انہوں نے زرعی سیکٹر میں تحقیق و ترقی کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کے مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا
چھوٹے کاشتکاروں کو بااختیار بنانا حکومت کے وژن کامرکز ہے: وزیراعظم
ڈبہ بند خوراک کے لئے ہمیں ملک کے زرعی سیکٹر کو عالمی بازار میں تبدیل کرنا ہوگا: وزیراعظم

نئی دہلی ،یکم مارچ :

نمسکار!

آپ کی تجاویز کااس سال کے بجٹ میں بہت اہم رول رہاہے اورآپ نے بھی جب بجٹ دیکھاہوگا توآپ سب کے ذہن میں آیاہوگا کہ آپ کی تجاویز کو ، آپ کو خیالات کو اس میں شامل کرنے کی بھرپورکوشش کی گئی ہے ۔ وہ کام تو ہوگیا، اب جو آج کے یہ مذاکرات ہیں ۔۔۔یہ مذاکرات زرعی اصلاحات اوربجٹ کے التزامات کو آگے بڑھائیں ، تیزی سے آگے بڑھائیں ، لاسٹ مائل ڈلیوری تک پہنچے ، مقررہ وقت میں کریں اور بہت موثر طریقے سے کریں اورپھربھی سب کو جوڑکرکریں ۔ سرکاری پرائیویٹ ساجھیداری کا بہترین نمونہ ۔ مرکز یا ریاستی تعاون کا بہترین نمونہ ۔۔۔ ایسا ہم آج کے تبادلہ خیال سے نکالنا چاہتے ہیں۔

اس ویبنارمیں زراعت ، ڈیری ، ماہی گیری جیسے الگ الگ شعبوں کے ماہرین بھی ہیں ، سرکاری ، پرائیویٹ اور امدادباہمی کے سیکٹرکے ساتھی بھی ---آج ہمیں ان کے نظریات کا بھی فائدہ ملنے والا ہے اورملک کی دیہی معیشت کو فنڈ کرنے والے بینکوں کے نمائندے بھی ہیں ۔

آپ سبھی آتم نربھربھارت کے لئے ضروری آتم نربھردیہی معیشت کے اہم فریق ہیں ۔ میں نے کچھ عرصے پہلے پارلیمنٹ میں اس بات کو تفصیل سے رکھاتھا کہ کیسے ملک کے چھوٹے کسانوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے حکومت نے گذشتہ برسوں میں کئی اہم فیصلے کئے ہیں ۔ ان چھوٹے کسانوں کی تعداد 12کروڑکے قریب ہے اور ان کو بااختیاربنانا ، ان چھوٹے کسانوں کا ایمپاورمنٹ ہی ہندوستانی زراعت کو مختلف پریشانیوں سے نجات دلانے میں بہت مدد کرے گا۔ اتناہی نہیں دیہی معیشت کا ڈرائیونگ فورس بھی وہی بنیں گے۔

میں اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے بجٹ میں زراعت کے لئے جو کیاگیاہے ، اس کی کچھ خاص باتیں آپ کے سامنے دوہراناچاہتاہوں ۔ میں جانتاہوں آپ ان سبھی باتوں کو جانتے ہیں ۔ حکومت نے اس مرتبہ زراعت کے قرض کے ہدف بڑھا کر 16لاکھ 50ہزارکروڑروپے کردیاہے ۔ اس میں بھی مویشی پروری ، ڈیری اور ماہی پروری سیکٹرکو اولیت دی گئی ہے ۔ دیہی بنیادی ڈھانچے فنڈ کو بھی بڑھا کر 40ہزارکروڑروپے کردیاگیاہے ۔ مائیکروآبپاشی فنڈ کو بھی بڑھا کر دوگنا کردیاگیاہے ۔ آپریشن گرین اسکیم کا دائرہ بڑھاکر اب 22جلد خراب ہونے والی اشیاتک توسیع دے دی گئی ہے ۔ملک کی 1000اورمنڈیوں کو ای۔ نیم سے جوڑنے کا فیصلہ کیاگیاہے ۔ ان سارے فیصلوں میں حکومت کی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ، حکومت کا ارادہ محسوس ہوتاہے اورساتھ ساتھ حکومت کے ویژن کا پتہ چلتاہے۔ اوریہ ساری باتیں آپ سب کے ساتھ تبادلہ خیال سے حاصل کی گئی ہیں جس کو ہم آگے بڑھایاہے ۔لگاتاربڑھتی ہوئی زرعی پیداوار کے درمیان 21 ویں صدی میں ہندوستان کو پوسٹ ہارویسٹ ( فصل کٹنے کے بعد ) انقلاب یا پھرفوڈ پروسیسنگ ( خوراک کی ڈبہ بندی ) انقلاب اور ویلیو ایڈیشن کی ضرورت ہے ۔ ملک کے لئے بہت اچھاہوتا اگریہ کام دو-تین  دہائی پہلے ہی کرلیاگیاہوتا۔ اب ہمیں جو وقت گزرگیاہے ، اس کی بھرپائی توکرنی ہی کرنی ہے ، آنے والے دنوں کے لئے بھی اپنی تیاری اور تیزی میں اضافہ کرناہے ۔

ساتھیو!

اگرہم اپنے ڈیری سیکٹرکو ہی  دیکھیں ، توآج وہ اتنا مضبوط اس لئے ہے کیونکہ اتنی دہائیوں میں اس میں پروسیسنگ کو بہت وسیع کیاہے ۔ آج ہمیں زراعت کے ہرسیکٹرمیں ، ہرخوردنی اجناس ، ہرسبزی ، پھل ، فشریز ، سبھی میں پروسیسنگ پر سب سے زیادہ زوردیناہے اور پروسیسنگ کاانتظام ---اسے سدھارنے کے لئے ضروری ہے ۔ کسانوں کو اپنے گاوں کے پاس ہی اسٹوریج کی جدید سہولت ملے ، کھیت سے پروسیسنگ یونٹ تک پہنچنے کے انتظام سدھارنے ہی ہوں گے ، پروسیسنگ یونٹ کی ہینڈ ہولڈنگ ، فارمر-پروڈیوسرآرگنائزیشن مل کرکریں اورہم سب یہ جانتے ہیں کہ فوڈ پروسیسنگ انقلاب کے لئے ملک کے کسانوں کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری –پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹرکو بھی پوری طاقت سے آگے درست سمت میں آگے آناہوگا۔

ساتھیو!

آج یہ وقت کی مانگ ہے کہ ملک کے کسان کی پیداوار کو بازارمیں زیادہ سے زیادہ متبادل حاصل ہوں ۔ صرف راپروڈکٹ (خام مال ) یا پھر صرف پیداوار تک کسان کو محدود رکھنے کا نقصان ملک دیکھ رہاہے ۔ ہمیں ملک کے زرعی سیکٹرکا ، ڈبہ بند خوراک کو عالمی مارکیٹ میں توسیع دینی ہی ہوگی ۔ ہمیں گاوں کے پاس ہی ایگرو-انڈسٹریز کلسٹرکی تعداد بڑھانی ہی ہوگی تاکہ گاوں کے لوگوں کو گاوں میں ہی کھیتی سے جڑے روزگارمل سکیں ۔ آرگینک کلسٹر، ایکسپورٹ کلسٹر، اس کا بھی اس میں بڑا رول ہوگا۔ گاوں سے زرعی مصنوعات شہروں کی طرف جائیں اورشہروں سے دوسری صنعتی مصنوعات گاوں میں پہنچیں ، ایسی صورت حال کی جانب ہمیں بڑھنا ہوگا ۔ ابھی بھی لاکھوں مائیکروفوڈ پروسیسنگ یونٹس ملک میں چل رہے ہیں لیکن ان کی توسیع کرنا ، ان کی صلاحیت کوبڑھانا ---یہ آج وقت کی مانگ ہے ، بہت ضروری ہے ۔ ایک ضلع ، ایک پروڈکٹ ، یہ اسکیم ہماری مصنوعات کو عالمی بازارتک کیسے لے کر جائے ، اس کے لئے ہمیں پوری طاقت سے کام کرناہوگا۔

ساتھیو!

صرف کھیتی ہی نہیں ، یہاں تک کہ ماہی گیری کے سیکٹرمیں بھی پروسیسنگ کا بہت بڑا اسکوپ ہمارے یہاں ہے ۔ بھلے ہی ہم دنیا کے بڑے فش پروڈیوسر اوربرآمدکاروں میں سے ایک ہیں، لیکن پروسیسڈفش کے بین الاقوامی بازارمیں ہماری موجودگی بہت محدود ہے ۔ بھارت کی فش مشرقی ایشاسے ہوتے ہوئے پروسیسڈ فارم میں غیرملکی مارکیٹ تک پہنچتی ہے ۔ یہ صور ت حال ہمیں بدلنی ہی ہوگی ۔

ساتھیو !

اس کے لئے ضروری اصلاحات کے علاوہ تقریبا 11000کروڑروپے کی پیداوارسے مربوط ترغیبات کی اسکیم بھی حکومت نے بنائی ہے جس کا فائدہ انڈسٹری اٹھاسکتی ہے ۔ ریڈی ٹوایٹ ، ریڈی ٹوکک ، پھل سبزیاں ہو ں ، سی فوڈ ہو، موزاریلا چیز ہو ، ایسی بہت سی مصنوعات کی ہمت افزائی کی جارہی ہے ۔کووڈ کے بعد ملک اور بیرونی ملکوں میں ایسے بہترین پروڈکٹس کی مانگ کتنی بڑھ گئی ہے ، یہ آپ مجھ سے بہترجانتے ہیں ۔

ساتھیو!

آپریشن گرین اسکیم کے تحت کسان ریل کے لئے سبھی پھلوں اورسبزیوں کی نقل وحمل پر50فیصد سبسیڈی دی جارہی ہے ۔ کسان ریل بھی آج ملک کے کولڈ اسٹوریج نیٹ ورک کامضبوط ذریعہ بنی ہے ۔ یہ کسان ریل ، چھوٹے کسانوں ، ماہی گیروں کو بڑے بازاراور زیادہ مانگ والے بازارسے جوڑنے میں کامیاب ہورہی ہے ۔ گزشتہ 6مہینے میں ہی تقریبا پونے تین سو کسان ریلیں چلائی جاچکی ہیں اور ان کے ذریعہ تقریبا ایک لاکھ میٹرک ٹن پھل اورسبزیوں کی نقل وحمل کی جاچکی ہے ۔ یہ چھوٹے کسانوں کے لئے بہت بڑا وسیلہ توہے ہی ، صارفین اور انڈسٹری کو بھی اس کا فائدہ ہورہاہے ۔

ساتھیو،

ملک بھرکے اضلاع کے درمیان وہاں پیداہونے والے پھل اورسبزیوں کی ڈبہ بندی کے لئے کلسٹربنانے پرزوردیاجارہاہے ۔ اسی طرح آتم نربھر ابھیان کے تحت وزیراعظم کی چھوٹی خوردنی اشیاکی ڈبہ بندی صنعت کی تشکیل نواسکیم کے تحت لاکھوں چھوٹی ڈبہ بندی کی اکائیوں کومدد دی جارہی ہے ۔ اس کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچے سے لے کر یونٹس لگانے تک آپ کی ساجھیداری بہت اہم ہے ۔

ساتھیو !

خوراک کی ڈبہ بندی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات پربھی توجہ مرکوز کرنی ہے کہ چھوٹے چھوٹے سے کسان کو بھی جدید تکنالوجی کا فائدہ کیسے مل سکے ۔ ملک کے چھوٹے کسان ، ٹریکٹر، پرالی والی مشینیں یا پھر دوسری مشینیں حاصل کرنے کی قوت نہیں رکھتے ۔ کیاٹریکٹراوردوسری مشینوں کی ساجھیداری کرنے کاایک ادارہ جاتی ، کم قیمت اورموثرمتبادل کسانوں کو دیاجاسکتاہے ؟آج جب ہوائی جہاز تک ایئرلائنس کو گھنٹوں کی بنیاد پر کرائے پرمل جاتے ہیں ، توکسانوں کے لئے بھی ایسا بندوبست ملک میں کیاجاسکتاہے ۔

کسا ن کی پیداوار   منڈی تک پہنچانے کے لئے ٹرک ایگریگیٹس کا استعمال تو کورونا کے دورمیں  کچھ حدتک کیا بھی گیا تھا اور لوگوںکواچھا بھی لگاتھا۔ اس کی توسیع کھیت سے منڈی یا فیکٹریوں تک کھیت سے کسان ریل تک یہ کیسے ہوسکے اس پر ہمیں  کام کرنا ہوگا۔ کھیتی سے جُڑا ایک اور  اہم پہلو سوائل ٹیسٹنگ کا ہے۔ گزشتہ سالوں میں مرکزی سرکار کے ذریعہ کروڑوں کسانوں کو مٹی  کی صحت  کارڈ دئے گئے ۔ اب ہمیں ملک میں  سوائل ہیلتھ کارڈ کی ٹیسٹنگ کی سہولت  گاؤں گاؤں تک پہنچانا ہے جیسے بلڈ ٹیسٹنگ کی لیبس ہوتی ہیں ، ان کا ایک نیٹ ورک ہوتا ہے، ویسے ہی ہمیں سوائل ٹیسٹنگ کے لئے بھی کرنا ہے اور اس میں پرائیویٹ  پارٹی بہت بڑی تعداد میں جُڑ سکتی ہیں اور ایک بار سوائل ٹیسٹنگ کا نیٹ ور ک بن جائے اور کسانوں کو سوائل ٹیسٹنگ کی عادت ہوجائے ، اس کے اپنے کھیت  کی زمین کی صحت کیسی ہے ، اس زمین کے تئیں  اس کے اندر بیداری آئے گی تو اس کی ساری برآمدات میں    بہت بڑا بدلاؤ  آئے گا۔ ملک کے کسان کو جتنا زیادہ  اپنی مٹی کی صحت کے بارے میں  پتہ  رہے گا اتنا ہی اچھا ہے۔اچھے طریقے سے وہ  فصل کی پیداوار پر دھیان دے گا۔

ساتھیو!

ایگریکلچرسیکٹر میں  آر اینڈ ڈی  کو لے کر زیادہ تر تعاون   سرکاری سیکٹر کا ہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس میں پرائیویٹ سیکٹر کی حصہ داری بڑھے ۔ آر اینڈ ڈی کی جب بات ہوتی ہے تو صرف بیج تک ہی محدود نہیں بلکہ میں  ایک فصل سے جڑے  پورے سانٹیفک ایکو سسٹم کی بات کررہا ہوں ۔ ہولسٹک اپروچ ہونی چاہئے ۔ پورا  سائیکل ہونا چاہئے  ۔ ہمیں  جب کسانوں  کو ایسے متبادل دینے ہیں ،جس  میں وہ گیہوں  ،چاول تک ہی محدود نہ رہے ، آرگینک  فوڈ سے لے کر سلاد سے جڑی  سبزیوں تک  ایسی  متعددفصلیں ہیں جو  ہم آزماسکتے ہیں ۔اسی طرح میں آپ کو ملٹس کے نئے مارکیٹ  کو ٹیپ کرنے کی تجویز دوں  گا۔ موٹے اناج کے لئے بھارت کی بڑی  زمین بہت  کارگر ہے ۔ یہ کم پانی  میں  بہترین پیداوار دیتی ہے۔  ملٹس کی ڈیمانڈ پہلے ہی  دنیا میں  بہت زیادہ تھی ، اب کورونا کے بعد تو یہ امیونٹی بوسٹر کی شکل میں بہت  مقبول ہوچکی ہے ۔ ایک طرف کسانوں کو راغب کرنا بھی فو ڈ انڈسٹری کے ساتھیوں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

ساتھیو!

سی ویڈ اور بی ویکس   آج ہنی (شہد )  کا ہمارے یہاں  دھیرے دھیرے  پھیلاؤ ہورہا ہے اور کسان بھی ہنی بی کی سمت  میں کام کررہے ہیں ۔ایسے میں سمندری ساحل پرسی ویڈ  اور باقی علاقوں  میں  ہنی بی اور پھر بی ویکس  اس کے  مارکیٹ کے ٹیپ کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے ۔سی ویڈ کی فارمنگ  کے لئے ملک میں  بہت  امکانات ہیں کیونکہ  ایک بہت بڑی کاسٹ لائن  ہمارے پاس ہے۔سی ویڈ سے ہمارے ماہی گیروں کو  آمدنی کا ایک بڑا وسیلہ ملے گا ۔اسی طرح ہم شہد کی تجارت تو بہتر کررہے ہیں۔ ہمیں  بی ویکس کو لے کر بھی اپنی حصہ داری اور بڑھانی ہے ۔اس میں آپ کا زیادہ سے زیادہ تعاون کیسے ہوسکتا ہے۔ اس  پر بھی جب آپ دن بھر  تبادلہ خیال کریں  گے، صلاح مشورہ کریں  گے تو ضرور اچھی اچھی باتیں ابھر کر آئیں گی۔

جب پرائیویٹ سیکٹر کی یہ حصہ داری  بڑھے گی تو فطری طور سے کسان کا بھروسہ بھی بڑھے  گا ، ہمارے یہاں  کانٹریکٹ فارمنگ لمبے عرصے سے کسی نہ کسی شکل میں  کی جارہی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کانٹریکٹ فارمنگ صرف ایک تجارت بن کر نہ رہے بلکہ اس  زمین کے تئیں  ہماری ذمہ داری کو بھی  ہم نبھائیں  ۔  ہمیں کسانوں کو ایسی ٹکنالوجی ، ایسے بیج دستیاب کرانے ہیں جو زمین کے لئے بھی صحت مند ہوں اور  تغذیہ کی مقدار بھی  ان میں زیادہ ہو۔

ساتھیو!

ملک کی کھیتی میں سنچائی سے لے کر بوائی ، کٹائی اور کمائی تک   ٹکنالوجی کا ایک  پورا پھل  ملے ۔ اس کے لئے ہمیں  متحد ہوکر کوشش کرنی ہے۔ ہمیں  ایگریکلچر سیکٹر سے جڑے  اسٹارٹ اپس کو بڑھاوادینا ہوگا اور نوجوانوں کو جوڑنا ہوگا۔ کورونا کے وقت میں  ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے متعدد اسٹارٹ اپ  نے کیسے سبزیوں کو لوگوں کے گھروں تک  پہنچایا اور یہ خوشی کی بات ہے کہ زیادہ تراسٹارٹ  اپس ملک کے نوجوانوں کے ذریعہ ہی شروع کئے گئے ہیں۔ ہمیں  انہیں لگاتار ترغیب دینا ہوگا۔ یہ آپ سبھی ساتھیوں کی سرگرم حصہ داری کے بغیر ممکن نہیں  ہے۔کسانوں کو  قرض ، بیج ، کھاد اور بازار  یہ کسانوں کی ابتدائی ضرورتیں  ہوتی ہیں  جو اسے وقت  پر چاہئیں۔

ساتھیو!

گزشتہ سالوں  میں کسان کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ  ہم نے چھوٹے سے چھوٹے کسان تک مویشی کی پرورش کرنے  والے اور ماہی گیروں تک اس کو وسعت دی ہے۔ ہم نے مہم  چلاکر  پچھلے ایک سال میں ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ کسانوں  کو کسان کریڈٹ کارڈ دئے ہیں۔ کریڈٹ کی گنجائش  بھی چھ سات پہلے کے مقابلے میں  ڈیڑھ گنا سے زیادہ کی گئی ہے۔ یہ کریڈٹ  کسانوں تک وقت پر پہنچے ،  یہ بہت ضروری ہے ۔اسی طرح گرامین انفراسٹرکچر کی فنڈنگ میں  بھی  آپ  کا رول  اہم ہے۔ ایک لاکھ کروڑروپے کے انفرافنڈ کا نفاذ  بھی  باعث مسرت ہے۔ اس قدم سے خرید سے لے کر اسٹوریج تک کی  پوری چین کی  جدید کاری کو تقویت ملے گی۔اس بجٹ میں  تو  ملک بھر کے اے  پی ایم سیز کو بھی  اس فنڈ کا فائدہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملک میں جو 10000 ایف پی اوز  بنائے جارہے ہیں،اس سے ایک بہت  ہی  موثر کوآپریٹوز کا انتظام بن رہی ہے۔

ساتھیو  !

ان منظم کوششوں کو ہم آگے کیسے بڑھاسکتے ہیں۔اس سے جڑی آپ کی تجاویز  بہت اہم ہیں ۔اس شعبے میں  آپ کا ایک تجربہ  ہے، آپ کا ایک ویژن ہے، سرکاری کی سوچ ، سرکار کا ویژن ،سرکار کا بندوبست ، آپ کی طاقت ۔ یہ ہم  نے مل کر ملک کے زرعی شعبے میں  تبدیلی لانی ہے۔اس تبادلہ خیال کے دوران آپ  جو بھی تجویز ہندوستان کی زراعت کے لئے ہندوستان کی  دیہی اقتصادی صورتحال کے لئے آپ کی طرف سے جو بھی مشورے آئیں گے ان سے سرکار کو بہت  مدد ملے گی۔

آپ  کے کیا منصو بے ہیں ،سرکار اور آ پ سبھی ساتھ مل کرکیسے چلیں  گے ،اس  پر آپ سبھی کھلے دل سے مشورہ کریں ۔  آپ کے دل میں جوسوچ ہے، ضرور دیجئے ۔ ہاں اگر آپ کو لگتا ہے کہ بجٹ میں ایسا نہ ہوتا  تو اچھا ہوتا ،ایسا ہوتا تو اچھا ہوتا ، تو یہ کوئی آخری بجٹ نہیں  ہے ۔ اس کے بعد بھی ہم کئی بجٹ لے کر آنے والے ہیں ۔آپ لوگوں نے ہمیں خدمت  کرنے کا موقع دیا ہے تو ہم آپر کی خدمت  کرتے رہیں  گے ۔ اس بار جو  بجٹ میں آیا ہے اس کو آنے والے ایک سال میں کیسے لاگو کرنا، جلدی سے جلدی لاگو کرنا،زیادہ سے زیادہ لوگوں  تک فائدہ پہنچانا ،اسی پر آج کی بات چیت مرکوز رہے گی۔بہت فائدہ ہوگا۔میں چاہتا ہوں کہ آپ  کی یہ کھلے دل کی  گفتگو ہمارے کھیتوں کو ، ہمارے کسانوں کو ، ہمارے ایگریکلچر سیکٹر کو ، ہمارے بلیو اکنامی کے شعبے کو  ، ہمارے وھائٹ ریوولیوشن  کے سیکٹر کو بہت بڑی طاقت ملے گی۔ ایک بار میں  پھر آپ  کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

شکریہ!

Explore More
ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی

Popular Speeches

ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی
Lessons from Operation Sindoor’s global outreach

Media Coverage

Lessons from Operation Sindoor’s global outreach
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs 47th Annual General Meeting of Prime Ministers Museum and Library (PMML) Society in New Delhi
June 23, 2025
PM puts forward a visionary concept of a “Museum Map of India”
PM suggests development of a comprehensive national database of all museums in the country
A compilation of all legal battles relating to the Emergency period may be prepared and preserved in light of the completion of 50 years after the Emergency: PM
PM plants a Kapur (Cinnamomum camphora) tree at Teen Murti House symbolizing growth, heritage, and sustainability

Prime Minister Shri Narendra Modi chaired the 47th Annual General Meeting of the Prime Ministers Museum and Library (PMML) Society at Teen Murti Bhawan in New Delhi, earlier today.

During the meeting, Prime Minister emphasised that museums hold immense significance across the world and have the power to make us experience history. He underlined the need to make continuous efforts to generate public interest in museums and to enhance their prestige in society.

Prime Minister put forward a visionary concept of a “Museum Map of India”, aimed at providing a unified cultural and informational landscape of museums across the country.

Underlining the importance of increased use of technology, Prime Minister suggested development of a comprehensive national database of all museums in the country, incorporating key metrics such as footfall and quality standards. He also suggested organising regular workshops for those managing and operating museums, with a focus on capacity building and knowledge sharing.

Prime Minister highlighted the need for fresh initiatives, such as creation of a committee consisting of five persons from each State below the age of 35 years in order to bring out fresh ideas and perspectives on museums in the country.

Prime Minister also highlighted that with the creation of museum on all Prime Ministers, justice has been done to their legacy, including that of the first Prime Minister of India Shri Jawaharlal Nehru. This was not the case before 2014.

Prime Minister also asked for engaging top influencers to visit the museums and also invite the officials of various embassies to Indian museums to increase the awareness about the rich heritage preserved in Indian Museums.

Prime Minister advised that a compilation of all the legal battles and documents relating to the Emergency period may be prepared and preserved in light of the completion of 50 years after the Emergency.

Prime Minister highlighted the importance of preserving and documenting the present in a systematic manner. He noted that by strengthening our current systems and records, we can ensure that future generations and researchers in particular will be able to study and understand this period without difficulty.

Other Members of the PMML Society also shared their suggestions and insights for further enhancement of the Museum and Library.

Prime Minister also planted a Kapur (Cinnamomum camphora) tree in the lawns of Teen Murti House, symbolizing growth, heritage, and sustainability.