وزیر اعظم نے پنچایتی راج کےقومی دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے جموں و کشمیر کا دورہ کیا
سانبا ضلع کی پلّی پنچایت سے ملک بھر کی تمام گرام سبھا ؤں سے خطاب
بیس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے متعدد ترقیاتی اقدامات کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا
بانہال قاضی گنڈ روڈ ٹنل کا افتتاح کیا جس سے جموں و کشمیر کے علاقوں کو قریب لانے میں مدد ملے گی
دہلی-امرتسر-کٹرا ایکسپریس وے اور رتلے اور کوار ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹوں کے تین روڈ پیکجوں کا سنگ بنیاد رکھا
امرت سروور کا آغاز کیا – ایک ایسی پہل جس کا مقصد ملک کے ہر ضلع میں 75 آبی ذخائر کو ترقی دینا اور ان کی تجدید ہے
’’جمہوریت ہو یا ترقی کا عزم، آج جموں و کشمیر ایک نئی مثال پیش کر رہا ہے۔ گزشتہ3-2 سالوں میں جموں و کشمیر میں ترقی کی نئی جہتیں پیدا ہوئی ہیں
جن لوگوں کو جموں و کشمیر میں برسوں سے ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملا تھا وہ بھی اب ریزرویشن کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں
"فاصلے چاہے دلوں کے ہوں، زبانوں کے ہوں، رسم و رواج کے ہوں یا وسائل کے ہوں، ان کا خاتمہ آج ہماری اولین ترجیح ہے"
’’آزادی کا یہ' امرت کال' ہندوستان کا سنہری دور ہونے والا ہے‘‘
"وادی کے نوجوانوں کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جن کا ان کے والدین اور دادا دادی کو سامنا کرنا پڑا"
’’اگر ہمارے گاؤں قدرتی کھیتی کی طرف بڑھیں تو پوری انسانیت کو فائدہ پہنچے گا‘‘
گرام پنچایتیں 'سب کا پرایاس' کی مدد سے غذائی قلت سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کریں گی

بھارت ماتا کی جے

بھارت کی ماتا کی جے

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر جناب منوج سنھا جی ، مرکزی وزرا کی کونسل میں  میرے رفیق  کار  گریراج سنگھ جی ، اسی زمین کی اولاد میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی ، جناب کپیل موریشور پاٹل جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب جگل کشور جی، جموں و کشمیر سمیت پورے ملک سے وابستہ پنچایتی راج کے سبھی عوامی نمائندگان ، بھائیوں اور بہنوں۔

شورویرِ دی اس ڈُگر دھرتی جموں-چ، توسیں سارے بہن پرائیں گی میرا نمسکار! ملک بھر سے وابستہ ساتھیوں کو قومی پنچایتی دوس کی بہت بہت مبارکباد!

آج جموں و کشمیر کی ترقی کو رفتار دینے کے لیے یہ بہت بڑا دن ہے۔ یہاں میں جو جم غفیر دیکھ رہا ہوں ،  جہاں بھی میری نظر پہنچ رہی ہے  لوگ ہی لوگ نظر آرہے ہیں۔ شاید کتنی صدیوںکے بعد جموں و کشمیر کی زمین، بھارت کے شہری ایسا دلکش نظارہ دیکھ پا رہے ہیں۔ یہ آپ کے پیار کے لیے ، آپ کے جوش و جذبے اور امنگ کے لیے، ترقی اور فروغ کے آپ کے عزم کے لیے میں خاص طور پر آج جموں و کشمیر کے بھائیوں – بہنوں کا احترام کے ساتھ خیرمقدم کرنا چاہتا ہوں۔

ساتھیو،

نہ یہ خطہ میرے لیے نیا ہے ، نہ میں آپ کے لیے نیا ہوں۔ اور میں یہاں کی باریکیوں سے کئی برسوں سے واقف بھی رہا ہوں، وابستہ رہا ہوں۔ میرے لیے خودشی کی بات ہے کہ آج یہاں کنکٹیویٹی اور بجلی سے متعلق 20 ہزار کروڑ  روپے یہ اعداد و شمار جموں و کشمیر جیسی چھوٹی ریاست کے لیے بہت بڑا عدد ہے۔ ۔۔۔ 20 ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کی ترقی کو نئی رفتار دینے کے لیے ریاست میں تیزی سے کام چل رہاہے۔ ان کوششوں سے بہت بڑی تعداد میں جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

ساتھیو،

آج بہت سے کنبوں کو گاوؤں میں ان کے گھر کے پراپرٹی کارڈ بھی ملے ہیں۔ یہ ملکیت کارڈ گاوؤں میں نئے امکانات پیدا کریں گے۔ آج 100 جن اوشدھی مرکز جموں و کشمیر کے غریب اور متوسط طبقے کو سستی دوائیں ، سستا سرجیکل سامان دینے کا وسیلہ بنیں گے۔ 2070 تک ملک کو کاربن سے پاک کرنے کا جو عزم ملک نے کیا ہے اسی سمت بھی جموں و کشمیر نے آج ایک بڑی پہل کی ہے۔ پلی پنچایت ملک کی پہلی کاربن سے پاک پنچایت بننے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

گلاسگو میں دنیا کے بڑی بڑی شخصیتیں جمع ہوئی تھیں ۔ کاربن نیوٹرل سے متعلق بہت ساری تقریریں ہوئیں ، بہت سارے بیانات ہوئے ، بہت سارے اعلانات ہوئے لیکن یہ ہندوستان ہے۔ جو گلاسگو کے آج جموں و کشمیر کی ایک چھوٹی پنچایت ، پلی پنچایت کے اندر ملک کی پہلی کاربن سے پاک پنچایت بننے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ آج مجھے پلی گاؤں میں ملک کے گاوؤں کے عوامی نمائندگان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا بھی موقع ملا ہے۔ اس بڑی حصولیابی اور ترقی کے کاموں کے لیے جموں و کشمیر کو بہت بہت مبارکباد۔

یہاں منچ پر آنے سے پہلے میں یہاں کہ پنچایت کے ارکان کے ساتھ بیٹھا تھا ان کے خواب ، ان کے عزم اور ان کے نیک ارادے میں محسوس کر رہا تھا۔ اور مجھے خوشی تب ہوئی کہ میں دلی کے لال قلعے سے سب کا پریاس یہ بولتا ہوں لیکن آج جموں و کشمیر کی زمین نے پلی کے شہریوں نے سب کا پریاس کیا ہوتا ہے یہ مجھے کر کے دکھایا ہے۔ یہاں کے پنچ سرپنچ مجھے بتا رہے تھے کہ جب یہاں  اس  پروگرام کا انعقاد طے ہوا تو سرکار کے لوگ آتے تھے ، کانٹریکٹرز آتے تھے سب بننانے والے، اب یہاں تو کوئی ڈھابہ نہیں ہے، یہاں تو کوئی لنگر نہیں چلتا ہے ، یہ لوگ آرہے ہیں تو ان کو کھانے کا کیا کریں۔ تو مجھے یہاں کے پنچ سرپنچ نے بتایا کہ ہر گھر سے، کوئی گھر سے 20 روٹی، کہیں 30 روٹی جمع کرتے تھے اور پچھلے 10 دن سے یہاں جو بھی لوگ آئے ہیں سب کو گاؤں والوں نے کھانا کھلایا ہے۔ سب کا پریاس کیا ہوتا ہے یہ آپ لوگوں نے دکھا  دیا ہے۔ میں دل سے یہاں کے سبھی  اپنے گاؤوں والوں  کو احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔

بھائیوں اور بہنوں،

اس بار کا پنچایتی راج دوس ، جموں و کشمیر میں منایا جانا ، ایک بڑی تبدیلی کی نشانی ہے۔ یہ بہت ہی فخر کی بات ہے، کہ جب جمہوریت جموں و کشمیر میں نچلی سطح تک پہنچی ہے تب یہاں سے میں ملک بھر کی پنچایتوں سے خطاب کر رہا ہوں۔ ہندوستان میں پنچایتی راج نظام لاگو ہوا ۔ بہت ڈھول پیٹے گئے ، بڑا فخر بھی کیا گیا۔ اور وہ غلط بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک بات  ہم بھول گئے ویسے تو کہا کرتے تھے کہ بھارت میں پنچایتی راج نظام لاگو کیا گیا ہے لیکن ملک کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اتنا اچھا نظام ہونے کے باوجود میرے جموں و کشمیر کے لوگ اس سے محروم تھے یہاں نہیں تھا۔ دلی میں آ نے مجھے خدمت کا موقع دیا اور پنچایتی راج نظام جموں  و کشمیر کی زمین پر لاگو ہو گیا۔ اکیلے جموں و کشمیر کے گاؤوں میں 30 ہزار سے زیادہ عوامی نمائندگان منتخب ہوکر آئے ہیں اور وہ آج یہاں کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ یہی تو جمہوریت کی طاقت ہوتی ہے۔ پہلی بار تین سطحی پنچایتی راج نظام – گرام پنچایت، پنچایت سمیتی اور ڈی ڈی سی کے انتخابات یہاں پر امن طریقے سے مکمل ہوئے اور گاؤں کے لوگ گاؤں کا مستقبل طے کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

بات جمہوریت کی ہو یا عزم ترقی کا ہو، آج جموں و کشمیر پرے ملک کے لیے ایک نئی مثال پیش کر رہا ہے۔گذشتہ دو تین برسوں میں جموں و کشمیر میں ترقی کے نئے معیار بنے ہیں۔ مرکز کے تقریباً پورے دو سو قانون جو جموں کے شہریوں کو اختیار دیتے تھے وہ لاگو نہیں کیے جاتے تھے۔ہم نے جموں و کشمیر کے ہر شہری کو بااختیار بنانے کے لیے ان قانونوں کو لاگو کر دیا اور آ پ کو طاقتور بنانے کا کام کر دیا۔ جن کا سب سے زیادہ فائدہ یہاں کی بہنوں کو ہوا۔ یہاں کی بیٹیوں کو ہوا ہے۔ یہاں کے غریب کے ، یہاں  کے دلت کو یہاں کے متاثر کو، یہاں کے محروم کو ہوا ہے۔

آج مجھے فخر ہو رہا ہے کہ آزادی کے 75 سال کے بعد جموں و کشمیر کے میرے والمیکی سماج کے بھائی بہن ہندوستان کے شہریوں کی برابری میں آنے کا قانونی حق حاصل کر سکے ہیں۔ دہائیوں سے جو بیڑیاں والمیکی سماج میں پاؤں میں ڈال دی گئی تھی ان سے اب وہ آزاد ہو چکا ہے۔ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد اس کو آزادی ملی ہے۔ آج ہر سماج کے بیٹے بٹیاں، اپنے خوابوں کو پورا کر رپا رہے ہیں۔

جموں و کشمیر میں برسوں تک جن ساتھیوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملا اب انہیں بھی ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے۔  آج بابا صاحب کی روح جہاں بھی ہوگی ہم سب کو آشرواد دیتی ہوگی کہ ہندوستان کا ایک کونا اس سے محروم تھا۔ مودی سرکار نے آکر کے بابا صاحب کے خوابوں کو بھی پورا کیا ہے۔ مرکزی سرکار کا منصوبہ اب یہاں تیزی سے لاگو ہو رہا ہے۔ جس کا سیدھا فائدہ جموں و کشمیر کے گاؤوں کو ہو رہا ہے۔ایل پی جی گیس کنکشن ہو، بجلی کنکشن ہو، پانی کنکشن ہو، سوچھ بھارت ابھیان کے تحت بیت الخلاء ہوں، اس کا بڑا فائدہ جموں و کشمیر کو ملا ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے امرت کال یعنی آنے والے 25 سال میں نیا جموں و کشمیر، ترقی کی نئی داستان لکھے گا۔ تھوڑی دیر پہلے یو اے ای سے آئے ایک وفد سے بات چیت کرنے کا موقع مجھے ملا ہے۔ وہ جموں و کشمیر کے بارے میں بہت ہرجوش ہیں۔ آ پ تصور کر سکتے ہیں آزادی کی 7 دہائیوں کے دوران جموں وکشمیر میں محض 17 ہزار کروڑ روپے کا ہی پرائیویٹ انویسٹمنٹ ہو پایا تھا۔ سات دہائیوں میں 17 ہزار اور پچھلے دو سال کے اندر اندر یہ عدد 38 ہزار کروڑ روپے پر پہنچا ہے۔ 38 ہزار کروڑ روپے یہاں سرمایہ کاری کے لیے پرائیویٹ کمپنیاں آرہی ہیں

ساتھیو،

آج مرکز سے بھیجی پائی پائی بھی یہاں ایمانداری سے لگ رہی ہے اور سرمایہ کار بھی کھلے دل سے پیسہ لگانے آرہے ہیں۔ ابھی مجھے ہمارے منوج سنہا جی بتا رہے تھے کہ تین سال پہلے یہاں کے ضلعوں  کے ہاتھ میں پوری ریاست میں ، پانچ ہزار کروڑ روپے ہی ان کے نصیب میں ہوتا تھا اور اس میں لیہ لداخ سب آجاتا تھا۔ انہوں نے کہا -  چھوٹی سی ریاست ہے ، آبادی کم ہے۔ لیکن پچھلے دو سال میں جو رفتار آئی ہے ،اس بار بجٹ میں ضلعوں کے پاس 22 ہزار کروڑ روپے سیدھے سیدھے پنچایتوں کے پاس ترقی کے لیے دیئے جا رہے ہیں۔ اور اتنی چھوٹی ریاست میں نچلی سطح کے جمہوری نظام کے ذریعے ترقی کے کام کے لیے کہاں 5 ہزار کروڑ اور کہاں 22 ہزار کروڑ روپے ، یہ کام ہوا ہے بھائیوں۔

آج مجھے خوشی ہے، رتلے بجلی پروجیکٹ اور کوار بجلی پروجیکٹ جب بن کر تیار ہوں گے، تو جموں و کشمیر کو وافر بجلی تو ملے گی ہی، جموں و کشمیر کے لیے ایک کمائی کا بہت بڑا نیا میدان کھلنے والا ہے جو جموں و کشمیر کو نئی اقتصادی اونچائیوں کی جانب لے جائے گا۔ اب دیکھیے، کبھی دلی سے ایک سرکاری فائل چلتی تھی، ذرا میری بات سمجھنا۔ دلی سے ایک سرکاری فائل چلتی تھی تو جموں و کشمیر پہنچتے پہنچتے دو تین ہفتے لگ جاتے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج 500 کلو واٹ کا شمسی بجلی پلانٹ صرف 3 ہفتے کے اندر یہاں لاگو ہو جاتا ہے۔ بجلی پیدا کرنا شروع کرتا ہے۔ پلی گاؤں کے سبھی گھروں میں اب شمسی بجلی پہنچ رہی ہے ۔ یہ گرام ارجا سوراج کی بھی بہت بڑی مثال بنی ہے۔ کام کے طور طریقوں میں یہی تبدیلی جموں وکشمیر کو نئی اونچائی پر لے جائے گی۔

ساتھیو،

میں جموں و کشمیر کے نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں، ’’ساتھیوں میرے لفظوں پر بھروسہ کیجیے۔ وادی کے نوجوان، آپ کے والدین کو ، آپ کے دادا دادی کو ، آپ کے نانا نانی کو ، جن مصیبتوں سے زندگی جینا پڑی، میرے نوجوان آپ کو بھی ایسی مصیبتوں سے زندگی جینی نہیں پڑے گی، یہ میں کر کے دکھاؤں گا یہ میں آپ کو یقین دلانے آیا ہوں۔ ‘‘ پچھلے آٹھ برسوں میں ایک بھارت ، شریشٹھ بھارت کے منتر کو مضبوط کرنے کے لیے ہماری سرکار نے دن رات کام کیا ہے۔ جب میں ایک بھارت ، شریشٹھ بھارت کی بات کرتا ہوں تب ہماری توجہ کنکٹیویٹی پر بھی ہوتی ہے۔ دوریاں مٹانے پر بھی ہوتی ہے۔ دوریاں چاہے دلوں کی ہوں، زبان رویے کی ہوں یا پھر وسائل کی۔ انہیں دور کرنا آج ہماری بہت بڑی ترجیح ہے۔ جیسے ہمارے ڈوگروں کے بارے میں لوک سنگیت میں کہتے ہیں۔ مٹھری اے ڈوگریں دی بولی، تے کھنڈ مٹھے لوک ڈوگرے۔ ایسی ہی مٹھاس ، ایسی ہی حساس سوچ ملک کے لیے یکجہتی کی طاقت بنتی ہے اور دوریاں بھی کم ہوتی ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں،

ہماری سرکار کی کوشش سے اب بنیہال – کازی گنڈ سرنگ سے جموں اور سری نگر کی دوری 2 گھنٹے کم ہوگئی۔ اودھم پور- سری نگر – بارہ مولہ کو مربوط کرنے والا دلکش آرک برج بھی جلد ملک کو ملنے والا ہے۔ دلی – امرتسر – کٹرا ہائی وے بھی دلی سے ماں ویشنو کے دربار کی دوری کو بہت کم کرنے والا ہے۔ اور وہ دن دور نہیں ہوگا جب کنیہ کماری کی دوری ویشنوں دیوی سے ایک سڑک سے ملنے والے ہیں۔ جموں و کشمیر ہو ، لیہ- لداخ ہو ہر طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ جموں و کشمیر کے زیادہ تر حصے 12 مہینے ملک سے مربوط رہیں۔

سرحدی گاؤوں کی ترقی کے لیے بھی ہماری سرکار ترجیح کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ ہندوستان بھر کی سرحدوں کے آخری گاؤں کے لیے وائبرینٹ ولیج منصوبہ اس بار بجٹ میں منظور کیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ ہندوستان کے سبھی آخری گاؤوں کو جو سرحد سے متصل ہیں وہ وائبرینٹ ولیج کے تحت ملے گا۔ اس کا زیادہ فائدہ پنجاب اور جموں و کشمیر کو بھی ملنے والا ہے۔

ساتھیو،

آج جموں وکشمیر سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی بھی ایک عمدہ مثال بنتا  جا رہا ہے۔ ریاست میں اچھے اور جدید اسپتال ہوں، ٹرانسپورٹ کے نئے ذرائع ہوں، اعلیٰ تعلیم کے ادارے ہوں، یہاں کے نوجوانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبوں کو لاگو کیا جارہا ہے۔ وکاس اور وشواس کے بڑھتے ماحول میں جموں و کشمیر میں ٹورزم پھر سے پھلنے لگا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اگلے جون – جولائی تک یہاں کے سارے سیاحتی مقامات بُک ہو چکے ہیں، جگہ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں میں جتنے سیاح یہاں پر  نہیں آئے اتنے کچھ ہی مہینوں میں یہاں آرہے ہیں۔

ساتھیو،

آزادی کا یہ امرت کال بھارت کا سنہرا دور ہونے والا ہے۔ یہ عزم سب کی کوشش سے ثابت ہونے والا ہے۔ اس میں جمہوریت کی سب سے زمینی اکائی ، گرام پنچایت کا، آپ سبھی ساتھیوں کا رول بہت اہم ہے۔ پنچایتوں کے اسے رول کو سمجھاتے ہوئے، آزادی کے امرت مہوتسو پر امرت سرور ابھیان کی شروعات ہوئی ہے۔ آنے والے ایک سال میں ، اگلے سال 15 اگست تک ہمیں ہر ضلعے میں کم سے کم 75 امرت سرور تیار کرنے ہیں، ہر ضلعے میں 75 امرت سرور۔

ہمیں یہ بھی کوشش کرنی ہے کہ ان سروروں کے آس پاس  نیم، پپل، برگد وغیرہ کے پودے اس علاقے کے شہیدوں کے نام پر لگائیں۔ اور کوشش یہ بھی کرنی ہے کہ جب یہ امرت سرور کا آغاز کرتے ہوں، سنگ بنیاد رکھتے ہوں تو وہ  سنگ بنیاد بھی کسی نہ کسی شہید کے کنبے کے ہاتھوں سے، کسی مجاہد آزادی کے کنبے کے ہاتھوں سے کرائیں اور آزادی کے لیے یہ امرت سرور کی مہم کو ہم ایک فخر یہ صفحہ کے طور پر جوڑیں۔

بھائیوں اور بہنوں ،

گذشتہ برسوں میں پنچاتوں کو زیادہ اختیارات ، زیادہ شفافیت  اور ٹکنالوجی سے وابستہ کرنے کےلیے لگاتار کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ای – گرام – سوراج ابھیان سے پنچایت سے متعلق منصوبہ بندی سے لے کر رقم کی ادائیگی تک کے انتظام کو جوڑا جا رہا ہے۔ گاؤں کا عام مستفید اب اپنے موبائل فون پر یہ جان سکتا ہے کہ پنچایت میں کون سا کام ہو رہا ہے، اس کی تازہ صورتحال کیا ہے، کتنا  بجٹ خرچ ہو رپا رہا ہے۔ پنچایت کو جو فنڈ مل رہے ہیں، ان کے آڈٹ کا آن لائن  بندوبست کیا گیا ہے۔ شہریوں کے منشور مہم کے ذریعے ریاستوں اور گرام پنچایتوں کو تحریک دی جا رہی ہے کہ وہ پیدائش کا سرٹیفکیٹ ، شادی کا سرٹیفکیٹ ، جائیداد سے متعلق بہت سے موضوعات کو گرام پنچایت کی سطح پر ہی حل کر دیں۔ ملکیت منصوبے سے گرام پنچایتوں کے لیے پراپرٹی ٹیکس کا اسسمینٹ آسان ہو گیا ہے، جس کا فائدہ کئی گرام پنچایتوں کو ہو رہا ہے۔

کچھ دن پہلے ہی پنچایتوں میں تربیت کے لیے  جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے متعلق نئی پالیسی کو بھی منظوری دی گئی ہے۔ اسی مہینے 11 سے 17 اپریل تک پنچایتوں کی تشکیل نو کے عزم کے ساتھ مثالی ہفتے کا انعقاد بھی کیا گیا تاکہ گاؤں – گاؤں تک بنیادی سہولتوں کو پہنچانے کا کام ہوسکے۔ سرکار کا عزم یہ ہے کہ گاؤوں میں ہر شخص ، ہر کنبے کے لیے تعلیم ، صحت جیسے ہر پہلو کی ترقی یقینی ہو۔ سرکار کی کوشش یہی ہے کہ گاؤں کی ترقی سے متعلق ہر پروجیکٹ کا منصوبہ بنا کر ، اس کے عمل میں پنچایت کا رول زیادہ ہو۔ اس سے قومی عزائم کو ثابت کرنے میں پنچایت اہم کڑی بن کر ابھرے گی۔

ساتھیو،

پنچایتوں کو زیادہ اختیارات دینے کا مقصد پنچایتوں کو صحیح معنی میں ، بااختیار بنانے کا مرکز بنانے کا ہے۔ پنچایتوں کی بڑھتی  ہوئی طاقت  ، پنچایتوں کو ملنے والی رقم ، گاؤں کی ترقی کو نئی توانائی دے ، اس کا بھی خیال رکھا جا رہا ہے۔ پنچایتی راج نظام میں بہنوں کی حصہ داری کو اور بڑھانے پر بھی ہماری سرکار کا بہت زور ہے۔

بھارت کی بہنیں – بیٹیاں کیا کر سکتی ہیں، یہ کورونا کے دور کے دنیا بھر میں بھارت کے تجربے نے  دنیا کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ آشا – آنگن واڑی کارکنوں نے کیسے ٹریکنگ سے لے کر ٹیکا کاری تک ، چھوٹے چھوٹے ہر کام کو کر کے کورونا کے خلاف لڑائی کو مضبوطی دینے کا کام ہماری بیٹیوں نے کیا ہے، ہماری ماؤں – بہنوں نے کیا ہے۔

گاؤں کی صحت اور تغذیے سے متعلق نیٹ ورک خواتین کے طاقت  سے ہی اپنی توانائی پا رہا ہے۔ خواتین اپنی مدد آپ گروپ، گاؤوں میں گزر بسر کے ، عوامی بیداری کے نئے معیارات تشکیل دے رہے ہیں۔ پانی سے متعلق بندوبست ، ہر گھر جل مہم میں بھی جو خواتین کا رول طے کیا گیا ہے، اس کو ہر پنچایت تیزی سے لاگو کرے، یہ بہت ضروری ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ ابھی تک 3 لاکھ پانی کمیٹیاں پورے ملک میں بن چکی ہیں۔ ان کمیٹیوں میں 50 فیصد خواتین کی موجودگی ضروری ہے۔ 25 فیصد تک سماج کے کمزور طبقے کے ارکان ہوں، یہ بھی یقینی ہونا ضروری ہے۔ اب گاؤں میں نل سے جل تو پہنچ رہا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس کا خالص ہونا ، اس کی لگاتار سپلائی، اس کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کو تربیت دینے کا کام بھی پورے ملک میں چل رہا ہے، لیکن میں چاہوں گا کہ اس میں تیزی ضروری ہے۔ ابھی تک 7 لاکھ سے زیادہ بہنوں کو ، بیٹیوں کو پورے ملک میں ٹریننگ دی جا چکی ہے۔ لیکن مجھے اس دائرے کو بھی بڑھانا ہے۔ رفتار کو بھی بڑھانا ہے۔ میری آج ملک بھر کے پنچایتوں سے اصرار  ہے کہ جہاں ابھی یہ بندوبست نہیں ہوا ہے ، وہاں اسے جلد سے جلد لاگو کیا جائے۔

گجرات میں طویل عرصے تک میں وزیراعلیٰ رہا اور میں نے تجربہ کیا ہے کہ جب میں نے گجرات میں پانی کا کام خواتین کے ہاتھ میں دیا ، گاؤوں میں پانی کے انتظام کی فکر خواتین نے اتنی بخوبی کی، کیونکہ پانی نہ ہونے کا مطلب کیا ہے، وہ خواتین زیادہ سمجھتی ہیں۔ اور بڑی حساسیت کے ساتھ، ذمہ داری کے ساتھ کام کیا اور اس لیے میں اس تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں میرے ملک کی ساری پنچایتیں پانی کے اس کام میں جتنا زیادہ خواتین کو جوڑیں گی، جتنا زیادہ خواتین کو ٹریننگ دیں گی، جتنا زیادہ خواتین پر بھروسہ کریں گے، میں کہتا ہوں پانی کے مسئلے کا حل اتنی جلد ہی ہوگا، میرے لفظوں پر یقین کیجیے ہماری مائیں- بہنیں کی قوت پر یقین کیجیے۔ گاؤں میں ہر سطح پر بہنوں – بیٹیوں کی حصہ داری کو ہمیں بڑھانا ہے، ان کی ہمت افزائی کرنی ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

بھارت کی گرام پنچایتوں کے پاس فنڈز اور مالیے کا ایک لوکل ماڈل بھی ہونا ضروری ہے۔ پنچایتوں کے جو وسائل ہیں ان کا کمرشیئلی کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کے بارے میں ضرور کوشش ہونی چاہیے۔ اب جیسے، کچرے سے کنچن، گووردھن منصوبہ یا ہم کہیں قدرتی کھیتی کی منصوبہ۔ اور ان ساری چیزوں سے مالیے کے امکانات بڑھیں گے، نئے فنڈ بنائے جاسکتے ہیں۔ بایوگیس، بایو-سی این جی،  نامیاتی کھاد، اس کے لیے چھوٹے – چھوٹے پلانٹ بھی لگیں ، اس سے بھی گاؤں کی آمدنی بڑھ سکتی ہے، اس کے یے کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس کے لیے کچرے کا بہتر بندوبست ضروری ہے۔

میں آج گاؤں کے لوگوں سے، پنچایت کے لوگوں سے اپیل کروں گا کہ دوسرے این جی اوز کے ساتھ مل کر کے، اور تنظیموں کے ساتھ مل کر کے آپ کر حکمت عملی بنانی ہوگی، نئے – نئے وسائل تیار کرنے ہوں گے۔ اتنا ہی نہیں، آج ہمارے ملک میں زیادہ تر ریاستوں میں 50 فیصد بہنیں نمائندہ  ہیں۔  کچھ ریاستوں میں 33 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ میں ایک خصوصی درخواست کروں گا گھروں سے جو کچرا نکلتا ہے گیلا اور سوکھا، یہ الگ گھر میں ہی کرنے کی عادت ڈال دی جائے۔ اس کو الگ کر کے چلیں، آپ دیکھیے وہ بھی ، وہ کچرا آپ کو یہاں سونے کی طرح کام آنا شروع ہو جائے گا۔ اس مہم کو گاؤں کی سطح پر مجھے چلانا ہے اور میں آج ملک بھر کے پنچایت کے لوگ میرے سے جڑے ہوئے ہیں تو میں اس کی بھی گزارش کروں گا۔

ساتھیو،

پانی کا براہ راست تعلق ہماری کھیتی سے ہے، کھیتی کا تعلق ہمارے پانی کے معیار سے بھی ہے۔ جس طرح کے کیمیکل ہم کھیتوں میں ڈال رہے ہیں اور اس سے ہماری دھرتی ماتا کی صحت کو برباد کر رہی ہیں ، ہماری مٹی خراب ہو رہی ہے۔ اور جب پانی، بارش کا پانی بھی نیچے اترتا ہے، تو وہ کیمیکل لے کر کے نیچے جاتا ہے اور وہی پانی ہم پیتے ہیں، ہمارے جانور پیتے ہیں، ہمارے چھوٹے – چھوٹے بچے پیتے ہیں۔ بیماریوں کی جڑیں ہم ہی لگا رہے ہیں اور اس لیے ہمیں اپنی اس دھرتی ماں کو کیمیکل سے آزاد کرنا ہی ہوگا، کیمیکل فرٹی لائزر سے آزاد کرنا ہوگا۔ اور اس کے لیے قدرتی کھیتی کی طرف ہمارا گاؤں، ہمارا کسان بڑھے گا تو پوری انسانیت مستفید ہوگی ۔ گرام پنچایت کی سطح پر کیسے قدرتی کھیتی کی ہم حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں، اس کے لیے بھی بھی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

قدرتی کھیتی کا سب سے زیادہ فائدہ اگر کسی کو ہوگا تو وہ میرے چھوٹے کسان بھائیوں – بہنوں ہونے والا ہے۔ ان کی آبادی ملک میں 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ جب کم لاگت میں زیادہ منافع ہوگا تو اس سے چھوٹے کسانوں کو بہت زیادہ ترغیب ملے گی۔ گذشتہ برسوں میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے ان چھوٹے کسان کو ہوا ہے۔ پی ایم کسان سمان نیدھی سے ہزاروں کروڑ روپے اسی چھوٹے کسان کے کام آرہے ہیں۔ کسان ریل کے ذریعے چھوٹے کسان کے پھل – سبزیاں بھی پورے ملک کے بڑے بازاروں تک کم قیمت میں پہنچ پا رہی ہیں۔ ایف پی او یعنی کسان پروڈیوسر یونیوں کے قیام سے بھی چھوٹے کسانوں کو بہت طاقت مل رہی ہے۔ اس سال ہندوستان نے بیرون ممالک کو ریکارڈ پھل اور سبزیاں برآمد کی ہیں، تو اس کا ایک بڑا فائدہ بھی ملک کے چھوٹے – چھوٹے کسانوں کو ہی رہا ہے۔

ساتھیو،

گرام پنچایتوں کو سب کو ساتھ لے کر ایک اور کام بھی کرنا ہوگا۔  غذائی قلت سے، خون کی کمی سے، ملک کو بچانے کا جو ذمہ داری مرکزی حکومت  نے اٹھایا ہے اس کے تئیں زمین پر لوگوں کو بیدار بھی کرنا ہے۔ اب حکومت کی طرف سے جن منصوبوں میں بھی چاول دیا جاتا ہے، اس کو مضبوط کیا جارہا ہے،  غذائیت سے بھرپور کیا جارہا ہے۔ یہ فورٹیفائڈ چاول صحت کے لیے کتنا ضروری ہے، اس کے تئیں بیداری پھیلانا ہم سبھی کی ذمہ داری ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ہماری بہنوں – بیٹیوں – بچوں کو غذائی قلت سے ، خون کی کمی سے آزاد کرنے کا عزم ہمیں لینا ہے اور جب تک ہم مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کرتے، ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوتی،  انسانیت کے اس کام کو ہمیں چھوڑنا نہیں ہے، لگے رہنا ہے اور غذائی قلت کو ہمیں ہماری سرزمین سے الوداع کرنا ہے۔

بھارت کی ترقی ووکل فار لوکل کے منتر میں چھپا ہے۔ مقامی حکومت بھی ہندوستان میں جمہوریت کی ترقی کا محرک ہے۔آپ کے کام کا دئرہ بھلے ہی مقامی  ہے، لیکن اس کا اجتماعی اثر پوری دنیا میں ہوگا۔لوکل کی اس قوت کو ہمیں پہچاننا ہے۔ آپ اپنی پنچایت میں جو بھی کام کریں گے، اس سے ملک کی شبیہ اور بہتر ہو، ملک کے گاؤں اور بااختیار ہوں، یہی میری آج پنچایت دوس پر آپ سب سے گزارش ہے۔

ایک بار پھر جموں و کشمیر کو ترقی کے کاموں کے لیے میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور میں ملک بھر  کے لاکھوں لوگوں کے منتخب نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں، چاہے وہ پنچایت ہو یا پارلیمنٹ، کوئی بھی کام چھوٹا نہیں ہوتا۔ اگر پنچایت میں بیٹھ کر کے میں میرے ملک کو آگے لے جاؤں گا، اس عزم کے ساتھ پنچایت کو آگے بڑھائیں گے تو ملک کو آگے بڑھنے میں دیر نہیں ہوگی۔ اور میں آج پنچایت سطح پر منتخب نمائندوں کا جوش دیکھ رہا ہوں، امنگ دیکھ رہا ہوں، عزم دیکھ رہا ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارا پنچایتی راج نظام ہندوستان کو نئی اونچائی پر لے جانے کا ایک طاقتور ذریعہ بنے گا۔ اور ان  نیک خواہشات کے ساتھ میں آپ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میرے ساتھ دونوں ہاتھ اوپر کر کے پوری طاقت سے بولیے –

بھارت ماتا کی  - جے

بھارت ماتا کی  - جے

بہت بہت شکریہ!!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
UPI reigns supreme in digital payments kingdom

Media Coverage

UPI reigns supreme in digital payments kingdom
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Prime Minister watches ‘The Sabarmati Report’ movie
December 02, 2024

The Prime Minister, Shri Narendra Modi today watched ‘The Sabarmati Report’ movie along with NDA Members of Parliament today.

He wrote in a post on X:

“Joined fellow NDA MPs at a screening of 'The Sabarmati Report.'

I commend the makers of the film for their effort.”