جناب نریندر مودی: وزیراعظم ہند

Published By : Admin | May 26, 2014 | 17:36 IST

جناب نریندر مودی نے ۲۶؍ مئی ۲۰۱۴ کو ہندوستان کے وزیراعظم کے طور پر حلف لیا اور آزادی کے بعد پیدا ہونے والے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔ فعال، لگن اور عزم مصمم کے ساتھ کام کرنے والےنریندر مودی سے ایک ارب سے زائد ہندوستانیوں کی امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں۔

مئی ۲۰۱۴ میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم مودی ہمہ جہت اور ہمہ گیر ترقی کے سفر پر گامزن ہیں جس کے ذریعہ ہر ایک ہندوستانی اپنی امیدیں اور توقعات پوری کرسکتا ہے۔ وہ قطارمیں کھڑے آخری شخص تک پہنچنے کے’’انتودیہ‘‘کے اصول سے کافی متاثر ہیں۔

نئی سوچ اور اقدامات سے حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ترقی کا سفر تیزی سے جاری رہے اور ترقی کے فوائد ہر ایک ضرورتمند تک پہنچیں۔کیونکہ موجودہ دور میں حکمرانی کو واضح، آسان اور شفاف بنا دیا گیا ہے۔

سب سے پہلے، پردھان منتری جن دھن یوجنا، کے ذریعہ ہر ایک شہری کو ملک کے مالی نظام میں شامل کرنے کے عمل کو یقینی بنانے کی ایک مثال بن گئی ہے۔ ان کے ’’میک ان انڈیا‘‘ کے زبردست اعلان نے تجارت کو آسان بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے، سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں میں بے مثال جوش وخروش بھردیا ہے۔ ’’شرمے وَ جئیتے‘‘ کی پہل کے تحت مزدوروں کی اصلاحات اور ان کے وقار سے وابستہ چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے متعدد کارکنان خود مختار ہوئے ہیں اور ہمارے ہنر مند نوجوانوں میں بھی جوش و خروش پیدا ہوا ہے۔ صعنتوں کے متعدد کارکنان بااختیار بنے ہیں اور ہمارے ہنر مند نوجوانوں میں بھی جوش و خروش پیدا ہوا ہے۔

حکومت ہند نے اپنے عوام کے لئے سماجی تحفظ کی تین اسکیمیں شروع کی ہیں۔ معمر افراد کو پنشن دینے اور غریبوں کا بیمہ کرانے پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔جولائی ۲۰۱۵ میں وزیراعظم نے ڈیجیٹل انڈیا بنانے کے لئے ڈیجیٹل انڈیا مشن کا اۤغاز کیا تھا۔ جس میں عوام کی زندگی میں معیاری تبدیلی لانے کے لئےٹیکنالوجی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

۲؍اکتوبر ۲۰۱۴ کو مہاتما گاندھی کی جینتی کے موقع پر وزیراعظم نے پورے ملک میں صفائی کی مہم کے لئے عوامی تحریک کے طور پر ’’سوچھ بھارت مشن‘‘ شروع کیا تھا۔ اس مہم کا پیمانہ اور اس کا اثر تاریخی ہے۔

نریندر مودی کی خارجہ پالیسی سے متعلق اقدامات نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور عالمی پیمانے پر ہندوستان کے کردار اور اس کی اصل صلاحیتوں کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے سارک ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں اپنے دورِ حکومت کی شروعات کی تھی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ان کے خطاب کو پوری دنیا میں سراہا گیا ہے۔جناب نریندر مودی ۱۷ سال بعد دو طرفہ نیپال کا، ۲۸ سال بعد آسٹریلیا کا، ۳۱ سال بعد فیجی کا اور ۳۴ سال بعد سیشلز کا دورہ کرنے والے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم مودی نے اقوام متحدہ (یو۔این۔او)، برکس (بی۔ آر۔ آئی۔ سی۔ ایس)، سارک (ایس۔ اے۔ اے۔ آر۔ سی) اورجی۔ ۲۰ سربراہ کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جن میں ہندوستان کی جانب سے مختلف اقتصادی، سیاسی موضوعات پر مداخلت اور آرا کا وسیع پیمانے پر اعتراف کیا گیا۔ ان کا دورۂجاپان، ہندوستان ۔ جاپان کےر شتوں میں نئے دورکےآغاز کے لئے ایک یاد گار باب ہے۔ وہ منگولیا کا دورہ کرنے والے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بن گئے ہیں۔چین اور جنوبی کوریا کا ان کا دورہ ہندوستان میں سرمایہ لانے کے لئے کامیاب رہا ہے۔ فرانس اور جرمنی کےدورے کے دوران یوروپ کے ساتھ ان کا مسلسل رابطہ دیکھا گیا۔

جناب نریند ر مودی نے عرب دنیا کے ساتھ رشتوں کو مستحکم کرنے کو کافی اہمیت دی ہے۔اگست ۲۰۱۵ میں متحدہ عرب امارات کا دورہ ،۳۴ برسوں کے بعد ہندوستان کے کسی وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا۔جس نے خلیجی ممالک کے ساتھ ہندوستان کی اقتصادی شراکت کو بڑھانے کے لئے مستحکم بنیادیں فراہم کیں۔ جولائی ۲۰۱۵ میں جناب مودی نے ایک ساتھ پانچ وسط ایشیائی ممالک کا دورہ کیا جسے سنگ میل کے طور پر دیکھا گیا۔ ان ممالک اور ہندوستان کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں توانائی، تجارت، تہذیب وثقافت اور معیشت جیسے شعبے شامل تھے۔اکتوبر ۲۰۱۵ نئی دہلی میں تاریخی ہند۔ افریقی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں ۵۴ افریقی ممالک نے شرکت کی۔ ۴۱ افریقی ممالک کے لیڈر بہ نفس ِنفیس موجود تھے اور ہند افریقی رشتوں کو مزید مستحکم کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر غور وخوض کیا۔ وزیراعظم نے بذاتِ خود افریقی رہنماؤں کے ساتھ باہمی ملاقاتیں کیں۔

نومبر ۲۰۱۵ میں وزیراعظم نے پیرس میں منعقدہ سی او پی۔ ۲۱ سربراہ کانفرنس میں شرکت کی جہاں متعدد عالمی رہنماؤں کے ساتھ آب وہوا اور ماحولیات کی تبدیلی سے متعلق موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ جناب مودی اور فرانس کے صدر ہولانڈے نے بین الاقوامی شمسی اتحاد کا افتتاح کیا۔ یہ سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے گھروں کو روشن کرنے والا فورم ہے۔

وزیراعظم نے اپریل ۲۰۱۶ میں نیوکلیائی سلامتی سے متعلق سربراہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں انہوں نے عالمی سطح پر نیوکلیائی سلامتی کی اہمیت سے متعلق ایک مستحکم پیغام دیا۔ انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں انہیں اعلیٰ ترین شہری اعزاز شاہ عبدالعزیز کے سعودی عربیہ ’’سیش‘‘ سے نوازا گیا۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ابوٹ، عوامی جمہوریائی چین کے صدر ژی جن پنگ،سری لنکا کے صدر میتھری پالاسری سینا، روس کے صدر ولادیمیرپوتن، جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل سمیت متعدد عالمی رہنماؤں نے ہندوستان کا دورہ کیا اور ان دوروں سے ہندوستان اور ان ممالک کے درمیان تعاون کو بہتر بنانے میں پیش رفت ہوئی ہے۔۲۰۱۵ کے یوم جمہوریہ کے موقع پر صدر براک اوبامہ، نے ہندوستان ۔ امریکہ رشتوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مہمان خصوصی کے طور پر ہندوستان کا دورہ کیا۔اگست ۲۰۱۵ میں ہندوستان نے ایف۔ آئی۔ پی۔ آئی۔ سی۔ سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میں بحرالکاہل کے جزائر سے تعلق رکھنے والے بڑے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں بحرالکاہل کے جزائر کے ساتھ ہندوستان کے رشتوں کے مختلف پہلوؤں پر تبادلۂ خیال ہوا۔

وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ایک دن کو’’بین الاقوامی یوگادِوَس‘‘ کے طور پر منانے کی اپیل کو اقوام متحدہ میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہوئی۔ سب سے پہلے دنیا کے ۱۷۷ ممالک ایک ساتھ آئے اور اقوام متحدہ میں ۲۱ جون کو ’’بین الاقوامی یوگادِوَس‘‘ طے کرنے کی قرار داد کو منظور کیا۔

۱۷؍ستمبر ۱۹۵۰ کو گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا کنبہ سماج کے حاشیے پر پڑے دیگر پسماندہ زمروں میں شامل تھا۔وزیر اعظم مودی ایک غریب لیکن پیارے خاندان میں پلے بڑھے۔ابتدائی زندگی کی سختیوں نے نہ صرف انہیں سخت کام کرنے کا سبق سکھایا بلکہ انہیں عام لوگوں کی پریشانیوں اور دشواریوں سے بھی روشناس کرایا۔ اس صورت حال نے انہیں نو عمری میں ہی عوام اور ملک کی خدمت کرنے کی ترغیب دی۔ابتدائی برسوں کے دوران انہوں نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر۔ ایس۔ ایس) جو کہ ایک قوم پرست تنظیم ہے، کے ساتھ کام کیا اور اپنے آپ کو ملک کی تعمیر کے لئے وقف کر دیا ۔بعد ازاں انہوں نے قومی اور ریاستی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کے ساتھ خود کو وقف کردیا۔جناب مودی نے پولیٹکل سائنس کے مضمون میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی ہے۔

۲۰۰۱ میں وہ اپنی آبائی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے اوروزیراعلیٰ کے طور پر انہوں نے ریکارڈ چار ٹرم مکمل کئے۔جس میں ریاست میں آئے تباہ کن زلزلے کے اثرات سے نمٹنے سے لے کر ترقی کی راہ شامل ہے جس نے ہندوستان کی ترقی میں مستحکم تعاون دیا۔

جناب نریندر مودی ایک عوامی رہنماہیں جنہوں نے عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے خود کو وقف کردیا ہے۔ان کے لئے اس سے زیادہ اطمینان بخش کوئی بات نہیں ہے کہ وہ عوام کے درمیان رہیں اور ان کی خوشیوں اور ان کے غم میں برابر کے شریک رہیں۔ زمینی سطح پر عوام کے ساتھ ان کا مستحکم ’’ذاتی رابطہ‘‘ ان کی آن لائن موجودگی سے ظاہر ہے۔ وہ ہندوستان کے زیادہ تر ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں جو عوام کو بتانے اور ان کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہیں وہ فیس بک، ٹوئٹر، گوگل پلس،انسٹاگرام، ساؤنڈ کلاؤڈ، لنکیڈ اِن، وے ایبو سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارموں اور دوسرے ذرائع پر کافی سرگرم ہیں۔

سیاست کے علاوہ نریندر مودی تحریر و تصنیف میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ انہوں نے شاعری سمیت متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ وہ اپنے دن کی شروعات یوگا سے کرتے ہیں جو ان کے جسم و ذہن میں توازن برقرار رکھتا ہے اور مصروف ترین اوقات میں بھی انہیں سکون فراہم کرتا ہے۔

یہ وہ شخص ہے جس میں حوصلہ، رحم دلی اور عزمِ مصمم کے جذبات پائے جاتے ہیں جن پر ملک نے اعتماد کیا ہے کہ وہ ہندوستان کو ترقی دلائیں گے اور دنیا میں اس کا نام روشن کریں گے۔

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
Jan Dhan accounts hold Rs 2.75 lakh crore in banks: Official

Media Coverage

Jan Dhan accounts hold Rs 2.75 lakh crore in banks: Official
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
ہندوستانی کہانی کے اگلے باب کی تشکیل
September 27, 2025

Praise has been showered on Prime Minister Narendra Modi’s charismatic presence and organisational leadership. Less understood and known is the professionalism which characterises his work — a relentless work ethic that has evolved over decades when he was the Chief Minister of Gujarat and later Prime Minister of India.

What sets him apart is not a talent for spectacle but a discipline that turns vision into durable systems. It is action anchored in duty, measured by difference on the ground.

A charter for shared work

That ethic framed the Prime Minister’s Independence Day address from the Red Fort, this year. It was a charter for shared work: citizens, scientists, start-ups and States were invited to co-author Viksit Bharat. Ambitions in deep technology, clean growth and resilient supply chains were set out as practical programmes, with Jan Bhagidari, the partnership between a platform-building state and an enterprising people, as the method.

The recent simplification of the Goods and Services Tax (GST) structure reflects this method. By paring down slabs and ironing out friction points, the GST Council has lowered compliance costs for small firms and quickened pass-through to households. The Prime Minister’s focus was not on abstract revenue curves but on whether the average citizen or small trader would feel the change quickly. This instinct echoes the cooperative federalism that has guided the GST Council: States and the Centre debating rigorously, but all working within a system that adapts to conditions rather than remaining frozen. Policy is treated as a living instrument, tuned to the economy’s rhythm rather than a monument preserved for symmetry on paper.

I recently requested a 15- minute slot to meet the Prime Minister and was struck by the depth and range that he brought to the discussion — micro details and macro linkages that were held together in a single frame. It turned into a 45 minute meeting. Colleagues told me later that he had spent more than two hours preparing, reading through notes, data and counter-arguments. That level of homework is the working norm he sets for himself and expects of the system.

A focus on the citizen

Much of India’s recent progress rests on plumbing and systems which are designed to ensure dignity to our citizens. The triad of digital identity, universal bank accounts and real-time payments has turned inclusion into infrastructure. Benefits move directly to verified citizens, leakages shrink by design, small businesses enjoy predictable cash flow, and policy is tuned by data rather than anecdote. Antyodaya — the rise of the last citizen — becomes a standard, not a slogan and remains the litmus test of every scheme, programme and file that makes it to the Prime Minister’s Office.

I had the privilege to witness this once again, recently, at Numaligarh, Assam, during the launch of India’s first bamboo-based 2G ethanol plant. Standing with engineers, farmers and technical experts, the Prime Minister’s queries went straight to the hinge points: how will farmer payments be credited the same day? Can genetic engineering create bamboo that grows faster and increases the length of bamboo stem between nodes? Can critical enzymes be indigenised? Is every component of bamboo, stalk, leaf, residue, being put to economic use, from ethanol to furfural to green acetic acid?

The discussion was not limited to technology. It widened to logistics, the resilience of the supply chain, and the global carbon footprint. There was clarity of brief, precision in detail and insistence that the last person in the chain must be the first beneficiary.

The same clarity animates India’s economic statecraft. In energy, a diversified supplier basket and calm, firm purchasing have kept India’s interests secure in volatile times. On more than one occasion abroad, I carried a strikingly simple brief: secure supplies, maintain affordability, and keep Indian consumers at the centre. That clarity was respected, and negotiations moved forward more smoothly.

National security, too, has been approached without theatre. Operations that are conducted with resolve and restraint — clear aim, operational freedom to the forces, protection of innocents. The ethic is identical: do the hard work, let outcomes speak.

The work culture

Behind these choices lies a distinctive working style. Discussions are civil but unsparing; competing views are welcomed, drift is not. After hearing the room, he reduces a thick dossier to the essential alternatives, assigns responsibility and names the metric that will decide success. The best argument, not the loudest, prevails; preparation is rewarded; follow-up is relentless.

It is no accident that the Prime Minister’s birthday falls on Vishwakarma Jayanti, the day of the divine architect. The parallel is not literal but instructive: in public life, the most enduring monuments are institutions, platforms and standards. For the citizen, performance is a benefit that arrives on time and a price that stays fair. For the enterprise, it is policy clarity and a credible path to expand. For the state, it is systems that hold under stress and improve with use. That is the measure by which Narendra Modi should be seen, shaping the next chapter of the Indian story.

Hardeep S. Puri is Union Minister for Petroleum and Natural Gas, Government of India