پختہ عزم اور ترغیبات سے اصلاحات

Published By : Admin | June 22, 2021 | 14:46 IST

کووڈ-19 وبائی مرض پالیسی بنانے کے معاملے میں پوری دنیا کی حکومتوں کے لیے نئے چیلنجز لیکر آیا ہے۔ بھارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ پائیداری کو یقینی بناتے ہوئے، عوامی فلاح و بہبود کے لیے مناسب وسائل کا انتظام کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

پوری دنیا میں مالی بحران کے اس تناظر میں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہندوستانی ریاستیں 21-2020 میں زیادہ قرض لینے میں کامیاب رہیں؟ شاید یہ جان کر آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی کہ ریاستیں 21-2020 میں اضافی 1.06 لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب رہیں۔ وسائل کی دستیابی میں یہ قابل قدر اضافہ مرکز اور ریاست کے درمیان ’بھاگیداری‘ کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔

ہم نے جب کووڈ-19 وبائی مرض کے جواب میں اپنی اقتصادی پالیسی بنائی، تو ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ہمارا یہ حل ’ایک ہی سائز سب کے لیے فٹ آتا ہے‘ والے ماڈل کی پیروی نہ کرے۔ بر اعظم کے طول و عرض کے حامل ایک وفاقی ملک کے لیے، ریاستی حکومتوں کے ذریعے اصلاحات کے فروغ کے لیے قومی سطح پر ایسی کوئی پالیسی تیار کرنا واقعی میں چیلنج بھرا ہے۔ لیکن، ہمیں اپنی وفاقی جمہوریہ کی مضبوطی پر اعتماد تھا اور ہم مرکز اور ریاست کے درمیان بھاگیداری کے جذبہ سے اس راستے پر آگے بڑھے۔

مئی 2020 میں، آتم نربھر بھارت پیکیج کے حصہ کے طور پر، حکومت ہند نے اعلان کیا کہ ریاستی حکومتوں کو 21-2020 کے لیے اضافی قرض لینے کی اجازت دی جائے گی۔ جی ایس ڈی پی سے 2 فیصد زیادہ کی اجازت دی گئی، جس میں سے ایک فیصد کو مخصوص اقتصادی اصلاحات کے نفاذ سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ ہندوستانی عوامی معیشت میں اصلاح کی یہ پہل نایاب ہے۔ اس کے تحت ریاستوں کو اس بات کے لیے آمادہ کیا گیا کہ وہ اضافی رقم حاصل کرنے کے لیے ترقی پسند پالیسیاں اختیار کریں۔ اس مشق کے نتائج نہ صرف حوصلہ افزا ہیں، بلکہ اس خیال آرائی کے برعکس بھی ہیں کہ ٹھوس اقتصادی پالیسیوں پر عمل کرنے والے محدود ہیں۔

چار اصلاحات جن سے اضافی قرض لینے کو جوڑا گیا (جس میں سے ہر ایک کے ساتھ جی ڈی پی کا 0.25 فیصد جوڑا گیا تھا) اس کی دو خصوصیات تھیں۔ پہلی، اصلاحات میں سے ہر ایک کو عوام، خاص طور سے غریبوں، کمزوروں، اور متوسط طبقہ کی زندگی کو بہتر بنانے سے جوڑا گیا تھا۔ دوسری، انہوں نے مالی استحکام کو بھی فروغ دیا۔

’ایک ملک ایک راشن کارڈ‘ کی پالیسی کے تحت پہلی اصلاح میں ریاستی حکومتوں کو یہ یقینی بنانا تھا کہ قومی غذائی تحفظ قانون (این ایف ایس اے) کے ےتحت ریاست کے تمام راشن کارڈوں کو فیملی کے تمام ممبران کے آدھار نمبر سے جوڑا جائے اور مناسب قیمت والی تمام دکانوں پر الیکٹرانک پوائنٹ آف سیل ڈیوائسز ہوں۔ اس کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ مہاجر کارکن اپنا غذائی راشن ملک میں کہیں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ شہریوں کو ملنے والے ان فوائد کے علاوہ، فرضی کارڈ اور ڈوپلیکیٹ ممبران کے ختم ہونے سے بھی مالی فائدہ ہوا۔ 17 ریاستوں نے اس اصلاح کو مکمل کر لیا اور انہیں 37600 کروڑ روپے کا اضافی قرض فراہم کیا گیا۔

دوسری اصلاح، جس کا مقصد کاروبار میں آسانی کو بہتر کرنا تھا، کے تحت ریاستوں کو یہ یقینی بنانا تھا کہ 7 قوانین کے تحت کاروبار سے متعلق لائسنس کی تجدید خود کار، آن لائن اور معمولی فیس کی ادائیگی  پر کی جائے۔ دوسری شرط تھی کمپیوٹر کے ذریعے اچانک جانچ کا نظام نافذ کیا جائے  اور جانچ سے قبل نوٹس  دیا جائے تاکہ مزید 12 قوانین کے تحت ہراسانی اور بدعنوانی کو کم کیا جا سکے۔ اس اصلاح سے (19 قوانین کا احاطہ کرتے ہوئے) انتہائی چھوٹی اور چھوٹی انٹرپرائزز کو خاص طور سے مدد ملی، جنہیں ’انسپکٹر راج‘ کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہتر سرمایہ کاری کے ماحول، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور تیزی سے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ 20 ریاستوں نے اس اصلاح کو مکمل کیا اور انہیں 39521 کروڑ روپے کے اضافی قرض کی اجازت دی گئی۔

پندرہویں مالیاتی کمیشن اور متعدد ماہرین تعلیم نے ٹھوس پراپرٹی ٹیکس کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ تیسری اصلاح کے تحت ریاستوں کو شہری علاقوں میں بالترتیب جائیداد کے لین دین اور موجودہ اخراجات کے لیے اسٹامپ ڈیوٹی گائیڈ لائن کی قدروں کے مطابق، پراپرٹی ٹیکس اور پانی اور سیوریج چارجز کی بنیادی شرحوں کے بارے میں نوٹیفائی کرنا تھا۔ یہ شہری غریبوں اور متوسط طبقہ کو بہترین معیار کی خدمات مہیا کرائے گا اور بہتر بنیادی ڈھانچہ کی معاونت کے ساتھ ہی ترقی کو آگے بڑھائے گا۔ پراپرٹی ٹیکس بھی اس معاملے میں ترقی پسند ہے اور اس سے شہری علاقوں کے غریبوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ یہ اصلاح میونسپل اسٹاف کے لیے بھی فائدہ مند ہے جنہیں اکثر ان کی اجرت دیر سے ملتی ہے۔ 11 ریاستوں نے ان اصلاحات کو مکمل کیا اور انہیں 15957 کروڑ روپے کے اضافی قرض کو منظوری دی گئی۔

چوتھی اصلاح کاشتکاروں کو بجلی کی مفت سپلائی کے سلسلے میں ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کو متعارف کرانا تھی۔ اس کے لیے یہ شرط تھی کہ ریاست گیر اسکیم تیار کی جائے اور سال کے آخر تک پائلٹ بنیاد پر کسی ایک ضلع میں اسے حقیقی طور پر نافذ کیا جائے۔ اس کے ساتھ جی ایس ڈی پی کے 0.15 فیصد کے اضافی قرض کو جوڑا گیا تھا۔ تکنیکی اور کاروباری نقصانات میں کمی کے لیے ایک جزو بھی فراہم کیا گیا تھا اور دوسرا محصول اور اخراجات (ہر ایک کے لیے جی ایس ڈی پی کا 0.05 فیصد) کے درمیان کے فرق کو کم کرنے کے لیے تھا۔اس سے تقسیم کار کمپنیوں کے مالی معاملات میں بہتری آتی ہے، پانی اور بجلی کی بچت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور بہتر مالیاتی اور تکنیکی کارکردگی کے ذریعے سروس کے معیار میں بہتری آتی ہے۔ 13 ریاستوں نے کم از کم ایک جزو کو نافذ کیا، جب کہ 6 ریاستوں نے ڈی بی ٹی جزو کو نافذ کیا۔ اس کے نتیجہ میں، 13201 کروڑ روپے کے اضافی قرض کی اجازت دی گئی۔

مجموعی طور پر، 23 ریاستوں نے امکانی 2.14 لاکھ کروڑ روپے میں سے 1.06 لاکھ کروڑ روپے کے اضافی قرض لیے۔ اس کے نتیجہ میں ریاستوں کو 21-2021 کے لیے (مشروط اور غیر مشروط) ابتدائی تخمینی جی ایس ڈی پی کے 4.5 فیصد کے مجموعی قرض کی اجازت دی گئی۔

ہمارے جیسے پیچیدہ چیلنجز والے ایک بڑے ملک کے لیے، یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ متعدد اسباب کی بناپر، اسکیمیں اور اصلاحات سالوں تک غیر فعال رہتی ہیں۔ یہ ماضی کی خوشگوار روانگی تھی، جہاں مرکز اور ریاستیں وبائی مرض کے دوران بہت ہی مختصر وقت میں عوام دوست ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے ایک ساتھ آئیں۔ یہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس والے ہمارے نقطہ نظر کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔ان اصلاحات پر کام کرنے والے افسران کی رائے ہے کہ اضافی رقم کی اس ترغیب کے بغیر، ان پالیسیوں کو نافذ کرنے میں برسوں لگ جاتے۔  بھارت نے ’چوری چھپے اور زبردستی اصلاحات‘ کا ماڈل دیکھا ہے۔ یہ ’پختہ عزم اور ترغیبات سے اصلاحات‘ کا نیا ماڈل ہے۔ میں ان تمام ریاستوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنے شہریوں کی بہتری کے لیے اس مشکل وقت میں ان پالیسیوں کو سب سے آگے بڑھ کر شروع کیا۔ ہم 130 کروڑ ہندوستانیوں کی تیزی سے ترقی کے لیے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھیں گے۔

  • Jitendra Kumar April 17, 2025

    🙏🇮🇳❤️🎉
  • Dheeraj Thakur March 25, 2025

    जय श्री राम।
  • Dheeraj Thakur March 25, 2025

    जय श्री राम
  • KANODI GANGADHAR March 20, 2025

    JAI BHARATH MAATHA KI JAI BJP JAI
  • Prasanth reddi March 14, 2025

    జై శ్రీ రామ్.. జై బీజేపీ... 🙏🚩🪷✌️
  • Chhedilal Mishra December 07, 2024

    Jai shrikrishna
  • कृष्ण सिंह राजपुरोहित भाजपा विधान सभा गुड़ामा लानी November 19, 2024

    जय श्री राम 🚩
  • Jitender Kumar Haryana BJP State President October 09, 2024

    ❤️🇮🇳
  • Jitender Kumar Haryana BJP State President October 09, 2024

    🙏❤️🇮🇳
  • manvendra singh September 24, 2024

    jai hind jai bharat 🙏🏽🙏🏽💐🙏🏽🙏🏽💐
Explore More
ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی

Popular Speeches

ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی
Chirag Paswan writes: Food processing has become a force for grassroots transformation

Media Coverage

Chirag Paswan writes: Food processing has become a force for grassroots transformation
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
ایکتاکا مہاکمبھ – ایک نئے دور کا آغاز
February 27, 2025

مقدس شہر پریاگ راج میں منعقدہ مہاکمبھ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اتحاد کا ایک عظیم الشان مہایگیہ مکمل ہوا۔ جب کسی قوم کا شعور بیدار ہوتا ہے، جب وہ صدیوں کی محکومی کے زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی تازہ ہوا میں سانس لیتی ہے، تو وہ ایک نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ یہی منظر 13 جنوری سے پریاگ راج میں منعقدہ ایکتا کا مہاکمبھ میں دیکھنے کو ملا۔

|

22 جنوری 2024 کو جب ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشتہ (پتھ پوجا) ہوئی، میں نے دیو بھکتی اور دیش بھکتی یعنی دیوتاؤں اور وطن سے عقیدت کی بات کی۔ مہاکمبھ کے دوران دیوی دیوتاؤں، سنتوں، خواتین، بچوں، نوجوانوں، بزرگوں اور تمام طبقوں کے لوگوں کا ایک ساتھ اجتماع ہوا۔ جس دوران ہم نے بھارت کے بیدار شعور کا مشاہدہ کیا۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ تھا، جہاں 140 کروڑ بھارتیوں کے جذبات ایک مقام پر، ایک وقت میں یکجا ہوئے۔

پریاگ راج کی اسی مقدس سرزمین پر شرنگویپور واقع ہے، جو اتحاد، محبت اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بھگوان شری رام اور نشاد راج کی ملاقات ہوئی، جو عقیدت اور خیرسگالی کے سنگم کی علامت بنی۔ آج بھی پریاگ راج ہمیں اسی جذبے سے متاثر کرتا ہے۔

|

45 دنوں تک میں نے ملک کے ہر گوشے سے کروڑوں عقیدت مندوں کو سنگم کی جانب بڑھتے دیکھا۔ جذبات کا ایک مسلسل بہاؤ نظر آیا۔ ہر یاتری کا واحد مقصد سنگم میں مقدس ڈبکی لگانا تھا۔ گنگا، جمنا اور سرسوتی کے مقدس میل سے ہر یاتری کے دل میں نیا جوش، توانائی اور اعتماد پیدا ہوا۔

|

پریاگ راج میں یہ مہاکمبھ نہ صرف عقیدت کا مرکز تھا بلکہ جدید نظم و نسق، منصوبہ بندی اور پالیسی ماہرین کے لیے بھی ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ دنیا میں اس پیمانے پر ایسا کوئی اور اجتماع نہیں ہوتا۔ پوری دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ کروڑوں افراد بغیر کسی رسمی دعوت نامے کے، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، خود بخود پریاگ راج پہنچے اور مقدس جل میں ڈبکی لگانے کی روحانی خوشی محسوس کی۔

میں ان چہروں کو نہیں بھول سکتا جنہوں نے مقدس اشنان کے بعد بے پناہ خوشی اور سکون کی روشنی بکھیر دی۔ خواتین، بزرگ، ہمارے معذور بھائی بہن – سبھی کسی نہ کسی طرح سنگم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

|

مہاکمبھ میں بھارت کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت، میرے لیے سب سے خوشی کی بات تھی۔ ان کی موجودگی ایک زبردست پیغام ہے کہ بھارت کا نوجوان اپنے شاندار ثقافتی ورثے کو سنبھالنے اور آگے بڑھانے کی مکمل ذمہ داری محسوس کر رہا ہے۔

|

اس مہاکمبھ کے لیے پریاگ راج پہنچنے والوں کی تعداد نے بلاشبہ نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ محض جسمانی موجودگی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس میں کروڑوں ہندوستانیوں کے دل و دماغ جذباتی طور پر جڑے ہوئے تھے۔ مقدس جل، جو عقیدت مند اپنے ساتھ لے کر گئے، ملک کے لاکھوں گھروں میں روحانی مسرت کا ذریعہ بنا۔ بہت سے دیہاتوں میں یاتریوں کا استقبال احترام کے ساتھ کیا گیا اور انہیں سماج میں عزت بخشی گئی۔

جو کچھ پچھلے چند ہفتوں میں ہوا، وہ بے مثال ہے اور آئندہ صدیوں کے لیے ایک نئی بنیاد رکھ چکا ہے۔ مہاکمبھ میں جتنے یاتری آئے، وہ توقعات سے کہیں زیادہ تھے۔

|

امریکہ کی کل آبادی سے بھی دوگنا افراد اس ایکتا کا مہاکمبھ میں شامل ہوئے!

اگر روحانی علوم کے ماہرین اس اجتماع کے جوش و جذبے کا مطالعہ کریں، تو انہیں نظر آئے گا کہ اپنی وراثت پر فخر کرنے والا بھارت، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے، جو ایک نئے بھارت کا مستقبل تحریر کرے گا۔

ہزاروں سالوں سے مہاکمبھ نے بھارت کے قومی شعور کو بیدار رکھا ہے۔ ہر پورن کمبھ پر سنت، عالم، اور دانشور اکٹھا ہو کر معاشرتی حالات پر غور و فکر کرتے اور قوم و سماج کو نئی سمت عطا کرتے ہیں۔ ہر چھ سال بعد اردھ کمبھ میں ان نظریات کا جائزہ لیا جاتا اور 144 سال بعد جب بارہ پورن کمبھ مکمل ہوتے، تو پرانی روایات کا تجزیہ کر کے نئی سمت متعین کی جاتی۔

144 سال بعد، اس مہاکمبھ میں ہمارے سنتوں نے بھارت کے ترقی کے اور سفر کے حوالے سے ایک بار پھر ہمیں ایک نیا پیغام دیا ہے۔ وہ ترقی یافتہ بھارت- وِکست بھارت کا پیغام ہے۔

|

اس ایکتا کا مہاکمبھ میں ہر یاتری، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، نوجوان ہو یا بزرگ، گاؤں کا ہو یا شہر کا، بھارت میں رہتا ہو یا بیرون ملک، مشرق کا ہو یا مغرب کا، شمال کا ہو یا جنوب کا، کسی بھی ذات، مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتا ہو، سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ یہ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے خواب کی حقیقی تصویر تھی، جس نے کروڑوں افراد میں اعتماد کی لہر دوڑا دی۔

مجھے بھگوان شری کرشن کے بچپن کا وہ لمحہ یاد آتا ہے جب انہوں نے اپنی ماں یشودا کو اپنے منہ میں پورا سنسار دکھا دیا تھا۔ اسی طرح، اس مہاکمبھ میں پوری دنیا نے بھارت کی اجتماعی طاقت کی ایک جھلک دیکھی۔ہمیں اب اس خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لئے خود کو وقف کرنا چاہیے۔

اس سے قبل، بھکتی تحریک کے سنتوں نے پورے بھارت میں ہمارے اجتماعی عزم کی طاقت کو پہچانا اور اسے پروان چڑھایا۔ سوامی وویکانند سے لیکر شری اروِندو تک، ہر عظیم مفکر نے ہمیں اجتماعی ارادے کی طاقت کی یاد دلائی۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی نے بھی آزادی کی تحریک میں اسے محسوس کیا۔اگر آزادی کے بعد اس اجتماعی قوت کو ملکی فلاح و بہبود کے لیے صحیح طریقے سے استعمال کیا جاتا، تو یہ ایک عظیم طاقت بن سکتی تھی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اب، میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں کہ یہ اجتماعی طاقت ایک ترقی یافتہ بھارت کے لیے متحد ہو رہی ہے۔

|

ویدوں سے وویکانند تک، قدیم صحیفوں سے جدید سیٹلائٹ تک، بھارت کی عظیم روایات نے اس ملک کی تشکیل کی ہے۔ایک شہری کی حیثیت سے، میری دعا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں اور سنتوں کی یادوں سے نئی تحریک حاصل کریں۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ ہمیں نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دے۔ ہمیں اتحاد کو اپنا اصول بنانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کی خدمت ہی حقیقی بھکتی ہے۔

کاشی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران، میں نے کہا تھا کہ ''ماں گنگا نے مجھے بلایا ہے''۔ یہ محض ایک جذباتی بات نہیں تھی، بلکہ مقدس دریاؤں کی صفائی کی ذمہ داری کا ایک عہد تھا۔پریاگ راج میں گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر کھڑے ہو کر میرا عزم اور مضبوط ہوا۔ یہ مہاکمبھ ہمیں نہ صرف دریاؤں کی صفائی بلکہ قومی یکجہتی اور ترقی کی راہ پر مسلسل کام کرنے کی تحریک دیتا ہے۔

|

پریاگ راج میں گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر کھڑے ہو کر میرا عزم اور بھی مضبوط ہو گیا۔ ہمارے دریاؤں کی صفائی کا ہماری اپنی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ندیوں کو چاہے چھوٹے یا بڑے، زندگی دینے والی ماؤں کے طور پر تعظیم کریں۔ اس مہاکمبھ نے ہمیں اپنی ندیوں کی صفائی کے لیے کام کرتے رہنے کی ترغیب دی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ اتنی بڑی تقریب کا انعقاد کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میں ماں گنگا، ماں جمنا اور ماں سرسوتی سے دعا کرتا ہوں کہ اگر ہماری عقیدت میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو وہ ہمیں معاف کر دیں۔ میں جنتا جناردن، لوگوں کو الوہیت کے مجسم کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اگر ان کی خدمت میں ہماری کوششوں میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو تو میں بھی لوگوں سے معافی کا خواستگار ہوں۔

|

مہاکمبھ میں کروڑوں لوگ عقیدت کے ساتھ شریک ہوئے۔ ان کی خدمت کرنا بھی ایک ذمہ داری تھی جو اسی جذبے کے ساتھ ادا کی گئی۔ اتر پردیش سے ممبر پارلیمنٹ کے طور پر میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یوگی جی کی قیادت میں انتظامیہ اور عوام نے مل کر اس ایکتا کا مہاکمبھ کو کامیاب بنانے کے لیے کام کیا۔ ریاست ہو یا مرکز، کوئی حکمران یا منتظم نہیں تھا، اس کے بجائے، ہر کوئی ایک عقیدت مند سیوک تھا۔ صفائی کے کارکن، پولیس، کشتی والے، ڈرائیور، کھانا پیش کرنے والے لوگ - سب نے انتھک محنت کی۔ بہت سی تکالیف کا سامنا کرنے کے باوجود پریاگ راج کے لوگوں نے جس طرح کھلے دل کے ساتھ یاتریوں کا استقبال کیا وہ خاص طور پر متاثر کن تھا۔ میں ان کا اور اتر پردیش کے لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

مجھے اپنی قوم کے روشن مستقبل پر ہمیشہ سے غیر متزلزل اعتماد رہا ہے۔ اس مہاکمب کو دیکھنے سے میرا یقین کئی گنا مضبوط ہوا ہے۔

|

جس طرح سے 140 کروڑ بھارتیوں نے اس ایکتا کا مہاکمبھ کو عالمی تقریب میں بدل دیا وہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ اپنے لوگوں کی لگن، محنت اور کوششوں سے متاثر ہوکر، میں جلد ہی شری سومناتھ کا دورہ کروں گا، جو 12جیوترلنگوں میں سے پہلا ہے، تاکہ انہیں ان اجتماعی قومی کوششوں کا ثمرہ پیش کر سکوں اور ہر بھارتی کیلئے دعا کر سکوں۔


یہ مہاکمبھ مہا شیوراتری پر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، لیکن جیسے گنگا کا بہاؤ کبھی نہیں رک سکتا، اسی طرح یہ روحانی طاقت، قومی شعور اور اتحاد آنے والی نسلوں کو ہمیشہ متاثر کرتا رہے گا۔