”میں بنگال کے لوگوں سے گزارش کروں گا کہ وہ بیر بھوم تشدد جیسے واقعات کے قصور واروں اور ایسے مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو کبھی معاف نہ کریں“
”آج ملک اپنی تاریخ، اپنے ماضی کو توانائی کے زندہ منبع کے طور پر دیکھتا ہے“
نیا ہندوستان بیرون ملک سے ملک کی وراثت کو واپس لا رہا ہے جہاں قدیم مجسموں کو آزادی کے ساتھ اسمگل کیا جاتا تھا
”بپلوبی بھارت گیلری مغربی بنگال کے ورثے کے تحفظ اور اسے بڑھانے کے لیے حکومت کے عزم کا ثبوت ہے“
”ہندوستان میں ہیریٹیج ٹورزم کو بڑھانے کے لیے ملک گیر مہم چل رہی ہے“
”بھارت بھکتی کا لازوال احساس، ہندوستان کا اتحاد اور سالمیت آج بھی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے“
”ہندوستان کا نیا وژن خود اعتمادی، خود انحصاری، قدیم شناخت اور مستقبل کی ترقی کا ہے۔ اس میں فرض کا احساس سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے“
”انقلاب کے دھارے، ستیہ گرہ اور جدوجہد آزادی کے تخلیقی جذبے کی نمائندگی قومی پرچم کے زعفرانی، سفید اور سبز رنگ سے ہوتی ہے“
”نئے ہندوستان کے لیے، زعفران فرض اور قومی سلامتی کی نمائندگی کرتا ہے، سفید سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس
شہید دیوس کے موقع پر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے وکٹوریہ میموریل ہال میں بپلوبی بھارت گیلری کا افتتاح کیا۔ مغربی بنگال کے گورنر جناب جگدیپ دھنکھر اور مرکزی وزیر جناب جی کشن ریڈی اس موقع پر موجود تھے۔

مغربی بنگال کے گورنر،  جناب  جگدیپ دھنکھڑ جی، ثقافت اور سیاحت کے مرکزی وزیر،  جناب  کشن ریڈی، وکٹوریہ میموریل ہال سے وابستہ تمام معززین، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، آرٹ اور ثقافت کی دنیا کے ماہرین، خواتین و حضرات!

سب سے پہلے  میں مغربی بنگال کے بیر بھوم میں ہونے والی پرتشدد واردات پر افسوس اور غم کا اظہار کرتا ہوں۔میں امید کرتا ہوں کہ ریاستی حکومت بنگال کی عظیم سرزمین پر ایسے گھناؤنے گناہ کرنے والوں کو ضرور سزا دلوائے گی۔ میں بنگال کے لوگوں سے بھی اپیل  کروں گا کہ ایسی واردات انجام دینے والوں کو ،  ایسے مجرموں کاحوصلہ  بڑھانے والوں کو کبھی معاف نہ کریں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے میں ریاست کو اس بات کی  یقین دہانی کراتا ہوں کہ  مجرموں کو جلد سے جلد سزا دلوانے میں جو بھی مدد وہ چاہے گی، حکومت ہند  فراہم کرے گی۔

 

ساتھیو،

’’آزادی کا امرت کا مہوتسویر، پنّو پالون لاگنے، موہان بپلبی۔ دیراوئی تہاشک، آتّو بلیدانیر پروتی، شوماگرو بھارت باشر، پوکھو تھیکے آ۔ بھومی  پرونام جناچھی شہید دیوس پر میں ملک کے لئے اپنا  سب کچھ قربان کرنے والے سبھی بہاد مرد و خواتین  کو ممنون قون کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شریمد بھگوت گیتا میں بھی کہا گیا ہے – نینم چھندنتی شسترانی، نینم دہتی پاوکہ، یعنی نہ شستر جسے کاٹ سکتے ہیں،  نہ آگ جسے جلا سکتی ہے۔ ملک کے لیے قربانیاں دینے والے ایسے ہوتے ہیں۔ وہ امر  ہو جاتے ہیں۔ وہ تحریک  دینے والے پھول بن کر نسل در نسل اپنی خوشبو پھیلاتے رہتے ہیں۔ اس لئے آج  اتنے برسوں بعد بھی امر شہید بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی قربانی کی داستان ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔  ہم سب کو ان بہادر کی داستانیں  ملک کے لیے دن رات محنت  کرنے کے لئے تحریک دیتی ہیں  اور  آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران اس بار شہید دیوس کی  اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ملک آج آزادی کے لئے قربانی دینے والے بہادر مرد و خواتین کو نمن کررہا ہے، ان کی خدمات کی  یاد کو تازہ کررہا ہے۔ باگھا جتن کی وہ ہنکار - آمرا موربو، جات جوگبے، یا پھر خودی رام بوس کی پکار - ایک بار بدائی دے ما، گھرے آشی۔ پورا ملک آج پھر یاد کر رہا ہے۔ بنکم بابو کا بندے ماترم  تو آج ہم بھارت  کے باشندوں  کا توانائی کا منتر بن گیا ہے۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، جھلکاری بائی، کتور کی رانی چیننما، ماتنگنی ہاجرا، بینا داس، کملا داس گپتا، کنک لتا بروا، ایسی کتنی بہادر خواتین  نے جنگ آزادی  کی مشعل کو  خواتین کی طاقت سے  روشن کیا۔ ایسے تمام  بہادروں  کی یاد میں آج صبح سے ہی متعدد مقامات پر پربھات پھیریاں نکالی گئی ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہمارے نوجوان  ساتھیوں نے خصوصی پروگراموں کا انعقاد کیا ہے۔ امرت مہوتسو کے اسی تاریخی دور میں  شہید دیوس  پر وکٹوریہ میموریل میں ’بپلوبی بھارت گیلری‘ کو عوام کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ آج نیتا جی سبھاش چندر بوس، اروبندو گھوش، راس بہاری بوس، خودی رام بوس، باگھا جتن، بنوئے، بادل، دنیش  ایسے  عظیم مجاہدین آزادی  کی یادوں سے یہ جگہ پاک ہوئی ہے۔  بے نربھیک سبھاش گیلری کے بعد آج بپلوبی بھارت گیلری کی شکل میں بنگال کی،  کولکتہ کی ہریٹیج  میں ایک خوبصورت موتی اور شامل ہو گیا ہے۔

 

ساتھیو،

بپلوبی بھارت گیلری گزشتہ برسوں میں مغربی بنگال کی خوشحال ثقافتی اور تاریخی ورثے کوسنوارنے اور اسے خوبصورت بنانے کے ہمارے عزم کا بھی ثبوت ہے۔  یہاں کی آئیکونک گیلریاں ہوں، اولڈ کرنسی بلڈنگ ہو، بیلویڈیئر ہاؤس ہو، وکٹوریہ میموریل  ہو یا پھر  میٹکاف ہاؤس، ان کو  مزید شاندار اور خوبصورت بنانے کا کام قریب قریب پورا  ہو چکا ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی میوزیم میں سے ایک کلکتہ کی ہی انڈین میوزیم کو ایک نئے رنگ روپ  میں دنیا کے سامنے لانے کے لیے ہماری حکومت  کام کر رہی ہے۔

 

ساتھیو،

ہمارے ماضی کی وراثتیں ہمارے حال کی رہنمائی کرتی ہے، ہمیں  بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے تحریک دیتی ہیں۔ اسی لئے آج ملک اپنی تاریخ کو ، اپنے ماضی کو توانائی کے  ایک زندہ ذریعہ کے طور پر  محسوس کرتا ہے۔ آپ کو وہ وقت بھی یاد ہوگا جب ہمارے یہاں آئے دن قدیم مندروں کی مورتیاں  چوری ہونے کی خبریں آتی تھیں۔ ہمارے فن پارے بے دھڑک بیرون ممالک میں  اسمگل ہوتے تھے، جیسے ان کی کوئی اہمیت  ہی نہیں تھی۔ لیکن اب بھارت  کی ان وراثتوں کو واپس لایا جا رہا ہے۔ ابھی ہمارے کشن ریڈی جی نے  تفصیل سے اس کا تذکرہ بھی  کیا ہے۔  دو دن پہلے ہی  آسٹریلیا نے  درجنوں ایسی مورتیاں، پینٹنگز اور دیگر فن پارے بھارت کے حوالے کیے ہیں۔ ان میں سے کئی مغربی بنگال سے  متعلق  ہیں ۔ گزشتہ سال بھارت کو امریکہ نے بھی تقریباً 150 بوادرات  واپس کئے تھے۔ جب ملک کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، جب دو ملکوں کے درمیان تعلق بڑھتا ہے تو اس طرح  بہت سی  مثالیں سامنے آتی ہیں۔ آپ  اس کا اندازہ اسی سے لگا سکتے ہیں کہ 2014 سے پہلے کی کئی دہائیوں میں صرف درجن بھر مورتیوں کو بھی بھارت لایا جاسکا تھا۔ لیکن گزشتہ 7 برسوں میں یہ تعداد بڑھ  سوا دو سو  سے بھی  زیادہ ہوچکی ہے۔ اپنی ثقافت،  اپنی تہذیب کی یہ نشانیاں بھارت  کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو مسلسل تحریک دیں، اس سمت میں یہ ایک بہت بڑی کوشش ہے۔

 

بھائی بہنو،

آج  ملک جس طرح سے اپنے قومی اور روحانی ورثے کو  ایک نئی خود اعتمادی کے ساتھ فروغ دے رہا ہے، اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ پہلو ہے – ’ہیریٹیج ٹورزم‘۔ ہیریٹیج ٹورزم میں مالی اعتبار سے تو بہت زیادہ امکانات ہیں ہی ، اس میں ترقی کے نئے راستے بھی کھلتے ہیں۔  ڈانڈی میں نمک ستیہ گرہ کی یاد میں تیار کی گئی یادگار ہو یا  پھر جلیانوالہ باغ کی یادگار کی تعمیر نو ہو ، ایکتا نگر کیوڑیہ میں اسٹیچو آف یونٹی  ہو یا  پھر پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کی یادگار کی تعمیر، دہلی میں بابا صاحب میموریل  ہو یا پھر  رانچی میں بھگوان برسا منڈا میموریل پارک اور میوزیم، ایودھیا - بنارس کے گھاٹوں کی تذئین کاری ہو یا  پھر ملک بھر میں تاریخی مندروں اور عقیدت کے مقامات کی بحالی ہو، ’ہیریٹیج ٹورزم‘ کو  فروغ دینے کے لیے بھارت ایک قومی سطح کی  مہم چل رہی ہے۔ سودیش درشن جیسی کئی اسکیموں کے ذریعے ہیریٹیج ٹورزم کو  رفتار دی جارہی ہے۔ اور پوری دنیا کا تجربہ یہی ہے کہ کیسے  ہیریٹیج ٹورزم لوگوں کی آمدنی بڑھانے میں ، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں بڑا رول  ادا کرتا ہے۔ 21ویں صدی کا بھارت  اپنے اس پوٹینشیل  کو سمجھتے ہوئے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔

 

ساتھیو،

بھارت  کو غلامی کے سینکڑوں  برسوں  کے دور سے آزادی، تین دھاروں کی مشترکہ کوششوں سے ملی تھی۔ ایک دھارا انقلاب کا تھا، دوسرا دھارا ستیہ گرہ کا  تھا اور تیسرا دھارا  تھا عوامی بیداری اور تخلیقی کاموں  کا۔ میرے ذہن میں یہ تینوں ہی  دھارے ترنگے کے تینوں رنگوں میں ابھر رہے ہیں۔ یہ احساس میرے ذہن و  دماغ میں بار بار  یہ خیال  ظاہر  ہو رہا ہے۔ ہمارے ترنگے کا کیسریا رنگ انقلاب کے دھارے کی علامت ہے۔ سفید رنگ ستیہ گرہ اور عدم تشدد کے دھارے کی علامت ہے۔ سبز رنگ، تخلیقی رجحانات کا دھارا، بھارتی اقدار پر مبنی تعلیم کو فروغ دینے کا، حب الوطنی سے متعلق ادبی تخلیقات، بھگتی تحریک، یہ ساری باتیں اس میں پنہاں ہیں۔ اب  ترنگے کے اندر نیلے چکر کو میں  بھارت  کے ثقافتی شعور کی علامت کے طور پر دیکھتا ہوں۔ وید سے وویکانند تک، بدھ سے گاندھی تک، یہ چکر چلتا رہا، متھرا کے ورنداون، کروکشیتر کا موہن، ان کا سدرشن چکر اور پوربندر کے موہن کا چرخہ دھاری  چکر، یہ چکر  کبھی رکا  نہیں۔

 

اور ساتھیو،

آج جب میں بپلوبی بھارت گیلری کا افتتاح کر رہا ہوں، ترنگے کے تین رنگوں میں، نئے بھارت  کا مستقبل بھی دیکھ رہا ہوں۔ کیسریا  رنگ اب ہمیں محنت، فرض اور قومی سلامتی کی تحریک دیتا ہے۔ سفید رنگ اب ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پرایاس‘ کا مترادف ہے۔ ہرا رنگ آج ماحولیات کے تحفظ کے لیے، قابل تجدید توانائی کے لئے  بھارت  کے بڑے اہداف کی علامت ہے۔ گرین انرجی سے لے کر گرین ہائیڈروجن تک، بائیو فیول سے لے کر ایتھنول بلینڈنگ تک، نیچرل فارمنگ سے لے کر گوبردھن یوجنا تک، سب اس کے عکس بن رہے ہیں۔ اور ترنگے میں لگا  نیلا  چکر آج بلیو اکانومی کا مترادف ہے۔ بھارت  کے  پاس  موجود بے پناہ سمندری وسائل، وسیع ساحلی پٹی، ہماری جل شکتی، بھارت  کی ترقی کو مسلسل رفتار دے رہی ہے۔

 

اور ساتھیو،

مجھے خوشی ہے کہ ترنگے کی اس آن بان اور شان میں مزید اضافے  کا بیڑا ملک کے نوجوانوں نے اٹھایا  ہواہے۔ یہ ملک کے نوجوان  ہی تھے جنہوں نے ہر دور میں بھارت  کی جنگ آزادی کی مشعل  اپنے ہاتھ میں  تھام رکھی تھی۔ آپ  یاد کیجئے کہ آج کے دن جب  بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو کو پھانسی  ہوئی تو یہ  23-24 سال کے نوجوان تھے۔ خودی رام بوس کی عمر  تو پھانسی کے وقت ان سے بھی  بہت کم تھی۔ بھگوان برسا منڈا  25-26 سال کے تھے، چندر شیکھر آزاد   24-25 سال کے تھے، اور انہوں نے انگریز حکومت کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ بھارت  کے نوجوانوں کی  صلاحیت نہ اس وقت کم تھی اور نہ آج  کم ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں -  کبھی اپنی  طاقتوں، اپنے خوابوں کو  کم نہیں آنکئے گا۔ ایسا کوئی کام نہیں جو بھارت  کا نوجوان نہ کر سکے۔ ایسا کوئی ہدف نہیں  جو بھارت  کا نوجوان حاصل نہ کر سکے۔ آزادی کے 100 برس ہونے پر بھارت  جس بھی بلندی پر ہوگا،   2047 میں بھارت جہاں جس اونچائی  پر پہنچے گا۔ وہ آج کے نوجوانوں کے دم پر ہی ہوگا۔ اس لیے آج جو نوجوان ہیں ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد  ہونا چاہیے  نئے بھارت  کی تعمیر میں اپنا  تعاون۔ آئندہ  25 برسوں میں بھارت  کے نوجوانوں کی محنت، بھارت  کی تقدیر بنائے گی، بھارت  کے مستقبل  کو سنوارے  گی۔

 

ساتھیو،

بھارت  کی آزادی کی تحریک نے ہمیں ہمیشہ  ایک بھارت - شریشٹھ بھارت کے لیے کام کرنے کی تحریک  دی ہے۔ آزادی کے  متوالے الگ الگ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے، ان کی  زبانیں اور بولیاں  الگ الگ تھیں۔ یہاں تک کہ  ذرائع اور وسائل  بھی مختلف تھے۔ لیکن قوم کی خدمت جذبے اور حب الوطنی یکساں تھی۔ وہ ’بھارت بھگتی‘ کے دھاگے سے بندھے تھے، ایک عزم  کے لیے لڑے تھے، کھڑے تھے۔ بھارت بھگتی کا یہی ہمیشہ رہنے والا جذبہ ، بھارت  کی یکجہتی، سالمیت آج بھی  ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آپ کی سیاسی سوچ کچھ بھی ہو، آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ہوں ، لیکن بھارت  کی یکجہتی اور  سالمیت کے ساتھ کسی بھی طرح کا کھلواڑ بھارت  کے مجاہدین  آزادی  کے ساتھ سب سے بڑی  غداری ہوگی۔  یکجہتی کے بغیر  ہم ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو بھی مستحکم نہیں کر پائیں گے۔ ملک کے آئینی اداروں کا احترام، آئینی عہدوں کا احترام، تمام شہریوں کے تئیں یکساں جذبات، ان کے ساتھ  ہمدردی، ملک کی یکجہتی کو تقوجیت دیتی ہے۔ آج کے اس دور میں ہمیں ملکی  یکجہتی  کے خلاف کام کرنے والے ہر ایک عنصر پر نظر رکھنی ہے، اور اس کا سختی سے مقابلہ کرنا ہے۔ آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسر منا رہے ہیں تو یکجہتی کے اس امرت کی حفاظت کرنا ، یہ بھی ہماری بڑی ذمہ داری ہے۔

بھائی بہنو،

ہمیں نئے بھارت  میں نئے  نظریئے  کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ یہ نیا  نظریہ بھارت  کی خود اعتمادی کا ہے، خود  کفیلی کا ہے، قدامت کی  شناخت کرنے کا ہے، مستقبل کے فروغ  کا ہے۔ اور اس میں فرض کے جذبے کی ہی  سب سے زیادہ اہمیت  ہے۔ ہم آج اپنے فرائض پر جس  جذبے سے عمل کریں گے، ہماری کوششیں  میں جتنی  شدت  ہو گی، ملک کا مستقبل اتنا ہی شاندار ہوگا۔ اس لیے آج  ’فرائض کی ادائیگی‘  ہی   ہماری قومی تحریک ہونی   چاہیے۔’فرائض  ہی بھارت کا قومی کردار ‘ ہونا چاہیے۔  اور یہ  فرض کیا ہے؟ ہم  بہت آسانی سے اپنے  آس پاس اپنے فرائض کے بارے میں فیصلہ  بھی  کر سکتے ہیں، کوششیں بھی کر سکتے ہیں، نتیجہ بھی لاسکتے ہیں۔ جب ہم سڑکوں پر چلتے ہوئے، ٹرینوں میں، بس اڈوں پر، گلیوں میں، بازاروں میں ، گندگی نہیں پھیلاتے، سووچھتا کا خیال رکھتے ہیں، تو ہم اپنے فرض  کو ادا کرتے ہیں۔ وقت پر ویکسینیشن کرانا، پانی کے تحفظ میں تعاون کرنا، ماحولیات کے تحفظ  میں مدد کرنا بھی فرض کی ایک مثال ہی تو ہے۔ جب ہم ڈیجیٹل ادائیگی کرتے ہیں، دوسروں میں اس کے بارے میں بیداری پھیلاتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں، تو بھی اپنا فرض  ہی ادا کرتے ہیں۔ جب ہم  کوئی مقامی پروڈکٹ  خریدتے ہیں، ووکل فار لوکل ہوتے ہیں ، تب بھی ہم اپنا فرض  ہی ادا کرتے ہیں۔ جب ہم آتم نربھر بھارت  مہم کو رفتار دیتے ہیں تو اپنا فرض ہی ادا   کرتے ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آج  بھی بھارت  نے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپے کی مصنوعات کی برآمدات  کا نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ بھارت  کا بڑھتا ہوا ایکسپورٹ ، ہماری صنعت کی طاقت، ہمارے ایم ایس ایم ایز ، ہماری مینوفیکچرنگ صلاحیت، ہمارے زرعی سیکٹر  کی صلاحیت کی علامت ہیں۔

 

ساتھیو،

جب ایک ایک بھارت کا باشندہ اپنے فرائض کو اولین ترجیح دے گا، پوری لگن کے ساتھ ان پر عمل کرے گا، تو بھارت  کو آگے بڑھنے میں کوئی مصیبت  نہیں آئے گی، آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔  ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو لاکھوں نوجوان، لاکھوں خواتین، ہمارے بچے، ہمارے خاندان، فرض کے  اس جذبے کو جی رہے ہیں۔ یہ جذبہ جیسے جیسے  ہر ایک  بھارتی باشندے کا کردار بنتا جائے گا، بھارت  کا مستقبل  اتنا ہی روشن ہوتا جائے گا۔  میں کوی  مکند داس جی کے الفاظ میں کہوں ’’ ''की आनंदोध्वनि उठलो बौन्गो-भूमे बौन्गो-भूमे, बौन्गो-भूमे, बौन्गो-भूमे, भारौतभूमे जेगेच्छे आज भारौतबाशी आर कि माना शोने, लेगेच्छे आपोन काजे, जार जा नीछे मोने''‘‘۔  کروڑوں بھارتی شہریوں کا یہ جذبہ مسلسل تقویت پاتا رہے،  انقلاب کے  بہادروں کے جذبے سے ہمیں ہمیشہ تحریک ملتی رہے، اسی خواہش کے ساتھ بپلوبی بھارت گیلری کے لیے میں پھر سے  آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں! وندے ماترم! شکریہ!

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw

Media Coverage

India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs Fifth National Conference of Chief Secretaries in Delhi
December 28, 2025
Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence in governance, delivery and manufacturing: PM
PM says India has boarded the ‘Reform Express’, powered by the strength of its youth
PM highlights that India's demographic advantage can significantly accelerate the journey towards Viksit Bharat
‘Made in India’ must become a symbol of global excellence and competitiveness: PM
PM emphasises the need to strengthen Aatmanirbharta and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect’
PM suggests identifying 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience
PM urges every State must to give top priority to soon to be launched National Manufacturing Mission
PM calls upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and make India a Global Services Giant
PM emphasises on shifting to high value agriculture to make India the food basket of the world
PM directs States to prepare roadmap for creating a global level tourism destination

Prime Minister Narendra Modi addressed the 5th National Conference of Chief Secretaries in Delhi, earlier today. The three-day Conference was held in Pusa, Delhi from 26 to 28 December, 2025.

Prime Minister observed that this conference marks another decisive step in strengthening the spirit of cooperative federalism and deepening Centre-State partnership to achieve the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised that Human Capital comprising knowledge, skills, health and capabilities is the fundamental driver of economic growth and social progress and must be developed through a coordinated Whole-of-Government approach.

The Conference included discussions around the overarching theme of ‘Human Capital for Viksit Bharat’. Highlighting India's demographic advantage, the Prime Minister stated that nearly 70 percent of the population is in the working-age group, creating a unique historical opportunity which, when combined with economic progress, can significantly accelerate India's journey towards Viksit Bharat.

Prime Minister said that India has boarded the “Reform Express”, driven primarily by the strength of its young population, and empowering this demographic remains the government’s key priority. Prime Minister noted that the Conference is being held at a time when the country is witnessing next-generation reforms and moving steadily towards becoming a major global economic power.

He further observed that Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence and urged all stakeholders to move beyond average outcomes. Emphasising quality in governance, service delivery and manufacturing, the Prime Minister stated that the label "Made in India' must become a symbol of excellence and global competitiveness.

Prime Minister emphasised the need to strengthen Aatmanirbharta, stating that India must pursue self-reliance with zero defect in products and minimal environmental impact, making the label 'Made in India' synonymous with quality and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect.’ He urged the Centre and States to jointly identify 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience in line with the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised the need to map skill demand at the State and global levels to better design skill development strategies. In higher education too, he suggested that there is a need for academia and industry to work together to create high quality talent.

For livelihoods of youth, Prime Minister observed that tourism can play a huge role. He highlighted that India has a rich heritage and history with a potential to be among the top global tourist destinations. He urged the States to prepare a roadmap for creating at least one global level tourist destination and nourishing an entire tourist ecosystem.

PM Modi said that it is important to align the Indian national sports calendar with the global sports calendar. India is working to host the 2036 Olympics. India needs to prepare infrastructure and sports ecosystem at par with global standards. He observed that young kids should be identified, nurtured and trained to compete at that time. He urged the States that the next 10 years must be invested in them, only then will India get desired results in such sports events. Organising and promoting sports events and tournaments at local and district level and keeping data of players will create a vibrant sports environment.

PM Modi said that soon India would be launching the National Manufacturing Mission (NMM). Every State must give this top priority and create infrastructure to attract global companies. He further said that it included Ease of Doing Business, especially with respect to land, utilities and social infrastructure. He also called upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and strengthen the services sector. In the services sector, PM Modi said that there should be greater emphasis on other areas like Healthcare, education, transport, tourism, professional services, AI, etc. to make India a Global Services Giant.

Prime Minister also emphasized that as India aspires to be the food basket of the world, we need to shift to high value agriculture, dairy, fisheries, with a focus on exports. He pointed out that the PM Dhan Dhanya Scheme has identified 100 districts with lower productivity. Similarly, in learning outcomes States must identify the lowest 100 districts and must work on addressing the issues around the low indicators.

PM also urged the States to use Gyan Bharatam Mission for digitization of manuscripts. He said that States may start a Abhiyan to digitize such manuscripts available in States. Once these manuscripts are digitized, Al can be used for synthesizing the wisdom and knowledge available.

Prime Minister noted that the Conference reflects India’s tradition of collective thinking and constructive policy dialogue, and that the Chief Secretaries Conference, institutionalised by the Government of India, has become an effective platform for collective deliberation.

Prime Minister emphasised that States should work in tandem with the discussions and decisions emerging from both the Chief Secretaries and the DGPs Conferences to strengthen governance and implementation.

Prime Minister suggested that similar conferences could be replicated at the departmental level to promote a national perspective among officers and improve governance outcomes in pursuit of Viksit Bharat.

Prime Minister also said that all States and UTs must prepare capacity building plan along with the Capacity Building Commission. He said that use of Al in governance and awareness on cyber security is need of the hour. States and Centre have to put emphasis on cyber security for the security of every citizen.

Prime Minister said that the technology can provide secure and stable solutions through our entire life cycle. There is a need to utilise technology to bring about quality in governance.

In the conclusion, Prime Minister said that every State must create 10-year actionable plans based on the discussions of this Conference with 1, 2, 5 and 10 year target timelines wherein technology can be utilised for regular monitoring.

The three-day Conference emphasised on special themes which included Early Childhood Education; Schooling; Skilling; Higher Education; and Sports and Extracurricular Activities recognising their role in building a resilient, inclusive and future-ready workforce.

Discussion during the Conference

The discussions during the Conference reflected the spirit of Team India, where the Centre and States came together with a shared commitment to transform ideas into action. The deliberations emphasised the importance of ensuring time-bound implementation of agreed outcomes so that the vision of Viksit Bharat translates into tangible improvements in citizens’ lives. The sessions provided a comprehensive assessment of the current situation, key challenges and possible solutions across priority areas related to human capital development.

The Conference also facilitated focused deliberations over meals on Heritage & Manuscript Preservation and Digitisation; and Ayush for All with emphasis on integrating knowledge in primary healthcare delivery.

The deliberations also emphasised the importance of effective delivery, citizen-centric governance and outcome-oriented implementation to ensure that development initiatives translate into measurable on-ground impact. The discussions highlighted the need to strengthen institutional capacity, improve inter-departmental coordination and adopt data-driven monitoring frameworks to enhance service delivery. Focus was placed on simplifying processes, leveraging technology and ensuring last-mile reach so that benefits of development reach every citizen in a timely, transparent and inclusive manner, in alignment with the vision of Viksit Bharat.

The Conference featured a series of special sessions that enabled focused deliberations on cross-cutting and emerging priorities. These sessions examined policy pathways and best practices on Deregulation in States, Technology in Governance: Opportunities, Risks & Mitigation; AgriStack for Smart Supply Chain & Market Linkages; One State, One World Class Tourist Destination; Aatmanirbhar Bharat & Swadeshi; and Plans for a post-Left Wing Extremism future. The discussions highlighted the importance of cooperative federalism, replication of successful State-level initiatives and time-bound implementation to translate deliberations into measurable outcomes.

The Conference was attended by Chief Secretaries, senior officials of all States/Union Territories, domain experts and senior officers in the centre.