‘‘ہم نے دنیا کے سامنے –ایک کرۂ ارض ایک صحت کا وژن پیش کیاہے ۔ اس میں سبھی مخلوقات ، بنی نوع انسان ، جانوروں اور نباتات کے لئے مجموعی حفظان صحت شامل ہے ’’
‘‘سبھی کے لئے طبی علاج کو کفایتی بنانا ہماری حکومت کی اعلیٰ ترین ترجیح رہی ہے ’’
‘‘آیوش مان بھارت اور جن اوشدھی اسکیموں کی بدولت غریب اورمتوسط طبقات کے مریضوں کی ایک لاکھ کروڑروپے سے زیادہ کی بچت ہوئی ہے ’’
‘‘پی ایم –آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن سے نہ صرف نئے اسپتالوں میں اضافہ ہورہاہے بلکہ صحت سے متعلق ایک نیا اورمکمل ایکونظام بھی تیارہورہاہے ’’
‘‘حفظان صحت کے شعبے میں ٹکنالوجی پرتوجہ مرکوز کرنا صنعت کاروں کے لئے ایک بہت بڑا موقع ہے اور اس سے سبھی کے لئے حفظا ن صحت سے متعلق ہماری کوششوں کو تقویت فراہم ہوگی ’’
‘‘آج ادویہ سازی کے شعبے کا مارکیٹ سائز 4لاکھ کروڑروپے ہے اوریہ نجی شعبے اور علم ودانش کے اداروں کے ساتھ مناسب تال میل کے ساتھ 10لاکھ کروڑروپے کے بقدر ہوسکتاہے ’’

نمسکار جی!

ساتھیو،

جب ہم ہیلتھ کیئر کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اسے پری کووڈ ایرا اور پوسٹ پینڈیمک ایرا کی تقسیم کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ کورونا نے پوری دنیا کو دکھایا اور سکھایا ہے کہ جب اتنی بڑی آفت آتی ہے تو خوشحال ممالک کے ترقی یافتہ نظام بھی منہدم ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی توجہ اب پہلے سے کہیں زیادہ ہیلتھ کیئر پر مبذول ہوگئی ہے، لیکن ہندوستان کا نقطہ نظر صرف ہیلتھ کیئر تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ ہم ایک قدم آگے بڑھ کر فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے ہم نے دنیا کے سامنے ایک وِژن رکھا ہے -  ’ایک زمین ایک صحت‘(ون ارتھ – ون ہیلتھ)، یعنی جانداروں کے لیے، چاہے وہ انسان ہوں، جانور ہوں، پودے ہوں، ہم نے سب کے لیے ایک مکمل حفظان صحت کی بات کی ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ سپلائی چین کتنی اہم ہو گئی ہے۔ جب وبا اپنے عروج پر تھی تب  ادویات، ویکسین، طبی آلات جیسی زندگی بچانے والی چیزیں بدقسمتی سے کچھ ممالک کے لیے ہتھیار بن چکی تھیں۔ گزشتہ برسوں کے بجٹ میں ہندوستان نے ان تمام موضوعات پر بہت زیادہ توجہ دی ہے۔ ہم مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ بیرونی ممالک پر ہندوستان کا انحصار کم سے کم ہو۔ اس میں آپ تمام حصص داروں  کا بہت بڑا کردار ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک، ہندوستان میں صحت کے حوالے سے ایک مربوط نقطہ نظر، ایک طویل مدتی نقطہ نظر کا فقدان تھا۔ ہم نے صحت کی دیکھ بھال کو صرف وزارت صحت تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ’ہول آف دی گورنمنٹ ‘کے نقطہ نظر پر زور دیا ہے۔ ہندوستان میں علاج کو سستا بنانا ہماری حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے۔ آیوشمان بھارت کے تحت 5 لاکھ روپے تک مفت علاج کی یہ سہولت دینے کے پیچھے ہمارے ذہن میں یہی احساس ہے۔ اس کے تحت تقریباً 80 ہزار کروڑ روپے، جو ملک کے کروڑوں مریضوں کے علاج کے لیے خرچ ہونے تھے، خرچ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ ابھی کل یعنی 7 مارچ کو ملک جن اوشدھی دیوس منانے جا رہا ہے۔ آج ملک بھر میں تقریباً 9000 جن اوشدھی کیندر ہیں۔ ان مراکز پر دوائیں بازار سے بہت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ غریب اور متوسط ​​طبقے کے خاندانوں نے صرف دوائیں خریدنے میں تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے بچائے ہیں۔ یعنی اب تک صرف 2 اسکیموں سے ہمارے ہندوستان کے شہریوں کے 1 لاکھ کروڑ روپے بچ گئے ہیں۔

ساتھیو،

سنگین بیماریوں کے لیے ملک میں اچھے اور جدید ہیلتھ انفراسٹرکچر کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ حکومت کی بڑی توجہ اس بات پر بھی ہے کہ لوگوں کو ان کے گھروں کے قریب ٹیسٹنگ کی سہولتیں اور ابتدائی طبی امداد کے لیے بہتر سہولیات میسر ہوں۔ اس کے لیے ملک بھر میں 1.5 لاکھ صحت اور تندرستی مراکز (ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹرس ) تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان مراکز میں ذیابیطس، کینسر اور دل کی سنگین بیماریوں کی اسکریننگ کی سہولت موجود ہے۔ پی ایم آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے تحت صحت کے اہم انفراسٹرکچر کو چھوٹے شہروں اور قصبوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے چھوٹے شہروں میں نئے اسپتال بن رہے ہیں، صحت کے شعبے سے متعلق ایک پورا ایکو سسٹم بھی تیار ہو رہا ہے۔ اس میں بھی ہیلتھ انٹرپرینیورز، سرمایہ کاروں اور پیشہ ور افراد کے لیے بہت سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

ساتھیو،

صحت کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ حکومت کی ترجیح انسانی وسائل پر بھی ہے۔ گزشتہ برسوں میں 260 سے زائد نئے میڈیکل کالج کھولے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج میڈیکل گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سیٹوں کی تعداد 2014 یعنی جب ہم اقتدار میں آئے تھے ،کے مقابلے میں دوگنی ہو گئی ہے ۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک کامیاب ڈاکٹر کے لیے ایک کامیاب ٹیکنیشین بہت ضروری ہے۔ اس لیے اس سال کے بجٹ میں نرسنگ سیکٹر کو وسعت دینے پر زور دیا گیا ہے۔ میڈیکل کالجوں کے قریب 157 نئے نرسنگ کالج کا افتتاح میڈیکل ہیومن ریسورس کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔ یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کی مانگ کو پورا کرنے میں بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

ساتھیو،

صحت کی دیکھ بھال کو قابل رسائی اور سستی بنانے میں ٹیکنالوجی کا کردار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے ہماری توجہ صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر بھی ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ آئی ڈی کے ذریعے ہم اہل وطن کو بروقت صحت دیکھ بھال کی سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ای سنجیونی جیسی ٹیلی کنسلٹیشن کی کوششوں سے 10 کروڑ لوگوں نے گھر بیٹھے ڈاکٹروں سے آن لائن مشاورت کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اب 5جی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اس شعبے میں اسٹارٹ اپس کے لیے بھی کافی امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی کی بدولت دواؤں کی ڈیلیوری اور ٹیسٹنگ سے متعلق لاجسٹکس میں انقلابی تبدیلی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس سے یونیورسل ہیلتھ کیئر کے لیے ہماری کوششوں کو تقویت ملے گی۔ یہ ہمارے کاروباریوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ہمارے تاجروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمیں اب کسی بھی ٹیکنالوجی کو درآمد کرنے سے گریز کرنا ہے اور ہمیں خود کفیل بننا ہے۔ ہم فارما اور میڈیکل ڈیوائس کے شعبے میں امکانات کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے ضروری ادارہ جاتی اصلاحات بھی کر رہے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں بہت سی نئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ بلک ڈرگ پارک کی بات ہو، میڈیکل ڈیوائس پارک کے نظام کو تیار کرنے کا معاملہ ہو، پی ایل آئی جیسی اسکیموں میں 30 ہزار کروڑ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ طبی آلات کا شعبہ بھی گزشتہ چند سالوں میں 12 سے 14 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ آنے والے 2-3 سالوں میں یہ مارکیٹ 4 لاکھ کروڑ تک پہنچنے والی ہے۔ ہم نے مستقبل کی میڈیکل ٹیکنالوجی، اعلیٰ ترین مینوفیکچرنگ اور تحقیق کے لیے ہنر مند افرادی قوت پر کام شروع کر دیا ہے۔ آئی آئی ٹی اور دیگر اداروں میں طبی آلات کی تیاری کی تربیت کے لیے بایو میڈیکل انجینئرنگ یا اسی طرح کے کورسز بھی چلائے جائیں گے۔ اس میں بھی پرائیویٹ سیکٹر کی زیادہ سے زیادہ شرکت کیسے ہو ، انڈسٹری، اکیڈمیاں اور حکومت کے درمیان کس طرح زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہو اس پر ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔

ساتھیو،

کبھی کبھی آفت خود کو ثابت کرنے کا موقع بھی لے کر آتی ہے۔ فارما سیکٹر نے کووڈ کے دوران یہ دکھایا ہے۔ ہندوستان کے فارما سیکٹر نے جس طرح کووڈ کےدور میں پوری دنیا کا اعتماد حاصل کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ ہماری اس  شہرت، ا س کارنامے اور اس  اعتماد پر  رتّی برابر بھی آنچ نہیں آنی چاہیےبلکہ یہ اعتماد اور زیادہ بڑھناچاہیے ۔ سنٹرز آف ایکسی لینس کے ذریعے فارما میں تحقیق اور اختراع کو فروغ دینے کے لیے ایک نیا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ ان کوششوں سے معیشت کو کافی تقویت ملے گی، ساتھ ہی روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ آج اس سیکٹر کی مارکیٹ کا حجم 4 لاکھ کروڑ روپئے ہے۔ اگر ہم اس میں پرائیویٹ سیکٹر اور اکیڈمیا کے ساتھ تال میل کریں تو یہ سیکٹر بھی 10 لاکھ کروڑ کو عبور کر سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ فارما انڈسٹری اس شعبے میں اہم ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کرے اور ان میں سرمایہ کاری کرے۔ حکومت نے تحقیق کو فروغ دینے کے لیے کئی دوسرے اقدامات بھی کیے ہیں۔ حکومت نے نوجوانوں اور تحقیقی صنعت کے لیے کئی آئی سی ایم آر لیبز کھولنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسی طرح کے اور کون سے انفرااسٹرکچر ہیں، جو کھولے جا سکتے ہیں۔

ساتھیو،

احتیاطی حفظان صحت کے حوالے سے حکومت کی کوششوں کا بہت اثر ہوا ہے۔ گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچانے کے لیے سووچھ بھارت ابھیان ہو ، دھوئیں سے ہونے والی بیماریوں سے بچانے کے لیے اجولا یوجنا ہو، آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں سے بچانے کے لیے جل جیون مشن ہو،  ایسے کئی اقدامات کے آج ملک میں بہتر نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اسی طرح غذائیت کی کمی، خون کی کمی بھی ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسی لیے ہم نے نیشنل نیوٹریشن مشن شروع کیا اور اب یہ خوشی کی بات ہے کہ ملٹ یعنی شری انیہ جو کہ ایک طرح سے سپر فوڈ ہے، نیوٹریشن کے لیے، غذائیت کیلئے اہم غذا ہےاور جس سے ہمارے ملک کا ہر گھرانہ فطری طور پر واقف ہے۔ یعنی شری انیہ پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ہندوستان کی کوششوں کی وجہ سے اس سال کو اقوام متحدہ کی جانب سے ملٹ (موٹے اناج) کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ پی ایم ماتری وندنا یوجنا اور مشن اندر دھنش جیسے پروگراموں کے ساتھ ہم صحت مند زچگی اور صحت مند بچپن کو یقینی بنا رہے ہیں۔ یوگا ہو، آیوروید ہو، فٹ انڈیا موومنٹ ہو، انہوں نے لوگوں کو بیماریوں سے بچانے میں مدد کی ہے۔ ہندوستان کی آیورویدک مصنوعات کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ ہندوستان کی کوششوں سے روایتی ادویات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا عالمی مرکز ہندوستان میں ہی بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے میری صحت کے شعبے کے حصص داروں سے اور خاص طور پر آیوروید کے دوستوں سے درخواست ہے کہ ہمیں ثبوت پر مبنی تحقیق کو بہت زیادہ بڑھانا ہوگا۔ صرف نتیجہ کے بارے میں بات کرنا کافی نہیں ہے، ثبوت بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اس کے لیے آیوروید کے میدان میں کام کرنے والے کاروباریوں، تحقیقی ساتھیوں کو جوڑنا ہوگا، انہیں آگے آنا ہوگا۔

ساتھیو،

جدید طبی بنیادی ڈھانچے سے لے کر طبی انسانی وسائل تک، ملک میں کی جانے والی کوششوں کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ جو  ملک میں نئی سہولتیں پیدا کر رہے ہیں، جو نئی صلاحیت پیدا کر رہے ہیں، ان کے فوائد صرف اہل وطن کے لیے صحت  سہولیات تک محدود نہیں رہیں گے۔ اب دنیا ایک دوسرے سے بہت جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے ہندوستان کو دنیا کا سب سے پرکشش طبی سیاحتی مقام بنانے کا یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔ میڈیکل ٹورازم بذات خود ہندوستان میں ایک بہت بڑا شعبہ بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ ملک میں روزگار پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔

ساتھیو،

              

سب کی کوششوں سے، ہم ترقی یافتہ ہندوستان میں صحت اور تندرستی کا ایک ترقی یافتہ ماحولیاتی نظام تشکیل دے سکتے ہیں۔ میں اس ویبینار میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی تجاویز دیں۔ آئیے ہم مقررہ اہداف کے لیے ایک طے شدہ روڈ میپ کے ساتھ بجٹ کو مقررہ مدت میں نافذ کریں، تمام حصص داروں کو ساتھ لے کر چلیں اور اگلے سال کے بجٹ سے پہلے ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دیں۔ اس بجٹ کے عزائم کو زمین پراتارنے کاکام کریں ، اس کیلئے آپ کی تجاویز درکار ہیں۔ اس میں آپ کے گہرے تجربے سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے تجربے، آپ کی ذاتی ترقی کے عزم کو ملکی  عزم کے ساتھ جوڑ کر، ہم اجتماعی قوت سےاور اجتماعی کوشش سے ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔میری آپ کو بہت بہت مبارکباد ۔

شکریہ۔

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
Modi’s West Asia tour marks India’s quiet reordering of regional security partnerships

Media Coverage

Modi’s West Asia tour marks India’s quiet reordering of regional security partnerships
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs 50th meeting of PRAGATI
December 31, 2025
In last decade, PRAGATI led ecosystem has helped accelerate projects worth more than ₹85 lakh crore: PM
PM’s Mantra for the Next Phase of PRAGATI: Reform to Simplify, Perform to Deliver, Transform to Impact
PM says PRAGATI is essential to sustain reform momentum and ensure delivery
PM says Long-Pending Projects have been Completed in National Interest
PRAGATI exemplifies Cooperative Federalism and breaks Silo-Based Functioning: PM
PM encourages States to institutionalise PRAGATI-like mechanisms especially for the social sector at the level of Chief Secretary
In the 50th meeting, PM reviews five critical infrastructure projects spanning five states with with a cumulative cost of more than ₹40,000 crore
Efforts must be made for making PM SHRI schools benchmark for other schools of state governments: PM

Prime Minister Shri Narendra Modi chaired the 50th meeting of PRAGATI - the ICT-enabled multi-modal platform for Pro-Active Governance and Timely Implementation - earlier today, marking a significant milestone in a decade-long journey of cooperative, outcome-driven governance under the leadership of Prime Minister Shri Narendra Modi. The milestone underscores how technology-enabled leadership, real-time monitoring and sustained Centre-State collaboration have translated national priorities into measurable outcomes on the ground.

Review undertaken in 50th PRAGATI

During the meeting, Prime Minister reviewed five critical infrastructure projects across sectors, including Road, Railways, Power, Water Resources, and Coal. These projects span 5 States, with a cumulative cost of more than ₹40,000 crore.

During a review of PM SHRI scheme, Prime Minister emphasized that the PM SHRI scheme must become a national benchmark for holistic and future ready school education and said that implementation should be outcome oriented rather than infrastructure centric. He asked all the Chief Secretaries to closely monitor the PM SHRI scheme. He further emphasized that efforts must be made for making PM SHRI schools benchmark for other schools of state government. He also suggested that Senior officers of the government should undertake field visits to evaluate the performance of PM SHRI schools.

On this special occasion, Prime Minister Shri Narendra Modi described the milestone as a symbol of the deep transformation India has witnessed in the culture of governance over the last decade. Prime Minister underlined that when decisions are timely, coordination is effective, and accountability is fixed, the speed of government functioning naturally increases and its impact becomes visible directly in citizens’ lives.

Genesis of PRAGATI

Recalling the origin of the approach, the Prime Minister said that as Chief Minister of Gujarat he had launched the technology-enabled SWAGAT platform (State Wide Attention on Grievances by Application of Technology) to understand and resolve public grievances with discipline, transparency, and time-bound action.

Building on that experience, after assuming office at the Centre, he expanded the same spirit nationally through PRAGATI bringing large projects, major programmes and grievance redressal onto one integrated platform for review, resolution, and follow-up.

Scale and Impact

Prime Minister noted that over the years the PRAGATI led ecosystem has helped accelerate projects worth more than 85 lakh crore rupees and supported the on-ground implementation of major welfare programmes at scale.

Since 2014, 377 projects have been reviewed under PRAGATI, and across these projects, 2,958 out of 3,162 identified issues - i.e. around 94 percent - have been resolved, significantly reducing delays, cost overruns and coordination failures.

Prime Minister said that as India moves at a faster pace, the relevance of PRAGATI has grown further. He noted that PRAGATI is essential to sustain reform momentum and ensure delivery.

Unlocking Long-Pending Projects

Prime Minister said that since 2014, the government has worked to institutionalise delivery and accountability creating a system where work is pursued with consistent follow-up and completed within timelines and budgets. He said projects that were started earlier but left incomplete or forgotten have been revived and completed in national interest.

Several projects that had remained stalled for decades were completed or decisively unlocked after being taken up under the PRAGATI platform. These include the Bogibeel rail-cum-road bridge in Assam, first conceived in 1997; the Jammu-Udhampur-Srinagar-Baramulla rail link, where work began in 1995; the Navi Mumbai International Airport, conceptualised in 1997; the modernisation and expansion of the Bhilai Steel Plant, approved in 2007; and the Gadarwara and LARA Super Thermal Power Projects, sanctioned in 2008 and 2009 respectively. These outcomes demonstrate the impact of sustained high-level monitoring and inter-governmental coordination.

From silos to Team India

Prime Minister pointed out that projects do not fail due to lack of intent alone—many fail due to lack of coordination and silo-based functioning. He said PRAGATI has helped address this by bringing all stakeholders onto one platform, aligned to one shared outcome.

He described PRAGATI as an effective model of cooperative federalism, where the Centre and States work as one team, and ministries and departments look beyond silos to solve problems. Prime Minister said that since its inception, around 500 Secretaries of Government of India and Chief Secretaries of States have participated in PRAGATI meetings. He thanked them for their participation, commitment, and ground-level understanding, which has helped PRAGATI evolve from a review forum into a genuine problem-solving platform.

Prime Minister said that the government has ensured adequate resources for national priorities, with sustained investments across sectors. He called upon every Ministry and State to strengthen the entire chain from planning to execution, minimise delays from tendering to ground delivery.

Reform, Perform, Transform

On the occasion, the Prime Minister shared clear expectations for the next phase, outlining his vision of Reform, Perform and Transform saying “Reform to simplify, Perform to deliver, Transform to impact.”

He said Reform must mean moving from process to solutions, simplifying procedures and making systems more friendly for Ease of Living and Ease of Doing Business.

He said Perform must mean to focus equally on time, cost, and quality. He added that outcome-driven governance has strengthened through PRAGATI and must now go deeper.

He further said that Transform must be measured by what citizens actually feel about timely services, faster grievance resolution, and improved ease of living.

PRAGATI and the journey to Viksit Bharat @ 2047

Prime Minister said Viksit Bharat @ 2047 is both a national resolve and a time-bound target, and PRAGATI is a powerful accelerator to achieve it. He encouraged States to institutionalise similar PRAGATI-like mechanisms especially for the social sector at the level of Chief Secretary.

To take PRAGATI to the next level, Prime Minister emphasised the use of technology in each and every phase of the project life cycle.

Prime Minister concluded by stating that PRAGATI@50 is not merely a milestone it is a commitment. PRAGATI must be strengthened further in the years ahead to ensure faster execution, higher quality, and measurable outcomes for citizens.

Presentation by Cabinet Secretary

On the occasion of the 50th PRAGATI milestone, the Cabinet Secretary made a brief presentation highlighting PRAGATI’s key achievements and outlining how it has reshaped India’s monitoring and coordination ecosystem, strengthening inter-ministerial and Centre-State follow-through, and reinforcing a culture of time-bound closure, which resulted in faster implementation of projects, improved last-mile delivery of Schemes and Programmes and quality resolution of public grievances.