بھارت  ماتا کی جئے!

بھارت  ماتا کی جئے!

بھارت  ماتا کی جئے!

 میرے پیارے ہم وطنوں،میرے پریوار جنو!

 آج وہ مبارک لمحہ ہے، جب ہم ملک کے لیے مرمٹنے والے، ملک کی آزادی کے لیے زندگی وقف کرنے والے، پوری زندگی جدوجہد کرنے والے، پھانسی کے تختے پر چڑھ کرکے  بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگانے والے ، آزادی کے بیشمار دیوانوں کو  خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی موقع ہے، ان کی شہادت کو یاد کرنے کا موقع ہے۔ آزادی کے دیوانوں نے آج ہمیں  آزادی کے اس موقع پر آزادی کا سانس لینے کا شرف بخشا ہے۔ یہ ملک ان کا مقروض ہے۔ ہم ایسے ہر عظیم انسان کے تئیں احترام کا اظہار کرتے ہیں۔

 

میرے پیارے ہم وطنو!

آج جو عظیم ہستیاں پوری لگن اور عزم کے ساتھ ملک کے دفاع اور قومی تعمیر کے لیے ملک کی حفاظت کر رہی ہیں، وہ ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارے کسان ہوں، ہمارے نوجوان ہوں، ہمارے نوجوانوں کا حوصلہ  ہو، ہماری ماؤں بہنوں کی شراکت ہو، دلت ہوں، مظلوم ہوں، استحصال زدہ ہوں، محروم ہوں؛ اب ہمارے درمیان بھی آزادی اور جمہوریت کے تئیں ان کی عقیدت نظر آتی ہے، یہ پوری دنیا کے لیے ایک متاثر کن حقیقت ہے۔ آج میں ایسے تمام لوگوں کے سامنے  احترام سے سرتسلیم خم کرتا ہوں۔

پیارے ہم وطنو!

اس سال اور پچھلے کچھ سالوں سے قدرتی آفات کی وجہ سے ہم سب کی تشویش بڑھتی چلی جارہی ہے۔ قدرتی آفات میں بہت سے لوگوں نے اپنے کنبے کے افراد کو کھویا ہے،  املاک  ضائع ہوئیں اور قوم کو بھی بار بار نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔  میں آج اُن سب کے تئیں  ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور میں اُنہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ ملک، مشکل کی گھڑی میں اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

ہم  ذرا آزادی سے پہلے کے وہ دن یاد کریں، سیکڑوں سال کی غلامی میں  ہر دور جدوجہد کا رہا۔ نوجوان ہوں، بوڑھے ہوں، کسان ہوں، عورتیں ہوں، قبائلی ہوں،  وہ غلامی کے خلاف جنگ لڑتے رہے، مسلسل جنگ لڑتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1857 کی جدوجہد آزادی، جس کو ہم یاد کرتے ہیں ،اس سے قبل بھی ہمارے  ملک کے کئی قبائلی علاقے ایسے تھے، جہاں آزادی کی جنگ لڑی گئی۔

ساتھیو!

 غلامی کا اتنا طویل عرصہ، ظالم حکمران، بے  پناہ اذیتیں، عام انسانوں کا اعتماد توڑنے کی تمام ترکیبیں ، اس سب کے باوجود اس وقت کی آبادی کے حساب سے تقریباً 40 کروڑ ملک کے شہری! آزادی سے پہلے 40 کروڑ ہم وطنوں نے یہ وہ جذبہ دکھایا۔  وہ طاقت دکھائی، ایک خواب لے کر آگے بڑھتے رہے، ایک عزم لے کر چلتےرہے، جدوجہد کرتے رہے۔ ایک ہی آواز تھی، وندے ماترم، ایک ہی خواب تھا، ہندوستان کی آزادی کا خواب ۔ 40 کروڑ ہم وطنوں  نے ، اور ہمیں فخر ہے کہ ہماری رگوں میں ان ہی کاخون ہے۔ وہ ہمارے آباؤ اجداد تھے۔ صرف 40 کروڑ، 40 کروڑ لوگوں نے دنیا کی سپر پاور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔ اگر ہمارے اسلاف، جن کا خون ہمارے رگوں میں ہے، تو آج ہم 140 کروڑ ہیں۔ اگر 40 کروڑ غلامی کی زنجیروں  کو توڑ سکتے ہیں، اگر 40 کروڑ آزادی کا خواب پورا کر سکتے ہیں، آزادی کے ساتھ جی سکتے ہیں، تو میرے 140 کروڑ اہل وطن، 140 کروڑ میرے خاندان کے لوگ ایک عزم کے ساتھ آگے  چل پڑتے ہیں، ایک سمت  متعین کرکے چل سکتے ہیں۔ قدم سے قدم ملا کر ،  کندھے سے کندھا ملا کر چل پڑتے ہیں ،تو چاہے کتنے ہی چیلنجز ہوں، محرومی کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، وسائل کے لیے جدوجہد ہی کیوں نہ کرنی پڑے، ہم ہر چیلنج پر قابو پا کر ہی  ایک خوشحال ہندوستان بناسکتے ہیں۔ ہم 2047 تک وکست بھارت  کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر 40 کروڑ ملک کے باشندے اپنی صلاحیتوں، اپنی لگن، اپنی قربانیوں سےایک آزاد ہندوستان کی تعمیر کر سکتے ہیں، تو 140 کروڑ ہم وطن بھی اسی جذبے سے ایک خوشحال ہندوستان کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

ساتھیو!

 ایک وقت تھا، جب لوگ ملک کے لئے جان دینے کے لئے تیار رہتےتھےاور انہوں نے آزادی حاصل کی۔ آج ملک کے لیے جینے کا عزم کرنے کا وقت ہے۔ اگر ملک کے لیے مرنے کا عزم آزادی لا سکتا ہے، تو ملک کے لیے جینے کا عزم بھی ہندوستان کو خوشحال بنا سکتا ہے۔

 

ساتھیو!

وکست بھارت 2047، یہ صرف تقریر کے لفظ  نہیں ہیں، اس کے پیچھے  سخت محنت جاری ہے۔ ملک کے کروڑوں لوگوں سے تجاویز لی جا رہی ہیں اور ہم نے، ہم وطنوں سے تجاویز مانگی ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میرے ملک کے کروڑوں شہریوں نے وکست بھارت  2047 کے لیے ان گنت مشورے دیے ہیں۔ اس میں ملک کے ہر باشندے کا خواب جھلک رہا ہے۔ ہر شہری کا عزم اس میں جھلکتا ہے۔ نوجوان ہوں، بزرگ ہوں، گاؤں کے لوگ ہوں، کسان ہوں، دلت ہوں، قبائلی ہوں، پہاڑوں میں رہنے والے لوگ ہوں، جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہوں،شہروں میں رہنے والے لوگ ہوں، ہر کسی نے 2047 میں، جب ملک آزادی کا 100 سال منائے گا، تب تک ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے قیمتی تجاویز دی ہیں۔

 اور جب میں ان تجاویزکو  دیکھتا تھا تو میرا دل خوش ہورہا تھا، انہوں نے کیا لکھا، کچھ لوگوں نے کہا کہ دنیا کا اسکل کیپٹل بنانے کی تجویز ہمارے سامنے رکھی۔2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے، کچھ لوگوں نے ہندوستان کو مینوفیکچرنگ کا عالمی مرکز بنانے کا مشورہ دیا۔ کچھ لوگوں نے ہندوستان کی ہماری یونیورسٹیز عالمی درجہ کی سطح حاصل کرے ، اس کے لیے تجویز پیش کیں۔  کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ کیا آزادی کے اتنے برسوں کے بعد ہمارا میڈیا گلوبل نہیں ہونا چاہیے؟ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ہنر مند نوجوان دنیا کی پہلی پسند بننا چاہیے۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہندوستان کو جلد سے  جلد زندگی کے ہر شعبے میں خود کفیل بننا چاہیے۔

 کچھ  لوگوں نے تجویز پیش کی کہ ہمارے کسان ، جوموٹا اناج پیدا کرتے ہیں، جس کو ہم شری انّ کہتے ہیں، اُس سپر فوڈ کو دنیا کے ہر کھانے کی میز پر پہنچا نا ہے۔ ہمیں دنیا کی تغذیہ بخش غذا  کو بھی مضبوط کرنا ہے اور ہندوستان کے چھوٹے کسانوں کو بھی طاقتور بنانا ہے۔کئی  لوگوں نے تجویز دی کہ  ملک میں مقامی گورننس کے اداروں سے لے کر متعدد اکائیاں ہیں۔ اُن سب میں حکمرانی کے  اصلاحات کی بہت ضرورت ہے ۔ کئی لوگوں نے لکھا کہ انصاف کےاندر جو  تاخیر ہورہی ہے،اس کے تئیں تشویش ظاہر کی اور یہ بھی کہا کہ ہمارے ملک میں انصاف کے نظام میں اصلاحات کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ کئی لوگوں نے لکھا کہ کئی گرین فیلڈ سٹیز بنانے کا اب وقت ہے۔  کسی نے بڑھتی ہوئی  قدرتی آفات کے درمیان انتظامیہ میں  صلاحیت سازی کے لیے ایک مہم چلانے کی تجویز پیش کی۔

 بہت سارے لوگوں نے یہ خواب بھی دیکھا ہے کہ خلاء میں بھارت کا  خلائی اسٹیشن جلد سے  جلد بننا چاہئے۔ کسی نے کہا کہ ہندوستان کی جو روایتی میڈیسن ہے ، ہماری اوشدھی  ہے۔ دنیا جب آج مجموعی حفظان صحت کی جانب جارہی ہے، تب ہمیں ہندوستان  کی روایتی ادویات اور تندرستی  کے مرکز کی شکل میں ہندوستان کو ترقی کرنی چاہئے۔ کوئی کہتا ہے کہ اب دیر نہیں ہونی چاہیے، ہندوستان کو  اب  جلد سے  جلد دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننا چاہئے۔

ساتھیو!

 میں اسی لیے پڑھ رہا تھا کہ یہ  میرے ہم وطنوں نے،یہ تجویز پیش کی ہے کہ میرے ملک کے عام شہریوں نے، یہ تجاویز ہمیں دی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم  وطنوں کی اتنی بڑی سوچ ہو، ہم وطنوں کے اتنے بڑے خواب ہوں، ہم وطنوں کی  ان باتوں میں جب عزم اور مصمم ارادے جھلکتے ہوں، تب ہمارے اندر ایک نیا عزم مستحکم بنتا ہے۔ ہمارے دل میں خود اعتمادی نئی اونچائی پر پہنچ جاتی ہےاور ساتھیو، ہم وطنوں کا یہ بھروسہ صرف کوئی دانشورانہ بحث نہیں ہے، یہ بھروسہ اور اعتماد تجربے سے نکلا ہواہے۔یہ اعتماد لمبے عرصے کی کوشش کی پیدا وار ہے اور اسی لیے ملک کا عام آدمی یاد کرتا ہے، جب لال قلعہ سے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے 18 ہزار گاوؤں میں  مقررہ  وقت کے اندر بجلی پہنچائیں گے اور جب وہ کام ہو جاتاہے، تو بھروسہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ جب یہ طے  ہوتا ہے کہ آزادی کے اتنے سالوں کے  بعد بھی ڈھائی  کروڑ خاندان ایسے ہیں، جہاں بجلی نہیں ہے اور وہ تاریکی میں زندگی گزارتے ہیں۔ ڈھائی  کروڑ گھروں میں  بجلی پہنچ جاتی ہے، تب عام آدمی کا اعتماد بڑھتا ہے۔ جب سووچھ بھارت کی بات کی جاتی ہے، تو اب حالات یہ  بن گئے ہیں کہ خواہ  وہ ملک کا اہل  ثروت طبقہ  ہو ، گاؤں کے لوگ ہوں، غریب بستی میں رہنے والے لوگ ہوں، چھوٹے بچے ہوں، ہر خاندان میں صفائی کا ماحول  بن جائے، صفائی ستھرائی کا ذکر ہو، صفائی کے سلسلہ میں ایک دوسرے کو روکنے کے لیے مسلسل کوششیں چلتی رہیں، میرے خیال میں، یہ اس نئے شعور کا عکس ہے، جو  کہ ہندستان کے اندر آیا ہے۔

جب ملک کے سامنے  لال قلعہ سے کہا جائے کہ آج  ہمارے خاندانوں میں سے 3 کروڑ خاندان ایسے ہیں ، جن کے گھروں میں نل سے پانی دستیاب ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ان خاندانوں تک پینے کا صاف پانی پہنچ جائے۔ جل جیون مشن کے تحت اتنے کم وقت میں 12 کروڑ نئے خاندانوں کو جل جیون مشن کے تحت نل کا پانی  پہنچ رہا ہے۔ آج 15 کروڑ خاندان اس سے مستفید ہو چکے ہیں۔ ہمارے کون کون سے لوگ ان سہولیات  سے محروم تھے؟ کون پیچھے رہ گئے؟ معاشرے میں سب سے اگلی صف کے لوگ اس سے محروم میں نہیں رہتے تھے۔ میرے دلت، میرے مظلوم، میرے استحصال زدہ، میرے قبائلی بھائی بہن، میرے غریب بھائی بہن، میری جھگی جھونپڑی  میں زندگی گزارنے والے لوگ،وہی تو  ان چیزوں کی عدم دستیابی میں زندگی گزار رہے  تھے۔ اس طرح کی بہت سی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہم نے جو کوششیں کی ہیں، ا س کا نتیجہ ہمارے معاشرے کے بھائیوں کو ملا ہے۔

  ہم نے ووکل فار لوکل کا منتر دیا۔ آج مجھے خوشی ہے کہ ووکل فار لوکل معیشت کے لیے ایک نیا منتر بن گیا ہے۔ ہر ضلع اپنی پیداوار پر فخر کرنے لگا ہے۔ ایک ضلع ایک پروڈکٹ کاماحول بنا ہے۔ اب ہر ضلع نے اس سمت میں سوچنا شروع کر دیا ہے کہ ایک ضلع سے ایک پروڈکٹ کو کس طرح ایکسپورٹ کیا جائے۔ قابل تجدید توانائی حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔ ہندوستان نے، جی-20 گروپ کے ممالک سے زیادہ کام کیا ہے۔ اور ہندوستان نے توانائی کے شعبے میں خود کفیل بننے اور گلوبل وارمنگ کے خدشات سے چھٹکارا پانے کے لیے کام کیا ہے۔

 

 ساتھیو!

 ملک فخر کرتا ہے ، آج جب پوری دنیا فنٹیک کی کامیابیوں کے سلسلے میں ہندوستان سے کچھ سیکھنا سمجھنا  چاہتی ہے۔ پھر ہمارے فخر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

ساتھیو!

ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ کورونا کے اس وقت کو، کروڑوں لوگوں کی ویکسینیشن کا کام، دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے ہمارے ملک میں ہوا۔ یہ وہ ملک ہے، جہاں کبھی دہشت گرد آتے تھے اور ہمیں مارتے تھے اور پھر چلے جاتے تھے۔ جب کسی ملک کی فوج سرجیکل اسٹرائیک کرتی ہے، جب کسی ملک کی فوج ایئر اسٹرائیک کرتی ہے، تو اس ملک کے نوجوان کا سینہ اونچا ہو جاتا ہے ، تن جاتا ہے ، فخر سے بھر جاتا ہے۔ اور یہ وہ باتیں ہیں، جو آج 140 کروڑ اہل وطن کے دلوں کو فخر اور اعتماد سے بھر دیتی ہیں۔

ساتھیو!

ان تمام چیزوں کے لیےغور وخوض کے ساتھ کوششیں کی گئی ہیں۔ اصلاح کی روایت کو تقویت پہنچائی گئی  ہے۔ اور جب سیاسی قیادت میں بہتر طریقوں کو لے کر عزم کی قوت ہوپکا یقین ہو، جب حکومتی مشینری اس پر عمل درآمد کے لیے وقف ہو جائے اور جب ملک کا ہر شہری اس خواب کو پورا کرنے کے لیے عوامی سطح پر بڑھ چڑھ کر حصہ لے، ایک عوامی تحریک کے لیے آگے آئے۔ تب ہمیں یقینی نتائج ملتے رہتے ہیں۔

 میرے پیارے ہم وطنو!

 ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ملک آزادی کے بعد بھی کئی دہائیوں تک ان حالات میں رہا ہے۔ جب یہ ہوتا ہے، تو ایسا ہوتا ہے، ارے  یاریہ تو چلے گا،ارے  ہمیں محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے،  ارے معاملہ ہے، اگلی نسل دیکھے گی، ہمیں موقع ملا ہے، مزہ کرلو، آگے والا آگے کی جانیں ، ہمیں کیا کرنا ہے، ہم اپنا وقت نکال دیں۔ ارے کچھ نیا کرنے جاؤ گے، تو کچھ ہنگامہ ہو سکتا ہے۔ پتہ نہیں ملک میں جمود کا ماحول کیوں بن گیا تھا۔ جو ہے اسی سے گزارا کرلو،  یہی ماحول بن گیا تھا،  اور لوگ کہتے تھے کہ ارے بھائی چھوڑو اب کچھ نہیں ہونے والا۔  چلو ایسا ہی من بن گیا تھا۔

ہمیں اس ذہنیت کو ختم کرنا تھا، ہمیں اس میں  اعتماد پیداکرنا تھا اور ہم نے اس سمت میں کوششیں کیں۔ بہت سے لوگ کہتے تھے کہ ارے ہم ابھی سے اگلی نسل کے لیے کیوں کام کریں،ہم تو آج کا دیکھیں گے۔ لیکن ملک کا عام شہری ایسا نہیں چاہتا تھا، وہ تبدیلی کا انتظار کر رہا تھا، وہ تبدیلی چاہتا تھا، اس  میں اس کی للک تھی ۔ لیکن ان کے خوابوں پر کسی نے توجہ نہیں دی، ان کی امیدوں، تمناؤں اور توقعات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور اس کی وجہ سے وہ مشکلات کا سامنا کرتا رہا۔ وہ اصلاحات کا انتظار کرتا رہا۔ ہمیں ذمہ داری دی گئی اور ہم نے بڑی اصلاحات نافذ کیں۔

 غریب ہو، متوسط ​​طبقہ ہو، ہمارے محروم لوگ ہوں، ہماری بڑھتی ہوئی شہری آبادی ہو، ہمارے نوجوانوں کے خواب، قراردادیں اور خواہشات ہوں، ہم نے ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے اصلاحات کے راستے کا انتخاب کیا۔ اور میں اہل وطن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اصلاحات کے تئیں ہماری وابستگی پنک پیپر کے اداریے تک محدود نہیں ہے۔  اصلاحات  کے لیے یہ ہمارا عزم ہے اور یہ چار دن کی  واہ واہی  کے لیے نہیں ہے۔ ہمارا اصلاحاتی عمل کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہے،یہ ملک کو مضبوط کرنے کی نیت سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج میں کہہ سکتا ہوں کہ  اصلاحات کا ہمارا راستہ ایک طرح سے ترقی کا بلیو پرنٹ بن گیا ہے۔ یہ ہماری  اصلاحات، یہ ترقی، یہ تبدیلی صرف بحث و مباحثہ کے کلب کے لیے، دانشوروں کے لیے، ماہرین کے لیے محض بحث کا موضوع نہیں ہے۔

دوستو!

یہ کام ہم نے سیاسی مجبوری کی وجہ سے نہیں کیا۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ ہم سیاست میں نفع یا نقصان کے بارے میں سوچ کر نہیں کرتے، ہمارے پاس صرف ایک ہی قرارداد ہے -  ملک پہلے، قوم پہلے، دیش کا مفاد مقدم۔ ہم اس عزم کے ساتھ قدم اٹھاتے ہیں کہ میرا ہندوستان عظیم ملک بنے ۔

دوستو!

جب اصلاحات کی بات آتی ہے تو ایک لمبا سیاق و سباق ہوتا ہے، اگر میں اس کی بحث میں جاؤں، تو شاید گھنٹوں لگ جائیں۔ لیکن میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہتا ہوں۔ بینکنگ کے شعبے  میں جو اصلاحات ہوئیں۔ ذرا سوچئے کہ پہلے بینکنگ کے شعبے کی کیا حالت تھی، کوئی ترقی نہیں ہوتی تھی، کوئی توسیع نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی  اعتماد میں کوئی اضافہ ہوتا تھا۔ یہی نہیں، جس طرح کے کارنامے انجام دیئے گئے ، ان کی وجہ سے ہمارے بینک اس قسم کے بحران اور مسائل سے گزر رہے تھے۔ ہم نے بینکنگ کے شعبے  کو مضبوط کرنے کے لیے متعدد اصلاحات کیں۔ اور آج اسی کی وجہ سے ہندوستانی بینکوں نے دنیا کے چند مضبوط اور گنے چنے بینکوں میں اپنامقام بنایا ہے۔ اور جب بینک مضبوط ہوتے ہیں تو رسمی معیشت کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جب بینکنگ نظام قائم ہوتا ہے، تو بینکنگ کے شعبے میں عام غریب افراد اور خاص طور پر متوسط ​​طبقے کے کنبوں کی ضروریات پوری کرنے کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اگر اسے مکان کے لیے قرض  یعنی ہوم لون کی ضرورت ہے، یا اسے  موٹرگاڑی کے لیے قرض کی ضرورت ہے، میرے کسان کو ٹریکٹر کے لیے قرض کی ضرورت ہے، میرے نوجوانوں کو اسٹارٹ اپ کے لیے قرض کی ضرورت ہے، میرے نوجوانوں کو کبھی  پڑھنے کے لیے، تعلیم کے لیے قرض چاہیے، کسی کو بیرون ملک جانے کے لیے قرض چاہیے، یہ ساری باتیں  قرض سے ممکن ہوتی ہیں۔

 مجھے خوشی ہے کہ میرے مویشی پالنے والے اور ماہی پروری کرنے والے بھائی بہن بھی آج بینکوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے لاکھوں  ریڑھی - پٹری  لگانے والے  بھائی بہن آج بینک کے ساتھ منسلک ہو کر ترقی کی نئی بلندیاں  طے کررہے ہیں۔ بینک ہماری  بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں –ایم ایس ایم ایز اور ہماری چھوٹی صنعتوں کے لیے سب سے بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ انہیں  اپنے روزمرہ کے کام کاج  کے لیے ہر دن پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام آج ہمارے مضبوط بینکوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

ساتھیو!

 بدقسمتی سے، ہمارے ملک کو آزادی تو ملی، لیکن لوگوں کو ایک طرح کے مائی- باپ کے کلچر سے گزرنا پڑا۔ حکومت سے مانگتے رہو، حکومت کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہو، کسی کی سفارش کرنے کے راستے کھوجتےرہو، یہی کلچر تیار ہوا تھا۔ آج ہم نے حکمرانی کے اُس ماڈل کو بدلا ہے۔ آج حکومت خود استفادہ کنندگان کے پاس جاتی ہے، آج حکومت خود اس کے گھر  گیس کا چولہا  پہنچاتی  ہے، آج حکومت خود اس کے گھر پانی پہنچاتی  ہے، آج حکومت خود اس کے گھر کو بجلی پہنچاتی ہے، آج حکومت خود اس کو مالی مدد دے کرکے  ترقی کی نئی جہتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ترغیب دیتی ہے، حوصلہ افزائی کرتی ہے، آج حکومت خود نوجوانوں کی ہنر مندی کے فروغ کے لیے بہت سے اقدامات کر رہی ہے۔

ساتھیو!  ہماری حکومت بڑی اصلاحات کے لیے پرعزم ہے اور اس کے ذریعے ہم ملک میں ترقی کی راہ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔

ساتھیو! ملک میں نئے نظام بن رہے ہیں! ملک کو آگے لے جانے کے لیےمختلف  مالیاتی پالیسیوں کو، بہت سی مالی پالیسوں کو مسلسل  بنایا جائے اور نئے نظام پر ملک کا اعتماد بھی بڑھتا رہتاہے، مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ آج جو 20 سے25 سال کا نوجوان ہے، جو 10 سال پہلے جب 12-15 سال کا نوجوان تھا، اس نےاس تبدیلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا  ہے۔10 سال کے عرصے میں ان کے خوابوں نے  تعبیر حاصل کی ہے، انہیں رفتار ملی ہے اور ان کے خود اعتمادی میں ایک نیا شعور بیدار ہوا ہے اور وہ ملک کی ایک نئی قوت  بن کر ابھر رہے ہیں۔ آج ہندوستان کی ساکھ پوری دنیا میں بڑھی ہے، ہندوستان کے تئیں نظریہ بدل گیا ہے۔

آج دنیا میں  نوجوانوں کے لیے امکانات کے دروازے کھلے ہیں۔ روزگار کے بے شمار نئے مواقع، جو آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی نہیں ملے تھے، آج ان کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ امکانات بڑھ گئے ہیں۔ نئے مواقع وضع ہو رہے ہیں۔ میرے ملک کے نوجوان اب آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ میرےملک کے نوجوان بڑھتی ہوئی ترقی پر یقین نہیں رکھتے۔ میرے ملک کے نوجوان چھلانگ لگانے کے موڈ میں ہیں۔ وہ چھلانگ لگانے اور نئی کامیابیاں حاصل کرنے کے موڈ میں ہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ یہ ہندوستان کے لیے سنہری دور ہے۔ عالمی حالات کے مقابلے میں بھی یہ سنہری دور،یہ ہمارا سنہری دور ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو! یہ موقع ہمیں جانے نہیں دینا، ہمیں اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے اور اگر ہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے خوابوں اور عزم کو لے کر آگے بڑھیں گے، تو ہم سنہرے ہندوستان کی ملک کی امید اور وکست بھارت کا  2047  کا ہدف ہم پورا کرکے رہیں گے۔ ہم صدیوں کی بیڑیاں توڑ کرکے نکلے ہیں۔

آج سیاحت کا شعبہ ہو، ایم ایس ایم ایز کا شعبہ ہو، تعلیم کا شعبہ ہو، صحت کا شعبہ ہو، نقل وحمل کا شعبہ ہو، زراعت اور کھیتی باڑی کا شعبہ ہو، ہر شعبے میں ایک نیا جدید نظام بن رہا ہے۔ ہم دنیا کے بہترین طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کے حالات کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہر شعبے میں جدت طرازی کی ضرورت ہے، نئےپن کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے اور ہر شعبے میں ہماری نئی پالیسیوں کی وجہ سے ان تمام شعبوں کو نئی حمایت اور نئی طاقت مل رہی ہے۔ ہماری تمام رکاوٹیں ختم ہوں ، ہماری کساد بازاری  دور ہو، ہم پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھیں، ہم کھل اُٹھیں، ہم اپنے خوابوں کو حاصل کرکے رہیں،  ہمیں کامیابی اپنے قریب نظر آئے، ہم اسے سمیٹ کرکے،اس سمت میں ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ اب آپ دیکھیں، کتنی بڑی تبدیلی آرہی  ہے۔

 میں بالکل زمینی سطح  کی بات کررہا ہوں ۔  جہاں تک خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ کی بات ہے ، آج 10 سالوں میں ہماری 10 کروڑ بہنیں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ میں شامل ہوئی ہیں، 10 کروڑ نئی بہنیں ۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے عام خاندان کی 10 کروڑ دیہی خواتین مالی طور پر خود کفیل ہو رہی ہیں اور جب خواتین مالی طور پر خود کفیل ہو جاتی ہیں، تو وہ خاندان کے فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اور اپنے ساتھ ایک بہت بڑی سماجی تبدیلی کی ضمانت لے کر آتی ہیں۔

 مجھے اس بات پر فخر ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس حقیقت پر بھی فخر ہے کہ ہمارے  سی ای او، آج پوری دنیا میں اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ ہندوستان کے ہمارے سی ای او دنیا بھر  میں اپنی دھاک جما رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ ایک طرف میرے سی ای او  پوری دنیا میں نام کما رہے ہیں،  ہندوستان کو مشہور کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے میرے عام خاندانوں کی کروڑوں مائیں بہنیں لکھ پتی دیدی بن رہی ہیں، میرے لیے یہ بھی اتنے ہی فخر کی بات ہے۔ اب ہم نے سیلف ہیلپ گروپ کو 10 سے 20 لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تک، ہمارے ان خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس کو بینکوں کے ذریعے 9 لاکھ کروڑ روپے ملے ہیں اور جس  کی مدد سے وہ اپنے مختلف کاموں کو بڑھا رہے ہیں۔

 

میرے ساتھیو!

میرے نوجوانوں کو اس پر توجہ دینی چاہیے، خلائی شعبہ ایک مستقبل ہے۔ ہمارے ساتھ جڑا ہوا  ایک اہم پہلو ہے، ہم اس پر بھی زور دے رہے ہیں، ہم نے خلائی شعبے میں بہت ساری اصلاحات کی ہیں۔ ہم نے ان  بندھنوں کو کھول دیا ہے، جنہوں نے خلائی شعبے کو جکڑ رکھا تھا۔ آج سینکڑوں اسٹارٹ اپس خلائی شعبے میں آ رہے ہیں۔ہمارا خلائی شعبہ متحرک بن چکا ہے اور ہندوستان کو ایک طاقتور ملک بنانے کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور ہم اس کو آگے کی سوچ کے ساتھ مضبوطی دے رہے ہیں۔ آج پرائیویٹ سیٹلائٹ اور پرائیویٹ راکٹ لانچ کیے جا رہے ہیں، یہ فخر کی بات ہے۔ آج میں کہہ سکتا ہوں کہ جب پالیسی درست ہو، نیتیں درست ہوں اور پوری لگن کے ساتھ قوم کی فلاح کا منتر ہو، تب ہی ہم یقینی نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

 میرے پیارے ہم وطنوں!

 آج ملک میں نئے مواقع  پیدا ہوئے ہیں۔چنانچہ میں کہہ سکتا ہوں  دو چیزیں اور ہوں، جنہوں نے ترقی کو ایک رفتار  دی، ترقی کو ایک نئی چھلانگ دی اور یہ ہے -  جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر ۔ ہم نے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانے کی سمت میں  بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ اور دوسری طرف ہم نے عام آدمی کی زندگی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور زندگی میں آسانی کے اپنے خواب پر برابر زور دیا ہے۔

 گزشتہ دہائی میں بنیادی ڈھانچے کی بے مثال ترقی ہوئی ہے۔ ریل  ہو، سڑک ہو، ایئرپورٹ ہو، بندرگاہ ہو، گورنمنٹ کنکٹیویٹی ہو ، گاؤں گاؤں  نئے اسکول  بنانے کی بات ہو ، جنگلوں میں اسکول بنانے کی بات ہو، دور دراز علاقوں میں اسپتال قائم کرنے کی بات ہو، آروگیہ مندر بنانے کی بات ہو، میڈیکل کالجوں کا قیام  ہو، آیوشمان آروگیہ مندروں کی تعمیر کا کام ہو، 60 ہزار سے زیادہ امرت سروور بنے ہوں، دو لاکھ پنچایتوں تک  آپٹیکل فائبر  نیٹ ورک پہنچا ہو، نہروں کا ایک بہت بڑا جال بچھایا جا رہا ہو، چار کروڑ پکے گھر بنانا،  غریبوں کو ایک نیا آشیانہ ملنا، تین کروڑ نئے گھر بنانے کے عہد کے ساتھ  ہماری کوشش ہو۔

 ہمارا  شمال مشرقی علاقہ، آج اپنے بنیادی ڈھانچے کے لیے جانا جاتا ہے اور ہم نے یہ جو تبدیلی پیدا کی ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ سماج کے ان طبقات تک پہنچا ہے، جو اب تک اس سے محروم تھے۔  دیہی علاقوں  میں وہاں سڑکوں کی تعمیر ہوئی ، جہاں کوئی ان کی طرف دیکھتا  تک نہیں تھا۔ یہ وہ علاقے اور گاؤں ہیں، جن کی طرف اس سے پہلے توجہ نہیں دی گئی۔ وہ دلت ہوں، مظلوم ہوں، استحصال زدہ ہوں، محروم طبقات ہوں، پسماندہ ہوں، قبائلی ہوں، جنگلوں میں رہنے والے ہوں، دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے ہوں، سرحدی علاقوں میں رہنے والے ہوں، ہم نے ان کی ضروریات کی تکمیل کی ہے۔

 ہمارے ماہی گیر بھائی بہنوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا ، ہمارے مویشی پالنے والے بھائیو کی زندگیوں کو بدلنا  ، ہماری پالیسیوں میں ایک طرح کی ہمہ گیر ترقی کی کوشش رہی ہے۔ یہ ہمارے ارادوں میں شامل رہا  ہے، ہماری اصلاحات اور ہمارے پروگراموں میں یہ شامل رہا ہے۔ ہمارے ماہی گیر بھائیوں اور بہنوں کی ضروریات کو پورا کرنا، ہمارے مویشی پالنے والوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانا، ہمہ گیر ترقی کے لیے کوشاں رہنا، ہماری پالیسیوں میں شامل رہاہے، ہمارے ارادوں میں رہاہے، ہماری اصلاحات میں شامل  رہاہے، ہمارے پروگراموں میں شامل رہا ہے۔ ہمارے کام کرنے کے انداز میں  رہاہے اور ان سب سے زیادہ فائدہ میرے نوجوانوں کو ملتا ہے۔ انہیں نئے نئے مواقع ملتے ہیں، ان کے لیے نئے شعبوں میں قدم رکھنا ممکن ہو جاتا ہے اور یہی سب سے زیادہ روزگار فراہم کر رہا ہے اور انہیں سب سے زیادہ روزگار حاصل کرنے کا موقع اسی دور میں ملا ہے۔

ہمارا متوسط ​​طبقہ فطری طور پر معیاری زندگی کی توقع رکھتا ہے۔ وہ ملک کو بہت کچھ دیتا ہے، اس لیےیہ بھی ملک کی ذمہ داری ہے کہ ہم  اس کی معیار زندگی سے متعلق توقعات، حکومت کی دقتوں کا سامنا کرنے سے آزادی کے حوالے سے اس کی امیدوں  پر پورا اترنے کے لیے ہم مسلسل کوششیں کرتے ہیں اور میں نے تو خواب دیکھا ہے کہ 2047 میں جب ترقی یافتہ ہندوستان کا خواب پورا ہوگا، تواس کا ایک جزو یہ بھی ہوگا کہ عام لوگوں کی زندگیوں میں حکومتی مداخلتوں کو کم کیا جائے۔ جہاں حکومت کی ضرورت ہو، وہاں کوئی کمی نہ ہو اور جہاں حکومت کی جانب سے کی جانے والی  تاخیر سے کوئی اثر نہ ہو، ہم اس قسم کے نظام کے تئیں پابند عہد ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 ہم چھوٹی چھوٹی ضرورتوں پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دھیان دیتے ہیں اور ان باتوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ہمارے غریب کے گھر کا چولہا جلتا رہے، غریب کی ماں کو کبھی آنسو پی کر نہ سونا پڑے اور اس کے لیے ہم مفت علاج کی اسکیم چلا رہے ہیں۔ بجلی، پانی، گیس اب سیچوریشن کے موڈ میں ہیں اور جب ہم سیچوریشن کی بات کرتے ہیں، تو یہ صد فیصد ہوتا ہے۔ جب سیچوریشن ہوتا ہے، تو اس میں ذات  پات کا رنگ نہیں لگتا۔ جب سیچوریشن ہوتا ہے، تو اس میں بائیں بازو کے نظریات کا رنگ نہیں لگتاہے، جب سیچوریشن کا منتر ہوتا ہے، تب  صحیح معنی میں  سب کا ساتھ ،سب کا وکاس کا منتر پوراہوتا ہے۔

لوگوں کی زندگیوں میں حکومت کی مداخلت کو کم کرنے کے لیے ہم نے  ہزاروں ان  تعمیلات  کے لیے، جو عام آدمی پر بوجھ ڈالتی تھیں، ہم نے اہل وطن کے لیے ڈیڑھ ہزار سے زائد قوانین ختم کیے، تاکہ اہل وطن کو قوانین کے  جنجال میں نہ پھنسنا پڑے۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی وجہ سے  پہلے ایسے قوانین بنے تھے، کہ انہیں جیل میں ڈال دیا جائے۔ ہم نے ان تمام قوانین کو تباہ کر دیا ہے، جن میں چھوٹی چھوٹی وجوہات پر جیل جانے کی روایت تھی اور ان لوگوں کو جیل بھیجنے کی شق کو نظام سے نکال دیا ہے۔ آج ہم آزادی کی وراثت پر فخر کی بات کرتے ہیں، وہ فوجداری قوانین جو ہمارے پاس صدیوں سے موجود تھے، آج ہم نے انہیں ایک نیا فوجداری قانون بنایا ہے، جو ہم نے ایک  نیائے سنہیتہ کی شکل میں دیا ہے اور جس کی بنیاد پر اگر سزا نہیں، تو پھر شہری کے انصاف کے اس احساس کو ہم نےمضبوط کیا ہے۔

ہم رہن سہن میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ملک گیر مشن پر کام کر رہے ہیں۔ میں حکومت سے ہر سطح پر ان چیزوں کی تلقین  کرتا ہوں۔  میں تمام عوامی نمائندوں سے، خواہ وہ کسی بھی پارٹی یا کسی بھی ریاست سے تعلق رکھتے ہوں،  گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں  رہن سہن میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ایک مشن موڈ میں اقدامات کرنے چاہئیں۔ میں اپنے نوجوانوں اور پیشہ ور افراد، سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ  اپنی اپنی جگہوں پر جہاں بھی آپ کو چھوٹے موٹے مسائل درپیش ہیں، آپ حکومت کو ان کے حل پیش کرتے ہوئے خطوط لکھتے رہیں۔ حکومت کو بتائیں کہ اگر بغیر کسی وجہ کے مشکلات پیش آئیں، تو ان کو دور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، میرا پختہ یقین ہے کہ آج کی حکومتیں حساس ہیں۔ ہر حکومت چاہے وہ مقامی حکومت ہو، ریاستی حکومت ہو یا مرکزی حکومت، اس پر توجہ  دے گی۔

2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کے مقصد سے ، ہمیں حکمرانی میں  اصلاحات کو پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا، تاکہ عام لوگوں کی زندگیوں میں مواقع ہی مواقع  پیدا ہوں اور رکاوٹیں دور ہی دور ہوتی چلی جائیں۔ شہریوں کا وقار، شہریوں کی زندگیوں میں عزت ہونی چاہیے، ڈیلیوری یعنی خدمات کی فراہمی کے حوالے سے کسی کو یہ کہنے کی نوبت نہ آئے کہ یہ تو میرا حق تھا، جو مجھے نہیں ملا،  اس کی تلاش نہ کرنی  پڑے۔ حکومت کے خدمات کی فراہمی سے متعلق نظام کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہئے۔

آپ دیکھئے، ملک میں جب ہم اصلاحات کی بات کرتے ہیں۔ آج ملک میں تقریباً تین لاکھ ادارے کام کر رہے ہیں۔  چاہے پنچایت ہو، نگر پنچایت ہو، نگرپالیکا ہو، مہانگر پالیکا ہو، مرکز کے زیرانتظام علاقے ہوں، ریاست ہو، ضلع ہو، مرکز ہو، چھوٹی موٹی تقریباً تین لاکھ اکائیاں ہیں۔ اگر میں  آج ان تین لاکھ اکائیوں سے اپیل کروں کہ اگر آپ سال میں  اپنی سطح پر جن چیزوں کی ضرورت ہے ،عام آدمی کے لیے 2  اصلاحات کریں۔ زیادہ نہیں کہہ رہا ہوں،میرے ساتھیو، ایک پنچایت ہو،ایک ریاستی سرکار ہو، کوئی محکمہ ہو، صرف ایک سال میں صرف دو اصلاحات، اور اس  پر عمل در آمد کریں۔ آپ دیکھئے، ہم دیکھتے ہی دیکھتے  ایک سال میں تقریباً 30-25  لاکھ اصلاحات کر سکتے ہیں۔ جب 30-25 لاکھ اصلاحات ہوجائیں، تب عام آدمی کا اعتماد کتنا بڑھ جائے گا،اس کی طاقت ملک  کو نئی بلندیوں پر  لے جانے میں کتنی کام آئے گی اور اس لیے ہم اپنی سطح پرہوتی ہیں، چلتی سے  نجات پاکر بدلاؤ کے لیے آگے آئیں، ہمت کے ساتھ آگے آئیں اور عام آدمی کی ضرورت تو، چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں، پنچایت سطح پر بھی وہ مصیبتیں جھیل رہا ہے، ان مصیبتوں سے نجات دلائیں، تو مجھے پکا بھروسہ کہ ہم خوابوں کو پورا کرسکتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو!

آج ملک امنگوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کے  نوجوان نئی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نت نئی بلندیوں پر قدم رکھنا چاہتا ہے اور اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ہر شعبے میں کام کو ہم رفتار دیں اور اسے تیز کریں اور اس کے ذریعے  پہلے ہم ہر شعبے میں نئے مواقع پیدا کریں۔ دوسرا یہ بدلتے ہوئے حالات کے لیے، جو معاون بنیادی ڈھانچہ چاہئے، اُس بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لاکر اور اسے مضبوطی دینے کی  سمت میں کام کریں۔  اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم شہریوں کےلیے  بنیادی سہولتوں کو ترجیح دیں اور انہیں مضبوط بنائیں ۔ ان تینوں نے ہندوستان میں ایک امنگوں سے پر معاشرے کی تعمیر کی ہے اور اس کے نتیجے میں آج معاشرہ خود اعتمادی سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے  ہم وطنوں کی امنگوں کو اپنے نوجوانوں کی توانائی اور اپنے ملک کی صلاحیتوں کے ساتھ ملا کر، ہم ایک وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہم نے روزگار اور خود روزگار کے لیے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ آج ہم فی کس آمدنی کو دوگنا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ عالمی ترقی میں ہندوستان کا تعاون بہت بڑا ہے۔ ہندوستان کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جو پہلے سے دوگنا ہو گیا ہے۔ ہندوستان کے تئیں عالمی اداروں کے  اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان کی سمت درست ہے، ہندوستان کی رفتار تیز ہے اور ہندوستان کے خوابوں کی صلاحیت ہے، لیکن اس سب کے ساتھ، ہماری حساسیت کا راستہ ایک نئے شعور سے توانائی بھر دیتا ہے۔ دل لگاکر کام کرنا ہماری فطرت ہے۔ ہم آہنگی کی بھی ضرورت ہے اور ہم اس کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

 ساتھیو!

جب میں کورونا کا دور یاد کرتا ہوں۔ اگر کوئی ایسا ملک ہے، جو عالمی کورونا وبا کے درمیان اپنی معیشت کو سب سے تیزی سے بہتر کر رہا ہے، تو وہ ملک ہندوستان ہے۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سمت درست ہے۔ جب ذات پات سے اوپر اٹھ کر ہر گھر میں ترنگا لہرایا جاتا ہے، تو لگتا ہے کہ ملک کی سمت درست ہے۔ آج پورا ملک ترنگا ہے، ہر گھر ترنگا ہے، کوئی ذات پات نہیں،کوئی اونچ نیچ نہیں ہیں، سب ہندوستانی ہیں۔ یہی تو ہماری سمت کی طاقت ہے۔ جب ہم 25 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالتے ہیں، تو ہمارا یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ہم نے رفتار کو برقرار رکھا ہے اور ہمارے  خوابوں کی تعبیر زیادہ دور نہیں ہے۔

جب 100 سے زیادہ امنگوں والے  اضلاع، اپنی اپنی ریاستوں کے اچھے اضلاع سے مقابلہ کر رہے ہیں، برابری کرنے لگے ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ ہماری سمت اور رفتار دونوں مضبوط ہیں۔ جب ہمارے قبائلی دوستوں کو مدد ملتی ہے، پی ایم جن من کے ذریعے ان کو جو  اسکیمیں پہنچی تھیں، آبادی بہت چھوٹی ہے،لیکن بہت سے دور دراز علاقوں میں الگ الگ گھرانے رہتے ہیں، ہم نے ان کو تلاش کیا اور ہمیں ان کی فکر کی ہے ، تو ہمیں کتنا اطمینان ہوتا ہے۔ کام کرنے والی خواتین کے لیے زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹی 12 ہفتوں سے بڑھا کر 26 ہفتے کر دی گئی ہے۔ پھر، یہ صرف یہ نہیں کہ ہم خواتین کا احترام کرتے ہیں، نہ صرف یہ کہ ہم خواتین کے تئیں حساسیت کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں،  لیکن ہم یہ فیصلہ اس حساس احساس کے ساتھ کرتے ہیں کہ حکومت ماں کی گود میں پلنے والے بچے کو ایک اچھا شہری بنانے کی ضرورت میں رکاوٹ نہ بنے۔

جب میرے معذور بھائی اور بہنیں ہندوستانی اشاروں کی زبان یا قابل رسائی ہندوستان کی مہم کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب مجھے بھی وقار حاصل ہے، وہ مجھے ملک کے شہری کے طور پر عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور پیرا لمپکس میں ہمارے کھلاڑیوں نے نئی طاقت دکھانا شروع کر دی ہے۔ تب ایسا لگتا ہے کہ یہ جو میرا اپنا جذبہ ہے، یہ ہم سب کا جذبہ ہے، اس کی طاقت  نظر آتی ہے۔ جس حساسیت کے ساتھ ہم اپنی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حوالے سے فیصلے لے رہے ہیں، ہم نئے نئے قوانین بنا رہے ہیں، انہیں عزت کی زندگی دینے کی کوششیں کر رہے ہیں، تب ہماری تبدیلی کی سمت درست معلوم ہوتی ہے۔ آج ہم خدمت کے جذبے کے ساتھ کئے گئے ان کاموں کا براہ راست فائدہ دیکھ رہے ہیں ، جو مختلف  راستوں پر ہم چلے ہیں، ان کا سیدھا سیدھا فائدہ ،آج کے نتائج کی شکل میں ہم کو نظر آرہا  ہے۔

آپ نے 60 سال کے بعد مسلسل تیسری بار ہمیں ملک کی خدمت کا موقع دیا ہے۔  میرے 140 کروڑ ہم وطنو، آپ نے مجھے جو آشیرواد دیا ہے، اس کے جواب میں میرا ایک ہی پیغام ہے -  ہر فرد کی خدمت، ہر خاندان کی خدمت، ہر علاقے کی خدمت اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ سماج کی طاقت کو اپنے ساتھ لے کر ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچنا۔ آج، 2047 کے وکست بھارت  کے خواب کو آگے بڑھانے کے اسی پیغام کے ساتھ، میں اپنا سر جھکاتا ہوں اور لال قلعہ کی فصیل سے ان  کروڑوں ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جنہوں نے ہمیں آشیرواد دیا ہے۔ اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں نئی ​​بلندیوں پر اور نئے جوش کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہم وہ لوگ نہیں، جو ہوگیا  ہے اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں، یہ ہمارے سنسکار میں نہیں ہے۔ ہم کچھ اور کرنا چاہتے ہیں، مزید آگے بڑھنا اور نئی بلندیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم ترقی، خوشحالی، خوابوں کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں، عزائم  کو پورا کرنے میں زندگی لگا دینا اپنی فطرت بنانا چاہتے ہیں،  ہم اسے اپنے ہم وطنوں کی فطرت بنانا چاہتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو!

آج بہت سی ریاستوں نے نئی تعلیمی پالیسی میں اچھی پہل کی ہے اور اس کی وجہ سے ہم اپنے تعلیمی نظام کو 21ویں صدی کے مطابق مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ اور جس طرح سے ہم انسانی گروپوں کو ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں، اس میں نئی ​​تعلیمی پالیسی کا بہت بڑا کردار ہے۔ میں نہیں چاہتا ہوں  کہ میرے ملک کے نوجوانوں  کو اب بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ متوسط ​​ خاندان کے، اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجنے کے واسطے  لاکھوں اور کروڑوں روپے خرچ ہوجائیں۔ ہم یہاں ایسا تعلیمی نظام وضع کرنا چاہتے ہیں، کہ میرے ملک کے نوجوانوں کو بیرون ملک نہ جانا پڑے۔ میرے متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کو لاکھوں کروڑوں روپے خرچ نہ کرنا پڑیں۔ یہی نہیں ایسے اداروں کی تعمیر ہو ، تاکہ بیرون ملک جانے سے ان کا رخ ہندوستان  کی طرف موڑاجاسکے۔

  ہمارے پاس بہار کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ابھی ابھی ہم نے نالندہ یونیورسٹی کو دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ نالندہ یونیورسٹی نے ایک بار پھر کام کرنا شروع کر دیا ہے، لیکن ہمیں  تعلیم کے شعبےمیں ایک بار پھر صدیوں پرانے اس  نالندہ جذبے کو ابھارنا ہو گا، اس نالندہ اسپرٹ کو جینا ہوگا، اس نالندہ اسپرٹ کو لے کر انتہائی اعتماد کے ساتھ دنیا کے علم کی روایتوں کو نئی بیداری فراہم کرنے کا ہمیں کام کرنا ہوگا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی نے مادری زبان پر زور دیا  ہے۔ میں ریاستی حکومتوں سے کہوں گا، میں ملک کے تمام اداروں سے کہوں گا کہ زبان کی وجہ سے ہمارے ملک  کی صلاحیت کو کسی طرح کی  رکاوٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ زبان کو رکاوٹ نہیں ہونا  چاہیے۔ مادری زبان کی طاقت ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے، غریب سے  غریب ماں کےبیٹے کو بھی  اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی طاقت دیتی ہےاور اس لیے ہمیں اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا ہوگی، زندگی میں مادری زبان کا مقام، خاندان میں مادری زبان کا مقام  ہوتاہے۔ ہمیں اس کی طرف توجہ دینی ہوگی۔

میرے پیارے ہم وطنوں!

 آج دنیا میں، جس طرح تبدیلیاں نظر آرہی ہیں، اس سے ہنر کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اور ہم ہنرمندی کو ایک نئی طاقت دینا چاہتے ہیں۔ ہم  صنعت 4.0 کو ذہن میں رکھتے ہوئے، مہارت اور ہنرمندی کی ترقی چاہتے ہیں۔ ہم زندگی کے ہر شعبے میں، یہاں تک کہ زراعت کے شعبے میں بھی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ہنر مندی چاہتے ہیں۔ ہم اپنے صفائی کے شعبے  میں نئی ​​مہارتوں کی نشوونما پر بھی زور دینا چاہتے ہیں اور اس بار ہم اسکل انڈیا پروگرام کو بہت جامع انداز میں لے کر آئے ہیں۔ بجٹ میں بھی اس کو اہمیت دی گئی  ہے، اس بجٹ میں ہم نے انٹرن شپ پر بھی زور دیا ہے، تاکہ ہمارے نوجوانوں کو تجربہ ملے، ان کی استعداد بڑھے، اور بازارمیں ان کی صلاحیت نظر آئے، اس طرح سے میں ہنر مندنوجوانوں کو تیار کرنا چاہتا ہوں ۔اور دوستو،  آج دنیا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ ہندوستان کی ہنر مند افرادی قوت، ہمارے ہنر مند نوجوان جو ہیں،وہ عالمی ملازمت کے بازار میں اپنا اثر قائم کریں ، ہم اس خواب کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ساتھیو!

دنیا کے حالات  جس تیزی سے بدل رہے ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ ہمیں سائنس پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ چندریان کی کامیابی کے بعد ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف دلچسپی کا نیا ماحول پیدا ہوا ہے،ایک طرح کی نئی دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ اس ذہنیت کو پروان چڑھانے کے لیے ہمارے تعلیمی اداروں کو آگے آنا ہو گا۔ حکومت ہند نے بھی تحقیق کے لیے اپنا تعاون بڑھایا ہے، ہم نے زیادہ سے زیاد چیئرز قائم کیے ہیں۔ نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن بنا کر ہم نے اسے قانونی ماحول میں لا کر ایک مستقل نظام وضع کیا ہے، تاکہ تحقیق پر مسلسل زور دیا جائے اور یہ ریسرچ فاؤنڈیشن اس کام کو کرے۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ بجٹ میں ہم نے تحقیق اور اختراع کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے  پاس جوخیالات ہیں ،ان کو زمین پرلایا جا سکے۔

ساتھیو!

آج بھی ہمارے ملک میں  میڈیکل  تعلیم کے لئے ہمارے بچے بیرونی ممالک جا رہے ہیں۔ ان کا تعلق زیادہ تر متوسط ​​گھرانے سے ہے۔ ان پر لاکھوں اور کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔ اس کو دیکھتے ہوئے ہم نے پچھلے 10 سالوں میں  میڈیکل سیٹوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ کر دی ہے۔ ہر سال تقریباً 25 ہزار نوجوان میڈیکل کی تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ اور جب مجھےایسے ممالک میں جانا پڑرہا ہے، تو کبھی کبھار میں اس بارے میں سن کر حیران ہو جاتا ہوں اور اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے 5 سالوں میں میڈیکل لائن میں 75 ہزار نئی سیٹیں بڑھائی جائیں گی۔

میرے پیارے ہم وطنو!

وکست بھارت  2047 بھی ایک صحت مند ہندوستان ہونا چاہئے۔ اور جب صحت مند ہندوستان  ہو، تو آج بچوں کی غذائیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسی لیے ہم نے وکست بھارت کی جو پہلی پیڑھی ہے، ان پر خصوصی توجہ دے کر ہم نے غذائیت کی مہم شروع کی ہے۔ ہم نے قومی تغذیہ مشن  شروع کیا ہے، ہم نے تغذیہ کو ترجیح دی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 ہمارے زرعی نظام کو بدلنا بہت ضروری ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہم اس روایت سے آزاد ہوں گے، جس میں ہم صدیوں سے پھنسے ہوئے ہیں، جکڑے ہوئے ہیں، اس سے نجات پانی ہوگی اور اس کے لیے ہم اپنے کسانوں  کو تکنیکی مدد بھی  فراہم کررہے ہیں۔ کسان جو پیداوار کرتا ہے،اس  کی قدر میں اضافے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم اس کی مارکیٹنگ کے لیے مکمل انتظامات کر رہے ہیں، تاکہ اس کے پاس شروع سے آخر تک ہر جگہ پر دسترس  رکھنے کے انتظامات ہوں، ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔

آج جب پوری دنیا ‘دھرتی ماتا’ کے لیے پریشان ہے، جس طرح کھادوں کی وجہ سے ہماری دھرتی ماتا کی صحت دن بہ دن خراب ہو رہی ہے، ہماری دھرتی ماتا کی پیداواری صلاحیت ختم ہو تی چلی جارہی ہے،اور ایسے وقت میں  ملک کے ان لاکھوں کسانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے قدرتی کھیتی کا راستہ اختیار کیا ہے اور ہماری دھرتی ماتا کی خدمت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے۔ اور اس بار بجٹ میں بھی ہم نے قدرتی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے بڑی اسکیموں کے ساتھ بہت بڑے بجٹ کا انتظام کیا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 آج میں دنیا کے حالات دیکھتا  ہوں، پوری دنیا جامع صحت دیکھ بھال  کی طرف متوجہ ہو رہی ہے اور پھر نامیاتی غذا، ان کی پہلی پسند بن چکی ہے۔ آج اگر کوئی دنیا کے لیےنامیاتی غذا کی نامیاتی فوڈ  باسکٹ بنا سکتا ہے، تو میرے ملک کا کسان بنا سکتا ہے، میرا ملک بن سکتا ہے۔ اور اسی لیے ہم آنے والے دنوں میں اس خواب کو لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، تاکہ نامیاتی غذا کی دنیا بھر میں جو مانگ ہے اور ہمارا ملک کس طرح آرگینک فوڈ کی باسکٹ کیسے بنے۔

کسانوں کی زندگی آسان ہو، گاؤں میں اعلیٰ درجے کی انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی ملے، کسانوں کو صحت خدمات ملیں، کسانوں کے بچوں کے لیے پڑھائی کے لیےاسمارٹ اسکول ہوں، کسانوں کے بچوں کے لیے روزگار دستیاب ہوں۔ چھوٹے چھوٹے کھیتی کے حصوں پر پورے پریوار کا آج زندگی گزارنا بہت مشکل ہو رہا ہے،تب ان کے نوجوانوں کو وہ ہنرملے، تاکہ ان کو نئے روزگار ملیں،ہم اسے  فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، تاکہ وہ نیا روزگار حاصل کر سکیں اور آمدنی کے نئے ذرائع بنیں، ہم اس کے لیے جامع کوشش کر رہے ہیں۔

پچھلے سالوں میں ہم نے خواتین کی قیادت میں ترقی کے ماڈل پر کام کیا ہے۔اختراع ہو، روزگار ہو، انٹرپرینیورشپ ہو، خواتین ہر شعبے میں آگے بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خواتین صرف شراکت بڑھا رہی ہیں، خواتین قیادت بھی کر رہی ہیں۔ آج بہت سے شعبوں میں، آج  اپنے  دفاع میں، ہماری فضائیہ ہو، ہماری فوج ہو، ہماری بحریہ ہو، ہمارا خلائی شعبہ ہو، آج ہم اپنی خواتین کا دم خم  دیکھ رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کچھ تشویش کی باتیں بھی سامنے آتی ہیں اور آج میں لال قلعہ سے ایک بار پھر اپنے درد کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ بحیثیت معاشرہ ہمیں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں پر ہونے والے مظالم پر سوچنا ہوگا۔ اس کے تئیں ملک میں غصہ ہے، جس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ عام لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، میں اس غصے کو محسوس کر رہا ہوں۔ ملک، سماج، ہماری ریاستی حکومتوں کو اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ خواتین کے خلاف جرائم کی جلد از جلد تحقیقات کی جائیں۔ شیطانی کام کرنے والوں کو جلد از جلد سخت سزا دی جائے، معاشرے میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ جب خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں، تو اس کی  بہت چرچا ہوتی ہے، اسے بہت شہرت ملتی ہے اور میڈیا میں اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے، لیکن جب ایسی شیطانی ذہنیت کے حامل شخص کو سزا سنائی جاتی ہے، تو وہ خبروں میں کہیں نظر نہیں آتا، کہیں کسی کونے میں پڑا رہتا ہے۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ سزا پانے والوں کے بارے میں وسیع بحث کی جائے، تاکہ ایسے گناہ کرنے والے بھی ڈر جائیں کہ گناہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں پھانسی پر لٹکنا پڑتا ہے اورمجھے لگتا ہے کہ یہ ڈر پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

 میرے پیارے ہم وطنو!

  ہمارے ملک کی، ایسی ایک فطری عادت بن چکی تھی۔ نہ جانے کیوں ہمارے ذہنوں میں ملک کو کم تر سمجھنے اور ملک کے تئیں فخر کا احساس نہ ہونے کا خیال آیا اور کبھی کبھی جب ہم دیر سے آتے تھے، تواسے  انڈین سائن کہتے تھے، شرم کے ساتھ ہم بول دیتے  تھے۔ ملک کو ان چیزوں سے باہر نکالنے میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ کھلونے بھی باہر سے آتے تھے۔ ہم نے وہ دن بھی دیکھے۔ آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے ملک کے کھلونے اپنی صلاحیتوں سے عالمی منڈی تک پہنچ رہے ہیں۔ ہمارے کھلونے اب برآمد ہونے لگے ہیں۔ ایک وقت تھا، ہم موبائل فون درآمد کیا کرتے تھے، آج موبائل فون کی تیاری کا ایکو سسٹم بنا ہوا ہے، ایک بہت بڑا مرکز بنا ہوا ہے اور آج ہم نے دنیا میں موبائل فون برآمد کرنا  بھی شروع کر دیے ہیں۔ یہ ہندوستان کی طاقت ہے۔

 ساتھیو!

سیمی کنڈکٹر مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی منسلک ہے، مصنوعی ذہانت منسلک ہے۔ ہم نے سیمی کنڈکٹر مشن پر کام شروع کر دیا ہے اور ساز و سامان کیوں سستا نہ ہو، میرے ملک کے نوجوان یہ خواب کیوں دیکھیں، ٹیلنٹ یہاں ہے۔ اس طرح کے تمام تحقیقی کام ہندوستان میں ہوتے ہیں، اس لیے اب پیداوار  ہندوستان میں ہوگی۔سیمی کنڈکٹر کا کام ہندوستان میں بھی کیا جائے گا اور ہمارے پاس دنیا کو شروع سے آخر تک حل  فراہم کرنے کی طاقت ہے۔

 ساتھیو!

 ہم نے ایک زمانہ  دیکھا ہے کہ ہم 2-جی  کے لیے کس طرح جدوجہد کرتے تھے۔ آج ہم اسے ہر ڈیوائس میں دیکھ رہے ہیں، ہم تیزی سے آگے بڑھے ہیں اور جس رفتار کے ساتھ 5-جی  پورے ملک میں متعارف کرایا گیا ہے، وہ تقریباً ہندوستان کے تمام علاقوں تک پہنچ گیا ہے۔ وہ دنیا میں  تیز رفتار سے 5-جی  فراہم کرنے میں سب سے آگے رہاہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم رکنے والے نہیں ہیں، 5-جی  پر رکنا اب ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ ہم پہلے ہی مشن موڈ میں 6-جی  پر کام کر رہے ہیں اور ہم اس میں بھی دنیا میں اپنی دھاک جمائیں گے۔ میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں۔

میرے پیارے ساتھیو!

دفاعی شعبہ، ہماری عادت بن گئی تھی ، دفاعی بجٹ کتنا ہی کیوں نہ ہو، لیکن کبھی کوئی سوچتا نہیں تھا کہ  دفاعی بجٹ بڑھا، تو جاتا کہاں ہے؟ دفاعی بجٹ بیرون ملک سے خریداری میں چلا جاتا تھا، اب ہم چاہتے ہیں کہ ہم خود کفیل  بنیں  اور میں اپنی دفاعی افواج کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے ایسی ہزاروں چیزوں کی فہرست دی ہے، انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم انہیں بیرون ملک سے نہیں لائیں گے۔ملک کے لیے جینا، کیا کہتے ہیں یہ ہمارے  فوج کے جوانوں نے دکھایا ہے۔ اب اس کی وجہ سے ہم دفاعی شعبے میں خود کفیل ہو رہے ہیں۔ آج دفاعی سازو سامان کی مینوفیکچرنگ میں ہندوستان کافی مشہور ہوگیا ہے۔ اور آج میں خوشی سے کہہ سکتا ہوں کہ جو ملک کبھی دفاع کی ہر چھوٹی بڑی چیز باہر سے منگوایا کرتا تھا، آج ہم دنیا کے کئی ممالک میں دھیرے دھیرے دفاعی آلات تیار کرنے لگے ہیں، وہ ہم برآمد کرنے لگے ہیں۔  ہم آہستہ آہستہ دنیا میں دفاعی سازو سامان کی مینوفیکچرنگ میں ایک اہم مرکز کے طور پر ابھر رہے ہیں۔  ہم مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ اس کی سب سے زیادہ ضرورت بے روزگاروں کے لیے ہے۔ آج پی ایل آئی اسکیم کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ایف ڈی آئی ریفارمس نے بھی ہمیں بڑی طاقت دی ہے۔ایم ایس ایم ایز کو زبردست فروغ ملا ہے۔ ایک نیا نظام تیار ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارا مینوفیکچرنگ سیکٹر، دنیا کا ایک مینوفیکچرنگ ہب بن گیا ہے، جس ملک میں نوجوانوں کی اتنی طاقت ہو، جس ملک میں یہ صلاحیت ہو، ہم مینوفیکچرنگ کی دنیا میں  بھی انڈسٹری4.0 میں بڑی طاقت کے ساتھ آگے جانا  چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہم نے اسکل ڈیولپمنٹ پر بھی زور دیا ہے۔ اور ہم نے اسکل ڈیولپمنٹ میں بھی نئے ماڈل قائم کیے ہیں۔ ہم نے عوامی شرکت کو شامل کیا ہے، تاکہ ہم فوری ضرورت کے مطابق اسکل ڈیولپمنٹ کر سکیں۔ اور مجھے یقین  ہے، میں لال قلعہ کی فصیل سے کہہ رہا ہوں کہ وہ دن دور نہیں، جب ہندوستان صنعتی مینوفیکچرنگ کا مرکز بنے گا، دنیا اس کی طرف دیکھے گی۔

آج دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ انتخابات کے بعد میں نے دیکھا ہے کہ میرے تیسرے دور میں مجھ سے ملنے کا مطالبہ کرنے والے زیادہ تر سرمایہ کار ہیں۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار ہیں، وہ آنا چاہتے ہیں، ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا سنہری موقع ہے۔ میں ریاستی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک واضح پالیسی مرتب کریں۔ گڈ گورننس کی یقین دہانی کرائیں، امن و امان کی صورتحال کی یقین دہانی کرائیں۔ ہر ریاست کو صحت مند مقابلے میں آگے آنا چاہیے۔ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ریاستوں کے درمیان مقابلہ ہونا چاہیے۔ سرمایہ کاروں کے لیے تاکہ ان کی ریاست میں سرمایہ کاری آئے اور ان کی ریاست کے نوجوانوں کو مقامی مواقع اور روزگار کے مواقع میسر آئیں۔

اگر پالیسیوں میں تبدیلیاں لانی ہیں، تو ریاستوں کو عالمی ضرورت کے مطابق پالیسیاں تبدیل کرنی چاہئیں۔ اگر زمین کی ضرورت ہے، تو ریاستوں کو ایک لینڈ بینک بنانا چاہیے۔ ریاستیں گڈ گورننس سنگل پوائنٹ  پر کام کرنے کے لیے جتنی زیادہ فعال ہوں گی، وہ جتنی زیادہ کوششیں کریں گی، آنے والے سرمایہ کار کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ یہ کام اکیلے حکومت ہند نہیں کر سکتی۔ ریاستی حکومتوں کی بہت ضرورت ہے۔ کیونکہ جو بھی پروجیکٹ بننے جا رہا ہے، وہ اسی ریاست میں بننے والا ہے۔ اسے روزانہ کی بنیاد پر ہر ریاست سے نمٹنا پڑتا ہے۔ اور اس لیے میں ریاستوں سے درخواست کروں گا، کہ جب دنیا پوری طرح ہندوستان کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، دنیا  پورے ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کا عہد کر رہی ہے، اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی پرانی عادتیں چھوڑیں اور واضح پالیسی کے ساتھ آگے آئیں۔ دیکھئے، آپ اپنی ریاست میں نتائج دیکھیں گے اور آپ کی ریاست بھی چمکے گی، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔

ساتھیو!

 یہ بہت ضروری ہے کہ ہندوستان کو، اس کے بہترین معیار کے لیے پہچانا جائے۔ اب ہمیں دنیا کے لیے ڈیزائن کے شعبے ‘ڈیزائن ان انڈیا ’ پر زور دینا ہوگا۔ ہمیں کوشش کرنا ہے کہ  ہندوستانی معیار بین الاقوامی معیار بن جائے۔ جب ہندوستانی معیار بین الاقوامی معیار بن جائے گا، تو ہماری ہر چیز کو آسانی سے منظور کیا جائے گا۔ اور یہ ہماری پیداوار کے معیار پر منحصر ہوگا۔ ہماری خدمت کے معیار پر منحصر ہوگا۔ ہمارے نقطہ نظر کے معیار پر منحصر ہوگا  اور اس لیے ہمیں معیار پر زور دے کر آگے بڑھنا ہے۔ ہمارے پاس ٹیلنٹ ہے۔ ہم ڈیزائن کے میدان میں دنیا کو بہت سی نئی چیزیں دے سکتے ہیں۔ ڈیزائن  ان انڈیا، ہمیں اس اپیل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ڈیزائن  ان انڈیا  اور ڈیزائن فار د ی ورلڈ،اس خواب کو لے کر چلنا ہے۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ گیمنگ کی دنیا میں ایک بہت بڑی مارکیٹ ابھری ہے۔ لیکن آج بھی گیمنگ کی دنیا پر اثر و رسوخ، خاص طور پر وہ لوگ جو ان گیمز کو بناتے اور تیار کرتے ہیں، بیرون ملک کی  کمائی ہوتی ہے۔ ہندوستان کے پاس ایک بہت بڑی وراثت ہے۔ ہم گیمنگ کی دنیا میں نئے ٹیلنٹ کو  لے کر آسکتےہیں۔ دنیا کے ہر بچہ کو  ہمارے ملک میں تیار ہونے  والی گیمنگ کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے بچے، ہندوستان کے نوجوان، ہندوستان کے آئی ٹی پروفیشنلز، ہندوستان کے اے آئی کے  پروفیشنلز گیمنگ کی دنیا کی قیادت کریں۔ کھیلنے میں نہیں، بلکہ گیمنگ کی دنیا میں بھی ہمارے پروڈکٹ  پوری دنیا تک پہنچنے چاہیے۔ اور ہمارے اینیمیٹر پوری دنیا میں کام کر سکتے ہیں، اینیمیشن کی دنیا میں، ہم اپنا سکہ جما سکتے ہیں، ہم اسی سمت میں کام کریں ۔

میرے پیارے ہم وطنو!

آج  دنیا میں گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلی ہر شعبے میں تشویش اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ہندوستان نے اس سمت میں کئی قدم اٹھائے ہیں۔ ہم دنیا کو یقین دلاتے رہے ہیں اور لفظوں سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے، ہم نے جو نتائج حاصل کیے ہیں، ان سے ہم نے دنیا کو یقین دلایا اور دنیا کو حیرت زدہ بھی کیا ہے۔ ہم ہی ہیں، جنہوں نے سنگل یوز پلاسٹک پر پابندی لگائی ہے۔ ہم نے قابل تجدید توانائی کو بڑھایا ہے، ہم نے قابل تجدید توانائی کو ایک نئی طاقت دی ہے، آنے والے کچھ سالوں میں ہم خالص صفر مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے وہ ممالک یاد ہیں، جنہوں نے پیرس معاہدے میں اپنے اہداف مقرر کیے تھے، آج میں لال قلعہ کی فصیل سے دنیا کو اپنے ہم وطنوں کی طاقت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ جی-20 ممالک کے گروپ، جو نہیں کر پائے وہ میرے ملک کے شہریوں نے کر دیا، میرے ہم وطنوں نے کرکے دکھادیا ہے،ہندوستان نے کر کےدکھایا ہے۔پیرس معاہدے کے اندر جو اہداف ہم نے طے کئے تھے ، اس اہداف کو وقت سے پہلے پورا کرنے والا جی -20 ممالک کے گروپ میں اگر کوئی ہے، تو واحدمیرا ہندوستان ہے،واحد میرا بھارت ہے۔ اور اسی لیےہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ ساتھیو، کہ ہم نے قابل تجدید توانائی کے اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ ہم 2030 تک قابل تجدید توانائی کو 500 گیگاواٹ تک لے جانے کے مقصد سےکام کر رہے ہیں، تو تصور کریں کہ یہ کتنا بڑا ہدف ہے۔ دنیا کے لوگ صرف 500 گیگا واٹ   لفظ سنتے ہیں نا، تو میری طرف حیرت سے  دیکھتے ہیں۔ لیکن آج میں ہم وطنوں کو اعتماد کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ ہم اس ہدف کو بھی حاصل کر کے رہیں گے۔  اور یہ بنی نوع انسان کی خدمت بھی کرے گا، ہمارے مستقبل کی بھی  خدمت کرے گا، ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کا ضامن ہوگا۔ ہم 2030 تک اپنے ریلوے کو خالص صفر اخراج کرنے کے ہدف کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

ساتھیو!

 پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی یوجنا ، اسے ایک نئی طاقت دینے والی ہے اور اس تبدیلی  کا فائدہ میرے ملک کے عام خاندان، خاص کر میرے متوسط ​​طبقے کو ملے گا، جب اس کا بجلی کا بل مفت ہو جائے گا۔ الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ جب کوئی پی ایم سوریہ گھر یوجنا   کے تحت سورج سے بجلی پیدا کرتا ہے، تو وہ اپنی گاڑی کے رکھنے کے اخراجات کو بھی کم کر سکتا ہے۔

ساتھیو!

 ہم گرین ہائیڈروجن مشن کو لے کر ایک گلوبل ہب بننا چاہتے ہیں۔ پالیسیاں بہت تیزی سے بنائی گئی ہیں، ان پر عمل درآمد کا کام بھی بہت تیزی سے جاری ہے اور ہم ہندوستان کو گرین ہائیڈروجن کی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں، جو ایک نئی توانائی ہے۔ اور یہ تمام کوششیں جو جاری ہیں، آب و ہوا کے بارے میں تشویش تو ہے ہی ، گلوبل وارمنگ کے بارے میں بھی تشویش ہے۔ لیکن اس کے اندرگرین جابز  کی بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اور اس لیے آنے والے دور میں گرین جابز کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، تو سب سے پہلے اس پر گرفت کرنے، اپنے ملک کے نوجوانوں کو مواقع دینے کے لئے گرین جابز کے ایک بہت بڑے شعبے کو ہم فروغ دے رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں!

 آج اس ترنگے جھنڈے کے نیچے ہمارے ساتھ بیٹھے وہ نوجوان ہیں، جنہوں نے اولمپکس کی دنیا میں ہندوستان کا پرچم بلندکیا ہے۔ میں 140 کروڑ ہم وطنوں کی طرف سے اپنے ملک کے تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اور میں اعتماد کے ساتھ ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں کہ ہم نئے خوابوں، نئے عزم اور نئے مقاصد کے حصول کے لیے بھرپور کوششوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ آنے والے کچھ دنوں میں، ہندوستان کا ایک بڑا دستہ پیر المپکس کے لیے پیرس روانہ ہوگا۔ میں اپنے تمام پیرالمپک کھلاڑیوں کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

ساتھیو!

 ہندوستان نےجی-20 کا اہتمام کیا اور ہندوستان کے متعدد شہروں میں اس کا انعاد کیا گیا۔ 200 سے زائد تقریبات کا انعقاد کیا گیا، دنیا بھر میں جی-20 کا اتنا بڑا  اور عظیم الشان پروگرام کبھی منعقد نہیں ہوا، لیکن اس بار ہوا۔  اس سے ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہندوستان کے پاس بڑے سے بڑے پروگرام کے انعقاد کی صلاحیت ہے۔  ہندوستان میں کسی بھی ملک کی مہمان نوازی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔ اگر یہ ثابت ہوچکاہے، تو دوستو، ہندوستان کا خواب ہے کہ 2036 میں ہونے والے اولمپکس میرے ہندوستان کی سرزمین پر منعقد ہوں، ہم اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں اور ہم اس سمت میں ہی پیش رفت کررہے ہیں۔

ساتھیو!

معاشرے کے سب سے پسماندہ جو لوگ ہیں، یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی پیچھے رہ جائے، تو اس سے ہماری ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اور اس لیے ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، تو  بھی کامیابی اسی صورت میں ملتی ہے، جب ہم پیچھے رہ جانے والے  لوگوں کو بھی ساتھ لے کر آگے بڑھیں۔  اور اسی لیے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج جو بھی علاقے پیچھے رہ گئے ہیں، جو سماج  پیچھے رہ گئے ہیں، جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں، وہ ہمارے چھوٹے چھوٹے کسان ہوں، جنگلوں میں رہنے والے میرے قبائلی بھائی بہن ہوں، ہماری مائیں اور بہنیں ہوں،  ہمارے مزدور ہوں، ہمارے ساتھی ہوں، ہمارے محنت کش ہوں، ہمیں ان سب کو اپنے برابر لانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ لیکن اب اس نے  رفتار پکڑلی ہے، اب ہمیں زیادہ دیر تک ایسا نہیں کرنا پڑے گا، بہت جلد وہ ہمارے  پاس پہنچ جائیں گے، ہماری برابری کی سطح تک پہنچ جائیں گے، ہماری طاقت بہت بڑھ جائے گی۔ اور ہمیں یہ کام بڑی حساسیت کے ساتھ کرنا ہے۔ اور اس کے لیے ایک بہت بڑا موقع آرہا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ حساسیت کے لحاظ سے اس سے بڑا موقع اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ 1857 کی جنگ آزادی سے پہلے بھی ہمارے ملک کا ایک قبائلی نوجوان تھا، جس نے انگریزوں کی ناک میں دم کردیا تھا۔ 22-20 سال کی عمر میں اس نے انگریزوں کی ناک میں دم کردیا تھا اور جس کو  آج لوگ بھگوان برسا منڈا کے روپ میں پوجتے ہیں۔  بھگوان برسا منڈا کا 150 واں یوم پیدائش آ رہا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے ترغیب  کی وجہ بنے۔ ایک چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی ملک اور سماج کے لیے کتنا جذبہ رکھتا ہے ، اس کے لیے بھگوان برسا منڈا سے بڑی ترغیب  اور کون سی  ہو سکتی ہے۔ آئیے،جب ہم بھگوان برسا منڈا کا 150 ویں یوم پیدائش منائیں ، تو ہماری حساسیت کے دائرے اور وسعت میں اضافہ ہو، سماج کے تئیں ہماری فکرزیادہ ہو، آئیے غریبوں، دلتوں، پسماندہ طبقات، قبائلیوں سمیت معاشرے کے ہر فرد کو ساتھ لے کر چلیں۔  ہمیں اس عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

ہم عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہم بڑھ تورہے ہیں، بہت آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں، جو ترقی نہیں دیکھ سکتے، کچھ لوگ ایسے ہیں، جو ہندوستان کی بھلائی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے اور جب تک کہ  خود ان کا بھلا نہ ہو، وہ  کسی دوسرے کی فلاح و بہبود کے بارے میں اچھا محسوس نہیں کرتے۔  ایسی مسخ شدہ ذہنیت سے بھرے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ملک کو ایسے لوگوں سے بچنا ہوگا۔  وہ مایوسی کے اندھیرے غار میں گرے ہوئے لوگ ہیں۔  مایوسی کے گڑھے میں غرق ایسے مٹھی بھر لوگ، جب ان کی گود میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، تب یہ تباہی کا سبب بنتا ہے، بربادی کا سبب بنتا ہے اورشورش کا راستہ اختیار کرتا ہے اور پھر ملک کو اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جس کی  تلافی کے لیے ہمیں ازسرنو محنت کرنی پڑتی ہے۔  اس لیے جوچھوٹے موٹے  مایوس عناصر ہیں، وہ صرف مایوس ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کی گود میں مسخ شدہ ذہنیت  پل رہی ہے۔ یہ ذہنیت  بربادی اور تباہی کے خواب دیکھ رہی ہے اور تانے بانے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملک کو اسے سمجھنا ہوگا، لیکن میں اہل وطن کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم  اپنی نیک نیتی، اپنی ایمانداری، قوم کے تئیں اپنی لگن، تمام تر حالات کے باوجود ہم مخالف راستے پر چلنے والے لوگوں کا  بھی دل جیت کر ملک کو آگے لے جانے کے  اپنے عزم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ میں یقین دلانا چاہتا ہوں۔

ساتھیو!

 چیلنج ہیں، بے شمار چیلنج ہیں، چیلنج اندر بھی ہیں، چیلنج باہر بھی ہیں اور جیسے جیسے ہم مضبوط ہوتے جائیں گے، جیسے جیسے ہماری توجہ بڑھتی جائے گی، چیلنج بھی بڑھتے جائیں گے۔ باہرکے چیلنج مزیدبڑھنے والے ہیں اور مجھے  اس کا بخوبی اندازہ ہے ۔ لیکن میں ایسی طاقتوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی ترقی کسی کے لیے پریشانی لے کر نہیں آتی۔ جب ہم دنیا میں خوشحال تھے تب بھی، ہم نے دنیا کو جنگ میں نہیں جھونکا۔ ہم بدھ کا ملک ہیں، جنگ ہمارا راستہ نہیں ہے۔ اور اس لیے دنیا کو متفکر ہونے کی ضرورت نہیں ، ہندوستان کے آگے بڑھنے سے ، میں عالمی برادری کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہندوستان کی قدروں کو سمجھیں، ہندوستان کی ہزاروں سال کی تاریخ کو سمجھیں، آپ ہمیں بحران نہ سمجھیں، آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ان چالوں میں مت الجھیے، جس  کے سبب اس سرزمین کوجس میں  پوری نسل انسانی کی فلاح و بہبود کی صلاحیت ہے، زیادہ محنت کرنی پڑے۔ لیکن پھر بھی میں ہم وطنوں کو بتانا چاہتا ہوں، چاہے جتنے بھی چیلنج ہوں، چیلنجوں کا مقابلہ کرنا  ہندوستان کی فطرت میں شامل ہے۔ ہم نہ ڈگمگائیں گے، نہ تھکیں گے، نہ رکیں گے، نہ جھکیں گے۔ ہم اپنے عہد  کو پورا کرنے کے لئے ، 140 کروڑ ہم وطنوں کی تقدیر کو  بدلنے کے لئے ، ان کی تقدیر کو یقینی بنانے اور قوم کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم اپنی نیک نیتی سے برے عزائم رکھنے والوں کو شکست دیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنوں!

 معاشرے کی ذہنیت میں تبدیلی بعض اوقات بڑے چیلنج کا سبب بن جاتی ہے۔ ہمارا ہر شہری بدعنوانی کی لعنت سے پریشان رہا ہے۔ ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانی نے عام آدمی کا نظام پرسے اعتماد توڑ دیا ہے۔اس کو اپنی صلاحیتوں، اور اہلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی وجہ سے جو غصہ محسوس ہوتا ہے  اس سےملک کی ترقی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور اسی لیے میں نے بڑے پیمانے پربدعنوانی کے خلاف جنگ چھیڑی ہے۔ میں جانتا ہوں، مجھے اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے، میری ساکھ کو نقصان اٹھان پڑتا ہے ، لیکن میری ساکھ ملک  سے بڑی نہیں ہو سکتی، میرا خواب ملک کے خوابوں سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ اور اس لیے بدعنوانی  کے خلاف میری جنگ ایمانداری کے ساتھ جاری رہے گی، تیز رفتاری کے ساتھ جاری رہے گی اور بدعنوانوں کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے گی۔ میں بدعنوانوں کے لیے خوف کا ماحول  پیدا کرنا  چاہتا ہوں ، تاکہ ملک کے عام شہریوں کو لوٹنے کی  جو روایت رہی ہے ، اسے بند کیاجاسکے ۔ لیکن سب سے بڑا نیا چیلنج یہ آیا ہے، بدعنوانوں سے نمٹنا تو ہے ہی ،مگر سماجی زندگی میں اعلیٰ سطح پر جو تبدیلی آئی ہے وہ سب سے بڑا چیلنج بھی ہے اور  ایک معاشرے کے لیے سب سے بڑی تشویش کا باعث  بھی ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ میرے  ہی  ملک میں ایساعظیم آئین ہونے کے باوجود کچھ ایسے لوگ ابھر رہے ہیں، جو کرپشن کی تعریف کر رہے ہیں۔ کھلے عام کرپشن کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ معاشرے میں  اس طرح کے بیج بونے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، وہ صحت مندمعاشرے کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج  اور انتہائی تشویش کا موضوع بن گیا ہے۔  ایک بہت بڑے چیلنج کا موضوع بن گیا ہے۔ بدعنوانوں سے، معاشرے میں فاصلہ برقرار رکھنے سے ہی،کسی بھی بدعنوان  شخص  کواس راستے پر چلنے سے ڈرلگے گا۔ اگر اس کی سراہنا کی جائے گی ، تو جو آج بدعنوانی میں ملوث نہیں ہے،تو ا س کو بھی لگتا ہے کہ معاشرے میں یہ  وقار کی علامت  ہے اور اس راستے پر چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

بنگلہ دیش میں جو کچھ بھی ہوا ہے، ایک پڑوسی ملک کے طور پر،  اس کے بارے میں  تشویش ہونا، میں اس کو سمجھ سکتا ہوں۔  مجھے امید ہے کہ وہاں حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔ خاص طور پر 140 کروڑ ہم وطنوں کی فکر یہ ہے کہ وہاں کے ہندوؤں، وہاں کی اقلیتوں اور اس کمیونٹی کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ ہندوستان ہمیشہ چاہتا ہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک خوشی اور امن کی راہ پر چلیں۔ امن کے تئیں ہمارا عزم ہے، یہ ہماری اقدار ہیں۔ ہم آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش کی ترقی کے سفر میں  ہمیشہ اچھے خیالات رکھیں گے، کیونکہ ہم  بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے بارے  میں سوچنے والے لوگ  ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 ہمارا آئین 75 سال مکمل کر رہا ہے۔ آئین ہند کے 75 سالہ سفر نے ملک کو متحد کرنے اور ملک کو عظیم بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے ملک کے آئین نے ہندوستان کی جمہوریت کو مضبوط بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے آئین نے ہمارے ملک کے دلتوں، مظلوموں، استحصال زدہ اور محروموں کو تحفظ فراہم کرنے کا بہت بڑا کام کیا ہے۔ اب جب ہم آئین کے 75 سال  منانے جا رہے ہیں تب ہم، ہم وطنوں کو آئین میں مخصوص فرائض  کے جذبے پر زور دینا بہت ضروری ہے اور جب میں فرض کی بات کرتا ہوں، تو میں صرف شہریوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ مرکزی حکومت کے بھی فرائض ہیں، مرکزی حکومت کے ہر ملازم کے فرائض بھی ہیں، ریاستی حکومتوں کے بھی فرائض ہیں، ریاستی حکومت کے ہر ملازم کے فرائض ہیں۔ ہر مقامی خود مختار  ادارے کے فرائض ہیں، چاہے وہ پنچایت ہو، میونسپلٹی ہو، میونسپل کارپوریشن ہو، تحصیل ہو، ضلع ہو، سب کے فرائض ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ 140 کروڑ ہم وطنوں  کا بھی فرض ہے۔ اگر ہم سب مل کر اپنے فرائض ادا کریں گے تو دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے ذمہ دار خود بخود بن جائیں گے اور جب فرض ادا ہو تا ہے، تو حقوق کا تحفظ  از خود ہوتا ہے، اس کے لیے الگ سے کوشش کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اس احساس کو لے کر آگے بڑھیں۔ ہماری جمہوریت بھی مضبوط ہوگی۔ ہماری قوت مزید بڑھے گی اور ہم نئی طاقت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

 ہمارے ملک کے سپریم کورٹ  میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ بار بار زیر بحث آیا ہے۔ کئی بار حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے اور اس میں سچائی بھی ہے کہ جس سول کوڈ کے ساتھ ہم رہ رہے ہیں وہ  سول کوڈ دراصل ایک قسم کا فرقہ وارانہ سول کوڈ ہے، بھید بھاؤ کرنے والا سول کوڈ ہے۔ ایسے سول کوڈ کو، جب ہم آئین کے 75 سال پورے ہونے کا جشن منا رہے  ہیں اور آئین کی روح بھی ہمیں ایسا کرنے کو کہتی ہے، ملک کی سپریم کورٹ بھی ہمیں کرنے کو کہتی ہے اور اس وقت قانون تیار کرنے والوں کا خواب تھا، اس خواب کو پورا کرنا، ہم سب کی ذمے داری ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر ملک میں   بحث ہو، تفصیل سے بحث ہو۔ ہر کوئی اپنے اپنے نظریات لے کر آئے  اور ایسے قوانین، جو مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرتے ہیں، جو تفریق کا باعث بنتے ہیں، ایسے قوانین کی جدید معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس لیے میں کہوں گا کہ اب ملک کا تقاضا ہے، اب ملک میں سیکولر سول کوڈ ہونا چاہیے، ہم نے فرقہ وارانہ سول کوڈ میں 75 سال گزارے ہیں۔ اب ہمیں سیکولر سول کوڈ کی طرف بڑھنا ہوگا، تب ہی ملک میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے امتیازات سے آزادی ملے گی اور عام شہری کو اس سے دوری محسوس ہوتی ہے، اس سے ہمیں نجات  ملے گی۔

میرے پیارے ہم وطنو!

جب میں ہمیشہ ملک میں کسی تشویش کے بارے میں کہتا ہوں کہ اقرباء  پروری، ذات پرستی ہندوستان کی جمہوریت کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔ ہمیں ملک اور سیاست کو اقرباء  پروری اور ذات پرستی سے آزاد کرنا ہے۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے سامنے  جو نوجوان ہیں ، اس میں  لکھا ہوا ہے مائی بھارت۔جس تنظیم کا نام ہے، اس کا تذکرہ درج ہے۔ بہت اچھا لکھا ہے۔ مائی  بھارت کے بہت سے مشن ہیں۔ ایک مشن یہ بھی ہے کہ ہم جلد از جلد ملک کی سیاسی زندگی میں عوامی نمائندے کی شکل میں  ایک لاکھ ایسے نوجوانوں کو آگے لانا چاہتے ہیں، جن کے خاندان میں کسی کا بھی کوئی  سیاسی پس منظر نہ ہو، جی ہاں جن کے والدین، بہن بھائی، چچا، ماموں اور مامی کبھی سیاست میں نہیں تھے۔ ایسے ایک لاکھ ہونہار تازہ دم نوجوان، وہ پنچایت میں آئیں، چاہے نگر پالیکا میں آئیں، چاہے وہ ضلع کونسل میں آئیں،چاہے وہ اسمبلی میں آئیں، چاہے وہ لوک سبھا  میں آئیں۔ ایک لاکھ ایسے  نئے نوجوان جن کے خاندان میں کسی بھی قسم کی سابقہ ​​سیاسی تاریخ نہ  ہو، ایسے نئے لوگوں کو سیاست میں آنا چاہیے، تاکہ وہ ذات پات سے آزادی حاصل کر سکیں، اقرباء  پروری سے نجات پا سکیں، جمہوریت مالا مال ہو سکے اور ان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی ایک  سیاسی جماعت میں شامل ہوں۔ان کو جو پسند ہو، اس  پارٹی میں جائیں، اس پارٹی میں شمولیت کے بعد وہ عوامی نمائندے کے طور پر سامنے آئیں۔

 ملک فیصلہ کرے کہ آنے والے دنوں میں ایک لاکھ ایسے تازہ دم نوجوان آئیں گے، جن کے خاندانوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، تو سوچ بھی نئی ہوگی اور صلاحیتیں بھی نئی ہوں گی۔ جمہوریت ترقی کرے گی اور اس لیے ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہے اور میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ملک میں بار بار ہونے والے انتخابات اس ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے  ہیں اور تعطل پیدا کر رہے ہیں۔ آج کسی بھی اسکیم کو انتخابات سے جوڑنا آسان ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہر تین یا چھ ماہ بعد کہیں نہ کہیں الیکشن ہو رہا ہے۔ آپ جو بھی منصوبہ ظاہر کریں، آپ میڈیا میں دیکھیں گے کہ جب الیکشن آتے ہیں، تو فلاں ہوتا ہے، جب الیکشن آتا ہے تو فلاں ہوتا ہے۔ ہر کام کو الیکشن کے رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ اور اسی وجہ سے ملک میں وسیع بحث چھڑ گئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک کمیٹی نے بہت اچھی رپورٹ تیار کی ہے۔ ون نیشن ون الیکشن کے لیے ملک کو آگے آنا ہو گا۔ میں، لال قلعہ سے ترنگے جھنڈے  کے سامنے ملک کی سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں، میں ملک کے آئین کو سمجھنے والے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ہندوستان کی ترقی اور اس کے لیے ہندوستان کے وسائل کا زیادہ سے زیادہ عام لوگوں کے لیے استعمال ہو۔اس کے لئے  ایک ملک ایک الیکشن کے خواب کو پورا کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

 میرے پیارے ہم وطنو!

 ہندوستان کا سنہری دور ہے،2047  وکست بھارت یہ  ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ یہ ملک رکاوٹوں، مشکلات اور چیلنجوں پر قابو پانے اور مضبوط عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے پرعزم ہے۔ اور دوستو، میں صاف دیکھ سکتا ہوں کہ میرے خیالات میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ میرے خوابوں کے سامنے کوئی پردہ نہیں ہے۔ میں صاف صاف  دیکھ سکتا ہوں کہ 140 کروڑ ہم وطنوں کی محنت سے ہمارے آباؤ اجداد کا خون ہماری رگوں میں ہے۔ اگر وہ 40 کروڑ لوگ آزادی کے خواب کو پورا کر سکتے ہیں، تو 140 کروڑ ہم وطن ایک خوشحال ہندوستان کے خواب  کو پورا کر سکتے ہیں۔ 140 کروڑ ہم وطن ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔ اور میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میری تیسری مدت میں، ملک تیسری  بڑی معیشت تو بنے گا ہی، لیکن میں تین گنا کام کروں گا، تین گنا تیز رفتاری سے کام کروں گا، تین گنا  مؤثر انداز سے کام کروں گا، تاکہ ملک کے لیے جو خواب ہیں، یہ  جلد از جلد  پورے ہوں۔ میرا ہر پل ملک کے لیے ہے، میرا ہر لمحہ ملک کے لیے ہے، میرا  ذرہ ذرہ صرف اور صرف ماں بھارتی کے لیے ہے اور اس لیے ساتوں دن 24 گھنٹے اور 2047 اس عہد کے ساتھ ،آئیے میں ہم وطنو سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے آبا واجداد نے جو خواب دیکھے تھے، اُن خوابوں کو ہم عہد بنائیں ۔ اپنے خوابوں کو جوڑیں، اپنے نیک کاموں کو جوڑیں اور 21ویں صدی، جو ہندوستان کی صدی ہے، اُس صدی میں سنہرا ہندوستان بنا کر رہیں۔ اُسی صدی میں ہم ترقی یافتہ ہندوستان بنا کر رہیں اور اُن خوابوں کو پورا کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور آزاد بھارت 75 سال کے سفر کے بعد ایک نئے مقام پر بڑھ رہا ہے، تب ہم کوئی کسر نہ چھوڑیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ آپ نے مجھے جو ذمہ داری سونپی ہے، میں اسے پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ میں محنت میں کبھی پیچھے نہیں رہوں گا۔  میں ہمت سے کبھی کتراتا نہیں ہوں، میں چیلنجوں سے کبھی ٹکراتے ہوئے ڈرتا نہیں ہوں، کیوں؟ کیونکہ میں آپ کے لیے جیتا ہوں، میں آپ کے مستقبل کے لیے جیتا ہوں، میں ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے جی رہا ہوں اور میں اُن خوابوں کو پورا کرنے کے لیے آج قومی پرچم کی چھایا میں، ترنگے کی چھایا میں عزم مصمم کے ساتھ ہم آگے بڑھیں،اسی کے ساتھ میرے ساتھ بولیے۔

بھارت ماتا کی جئے!

 بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

وندے ماترم!

وندے ماترم!

وندے ماترم!

وندے ماترم!

جئے ہند!

جئے ہند!

جئے ہند!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India advances in 6G race, ranks among top six in global patent filings

Media Coverage

India advances in 6G race, ranks among top six in global patent filings
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Prime Minister lauds establishment of three AI Centres of Excellence (CoE)
October 15, 2024

The Prime Minister, Shri Narendra Modi has hailed the establishment of three AI Centres of Excellence (CoE) focused on Healthcare, Agriculture and Sustainable Cities.

In response to a post on X by Union Minister of Education, Shri Dharmendra Pradhan, the Prime Minister wrote:

“A very important stride in India’s effort to become a leader in tech, innovation and AI. I am confident these COEs will benefit our Yuva Shakti and contribute towards making India a hub for futuristic growth.”