علاقے کی خواتین نے وزیر اعظم کو ایک بہت بڑی راکھی پیش کرکے، خواتین کے وقار اور ان کی زندگی میں سہولت فراہم کرنے میں ان کی کوششوں کے لئے شکریہ ادا کیا
استفادہ کنندگان کے ساتھ پی ایم نے بات چیت بھی کی
‘‘جب حکومت مخلصانہ طور پر ایک عزم کے ساتھ مستحقین تک پہنچتی ہے تو اس کے معنی خیز نتائج برآمد ہوتے ہیں’’
حکومت کے 8 سال ‘سیوا سوشاسن اور غریب کلیان’ کے لیے وقف کیے گئے ہیں
"میرا خواب بھر پور کارکردگی ہے۔ ہمیں 100 فیصد کوریج کی طرف بڑھنا چاہیےحکومتی مشینری کو اس کی عادت ڈالنی چاہیے اور شہریوں میں اعتماد کی فضا پیدا کرنا چاہیے
استفادہ کنندگان کی 100فیصدشمولیت کا مطلب ہوتا ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے ساتھ ہر مسلک اور ہر طبقے کو یکساں طور پرفوائد کی ترسیل کرنا

نمسکار!

آج کا یہ اُتکرش سماروہ سچ مچ عمدہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ایمانداری سے، ایک عزم کے ساتھ استفادہ کنندہ تک پہنچتی ہے، تو کتنے بامعنی نتیجے حاصل ہوتے ہیں۔ میں بھڑوچ ضلع انتظامیہ کو گجرات حکومت کو سماجی تحفظ سے وابستہ 4 منصوبوں کے سو فیصد سیچوریشن کوریج کے لئے آپ سب کو جتنی مبارک باد دوں اتنی کم ہے۔ آپ سب بہت بہت مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ابھی میں جب ان منصوبوں کے استفادہ کنندگان سے بات چیت کررہا تھا، تو میں دیکھ رہا تھا کہ ان کے اندر کتنی طمانیت ہے، کتنی خوداعتمادی ہے۔ مصیبتوں سے مقابلہ کرنے میں جب حکومت کی چھوٹی سی بھی مدد مل جائے، اور حوصلہ کتنا بلند ہوجاتا ہے اور مصیبت خود مجبور ہوجاتی ہے اور جو مصیبت کو جھیلتا ہے وہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہ آج میں آپ سب کے ساتھ بات چیت کرکے محسوس کررہا تھا۔ ان 4 منصوبوں میں جن بہنوں کو، جن کنبوں کو فائدہ ملا ہے وہ میرے آدیواسی سماج کے بھائی بہن، میرے دلت – پسماندہ طبقے کے بھائی بہن، میرے اقلیتی سماج کے بھائی بہن،  اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ معلومات کی عدم دستیابی کے سبب متعدد لوگ اسکیموں کے فائدے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اسکیمیں کاغذ پر ہی رہ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی اسکیموں کا فائدہ بے ایمان لوگ اٹھا لے جاتے ہیں، لیکن جب ارادہ ہو، نیت صاف ہو، نیکی سے کام کرنے کا ارادہ ہو اور جس بات کو لے کر میں ہمیشہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں، وہ ہے – سب کا ساتھ – سب کا وکاس کا جذبہ، جس سے نتیجے بھی برآمد ہوتے ہیں۔ کسی بھی منصوبے کا سو فیصد مستفیدین تک پہنچنا ایک بڑا ہدف ہے۔  کام مشکل ضرور ہے، لیکن راستہ صحیح یہی ہے۔ میں سبھی مستفیدین کو، انتظامیہ کو یہ آپ نے جو حاصل کیا ہے، اس کے لئے مبارک باد دینی ہی ہے۔

ساتھیو!

آپ جانتے ہیں اچھی طرح، ہماری حکومت جب سے آپ نے مجھے گجرات سے دہلی کی خدمت کے لئے بھیجا، ملک کی خدمت کے لئے بھیجا، اب اس کو بھی 8 سال ہوجائیں گے۔ 8 سال خدمت، اچھی حکمرانی اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رہے ہیں۔ آج جو کچھ بھی میں کرپا رہا ہوں، وہ آپ ہی لوگوں سےسیکھا ہے۔ آپ ہی کے درمیان جیتے ہوئے، ترقی کیا ہوتی ہے، دکھ درد کیا ہوتا ہے، غریبی کیا ہوتی ہے، مصیبتیں کیا ہوتی ہیں، ان کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے اور وہی تجربہ ہے جس کو لے کر آج پورے ملک کے لئے، ملک کے کروڑوں کروڑوں شہریوں کے لئے، خاندان کے ایک فرد کے طور پر کام کررہا ہوں۔ حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے متعلق منصوبوں سے کوئی بھی استفادہ کنندہ جو اس کا حقدار  ہے، وہ حق دار چھوٹنا نہیں چاہئے۔ سب کو فائدہ ملنا چاہئے جو حق دار ہے اور پورا فائدہ ملنا چاہئے۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنو!

جب ہم کسی بھی منصوبے کے سو فیصد ہدف کو حاصل کرتے ہیں تو یہ 100 فیصد صرف اعداد و شمار نہیں ہے۔ اخبار میں اشتہار دینے کا معاملہ نہیں ہے صرف۔ اس کا مطلب ہوتا ہے – حکومت، انتظامیہ، حساس ہے۔ آپ کے سکھ دکھ کا ساتھی ہے۔ یہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ آج ملک میں ہماری حکومت کے آٹھ سال پورے ہورہے ہیں اور جب آٹھ سال پورے ہورہے ہیں تو ہم ایک نئے عزم کے ساتھ، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ مجھے ایک دن ایک بہت بڑے لیڈر ملے، سینئر لیڈر ہیں۔ ویسے ہماری مسلسل مخالفت بھی کرتے رہے، سیاسی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن میں ان کا احترام بھی کرتا رہا ہوں۔ تو کچھ باتوں کے سبب ان کو تھوڑا شکوہ و گلہ تھا تو ایک دن ملنے آئے۔ تو کہا مودی جی یہ کیا کرنا ہے۔ دو دو بار آپ کو ملک نے وزیر اعظم بنادیا۔ اب کیا کرنا ہے۔ ان کو لگتا تھا کہ دو مرتبہ وزیر اعظم بن گیا مطلب بہت کچھ ہوگیا۔ ان کو پتہ نہیں ہے کہ مودی کسی الگ مٹی کا ہے۔ گجرات کی سرزمین نے اس کو تیار کیا ہے اور اس لئے جو بھی ہوگیا اچھا ہوگیا، چلو اب آرام کرو، نہیں میرا خواب ہے – سیچوریشن۔ سو فیصد ہدف کی طرف ہم آگے بڑھیں۔ سرکاری مشینری کو ہم عادت ڈالیں۔ شہریوں میں بھی ہم اعتماد پیدا کریں۔ آپ کو یاد ہوگا 2014 میں جب آپ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا تھا تو ملک کی تقریباً نصف آبادی بیت الخلاء کی سہولت سے، ٹیکہ کاری کی سہولت سے، بجلی کنیکشن کی سہولت سے، بینک اکاؤنٹ کی سہولت سے سیکڑوں میل دور تھی، ایک طرح سے محروم تھی۔ ان برسوں میں ہم سبھی کی کوششوں سے متعدد منصوبوں کو سو فیصد سیچوریشن کے قریب قریب لا پائے ہیں۔ اب آٹھ سال کے اس اہم موقع پر، ایک بار پھر کمر کس کے، سب کا ساتھ لے کر، سب کی کوشش سے آگے بڑھنا ہی ہے اور ہر ضرورت مند ہو، ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کے لئے جی جان سے لگ جانا ہے۔ میں نے پہلے کہا کہ ایسے کام مشکل ہوتے ہیں، لیڈران بھی ان کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن میں سیاست کرنے کے لئے نہیں، میں صرف اور صرف اہل وطن کی خدمت کرنے کے لئے آیا ہوں۔ ملک نے عزم کیا ہے سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا، اور جب سو فیصد پہنچتے ہیں نا، تو سب سے پہلے جو نفسیاتی تبدیلی آتی ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اس میں ملک کا شہری سائل کی حالت سے باہر نکل جاتا ہے پہلے تو۔ وہ مانگنے کے لئے قطار میں کھڑا ہے، یہ احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ یہ میرا ملک ہے، یہ میری حکومت ہے، ان پیسوں پر میرا حق ہے، میرے ملک کے شہریوں کا حق ہے۔ یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوتا ہے اور اس کے اندر فرض کے بیج بھی بودیتا ہے۔

ساتھیو!

جب سیچوریشن ہوتا ہے نا تو تفریق کی ساری گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ہر کسی کو اعتماد رہتا ہے، بھلے اس کو پہلے ملا ہوگا، لیکن بعد میں بھی مجھے ملے گا ہی۔ دو مہینے بعد ملے گا، چھ مہینے بعد ملے گا، لیکن ملنے والا ہے۔ اس کو کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی اور جو دینے والا ہے وہ بھی کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ تم میرے ہو، اس لئے دے رہا ہوں۔ وہ تو میرا نہیں ہے اس لئے نہیں دے رہا ہوں۔ تفریق نہیں کرسکتا اور ملک نے عزم کیا ہے سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا۔ آج جب سو فیصد ہوتا ہے تو نازبرداری کی سیاست تو ختم ہی ہوجاتی ہے۔ اس کے لئے کوئی جگہ نہیں بچتی ہے۔ سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا مطلب ہوتا ہے، سماج میں آخری پائیدان پر کھڑے شخص تک پہنچنا۔ جس کا کوئی نہیں ہے، اس کے لئے حکومت ہوتی ہے۔ حکومت کے عزائم ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی ساتھی بن کر چلتی ہے۔ یہ احساس ملک کے دور دراز جنگلوں میں رہنے والا میرا آدیواسی ہو، جھگی جھونپڑی میں جینے والا میری کوئی غریب ماں بہن ہو، بڑھاپے میں تنہا زندگی گزارنے والا کوئی شخص ہو، ہر کسی میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ اس کے حق کی چیزیں اس کے دروازے پر آکر دینے کے لئے کوشش کی ہے۔

ساتھیو!

سو فیصد مستفیدین کی کوریج یعنی ہر خیال، ہر مذہب، ہر طبقے کو یکساں طور پر سب کا ساتھ، سب کا وکاس سو فیصد فائدہ غریبوں کی بہبود کی ہر اسکیم سے کوئی چھوٹے نہ، کوئی پیچھے نہ رہے۔ یہ بہت بڑا عزم ہے۔ آپ نے آج جو راکھی دی ہے نا، سب بیوہ ماؤں نے، میرے لئے جو راکھی بھی اتنی بڑی بنائی ہے راکھی، یہ سب دھاگا نہیں ہے۔ یہ آپ نے مجھے ایک طاقت دی ہے، قوت دی ہے، اور جن خوابوں کو لے کرکے چلے ہیں، ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے طاقت دی ہے۔ اس لئے آج جو آپ نے مجھے راکھی دی ہے اسے میں انمول تحفہ مانتا ہوں۔ یہ راکھی مجھے ہمیشہ ملک کے غریبوں کی خدمت کے لئے، سو فیصد سیچوریشن کی طرف حکومتوں کو دوڑانے کے لئے تحریک بھی دے گی، حوصلہ بھی دے گی اور ساتھ بھی دے گی۔ یہی تو ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس۔ آج راکھی بھی سب بیوہ ماؤں کی کوشش سے بنی ہے اور میں تو جب گجرات میں تھا، بار بار میں کہتا تھا، کبھی کبھی  خبریں آتی تھیں۔ میرے متعلق، میری سکیورٹی کو لے کر خبریں آتی تھیں۔ ایک آدھ بار تو میری بیماری کی خبر آئی تھی تب میں کہتا تھا بھائی مجھے ماؤں بہنوں  کی حفاظتی ڈھال ملی ہوئی ہے۔ جب تک یہ ماؤں بہنوں کی حفاظتی ڈھال مجھے ملی ہوئی ہے اس حفاظتی ڈھال کو توڑکر کوئی بھی مجھے کچھ نہیں کرسکتا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں ہر قدم پر، ہر لمحہ مائیں بہنیں، ان کا آشیرواد ہمیشہ مجھ پر رہتا ہے۔ ان ماؤں بہنوں کا جتنا قرض میں چکاؤں اتنا کم ہے۔ اور اسی لئے ساتھیو، اسی سنسکار کے سبب میں نے لال قلعہ سے ہمت کی تھی ایک بار بولنے کی، مشکل کام ہے میں پھر کہہ رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے یہ مشکل کام ہے، کیسے کرنا مشکل ہے میں جانتا ہوں۔ سب ریاستوں کو آمادہ کرنا، ساتھ لینا مشکل کام ہے میں جانتا ہوں۔ سبھی سرکاری ملازمین کو اس کام کے لئے دوڑانا مشکل ہے، میں جانتا ہوں۔ لیکن یہ آزادی کا امرت کال ہے۔ آزادی کے 75 سال ہوئے ہیں۔ اس امرت کال میں بنیادی سہولتوں سے متعلق منصوبوں کے سیچوریشن کی بات میں نے لال قلعہ سے کہی تھی۔ سو فیصد جذبۂ خدمت کی ہماری یہ مہم سماجی انصاف، سوشل جسٹس کا بہت بڑا وسیلہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے گجرات کے مردیہ اور مکم وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل، ان کی قیادت میں گجرات حکومت اس عزم کی تکمیل میں پوری تندہی کے ساتھ مصروف ہے۔

ساتھیو!

ہماری حکومت نے سماجی تحفظ، عوامی بہبود اور غریبوں کے وقار کا یہ سارا جو میری سیچوریشن کی مہم ہے، اگر ایک لفظ میں کہنا ہے تو یہی ہے غریب کو وقار۔ غریب کے وقار کے لئے حکومت۔ غریب کے وقار کے لئے عزم اور غریب کے وقار کے سنسکار۔ یہی تو ہمیں تحریک دیتے ہیں۔ پہلے ہم جب سماجی تحفظ کی بات سنتے تھے، تو اکثر دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی مثال دیتے تھے۔ بھارت میں ان کو نافذ کرنے کی جو بھی کوششیں ہوئی ہیں ان کا دائرہ اور اثر دونوں بہت محدود رہے ہیں۔ لیکن سال 2014 کے بعد ملک نے اپنے دائرے کو وسیع کیا، ملک سب کو ساتھ لے کر چلا۔ نتیجہ ہم سبھی کے سامنے ہے۔ 50 کروڑ سے زیادہ اہل وطن کو 5 لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت ملی، کروڑوں لوگوں کو 4 لاکھ روپئے تک کا حادثہ اور لائف انشورنس کی سہولت ملی، کروڑوں بھارتیوں کو 60 سال کی عمر کے بعد ایک مقررہ پنشن کا نظام ملا۔ اپنا پختہ گھر، بیت الخلاء، گیس کنکشن، بجلی کنکشن، پانی کا کنکشن، بینک میں اکاؤنٹ، ایسی سہولتوں کے لئے تو غریب سرکاری دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر ان کی زندگی ختم ہوجاتی تھی۔ وہ ہار جاتے تھے۔ ہماری حکومت نے ان سارے حالات کو بدلا، اسکیموں میں بہتری لائی، نئے ہدف مقرر کئے اور انھیں مسلسل ہم حاصل بھی کررہے ہیں۔ اسی کڑی میں کسانوں کو پہلی بار براہ راست مدد ملی۔ چھوٹے کسانوں کو تو کوئی پوچھتا نہیں تھا بھائی اور ہمارے ملک میں 90 فیصد چھوٹے کسان ہیں۔ 80 فیصد سے زیادہ، قریب قریب 90 فیصد۔ جن کے پاس 2 ایکڑ زمین مشکل سے ہے۔ ان چھوٹے کسانوں کے لئے ہم نے ایک منصوبہ بنایا۔ ہمارے ماہی گیر بھائی بہن، بینک والے ان کو پوچھتے نہیں تھے۔ ہم نے کسان کریڈٹ کارڈ جیسا ہے وہ ماہی گیروں کے لئے شروع کیا۔ اتنا ہی نہیں، ریہڑی پٹری ٹھیلے والوں کو پی ایم سواندھی کی شکل میں بینک سے پہلی بار مدد یقینی بنی ہے اور میں تو چاہوں گا اور ہماری سی آر پاٹل جو بھارتی جنتا پارٹی کے کارکنوں نے سبھی شہروں میں یہ ریہڑی پٹری والوں کو سواندھی کے پیسے ملے۔ ان کا کاروبار سود کے چکر سے آزاد ہوجائے۔ جو بھی محنت کرکے کمائیں وہ گھر کے کام آئے۔ اس کے لئے جو مہم چلائی ہے، میں چاہوں گا بھڑوچ ہو، انکلیشور ہو، والیا ہو، سبھی اپنے ان شہروں میں بھی اس کا فائدہ پہنچے۔ ویسے تو بھڑوچ سے مجھے براہ راست ملاقات کرنی چاہئے اور کافی وقت سے آیا نہیں، تو من بھی ہوتا ہے، کیونکہ بھڑوچ کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا رہا ہے۔ اور بھڑوچ تو اپنی ثقافتی وراثت ہے، تجارت کا، ثقافتی  وراثت کا ہزاروں سال پرانا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا دنیا کو ایک کرنے میں بھڑوچ کا نام تھا۔ اور اپنی ثقافتی وراثت، اپنے کسان، اپنے آدی واسی بھائیوں، اور اب تو صنعت و تجارت سے جگمگا رہا ہے۔ بھڑوچ – انکلیشور جڑواں شہر بن گیا ہے۔ پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اور میں جتنے وقت رہا، پرانے دن سب یاد ہیں۔ آج جدید ترقی کے سبب بھڑوچ ضلع کا نام ہورہا ہے۔ متعدد کام ہورہے ہیں اور فطری بات ہے بھڑوچ جب، بھڑوچ کے لوگوں کے پاس آتا ہوں تب پرانے پرانے لوگ سب یاد آتے ہیں۔ متعدد لوگ، پرانے پرانے دوست، سینئر دوست، کبھی کبھی، ابھی بھی رابطہ ہوتا ہے۔ بہت سالوں پہلے میں جب سنگھ کا کام کرتا تھا، تب بس میں سے اتروں، تب چلتا چلتا مکتی نگر سوسائٹی جاتا تھا۔ مول چند بھائی چوہان کے گھر، ہمارے بپن بھائی شاہ، ہمارے شنکر بھائی گاندھی، متعدد دوست سب پرانے پرانے اور جب آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں، تب مجھے میرے بہادر ساتھی شریش بنگالی بہت یاد آتے ہیں۔ سماج کے لئے جینے والے۔  اور ہمیں پتہ ہے للو بھائی کی گلی سے نکلتے ہیں تب اپنا پانچ بتی ایکسٹینشن۔ ابھی جو 20-25 سال کے جوان لڑکے لڑکیاں ہیں، ان کو تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ یہ پانچ بتی اور للو بھائی کی گلی کا کیا حال تھا۔ ایک دم پتلے راستے، اسکوٹر پر جانا ہو تو بھی مشکل ہوجاتی تھی۔ اور اتنے سارے گڈھے، کیوں کہ مجھے اب بھی یاد ہے میں جاتا تھا۔ اور پہلے تو مجھے کوئی عوامی جلسہ کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ سالوں پہلے بھڑوچ والوں نے مجھے پکڑا، اپنی شکتی نگر سوسائٹی میں۔ تب تو میں سیاست میں آیا بھی نہیں تھا۔ شکتی نگر سوسائٹی میں ایک میٹنگ رکھی تھی، 40 سال ہوگئے ہوں گے۔ اور میں حیران ہوگیا کہ سوسائٹی میں کھڑے رہنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اور اتنے سارے لوگ، اتنے سارے لوگ، آشیرواد دینے آئے تھے۔ میرا کوئی نام نہیں، کوئی جانتا نہیں، پھر بھی زبردست اور بڑا جلسہ ہوا۔ اس دن تب تو میں سیاست میں کچھ تھا ہی نہیں۔ نیا نیا تھا، سیکھ رہا تھا۔ اس وقت مجھے کتنے صحافی دوست ملے، میری تقریر ختم ہونے کے بعد۔ میں نے ان سے کہا، آپ لکھ کر رکھ لو، اس بھڑوچ کے اندر کانگریس کبھی بھی جیتے گی نہیں۔ ایسا میں نے اس وقت کہا تھا۔ آج سے 40 سال پہلے۔ تب سب ہنسنے لگے، میرا مذاق اڑانے لگے، اور آج مجھے کہنا ہے کہ بھڑوچ کے لوگوں کے پیار اور آشیرواد سے وہ بات میری صحیح ثابت ہوئی ہے۔ اتنا سارا پیار، بھڑوچ اور آدی واسی کنبوں کی طرف سے، کیونکہ میں سارے گاؤں گھومتا تھا، تب متعدد قبائلی خاندانوں کے درمیان رہنے کا، ان کے سکھ دکھ میں کام کرنے کا، ہمارے ایک چندو بھائی دیش مکھ تھے پہلے، ان کے ساتھ کام کرنے کا، پھر ہمارے من سکھ بھائی نے سارا کام کاج سنبھال لیا۔ ہماری بہت ساری ذمے داری انھوں نے لے لی۔ اور اتنے سارے ساتھی، اتنے سارے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے، وہ سب دن جب آپ کے درمیان آیا ہوں، تب آپ کے سامنے آتا تو کتنا مزا آتا۔ اتنا دور  ہوں تب بھی سب یاد آنے لگا۔ اور اس وقت یاد ہے، سبزی بیچنے والے کے لئے راستہ اتنا خراب کہ کوئی آئے تب اس کی سبزی بھی نیچے گر جائے۔ ایسی حالت تھی۔ اور جب میں راستے پر جاتا تو دیکھتا کہ غریب کا تھیلا الٹا ہوگیا، تب میں اسے سیدھا کرکے دیتا تھا۔ ایسے وقت میں، میں نے بھڑوچ میں کام کیا ہے۔ اور آج چاروں طرف بھڑوچ اپنا ترقی کررہا ہے۔ سڑکوں میں بہتری آئی ہے، طرز زندگی بہتر ہوا ہے، تعلیمی ادارے، طبی نظامات، تیز رفتار سے اپنا بھڑوچ ضلع آگے بڑھا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ پورا آدی واسی ایکسٹینشن عمر گاؤں سے امباجی، پورے آدی واسی پٹے میں، گجرات میں آدی واسی وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ لیکن سائنس کے اسکول نہیں ہیں، بولو، سائنس کے اسکول، میرے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد شروع کرنے کا موقع ملا۔ اور جب سائنس کے اسکول ہی نہ ہوں تو کسی کو انجینئرنگ بننا ہو، ڈاکٹر بننا ہو تو کیسے بنے؟ ابھی ہمارے یعقوب بھائی بات کررہے تھے، بیٹی کو ڈاکٹر بنانا ہے، کیوں بننے کا امکان پیدا ہوا، کیونکہ کوشش شروع ہوئی بھائی۔ اس لئے بیٹی نے بھی طے کیا کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔ آج تبدیلی آئی ہے نا۔ اسی طرح سے بھڑوچ میں صنعتی ترقی، اور اب تو اپنا بھڑوچ متعدد مین لائن، فرنٹ کوریڈور اور بلٹ ٹرین کہو، ایکسپریس وے کہو، کوئی آمد و رفت کا ذریعہ نہیں جو بھڑوچ کو نہ چھوتا ہو۔ اس لئے ایک طرح سے بھڑوچ نوجوانوں کے خوابوں کا ضلع بن رہا ہے۔ نوجوانوں کی امنگوں کا شہر اور اس کی توسیع بن رہا ہے۔ اور ماں نرمدا اسٹیچو آف یونٹی کے بعد تو، اپنا بھڑوچ ہو یا راج پیپلا ہو، پورے ہندوستان میں، اور دنیا میں آپ کا نام چھا گیا ہے، کہ بھائی اسٹیچو آف یونٹی جانا ہو تو کہاں سے جانا؟ تو کہا جاتا ہے بھڑوچ سے، راج پیپلا سے جانا۔ اور اب ہم دوسرا ویئر بھی بنارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے بھڑوچ نرمدا کے کنارے پینے کے پانی کی مشکل ہوتی تھی۔ نرمدا کے کنارے ہو، اور پینے کے پانی کی مشکل پڑے، تو اس کی تدبیر کیا ہوگی؟ تو اس کا حل ہم نے ڈھونڈ لیا۔ تو پورے سمندر کے اوپر پورا بڑا ویئر بنادیا۔ تو سمندر کا کھارا پانی اوپر آئے نہیں۔ اور نرمدا کا پانی رکا رہے اور نرمدا کا پانی کیویڈیا سے بھرا رہے۔ اور کبھی بھی پینے کے پانی کی مشکل نہ پڑے، اس کا کام چل رہا ہے۔ اور میں تو بھوپیندر بھائی کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کتنا سارہ فائدہ ہوگا آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ اس لئے دوستو، مجھے آپ لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، مجھے بہت خوشی ملی۔ پرانے پرانے دوستوں کی یاد آئے فطری بات ہے، ہمارے  بلیو ایکونومی کا جو کام چل رہا ہے، اس میں بھڑوچ ضلع بہت کچھ کرسکتا ہے۔ سمندر کے اندر جو دولت ہے، اپنا ساگر کھیڑو منصوبہ ہے، اس کا فائدہ اٹھاکر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ تعلیم ہو، صحت ہو، جہازرانی ہو، کنیکٹیوٹی ہو، ہر شعبے میں بہت تیزی سے آگے بڑھنا ہے۔ آج مجھے خوشی ہوئی کہ بھڑوچ ضلع نے بڑی پہل کی ہے۔

آپ سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

جے جے گروی گجرات، وندے ماترم۔

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw

Media Coverage

India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs Fifth National Conference of Chief Secretaries in Delhi
December 28, 2025
Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence in governance, delivery and manufacturing: PM
PM says India has boarded the ‘Reform Express’, powered by the strength of its youth
PM highlights that India's demographic advantage can significantly accelerate the journey towards Viksit Bharat
‘Made in India’ must become a symbol of global excellence and competitiveness: PM
PM emphasises the need to strengthen Aatmanirbharta and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect’
PM suggests identifying 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience
PM urges every State must to give top priority to soon to be launched National Manufacturing Mission
PM calls upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and make India a Global Services Giant
PM emphasises on shifting to high value agriculture to make India the food basket of the world
PM directs States to prepare roadmap for creating a global level tourism destination

Prime Minister Narendra Modi addressed the 5th National Conference of Chief Secretaries in Delhi, earlier today. The three-day Conference was held in Pusa, Delhi from 26 to 28 December, 2025.

Prime Minister observed that this conference marks another decisive step in strengthening the spirit of cooperative federalism and deepening Centre-State partnership to achieve the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised that Human Capital comprising knowledge, skills, health and capabilities is the fundamental driver of economic growth and social progress and must be developed through a coordinated Whole-of-Government approach.

The Conference included discussions around the overarching theme of ‘Human Capital for Viksit Bharat’. Highlighting India's demographic advantage, the Prime Minister stated that nearly 70 percent of the population is in the working-age group, creating a unique historical opportunity which, when combined with economic progress, can significantly accelerate India's journey towards Viksit Bharat.

Prime Minister said that India has boarded the “Reform Express”, driven primarily by the strength of its young population, and empowering this demographic remains the government’s key priority. Prime Minister noted that the Conference is being held at a time when the country is witnessing next-generation reforms and moving steadily towards becoming a major global economic power.

He further observed that Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence and urged all stakeholders to move beyond average outcomes. Emphasising quality in governance, service delivery and manufacturing, the Prime Minister stated that the label "Made in India' must become a symbol of excellence and global competitiveness.

Prime Minister emphasised the need to strengthen Aatmanirbharta, stating that India must pursue self-reliance with zero defect in products and minimal environmental impact, making the label 'Made in India' synonymous with quality and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect.’ He urged the Centre and States to jointly identify 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience in line with the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised the need to map skill demand at the State and global levels to better design skill development strategies. In higher education too, he suggested that there is a need for academia and industry to work together to create high quality talent.

For livelihoods of youth, Prime Minister observed that tourism can play a huge role. He highlighted that India has a rich heritage and history with a potential to be among the top global tourist destinations. He urged the States to prepare a roadmap for creating at least one global level tourist destination and nourishing an entire tourist ecosystem.

PM Modi said that it is important to align the Indian national sports calendar with the global sports calendar. India is working to host the 2036 Olympics. India needs to prepare infrastructure and sports ecosystem at par with global standards. He observed that young kids should be identified, nurtured and trained to compete at that time. He urged the States that the next 10 years must be invested in them, only then will India get desired results in such sports events. Organising and promoting sports events and tournaments at local and district level and keeping data of players will create a vibrant sports environment.

PM Modi said that soon India would be launching the National Manufacturing Mission (NMM). Every State must give this top priority and create infrastructure to attract global companies. He further said that it included Ease of Doing Business, especially with respect to land, utilities and social infrastructure. He also called upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and strengthen the services sector. In the services sector, PM Modi said that there should be greater emphasis on other areas like Healthcare, education, transport, tourism, professional services, AI, etc. to make India a Global Services Giant.

Prime Minister also emphasized that as India aspires to be the food basket of the world, we need to shift to high value agriculture, dairy, fisheries, with a focus on exports. He pointed out that the PM Dhan Dhanya Scheme has identified 100 districts with lower productivity. Similarly, in learning outcomes States must identify the lowest 100 districts and must work on addressing the issues around the low indicators.

PM also urged the States to use Gyan Bharatam Mission for digitization of manuscripts. He said that States may start a Abhiyan to digitize such manuscripts available in States. Once these manuscripts are digitized, Al can be used for synthesizing the wisdom and knowledge available.

Prime Minister noted that the Conference reflects India’s tradition of collective thinking and constructive policy dialogue, and that the Chief Secretaries Conference, institutionalised by the Government of India, has become an effective platform for collective deliberation.

Prime Minister emphasised that States should work in tandem with the discussions and decisions emerging from both the Chief Secretaries and the DGPs Conferences to strengthen governance and implementation.

Prime Minister suggested that similar conferences could be replicated at the departmental level to promote a national perspective among officers and improve governance outcomes in pursuit of Viksit Bharat.

Prime Minister also said that all States and UTs must prepare capacity building plan along with the Capacity Building Commission. He said that use of Al in governance and awareness on cyber security is need of the hour. States and Centre have to put emphasis on cyber security for the security of every citizen.

Prime Minister said that the technology can provide secure and stable solutions through our entire life cycle. There is a need to utilise technology to bring about quality in governance.

In the conclusion, Prime Minister said that every State must create 10-year actionable plans based on the discussions of this Conference with 1, 2, 5 and 10 year target timelines wherein technology can be utilised for regular monitoring.

The three-day Conference emphasised on special themes which included Early Childhood Education; Schooling; Skilling; Higher Education; and Sports and Extracurricular Activities recognising their role in building a resilient, inclusive and future-ready workforce.

Discussion during the Conference

The discussions during the Conference reflected the spirit of Team India, where the Centre and States came together with a shared commitment to transform ideas into action. The deliberations emphasised the importance of ensuring time-bound implementation of agreed outcomes so that the vision of Viksit Bharat translates into tangible improvements in citizens’ lives. The sessions provided a comprehensive assessment of the current situation, key challenges and possible solutions across priority areas related to human capital development.

The Conference also facilitated focused deliberations over meals on Heritage & Manuscript Preservation and Digitisation; and Ayush for All with emphasis on integrating knowledge in primary healthcare delivery.

The deliberations also emphasised the importance of effective delivery, citizen-centric governance and outcome-oriented implementation to ensure that development initiatives translate into measurable on-ground impact. The discussions highlighted the need to strengthen institutional capacity, improve inter-departmental coordination and adopt data-driven monitoring frameworks to enhance service delivery. Focus was placed on simplifying processes, leveraging technology and ensuring last-mile reach so that benefits of development reach every citizen in a timely, transparent and inclusive manner, in alignment with the vision of Viksit Bharat.

The Conference featured a series of special sessions that enabled focused deliberations on cross-cutting and emerging priorities. These sessions examined policy pathways and best practices on Deregulation in States, Technology in Governance: Opportunities, Risks & Mitigation; AgriStack for Smart Supply Chain & Market Linkages; One State, One World Class Tourist Destination; Aatmanirbhar Bharat & Swadeshi; and Plans for a post-Left Wing Extremism future. The discussions highlighted the importance of cooperative federalism, replication of successful State-level initiatives and time-bound implementation to translate deliberations into measurable outcomes.

The Conference was attended by Chief Secretaries, senior officials of all States/Union Territories, domain experts and senior officers in the centre.