حالیہ برسوں میں دفاعی شعبے میں آتم نر بھر بھارت پر زور دیا گیا ہے، جو بجٹ میں واضح طور پر نظر آتا ہے
منفرد اور حیران کُن عناصر اسی وقت رونما ہو سکتے ہیں جب اپنے ہی ملک میں سازو سامان تیار کیا جائے
اس سال کا بجٹ، ایک فعال معیشت وضع کرنے کے لئے ایک طرح کا خاکہ ہے اور یہ کام اندرون ملک تحقیق، ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دے کر ہی ممکن ہوگا
گھریلو خریداری کے لئے 54 ہزار کروڑ روپے مالیت کے ٹھیکے پر دستخط کئے گئے ہیں، اس کے علاوہ 4.5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے آلات اور سامان کے لئے خریداری کا عمل مختلف مراحل میں ہے
ایک درخشاں دفاعی صنعت کی نمو کے لئے شفاف، معینہ مدت کے اندر کام کرنے والا، عملی اور آزمائش کا بہترین نظام فراہم کرنا ہوگا، ساتھ ہی ساتھ اسناد بندی بھی ضروری ہوگی

نمسکار!

آج کے ویبنار کا موضوع، دفاع میں آتم نربھرتا - کال ٹو ایکشن، قوم کے ارادوں کی وضاحت کرتا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں آپ کو خود انحصاری کا عزم بھی نظر آئے گا جس پر ہندوستان پچھلے کچھ سالوں سے اپنے دفاعی شعبے میں زور دے رہا ہے۔

ساتھیوں،

غلامی کے دور میں بھی اور آزادی کے فوراً بعد بھی ہماری دفاعی تیاری کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان میں بنائے گئے ہتھیاروں نے بڑا کردار ادا کیا۔ اگرچہ ہماری یہ طاقت بعد کے سالوں میں کمزور ہوتی رہی، لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں صلاحیت کی کمی نہ اس وقت تھی اور نہ اب ہے۔

ساتھیوں،

سیکورٹی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی مرضی کے مطابق اور منفرد نظام ہونا چاہیے، تبھی یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اگر 10 ممالک کے پاس ایک ہی قسم کا دفاعی سازوسامان ہے تو آپ کی افواج کی کوئی انفرادیت نہیں رہے گی۔ انفرادیت اور حیرت کا عنصر، یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب آلات آپ کے اپنے ملک میں تیار کیے جائیں۔

اس سال کے بجٹ میں ملک کے اندر ہی تحقیق، ڈیزائن اور ترقی سے لے کر مینوفیکچرنگ تک ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی ترقی کا خاکہ ہے۔ دفاعی بجٹ کا 70 فیصد صرف ملکی صنعت کے لیے رکھا گیا ہے۔ وزارت دفاع نے اب تک 200 سے زیادہ دفاعی پلیٹ فارمز اور آلات کی مثبت انڈیجنائزیشن کی فہرستیں جاری کی ہیں۔ اس فہرست کے اعلان کے بعد گھریلو خریداری کے لیے 54 ہزار کروڑ روپے کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 4.5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے آلات سے متعلق خریداری کا عمل بھی مختلف مراحل میں ہے۔ بہت جلد تیسری فہرست بھی آنے والی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں ہی دفاعی مینوفیکچرنگ کو کس طرح سپورٹ کر رہے ہیں۔

ساتھیوں،

جب ہم باہر سے اسلحے لاتے ہیں تو اس کا عمل اتنا طویل ہوتا ہے کہ جب تک وہ ہماری سکیورٹی فورسز تک پہنچتے ہیں، ان میں سے بہت سے پرانے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کا حل بھی آتم نربھر بھارت مہم اور میک ان انڈیا میں ہے۔ میں ملک کی فوجوں کی بھی تعریف کروں گا کہ وہ بھی دفاعی شعبے میں ہندوستان کی خود انحصاری کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بہت اہم فیصلے لے رہی ہیں۔ آج ہماری فوج کے پاس ہندوستان میں بنایا ہوا سامان ہے، اس لیے ان کا اعتماد، ان کا غرور بھی نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اور اس میں ہمیں سرحد پر کھڑے فوجیوں کے جذبات کو بھی سمجھنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے جب میں اقتدار میں نہیں تھا، اپنی پارٹی کے لیے کام کرتا تھا، پنجاب میرے کام کرنے کی جگہ تھی، مجھے ایک بار واگھہ بارڈر پر جوانوں سے گپ شپ کرنے کا موقع ملا۔ وہاں تعینات فوجیوں نے بحث کے دوران میرے سامنے ایک بات کہی تھی اور وہ بات میرے دل کو چھو گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ واگھہ بارڈر پر بھارت کا گیٹ ہمارے دشمن کے گیٹ سے تھوڑا چھوٹا ہے۔ ہمارا گیٹ بھی بڑا ہونا چاہیے، ہمارا جھنڈا بھی اس سے اونچا ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کا جذبہ ہے۔ ہمارے ملک کا سپاہی اسی احساس کے ساتھ سرحد پر رہتا ہے۔ وہ ہندوستان میں بنی چیزوں کے بارے میں ایک الگ عزت نفس رکھتا ہے۔ اس لیے ہمارے پاس جو دفاعی سامان ہے، ہمیں اپنے فوجیوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم یہ تب ہی کر سکتے ہیں جب ہم آتم نربھر ہوں گے۔

ساتھیوں،

ہلے زمانے میں جنگیں مختلف طریقوں سے ہوتی تھیں، آج مختلف طریقوں سے۔ پہلے جنگی ساز و سامان کی تبدیلی میں دہائیاں لگتی تھیں لیکن آج جنگی ہتھیاروں میں دیکھتے ہی دیکھتے تبدیلی آ جاتی ہے۔ آج جو ہتھیار موجود ہیں ان کے پرانے ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ وہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہتھیار اور بھی تیزی سے پرانے ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان کی آئی ٹی کی طاقت ہماری بڑی طاقت ہے۔ ہم جتنا زیادہ اس طاقت کو اپنے دفاع میں استعمال کریں گے، اتنا ہی ہم اپنی حفاظت میں پر اعتماد ہوں گے۔ مثال کے طور پر اب سائبر سیکیورٹی کا معاملہ ہی لے لیں۔ اب وہ بھی جنگی ہتھیار بن چکا ہے۔ اور یہ صرف ڈجیٹل سرگرمی تک محدود نہیں ہے۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے۔

ساتھیوں،

آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ دفاعی شعبے میں ہمیشہ کس قسم کی مسابقت رہتی ہے۔ پہلے زمانے میں جو سامان باہر کی کمپنیوں سے خریدا جاتا تھا اس پر اکثر طرح طرح کے الزامات لگتے تھے۔ میں اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہر خریداری تنازعہ کا باعث بنی۔ مختلف صنعت کاروں کے درمیان مسابقت کی وجہ سے دوسروں کی مصنوعات کو نیچا دکھانے کی مہم مسلسل جاری ہے۔ اور اسی وجہ سے ابہام بھی پیدا ہوتا ہے، خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں اور کرپشن کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ کون سا ہتھیار اچھا ہے، کون سا ہتھیار برا ہے، کون سا ہتھیار ہمارے لیے کارآمد ہے، کون سا ہتھیار مفید نہیں۔ اس کے بارے میں بھی کافی ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ یہ کارپوریٹ دنیا کی جنگ کا حصہ ہے۔ ہمیں آتم نربھر بھارت مہم کے ذریعے ایسے بہت سے مسائل کا حل بھی ملتا ہے۔

ساتھیوں،

ہماری آرڈیننس فیکٹریاں اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ جب ہم پورے اخلاص کے ساتھ عزم کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہمارے دفاع کے سکریٹری نے ابھی اس کی بڑی تفصیل پیش کی ہے۔ پچھلے سال سے پہلے، ہم نے 7 نئے ڈیفنس پبلک انڈرٹیکنگس بنائے تھے۔ آج وہ تیزی سے کاروبار کو بڑھا رہے ہیں، نئی منڈیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ ایکسپورٹ آرڈرز بھی لیے جا رہے ہیں۔ یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ گزشتہ 5 سے 6 سالوں میں ہم نے دفاعی برآمدات میں 6 گنا اضافہ کیا ہے۔ آج ہم 75 سے زیادہ ممالک کو میڈ ان انڈیا دفاعی ساز و سامان اور خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ میک ان انڈیا کے لیے حکومت کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں، پچھلے 7 سالوں میں دفاعی مینوفیکچرنگ کے لیے 350 سے زیادہ نئے صنعتی لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ جبکہ 2001 سے 2014 تک چودہ سالوں میں صرف 200 لائسنس جاری کیے گئے تھے۔

ساتھیوں،

پرائیویٹ سیکٹر کو بھی DRDO اور دفاعی PSUs کے برابر آنا چاہیے، اس لیے دفاعی R&D بجٹ کا 25 فیصد صنعت، اسٹارٹ اپس اور اکیڈمیا کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ بجٹ میں اسپیشل پرپز وہیکل ماڈل کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ یہ نجی صنعت کے کردار کو صرف ایک وینڈر یا سپلائر سے آگے ایک پارٹنر کے طور پر قائم کرے گا۔ ہم نے خلائی اور ڈرون کے شعبوں میں بھی نجی شعبے کے لیے نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ اتر پردیش اور تمل ناڈو کے دفاعی کوریڈورز اور پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے ساتھ ان کے انضمام سے ملک کے دفاعی شعبے کو مطلوبہ طاقت ملے گی۔

ساتھیوں،

ایک متحرک دفاعی صنعت کی ترقی کے لیے ٹرائل، ٹیسٹنگ اور سرٹیفیکیشن کا شفاف، وقت پابند، عملی اور منصفانہ نظام بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک آزاد نظام مسائل کے حل میں کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے ملک میں مطلوبہ مہارت کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی۔

ساتھیوں،

آپ سب سے ملک کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بحث سے دفاعی شعبے میں خود انحصاری کی نئی راہیں کھلیں گی۔ میں آج تمام اسٹیک ہولڈرز سے سننا چاہتا ہوں، ہم آپ لوگوں کو لمبی تقریریں نہیں کرنا چاہتے۔ یہ دن آپ کے لیے ہے۔ آپ عملی چیزیں لے کر آئیں، بتائیں۔ اب بجٹ طے پا گیا ہے، یکم اپریل سے نیا بجٹ لاگو ہونے جا رہا ہے، ہمارے پاس تیاری کے لیے یہ پورا مہینہ ہے۔ آئیے اتنی تیزی سے کام کریں کہ یکم اپریل سے چیزیں زمین پر اترنے لگیں۔ ہم نے ایک ماہ کا بجٹ تیار کرنے کا طریقہ بھی تیار کیا ہے۔ اس کے پیچھے مقصد یہ بھی ہے کہ بجٹ کے حقیقی نفاذ سے پہلے تمام محکموں، اسٹیک ہولڈرز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کی تیاری کا پورا موقع ملنا چاہیے، تاکہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ یہ حب الوطنی کا عمل ہے۔ یہ قوم کی خدمت کا کام ہے۔ آئیں، منافع کب ہوگا، کتنا ہوگا، بعد میں سوچیں، پہلے سوچیں کہ ہم ملک کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ آج ہماری فوج، ہماری فوج کے تینوں شعبے ان کاموں میں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ بھر پور پہل کر رہے ہیں، حوصلہ دے رہے ہیں۔ اب ہماری پرائیویٹ پارٹی والوں کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں آپ کو ایک بار پھر دعوت دیتا ہوں۔

 

میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں! شکریہ!

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
Since 2019, a total of 1,106 left wing extremists have been 'neutralised': MHA

Media Coverage

Since 2019, a total of 1,106 left wing extremists have been 'neutralised': MHA
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Prime Minister’s departure statement ahead of his visit to Jordan, Ethiopia, and Oman
December 15, 2025

Today, I am embarking on a three-nation visit to the Hashemite Kingdom of Jordan, the Federal Democratic Republic of Ethiopia and the Sultanate of Oman, three nations with which India shares both age-old civilizational ties, as well as extensive contemporary bilateral relations.

First, I will be visiting Jordan, on the invitation of His Majesty King Abdullah II ibn Al Hussein. This historic visit will mark 75 years of establishment of diplomatic relations between our two countries. During my visit, I will hold detailed discussions with His Majesty King Abdullah II ibn Al Hussein, H.E. Mr. Jafar Hassan, Prime Minister of Jordan, and will also look forward to engagements with His Royal Highness Crown Prince Al Hussein bin Abdullah II. In Amman, I will also meet the vibrant Indian community who have made significant contributions to India–Jordan relations.

From Amman, at the invitation of H.E. Dr. Abiy Ahmed Ali, Prime Minister of Ethiopia, I will pay my first visit to the Federal Democratic Republic of Ethiopia. Addis Ababa is also the headquarters of the African Union. In 2023, during India’s G20 Presidency, the African Union was admitted as a permanent member of the G20. In Addis Ababa, I will hold detailed discussions with H.E. Dr. Abiy Ahmed Ali and also have the opportunity to meet the Indian diaspora living there. I will also have the privilege to address the Joint Session of Parliament, where I eagerly look forward to sharing my thoughts on India’s journey as the “Mother of Democracy” and the value that the India–Ethiopia partnership can bring to the Global South.

On the final leg of my journey, I will visit the Sultanate of Oman. My visit will mark 70 years of the establishment of diplomatic ties between India and Oman. In Muscat, I look forward to my discussions with His Majesty the Sultan of Oman, and towards strengthening our Strategic Partnership as well as our strong commercial and economic relationship. I will also address a gathering of the Indian diaspora in Oman, which has contributed immensely to the country’s development and in enhancing our partnership.