از - نریندر مودی ، وزیر اعظم ہند
چند روز قبل ہم نے پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کو کھویا ہے۔ ہمارے ملک نے ایک ایسا صاحب بصیرت کھو دیا ہے جس نے زرعی سائنس کو انقلاب سے ہمکنار کیا۔ ایک ایسی جید شخصیت بھارت کے تئیں جس کے تعاون کو سنہری حروف میں رقم کیا جائے گا۔

پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن بھارت سے محبت کرتے تھے اور چاہتے تھےکہ ہمارا ملک اور بطور خاص ہمارے کاشتکار خوشحالی کی زندگی بسر کریں۔ تعلیمی لحاظ سے ازحد تیز انہوں نے اپنے لیے کوئی بھی بہتر مستقبل کا انتخاب کر لیا ہوتا، تاہم وہ 1943 کے بنگال کے قحط سے اس حد تک متاثر تھے کہ اگر انہیں زندگی میں کچھ کرنا ہے تو وہ صرف زراعت کا مطالعہ کریں گے۔


نسبتاً اوائل عمری میں ہی وہ ڈاکٹر نارمن بورلاگ کے رابطے میں آگئے اور انہوں نے تفصیل کے ساتھ ان کے کام کو آگے بڑھایا۔ 1950 کے دہے میں انہیں امریکہ میں استاد کے عہدے کی پیشکش کی گئی تاہم انہوں نے اسے مسترد کر دیا کیونکہ وہ بھارت میں اور

بھارت کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔

 


میں چاہتا ہوں کہ آپ ان چنوتیوں کو اپنے ذہن میں لائیں جن کے مدمقابل ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہمارے ملک کی رہنمائی خودکفالت اور خود اعتمادی کی جانب کی۔ آزادی کے بعد سے آگے کے دو دہوں میں ہم زبردست چنوتیوں سے نبردآزما تھے، ان میں سے ایک تھی خوراک کی قلت۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں بھارت ہر سو چھائی ہوئی قحط کی پرچھائی سے نبرد آزما تھا اور یہی وقت تھا جب پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن نے اپنی غیر متزلزل عہدبندگی سے زرعی خوشحالی کا ایک نیا عہد متعارف کرایا۔ زراعت اور مخصوص شعبوں مثلاً گیہوں کی افزائش کے سلسلے میں انہوں نے پیش رو بن کر جو کام انجام دیے اس کے نتیجے میں گیہوں کی پیداوار میں اضافہ رونما ہوا۔ بھارت خوراک کی قلت والے ملک سے خود کفیل ملک بن گیا۔ اس زبردست حصولیابی نے انہیں بجا طور پر بھارتی سبز انقلاب کے بانی کا درجہ دلا دیا۔
سبز انقلاب نے بھارت کے ’کر سکتے ہیں کے جذبے ‘کی جھلک نمایاں کی- یعنی یہ ثابت ہوا کہ اگر ہمارے سامنے بے شمار چنوتیاں ہوں تو ان کے بالمقابل ہمارے پاس بے شمار اذہان بھی ہیں جن کے اندر اختراع کی رمق موجود ہے جو ان چنوتیوں پر قابو حاصل کر

سکتے ہیں۔ سبز انقلاب کے آغاز کی پانچ دہائیوں کےبعد بھارتی زراعت کہیں زیادہ جدید اور ترقی پسند ہوگئی ہے۔ تاہم پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کے ذریعہ ڈالی گئی بنیاد کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

 


گذشتہ برسوں میں انہوں نے آلو کی فصل کو متاثر کرنے والے طفیلی کیڑوں سے نمٹنے کی پیش رو تحقیق کا کام سنبھالا۔ ان کی تحقیق نے آلو کی فصل کو سرد موسم کی شدت جھیلنے لائق بنا دیا۔ آج پوری دنیا باجرے یا شری اَن کی بات کر رہی ہے اور اسے عمدہ ترین غذا قرار دے رہی ہے تاہم ایم ایس سوامی ناتھن نے 1960 کی دہائی میں ہی باجروں کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
ایم ایس سوامی ناتھن کے ساتھ میرا ذاتی ربط و ضبط کافی وسیع تر تھا۔ یہ ربط و ضبط اس وقت شروع ہوا جب میں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر 2001 میں عہدہ سنبھالا۔ ان دنوں گجرات زرعی قوت کے لیے معروف نہیں تھا ۔ یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی خوشک سالی اور سوپر سائیکلون اور زلزلے نے ریاست کی ترقی کے راستے پر اثرات مرتب کیے تھے۔ ہم نے متعدد پہل قدمیوں کا آغاز کیا تھا، ان میں سے مٹی کی صحت کا کارڈ بھی تھی جس نے ہمیں مٹی کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کے ذریعہ اٹھنے والے مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اسی اسکیم کے پس منظر میں میں نے پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن سے ملاقات کی۔ انہوں نے اسکیم کی سفارش کی اور اس کے لیے اپنی بیش قیمت تجاویز بھی پیش کیں۔ ان کی جانب سے حاصل ہوئی توثیق ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی تھی جنہیں اس اسکیم کے بارے میں تشکیک لاحق تھی جو آخر کار گجرات کی زرعی کامیابی کے لیے زمین ہموار کرنے والی تھی۔

 


کورل میں کاشتکاروں کو وہ رابطہ قرار دیا گیا ہے جو دنیا کو مربوط رکھتا ہے کیونکہ کاشتکار ہی ہیں جو سب کی بقا کے ضامن ہیں۔ ایم ایس سوامی ناتھن نے اس اصول کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ بے شمار لوگ انہیں کرشی ویگکیانک -ایک زرعی سائنس داں پکارتے ہیں تاہم میں نے ہمیشہ اس بات میں یقین کیا کہ وہ اس سے بھی کہیں زیادہ عظیم تر شخصیت تھے۔ وہ صحیح معنوں میں کسان وگیانک یعنی کاشتکاروں کے سائنس داں تھے۔ ان کے دل کے اندر ایک کاشتکار موجود تھا۔ ان کے کام کی کامیابی ان کی علمی عمدگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان اثرات میں بھی مضمر ہے جو تجربہ گاہوں سے باہر مرتب ہوتے ہیں یعنی زرعی میدانوں اور کھیتوں میں نظر آتے ہیں۔ ان کے کام نے سائنسی علم اور اس کے عملی استعمال کے مابین واقع فاصلے کو کم سے کم کر دیا۔ انہوں نے لگاتار ہمہ گیر زراعت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی ترقی اور معیشت حیوانات کی ہمہ گیری کے مابین نفیس توازن برقرار رہنا ضروری ہے۔ یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایم ایس سوامی ناتھن کی جانب سے چھوٹے کاشتکاروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے

اور اس امر کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا کہ انہیں بھی اختراع کے ثمرات حاصل ہونے چاہئیں۔ وہ بطور خاص خواتین کاشتکاروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے جذبے سے سرشار تھے۔
پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کے متعلق ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو ازحد اہم ہے – وہ اختراع اور سرپرستی کے معاملے میں ایک پیش رو شخصیت کے طور پر کھڑے رہے ۔ جب انہوں نے 1987 میں عالمی خوراک پرائز حاصل کیا وہ اس مقتدر اعزاز کو حاصل کرنے والے اولین شخص تھے، انہوں نے انعام میں حاصل ہونے والی رقم کا استعمال ایک منافع نہ کمانے والے تحقیقی فاؤنڈیشن کے قیام کے لیے کیا۔ تاحال یہ ادارہ مختلف شعبوں میں وسیع تر کام انجام دے رہا ہے۔ انہوں نے بے شمار اذہان کی پرورش کی ہے انہیں پروان چڑھایا ہے، ان کے اندر سیکھنے اور اختراع کا جذبہ جاگزیں کیا ہے۔ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ان کی زندگی ہمیں علم، سرپرستی اور اختراع کی پائیدار قوت کی اہمیت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے طفیل ایسے متعدد مراکز قائم ہوئے جہاں فعال تحقیقی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ان کی ایک اہم مدت کار بین الاقوامی چاول تحقیق ادارہ منیلا کے ڈائریکٹر کے طور پر تھی۔ جنوبی ایشیائی علاقائی مرکز برائے بین الاقوامی چاول تحقیق نام کا ادارہ بھی وارانسی میں 2018 میں کھولا گیا۔
میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کورل کا حوالہ دینا چاہوں گا، اس میں لکھا ہے کہ اگر وہ لوگ جنہوں نے مضبوطی کے ساتھ منصوبہ بندی کی ہے، تو وہ لوگ وہ حاصل کریں گے جس کی انہوں نے جس انداز میں خواہش کی ہے۔ یہاں ایک ایسی جید شخصیت تھی جس نے اپنی زندگی کے اوائل میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ وہ زراعت کو مستحکم بنانا چاہتا ہے اور کاشتکاروں کی خدمت کا متمنی ہے اور انہوں نے یہ کام بے مثال طریقے سے اختراعی انداز میں پورے جوش و جذبے سے انجام دیا۔ ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن کا تعاون ہمیں زرعی اختراع اور ہمہ گیری کے راستے پر آج بھی ترغیب فراہم کر رہا ہے اور ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ ہمیں ان اصولوں کے تئیں اپنے آپ کو ازسر نو وقف کرتے رہنا چاہئے جو انہیں بہت عزیز تھے، یعنی کاشتکاروں کے کاز کو پروان چڑھانا اور سائنسی اختراع اور تحقیق کے ثمرات کو ان کے لیے یقینی بنانا کیونکہ یہی ہماری زرعی توسیع کی بنیادیں ہیں جو نمو، ہمہ گیری اور آئندہ پیڑھیوں کے لیے خوشحالی کو فروغ دیں گی۔

Explore More
ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی

Popular Speeches

ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی
Chirag Paswan writes: Food processing has become a force for grassroots transformation

Media Coverage

Chirag Paswan writes: Food processing has become a force for grassroots transformation
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
ایکتاکا مہاکمبھ – ایک نئے دور کا آغاز
February 27, 2025

مقدس شہر پریاگ راج میں منعقدہ مہاکمبھ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اتحاد کا ایک عظیم الشان مہایگیہ مکمل ہوا۔ جب کسی قوم کا شعور بیدار ہوتا ہے، جب وہ صدیوں کی محکومی کے زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی تازہ ہوا میں سانس لیتی ہے، تو وہ ایک نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ یہی منظر 13 جنوری سے پریاگ راج میں منعقدہ ایکتا کا مہاکمبھ میں دیکھنے کو ملا۔

22 جنوری 2024 کو جب ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشتہ (پتھ پوجا) ہوئی، میں نے دیو بھکتی اور دیش بھکتی یعنی دیوتاؤں اور وطن سے عقیدت کی بات کی۔ مہاکمبھ کے دوران دیوی دیوتاؤں، سنتوں، خواتین، بچوں، نوجوانوں، بزرگوں اور تمام طبقوں کے لوگوں کا ایک ساتھ اجتماع ہوا۔ جس دوران ہم نے بھارت کے بیدار شعور کا مشاہدہ کیا۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ تھا، جہاں 140 کروڑ بھارتیوں کے جذبات ایک مقام پر، ایک وقت میں یکجا ہوئے۔

پریاگ راج کی اسی مقدس سرزمین پر شرنگویپور واقع ہے، جو اتحاد، محبت اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بھگوان شری رام اور نشاد راج کی ملاقات ہوئی، جو عقیدت اور خیرسگالی کے سنگم کی علامت بنی۔ آج بھی پریاگ راج ہمیں اسی جذبے سے متاثر کرتا ہے۔

45 دنوں تک میں نے ملک کے ہر گوشے سے کروڑوں عقیدت مندوں کو سنگم کی جانب بڑھتے دیکھا۔ جذبات کا ایک مسلسل بہاؤ نظر آیا۔ ہر یاتری کا واحد مقصد سنگم میں مقدس ڈبکی لگانا تھا۔ گنگا، جمنا اور سرسوتی کے مقدس میل سے ہر یاتری کے دل میں نیا جوش، توانائی اور اعتماد پیدا ہوا۔

پریاگ راج میں یہ مہاکمبھ نہ صرف عقیدت کا مرکز تھا بلکہ جدید نظم و نسق، منصوبہ بندی اور پالیسی ماہرین کے لیے بھی ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ دنیا میں اس پیمانے پر ایسا کوئی اور اجتماع نہیں ہوتا۔ پوری دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ کروڑوں افراد بغیر کسی رسمی دعوت نامے کے، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، خود بخود پریاگ راج پہنچے اور مقدس جل میں ڈبکی لگانے کی روحانی خوشی محسوس کی۔

میں ان چہروں کو نہیں بھول سکتا جنہوں نے مقدس اشنان کے بعد بے پناہ خوشی اور سکون کی روشنی بکھیر دی۔ خواتین، بزرگ، ہمارے معذور بھائی بہن – سبھی کسی نہ کسی طرح سنگم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

مہاکمبھ میں بھارت کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت، میرے لیے سب سے خوشی کی بات تھی۔ ان کی موجودگی ایک زبردست پیغام ہے کہ بھارت کا نوجوان اپنے شاندار ثقافتی ورثے کو سنبھالنے اور آگے بڑھانے کی مکمل ذمہ داری محسوس کر رہا ہے۔

اس مہاکمبھ کے لیے پریاگ راج پہنچنے والوں کی تعداد نے بلاشبہ نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ محض جسمانی موجودگی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس میں کروڑوں ہندوستانیوں کے دل و دماغ جذباتی طور پر جڑے ہوئے تھے۔ مقدس جل، جو عقیدت مند اپنے ساتھ لے کر گئے، ملک کے لاکھوں گھروں میں روحانی مسرت کا ذریعہ بنا۔ بہت سے دیہاتوں میں یاتریوں کا استقبال احترام کے ساتھ کیا گیا اور انہیں سماج میں عزت بخشی گئی۔

جو کچھ پچھلے چند ہفتوں میں ہوا، وہ بے مثال ہے اور آئندہ صدیوں کے لیے ایک نئی بنیاد رکھ چکا ہے۔ مہاکمبھ میں جتنے یاتری آئے، وہ توقعات سے کہیں زیادہ تھے۔

امریکہ کی کل آبادی سے بھی دوگنا افراد اس ایکتا کا مہاکمبھ میں شامل ہوئے!

اگر روحانی علوم کے ماہرین اس اجتماع کے جوش و جذبے کا مطالعہ کریں، تو انہیں نظر آئے گا کہ اپنی وراثت پر فخر کرنے والا بھارت، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے، جو ایک نئے بھارت کا مستقبل تحریر کرے گا۔

ہزاروں سالوں سے مہاکمبھ نے بھارت کے قومی شعور کو بیدار رکھا ہے۔ ہر پورن کمبھ پر سنت، عالم، اور دانشور اکٹھا ہو کر معاشرتی حالات پر غور و فکر کرتے اور قوم و سماج کو نئی سمت عطا کرتے ہیں۔ ہر چھ سال بعد اردھ کمبھ میں ان نظریات کا جائزہ لیا جاتا اور 144 سال بعد جب بارہ پورن کمبھ مکمل ہوتے، تو پرانی روایات کا تجزیہ کر کے نئی سمت متعین کی جاتی۔

144 سال بعد، اس مہاکمبھ میں ہمارے سنتوں نے بھارت کے ترقی کے اور سفر کے حوالے سے ایک بار پھر ہمیں ایک نیا پیغام دیا ہے۔ وہ ترقی یافتہ بھارت- وِکست بھارت کا پیغام ہے۔

اس ایکتا کا مہاکمبھ میں ہر یاتری، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، نوجوان ہو یا بزرگ، گاؤں کا ہو یا شہر کا، بھارت میں رہتا ہو یا بیرون ملک، مشرق کا ہو یا مغرب کا، شمال کا ہو یا جنوب کا، کسی بھی ذات، مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتا ہو، سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ یہ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے خواب کی حقیقی تصویر تھی، جس نے کروڑوں افراد میں اعتماد کی لہر دوڑا دی۔

مجھے بھگوان شری کرشن کے بچپن کا وہ لمحہ یاد آتا ہے جب انہوں نے اپنی ماں یشودا کو اپنے منہ میں پورا سنسار دکھا دیا تھا۔ اسی طرح، اس مہاکمبھ میں پوری دنیا نے بھارت کی اجتماعی طاقت کی ایک جھلک دیکھی۔ہمیں اب اس خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لئے خود کو وقف کرنا چاہیے۔

اس سے قبل، بھکتی تحریک کے سنتوں نے پورے بھارت میں ہمارے اجتماعی عزم کی طاقت کو پہچانا اور اسے پروان چڑھایا۔ سوامی وویکانند سے لیکر شری اروِندو تک، ہر عظیم مفکر نے ہمیں اجتماعی ارادے کی طاقت کی یاد دلائی۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی نے بھی آزادی کی تحریک میں اسے محسوس کیا۔اگر آزادی کے بعد اس اجتماعی قوت کو ملکی فلاح و بہبود کے لیے صحیح طریقے سے استعمال کیا جاتا، تو یہ ایک عظیم طاقت بن سکتی تھی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اب، میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں کہ یہ اجتماعی طاقت ایک ترقی یافتہ بھارت کے لیے متحد ہو رہی ہے۔

ویدوں سے وویکانند تک، قدیم صحیفوں سے جدید سیٹلائٹ تک، بھارت کی عظیم روایات نے اس ملک کی تشکیل کی ہے۔ایک شہری کی حیثیت سے، میری دعا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں اور سنتوں کی یادوں سے نئی تحریک حاصل کریں۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ ہمیں نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دے۔ ہمیں اتحاد کو اپنا اصول بنانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کی خدمت ہی حقیقی بھکتی ہے۔

کاشی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران، میں نے کہا تھا کہ ''ماں گنگا نے مجھے بلایا ہے''۔ یہ محض ایک جذباتی بات نہیں تھی، بلکہ مقدس دریاؤں کی صفائی کی ذمہ داری کا ایک عہد تھا۔پریاگ راج میں گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر کھڑے ہو کر میرا عزم اور مضبوط ہوا۔ یہ مہاکمبھ ہمیں نہ صرف دریاؤں کی صفائی بلکہ قومی یکجہتی اور ترقی کی راہ پر مسلسل کام کرنے کی تحریک دیتا ہے۔

پریاگ راج میں گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر کھڑے ہو کر میرا عزم اور بھی مضبوط ہو گیا۔ ہمارے دریاؤں کی صفائی کا ہماری اپنی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ندیوں کو چاہے چھوٹے یا بڑے، زندگی دینے والی ماؤں کے طور پر تعظیم کریں۔ اس مہاکمبھ نے ہمیں اپنی ندیوں کی صفائی کے لیے کام کرتے رہنے کی ترغیب دی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ اتنی بڑی تقریب کا انعقاد کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میں ماں گنگا، ماں جمنا اور ماں سرسوتی سے دعا کرتا ہوں کہ اگر ہماری عقیدت میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو وہ ہمیں معاف کر دیں۔ میں جنتا جناردن، لوگوں کو الوہیت کے مجسم کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اگر ان کی خدمت میں ہماری کوششوں میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو تو میں بھی لوگوں سے معافی کا خواستگار ہوں۔

مہاکمبھ میں کروڑوں لوگ عقیدت کے ساتھ شریک ہوئے۔ ان کی خدمت کرنا بھی ایک ذمہ داری تھی جو اسی جذبے کے ساتھ ادا کی گئی۔ اتر پردیش سے ممبر پارلیمنٹ کے طور پر میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یوگی جی کی قیادت میں انتظامیہ اور عوام نے مل کر اس ایکتا کا مہاکمبھ کو کامیاب بنانے کے لیے کام کیا۔ ریاست ہو یا مرکز، کوئی حکمران یا منتظم نہیں تھا، اس کے بجائے، ہر کوئی ایک عقیدت مند سیوک تھا۔ صفائی کے کارکن، پولیس، کشتی والے، ڈرائیور، کھانا پیش کرنے والے لوگ - سب نے انتھک محنت کی۔ بہت سی تکالیف کا سامنا کرنے کے باوجود پریاگ راج کے لوگوں نے جس طرح کھلے دل کے ساتھ یاتریوں کا استقبال کیا وہ خاص طور پر متاثر کن تھا۔ میں ان کا اور اتر پردیش کے لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

مجھے اپنی قوم کے روشن مستقبل پر ہمیشہ سے غیر متزلزل اعتماد رہا ہے۔ اس مہاکمب کو دیکھنے سے میرا یقین کئی گنا مضبوط ہوا ہے۔

جس طرح سے 140 کروڑ بھارتیوں نے اس ایکتا کا مہاکمبھ کو عالمی تقریب میں بدل دیا وہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ اپنے لوگوں کی لگن، محنت اور کوششوں سے متاثر ہوکر، میں جلد ہی شری سومناتھ کا دورہ کروں گا، جو 12جیوترلنگوں میں سے پہلا ہے، تاکہ انہیں ان اجتماعی قومی کوششوں کا ثمرہ پیش کر سکوں اور ہر بھارتی کیلئے دعا کر سکوں۔


یہ مہاکمبھ مہا شیوراتری پر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، لیکن جیسے گنگا کا بہاؤ کبھی نہیں رک سکتا، اسی طرح یہ روحانی طاقت، قومی شعور اور اتحاد آنے والی نسلوں کو ہمیشہ متاثر کرتا رہے گا۔