اندور میں رام نومی حادثے میں ہوئے جانی نقصان پر اظہار افسوس
’’ہندوستانی ریلوے کی تاریخ میں ایک غیر معمولی مثال جب ایک وزیر اعظم نے ایک ہی ریلوے اسٹیشن کا دو بار بہت کم عرصے میں دورہ کیا ہے‘‘
’’بھارت اب نئی سوچ اور نقطہ نظر کے ساتھ کام کر رہا ہے‘‘
’’وندے بھارت ہندوستان کے جوش اور جذبہ کی علامت ہے، یہ ہماری ہنرمندی، اعتماد اور صلاحیتوں کی نمائندگی کرتا ہے‘‘
’’وہ ووٹ بینک کی نازبرداری (تشٹی کرن) میں مصروف تھے، ہم شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے (سنتشٹی کرن) کے لیے پرعزم ہیں ‘‘
’’ایک اسٹیشن ایک پروڈکٹ‘‘ کے تحت 600 آؤٹ لیٹس کام کر رہے ہیں اور ایک لاکھ خریداری مختصر وقت میں کی گئی ہے
’’ہندوستانی ریلوے ملک کے عام خاندانوں کے لیے سہولت کا مترادف بنتا جا رہا ہے‘‘
’’آج مدھیہ پردیش مسلسل ترقی کی نئی داستان رقم کررہا ہے‘‘
’’مدھیہ پردیش کی کارکردگی ترقی کے بیشتر پیرامیٹرز پر قابل ستائش ہے، جبکہ کبھی اس ریاست کو ’بیمارو‘ کہا جاتا تھا‘‘
ہندوستان کا غریب، ہندوستان کا متوسط طبقہ، ہندوستان کے قبائلی، ہندوستان کا دلت پسماندہ، ہر ہندوستانی میری حفاظتی ڈھال بن گیا ہے

بھارت ماتا کی جئے،

بھارت ماتا کی جئے،

مدھیہ پردیش کے گورنر شری منگو بھائی پٹیل، وزیر اعلیٰ شیوراج جی، ریلوے کے وزیر اشونی جی، دیگر تمام معززین اور بھوپال کے میرے پیارے بھائیواور بہنو جو بڑی تعداد میں یہاں آئے ہیں!

سب سے پہلے، میں اندور مندر میں رام نومی کے واقعہ پر اپنے دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔ میں ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو اس حادثے میں ہمیں بے وقت چھوڑ گئے، ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔ میں ہسپتال میں زیر علاج زخمی عقیدت مندوں کی جلد صحت یابی کی بھی دعا کرتا ہوں۔

 

ساتھیو،

آج ایم پی کو اپنی پہلی وندے بھارت ایکسپریس ٹرین ملی ہے۔ وندے بھارت ایکسپریس سےبھوپال اور دہلی کے درمیان سفر اور تیزی سے طے ہوگا۔ یہ ٹرین پیشہ ور افراد، نوجوانوں اور تاجروں کے لیے نئی سہولیات لائے گی۔

ساتھیو،

آپ سب نے مجھے جدید اور عظیم الشان رانی کملا پتی اسٹیشن کا افتتاح کرنے کا شرف بھی بخشا تھا جہاں یہ تقریب منعقد کی جارہی ہے۔ آج، آپ نے مجھے یہاں سے دہلی تک ہندوستان کی جدید ترین وندے بھارت ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کرنے کا موقع دیا ہے۔ ریلوے کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہو گا کہ اتنے مختصر وقفے میں ایک وزیر اعظم دوبارہ اسی سٹیشن پر آیا ہو۔ لیکن جدید ہندوستان میں نئے نظام بن رہے ہیں، نئی روایتیں بن رہی ہیں۔ آج کا پروگرام بھی اس کی بہترین مثال ہے۔

 

ساتھیو،

ابھی یہاں، ایک مسافر کے طور پرسفر کرنے والے، اسکول کے بچوں کے درمیان میں نے چند لمحے گزارے، اور ان سے بات چیت بھی کی۔ اس ٹرین کے بارے میں ان میں جو تجسس اور جوش تھا وہ قابل دید تھا۔ یعنی ایک طرح سے وندے بھارت ٹرین ترقی پذیر ہندوستان کے جوش و جذبے اور لہر کی علامت ہے۔ اور آج جب یہ پروگرام طے ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ یکم تاریخ کو پروگرام ہے۔ میں نے کہا بھائی آپ یکم اپریل کو کیوں رکھتے ہیں؟ جب اخبار میں خبر آتی ہے کہ یکم اپریل کو مودی جی وندے بھارت ٹرین کو جھنڈی دکھا کر روانہ کرنے والے ہیں تو ہمارے کانگریسی دوست یہ بیان ضرور دیں گے کہ مودی اپریل فول ہو گا۔ لیکن آپ دیکھیں یہ ٹرین یکم اپریل کو ہی شروع ہوئی ہے۔

ساتھیو،

یہ ہماری مہارت، ہماری صلاحیت، ہمارے اعتماد کی علامت بھی ہے۔ اور بھوپال آنے والی یہ ٹرین سیاحت کو سب سے زیادہ مدد دینے والی ہے۔ اس کی وجہ سے سیاحتی مقامات جیسے سانچی اسٹوپا، بھیمبیٹکا، بھوجپور اور ادے گیری غار میں آمدورفت مزید بڑھنے والی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ جب سیاحت بڑھتی ہے تو روزگار کے بہت سے مواقع وضع ہونے لگتے ہیں، لوگوں کی آمدنی بھی بڑھ جاتی ہے۔ یعنی یہ وندے بھارت لوگوں کی آمدنی بڑھانے کا ذریعہ بھی بنے گی، یہ علاقے کی ترقی کا ذریعہ بھی بنے گی۔

 

ساتھیو،

اکیسویں صدی کا ہندوستان، اب ایک نئی سوچ اور ایک نئے انداز کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ پچھلی حکومتیں خوشامد میں اس قدر مصروف تھیں کہ انہوں نے اہل وطن کے اطمینان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ ووٹ بینک کو پکا کرنے میں مصروف تھے۔ ہم اہل وطن کے اطمینان کے لیے وقف ہیں۔ پچھلی حکومتوں میں ایک اور چیز پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ وہ ملک کے صرف ایک خاندان کو ملک کا اول خاندان سمجھتی رہی۔ ملک کے غریب خاندان، ملک کے متوسط ​​گھرانے، انہوں نے انہیں انکے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ ان خاندانوں کی امیدوں اور توقعات کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ہمارا ہندوستانی ریلوے اس کی زندہ مثال ہے۔ ہندوستانی ریلوے دراصل عام ہندوستانی خاندان کی سواری ہے۔ والدین، بچے، دادا دادی، نانا نانی، سب کو ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے، اس لیے کئی دہائیوں سے ریل لوگوں کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے۔ کیا عام ہندوستانی خاندان کی اس سواری کو زمانے کے ساتھ جدید نہیں ہونا چاہیے تھا؟ کیا ریلوے کو اس حالت میں چھوڑنا درست تھا؟

ساتھیو،

آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک بہت بڑا ریڈی میڈ ریلوے نیٹ ورک مل گیا تھا۔ اگر اس وقت کی حکومتیں چاہتیں تو ریلوے کو بہت جلد جدید بنا سکتی تھیں۔ لیکن سیاسی مفادات کی خاطر، عوامی وعدوں کی خاطر، ریلوے کی ترقی کو ہی قربان کر دیا گیا۔ حالات ایسے تھے کہ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد بھی ہماری شمال مشرقی ریاستیں ٹرین کے ذریعے آپس میں جڑی نہیں تھیں۔ سال 2014 میں جب آپ نے مجھے خدمت کا موقع دیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب ایسا نہیں ہوگا، اب ریلوے کو نئے سرے سے بحال کیا جائے گا۔ پچھلے 9 سالوں میں ہماری مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہندوستانی ریلوے دنیا کا بہترین ریل نیٹ ورک کیسے بنے؟ سال 2014 سے پہلے، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستانی ریلوے کے بارے میں کیا خبریں آتی تھیں۔ اتنے بڑے ریل نیٹ ورک میں ہر جگہ ہزاروں کلے ریلوے پھاٹک تھے۔ اکثر حادثات کی خبریں آتی رہیں۔ کبھی اسکول کے بچوں کی موت کی خبر دل کو دہلا دینے والی تھی۔ آج براڈ گیج نیٹ ورک کھلے پھاٹکوں سے پاک ہے۔ پہلے ٹرین حادثات اور جان و مال کے نقصان کے واقعات آئے روز سامنے آتے تھے۔ آج ہندوستانی ریلوے بہت زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔ مسافروں کی حفاظت کو مستحکم بنانے کے لیے ریلوے میں میڈ ان انڈیا کاوچ سسٹم کو بڑھایا جا رہا ہے۔

 

ساتھیو،

حفاظت صرف حادثات سے ہی نہیں ہوتی بلکہ اب سفر کے دوران بھی اگر کسی مسافر کو شکایت ہو تو فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ ہنگامی صورت حال میں، مدد بہت کم وقت میں فراہم کی جاتی ہے۔ ہماری بہنوں اور بیٹیوں نے اس طرح کے انتظام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ پہلے صفائی کے حوالے سے کافی شکایات آتی تھیں۔ یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر کچھ دیر ٹھہرنا بھی عذاب کی طرح لگتا تھا۔ مزید یہ کہ ٹرینیں کئی گھنٹے تاخیر سے چلتی تھیں۔ آج صفائی بھی بہتر ہے اور ٹرینوں کی تاخیر کی شکایات بھی مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ پہلے حالات ایسے تھے، لوگوں نے شکایتیں کرنا چھوڑ دی تھیں، کوئی سننے والا نہیں تھا۔ آپ کو یاد ہوگا، پہلے ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹنگ کی شکایات عام تھیں۔ اس سے متعلق اسٹنگ آپریشنز میڈیا میں دکھائے گئے۔ لیکن آج ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم نے ایسے بہت سے مسائل حل کر لیے ہیں۔

ساتھیو،

آج، ہندوستانی ریلوے چھوٹے کاریگروں اور کاریگروں کی مصنوعات کو ملک کے کونے کونے تک لے جانے کا ایک بڑا وسیلہ بن رہا ہے۔ ایک اسٹیشن ایک پروڈکٹ، اس اسکیم کے تحت جس علاقے میں اسٹیشن واقع ہے، وہاں کے مشہور کپڑے، فن پارے، پینٹنگز، دستکاری کی مصنوعات، برتن وغیرہ مسافر اسٹیشن پر ہی خرید سکتے ہیں۔ اس کے لیے بھی ملک میں تقریباً 600 آؤٹ لیٹس قائم کیے گئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ بہت کم وقت میں ایک لاکھ سے زیادہ مسافروں نے ان سے خریداری کی ہے۔

 

ساتھیو،

آج ہندوستانی ریلوے، ملک کے عام خاندانوں کے لیے سہولت کا مترادف بنتا جا رہا ہے۔ آج ملک میں کئی ریلوے اسٹیشنوں کو جدید بنایا جا رہا ہے۔ آج ملک کے 6000 اسٹیشنوں پر وائی فائی کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ ملک کے 900 سے زائد بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ ہماری یہ وندے بھارت ایکسپریس، ہماری نوجوان نسل کے درمیان پورے ملک میں سپر ہٹ ہوگئی ہے۔ ان ٹرینوں میں سیٹیں سال بھر بھرتی رہتی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے وندے بھارت چلانے کی مانگ ہو رہی ہے۔ پہلے ارکان اسمبلی کے خط آتے تھے تو کس طرح کے خط آتے تھے؟ ممبران پارلمنٹ لکھتے تھے کہ اس اسٹیشن پر کسی مخصوص ٹرین کو روکنے کا نظام ہونا چاہیے، اب یہ دو اسٹیشنوں پر رکتی ہے، تین پر رکنے کا نظام ہونا چاہیے، اسے یہاں روکنا چاہیے، وہاں روکنا چاہیے۔ . آج مجھے فخر ہے، میں مطمئن ہوں جب ممبران پارلیمنٹ خط لکھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی جلد از جلد وندے بھارت کو چلایا جائے۔

ساتھیو،

ریلوے مسافروں کی سہولتوں میں اضافے کی یہ مہم بہت تیز رفتاری سے مسلسل جاری ہے۔ اس سال کے بجٹ میں بھی ریلوے کو ریکارڈ رقم دی گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب ریلوے کی ترقی کی بات ہوتے ہی خسارے کی بات ہوتی تھی۔ لیکن اگر ترقی کے لیے قوت ارادی ہو، نیت صاف ہو اور وفاداری پختہ ہو تو نئی راہیں بھی نکلتی ہیں۔ گزشتہ 9 سالوں میں ہم نے ریلوے کے بجٹ میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے لیے بھی اس بار 13 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا ریلوے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ جب کہ 2014 سے پہلے، مدھیہ پردیش کا اوسط ریلوے بجٹ ہر سال 600 کروڑ روپے تھا، آپ مجھے بتائیں کہ کہاں 600 کروڑ روپے؟ کہاں آج 13 ہزار کروڑروپے؟

 

ساتھیو،

آج برقی کاری کا کام اس بات کی ایک مثال ہے کہ ریلوے میں کس طرح جدید کاری ہو رہی ہے۔ آج آپ ہر روز سن رہے ہیں کہ ملک کے کسی نہ کسی حصے میں ریلوے نیٹ ورک کی 100فیصد برق کاری ہو چکی ہے۔ مدھیہ پردیش بھی ان 11 ریاستوں میں شامل ہے جہاں 100 فیصد برق کاری کی گئی ہے۔ 2014 سے پہلے، ہر سال اوسطاً 600 کلومیٹر ریلوے روٹ پر بجلی فراہم کی جاتی تھی۔ اب ہر سال اوسطاً 6000 کلومیٹر بجلی کاری کی جا رہی ہے۔ یہ ہماری حکومت کے کام کی رفتار ہے۔

ساتھیو،

میں خوش ہوں، آج مدھیہ پردیش نے پرانے دنوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب مدھیہ پردیش مسلسل ترقی کی نئی داستان لکھ رہا ہے۔ زراعت ہو یا صنعت، آج ایم پی کی طاقت ہندوستان کی طاقت کو بڑھا رہی ہے۔ جن امور کی بنیاد پر مدھیہ پردیش کو کبھی بیمارو کہا جاتا تھا،آج ترقی کرنے کے ان اعداد و شمار میں ایم پی کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔ ایم پی غریبوں کے لیے گھر بنانے میں سرفہرست ریاستوں میں شامل ہے۔ مدھیہ پردیش بھی ہر گھر تک پانی پہنچانے میں اچھا کام کر رہا ہے۔ ہمارے مدھیہ پردیش کے کسان گندم سمیت کئی فصلوں کی پیداوار میں نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ صنعتوں کے معاملے میں بھی اب یہ ریاست مسلسل نئے ریکارڈ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان تمام کوششوں سے یہاں کے نوجوانوں کے لیے لامتناہی مواقع کے امکانات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

 

ساتھیو،

ملک کی ترقی کے لیے کی جا رہی ان کوششوں کے درمیان میں آپ تمام ہم وطنوں کی توجہ ایک اور بات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو 2014 سے پرعزم ہیں اور انہوں نے کھلے عام بات بھی کی ہے اور اپنی قرارداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ انہوں نے کیا کیا ہے؟ انہو ں نے اعلان کیا ہے کہ ہم مودی کی شبیہ کو خراب کریں گے۔ اس کے لیے ان لوگوں نے مختلف لوگوں کو سپاری دی ہے اور مورچہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ان لوگوں کی معاونت کرنے کے لیے ملک کے اندر ہیں اور کچھ ملک سے باہر بیٹھ کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح مودی کی شبیہ کو داغدار کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن آج ہندوستان کا غریب، ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ، ہندوستان کا قبائلی، ہندوستان کا دلت پسماندہ، ہر ہندوستانی مودی کی حفاظتی ڈھال بن گیا ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ لوگ غصے میں ہیں۔ یہ لوگ نت نئی چالیں اپنا رہے ہیں۔ 2014 میں انہوں نے مودی کی شبیہ، مودی کو داغدار کرنے کا عہد کیا تھا۔ اب ان لوگوں نے عہد کیا ہے کہ مودی جی، تمہاری قبر کھودی جائے گی۔ ان کی سازشوں کے درمیان آپ کو، ہر اہل وطن کو ملک کی ترقی پر توجہ دینا ہوگی، قوم کی تعمیر پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں ترقی یافتہ ہندوستان میں مدھیہ پردیش کے کردار کو مزید بڑھانا ہے۔ یہ نئی وندے بھارت ایکسپریس اسی قرارداد کا ایک حصہ ہے۔ ایک بار پھر، مدھیہ پردیش کے تمام شہریوں، بھوپال کے بھائیوں اور بہنوں کو اس جدید ٹرین کے لیے بہت بہت مبارکباد۔ ہم سب کا سفر اچھا گزرے، اس نیک تمناؤں کے ساتھ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

 

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw

Media Coverage

India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs Fifth National Conference of Chief Secretaries in Delhi
December 28, 2025
Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence in governance, delivery and manufacturing: PM
PM says India has boarded the ‘Reform Express’, powered by the strength of its youth
PM highlights that India's demographic advantage can significantly accelerate the journey towards Viksit Bharat
‘Made in India’ must become a symbol of global excellence and competitiveness: PM
PM emphasises the need to strengthen Aatmanirbharta and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect’
PM suggests identifying 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience
PM urges every State must to give top priority to soon to be launched National Manufacturing Mission
PM calls upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and make India a Global Services Giant
PM emphasises on shifting to high value agriculture to make India the food basket of the world
PM directs States to prepare roadmap for creating a global level tourism destination

Prime Minister Narendra Modi addressed the 5th National Conference of Chief Secretaries in Delhi, earlier today. The three-day Conference was held in Pusa, Delhi from 26 to 28 December, 2025.

Prime Minister observed that this conference marks another decisive step in strengthening the spirit of cooperative federalism and deepening Centre-State partnership to achieve the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised that Human Capital comprising knowledge, skills, health and capabilities is the fundamental driver of economic growth and social progress and must be developed through a coordinated Whole-of-Government approach.

The Conference included discussions around the overarching theme of ‘Human Capital for Viksit Bharat’. Highlighting India's demographic advantage, the Prime Minister stated that nearly 70 percent of the population is in the working-age group, creating a unique historical opportunity which, when combined with economic progress, can significantly accelerate India's journey towards Viksit Bharat.

Prime Minister said that India has boarded the “Reform Express”, driven primarily by the strength of its young population, and empowering this demographic remains the government’s key priority. Prime Minister noted that the Conference is being held at a time when the country is witnessing next-generation reforms and moving steadily towards becoming a major global economic power.

He further observed that Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence and urged all stakeholders to move beyond average outcomes. Emphasising quality in governance, service delivery and manufacturing, the Prime Minister stated that the label "Made in India' must become a symbol of excellence and global competitiveness.

Prime Minister emphasised the need to strengthen Aatmanirbharta, stating that India must pursue self-reliance with zero defect in products and minimal environmental impact, making the label 'Made in India' synonymous with quality and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect.’ He urged the Centre and States to jointly identify 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience in line with the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised the need to map skill demand at the State and global levels to better design skill development strategies. In higher education too, he suggested that there is a need for academia and industry to work together to create high quality talent.

For livelihoods of youth, Prime Minister observed that tourism can play a huge role. He highlighted that India has a rich heritage and history with a potential to be among the top global tourist destinations. He urged the States to prepare a roadmap for creating at least one global level tourist destination and nourishing an entire tourist ecosystem.

PM Modi said that it is important to align the Indian national sports calendar with the global sports calendar. India is working to host the 2036 Olympics. India needs to prepare infrastructure and sports ecosystem at par with global standards. He observed that young kids should be identified, nurtured and trained to compete at that time. He urged the States that the next 10 years must be invested in them, only then will India get desired results in such sports events. Organising and promoting sports events and tournaments at local and district level and keeping data of players will create a vibrant sports environment.

PM Modi said that soon India would be launching the National Manufacturing Mission (NMM). Every State must give this top priority and create infrastructure to attract global companies. He further said that it included Ease of Doing Business, especially with respect to land, utilities and social infrastructure. He also called upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and strengthen the services sector. In the services sector, PM Modi said that there should be greater emphasis on other areas like Healthcare, education, transport, tourism, professional services, AI, etc. to make India a Global Services Giant.

Prime Minister also emphasized that as India aspires to be the food basket of the world, we need to shift to high value agriculture, dairy, fisheries, with a focus on exports. He pointed out that the PM Dhan Dhanya Scheme has identified 100 districts with lower productivity. Similarly, in learning outcomes States must identify the lowest 100 districts and must work on addressing the issues around the low indicators.

PM also urged the States to use Gyan Bharatam Mission for digitization of manuscripts. He said that States may start a Abhiyan to digitize such manuscripts available in States. Once these manuscripts are digitized, Al can be used for synthesizing the wisdom and knowledge available.

Prime Minister noted that the Conference reflects India’s tradition of collective thinking and constructive policy dialogue, and that the Chief Secretaries Conference, institutionalised by the Government of India, has become an effective platform for collective deliberation.

Prime Minister emphasised that States should work in tandem with the discussions and decisions emerging from both the Chief Secretaries and the DGPs Conferences to strengthen governance and implementation.

Prime Minister suggested that similar conferences could be replicated at the departmental level to promote a national perspective among officers and improve governance outcomes in pursuit of Viksit Bharat.

Prime Minister also said that all States and UTs must prepare capacity building plan along with the Capacity Building Commission. He said that use of Al in governance and awareness on cyber security is need of the hour. States and Centre have to put emphasis on cyber security for the security of every citizen.

Prime Minister said that the technology can provide secure and stable solutions through our entire life cycle. There is a need to utilise technology to bring about quality in governance.

In the conclusion, Prime Minister said that every State must create 10-year actionable plans based on the discussions of this Conference with 1, 2, 5 and 10 year target timelines wherein technology can be utilised for regular monitoring.

The three-day Conference emphasised on special themes which included Early Childhood Education; Schooling; Skilling; Higher Education; and Sports and Extracurricular Activities recognising their role in building a resilient, inclusive and future-ready workforce.

Discussion during the Conference

The discussions during the Conference reflected the spirit of Team India, where the Centre and States came together with a shared commitment to transform ideas into action. The deliberations emphasised the importance of ensuring time-bound implementation of agreed outcomes so that the vision of Viksit Bharat translates into tangible improvements in citizens’ lives. The sessions provided a comprehensive assessment of the current situation, key challenges and possible solutions across priority areas related to human capital development.

The Conference also facilitated focused deliberations over meals on Heritage & Manuscript Preservation and Digitisation; and Ayush for All with emphasis on integrating knowledge in primary healthcare delivery.

The deliberations also emphasised the importance of effective delivery, citizen-centric governance and outcome-oriented implementation to ensure that development initiatives translate into measurable on-ground impact. The discussions highlighted the need to strengthen institutional capacity, improve inter-departmental coordination and adopt data-driven monitoring frameworks to enhance service delivery. Focus was placed on simplifying processes, leveraging technology and ensuring last-mile reach so that benefits of development reach every citizen in a timely, transparent and inclusive manner, in alignment with the vision of Viksit Bharat.

The Conference featured a series of special sessions that enabled focused deliberations on cross-cutting and emerging priorities. These sessions examined policy pathways and best practices on Deregulation in States, Technology in Governance: Opportunities, Risks & Mitigation; AgriStack for Smart Supply Chain & Market Linkages; One State, One World Class Tourist Destination; Aatmanirbhar Bharat & Swadeshi; and Plans for a post-Left Wing Extremism future. The discussions highlighted the importance of cooperative federalism, replication of successful State-level initiatives and time-bound implementation to translate deliberations into measurable outcomes.

The Conference was attended by Chief Secretaries, senior officials of all States/Union Territories, domain experts and senior officers in the centre.