وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ کی ملاقات جی-7سربراہی اجلاس کے حاشیے پر پر ہونی طے تھی۔ صدر ٹرمپ کو جلدی واپس امریکہ لوٹنا پڑا، جس کے سبب یہ ملاقات نہیں ہو پائی۔
اس کے بعد، صدر ٹرمپ کے اصرار پر آج دونوں لیڈروں کی فون پر بات ہوئی۔ بات چیت تقریباً 35 منٹ چلی۔
مورخہ22 اپریل کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے فون پر وزیراعظم مودی سےتعزیت کا اظہار کیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف حمایت کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد دونوں لیڈروں کی یہ پہلی بات چیت تھی۔
اس لیے وزیراعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے آپریشن سندور کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ وزیراعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو واضح طور پر کہا کہ 22 اپریل کے بعد بھارت نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کا اپنا پختہ عزم پوری دنیا کو بتا دیا تھا۔
وزیراعظم مودی نے کہا کہ 6-7 مئی کی رات کو بھارت نے پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں صرف دہشت گردی کے ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا تھا۔ بھارت کے ایکشن بہت ہی موازن، درست اور غیر تصعیدی تھے۔
ساتھ ہی، بھارت نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کی گولی کا جواب بھارت گولے سے دے گا۔
مورخہ9 مئی کی رات کو نائب صدروینس نے وزیراعظم مودی کو فون کیا تھا۔ نائب صدر وینس نے کہا تھا کہ پاکستان بھارت پر بڑا حملہ کر سکتا ہے۔ وزیراعظم مودی نے انہیں صاف الفاظ میں بتایا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے، تو بھارت پاکستان کو اس سے بھی بڑا جواب دے گا۔
مورخہ9-10 مئی کی رات کو پاکستان کے حملے کا بھارت نے بہت موثر جواب دیا اور پاکستان کی فوج کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس کے ملٹری ایئربیسس کوناکارہ بنا دیا۔ بھارت کے منہ توڑ جواب کے باعث پاکستان کو بھارت سے فوجی کارروائی روکنے کی درخواست کرنی پڑی۔
وزیراعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو واضح طور پر کہا کہ اس پورے واقعہ کے دوران کبھی بھی، کسی بھی سطح پر، بھارت-امریکہ تجارتی معاہدہ یا امریکہ کی طرف سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی جیسے موضوعات پر بات نہیں ہوئی تھی۔ فوجی کارروائی روکنے کی بات براہ راست بھارت اور پاکستان کے درمیان، دونوں افواج کے موجودہ ذرائع سے ہوئی تھی اور پاکستان کی ہی درخواست پر ہوئی تھی۔
وزیراعظم مودی نے زور دے کر کہا کہ بھارت نے نہ تو کبھی ثالثی قبول کی تھی، نہ کرتا ہے اور نہ ہی کبھی کرے گا۔ اس موضوع پر بھارت میں مکمل سیاسی اتفاق رائے ہے۔
صدر ٹرمپ نے وزیراعظم کی طرف سے تفصیل سے بیان کی گئی باتوں کو سمجھا اور دہشت گردی کے خلاف بھارت کی لڑائی کی حمایت کی۔ وزیراعظم مودی نے یہ بھی کہا کہ بھارت اب دہشت گردی کوپراکسی جنگ نہیں، بلکہ جنگ کے طور پرہی دیکھتا ہے اور بھارت کا آپریشن سندور ابھی بھی جاری ہے۔
صدر ٹرمپ نے وزیراعظم مودی سے پوچھا کہ کیا وہ کینیڈا سے واپسی میں امریکہ رک کر جاسکتے ہیں۔ پہلے سے طے شدہ پروگراموں کی وجہ سے، وزیراعظم مودی نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا۔ دونوں لیڈرز نے تب طے کیا کہ وہ مستقبل قریب میں ملاقات کی کوشش کریں گے۔
صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی نے اسرائیل-ایران کے درمیان جاری تنازعہ پر بھی بات چیت کی۔ روس-یوکرین تنازعہ پر دونوں نے اتفاق کیا کہ جلد از جلد امن کے لیے، دونوں فریقوں میں براہ راست بات چیت ضروری ہے اور اس کے لیے کوششیں جاری رکھنی چاہییں۔ انڈو-پیسفک علاقے کے حوالے سے دونوں لیڈروں نے اپنے نظریات کا تبادلہ کیا اور اس خطے میں کواڈ کے اہم کردار کی حمایت کی۔
کواڈ کی اگلی میٹنگ کے لیے وزیراعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو بھارت کے دورے کی دعوت دی۔ صدر ٹرمپ نے دعوت قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت آنے کے خواہش مند ہیں۔
اعلان برأت: یہ سکریٹری خارجہ کے بیان کا تخمینہ ترجمہ ہے ۔ اصل تقریر ہندی میں کی گئی ۔