کام کرتے ہیں؟ تو وہاں جو وہ لائٹ شو ہوا اتنا بڑا ایونٹ ہوا اور ابھی دنیا بھر کے مہمان آ رہے ہیں۔
ورشا بین:- دنیا بھر کے فارینرز آ سکتے ہیں پر آپ نے ورلڈ میں مشہور کر دیا ہے ہمارے گاؤں کو۔
محترم وزیر اعظم:- تو آپ کے شوہر کو اب کام بڑھ گیا ہوگا اتنے مہمان وہاں مندر میں دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔
ورشا بین:- ارے! کوئی بات نہیں جتنا بھی کام بڑھے، سر کوئی بات نہیں، اس کی ہمیں کوئی دقت نہیں ہے ہمارے شوہر کو، بس آپ ترقی کرتے جاؤ ہمارے گاؤں کی۔
محترم وزیر اعظم:- اب گاؤں کی ترقی تو ہم سب کو مل کر کے کرنی ہے۔
ورشا بین:- ہاں ہاں۔ سر ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
محترم وزیر اعظم:- اور میں تو موڈھیرا کے لوگوں کا شکریہ ادا کروں گا کیوں کہ گاؤں نے اس اسکیم کو قبول کیا اور ان کو اعتماد ہو گیا کہ ہاں ہم اپنے گھر میں بجلی بنا سکتے ہیں۔
ورشا بین:- 24 گھنٹے سر! ہمارے گھر میں بجلی آتی ہے اور ہم بہت خوش ہیں۔
محترم وزیر اعظم:- چلیے! میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ جو پیسے بچے ہیں، اس کا بچوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیجئے۔ ان پیسوں کا استعمال اچھا ہو تاکہ آپ کی زندگی کو فائدہ ہو۔ میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ اور سب موڈھیرا والوں کو میرا نمسکار!
ساتھیوں، ورشا بین اور وپن بھائی نے جو بتایا ہے، وہ پورے ملک کے لیے، گاؤوں شہروں کے لیے ایک مثال ہے۔ موڈھیرا کا یہ تجربہ پورے ملک میں دہرایا جا سکتا ہے۔ سورج کی طاقت، اب پیسے بھی بچائے گی اور آمدنی بھی بڑھائے گی۔ جموں و کشمیر کے سرینگر سے ایک ساتھی ہیں – منظور احمد لرہوال۔ کشمیر میں سردیوں کی وجہ سے بجلی کا خرچ کافی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے، منظور جی کا بجلی کا بل بھی 4 ہزار روپے سے زیادہ آتا تھا، لیکن جب سے منظور جی نے اپنے گھر پر سولر روف ٹاپ پلانٹ لگوایا ہے، ان کا خرچ آدھے سے بھی کم ہو گیا ہے۔ ایسے ہی، اوڈیشہ کی ایک بیٹی کنی دیئوری، شمسی توانائی کو اپنے ساتھ ساتھ دوسری عورتوں کے روزگار کا ذریعہ بنا رہی ہیں۔ کنی، اوڈیشہ کے کیندوجھر ضلع کے کرداپال گاؤں میں رہتی ہیں۔ وہ آدیواسی خواتین کو سولر سے چلنے والی ریلنگ مشین پر سلک کی کتائی کی ٹریننگ دیتی ہیں۔ سولر مشین کے سبب ان آدیواسی خواتین پر بجلی کے بل کا بوجھ نہیں پڑتا، اور ان کی آمدنی ہو رہی ہے۔ یہی تو سوریہ دیو کی شمسی توانائی کا وردان ہی تو ہے۔ وردان اور پرساد تو جتنی توسیع ہو، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اس لیے، میری آپ سے درخواست ہے، آپ بھی، اس میں جڑیں اور دوسروں کو بھی جوڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی میں آپ سے سورج کی باتیں کر رہا تھا۔ اب میرا دھیان اسپیس کی طرف جا رہا ہے۔ وہ اس لیے، کیوں کہ ہمارا ملک، سولر سیکٹر کے ساتھ ہی اسپیس سیکٹر میں بھی کمال کر رہا ہے۔ پوری دنیا، آج، بھارت کی حصولیابیاں دیکھ کر حیران ہے۔ اس لیے میں نے سوچا، ’من کی بات‘ کے سامعین کو یہ بتا کر میں ان کی بھی خوشی بڑھاؤں۔
ساتھیو، اب سے کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا بھارت نے ایک ساتھ 36 سیٹلائٹس کو خلاء میں قائم کیا ہے۔ دیوالی سے ٹھیک ایک دن پہلے ملی یہ کامیابی ایک طرح سے یہ ہمارے نوجوانوں کی طرف سے ملک کو ایک اسپیشل دیوالی گفٹ ہے۔ اس لانچنگ سے کشمیر سے کنیاکماری اور کچھّ سے کوہیما تک، پورے ملک میں ڈیجیٹل کنیکٹویٹی کو اور مضبوطی ملے گی۔ اس کی مدد سے بے حد دور دراز کے علاقے بھی ملک کے باقی حصوں سے اور آسانی سے جڑ جائیں گے۔ ملک جب آتم نربھر ہوتا ہے، تو، کیسے کامیابی کی نئی بلندی پر پہنچتا جاتا ہے – یہ اس کی بھی ایک مثال ہے۔ آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے وہ پرانا وقت بھی یاد آ رہا ہے، جب بھارت کو کرایوجینک راکٹ ٹیکنالوجی دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ لیکن بھارت کے سائنس دانوں نے نہ صرف سودیشی ٹیکنالوجی تیار کی بلکہ آج اس کی مدد سے ایک ساتھ درجنوں سیٹلائٹس خلاء میں بھیج رہا ہے۔ اس لانچنگ کے ساتھ بھارت گلوبل کمرشیل مارکیٹ میں ایک مضبوط پلیئر بن کر ابھرا ہے، اس سے خلائی شعبے میں بھارت کے لیے مواقع کے نئے دروازے بھی کھلے ہیں۔
ساتھیو، ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم لے کر چل رہا ہمارا ملک، سب کی کوشش سے ہی، اپنے اہداف کو حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت میں پہلے اسپیس سیکٹر، سرکاری انتظامات کے دائرے میں ہی سمٹا ہوا تھا۔ جب یہ اسپیس سیکٹر بھارت کے نوجوانوں کے لیے، بھارت کے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے کھول دیا گیا تب سے اس میں انقلابی تبدیلیاں آنے لگی ہیں۔ ہندوستانی انڈسٹری اور اسٹارٹ اپس اس شعبے میں نئے نئے انوویشنز اور نئی نئی ٹیکنالوجیز لانے میں مصروف ہیں۔ خاص کر، ان-اسپیس کے تعاون سے اس شعبے میں بڑی تبدیلی ہونے جا رہی ہے۔
ان-اسپیس کے ذریعے غیر سرکاری کمپنیوں کو بھی اپنے پے لوڈز اور سیٹلائٹ لانچ کرنے کی سہولت مل رہی ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ اسٹارٹ اپس اور انوویٹر سے اپیل کروں گا کہ وہ اسپیس سیکٹر میں بھارت میں بن رہے ان بڑے مواقع کا پورا فائدہ اٹھائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب اسٹوڈنٹس کی بات آئے، نوجوانوں کی طاقت کی بات آئے، قائدانہ قوت کی بات آئے، تو ہمارے من میں گھسی پٹی، پرانی بہت سی بدگمانیاں گھر کر گئی ہیں۔ کئی بار ہم دیکھتے ہیں کہ جب اسٹوڈنٹ پاور کی بات ہوتی ہے، تو اس کے اسٹوڈنٹ یونین انتخابات سے جوڑ کر اس کا دائرہ محدود کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسٹوڈنٹ پاور کا دائرہ بہت بڑا ہے، بہت وسیع ہے۔ اسٹوڈنٹ پاور، بھارت کو پاورفل بنانے کی بنیاد ہے۔ آخر، آج جو نوجوان ہیں، وہی تو بھارت کو 2047 تک لے کر جائیں گے۔ جب بھارت صد سالہ جشن منائے گا، نوجوانوں کی یہ طاقت، ان کی محنت، ان کا پیسہ، ان کی صلاحیت، بھارت کو اس بلندی پر لے کر جائے گی، جس کا عزم، ملک آج کر رہا ہے۔ ہمارے آج کے نوجوان، جس طرح ملک کے لیے کام کر رہے ہیں، نیشن بلڈنگ میں مصروف ہو گئے ہیں، وہ دیکھ کر میں بہت بھروسے سے بھرا ہوا ہوں۔ جس طرح ہمارے نوجوان ہیکا تھانس میں پرابلم سالو کرتے ہیں، رات رات بھر جاگ کر گھنٹوں کام کرتے ہیں، وہ بہت ہی حوصلہ فراہم کرنے والا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہوئی ایک ہیکاتھانس میں ملک کے لاکھوں نوجوانوں نے مل کر، بہت سارے چیلنجز کو نمٹایا ہے، ملک کو نئے سالیوشنز دیے ہیں۔
ساتھیو، آپ کویاد ہوگا، میں نے لال قلعہ سے ’جے انوسندھان‘ کا نعرہ دیا تھا۔ میں نے اس دہائی کو بھارت کا ٹیک ایڈ بنانے کی بات بھی کہی تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا، اس کی کمان ہماری آئی آئی ٹی کے اسٹوڈنٹس نے بھی سنبھال لی ہے۔ اسی مہینے 15-14 اکتوبر کو سبھی 23 آئی آئی ٹی اپنے انوویشنز اور ریسرچ پروجیکٹ کی نمائش کرنے کے لیے پہلی بار ایک پلیٹ فارم پر آئے۔ اس میلہ میں ملک بھر سے منتخب ہو کر آئے اسٹوڈنٹس اور ریسرچرز انہوں نے 75 سے زیادہ بہترین پروجیکٹس کی نمائش کی۔ ہیلتھ کیئر، ایگریکلچر، روبوٹکس، سیمی کنڈکٹرز، 5جی کمیونی کیشنز، ایسی بہت ساری تھیم پر یہ پروجیکٹ بنائے گئے تھے۔ ویسے تو یہ سارے ہی پروجیکٹ ایک سے بڑھ کر ایک تھے، لیکن، میں کچھ پروجیکٹس کے بارے میں آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ جیسے، آئی آئی ٹی بھونیشور کی ایک ٹیم نے نوزائیدہ بچوں کے لیے پورٹیبل وینٹی لیٹر تیار کیا ہے۔ یہ بیٹری سے چلتا ہے اور اسکا استعمال دور دراز کے علاقوں میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان بچوں کی زندگی بچانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے جن کی پیدائش طے وقت سے پہلے ہو جاتی ہے۔ الیکٹرک موبلٹی ہو، ڈرون ٹیکنالوجی ہو، 5جی ہو، ہمارے بہت سارے طلباء، ان سے جڑی ہوئی نئی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کئی ساری آئی آئی ٹی مل کر ایک کثیر لسانی پروجیکٹ پر بھی کام کر رہی ہیں جو مقامی زبانوں کو سیکھنے کے طریقے کو آسان بناتا ہے۔ یہ پروجیکٹ نئی قومی تعلیمی پالیسی کو، ان اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مدد بہت مدد کرے گا۔ آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے گا کہ آئی آئی ٹی مدراس اور آئی آئی ٹی کانپور نے بھارت کے سودیشی 5جی ٹیسٹ بیڈ کو تیار کرنے میں سرکردہ رول نبھایا ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک شاندار شروعات ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے وقت میں اس طرح کی کئی اور کوششیں دیکھنے کو ملیں گی۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ آئی آئی ٹی سے حوصلہ پا کر دوسرے انسٹی ٹیوشن بھی تحقیق و ترقی سے جڑی اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ماحولیات کے تئیں حساسیت، ہمارے سماج کے ذرے ذرے میں شامل ہے اور اور اسے ہم اپنے چاروں طرف محسوس کر سکتے ہیں۔ ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو ماحولیات کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی کھپا دیتے ہیں۔
کرناٹک کے بنگلورو میں رہنے والے سریش کمار جی سے بھی ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں، ان میں فطرت اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے غضب کا جنون ہے۔ 20 سال پہلے انہوں نے شہر کے سہکار نگر کے ایک جنگل کو پھر سے ہرا بھرا کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ یہ کام مشکلوں سے بھرا تھا، لیکن، 20 سال پہلے لگائے گئے وہ پودے آج 40-40 فٹ اونچے لحیم شحیم درخت بن چکے ہیں۔ اب ان کی خوبصورتی ہر کسی کا من موہ لیتی ہے۔ اس سے وہاں رہنے والے لوگوں کو بھی بڑے فخر کا احساس ہوتا ہے۔ سریش کمار جی اور ایک انوکھا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کنڑ زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے سہکار نگر میں ایک بس شیلٹر بھی بنایا ہے۔ وہ سینکڑوں لوگوں کو کنڑ میں لکھی براس پلیٹس بھی تحفے میں دے چکے ہیں۔ ایکولوجی اور کلچر دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں اور پھلیں پھولیں، سوچئے… یہ کتنی بڑی بات ہے۔
ساتھیو، آج ایکو فرینڈلی لیونگ اور ایکو فرینڈلی پروڈکٹس کو لے کر لوگوں میں پہلے سے کہیں زیادہ بیداری نظر آ رہی ہے۔ مجھے تمل ناڈو کی ایک ایسی ہی دلچسپ کوشش کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ یہ شاندار کوشش کوئمبٹور کے انائی کٹی میں آدیواسی خواتین کی ایک ٹیم کی ہے۔ ان عورتوں نے ایکسپورٹ کے لیے دس ہزار ایکو فرینڈلی ٹیراکوٹا ٹی کپس بنائے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ٹیراکوٹا ٹی کپس بنانے کی پوری ذمہ داری ان عورتوں نے خود ہی اٹھائی۔ کلے مکسنگ سے لے کر فائنل پیکیجنگ تک سارے کام خود کیے۔ اس کے لیے انہوں نے تربیت بھی حاصل کی تھی۔ اس انوکھی کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ساتھیو، تریپورہ کے کچھ گاؤوں نے بھی بڑی اچھی سیکھ دی ہے۔ آپ لوگوں نے بائیو ولیج تو ضرور سنا ہوگا، لیکن تریپورہ کے کچھ گاؤں، بائیو ولیج 2 کی سیڑھی چڑھ گئے ہیں۔ بائیو ولیج-2 میں اس بات پر زور دہوتا ہے کہ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو کیسے کم از کم کیا جائے۔ اس میں مختلف طریقوں سے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر پوری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ سولر انرجی، بائیو گیس، بی کیپنگ اور بائیو فرٹیلائزرس، ان سب پر پورا فوکس رہتا ہے۔ کل ملا کر اگر دیکھیں تو، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مہم کو بائیو ولیج 2 بہت مضبوطی عطا کرنے والا ہے۔ میں ملک کے الگ الگ حصوں میں ماحولیاتی تحفظ کو لے کر بڑھ رہے جوش کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوں۔ کچھ دن پہلے ہی، بھارت میں، ماحولیات کے تحفظ کے لیے وقف مشن لائف کو بھی لانچ کیا گیا ہے۔ مشن لائف کا سیدھا اصول ہے – ایسا طریقہ زندگی، ایسی لائف اسٹائل کو فروغ، جو ماحولیات کو نقصان نہ پہنچائے۔ میری اپیل ہے کہ آپ بھی مشن لائف کو جانئے، اسے اپنانے کی کوشش کیجئے۔
ساتھیو، کل، 31 اکتوبرکو، راشٹریہ ایکتا دیوس ہے، سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کی جنم جینتی کا مبارک موقع ہے۔ اس دن ملک کے کونے کونے میں رن فار یونٹی کا پروگرام کیا جاتا ہے۔ یہ دوڑ، ملک میں اتحاد کے دھاگے کو مضبوط کرتی ہے، ہمارے نوجوانوں کو حوصلہ بخشتی ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے، ایسا ہی جذبہ، ہمارے قومی کھیلوں کے دوران بھی دیکھا ہے۔ ’جڑے گا انڈیا تو جیتے گا انڈیا‘ اس تھیم کے ساتھ قومی کھیلوں نے جہاں اتحاد کا مضبوط پیغام دیا، وہیں بھارت کی کھیل ثقافت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ بھارت میں قومی کھیلوں کا اب تک کا سب سے بڑا پروگرام تھا۔ اس میں 36 کھیلوں کو شامل کیا گیا، جس میں 7 نئے اور دو سودیشی مقابلے یوگاسن، اور ملّ کھمب بھی شامل رہے۔ گولڈ میڈل جیتنے میں سب سے آگے جو تین ٹیمیں رہیں، وہ ہیں – سروسز کی ٹیم، مہاراشٹر اور ہریانہ کی ٹیم۔ ان کھیلوں میں چھ نیشنل ریکارڈز اور قریب قریب 60 نیشنل گیمز ریکارڈز بھی بنے۔ میں میڈل جیتنے والے، نئے ریکارڈ بنانے والے، اس کھیل مقابلہ میں حصہ لینے والے، سبھی کھلاڑیوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں ان کھلاڑیوں کے سنہرے مستقبل کی دعا بھی کرتا ہوں۔
ساتھیو، میں ان سبھی لوگوں کی بھی دل کی گہرائیوں سے تعریف کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے گجرات میں ہوئے قومی کھیلوں کے کامیاب انعقاد میں اپنا تعاون دیا۔ آپ نے دیکھا ہے کہ گجرات میں تو قومی کھیل نوراتری کے دوران ہوئے۔ ان کھیلوں کے انعقاد سے پہلے ایک بار تو میرے من میں بھی آیا کہ اس وقت تو پورا گجرات ان تہواروں میں مصروف ہے، تو لوگ ان کھیلوں کا مزہ کیسے لے پائیں گے؟ اتنا بڑاانتظام اور دوسری طرف نوراتری کے گربا وغیرہ کا انتظام۔ یہ سارے کام گجرات ایک ساتھ کیسے کر لے گا؟ لیکن گجرات کے لوگوں نے اپنی مہمان نوازی سے سبھی مہمانوں کو خوش کر دیا۔ احمد آباد میں نیشنل گیمز کے دوران جس طرح فن، کھیل اور ثقافت کا سنگم ہوا، وہ خوشیوں سے بھر دینے والا تھا۔ کھلاڑی بھی دن میں جہاں کھیل میں حصہ لیتے تھے، وہیں شام کو وہ گربا اور ڈانڈیا کے رنگ میں ڈوب جاتے تھے۔ انہوں نے گجراتی کھانا اور نوراتری کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیں۔ یہ دیکھنا ہم سبھی کے لیے بہت ہی مزیدار تھا۔ آخرکار، اس طرح کے کھیلوں سے، بھارت کی متنوع ثقافتوں کےبارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کو بھی اتنا ہی مضبوط کرتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، نومبر مہینے میں 15 تاریخ کو ہمارا ملک جن جاتیہ گورو دیوس منائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا، ملک نے پچھلے سال بھگوان برسا منڈا کی جنم جینتی کے دن آدیواسی وراثت اور گورو کو سیلیبریٹ کرنے کے لیے یہ شروعات کی تھی۔ بھگوان برسا منڈا نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں انگریزی حکومت کے خلاف لاکھوں لوگوں کو متحد کر دیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی اور آدیواسی ثقافت کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی قربان کر دی تھی۔ ایسا کتنا کچھ ہے، جو ہم دھرتی آبا برسا منڈا سے سیکھ سکتے ہیں۔ ساتھیو، جب دھرتی آبا برسا منڈا کی بات آتی ہے، چھوٹی سی ان کی زندگی کی طرف نظر کرتے ہیں، آج بھی ہم اس میں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور دھرتی آبا نے تو کہا تھا- یہ دھرتی ہماری ہے، ہم اس کے محافظ ہیں۔ ان کے اس جملے میں مادر وطن کے لیے ذمہ داری کا جذبہ بھی ہے اور ماحولیات کے لیے ہمارے فرائض کا احساس بھی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا تھا کہ ہمیں ہماری آدیواسی ثقافت کو بھولنا نہیں ہے، اس سے ذرہ برابر بھی دور نہیں جانا ہے۔ آج بھی ہم ملک کے آدیواسی سماجوں سے فطرت اور ماحولیات کو لے کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ساتھیو، پچھلے سال بھگوان برسا منڈا کی جینتی کے موقع پر، مجھے رانچی کے بھگوان برسا منڈا میوزیم کے افتتاح کا موقع حاصل ہوا تھا۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ انہیں جب بھی وقت ملے، وہ اسے دیکھنے ضرور جائیں۔ میں آپ کویہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک نومبر یعنی پرسوں، میں گجرات-راجستھان کے بارڈر پر موجودہ مان گڑھ میں رہوں گا۔ بھارت کی جدوجہد آزادی اور ہماری بیش قیمتی آدیواسی وراثت میں مان گڑھ کا بہت ہی خاص مقام رہا ہے۔ یہاں پر نومبر 1913 میں ایک خوفناک قتل عام ہوا تھا، جس میں انگریزوں نے مقامی آدیواسیوں کا بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس قتل عام میں ایک ہزار سے زیادہ آدیواسیوں کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ اس جن جاتیہ آندولن کی قیادت گووند گرو جی نے کی تھی، جن کی زندگی ہر کسی کو حوصلہ بخشنے والی ہے۔ آج میں ان سبھی آدیواسی شہیدوں اور گووند گرو جی کی مثالی ہمت اور شجاعت کو نمن کرتا ہوں۔ ہم اس امرتکال میں بھگوان برسا منڈا، گووند گرو اور دیگر مجاہدین آزادی کے اصولوں پر جتنی ایمانداری سے عمل کریں گے، ہمارا ملک اتنی ہی بلندیوں کو چھو لے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آنے والے 8 نومبر کو گرو پورب ہے۔ گرونانک جی کا پرکاش پرو جتنا ہمارے عقیدہ کے لیے اہم ہے، اتنا ہی ہمیں اس سے سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ گرو نانک دیو جی نے اپنی پوری زندگی، انسانیت کے لیے روشنی پھیلائی۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک نے گروؤں کی روشنی کو ہر ایک تک پہنچانے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔ ہمیں گرو نانک دیو جی کا 550واں پرکاش پرو یاد ہے، ملک اور بیرون ملک میں بڑے پیمانے پر منانے کا سنہرا موقع ملا تھا۔ دہائیوں سے انتظار کے بعد کرتارپور صاحب کوریڈور کی تعمیر ہونا بھی اتنا ہی مسرت آمیز ہے۔ کچھ دن پہلے ہی مجھے ہیم کنڈ صاحب کے لیے روپ وے کا سنگ بنیاد رکھنے کا بھی موقع ملا ہے۔ ہمیں ہمارے گروؤں کے خیالات سے لگاتار سیکھنا ہے، ان کے لیے وقف رہنا ہے۔ اسی دن کارتک پورنیما کا بھی ہے۔ اس دن ہم تیرتھوں میں، ندیوں میں اسنان (غسل) کرتے ہیں – سیوا اور دان کرتے ہیں۔ میں آپ سبھی کو ان تہواروں کی دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ آنے والے دنوں میں کئی ریاستیں، اپنا یوم تاسیس بھی منائیں گی۔ آندھرا پردیش اپنا یوم تاسیس منائے گا، چھتیس گڑھ اور ہریانہ بھی اپنا یوم تاسیس منائیں گے۔ میں ان سبھی ریاستوں کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہماری تمام ریاستوں میں، ایک دوسرے سے سیکھنے کی، تعاون کرنے کی، اور مل کر کام کرنے کی اسپرٹ جتنی مضبوط ہوگی، ملک اتنا ہی آگے جائے گا۔ مجھے یقین ہے، ہم اسی جذبے سے آگے بڑھیں گے۔ آپ سب اپنا خیال رکھئے، صحت مند رہئے۔ ’من کی بات‘ کی اگلی ملاقات تک کے لیے مجھے اجازت دیجئے۔
نمسکار، شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
پچھلے کچھ دنوں میں ، جس چیز نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچی ہے ، وہ ہے چیتا۔ چیتوں کے بارے میں بات کرنے کے بہت سے پیغامات آئے ہیں، چاہے وہ اتر پردیش کے ارون کمار گپتا ہوں یا پھر تلنگانہ کے این رام چندرن رگھورام جی؛ گجرات کے راجن جی ہوں یا دلّی کے سبرت جی۔ بھارت میں چیتوں کی واپسی پر ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ 130 کروڑ بھارتی خوش ہیں، فخر سے بھرے ہیں - یہ بھارت کی فطرت سے محبت ہے۔ اس بارے میں لوگوں کا ایک عام سوال ہے کہ مودی جی، ہمیں چیتا دیکھنے کا موقع کب ملے گا؟
ساتھیو ، ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے۔ یہ ٹاسک فورس چیتوں کی نگرانی کرے گی اور دیکھے گی کہ وہ یہاں کے ماحول میں کتنا گھل مل جانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس بنیاد پر کچھ مہینوں کے بعد فیصلہ کیا جائے گا اور پھر آپ چیتا دیکھ سکیں گے لیکن تب تک میں آپ سب کو کچھ کام سونپ رہا ہوں۔ اس کے لئے مئی گوو پلیٹ فارم پر ایک مقابلہ منعقد کیا جائے گا، جس میں ، میں لوگوں سے کچھ چیزیں شیئر کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ چیتوں کے لئے ، جو مہم چلا رہے ہیں ، آخر اس مہم کا کیا نام ہونا چاہیئے! کیا ہم ان تمام چیتوں کے نام رکھنے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو کس نام سے پکارا جائے! ویسے اگر یہ نام روایتی ہو تو کافی اچھا رہے گا کیونکہ ہمارے معاشرے اور ثقافت، روایت اور ورثے سے جڑی کوئی بھی چیز ہمیں فطری طور پر اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آپ یہ بھی بتائیں کہ آخر انسانوں کو جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیئے! ہمارے بنیادی فرائض میں بھی جانوروں کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ میری آپ سبھی سے اپیل ہے کہ آپ اس مقابلے میں ضرور شرکت کریں - کیا پتہ انعام کے طور پر چیتے دیکھنے کا پہلا موقع آپ کو ہی مل جائے !
میرے پیارے ہم وطنو، آج 25 ستمبر کو ملک کے عظیم انسان دوست، مفکر اور ملک کے عظیم فرزند دین دیال اپادھیائے جی کایوم پیدائش منایا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے نوجوان اپنی شناخت اور عظمت پر جتنا زیادہ فخر کرتے ہیں، ان کے اصل نظریات اور فلسفے انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ دین دیال جی کے افکار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دنیا کے بڑے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ وہ نظریات کے تصادم کے گواہ بنے تھے۔ اس لئے انہوں نے ’ ایک آتما مانو درشن‘ اور ’ انتودیا ‘ کا ایک نظریہ ملک کے سامنے رکھا ، جو پوری طرح بھارتیہ تھا۔ دین دیال جی کا ’ ایک آتما مانو درشن ‘ ایک ایسا نظریہ ہے، جو نظریے کے نام پر تنازعات اور تعصب سے آزادی دیتا ہے۔ انہوں نے انسان کو یکساں سمجھنے والے بھارتی درشن کو پھر سے دنیا کے سامنے رکھنا ۔ ہمارے شاستروں کہا گیا ہے ۔ ’ आत्मवत् सर्वभूतेषु‘ ( آتم وَت سرو بھوتیشو ) یعنی ہم ہر نفس کو اپنی طرح سمجھیں ، اپنے جیسا سلوک کریں ، جدید معاشرتی اور سیاسی تناظر میں بھی بھارتی درشن ، کس طرح دنیا کی رہنمائی کر سکتا ہے ، یہ دین دیال جی نے ہمیں سکھایا ۔ ایک طرح سے انہوں نے آزادی کے بعد ملک میں پھیلنے والے احساس کمتری سے آزاد کر کے ہمارے اپنے فکری شعور کو بیدار کیا۔وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ’’ہماری آزادی اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے ، جب یہ ہماری ثقافت اور شناخت کا اظہار کرے‘‘۔ اسی خیال کی بنیاد پر انہوں نے ملک کی ترقی کا ویژن تیار کیا تھا۔ دین دیال اپادھیائے جی کہا کرتے تھے کہ ملک کی ترقی کا پیمانہ آخری پائیدان پر موجود شخص ہوتا ہے۔ آزادی کے امرت کال میں، ہم دین دیال جی کو جتنا سمجھیں گے ، ان سے جتنا سیکھیں گے، ملک کو اتنا ہی آگے لے کر جانے کی ہم سب کو تحریک ملے گی ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج سے تین دن بعد یعنی 28 ستمبر کو امرت مہوتسو کا ایک خاص دن آ رہا ہے۔ اس دن ہم بھارت ماتا کے بہادر بیٹے بھگت سنگھ جی کا یوم پیدائش منائیں گے۔ بھگت سنگھ جی کے یوم پیدائش سے عین قبل انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک اہم فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چندی گڑھ کے ہوائی اڈے کا نام اب شہید بھگت سنگھ کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس کا کافی عرصے سے انتظار تھا۔ میں اس فیصلے کے لئے چندی گڑھ، پنجاب، ہریانہ اور ملک کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ، ہم اپنے مجاہدینِ آزادی سے تحریک لیں، ان کے اصولوں پر چلتے ہوئے ، ان کے خوابوں کے بھارت کی تعمیر کریں، یہی ان کے لئے ہمارا خراج عقیدت ہو گا ۔ شہیدوں کی یادگاریں، جگہوں کے نام اور ان کے نام سے منسوب ادارے ہمیں فرائض کے لئے تحریک دیتے ہیں، ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک نے کرتوویہ پَتھ پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کا مجسمہ نصب کرکے ایسی ہی ایک کوشش کی ہے اور اب شہید بھگت سنگھ کے نام سے چنڈی گڑھ ہوائی اڈے کا نام اس سمت میں ایک اور قدم ہے۔ میں چاہوں گا کہ جس طرح ہم امرت مہوتسو میں مجاہدینِ آزادی سے متعلق خصوصی مواقع پر جشن منا رہے ہیں، اسی طرح ہر نوجوان کو 28 ستمبر کو کچھ نیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
ویسے، میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کے پاس 28 ستمبر کو جشن منانے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ جانتے ہیں یہ کیا ہے! میں صرف دو لفظ کہوں گا لیکن مجھے معلوم ہے، آپ کا جوش چار گنا بڑھ جائے گا۔ یہ دو الفاظ ہیں - سرجیکل اسٹرائیک۔ بڑھ گیا نا جوش! ہمارے ملک میں امرت مہوتسو کی ، جو مہم چل رہی ہے ، اس کا ہم پوری دل جمعی سے جشن منائیں ، اپنی خوشیوں کو سب کے ساتھ ساجھا کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، کہتے ہیں - زندگی کی کشمکش سے تپے ہوئے شخص کے سامنے کوئی بھی رکاوٹ ٹک نہیں سکتی۔اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہم کچھ ایسے ساتھی بھی دیکھتے ہیں، جو کسی نہ کسی جسمانی چیلنج کا مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یا تو سننے سے قاصر ہیں، یا بول کر اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے ساتھیوں کا سب سے بڑا سہارا اشاروں کی زبان ہے لیکن بھارت میں برسوں سے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اشاروں کی زبان کے لئے کوئی واضح اشارے، کوئی معیار طے نہیں تھا۔ ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہی سال 2015 ء میں انڈین سائن لینگویج ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس ادارے نے اب تک دس ہزار الفاظ اور محاورات کی لغت تیار کرلی ہے۔ دو دن پہلے یعنی 23 ستمبر کو اشاروں کی زبان کے دن کے موقع پر بہت سے اسکولی کورسز بھی اشاروں کی زبان میں شروع کئے گئے ہیں، قومی تعلیمی پالیسی میں بھی اشارے کی زبان کے مقررہ معیار کو برقرار رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اشاروں کی زبان کی ، جو لغت بنی ہے ، اس کی ویڈیوز بنا کر اسے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے، بہت سے اداروں نے یوٹیوب پر بھارتی اشاروں کی زبان میں اپنے چینل شروع کئے ہیں یعنی ملک میں 7 - 8 سال پہلے اشارے کی زبان کے بارے میں ، جو مہم شروع کی گئی تھی،اب میرے لاکھوں معذور بھائی اور بہنیں اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پوجا جی، جن کا تعلق ہریانہ سے ہے، بھارتی اشاروں کی زبان سے بہت خوش ہیں۔ اس سے پہلے وہ اپنے بیٹے سے بات چیت نہیں کر پاتی تھیں لیکن 2018 ء میں اشاروں کی زبان کی تربیت لینے کے بعد ماں - بیٹے دونوں کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔ پوجا جی کے بیٹے نے بھی اشاروں کی زبان سیکھی اور اپنے اسکول میں اس نے کہانی سنانے میں انعام جیت کر بھی دکھایا۔ اسی طرح ٹنِکا جی کی ایک چھ سال کی بیٹی ہے ، جو سن نہیں سکتی۔ ٹنکا جی نے اپنی بیٹی کو اشاروں کی زبان کا کورس کرایا تھا لیکن وہ خود اشاروں کی زبان نہیں جانتی تھیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی سے بات چیت نہیں کر پاتی تھیں۔ اب ٹنِکا جی نے اشاروں کی زبان کی تربیت بھی لے لی ہے اور ماں بیٹی دونوں اب آپس میں خوب باتیں کرتی ہیں۔ کیرالہ کی منجو جی کو بھی ان کوششوں سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ منجو جی، پیدائش سے ہی سن نہیں پا تی ہیں، یہی نہیں، ان کے والدین کی زندگی میں بھی یہی حال رہا ہے۔ ایسے میں اشاروں کی زبان پورے خاندان کے لئے رابطے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اب منجو جی نے خود بھی اشاروں کی زبان کی ٹیچر بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
ساتھیو ، میں اس بارے میں ’ من کی بات ‘ میں ، اس لئے بھی بات کر رہا ہوں تاکہ بھارتی اشاروں کی زبان کے بارے میں آگاہی بڑھے، اس سے ہم اپنے معذور ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کر سکیں گے۔ بھائیو اور بہنو، کچھ دن پہلے مجھے بریل میں لکھی ہیمکوش کی ایک کاپی بھی ملی ہے۔ ہیمکوش آسامی زبان کی سب سے پرانی لغت میں سے ایک ہے۔ یہ 19ویں صدی میں تیار کی گئی تھا۔ اس کی تدوین ممتاز ماہر لسانیات ہیم چندر بروا جی نے کی تھی۔ ہیمکوش کا بریل ایڈیشن تقریباً 10000 صفحات پر مشتمل ہے اور یہ 15 سے بھی زیادہ جلدوں میں شائع ہونے جا رہا ہے ۔ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ الفاظ کا ترجمہ ہونا ہے۔ میں اس حساس کوشش کی بہت ستائش کرتا ہوں۔ اس طرح کی ہر کوشش مختلف طور پر معذور ساتھیوں کی مہارت اور صلاحیت کو بڑھانے میں بہت مدد کرتی ہے۔ آج بھارت پیرا اسپورٹس میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ ہم سب کئی ٹورنامنٹس میں اس کے گواہ رہے ہیں۔ آج بہت سے لوگ ہیں ، جو بنیادی سطح پر معذور افراد میں فٹنس کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ اس سے معذور افراد کی خود اعتمادی کو کافی تقویت ملتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، میری ملاقات کچھ دن پہلے سورت کی ایک بیٹی انوی سے ہوئی۔ انوی اور انوی کے یوگ سے میری ملاقات اتنی یادگار رہی کہ میں اس کے بارے میں ’ من کی بات ‘ کے سبھی سامعین کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو ، انوی پیدائش سے ہی ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے اور وہ بچپن سے ہی دل کی سنگین بیماری سے بھی لڑ رہی ہے۔ جب وہ صرف تین مہینے کی تھی تبھی اسے اوپن ہارٹ سرجری سے بھی گزرنا پڑا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود نہ تو انوی نے اور نہ ہی اس کے والدین نے کبھی ہمت ہاری۔ انوی کے والدین نے ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کیں اور پھر فیصلہ کیا کہ انوی کا دوسروں پر انحصار کیسے کم کیا جائے۔ انہوں نے انوی کو پانی کا گلاس کیسے اٹھانا ہے، جوتوں کے فیتے کیسے باندھنے ہیں ، کپڑوں کے بٹن کیسے لگانے ہیں ، ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں سکھانا شروع کیں۔ کون سی چیز کی جگہ کہاں ہے ، کون سی اچھی عادتیں ہوتی ہیں ، یہ سب کچھ بہت تحمل کے ساتھ انہوں نے اپنی انوی کو سکھانے کی کوشش کی ۔ بٹیا انوی نے ، جس طرح سیکھنے کی اپنی قوت ارادی کا مظاہرہ کیا ، اس سے اس کے والدین کو بھی بہت حوصلہ ملا ۔ انہوں نے انوی کو یوگ سیکھنے کی تحریک دی۔مسئلہ بہت سنجیدہ تھا کیونکہ انوی اپنے دو پیروں پر بھی کھڑی نہیں ہو پاتی تھی ۔ ایسی صورت میں ، اس کے والدین نے انوی کو یوگ سیکھنے کے لئے آمادہ کیا ۔پہلی مرتبہ، جب وہ یوگ سکھانے والی کوچ کے پاس گئی ، تو وہ بھی بہت ششپنج میں تھے کہ کیا یہ معصوم بچی یوگ کر سکے گی! لیکن کوچ کو بھی شاید اندازہ نہیں تھا کہ انوی کس مٹی سے بنی ہے۔ اس نے اپنی والدہ کے ساتھ یوگا کی مشق شروع کی اور اب وہ یوگا کی ماہر بن چکی ہیں۔ آج انوی ملک بھر کے مقابلوں میں حصہ لیتی ہے اور تمغے جیتتی ہے۔ یوگا نے انوی کو نئی زندگی دی۔ انوی نے یوگ کو اپنایا اور زندگی کو اپنایا۔ انوی کے والدین نے مجھے بتایا کہ یوگا سے انوی کی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں، اب اس کی خود اعتمادی حیرت انگیز ہو گئی ہے۔ یوگا سے انوی کی جسمانی صحت میں بھی بہتری آئی ہے اور ادویات کی ضرورت بھی کم ہو رہی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ملک اور بیرون ملک میں موجود ’ من کی بات ‘ کے سامعین انوی کو یوگ سے ہوئے فائدے کا سائنسی مطالعہ کریں، میرے خیال میں انوی ایک بہترین کیس اسٹڈی ہے، ان لوگوں کے لئے ، جو یوگا کی قوت کو جانچنا چاہتے ہیں۔ ایسے سائنسدانوں کو آگے آنا چاہیئے اور انوی کی اس کامیابی کا مطالعہ کرنا چاہیئے اور دنیا کو یوگا کی طاقت سے متعارف کرانا چاہیئے۔ ایسی کوئی بھی تحقیق دنیا بھر میں ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا بچوں کے لئے بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ یوگا جسمانی اور ذہنی تندرستی کے لئے بہت موثر ہے، خاص طور پر ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے متعلق مسائل میں یوگا بہت مدد کرتا ہے۔ یوگا کی ایسی ہی قوت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 21 جون کو بین الاقوامی یوگا کا دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب اقوام متحدہ نے بھارت کی ایک اور کوشش کو تسلیم کیا ہے، اس کا احترام کیا ہے۔ یہ کوشش ہے، جو سال 2017 ء میں شروع کی گئی ’’ انڈیا ہائیپر ٹنشن کنٹرول انیشیٹو ‘‘ ۔ اس کے تحت بلڈ پریشر کے مسائل سے دوچار لاکھوں لوگوں کا علاج سرکاری سیوا کیندروں میں کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام نے ، جس طرح بین الاقوامی اداروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے ، وہ بے مثال ہے۔ یہ بات ہم سب کے لئے حوصلہ افزا ہے کہ جن لوگوں کا علاج کیا گیا ہے ، ان میں سے تقریباً آدھے کا بلڈ پریشر اب کنٹرول میں ہے ۔ میں اس اقدام کے لئے کام کرنے والے تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اپنی انتھک محنت سے اسے کامیاب بنایا۔
ساتھیو ، انسانی زندگی کی ترقی کا سفر مسلسل پانی سے جڑا ہوا ہے ۔ چاہے وہ سمندر ہو، دریا ہو یا تالاب ہو ، بھارت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ تقریباٍ ساڑھے سات ہزار کلومیٹر ( 7500 ) کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کی وجہ سے سمندر سے ہمارا ناطا سمندر اٹوٹ رہا ہے۔ یہ ساحلی سرحد کئی ریاستوں اور جزیروں سے گزرتی ہے۔ مختلف برادریوں اور تنوع سے بھری بھارت کی ثقافت کو یہاں پھلتا پھولتا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں، ان ساحلی علاقوں کے کھانے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن ان مزیدار باتوں کے ساتھ ساتھ ایک افسوسناک پہلو بھی ہے۔ ہمارے یہ ساحلی علاقے بہت سے ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، آب و ہوا میں تبدیلی ، سمندری ماحولیاتی نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف ہمارے ساحلوں پر موجود گندگی پریشان کن ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان چیلنجز کے لئے سنجیدہ اور مستقل کوششیں کریں۔ یہاں میں ملک کے ساحلی علاقوں میں ساحلی صفائی کی ایک کوشش ’ سووچھ ساگر - سرکشت ساگر ‘ کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ 5 جولائی کو شروع ہونے والی یہ مہم 17 ستمبر کو وشوکرما جینتی کے دن ختم ہوئی۔ اس دن کوسٹل کلین اپ ڈے بھی تھا۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں شروع ہونے والی یہ مہم 75 دن تک جاری رہی۔ اس میں عوام کی بھر پور شرکت دیکھی جا رہی تھی۔ اس کوشش کے دوران پورے ڈھائی ماہ تک صفائی کے کئی پروگرام دیکھے گئے۔ گوا میں ایک لمبی انسانی زنجیر بنائی گئی۔ کاکی ناڈا میں گنپتی وسرجن کے دوران لوگوں کو پلاسٹک سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بتایا گیا۔ این ایس ایس کے تقریباً 5000 نوجوانوں نے 30 ٹن سے زیادہ پلاسٹک جمع کیا۔ اڈیشہ میں، تین دنوں کے اندر 20 ہزار سے زیادہ اسکولی طلباء نے عہد لیا کہ وہ اپنے خاندان اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی ’ سووچھ ساگر – شرکشت ساگر ‘ کے لئے تحریک دلائیں گے۔ میں ان تمام لوگوں کو مبارکباد دینا چاہوں گا ، جنہوں نے اس مہم میں حصہ لیا۔
جب میں منتخب عہدیداروں، خاص طور پر شہروں کے میئروں اور دیہاتوں کے سرپنچوں سے بات چیت کرتا ہوں، تو میں ان سے یہ ضرور اپیل کرتا ہوں کہ وہ سووچھتا جیسی کوششون میں مقامی برادریوں اور مقامی تنظیموں کو شامل کریں ، اختراعی طریقے اپنائیں۔
بنگلورو میں ایک ٹیم ہے - ’’ یوتھ فار پریورتن ‘‘۔ پچھلے آٹھ سالوں سے یہ ٹیم صفائی اور دیگر کمیونٹی سرگرمیوں پر کام کر رہی ہے۔ اس کا نعرہ بہت واضح ہے – ’ شکایت کرنا بند کرو، عمل کرنا شروع کرو ‘ ('Stop Complaining, Start Acting' )۔ اب تک یہ ٹیم شہر بھر میں 370 سے زائد مقامات کو خوبصورت بنا چکی ہے۔ ہر مقام پر یوتھ فار پریورتن کی مہم نے 100 سے 150 شہروں کو جوڑا ہے۔ ہر اتوار کو یہ پروگرام صبح شروع ہوتا ہے اور دوپہر تک چلتا ہے۔ اس کام میں نہ صرف کچرا ہٹایا جاتا ہے بلکہ دیواروں پر پینٹنگ اور آرٹسٹک اسکیچز بنانے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر آپ مشہور لوگوں کے خاکے اور ان کے متاثر کن اقتباسات بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بنگلورو کے یوتھ فار پریورتن کی کوششوں کے بعد، میں آپ کو میرٹھ کی ’ کباڑ سے جگاڑ ‘ مہم کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ اس مہم کا تعلق ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ شہر کو خوبصورت بنانے سے بھی ہے۔ اس مہم کی خاص بات یہ ہے کہ اس مہم میں لوہے کا اسکریپ، پلاسٹک کا کچرا، پرانے ٹائر اور ڈرم استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ مہم اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ کم خرچ میں عوامی مقامات کو کیسے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ میں اس مہم میں شامل تمام لوگوں کی تہہ دل سے ستائش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس وقت پورے ملک میں چاروں طرف تہواروں کی رونق ہے۔ کل نوراتری کا پہلا دن ہے۔ اس میں ہم دیوی کی پہلی شکل ’ ماں شیل پُتری ‘ کی پوجا کریں گے۔ یہاں سے نو دنوں کا نیم – سَیّم اور اُپواس پھر وجے دشمی کے پروو کا تہوار بھی ہو گا یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو ہم پائیں گے کہ ہمارے تہواروں میں عقیدت اور روحانیت کے ساتھ ساتھ کتنا گہرا پیغام بھی چھپا ہے۔ نظم و ضبط اور تحمل کے ذریعے کامیابی کا حصول اور اس کے بعد فتح کا تہوار، زندگی میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ دسہرہ کے بعد دھنتیرس اور دیوالی کا تہوار بھی آنے والا ہے۔
ساتھیو ، گزشتہ برسوں سے ہمارے تہواروں سے ملک کا ایک نیا عہد بھی جڑ گیا ہے ۔ آپ سب جانتے ہیں، یہ عہد ہے - ’ ووکل فار لوکل ‘ کا ۔ اب ہم تہواروں کی خوشی میں اپنے مقامی کاریگروں ، دست کاروں اور تاجروں کے بھی شامل کرتے ہیں۔ 2 اکتوبر کو باپو کے یوم پیدائش کے موقع پر ہمیں اس مہم کو مزید تیز کرنے کا عہد کرنا ہے۔ کھادی، ہینڈلوم، دستکاری، ان تمام مصنوعات کے ساتھ ساتھ مقامی اشیا ضرور خریدیں۔ آخرکار ، اس تہوار کی اصل خوشی تب ہوتی ہے ، جب ہر کوئی اس تہوار کا حصہ بنتا ہے، اس لئے مقامی مصنوعات کے کام سے جڑے لوگوں کی ، ہمیں مدد بھی کرنی ہے ۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم تہوار کے دوران ، جو بھی تحفہ دیتے ہیں ، اس میں اس قسم کی مصنوعات کو شامل کیا جائے۔
اس وقت یہ مہم اس لئے بھی خاص ہے کیونکہ آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران ہم خود کفیل بھارت کا ہدف بھی لے کر چل رہے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں آزادی کے متوالوں کو حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بار کھادی، ہینڈلوم یا دستکاری میں اس پروڈکٹ کو خریدنے کے لئے تمام ریکارڈ توڑ دیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ تہواروں کے دوران پولی تھین بیگز کو پیکنگ کے لئے بھی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ صفائی کے تہواروں پر پولی تھین کا نقصان دہ فضلہ ہمارے تہواروں کے جذبے کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا، ہم صرف مقامی طور پر بنائے گئے غیر پلاسٹک کے تھیلے استعمال کریں۔ ہمارے یہاں جوٹ، سوت ، کیلے جیسی چیزوں سے روایتی تھیلوں کا چلن ایک بار پھر بڑھ رہا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تہواروں کے موقع پر ان کو بڑھاوا دیں اور صفائی کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور ماحولیات کا بھی خیال رکھیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے-
‘परहित सरिस धरम नहीं भाई’ ( پرہِت سَرِس دھرم نہیں بھائی )
یعنی دوسروں کا فائدہ کرنے کے برابر ، دوسروں کی خدمت کرنے کے برابر اور دوسروں کی بھلائی کرنے کے برابر اور کوئی دھرم نہیں ہے ۔ حال ہی میں ملک میں سماجی خدمت کے اس جذبے کی ایک اور جھلک دیکھنے کو ملی۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ لوگ آگے آکر کسی نہ کسی ٹی بی سے متاثرہ مریض کو گود لے رہے ہیں ۔ غذائیت سے بھرپور خوراک کا بیڑا اٹھا رہا ہیں ۔ دراصل، یہ ٹی بی سے پاک بھارت مہم کا ایک حصہ ہے، جس کی بنیاد عوامی شرکت ہے ، فرائض کا جذبہ ہے۔ ٹی بی کا علاج صحیح خوراک، صحیح وقت پر صحیح ادویات سے ہی ممکن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عوامی شرکت کی اس قوت سے، بھارت یقینی طور پر سال 2025 ء تک ٹی بی سے پاک ہو جائے گا۔
ساتھیو ، مجھے مرکز کے زیر انتظام علاقوں دادر- نگر حویلی اور دمن - دیو سے بھی ایسی مثال ملی ہے، جو دل کو چھو لیتی ہے۔ یہاں کے قبائلی علاقے میں رہنے والی جینو راوتیہ جی نے لکھا ہے کہ وہاں چل رہے گاؤں گود لینے کے پروگرام کے تحت میڈیکل کالج کے طلباء نے 50 گاؤں گود لئے ہیں۔ اس میں جینو جی کا گاؤں بھی شامل ہے۔یہ میڈیکل طلباء گاؤں کے لوگوں کو بیماری سے بچنے کے لئے آگاہ کرتے ہیں، بیماری میں مدد بھی کرتے ہیں اور سرکاری اسکیموں کے بارے میں بھی جانکاری دیتے ہیں۔ انسان دوستی کے اس جذبے سے گاؤوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں نئی خوشیاں آئی ہیں۔ میں اس کے لئے میڈیکل کالج کے تمام طلباء کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ، ’من کی بات‘ میں نئے نئے موضوعات پر بات ہوتی رہتی ہے۔ کئی بار اس پروگرام کے ذریعے ہمیں کچھ پرانے موضوعات کی گہرائی میں جانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ پچھلے مہینے ’من کی بات ‘ میں، میں نے موٹے اناج اور سال 2023 ء کو انٹر نیشنل ملٹ ایئر کے طور پر منانے پر بات کی تھی ۔ اس موضوع کو لے کر لوگوں میں بہت جوش ہے ۔ مجھے ایسے بہت سے خطوط ملے ہیں ، جس میں لوگ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے کیسے موٹے اناج کو اپنی یومیہ خوراک کا حصہ بنایا ہوا ہے ۔ کچھ لوگوں نے موٹے اناج سے بننے والے روایتی پکوانوں کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی کے آثار ہیں۔ لوگوں کے اس جوش و جذبے کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ ہمیں مل کر ایک ای بک تیار کرنی چاہیئے، جس میں لوگ موٹے اناج سے بننے والے کھانوں اور اپنے تجربات ساجھا کر سکیں ۔ اس سے انٹر نیشنل ملٹ ایئر شروع ہونے سے پہلے ہمارے پاس ایک عوامی انسائیکلو پیڈیا بھی تیار ہو گی اور پھر اسے مائی گوو پورٹل پر پبلش کر سکتے ہیں ۔
ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ میں اس بار اتنا ہی ، لیکن چلتے چلتے ، میں آپ کو قومی کھیلوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ گجرات میں 29 ستمبر سے قومی کھیلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت ہی خاص موقع ہے کیونکہ کئی سالوں کے بعد نیشنل گیمز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ کووڈ کی وباء کی وجہ سے پچھلے ایونٹس کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ اس کھیلوں کے مقابلے میں حصہ لینے والے ہر کھلاڑی کے لئے میری نیک خواہشات ہیں ۔ اس دن کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ، میں ان کے درمیان رہوں گا۔ آپ سب بھی نیشنل گیمز کو ضرور فالو کریں اور اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اب میں آج کے لئے وداع لیتا ہوں۔ اگلے مہینے ’ من کی بات ‘ میں نئے موضوعات کے ساتھ آپ سے پھر ملاقات ہو گی ۔ شکریہ ۔ نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ! اگست کے اس مہینے میں آپ سبھی کے خطوط، پیغامات اور کارڈز نے میرے دفتر کو تین رنگوں سے بھر دیا ہے۔ مجھے شاید ہی کوئی ایسا خط ملا ہو ، جس پر ترنگا نہ ہو، یا ترنگے اور آزادی سے متعلق بات نہ ہو۔ بچوں نے ، نو جوان ساتھیوں نے تو امرت مہوتسو پر بہت خوبصورت خوبصورت تصاویر اور فن پارے بھی بنا کر بھیجے ہیں ۔ آزادی کے اس مہینے میں، ہمارے پورے ملک میں، ہر شہر، ہر گاؤں میں، امرت مہوتسو کی امرت دھارا بہہ رہی ہے۔ امرت مہوتسو اور یومِ آزادی کے اس خاص موقع پر ہم نے ملک کی اجتماعی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے۔ بیداری کا ایک احساس ہوا ہے۔ اتنا بڑا ملک، اتنے تنوع، لیکن جب ترنگا لہرانے کی بات آئی تو سب ایک ہی جذبے میں بہتے دکھائی دیئے ۔ ترنگے کی شان کے پہلے محافظ بن کر لوگ خود آگے آئے۔ ہم نے صفائی مہم اور ٹیکہ کاری مہم میں بھی ملک کا جذبہ دیکھا تھا۔ حب الوطنی کا وہی جذبہ ہمیں امرت مہوتسو میں دوبارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہمارے سپاہیوں نے اونچے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر، ملک کی سرحدوں پر اور سمندر کے بیچ ترنگا لہرایا۔ لوگ ترنگا مہم کے لئے مختلف اختراعی آئیڈیاز بھی لے کر آئے۔ جیسے نوجوان ساتھی، کرشنیل انل جی نے ، جو ایک پزل آرٹسٹ ہیں ، انہوں نے ریکارڈ وقت میں خوبصورت ترنگا موزیک آرٹ تیار کیا ہے۔ کرناٹک کے کولار میں لوگوں نے 630 فٹ لمبا اور 205 فٹ چوڑا ترنگا پکڑ کر ایک انوکھا نظارہ پیش کیا۔ آسام میں سرکاری ملازمین نے دیگھالی پوکھوری وار میموریل پر ترنگا لہرانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے 20 فٹ کا ترنگا بنا یا ۔ اسی طرح اندور میں لوگوں نے انسانی چین کے ذریعے بھارت کا نقشہ بنایا۔ چنڈی گڑھ میں نوجوانوں نے ایک عظیم انسانی ترنگا بنایا۔ ان دونوں ہی کوسشوں کو گینز ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا ہے۔ اس سب کے درمیان ہماچل پردیش کی گنگوٹ پنچایت سے ایک بڑی تحریک دینے والی مثال بھی دیکھنے کو ملی ہے ۔ یہاں پنچایت میں یوم ِ آزادی کے پروگرام میں مہاجر مزدوروں کے بچوں کو مہمان خصوصی کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔
ساتھیو ، امرت مہوتسو کے یہ رنگ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے کو ملے۔ بوتسوانا میں مقامی گلوکاروں نے بھارت کی آزادی کے 75 سال منانے کے لئے حب الوطنی کے 75 گیت گائے۔ اس میں خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ 75 گیت ہندی، پنجابی، گجراتی، بنگالی، آسامی، تامل، تیلگو، کنڑ اور سنسکرت جیسی زبانوں میں گائے گئے۔ اسی طرح نمیبیا میں بھارت - نمیبیا کے ثقافتی-روایتی تعلقات پر خصوصی ٹکٹ جاری کیا گیا ۔
ساتھیو ، میں ایک اور خوشی کی بات بتانا چاہتا ہوں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں انہوں نے دوردرشن سیریل ’سوراج‘ کی اسکریننگ رکھی تھی ۔ مجھے اس کے پریمیئر میں جانے کا موقع ملا۔ ملک کی نوجوان نسل کو تحریک آزادی میں حصہ لینے والے ان ہیروز اور ہیروئنوں کی کاوشوں سے روشناس کرانے کا یہ ایک بہترین اقدام ہے۔ یہ ہر اتوار کو رات 9 بجے دوردرشن پر نشر ہوتا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ 75 ہفتوں تک جاری رہے گا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ وقت نکال کر خود بھی دیکھیں اور اپنے گھر کے بچوں کو بھی دکھائیں اور اسکول کالج والے بھی پیر کو اسکول کالج کھلنے پر اس کی ریکارڈنگ کرکے ایک خصوصی پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں تاکہ آزادی کے اِن ہیرو کے تئیں ہمارے ملک میں ایک نئی بیداری پیدا ہو ۔ آزادی کا امرت مہوتسو اگلے سال یعنی اگست ، 2023 ء تک جاری رہے گا ۔ ملک کے لئے، مجاہدینِ آزادی کے لئے، جو مضمون نویسی وغیرہ ہم کر رہے تھے ، ہمیں انہیں اور آگے بڑھانا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اجداد کا علم، ہمارے اجداد کی دور اندیشی اور ہمارے اجداد کی اتحاد کی فکر آج بھی کتنی اہم ہے ، جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو ہمیں بہت حیرت ہوتی ہے ۔ ہزاروں سال پرانا ہمارا رِگ وید – رِگ وید میں کہا گیا ہے :
ओमान-मापो मानुषी: अमृक्तम् धात तोकाय तनयाय शं यो:।
यूयं हिष्ठा भिषजो मातृतमा विश्वस्य स्थातु: जगतो जनित्री:।|
یعنی - اے پانی تو انسانیت کا بہترین دوست ہے۔ تو ہی زندگی دینے والا ہے، تجھ سے رزق پیدا ہوتا ہے اور تجھ سے ہمارے بچوں کی فلاح ہوتی ہے۔ تو ہی ہمارا محافظ ہے اور ہمیں تمام برائیوں سے دور رکھے۔ آپ بہترین دوا ہیں اور آپ ہی اس کائنات کو پالنے والے ہیں۔
سوچیے ، ہماری تہذیب میں ہزاروں سال پہلے پانی اور پانی کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھایا گیا ہے ۔ جب ہم اس علم کو آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہم جوش میں آجاتے ہیں لیکن جب اسی علم کو ملک اپنی صلاحیت کے طور پر اعتراف کرتا ہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، چار مہینے پہلے ’من کی بات‘ میں ہی میں نے امرت سروور کی بات کی تھی۔ اس کے بعد مختلف اضلاع میں مقامی انتظامیہ جمع ہوئی، رضاکار تنظیمیں جمع ہوئیں اور مقامی لوگ جمع ہوئے- دیکھتے ہی دیکھتے امرت سروور کی تعمیر ایک عوامی تحریک بن گئی ہے۔ جب ملک کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہو، اپنے فرض کا احساس ہو، آنے والی نسلوں کی فکر ہو تو طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے اور عزم بھی بلند ہو جاتا ہے۔ مجھے تلنگانہ کے وارنگل سے ایک عظیم کوشش کا علم ہوا ہے۔ یہاں ایک نئی گرام پنچایت بنائی گئی ہے، جس کا نام ہے ’منگتیا والیا ٹھانڈا ‘ ۔ یہ گاؤں جنگل علاقے کے قریب ہے۔ گاؤں کے قریب ہی ایک ایسی جگہ تھی ، جہاں مانسون میں بہت سا پانی جمع ہو جاتا تھا۔ گاؤں والوں کی پہل پر اب اس جگہ کو امرت سروور ابھیان کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس بار مانسون کے دوران ہونے والی بارشوں کی وجہ سے یہ جھیل پانی سے بھر گئی ہے۔
میں آپ کو مدھیہ پردیش کے منڈلا میں موچا گرام پنچایت میں بنائے گئے امرت سروور کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہ امرت سروور کانہا نیشنل پارک کے قریب بنایا گیا ہے اور اس نے اس علاقے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اتر پردیش کے للت پور میں نو تعمیر شدہ شہید بھگت سنگھ امرت سروور بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ یہاں کی نیواری گرام پنچایت میں بنی یہ جھیل 4 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ جھیل کے کناروں پر شجرکاری اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہے۔ جھیل کے قریب 35 فٹ اونچے ترنگے کو دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آرہے ہیں۔ امرت سروور کی یہ مہم کرناٹک میں بھی زور و شور سے جاری ہے۔ یہاں باگل کوٹ ضلع کے گاؤں ’بلکیرور ‘ میں لوگوں نے ایک بہت ہی خوبصورت امرت سروور بنایا ہے۔ در اصل ، اس علاقے میں پہاڑ سے نکلنے والے پانی کی وجہ سے لوگوں کو بہت مشکل ہوتی تھی ، کسانوں اور ان کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا تھا ۔ امرت سروور بنانے کے لئے گاؤں کے لوگ سارے پانی کو چینلائز کرکے ایک طرف لے آئے۔ اس سے علاقے میں سیلاب کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ امرت سروور ابھیان نہ صرف آج ہمارے بہت سے مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس مہم کے تحت کئی مقامات پر پرانے آبی ذخائر کو بھی از سر نو بنایا جا رہا ہے۔ امرت سروور کو جانوروں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان تالابوں کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی ان کے اردگرد ہریالی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں، کئی جگہوں پر لوگ امرت سروور میں ماہی پروری کی تیاریوں میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ میری آپ سب سے، خاص کر میرے نوجوان دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ امرت سروور مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور پانی کو جمع کرنے اور اس کے تحفظ کی ان کوششوں کو پوری طاقت سے آگے بڑھائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آسام کے بونگئی گاؤں میں ایک دلچسپ پروجیکٹ چلایا جا رہا ہے – پروجیکٹ سمپورن۔ اس پروجیکٹ کا مقصد تغذیہ قلت کے خلاف لڑنا ہے اور اس لڑائی کا طریقہ بھی بہت منفرد ہے۔ اس کے تحت کسی آنگن واڑی سنٹر سے کسی صحت مند بچے کی ماں ایک تغذیہ کی کمی والے بچے کی ماں سے ہر ہفتے ملتی ہے اور تغذیہ سے متعلق تمام معلومات پر تبادلۂ خیال کرتی ہے۔ یعنی ایک ماں دوسری ماں کی سہیلی بنتی ہے، اس کی مدد کرتی ہے، اسے سکھاتی ہے۔ اس منصوبے کی مدد سے اس خطے میں ایک سال میں 90 فیصد سے زیادہ بچوں میں تغذیہ کی کمی دور ہوئی ہے ۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں، کیا گانا اور موسیقی اور ترانے بھی تغذیہ کی کمی کو دور کرنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں؟ مدھیہ پردیش کے دتیا ضلع میں ’’میرا بچہ ابھیان ‘‘ ! اس ’’میرا بچہ ابھیان ‘‘ میں کامیابی کے ساتھ اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس کے تحت ضلع میں بھجن کیرتنوں کا انعقاد کیا گیا ، جس میں تغذیہ گرو کہلانے والے اساتذہ کو بلایا گیا۔ ایک مٹکا پروگرام بھی منعقد کیا گیا، جس میں خواتین آنگن واڑی مرکز میں مٹھی بھر اناج لاتی ہیں اور اس اناج سے ہفتہ کے روز ’ بال بھوج ‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سے آنگن واڑی مراکز میں بچوں کی حاضری بڑھنے سے تغذیہ کی کمی بھی کم ہوئی ہے۔ جھارکھنڈ میں تغذیہ کی قلت کے بارے میں بیداری بڑھانے کے لئے ایک انوکھی مہم بھی چل رہی ہے۔ جھارکھنڈ کے گریڈیہہ میں سانپ سیڑھی کا ایک کھیل تیار کیا گیا ہے۔ کھیل کے ذریعے بچے اچھی اور بری عادات کے بارے میں سیکھتے ہیں۔
ساتھیو ، میں آپ کو تغذیہ سے متعلق بہت سے نت نئے تجربات کے بارے میں بتا رہا ہوں کیونکہ آنے والے مہینے میں ہم سب کو اس مہم میں شامل ہونا ہے۔ ستمبر کا مہینہ تہواروں کے ساتھ ساتھ تغذیہ سے متعلق ایک بڑی مہم کے لئے وقف ہے۔ ہم ہر سال 1 سے 30 ستمبر تک پوشن ماہ مناتے ہیں۔ پورے ملک میں تغذیہ کی کمی کے خلاف بہت سی تخلیقی اور متنوع کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال اور عوام کی شرکت بھی نیوٹریشن مہم کا ایک اہم حصہ بن گئی ہے۔ ملک میں لاکھوں آنگن واڑی کارکنوں کو موبائل آلات دینے سے لے کر آنگن واڑی خدمات کی رسائی کی نگرانی تک، پوشن ٹریکر بھی شروع کیا گیا ہے۔ تمام امنگوں والے اضلاع اور شمال مشرق کے ریاستوں میں 14 سے 18 سال کی بیٹیوں کو بھی پوشن ابھیان کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ تغذیہ کی کمی کے مسئلے کا حل صرف ان اقدامات تک محدود نہیں ہے - اس لڑائی میں بہت سے دوسرے اقدامات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جل جیون مشن کو لے لیجئے، تو یہ مشن بھارت کو تغذیہ کی کمی سے پاک بنانے میں بھی بہت بڑا اثر ڈالنے والا ہے۔ سماجی بیداری کی کوششیں تغذیہ کی قلت کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ آنے والے پوشن ماہ میں آپ کو تغذیہ کی قلت یا مال نیوٹریشن کو دور کرنے کی کوششوں میں ضرور حصہ لیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، چنئی سے سری دیوی وردراجن جی نے مجھے ایک ریمائنڈر بھیجا ہے۔ انہوں نے مائی گوو پر اپنی بات کچھ اس طرح لکھی ہے – نئے سال کے آنے میں 5 ماہ سے بھی کم وقت بچا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ آنے والا نیا سال جوار باجرے کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جائے گا۔ انہوں نے مجھے ملک کا جوار باجرے کا نقشہ بھی بھیجا ہے۔ یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا آپ ’من کی بات ‘ کے آنے والے ایپی سوڈ میں اس پر بات کر سکتے ہیں؟ مجھے اپنے ہم وطنوں میں ایسا جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کرکے سال 2023 ء کو جوار باجرے کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوگی کہ بھارت کی اس تجویز کو 70 سے زیادہ ممالک کی حمایت ملی تھی ۔ آج پوری دنیا میں اسی موٹے اناج کا ، جوار باجرے کا کریز بڑھتا جا رہا ہے۔ ساتھیو ، جب میں موٹے اناج کی بات کرتا ہوں تو میں آج اپنی ایک کوشش کو بھی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصے سے ، جب کوئی بھی غیر ملکی مہمان بھارت آتا ہے، جب سربراہ مملکت بھارت آتے ہیں تو میری کوشش رہتی ہے کہ کھانے میں بھارت کے موٹے اناج یعنی ملٹس سے بنے ہوئے پکوان بنواؤں اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان اہم شخصیات کو یہ کھانے بہت پسند آتے ہیں اور ہمارے موٹے اناج کے تعلق سے ، ملٹ کے تعلق سے ، وہ بہت سی معلومات حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ ملٹس ، موٹے اناج عہدِ قدیم سے ہی ہماری زراعت، ثقافت اور تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ ہمارے ویدوں میں موٹے اناج کے بارے میں تحریر ملتی ہے اور اسی طرح پرانانورو اور تولکپیم میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں، وہاں کے لوگوں کے کھانے میں آپ کو الگ الگ طرح کے موٹے اناج دیکھنے کو ضرور ملیں گے ۔ ہماری تہذیب کی طرح ملٹ میں بھی بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ جوار، باجرہ، راگی، ساواں ، کنگنی، سینا، کوڈو، کٹکی، کٹو، یہ سب موٹے اناج ہی تو ہیں ۔ بھارت دنیا میں موٹے اناج کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے، اس لئے اس پہل کو کامیاب بنانے کی بڑی ذمہ داری بھی ہم بھارتیوں کے کندھوں پر ہے۔ ہم سب کو مل کر اسے ایک عوامی تحریک بنانا ہے اور ملک کے لوگوں میں موٹے اناج کے تئیں بیداری بڑھانی ہے اور ساتھیو ، آپ اچھی طرح جانتے ہیں، ملٹ کسانوں کے لئے بھی فائدہ مند ہے اور وہ بھی خاص طور پر چھوٹے کسانوں کے لئے۔ دراصل، فصل بہت کم وقت میں تیار ہو جاتی ہے اور اسے زیادہ پانی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ملٹ ہمارے چھوٹے کسانوں کے لئے ، خاص طور پر بہت فائدہ مند ہے۔ ملٹ کے بھوسے کو بھی بہترین چارہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کل نوجوان نسل صحت مند رہنے اور کھانے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ اس حساب سے بھی دیکھیں تو ملٹ میں پروٹین، فائبر اور منرل بھرپور ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے سپر فوڈ بھی کہتے ہیں۔ ملٹ کے ایک نہیں بلکہ بہت سے فوائد ہیں۔ موٹاپا کم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل سے متعلق امراض کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ معدے اور جگر کی بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہیں۔ ہم نے تھوڑی دیر پہلے تغذیہ کی قلت کے بارے میں بات کی تھی۔ ملٹ تغذیہ کی کمی سے لڑنے میں بھی بہت فائدہ مند ہے کیونکہ یہ پروٹین کے ساتھ ساتھ توانائی سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ آج ملک میں ملٹ کو فروغ دینے کے لئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ اس سے متعلق تحقیق اور اختراع پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ، ایف پی او کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ میرے کسان بھائیوں اور بہنوں سے میری درخواست ہے کہ ملٹ یعنی موٹے اناج کو زیادہ سے زیادہ اپنائیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ آج بہت سے ایسے اسٹارٹ اپس ابھر رہے ہیں، جو ملٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ملٹ کوکیز بنا رہے ہیں، جب کہ کچھ ملٹ پین کیک اور ڈوسا بھی بنا رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں ، جو ملٹ کی انرجی بارز اور ملٹ کا ناشتہ تیار کر رہے ہیں۔ میں اس شعبے میں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ اس تہوار کے موسم میں، ہم زیادہ تر پکوانوں میں ملٹ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ آپ اپنے گھروں میں بننے والی ایسی ڈشز کی تصویریں سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ لوگوں میں ملٹ کے بارے میں آگاہی بڑھانے میں مدد ملے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے، میں نے اروناچل پردیش کے سیانگ ضلع کے جورسنگ گاؤں سے ایک خبر دیکھی۔ یہ خبر اس تبدیلی کی تھی ، جس کا اس گاؤں کے لوگ کئی سالوں سے انتظار کر رہے تھے۔ دراصل، جورسنگ گاؤں میں اس ماہ یوم ِآزادی کے دن سے 4 جی انٹرنیٹ خدمات شروع ہو گئی ہیں۔ پہلے کبھی گاؤں میں بجلی پہنچنے پر لوگ خوش ہوتے تھے، اب نئے بھارت میں ویسی ہی خوشی 4 جی پہنچنے پر ہوتی ہے ۔ اروناچل اور شمال مشرق کے دور دراز علاقوں میں 4 جی کے طور پر ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی ایک نئی صبح لے کر آئی ہے ، جو سہولتیں کبھی صرف بڑے شہروں میں دستیاب تھیں، ڈیجیٹل انڈیا نے انہیں ہر گاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں نئے ڈیجیٹل انٹرپرینیور پیدا ہو رہے ہیں۔ راجستھان کے اجمیر ضلع کے سیٹھا سنگھ راوت جی ’ درزی آن لائن ‘ ، ای اسٹور چلاتے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ کیا ہوا، آن لائن درزی!! دراصل سیٹھا سنگھ راوت کووڈ سے پہلے ٹیلرنگ کا کام کرتے تھے۔ جب کووڈ آیا تو راوت جی نے اس چیلنج کو مشکل نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر لیا۔ انہوں نے ’ کامن سروس سنٹر ‘ یعنی سی ایس سی ای اسٹور جوائن کیا اور آن لائن کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ گاہک، بڑی تعداد میں، ماسک کا آرڈر دے رہے تھے۔ انہوں نے کچھ خواتین کو کام پر رکھا اور ماسک بنوانے لگے ۔ اس کے بعد انہوں نے ’ درزی آن لائن ‘ کے نام سے اپنا آن لائن اسٹور شروع کیا ، جس میں وہ اور بھی کئی طرح کے کپڑے بناکر بیچنے لگے ۔ آج ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت سے سیٹھا سنگھ جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب انہیں پورے ملک سے آرڈر ملتے ہیں۔ انہوں نے یہاں سینکڑوں خواتین کو روزگار دیا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا نے یوپی کے اناؤ میں رہنے والے اوم پرکاش سنگھ جی کو بھی ڈیجیٹل انٹرپرینیور بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک ہزار سے زیادہ براڈ بینڈ کنکشن قائم کئے ہیں۔ اوم پرکاش جی نے اپنے کامن سروس سینٹر کے ارد گرد ایک مفت وائی فائی زون بھی بنایا ہے، جو ضرورت مند لوگوں کی بہت مدد کر رہا ہے۔ اوم پرکاش جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے 20 سے زیادہ لوگوں کو ملازمت پر رکھا ہے۔ یہ لوگ گاؤں کے اسکولوں، اسپتالوں، تحصیل دفاتر اور آنگن واڑی مراکز کو براڈ بینڈ کنکشن فراہم کر رہے ہیں اور اس سے روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ کامن سروس سینٹر کی طرح، ایسی کتنی کامیابی کی کہانیاں گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم پورٹل پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
ساتھیو ، مجھے گاؤوں سے اس طرح کے بہت سے پیغامات ملتے ہیں، جو انٹرنیٹ سے ہونے والی تبدیلیوں کو میرے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ہمارے نوجوان دوستوں کے مطالعہ اور سیکھنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جب یوپی کی گڑیا سنگھ اناؤ کے امویا گاؤں میں اپنے سسرال آئیں ، تو انہیں اپنی پڑھائی کے فکر ہوئی لیکن بھارت نیٹ نے ان کی اس فکر کو حل کر دیا ۔ گڑیا نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اپنی گریجویشن بھی مکمل کی۔ گاؤں گاؤں میں ایسی کتنی زندگیوں کو ڈیجیٹل انڈیا مہم سے نئی طاقت مل رہی ہے۔ آپ مجھے گاؤوں کے ڈیجیٹل انٹرپرینیورس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لکھ کر بھیجیں اور ان کی کامیابی کی کہانیوں کو سوشل میڈیا پر بھی ضرور ساجھا کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ وقت پہلے، مجھے ہماچل پردیش سے ’من کی بات‘ کے سننے والے رمیش جی کا خط ملا۔ رمیش جی نے اپنے خط میں پہاڑوں کی بہت سی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پہاڑوں پر بستیاں بھلے ہی دور دور بستی ہیں لیکن لوگوں کے دل ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ در اصل ، ہم پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کی زندگیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پہاڑوں کے رہن سہن اور ثقافت سے پہلا سبق جو ہمیں ملتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر ہم حالات کے دباؤ میں نہ آئیں تو آسانی سے ان پر قابو پا سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم مقامی وسائل سے خود کفیل کیسے ہو سکتے ہیں۔ پہلا سبق ، جس کا میں نے ذکر کیا، اس کی ایک خوبصورت تصویر ان دنوں اسپیتی کے علاقے میں دیکھی جا رہی ہے۔ اسپیتی ایک قبائلی علاقہ ہے۔ یہاں ان دنوں مٹر توڑنے کا کام جاری ہے۔ پہاڑی کھیتوں میں یہ ایک محنت طلب اور مشکل کام ہے لیکن یہاں گاؤں کی عورتیں اکٹھی ہو کر ایک دوسرے کے کھیتوں سے مٹر چنتی ہیں۔ اس کام کے ساتھ خواتین مقامی گیت ’ چھپرا ماجھی چھپرا ‘ بھی گاتی ہیں یعنی یہاں باہمی تعاون بھی لوک روایت کا حصہ ہے۔ مقامی وسائل کے استعمال کی بہترین مثال اسپیتی میں ملتی ہے۔ اسپیتی میں، کسان جو گائے پالتے ہیں ، ان کے گوبر کو خشک کرکے بوریوں میں بھرتے ہیں۔ جب سردیاں آتی ہیں تو یہ بوریاں اس جگہ رکھ دی جاتی ہیں ، جہاں گائے رہتی ہے ، جسے یہاں کوڑھ کہتے ہیں۔ برف باری کے دوران یہ بوریاں گا یوں کو سردی سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سردیوں کے بعد گائے کے اس گوبر کو کھیتوں میں کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی جانوروں کے فضلے سے ان کی حفاظت بھی اور کھیتوں کے لئے کھاد بھی۔کھیتی کی لاگت بھی کم اور کھیت میں پیداوار بھی زیادہ ۔ اسی لئے تو یہ علاقہ ان دنوں قدرتی کھیتی کے لئے بھی تحریک بن رہا ہے۔
ساتھیو ، اسی طرح ہماری کی کئی قابل ستائش کوششیں ہماری ایک پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اتراکھنڈ میں کئی قسم کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں ، جو ہماری صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہیں۔ ان میں سے ایک پھل ہے - بیڑو۔ اسے ہمالیائی انجیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس پھل میں معدنیات اور وٹامنز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لوگ اسے نہ صرف پھل کی شکل میں استعمال کرتے ہیں بلکہ اسے کئی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل کی ان خوبیوں کے پیش نظر اب بیڑو کے جوس، جیم، چٹنیاں، اچار اور خشک میوہ جات کو خشک کرکے تیار کیا گیا ہے۔ پتھورا گڑھ انتظامیہ کی پہل اور مقامی لوگوں کے تعاون سے بیڑو کو مختلف شکلوں میں بازار تک پہنچانے میں کامیابی ملی ہے۔ بیڑو کو پہاڑی انجیر کے نام سے برانڈنگ کرکے آن لائن مارکیٹ میں بھی لانچ کیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے کسانوں کو نہ صرف آمدنی کا نیا ذریعہ ملا ہے بلکہ بیڑو کی ادویاتی خصوصیات کے فوائد دور دور تک پہنچنے لگے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات ‘ میں شروعات میں ہم نے آزادی کے امرت مہوتسو کے بارے میں بات کی ہے۔ یوم آزادی کے عظیم تہوار کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں میں کئی اور تہوار بھی آنے والے ہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد بھگوان گنیش کی پوجا کا تہوار گنیش چترتھی ہے۔ گنیش چترتھی، یعنی گنپتی بپا کے آشیرواد کا تہوار۔ گنیش چترتھی سے پہلے اونم کا تہوار بھی شروع ہو رہا ہے۔ اونم خاص طور پر کیرالہ میں امن اور خوشحالی کے جذبے کے ساتھ منایا جائے گا۔ ہرتالیکا تیج بھی 30 اگست کو ہے۔ اوڈیشہ میں یکم ستمبر کو نوا کھائی کا تہوار بھی منایا جائے گا۔ نوا کھائی کا مطلب ہوتا ہے ، نیا کھانا یعنی یہ بھی بہت سے دوسرے تہواروں کی طرح ہماری زرعی روایت سے جڑا ایک تہوار ہے۔ اس دوران جین سماج کا سموت سری تہوار بھی ہوگا۔ ہمارے یہ تمام تہوار ہماری مالا مال ثقافت اور بھر پور زندگی کے مترادف ہیں۔ میں آپ سب سے ان تہواروں اور خاص مواقع کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ان تہواروں کے ساتھ ساتھ کل 29 اگست کو میجر دھیان چند جی کے یوم پیدائش پر قومی کھیلوں کا دن بھی منایا جائے گا۔ ہمارے نوجوان کھلاڑی عالمی پلیٹ فارمز پر ہمارے ترنگے کی شان کو بڑھاتے رہیں، یہی دھیان چند جی کو ہمارا خراج عقیدت ہوگا۔ آئیے ، ہم سب مل کر ملک کے لئے کام کرتے رہیں، ملک کی عزت میں اضافہ کرتے رہیں، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ اگلے مہینے ایک بار آپ سے ’ من کی بات ‘ ہوگی ۔
بہت بہت شکریہ !
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار !
یہ ’من کی بات ‘کی 91ویں کڑی ہے۔ ہم لوگوں نے پہلے اتنی ساری باتیں کی ہیں، الگ الگ موضوعات پر اپنی باتوں کو ساجھا کیا ہے لیکن اس مرتبہ ’ من کی بات ‘ بہت خاص ہے۔ اس کی وجہ ہے ، اس مرتبہ کا یوم آزادی ، جب بھارت اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کرے گا۔ ہم سبھی بہت ہی شاندار اور تاریخی لمحے کے گواہ بنیں گے ۔ ایشور نے ہمارے لئے بہت بڑی خوش قسمتی رکھی ہے۔ آپ بھی سوچیئے ، اگر ہم غلامی کے دور میں پیدا ہوئے ہوتے تو اس دن کا تصور ہمارے لئے کیسا ہوتا ؟ غلامی سے نجات کی وہ تڑپ،غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی وہ بے چینی- کتنی زیادہ رہی ہوگی۔ وہ دن ، جب ہم ہر دن لاکھوں ہم وطنوں کو آزادی کے لئے لڑتے ، جوجھتے ، قربانی دیتے دیکھ رہے ہوتے ۔ اب ہم ہر صبح اس خواب کے ساتھ جاگتے کہ میرا بھارت کب آزاد ہوگا اور ہو سکتا ہے ، ہماری زندگی میں وہ دن بھی آتا ، جب بندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے بولتے ہوئے ، ہم آنے والی نسلوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیتے ، زندگی کھپا دیتے ۔
ساتھیو ، 31 جولائی یعنی آ ج ہی کے دن ، ہم تمام اہل وطن، شہید اودھم سنگھ جی کی شہادت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ میں ، ایسے دیگر تمام عظیم انقلابیوں کو اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔
ساتھیو ، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس سے متعلق مختلف پروگراموں میں زندگی کے تمام شعبوں اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام اس ماہ کے شروع میں میگھالیہ میں منعقد ہوا ۔ میگھالیہ کے بہادر مجاہد ، یو تیروت سنگھ جی کی برسی پر لوگوں نے انہیں یاد کیا ۔ تروت سنگھ جی نے خاصی ہلس پر کنٹرول کرنے اور وہاں کی ثقافت پر حملہ کرنے کی برطانوی سازش کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس پروگرام میں بہت سے فن کاروں نے خوبصورت فن کا مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے تاریخ کو زندہ کر دیا ۔ اس میں ایک کارنیوال کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ، جس میں میگھالیہ کی عظیم ثقافت کو بہت خوبصورت انداز میں دکھایا گیا تھا۔ اب سے کچھ ہفتے پہلے کرناٹک میں امرتا بھارتی کناڈارتھی کے نام سے ایک انوکھی مہم بھی چلائی گئی تھی۔ اس میں ریاست کے 75 مقامات پر آزادی کے امرت مہوتسو سے متعلق عظیم الشان پروگراموں کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ ان میں کرناٹک کے عظیم آزادی پسندوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ادبی کارناموں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی تھی۔
ساتھیو ، اسی جولائی میں ایک بہت ہی دلچسپ کوشش کی گئی ہے، جس کا نام ہے ، آزادی کی ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن ۔ اس کوشش کا مقصد جدوجہد آزادی میں بھارتی ریلوے کے کردار سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ ملک میں ایسے کئی ریلوے اسٹیشن ہیں، جو تحریک آزادی کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ریلوے اسٹیشنوں کے بارے میں جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔ جھارکھنڈ میں گومو جنکشن کو اب سرکاری طور پر نیتا جی سبھاش چندر بوس جنکشن گومو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پتہ ہے کیوں؟ دراصل اس اسٹیشن پر نیتا جی سبھاش کالکا میل میں سوار ہو کر انگریز افسروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ آپ سب نے لکھنؤ کے قریب کاکوری ریلوے اسٹیشن کا نام بھی سنا ہوگا۔ اس اسٹیشن سے رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان جیسے بہادر لوگوں کا نام جڑا ہے۔ بہادر انقلابیوں نے یہاں ٹرین کے ذریعے جانے والے انگریزوں کے خزانے کو لوٹ کر انگریزوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب بھی آپ تمل ناڈو کے لوگوں سے بات کریں گے، آپ کو تھوتھکوڈی ضلع کے وانچی مانیاچی جنکشن کے بارے میں سننے کو ملے گا ۔ اس اسٹیشن کا نام تمل مجاہد آزادی وانچی ناتھن جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے ، جہاں 25 سالہ نوجوان وانچی نے برطانوی کلکٹر کو اس کے کئے کی سزا دی تھی۔
ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ ملک بھر کی 24 ریاستوں میں پھیلے ہوئے ایسے 75 ریلوے اسٹیشنوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان 75 اسٹیشنوں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جا رہا ہے۔ ان میں کئی طرح کے پروگرام بھی منعقد کئے جا رہے ہیں۔ آپ کو اپنے قریب کے ایسے تاریخی اسٹیشن پر جانے کے لئے بھی وقت نکالنا چاہیئے۔ آپ کو تحریک آزادی کی ایسی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے معلوم ہو جائے گا ، جس سے آپ انجان رہے ہیں ۔ میں آس پاس کے اسکولوں کے طلباء سے گزارش کروں گا، اساتذہ سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے اسکول کے چھوٹے بچوں کو اسٹیشن لے جائیں اور ان بچوں کو سارا واقعہ سنائیں اور سمجھائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آزادی کے امرت مہوتسو کے تحت 13 سے 15 اگست تک ایک خصوصی تحریک ’’ ہر گھر ترنگا، ہر گھر ترنگا ‘‘ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس تحریک کا حصہ بن کر 13 سے 15 اگست تک، آپ اپنے گھر پر ترنگا ضرور لہرائیں یا اسے اپنے گھر پر لگائیں ۔ ترنگا ہمیں متحد کرتا ہے، ہمیں ملک کے لئے کچھ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ میرا یہ بھی مشورہ ہے کہ 2 اگست سے 15 اگست تک ہم سب اپنی سوشل میڈیا پروفائل تصویروں میں ترنگا لگا سکتے ہیں۔ ویسے کیا آپ جانتے ہیں کہ 2 اگست کا ہمارے ترنگے سے بھی خاص تعلق ہے۔ یہ دن پنگلی وینکیا جی کا یوم پیدائش ہے ، جنہوں نے ہمارے قومی پرچم کو ڈیزائن کیا تھا۔ میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہمارے قومی پرچم کی بات کرتے ہوئے ، مجھے عظیم انقلابی میڈم کاما بھی یاد آ رہی ہیں ۔ ترنگے کو شکل دینے میں ، ان کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔
ساتھیو ، آزادی کے نام پر منعقد ہونے والی ان تمام تقریبات کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ ہم تمام اہل وطن اپنی ذمہ داری پوری لگن کے ساتھ ادا کریں۔ تب ہی ہم ان لاتعداد آزادی پسندوں کے خواب کو پورا کر سکیں گے۔ ہم ان کے خوابوں کا بھارت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اس لئے ہمارے اگلے 25 سالوں کا یہ امرت کال ہر اہل وطن کے لئے فرائض کی انجام دہی کے عہد کی طرح ہے۔ ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے بہادر جنگجوؤں نے ہمیں یہ ذمہ داری سونپی ہے اور ہمیں اسے پوری طرح نبھانا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ہم وطنوں کی کورونا کے خلاف جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ پوری دنیا آج بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ مجموعی حفظانِ صحت میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ، اس میں سب کی بہت مدد کی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی روایتی طریقے اس میں کتنے کارآمد ہیں۔ کورونا کے خلاف جنگ میں آیوش نے تو ، عالمی سطح پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ پوری دنیا میں آیوروید اور بھارتی ادویات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے ، جس کی وجہ سے آیوش بر آمدات میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ بھی بہت خوشگوار ہے کہ اس شعبے میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس بھی ابھر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک گلوبل آیوش انویسٹمنٹ اینڈ انوویشن سمٹ کا انعقاد کیا گیاتھا ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس میں تقریباً دس ہزار کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ایک اور بہت اہم بات یہ ہوئی ہے کہ کورونا کے دور میں ادویاتی پودوں پر تحقیق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں کئی تحقیقی مطالعات شائع ہو رہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک اچھی شروعات ہے۔
ساتھیو ، ملک میں مختلف قسم کے ادویاتی پودوں اور جڑی بوٹیوں کے حوالے سے ایک اور شاندار کوشش کی گئی ہے۔ انڈین ورچوئل ہربیریم جولائی کے مہینے میں ہی لانچ کیا گیا تھا۔ یہ اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ ہم ڈیجیٹل دنیا کو اپنی جڑوں سے جوڑنے کے لئے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ انڈین ورچوئل ہربیریم محفوظ پودوں یا پودوں کے حصوں کی ڈیجیٹل تصاویر کا ایک دلچسپ مجموعہ ہے، جو ویب پر مفت دستیاب ہیں۔ اس ورچوئل ہربیریم پر ایک لاکھ سے زیادہ نمونے اور ان سے متعلق سائنسی معلومات دستیاب ہیں۔ ورچوئل ہربیریم میں بھارت کے نباتاتی تنوع کی بھرپور تصویر بھی نظر آتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارتی ورچوئل ہربیریم بھارتی نباتات پر تحقیق کے لئے ایک اہم وسیلہ بن جائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،’من کی بات ‘میں ، ہم ہر مرتبہ ہم وطنوں کی ایسی کامیابیوں پر گفتگو کرتے ہیں ، جو ہمارے چہروں پر میٹھی مسکراہٹ لاتی ہیں۔ اگر کامیابی کی کہانی میٹھی مسکراہٹیں پھیلاتی ہے اور ذائقہ بھی میٹھا ہے، تو آپ اسے یقینی طور پر سون پر سہاگا کہیں گے۔ ان دنوں ہمارے کسان شہد کی پیداوار میں ایسا معجزہ کر رہے ہیں۔ شہد کی مٹھاس بھی ہمارے کسانوں کی زندگی بدل رہی ہے، ان کی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہریانہ میں، یمنا نگر میں، شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک ساتھی رہتے ہیں - سبھاش کمبوج جی۔ سبھاش جی نے سائنسی طریقے سے شہد کی مکھیاں پالنے کی تربیت لی۔ اس کے بعد انہوں نے صرف چھ ڈبوں سے اپنا کام شروع کیا۔ آج وہ تقریباً دو ہزار ڈبوں میں شہد کی مکھیاں پال رہا ہے۔ ان کا شہد کئی ریاستوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ ونود کمار جی جموں کے پلّی گاؤں میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کالونیوں میں شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال رانی مکھی پالنے کی تربیت لی ہے۔ اس کام سے وہ سالانہ 15 سے 20 لاکھ روپئے کما رہے ہیں۔ کرناٹک کے ایک اور کسان ہیں - مدھوکیشور ہیگڈے جی۔ مدھوکیشور جی نے بتایا کہ انہوں نے مکھیوں کی 50 کالونیوں کے لئے حکومت ہند سے سبسڈی لی تھی ۔ آج ان کے پاس 800 سے زیادہ کالونیاں ہیں اور وہ کئی ٹن شہد فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام میں جدت پیدا کی ہے اور وہ جامن شہد، تلسی شہد، آملہ شہد جیسے نباتاتی شہد بھی بنا رہے ہیں۔ مدھوکیشور جی، شہد کی پیداوار میں آپ کی اختراع اور کامیابی بھی آپ کے نام کو معنی خیز بناتی ہے۔
ساتھیو ، آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری روایتی صحت سائنس میں شہد کو کتنی اہمیت دی گئی ہے۔ آیوروید کی کتابوں میں شہد کو امرت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شہد نہ صرف ہمیں ذائقہ دیتا ہے بلکہ صحت بھی دیتا ہے۔ آج شہد کی پیداوار میں اتنی صلاحیت ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اسے اپنا روزگار بنا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ہیں – یو پی میں گورکھپور کے نیمت سنگھ جی۔ نمت جی نے بی ٹیک کیا ہے۔ ان کے والد بھی ڈاکٹر ہیں لیکن تعلیم کے بعد نمت جی نے نوکری کے بجائے خود روزگار کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہد کی پیداوار شروع کی۔ انہوں نے معیار کی جانچ کے لئے لکھنؤ میں اپنی لیب بھی بنوائی۔ نمت جی اب شہد اور مکھی کے موم سے اچھی کمائی کر رہے ہیں اور مختلف ریاستوں میں جا کر کسانوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے آج ملک اتنا بڑا شہد پیدا کرنے والا ملک بن رہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملک سے شہد کی برآمد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک نے شہد کی مکھیوں کو پالنے اور شہد کے مشن جیسی مہم شروع کی، کسانوں نے محنت کی اور ہمارے شہد کی مٹھاس پوری دنیا تک پہنچنے لگی۔ اس میدان میں اب بھی بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ، ان مواقع میں شامل ہوں اور ان سے فائدہ اٹھائیں اور نئے امکانات کو حقیقت شکل دیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے ’من کی بات ‘ کے سننے والے جناب آشیش بہل جی کا ہماچل پردیش سے ایک خط موصول ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے خط میں چمبا ک ’ منجر میلہ ‘کا ذکر کیا ہے۔ در اصل منجر مکا کے پھولوں کو کہتے ہیں ، جب مکا میں پھول آتے ہیں ، تو منجر میلہ بھیا منایا جاتا ہے اور اس میلے میں ملک بھر سے سیاح شرکت کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ اتفاق سے اس وقت منجر کا میلہ بھی چل رہا ہے، اگر آپ ہماچل کی سیر کرنے گئے ہیں تو اس میلے کو دیکھنے کے لئے چمبہ جا سکتے ہیں۔چمبا تو اتنا خوبصورت ہے کہ یہاں لوک گیتوں میں بار بار کہا جاتا ہے -
’’ چمبے ایک دن اونا کنے مہینا رینا ‘‘
یعنی جو لوگ ایک دن کے لئے چمبہ آتے ہیں، وہ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر مہینے بھر کے لئے یہاں رک جاتے ہیں۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں میلوں کی بھی بڑی ثقافتی اہمیت رہی ہے، میلے انسانوں اور دلوں کو جوڑتے ہیں۔ ہماچل میں بارش کے بعد ، جب خریف کی فصلیں پکتی ہیں ، تب ستمبر میں شملہ ، منڈی ، کلو اور سولن میں سیری یا سیر منایا جاتا ہے ۔ ستمبر میں جاگرا بھی آنے والا ہے ۔ جاگرا کے میلوں میں مہاسو دیوتا کا آہوان کرکے بیسو گیت گائے جاتے ہیں۔ مہاسو دیوتا کا یہ جاگر ہماچل میں شملہ، کنور اور سرمور کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ میں بھی ہوتا ہے۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف ریاستوں میں قبائلی سماج کے بھی کئی روایتی میلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ میلے قبائلی ثقافت سے جڑے ہیں، تو کچھ کا انعقاد آدی واسی تاریخ اور وراثت سے جڑا ہے ، جیسا کہ ، اگر آپ کو موقع ملے تو آپ کو تلنگانہ کے میڈارم میں چار روزہ سمکا-سرلمہ جاترا میلہ ضرور دیکھنا چاہیئے۔ اس میلے کو تلنگانہ کا مہا کمبھ کہا جاتا ہے۔ سرلمہ جاترا میلہ دو قبائلی خواتین ہیروئنوں - سمکا اور سرلمہ کے احترام میں منایا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف تلنگانہ بلکہ چھتیس گڑھ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی کویا قبائلی برادری کے لئے بھی عقیدے کا ایک بڑا مرکز ہے۔ آندھرا پردیش میں ماری دماّ کا میلہ بھی قبائلی سماج کے عقائد سے جڑا ایک بڑا میلہ ہے۔ ماریدماّ میلہ جیشٹھ اماوسیہ سے اساڑھ اماوسیہ تک چلتا ہے اور یہاں کا قبائلی معاشرہ اسے شکتی پوجا کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہاں، مشرقی گوداوری کے پیدھاپورم میں، ماریدماّ مندر بھی ہے۔ اسی طرح راجستھان میں گراسیا قبائل کے لوگ ویساکھ شکل چتر دشی کو ’ سیاوا کا میلا ‘ ، یا ’ منکھارو میلہ ‘ کا انعقاد کرتے ہیں ۔
چھتیس گڑھ میں بستر کے نارائن پور کا ’ماولی میلہ ‘ بھی بہت خاص ہوتا ہے۔ اس کے قریب ہی مدھیہ پردیش کا بھگوریا میلہ بھی بہت مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوریا میلہ راجہ بھوج کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ پھر بھیل بادشاہوں، کسومار اور بلون نے پہلی بار اپنے اپنے دارالحکومتوں میں ان تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ میلے یکساں جوش و خروش سے منائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح گجرات میں ترنیتر اور مادھوپور جیسے کئی میلے بہت مشہور ہیں۔ میلے اپنے آپ میں ہمارے معاشرے، زندگی کے لئے توانائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ آپ کے آس پاس بھی ایسے کئی میلے ضرور ہوں گے۔ جدید دور میں، ’ایک بھارت- شریشٹھ بھارت ‘ کے جذبے کو مضبوط کرنے کے لئے سماج کے یہ پرانے روابط بہت اہم ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو ان سے ضرور جڑنا چاہیئے اور جب بھی آپ ایسے میلوں میں جائیں تو وہاں کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کریں۔ اگر آپ چاہیں تو ایک مخصوص ہیش ٹیگ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے دوسرے لوگ بھی ان میلوں کے بارے میں جان جائیں گے۔ آپ وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر بھی تصاویر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ آئندہ چند روز میں وزارت ثقافت ایک مقابلہ بھی شروع کرنے جا رہی ہے، جہاں میلوں کی بہترین تصاویر بھیجنے والوں کو انعامات سے بھی نوازا جائے گا ۔ اس لئے دیر نہ کریں، میلوں کا دورہ کریں، ان کی تصاویر شیئر کریں، اور شاید آپ انعام بھی حاصل کر سکیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو یاد ہو گا ، ’من کی بات ‘ کے ایک ایپی سوڈ میں میں نے کہا تھا کہ بھارت میں کھلونوں کی برآمدات میں پاور ہاؤس بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ میں نے خاص طور پر کھیلوں میں بھارت کے شاندار وراثت پر بات کی تھی ۔ بھارت کے مقامی کھلونے ماحول دوست ہیں، روایت اور فطرت دونوں کے مطابق ہیں۔ آج میں آپ کے ساتھ انڈین ٹوائز کی کامیابیاں بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہماری کھلونا صنعت نے ، جو کامیابی ہمارے نوجوانوں، اسٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کی وجہ سے حاصل کی ہے ، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ آج جب بھارتی کھلونوں کی بات آتی ہے تو ہر طرف ووکل فار لوکل کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ آپ یہ بھی جاننا پسند کریں گے کہ اب بھارت میں بیرون ملک سے آنے والے کھلونوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ پہلے جہاں 3 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے کھلونے باہر سے آتے تھے، اب ان کی درآمد میں 70 فی صد کمی آئی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اس عرصے کے دوران بھارت نے 2 ہزار 600 کروڑ روپئے سے زیادہ کے کھلونے بیرونی ملکوں میں برآمد کئے ہیں ، جب کہ پہلے بھارت سے باہر صرف 300-400 کروڑ روپئے کے کھلونے جاتے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کورونا کے دور میں ہوا تھا۔ بھارت کے کھلونا سیکٹر نے خود کو بدل کر دکھایا ہے۔ بھارتی صنعت کار اب بھارتی افسانوں، تاریخ اور ثقافت پر مبنی کھلونے بنا رہے ہیں۔ ملک میں ہر جگہ کھلونوں کے جھرمٹ ہیں، چھوٹے کاروباری جو کھلونے بناتے ہیں، انہیں اس سے کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان چھوٹے کاروباریوں کے بنائے ہوئے کھلونے اب پوری دنیا میں جا رہے ہیں۔ بھارت کے کھلونا بنانے والے بھی دنیا کے معروف عالمی کھلونا برانڈز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی بہت اچھا لگا کہ ہمارا اسٹارٹ اپ سیکٹر بھی کھلونوں کی دنیا پر پوری توجہ دے رہا ہے۔ وہ اس شعبے میں بہت مزے کی چیزیں بھی کر رہے ہیں۔ بنگلور میں شمّی ٹوئیز نام کا ایک سٹارٹ اپ ماحول دوست کھلونوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ گجرات میں آر کڈ زو کمپنی اے آر پر مبنی فلیش کارڈز اور اے آر پر مبنی اسٹوری بکس بنا رہی ہے۔ پونے کی کمپنی فن وینشن آموزش ، کھلونے اور ایکٹیویٹی پزل کے ذریعے سائنس، ٹیکنالوجی اور ریاضی میں بچوں کی دلچسپی بڑھانے میں مصروف ہے۔ میں اسٹارٹ اپس کو مبارکباد دینا چاہوں گا، ایسے تمام مینوفیکچررز ، جو کھلونوں کی دنیا میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ آئیے ، ہم سب مل کر بھارتی کھلونوں کو پوری دنیا میں مزید مقبول بنائیں۔ اس کے ساتھ، میں والدین سے یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بھارتی کھلونے، پہیلیاں اور گیمز خریدیں۔
ساتھیو ، کلاس روم ہو یا کھیل کا میدان، آج ہمارے نوجوان ہر میدان میں ملک کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں۔ اس ماہ پی وی سندھو نے سنگاپور اوپن کا اپنا پہلا خطاب جیتا ہے۔ نیرج چوپڑا نے بھی اپنی شاندار کارکردگی کو جاری رکھتے ہوئے عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ملک کے لئے چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آئرلینڈ پیرا بیڈمنٹن انٹرنیشنل میں بھی ہمارے کھلاڑیوں نے 11 میڈلز جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ روم میں منعقدہ ورلڈ کیڈٹ ریسلنگ چیمپئن شپ میں بھی بھارتی کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہمارے کھلاڑی سورج نے گریکو رومن ایونٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے 32 سال کے طویل وقفے کے بعد اس ایونٹ میں ریسلنگ کا گولڈ میڈل جیتا ہے۔ کھلاڑیوں کے لئے یہ پورا مہینہ ایکشن سے بھرپور رہا۔ چنئی میں 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کی میزبانی کرنا بھارت کے لئے بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔ یہ ٹورنامنٹ 28 جولائی کو شروع ہوا ہے اور مجھے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دن برطانیہ میں کامن ویلتھ گیمز کا آغاز بھی ہوا۔ نوجوانوں کے جوش سے بھرپور بھارتی ٹیم وہاں ملک کی نمائندگی کر رہی ہے۔ میں ہم وطنوں کی طرف سے تمام کھلاڑیوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ بھارت فیفا کے 17 سال سے کم عمر کی خواتین کے عالمی کپ کی بھی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اکتوبر کے آس پاس منعقد ہوگا ، جس سے ملک کی بیٹیوں کا کھیلوں کے تئیں جوش و جذبہ بڑھے گا۔
ساتھیو ، ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک بھر میں دسویں اور بارہویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔ میں ان تمام طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے اپنی سخت محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پچھلے دو سال، وبائی امراض کی وجہ سے، انتہائی چیلنجنگ رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں نے ، جس ہمت اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے۔ میں سب کے روشن مستقبل کی نیک خواہشات رکھتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے آزادی کے 75 سال پر اپنی گفتگو کا آغاز ملک کے دورے سے کیا۔ اگلی بار جب ہم ملیں گے تو ہمارا اگلے 25 سالوں کا سفر شروع ہو چکا ہوگا۔ ہم سب کو اپنے پیارے ترنگے کو اپنے گھروں اور اپنے پیاروں کے گھروں پر لہرانے کے لئے جمع ہونا ہے۔ اس بار آپ نے یوم آزادی کیسے منایا، کیا آپ نے کوئی خاص کام کیا، وہ بھی میرے ساتھ شیئر کریں۔ اگلی بار، ہم اپنے اس امرت کے تہوار کے مختلف رنگوں کے بارے میں دوبارہ بات کریں گے، تب تک مجھے اجازت دیں۔ بہت شکریہ ۔
نئی دہلی، 26/جون 2022 ۔ میرے پیارے ہم وطنو، سلام۔ مجھے ’من کی بات‘ کے لیے آپ سب کی طرف سے بہت سے خطوط موصول ہوئے ہیں، سوشل میڈیا اور نمو ایپ پر بھی بہت سے پیغامات موصول ہوئے ہیں، میں اس کے لیے آپ کا بہت مشکور ہوں۔ اس پروگرام میں ہماری کوشش ہے کہ ہم ایک دوسرے کی متاثر کن کوششوں پر تبادلہ خیال کریں، عوامی تحریک کے ذریعے تبدیلی کی کہانی پورے ملک کو سنائیں۔ اس کڑی میں آج میں آپ سے ملک کی ایک ایسی عوامی تحریک پر بات کرنا چاہتا ہوں، جس کی ملک کے ہر شہری کی زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ لیکن، اس سے پہلے، میں آج کی نسل کے نوجوانوں سے، 24-25 سال کے نوجوانوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، اور یہ سوال بہت سنجیدہ ہے، اور میرے سوال پر ضرور غور کریں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کے والدین آپ کی عمر کے تھے تو ایک بار ان سے زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا تھا! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے، لیکن میرے نوجوان دوستو! یہ ہمارے ملک میں ایک بار ہوا تھا۔ یہ برسوں پہلے سنہ انیس سو پچھتر کی بات ہے۔ جون کا وہی وقت تھا جب ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ اس میں ملک کے شہریوں سے تمام حقوق چھین لیے گئے تھے۔ ان حقوق میں سے ایک ’حق زندگی اور ذاتی آزادی‘ کا حق بھی تھا جو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت تمام ہندوستانیوں کو دیا گیا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی جمہوریت کو کچلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ملک کی عدالتیں، ہر آئینی ادارہ، پریس، سب کنٹرول میں تھے۔ سنسرشپ کا یہ حال تھا کہ منظوری کے بغیر کوئی چیز چھاپی نہیں جا سکتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب مشہور گلوکار کشور کمار نے حکومت کی تعریف کرنے سے انکار کیا تو ان پر پابندی لگا دی گئی۔ ریڈیو پر ان کی انٹری ہٹا دی گئی۔ لیکن بہت سی کوششوں، ہزاروں گرفتاریوں اور لاکھوں لوگوں پر مظالم کے بعد بھی ہندوستانی عوام کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا، بالکل نہیں ہوا۔ ہندوستان کے لوگوں کے لیے جمہوریت کی جو قدریں صدیوں سے چلی آرہی ہیں، جمہوری جذبہ جو ہماری رگوں میں ہے، آخرکار اس کی فتح ہوئی ہے۔ ہندوستان کے عوام نے جمہوری طریقے سے ایمرجنسی ہٹاکر جمہوریت قائم کی۔ آمرانہ ذہنیت، آمرانہ رجحان کو جمہوری طریقے سے شکست دینے کی ایسی مثال پوری دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ ایمرجنسی کے دوران، ہم وطنوں کی جدوجہد کا، گواہ رہنے کا، شراکت دار رہنے کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہوا - جمہوریت کے ایک سپاہی کے طور پر۔ آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے، ہمیں ایمرجنسی کے اس خوفناک دور کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ آنے والی نسلوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ امرت مہوتسو نہ صرف سیکڑوں سالوں کی غلامی سے آزادی کی فتح کی داستان کا احاطہ کرتا ہے، بلکہ آزادی کے بعد 75 سال کے سفر کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ تاریخ کے ہر اہم مرحلے سے سبق سیکھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اپنی زندگی میں آسمان سے متعلق تصورات نہ کی ہوں۔ بچپن میں ہر کسی کو آسمان کے چاند اور ستارے، ان کی کہانیاں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے آسمان کو چھونا خوابوں کو سچ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ آج جب ہمارا ہندوستان بہت سارے میدانوں میں کامیابی کے آسمان کو چھو رہا ہے تو آسمان یا خلا اس سے کیسے اچھوتے رہ سکتے ہیں! پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے ملک میں خلائی شعبے سے متعلق کئی بڑے کام ہوئے ہیں۔ ملک کی ان کامیابیوں میں سے ایک اِن- اسپیس نامی ایجنسی کا قیام ہے۔ ایک ایجنسی جو خلائی شعبے میں ہندوستان کے نجی شعبے کے لیے نئے مواقع کو فروغ دے رہی ہے۔ اس آغاز نے خاص طور پر ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ مجھے کئی نوجوانوں کی طرف سے اس سے متعلق پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں۔ کچھ دن پہلے جب میں اِن- اسپیس کے ہیڈ کوارٹر کا افتتاح کرنے گیا تو میں نے بہت سے نوجوان اسٹارٹ اپس کے خیالات اور جوش کو دیکھا۔ میں نے بھی کافی دیر تک ان سے بات کی۔ جب آپ ان کے بارے میں جانیں گے تو آپ بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے، مثال کے طور پر خلائی اسٹارٹ اپس کی تعداد اور رفتار کو دیکھیں۔ چند سال پہلے تک، ہمارے ملک میں، خلائی شعبے میں، کسی نے اسٹارٹ اپس کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ آج ان کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ یہ تمام اسٹارٹ اَپس ایسے آئیڈیاز پر کام کر رہے ہیں، جن کے بارے میں یا تو پہلے سوچا بھی نہیں گیا تھا، یا پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، چنئی اور حیدرآباد میں دو اسٹارٹ اپس ہیں – اگنی کول اور اسکائی روٹ! یہ اسٹارٹ اپس ایسی لانچ گاڑیاں تیار کررہے ہیں جو چھوٹے پے لوڈ کو خلا میں لے جائیں گی۔ اس کی وجہ سے خلائی لانچنگ کی لاگت کا تخمینہ بہت کم ہونے کا اندازہ ہے۔ اسی طرح حیدرآباد کا ایک اور اسٹارٹ اپ، دھرو اِسپیس، سیٹلائٹ ڈیپلائر اور سیٹلائٹس کے لیے ہائی ٹیکنالوجی سولر پینلز پر کام کر رہا ہے۔ میں ایک اور خلائی اسٹارٹ اپ دگنترا کے تنویر احمد سے بھی ملا تھا، جو خلا کے کچرے کی نقشہ بندی کی کوشش کررہے ہیں۔ میں نے انھیں ایک چیلنج بھی دیا ہے، کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی پر کام کریں، جس سے خلا کے کچرے کے نپٹارے کا حل نکالا جاسکے۔ دگنترا اور دھرو اِسپیس دونوں 30 جون کو اسرو کی لانچ وہیکل سے اپنا پہلا لانچ کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح بنگلور میں واقع خلائی اسٹارٹ اپ ایسٹروم کی بانی نیہا بھی ایک حیرت انگیز آئیڈیا پر کام کررہی ہیں۔ یہ اسٹارٹ اپ ایسے فلیٹ انٹینا بنا رہا ہے جو نہ صرف چھوٹے ہوں گے بلکہ ان کی قیمت بھی بہت کم ہوگی۔ اس ٹیکنالوجی کی مانگ پوری دنیا میں ہوسکتی ہے۔
ساتھیو، اِن- سپیس کے پروگرام میں، میری ملاقات مہسانہ کی ایک اسکول کی طالبہ بیٹی تنوی پٹیل سے بھی ہوئی۔ وہ ایک بہت ہی چھوٹے سیٹلائٹ پر کام کررہی ہے، جو اگلے چند مہینوں میں خلا میں بھیجا جانے والا ہے۔ تنوی نے مجھے گجراتی زبان میں اپنے کام کے بارے میں بتایا۔ تنوی کی طرح ملک کے تقریباً ساڑھے سات سو اسکولی طلباء امرت مہوتسو میں ایسے 75 سیٹلائٹس پر کام کر رہے ہیں اور یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر طلباء ملک کے چھوٹے شہروں سے ہیں۔
ساتھیو، یہ وہی نوجوان ہیں، جن کے ذہن میں چند سال پہلے خلائی شعبے کی تصویر ایک خفیہ مشن کی طرح تھی، لیکن، ملک نے خلائی اصلاحات کیں، اور وہی نوجوان اب اپنا سیٹلائٹ لانچ کر رہے ہیں۔ جب ملک کا نوجوان آسمان کو چھونے کے لئے تیار ہے تو پھر ہمارا ملک کیسے پیچھے رہ سکتا ہے؟
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں، اب ایک ایسے موضوع پر بات کرتے ہیں جو آپ کو پرجوش بنائے گا اور متاثر کرے گا۔ اولمپکس کے بعد بھی وہ ایک کے بعد ایک کامیابی کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔نیرج نے فن لینڈ میں پاو ونورمی گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا۔ یہی نہیں، انھوں نے اپنے ہی جیویلن تھرو کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ نیرج نے ایک بار پھر کورتانے گیمز میں طلائی تمغہ جیت کر ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔ انھوں نے یہ گولڈ ایسے حالات میں جیتا جب وہاں کا موسم بھی بہت خراب تھا۔ یہ ہمت آج کے نوجوانوں کی پہچان ہے۔ اسٹارٹ اپس سے لے کر کھیلوں کی دنیا تک، ہندوستان کے نوجوان نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔حال ہی میں منعقدہ کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں ہمارے کھلاڑیوں نے بھی کئی ریکارڈ بنائے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ان گیمز میں کل 12 ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں- اتنا ہی نہیں، خواتین کھلاڑیوں کے نام 11 ریکارڈز درج ہوچکے ہیں۔ منی پور کی ایم مارٹینا دیوی نے ویٹ لفٹنگ میں آٹھ ریکارڈ بنائے ہیں۔
اسی طرح سنجنا، سوناکشی اور بھاؤنا نے بھی مختلف ریکارڈ بنائے ہیں۔ اپنی محنت سے ان کھلاڑیوں نے بتایا ہے کہ آنے والے وقت میں بین الاقوامی کھیلوں میں ہندوستان کی ساکھ کتنی بڑھنے والی ہے۔ میں ان تمام کھلاڑیوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
ساتھیو، کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کی ایک اور خاص بات سامنے آئی ہے۔اس بار بھی بہت سے ایسی صلاحیتیں سامنے آئی ہیں، جن کا تعلق بہت ہی عام گھرانوں سے ہیں۔ان کھلاڑیوں نے اپنی زندگی میں بہت جدوجہد کی ہے اور کامیابی کے اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ان کی کامیابی میں ان کے خاندان اور ان کے والدین کا بھی بڑا کردار ہے۔
70 کلومیٹر سائیکلنگ میں گولڈ میڈل جیتنے والے سری نگر سے تعلق رکھنے والے عادل الطاف کے والد ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کے خوابوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سر فخر سے بلند ہوگیا۔ دھنش کے والد بھی ایک سادہ کارپینٹر ہیں۔سانگلی کی بیٹی کاجول سرگار، کے والد چائے بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ کاجول اپنے والد کے کام میں ہاتھ بھی بٹاتی تھی اور ویٹ لفٹنگ کی پریکٹس بھی کرتی تھی۔ ان کی اور ان کے گھر والوں کی یہ محنت رنگ لائی اور کاجول نے ویٹ لفٹنگ میں خوب تعریفیں حاصل کیں۔روہتک کی تنو نے بھی ایسا ہی کرشمہ کیا ہے۔تنو کے والد راجبیر سنگھ روہتک میں اسکول بس ڈرائیور ہیں۔تنو نے کشتی میں گولڈ میڈل جیت کا اپنا اور اپنے خاندان کا، اپنے والد کا خوابسچ کرکے دکھایا ہے۔
ساتھیو، کھیلوں کی دنیا میں اب ہندوستانی کھلاڑیوں کا دبدبہ تو بڑھ ہی رہا ہے، ساتھ ہی ہندوستانی کھیلوں کی ایک نئی شناخت بھی بن رہی ہے، جیسے کہ اس بار کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں اولمپک میں شامل ہونے والے مقابلوں کے علاوہ پانچ دیسی کھیلوں کو بھی شامل کیا گیا تھا، یہ پانچ کھیل ہیں- گتکا، تھانگ تا، یوگاسن، کلریپایٹو اور ملّ کھمب۔
ساتھیو، بھارت میں ایک ایسے کھیل کا بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہونے جا رہا ہے، جس کھیل کا جنم ہمارے اپنے ہی ملک میں صدیوں پہلے پیدا ہوا تھا، بھارت میں ہوا تھا، یہ 28 جولائی سے شروع ہونے والا شطرنج اولمپیاڈ ہے۔ اس بار شطرنج اولمپیاڈ میں 180 سے زائد ممالک حصہ لے رہے ہیں۔کھیل اور فٹنس کی ہماری آج کی بحث ایک اور نام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے- یہ نام ہے تلنگانہ کی کوہ پیما پورنا مالاوتھ کا۔پورنا نے ’سیوین سمٹس چیلنج‘ کو مکمل کرکے کامیابی کا ایک اور پرچم لہرایا ہے۔ سیون سمٹس چیلنج یعنی دنیا کی سات سب سے مشکل اور بلند پہاڑیوں پر چڑھنے کا چیلنج۔ پورنا نے اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ شمالی امریکہ کی سب سے بلند چوٹھی ’ماؤنٹ دینالی‘ کی کوہ پیمائی مکمل کرکے ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔پورنا بھارت کی وہی بیٹی ہے جس نے صرف 13 سال کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا تھا۔
ساتھیو، جب کھیل کی بات آتی ہے، تو آج میں متالی راج کے بارے میں بھی بات کرنا چاہوں گا، جو ہندوستان کی سب سے باصلاحیت کرکٹرز میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اسی مہینے کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا ہے، جس نے کئی کھیل شائقین کو جذبات سے مغلوب کردیا ہے۔ متالی نہ صرف ایک غیر معمولی کھلاڑی رہی ہیں، بلکہ بہت سے کھلاڑیوں کے لیے ایک تحریک بھی رہی ہیں۔ میں متالی کو ان کے مستقبل کے لئے ڈھیر ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ یعنی کچرے سے حصول دولت سے وابستہ کامیاب کوششوں پر بات کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال میزورم کی راجدھانی آئیزول ہے۔ آئیزول میں ایک خوبصورت ندی ’چٹے لوئی‘ ہے، جو برسوں کی عدم توجہی کے باعث گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ اس ندی کو بچانے کی کوشش گزشتہ چند سالوں سے شروع ہوئی ہے۔ اس کے لیے مقامی ایجنسیاں، رضاکار تنظیمیں اور مقامی لوگ مل کر سیو چٹے لوئی ایکشن پلان بھی چلا رہے ہیں۔ اس ندی کی صفائی مہم نے کچرے سے دولت کے حصول کا موقع بھی پیدا کیا ہے۔ دراصل یہ ندی اور اس کے کنارے پلاسٹک اور پولی تھین کے کچرے سے بھرے پڑے تھے۔ ندی کو بچانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے اس پولی تھین یعنی دریا سے نکلنے والے کچرے سے سڑک بنانے کا فیصلہ کیا، میزورم کے ایک گاؤں میں ریاست کی پہلی پلاسٹک سڑک بنائی گئی، یعنی صفائی بھی اور ترقی بھی۔
ساتھیو، ایسی ہی ایک کوشش پڈوچیری کے نوجوانوں نے بھی اپنی رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعے شروع کی ہے۔ پڈوچیری سمندر کے کنارے واقع ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد وہاں کے ساحلوں اور سمندر کی خوبصورتی کو دیکھنے آتی ہے۔ لیکن، پلاسٹک کی وجہ سے آلودگی پڈوچیری کے سمندری ساحل پر بھی بڑھ رہی تھی، اس لیے اپنے سمندر، ساحلوں اور ماحولیات کو بچانے کے لیے یہاں کے لوگوں نے ’ری سائیکلنگ فار لائف‘ مہم شروع کی ہے۔ آج، پڈوچیری کے کرائیکل میں ہر روز ہزاروں کلو گرام کچرا جمع کیا جاتا ہے اور اسے الگ الگ کیا جاتا ہے۔ اس میں جو آرگینک کچرا ہوتا ہے اس سے کھاد بنائی جاتی ہے، باقی دوسری چیزوں کو الگ کرکے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کوششیں نہ صرف متاثر کن ہیں، بلکہ سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف ہندوستان کی مہم کو بھی تقویت دیتی ہیں۔
ساتھیو، اس وقت جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں، ہماچل پردیش میں ایک انوکھی سائیکلنگ ریلی بھی نکل رہی ہے۔ میں آپ کو اس بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ سائیکل سواروں کا ایک گروپ صفائی کا پیغام لے کر شملہ سے منڈی کے لئے نکلا ہے۔ یہ لوگ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر کا یہ فاصلہ پہاڑی سڑکوں پر صرف سائیکل چلاکر پورا کریں گے۔ اس گروپ میں بچے بھی ہیں اور بوڑھے بھی۔ اگر ہمارا ماحول صاف ستھرا ہو، ہمارے پہاڑ اور دریا، ہمارے سمندر صاف رہیں تو ہماری صحت بھی بہتر ہوتی جاتی ہے۔ آپ مجھے ایسی کوششوں کے بارے میں لکھتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں مانسون کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کئی ریاستوں میں بارش بڑھ رہی ہے۔ یہ وقت ’پانی‘ اور ’پانی کے تحفظ‘ کے لیے خصوصی کوششیں کرنے کا بھی ہے۔ ہمارے ملک میں صدیوں سے یہ ذمہ داری معاشرے نے مل کر اٹھائی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، ’من کی بات‘ میں ہم نے ایک بار اسٹیپ ویلس یعنی باوڑیوں کی وراثت پر بات کی تھی۔ باوڑی ان بڑے کنوئیں کو کہتے ہیں جن تک سیڑھیوں سے اترکر پہنچتے ہیں۔ راجستھان کے اودے پور میں ایسی ہی سیکڑوں سال پرانی ایک باوڑی ہے – ’سلطان کی باوڑی‘۔ اسے راؤ سلطان سنگھ نے تعمیر کروایا تھا، لیکن نظر انداز ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ جگہ ویران ہوتی گئی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ ایک دن کچھ نوجوان اسی طرح گھومتے پھرتے اس سیڑھی پر پہنچے اور اس کی حالت دیکھ کر بہت دکھی ہوئے۔ ان نوجوانوں نے اسی لمحے سلطان کی باوڑی کی تصویر اور تقدیر بدلنے کا عزم کیا۔ انھوں نے اپنے اس مشن کو’سلطان سے سر- تان‘ کا نام دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سر-تان کیا ہے؟ درحقیقت ان نوجوانوں نے اپنی کاوشوں سے نہ صرف اس باوڑی کا کایاکلپ کیا بلکہ اسے موسیقی کے سر اور تان سے بھی جوڑ دیا ہے۔ سلطان کی باوڑی کی صفائی اور سجاوٹ کے بعد وہاں سُر اور سنگیت کا پروگرام ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کا اتنا چرچا ہے کہ بیرون ملک سے بہت سے لوگ اسے دیکھنے آنے لگے ہیں۔ اس کامیاب کوشش کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہم شروع کرنے والے نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ اتفاق سے اب سے چند دن بعد یکم جولائی کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس ڈے ہے۔ میں ملک کے تمام چارٹرڈ اکاؤنٹٹس کو پیشگی مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم اپنے آبی ذخائر کو موسیقی اور دیگر سماجی پروگراموں سے جوڑکر ان کے بارے میں بیداری کا اسی طرح کا احساس پیدا کرسکتے ہیں۔ پانی کا تحفظ دراصل زندگی کا تحفظ ہے۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ آج کل کتنے ’ریور فیسٹیول‘ ہونے لگے ہیں۔ آپ کے شہروں میں بھی اس طرح کے جو بھی آبی ذخائر ہیں، وہاں کچھ نہ کچھ پروگرام ضرور کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اپنشدوں کا ایک جیون منتر ہے – ’چریوتی-چریوتی-چریوتی‘ – آپ نے بھی اس منتر کو ضرور سنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے - چلتے رہو، چلتے رہو۔ یہ منتر ہمارے ملک میں بہت مقبول اس لئے ہے، کیونکہ مسلسل چلتے رہنا، متحرک بنے رہنا ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ بحیثیت قوم ہم ہزاروں سالوں پر محیط ترقی کے سفر کے ذریعے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ایک معاشرے کے طور پر، ہم ہمیشہ نئے خیالات، نئی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ہماری ثقافتی حرکیات اور سفر نے اس میں بہت تعاون کیا ہے۔ اسی لیے ہمارے رشیوں منیوں نے تیرتھ یاترا جیسی مذہبی ذمہ داریاں ہمیں سونپی تھیں۔ ہم سب الگ الگ تیرتھ یاتراؤں پر جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ اس بار چاردھام یاترا میں بڑی تعداد میں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً مختلف دیو یاترائیں بھی ہوتی ہیں جن میں نہ صرف عقیدت مند بلکہ ہمارے بھگوان بھی یاترا پر نکلتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں میں یکم جولائی سے بھگوان جگن ناتھ کی مشہور یاترا شروع ہونے والی ہے۔ اڑیسہ میں پوری کی یاترا سے ملک کا ہر باشندہ واقف ہے۔ لوگوں کی کوشش ہے کہ انہیں اس موقع پر پوری جانے کی سعادت حاصل ہو۔ دوسری ریاستوں میں بھی جگن ناتھ یاترا بڑے دھوم دھام سے نکالی جاتی ہے۔ بھگوان جگن ناتھ یاترا اساڑھ مہینے کی دویتیا سے شروع ہوتی ہے۔ ہماری کتابوں میں ’آشا ڈھسیہ دوی تیے دوسے--- رتھ یاترا‘، سنسکرت کے اشلوکوں میں اس طرح کی تفصیل ملتی ہے۔ ہر سال گجرات کے احمد آباد میں اساڑھ دویتیہ سے رتھ یاترا نکلتی ہے۔ میں گجرات میں تھا، تو مجھے بھی ہر سال اس یاترا میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔ اساڑھ دویتیہ، جسے اساڑھی بج بھی کہا جاتا ہے، اس دن سے ہی کچھ کا نیا سال بھی شروع ہوتا ہے۔ میں اپنے تمام کچھی بھائیوں اور بہنوں کو نئے سال کی مبارک باد بھی دیتا ہوں۔ میرے لیے یہ دن بھی بہت خاص ہے۔ مجھے یاد ہے، اساڑھ دویتیہ سے ایک دن پہلے، یعنی اساڑھ کی پہلی تاریخ کو، ہم نے گجرات میں ایک سنسکرت اُتسو کی شروعات کی تھی، جس میں سنسکرت زبان میں گیت، سنگیت اور ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں۔ اس تقریب کا نام ہے – ’آشا ڑھیہ پرتھم دیوس‘۔ اس تہوار کو یہ خاص نام دینے کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔ دراصل سنسکرت کے عظیم شاعر کالیداس نے میگھدوتم کو اساڑھ کے مہینے سے ہی بارش کی آمد پر میگھ دوتم لکھا تھا۔ میگھ دوتم میں ایک اشلوک ہے–آشاڑھیہ پرتھم دیوسے میگھم، آشی لشٹ سانم، یعنی اساڑھ کے پہلے دن پہاڑ کی چوٹیوں سے لپٹے ہوئے بادل۔ یہی اشلوک اس تقریب کا بنیاد بنا۔
ساتھیو، احمد آباد ہو یا پوری، بھگوان جگن ناتھ اپنی اس یاترا کے ذریعے ہمیں بہت گہرے انسانی پیغامات دیتے ہیں۔ بھگوان جگن ناتھ جگت کے مالک تو ہیں ہی لیکن ان کی یاترا میں غریبوں، محروموں کی خصوصی شرکت ہوتی ہے۔ بھگوان بھی معاشرے کے ہر طبقے اور فرد کے ساتھ چلتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے ملک میں جتنی بھی یاترائیں ہوتی ہیں ان میں غریب اور امیر، اونچ نیچ جیسی کوئی تفریق نظر نہیں آتی۔ ہر طرح کی تفریق سے اوپر اٹھ کر، یاترا ہی سب سے مقدم ہوتی ہے۔ جیسے کہ مہاراشٹر میں پنڈھرپور کی یاترا کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ پنڈھرپور کی یاترا میں نہ کوئی بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا ہوتا ہے۔ ہر کوئی وارکری ہوتا ہے، بھگوان وٹھل کا سیوک ہوتا ہے۔ ابھی 4 دن بعد ہی 30 جون سے امرناتھ یاترا بھی شروع ہونے جا رہی ہے۔ پورے ملک سے عقیدت مند امرناتھ یاترا کے لیے جموں و کشمیر پہنچتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے مقامی لوگ اس یاترا کی ذمہ داری یکساں عقیدت کے ساتھ لیتے ہیں، اور یاتریوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
ساتھیو، سبریمالا یاترا کی جنوب میں بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ سبریمالا پہاڑیوں پر بھگوان ایپّا کے درشن کرنے کے لئے یہ یاترا تب سے چل رہی ہے جب یہ راستہ پوری طرح جنگلات سے گھرا ہوا تھا۔ آج بھی لوگ جب ان یاتراؤں پر جاتے ہیں تو اسے مذہبی رسومات سے لے کر قیام تک، غریبوں کے لئے کتنے مواقع پیدا ہوتے ہیں، یعنی یہ یاترائیں ہمیں براہ راست غریبوں کی خدمت کا موقع فراہم کرتی ہیں اور غریبوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ اسی لئے تو ملک بھی اب روحانی یاتراؤں میں عقیدت مندوں کے لئے سہولت بڑھانے کے لئے بہت کوششیں کر رہا ہے۔ اگر آپ بھی اس طرح کی یاترا پر جائیں گے تو آپ کو روحانیت کے ساتھ ساتھ ایک بھارت - شریسٹھ بھارت کے درشن بھی ہوں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ’من کی بات‘ کے ذریعے آپ سب کے ساتھ جڑنا ایک بہت ہی خوشگوار تجربہ رہا۔ ہم نے ہم وطنوں کی کامیابیوں اور حصول یابیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سب کے درمیان ہمیں کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔ تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ آج ملک میں ویکسین کا ایک جامع حفاظتی ڈھال موجود ہے۔ ہم ویکسین کی 200 کروڑ خوراک کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں تیزی سے احتیاطی خوراک بھی لگائی جا رہی ہیں۔ اگر آپ کی دوسری خوراک کے بعد احتیاطی خوراک کا وقت ہوگیا ہے، تو آپ یہ تیسری خوراک ضرور لیں۔ اپنے خاندان کے افراد خصوصاً بوڑھوں کو بھی احتیاطی خوراک لگوائیں۔ ہمیں ہاتھوں کی صفائی اور ماسک جیسی ضروری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔ بارش کے موسم میں آس پاس کی گندگی سے ہونے والی بیماریوں کے تئیں بھی ہمیں محتاط رہنا ہے۔ آپ سب چوکس رہیں، صحت مند رہیں اور ایسی ہی توانائی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔ ہم اگلے مہینے پھر ملیں گے، تب تک کے لئے، بہت بہت شکریہ، نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ آج ایک بار پھر ’من کی بات‘ کے ذریعے آپ سبھی کوٹی کوٹی میرے پریوار کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ’من کی بات ‘ میں آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ کچھ دن پہلے ملک نے ایک ایسا اعزاز حاصل کیا ہے جو ہم سھی کو تحریک دیتا ہے۔ بھارت کی طاقت کے تئیں ایک نیا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ آپ لوگ کرکٹ کے میدان پر ٹیم انڈیا کے کسی بلے بازی کی سنچری سُن کر خوشی ہوتے ہوں گے،لیکن بھارت نے ایک اور میدان میں سنچری لگائی ہے اور وہ بہت خاص ہے۔ اس مہینے 5 تاریخ کو ملک میں یونیکارن کی تعداد 100 کے اعدادوشمار تک پہنچ گئی ہے اور آپ کو تو پتہ ہی ہے، ایک یونیکارن ، یعنی ، کم از کم ساڑھے سات ہزار کروڑ روپئے کا اسٹارٹ اپ۔ ان یونیکارنز کا کل ویلیوایشن 330 بلین ڈالر ، یعنی 25 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ ہے۔ یقینی طور پر، یہ بات ، ہر بھارتی کے لئے فخر کرنے والی بات ہے۔ آپ کو یہ جانکر بھی حیرانی ہوگی، کہ ہمارے کل یونیکارن میں سے 44، پچھلے سال بنے تھے۔ اتنا ہی نہیں ، اس سال کے 3 سے 4 مہینے میں ہی 14 اور نئے یونیکارن بن گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی وبا کے اس دور میں بھی ہمارے اسٹارٹ اپس، ویلتھ اور ویلیو کریٹ کرتے رہے ہیں۔ انڈین یونیکارن کا ایورج اینول گروتھ ریٹ، یو ایس اے ، یو کے اور دیگر کئی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ اینالیسسٹس کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں اس تعداد میں تیزاچھال دیکھنے کو ملے گا۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے یونیکارن ڈائیورسی فائنگ ہیں۔ یہ ای- کامرس، فن-ٹیک، ایڈ-ٹیک ، بایو ٹیک جیسے کئی شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ ایک اور بات جسے میں زیادہ اہم مانتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسٹارٹ-اپس کی دنیا نیو انڈیا کی اسپرٹ کو رفلیکٹ کررہی ہے۔ آج، بھارت کا اسٹارٹ اپس ایکوسسٹم صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں ہے، چھوٹے -چھوٹے شہروں اور قصبوں سے بھی انٹرپرینورز سامنے آرہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں جس کے پاس انوویشن آئڈیا ہے وہ، ویلتھ کریٹ کرسکتا ہے۔
ساتھیو، ملک کی اس کامیابی کے پیچھے، ملک کی نوجوان -طاقت ، ملک کے ٹیلینٹ اور سرکار، سبھی مل کر یہ کوشش کررہے ہیں، ہر کسی کا تعاون ہے، لیکن اس میں ایک اور اہم بات ہے، وہ ہے، اسٹارٹ-اپ ورلڈ میں، رائٹ مینٹرنگ ؛ یعنی، صحیح رہنمائی۔ ایک اچھا مینٹر اسٹارٹ-اپس کو نئی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے۔ یہ فاؤنڈرز کو رائٹ ڈیسیزن کے لئے ہر طرح سے گائیڈ کرسکتا ہے۔ مجھے، اس بات کا فخر ہے کہ بھارت میں ایسے بہت سے مینٹرز ہیں جنہوں نے اسٹارٹ-اپس کو آگے بڑھانے کے لئے خود کو وقف کردیا ہے۔
شری دھر ویمبوجی کو حال ہی میں پدم اعزاز ملا ہے۔ وہ خود ایک کامیاب انٹرپریونیور ہیں، لیکن اب انہوں نے، دوسرے انٹرپریونیور کو گروم کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا ہے۔ شری دھر جی نے اپنا کام دیہی علاقوں سے شروع کیا ہے۔ وہ، دیہی نوجوانوں کی گاؤں میں ہی رہ کر اس شعبے میں کچھ کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں مدن پڑاکی جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے رورل انٹرپریونیورز کو فروغ دینے کے لئے 2014 میں ون-برج نام کا پلیٹ فارم بنایا تھا۔ آج ، ون-برج جنوبی اور مشرقی بھارت کے 75 سے بھی زیادہ اضلاع میں موجود ہیں۔ اس سے جڑے 9000 سے زیادہ رورل انٹرپریونیورز دیہی صارفین کو اپنی خدمات مہیا کرا رہے ہیں۔ میرا شینائے جی بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں۔ وہ رورل ٹرائبل اور ڈزایبل یوتھ کے لئے مارکٹ لنکڈ اسکل ٹریننگ کے شعبے میں قابل ذکر کام کررہی ہیں۔میں نے یہاں تو کچھ ہی نام لئے ہیں، لیکن آج ہمارے بیچ مینٹرز کی کمی نہیں ہے ، ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اسٹارٹ-اپس کے لئے آج ملک میں ایک پورا سپورٹ سسٹم تیار ہورہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں ہمیں بھارت کے اسٹارٹ اپ ورلڈ کی ترقی کی نئی اڑان دیکھنے کو ملے گی۔
ساتھیو، کچھ روز قبل مجھے ایک ایسی انٹریسٹنگ اور اٹریکٹیو چیز ملی، جس میں اہل وطن کی کریٹیوٹی اور ان کے آرٹسٹک ٹیلنٹ کا رنگ بھرا ہے۔ ایک تحفہ ہے، جسے تمل ناڈو کے تھنجاور کے ایک سیلف-ہیلپ گروپ نے مجھے بھیجا ہے۔ اس تحفے میں بھارتیت کی خوشبو ہے اور ماترشکتی کے آشرواد- مجھ پر ان کی محبت کی بھی جھلک ہے۔ یہ ایک اسپیشل تھنجاور ڈول ہے، جسے جی آئی ٹیگ بھی ملا ہوا ہے۔ میں تھنجاور سیلف ہیلپ گروپ کا خا ص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے مقامی ثقافت میں رچے -بسے اس تحفے کو بھیجا۔ ویسے ساتھیو، یہ تھنجاور ڈول اتنی خوبصورت ہوتی ہے، اتنی ہی خوبصورتی سے ، یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی نئی کہانی بھی لکھ رہی ہے۔ تھنجاور میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپز کے اسٹور اور کیوسک بھی کھل رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کتنے ہی غریب خاندانوں کی زندگی بدل گئی ہے۔ ایسے کیوسک اور اسٹورز کی مدد سے خواتین اب اپنے پروڈکٹ گاہکوں کو سیدھے فروخت کرپارہی ہیں۔ اس پہل کو ’تھارگئیگل کئی ونئی پورتکل ورپنئی انگاڑی ‘نام دیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس پہل سے 22 سیلف گروپ جڑے ہوئے ہیں۔ آپ کو یہ بھی جان کر اچھا لگے گا کہ خواتین سیلف ہیلپ گروپز، خواتین خود کی مدد آپ گروپ کے یہ اسٹور تھنجاور میں بہت ہی پرائم لوکیشن پر کھلے ہیں۔ ان کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمہ داری بھی خواتین ہی اٹھا رہی ہیں۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپ تھنجاور ڈول اور برونز لیمپ جیسے جی آئی پروڈکٹ کے علاوہ کھلونے، میٹ اور آرٹیفیشل جیولری بھی بناتے ہیں۔ ایسے اسٹور کی وجہ سے جی آئی پروڈکٹ کے ساتھ ساتھ ہینڈی کرافٹ کے پروڈکٹ کی فروخت میں کافی تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔اس مہم کی وجہ سے نہ صرف کاریگروں کو فروغ ملا ہے بلکہ خواتین کی آمدنی بڑھنے سے وہ بااختیار بھی ہورہی ہیں۔ میری ’ من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی درخواست ہے۔آپ اپنے علاقے میں یہ پتہ لگائیں ، کہ کون سے خواتین سیلف ہیلپ گروپ کام کررہے ہیں۔ ان کے پروڈکٹ کےبارے میں بھی آپ جانکاری حاصل کریں اور زیادہ سے زیادہ ان پروڈکٹس کو استعمال میں لائیں۔ ایسا کرکے ، آپ سیلف ہیلپ گروپ کی آمدنی بڑھانے میں تو مدد کریں گی ہی ، ’آتم نربھر بھارت مہم ‘ کو بھی رفتار دیں گے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں کئی ساری زبان، رسم الخط اور بولیوں کا بیشمار خزانہ ہے۔ الگ الگ علاقوں میں الگ الگ لباس، کھانا پینا اور ثقافت ، یہ ہماری پہچان ہے۔ یہ ڈائیورسٹی ، یہ تنوع ، ایک قوم کی شکل میں ہمیں مزید مضبوط کرتی ہے اور متحد رکھتی ہے۔ اس سے جڑی ایک حوصلہ افزا مثال ہے ایک بیٹی کلپنا کی، جسے ، میں آپ سبھی کے ساتھ مشترک کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا نام کلپنا ہے، لیکن ان کی کوشش، ’ ایک بھارت شریسٹھ بھارت‘ کے حقیقی جذبے سےمعمور ہے۔ دراصل ، کلپنا نے حال ہی میں کرناٹک میں اپنا 10 ویں کا امتحان پاس کیا ہے لیکن ان کی کامیابی کی بے حد خاص بات یہ ہے کہ کلپنا کو کچھ وقت پہلے تک کنڑ زبان ہی نہیں آتی تھی۔ انہوں نے ، نہ صرف تین مہینے میں کنڑ زبان سیکھی بلکہ 92 ویں نمبر بھی لاکر دکھایا۔ آپ کو یہ جانکر حیرانی ہورہی ہوگی، لیکن یہ سچ ہے۔ ان کے بارے میں اور بھی کئی باتیں ایسی ہیں جو آپ کو حیران بھی کریں گی اور تحریک بھی دیں گی۔ کلپنا، بنیادی طور پر اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ کی رہنے والی ہیں۔ وہ پہلے ٹی بی سے متاثر رہی تھیں اور جب وہ تیسری کلاس میں تھیں تبھی ان کی آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی تھی لیکن، کہتے ہیں نہ ، ’ جہاں چاہ- وہاں راہ ‘۔ کلپنا بعد میں میسور کی رہنے والی پروفیسر تارامورتی کے رابطے میں آئیں، جنہوں نے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ ہر طرح سے ان کی مدد بھی کی۔ آج ، وہ اپنی محنت سے ہم سب کے لئے ایک مثال بن گئی ہیں۔ میں، کلپنا کو ان کے حوصلے کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔ اسی طرح، ہمارے ملک میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں، جو ملک کی لسانی تنوع کو مضبوط کرنے کا کام کررہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ساتھ ہیں، مغربی بنگال میں پرولیا کے شری پتی ٹوڈو جی۔ ٹوڈو جی ، پرولیا کی سدھو-کانو-برسا یونیورسٹی میں سنتھالی زبان کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے، سنتھالی سماج کے لئے ، ان کی اپنی ’اول چکی‘ رسم الخط میں ملک کے آئین کی کاپی تیار کی ہے۔ سری پتی ٹوڈو جی کہتے ہیں کہ ہمارا آئین ہمارے ملک کے ہر ایک شہری کو ان کے حقوق اور فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ اس لئے ، ہر شہری کو کو اس سےمانوس ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ، انہوں نے سنتھالی سماج کے لئے ان کے اپنی رسم الخط میں آئین کی کاپی تیار کرکے تحفے -سوگات کے طور پر دی ہے۔ میں، شری پتی جی کی اس سوچ اور ان کی کوششوں کی تعریف کرتا ہوں۔ یہ ’ایک بھارت ، شریٹھ بھارت‘ کے جذبے کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس جذبے کو آگے بڑھانے والی ایسی بہت سی کوششوں کے بارے میں ، آپ کو ’ایک بھارت ، شریٹھ بھارت‘ کی ویب سائٹ پر بھی جانکاری ملے گی ۔ یہاں آپ کو کھان -پان، آرٹ، ثقافت، سیاحت سمیت ایسے کئی موضوعات پر ایکٹیوٹیز کے بارے میں پتہ چلے گا۔ آپ ان ایکٹیویٹیز میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔ اس سے آپ کو ، اپنے ملک کے بارے میں جانکاری بھی ملے گی، اور آپ ملک کے تنوع کو محسوس بھی کریں گے۔
میرے پیارے اہل وطن ، اس وقت ہمارے ملک میں اتراکھنڈ کے ’چار -دھام‘ کی مقدس یاترا چل رہی ہے۔ ’چار -دھام‘ اور خاص طور پر کیدارناتھ میں ہر دن ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند وہاں پہنچ رہے ہیں۔ لوگ، اپنی ’چار دھام یاترا‘ کے اچھے احساس شیئر کررہے ہیں، لیکن ، میں نے، یہ بھی دیکھا کہ، عقیدت مند کیدارناتھ میں کچھ یاتریوں کے ذریعہ پھیلائی جارہی گندگی کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کئی لوگوں نے اپنی بات رکھی ہے ۔ ہم، مقدس یاترا میں جائیں اور وہاں گندگی کا ڈھیر ہو، یہ ٹھیک نہیں ۔ لیکن ساتھیو، ان شکایات کے بیچ کئی اچھی تصویریں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جہاں عقیدت ہے، وہاں ،تخلیقیت اور مثبت سوچ بھی ہے۔ کئی عقیدت مند ایسے بھی ہیں جو بابا کیدار کے دھام میں درشن -پوجن کے ساتھ ساتھ سوچھتا کی سادھنا بھی کررہے ہیں۔ کوئی اپنے ٹھہرنے کی جگہ کے پاس صفائی کررہا ہے، تو کوئی یاترا کے راستے سے کوڑا کچرا صاف کررہا ہے۔ سوچھ بھارت مہم کی ٹیم کے ساتھ مل کر کئی ادارے اور رضاکارتنظیمیں بھی وہاں کام کررہی ہیں۔ ساتھیو، ہمارے یہاں جیسے تیرتھ یاترا کی اہمیت ہوتی ہے ، ویسے ہی تیرتھ سیوا کی بھی اہمیت بتائی گئی ہے، اور میں تو یہ بھی کہوں گا، تیرتھ -سیوا کے بغیر، تیرتھ -یاترا بھی ادھوری ہے۔ دیوبھومی اتراکھنڈ میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو سوچتھا اور سیوا کی سادھنا میں لگے ہوئے ہیں۔ رودر پریاگ کے رہنے والے شری مان منوج بینجوال جی سے بھی آپ کو بہت تحریک ملے گی۔ منوج جی نے پچھلے 25 برسو ں سے ماحولیات کی دیکھ ریکھ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ وہ ، سوچھتا کی مہم چلانے کے ساتھ ہی ، مقدس مقامات کو ، پلاسٹک سے پاک کرنے میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ وہیں گپت کاشی میں رہنے والے -سریندر بگواڑی جی نے بھی سوچھتا کو اپنی زندگی کا منتر بنا لیا ہے۔ وہ ، گپت کاشی میں باقاعدہ طور پر صفائی پروگرام چلاتے ہیں ، اور مجھے پتہ چلا ہے کہ اس مہم کا نام بھی انہوں نے ’من کی بات ‘ رکھ لیا ہے۔ ایسے ہی ، دیور گاوں کی چمپادیوی پچھلے تین سال سے اپنے گاؤں کی خواتین کو کوڑے کے بندوبست ، یعنی ، ویسٹ مینجمنٹ سکھا رہی ہیں۔ چمپا جی نے سینکڑوں درخت بھی لگائے ہیں اور انہوں نے اپنی محنت سے ایک ہرابھراجنگل تیار کردیا ہے۔ ساتھیو، ایسے ہی لوگوں کی کوششوں سے دیوتاؤں کی سرزمین دیوبھومی اور تیرتھوں کا وہ دیویہ احساس قائم ہے، جسے محسوس کرنے کے لئے ہم وہاں جاتے ہیں،اس دیوتو اور روحانیت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ہماری بھی تو ہے۔ ابھی ، ہمارے ملک میں، ’چار دھام یاترا‘ کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت میں ’امرناتھ یاترا‘، ’پنڈھرپور یاترا‘ اور ’جگن ناتھ یاترا‘ جیسی کئی یاترائیں ہوں گی۔ ساون ماہ میں تو شاید ہر گاوں میں کوئی نہ کوئی میلا لگتا ہے۔
ساتھیو، ہم جہاں کہیں بھی جائیں، ان تیرتھ مقامات کا احترام قائم رہے۔ سوچیتا، صاف-صفائی ، ایک مقدس ماحول ہمیں اسے کبھی نہیں بھولناہے، اسے ضرور بنائے رکھیں اور اس لئے ضروری ہے ، کہ ہم سوچھتا کے عزم کو یاد رکھیں۔ کچھ دن بعد ہی ، 5 جون کو ’ماحولیات کا عالمی دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ماحولیات کے تعلق سے ہمیں اپنے آس پاس مثبت مہم چلانی چاہئے اور یہ مسلسل کرنے والا کام ہے۔ آپ ، اس بار سب کو ساتھ جوڑ کر سوچھتا اور شجرکاری کے لئے کچھ کوشش ضرور کریں ۔ آپ، خود بھی درخت لگائیں اور دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔
میرے پیارے اہل وطن، اگلے مہینے 21 جون کو ہم آٹھواں ’ یوگ کا بین الاقوامی دن ‘ منانے والے ہیں۔ اس بار ’یوگ کے دن ‘کا تھیم ہے -یوگا فار ہیومنٹی ،میں آپ سبھی سےیوگ کے دن کو انتہائی جورش و خروش کے ساتھ منانے کی درخواست کروں گا ۔ ہاں ! کورونا سے متعلق احتیاط بھی برتیں، ویسے ، اب تو پوری دنیا میں کورونا کے تعلق سے حالات پہلے سے کچھ بہتر لگ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ویکسینیشن کوریج کی وجہ سے اب لوگ پہلے سے کہیں زیادہ باہر بھی نکل رہے ہیں، اس لئے پوری دنیا میں ’یوگ دیوس‘ کے تعلق سے کافی تیاریاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کورونا وبا نے ہم سبھی کو یہ احساس بھی کرایا ہے کہ ہماری زندگی میں صحت کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، اور یوگ اس میں کتنا بڑا وسیلہ ہے ، لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ یوگ سے فزیکل ، اسپرچوئل اور انٹل ایکچوئل ویل بیئنگ کو بھی فروغ ملتا ہے۔ دنیا کے ٹاپ بزنس پرسن سے لے کر فلم اور اسپورٹس پرسنیلٹیز تک ، اسٹوڈنٹ سے لے کر عام انسان تک ، سبھی یوگ کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنارہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دنیا بھر میں یوگ کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر آپ سبھی کو بہت اچھا لگتا ہوگا۔ ساتھیو، اس بار ملک اور بیرون ملک میں ’یوگ دیوس‘ پر ہونے والے کچھ انتہائی انوویٹیو مثالوں کے بارے میں مجھے علم ہوا ہے۔ ان ہی میں سے ایک ہے گارڈین رنگ- ایک بڑا ہی یونک پروگرام ہوگا۔ اس میں موومنٹ آف سن کو سیلیبریٹ کیا جائے گا، یعنی سورج جیسے جیسے سفر کرے گا ، زمین کے الگ الگ حصوں سے ، ہم یوگ کے ذریعہ، اس کا استقبال کریں گے۔ الگ الگ ملکوں میں انڈین مشنز وہاں کے لوکل ٹائم کے مطابق طلوع آفتاب کے وقت یوگ پروگرام منعقد کریں گے۔ ایک ملک کے بعد دوسرے ملک سے پروگرام شروع ہوگا۔ پورب سے پشچم تک مسلسل سفر چلتا رہے گا، پھر ایسے ہی یہ آگے بڑھتا رہے گا۔ ان پروگراموں کی اسٹریمنگ بھی اسی طرح ایک کے بعد ایک جڑتی جائے گی، یعنی یہ ، ایک طرح کا ریلیے یوگا اسٹریمنگ ایونٹ ہوگا۔ آپ بھی اسے ضرور دیکھئے گا۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں اس بار ’امرت مہوتسو‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کے 75 اہم مقامات پر بھی ’بین الاقوامی یوگ دیوس‘ کا انعقاد ہوگا۔ اس موقع پر کئی تنظیمیں اور اہل وطن نے اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے علاقو ں کی خاص جگہوں پر کچھ نہ کچھ انوویٹیو کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ میں آپ سے بھی یہ درخواست کروں گا ، اس بار یوگ دیوس منانے کے لئے، آپ اپنے شہر، قصبے یا گاوں کی کسی ایسی جگہ منتخب کریں، جو سب سے خاص ہو۔ یہ جگہ کوئی قدیم مندر اور سیاحتی مرکز ہوسکتا ہے، یا پھر ،کسی معروف ندی، جھیل یا تالاب کا کنارہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے یوگ کے ساتھ ساتھ آپ کے علاقے کی پہچان بھی بڑھے گی اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ اس وقت ’یوگ دیوس‘ کا 100 ڈے کاونٹ ڈاون بھی جاری ہے، یا یوں کہیں کہ نجی اور سماجی کوششوں سے جڑے پروگرام ، تین مہینے پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ دہلی میں 100 ویں دن اور 75 ویں دن کے کاونٹ ڈاون پروگرامز ہوئے ہیں۔ وہیں، آسام کے شیوساگر میں 50 ویں اور حیدرآباد میں 25 ویں کاونٹ ڈاون ایونٹ منعقد کئے گئے۔ میں چاہوں گا کہ آپ بھی اپنے یہاں ابھی سے ’یوس دیوس‘ کی تیاریاں شروع کردیجئے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملئے، ہر کسی کو یوگ دیوس کے پروگرام میں شامل ہونے کے لئے درخواست کیجئے، حوصلہ افزائی کیجئے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ سبھی ’یوگ دیوس‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، ساتھ ہی یوگ کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی اپنائیں گے۔
ساتھیو، کچھ دن پہلے میں جاپان گیا تھا۔اپنے کئی پروگراموں کے درمیان مجھے کچھ شاندار شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ میں ’ من کی بات ‘ میں ، آپ سے ان کے بارے میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ لوگ ہیں تو جاپان کے ، لیکن بھارت کے تئیں ان میں غضب کا لگاؤ اور محبت ہے۔ ان میں سے ایک ہیں ہیروشی کوئیکے جی، جو ایک معروف آرٹ ڈائرکٹر ہیں۔ آپ کو یہ جان کر انتہائی خوشی ہوگی کہ انہوں نے مہابھارت پروجیکٹ کو ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی شروعات کمبوڈیا میں ہوئی تھی اور پچھلے 9 برسوں سے یہ مسلسل جاری ہے۔ ہیروشی کوئیکے جی ہر کام بہت ہی الگ طریقے سے کرتے ہیں۔ وہ ، ہر سال، ایشیا کے کسی ملک کا سفر کرتے ہیں۔ اور وہاں لوکل آرٹسٹ اور میوزیشین کے ساتھ مہابھارت کے کچھ حصوں کو پرڈیوس کرتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے ذریعہ سے انہوں نے انڈیا کمبوڈیا اور انڈونیشیا سمیت 9 ملکوں میں پروڈکشن کئے ہیں اور اسٹیج پرفارمنس بھی دی ہے۔ ہیروشی کوئیکے جی ان فنکاروں کو ایک ساتھ لاتے ہیں ، جن کا کلاسیکل اور ٹریڈیشنل ایشین پرفارمننگ آرٹ میں ڈائیورس بیک گراونڈ رہا ہے۔ اس وجہ سے ان کے کام میں مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملیشیا اور جاپان کے پرفارمرز جاوا رقص، بالی رقص ، تھائی رقص کے ذریعہ اسے اور پرکشش بناتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہر پرفامر اپنی ہی مادری زبان میں بولتا ہے اور کوریوگرافی بہت ہی خوبصورتی سے اس تنوع کو پیش کرتی ہے اور میوزک کی ڈائیورسٹی اس پروڈکشن کو مزید زندگی عطا کردیتی ہے۔ ان کا مقصد اس بات کو سامنے لانا ہے کہ ہمارے سماج میں ڈائیورسٹی اور کو ایکزیسٹنس کی کیا اہمیت ہے اور امن کی شکل حقیقت میں کیسی ہونی چاہئے۔ ان کے علاوہ میں، جاپان میں جن دیگر لوگوں سے ملا وہ ہیں، اتسوشی ماتسوو جی اور کینزی یوشی جی۔ یہ دونوں ہی ٹیم پروڈکشن کمپنی سے جڑے ہیں۔ اس کمپنی کا تعلق رامائن کی اس جاپانی اینی میشن فلم سے ہے، جو 1993 میں ریلیز ہوئی تھی ۔ یہ پروجیکٹ جاپان کے بہت ہی مشہور فلم ڈائریکٹر یوگو ساکو جی سے جڑا ہوا تھا۔ تقریباً چالیس سال پہلے 1983 میں ، انہیں، پہلی بار رامائن کے بارے میں پتہ چلاتھا۔’ رامائن ‘ ان کے دل کو چھو گئی ، جس کے بعد انہوں نے اس پر گہرائی سے ری سرچ شروع کردی۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے جاپانی زبان میں رامائن کے 10 ورژن پڑھ ڈالے۔ اور وہ اتنے پر ہی نہیں رکے ، وہ اسے اینی میشن پر بھی اتارنا چاہتے تھے۔ اس میں انڈین اینی میٹرز نے بھی ان کی کافی مدد کی، انہیں فلم میں دکھائے گئے بھارتی رسم ورواج اور روایتوں کے بارے میں گائیڈ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ بھارت میں لوگ دھوتی کیسے پہنتے ہیں، ساڑی کیسے پہنتے ہیں، بال کیسے بناتے ہیں۔ بچے خاندان کے اندر ایک دوسرے کی عزت کیسے کرتے ہیں ، آشرواد کی روایت کیا ہوتی ہے۔ صبح اٹھ کر اپنے گھر کے جو سینئر ہیں، ان کو پرنام کرنا ، ان کا آشرواد لینا، یہ ساری باتیں اب 30 برسوں کے بعد یہ اینی میشن فلم پھر سے 4 کے میں ری ماسٹر کی جارہی ہے۔ اس پروجیکٹ کے جلد ہی پورا ہونے کا امکان ہے۔ ہم سے ہزاروں کلومیٹر دور جاپان میں بیٹھے لوگ جو نہ ہماری زبان جانتے ہیں ، جو نہ ہماری روایات کے بارے میں اتنا جانتے ہیں، ان کی ہماری ثقافت کے لئے اتنی لگن ، یہ عقیدت، یہ احترام ، بہت ہی قابل تعریف ہے۔ کون ہندوستانی اس پر فخر نہیں کرے گا؟
میرے پیارے اہل وطن، اپنی ذات سے بالاتر ہوکر سماج کی خدمت کا منتر، سیلف فار سوسائٹی کا منتر، ہماری تہذیب کا حصہ ہے ۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ اس منتر کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ مجھے، آندھراپردیش میں، مرکاپورم میں رہنے والے ایک ساتھی ، رام بھوپال ریڈی جی کے بارے میں جانکاری ملی ۔ آپ جانکر حیران رہ جائیں گے رام بھوپال ریڈی جی نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی اپنی ساری کمائی بیٹیوں کی تعلیم کے لئے عطیہ کردی ہے۔ انہوں نے تقریباً 100 بیٹیوں کے لئے ’ سُکنیا سمردھی یوجنا‘ کے تحت کھاتے کھلوائے اور اس میں اپنے 25 لاکھ سے زیادہ روپئے جمع کروادیئے۔ ایسی ہی خدمت کی ایک اور مثال یو پی میں آگرہ کے کچورا گاوں کی ہے۔ کافی سال سے اس گاوں میں میٹھے پانی کی قلت تھی۔ اس بیچ گاوں کے ایک کسان کنور سنگھ کو گاوں سے 6 سے 7 کلومیٹر دور اپنے کھیت میں میٹھا پانی مل گیا۔ یہ ان کے لئے بہت خوشی کی بات تھی۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ اس پانی سے باقی سبھی گاوں والوں کی بھی خدمت کی جائے۔لیکن کھیت سے گاوں تک پانی لے جانے کے لئے 32-30 لاکھ روپئے چاہئے تھے۔ کچھ عرصے بعد کنور سنگھ کے چھوٹے بھائی شیام سنگھ فوج سے ریٹائرہوکر گاؤں آئے، تو انہیں یہ بات پتہ چلی۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ پر ملی اپنی پوری رقم اس کام کے لئے پیش کردی اور کھیت سے گاوں تک پائپ لائن بچھا کر گاوں والوں کے لئے میٹھاپانی پہنچایا۔ اگر لگن ہو، اپنے فرائض کے تئیں سنجیدگی ہو، تو ایک فرد بھی کیسے پورے سماج کا مستقبل بدل سکتا ہے، یہ یہ کوشش اس کی بڑی تحریک ہے۔ ہم فرائض کی راہ پر چلتے ہوئے ہی سماج کو بااختیاربناسکتے ہیں، ملک کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ آزادی کے اس ’امرت مہوتسو‘ میں یہی ہمارا عزم ہونا چاہئے، اور یہی ہماری سادھنا بھی ہونا چاہئے۔ جس کا ایک ہی راستہ ہے - فرض، فرض اور فرض۔
میرے پیارے اہل وطن ، آج ’ من کی بات ‘ میں ہم نے سماج سے جڑے کئی اہم موضوعات پر بات چیت کی۔ آپ سب، الگ الگ موضوعات سے جڑی اہم تجاویز مجھے بھیجتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر ہماری بات آگے بڑھتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے اگلے ایڈیشن کے لئے اپنی تجاویز بھیجنا بھی مت بھولئیے گا۔ اس وقت آزادی کے امرت مہوتسو سے جڑے جو پروگرام چل رہے ہیں، جن پروگرام میں آپ شامل ہورہے ہیں، ان کے بارے میں بھی مجھے ضرور بتائیے۔ نمو ایپ اور مائی گو پر مجھے آپ کی تجاویز کا انتظار رہے گا۔ اگلی بار ہم ایک بار پھر ملیں گے، پھر سے اہل وطن سے جڑے ایسے ہی موضوعات پر بات کریں گے۔ آپ ، اپنا خیال رکھئے اور اپنے آس پاس سبھی جانداروں کا بھی خیال رکھئے۔ گرمیوں کے اس موسم میں، آپ جانوروں اور پرندوں کے لئے کھانا-پانی دینے کی اپنی انسانی ذمہ داری بھی نبھاتے رہیں - یہ ضرور یاد رکھئے گا، تب تک کے لئے بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار!
نئے موضوعات کے ساتھ، نئی حوصلہ افزا مثالوں کے ساتھ، نئے نئے پیغامات کو سمیٹے ہوئے، ایک بار پھر میں آپ سے ’من کی بات‘ کرنے آیا ہوں۔ جانتے ہیں اس بار مجھے سب سے زیادہ خطوط اور پیغامات کس موضوع کے بارے میں ملے ہیں؟ یہ موضوع ایسا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے جڑا ہے۔ میں بات کر رہا ہوں ملک کو ملے نئے پی ایم میوزیم کی۔ اس 14 اپریل کو بابا صاحب امبیڈکر کی جنم جینتی پر پی ایم میوزیم کا افتتاح ہوا ہے۔ اسے، ملک کے شہریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ایک سامع ہیں جناب سارتھک جی، سارتھک جی گروگرام میں رہتے ہیں اور پہلا موقع ملتے ہی وہ وزیر اعظم کا میوزیم دیکھ آئے ہیں۔ سارتھک جی نے Namo App پر جو پیغام مجھے لکھا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ برسوں سے نیوز چینل دیکھتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں، سوشل میڈیا سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں لگتا تھا کہ ان کی جنرل نالیج کافی اچھی ہوگی، لیکن، جب وہ پی ایم میوزیم گئے تو انہیں بہت حیرانی ہوئی، انہیں محسوس ہوا کہ وہ اپنے ملک اور ملک کی قیادت کرنے والوں کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے پی ایم میوزیم کی کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں لکھا ہے، جو ان کے تجسس کو مزید بڑھانے والا تھا، جیسے، انہیں لال بہادر شاستری جی کا وہ چرخہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، جو انہیں سسرال سے تحفے میں ملا تھا۔ انہوں نے شاستری جی کی پاس بک بھی دیکھی اور یہ بھی دیکھا کہ ان کے پاس کتنی کم بچت تھی۔ سارتھک جی نے لکھا ہے کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مورارجی بھائی دیسائی جدوجہد آزادی میں شامل ہونے سے پہلے گجرات میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس میں ان کا ایک لمبا کریئر رہا تھا۔ سارتھک جی چودھری چرن سنگھ جی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ زمینداری کے خاتمہ کے سلسلے میں چودھری چرن سنگھ جی کا بہت بڑا رول تھا۔ اتنا ہی نہیں، وہ آگے لکھتے ہیں، جب لینڈ ریفارم کے بارے میں وہاں میں نے دیکھا کہ جناب پی وی نرسمہا راؤ جی لینڈ ریفارم کے کام میں بہت گہری دلچسپی لیتے تھے۔ سارتھک جی کو بھی اس میوزیم میں آ کر ہی پتہ چلا کہ چندر شیکھر جی نے ۴ ہزار کلومیٹر سے زیادہ پیدل چل کر ہندوستان کا تاریخی سفر کیا تھا۔ انہوں نے جب میوزیم میں اُن چیزوں کو دیکھا جو اٹل جی استعمال کرتے تھے، ان کی تقریریں سنیں، تو وہ فخر سے بھر اٹھے۔ سارتھک جی نے یہ بھی بتایا کہ اس میوزیم میں مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، ڈاکٹر امبیڈکر، جے پرکاش نارائن اور ہمارے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے بارے میں بھی بہت ہی دلچسپ جانکاریاں ہیں۔
ساتھیو، ملک کے وزرائے اعظم کے تعاون کو یاد کرنے کے لیے آزادی کے امرت مہوتسو سے اچھا وقت اور کیا ہو سکتا ہے۔ ملک کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ تاریخ کو لے کر لوگوں کی دلچسپی کافی بڑھ رہی ہے اور ایسے میں پی ایم میوزیم نوجوانوں کے لیے بھی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، جو ملک کی انمول وراثت سے انہیں جوڑ رہا ہے۔
ویسے ساتھیو، جب میوزیم کے بارے میں آپ سے اتنی باتیں ہو رہی ہیں، تو میرا من کیا کہ میں بھی آپ سے کچھ سوال کروں۔ دیکھتے ہیں آپ کی جنرل نالیج کیا کہتی ہے – آپ کو کتنی جانکاری ہے۔ میرے نوجوان ساتھیو آپ تیار ہیں، کاغذ قلم ہاتھ میں لے لیا؟ ابھی میں آپ سے جو پوچھنے جا رہا ہوں، آپ ان کے جواب NaMo App یا سوشل میڈیا پر #MuseumQuiz کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں اور ضرور کریں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان تمام سوالوں کا جواب ضرور دیں۔ اس سے ملک بھر کے لوگوں میں میوزیم کو لے کر دلچسپی مزید بڑھے گی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ملک کے کس شہر میں ایک مشہور ریل میوزیم ہے، جہاں پچھلے 45 برسوں سے لوگوں کو ہندوستانی ریل کی وراثت دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ میں آپ کو ایک اور clue دیتا ہوں۔ آپ یہاں Fairy Queen (فیئری کوئین)، Saloon of Prince of Wales (سلون آف پرنسز آف ویلس) سے لے کر Fireless Steam Locomotive (فائر لیس اسٹیم لوکوموٹیو) بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ممبئی میں وہ کون سا میوزیم ہے، جہاں ہمیں بہت ہی دلچسپ طریقے سے کرنسی کا ارتقا دیکھنے کو ملتا ہے؟ یہاں چھٹویں صدی قبل عیسی مسیح کے سکے موجود ہیں، تو دوسری طرف ای-منی بھی موجود ہے۔ تیسرا سوال ’وراثت خالصہ‘ اس میوزیم سے جڑا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں، یہ میوزیم، پنجاب کے کس شہر میں موجود ہے؟ پتنگ بازی میں تو آپ سب کو بہت مزہ آتا ہی ہوگا، اگلا سوال اسی سے جڑا ہے۔ ملک کاواحد ’کائٹ میوزیم‘ کہاں ہے؟ آئیے میں آپ کو ایک clue دیتا ہوں یہاں جو سب سے بڑی پتنگ رکھی ہے، اس کا سائز 22 گنا 16 فٹ ہے۔ کچھ دھیان آیا – نہیں تو یہیں – ایک اور چیز بتاتا ہوں – یہ جس شہر میں ہے، اس کا باپو سے مخصوصی ناطہ رہا ہے۔ بچپن میں ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق کسے نہیں ہوتا! لیکن، کیا آپ کو معلوم ہے کہ بھارت میں ڈاک ٹکٹ سے جڑا نیشنل میوزیم کہاں ہے؟ میں آپ سے ایک اور سوال کرتا ہوں۔ گلشن محل نام کی عمارت میں کون سا میوزیم ہے؟ آپ کے لیے clue یہ ہے کہ اس میوزیم میں آپ فلم کے ڈائرکٹر بھی بن سکتے ہیں، کیمرہ، ایڈیٹنگ کی باریکیوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اچھا! کیا آپ ایسے کسی میوزیم کے بارے میں جانتے ہیں جو بھارت کی ٹیکسٹائل سے جڑی وراثت کو سیلیبریٹ کرتاہ ے۔ اس میوزیم میں منی ایچر پینٹنگز، جین مینواسکرپٹس، اسکلپچر – بہت کچھ ہے۔ یہ اپنے یونیک ڈسپلے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
ساتھیو، ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ کے لیے ان کے جواب تلاش کرنا بہت آسان ہے۔ یہ سوال میں نے اس لیے پوچھے تاکہ ہماری نئی نسل میں تجسس بڑھے، وہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں، انہیں دیکھنے جائیں۔ اب تو، میوزیم کی اہمیت کی وجہ سے، کئی لوگ، خود آگے آکر، میوزیم کے لیے کافی عطیہ بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے پرانے کلکشن کو، تاریخی چیزوں کو بھی، میوزیم کو عطیہ کر رہے ہیں۔ آپ جب ایسا کرتے ہیں تو ایک طرح سے آپ ایک وراثتی سرمایہ کو پورے سماج کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی لوگ اب اس کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ میں، ایسی تمام ذاتی کوششوں کی بھی تعریف کرتا ہوں۔ آج، بدلے ہوئے وقت میں اور کووڈ پروٹوکول کی وجہ سے میوزیم میں نئے طور طریقے اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ میوزیم میں ڈیجیٹائزیشن پر بھی فوکس بڑھا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ 18 مئی کو پوری دنیا میں انٹرنیشنل میوزیم ڈے منایا جائے گا۔ اسے دیکھتے ہوئے اپنے نوجوان ساتھیوں کے لیے میرے پاس ایک آئڈیا ہے۔ کیوں نہ آنے والی چھٹیوں میں، آپ، اپنے دوستوں کے گروہ کے ساتھ، کسی مقامی میوزیم کو دیکھنے جائیں۔ آپ اپنا تجربہ #MuseumMemories کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔ آپ کے ایسا کرنے سے دوسروں کے من میں بھی میوزیم کو لے کر تجسس پیدا ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ اپنی زندگی میں بہت سے عہد لیتے ہوں گے، انہیں پورا کرنے کے لیے محنت بھی کرتے ہوں گے۔ ساتھیو، لیکن حال ہی میں، مجھے ایسے عہد کے بارے میں پتہ چلا، جو واقعی بہت الگ تھا، بہت انوکھا تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اسے ’من کی بات‘ کے سامعین کو ضرور شیئر کروں۔
ساتھیو، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی اپنے گھر سے یہ عہد لے کر نکلے کہ وہ آج دن بھر، پورا شہر گھومے گا اور ایک بھی پیسے کا لین دین کیش میں نہیں کرے گا، نقد میں نہیں کرے گا – ہے نا یہ دلچسپ عہد۔ دہلی کی دو بیٹیاں، ساگریکا اور پریکشا نے ایسے ہی کیش لیس ڈے آؤٹ کا تجربہ کیا۔ ساگریکا اور پریکشا دہلی میں جہاں بھی گئیں، انہیں ڈیجیٹل پیمنٹ کی سہولت دستیاب ہو گئی۔ یوپی آئی کیو آر کوڈ کی وجہ سے انہیں کیس نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ یہاں تک کہ اسٹریٹ فوڈ اور ریہڑی پٹری کی دکانوں پر بھی زیادہ تر جگہ انہیں آن لائن ٹرانزیکشن کی سہولت ملی۔
ساتھیو، کوئی سوچ سکتا ہے کہ دہلی ہے، میٹرو سٹی ہے، وہاں یہ سب ہونا آسان ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے کہ یو پی آئی کا یہ پھیلاؤ صرف دہلی جیسے بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔ ایک میسیج مجھے غازی آباد سے آنندتا ترپاٹھی کا بھی ملا ہے۔ آنندتا پچھلے ہفتے اپنے شوہر کے ساتھ نارتھ ایسٹ گھومنے گئی تھیں۔ انہوں نے آسام سے لے کر میگھالیہ اور اروناچل پردیش کے توانگ تک کے اپنے سفر کا تجربہ مجھے بتایا۔ آپ کو بھی یہ جان کر بے حد حیرانی ہوگی کہ کئی دن کے اس سفر میں دور دراز علاقوں میں بھی انہیں کیش نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ جن جگہوں پر کچھ سال پہلے تک انٹرنیٹ کی اچھی سہولت بھی نہیں تھی، وہاں بھی اب یو پی آئی سے پیمنٹ کی سہولت موجود ہے۔ ساگریکا، پریکشا اور آنندتا کے تجربات کو دیکھتے ہوئے میں آپ سے بھی اپیل کروں گاکہ کیش لیس ڈے آؤٹ کا ایکسپیریمنٹ کرکے دیکھیں، ضرور کریں۔
ساتھیو، پچھلے کچھ سالوں میں BHIM UPI تیزی سے ہماری اکنامی اور عادتوں کا حصہ بن گیا ہے۔ اب تو چھوٹے چھوٹے شہروں میں اور زیادہ تر گاؤوں میں بھی لوگ یوپی آئی سے ہی لین دین کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل اکنامی سے ملک میں ایک کلچر بھی پیدا ہو رہا ہے۔ گلی نکڑ کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں ڈیجیٹل پیمنٹ ہونے سے انہیں زیادہ سے زیادہ صارفین کو سروس دینا آسان ہو گیا ہے۔ انہیں اب کھلے پیسوں کی بھی دقت نہیں ہوتی۔ آپ بھی یو پی آئی کی سہولت کو روزمرہ کی زندگی میں محسوس کرتے ہوں گے۔ کہیں بھی گئے، کیش لے جانے کا، بینک جانے کا، اے ٹی ایم کھوجنے کا، جھنجھٹ ہی ختم۔ موبائل سے ہی سارے پیمنٹ ہو جاتے ہیں، لیکن، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے ان چھوٹے چھوٹے آن لائن پیمنٹ سے ملک میں کتنی بڑی ڈیجیٹل اکنامی تیار ہوئی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کے ٹرانزیکشن ہر دن ہو رہے ہیں۔ پچھلے مارچ کے مہینے میں تو یو پی آئی ٹرانزیکشن تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ اس سے ملک میں سہولت بھی بڑھ رہی ہے اور ایمانداری کا ماحول بھی بن رہا ہے۔ اب تو ملک میں Fin-tech سے جڑے نئے اسٹارٹ اپس بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اگر آپ کے پاس بھی ڈیجیٹل پیمنٹ اور اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی اس طاقت سے جڑے تجربات ہیں، تو انہیں شیئر کیجئے۔ آپ کے تجربات دوسرے کئی اور ہم وطنوں کے لیے حوصلہ افزا ہو سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ٹیکنالوجی کی طاقت کیسے عام لوگوں کی زندگی بدل رہی ہے، یہ ہمیں ہمارے آس پاس لگاتار نظر آ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ایک اور بڑا کام کیا ہے۔ یہ کام ہے دِویانگ ساتھیوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کا فائدہ ملک اور دنیا کو دلانا۔ ہمارے دویانگ بھائی بہن کیا کر سکتے ہیں، یہ ہم نے ٹوکیو پیرالمپکس میں دیکھا ہے۔ کھیلوں کی طرح ہی، آرٹس، اکیڈمکس اور دوسرے کئی شعبوں میں دویانگ ساتھی کمال کر رہے ہیں، لیکن، جب ان ساتھیوں کو ٹیکنالوجی کی طاقت مل جاتی ہے، تو یہ اور بھی بڑے مقام حاصل کرکے دکھاتے ہیں۔ اسی لیے، ملک آج کل لگاتار وسائل اور انفراسٹرکچر کو دویانگوں کے لیے آسان بنانے کے لیے لگاتار کوشش کر رہا ہے۔ ملک میں ایسے کئی اسٹارٹ اپس اور ادارے بھی ہیں جو اس سمت میں مثالی کام کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ ہے – وائس آف اسپیشلی ایبلڈ پیپل، یہ ادارہ اسسٹو ٹیکنالوجی کے شعبے میں نئے مواقع کو پروموٹ کر رہاہے۔ جو دویانگ فنکار ہیں، ان کے کام کو، دنیا تک پہنچانے کے لیے بھی ایک انوویٹو شروعات کی گئی ہے۔ وائس آف اسپیشلی ایبلڈ پیپل نے ان فنکاروں کی پینٹنگز کی ڈیجیٹل آرٹ گیلری تیار کی ہے۔ دویانگ ساتھی کس طرح غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور ان کے پاس کتنی غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں – یہ آرٹ گیلری اس کی ایک مثال ہے۔ دویانگ ساتھیوں کی زندگی میں کیسے چیلنجز آتے ہیں، ان سے نکل کر، وہ کہاں تک پہنچ سکتے ہیں! ایسے کئی موضوعات کو ان پینٹنگز میں آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ بھی اگر کسی دویانگ ساتھی کو جانتے ہیں، ان کے ٹیلنٹ کو جانتے ہیں، تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔ جو دویانگ ساتھی ہیں، وہ بھی اس قسم کی کوششوں سے ضرور جڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے زیادہ تر حصوں میں گرمی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی یہ گرمی، پانی بچانے کی ہماری ذمہ داری کو بھی اتنا ہی بڑھا دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ابھی جہاں ہوں، وہاں پانی مناسب مقدار میں دستیاب ہو۔ لیکن، آپ کو ان کروڑوں لوگوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا ہے، جو پانی کی کمی والے علاقوں میں رہتے ہیں، جن کے لیے پانی کی ایک ایک بوند امرت کی طرح ہوتی ہے۔
ساتھیو، اس وقت آزادی کے 75ویں سال میں، آزادی کے امرت مہوتسو میں، ملک جن عزائم کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے، ان میں پانی کا تحفظ بھی ایک ہے۔ امرت مہوتسو کے دوران ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جائیں گے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کتنی بڑی مہم ہے۔ وہ دن دور نہیں جب آپ کے اپنے شہر میں 75 امرت سروور ہوں گے۔ میں، آپ سبھی سے، اور خاص کر، نوجوانوں سے چاہوں گا کہ وہ اس مہم کے بارے میں جانیں اور اس کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔ اگر آپ کے علاقے میں جدوجہد آزادی سے جڑی کوئی تاریخ ہے، کسی فوجی کی یادگار ہے، تو اسے بھی امرت سروور سے جوڑ سکتے ہیں۔ ویسے مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ امرت سروور کا عہد لینے کے بعد کئی جگہوں پر اس پر تیزی سے کام شروع ہو چکا ہے۔ مجھے یوپی کے رامپور کی گرام پنچایت پٹوائی کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ وہاں پر گرام سبھا کی زمین پر ایک تالاب تھا، لیکن وہ، گندگی اور کوڑے کے ڈھیر سے بھرا ہوا تھا۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں بہت محنت کرکے، مقامی لوگوں کی مدد سے، مقامی اسکولی بچوں کی مدد سے، اس گندے تالاب کو درست کیا گیا ہے۔ اب، اس سروور کے کنارے رٹینگ وال، چار دیواری، فوڈ کورٹ، فوارے اور لائٹنگ بھی نہ جانے کیا کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ میں رامپور کی پٹوائی گرام پنچایت کو، گاؤں کو، لوگوں کو، وہاں کے بچوں کو اس کوشش کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، پانی کی دستیابی اور پانی کی قلت، یہ کسی بھی ملک کی ترقی اور رفتار کو متعین کرتے ہیں۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ ’من کی بات‘ میں، میں، صفائی جیسے موضوعات کے ساتھ ہی بار بار پانی کے تحفظ کی بات ضرور کرتا ہوں۔ ہمارے تو گرنتھوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے –
پانیم پرمم لوکے، جیوانام جیونم سمرتم
یعنی، دنیا میں، پانی ہی، ہر ایک جاندار کی زندگی کی بنیاد ہے اور پانی ہی سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے تو ہمارے آباء و اجداد نے پانی کے تحفظ کے لیے اتنا زور دیا۔ ویدوں سے لے کر پرانوں تک، ہر جگہ پانی بچانے کو، تالاب، سروور وغیرہ بنوانے کو، انسانوں کا سماجی اور روحانی فریضہ بتایا گیا ہے۔ والمیکی رامائن میں آبی وسائل کو جوڑنے پر، پانی کے تحفظ پر، خاص زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح، تاریخ کے اسٹوڈنٹ جانتے ہوں گے، سندھو سرسوتی اور ہڑپا تہذیبوں کے دوران بھی ہندوستان میں پانی کو لے کر کتنی ترقی یافتہ انجینئرنگ ہوتی تھی۔ زمانۂ قدیم میں کئی شہر میں آبی ذرائع کا آپس میں انٹر کنیکٹیڈ سسٹم ہوتا تھا اور یہ وہ وقت تھا، جب آبادی اتنی نہیں تھی، قدرتی وسائل کی قلت بھی نہیں تھی، ایک طرح سے فراوانی تھی، پھر بھی، آبی تحفظ کو لے کر، تب، بیداری بہت زیادہ تھی۔ لیکن، آج حالات اس کے برعکس ہیں۔ میری آپ تمام لوگوں سے اپیل ہے، آپ اپنے علاقے کے ایسے پرانے تالابوں، کنووں اور سرووروں کے بارے میں جانیں۔ امرت سروور مہم کی وجہ سے پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آپ کے علاقے کی پہچان بھی بنے گی۔ اس سے شہروں میں، محلوں میں، مقامی سیاحت کی جگہوں بھی تیار ہوں گی، لوگوں کو گھومنے پھرنے کی بھی ایک جگہ ملے گی۔
ساتھیو، پانی سے جڑی ہر کوشش ہمارے کل سے جڑی ہے۔ اس میں پورے سماج کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے لیے صدیوں سے الگ الگ سماج، الگ الگ کوشش لگاتار کرتے آئے ہیں۔ جیسے کہ، ’’کچھ کے رن‘‘ کا ایک قبیلہ ’مالدھاری‘ پانی کے تحفظ کے لیے ’’ورداس‘ نام کا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ اس کے تحت چھوٹے کنویں بنائے جاتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے آس پاس پیڑ پودے لگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے بھیل قبیلہ نے اپنی ایک تاریخی روایت ’ہلما‘ کو پانی کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ اس روایت کے تحت اس قبیلہ کے لوگ پانی سے جڑے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں۔ ہلما روایت سے ملے مشوروں کی وجہ سے اس شعبے میں پانی کا بحران کم ہوا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح بھی بڑھ رہی ہے۔
ساتھیو، ایسی ہی ذمہ داری کا جذبہ اگر سب کے من میں آ جائے تو، آبی بحران سے جڑے بڑے سے بڑے چیلنج کا حل ہو سکتا ہے۔ آئیے، آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم آبی تحفظ اور حیاتی تحفظ کا عہد کریں۔ ہم بوند بوند پانی بچائیں گے اور ہر ایک زندگی بچائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ دن پہلے میں نے اپنے نوجوان دوستوں سے، اسٹوڈنٹ سے ’پریکشاپر چرچہ‘ کی تھی۔ اس چرچہ کے دوران کچھ اسٹوڈنٹ نے کہا کہ انہیں امتحان میں ریاضی سے ڈر لگتا ہے۔ اسی طرح کی بات کئی طلباء نے مجھے اپنے پیغام میں بھی بھیجی تھی۔ اس وقت ہی میں نے یہ طے کیا تھا کہ ریاضی- میتھ میٹکس پر میں اس بار کے ’من کی بات‘ میں ضرور چرچہ کروں گا۔ ساتھیو، ریاضی تو ایسا سبجیکٹ ہے جسے لے کر ہم ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ آسانی محسوس کرنی چاہیے۔ آخر، ریاضی کو لے کر پوری دنیا کے لیے سب سے زیادہ تحقیق اور تعاون ہندوستان کے لوگوں نے ہی تو دیا ہے۔ صفر، یعنی، زیرو کی کھوج اور اس کی اہمیت کے بارے میں آپ نے خوب سنا بھی ہوگا۔ اکثر آپ یہ بھی سنتے ہوں گے کہ اگر زیرو کی کھوج نہ ہوتی، تو شاید ہم، دنیا کی اتنی سائنسی پیش رفت بھی نہ دیکھ پاتے۔ کیلکولس سے لے کر کمپیوٹر تک – یہ تمام سائنسی ایجادات زیرو پر ہی تو مبنی ہیں۔ بھارت کے ریاضی دانوں اور دانشوروں نے یہاں تک لکھا ہے کہ –
یت کنچت وستو تت سروم، گنی تین بنا نہی!
یعنی، اس پوری کائنات میں جو کچھ بھی ہے، وہ سب کچھ ریاضی پر ہی مبنی ہے۔ آپ سائنس کی پڑھائی کو یاد کیجئے، تو اس کا مطلب آپ کو سمجھ آ جائے گا۔ سائنس کا ہر اصول ایک حسابی فارمولہ میں ہی تو ظاہر کیا جاتا ہے۔ نیوٹن کے لاء ہوں، آئنسٹائن کا مشہور ایکوئیشن، کائنات سے جڑی پوری سائنس ایک ریاضی ہی تو ہے۔ اب تو سائنس داں Theory of Everything کی بھی چرچہ کرتے ہیں، یعنی ایک ایسا سنگل فارمولہ جس سے کائنات کی ہر چیز کو ظاہر کیا جا سکے۔ ریاضی کے سہارے سائنسی فہم کی اتنی توسیع کا تصور ہمارے رشیوں نے ہمیشہ سے کیا ہے۔ ہم نے اگر صفر کی ایجاد کی، تو ساتھ ہی لا محدود، یعنی انفائنائٹ کو بھی ایکسپریس کیا ہے۔ عام بول چال میں جب ہم اعداد اور نمبر کی بات کرتے ہیں، تو ملین، بلین اور ٹریلین تک بولتے اور سوچتے ہیں، لیکن، ویدوں میں اور ہندوستانی ریاضی میں یہ حساب بہت آگے تک جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک بہت پرانا شلوک مشہور ہے –
ایکم دشم شتم چیو، سہسرم ایونتم تھا
لکشم چ نیوتم چیو، کوٹیہ اربودم ایو چ
ورندم کھروو نکھروہ چ، شنکھہ پدمہ چ ساگرہ
انتیم مدھیم پراردھہ چ، دش وردھیا یتھا کرمم
اس شلوک میں اعداد کی ترتیب بتائی گئی ہے۔ جیسے کہ –
ایک، دس، سو، ہزار اور ایوت
لاکھ، نیوت اور کوٹی یعنی کروڑ
اسی طرح یہ تعداد جاتی ہے – شنکھ، پدم اور ساگر تک۔ ایک ساگر کا مطلب ہوتا ہے کہ 10 کی پاور 57۔ یہی نہیں اس کے آگے بھی، اوگھ اور مہوگھ جیسی اعداد ہوتی ہیں۔ ایک مہوگھ ہوتا ہے – 10 کی پاور 62 کے برابر، یعنی، ایک کے آگے 62 صفر۔ ہم اتنی بڑی تعداد کا تصور بھی دماغ میں کرتے ہیں تو مشکل ہوتی ہے، لیکن ہندوستانی ریاضی میں ان کا استعمال ہزاروں سالوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے سے انٹیل کمپنی کے سی ای او ملے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک پینٹنگ دی تھی، اس میں بھی وامن اوتار کے ذریعے گنتی یا ناپ کے ایک ایسے ہی ہندوستانی طریقے کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ انٹیل کا نام آیا تو کمپیوٹر آپ کے دماغ میں اپنے آپ آ گیا ہوگا۔ کمپیوٹر کی زبان میں آپ نے بائنری سسٹم کے بارے میں بھی سنا ہوگا، لیکن، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں آچاریہ پنگلا جیسے رشی ہوئے تھے، جنہوں نے بائنری کا تصور کیا تھا۔ اسی طرح، آریہ بھٹ سے لے کر رامانوج جیسے ماہر ریاضی دانوں تک ریاضی کے کتنے ہی اصولوں پر ہمارے یہاں کام ہوا ہے۔
ساتھیو، ہم ہندوستانیوں کے لیے ریاضی کبھی مشکل موضوع نہیں رہا، اس کی ایک بڑی وجہ ہماری ویدک ریاضی بھی ہے۔ دور جدید میں ویدک ریاضی کا کریڈٹ جاتا ہے – جناب بھارتی کرشن تیرتھ جی مہاراج کو۔ انہوں نے کیلکولیشن کے پرانے طریقوں کو ریوائیو کیا اور اسے ویدک ریاضی نام دیا۔ ویدک ریاضی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے آپ مشکل سے مشکل حساب پلک جھپکتے ہی من میں ہی کر سکتے ہیں۔ آج کل تو سوشل میڈیا پر ویدک ریاضی سیکھنے اور سکھانے والے ایسے کئی نوجوانوں کے ویڈیو بھی آپ نے دیکھے ہوں گے۔
ساتھیو، آج ’من کی بات‘ میں ویدک ریاضی سکھانے والے ایک ایسے ہی ساتھی ہمارے ساتھ بھی جڑ رہے ہیں۔ یہ ساتھی ہیں کولکاتا کے گورو ٹیکری وال جی۔ اور وہ گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں سے ویدک میتھ میٹکس اس موومنٹ کو پوری جاں فشانی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ آئیے، ان سے ہی کچھ باتیں کرتے ہیں۔
مودی جی – گورو جی نمستے!
مودی جی – میں نے سنا ہے کہ آپ ویدک میتھ کے لیے کافی دلچسپی رکھتے ہیں، بہت کچھ کرتے ہیں۔ تو پہلے تو میں آپ کے بارے میں کچھ جاننا چاہوں گا اور بعد میں اس موضوع میں آپ کی دلچسپی کیسے ہے ذرا مجھے بتائیے؟
گورو – سر جب میں بیس سال پہلے بزنس اسکول کے لیے اپلائی کر رہا تھا، تو اس کا مقابلہ جاتی امتحان ہوتا تھا، جس کا نام ہے کیٹ ۔ اس میں بہت سارے ریاضی کے سوال آتے تھے، جس کو کم وقت میں کرنا پڑتا تھا۔ تو میری ماں نے مجھے ایک بُک لاکر دیا جس کا نام تھا ویدک گنت۔ سوامی شری بھارتی کرشن تیرتھ جی مہاراج نے وہ بُک لکھی تھی۔ اور اس میں انہوں نے 16 سوتر دیے تھے۔ جس میں ریاضی بہت ہی آسان اور بہت ہی تیز ہو جاتا تھی۔ جب میں نے وہ پڑھا تو مجھے بہت حوصلہ ملا اور پھر میری دلچسپی پیدا ہوگی میتھ میٹکس میں۔ مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ سبجیکٹ جو بھارت کی دین ہے، جو ہمارا خزانہ ہے اس کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ تب سے میں نے اس کو ایک مشن بنایا کہ ویدک میتھ کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جائے۔ کیوں کہ ریاضی کا ڈر ہر کسی کو ستاتا ہے۔ اور ویدک ریاضی سے آسان اور کیا ہو سکتا ہے۔
مودی جی – گورو جی کتنے سالوں سے آپ اس میں کام کر رہے ہیں؟
گورو – مجھے آج ہو گئے تقریباً 20 سال سر۔ میں اس میں ہی لگا ہوا ہوں۔
مودی جی – اور اویئرنیس کے لیے کیا کرتے ہیں، کیا کیا تجربے کرتے ہیں، کیسے جاتے ہیں لوگوں کے پاس؟
گورو – ہم لوگ اسکول میں جاتے ہیں، ہم لوگ آن لائن تعلیم دیتے ہیں۔ ہمارے ادارہ کا نام ہے ’ویدک میتھس فورم انڈیا‘۔ اس ادارہ کے تحت ہم لوگ انٹرنیٹ کے توسط سے 24 گھنٹے ویدک میتھ پڑھاتے ہیں سر۔
مودی جی – گورو جی آپ تو جانتے ہیں، میں لگاتار بچوں کے ساتھ بات چیت کرنا پسند بھی کرتا ہوں اور میں موقع تلاش کرتا رہتا ہوں۔ اور exam warrior سے تو میں بالکل ایک طرح سے میں نے اس کو Institutionalized کر دیا ہے اور میرا بھی تجربہ ہے کہ زیادہ تر جب بچوں سے بات کرتا ہوں، تو ریاضی کا نام سنتے ہی وہ بھاگ جاتے ہیں اور تو میری کوشش یہی ہے کہ یہ بلا وجہ جو ایک ڈر پیدا ہوا ہے اس کو نکالا جائے، یہ ڈر نکالا جائے اور چھوٹی چھوٹی ٹیکنیک جو روایت سے ہے، جو کہ بھارت، ریاضی کے بارے میں کوئی نئی نہیں ہے۔ شاید دنیا میں قدیم روایات میں بھارت کے پاس ریاضی کی روایت رہی ہے، تو exam warrior کو ڈر نکالنا ہے تو آپ کیا کہیں گے ان کو؟
گورو – سر یہ تو سب سے زیادہ مفید ہے بچوں کے لیے، کیوں کہ، ایگزام کا جو ڈر ہوتا ہے، جو ہوّا ہوگیا ہے ہر گھر میں۔ ایگزام کے لیے بچے ٹیوشن لیتے ہیں، والدین پریشان رہتے ہیں۔ ٹیچر بھی پریشان ہوتے ہیں۔ تو ویدک میتھ پندرہ سو پرسینٹ تیز ہے اور اس سے بچوں میں بہت کانفیڈنس آتا ہے اور دماغ بھی تیزی سے چلتا ہے۔ جیسے، ہم لوگ ویدک میتھ کے ساتھ یوگا بھی انٹروڈیوس کیے ہیں، جس سے کہ بچے اگر چاہیں تو آنکھ بند کرکے بھی کیلکولیشن کر سکتے ہیں ویدک میتھ کے ذریعے۔
مودی جی – ویسے دھیان کی جو روایت ہے، اس میں بھی اس طرح سے ریاضی کرنا وہ بھی دھیان کا ایک پرائمری کورس بھی ہوتا ہے۔
گورو – رائٹ سر!
مودی جی – چلئے گورو جی، بہت اچھا لگا مجھے اور آپ نے مشن موڈ میں اس کام کو اٹھایا ہے اور خاص کر آپ کی ماتا جی ایک اچھے گرو کے طور پر آپ کو اس راستے پر لے گئیں۔ اور آج آپ لاکھوں بچوں کو اس راستے پر لے جا رہے ہیں۔ میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
گورو – شکریہ سر! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں سر کہ ویدک میتھ کو آپ نے اہمیت دی اور مجھے منتخب کیا سر! تو we are very thankful۔
مودی جی – بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
گورو – نمستے سر۔
ساتھیو، گورو جی نے بڑے اچھے طریقے سے بتایا کہ ویدک میتھ کیسے ریاضی کو مشکل سے مزیدار بنا سکتاہ ے۔ یہی نہیں، ویدک میتھ سے آپ بڑے بڑے سائنسی پرابلم بھی سالو کر سکتے ہیں۔ میں چاہوں گا، سبھی والدین اپنے بچوں کو ویدک میتھ ضرور سکھائیں۔ اس سے، ان کا کانفیڈنس تو بڑھے گا ہی، ان کے برین کی اینالیٹکیکل پاور بھی بڑھے گی اور ہاں، ریاضی کو لے کر کچھ بچوں میں جو بھی تھوڑا بہت ڈر ہوتا ہے، وہ ڈر بھی پوری طرح ختم ہو جائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں آج میوزیم سے لے کر میتھ تک کئی علم افروز موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ یہ تمام موضوعات آپ لوگوں کے مشوروں سے ہی ’من کی بات‘ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مجھے آپ اسی طرح، آگے بھی اپنے مشورے NaMoApp اور MyGov کے ذریعے بھیجتے رہیے۔ آنے والے دنوں میں ملک میں عید کا تہوار بھی آنے والا ہے۔ 3 مئی کو اکشے ترتیہ اور بھگوان پرشو رام کی جینتی بھی منائی جائے گی۔ کچھ دن بعد ہی ویشاکھ بدھ پورنیما کا تہوار بھی آئے گا۔ یہ سبھی تہوار تحمل، پاکیزگی، خیرات اور رواداری کے تہوار ہیں۔ آپ سبھی کو ان تہواروں کی پیشگی مبارکباد۔ ان تہواروں کو خوب خوشی اور رواداری کے ساتھ منائیے۔ ان سب کے درمیان، آپ کو کورونا سے بھی محتاط رہنا ہے۔ ماسک لگانا، وقفہ وقفہ پر ہاتھ دھوتے رہنا، بچاؤ کے لیے جو بھی ضروری طریقے ہیں، آپ ان پر عمل کرتے رہیں۔ اگلی بار ’من کی بات‘ میں ہم پھر ملیں گے اور آپ کے بھیجے ہوئے کچھ اور نئے موضوعات پر بات کریں گے – تب تک کے لیے وداع لیتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے ، جس پر ہم سب کو فخر ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ بھارت نے گزشتہ ہفتے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپئے کا برآمدات کا ہدف حاصل کیا ہے۔ پہلی بار سننے میں لگتا ہے کہ یہ معاملہ معیشت سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ معیشت سے زیادہ بھارت کی صلاحیت، بھارت کی اہلیت سے متعلق معاملہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی برآمدات کبھی 100 بلین ، کبھی 150 بلین ، کبھی 200 بلین تک ہوا کرتی تھی ، اب آج بھارت 400 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت میں بنی چیزوں کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سپلائی چین روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اس کا ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔ ملک اس وقت بڑے قدم اٹھاتا ہے ، جب عز م خوابوں سے بھی بڑے ہوں۔ جب ان عزم کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایمانداری سے کوشش کی جاتی ہے تو وہ عزم پورے بھی ہوتے ہیں اور آپ دیکھیئے ، کسی شخص کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ جب کسی کا عزم، اس کی کوشش ، اس کے خوابوں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں تو کامیابی ، اُس کے پاس خود چل کر آتی ہے۔
ساتھیو ، ملک کے کونے کونے سے نئی اشیاء نئی اشیا بیرونی ممالک جا رہی ہیں ۔ آسام کے ہیلا کانڈی کی چمڑے کی مصنوعات ہوں یا عثمان آباد کی ہینڈلوم کی مصنوعات، بیجاپور کے پھل اور سبزیاں ہوں یا چندولی کے کالے چاول، سب کی برآمدات بڑھ رہی ہے ۔ اب، آپ کو دوبئی میں لداخ کی دنیا کی مشہور خوبانی بھی ملے گی اور سعودی عرب میں، آپ کو تمل ناڈو سے بھیجے گئے کیلے ملیں گے۔ اب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نئی مصنوعات نئے ممالک کو بھیجی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماچل، اتراکھنڈ میں پیدا ہونے والے باجرے (موٹے اناج) کی پہلی کھیپ ڈنمارک کو برآمد کی گئی۔ آندھرا پردیش کے کرشنا اور چتور اضلاع سے بنگن پلیّ اور سورن رِکھا آم جنوبی کوریا کو برآمد کئے گئے ۔ تری پورہ سے تازہ کٹہل ہوائی جہاز کے ذریعے لندن برآمد کئے گئے اور پہلی بار ناگالینڈ کی راجہ مرچ لندن بھیجی گئی ۔ اسی طرح بھالیا گیہوں کی پہلی کھیپ گجرات سے کینیا اور سری لنکا کو برآمد کی گئی یعنی اب اگر آپ دوسرے ممالک میں جائیں تو میڈ ان انڈیا مصنوعات پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آئیں گی۔
ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے اور یہ فہرست جتنی لمبی ہوگی، میک ان انڈیا کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اتنی ہی بھارت کی وسیع صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کی بنیاد ہیں - ہمارے کسان، ہمارے کاریگر، ہمارے بُنکر، ہمارے انجینئر ، ہمارے چھوٹے کاروباری، ہمارا ایم ایس ایم ای سیکٹر، بہت سے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہ سب اس کی حقیقی طاقت ہیں۔ ان کی محنت کی بدولت 400 بلین ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ بھارتی عوام کی یہ طاقت اب دنیا کے کونے کونے میں نئی منڈیوں تک پہنچ رہی ہے۔ جب ایک ایک ہندوستانی لوکل کے ووکل ہوتا ہے ، تب لوکل کو گلوبل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے ۔ آئیے لوکل کو گلوبل بنائیں اور اپنی مصنوعات کی ساکھ کو اور بڑھائیں ۔
ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کو یہ جان کر اچھا لگے گا کہ گھریلو سطح پر بھی ہمارے چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کامیابی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ آج ہمارے چھوٹے کاروباری افراد گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم کے ذریعے سرکاری خریداری میں بڑا تعاون کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی شفاف نظام وضع کیا گیا ہے۔ جی ای ایم پورٹل کے ذریعے پچھلے ایک سال میں حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی چیزیں خریدی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 1.25 لاکھ چھوٹے کاروباریوں، چھوٹے دکانداروں نے اپنا سامان براہ راست حکومت کو فروخت کیا ہے۔ ایک وقت تھا ، جب صرف بڑی کمپنیاں ہی حکومت کو سامان فروخت کر سکتی تھیں لیکن اب ملک بدل رہا ہے، پرانے نظام بھی بدل رہے ہیں۔ اب چھوٹے دکاندار بھی جی ای ایم پورٹل پر حکومت کو اپنا سامان بیچ سکتے ہیں ۔ یہی تو نیا بھارت ہے۔ وہ نہ صرف بڑے خواب دیکھتا ہے بلکہ اس مقصد تک پہنچنے کی ہمت بھی دکھاتا ہے، جہاں پہلے کوئی نہیں پہنچا۔ اس حوصلے کے بل پر ہم سبھی بھارتی مل کر آتم نربھر بھارت کا خواب ضرور پورا کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے بابا شیوانند جی کو حال ہی میں منعقد پدم اعزاز کی تقریب میں ضرور دیکھا ہوگا۔ 126 سال کے بزرگ کی پھرتی دیکھ کر میری طرح ہر کوئی حیران رہ گیا ہو گا اور میں نے دیکھا کہ پلک جھپکتے ہی وہ نندی مدرا میں پرنام کرنے لگے ۔ میں نے بھی بابا شیوانند جی بار بار جھک کر پرنام کیا ۔ 126 سال کی عمر اور بابا شیوانند جی کی فٹنس دونوں آج ملک میں بحث کا موضوع ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کے کمنٹ دیکھے کہ بابا شیوانند اپنی عمر سے چار گنا کم عمر کے لوگوں بھی زیادہ فٹ ہیں۔ واقعی، بابا شیوانند کی زندگی ہم سب کے لئے ایک تحریک ہے۔ میں ان کی لمبی عمر کی دعا کرتا ہوں۔ ان میں یوگ کے تئیں ایک جذبہ ہے اور وہ بہت ہیلتھی لائف اسٹائل جیتے ہیں ۔
जीवेम शरदः शतम्।
ہماری ثقافت میں ہر ایک کو سو سال کی صحت مند زندگی کی دعا دی جاتی ہے۔ ہم 7 اپریل کو ’ صحت کا عالمی دن ‘ منائیں گے۔ آج پوری دنیا میں صحت سے متعلق بھارت کے موقف پر چاہے وہ یوگا ہو یا آیوروید ، اس کے تئیں رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ ابھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ گزشتہ ہفتے قطر میں یوگا پروگرام کا انعقاد کیا گیا ، جس میں 114 ممالک کے شہریوں نے حصہ لے کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی طرح آیوش انڈسٹری کا بازار بھی لگاتار بڑھ رہا ہے۔ 6 سال پہلے آیوروید سے متعلق ادویات کا بازار تقریباً 22 ہزار کروڑ کا تھا۔ آج آیوش مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کروڑ روپئے تک پہنچ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس شعبے میں امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں بھی آیوش کشش کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔
ساتھیو ، میں نے صحت کے شعبے کے دوسرے اسٹارٹ اپس پر پہلے بھی کئی بار بات کی ہے لیکن اس بار میں آپ سے خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس پر بات کروں گا۔ ایک اسٹارٹ ہے ، کپیوا ! ۔ اس کے نام میں ہی اس کا مطلب پوشیدہ ہے ۔ اس میں ’ کا ‘ کا مطلب ہے – کف ، ’ پی ‘ کا مطلب ہے – پت اور ’ وا ‘ کا مطلب ہے – ’ وات ‘ ۔ یہ اسٹارٹ اپ ہماری روایات کے مطابق صحت مند کھانے کی عادات پر مبنی ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ، نیروگ اسٹریٹ بھی ہے ، آیوروید حفظان صحت نظام میں ایک انوکھا تصور ہے ۔ اس کا ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم دنیا بھر کے آیوروید ڈاکٹروں کو براہ راست لوگوں سے جوڑتا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ پریکٹیشنرز اس سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح، صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی کا ایک اسٹارٹ اپ اَتریا اننو ویشن ہے ، جو مجموعی تندرستی کے شعبے میں کام کر رہا ہے ۔ ایکسوریل نے نہ صرف اشوگندھا کے استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کی ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی پیداوار کے عمل پر بھی بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کَیور ویدا نے جدید جڑی بوٹیوں کی تحقیق اور روایتی علم کو ملا کر مکمل زندگی کے لئے غذائی سپلیمنٹس بنائے ہیں۔
ساتھیو ، میں نے ابھی تک صرف چند نام گنوائے ہیں، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ یہ بھارت کے نوجوان صنعت کاروں اور بھارت میں پیدا ہونے والے نئے امکانات کی علامت ہے۔ میری صحت کے شعبے کے اسٹارٹ اپس اور خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس سے بھی ایک درخواست ہے۔ آپ جو بھی پورٹل آن لائن بناتے ہیں، جو بھی مواد بناتے ہیں، اسے اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ تمام زبانوں میں بنانے کی کوشش کریں۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں ، جہاں انگریزی نہ تو اتنی بولی جاتی ہے اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ ایسے ممالک کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی معلومات کی تشہیر کریں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے آیوش اسٹارٹ اپ اعلیٰ معیار کی مصنوعات کے ساتھ جلد ہی پوری دنیا میں چھا جائیں گے۔
ساتھیو ، صحت کا براہ راست تعلق صفائی سے ہے۔ ’من کی بات‘ میں ہم ہمیشہ صفائی کے حامیوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک ایسے ہی سووچھ گرہی ہیں - چندرکشور پاٹل جی ۔ وہ مہاراشٹر کے ناسک میں رہتے ہیں۔ صفائی کے حوالے سے چندرکشور جی کا عزم بہت پختہ ہے۔ وہ گوداوری دریا کے پاس کھڑے رہتے ہیں اور لوگوں کو لگاتار دریا میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی ایسا کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اُسے فوراً منع کرتے ہیں ۔ چندرکشور جی اپنا کافی وقت اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ شام تک ان کے پاس ایسی چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، جسے لوگ دریا میں پھینکنے کے لئے لائے ہوتے ہیں۔ چندرکشور جی کی یہ کوشش بیداری میں بھی اضافہ کرتی ہے اور تحریک بھی دیتی ہے۔ اسی طرح ایک اور سووچھ گرہی ہیں - اڑیسہ میں پوری کے راہل مہارانا۔ راہل ہر اتوار کو صبح سویرے پوری میں مقدس مقامات پر جاتے ہیں اور وہاں پلاسٹک کے کچرے کو صاف کرتے ہیں۔ وہ اب تک سینکڑوں کلو پلاسٹک کا کچرا اور گندگی صاف کر چکے ہیں۔ پوری کے راہل ہوں یا ناسک کے چندرکشور، یہ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ شہری ہونے کے ناطے ہم اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، چاہے وہ صفائی ہو، غذائیت ہو یا ویکسینیشن، ان سب کوششوں سے صحت مند رہنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آئیے بات کرتے ہیں ، کیرالہ کے موپٹم سری نارائنن جی کی ۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے ، جس کا نام ہے – ’ پوٹس فار واٹر آف لائف ‘۔آپ جب اِس پروجیکٹ کے بارے میں جانیں گے تو سوچیں گے کہ یہ کیا کمال کام ہے ۔
ساتھیو ، موپٹم سری نارائنن جی مٹی کے برتن تقسیم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تاکہ گرمیوں میں جانوروں اور پرندوں کو پانی کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گرمیوں میں وہ خود بھی جانوروں اور پرندوں کی یہ پریشانی دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ مٹی کے برتن خود ہی بانٹنا شروع کردوں تاکہ دوسروں کا کام صرف ان برتنوں میں پانی بھرنا ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ نارائنن جی کی طرف سے تقسیم کئے گئے برتنوں کی تعداد ایک لاکھ کو پار کرنے جا رہی ہے۔ اپنی مہم میں وہ گاندھی جی کے قائم کردہ سابرمتی آشرم کو ایک لاکھواں برتن عطیہ کریں گے۔ آج جب گرمیوں کے موسم نے دستک دی ہے، نارائنن جی کا یہ کام یقیناً ہم سب کو متاثر کرے گا اور ہم اس گرمی میں اپنے دوست جانوروں اور پرندوں کے لئے پانی کا بھی بندوبست کریں گے۔
ساتھیو ، میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی اپیل کروں گا کہ ہم اپنے عزائم کو پھر سے دوہرائیں ۔ پانی کے ہر قطرے کو بچانے کے لئے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ ، ہمیں پانی کی ری سائیکلنگ پر برابر زور دیتے رہنا چاہیئے ۔ گھر میں استعمال ہونے والا پانی گملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، باغبانی میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے ضرور دوبارہ استعمال کرنا چاہیئے ۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے گھر میں اس طرح کے انتظامات کر سکتے ہیں۔ رحیم داس جی صدیوں پہلے کسی مقصد کے لئے کہہ گئے تھے کہ ’رحیمن پانی راکھئے، بن پانی سب سون‘۔ اور پانی بچانے کے اس کام میں مجھے بچوں سے بہت امید ہے ۔ سووچھتا کو جیسے بچوں نے ایک مہم بنایا ہے ، ویسے ہی وہ واٹر واریئر بن کر پانی بچانے میں مدد کر سکتے ہیں ۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں پانی کا تحفظ، آبی ذرائع کا تحفظ، صدیوں سے معاشرے کی فطرت کا حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگوں نے پانی کے تحفظ کو زندگی کا مشن بنا لیا ہے ، جیسے چنئی کے ایک ساتھی ہیں ، ارون کرشنامورتی جی! ارون جی اپنے علاقے میں تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 150 سے زائد تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی ذمہ داری اٹھائی اور اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک ساتھی روہن کالے ہیں۔ روہن پیشے کے لحاظ سے ایچ آر پروفیشنل ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے سینکڑوں اسٹیپ ویل یعنی سیڑھی والے پرانے کنوؤں کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے کنویں سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ہمارے ورثے کا حصہ ہیں۔ سکندرآباد میں بنسی لال-پیٹ کنواں ایک ایسا ہی اسٹیپ ویل ہے ۔ برسوں کی نظر اندازی کی وجہ سے یہ اسٹیپ ویل مٹی اور کچرے سے ڈھک گیا تھا لیکن اب اس اسٹیپ ویل کو بحال کرنے کی مہم عوامی شرکت کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔
ساتھیو ، میں ایک ایسی ریاست سے آیا ہوں ، جہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہی ہے۔ گجرات میں ان سٹیپ ویلوں کو واؤ کہتے ہیں۔ گجرات جیسی ریاست میں واؤ کا بڑا رول رہا ہے۔ ان کنوؤں یا باولیوں کے تحفظ کے لئے ’ جل مندر یوجنا ‘ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ پورے گجرات میں کئی باولیوں کو بحال کیا گیا ہے ۔ اس سے ان علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے میں بھی کافی مدد ملی ہے ۔ آپ مقامی سطح پر بھی اسی طرح کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اگر چیک ڈیم بنانے ہوں تو بارش کے پانی کی ہار ویسٹنگ ہونی چاہیئے ۔ اس میں انفرادی کوشش بھی اہم ہے اور اجتماعی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ جیسے آزادی کے امرت مہوتسو میں ہمارے ملک کے ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ کچھ پرانے سرووروں کو سدھارا جا سکتا ہے، کچھ نئے سروور بنائے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سمت میں کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مجھے آپ کے پیغامات کئی زبانوں، کئی بولیوں میں ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ مائی گوو پر آڈیو میسیج بھی بھیجتے ہیں۔ بھارت کی ثقافت، ہماری زبانیں، ہماری بولیاں، ہمارا طرز زندگی، کھانے پینے کا تنوع ، یہ تمام تنوع ہماری بڑی طاقت ہیں۔ مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، یہ تنوع بھارت کو متحد رکھتے ہے، جو ایک بھارت شریشٹھ بھارت بناتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے تاریخی مقامات اور اساطیر دونوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اب آپ سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ ’’مادھو پور میلہ‘‘ ہے۔ من کی بات کے سامعین کو یہ جاننا بہت دلچسپ لگے گا کہ مادھو پور میلہ کہاں منعقد ہوتا ہے، کیوں منعقد ہوتا ہے، اس کا بھارت کے تنوع سے کیا تعلق ہے۔
ساتھیو ، مادھو پور میلہ گجرات کے پوربندر میں سمندر کے پاس مادھو پور گاؤں میں لگتا ہے لیکن اس کا بھارت کے مغربی کنارے سے بھی ناطا جڑا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب بھی ایک اساطیری کہانی سے ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھگوان کرشن کی شادی شمال مشرق کی ایک شہزادی رکمنی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی پوربندر کے مادھو پور میں ہوئی تھی اور اسی شادی کی علامت کے طور پر آج بھی وہاں مادھو پور میلہ لگتا ہے۔ مشرق اور مغرب کا یہ گہرا رشتہ ہمارا ورثہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب لوگوں کی کوششوں سے مادھو پور میلے میں نئی چیزیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی والوں کو گھراتی کہا جاتا ہے اور اس میلے میں اب شمال مشرق سے بہت گھراتی بھی آنے لگے ہیں۔ ایک ہفتہ تک چلنے والے مادھو پور میلے میں شمال مشرق کی تمام ریاستوں سے فنکار پہنچتے ہیں، ہنڈی کرافٹ ( دستکاری ) سے جڑے فنکار جرٹے ہیں اور اس میلے کی رونق کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک بھارت کے مشرق اور مغربی کی ثقافت کا یہ ملن ، یہ مادھو پور میلہ، ایک بھارت - شریسٹھا بھارت کی بہت خوبصورت مثال بن رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس میلے کو بارے میں پڑھیں اور معلومات حاصل کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک میں آزادی کا امرت مہوتسو ، اب عوامی شرکت کی نئی مثال بن رہا ہے۔ چند روز قبل 23 مارچ کو شہید دِوس پر ملک کے الگ الگ کونوں میں الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک میں اپنے آزادی کے ہیرو اور ہیرئنوں کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اسی دن مجھے کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں پَبلوبی بھارت گیلری کے افتتاح کا بھی موقع ملا۔ بھارت کے بہادر انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی منفرد گیلری ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو آپ اسے دیکھنے ضرور جائیں ۔ ساتھیو ، اپریل کے مہینے میں ہم دو عظیم ہستیوں کا یوم پیدائش بھی منائیں گے۔ ان دونوں نے بھارتی سماج پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ عظیم ہستیاں مہاتما پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔ مہاتما پھولے کا یوم پیدائش 11 اپریل کو ہے اور ہم 14 اپریل کو بابا صاحب کا یوم پیدائش منائیں گے۔ ان دونوں عظیم انسانوں نے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف زبردست جنگ لڑی۔ مہاتما پھولے نے ، اس دور میں بیٹیوں کے لئے اسکول کھولے، بچیوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے پانی کے بحران سے نجات کے لئے بڑی مہم بھی چلائیں ۔
ساتھیو ، مہاتما پھولے کے اس ذکر میں ساوتری بائی پھولے جی کا ذکر بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ساوتری بائی پھولے نے بہت سے سماجی اداروں کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ایک استاد اور سماجی مصلح کے طور پر انہوں نے معاشرے کو بیدار بھی کیا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ دونوں ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج قائم کیا ۔ عوام کو بااختیار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے کاموں میں ہم مہاتما پھولے کا اثر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے، بابا صاحب امبیڈکر کی زندگی سے تحریک لیتے ہوئے، میں تمام والدین اور سرپرستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ضرور دلائیں۔ بیٹیوں کا اسکول میں داخلے بڑھانے کے لئے کچھ دن پہلے ہی کنیا شکشا پرویش اتسو بھی شروع کیا گیا ہے، جن بیٹیوں کی کسی وجہ سے پڑھائی چھوٹ گئی ہے، انہیں اسکول واپس لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔
ساتھیو ، یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمیں بابا صاحب سے جڑے پنچ تیرتھ کے لئے کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مہو میں ان کی پیدائش کا مقام ہو، ممبئی میں چیتیا بھومی ہو، لندن میں ان کا گھر ہو، ناگپور کی ابتدائی سرزمین ہو، یا دلّی میں بابا صاحب کا مہا پری نروان اِستھل ، مجھے سبھی مقامات پر ، سبھی تیرتھوں پر جانے کا موقع ملا ہے ۔ میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے اپیل کروں گا کہ وہ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر سے جڑے مقامات کو دیکھنے کے لئے ضرور جائیں ۔ آپ کو وہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ میں ، اس مرتبہ بھی ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ اگلے مہینے بہت سے تہوار آرہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ہی نوراترے ہیں ۔ نو راترے میں ، ہم وَرت – اُپواس ، شکتی کی پوجا کرتے ہیں یعنی ہماری روایتیں ہمیں خوشیاں منانا بھی سکھاتی ہیں اور تحمل اور ریاض کا درس بھی دیتی ہیں ۔ تحمل اور استقامت بھی ہمارے لئے ایک تہوار ہے، اس لئے نوراترے ہمیشہ ہم سب کے لئے بہت خاص رہے ہیں ۔ نوراترے کے پہلے ہی دن گڈی پروا کا تہوار بھی ہے۔ اپریل میں ہی ایسٹر بھی آتا ہے اور رمضان کے مقدس دن بھی شروع ہو رہے ہیں۔ آیئے ، ہم سب کو ساتھ لے کر اپنے تہوار منائیں ، بھارت کے تنوع کو مضبوط کریں ، سب کی یہی آرزو ہے ۔ اس بار ’ من کی بات ‘ میں اتنا ہی ۔ اگلے مہینے آپ سے نئے موضوعات کے ساتھ پھر ملاقات ہو گی ۔ بہت بہت شکریہ !
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔
’ من کی بات ‘ میں پھر ایک بار آپ سب کا خیر مقدم ہے ۔ آج ’ من کی بات ‘ کی شروعات ہم ، بھارت کی کامیابی کے ذکر کے ساتھ کریں گے ۔ اس ماہ کے شروع میں بھارت اٹلی سے اپنے ایک قیمتی ورثے کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ ورثہ ہے، اولوکیتیشورا پدم پانی کی ہزار سال سے زیادہ پرانی مورتی ۔ یہ مورتی کچھ سال پہلے بہار میں گیا جی کے دیوی مقام کنڈل پور مندر سے چوری ہو گئی تھی۔ لیکن بہت کوششوں کے بعد ، اب بھارت کو یہ مورتی واپس مل گئی ہے۔ ایسے ہی کچھ سال پہلے تمل ناڈو کے ویلور سے بھگوان آنجنییّر ، ہنومان جی کی مورتی چوری ہو گئی تھی۔ ہنومان جی کی یہ مورتی 600-700 سال پرانی تھی۔ اس مہینے کے شروع میں، آسٹریلیا میں ہمیں یہ ملی ، ہمارے مشن کو مل چکی ہے۔
ساتھیو ، ہماری ہزاروں سال کی تاریخ میں ملک کے کونے کونے میں ایک سے بڑھ ایک مورتیاں ہمیشہ بنتی رہی ہیں، ان میں عقیدت بھی تھی، طاقت بھی تھی، ہنر بھی تھا اور تنوع سے بھرا ہوا تھا اور ہماری مورتیوں کی تاریخ میں ، اُس وقت کا اثر بھی نظر آتا ہے۔ یہ بھارت کی مورتی بنانے کے فن کی نایاب مثالیں تو ہی تھیں ، اِن سے ہماری عقیدت بھی جڑی ہوئی تھی لیکن ماضی میں، بہت سے مورتیاں چوری ہوکر بھارت سے باہر جاتی رہیں ۔ کبھی اِس ملک میں، کبھی اس ملک میں یہ مورتیاں بیچی جاتی رہیں اور ان کے لئے وہ تو صرف فن پارے تھے۔ ان کا تاریخ سے کچھ لینا دینا تھا اور نہ ہی عقیدت سے کچھ لینا دینا تھا ۔ ان مورتیوں کو واپس لانا بھارت ماں کے تئیں ہمارا فرض تھا ۔ ان مورتیوں میں بھارت کی روح کا عقیدت کا عنصر ہے۔ ان کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بھارت نے اپنی کوششیں بڑھائیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہوا کہ چوری کا ، جو رجحان تھا ، اُس میں بھی ایک خوف پیدا ہوا۔ جن ممالک میں یہ مورتیاں چوری کرکے لے جائی گئی تھیں ، اب انہیں بھی لگنے لگا کہ بھارت کے ساتھ رشتوں میں سافٹ پاور کا ، جو ڈپلومیٹک چینل ہوتا ہے ، اُس میں ، اِس کی بھی بہت بڑی اہمیت ہو سکتی ہے کیونکہ اِس کے ساتھ بھارت کے احساسات جڑے ہوئے ہیں ، بھارت کی جذبات جڑے ہوئے ہیں اور ایک طرح سے عوام سے عوام کے تعلقات میں بھی یہ بہت طاقت پیدا کرتا ہے ۔ ابھی آپ نے کچھ دن پہلے دیکھا ہوگا کہ کاشی سے چوری ہونے والی ماں اناپورنا دیوی کی مورتی بھی واپس لائی گئی تھی۔ یہ بھارت کے لئے بدلتے ہوئے عالمی نقطہ نظر کی ایک مثال ہے۔ سال 2013 ء تک تقریباً 13 مورتیاں بھارت آئی تھیں لیکن، پچھلے سات سالوں میں، بھارت کامیابی سے 200 سے زیادہ انمول مورتیوں کو واپس لا چکا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، کناڈا ، جرمنی، سنگاپور، ایسے کئی ممالک نے بھارت کے جذبات کو سمجھا ہے اور مورتیاں واپس لانے میں ہماری مدد کی ہے۔ جب میں پچھلے سال ستمبر میں امریکہ گیا تھا تو وہاں مجھے کافی پرانی پرانی بہت سی مورتیاں اور ثقافتی اہمیت کی بہت سی چیزیں ملیں ۔ ملک کا جب کوئی بھی قیمتی ورثہ واپس ملتا ہے تو تاریخ میں احترام رکھنے والے ، آثار قدیمہ پر یقین رکھتے ہیں، عقیدے اور ثقافت سے جڑے ہوئے لوگ اور ایک بھارتی کے طور پر ، ہم سب کو ، اطمینان ملنا بہت فطری بات ہے۔
ساتھیو، بھارتی ثقافت اور ہمارے ورثے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، آج میں آپ کو ’من کی بات ‘ میں دو لوگوں سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ان دنوں تنزانیہ کے دو بہن بھائی کلی پال اور ان کی بہن نیما فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر کافی خبروں میں ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ نے بھی ان کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ ان کے اندر بھارتی موسیقی کو لے کر ایک جنون ہے ، ایک دیوانگی ہے اور اسی وجہ سے وہ بہت مقبول بھی ہیں۔ ہونٹوں کی حرکت کے اُن کے طریقے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے وہ کتنی زیادہ محنت کرتے ہیں۔ حال ہی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمارا قومی ترانہ ’ جن گن من ‘ گاتے ہوئے ، ان کا ایک ویڈیو خوب وائرل ہوا تھا۔ کچھ دن پہلے، انہوں نے ایک گانا گا کر لتا دیدی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا تھا ۔ میں ان دونوں بھائی بہن کلی اور نیما کی اس شاندار تخلیقی صلاحیتوں کی بہت ستائش کرتا ہوں۔ انہیں کچھ روز پہلے تنزانیہ میں بھارتی سفارت خانے میں بھی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ بھارتی موسیقی کا جادو کچھ ایسا ہے ، جو سب کو مسحور کر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں کے گلوکاروں اور موسیقاروں نے اپنے اپنے ملکوں میں اپنے اپنے ملبوسات میں مہاتما گاندھی کا پسندیدہ بھجن، ’ ویشنو جن ‘ گانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا ۔
آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75ویں سال کا اہم تہوار منا رہا ہے تو ایسے ہی تجربات حب الوطنی کے گیتوں کے حوالے سے کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں غیر ملکی شہریوں کو ، وہاں کے مشہور گلوکاروں کو بھارتی حب الوطنی کے گیت گانے کے لئے مدعو کریں۔ یہی نہیں، اگر تنزانیہ میں کلی اور نیما بھارت کے گانوں کو اس طرح لِپ سِنک کر سکتے ہیں، تو کیا میرے ملک میں ، کئی طرح کے گانے ہمارے ملک کی کئی زبانوں میں ہیں، کیا ہم کوئی ، گجراتی بچے تمل گانے پر کریں ، کوئی کیرل کے بچے آسامی گیت پر کریں ، کوئی کنڑ بچے جموں و کشمیر کے گیتوں پر کریں ۔ ہم ایسا ماحول بنا سکتے ہیں ، جس میں ہم ’ایک بھارت-شریشٹھ بھارت ‘ کا تجربہ کر سکیں گے۔ اتنا ہی نہیں، ہم آزادی کے امرت مہوتسو کو یقینی طور پر ایک نئے انداز میں منا سکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں، آئیے اپنے طریقے سے بھارتی زبانوں کے مقبول گانوں کی ویڈیو بنائیں، آپ بہت مقبول ہوجائیں گے اور ملک کے تنوع سے نئی نسل متعارف ہو گی ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہم نے مادری زبان کا دن منایا۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ اس بارے میں کافی علمی معلومات دے سکتے ہیں کہ مادری زبان کا لفظ کہاں سے آیا، اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔ میں تو مادری زبان کے لئے یہی کہوں گا کہ جس طرح ہماری ماں ہماری زندگی بناتی ہے، اسی طرح مادری زبان بھی ہماری زندگی بناتی ہے۔ ماں اور مادری زبان مل کر زندگی کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔ جس طرح ہم اپنی ماں کو نہیں چھوڑ سکتے ، اسی طرح ہم اپنی مادری زبان کو بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ مجھے سالوں پہلے کی ایک بات یاد ہے، جب میرا امریکہ جانا ہوا تو مجھے مختلف خاندانوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا ۔ ایک بار میں ایک تیلگو خاندان کے پاس گیا تو وہاں ایک بہت ہی خوشگوار منظر دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے خاندان میں ایک اصول بنا رکھا ہے کہ چاہے جتنا بھی کام ہو لیکن اگر ہم شہر سے باہر نہ ہوں تو گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور دوسرا ، یہ لازمی ہےکہ کھانے کی میز پر صرف تیلگو زبان میں ہی بات کریں گے۔ وہاں جو بچے پیدا ہوئے ، ان کے لئے بھی یہی اصول تھا۔ اپنی مادری زبان سے ، اُن کی محبت کو دیکھ کر میں اس خاندان سے بہت متاثر ہوا تھا ۔
ساتھیو، آزادی کے 75 سال بعد بھی کچھ لوگ ایسی ذہنی کشمکش میں جی رہے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی زبان، اپنے لباس، اپنے کھانے پینے کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا ہے، جب کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہے۔ ہماری مادری زبان ہے، ہمیں اسے فخر سے بولنا چاہیئے اور ہمارا بھارت تو زبانوں کے معاملے میں اتنا امیر ہے کہ اس کا تو موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری زبانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کشمیر سے کنیا کماری تک، کچھ سے کوہیما تک، سینکڑوں زبانیں، ہزاروں بولیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے میں رچی بسی ہوئی ہیں – زبانیں انیک تاثرات ایک ۔ صدیوں سے ہماری زبانیں ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے خود کو نکھارتی رہی ہیں، ایک دوسرے کی نشوونما کرتی رہی ہیں ۔ تمل بھارت میں دنیا کی قدیم ترین زبان ہے اور ہر بھارتی کو اس پر فخر ہونا چاہیئے کہ ہمارے پاس دنیا کا اتنا بڑا ورثہ ہے۔ اسی طرح جتنے قدیم دھرم شاستر ہیں، وہ بھی ہماری سنسکرت زبان میں ہیں ۔ بھارت کے لوگ، تقریباً 121، یعنی ہمیں فخر ہوگا کہ 121 قسم کی مادری زبانوں سے ہم جڑے ہوئے ہیں اور ان میں 14 زبانیں تو ایک کروڑ سے زیادہ لوگ روزمرہ کی زندگی میں بولتے ہیں۔ یعنی جتنے یورپی ممالک کی کل آبادی نہیں ہے، اس سے زیادہ لوگ ہمارے ملک میں 14 مختلف زبانوں سے وابستہ ہیں۔ سال 2019 ء میں ہندی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پر تھی۔ ہر بھارتی کو اس پر بھی فخر ہونا چاہیئے۔ زبان نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ زبان معاشرے کی ثقافت اور ورثے کو محفوظ کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔ اپنی زبان کی ثقافت کو محفوظ کرنے کا ایسا ہی کام سورینام میں سُرجن پروہی جی کر رہے ہیں ۔ وہ اس مہینے کی 2 تاریخ کو 84 سال کے ہو ئے ہیں ۔ ان کے اجداد بھی سالوں پہلے روزی کمانے کے لئے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ سورینام گئے تھے۔ سرجن پروہی جی ہندی میں بہت اچھی شاعری لکھتے ہیں، ان کا نام وہاں کے قومی شاعروں میں لیا جاتا ہے یعنی آج بھی ان کے دل میں بھارت دھڑکتا ہے، ان کے کاموں میں بھارتی مٹی کی خوشبو ہے۔ سورینام کے لوگوں نے سرجن پروہی جی کے نام پر ایک میوزیم بھی بنایا ہے۔ یہ میرے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے کہ سال 2015 ء میں مجھے ان کی عزت افزائی کا موقع ملا۔
ساتھیو، آج کے دن یعنی 27 فروری کو مراٹھی زبان کے فخر کا دن بھی ہے۔
’’ سَرو مراٹھی بندھو بھگی نینا مراٹھی بھاشا دِناچیا ہاردِک شوبھیچھا ‘‘
یہ دن مراٹھی شاعر ، وشنو بامن شرواڈکر جی، شریمان کسوماگرج جی کے لئے وقف ہے۔ آج ہی کسوماگرج جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کسوماگرج جی نے مراٹھی میں نظمیں لکھیں، بہت سے ڈرامے لکھے، مراٹھی ادب کو نئی بلندیاں دیں۔
ساتھیو، ہمارے یہاں زبان کی اپنی خوبیاں ہیں، مادری زبان کی اپنی سائنس ہے۔ اس سائنس کو سمجھتے ہوئے ہی قومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبان میں تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ کوششیں جاری ہیں کہ ہمارے پیشہ ورانہ کورسز کو بھی مقامی زبان میں پڑھائے جائیں ۔ آزادی کے امرت کال میں ، ہم سب کو مل کر اس کوشش کو بہت زیادہ رفتار دینی چاہیئے، یہ عزت نفس کا کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ جو بھی مادری زبان بولتے ہیں، اُس کی خوبیوں کے بارے میں ضرور جانیں اور کچھ نہ کچھ لکھیں ۔س
ساتھیو، کچھ دن پہلے میری ملاقات ، میرے دوست اور کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا جی سے ہوئی تھی ۔ یہ ملاقات دلچسپ تو تھی ہی لیکن بہت جذباتی بھی تھی۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں تو ہم کھل کر بات بھی کرلیتے ہیں۔ جب ہم دونوں باتیں کر رہے تھے تو اوڈنگا جی نے اپنی بیٹی کے بارے میں بتایا۔ ان کی بیٹی روزمیری کو برین ٹیومر ہوگیا تھا ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کی سرجری کرانی پڑی تھی لیکن اس کا ایک برا اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی تقریباً چلی گئی، دکھائی دینا ہی بند ہو گیا ۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بیٹی کے ساتھ کیا گزری ہو گی اور ہم ایک باپ کی حالت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں، اس کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے اسپتالوں میں ، دنیا کا کوئی بڑا ملک نہیں ہوگا، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کے علاج کے لئے پوری کوشش نہ کی ہو۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں تلاش کیا لیکن کامیابی نہ ملی اور ایک طرح سے تمام امیدیں چھوڑ کر پورے گھر میں مایوسی کا ماحول چھا گیا۔ اس میں کسی نے انہیں آیوروید کے علاج کے لئے بھارت آنے کا مشورہ دیا اور وہ بہت کچھ کر چکے تھے، تھک بھی چکے تھے، پھر بھی سوچا کہ چلو ایک بار آزمائیں، کیا ہوتا ہے؟ وہ بھارت آئے ، کیرالہ کے ایک آیورویدک اسپتال میں اپنی بیٹی کا علاج کرانا شروع کیا ۔ کافی وقت بیٹی یہاں رہی ۔ آیوروید کے اس علاج کا اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی کافی حد تک واپس آگئی۔ آپ سوچ سکتے ہیں، جیسے ایک نئی زندگی مل گئی اور روزمیری کی زندگی میں تو روشنی آگئی لیکن پورے خاندان میں بھی ایک نئی روشنی ، نئی زندگی آگئی ہے اور اوڈنگا جی اتنے جذباتی ہو کر مجھے یہ بات بتا رہے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ بھارت کا آیوروید کا علم ایک سائنس ہے، اسے کینیا میں لے جائیں ۔ اس میں ، جس قسم کے پودے استعمال کئے جاتے ہیں ، وہ ان پودوں کی کاشت کریں گے اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوں۔
میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری سرزمین اور روایت سے اتنا بڑا دکھ کسی کی زندگی سے دور ہو گیا۔ یہ سن کر آپ کو بھی خوش ہو گی۔ کون ایسا بھارتی ہوگا ، جسے اس پر فخر نہ ہو؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نہ صرف اوڈنگا جی بلکہ دنیا کے لاکھوں لوگ آیوروید سے اسی طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
برطانیہ کے پرنس چارلس بھی آیوروید کے بڑے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ جب بھی میری ان سے ملاقات ہوتی ہے ، وہ آیوروید کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ انہیں بھارت کے کئی آیورویدک اداروں کی جانکاری بھی ہے ۔
ساتھیو، پچھلے سات سالوں میں ملک میں آیوروید کے فروغ پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ آیوش کی وزارت کی تشکیل نے ہمارے روایتی طریقوں اور صحت کو مقبول بنانے کے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں آیوروید کے میدان میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس ابھرے ہیں۔ اسی مہینے کی شروعات میں آیوش اسٹارٹ اپ چیلنج شروع ہوا تھا۔ اس چیلنج کا مقصد اس شعبے میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کی شناخت اور مدد کرنا تھا ۔ اس شعبے میں کام کرنے والے نوجوانوں سے میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس چیلنج میں ضرور حصہ لیں۔
ساتھیو، ایک بار جب لوگ مل کر کچھ کرنے کا عزم کر لیتے ہیں، تو وہ شاندار کام کر جاتے ہیں۔ معاشرے میں اس طرح کی کئی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں عوامی شراکت، اجتماعی کوشش نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایسی ہی ایک عوامی تحریک جس کا نام ’’مشن جل تھل‘‘ ہے ، کشمیر کے سری نگر میں جاری ہے۔ سری نگر کی جھیلوں اور تالابوں کو صاف کرنے اور انہیں ان کی پرانی شان میں بحال کرنے کی یہ ایک انوکھی کوشش ہے۔ ’’ مشن جل تھل‘‘ کا فوکس ’’ کشل سار ‘‘ اور ’’ گل سار ‘‘ پر ہے۔ اس میں عوام کی شرکت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی بہت مدد لی جا رہی ہے۔ یہ جاننے کے لئے کہ کہاں کہاں تجاوزات ہیں، کہاں غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں، اس علاقے کا سروے کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پلاسٹک کے کچرے کو ہٹانے اور کچرے کو صاف کرنے کی مہم بھی چلائی گئی۔ مشن کے دوسرے مرحلے میں پرانے واٹر چینلوں اور جھیل کو بھرنے والے 19 چشموں کی بحالی کے لئے بھی کافی کوشش کی گئی۔ اس بحالی پر؎وجیکٹ کی اہمیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کے لئے مقامی لوگوں اور نوجوانوں کو واٹر ایمبیسیڈر بھی بنایا گیا۔ اب یہاں کے مقامی لوگ بھی ’’ گل سار جھیل ‘‘ میں ہجرت کرنے والے پرندوں اور مچھلیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اور اسے دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں۔ میں سری نگر کے لوگوں کو اس شاندار کاوش کے لئے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، ملک نے آٹھ سال پہلے ، جو ’ سووچھ بھارت مشن ‘ شروع کیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا، نئی اختراعات بھی شامل ہوئیں۔ آپ بھارت میں ، جہاں بھی جائیں، آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ صفائی کے لئے کوئی نہ کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ آسام کے کوکرا جھار میں مجھے ایسی ہی ایک کوشش کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ یہاں مارننگ واکرز کے ایک گروپ نے ’ سووچھ اور ہرِت کوکراجھار ‘ مشن کے تحت ایک بہت ہی قابل تعریف پہل کی ہے۔ ان سب نے نئے فلائی اوور کے علاقے میں تین کلو میٹر طویل سڑک کی صفائی کرکے صفائی کا تحریکی پیغام دیا۔ اسی طرح وشاکھاپٹنم میں ’ سووچھ بھارت ابھیان ‘ کے تحت پولی تھین کے بجائے کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ یہاں کے لوگ ماحول کو صاف رکھنے کے لئے سنگل یوز پلاسٹک کی مصنوعات کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ گھروں میں ہی کچرے کو الگ کرنے کے لئے بیداری بھی پھیلا رہے ہیں۔ ممبئی کے سومیا کالج کے طلباء نے صفائی کی اپنی مہم میں خوبصورتی کو بھی شامل کر لیا ہے۔ انہوں نے کلیان ریلوے اسٹیشن کی دیواروں کو خوبصورت پینٹنگز سے سجایا ہے۔ راجستھان میں سوائی مادھوپور کی ایک متاثر کن مثال بھی میرے علم میں آئی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے رَنتھمبور میں ’ مشن بیٹ پلاسٹک ‘نام سے ایک مہم شروع کی ہوئی ہے ، جس میں رنتھمبور کے جنگلات سے پلاسٹک اور پولی تھین کو ہٹا یا گیا ہے۔ ہر کسی کی کوشش کا یہ جذبہ ملک میں عوام کی شرکت کو تقویت دیتا ہے اور جب عوامی شرکت ہو تو بڑے سے بڑے مقاصد ضرور پورے ہوتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج سے کچھ دن بعد یعنی 8 مارچ کو پوری دنیا میں ’خواتین کا عالمی دن ‘منایا جائے گا۔ ’ من کی بات ‘میں ہم خواتین کی ہمت، ہنر اور مہارت سے متعلق بہت سی مثالیں شیئر کر تے رہے ہیں۔ آج چاہے اسکل انڈیا ہو، سیلف ہیلپ گروپ ہو یا چھوٹی بڑی صنعتیں ہوں ، خواتین ہر جگہ آگے بڑھی ہیں۔ آج کسی بھی طرف دیکھئے ، خواتین پرانی روایتوں کو توڑ رہی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں خواتین پارلیمنٹ سے لے کر پنچایت تک مختلف شعبوں میں نئیبلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ فوج میں بھی اب بیٹیاں نئے اور بڑے کرداروں میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اور ملک کی حفاظت کر رہی ہیں۔ پچھلے مہینے یوم جمہوریہ پر ہم نے دیکھا کہ جدید لڑاکا طیارے بھی بیٹیا اڑا رہی ہیں ۔ ملک نے سینک اسکولوں میں بیٹیوں کے داخلے پر پابندی بھی ہٹا دی ہے اور ملک بھر کے فوجی اسکولوں میں بیٹیاں داخلہ لے رہی ہیں۔ اسی طرح اسٹارٹ اپ کو دیکھ لیں، پچھلے سالوں میں ملک میں ہزاروں نئے اسٹارٹ اپس شروع ہوئے۔ ان میں سے تقریباً آدھے اسٹارٹ اپس میں ڈائریکٹر کے کردار میں خواتین ہیں۔ پچھلے کچھ ماہ میں خواتین کے لئے زچگی کی چھٹی بڑھانے جیسے فیصلے کئے گئے ہیں۔ بیٹے اور بیٹیوں کو مساوی حقوق دیتے ہوئے شادی کی عمر کو برابر کرنے کی ملک کوشش کر رہا ہے۔ اس سے ہر شعبے میں خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ آپ ملک میں ایک اور بڑی تبدیلی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ تبدیلی ہے - ہماری سماجی مہمات کی کامیابی ۔ ’ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کی کامیابی کو لے لیں، آج ملک میں جنسی تناسب بہتر ہوا ہے۔ اسکول جانے والی بیٹیوں کی تعداد میں بھی بہتری آئی ہے۔ اس میں ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہماری بیٹیاں درمیان میں اسکول نہ چھوڑیں۔ اسی طرح ملک میں خواتین کو ’سووچھ بھارت ابھیان ‘ کے تحت کھلے میں رفع حاجت سے آزادی ملی ہے۔ تین طلاق جیسی سماجی برائی بھی ختم ہو رہی ہے ۔ جب سے تین طلاق کے خلاف قانون نافذ ہوا ہے، ملک میں تین طلاق کے معاملات میں 80 فی صد کمی آئی ہے۔ اتنے کم وقت میں یہ ساری تبدیلیاں کیسے ہو رہی ہیں؟ یہ تبدیلیاں اس لئے آ رہی ہے کہ اب خواتین خود ہمارے ملک میں تبدیلی اور ترقی کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کل 28 فروری کو ’ قومی سائنس کا دن ‘ ہے۔ یہ دن رمن ایفیکٹ کی دریافت کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ میں ، سی وی رمن جی کے ساتھ ساتھ، میں ان تمام سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ہمارے سائنسی سفر کو تقویت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھیو، ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں آسانی اور سادگی میں کافی جگہ بنا لی ہے۔ کون سی ٹیکنالوجی اچھی ہے، کون سی ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال، ہم ان تمام موضوعات سے بخوبی واقف ہی ہیں۔ لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے خاندان کے بچوں کے لئے اس ٹیکنالوجی کی بنیاد کیا ہے، اس کے پیچھے سائنس کیا ہے، ہماری توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں ۔ اس سائنس ڈے پر، میں تمام خاندانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی کوششوں سے ضرور آغاز کریں۔ اب جیسے دکھتا نہیں ہے ، عینک لگانے کے بعد صاف دکھنے لگتا ہے تو بچوں کو آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے سائنس کیا ہے ۔ بس عینک سے دیکھیں ، مزہ کریں ، اتنا نہیں۔ اب آپ آرام سے اسے ایک کاغذ پر بتا سکتے ہیں۔ اب وہ موبائل فون استعمال کرتا ہے، کیلکولیٹر کیسے کام کرتا ہے، ریموٹ کنٹرول کیسے کام کرتا ہے، سینسرز کیا ہیں؟ یہ سائنسٹفک باتیں ، اس کے ساتھ ساتھ گھر میں بات چیت میں ہوتی ہیں کیا ؟ ہو سکتی ہے بڑے آرام سے ، ہم اِن چیزوں کو گھر کی روز مرہ کی زندگی کے پیچھے کیا سائنس ہے کہ وہ کون سی بات ہے ، جو کر رہی ہے ، اس کو سمجھا سکتے ہیں ۔ اسی طرح کیا ہم نے کبھی آسمان میں بچوں کو ایک ساتھ لے کر دیکھا ہے کیا ؟ رات میں ستاروں کے بارے میں بھی بات ہوئی ہوں ۔ مختلف قسم کے برج دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں بتائیں۔ ایسا کرنے سے آپ بچوں میں فزکس اور فلکیات کی طرف ایک نیا رجحان پیدا کر سکتے ہیں۔ آج کل تو ایسی بہت سی ایپس بھی ہیں، جن کے ذریعے آپ ستاروں اور سیاروں کا پتہ لگا سکتے ہیں یا آپ آسمان پر نظر آنے والے ستارے کی شناخت کر سکتے ہیں، آپ اس کے بارے میں جان بھی سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپس سے بھی کہوں گا کہ آپ اپنی صلاحیتوں اور سائنسی کردار کو قوم کی تعمیر سے متعلق کام میں استعمال کریں۔ یہ ملک کے تئیں ہماری اجتماعی سائنسی ذمہ داری بھی ہے۔ جیسے آج کل ، میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے اسٹارٹ اپ ورچوئل رئیلٹی کی دنیا میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ورچوئل کلاسز کے اس دور میں بچوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسی ہی ایک ورچوئل لیب بنائی جا سکتی ہے۔ ہم ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچوں کو گھر بیٹھے کیمسٹری لیب کا تجربہ بھی کرا سکتے ہیں۔ میری اساتذہ اور والدین سے درخواست ہے کہ وہ تمام طلباء اور بچوں کو سوالات کرنے کی ترغیب دیں اور ان کے ساتھ مل کر سوالات کے صحیح جوابات تلاش کریں۔ آج، میں کورونا کے خلاف لڑائی میں بھارتی سائنسدانوں کے کردار کی بھی ستائش کرنا چاہوں گا۔ ان کی محنت کی وجہ سے میڈ ان انڈیا ویکسین تیار کرنا ممکن ہوا ، جس سے پوری دنیا کو کافی مدد ملی ہے۔ یہ انسانیت کو سائنس کا تحفہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ آنے والے مارچ کے مہینے میں بہت سے تہوار آ رہے ہیں - شیو راتری آ رہی ہے اور اب کچھ دنوں کے بعد آپ سب ہولی کی تیاری میں مصروف ہو جائیں گے۔ ہولی ، ہمیں متحد کرنے والا تہوار ہے۔ اس میں اپنے – پرائے ، چھوٹے بڑے کے تمام فرق مٹ جاتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں ، ہوکی کے رنگوں سے بھی زیادہ گہرا رنگ ، ہولی کی محبت اور ہم آہنگی کا ہوتا ہے ۔ ہولی میں گجیا کے ساتھ ساتھ رشتوں کی انوکھی مٹھاس بھی ہوتی ہے۔ ان رشتوں کو ہمیں اور مضبوط کرنا ہے اور یہ رشتہ صرف اپنے خاندان کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں سے بھی ہے ، جو آپ کے بڑے خاندان کا حصہ ہیں۔ اس کا سب سے اہم طریقہ بھی آپ کو یاد رکھنا ہے۔ یہ طریقہ ہے - ’ ووکل فار لوکل ‘ کے ساتھ تہوار منانے کا ۔ آپ تہواروں پر مقامی مصنوعات کی خریداری کریں ، جس سے آپ کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی میں بھی رنگ بھرے ، رنگ رہے ، امنگ رہے ۔ جس کامیابی کے ساتھ ہمارا ملک کورونا کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے، اُس سے تہواروں میں جوش بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی جوش کے ساتھ ہمیں اپنے تہوار منانے ہیں اور ساتھ ہی اپنی احتیاط بھی برقرار رکھنی ہے۔ میں آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ آپ کے باتوں کا ، آپ کے خطوط کا ، آپ کے پیغامات انتظار رہے گا ۔ بہت بہت شکریہ ۔
نئی دلّی ،30 جنوری / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! آج ’ من کی بات ‘ کے ایک اور ایپیسوڈ کے ذریعے ہم ایک ساتھ جڑ رہے ہیں ۔ یہ 2022 ء کی پہلی ’ من کی بات ‘ ہے ۔ آج ہم پھر ایسے تبادلۂ خیال کو آگے بڑھائیں گے، جو ہمارے ملک اور ہم وطنوں کی مثبت تحریکوں اور اجتماعی کوششوں سے جڑے ہوتے ہیں ۔ آج ہمارے قابل احترام باپو مہاتما گاندھی کی برسی بھی ہے۔ 30 جنوری کا یہ دن ہمیں باپو کی تعلیمات کی یاد دلاتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے یوم ِ جمہوریہ بھی منایا۔ دلّی میں راج پتھ پر ، ہم نے ملک کی بہادری اور طاقت کی ، جو جھانکی دیکھی ، اُس نے سب کو فخر اور جوش سے بھر دیا۔ ایک تبدیلی ، جو آپ نے دیکھی ہوگی، اب یوم ِ جمہوریہ کی تقریبات 23 جنوری یعنی نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم ِپیدائش سے شروع ہوں گی اور 30 جنوری تک یعنی گاندھی جی کی برسی تک جاری رہیں گی۔ انڈیا گیٹ پر نیتا جی کا ڈیجیٹل مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ اس بات کا ، جس طرح سے ، ملک نے خیر مقدم کیا، ملک کے ہر کونے سے ، جو خوشی کی لہر اٹھی، ملک کے ہر باشندے نے ، جس طرح کے جذبات کا اظہار کیا ، اسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے ۔
ساتھیو ، ملک آزادی کے امرت مہوتسو میں ، ان کوششوں سے اپنی قومی علامتوں کو دوبارہ قائم کر رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انڈیا گیٹ کے قریب ’امر جوان جیوتی ‘ اور اس کے قریب ہی ’ نیشنل وار میموریل ‘ ( قومی جنگی یادگار ) پر جلنے والی جیوتی کو آپس میں ضم کیاگیا ۔ اس جذباتی موقع پر بہت سے اہل وطن اور شہدا کے اہل خانہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آزادی کے بعد سے شہید ہونے والے ملک کے تمام بہادروں کے نام ’نیشنل وار میموریل ‘ میں کندہ کئے گئے ہیں۔ کچھ سابق فوجیوں نے مجھے لکھا ہے کہ ’’شہیدوں کی یاد کے سامنے جلائی جانے والی ’امر جوان جیوتی‘ شہیدوں کے امر ہونے کی علامت ہے۔ حقیقت میں ، ’امر جوان جیوتی ‘ کی طرح ہمارے شہید ، ان کی تحریک اور ان کا تعاون بھی امر ہے۔ میں آپ سب سے کہوں گا کہ جب بھی آپ کو موقع ملے ’نیشنل وار میموریل‘ ضرور جائیں ۔ اپنے گھر والوں اور بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ یہاں آپ کو ایک مختلف توانائی اور تحریک کا تجربہ ہوگا۔
ساتھیو ، امرت مہوتسو کی ان تقریبات کے درمیان ملک میں کئی اہم قومی اعزازات بھی دیئے گئے۔ اُن میں سے ایک ہے ’ وزیر اعظم کا ’ راشٹریہ بال پرسکار ‘ ۔ یہ ایوارڈز ، ان بچوں کو دیئے جاتے ہیں ، جنہوں نے کم عمری میں جرات مندانہ اور متاثر کن کام کئے ہے۔ ہم سب کو اپنے گھروں میں ان بچوں کے بارے میں بتانا چاہیئے۔ ان سے ہمارے بچے بھی تحریک حاصل کریں گے اور ان کے اندر بھی ملک کا نام روشن کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا ۔ ملک میں پدم ایوارڈ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں ایسے بہت سے نام ہیں ،جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے غیر معروف ہیرو ہیں، جنہوں نے عام حالات میں غیر معمولی کام کئے ہیں۔ مثال کے طور پر اتراکھنڈ کی بسنتی دیوی کو پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ بسنتی دیوی نے اپنی پوری زندگی جدوجہد کے درمیان گزاری۔ ان کے شوہر کا کم عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا اور وہ ایک آشرم میں رہنے لگیں ۔ یہاں رہ کر ، انہوں نے دریا کو بچانے کے لئے جدوجہد کی اور ماحولیات کے لئے غیر معمولی تعاون کیا ۔ انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے بھی بہت کام کیا ہے۔ اسی طرح منی پور سے تعلق رکھنے والی 77 سالہ لوریبم بینو دیوی کئی دہائیوں سے منی پور کے لیبا ٹیکسٹائل آرٹ کا تحفظ کر رہی ہیں۔ انہیں بھی پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے ارجن سنگھ کو بیگا قبائلی رقص کے فن کو پہچان دلناے کے لئے پدم ایوارڈ ملا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے ایک اور شخص جناب امائی مہا لینگا نائک ہیں۔ وہ ایک کسان ہیں اور کرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں ٹنل مین بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے زراعت میں ایسی ایسی ایجادات کی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر ایک حیران رہ جائے ۔ چھوٹے کسانوں کو ، ان کی کوششوں کا بہت زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے غیر معروف ہیرو ہیں ، جنہیں ملک نے ان کی خدمات کے لئے اعزاز سے نوازا ہے۔ آپ کو ضرور ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ زندگی میں ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، امرت مہوتسو پر، آپ سب ساتھی مجھے بہت سے خطوط اور پیغامات بھیجتے ہیں، بہت سے مشورے بھی دیتے ہیں۔ اس سیریز میں کچھ ایسا ہوا ، جو میرے لئے ناقابل فراموش ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ بچوں نے اپنے ’من کی بات ‘ پوسٹ کارڈ کے ذریعے لکھ کر بھیجی ہے۔ یہ ایک کروڑ پوسٹ کارڈ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہیں، بیرون ملک سے بھی آئے ہیں۔ میں نے وقت نکال کر ، ان میں سے بہت سے پوسٹ کارڈز کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پوسٹ کارڈ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کے لئے ہماری نئی نسل کا ویژن کتنا وسیع اور کتنا بڑا ہے۔ میں نے ’ من کی بات ‘کے سننے والوں کے لئے کچھ پوسٹ کارڈوں کو چنا ہے ، جنہیں میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ گوہاٹی، آسام سے رِدھیما سورگیاری کا پوسٹ کارڈ اس طرح ہے۔ رِدھیما ساتویں جماعت کی طالبہ ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ وہ آزادی کے 100ویں سال میں ایک ایسا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہے ، جو دنیا کا سب سے صاف ستھرا ملک ہو، دہشت گردی سے مکمل طور پر آزاد ہو، سو فی صد خواندہ ممالک میں شامل ہو، حادثوں سے پاک ملک ہو اور پائیدار ٹیکنالوجی کے ساتھ خوراک کی سکیورٹی کے قابل ہو ۔ رِدھیما، ہماری بیٹیاں جو بھی سوچتی ہیں، جو خواب وہ ملک کے لئے دیکھتی ہیں، وہ تو پورے ہوتے ہی ہیں۔ جب سب کی کوششیں شامل ہوں گی، آپ کی نوجوان نسل اسے ایک مقصد بنانے کے لئے کام کرے گی، پھر آپ جس طرح سے ہندوستان بنانا چاہتے ہیں، وہ ضرور بنے گا۔ میرے پاس اتر پردیش کے پریاگ راج کی نویا ورما کا پوسٹ کارڈ بھی ہے۔ نَویا نے لکھا ہے کہ 2047 ء میں ، ان کا خواب ایک ایسے بھارت کا ہے ، جہاں ہر ایک کو باوقار زندگی ملے، جہاں کسان خوشحال ہوں اور کرپشن نہ ہو۔ نَویا، ملک کے لئے آپ کا خواب بہت قابل تعریف ہے۔ ملک بھی اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آپ نے کرپشن فری انڈیا کی بات کی۔ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس سے نجات کے لئے 2047 ء کا انتظار کیوں؟ ہم تمام اہل وطن، آج کے نوجوانوں کو مل کر یہ کام جلد از جلد کرنا ہے اور اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض کو ترجیح دیں ، جہاں فرض کا احساس ہو، فرض سب سے اہم ہو ، وہاں کرپشن پھٹک بھی نہیں سکتا۔
ساتھیو ، میرے سامنے چنئی سے محمد ابراہیم کا ایک اور پوسٹ کارڈ ہے۔ ابراہیم 2047 ء میں ہندوستان کو دفاعی میدان میں ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ چاند پر ہندوستان کا اپنا ریسرچ بیس ہو اور ہندوستان مریخ پر انسانی آبادی کو آباد کرنے کا کام شروع کرے نیز ابراہیم زمین کو آلودگی سے پاک بنانے میں ہندوستان کے لئے ایک بڑا کردار دیکھتے ہیں۔ ابراہیم، جس ملک میں آپ جیسا نوجوان ہو،اس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
ساتھیو ، میرے سامنے ایک اور خط ہے۔ مدھیہ پردیش کے رائے سین میں سرسوتی ودیا مندر میں 10ویں جماعت کی طالبہ بھاونا کا ۔ سب سے پہلے، میں بھاونا سے کہوں گا کہ آپ کا اپنے پوسٹ کارڈ کو ترنگے سے سجانے کا طریقہ مجھے بہت پسند آیا۔ بھاونا نے انقلابی شریش کمار کے بارے میں لکھا ہے۔
ساتھیو ، مجھے گوا سے لارنشیو پریرا کا پوسٹ کارڈ بھی ملا ہے۔ وہ بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ان کے خط کا موضوع بھی ہے – آزادی کے غیر معروف ہیرو ۔ میں آپ کو اس کا ہندی کا ترجمہ بتا رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے – ’’ بھیکاجی کاما ہندوستانی جدوجہد آزادی میں شامل سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے بیٹیوں کو بااختیار بنانے کے لئے ملک اور بیرون ملک بہت سی مہمیں چلائیں۔کئی نمائشوں کا اہتمام کیا۔ ‘‘ یقیناً بھیکاجی کاما تحریک آزادی کی سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ 1907 ء میں ، انہوں نے جرمنی میں ترنگا لہرایا۔ اس ترنگے کو ڈیزائن کرنے میں ، جس شخص نے ان کا ساتھ دیا تھا ، وہ تھے - شری شیام جی کرشن ورما۔ شری شیام جی کرشن ورما جی کا انتقال 1930 ء میں جنیوا میں ہوا۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ان کی استھیاں ہندوستان لائی جائیں حالانکہ ان کی استھیاں 1947 ء میں آزادی کے دوسرے ہی دن ہندوستان واپس لائی جانی چاہیئے تھیں لیکن یہ کام نہیں ہوا۔ شاید بھگوان کی مرضی ہوگی کہ یہ کام میں کروں اور اس کام کو کرنے کا موقع بھی مجھے ہی ملا ۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو ان کی استھیاں 2003 ء میں ہندوستان لائی گئیں۔ شیام جی کرشن ورما جی کی یاد میں ان کی جائے پیدائش، مانڈوی میں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔
ساتھیو ، ہندوستان کی آزادی کے امرت مہوتسو کا جوش و خروش صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں ہے۔ مجھے ہندوستان کے دوست ملک کروشیا سے بھی 75 پوسٹ کارڈ ملے ہیں۔ کروشیا کے زاگریب میں اسکول آف اپلائیڈ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے طلباء نے یہ 75 کارڈ ہندوستان کے لوگوں کو بھیجے ہیں اور امرت مہوتسو کی مبارکباد دی ہے۔ آپ تمام ہم وطنوں کی طرف سے، میں کروشیا اور اس کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان تعلیم اور علم کی سرزمین رہا ہے۔ ہم نے تعلیم کو کتابی علم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے زندگی کے ایک جامع تجربے کے طور پر دیکھا ہے۔ ہمارے ملک کی عظیم شخصیات کا بھی تعلیم سے گہرا تعلق رہا ہے۔ جہاں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بنارس ہندو یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، وہیں مہاتما گاندھی نے گجرات ودیا پیٹھ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ گجرات کے آنندمیں ایک بہت پیاری جگہ ہے - ولبھ ودیا نگر ۔ سردار پٹیل کے اصرار پر ان کے دو ساتھیوں بھائی کاکا اور بھیکا بھائی نے ، وہاں نوجوانوں کے لئے تعلیمی مراکز قائم کئے تھے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور نے شانتی نکیتن قائم کیا۔ مہاراجہ گائیکواڑ بھی تعلیم کے پرجوش حامیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بہت سے تعلیمی اداروں کی تعمیر کرائی اور ڈاکٹر امبیڈکر اور شری اروبندو سمیت کئی شخصیات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے متاثر کیا۔ ایسی عظیم ہستیوں کی فہرست میں ایک نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کا بھی ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے ایک ٹیکنیکل اسکول کے قیام کے لئے اپنا گھر ہی سونپ دیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ اور متھرا میں تعلیمی مراکز کی تعمیر کے لئے کافی مالی مدد کی۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے علی گڑھ میں ان کے نام پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ تعلیم کی روشنی کو عوام تک پہنچانے کا وہی متحرک جذبہ آج بھی ہندوستان میں جاری ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس احساس کی سب سے خوبصورت چیز کیا ہے؟ یعنی تعلیم کے بارے میں یہ بیداری معاشرے میں ہر سطح پر نظر آتی ہے۔ تمل ناڈو کے تریپور ضلع کے ادومل پیٹ بلاک میں رہنے والی تایمّل جی کی مثال بہت متاثر کن ہے۔ تایمّل جی کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ برسوں سے ان کا خاندان ناریل پانی بیچ کر روزی کما رہا ہے۔ مالی حالت بھلے اچھی نہ ہو لیکن تایّمل جی نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان کے بچے چِنّ ویرم پٹی پنچایت یونین مڈل اسکول میں پڑھتے تھے ۔ ایسے ہی ایک دن اسکول میں والدین کے ساتھ میٹنگ میں یہ بات اٹھائی گئی کہ کلاس رومز اور اسکول کی حالت بہتر کی جائے، اسکول کا بنیادی ڈھانچہ د ٹھیک کیا جائے۔ تایمل جی بھی اس میٹنگ میں تھیں ۔ انہوں نے سب کچھ سنا۔ اسی میٹنگ میں بات چیت کاموں کے لئے پیسوں کی کمی پر آکر اٹک گئی ۔ اس کے بعد تایمل جی نے ، جو کچھ کیا ، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تایمل جی، جنہوں نے ناریل پانی بیچ کر کچھ سرمایہ جمع کیا تھا، اسکول کے لئے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ درحقیقت، ایسا کرنے کے لئے بہت بڑا دِل چاہیئے ، خدمت کا جذبہ چاہیئے ۔ تایمل جی کا کہنا ہے کہ ابھی جو اسکول ہے ، اس میں آٹھویں جماعت تک پڑھائی ہوتی ہے۔ اب جب اسکول کا بنیادی ڈھانچہ سدھر جائے گا تو یہاں ہائر سیکنڈری تک کی پڑھائی ہونے لگے گی ۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے یہی وہ جذبہ ہے ، جس کی میں بات کر رہا تھا۔ مجھے آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے ایک سابق طالب علم کی طرف سے بھی اسی طرح کے عطیہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ بی ایچ یو کے سابق طالب علم جے چودھری جی نے آئی آئی ٹی بی ایچ یو فاؤنڈیشن کو ایک ملین ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے سات کروڑ کا عطیہ دیا۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جو دوسروں کی مدد کر کے معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ اس طرح کی کوششیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ، خاص طور پر ہمارے مختلف آئی آئی ٹیز میں مسلسل دیکھی جا رہی ہیں۔ مرکزی یونیورسٹیوں میں بھی ایسی متاثر کن مثالوں کی کمی نہیں ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو مزید بڑھانے کے لئے گزشتہ سال ستمبر سے ملک میں ودیانجلی ابھیان بھی شروع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مختلف تنظیموں، سی ایس آر اور نجی شعبے کی شراکت سے ملک بھر کے اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔ ودیانجلی کمیونٹی کی شرکت اور ملکیت کے جذبے کو فروغ دے رہی ہے۔ اپنے اسکول، کالج سے مسلسل جڑے رہنا، اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ تعاون کرنا ، ایک ایسی چیز ہے ، جس کا تجربہ کرنے کے بعد ہی ایسا اطمینان اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، فطرت سے محبت اور ہر جاندار کے لئے ہمدردی، یہ ہماری ثقافت بھی ہے اور ہماری فطرت بھی ہے۔ ہماری اِن اقدار کی ایک جھلک حال ہی میں ، اُس وقت دیکھی گئی ، جب مدھیہ پردیش کے پینچ ٹائیگر ریزرو میں ایک شیرنی نے دنیا کو الوداع کہا ۔ لوگ اس شیرنی کو کالر والی شیرنی کہتے تھے۔ محکمہ جنگلات نے اسے ٹی – 15 کا نام دیا تھا ۔ اس شیرنی کی موت نے لوگوں کو اس قدر جذباتی کر دیا کہ جیسے کوئی اپنا ہی دنیا سے چلا گیا ہو۔ لوگوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں، پورے احترام اور محبت سے اسے رخصت کیا ۔ سوشل میڈیا پر یہ تصاویر آپ نے بھی دیکھی ہوں گی۔ پوری دنیا میں فطرت اور جانوروں کے لئے ہم ہندوستانیوں کی اس محبت کو بہت سراہا گیا۔ کالر والی شیرنی نے اپنی زندگی میں 29 بچوں کو جنم دیا اور 25 کی پرورش کرکے انہیں بڑا کیا۔ ہم نے ٹی – 15 کی اس زندگی کا جشن بھی منایا اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو ہم نے اسے جذباتی طور پر رخصت بھی کیا ۔ یہ ہندوستان کے لوگوں کی خوبی ہے۔ ہم ہر ذی نفس سے محبت کا رشتہ بنا لیتے ہیں۔ ہمیں اس بار یوم جمہوریہ کی پریڈ میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ اس پریڈ میں صدر کے باڈی گارڈز کے چارجر گھوڑے وِراٹ نے اپنی آخری پریڈ میں حصہ لیا۔ گھوڑا وِراٹ 2003 ء میں راشٹرپتی بھون میں آیا تھا اور ہر بار یوم جمہوریہ پر کمانڈنٹ چارجر کے طور پر پریڈ کی قیادت کرتاتھا۔ یہاں تک کہ جب راشٹرپتی بھون میں کسی غیر ملکی سربراہ کا استقبال کیا جاتا تھا تو بھی وہ یہ کردار ادا کرتا تھا۔ اس سال گھوڑے وِراٹ کو آرمی چیف نے آرمی ڈے پر سی او اے ایس ستائشی کارڈ بھی دیا تھا۔ وراٹ کی بے پناہ خدمات کو دیکھتے ہوئے ، اس کے ریٹائرمنٹ کے بعد ، اسے اتنے ہی شاندار انداز میں الوداع کیا گیا۔
میرے پیارے ہم وطنو ، جب خلوص نیت سے کام کیا جائے تو اس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال آسام سے سامنے آئی ہے۔ آسام کا نام لیتے ہی ذہن میں چائے کے باغات اور کئی قومی پارکوں کا خیال آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے ذہن میں ایک سینگ والے گینڈے یعنی ایک سینگ گینڈے کی تصویر بھی ابھرتی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک سینگ والا گینڈا ہمیشہ سے آسامی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ بھارت رتن بھوپین ہزاریکا جی کا یہ گانا ہر ایک کان میں گونجتا ہو گا۔
ساتھیو ، اس گانے کا مفہوم بہت مطابقت رکھتا ہے۔ اس گانے میں کہا گیا ہے کہ کازی رنگا کا سرسبز و شاداب ماحول، ہاتھیوں اور شیروں کا ٹھکانہ، ایک سینگ والے گینڈے کو زمین دیکھے ، پرندوں کی مدھر چہچہاہٹ سنے۔ گینڈے کی تصویر یں آسام کے دنیا بھر میں معروف مونگا اور ایری کے بنائی والے کپڑوں پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اس گینڈے کو ، جس کی آسام کی ثقافت میں ایک عظیم تاریخ ہے ، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ 2013 ء میں 37 اور 2014 ء میں 32 گینڈوں کو شکاریوں نے ہلاک کر دیا تھا ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے گینڈوں کے شکار کے خلاف ایک وسیع مہم چلائی گئی ، جو پچھلے سات سال میں آسام حکومت کی خصوصی کوششوں میں شامل ہے ۔ پچھلے سال 22 ستمبر کو گینڈوں کے عالمی دن کے موقع پر اسمگلروں سے پکڑے گئے 2400 سے زائد سینگوں کو جلا دیا گیا تھا۔ یہ شکاریوں کے لئے ایک سخت پیغام تھا۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب آسام میں گینڈوں کے شکار میں تیزی سے کمی آئی ہے ، جب کہ 2013 ء میں ، جہاں 37 گینڈے ہلاک کئے گئے تھے ، 2020 ء میں صرف 2 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 2021 ء میں صرف ایک معاملہ سامنے آیا ہے ۔ میں گینڈوں کے تحفظ کے لئے آسام کے عوام کے عہد کی ستائش کرتا ہوں ۔
ساتھیو ، ہندوستانی ثقافت کے متنوع رنگ اور روحانی طاقت نے ہمیشہ پوری دنیا کے لوگوں کو راغب کیا ہے ۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ ہندوستانی ثقافت امریکہ، کناڈا ، دوبئی، سنگاپور، مغربی یورپ اور جاپان میں بہت مقبول ہے تو آپ کو یہ ایک عام بات لگے گی اور آپ کو تعجب نہیں ہوگا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ لاطینی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں بھی بھارت ثقافت بڑی توجہ کا مرکز ہے ، تو آپ یقیناً ایک بار ضرور سوچیں گے ۔ میکسیکو میں کھادی کو فروغ دینے کا معاملہ ہو یا برازیل میں ہندوستانی روایات کو مقبول بنانے کی کوشش، ہم ان موضوعات پر ، اِس سے پہلے کی ’من کی بات ‘ میں بات کر چکے ہیں۔ آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ ارجنٹینا میں بھی ہندوستانی ثقافت اپنے نشان چھوڑ رہی ہے ۔ ارجنٹینا میں ہماری ثقافت کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ 2018 ء میں، میں نے اپنے ارجنٹینا کے دورے کے دوران ایک یوگا پروگرام – ’ یوگا فار پیس ‘ میں حصہ لیا۔ یہاں ارجنٹینا میں ایک تنظیم ہے - ہستینا پور فاؤنڈیشن۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ارجنٹینا میں ہستینا پور فاؤنڈیشن موجود ہے ۔ یہ فاؤنڈیشن ارجنٹینا میں ہندوستانی ویدِک روایات کو فروغ دینے میں شامل ہے۔ اس کا قیام 40 سال پہلے ایک خاتون پروفیسر ایڈا البریکٹ نے کیا تھا ۔ پروفیسر ایڈا البریکٹ آج 90 سال کی ہو گئی ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ، اُن کا تعلق کیسے ہوا ، یہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔ جب وہ 18 سال کی تھیں ، تو انہیں پہلی مرتبہ بھارتی ثقافتی کی قوت کے تعارف ہوا ۔ انہوں نے ہندوستان میں کافی وقت گزارا ۔ انہوں نے بھگوت گیتا اور اُپنیشدوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ آج ہستینا پور فاؤنڈیشن میں 40 ہزار سے زیادہ ارکان ہیں اور ارجنٹینا اور دیگر لاطینی امریکی ملکوں میں تقریباً 30 شاخیں ہیں ۔ ہستینا پور فاؤنڈیشن نے 100 سے زیادہ ویدک اور فلسفے کی کتابیں اسپینی زبان میں شائع کی ہیں ۔ ان کا آشرم بھی بہت پرکشش ہے۔ آشرم میں بارہ مندر تعمیر کئے گئے ہیں ، جن میں بہت سے دیوی اور دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں ۔ ان سب کے مرکز میں ایک ایسا مندر بھی ہے ، جسے اَدویت وادی دھیان کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔
ساتھیو ، ایسی سینکڑوں مثالیں بتاتی ہیں کہ ہماری ثقافت نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک انمول ورثہ ہے۔ پوری دنیا کے لوگ اسے جاننا چاہتے ہیں، سمجھنا چاہتے ہیں، جینا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے ثقافتی ورثے کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اسے تمام لوگوں تک پہنچانا چاہیئے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے اور خاص کر ہمارے نوجوانوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اب تصور کریں کہ آپ ایک بار میں کتنے پش اپس کر سکتے ہیں۔ جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ یقیناً آپ کو حیرت سے بھر دے گا۔ منی پور کے 24 سالہ نوجوان تھونا اوجم نرنجوئے سنگھ نے ایک منٹ میں 109 پش اپس کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نرنجوئے سنگھ کے لئے ریکارڈ توڑنا کوئی نئی بات نہیں، جو اس سے پہلے ایک منٹ میں ایک ہاتھ سے سب سے زیادہ نکل پش اپس کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نرنجوئے سنگھ سے متاثر ہوں گے اور جسمانی فٹنس کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
ساتھیو ، آج میں آپ کے ساتھ لداخ کے بارے میں ایک ایسی ہی معلومات شیئر کرنا چاہتا ہوں ، جس کے بارے میں جان کر آپ یقیناً فخر محسوس کریں گے۔ لداخ کو جلد ہی ایک شاندار اوپن سنتھیٹک ٹریک اور آسٹرو ٹرف فٹ بال اسٹیڈیم کا تحفہ ملنے والا ہے ۔ یہ اسٹیڈیم 10 ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر بنایا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر جلد پوری ہونے والی ہے۔ یہ لداخ کا سب سے بڑا اوپن اسٹیڈیم ہوگا ، جہاں 30,000 شائقین ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ لداخ کے اس جدید فٹ بال اسٹیڈیم میں 8 لین والا مصنوعی ٹریک بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ ، ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہاسٹل کی سہولت بھی ہوگی۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ اس اسٹیڈیم کو فٹ بال کی سب سے بڑی تنظیم فیفا نے بھی سرٹیفائی کیا ہے۔ جب بھی اتنا بڑا کھیلوں کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہوتا ہے، اس سے ملک کے نوجوانوں کے لئے بڑے مواقع آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ، جہاں یہ انتظام ہوتا ہے ، وہاں ملک بھر سے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے ، سیاحت کو فروغ ملتا ہے اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس اسٹیڈیم سے لداخ میں ہمارے بہت سے نوجوانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات ‘ میں بھی ، ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ ایک اور موضوع ہے، جو اس وقت ہر کسی کے ذہن میں ہے اور وہ ہے کورونا کا موضوع ۔ بھارت کورونا کی نئی لہر کے ساتھ بڑی کامیابی کے ساتھ لڑ رہا ہے، یہ بھی فخر کی بات ہے کہ اب تک تقریباً 4.5 کروڑ بچے کورونا ویکسین کی خوراک لے چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 15 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 60 فیصد نوجوانوں کو تین سے چار ہفتے میں ہی ٹیکے لگائے گئے ہیں ۔ اس سے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی حفاظت ہوگی بلکہ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ 20 دنوں کے اندر ایک کروڑ لوگوں نے احتیاطی خوراک بھی لی ہے۔ ہمارے ملک کی ویکسین پر ہم وطنوں کا یہ اعتماد ہماری بڑی طاقت ہے۔ اب کورونا انفیکشن کے کیسز بھی کم ہونے لگے ہیں - یہ ایک بہت ہی مثبت علامت ہے۔ عوام محفوظ رہے، ملک کی معاشی سرگرمیوں کی رفتار برقرار رہے، یہ ہر شہری کی خواہش ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں ’ من کی بات‘ میں، کچھ چیزیں، میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا، جیسے، ہمیں ’سووچھتا مہم ‘ کو بھولنا نہیں ہے، ہمیں سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف مہم کو تیز کرنا چاہیئے۔ یہ ضروری ہے۔ ووکل فار لوکل کا منتر ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آتم نربھر بھارت کے لئے جی جان سے جٹے رہیں ۔ ہم سب کی کوششوں سے ہی ملک ترقی کی نئی اونچائیوں پر پہنچے گا ۔ اسی امید کے ساتھ ، میں آپ سب سے وداع لیتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ !
نئی دلّی ،26 دسمبر/ میرے پیارے ہم وطنو ! اس وقت آپ 2021 ء کو الوداع کہنے اور 2022 ء کا خیر مقدم کرنے کی تیاری میں مصروف ہوں گے ۔ نئے سال پر، ہر شخص، ہر ادارہ، آنے والے سال میں کچھ اور بہتر کرنے، بہتر بننے کے عہد لیتے ہیں ۔ پچھلے سات سالوں سے، ہماری ’ من کی بات ‘بھی ہمیں فرد، سماج، ملک کی بھلائی کو اجاگر کرکے مزید اچھا کرنے اور بہتر بننے کی ترغیب دے رہی ہے۔ ان سات سالوں میں ’من کی بات‘ کرتے ہوئے میں حکومت کی کامیابیوں پر بھی بات کر سکتا تھا۔ آپ کو بھی اچھا لگتا ، آپ نے بھی سراہا ہوتا لیکن یہ میرا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے کہ میڈیا کی چکاچوند سے دور، اخبارات کی سرخیوں سے دور، بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جو بہت کچھ اچھا کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنا آج ملک کے مستقبل کے لئے صرف کر رہے ہیں۔ آج، وہ ملک کی آنے والی نسلوں کے لئے اپنی کوششوں پر جی جان سے جٹے ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی باتیں بہت سکون دیتی ہیں، تحریک دیتی ہیں۔ میرے لئے ’من کی بات‘ ہمیشہ سے ایسے ہی لوگوں کی کوششوں سے بھرا ہوا ، کھلا ہوا ، سجا ہوا ایک خوبصورت باغ رہا ہے اور من کی بات میں تو ہر مہینے میری پوری کوشش ہی اِس بات پر ہوتی ہے ، اس باغ کی کون سی پنکھڑی آپ کے سامنے پیش کروں ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری خوبصورت زمین پر نیک کاموں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور آج جب ملک ’امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے تو یہ جو عوام کی قوت ہے ، ایک ایک شخص کی قوت ہے ، اُس کی تعریف ، اس کی کوشش ، اس کی محنت بھارت کے اور انسانیت کے تابناک مستقبل کے لئے ایک طرح سے گارنٹی دیتا ہے ۔
ساتھیو ، یہ عوام کی ہی طاقت ہے ، سب کی کوشش ہے کہ بھارت 100 سال میں آئی سب سے بڑی وباء سے لڑ سکا ہے ۔ ہم ہر مشکل وقت میں ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔ اپنے محلے یا شہر میں کسی کی مدد کرنے کے لئے ، جس سے جو ہو سکا ، اُس سے زیادہ کرنے کی کوشش کی ۔ اگر ہم آج دنیا میں ویکسینیشن کے اعداد و شمار کا موازنہ بھارت کے ساتھ کریں تو لگتا ہے کہ اس ملک نے ایسا بے مثال کام کیا ہے، کتنا بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ ویکسین کی 140 کروڑ خوراکوں کا سنگ میل عبور کرنا ہر ہندوستانی کی اپنی کامیابی ہے۔ یہ نظام پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے، سائنس پر اعتماد ظاہر کرتا ہے، سائنس دانوں پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے اور یہ ہم ہندوستانیوں کی قوت ارادی کا بھی ثبوت ہے، جو معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں لیکن دوستو ں ، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کورونا کی ایک نئی شکل نے دستک دی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کا ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اس عالمی وبا کو شکست دینے کے لئے بحیثیت شہری ہماری کوشش بہت ضروری ہے۔ ہمارے سائنسداں ، اس نئے اومیکرون قسم کا مسلسل مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہیں روزانہ نیا ڈیٹا مل رہا ہے، ان کی تجاویز پر کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں خود آگاہی، خود نظم و ضبط، ملک کے پاس کورونا کے اس قسم کے خلاف بڑی طاقت ہے۔ ہماری اجتماعی طاقت کورونا کو شکست دے گی، اس ذمہ داری کے ساتھ ہمیں 2022 ء میں داخل ہونا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مہابھارت کی جنگ کے دوران، بھگوان کرشن نے ارجن سے کہا تھا – ’نبھہ سپرشم دیپتم‘ ، یعنی فخر کے ساتھ آسمان کو چھونا۔ یہ ہندوستانی فضائیہ کا نعرہ بھی ہے۔ ماں بھارتی کی خدمت میں مصروف کئی زندگیاں ہر روز فخر کے ساتھ آسمان کی ان بلندیوں کو چھوتی ہیں، ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ گروپ کیپٹن ورون سنگھ کی زندگی ایسی ہی تھی۔ ورون سنگھ ، اس ہیلی کاپٹر کو اڑا رہے تھے ، جو اس ماہ تمل ناڈو میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں، ہم نے ملک کے پہلے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت اور ان کی اہلیہ سمیت کئی بہادروں کو کھو دیا۔ ورون سنگھ بھی کئی دن تک موت کے ساتھ بہادری سے لڑے لیکن پھر وہ بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جب ورون اسپتال میں تھے، میں نے سوشل میڈیا پر کچھ ایسا دیکھا ، جو میرے دل کو چھو گیا۔ انہیں اس سال اگست میں شوریہ چکر سے نوازا گیا تھا۔ اس اعزاز کے بعد ، انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کو خط لکھا تھا ۔ اس خط کو پڑھ کر میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ، وہ جڑوں کو سیراب کرنا نہیں بھولے۔ دوسرا یہ کہ جب ان کے پاس جشن منانے کا وقت تھا تو انہوں نے آنے والی نسلوں کی فکر کی۔ وہ چاہتے تھے کہ جس اسکول میں وہ پڑھے تھے ، وہاں کے طلباء کی زندگی بھی ایک جشن کی طرح بنیں ۔ ورون سنگھ نے اپنے خط میں اپنی بہادری کو بیان نہیں کیا بلکہ اپنی ناکامیوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ، انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو قابلیت میں تبدیل کیا۔ اس خط میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے -
“ It is ok to be mediocre. Not everyone will excel at school and not everyone will be able to score in the 90s. If you do, it is an amazing achievement and must be applauded. However, if you don't, do not think that you are meant to be mediocre. You may be mediocre in school but it is by no means a measure of things to come in life. Find your calling - it could be art, music, graphic design, literature, etc. Whatever you work towards, be dedicated, do your best. Never go to bed, thinking, I could have put-in more efforts.
دوستو، اوسط سے غیر معمولی بننے کا ، انہوں نے ، جو منتر دیا ہے ، وہ بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ اس خط میں ورون سنگھ نے لکھا ہے۔
“Never lose hope. Never think that you cannot be good at what you want to be. It will not come easy, it will take sacrifice of time and comfort. I was mediocre, and today, I have reached difficult milestones in my career. Do not think that 12th board marks decide what you are capable of achieving in life. Believe in yourself and work towards it."
ورون نے لکھا کہ اگر وہ ایک طالب علم کو بھی ترغیب دے سکے تو یہ بہت ہوگا لیکن، آج میں کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے پوری قوم کو ترغیب دی ہے۔ ان کا خط بھلے ہی صرف طالب علموں کے نام ہے لیکن انہوں نے ہمارے پورے معاشرے کو پیغام دیا ہے ۔
دوستو، میں ہر سال امتحانات کے موقع پر طلبا کے ساتھ پریکشا پر چرچا کرتا ہوں ۔ اس سال بھی میں امتحانات سے پہلے طلبا سے بات کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ اس پروگرام کے لئے رجسٹریشن بھی دو دن بعد MyGov.in پر 28 دسمبر سے شروع ہونے والے ہے۔ یہ رجسٹریشن 28 دسمبر سے 20 جنوری تک جاری رہے گا۔ اس کے لئے 9ویں سے 12ویں جماعت کے طلبا، اساتذہ اور والدین کے لئے آن لائن مقابلہ بھی منعقد کیا جائے گا۔ میں چاہوں گا کہ آپ سب اس میں حصہ لیں۔ آپ سے ملنے کا موقع ملے گا۔ ہم ایک ساتھ مل کر امتحان، کیریئر، کامیابی اور طالب علم کی زندگی سے متعلق بہت سے پہلوؤں پر غور و فکر کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں، اب میں آپ کو ایک ایسی بات بتانے جا رہا ہوں ، جو بہت دور، سرحد پار سے آئی ہے۔ اس سے آپ کو خوشی بھی ہو گی اور حیرانی بھی ہو گی:
(Instrumental + Vocal (VandeMatram)
वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम्
सुजलां सुफलां मलयजशीतलाम्
शस्यशामलां मातरम् । वन्दे मातरम्
शुभ्रज्योत्स्नापुलकितयामिनीं
फुल्लकुसुमितद्रुमदलशोभिनीं
सुहासिनीं सुमधुर भाषिणीं
सुखदां वरदां मातरम् ।। १ ।।
वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम् ।
مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو یہ سن کر بہت اچھا لگا ہو گا ، فخر محسوس ہوا ہوگا ۔ وندے ماترم میں ، جو بھی جذبہ چھپا ہوا ہے ، وہ ہمیں فخر اور جوش سے بھر دیتا ہے ۔
ساتھیو ، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ خوبصورت ویڈیو کہاں کی ہے، کس ملک سے آئی ہے؟ جواب آپ کی حیرت میں اضافہ کر دے گا۔ وندے ماترم پیش کرنے والے یہ طلبا یونان سے ہیں۔ وہاں وہ الیا کے ہائی اسکول میں پڑھ ر ہے ہیں ۔ انہوں نے ، جس خوبصورتی اور جذبے کے ساتھ ’وندے ماترم‘ گایا ہے ، وہ حیرت انگیز اور قابل تعریف ہے۔ اس طرح کی کوششیں دونوں ملکوں کے لوگوں کو قریب لاتی ہیں۔ میں یونان کے ، ان طلباء اور طالبات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران کی گئی ، ان کی کوشش کی ستائش کرتا ہوں۔
ساتھیو ، میں لکھنؤ کے رہنے والے نیلیش جی کی ایک پوسٹ پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ نیلیش جی نے لکھنؤ میں منعقد ہونے والے انوکھے ڈرون شو کی بہت تعریف کی ہے۔ یہ ڈرون شو لکھنؤ کے ریذیڈنسی علاقے میں منعقد کیا گیا تھا۔ 1857 ء کی پہلی جدوجہد آزادی کی شہادت آج بھی ریذیڈنسی کی دیواروں پر نظر آتی ہے۔ ریزیڈنسی میں منعقدہ ڈرون شو میں ہندوستانی جدوجہد آزادی کے مختلف پہلوؤں کو زندہ کیا گیا۔ ’چوری چورا آندولن‘ ہو، ’کاکوری ٹرین‘ کا واقعہ ہو یا نیتا جی سبھاش کی بے مثال ہمت اور بہادری، اس ڈرون شو نے سب کا دل جیت لیا۔ اسی طرح آپ اپنے شہروں، دیہاتوں کی تحریک آزادی سے متعلق منفرد پہلوؤں کو بھی لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی کی بھی مدد لے سکتے ہیں ۔ آزادی کا امرت مہوتسو ہمیں جدوجہد آزادی کی یادوں کو جینے کا موقع فراہم کرتا ہے، ہمیں اس کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا تہوار ہے، ملک کے لئے کچھ کرنے کے عزم کو ظاہر کرنے کا ایک متاثر کن موقع ہے۔ آئیے ، ہم جدوجہد آزادی کی عظیم ہستیوں سے ترغیب پاوتے رہیں اور ملک کے لئے اپنی کوششوں کو مضبوط کرتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا ہندوستان بہت سی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہے، جن کی تخلیقی صلاحیت دوسروں کو کچھ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایسے ہی ایک شخص تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کوریلا وٹھلاچاریہ ہیں۔ ان کی عمر 84 سال ہے۔ وٹھلاچاریہ جی اس کی ایک مثال ہیں کہ جب آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کی بات آتی ہے تو عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ دوستو، وٹھلاچاریہ جی کی بچپن سے ہی خواہش تھی کہ وہ ایک بڑی لائبریری کھولیں۔ ملک تب غلام تھا، کچھ حالات ایسے تھے کہ بچپن کا خواب پھر خواب ہی رہ گیا۔ وقت کے ساتھ، وٹھلاچاریہ ایک لیکچرر بن گئے، تیلگو زبان کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس میں بہت سی کمپوزیشنز تخلیق کیں۔ 6-7 سال پہلے وہ ایک بار پھر اپنا خواب پورا کرنے میں لگ گئے ۔ انہوں نے لائبریری کا آغاز اپنی کتابوں سے کیا۔ اپنی زندگی کی کمائی اس میں لگا دی۔ آہستہ آہستہ لوگ اس میں شامل ہو کر اپنا تعاون کرنے لگے۔ یدادری - بھوناگیری ضلع کے رمناّ پیٹ منڈل کی ، اس لائبریری میں تقریباً 2 لاکھ کتابیں ہیں۔ وٹھلاچاریہ جی کہتے ہیں کہ پڑھائی کے سلسلے میں انہیں جن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ، وہ کسی اور کو نہ کرنا پڑے ۔ انہیں آج یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ بڑی تعداد میں طلباء کو ، اِس کا فائدہ مل رہا ہے ۔ ان کی کوششوں سے ترغیب پاکر کئی دوسرے گاؤوں کے لوگ بھی لائبریری بنانے میں لگ گئے ہیں ۔
ساتھیو ، کتابیں نہ صرف علم دیتی ہیں بلکہ شخصیت کو سنوارتی ہیں اور زندگی کی تشکیل بھی کرتی ہیں۔ کتابیں پڑھنے کا شوق ایک عجیب سی تسکین دیتا ہے۔ آج کل میں دیکھتا ہوں کہ لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے اس سال اتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ اب میں ان کتابوں کو مزید پڑھنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے، جس میں مزید اضافہ ہونا چاہیئے۔ میں ’من کی بات’ کے سننے والوں سے بھی کہوں گا کہ وہ ہمیں اس سال کی آپ کی پانچ کتابوں کے بارے میں بتائیں ، جو آپ کی پسندیدہ رہی ہیں۔ اس طرح آپ دوسرے قارئین کو بھی 2022 ء میں اچھی کتابوں کا انتخاب کرنے میں مدد کر سکیں گے۔ ایک ایسے وقت میں ، جب ہمارا اسکرین ٹائم بڑھ رہا ہے، کتابوں کا مطالعہ بھی زیادہ سے زیادہ مقبول بنیں ، اس کے لئے بھی ہمیں مل کر کوششیں کرنی ہوں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، حال ہی میں میرا دھیان ایک اور دلچسپ کوشش کی طرف گیا ہے۔ یہ کوشش ہمارے قدیم گرنتھوں اور تہذیبی اقدار کو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبول بنانے کی ہے ۔ پونے میں بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک مرکز ہے۔ اس ادارے نے دوسرے ممالک کے لوگوں کو مہابھارت کی اہمیت سے واقف کرانے کے لئے ایک آن لائن کورس شروع کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اگرچہ یہ کورس ابھی ابھی شروع ہوا ہے لیکن اس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ، اسے تیار کرنے کا آغاز 100 سال سے بھی پہلے ہوا تھا ، جب ادارے نے اس سے جڑا کورس شروع کیا تو اسے زبردست رد عمل حاصل ہوا ۔ میں اس شاندار پہل کی بات اس لئے کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہماری روایات کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح جدید انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سات سمندر پار بیٹھے لوگوں تک ، اس کا فائدہ کیسے پہنچے ، اس کے لئے بھی اننوویٹیو طریقے اپنائے جا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج پوری دنیا میں ہندوستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ مختلف ممالک کے لوگ ہماری ثقافت کے بارے میں نہ صرف جاننے کے لئے بے تاب ہیں بلکہ اسے بڑھانے میں مدد بھی کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت سربیا کے اسکالر ڈاکٹر مومیر نکیچ ہیں ( سربائی دانشور ڈاکٹر مومیر نیکیچی )۔ انہوں نے ایک دو لسانی سنسکرت-سربیائی ڈکشنری تیار کی ہے۔ اس ڈکشنری میں شامل سنسکرت کے 70 ہزار سے زیادہ الفاظ کا سربیائی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ڈاکٹر نکیچ نے 70 سال کی عمر میں سنسکرت زبان سیکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں مہاتما گاندھی کے مضامین پڑھ کر تحریک ملی۔ اسی طرح کی ایک مثال منگولیا کے 93 سالہ پروفیسر جے گینڈوارم بھی ہے۔ پچھلی 4 دہائیوں میں، انہوں نے تقریباً 40 قدیم تحریروں، نظموں اور ہندوستان کے کاموں کا منگول زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ملک میں بھی بہت سے لوگ اس قسم کے جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مجھے گوا کے ساگر مولے جی کی کوششوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے، جو سینکڑوں سال پرانی ’کاوی‘ پینٹنگ کو معدوم ہونے سے بچانے میں مصروف ہیں۔ ’کاوی‘ پینٹنگ اپنے آپ میں ہندوستان کی قدیم تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ دراصل، ’ کاویہ‘ کا مطلب سرخ مٹی ہے۔ قدیم زمانے میں ، اس فن میں سرخ مٹی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ گوا میں پرتگالی دور حکومت میں ، وہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں نے دوسری ریاستوں کے لوگوں کو ، اس شاندار پینٹنگ سے متعارف کرایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پینٹنگ ختم ہوتی جا رہی تھی لیکن ساگر مولے جی نے ، اس فن کو نئی زندگی دی ہے۔ ان کی کاوشوں کو بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ساتھیو ، ایک چھوٹی سی کوشش، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا قدم بھی ہمارے شاندار فنون کے تحفظ میں بہت بڑا تعاون کر سکتا ہے۔ اگر ہمارے ملک کے لوگ عزم کر لیں تو ملک بھر میں اپنے قدیم فنون کو سجانے، سنوارنے اور بچانے کا جذبہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ میں نے یہاں صرف چند کوششوں کے بارے میں بات کی ہے۔ ملک بھر میں ایسی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آپ ، ان کی معلومات نمو ایپ کے ذریعے مجھ تک ضرور پہنچائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، اروناچل پردیش کے لوگ ایک سال سے ایک انوکھی مہم چلا رہے ہیں اور اسے’’اروناچل پردیش ایئرگن سرینڈر مہم ‘ کا نام دیا ہے۔ اس مہم میں، لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی ایئرگنز حوالے کر رہے ہیں ۔ جانتے ہیں کیوں؟ تاکہ اروناچل پردیش میں پرندوں کے اندھا دھند شکار کو روکا جاسکے۔ دوستو، اروناچل پردیش پرندوں کی 500 سے زیادہ اقسام کا گھر ہے۔ ان میں کچھ دیسی پرندوں کی اقسام بھی شامل ہیں، جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں لیکن آہستہ آہستہ اب جنگلوں میں پرندوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔ اب اس کو سدھارنے کے لئے یہ ایئرگن سرینڈر مہم چلائی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں، پہاڑ سے لے کر میدانوں تک، ایک کمیونٹی سے دوسری کمیونٹی تک، پوری ریاست کے لوگوں نے اسے کھلے دل سے اپنایا ہے۔ اروناچل کے لوگوں نے اپنی مرضی سے 1600 سے زیادہ ایئرگنس سپرد کر دی ہیں۔ میں اس کے لئے اروناچل کے لوگوں کی تعریف اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کی طرف سے 2022 ء سے متعلق بہت سے پیغامات اور مشورے آئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، زیادہ تر لوگوں کے پیغامات میں ایک موضوع ہوتا ہے۔ یہ ہے صفائی اور صاف بھارت کا۔ صفائی کا یہ عزم نظم و ضبط، بیداری اور لگن سے ہی پورا ہو گا۔ اس کی ایک جھلک این سی سی کیڈٹس کے ذریعہ شروع کی گئی پونیت ساگر ابھیان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس مہم میں 30 ہزار سے زیادہ این سی سی کیڈٹس نے حصہ لیا۔ این سی سی کے ان کیڈٹس نے ساحلوں کی صفائی کی، وہاں سے پلاسٹک کا کچرا ہٹایا اور اسے ری سائیکلنگ کے لئے جمع کیا۔ ہمارے ساحل، ہمارے پہاڑ تبھی گھومنے کے قابل ہوتے ہیں ، جب وہاں صفائی ستھرائی ہو ۔ بہت سے لوگ زندگی بھر کسی نہ کسی جگہ جانے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن جب وہ وہاں جاتے ہیں تو جانے انجانے کچرا بھی پھیلا آتے ہیں ۔ یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ جو جگہ ہمیں اتنی خوشی دیتی ہے ، ہم اُسے گندا نہ کریں ۔
ساتھیو ، مجھے صاف واٹر نام کے ایک اسٹارٹ اپ کے بارے میں معلوم ہوا ہے ، جسے کچھ نوجوانوں نے شروع کیا ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز کی مدد سے لوگوں کو اپنے علاقے میں پانی کی صفائی اور معیار سے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔ یہ صرف صفائی کا اگلا مرحلہ ہے۔ لوگوں کے صاف اور صحت مند مستقبل کے لئے اس سٹارٹ اپ کی اہمیت کے پیش نظر اسے گلوبل ایوارڈ بھی ملا ہے۔
ساتھیو ، ’ ایک قدم صفائی کی جانب ‘ ، اس کوشش میں ادارے ہوں یا حکومت، سب کا اہم کردار ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ پہلے سرکاری دفاتر میں کتنی پرانی فائلوں اور کاغذات کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ جب سے حکومت نے پرانے طریقوں کو تبدیل کرنا شروع کیا ہے، یہ فائلیں اور کاغذ کے ڈھیر ڈیجیٹل ہو کر کمپیوٹر کے فولڈر میں محفوظ ہو رہے ہیں۔ وزارتوں اور محکموں میں پرانے اور زیر التوا مواد کو ہٹانے کے لئے خصوصی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم سے کچھ بہت دلچسپ چیزین سامنے آئی ہیں ۔ محکمہ ڈاک میں ، جب یہ صفائی مہم شروع کی گئی تو وہاں کا کباڑ خانہ بالکل خالی ہوگیا۔ اب یہ کباڑ خانہ صحن اور کیفے ٹیریا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک اور کباڑ خانے کو دو پہیہ گاڑیوں کے لئے پارکنگ کی جگہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح، وزارت ماحولیات نے اپنے خالی کباڑ خانے کو فلاحی مرکز میں تبدیل کر دیا۔ شہری امور کی وزارت نے صاف ستھرا اے ٹی ایم بھی لگایا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کچرا دیں اور نقد رقم لے کر جائیں ۔ شہری ہوا بازی کی وزارت کے محکموں نے خشک پتوں اور درختوں سے گرنے والے فضلے سے نامیاتی کھاد بنانا شروع کیا ہے۔ یہ محکمہ بیکار کاغذ سے اسٹیشنری بنانے کا کام بھی کر رہا ہے۔ ہمارے سرکاری محکمے بھی صفائی جیسے موضوع پر اتنے جدت پسند ہو سکتے ہیں، چند سال پہلے تک کوئی اس پر یقین بھی نہیں کرتا تھا لیکن آج یہ نظام کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ملک کی نئی سوچ ہے ، جس کی قیادت تمام اہل وطن مل کر کر رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ’من کی بات‘ میں ، ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ ہر بار کی طرح ایک ماہ بعد پھر ملیں گے لیکن 2022 ء میں۔ ہر نئی شروعات آپ کی صلاحیت کو پہچاننے کا موقع بھی لاتی ہے۔ اہداف ، جن کا ہم نے پہلے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آج ملک ان کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے یہاں کہاوت ہے -
क्षणश: कणशश्चैव, विद्याम् अर्थं च साधयेत्।
क्षणे नष्टे कुतो विद्या, कणे नष्टे कुतो धनम्।|
یعنی جب ہم علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں، کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر ایک لمحے سے استفادہ کرنا چاہیئے اور جب ہمیں پیسہ کمانا ہے یعنی ترقی کرنی ہے تو پھر ہر ذرہ یعنی ہر وسائل کا صحیح استعمال کرنا چاہیئے کیونکہ لمحہ بہ لمحہ فنا ہوجانے کے ساتھ علم اور معلومات ختم ہوجاتی ہے اور ذرہ ذرہ فنا ہونے سے دولت اور ترقی کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز ہم تمام ہم وطنوں کے لئے ایک ترغیب ہے۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے، نئی ایجادات کرنی ہیں، نئے اہداف حاصل کرنے ہیں، اس لئے ہمیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کام کرنا ہو گا ۔ ہمیں ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، اس لئے ہمیں اپنے ہر وسائل کا بھرپور استعمال کرنا ہو گا ۔ ایک طرح سے یہ آتم نربھر بھارت کا منتر بھی ہے کیونکہ جب ہم اپنے وسائل کا صحیح استعمال کریں گے، ہم انہیں ضائع نہیں ہونے دیں گے، تبھی تو ہم لوکل کی طاقت پہچانیں گے، تبھی ملک خود کفیل ہوگا۔ اس لئے ، آئیے ہم اپنا عہد دوہرائیں کہ بڑا سوچیں گے ، بڑے خواب دیکھیں گے اور انہیں پورا کرنے کے لئے جی جان لگا دیں گے اور ہمارے خواب صرف ہم تک ہی محدود نہیں ہوں گے ۔ ہمارے خواب ایسے ہوں گے ، جن سے ہمارے معاشرے اور ملک کی ترقی جڑی ہو ، ہماری ترقی سے ملک کی ترقی کے راستے کھلیں اور اس کے لئے ہمیں آج ہی سے کام کرنا ہو گا ۔ بغیر ایک لمحہ گنوائیں ، بغیر ایک ذرہ گنوائیں ۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ اسی عہد کے ساتھ آنے والے سال میں ملک آگے بڑھے گا اور 2022 ء ایک نئے بھارت کی تعمیر کا سنہرا باب بنے گا ۔ اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کو 2022 ء کی ڈھیر ساری مبارکباد ۔ بہت بہت شکریہ ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج ہم ایک بار پھر ’من کی بات‘ کے لیے ایک ساتھ جڑ رہے ہیں۔ دو دن بعد دسمبر کا مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے اور دسمبر آتے ہی نفسیاتی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ چلئے بھائی سال پورا ہو گیا ہے۔ یہ سال کا آخری مہینہ ہے اور نئے سال کے لیے تانے بانے بننا شروع کر دیتے ہیں۔اسی مہینے نیوی ڈے آرمڈ فورسز فلیگ ڈے بھی ملک مناتا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ 16 دسمبر کو1971 کی جنگ کی گولڈن جوبلی بھی ملک منا رہا ہے۔ میں ان سبھی مواقع پر ملک کی سیکورٹی فورسز یاد کرتا ہوں، اپنے بہادروں کو یاد کرتا ہوں۔ اور خاص طور پر ان بہادر ماؤں کو یاد کرتا ہوں جنہوں نے ایسے بہادروں کو جنم دیا۔ ہمیشہ کی طرح، اس بار بھی مجھے نمو ایپ پر، مائی جی او وی پر آپ کے بہت سارے مشورے بھی ملے ہیں۔ آپ لوگوں نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ مانتے ہوئے اپنی زندگی کے سکھ دکھ بھی ساجھا کئے ہیں۔ ان میں بہت سارے نوجوان بھی ہیں، طلبا اور طالبات بھی ہیں۔ مجھے واقعی بہت اچھا لگتا ہے کہ’من کی بات‘ کا ہمارا یہ خاندان مسلسل بڑا تو ہوہی رہا ہے،من سے بھی جڑ رہا ہے اور مقصد سے بھی جڑ رہا ہے اور ہمارےگہرے ہوتے رشتے، ہمارے اندر، مسلسل مثبت نظریات کا ایک سلسلہ پیدا کررہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے سیتا پور کے اوجسوی نے لکھا ہے کہ امرت مہوتسو سے متعلق تذکرے انہیں بہت پسند آرہے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ’من کی بات‘ سنتے ہیں اور جنگ آزادی کے بارے کافی کچھ جاننے سیکھنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ ساتھیو، امرت مہوتسو سیکھنے کے ساتھ ہی ہمیں ملک کے لیے کچھ کرنے کی بھی تحریک دیتا ہے اور اب تو ملک بھر میں چاہے عام لوگ ہوں یا حکومتیں، پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک، امرت مہوتسو کی گونج ہے اور اس لگاتار اس مہوتسو سے متعلق پروگرامون کا سلسلہ چل رہا ہے، ایسا ہی ایک دلچسپ پروگرام گزشتہ دنوں دہلی میں ہوا۔’’آزادی کی کہانی - بچوں کی زبانی‘‘پروگرام میں بچوں نے جنگی آزادی سے متعلق کہانیاں پورے جذبے کے ساتھ پیش کیں۔ خاص بات یہ بھی رہی کہ اس میں بھارت کے ساتھ ہی نیپال، ماریشس، تنزانیہ، نیوزی لینڈ اور فجی کے طلبا بھی شامل ہوئے۔ ہمارے ملک کا مہارتن او این جی سی۔ او این جی سی بھی کچھ الگ طریقے سے امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ او این جی سی ان دنوں آئل فیلڈز اپنے طلباء کے لیے میں مطالعاتی دوروں کا اہتمام کر رہا ہے۔ ان دوروں میں، نوجوانوں کو او این جی سی کے آئل فیلڈ آپریشنز کی معلومات فراہم کرائی جارہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے ابھرتے ہوئے انجینئرز ملک کی تعمیر کی کوششوں میں پورے جوش اور جذبے کے ساتھ ہاتھ بٹا سکیں۔
ساتھیو، آزادی میں اپنی قبائلی برادری کے تعاون کو دیکھتے ہوئے ملک نے جن جاتیہ گورو ہفتہ بھی منایا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس سلسلے میں پروگرام بھی منعقد ہوئے۔ جزائر انڈمان اور نکوبار میں، جاروا اور اونگے، ایسی قبائلی برادریوں کے لوگوں نے اپنی ثقافت کا شاندار مظاہرہ کیا۔ ایک کمال کا کام ہماچل پردیش میں اونا کے منی ایچر رائٹر رام کمار جوشی نے بھی کیا ہے، انہوں نے ڈاک ٹکٹوں پر ہی یعنی تنے چھوٹی ڈاکٹ ٹکٹوں پر نیتا جی سبھاش چندر بوس اور سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی کے منفرد اسکیچ بنائے ۔ ہندی میں لکھے ’رام‘ لفظ پر انہوں نے اسکیچ تیار کئے جس میں مختصراً دونوں عظیم شخصیتوں کی سوانح عمری کو بھی درج کی ہے۔ مدھیہ پردیش کے کٹنی کے کچھ ساتھیوں نے بھی ایک یادگار داستان گوئی پروگرام کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں رانی درگاوتی کے ناقابل تسخیر حوصلے اور قربانی کی یادیں تازہ کی گئی ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام کاشی میں ہوا۔ گوسوامی تلسی داس، سنت کبیر، سنت رے داس، بھارتندو ہریش چندر، منشی پریم چند اور جے شنکر پرساد جیسی عظیم ہستیوں کے اعزاز میں تین روزہ مہوتس کا اہتمام کیا گیا۔ الگ الگ ادوار میں ان سبھی کا ملک میں عوامی بیداری پھیلانے میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ں کہ ’من کی بات‘ کی گزشتہ قسط کے دوران میں نے تین مقابلوں کا ذکر کیا تھا، کمپٹیشن کی بات کہی تھی۔ ایک حب الوطنی کے گیت لکھنا، حب الوطنی سے جڑے، تحریک آزادی سے متعلق واقعات کی رنگولیاں بنانا اور ہمارے بچوں کے ذہنوں میں عظیم الشان بھارت کے خواب جگانے والی لوری لکھی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ان مقابلوں کے لیے بھی آپ ضرور انٹری بھی بھیج چکے ہوں گے، اسکیم بھی تیار کرچکے ہوں گے اور اپنے ساتھیوں سے ذکر کرچکے ہوں گے۔ مجھے امید ہے بڑھ چڑک کرکے بھارت کے ہر کونے اس پروگرام کو آپ ضرور آگے بڑھائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس تذکرے سے اب میں آپ کو سیدھے ورنداون لے کر چلتا ہوں۔ ورنداون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کی محبت کا براہ راست مظہر ہے۔ ہمارے سنتوں نے بھی کہا ہے کہ
यह आसा धरि चित्त में, यह आसा धरि चित्त में,
कहत जथा मति मोर।
वृंदावन सुख रंग कौ, वृंदावन सुख रंग कौ,
काहु न पायौ और।
یعنی ورنداون کی شان، ہم سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بیان ضرور کرتے ہیں، لیکن ورنداون کی سکھ ہے، یہاں کا رس ہے، اس کاآخری سراکوئی نہیں پا سکتا، وہ تو لامحدود ہے۔ تبھی تو ورنداون دنیا بھر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر تا رہا ہے۔ اس کی چھاپ آپ کو دنیا کے کونے کونے میں مل جائے گی۔
مغربی آسٹریلیا کا ایک شہر ہے پرتھ۔ کرکٹ کے شائقین اس جگہ سے بخوبی واقف ہوں گے، کیونکہ پرتھ میں اکثر کرکٹ کے میچ ہوتے رہتے ہیں۔ پرتھ میں ایک ’سیکرڈ انڈیا گیلری‘ کے نام سے ایک آرٹ گیلری بھی ہے۔ یہ گیلری سوان ویلی کے ایک خوبصورت علاقے میں بنائی گئی ہے اور یہ آسٹریلیا کی رہنے والے جگت تارینی داسی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جگت تارینی جی ویسے تو ہیں آسٹریلیا کی، جنم بھی وہیں ہوا، پرورش بھی وہیں ہوئی، لیکن 13 سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ورنداون میں آکر انہوں نے گزارا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ آسٹریلیا لوٹ تو گئیں، اپنے ملک واپس تو گئیں، لیکن وہ ورنداون کو کبھی بھول نہیں پائی۔ اس لئے انہوں نے ورنداون اور اس کے روحانی اثر سے جڑنے کے لیے، آسٹریلیا میں ہی ورنداون کھڑا کردیا۔ اپنے فن کو ہی ذریعہ بنا کر انہوں نے ایک حیرت انگیز ورنداون بنالیا۔ یہاں آنے والے لوگوں کو کئی طرح کے فن پارے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ انہیں بھارت کے سب سے زیادہ معروف مقدس مقامات ورنداون، نوادیپ اور جگن ناتھ پوری کی روایت اور ثقافت کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں پر بھگوان کرشن کی زندگی سے متعلق بہت سے فن پارے بھی آویزاں ہیں۔ ایک فن پارہ ایسا بھی ہے، جس میں بھگوان کرشنا نے گووردھن پہاڑ کو اپنی چھوٹی انگلی پر اٹھا رکھا ہے، جس کے نیچے ورنداون کے لوگوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ جگت تارینی جی کی یہ شاندار کوشش، واقعی ہمیں کرشن بھکتی کی طاقت کا درشن کراتی ہے۔ میں انہیں اس کوشش کے لیے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی میں آسٹریلیا کے پرتھ میں واقع ورنداون کی بات کر رہا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے کہ آسٹریلیا کا ایک رشتہ ہمارے بندیل کھنڈ کے جھانسی سے بھی ہے۔ درحقیقت جھانسی کی رانی لکشمی جب بائی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف قانونی لڑائی لڑ رہی تھیں تو ان کے وکیل جان لینگ تھے۔ جان لینگ کا تعلق اصل میں آسٹریلیا سے تھا۔ بھارت میں رہ کر انہوں نے رانی لکشمی بائی کا مقدمہ لڑا تھا۔ ہماری جنگ آزادی میں جھانسی اور بندیل کھنڈ کا کتنا بڑا تعاون ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ یہاں رانی لکشمی بائی اور جھلکاری بائی جیسی بہادر خواتین بھی ہوئی ہیں اور میجر دھیان چند جیسے کھیل رتن بھی اس خطے نے ملک کو دیئے ہیں۔
ساتھیو، بہادری صرف میدان جنگ میں ہی دکھائی جائے ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ بہادری جب ایک عہد بن جاتی ہے اور پھیلتی ہے اور ہر میدان میں بہت سے کام ہونے لگتے ہیں۔ مجھے ایسی ہی بہادری کے بارے میں محترمہ جیوتسنا نے خط لکھ کر بتایا ہے۔ جالون میں ایک روایتی ندی تھی - نون ندی۔ نون، یہاں کے کسانوں کے لیے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ نون ندی معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی، جو تھوڑا بہت وجود اس ندی کا بچا تھا، اس میں وہ نالے میں تبدیل ہو رہی تھی، اس سے کسانوں کے لیے آبپاشی کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ جالون کے لوگوں نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اسی سال مارچ میں اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ہزاروں گاؤں والے اور مقامی لوگ اپنی مرضی سے اس مہم سے جڑے۔ یہاں کی پنچایتوں نے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا اور آج اتنی کم مدت میں اور بہت کم لاگت میں یہ ندی پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔ بہت سے کسانوں کو اس سے فائدہ ہورہا ہے۔ جنگ کے میدان سے الگ بہادری کی یہ مثال ہمارے ہم وطنوں کی قوتِ ارادی کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر ہم پرعزم ہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں اور تبھی تو میں کہتا ہوں کہ سب کا پریاس۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہم قدرت کا تحفظ کرتے ہیں تو بدلے میں قدرت بھی ہمیں تحفظ اور حفاظت فراہم کرتی ہے۔اس بات کو ہم اپنی ذاتی زندگی میں بھی محسوس کرتے ہیں اور ایسی ہی ایک مثال تمل ناڈو کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر پیش کی ہے۔ یہ مثال ہے تمل ناڈو کے توتو کوڑی ضلع کی۔ ہم جانتے ہیں کہ ساحلی علاقے بعض اوقات زمین کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ توتوکوڑی میں بھی کئی چھوٹے جزیرے اور ٹاپو ایسے تھے جن کے سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ یہاں کے لوگوں اور ماہرین نے اس قدرتی آفت سے بچنے کے لئے قدرتی طریقہ ہی تلاش کیا۔ یہ لوگ اب ان جزائر پر پالمیرا کے درخت لگا رہے ہیں۔ یہ درخت سائیکلوں اور طوفانوں میں بھی کھڑے رہتے ہیں اور زمین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان اب اس علاقے کو بچانے کا ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔
ساتھیو، قدرت ہمارے لیے خطرہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس کا توازن بگاڑ تے ہیں یا اس کے تقدست کو تباہ کرتے ہیں۔ قدرت، ماں کی طرح ہماری پرورش بھی کرتی ہے اور ہماری دنیا میں نئے نئے رنگ بھی بھر تی ہے۔
ابھی میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ میگھالیہ میں ایک فلائنگ بوٹ کی تصویر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ پہلی ہی نظر یہ تصویر ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ آپ میں سے بھی زیادہ تر لوگوں نے اسے آن لائن ضرور دیکھا ہوگا۔ ہوا میں تیرتی اس کشتی کو جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ندی کے پانی میں چل رہی ہے۔ ندی کا پانی اتنا صاف ہے کہ ہمیں اس کی تلہٹی نظر آتی ہے اور کشتی ہوا میں تیرتی سے لگ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ریاستیں ہیں، کئی علاقے ہیں جہاں لوگوں نے اپنی قدرتی وراثت کے رنگوں کو محفوظ رکھا ہے۔ ان لوگوں نے قدرت کے ساتھ مل کر رہنے کے طرز زندگی کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ یہ ہم سب کو بھی تحریک دیتی ہے۔ ہمارے اردگرد جتنے بھی قدرتی وسائل ہیں، ہمیں ان کو بچانا چاہیے، انھیں پھر سے ان کی اصلی شکل میں لانا چاہئیے۔ اسی میں ہم سب کا مفاد ہے، دنیا کا مفاد ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، حکومت جب اسکیمیں تیار کرتی ہے، بجٹ خرچ کرتی ہے،وقت پر پروجیکٹوں کو مکمل کرتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ کام کر رہی ہے۔ لیکن حکومت کے متعدد کاموں میں ترقی کی متعدد اسکیموں کے درمیان، انسانی احساسات سے جڑی باتیں ہمیشہ ایک الگ ہی خوشی دیتی ہیں۔ حکومت کی کوششوں سے حکومت کی اسکیموں سے کیسے کوئی زندگی بدلی، اس بدلی ہوئی زندگی کا تجربہ کیا ہے؟ جب یہ سنتے ہیں تو ہم بھی احساسات سے پر ہوجاتے ہیں۔ یہ من کو اطمینان بھی دیتا ہے اور اس اسکیم کو لوگوں تک پہنچانے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ ایک طرح سے یہ ’سوانتہ: سکھائے‘ ہی تو ہے اور اس لئے ’من کی بات‘ ہمارے ساتھ دو ایسے ہی ساتھی بھی جڑ رہے ہیں جو اپنے حوصلوں سے ایک نئی زندگی جیت کر آئے ہیں۔ انہوں نے آیوشمان بھارت اسکیم کی مدد سے اپنا علاج کرایا اور ایک نئی زندگی شروع کی ہے۔ ہمارے پہلے ساتھی ہیں راجیش کمار پرجاپتی ہیں، جو عارضہ قلب سے پریشان تھے۔
تو آئیے راجیش جی سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم : راجیش جی نمستے۔
راجیش پرجاپتی : نمستے سر نمستے۔
وزیر اعظم : راجیش جی آپ کو کیا بیماری تھی؟ پھر کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے، مجھے ذرا سمجھایئے، مقامی ڈاکٹر نے کہا ہو گا، پھر کسی اور ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے؟ پھر آپ فیصلہ نہیں کرتے ہوں گے یا کرتے ہوں گے ،کیا کیا ہوتا تھا؟
راجیش پرجاپتی: جی مجھے دل کا عارضہ لاھق ہوگیا تھا سر، میرے سینے میں جلن ہوتی تھی،سر، پھر میں نے ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر نےپہلے توو بتایا کہ ہوسکتا بیٹا تمہارے ایسڈ ہوگی، تو میں نے کافی دن تک ایسڈ کی دوائی کرائی، اس سے جب مجھے فائدہ نہیں ہوا تو پھر ڈاکٹر کپور کو دکھایا، تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تمہاری علامات ہیں اس کے بارے میں انجیوگرافی سے پتہ چلے گا، پھر اس نے ریفر کیا مجھے شری رام مورتی میں۔ پھر ملے ہم امریش اگروال جی سے، تو انہوں نے میری انجیوگرافی کری۔ پھر انہوں نے بتایا کہ بیٹا یہ تو تمہاری نس بلاکیج ہے تو ہم نے کہا کہ سر اس مین کتنا خرچ آئے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ کارڈ ہے آیوشمان والا، جو پی ایم جی نے بناکر دیا ۔ تو ہم نے کہا سر ہمارے پاس ہے۔ تو انہوں نے میرا وہ کارڈ لیا اور میرا سارا علاج اسی کارڈ سے ہوا ہے۔ سر اور جو آپ نے یہ بنایا ہے کارڈ ئی بہت ہی اچھے طریقے سے اور ہم غریب آدمیوں کے لیے بہت بڑی سہولت ہے اس سے۔ اور آپ کا کیسے میں شکریہ ادا کروں؟
وزیر اعظم : آپ کرتے کیا ہیں راجیش جی ؟
راجیش پرجاپتی : سر، اس وقت تو میں پرائیویٹ نوکری کرتا ہوں سر
وزیر اعظم : اور آپ کی عمر کتنی ہے؟
راجیش پرجاپتی: میری عمر 59 سال ہے۔ سر
وزیر اعظم : اتنی چھوٹی عمر میں آپ کو عارضہ قلب ہوگیا۔
راجیش پرجاپتی: ہاں جی سر کیا بتائیں اب۔
وزیر اعظم : آپ کے خاندان میں بھی والد کو والدہ کو یا ا س طرح کا عارضہ پہلے رہا ہے کیا؟
راجیش پرجاپتی: نہیں سر، کسی کو نہیں تھاسر، یہ پہلا ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے۔
وزیر اعظم : یہ آیوشمان کارڈ حکومت ہند یہ کارڈ دہتی ہے ،غریبوں کے لیے بہت بڑی اسکیم ہے، تو یہ آپ کو پتہ کیسے چلا ؟
راجیش پرجاپتی: سر یہ تو اتنی بڑی اسکیم ہے، غریب آدمی کو اس سےبہت فائدہ ملتا ہے اور اتنا خوش ہیں سر، ہم نے اسپتال میں دیکھا ہے کہ اس کارڈ سے کتنے لوگوں کو سہولت ملتی ہے جب ڈاکٹر سے کہتا ہے کارڈ میرے پاس ہے سر۔ تو ڈاکٹر کہا ہے ٹھیک ہے وہ کارڈ لے کر آیئے میں اسی کارڈ سے آپ کا ا علاج کردوں گا۔
وزیراعظم: اچھا کارڈ نہ ہوتا تو آپ کو کتنا خرچ بولا تھا ڈاکٹر نے ۔
راجیش پرجاپتی : ڈاکٹر نے کہا تھا بیٹا اس میں بہت سارا خرچ آئے گا۔ بیٹا اگر کارڈ نہیں ہوگا۔ تو میں نے کہا سر کار تو ہے میرے پاس تو انہوں نے کہا کہ فوراً آپ دکھائیے تو ہم نے فوراً دکھایا اسی کارڈ سے سارا علاج میرا کیا گیا، میرا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا، ساری دوائیں بھی اسی کارڈ سے نکالی گئی ہیں۔
وزیر اعظم: تو راجیش جی، آپ کو اب سکون ہے، طبیعت ٹھیک ہے۔
راجیش پرجاپتی: جی سر، آپ کا بہت بہت شکریہ سر، آپ کی عمر بھی اتنی لمبی ہو کہ ہمیشہ اقتدار میں ہی رہیں، اور ہمارے خاندان کے لوگ بھی آپ سے اتنا خوش ہیں، کیا کہیں آپ سے۔
وزیر اعظم: راجیش جی، آپ مجھے اقتدار میں رہنے کی نیک خواہشات مت دیجئے، میں آج بھی اقتدار میں نہیں ہوں اور مستقبل میں بھی اقتدار میں جانا نہیں چاہتا ہوں۔ میں تو صرف خدمت میں پہ رہنا چاہتا ہوں، میرے لیے یہ عہدہ، یہ وزیراعظم ساری چیزیں یہ اقتدار کے لیے ہے ہی نہیں بھائی، خدمت کے لیے ہے۔
راجیش پرجاپتی: خدمت ہی تو چاہیئے ہم لوگوں کو اور کیا؟
وزیر اعظم: دیکھئے غریبوں کے لیے یہ آیوشمان بھارت اسکیم یہ اپنے آپ میں ۔
راجیش پرجاپتی: جی سر بہت بڑھیا چیز بات ہے۔
وزیر اعظم: لیکن دیکھئے راجیش جی، آپ ہمارا ایک کام کیجئے، کریں گے؟
راجیش پرجاپتی: جی بالکل کریں گے سر۔
وزیراعظم: دیکھئے ہوتاکیا ہے کہ لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہیں ہوتا ہے، آپ ایک ذمہ داری نبھایئے ایسے جتنے غریب خاندان ہیں، آپ کے آس پاس، ان کو اپنی یہ کیسے آپ کو فائدہ ہوا، کیسے مدد ملی یہ بتایئے؟
راجیش پرجاپتی: بالکل بتائیں گے سر۔
وزیر اعظم: اور ان کو کہئے کہ وہ بھی ایسا کارڈ بنوالیں تاکہ خاندان میں پتہ نہیں کب کیا مصیبت آجائے اور آج غریب دوا کی وجہ سے پریشان رہے یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ اب پیسوں کی وجہ سے وہ دوا نہ لے اور بیماری کا علاج نہ کرے تو یہ بھی بڑی تشویش کی بات ہے اور غریب کو تو کیا ہوتا ہے جیسے آپ کو یہ دل کا عارضہ ہوا تو کتنے مہینے تک تو آپ کام ہی نہیں کرپائیں ہوں گے۔
راجیش پرجاپتی: ہم تودس قدم نہیں چل پاتے تھے، زینا نہیں چڑھ پاٹے تھے سر
وزیر اعظم: بس تو آپ راجیش جی، میرے ایک اچھے ساتھی بن کر جنتے غریبوں کو آپ یہ آیوشمان بھارت اسکیم کے بارے میں سمجھا سکتے ہیں، ویسے بیمار لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں، دیکھئے آپ کو بھی سکون ہوگا اور مجھے بہت خوشی ہوگی کہ چلئے کی ایک راجیش جی کی طبیعت تو ٹھیک ہوئی لیکن راجیش جی نے سینکڑوں لوگوں کی طبیعت ٹھیک کروادی، یہ آیوشمان بھارت اسکیم، یہ غریبوں کے لیے ہے، یہ متوسط طبقے کے لیے ہے، یہ عام خاندانوں کے لیے ہے، تو گھر گھر اس بات کو پہنچائیں گے آپ۔
راجیش پرجاپتی: بالکل پہنچائیں گے سر۔ ہم تو وہیں تین دن رکے نا اسپتال میں سر تو بیچارے بہت لوگ آئے ، ساری سہولتیں ان کو بتائیں ، کارڈ ہوگا تو مفت میں ہو جائے گا۔
وزیر اعظم: چلئے راجیش جی، اپنے آپ کو تندرست رکھئے، تھوڑی جسم کی فکر کیجئے، بچوں کی فک کیجئے اور بہت ترقی کیجئے، میری بہت نیک خواہشات ہیں آپ کو۔
ساتھیو، ہم نے راجیش جی کی باتیں سنیں، آیئے اب ہمارے ساتھ سکھ دیوی جی جڑ رہی ہیں، گھٹنوں کی تکلیف نے انہیں بہت پریشان کررکھا تھا، آئیے ہم سکھ دیوی جی سے پہلے ان کی تکلیف کی بات سکتے ہیں اور پھرسکھ کیسے آیا وہ سمجھتے ہیں۔
مودی جی - سکھ دیوی جی نمستے! آپ کہاں سے بول رہی ہیں؟
سکھ دیوی جی – دندپرا سے۔
مودی جی - یہ کہاں پڑتا ہے یہ؟
سکھ دیوی جی – متھرا میں۔
مودی جی – متھرا میں، پھر تو سکھ دیوی جی، آپ کو نمستے بھی کہنا ہے اور ساتھ ساتھ رادھے۔رادھے بھی کہنا ہوگا۔
سکھ دیوی جی – ہاں، رادھے۔ رادھے
مودی جی – اچھا ہم نے سنا ہے کہ آپ کو تکلیف ہوئی تھی۔ آپ کا کوئی آپریشن ہوا۔ ذرا بتائیں گی کہ کیا با ت ہے؟
سکھ دیوی جی– ہاں میرا گھٹنا خراب ہوگیا تھا، تو آپریشن ہوا ہے میرا۔ پریاگ ہسپتال میں۔
مودی جی– آپ کی عمر کتنی ہے سکھ دیوی جی؟
سکھ دیوی جی – عمر 40 سال۔
مودی جی – 40 سال اور سکھ دیو نام، اور سکھ دیوی کو بیماری ہوگئی۔
سکھ دیوی جی – بیماری تو مجھے 15۔16 سال سے ہی لگ گئی۔
مودی جی – ارے باپ رے! اتنی چھوٹی عمر میں آپ کے گھٹنے خراب ہوگئے۔
سکھ دیوی جی – وہ گٹھیا ۔ بائے بولتے ہیں جو جوڑوں میں درد سے گھٹنا خراب ہوگیا۔
مودی جی – تو 16 سال سے 40 سال کی عمر تک آپ نے اس کا علاج ہی نہیں کرایا۔
سکھ دیوی جی – نہیں، کروایا تھا۔ درد کی دوائی کھاتے رہے، چھوٹے۔ موٹے ڈاکٹروں نے تو ایسی دیسی دوائی ہے ویسی دوائی ہے۔ جھولا چھاپ ڈاکٹروں نے تو ایسے ان سے گھٹنا چل بھی پائی خراب ہوگئی، 1۔2 کلومیٹر پیدل چلی میں تو گھٹنا خراب ہوگیا میرا۔
مودی جی – تو سکھ دیوی جی آپریشن کا خیال کیسے آیا؟ اس کے پیسوں کا کیا انتظام کیا؟ کیسے بنا یہ سب؟
سکھ دیوی جی – میں نے وہ آیوشمان کارڈ سے علاج کروایا ہے۔
مودی جی – تو آپ کو آیوشمان کارڈ مل گیا تھا؟
سکھ دیوی جی– ہاں۔
مودی جی – اور آیوشمان کارڈ سے غریبوں کو مفت میں علاج ہوتا ہے۔ یہ معلوم تھا؟
سکھ دیوی جی – اسکول میں میٹنگ ہو رہی تھی۔ وہاں سے ہمارے شوہر کو معلوم ہوا تو کارڈ بنوایا میرے نام سے۔
مودی جی – ہاں۔
سکھ دیوی جی – پھر علاج کروایا کارڈ سے، اور میں نے کوئی پیسہ نہیں لگایا۔ کارڈ سے ہی علاج ہوا ہے میرا۔ خوب بڑھیا علاج ہوا ہے۔
مودی جی – اچھا ڈاکٹر پہلے اگر کارڈ نہ ہوتا تو کتنا خرچ بتاتے تھے؟
سکھ دیوی جی – ڈھائی لاکھ روپئے، تین لاکھ روپئے۔ 6۔7 سال سے پڑی ہوں کھاٹ پر۔ یہ کہتی تھی کہ، ہے بھگوان مجھے لے لے تو، مجھے نہیں جینا۔
مودی جی – 6۔7 سال سے کھاٹ پے تھی۔ باپ رے باپ۔
سکھ دیوی جی – ہاں۔
مودی جی – او ہو۔
سکھ دیوی جی – بالکل اٹھا بیٹھا نہیں جاتا تھا۔
مودی جی – تو ابھی آپ کا گھٹنا پہلے سے اچھا ہو اہے؟
سکھ دیوی جی – میں خوب گھومتی ہوں۔ پھرتی ہوں۔ رسوئی کا کام کرتی ہوں۔ گھر کا کام کرتی ہوں۔ بچوں کو کھانا بناکر دیتی ہوں۔
مودی جی – تو مطلب آیوشمان بھارت کارڈ نے آپ کو سچ مچ میں آیوشمان بنا دیا۔
سکھ دیوی جی – بہت بہت شکریہ آپ کی اسکیم کی وجہ سے ٹھیک ہوگئی، اپنے پیرں پر کھڑی ہوگئی۔
مودی جی – تو اب تو بچوں کو بھی مزہ آتا ہوگا۔
سکھ دیوی جی – ہاں جی۔ بچوں کو تو بہت ہی پریشانی ہوتی تھی۔ اب ماں پریشان ہے تو بچہ بھی پریشان ہے۔
مودی جی – دیکھئے ہماری زندگی میں سب سے بڑی خوشی ہماری صحت ہی ہوتی ہے۔ یہ خوشحال زندگی سب کو ملے یہی آیوشمان بھارت کا جذبہ ہے، چلئے سکھ دیوی جی میری جانب سے آپ کو بہت بہت مبارکباد، پھر سے ایک بار آپ کو رادھے۔ رادھے۔
سکھ دیوی جی – رادھے۔رادھے، نمستے!
میرے پیارے اہل وطن، نوجوانوں کی اکثریت والے ملک میں تین چیزیں بہت معنی رکھتی ہیں۔ اب وہی تو کبھی کبھی نوجوان کی حقیقی شناخت بن جاتی ہے۔ پہلی چیز ہے – خیال اور اختراع۔ دوسری ہےخطرہ مول لینے کا جذبہ اور تیسری ہے کسی بھی کام کو پورا کرنے کی ضد، خواہ کتنے بھی برعکس حالات کیوں نہ ہوں، جب یہ تینوں چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو غیرمعمولی نتائج سامنے آتے ہیں۔ کرشمے ہوجاتے ہیں۔ آج کل ہم چاروں طرف سنتے ہیں ، اسٹارٹ اپ، اسٹارٹ اپ ، اسٹارٹ اپ۔ صحیح بات ہے، یہ اسٹارٹ اپ کا زمانہ ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ اسٹارٹ اپ کے میدان میں آج بھارت دنیا بھر میں ایک طرح سے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ سال در سال اسٹارٹ اپ کو ریکارڈ تعداد میں سرمایہ حاصل ہو رہا ہے۔ یہ شعبہ بہت تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی اسٹارٹ اپ کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کل ’یونی کارن‘ لفظ خوب سرخیوں میں ہے۔ آپ سب نے اس کے بارے میں سنا ہوگا۔ ’یونی کارن‘ ایک ایسا اسٹارٹ اپ ہوتا ہے جس کی قیمت کم سے کم ایک بلین ڈالر کے بقدر ہوتی ہے یعنی تقریباً سات ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ۔
ساتھیو، سال 2015 تک ملک میں بہ مشکل نو یا دس یونی کارن ہوا کرتے تھے۔ آپ کو یہ جان کر ازحد خوشی ہوگی کہ اب یونی کارنس کی دنیا میں بھی بھارت تیز اُڑان بھر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسی سال ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ محض 10 مہینوں میں ہی بھارت میں ہر 10 دن میں ایک یونی کارن بنا ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑی بات ہے کیونکہ ہمارے نواجوانوں نے یہ کامیابی کورونا وبائی مرض کے درمیان حاصل کی ہے۔ آج بھارت میں 70 سے زائد یونی کارنس ہو چکے ہیں۔ یعنی 70 سے زائد اسٹارٹ اپس ایسے ہیں جو ایک بلین سے زائد کی قیمت سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ساتھیو اسٹارٹ اپ کی کامیابی کی وجہ سے ہر کسی کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی ہے اور جس طرح سے ملک سے، غیر ممالک سے، سرمایہ کاروں سے اسے تعاون حاصل ہو رہا ہے۔ شاید کچھ برس قبل اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ساتھیو، اسٹارٹ اپس کے ذریعہ بھارتی نوجوان عالمی مسائل کے حل میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ آج ہم ایک نوجوان میور پاٹل سے بات کریں گے، انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آلودگی کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔
مودی جی– میور جی نمستے۔
میور پاٹل – نمستے سر جی۔
مودی جی – میور جی آپ کیسے ہیں؟
میور پاٹل – بس بڑھیا سر۔ آپ کیسے ہو؟
مودی جی – میں بہت خوش ہوں۔ اچھا مجھے بتایئے کہ آج آپ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں ہیں۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – اور Waste میں سے Best بھی کر رہے ہیں۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – Environment کا بھی کر رہے ہیں ، تھوڑا مجھے اپنے بارے میں بتایئے۔ اپنے کام کے بارے میں بتایئے اور اس کام کے پیچھے آپ کو خیال کہاں سے آیا؟
میور پاٹل – سر جب کالج میں تھا تب میرے پاس موٹرسائیکل تھی ، جس کا مائی لیج بہت کم تھا اور اخراج بہت زیادہ تھا۔ وہ 2 اسٹرائیک موٹرسائیکل تھی۔ تو اخراج کم کرنے کے لیے اور اس کا مائی لیج تھوڑا بڑھانے کے لیے میں نے کوشش شروع کی تھی۔ 2011۔12 میں اور اس کا میں نے تقریباً 62 کلو میٹر فی لیٹر تک مائی لیج بڑھا دیا تھا۔ تو وہاں سے مجھے یہ ترغیب حاصل ہوئی کہ کچھ ایسی چیز بنائیں جو مارس پروڈکشن کر سکتے ہیں، تو باقی بہت سارے لوگوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔ تو 2017۔18 میں ہم لوگوں نے اس کی تکنالوجی ڈیولپ کی اور علاقائی نقل و حمل کارپوریشن میں ہم لوگوں نے 10 بسوں میں وہ استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ چیک کرنے کے لیے اور قریب قریب ہم لوگوں نے اس کا چالیس فیصد اخراج کم کر دیا۔ بسوں میں۔
مودی جی – ہم! اب یہ تکنالوجی جو آپ نے دریافت کی ہے۔ اس کا پیٹنٹ وغیرہ کروا لیا۔
میور پاٹل – ہاں جی! پیٹنٹ ہوگیا۔ اس سال ہمیں پیٹنٹ گرانٹ ہوکر کے آگیا۔
مودی جی – اور آگے اس کو بڑھانے کا کیا منصوبہ ہے؟ آپ کا۔ کس طرح سے کر رہے ہیں؟ جیسے بس کا ریزلٹ آگیا۔ اس کی بھی ساری چیزیں باہر آگئی ہوں گی۔ تو آگے کیا سوچ رہے ہیں؟
میور پاٹل – سر، اسٹارٹ اپ انڈیا کے اندر نیتی آیوگ سے اٹل نیو انڈیا چیلنج جو ہے، وہاں سے ہمیں مدد ملی اور اس مدد کی بنیاد پر ہم لوگوں نے فیکٹری شروع کی جہاں پر ہم ایئر فلٹرس کی مینوفیکچرنگ کر سکتے ہیں۔
مودی جی – تو حکومت ہند کی جانب سے کتنی مدد ملی آپ کو؟
میور پاٹل – 90 لاکھ۔
مودی جی– 90 لاکھ۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – اور اس سے آپ کا کام چل گیا۔
میور پاٹل – ہاں ابھی تو شروع ہو گیا ہے۔ پروسیس میں ہے۔
مودی جی – آپ کتنے دوست مل کر کے کر رہے ہیں؟ یہ سب!
میور پاٹل – ہم چار لوگ ہیں سر۔
مودی جی – اور چاروں پہلے ساتھ میں ہی پڑھتے تھے اور اسی میں سے آپ کو ایک خیال آیا آگے بڑھنے کا۔
میور پاٹل – ہاں جی! ہاں جی! ہم کالج میں ہی تھے۔ اور کالج میں ہم لوگوں نے یہ سب سوچا اور یہ میرا آئیڈیا تھا کہ میری موٹرسائیکل کی آلودگی کم سے کم ہوجائے اور مائی لیج بڑھ جائے۔
مودی جی – اچھا آلودگی کم کرتے ہیں، مائی لیج بڑھاتے ہیں تو اوسط خرچ کتنا بچتا ہوگا؟
میور پاٹل – سر موٹرسائیکل پر ہم لوگوں نے ٹیسٹ کیا، اس کا مائی لیج تھا 25 کلومیٹر فی لیٹر، وہ ہم لوگوں نے بڑھا دیا 39 کلو میٹر فی لیٹر تو ، قریب قریب 14کلومیٹر کا فائدہ ہوا اور اس میں سے 40 فیصد کا کاربن اخراج کم ہوگیا۔ اور جب علاقائی نقل و حمل کارپوریشن نے بسوں پر کیا تو وہاں پر 10 فیصد ایندھن اثرانگیزی میں اضافہ ہوا اور اس میں بھی 35۔40 فیصد اخراج کم ہوگیا۔
مودی جی – میور مجھے بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے اور آپ کے ساتھیوں کو بھی میری طرف سے مبارکباد دیجئے کہ کالج کی زندگی میں خود کا جو مسئلہ تھا اس مسئلے کا حل بھی آپ نے تلاش لیا اور اب اس حل میں سے جو راستہ اختیار کیا اس نے ماحولیات کے مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اور یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی قوت ہی ہے جو کوئی بھی بڑی چنوتی اٹھا لیتے ہیں اور راستے تلاش رہے ہیں۔ میری جانب سے آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔
میور پاٹل – آپ کا شکریہ سر! آ پ کا شکریہ!
ساتھیو، کچھ برسوں قبل اگر کوئی کہتا تھا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتا ہے یا ایک کوئی نہیں کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے، تب کنبے کے بڑے بزرگ کا جواب ہوتا تھا کہ ’’تم نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتے، نوکری کرو نا بھائی۔ ارے نوکری میں سکیورٹی ہوتی ہے، تنخواہ ہوتی ہے۔ جھنجھٹ بھی کم ہوتی ہے۔ لیکن، آج اگر کوئی اپنی کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے تو اس کے آس پاس کے تمام لوگ بہت پرجوش ہوتے ہیں اور اس میں اس کا مکمل تعاون بھی کرتے ہیں۔ ساتھیو بھارت کی نمو کی داستان کایہ اہم موڑ ہے، جہاں اب لوگ صرف نوکری تلاش کرنے والا بننے کا خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ روزگار کےمواقع پیدا کرنے والے بھی بن رہے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر بھارت کی پوزیشن مزید مضبوط بنے گی۔
میرے پیارے اہل وطن حضرات، آج ’من کی بات‘ میں ہم نے امرت مہوتسو کی بات کی۔ امرت کال میں کیسے ہمارے اہل وطن نئے نئے عہد پور ے کر رہے ہیں، اس پر بات کی، اور ساتھ ہی دسمبر مہینے میں فوج کی شجاعت سے متعلق باتوں کا بھی ذکر کیا۔ دسمبر مہینے میں ہی ایک اور بڑا دن ہمار سامنے آتا ہے جس سے ہم ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ یہ دن ہے، 6 دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی ۔ بابا صاحب نے اپنی پوری زندگی ملک اور سماج کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے وقف کر دی تھی۔ ہم اہل وطن یہ کبھی نہ فراموش کریں کہ ہمارے آئین کا بھی بنیادی جذبہ، ہمارا آئین ہم سبھی اہل وطن سے اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توقع رکھتا ہے۔ تو آیئے، ہم بھی عہد کریں کہ امرت مہوتسو میں ہم فرائض کو پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کریں گے۔ یہی بابا صاحب امبیڈکر کے لیے ہمارا حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔
ساتھیو اب ہم دسمبر مہینے میں داخل ہو رہے ہیں، ظاہر ہے آئندہ ’من کی بات‘ 2021 کا آخری ’من کی بات‘ ہوگا۔ 2022 میں پھر سے سفر شروع کریں گے اور میں آپ سے ڈھیر سارے سجھاؤ کی توقع کرتا ہی رہوں گا۔ آپ اس سال کو کیسے وداع کر رہے ہیں، نئے سال میں کیا کچھ کرنے والے ہیں، یہ بھی ضرور بتایئے اور ہاں یہ بھی مت بھولنا کہ کورونا ابھی گیا نہیں ہے۔ احتیاط برتنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ سبھی کو نمسکار۔ کوٹی کوٹی (لاکھوں، کروڑوں) نمسکار۔ اور میں ’کوٹی کوٹی نمسکار‘ اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ 100 کروڑ ویکسین ڈوز کے بعد آج ملک نئے جوش، نئی توانائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ویکسین پروگرام کی کامیابی، بھارت کی صلاحیت کو دکھاتی ہے، سب کی کوشش کے منتر کی طاقت کو دکھاتی ہے۔
ساتھیو، 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا ڈیٹا بہت بڑا ضرور ہے، لیکن اس سے لاکھوں چھوٹے چھوٹے حوصلہ افزااور فخر سے پُر کر دینے والے متعدد تجربات، متعدد مثالیں جڑی ہوئی ہیں۔ بہت سارے لوگ خط لکھ کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ویکسین کی شروعات کے ساتھ ہی کیسے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس مہم کو اتنی بڑی کامیابی ملے گی۔ مجھے یہ پختہ یقین اس لیے تھا، کیوں کہ میں اپنے ملک، اپنے ملک کے لوگوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے ہیلتھ کیئر ورکرز ملک کے شہریوں کی ٹیکہ کاری میں کوئی کوتاہی نہیں برتیں گے۔ ہمارے طبی ملازمین نے اپنی بے پناہ کوششوں اور عزم سے ایک نئی مثال پیش کی، انہوں نے انوویشن کے ساتھ اپنے پختہ عزم سے انسانیت کی خدمت کا ایک نیا پیمانہ قائم کیا۔ ان کے بارے میں بے شمار مثالیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے تمام چیلنجز کو پار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیکورٹی کور فراہم کیا۔ ہم نے کئی بار اخباروں میں پڑھا ہے، باہر بھی سنا ہے اس کام کو کرنے کے لیے ہمارے ان لوگوں نے کتنی محنت کی ہے، ایک سے بڑھ کر ایک متعدد حوصلہ افزا مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میں آج ’من کی بات‘ کے سامعین کو اتراکھنڈ کے باگیشور کی ایک ایسی ہی ہیلتھ ورکر پونم نوٹیال جی سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو، یہ باگیشور اتراکھنڈ کی اُس سرزمین سے ہے جس اتراکھنڈ نے سو فیصد پہلا ڈوز لگانے کا کام پورا کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ سرکار بھی اس کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے، کیوں کہ بہت دور دراز کا علاقہ ہے، مشکل علاقہ ہے۔ ویسے ہی، ہماچل نے بھی ایسی مشکلات میں سو فیصد ڈوز کا کام کر لیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پونم جی نے اپنے علاقے کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کے لیے دن رات محنت کی ہے۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی نمستے۔
پونم نوٹیال:- سر پرنام۔
جناب وزیراعظم:- پونم جی اپنے بارے میں بتائے ذرا ملک کے سامعین کو۔
پونم نوٹیال:- سر میں پونم نوٹیال ہوں۔ سر میں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں چانی کورالی سنٹر میں ملازم ہوں۔ میں ایک اے این ایم ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی میری خوش قسمتی ہے مجھے باگیشور آنے کا موقع ملا تھا وہ ایک طرح سے تیرتھ کا علاقہ رہا ہے وہاں قدیم مندر وغیرہ بھی ہیں، میں بہت متاثر ہوا تھا صدیوں پہلے کیسے لوگوں نے کام کیا ہوگا۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر
جناب وزیر اعظم:- پونم جی کیا آپ نے اپنے علاقے کے سبھی لوگوں کی ٹیکہ کاری کروالی ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، سبھی لوگوں کا ہو چکا ہے
جناب وزیر اعظم:- آپ کو کسی قسم کی دقت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے کیا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر۔ سر ہم لوگ جیسے بارش ہوتی تھی وہاں پہ اور روڈ بلاک ہو جاتا تھا۔ سر، ندی پار کرکے گئے ہیں ہم لوگ نا! اور سر گھر گھر گئے ہیں، جیسے این ایچ سی وی سی کے تحت ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ جو لوگ سنٹر میں نہیں آ سکتے تھے، جیسے بزرگ لوگ اور معذور افراد، حاملہ عورتیں، دھاتری عورتیں – یہ لوگ سر۔
جناب وزیر اعظم:- لیکن، وہاں تو پہاڑوں پر گھر بھی بہت دور دور ہوتے ہیں۔
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- تو ایک دن میں کتنا کر پاتے تھے آپ!
پونم نوٹیال:- سر کلومیٹر کا حساب – 10 کلومیٹر کبھی 8 کلومیٹر۔
جناب وزیر اعظم:- خیر، یہ تو ترائی میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو یہ سمجھ نہیں آئے گا 10-8 کلومیٹر کیا ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ کے 10-8 کلومیٹر مطلب پورا دن چلا جاتا ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- لیکن ایک دن میں کیوں کہ یہ بڑی محنت کا کام ہے اور ٹیکہ کاری کا سارا سامان اٹھا کر کے جانا۔ آپ کے ساتھ کوئی معاون رہتے تھے کہ نہیں؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، ٹیم ممبر، ہم پانچ لوگ رہتے تھے سر نا!
جناب وزیر اعظم:- ہاں
پونم نوٹیال:- تو اس میں ڈاکٹر ہو گئے، پھر اے این ایم ہو گئی، فارماسسٹ ہو گئے، آشا ہو گئی، اور ڈیٹا انٹری آپریٹر ہو گئے۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا وہ ڈیٹا انٹری، وہاں کنیکٹویٹی مل جاتی تھی یا پھر باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے؟
پونم نوٹیال:- سر کہیں کہیں مل جاتی، کہیں کہیں باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے، ہم لوگ۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا! مجھے بتایا گیا ہے پونم جی کہ آپ نے آؤٹ آف دی وے جاکر لوگوں کا ٹیکہ لگوایا۔ یہ کیا تصور آیا، آپ کے من میں خیال کیسے آیا اور کیسے کیا آپ نے؟
پونم نوٹیال:- ہم لوگوں نے، پوری ٹیم نے، عہد کیا تھا کہ ہم لوگوں سے ایک آدمی بھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ہمارے ملک سے کورونا بیماری دور بھاگنی چاہیے۔ میں نے اور آشا نے مل کر ہر ایک آدمی کی گاؤں وائز ڈیو لسٹ بنائی، پھر اس کے حساب سے جو لوگ سنٹر میں آئے ان کو سنٹر میں لگایا۔ پھر ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ سر، پھر اس کے بعد، چھوٹے ہوئے تھے، جو لوگ نہیں آ پاتے سنٹر میں،
جناب وزیر اعظم:- اچھا، لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، سمجھایا، ہاں جی!
جناب وزیر اعظم:- لوگوں کا جوش ہے، ابھی بھی ویکسین لینے کا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، ہاں جی۔ اب تو لوگ سمجھ گئے ہیں۔ فرسٹ میں بہت دقت ہوئی ہم لوگوں کو۔ لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا، کہ یہ جو ویکسین ہے محفوظ ہے، اور اثر دار ہے، ہم لوگ بھی لگا چکے ہیں، تو ہم لوگ تو ٹھیک ہیں، آپ کے سامنے ہیں، اور ہمارے اسٹاف نے، سب نے، لگا لیا ہے، تو ہم لوگ ٹھیک ہیں۔
جناب وزیر اعظم:- کہیں پر ویکسین لگنے کے بعد کسی کی شکایت آئی۔ بعد میں
پونم نوٹیال:- نہیں، نہیں سر۔ ایسا تو نہیں ہوا
جناب وزیر اعظم:- کچھ نہیں ہوا
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- سب کو اطمینان تھا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- کہ ٹھیک ہو گیا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیراعظم:- چلئے، آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اور میں جانتا ہوں، یہ پورا علاقہ کتنا مشکل ہے اور پیدل چلنا پہاڑوں پہ۔ ایک پہاڑ پہ جاؤ، پھر نیچے اترو، پھر دوسرے پہاڑ پہ جاؤ، گھر بھی دور دور اس کے باوجود بھی، آپ نے، اتنا بڑھیا کام کیا
پونم نوٹیال:- شکریہ سر، میری خوش قسمتی آپ سے بات ہوئی میری۔
آپ جیسے لاکھوں ہیلتھ ورکرز نے ان کی محنت کی وجہ سے ہی بھارت سو کروڑ ویکسین ڈوز کا پڑاؤ پار کر سکا ہے۔ آج میں صرف آپ کا ہی شکریہ ادا نہیں کر رہا ہوں، بلکہ بھارت کے ہر اس شہری کا شکریہ ادا کر رہا ہوں، جس نے ’سب کو ویکسین –مفت ویکسین‘ مہم کو اتنی اونچائی دی، کامیابی دی۔ آپ کو، آپ کی فیملی کو میری طرف سے بہت ساری نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ جانتے ہیں کہ اگلے اتوار، 31 اکتوبر کو، سردار پٹیل جی کی جنم جینتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے ہر سامعین کی طرف سے، اور میری طرف سے، میں آئرن مین کو نمن کرتا ہوں۔ ساتھیو، 31 اکتوبر کو ہم ’راشٹریہ ایکتا دیوس‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کا پیغام دینے والی کسی نہ کسی سرگرمی سے ضرور جڑیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، حال ہی میں گجرات پولیس نے کچھّ کے لکھپت قلعہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی نکالی ہے۔ تریپورہ پولیس کے جوان تو ایکتا دیوس منانے کے لیے تریپورہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی کرر ہے ہیں۔ یعنی، مشرق سے چل کر مغرب تک ملک کو جوڑ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے جواب بھی اُری سے پٹھان کوٹ تک ایسی ہی بائیک ریلی نکال کر ملک کے اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں۔ میں ان سبھی جوانوں کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ جموں و کشمیر کے ہی کپواڑہ ضلع کی کئی بہنوں کے بارے میں بھی مجھے پتہ چلا ہے۔ یہ بہنیں کشمیر میں فوج اور سرکاری دفتروں کے لیے ترنگا سلنے کا کام کر رہی ہیں۔ یہ کام حب الوطنی کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ میں ان بہنوں کے جذبے کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ کو بھی، بھارت کے اتحاد کے لیے، بھارت کی عظمت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔ دیکھئے گا، آپ کے من کو کتنا سکون ملتا ہے۔
ساتھیو، سردار صاحب کہتے تھے کہ – ’’ہم اپنے اتحاد سے ہی ملک کو نئی عظیم بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ہم میں اتحاد نہیں ہوا تو ہم خود کو نئی نئی مصیبتوں میں پھنسا دیں گے۔‘‘ یعنی قومی اتحاد ہے تو اونچائی ہے، ترقی ہے۔ ہم سردار پٹیل جی کی زندگی سے، ان کے خیالات سے، بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ملک کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی حال ہی میں سردار صاحب پر ایک پکٹوریل بائیوگرافی شائع کی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے سبھی نوجوان ساتھی اسے ضرور پڑھیں۔ اس سے آپ کو دلچسپ انداز میں سردار صاحب کے بارےمیں جاننے کا موقع ملے گا۔
پیارے ہم وطنو، زندگی مسلسل پیش رفت چاہتی ہے، ترقی چاہتی ہے، اونچائیوں کو پار کرنا چاہتی ہے۔ سائنس بھلے ہی آگے بڑھ جائے، ترقی کی رفتار کتنی ہی تیز ہو جائے، عمارت کتنی ہی عالیشان بن جائے، لیکن پھر بھی زندگی ادھوراپن محسوس کرتی ہے۔ لیکن، جب ان میں گیت موسیقی، آرٹ، رقص و ڈرامہ، ادب جڑ جاتا ہے، تو ان کی شان، ان کی جاودانی، کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایک طرح سے زندگی کو مثبت بننا ہے، تو یہ سب ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے، اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ یہ سبھی ہنر ہماری زندگی میں ایک کیٹالسٹ کا کام کرتے ہیں، ہماری توانائی بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گہرائی کو فروغ دینے میں، ہمارے ذہن کی گہرائی کی راہ ہموار کرنے میں بھی، گیت موسیقی اور مختلف فنون کا بڑا رول ہوتا ہے، اور ان کی ایک بڑی طاقت یہ ہوتی ہے کہ انہیں نہ وقت باندھ سکتا ہے، نہ سرحد باندھ سکتی ہے اور نہ ہی اختلاف رائے باندھ سکتا ہے۔ امرت مہوتسو میں بھی اپنے فن، ثقافت، گیت، موسیقی کے رنگ ضرور بھرنے چاہئیں۔ مجھے بھی آپ کی طرف سے امرت مہوتسو اور گیت موسیقی فن کی اس طاقت سے جڑے بہت سارے مشورے موصول ہو رہے ہیں۔ یہ مشورے، میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ میں نے انہیں وزارت ثقافت کو مطالعہ کے لیے بھیجا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزارت نے اتنے کم وقت میں ان مشوروں کو بڑی سنجیدگی سے لیا، اور اس پر کام بھی کیا۔ انہی میں سے ایک مشورہ ہے، حب الوطنی کے گیتوں سے جڑا مقابلہ! آزادی کی لڑائی میں الگ الگ زبان، بولی میں، حب الوطنی کے گیتوں اور بھجنوں نے پورے ملک کو متحد کیا تھا۔ اب امرت کال میں، ہمارے نوجوان، حب الوطنی کے ایسے ہی گیت لکھ کر، اس پروگرام میں مزید توانائی بھر سکتے ہیں۔ حب الوطنی کے یہ گیت مادری زبان میں ہو سکتے ہیں، قومی زبان میں ہو سکتے ہیں، اور انگریزی میں بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن، یہ ضروری ہے کہ یہ تخلیقات نئے بھارت کی نئی سوچ والی ہوں، ملک کی موجودہ کامیابی سے تاثر لے کر مستقبل کے لیے ملک کو عزم فراہم کرنے والی ہوں۔ وزارت ثقافت کی تیاری تحصیل سطح سے قومی سطح تک اس سے جڑے مقابلے کرانے کی ہے۔
ساتھیو، ایسے ہی ’من کی بات‘ کے ایک سامع نے مشورہ دیا ہے کہ امرت مہوتسو کو رنگولی کے فن سے بھی جوڑا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں رنگولی کے ذریعے تہواروں میں رنگ بھرنے کی روایت تو صدیوں سے ہے۔ رنگولی میں ملک کی تکثیریت کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ ناموں سے، الگ الگ تھیم پر رنگولی بنائی جاتی ہے۔ اس لیے، وزارت ثقافت اس سے بھی جڑا ایک قومی مقابلہ کرانے جا رہا ہے۔ آپ تصور کیجئے، جب آزادی کی تحریک سے جڑی رنگولی بنے گی، لوگ اپنے دروازے پر، دیوار پر، کسی آزادی کے متوالے کی تصویر بنائیں گے، آزادی کے کسی واقعہ کو رنگوں سے دکھائیں گے، تو امرت مہوتسو کا بھی رنگ اور بڑھ جائے گا۔
ساتھیو، ایک اور فن ہمارے یہاں لوری کا بھی ہے۔ ہمارے یہاں لوری کے ذریعے چھوٹے بچوں کو آداب سکھائے جاتے ہیں، ثقافت سے ان کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ لوری کی بھی اپنی رنگا رنگی ہے۔ تو کیوں نہ ہم، امرت کال میں، اس فن کو بھی دوبارہ زندہ کریں اور حب الوطنی سے جڑی ایسی لوریاں لکھیں، نظمیں، گیت، کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں جو بڑی آسانی سے، ہر گھر میں مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنا سکیں۔ ان لوریوں میں جدید بھارت کا حوالہ ہو، 21ویں صدی کے بھارت کے خوابوں کی عکاسی ہو۔ آپ تمام سامعین کے مشورے کے بعد وزارت نے اس سے جڑا مقابلہ بھی کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔
ساتھیو، یہ تینوں مقابلے 31 اکتوبر کو سردار صاحب کی جینتی سے شروع ہونے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وزارت ثقافت اس سے جڑی ساری جانکاری دے گی۔ یہ جانکاری وزارت کی ویب سائٹ پر بھی رہے گی، اور سوشل میڈیا پر بھی دی جائے گی۔ میں چاہوں گا کہ آپ سبھی اس سے جڑیں۔ ہمارے نوجوان ساتھی ضرور اس میں اپنے فن کا، اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ اس سے آپ کے علاقے کا فن اور ثقافت بھی ملک کے کونے کونے تک پہنچے گا، آپ کی کہانیاں پورا ملک سنے گا۔
پیارے ہم وطنو، اس وقت ہم امرت مہوتسو میں ملک کے بہادر بیٹے بیٹیوں کو، ان عظیم روحوں کو یاد کر رہے ہیں۔ اگلے مہینے، 15 نومبر کو ہمارے ملک کی ایسی ہی عظیم شخصیت، بہادر سپاہی، بھگوان برسا منڈا جی کی جنم جینتی آنے والی ہے۔ بھگوان برسا منڈا کو ’دھرتی آبا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے بابائے زمین۔ بھگوان برسا منڈا نے جس طرح اپنی ثقافت، اپنے جنگل، اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی، وہ دھرتی آبا ہی کر سکتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی ثقافت اور جڑوں کے تئیں فخر کرنا سکھایا۔ غیر ملکی حکومت نے انہیں کتنی دھمکیاں دیں، کتنا دباؤ بنایا، لیکن انہوں نے آدیواسی ثقافت کو نہیں چھوڑا۔ قدرت اور ماحولیات سے اگر ہمیں محبت کرنا سیکھنا ہے، تو اس کے لیے بھی دھرتی آبا بھگوان برسا منڈا ہمارے لیے بڑے حوصلہ کا باعث ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی حکومت کی ہر اس پالیسی کی پرزور مخالفت کی، جو ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی تھی۔ غریب اور مصیبت سے گھرے لوگوں کی مدد کرنے میں بھگوان برسا منڈا ہمیشہ آگے رہے۔ انہوں نے سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سماج کو بیدار بھی کیا۔ اُلگولان تحریک میں ان کی قیادت کو بھلا کون بھلا سکتا ہے! اس تحریک نے انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کے بعد انگریزوں نے بھگوان برسا منڈا پر بہت بڑا انعام رکھا تھا۔ برطانوی حکومت نے انہیں جیل میں ڈالا، ان کے اوپر اس قدر ظلم ڈھائے کہ 25 سال سے بھی کم عمر میں وہ ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ ہمیں چھوڑ کر گئے، لیکن صرف جسم سے۔
عام لوگوں میں تو بھگوان برسا منڈا ہمیشہ کے لیے رچے بسے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے لیے ان کی زندگی حوصلہ کی طاقت بنی ہوئی ہے۔ آج بھی ان کی بہادری اور شجاعت سے بھرے لوک گیت اور کہانیاں بھارت کے وسطی علاقے میں کافی مقبول ہیں۔ میں ’دھرتی آبا‘ برسا منڈا کو سلام کرتا ہوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ہماری آدیواسی برادری کے مخصوص تعاون کے بارے میں آپ جتنا جانیں گے، اتنے ہی فخر کا احساس ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 24 اکتوبر کو یو این ڈے، یعنی ’اقوام متحدہ کا دن‘ منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سے ہی بھارت اس سے جڑا رہا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت نے آزادی سے پہلے 1945 میں ہی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے تھے۔ اقوام متحدہ سے جڑا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا اثر اور اس کی طاقت بڑھانے میں، ہندوستانی خواتین نے بڑا رول نبھایا ہے۔ 48-1947 میں جب یو این ہیومن رائٹس کا یونیورسل ڈکلریشن تیار ہو رہا تھا تو اس ڈکلریشن میں لکھا جا رہا تھا کہ ’’تمام مردوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ لیکن بھارت کے ایک وفد نے اس پر اعتراض جتایا اور پھر یونیورسل ڈکلریشن میں لکھا گیا – ’’تمام انسانوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ یہ بات جنسی برابری کی بھارت کی صدیوں پرانی روایت کے موافق تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ محترمہ ہنسا مہتہ وہ وفد تھی جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا، اسی دوران، ایک دیگر وفد محترمہ لکشمی مینن نے جنسی برابری کے ایشو پر زوردار طریقے سے اپنی بات رکھی تھی۔ یہی نہیں، 1953 میں محترمہ وجیہ لکشمی پنڈت، یو این جنرل اسمبلی کی پہلی خاتون پریزیڈنٹ بھی بنی تھیں۔
ساتھیو، ہم اس سرزمین کے لوگ ہیں، جو یہ یقین کرتے ہیں، جو یہ پرارتھنا کرتے ہیں:
ॐ द्यौ: शान्तिरन्तरिक्षॅं शान्ति:,
पृथ्वी शान्तिराप: शान्तिरोषधय: शान्ति:।
वनस्पतय: शान्तिर्विश्र्वे देवा: शान्तिर्ब्रह्म शान्ति:,
सर्वॅंशान्ति:, शान्तिरेव शान्ति:, सा मा शान्तिरेधि।।
ॐ शान्ति: शान्ति: शान्ति:।।
بھارت نے ہمیشہ عالمی امن کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ بھارت 1950 کے عشرے سے لگاتار اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ رہا ہے۔ غریبی ہٹانے، ماحولیاتی تبدیلی اور مزدوروں سے متعلق مسائل کے حل میں بھی بھارت سرکردہ رول نبھاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یوگ اور آیوش کو مقبول بنانے کے لیے بھارت ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ مارچ، 2021 میں ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا تھا کہ بھارت میں روایتی میڈیسن کے لیے ایک گلوبل سنٹر قائم کیا جائے گا۔
ساتھیو، اقوام متحدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آج مجھے اٹل جی کے الفاظ بھی یاد آ رہے ہیں۔ 1977 میں انہوں نے اقوام متحدہ کو ہندی میں مخاطب کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ آج میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو، اٹل جی کے اس خطاب کا ایک حصہ سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے، اٹل جی کی بارعب آواز –
’’یہاںمیں قوموں کی حکومت اور اہمیت کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوں۔ عام آدمی کا وقار اور ترقی میرے لیے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آخرکار ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں صرف ایک ہی پیمانے سے ناپی جانی چاہیے کہ کیا ہم پوری انسانیت، ہر مرد و عورت اور بچے کے لیے انصاف اور عزت کی یقینی دہانی کرانے میں کوشاں ہیں۔‘‘
ساتھیو، اٹل جی کی یہ باتیں آج بھی ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ اس سرزمین کو ایک بہتر اور محفوظ سیارہ بنانے میں بھارت کا تعاون، دنیا بھر کے لیے بہت بڑا حوصلہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہی 21 اکتوبر کو ہم نے پولیس کا یادگاری دن منایا ہے۔ پولیس کے جن ساتھیوں نے ملک کی خدمت میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، اس دن ہم انہیں خاص طور پر یاد کرتے ہیں۔ میں آج اپنے ان پولیس ملازمین کے ساتھ ہی ان کے کنبوں کو بھی یاد کرنا چاہوں گا۔ فیملی کے تعاون اور قربانی کے بغیر پولیس جیسی مشکل خدمت بہت مشکل ہے۔ پولیس سروس سے جڑی ایک اور بات ہے جو میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو بتانا چاہتا ہوں۔ پہلے یہ تصور بن گیا تھا کہ فوج اور پولیس جیسی سروس صرف مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ دڈیولپمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں خواتین پولیس کی تعداد ڈبل ہو گئی ہے، دو گنی ہو گئی ہے۔ 2014 میں جہاں ان کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار کے قریب تھی، وہیں 2020 تک اس میں دو گنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد اب 2 لاکھ 15 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہاں تک کہ سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز میں بھی پچھلے سات سالوں میں خواتین کی تعداد تقریباً دو گنی ہوئی ہے۔ اور میں صرف تعداد کی ہی بات نہیں کرتا۔ آج ملک کی بیٹیاں مشکل سے مشکل ڈیوٹی بھی پوری طاقت اور حوصلے سے کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، کئی بیٹیاں ابھی سب سے مشکل مانی جانے والی ٹریننگ میں سے ایک اسپیشلائزڈ جنگل وارفیئر کمانڈوز کی ٹریننگ لے رہی ہیں۔ یہ ہماری کوبرا بٹالیں کا حصہ بنیں گی۔
ساتھیو، آج ہم ایئرپورٹس جاتے ہیں، میٹرو اسٹیشنز جاتے ہیں یا سرکاری دفتروں کو دیکھتے ہیں، سی آئی ایس ایف کی جانباز خواتین ہر حساس جگہ کی حفاظت کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سب سے مثبت اثر ہمارے پولیس دستہ کے ساتھ ساتھ سماج کے ذہن و دل پر بھی پڑ رہا ہے۔ خواتین سیکورٹی گارڈز کی موجودگی سے لوگوں میں، خاص کر عورتوں میں فطری طور پر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ وہ ان سے قدرتی طور پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ عورتوں کی حساسیت کی وجہ سے بھی لوگ ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ہماری یہ خواتین پولیس ملک کی لاکھوں اور بیٹیوں کے لیے بھی رول ماڈل بن رہی ہیں۔ میں خواتین پولیس سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ اسکولوں کے کھلنے کے بعد اپنے علاقے کے اسکولوں میں وزٹ کریں، وہاں بچیوں سے بات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بات چیت سے ہماری نئی نسل کو ایک نئی سمت ملے گی۔ یہی نہیں، اس سے پولیس پر عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آگے اور بھی زیادہ تعداد میں عورتیں پولیس سروس میں شامل ہوں گی، ہمارے ملک کی نیو ایج پولیسنگ کو لیڈ کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس پر اکثر مجھے ’من کی بات‘ کے سامعین اپنی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ آج میں ایسے ہی ایک موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، جو ہمارے ملک، خاص کر ہمارے نوجوانوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے تصورات میں چھایا ہوا ہے۔ یہ موضوع ہے، ڈرون کا، ڈرون ٹیکنالوجی کا۔ کچھ سال پہلے تک جب کہیں ڈرون کا نام آتا تھا، تو لوگوں کے من میں پہلا خیال کیا آتا تھا؟ فوج کا، ہتھیاروں کا، جنگ کا۔ لیکن آج ہمارے یہاں کوئی شادی بارات یا فنکشن ہوتا ہے تو ہم ڈرون سے فوٹو اور ویڈیو بناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ڈرون کا دائرہ، اس کی طاقت، صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ بھارت، دنیا کے ان پہلے ممالک میں سے ہے، جو ڈرون کی مدد سے اپنے گاؤں میں زمین کے ڈجیٹل ریکارڈ تیار کر رہا ہے۔ بھارت ڈرون کا استعمال، ٹرانسپورٹیشن کے لیے کرنے پر بہت ہمہ گیر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ چاہے گاؤں میں کھیتی باڑی ہو یا گھر پر سامان کی ڈیلیوری ہو۔ ایمرجنسی میں مدد پہنچانی ہو یا قانون اور نظم و نسق کی نگرانی ہو۔ بہت وقت نہیں ہے جب ہم دیکھیں گے کہ ڈرون ہماری ان سب ضرورتوں کے لیے تعینات ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر کی تو شروعات بھی ہو چکی ہے۔ جیسے کچھ دن پہلے، گجرات کے بھاؤ نگر میں ڈرون کے ذریعے کھیتوں میں نینو یوریا کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ کووڈ ویکسین مہم میں بھی ڈرون اپنا رول نبھا رہے ہیں۔ اس کی ایک اور تصویر ہمیں منی پور میں دیکھنے کو ملی تھی۔ جہاں ایک جزیرہ پر ڈرون سے ویکسین پہنچائی گئی۔ تلنگانہ بھی ڈرون سے ویکسین ڈیلیوری کے لیے ٹرائل کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اب انفراسٹرکچر کے کئی بڑے پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے بھی ڈرون کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ایسے نوجوان اسٹوڈنٹ کے بارے میں بھی پڑھا ہے جس نے اپنے ڈرون کی مدد سے ماہی گیروں کی زندگی بچانے کا کام کیا۔
ساتھیو، پہلے اس سیکٹر میں اتنے ضابطے، قانون اور پابندیاں لگا کر رکھے گئے تھے کہ ڈرون کی اصلی صلاحیت کا استعمال بھی ممکن نہیں تھا۔ جس ٹیکنالوجی کو موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا، اسے بحران کے طور پر دیکھا گیا۔ اگر آپ کو کسی بھی کام کے لیے ڈرون اڑانا ہے تو لائسنس اور پرمیشن کا اتنا جھنجٹ ہوتا تھا کہ لوگ ڈرون کے نام سے ہی توبہ کر لیتے تھے۔ ہم نے طے کیا کہ اس مائنڈسیٹ کو بدلا جائے اور نئے ٹرینڈز کو اپنایا جائے۔ اسی لیے اس سال 25 اگست کو ملک ایک نئی ڈرون پالیسی لیکر آیا۔ یہ پالیسی ڈرون سے جڑے حال اور مستقبل کے امکانات کے حساب سے بنائی گئی ہے۔ اس میں اب نہ بہت سارے فارم کے چکر میں پڑنا ہوگا، نہ ہی پہلے جتنی فیس دینی پڑے گی۔ مجھے آپ کو بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ نئی ڈرون پالیسی آنے کے بعد کئی ڈرون اسٹارٹ اپس میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ کئی کمپنیاں مینوفیکچرنگ یونٹ بھی لگا رہی ہیں۔ آرمی، نیوی اور ایئر فورس نے ہندوستانی ڈرون کمپنیوں کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر بھی دیے ہیں۔ اور یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہمیں یہیں نہیں رکنا ہے۔ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی میں سرکردہ ملک بننا ہے۔ اس کے لیے سرکار ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے بھی کہوں گا کہ آپ ڈرون پالیسی کے بعد بنے مواقع کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں ضرور سوچیں، آگے آئیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، یو پی کے میرٹھ سے ’من کی بات‘ کی ایک سامع محترمہ پربھا شکلا نے مجھے صفائی سے جڑا ایک خط بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ – ’’بھارت میں تہواروں پر ہم سبھی صفائی کا جشن مناتے ہیں۔ ویسے ہی، اگر ہم صفائی کو، ہر دن کی عادت بنا لیں، تو پورا ملک صاف ہو جائے گا۔‘‘ مجھے پربھا جی کی بات بہت پسند آئی۔ واقعی، جہاں صفائی ہے، وہاں صحت ہے، جہاں صحت ہے، وہاں صلاحیت ہے اور جہاں صلاحیت ہے، وہاں خوشحالی ہے۔ اس لیے تو ملک سووچھ بھارت ابھیان پر اتنا زور دے رہا ہے۔
ساتھیو، مجھے رانچی سے سٹے ایک گاؤں سپاروم نیا سرائے، وہاں کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا۔ اس گاؤں میں ایک تالاب ہوا کرتا تھا، لیکن لوگ اس تالاب والی جگہ کو کھلے میں رفع حاجت کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت جب سب کے گھر میں بیت الخلاء بن گیا تو گاؤں والوں نے سوچا کہ کیوں نہ گاؤں کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ خوبصور ت بنایا جائے۔ پھر کیا تھا، سب نے مل کر تالاب والی جگہ پر پارک بنا دیا۔ آج وہ جگہ لوگوں کے لیے، بچوں کے لیے، ایک عوامی مقام بن گیا ہے۔ اس سے پورے گاؤں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ میں آپ کو چھتیس گڑھ کے دیئور گاؤں کی عورتوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہاں کی عورتیں ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں اور مل جل کر گاؤں کے چوک چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کی صفائی کرتی ہیں۔
ساتھیو، یوپی کے غازی آباد کے رام ویر تنور جی کو لوگ ’پانڈ مین‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ رام ویر جی تو میکینکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد نوکری کر رہے تھے۔ لیکن ان کے من میں صفائی کی ایک ایسی روشنی پیدا ہوئی کہ وہ نوکری چھوڑ کر تالابوں کی صفائی میں جٹ گئے۔ رام ویر جی اب تک کتنے ہی تالابوں کی صفائی کرکے انہیں دوبارہ زندہ کر چکے ہیں۔
ساتھیو، صفائی کی کوشش تبھی پوری طرح کامیاب ہوتی ہے جب ہر شہری صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ ابھی دیوالی پر ہم سب اپنے گھر کی صاف صفائی میں تو مصروف ہونے ہی والے ہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہمارا آس پڑوس بھی صاف رہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنا گھر تو صاف کریں، لیکن ہمارے گھر کی گندگی ہمارے گھر کے باہر، ہماری سڑکوں پر پہنچ جائے۔ اور ہاں، میں جب صفائی کی بات کرتا ہوں تب براہ کرم سنگل یوز پلاسٹک سے نجات کی بات ہمیں کبھی بھی بھولنی نہیں ہے۔ تو آئیے، ہم عہد کریں کہ سووچھ بھارت ابھیان کے جوشش کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم سب مل کر اپنے ملک کو پوری طرح صاف بنائیں گے اور صاف رکھیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اکتوبر کا پورا مہینہ ہی تہواروں کے رنگوں میں رنگا رہا ہے اور اب سے کچھ دن بعد دیوالی تو آ ہی رہی ہے۔ دیوالی، اس کے بعد پھر گووردھن پوجا، پھر بھائی دوج، یہ تین تہوار تو ہوں گے ہی ہوں گے، اسی دوران چھٹھ پوجا بھی ہوگی۔ نومبر میں ہی گرونانک دیو جی کی جینتی بھی ہے۔ اتنے تہوار ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی تیاریاں بھی کافی پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ سب بھی ابھی سے خریداری کا پلان کرنے لگے ہوں گے، لیکن آپ کو یاد ہے نہ، خریداری مطلب ’ووکل فار لوکل‘۔ آپ لوکل خریدیں گے تو آپ کا تہوار بھی روشن ہوگا اور کسی غریب بھائی بہن، کسی کاریگر، کسی بنکر کے گھر میں بھی روشنی آئے گی۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ جو مہم ہم سب نے مل کر شروع کی ہے، اس بار تہواروں میں اور بھی مضبوط ہوگی۔ آپ اپنے یہاں کے جو لوکل پراڈکٹس خریدیں، ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر بھی کریں۔ اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی بتائیں۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے، اور پھر ایسے ہی ڈھیر سارے موضوعات پر بات کریں گے۔
آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! نمسکار!
نئی دہلی۔ 26 ستمبر میرے پیارے ہم وطنو! آپ جانتے ہیں کہ مجھے ایک اہم پروگرام کے لیے امریکہ جانا پڑ رہا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ بہتر ہوگا کہ امریکہ جانے سے پہلے 'من کی بات' ریکارڈ کردوں ۔ ستمبر میں جس دن 'من کی بات' ہے اسی تاریخ کو ایک اور اہم دن ہوتا ہے۔ ویسے تو ہم لوگ بہت سارے دن یاد رکحتے ہیں ، مختلف قسم کے دن مناتے بھی ہیں ، اور اگر اپنے گھر میں جوان بیٹے اور بیٹیاں ہوں ، اگر ان سے پوچھیں گے تو سال بھر کے کون سے دن کب آتے ہیں ، آپ کو مکمل فہرست بتادیں گے ، لیکن ایک اور دن ایسا ہے جسے ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ دن ایسا ہے جو ہندوستان کی روایات کے عین مطابق ہے۔ صدیوں سے جن روایات سے ہم وابستہ ہیں ان سے جوڑنے والا ہے ۔ یہ ہے 'ورلڈ ریور ڈے' ہے یعنی 'ندیوں کا عالمی دن '۔
ہمارے یہاں کہا گیا ہے –
"پبنتی ندیہ ، سوے – میو نامبہ:
یعنی ندیاں اپنا پانی خود نہیں پیتیں ، بلکہ عطیہ دیتی ہیں۔ ہمارے لیے ندیاں ایک طبعی شئے نہیں ہے، ہمارے لیے ندی ایک زندہ اکائی ہے اور اسی لیے ہم ندیوں کو ماں کہتے ہیں۔ خواہ ہمارے کتنے ہی تہوار ہوں ، جشن ہو، امنگ ہو، یہ سب ہماری ماؤں کی گود میں ہی ہوتے ہیں۔
آپ سب جانتے ہیں کہ جب ماگھ کا مہینہ آتا ہے تو ہمارے ملک میں بہت سے لوگ پورا ایک مہینہ ماں گنگا یا کسی اورندی کے کنارے کلپ واس کرتے ہیں۔ اب تو یہ روایت نہیں رہی ، لیکن پہلے زمانے میں ایک روایت تھی کہ اگر ہم گھر میں نہاتے ہیں تو ندیوں کو یاد رکھنے کی روایت آج بھلے ہی ختم ہو گئی ہو یا بہت کم رہ گئی ہو لیکن ایک بہت بڑی روایت تھی جو صبح سویرے ہی غسل کرتے وقت ہی وسیع ہندوستان کا سفر کرا دیتی تھی ، ذہنی سفر! ملک کے کونے کونے سے جڑنے کے لیے ایک ترغیب بن جاتی تھی۔ اور وہ کیا تھا ، ہندوستان میں غسل کرتے وقت ایک شلوک پڑھنے کی روایت رہی ہے-
گنگے چا جمنا چیو گوداوری سرسوتی۔
نرمدے سندھو کاویری جلے اسمن سنیدھم کورو
پہلے ہمارے گھروں میں خاندان کے بزرگ اس شلوک کو بچوں کے لیے یاد کرواتے تھے اور اس سے ہمارے ملک میں نیدیوں کے تئیں یقین بھی پیدا ہوتا تھا۔ وسیع و عریض ہندوستان کا ایک نقشہ ذہن میں نقش ہوجاتا تھا۔ ندیوں سے ربط قائم ہوتاتھا۔ جس ندی کو ماں کے طور پر ہم جانتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، جیتے ہیں اس ندی کے تئیں ایک یقین کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک سنسکار کا عمل تھا۔
دوستو ، جب ہم اپنے ملک میں ندیوں کی شان کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو قدرتی طور پر ہر کوئی ایک سوال اٹھائے گا اور سوال اٹھانے کا حق بھی ہے اور اس کا جواب دینا ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ کوئی بھی سوال پوچھے گا کہ بھائی آپ ندی کے اتنے گیت گا رہے ہیں ، ندی کو ماں کہہ رہے ہیں ، تو یہ ندی آلودہ کیوں ہوجاتی ہے؟ ہمارے شاستروں میں تو ندیوں کو تھوڑا سا آلودہ کرنا بھی غلط کہا گیا ہے۔ اور ہماری روایات بھی اس طرح رہی ہیں ، آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے ہندوستان کا مغربی حصہ خصوصا گجرات اور راجستھان ، وہاں پانی کی بہت کمی ہے۔ کبھی کبھی قحط پڑتا ہے۔ اب اس لیے وہاں کی معاشرتی زندگی میں ایک نئی روایت پروان چڑھی ہے۔ جیسے گجرات میں بارش کی شروعات ہوتی ہے تو گجرات میں جل– جیلانی اکادشی مناتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دور میں ، جسے ہم 'کیچ دی رین' کہتے ہیں ،وہ وہی بات ہے جو پانی کے ایک ایک بوند کو خود میں سمیٹنا، جل – جیلانی ۔ اسی طرح سے بارش کے بعد بہار اور مشرقی حصوں میں چھٹ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ چھٹ پوجا کو دیکھتے ہوئے ندیوں کے کنارے ، گھاٹوں کی صفائی اور مرمت کی تیاری شروع کر دی گئی ہوگی۔ ہم ندیوں کی صفائی اور انہیں آلودگی سے پاک کرنے کا کام سب کی کوشش اور سب کے تعاون سے ہی کر سکتے ہیں۔ 'نمامی گنگے مشن' بھی آج آگے بڑھ رہا ہے ، لہذا تمام لوگوں کی کوشش ، ایک طرح سے ، عوامی بیداری ، عوامی تحریک، اس کا بہت بڑا کردار ہے۔
دوستو ، جب ندی کی بات ہو رہی ہے ، ماں گنگا کی بات ہو رہی ہے تو ایک اور بات کی جانب بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ بات جب 'نمامی گنگے' کی ہو رہی ہے تو آپ کا دھیان ایک بات کی طرف ضرور گئی ہوگی اور ہمارے نوجوانوں کا دھیان تو یقینا گیا ہوگا۔ آج کل ایک خاص ای - آکشن ، ای نیلامی جاری ہے۔ یہ الیکٹرانک نیلامی ان تحائف کے لیے منعقد کی جا رہی ہیں جو لوگوں نے مجھے وقتا فوقتا دیے ہیں۔ اس نیلامی سے جو رقم آئے گی وہ 'نمامی گنگے' مہم کے لیے وقف ہے۔ آپ جس اپنائیت کے جذبے سے مجھے تحفے دیتے ہیں، اسی جذبے کو یہ مہم اور مضبوط کرتی ہے۔
دوستو ، ملک بھر میں ندیوں کو از سرنو زندہ کرنے کے لیے ، پانی کی صفائی کے لیے حکومت اور سماجی تنظیمیں مسلسل کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔ آج سے نہیں ، یہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کچھ لوگوں نے ایسے کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکے ہیں۔ اورہندوستان کے کسی بھی گوشے سے جب ایسی خبریں میں سنتا ہوں تو ایسا کام کرنے والوں کے تئیں نہایت احترام کا جذبہ میرے دل میں بیدار ہوتا اور میرا بھی دل کرتا ہے کہ وہ باتیں آپ کو بتاؤں۔ آپ دیکھئے تمل ناڈو کے ویلور اور ترووناملائی اضلاع کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ یہاں ایک ندی بہتی ہے ، ناگاندھی۔ اب یہ ناگاندھی برسوں پہلے خشک ہو گئی تھی۔ اس وجہ سے ، وہاں پانی کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی تھی۔ لیکن ، وہاں کی خواتین نے اپنی ندی کو دوبارہ زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایاکہ وہ اپنی ندی کو دوبارہ زندگی کریں گی۔ پھر کیا تھا ، انہوں نے لوگوں کو جوڑا ، عوامی شراکت سے نہریں کھودیں ، چیک ڈیم بنائے ، ریچارج کنویں بنائے۔ دوستو ، آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج وہ ندی پانی سے بھر گئی ہے۔ اور جب ندی پانی سے بھر جاتی ہے ، تودل میں بہت سکون محسوس کرتا ہے ، میں نے اس کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔
آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ جس سابرمتی ندی کے کنارے مہاتما گاندھی نے سابرمتی آشرم بنایا تھا وہ گزشتہ چند دہائیوں میں یہ سابرمتی ندی خشک ہوچکی تھی۔ ایک سال میں چھ سے آٹھ مہینے تک پانی نظر نہیں آتا تھا ، لیکن نرمدا ندی اور سابرمتی ندی کو جوڑ دیا ، لہذا اگر آپ آج احمد آباد جائیں گے تو سابرمتی ندی کا پانی ذہن کو شاداب کردیتا ہے۔ اسی طرح بہت سے کام جیسے تمل ناڈو کی ہماری یہ بہنیں کر رہی ہیں ، ملک کے مختلف گوشوں میں چل رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری مذہبی روایت وابستہ سے کئی سنت ، گرو ہیں ، وہ اپنے روحانی سفر کے ساتھ ساتھ پانی کے لیے ندی کے لیے بھی بہت کچھ کر رہے ہیں ، بہت سے لوگ ندیؤں کے کنارے شجر کاری مہم چلا رہے ہیں۔ تو کہیں ندیوں میں بہنے والا گندا پانی روکا جا رہا ہے۔
دوستو ، جب ہم آج 'ورلڈ ریور ڈے' منا رہے ہیں ، میں اس کام کے لیے وقف ہر ایک کی ستائش کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔ لیکن ہر ندی کے قریب رہنے والے لوگوں سے ، اہل وطن سے اپیل کروں گا کہ ہندوستان کےگوشے گوشے میں سال میں ایک بار تو ندی کا تہوار منانا ہی چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کبھی بھی چھوٹی بات کو چھوٹی چیز کو چھوٹی سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں بعض اوقات بڑی بڑی تبدیلیاں لاتی ہیں اور اگر مہاتما گاندھی کی زندگی پر ہم نظر ڈالیں تو ہم ہر لمحہ محسوس کریں گے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی ان کی زندگی میں کتنی اہمیت تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بڑے بڑے عزائم کو کیسے انہوں نے سچ کر دکھایا تھا۔ ہمارے آج کے نوجوانوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح صفائی مہم نے تحریک آزادی کو ایک مستقل توانائی دی تھی۔ یہ مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں نے صفائی کو ایک عوامی تحریک بنانے کا کام کیا تھا۔ مہاتما گاندھی نے صفائی کو آزادی کے خواب سے جوڑ دیا تھا۔ آج ، کئی دہائیوں کے بعد ، صفائی کی تحریک نے ایک بار پھر ملک کو ایک نئے ہندوستان کے خواب سے جوڑنے کا کام کیا ہے۔ اور یہ ہماری عادات کو بدلنے کی بھی مہم بن رہی ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صفائی صرف ایک پروگرام ہے۔ صفائی نسل در نسل سنسکار منتقلی کی ذمہ داری ہے اور جب صفائی کی مہم نسل در نسل چلتی ہے تو پھر پورا معاشرہ زندگی میں صفائی کی فطرت بن جاتا ہے۔ اور اس طرح یہ سال دو سال ، ایک حکومت سےدوسری حکومت تک کے لیےایسا موضوع نہیں ہے ، نسل در نسل ، ہمیں صفائی کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ، بغیر تھکے ، بغیر رکے بڑی عقیدت کے ساتھ مسلسل جڑے رہنا ہے اور صفائی کی مہم کو جاری رکھنا ہے۔ اور میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ صفائی مہم قابل پرستش باپو کو اس ملک کا ایک بڑا خراج تحسین ہے اور یہ خراج تحسین ہمیں ہر بار پیش کرتے رہنا ہے ، اسے مسلسل کرتے رہنا ہے۔
دوستو ، لوگ جانتے ہیں کہ میں کبھی بھی صفائی کے بارے میں بات کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتا ہوں اور شاید اسی لیے ہمارے ایک 'من کی بات' سننے والے جناب رمیش پٹیل جی نے لکھا ہے ، ہمیں باپو سے سیکھتے ہوئے اس آزادی کے "امرت مہوتسو" میں معاشی صفائی کا بھی عہد لینا چاہیے۔ جس طرح بیت الخلاء کی تعمیر نے غریبوں کے وقار میں اضافہ کیا ، اسی طرح معاشی صفائی ستھرائی غریبوں کے حقوق کو یقینی بناتی ہے ، ان کی زندگی آسان بناتی ہے۔ اب آپ جانتے ہیں کہ جن دھن کھاتوں کے حوالے سے ملک نے ایک مہم شروع کی ۔ اس کی وجہ سے ، آج غریبوں کو ان کے واجب الادا پیسے براہ راست ان کے کھاتے میں مل رہے ہیں ، جس کی وجہ سے آج بدعنوانی جیسی رکاوٹوں میں بہت حد تک کمی آ گئی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ معاشی صفائی میں ٹیکنالوجی بہت مدد کر سکتی ہے۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج گاؤں دیہات میں بھی فن ٹیک یو پی آئی کے ذریعہ ڈیجیٹل لین دین کرنے کی سمت میں عام انسان بھی شامل ہو رہے ہیں ، اس کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ میں آپ کو ایک اعداد و شمار بتاتا ہوں، آپ کو فخر ہوگا ، گزشتہ اگست کے مہینے میں یو پی آئی کے ذریعہ ایک ماہ میں 355 کروڑ ٹرانزیکشن ہوئے ، یعنی تقریبا 350 کروڑ سے زائد ٹرانزیکشنز ، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگست کے مہینے میں 350 کروڑ سے زائد مرتبہ ڈیجیٹل لین دین کے لیے یو پی آئی کا استعمال کیا گیا ہے۔ آج ، اوسطا 6 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈیجیٹل ادائیگی یو پی آئی کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ اس سے ملک کی معیشت میں شفافیت آ رہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اب فن ٹیک کی اہمیت بہت بڑھ رہی ہے۔
دوستو ، جس طرح باپو نے صفائی کو آزادی سے جوڑا تھا ، اسی طرح کھادی کو آزادی کی پہچان بنا دیا گیاتھا۔ آج آزادی کے 75 ویں سال میں ، جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں ، آج ہم اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی تحریک میں جو وقار کھادی نے حاصل کیا تھا ، آج ہماری نوجوان نسل کھادی کو وہ شان دے رہی ہے۔ آج کھادی اور ہینڈلوم کی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے کئی مواقع آئے ہیں جب دہلی کے کھادی شوروم نے ایک دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے۔ میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ 2 اکتوبر کو قابل پرستش باپو کی سالگرہ پر ہم سب ایک بار پھر ایک نیا ریکارڈ بنائیں۔ آپ اپنے شہر میں جہاں بھی کھادی ، ہینڈلوم ، ہینڈ کرافٹ بکتا ہو اور دیوالی کا تہوار سامنے ہے ، تہواروں کے موسم کے لیے کھادی ، ہینڈلوم ، کاٹیج انڈسٹری سے متعلق آپ کی ہر خریداری 'ووکل فار لوکل ' اس مہم کو مضبوط بنانے کے لیے ہو، پرانے سارے ریکارڈ توڑنے والی ہو۔
دوستو ، امرت مہوتسو کے اس دور میں ملک میں آزادی کی تاریخ کی ان کہی کہانیوں کو عوام تک پہنچانے کی ایک مہم بھی چل رہی ہے اور اس کے لیے ابھرتے ہوئے مصنفوں کو ، ملک اور دنیا کے نوجوانوں سے اپیل کی گئی تھی۔ اب تک 13 ہزار سے زائد افراد نے اس مہم کے لیے اپنا اندراج کرایا ہے اور وہ بھی 14 مختلف زبانوں میں۔ اور میرے لیے خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ 20 سے زائد ممالک میں کئی غیر مقیم ہندوستانیوں نے بھی اس مہم میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ایک اور بہت دلچسپ جانکاری ہے ، تقریبا 5000 سے زائد نئے ابھرتے ہوئے مصنفین جنگ آزادی کی کہانیاں تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے، جو غیر معروف ہیرو ہیں، جو گمنام ہیں تاریخ کے صفحات میں جن کے نام نظر نہیں آتے، ایسے غیر معروف جانباز وں پر ، موضوع پر ان کی زندگی پر ، ان کے واقعات پر کچھ لکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے ، یعنی ملک کے نوجوانوں نے تہیہ کر لیا ہے، مجاہدین آزادی کی تاریخ کو بھی ملک کے سامنے لائیں گے ، جن کا گزشتہ 75 سالوں میں کوئی ذکر تک نہیں ہواہے۔ تمام سننے والوں سے میری گزارش ہے کہ تعلیم کی دنیا سے وابستہ ہر ایک سے میری درخواست ہے۔ آپ بھی نوجوانوں کو ترغیب دیں ۔ آپ بھی آگے آئیں اور مجھے پختہ یقین ہے کہ آزادی کے امرت مہوتسو میں تاریخ لکھنے کا کام کرنے والے لوگ تاریخ بنانے والے بھی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہم سب سیاچن گلیشیر کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہاں سردی اتنی خوفناک ہے کہ اس میں رہنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دور دور تک برف ہی برف اور پیڑ پودوں کا تو نام نشان نہیں ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک بھی جاتا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے سیاچن کے اس ناقابل رسائی علاقے میں 8دیویانگ لوگوں کی ٹیم نے جو حیرت انگیز کام کیے ہیں،وہ ہر ہم وطن کے لیے فخر کی بات ہے ۔ اس ٹیم نے سیاچن گلیشیر کی 15 ہزار فٹ سے زیادہ اونچائی پر واقع 'کمار پوسٹ' پر اپنا جھنڈا لہرا کر عالمی ریکارڈ بنادیا ہے۔ جسمانی چیلنجوں کے باوجود بھی ، ان دیویانگوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ پورے ملک کے لیےباعث ترغیب ہیں اور جب آپ اس ٹیم کے ارکان کے بارے میں جانیں گے تو آپ بھی میری طرح ہمت اور حوصلے سے بھر جائیں گے۔ ان جانباز دیویانگوں کے نام ہیں - مہیش نہرا ، اتراکھنڈ کے اکشت راوت ، مہاراشٹر کے پشپک گوانڈے، ہریانہ کے اجے کمار ، لداخ کے لوبسانگ چوسپل ، تمل ناڈو کے میجر دوارکیش ، جموں و کشمیر کے عرفان احمد میر اور ہماچل پردیش کے چونجین انگمو۔ سیاچن گلیشیر کو فتح کرنے کا یہ آپریشن ہندوستانی فوج کے خصوصی دستوں کے رضاکاروں کی وجہ سے کامیاب ہوا ہے۔ میں اس ٹیم کی اس تاریخی اور بے مثال کامیابی کے لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ ہمارے ہم وطنوں کے "Can Do Culture"، "Can Do Determination" ، "Can Do Attitude" کے ساتھ ہر چیلنج سے نمٹنے کے جذبے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
دوستو ، آج ملک میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مجھے اتر پردیش میں ہو رہی ایسی ہی ایک کوشش One Teacher, One Call کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ بریلی میں یہ انوکھی کوشش مختلف معذور بچوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہی ہے۔ اس مہم کی قیادت ڈبھورا گنگا پور کے ایک اسکول کی پرنسپل دیپ مالا پانڈے جی کر رہی ہیں۔ کورونا کے دوران اس مہم کی وجہ سے نہ صرف بڑی تعداد میں بچوں کا داخلہ ممکن ہوا بلکہ 350 سے زائد اساتذہ بھی خدمت کے جذبے کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں ۔ یہ اساتذہ گاؤں گاؤں جا کر معذور بچوں کو پکارتے ہیں ، ان کی تلاش کرتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی اسکول میں ان کے داخلے کو یقینی بناتے ہیں۔ میں معذور افراد کے لیے دیپ مالا جی اور ساتھی اساتذہ کی اس عظیم کاوش کی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتا ہوں۔ تعلیم کے میدان میں اس طرح کی ہر کوشش ہمارے ملک کا مستقبل سنوارنے والی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم لوگوں کی زندگی کی حالت یہ ہے کہ ایک دن میں سینکڑوں بار لفظ کورونا ہمارے کانوں میں گونجتا ہے ، سو سالوں میں آئی سب سے بڑی عالمی وبا ، کووڈ 19 نے ہر ہم وطن کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ آج حفظان صحت اور تندرستی کے بارے میں تجسس اور آگاہی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ روایتی طور پر ہمارے ملک میں ایسی قدرتی مصنوعات وافر مقدار میں دستیاب ہیں جو کہ تندرستی کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اوڈیشہ کے کالا ہانڈی کے نندول میں رہنے والے پتایت ساہو جی ، برسوں سے اس علاقے میں ایک انوکھا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈیڑھ ایکڑ اراضی پر دواؤں کے پودے لگائے ہیں۔ یہی نہیں، ساہو جی نے ان دواؤں کے پودوں کو دستاویزی شکل بھی دی ہے۔مجھےرانچی کے ستیش جی نے ایک خط کے ذریعہ ایسی ہی ایک جانکاری شیئر کی ہے۔ ستیش جی نے میری توجہ جھارکھنڈ کے ایک ایلو ویرا گاؤں کی طرف مبذول کرائی ہے۔ رانچی کے قریب ہی دیوری گاؤں کی خواتین نے منجو کچھپ جی کی قیادت میں برسا زرعی اسکول سے ایلو ویرا کی کاشت کی تربیت لی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایلو ویرا کی کاشت شروع کی۔ اس کاشتکاری سے نہ صرف صحت کے شعبے میں فائدہ ہوا بلکہ ان خواتین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ کووڈ وبائی مرض کے دوران بھی انہیں اچھی آمدنی حاصل ہوئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سینیٹائزر بنانے والی کمپنیاں ان سے براہ راست ایلو ویرا خرید رہی تھیں۔ آج تقریبا چالیس خواتین کی ایک ٹیم اس کام میں شامل ہے۔ اور کئی ایکڑ میں ایلو ویرا کی کاشت کی جاتی ہے۔ اوڈیشہ کے پتایت ساہو جی ہوں یا پھر دیوری میں خواتین کی یہ ٹیم ، انہوں نے زراعت کو صحت کے شعبے سے جس طرح جوڑا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔
دوستو ، آنے والے 2 اکتوبر کو لال بہادر شاستری جی کا بھی یوم پیدائش ہے۔ ان کی یاد میں یہ دن ہمیں زراعت میں نئے تجربات کرنے والوں کے بارے میں بھی سکھاتا ہے۔ دواؤں کے پودوں کے شعبہ میں اسٹارٹ اپ کو فروغ دینے کے لیے میڈی ہب ٹی بی آئی کے نام سے ایک انکیوبیٹر گجرات کے آنند میں کام کر رہا ہے ۔ میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ سے وابستہ اس انکیوبیٹر نے بہت کم وقت میں 15 کاروباری افراد کے کاروباری خیال کی تائید کر چکی ہے۔ اس انکیوبیٹر کی مدد حاصل کرنے کے بعد ہی سودھا چیبرولو جی نے اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔ ان کی کمپنی میں خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے اورانہیں پر وہ جدید جڑی بوٹیوں کی تشکیل کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایک اور کاروباری سبھاشری جی نے اسی میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ انکیوبیٹر سے بھی مدد لی ہے۔ سبھاشری جی کی کمپنی ہربل روم اور کار فریشر کے میدان میں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے ایک ہربل ٹیرس گارڈن بھی بنایا ہے جس میں 400 سے زیادہ دواؤں کی جڑی بوٹیاں ہیں۔
دوستو ، وزارت آیوش نے بچوں میں دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے پودوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے ایک دلچسپ پہل کی ہے اور اس کا بیڑا اٹھایا ہے، ہمارے پروفیسر آیوشمان جی نے ۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ یہ سوچیں کہ پروفیسر آیوشمان کون ہیں؟ دراصل پروفیسر آیوشمان ایک مزاحیہ کتاب کا نام ہے۔ اس میں مختلف کارٹون کرداروں کے ذریعہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں تیار کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ایلوویرا ، تلسی ، آملہ ، گیلوے ، نیم ، اشواگندھا اور برہمی جیسے صحت مند دواؤں کے پودوں کی افادیت بتائی گئی ہے۔
دوستو ، آج کے حالات میں جس طرح پوری دنیا میں دواؤں کے پودوں اور جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے ، اس میں ہندوستان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ ماضی میں ، آیورویدک اور جڑی بوٹیوں کی مصنوعات کی برآمد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
میں سائنسدانوں ، محققین اور اسٹارٹ اپ کی دنیا سے وابستہ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسی مصنوعات پر توجہ دیں ، جو نہ صرف لوگوں کی تندرستی اور قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ ہمارے کسانوں اور نوجوانوں کی آمدنی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوی ہیں۔
دوستو ، روایتی کاشتکاری سے آگے بڑھتے ہوئے ، زراعت میں کیے جا رہے نئے تجربات ، نئے متبادل مسلسل خود روزگار کے نئے ذرائع بنا رہے ہیں۔ پلوامہ کے دو بھائیوں کی کہانی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جموں و کشمیر کے پلوامہ میں بلال احمد شیخ اور منیر احمد شیخ نے جس طرح اپنے لیے نئی راہیں تلاش کیں ، وہ نئے ہندوستان کی ایک مثال ہے۔ 39 سالہ بلال احمد جی بہت ہی تعلیم یافتہ ہیں ، انہوں نے کئی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اپنی اعلی تعلیم سے وابستہ تجربات کا استعمال آج وہ زراعت میں اپنا اسٹارٹ اپ بنا کر کر رہے ہیں۔ بلال جی نے اپنے گھر پر ہی ورمی کمپوسٹنگ کا ایک یونٹ لگایا ہے۔ اس یونٹ سے تیار کردہ بایو فرٹیلائزر سے نہ صرف کاشتکاری میں بہت فائدہ ہوا ہے بلکہ اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملے ہیں۔ ہر سال کسانوں کو ان بھائیوں کی اکائیوں سے تقریبا تین ہزار کوئنٹل ورمی کمپوسٹ مل رہا ہے۔ آج اس ورمی کمپوسٹنگ یونٹ میں 15 لوگ بھی کام کر رہے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ان کی اس یونٹ کو دیکھنے کے لیے پہنچ رہی ہے اور ان میں سے بیشتر ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو زراعت کے شعبے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پلوامہ کے شیخ برادران نے نوکری کے متلاشی بننے کے بجائے نوکری کی تخلیق کرنے کا عہد لیا اور آج وہ نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ملک بھر کے لوگوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، 25 ستمبر کو ملک کے عظیم سپوت پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کا یوم پیدائش ہے۔ دین دیال جی پچھلی صدی کے عظیم مفکرین میں سےایک ہیں۔ معاشیات کا ان کا فلسفہ ، معاشرے کو بااختیار بنانے کی ان کی پالیسیاں ، ان کے ذریعہ دکھایا گیا انتودے کا راستہ آج بھی جتنا موزوں ہے اتنا ہی باعث ترغیب بھی ہے۔ تین سال پہلے ، 25 ستمبر کو ، ان کی سالگرہ کے موقع پرہی دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم - آیوشمان بھارت یوجنا نافذ کی گئی تھی۔ آج ، ملک کے دو سوا دو کروڑ سے زیادہ غریبوں کو آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ہسپتال میں 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج مل چکا ہے۔ غریبوں کے لیے اتنی بڑی اسکیم دین دیال جی کے انتودیے فلسفے کے لیے ہی وقف ہے۔ اگر آج کے نوجوان ان کے اقدار اور نظریات کو اپنی زندگی میں اپنائیں تو یہ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک بار لکھنؤ میں ، دین دیال جی نے کہا تھا - "کتنی اچھی اچھی چیزیں ، اچھی اچھی خوبیاں ہیں - یہ سب ہمیں معاشرے سے ہی توحاصل ہوتی ہیں۔ ہمیں معاشرے کا قرض ادا کرنا ہے ، اس طرح کی سوچ ہونی ہی چاہیے۔ " یعنی دین دیال جی نےسبق سکھایا کہ ہم معاشرے سے ، ملک سے اتنا کچھ لیتے ہیں ، جو کچھ بھی ہے ، وہ ملک کی وجہ سے ہی تو ہے ، لہذا ملک کے تئیں اپنا قرض کیسے ادا کریں گے، اس سلسلے میں سوچنا چاہیے۔ یہ آج کے نوجوانوں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے۔
دوستو ، دین دیال جی کی زندگی سے ہمیں کبھی ہار نہیں ماننے کا سبق بھی ملتا ہے۔ مخالف سیاسی اور نظریاتی حالات کے باوجود ، ہندوستان کی ترقی کے لیے دیسی ماڈل کے وژن سے وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ آج ، بہت سے نوجوان بنے بنائے راستوں سے الگ ہو کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ چیزوں کو اپنی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ دین دیال جی کی زندگی سے انہیں کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان کے بارے میں ضرور جانیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم نے کئی موضوعات پر بات چیت کی۔ جیسا کہ ہم بات بھی کر رہے تھے ، آنے والا وقت تہواروں کا ہے۔ پورا ملک مریادا پرشوتم شری رام کے جھوٹ پر فتح کا تہوار بھی منانے جا رہا ہے۔ لیکن اس تہوار میں ہمیں ایک اورجنگ کے بارے میں یاد رکھنا ہے - وہ ہے کورونا کے خلاف ملک کی جنگ ۔ ٹیم انڈیا اس جنگ میں روزانہ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ ٹیکہ کاری میں ، ملک نے ایسے کئی ریکارڈ بنائے ہیں جن پر پوری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں ہر ہندوستانی کا اہم کردار ہے۔ ہمیں اپنی باری آنے پر ویکسین تو لگوانی ہی ہے ، لیکن ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ کوئی اس حفاظتی دائرے سے باہر نہ رہ جائے ۔ اپنے اردگرد جسے ویکسین نہیں لگی اسے بھی ویکسین سینٹر تک لے جانا ہے۔ ویکسین لگنے کے بعد بھی ضروری پروٹوکول پر عمل کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس جنگ میں ایک بار پھر ٹیم انڈیا اپنا جھنڈا لہرائے گی۔ ہم اگلی بار کچھ دوسرے موضوعات پر 'من کی بات' کریں گے۔ آپ سب کو ، ہر اہل وطن کو ، تہواروں کی بہت بہت مبارکباد۔
شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
ہم سب کو پتہ ہے کہ آج میجر دھیان چند جی کی سالگرہ ہےاور ہمارا ملک ، ان کی یاد میں اس دن کو کھیلوں قومی دن کے طور پر بھی مناتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اس وقت ، میجر دھیان چند جی کی آتما ، جہاں بھی ہو گی ، بہت خوشی محسوس کرتی ہو گی ۔ پوری دنیا میں بھارت کی ہاکی کا ڈنکا بجانے کا کام دھیان چند جی کی ہاکی نے کیا تھا اور چار دہائیوں بعد ، تقریباً 41 سال بعد بھارت کے نو جوانوں نے ، بیٹے اور بیٹیوں نے ہاکی کے اندر پھر ایک بار جان ڈال دی ہے اور کتنے ہی تمغے کیوں نہ مل جائیں ، لیکن جب تک ہاکی میں تمغہ نہیں ملتا ، بھارت کا کوئی بھی شہری فتح کی خوشی حاصل نہیں کر سکتا ہے اور اس مرتبہ اولمپک میں ہاکی کا تمغہ ملا ، چار دہائیوں بعد ملا ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ،میجر دھیان چند جی کے دل پر ، اُن کی آتما پر ، وہ جہاں ہوں گے ،وہاں کتنی خوشی ہو گی اور دھیان چند جی کی پوری زندگی کھیل کے لئے وقف تھی اور اس لئے آج جب ہمیں ملک کے نو جوانوں میں ، ہمارے بیٹے بیٹیوں میں کھیل کے تئیں ، جو دلچسپی نظر آ رہی ہے ، ماں باپ کو بھی ، بچے اگر کھیل میں آگے جا رہے ہیں تو خوشی ہو رہی ہے ۔ یہ جو جذبہ نظر آ رہا ہے ، میں سمجھتا ہوں ، یہی میجر دھیان چند جی کے لئے بہت بڑا اظہارِ عقیدت ہے ۔
ساتھیو ،
جب کھیلوں کی بات آتی ہے تو یہ فطری بات ہے کہ پوری نوجوان نسل ہمارے سامنے نظر آتی ہے اور جب ہم نوجوان نسل کو قریب سے دیکھتے ہیں تو کتنی بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔ نوجوانوں کا ذہن بدل گیا ہےاور آج کا نوجوان ذہن ، پرانے طریقوں سے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہٹ کر کرنا چاہتا ہے۔ آج کا نوجوان بنے بنائے راستوں پر نہیں چلنا چاہتا ، وہ نئے راستے بنانا چاہتا ہے۔ کسی نامعلوم مقام پر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ منزل بھی نئی ، ہدف بھی نئے ، راستے بھی نئے اور خواہش بھی نئی ۔ ارے ، ایک بار جب دل میں ٹھان لیتا ہے نا نو جوان ، جی جان سے لگ جاتا ہے ۔ دن رات محنت کر رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں ، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بھارت نے اپنے اسپیس کے شعبے کو کھولا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان نسل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طلباء ، نجی شعبے میں کام کرنے والے نوجوان بڑھ چڑھ کو آگے آئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے سیٹلائٹس ہوں گے ، جن میں ہمارے نو جوانوں ، ہمارے طلباء نے ، ہمارے کالج نے ، ہماری یونیورسٹی نے ، لیب میں کام کرنے والے طلباء نے کام کیا ہوگا۔
اسی طرح آج آپ جہاں کہیں بھی دیکھیں ، کسی بھی خاندان میں جائیں ، چاہے وہ خاندان کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو ، پڑھا لکھا خاندان لیکن اگر آپ خاندان کے نوجوان سے بات کریں تو وہ اپنے خاندان سے کیا کہتا ہے جو کہ روایات سے ہٹ کر کہتا ہے ۔ میں اسٹارٹ اپ کروں گا ، میں سٹارٹ اپ میں جاؤں گا یعنی اس کا دِل خطرہ مول لینے کے لئے بے تاب ہے۔ آج اسٹارٹ اپ کلچر چھوٹے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے اور میں اس میں روشن مستقبل کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے ملک میں کھلونوں پر بحث ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب یہ موضوع ہمارے نوجوانوں کی توجہ میں آیا تو انہوں نے اپنے ذہن میں یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ ہندوستان کے کھلونوں کو دنیا میں پہچان کیسے دلائی جائے اور وہ نئے تجربات کر رہے ہیں اور دنیا میں کھلونوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ، 6-7 لاکھ کروڑ کی مارکیٹ ہے۔ آج ہندوستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن کھلونے کیسے بنائے جائیں ، کھلونوں کی اقسام کیا ہیں ، کھلونوں میں ٹیکنالوجی کیا ہے ، بچوں کی نفسیات کے مطابق کھلونے کیسے ہیں، آج ہمارے ملک کا نوجوان اس پر توجہ دے رہا ہے ، کچھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔ ساتھیوں ، ایک اور بات ، جو دل کو بھی خوشی سے بھر دیتی ہے اور یقین کو بھی مضبوط کرتی ہے اور وہ کیا ہے ؟ کیا آپ نے کبھی توجہ دی ہے؟ عام طور پر ہمارے یہاں ایک عادت بن چکی ہے – ہوتی ہے ، چلو یار چلتا ہے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں ، میرے ملک کا نوجوان ذہن اب خود کو بہترین کی طرف مرکوز کر رہا ہے۔ بہترین کرنا چاہتا ہے ، بہترین طریقے سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی قوم کی ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا۔
ساتھیو ،
اس بار اولمپکس نے بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔ اولمپک کھیل ختم ہوچکے ہیں ، اب پیرالمپکس جاری ہیں۔ ملک کے لئے ، کھیل کی اس دنیا میں ، جو کچھ ہوا ، دنیا کے مقابلے بھلے ہی کم ہو لیکن یقین کرنے کے لئے بہت کچھ ہوا ہے ۔ آج نوجوان صرف اسپورٹس کی طرف ہی دیکھ رہا ہے ، ایسا نہیں ہے لیکن ہم اس سے جڑے امتحانات کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔ نو جوان پورے نظام کو بہت باریکی سے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی افادیت کو سمجھ رہا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں خود کو جوڑنا بھی چاہتا ہے ۔ اب وہ روایتی چیزوں سے آگے بڑھ کر نئے ڈسپلن اپنا رہا ہے ۔ میرے ہم وطنوں ، جب اتنی رفتار آئی ہے ، ہر خاندان میں کھیلوں پر گفتگو شروع ہو گئی ہے۔ آپ مجھے بتائیں ، کیا اس رفتار کو اب رکنے دینا چاہیے ، کیا اسے رکنے دیا جائے؟ جی نہیں ۔ آپ بھی میری طرح سوچ رہے ہوں گے۔ اب ملک میں کھیل ، کھیل کود ، اسپورٹس ، اسپورٹس مین اسپرٹ اب رکنی نہیں ہے ۔ اس رفتار کو خاندانی زندگی میں ، سماجی زندگی میں ، قومی زندگی میں مستقل بنانا ہے ۔ توانائی سے بھر دینا ہے ، مسلسل نئی توانائی سے بھر دینا ہے ۔ گھر ہو ، باہر ہو ، گاؤں ہو ، شہر ہو ، ہمارے کھیل کے میدان بھرے ہونے چاہئیں ، ہر ایک کو کھیلنا چاہیے – سب کھیلیں سب کھیلیں اور آپ کو یاد ہے ناں ، کہ میں نے لال قلعہ سے کہا تھا – ‘‘ سب کا پریاس ’’ ۔ جی ہاں ، سب کی کوشش۔ سب کی کوشش سے ہی بھارت کھیلوں میں وہ اونچائی حاصل کر سکے گا ، جس کا وہ حقدار ہے۔ میجر دھیان چند جی جیسے لوگوں نے ، جو راہ بتائی ہے ، اُس پر آگے بڑھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ سالوں کے بعد ملک میں ایسا دور آیا ہے کہ چاہے وہ ایک خاندان ہو ، ایک معاشرہ ہو ، ایک ریاست ہو ، ایک قوم ہو - تمام لوگ ایک جذبے کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔
میرے پیارے نوجوانوں ،
ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف قسم کے کھیلوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ گاؤں گاؤں کھیلوں کے مقابلوں کو مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ یہ مقابلہ کے ذریعے ہوتا ہے کہ کھیل کا فروغ ہوتا ہے ، کھیلوں کی ترقی ہوتی ہے ، کھلاڑی بھی اس سے نکلتے ہیں۔ آئیے ، ہم سب ہم وطن اس رفتار میں جتنا زیادہ تعاون کر سکتے ہیں ، ‘ سب کا پریاس ’ ، اس منتر کو پورا کر کے دکھائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
کل جنم اشٹمی کا عظیم تہوار بھی ہے۔ جنم اشٹمی کے اس تہوار کو ، بھگوان شری کرشن کی پیدائش کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہم بھگوان کے ہر روپ سے واقف ہیں ، نٹ کھٹ کنہیا سے لےکر ، عظیم روپ حاصل کرنےوالے کرشن تک ، شاستروں کی اہلیت سے لے کر شاستر کی حمایت والے کرشن تک ۔ فن ہو ، خوبصورتی ہو ، کہاں کہاں کرشن ہیں لیکن یہ باتیں میں اِس لئے کر رہا ہوں کہ جنم اشٹمی سے کچھ دن پہلے میں ایک ایسے دلچسپ تجربے سے گزرا ہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ یہ باتیں میں آپ کو بتاؤں ۔ آپ کو یاد ہوگا ، اس مہینے کی 20 تاریخ کو بھگوان سومناتھ مندر سے جڑے تعمیراتی کاموں کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔ سومناتھ مندر سے 3 – 4 کلومیٹر فاصلے پر بھالکا تیرتھ ہے ۔ یہ بھالکا تیرتھ وہیں ہے ، جہاں بھگوان شری کرشن نے زمین پر اپنے آخری لمحات گزارے تھے۔ ایک طرح سے، اس دنیا کی اُن کی لیلاؤں کا وہاں اختتام ہوا تھا ۔ سومناتھ ٹرسٹ کے ذریعہ اس پورے علاقے میں بہت سارے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ میں بھالکا تیرتھ اور وہاں ہونے والے کام کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے ایک خوبصورت آرٹ بک دیکھی۔ کسی نے یہ کتاب میرے لیے میری رہائش کے باہر کوئی میرے لئے چھوڑ گیاتھا ۔ اس میں بھگوان شری کرشن کے مختلف روپوں کو دکھایا گیا تھا ،بہت خوبصورت تصویریں تھی اور بڑی میننگ فُل تصویریں تھیں ۔ جب میں نے کتاب کے صفحات کو پلٹنا شروع کیا تو میرا تجسس کچھ اور بڑھ گیا۔ جب میں نے یہ کتاب اور ان تمام تصاویر کو دیکھا اور اس پر میرے لیے ایک پیغام لکھا اور پھر جو میں نے پڑھا ، تو میرا دل چاہا کہ ان سے ملوں ، جو یہ کتاب میرے گھر کے پاس چھوڑ گئے ہیں ، مجھے اُن سے ملنا چاہیئے تو میرے دفتر نے اُن کے ساتھ رابطہ قائم کیا ۔ دوسرے ہی دن اُن کو ملنے کے لئے بلایا اور میرا تجسس اتنا تھا ، آرٹ بُک کو دیکھ کر کے ، شری کرشن کی الگ الگ تصویروں کو دیکھ کر کے ۔ اسی تجسس میں میری ملاقات جدو رانی داسی جی سے ہوئی ۔ وہ امریکی ہیں ، پیدائش امریکہ میں ہوئی ، پرورش امریکہ میں ہوئی ، جدو رانی داسی جی اسکون سے جڑی ہیں ۔ ہرے کرشنا موومنٹ سے جڑی ہوئی ہیں اور ان الگ الگ موومنٹس سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کی بہت بڑی خصوصیت ہے ، ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عقیدت کے فن میں ماہر ہیں۔ آپ جانتے ہیں ، ابھی دو دن بعد ہی ، یکم ستمبر کو ، اسکون کے بانی شری پربھو پاد سوامی جی کی 125 ویں سالگرہ ہے ۔ جدو رانی داسی جی ، اسی سلسلے میں بھارت آئی تھیں ۔ میرے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ جن کی پیدائش امریکہ میں ہوئی ہے ، وہ ہندوستانی جذبات سے اتنی رہیں ، وہ آخر کیسے بھگوان کرشن کی اتنی خوبصورت تصاویر بنا لیتی ہیں ۔ میری اُن سے کافی طویل بات ہوئی تھی لیکن میں آپ کو کچھ حصہ سنانا چاہتا ہوں ۔
پی ایم سر: جدو رانی جی ، ہرے کرشنا!
میں نے بھکتی آرٹ کے بارے میں تھوڑا بہت پڑا ہے لیکن ہمارے سامعین کواِس کے بارے میں کچھ اور بتائیں ۔ اس کے لئے آپ کا جذبہ اور دلچسپی بہت زیادہ ہے ۔
جدو رانی جی: تو ، بھکتی آرٹ میں ہمارا ایک مضمون ہے ، جس میں بھکتی آرٹ پر مثالیں دی گئی ہیں کہ کس طرح یہ آرٹ ذہن یا تصور سے ابھرتا ہے لیکن قدیم ویدک صحیفوں میں ، جیسے بھرم سنہیتا ۔
Ven Omkaraya Patitam skilatam Sikand (वें ओंकाराय पतितं स्क्लितं सिकंद), from The Goswami’s of Vrindavan, from the Lord Brahma himself. Eeshwarah paramah krishnah sachchidanand vigrahah ( ईश्वर: परम: कृष्ण: सच्चिदानन्द विग्रह: ) how He carries the flute, how all of his senses can act for any other sense and Srimad bhagwatam (TCR 9.09) (Barhapeend natwarvapuh karnayoh karnakaram ) बर्हापींड नटवरवपुः कर्णयो: कर्णिकारं everything,
وہ اپنے کانوں میں کرنیکا کے پھول لگاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کمل جیسے پیروں کی پورے ورندا وَن میں چھاپ چھوڑی ہے ۔ گائیں کے ریوڑ ، اُن کی تعریف کرتے ہیں ۔ اُن کی بانسری تمام خوش قسمت لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو راغب کرتی ہے ۔ اس لئے قدیم ویدک صحیفوں میں ، جن شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے اور جو حقیقی طور پر عقیدت مند ہیں ، اسے ایک آرٹ کے طورپر اپناتے ہیں اور اس قوت کی وجہ سے یہ زندگی تبدیل کرنے والی ہے اور اس میں میری کسی قوت کا دخل نہیں ہے ۔
پی ایم سر :
جدو رانی جی ، میرے آپ سے کچھ الگ طرح کے سوال ہیں ۔ 1966 ء سے ، اور خاص طور سے 1976 ء سے آپ طویل عرصے سے بھارت سے منسلک ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ بھارت ،آپ کے لئے کیا حیثیت رکھتا ہے ؟
جدو رانی جی:
وزیر اعظم جی ، بھارت میرے لئے سب کچھ ہے۔ میں بتاتی ہوں کہ میں نے کچھ دن پہلے صدر جمہوریہ سے بات کی تھی کہ بھارت تکنیکی طورپر بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے اور ٹوئیٹر انسٹاگرام اور آئی فون اور بڑی بڑی عمارتوں میں مغرب کی راہ پر آگے بڑھا ہے ۔ یہاں تک کے ہر س