My Friend, Abe San (Japanese)

Published By : Admin | July 9, 2022 | 08:55 IST
Share
 
Comments

傑出した日本の指導者、比較なしのグローバル政治家、そしてインド日本友好関係の偉大なチャンピオンである安倍晋三氏がもう我々の中にはいなくなってしまいました。日本そして世界が偉いビジョナリーを失い、私は親愛なる友人を失いました。

はじめて安倍氏にお会いしたのは2007年に、私がグジュラート州首相として日本を訪問した時でした。最初の出会いから我々の友情が公職の印又公的な外交儀礼の束縛を超えとものとなりました。

お供した東寺へのご参拝、新幹線での旅、アヘメダバードでのサーバルマティ・アシュラムへの訪問、バラナシ(カシー)でのガンガ・アルティ、東京での茶道経験、思い出のリストは本当に長い。

 

 

 そして、富士山の山麓の丘に囲まれた山梨でのご実家へ唯一の首脳来客としての光栄、いつまでも大切にしていきたいと思います

日本の総理をやっていない2007年から2012年の間、そして最近は2020年以来、我々の個人的な絆はいつも通り強いまま続きました。

安倍総理との話し合いの中では全てが知的刺激のある物でした。いつも新鮮なアイデアに満ち、ガバナンス、経済、文化、外交政策その他様々な課題に関して貴重な見解をお持ちでした。

安倍氏のご助言はグジュラート州での私の経済選択肢に対してひらめきを与えました。そして安倍元総理の支持はグジュラート州でのヴァイブラント・パートナーシップの構築に大きな助けになりました。

それ以降、インドと日本の間で戦略的パートナーシップの前例のない変換を行うためご一緒にお仕事したことは光栄でありました。概ね狭い二カ国間経済関係から、全ての分野に渡る幅広い・包括的な関係の構築に対して支持し、それだけではなく印日関係は二カ国そして地域の安全保障のための中心的なものとなりました。安倍氏にとって、印日関係は我々二カ国そして世界の人々のためのもっとも重要なものでした。安倍氏は日本にとってもっとも難しいテーマであった民生用原子力協力を進めることに関して決定的でした。そして、インドでの高速鉄道プロジェクトのもっとも寛大な条件をオファーしました。インドの独立後の多くの重要な出来事に倍元総理は新生インドが成長を加速させるとき、日本が手を携えていることを保証してくれました。

安倍氏の印日関係への貢献は2021年にインドの栄誉あるパドマ・ビブション賞を授与されたことに素晴らしく認められました。

安倍氏は世界の中でおきている複雑で複数な変換に関して深い見識を持ち、政治、社会、経済そして国際関係にどのような影響を与えるかの先見の目があって、複数の選択肢の中から選ぶ知恵・伝統又は前例がある場合でも大胆な決断を行う勇気があり、そしてまれにしかない人々又世界の支持が得られていた人物でありました。安倍氏の広範なアベノミックス政策は日本経済を再活性化し、日本国民の改革・企業家精神を再燃させました。

安倍氏の我々に対するもっとも素晴らしいギフトのうち、又、彼のもっとも持続なレガシー、その中でも世界がいつまでも安倍氏の恩義に感謝しなければならないものとしては、安倍氏の当世の潮流の変化そして天下多事を認識する予知力、そしてそれらに対する反応力が挙げられます。安倍氏は、多くの人よりも先に、2007年にインドの国会でその影響力のあるスピーチを通じて、当世流の政治、戦略、経済現実である、今世紀で世界に方向性を与える地域、インド太平洋地域のベースをつくりました。

そして、本人が自らリードを取り、国家主権と領土の保全を尊重すること、国際法・規定の堅持、深い経済取組をもって、平等・共通な繁栄、国際関係を平和的に行うことのような彼がいつも大切にしていた価値観に基づき、その安定・安全、そして平和的・繁栄する将来のための枠組みとアーキテクチャの構築に関わり合いました

クアッド、アセアン主導のフォーラム、インド太平洋構想、アフリカを含めたインド太平洋出の印日開発協力、災害に強いインフラのための連合などすべて安倍氏の貢献によりものでした。

クワッド、ASEAN主導のフォーラム、インド太平洋構想、アフリカを含めたインド太平洋での印日協力、災害に強いインフラのための連合など、すべて安倍氏の貢献によるものです。静かに、ファンファーレなしで、そして海外での疑い・国内での遠慮を超え、インド太平地域全体に渡り防衛・コネクティビティ・インフラ・持続性を含む日本の戦略的関わり合いを変換しました。そのため、地域全体がその宿命に対してもっと楽観的となり、世界はその未来に対してもっと自信がえられました。

今年5月に日本訪問の際、日印協会の会長となられたばかりの安倍元総理にお会いする機会がありました。いつもように元気いっぱい、艶かしい、機智に富んだ安倍氏でした。印日協力をどうやってもっと強化できるか、改革的なアイデアをお持ちでした。お別れのときこれが最後の面会になるとはまったく想像にもありませんでした。

安倍元総理の温かさ・知恵・優雅、気前、友情と指導に対していつ窓も感謝をしていきたいと思います。いつまでも懐かしく思います。

安倍氏がインド国民をご自分の心を開いて抱き寄せてくれたことと同じように、インド国民がその仲間一人として安倍氏の逝去を悼んでいます。安倍氏がもっとも好きだったこと、人々にひらめきを与えている最中に逝去されました。お命が途中で悲惨的に短くなったかもしれませんが、安倍氏のレガシーがいつまでも続きます。

インド国民を代表しまして、そして私が個人として、日本国民、特に安倍昭恵様とご家族に対し心からの哀悼の意を表します。オーム・シャンティー。

Explore More
لال قلعہ کی فصیل سے، 76ویں یوم آزادی کے موقع پر، وزیراعظم کے خطاب کا متن

Popular Speeches

لال قلعہ کی فصیل سے، 76ویں یوم آزادی کے موقع پر، وزیراعظم کے خطاب کا متن
Nirmala Sitharaman writes: How the Modi government has overcome the challenge of change

Media Coverage

Nirmala Sitharaman writes: How the Modi government has overcome the challenge of change
...

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
بادل صاحب ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے: وزیر اعظم مودی
April 28, 2023
Share
 
Comments

25 اپریل کی شام کو جب مجھے سردار پرکاش سنگھ بادل جی کے انتقال کی خبر ملی تو میں شدید قسم کے حزن و ملال سے بھر گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ان کے انتقال سے میں نے ایک مشفق باپ کی طرح کی ایک شخصیت کو کھو دیا جس نے کئی دہائیوں تک میری رہنمائی کی۔ انھوں نے ایک سے زیادہ طریقوں سے بھارت اور پنجاب کی سیاست کی شکل کو انتہائی مثبت انداز سے تبدیل کردیا ، جسے بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔


بادل صاحب ایک بڑے لیڈر تھے، اس کا وسیع طور پر اعتراف کیا جاتاہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک بڑے دل والے انسان تھے۔ ایک بڑا لیڈر بننا تو آسان ہے ، لیکن ایک بڑے دل والا انسان بننے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ پورے پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ ’بادل صاحب کی تو بات ہی کچھ اور تھی‘)


یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سردار پرکاش سنگھ بادل صاحب کا شمار ہمارے دور کے سب سے بڑے کسان لیڈروں میں ہوتا ہے۔ زراعت ان کا اصل شوق تھا۔ وہ جب بھی کسی موقع پر تقریر کرتے تو ان کی تقاریر حقائق، تازہ ترین معلومات اور ذاتی بصیرت سے مملو ہوتی تھیں۔


1990کی دہائی میں، جب میں شمالی بھارت میں پارٹی کے کام میں مصروف تھا تب میرا بادل صاحب سے قریبی رابطہ ہوا۔ بادل صاحب کی شہرت پہلے سے ہی تھی – وہ ایک ایسے سیاسی رہنما تھے جو پنجاب کے سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ، مرکزی کابینہ کے وزیر اور دنیا بھر میں کروڑوں پنجابیوں کے دلوں پر راج کرنے والے تھے۔ دوسری طرف، میں ایک عام سا کارکن تھا۔ اس کے باوجود، اپنی فطرت کے مطابق، انھوں نے کبھی بھی اس بات سے ہمارے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ وہ گرم جوشی اور شفقت سے بھرے رہتے تھے۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جو ان کی آخری سانسوں تک ان کے ساتھ رہیں۔ بادل صاحب کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والا ہر شخص ان کی ذہانت اور حس مزاح کو یاد کرے گا۔

1990 کی دہائی کے وسط اور اواخر میں پنجاب کی سیاسی فضا بہت مختلف تھی۔ ریاست میں خاصی افراتفری کا ماحول تھا اور 1997میں انتخابات ہونے والے تھے۔ ہماری پارٹیاں ایک ساتھ لوگوں کے پاس گئیں اور بادل صاحب ہمارے لیڈر تھے۔ ان کی مضبوط ساکھ کا ہی کرشمہ تھا کہ لوگوں نے ہمیں زبردست جیت دلوائی۔ صرف یہی نہیں، ہمارے اتحاد نے چنڈی گڑھ میں میونسپل انتخابات اور لوک سبھا سیٹ پر بھی کامیابی حاصل کی۔ ان کی شخصیت کا جادو ایسا تھا کہ ہمارا اتحاد 1997 سے 2017 تک 15سال تک ریاست کی خدمت کرتا رہا۔


ایک واقعہ ہے جسے میں کبھی نہیں بھلاسکتا۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد بادل صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک ساتھ امرتسر جائیں گے، جہاں ہم رات کو قیام کریں گے اور اگلے دن متھا ٹیکیں گے اور لنگر کے ذریعے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ میں گیسٹ ہاؤس میں اپنے کمرے میں تھا ، جب انھیں علم ہوا تو وہ میرے کمرے میں آئے اور میرا سامان اٹھانے لگے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ اس کمرے میں جانا ہے جو وزیر اعلیٰ کے لیے مختص ہے اور وہیں رہنا ہے۔ میں انھیں برابر کہتا رہا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن وہ مصر رہے۔ آخر کار ایسا ہی ہوا ، اور بادل صاحب نے دوسرے کمرے میں قیام کیا۔ میں اپنے جیسے ایک بہت ہی معمولی کارکن کے تئیں ان کی اس ادا کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔


بادل صاحب کو گئو شالہ میں خصوصی دلچسپی تھی اور وہ مختلف نسلوں کی گایوں کو پالتے تھے۔ ہماری ایک میٹنگ کے دوران، انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ گیر کی گائے پالیں۔ میں نے ان کے لیے 5 گایوں کا انتظام کیا اور اس کے بعد جب بھی ہم ملتے تو وہ گایوں کے بارے میں بات کرتے اور مذاق بھی کرتے کہ وہ گائیں ہر طرح سے گجراتی ہیں، کبھی غصے میں نہیں آتیں، مشتعل نہیں ہوتیں یا کسی پر حملہ نہیں کرتیں، چاہے ان کے آس پاس بچے کھیل رہے ہوں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ گجراتی اتنے نرم مزاج ہوتے ہیں... آخر وہ گیر کی گایوں کا دودھ جو پیتے ہیں۔


سنہ 2001 کے بعد مجھے بادل صاحب کے ساتھ ایک مختلف حیثیت سے رابطے کا موقع ملا – اب ہم اپنی اپنی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ تھے۔
مجھے بادل صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا، خاص طور پر زراعت سے متعلق امور میں جیسے پانی کاتحفظ، مویشی پروری اور ڈیری ۔ وہ ایک ایسے شخص بھی تھے جو تارکین وطن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں یقین رکھتے تھے کیونکہ بہت سارے محنتی پنجابی بیرون ملک آباد ہیں۔


ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ الانگ شپ یارڈ کیا ہوتا ہے۔ پھر وہ وہاں آئے اور سارا دن الانگ شپ یارڈ میں گزارا اور یہ سمجھنے کی بھرپور کوشش کی کہ ری سائیکلنگ کیسے کی جاتی ہے۔ پنجاب کوئی ساحلی ریاست نہیں ہے اس لیے ایک طرح سے ان کے لیے شپ یارڈ کی براہ راست کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن نئی چیزیں سیکھنے کی ان کی خواہش ایسی تھی کہ انھوں نے سارا دن وہاں گزارا اور اس شعبے کے مختلف پہلوؤں کو سمجھا۔

میں گجرات حکومت کے ذریعے کچھ کے مقدس لکھپت گردوارے ، جسے 2001 کے زلزلے کے دوران نقصان پہنچا تھا ، کی مرمت اور بحالی کی کوششوں کے تئیں ان کے ستائشی الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔
2014 میں مرکز میں این ڈی اے حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر اپنے شان دار حکومتی تجربے کی بنیاد پر قابل قدر اور بصیرت افروز تجربات سے فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے تاریخی جی ایس ٹی سمیت کئی اصلاحات کی بھرپور حمایت کی۔


میں نے, ہمارے تعلق کے محض چند پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ وسیع سطح پر ہماری قوم کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ایمرجنسی کے سیاہ دنوں کے دوران جمہوریت کی بحالی کے لیے بہادر ترین سپاہیوں میں سے ایک تھے۔ جب ان کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا تو انھیں خود کانگریس کلچر کی ہٹ دھرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ان تجربات نے جمہوریت میں ان کے یقین کو مزید مستحکم کیا۔


پنجاب میں 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے ہنگامہ خیز دور میں بادل صاحب نے پنجاب کو اور بھارت کو پہلے نمبر پر رکھا۔ انھوں نے کسی بھی ایسے منصوبے کی سختی سے مخالفت کی جو بھارت کو کمزور کرے یا پنجاب کے عوام کے مفادات سے سمجھوتہ کرے، خواہ اس کا مطلب اقتدار کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔


وہ عظیم گرو صاحبان کی تعلیمات پر عمل پیرا اور ان سے گہری وابستگی رکھنے والے شخص تھے۔ انھوں نے سکھ ورثے کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے بھی قابل ذکر کوششیں کیں۔ 1984 کے فسادات کے متاثرین کو انصاف دلانے میں ان کے کردار کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟


بادل صاحب ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ وہ تمام نظریات کے لیڈروں کے ساتھ کام کر سکتے تھے۔ بادل صاحب نے کبھی بھی کسی بھی تعلق کو سیاسی نفع یا نقصان سے نہیں جوڑا۔ یہ بات قومی اتحاد کے جذبے کو آگے بڑھانے میں خاص طور پر مفید تھی۔


بادل صاحب کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا مشکل ہوگا۔ آپ ایسے معتبر سیاست داں تھے جن کی زندگی بہت سے چیلنجوں سے نبرد آزما رہی لیکن آپ نے نہ صرف ان پر قابو پایا بلکہ ققنس پرندے کی طرح اسی آگ سے دوبارہ جوان ہوکر اٹھے۔ ان کی کمی عرصے تک محسوس کی جائے گی ۔ وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے اور گذشتہ دہائیوں کے دوران کیے گئے اپنے شاندار کارناموں کی بنا پر بھی یاد کیے جائیں گے۔