وزیر اعظم نریندرمودی اور وفاقی چانسلر اولاف شولز نے نئی دہلی میں 25 اکتوبر 2024 کو ہند-جرمنی بین حکومتی مشاورت (7ویں آئی جی سی)کے ساتویں دور کی مشترکہ صدارت کی۔ وفد میں ہندوستان کی طرف سے دفاع، خارجہ امور، تجارت اور صنعت، محنت اور روزگار، سائنس اور ٹیکنالوجی (ایم او ایس) اور ہنر کی ترقی (ایم او ایس)کے وزراء جبکہ جرمنی کی طرف سے اقتصادی امور اور موسمیاتی کارروائی، خارجہ امور، محنت اور سماجی امور  اورتعلیم وتحقیق کے وزرا کے ساتھ ساتھ پارلیمانی اسٹیٹ سیکرٹریز برائے خزانہ؛ ماحولیات، فطرت کا تحفظ، نیوکلیئر سیفٹی اور صارفین کا تحفظ؛ اور اقتصادی تعاون اور ترقی نیز  دونوں اطراف کے سینئر حکام شامل تھے۔

2. وزیر اعظم نریندر مودی نے چانسلر اولاف شولز کا بطور چانسلر ہندوستان کے تیسرے دورے پر پرتپاک خیرمقدم کیا۔ دونوں لیڈروں نے حکومت، صنعت، سول سوسائٹی اور اکیڈمیا  میں دو طرفہ مشغولیت کی نئی رفتار کی مخلصانہ تعریف کی جس نے ہندوستان اور جرمنی کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو آگے بڑھانے اور گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

3. دونوں رہنماؤں نے جرمنی، ہندوستان اور ہند-بحرالکاہل خطے کے درمیان اقتصادی تعلقات اور اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے جرمن بزنس کی ایشیا-پیسفک کانفرنس (اے پی کے)کی اہمیت پر زور دیا، جو کہ 7ویں  آئی جی سی کے متوازی طور پر نئی دہلی میں منعقد ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر ہندوستان میں 2024 کانفرنس کی میزبانی کا فیصلہ ہند-بحرالکاہل اور عالمی سطح پر ہندوستان کے سیاسی وزن کو واضح کرتا ہے۔

4. ''جدت، نقل و حرکت اور پائیداری کے ساتھ ساتھ پیش قدمی '' کے نعرے کے تحت، 7ویں آئی جی سی نے، ٹیکنالوجی اور اختراع، محنت اور ہنر، نقل مکانی اور نقل و حرکت، موسمیاتی کارروائی، سبز اور پائیدار ترقی کے ساتھ ساتھ اقتصادی، دفاعی اور اسٹریٹجک تعاون  پر خصوصی زور دیا۔ دونوں فریق  اس بات پر متفق ہیں کہ مذکورہ بالا ڈومینز ہماری مزید کثیر جہتی شراکت داری کے اہم محرک ہوں گے جو تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، سائنس، ٹیکنالوجی، اختراع، پائیداری، قابل تجدید توانائی، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، ترقیاتی تعاون، ثقافت، تعلیم ، پائیدار نقل و حرکت، پائیدار وسائل کا انتظام، حیاتیاتی تنوع، آب و ہوا کی لچک اور لوگوں کے درمیان تعلقات پر محیط ہے۔

5. سال 2024 سائنسی تحقیق اور تکنیکی ترقی میں تعاون پر بین حکومتی معاہدے پر دستخط کی 50 ویں سالگرہ ہے، جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی، تحقیق اور اختراع میں ہند-جرمن تعاون کے فریم ورک کو ادارہ جاتی شکل دی  ۔ اس تناظر میں، 7ویں آئی جی سی نے اس سلسلے میں ہندوستان اور جرمنی کے درمیان قریبی تعلقات کی تجدید کرنے اور تعاون کے ایک اہم ستون کے طور پر ٹیکنالوجی اور اختراع کی ترقی کو ترجیح دینے کا موقع پیش کیا۔

6. چھٹھی آئی جی سی کے دوران، دونوں حکومتوں نے گرین اینڈ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پارٹنرشپ (جی ایس ڈی پی) کا اعلان کیا تھا، جو اس شعبے میں دو طرفہ فارمیٹس اور مشترکہ اقدامات کے لیے ایک چھتری کا کام کرتا ہے۔ اس کے بعد دونوں فریقوں نے دسمبر 2022 میں مائیگریشن اینڈ موبلٹی پارٹنرشپ ایگریمنٹ (ایم ایم پی اے)پر دستخط کیے اور فروری 2023 میں''اختراعات اور ٹیکنالوجی میں تعاون کو بڑھانے کے لیےانڈیا-جرمنی ویژن '' کا آغاز کیا۔ 6 ویں آئی جی سی کے نتائج اور مختلف معاہدوں کو یاد کرتے ہوئے اس کے بعد دونوں طرف سے، دونوں حکومتوں نے''انڈیا-جرمنی انوویشن اینڈ ٹیکنالوجی پارٹنرشپ روڈ میپ'' کا آغاز کیا اور''انڈو-جرمن گرین ہائیڈروجن روڈ میپ'' متعارف کرایا، جس کا مقصد گرین ہائیڈروجن کی مارکیٹ  ریمپ اپ کو فروغ دینا ہےاور امن، سلامتی اور استحکام کے لیے ایک ساتھ بڑھنا ہے۔

7. دونوں رہنماؤں نے مستقبل کے لیے معاہدے کو نوٹ کیا اور مشترکہ اقدار اور اصولوں بشمول جمہوریت، آزادی، بین الاقوامی امن اور سلامتی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کے مطابق، اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظم کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں حکومتوں نے عصری حقائق کی عکاسی کرنے، موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے اور پورے ملک میں امن و استحکام کی حمایت اور تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کی مستقل اور غیر مستقل دونوں قسموں کی توسیع سمیت کثیرجہتی  نظام کو مضبوط بنانے اور اس میں اصلاحات کے لیے اپنے عزم پر بھی زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک مقررہ وقت کے اندر آئی جی این میں متن پر مبنی مذاکرات پر زور دیا۔

8. ہندوستان اور جرمنی نے اتفاق کیا کہ علاقائی اور عالمی بحرانوں کو مؤثر طریقے سے حل کرنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو درپیش مشکلات اصلاحات کی فوری ضرورت کی زبردست یاد دہانی کراتی ہیں۔ ''گروپ آف فور (جی4)'' کے ممبروں کے طور پر، ہندوستان اور جرمنی نے  ایسی سلامتی کونسل کے لیے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا جو موثر، شفاف اور 21ویں صدی کے حقائق کی عکاس ہو۔

9. رہنماؤں نے یوکرین میں جاری جنگ بشمول اس کے خوفناک اور المناک انسانی نتائج پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بین الاقوامی قانون کے مطابق جامع، منصفانہ اور دیرپا امن کی ضرورت کا اعادہ کیا، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کے مطابق ہو ، اور جس میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ملحوظ رکھا گیا ہو ۔ انہوں نے عالمی خوراک اور توانائی کے تحفظ کے حوالے سے یوکرین میں جنگ کے منفی اثرات کو بھی نوٹ کیا، خاص طور پر ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے۔ اس جنگ کے تناظر میں، انہوں نے یہ نظریہ شیئر کیا کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا استعمال کا خطرہ ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق، اس بات کا اعادہ کیا کہ تمام ریاستوں کو کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

10. رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے حصول میں اپنی مشترکہ دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے دہشت گردانہ حملوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور غزہ میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی جانوں کے ضیاع اور انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی اور فوری جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کی وسیع پیمانے پر رسائی اور مسلسل تقسیم کا مطالبہ کیا۔ رہنماؤں نے خطے میں تنازعات کو بڑھنے اور پھیلنے سے روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سلسلے میں، انہوں نے تمام علاقائی پلیئرزسے ذمہ داری اور تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا۔ دونوں فریقوں نے شہریوں کی جانوں کے تحفظ اور شہریوں کو محفوظ، بروقت اور پائیدار انسانی امداد فراہم کرنے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا اور اس سلسلے میں تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں۔ رہنماؤں نے لبنان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے فوری طور پر دشمنی کے خاتمے پر زور دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ غزہ اور لبنان میں تنازعات کا حل صرف سفارتی ذرائع سے ہی ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 بلیو لائن کے ساتھ سفارتی حل کا راستہ بتاتی ہے۔ رہنماؤں نے مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی حل کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا، جس کے نتیجے میں ایک خودمختار، قابل عمل اور آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی، جو محفوظ اور باہمی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے، وقار اور امن کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ رہے گی  اور جس میں  اسرائیل کے جائز سیکورٹی خدشات کا خیال رکھا گیا ہوگا ۔

 

11. رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں کے طور پر، ہندوستان اور یوروپی یونین کثیر قطبی دنیا میں سلامتی، خوشحالی اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے میں مشترکہ مفاد رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان-یوروپی یونین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو گہرا کرنے کی اہمیت پر زور دیا جس سے نہ صرف دونوں فریقوں کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر اس کے دور رس مثبت اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ قائدین نے ہندوستان-یوروپی یونین ٹریڈ اینڈ ٹکنالوجی کونسل کو اپنی مضبوط حمایت کا بھی اظہار کیا جو تجارت، بھروسے مند ٹیکنالوجیز اور سیکورٹی کے اہم شعبوں میں قریبی مشغولیت کے لیے ایک اختراعی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا۔ انہوں نے دو طرفہ اور یوروپی یونین کی سطح پر کوششوں کو مربوط کرنے پر اتفاق کیا تاکہ ہندوستان-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری سمیت اہم کنکٹیوٹی اقدامات کو آگے بڑھایا جا سکے جس میں ہندوستان، جرمنی اور یوروپی یونین ممبران کے ساتھ ساتھ یوروپی یونین انیشیٹو گلوبل گیٹ وے بھی شامل ہیں۔

12. دونوں رہنماؤں نے مذاکرات کے جلد از جلد اختتام پر زور دیتے ہوئے، یوروپی یونین اور ہندوستان کے درمیان ایک جامع آزاد تجارتی معاہدے، سرمایہ کاری کے تحفظ کے معاہدے اور جغرافیائی اشارے پر ایک معاہدے کی اہم اہمیت پر زور دیا۔

13. دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کی اس کی تمام شکلوں اور مظاہر بشمول دہشت گرد پراکسیوں کے استعمال اور سرحد پار دہشت گردی کی، واضح طور پر مذمت کی۔ دونوں فریقوں  نے اتفاق کیا کہ دہشت گردی بین الاقوامی امن و استحکام کے لیے بدستور سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل(یو این ایس سی) 1267 پابندیوں کی کمیٹی کی طرف سے ممنوعہ گروہوں سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا۔ دونوں فریقوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور انفرااسٹرکچر کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کے مطابق دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور فنانسنگ کو روکنے کے لیے کام جاری رکھیں۔

14. دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے مقاصد کے لیے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز کے نظام، دہشت گردوں اور دہشت گرد اداروں کی جانب سے ورچوئل اثاثوں کے استعمال اور بنیاد پرستی کے لیے معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے ابھرتے ہوئے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے 2022 میں ہندوستان میں یو این سی ٹی سی کے اجلاس کے انعقاد کے دوران دہشت گردی کے مقاصد کے لیے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے استعمال کے انسداد سے متعلق دہلی اعلامیہ کو اپنانے کا خیر مقدم کیا۔

15. دہشت گردی سے نمٹنے اور اس سلسلے میں عالمی تعاون کے فریم ورک کو مضبوط بنانے کے مشترکہ عزم کو تسلیم کرتے ہوئے، دونوں رہنماؤں نے انسداد منی لانڈرنگ پر بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھنے اور ایف اے ٹی ایف سمیت تمام ممالک کی طرف سے دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا۔ دونوں فریقوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ دونوں فریقوں نے انسداد دہشت گردی پر مشترکہ ورکنگ گروپ کی باقاعدہ مشاورت کے انعقاد کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا تاکہ انٹیلی جنس کے حقیقی وقت میں اشتراک اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے چینلز کو مضبوط کیا جا سکے۔ دونوں فریقوں نے دہشت گرد گروپوں اور افراد کے خلاف پابندیوں اور عہدوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ جاری رکھنے، بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے، اور دہشت گردوں کے انٹرنیٹ کے استعمال اور دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کے بارے میں بھی اپنے  عزم  کا اظہار کیا۔

16. دہشت گردی سے متعلق جرائم سمیت مجرموں کو روکنے، دبانے، تفتیش اور مقدمہ چلانے کے لیے قریبی تعاون کو یقینی بنانے کے مقصد سے، ہندوستان اور جرمنی نے مجرمانہ معاملات میں باہمی قانونی معاونت کا معاہدہ (ایم ایل اے ٹی)کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہندوستان-جرمنی ایم ایل اے ٹی ،دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی تعاون کو مضبوط بنانے میں ایک اہم سنگ میل ہے جو دونوں ممالک کے درمیان معلومات اور شواہد کے اشتراک، باہمی صلاحیت سازی اور بہترین طریقوں کے اشتراک کی سہولت بہم پہنچائے  گا۔

17. سیکورٹی تعاون کو گہرا کرنے میں مشترکہ مفاد کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داروں کے طور پر، دونوں فریقوں نے کلاسیفائڈ معلومات کے تبادلے اور باہمی تحفظ کے معاہدے پر دستخط کیے، اس طرح ہندوستانی اور جرمن اداروں کے درمیان تعاون اور اشتراک کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا اور اس بارے میں رہنمائی فراہم کی گئی کہ خفیہ معلومات کو کس طرح فراہم کیا جائے ،سنبھالا جائے، محفوظ کیا جائے اور منتقل کیا جائے۔

18. دنیا بھر میں کلیدی خطوں میں خارجہ پالیسی کے تناظر کو بہتر انداز میں سمجھنے کے مقصد سے، دونوں حکومتوں نے متعلقہ وزارت خارجہ کے درمیان مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ (ڈبلیو اے این اے) پر بھارت-جرمنی ڈائیلاگ قائم کرنے کا فیصلہ کیا، جو کہ افریقہ اور مشرقی ایشیا پر ڈائیلاگ  میکانزم کے علاوہ ہوگا ۔ دونوں حکومتوں نے پالیسی پلاننگ، سائبر سیکورٹی، سائبر ایشوز اور اقوام متحدہ سمیت باہمی تشویش کے اہم موضوعات پر باقاعدہ مشاورت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔

19. تھنک ٹینکس اور خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کے ماہرین کے درمیان ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے، دونوں حکومتوں نے انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز (آئی سی ڈبلیو اے) کے درمیان ، ہندوستان-جرمنی ٹریک 1.5 ڈائیلاگ ،ترقی پذیر ممالک کے لیے  تحقیقی اور معلوماتی نظام (آر آئی ایس)اور ایم ای اے اور جرمن انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل اینڈ ایریا اسٹڈیز (جی آئی جی اے)، جرمن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سیکورٹی افیئرز (ایس ڈبلیو پی)اور جرمن وفاقی دفتر خارجہ کی افادیت کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ اس ڈائیلاگ فارمیٹ کی اگلی میٹنگ نومبر 2024 میں طے کی گئی ہے۔ دونوں حکومتوں نے مشرقی ایشیا پر ٹریک 1.5 ڈائیلاگ کے آغاز کو بھی سراہا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ ان  سے دونوں فریقوں کو اپنی رسائی کو بہتر طور پر ہم آہنگ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے، دونوں فریقوں  نے جلد از جلد موقع پر ٹریک 1.5 ڈائیلاگ میکانزم کے اگلے ایڈیشن کو بلانے پر اتفاق کیا۔

20. دونوں فریق ایک آزاد، کھلے، جامع، پرامن اور خوشحال ہند-بحرالکاہل کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں جو بین الاقوامی قانون، خودمختاری کے لیے باہمی احترام، اور تنازعات کے پرامن حل، اور موثر علاقائی اداروں کے زیر اثر ہے۔ دونوں فریقوں نے آسیان کے اتحاد اور مرکزیت کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔ حکومت ہند نے انڈو پیسیفک اوشین انیشیٹو (آئی پی او آئی) کے صلاحیت سازی کے ستون میں جرمنی کی قیادت کا خیرمقدم کیا اور 2022 میں اپنے بین الاقوامی موسمیاتی اقدام کے تحت آئیڈیاز کے لیے ایک مسابقتی کال کے ذریعے 20 ملین یورو تک کے عزم کا خیرمقدم کیا۔

21. جرمنی نے ہندوستان کو اس کی کامیاب جی 20 صدارت پر مبارکباد دی جس نے جی 20 میں ترقیاتی ایجنڈے کو مرکز میں لایا۔ دونوں رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ جرمن جی 20 صدارت کے دوران کمپیٹ وِد افریقہ(سی ڈبلیو اے) پر ایک پلیٹ فارم شروع کرنے سے لے کر ہندوستان کی صدارت کے دوران جی20 کے مستقل رکن کے طور پر افریقی یونین کو شامل کرنے تک، جی20 نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ گلوبل ساؤتھ کو وسعت دی گئی ہے۔ ہندوستان اور جرمنی نے برازیل کی جی20 صدارت کی طرف سے طے کی گئی ترجیحات کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا، خاص طور پر گلوبل گورننس ریفارمز، دفاعی اور اسٹریٹجک تعاون کو مضبوط بنانے پر۔

22. دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مضبوط بنانے کے مشترکہ مقصد کو تسلیم کرتے ہوئے، حکومت ہند نے جرمن وفاقی حکومت کی تیزی سے برآمدی منظوریوں کی سہولت فراہم کرنے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا جس میں سازگار ریگولیٹری فیصلوں جیسے کہ جنرل اتھارٹی/جنرل لائسنس (اے جی جی) نظام شامل ہے ۔  دونوں فریقوں نے ہندوستان کو اسٹریٹجک برآمدات کی حمایت کرنے کا عہد کیا اور متعلقہ دفاعی صنعتوں کے درمیان مشترکہ ترقی، مشترکہ پیداوار اور مشترکہ تحقیق کی حوصلہ افزائی کی۔ دونوں حکومتوں نے بھارت اور جرمنی کے درمیان دفاعی صنعتی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے 24 اکتوبر کو نئی دہلی میں منعقدہ دفاعی گول میز کانفرنس کی تعریف کی۔

23. مسلح افواج کے درمیان باقاعدگی سے دوروں اور بڑھتی ہوئی بات چیت کے علاوہ، دونوں فریق اگلے سال ہندوستان میں ہونے والی ہائی ڈیفنس کمیٹی (ایچ ڈی سی) کی میٹنگ کے منتظر ہیں جس کا مقصد دفاعی تعاون کو اسٹریٹجک کے ایک اہم ستون کے طور پر فروغ دینا ہے۔ ہندوستان اور جرمنی نے سنٹر فار یو این پیس کیپنگ (سی یو این پی کے)، نئی دہلی اور جرمنی میں اس کے ہم منصب، ہیملبرگ میں بندیشور یونائٹیڈ نیشنز ٹریننگ سینٹر(جی اے ایف یو این ٹی سی) کے درمیان امن کی حفاظت سے متعلق تربیت میں تعاون کو حتمی شکل دینے پر بھی اتفاق کیا اور 2025 میں برلن میں ہونے والی پیس کیپنگ  وزارتی میٹنگ کے منتظر ہیں۔

24. دونوں فریقوں نے خوشحالی اور سلامتی کے ساتھ ساتھ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہند-بحرالکاہل کی اہمیت پر زور دیا۔ جرمنی ،انڈو پیسیفک کے لیے وفاقی حکومت کی پالیسی کے رہنما خطوط کے مطابق خطے کے ساتھ اپنی مصروفیات کو بڑھا دے گا۔ دونوں اطراف نے بین الاقوامی قانون کے مطابق نیوی گیشن کی آزادی اور بغیر کسی رکاوٹ کے سمندری راستوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا، جیسا کہ بحر ہند سمیت تمام سمندری ڈومینز میں اقوام متحدہ کے کنونشن آن دی لا آف دی سی(یو این سی ایل او ایس) 1982 میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس تناظر میں، دونوں حکومتوں نے اپنے مشترکہ ارادے کا اعلان کیا کہ ہندوستان اور جرمنی کی مسلح افواج کے درمیان باہمی لاجسٹک سپورٹ اور تبادلے کے سلسلے میں ایک میمورنڈم  آف ایگریمنٹ پر دستخط کیے جائیں تاکہ دفاعی اور سیکورٹی تعلقات کو مزید مضبوط کیا جا سکے اور باہمی لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی کے لیے بنیاد قائم کی جا سکےجس میں  انڈو پیسیفک تھیٹر شامل ہے ۔ ہند-بحرالکاہل میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کے مقصد سے، جرمنی آئی او آر میں سمندری ٹریفک کی نگرانی کے لیے گروگرام میں انفارمیشن فیوژن سینٹر - انڈین اوشین ریجن (آئی ایف سی-آئی او آر) میں ایک رابطہ افسر کو مستقل طور پر تعینات کرے گا، جس سے اس خطے میں قریبی تعاون کو مزید فروغ ملے گا۔

25. دونوں اطراف نے سلامتی اور دفاعی تعاون کے میدان میں ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں جرمنی کی بڑھتی ہوئی مشغولیت کا خیرمقدم کیا اور اگست 2024 میں ترنگ شکتی مشق کے دوران ہندوستانی اور جرمن فضائی افواج کے کامیاب تعاون کے ساتھ ساتھ گوا میں پورٹ کال ،اور جرمن نیول فریگیٹ''بیڈن ورٹمبرگ'' کے ساتھ جنگی امدادی جہاز ''فرینک فرٹ ایم مین'' اور ہندوستانی بحریہ کے درمیان مشترکہ بحری مشقوں کی تعریف کی ۔ جرمنی نے جولائی 2024 میں ہندوستانی بحریہ کے جہاز آئی این ایس تابر کی ہیمبرگ کے لیے پورٹ کال کا بھی خیر مقدم کیا۔

26. دونوں حکومتوں نے یورپی یونین کے طریقہ کار کے تحت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ دو طرفہ طور پر تحقیق، تعاون اور مشترکہ پیداوار کی سرگرمیوں کو بڑھانے کے ذریعے سلامتی اور دفاعی امور پر دو طرفہ تبادلوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا۔ اس سلسلے میں، دونوں فریق دفاعی شعبے میں صنعتی سطح پر تعاون بڑھانے کی حمایت کریں گے جس میں ٹیکنالوجی کے تعاون، مینوفیکچرنگ/کو پروڈکشن اور دفاعی پلیٹ فارمز اور آلات کی مشترکہ ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ جرمنی او سی سی اے آر (آرگنائزیشن فار جوائنٹ آرمامنٹ کوآپریشن) کے یوروڈرون پروگرام میں مبصر کی حیثیت کے لیے ہندوستان کی درخواست کا بھی خیر مقدم کرتا ہے۔

27. دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان سائنس اور ٹکنالوجی میں 50 سال کے کامیاب تعاون کی تعریف کی اور 'انڈیا-جرمنی انوویشن اینڈ ٹکنالوجی پارٹنرشپ روڈ میپ' کے آغاز کے ذریعے اسے مزید وسعت دینے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا،جو دونوں ممالک کے سرکاری اور نجی شعبوں اور تحقیقی اداروں کے لیے ایک رہنما خطوط کے طور پر کام کرے گا تاکہ قابل تجدید توانائی، اسٹارٹ اپس، سیمی کنڈکٹرز، اے آئی اور کوانٹم ٹیکنالوجیز، ماحولیاتی خطرہ اور پائیدار وسائل کے انتظام، آب و ہوا کے شعبوں میں ہمارے تعاون کو آگے بڑھا سکے۔ دونوں رہنماؤں نے مستقبل کی خوشحالی، ترقی اور ممکنہ تعاون کے لیے ایک اہم اور امید افزا علاقے کے طور پر خلائی اور خلائی ٹیکنالوجیز کی مزید نشاندہی کی۔

28. دونوں رہنماؤں نے تحقیق اور تعلیم کے میدان میں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تبادلوں اور جرمنی میں زیر تعلیم ہندوستانی طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ صنعت-تعلیمی اسٹریٹجک ریسرچ اور ترقیاتی شراکت داری کو فروغ دینے میں انڈو-جرمن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر (آئی جی ایس ٹی سی)کے اہم کردار کا بھی اعتراف کیا۔ دونوں رہنماؤں نےآئی جی ایس ٹی سی کے حالیہ اقدامات اور جدید مواد کے میدان میں 2+2 منصوبوں کی حمایت کے لیے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کا خیرمقدم کیا۔ آئی جی ایس ٹی سی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، دونوں رہنماؤں نے مشترکہ اقدار پر مبنی اور جدت طرازی کی  زیر قیادت ٹیکنالوجی کی ترقی اور مینوفیکچرنگ سے چلنے والی نئی شراکت داریوں کو وسعت دینے اور بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

29. دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان پہلے بنیادی ریسرچ کنسورشیا ماڈل ، یعنی انٹرنیشنل ریسرچ ٹریننگ گروپ (آئی آر ٹی جی) کے آغاز کو تسلیم کیاجسے مشترکہ طور پر ڈیپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی)اور جرمن ریسرچ فاؤنڈیشن (ڈی ایف جی)کی شمولیت سے شروع کی ا گیا ہے  اور جس میں آئی آئی ایس ای آر   ترو اننت پور    م  اوروزبرگ یونیورسٹی سے سپر مالیوکولر میٹریسز میں فوٹو لومینی سینس کے محققین کا پہلا گروپ شامل ہے ۔ سائنس اور اختراعی منظر نامے کو آگے بڑھاتے ہوئے، انہوں نے انڈو-جرمن انوویشن اینڈ انکیوبیشن ایکسچینج پروگرام شروع کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا تاکہ تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے سائنسی اختراعات اور انکیوبیشن ایکو سسٹم کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی مہارت اور صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

30. دونوں رہنماؤں نے اعلیٰ سطح کی مصروفیت پر بھی اپنی تعریف اور اطمینان کا اظہار کیا جیسا کہ جرمنی میں فیسلٹی فار اینٹی-پروٹون اینڈ آئی اون ریسرچ(ایف اے آئی آر) اور ڈچ الیکٹرونین سنکروٹون(ڈی ای ایس وائی) میں میگا سائنس سہولیات میں ہندوستان کی شرکت سے ظاہرہے۔ انہوں نے ایف اے آئی آرسہولت کے بروقت عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے مالیات سمیت اپنے عزم کو بڑھایا۔ دونوں رہنما   سنکروٹرون ریڈیئیشن فیسلٹی پی ای ٹی آر اے-III اور ڈی ای ایس وائی میں فری الیکٹران لیزر سہولت فلیش میں تعاون کے تسلسل کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔

31. دونوں حکومتوں نے اعلیٰ تعلیم میں مسلسل بڑھتی ہوئی شراکت داری کا خیرمقدم کیا جو دوہری اور مشترکہ ڈگریوں کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے درمیان باہمی تحقیق اور تعلیمی اور ادارہ جاتی تبادلوں کو تیز کرتے ہیں۔ خاص طور پر دونوں فریقوں نے ‘‘واٹر سیکورٹی اینڈ گلوبل چینج’’ میں پہلے ہند-جرمن مشترکہ ماسٹرز ڈگری پروگرام کے لیے اپنی تعریف اور مکمل حمایت کا اظہار کیا، جو کہ ٹی یو ڈریسڈین، آر ڈبلیو ٹی ایچ-ایکین اور  آئی آئی ٹی –مدراس(آئی آئی ٹی ایم) کے مالی تعاون سے مشترکہ پہل ہے۔ ڈی اے اے ڈی کے ساتھ ساتھ ٹی یو ڈریسڈن اور آئی آئی ٹی ایم کی ایک نئی پہل، جس میں ایک ‘‘ٹرانس کیمپس’’ کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں، تاکہ تدریس، تحقیق، اختراعات اور صنعت کاری میں دو طرفہ تعاون کو گہرا کیا جا سکے۔ دونوں حکومتوں نے آئی آئی ٹی کھڑگپور اور ڈی اے اے ڈی کے درمیان مفاہمت نامے پر دستخط کا بھی خیرمقدم کیا، جس سے ہند-جرمن یونیورسٹی کے تعاون کے منصوبوں کے لیے مشترکہ فنڈنگ ​​ممکن ہوگی۔ دونوں فریقوں نے(تعلیمی اورتحقیقی تعاون کے فروغ کی اسکیم)کے تحت ‘‘جرمن انڈین اکیڈمک نیٹ ورک فار ٹومارو’’(جی آئی اے این ٹی)ایس پی اے آر سی کے تئیں اپنی مضبوط حمایت کا اظہار کیا ،جس میں ہندوستانی اور جرمن یونیورسٹیوں کے درمیان تعاون کو اُجاگر کیا گیا۔

32. ہندوستان اورجرمنی کے درمیان ڈیجیٹل اور ٹکنالوجی کی شراکت کو مزید مضبوط بنانے کے مقصد کے ساتھ، دونوں حکومتوں نے ڈیجیٹل پبلک انفرااسٹرکچر (ڈی پی آئی) میں تجربہ اور مہارت کا اشتراک کرنے پر اتفاق کیا۔ ایسے طریقوں کو تلاش کرنے کے لیے جن میں جرمنی ڈی پی آئی میں ہندوستان کی مہارت اور ہندوستانی آئی ٹی صنعت کی طاقتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، تاکہ دونوں ممالک میں جدت اور ڈیجیٹل تبدیلی کو آگے بڑھایا جا سکے۔ انٹرنیٹ گورننس، ٹیک ریگولیشنز، معیشت کی ڈیجیٹل تبدیلی اور ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز جیسے ڈیجیٹل موضوعات پر تبادلے کے لیے ایک اہم فورم کے طور پر دونوں فریقوں نے 24-2023 کے لیے کام کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دینے کا خیرمقدم کیا، جسے ہند-جرمن ڈیجیٹل ڈائیلاگ (آئی جی ڈی ڈی)نے تیار کیا ہے۔

33. دونوں فریق اے آئی  کی گورننس کے لیے جدت پسند، متوازن، جامع، انسانی مرکوز مبنی نقطہ نظر کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے، ایس ڈی جی کو آگے بڑھانے کے لیے اے آئی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ڈیجیٹل حل جیسے امیج ڈٹیکشن اور اے آئی کسانوں کی مدد کرکے اور زرعی پیداواری صلاحیت، آب و ہوا کی لچک، کاربن سنکس اور پائیداری کو بڑھا کر زراعت میں انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک ڈیجیٹل زراعت کی ترقی کو آسان بنانے کے لیے قومی پروگرام چلا رہے ہیں اور زراعت کو جدید بنانے کے لیے جاری تعاون، اختراعات اور تبادلوں کو فروغ دینے کے لیے ڈیجیٹل زراعت، اے آئی اور آئی او ٹی میں اپنے تعاون کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

34. دونوں حکومتوں نے اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، جدت طرازی اور مہارت کی ترقی کے میدان میں تعاون کی اسٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کیا۔ دوطرفہ تعاون کی ترجیحات کی تصدیق کرتے ہوئے، جیسا کہ انوویشن اور ٹیکنالوجی پارٹنرشپ روڈ میپ میں بیان کیا گیا ہے، دونوں حکومتوں نے اختراع، مہارت کی ترقی، اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں تعاون پر توجہ مرکوز کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک کی صنعت اور اکیڈمیاں کے درمیان کلیدی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں قریبی روابط کو ترجیح دی جائے گی، ایک کھلے، جامع اور محفوظ ٹیکنالوجی کے فن تعمیر کو یقینی بنانے کے مشترکہ عزم کے اعتراف میں، جو باہمی اعتماد اور احترام پر مبنی ہے اور جمہوری اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ اصول اس کی بنیاد پر، دونوں ممالک شناخت شدہ شعبوں میں نتائج پر مبنی اور باہمی طور پر فائدہ مند ٹیکنالوجی تعاون حاصل کریں گے۔

35. آفات کے تخفیف،سونامی کی وارننگ، ساحلی خطرات، قبل از وقت وارننگ سسٹم، آفات کے خطرے میں کمی اور سمندری سائنس، قطبی سائنس، حیاتیات اور جیو کیمسٹری، جیو فزکس اور ارضیات میں تحقیق کے شعبے میں تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے، دونوں حکومتوں نے میمورینڈم آف انڈراسٹینڈنگ کا خیرمقدم کیا۔ انڈین نیشنل سینٹر فار اوشین انفارمیشن سروسز(آئی این سی او آئی ایس)اورہیلمہالٹز-زینٹرم پاسٹڈیم ڈائچیس جیوفورسچونگزینٹرم اور نیشنل سینٹر فار پولر اینڈ اوشین ریسرچ (این سی پی او آر)اورالفریڈ ویگینر-انسٹی ٹیوٹ،ہیلمہالٹز-زینٹرم فر پولر-اَنڈ میرسفورسچُنگ(اے ڈبلیو آئی) کے درمیان مفاہمت۔

36. دونوں حکومتوںمیں محکمہ جوہری توانائی (ڈی اے ای)، انڈیا کے تحت ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ (ٹی آئی ایف آر) کے مراکز، انٹرنیشنل سینٹر فار بایولوجیکل سائنسز (این سی بی ایس)،انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل سائنسز (آئی سی ٹی ایس) کے درمیان بایولوجیکل۔یہ دونوں مراکز محکمہ جوہری توانائی (ڈی اے ای) اور میکس-پلانک-گیسل شافٹ (ایم پی جی)، جرمنی۔ یہ معاہدہ سی ٹی ایس اور این سی بی ایس کے ساتھ مختلف میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے درمیان سائنسدانوں بشمول طلباء اور تحقیقی عملے کے تبادلے  کی سہولت فراہم کرے گا۔

37. دونوں رہنماؤں نے اوشین سیٹ-3 اور ری سیٹ-1 اے سیٹلائٹس سے ڈیٹا کے استقبال اور پروسیسنگ کے لیے نیوسٹریلٹز، جرمنی میں بین الاقوامی گراؤنڈ اسٹیشن کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے میسرز نیو انڈیا لمٹیڈ اور میسرز  جی اے ایف  اے جی کے درمیان سبز اور پائیدار مستقبل  کے لیے شراکت داری تعاون کو سراہا۔

38. دونوں فریقوں نے نیٹ زیرو اخراج کو حاصل کرنے کے لیے سبز، پائیدار، ماحولیاتی اعتبار سے لچکدار اور جامع ترقی کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ دونوں حکومتوں کا مقصد آب و ہوا کی کارروائی اور پائیدار ترقی میں دو طرفہ، سہ فریقی اور کثیرجہتی تعاون کو کافی حد تک بڑھانا ہے۔ دونوں فریقوں نے انڈو-جرمن گرین اینڈ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پارٹنرشپ (جی ایس ڈی پی)کے تحت اب تک حاصل ہونے والی پیش رفت کا اعتراف کیا۔ مشترکہ عہد بستگیوں سے تحریک یافتہ یہ شراکت داری پیرس معاہدے اور ایس ڈی جی ایس میں بیان کردہ اہداف کے نفاذ کو تیز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس تناظر میں، دونوں فریقوں نے آنے والے یو این ایف سی سی سی سی او پی29 کے پرجوش نتائج کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا، خاص طور پر نئے اجتماعی کوانٹیفائیڈ گول (این سی کیو جی) پر۔ دونوں فریق قومی حالات کی روشنی میں پہلی گلوبل اسٹاک ٹیک سمیت سی او پی 28 کے نتائج کا مثبت جواب دیں گے۔

39. دونوں اطراف نے جی ایس ڈی پی کے مقاصد پر وزارتی اجلاس کے دوران پیش رفت کو جی ایس ڈی پی کے نفاذ میں تعاون کرنے کے لیے سراہا۔ دونوں فریق موجودہ ورکنگ گروپس اور دیگر دوطرفہ فارمیٹس اور اقدامات کے اندر باقاعدہ بات چیت کے لیے پرعزم ہیں۔ وزارتی میکانزم کی اگلی میٹنگ پیرس معاہدے کے اہداف اور ایس ڈی جی کو حاصل کرنے کے جی ایس ڈی پی مقاصد پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اگلے ہندوستان-جرمنی بین حکومتی مشاورت کے فریم ورک کے  اندر مناسب ترین وقت پر ہوگی۔ دونوں فریقوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قریبی تعاون کرنے کے اپنے ارادے کا اعادہ کیا اور اس لیے مستقبل قریب میں ہند-جرمن موسمیاتی ورکنگ گروپ کی میٹنگ منعقد کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔

40. جی ایس ڈی پی کی چھتری کے نیچے، دونو فریقوں میں باہم:

  1. انڈو-جرمن گرین ہائیڈروجن روڈ میپ کا آغاز کیا۔ رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ روڈ میپ گرین ہائیڈروجن کی پیداوار، استعمال اور برآمد کے ہندوستان کے عزائم کی حمایت میں مدد کرے گا ،جبکہ دونوں ممالک میں توانائی کے ایک پائیدار ذریعہ کے طور پر گرین ہائیڈروجن کو تیزی سے اپنانے میں بھی تعاون کرے گا۔
  2. جی ایس ڈی پی ڈیش بورڈ کا آغاز کیا، ایک عوامی طور پر قابل رسائی آن لائن ٹول، جو جی ایس ڈی پی کے تحت جرمنی اور ہندوستان کے درمیان گہرے تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کلیدی اختراعات اور ہندوستان-جرمنی تعاون کے تحت وسیع تجربے کا جائزہ پیش کرتا ہے۔ یہ جی ایس ڈی پی کے مقاصد کے حصول کے لیے مشترکہ پیش رفت کے ذخیرے میں سہولت فراہم کرتا ہے اور عالمی چیلنجوں کے لیے جدید حل کے بارے میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو کلیدی معلومات فراہم کرتا ہے۔
  3. ہندوستان میں سب کے لیے پائیدار شہری نقل و حرکت کو فروغ دینے کے مشترکہ وژن کے مطابق شراکت کی تجدید اور اسے مزید بلند کرنے کے ارادے کے ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے گئے، جس میں جامع سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے سبز اور پائیدار شہر کاری کی اہمیت کو تسلیم ک2019 میں اپنے قیام کے بعد سے اربن موبلٹی پارٹنرشپ  کے  مضبوط نتائج کو تسلیم کیا گیا۔
  4. انٹرنیشنل سولر الائنس (آئی ایس اے) کے مستقبل کے لیے کامیابیوں اور وژن کی بہت تعریف کی اور آئی ایس اے کے اندر اپنے تعاون کو تیز کرنے پر اتفاق کیا۔
  5. جنگلات کی کٹائی اور انحطاط کو روکنے اور ریو کنونشنز اور ایس ڈی جی ایس  کے نفاذ کی حمایت میں جنگلات کے لینڈ اسپیس کو بحال کرکے رجحان کو تبدیل کرنے کے شعبے میں تعاون کو سراہا۔

41. رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ انڈو-جرمن انرجی فورم (آئی جی ای ایف)نے اپنی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے، جرمنی اور بھارت کے درمیان عمومی دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے، اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور عالمی موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

42. دونوں فریقوں نے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں کلیدی اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے کے لیے جرمنی کے ساتھ ایک پارٹنر ملک کے طور پر ستمبر 2024 میں گاندھی نگر میں منعقد ہونے والی چوتھی عالمی ری-انویسٹ رینیو ایبل انرجی انویسٹر میٹ اینڈ ایکسپو کے کردار پر زور دیا۔ دونوں حکومتوں نے ‘انڈیا-جرمنی پلیٹ فارم فار انویسٹمنٹس فار رینیوایبل انرجی ورلڈ وائیڈ’ کو یاد کیا، جسے ری-انویسٹ کے دوران قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو تیز کرنے، کاروباری تعاون کو فروغ دینے اور عالمی سپلائی چینز کو بڑھانے کے لیے ایک کلیدی پہل کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ پلیٹ فارم گرین فنانسنگ، ٹیکنالوجی اور کاروباری مواقع پر تبادلے کے ذریعے ہندوستان اور دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کی توسیع کے عمل کو تیز کرے گا۔

43. دونوں حکومتوں نے بایو ڈائیورسٹی پر مشترکہ ورکنگ گروپ کے ذریعے تعاون کو مزید مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور تسلیم کیا  کہ سی بی ڈی سی او پی 16 عالمی بایو ڈائیورسٹی فریم ورک کے اہداف کو نافذ کرنے کی عالمی کوششوں میں ایک اہم لمحہ ہے۔

44. جوائنٹ ورکنگ گروپ آن ویسٹ مینجمنٹ اینڈ سرکلر اکانومی پر غور و خوض اور نتائج کو یاد کرتے ہوئے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان تجربات اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کو تیز کر کے مواقع پیدا کیے ہیں، دونوں فریقوں نے ان ڈھانچوں کے اندر تعاون کو مزید گہرا کرنے کے امکانات تلاش کرنے پر اتفاق کیا، جس میں سولر ویسٹ ری سائیکلنگ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے کام پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ انہوں نے سمندری ماحول میں کچرا بالخصوص پلاسٹک کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے اہم مقاصد اور پالیسیوں کے مؤثر نفاذ پر ہند-جرمن ماحولیاتی تعاون کی تعریف کی۔ ہندوستان اور جرمنی نے پلاسٹک کی آلودگی پر عالمی قانونی طور پر پابند معاہدہ قائم کرنے کے لیے قریبی تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔

45. دونوں رہنماؤں نے سہ رخی ترقیاتی تعاون (ٹی ڈی سی)کے تحت ہونے والی پیش رفت کو تسلیم کیا، جو افریقہ میں ایس ڈی جی ایس اور موسمیاتی اہداف کے حصول میں معاونت کے لیے اپنی ترجیحات کے مطابق تیسرے ممالک میں پائیدار، قابل عمل اور جامع منصوبے پیش کرنے کے لیے باہمی طاقتوں اورتجربات کو جمع کرتا ہے۔ دونوں اطراف نے کیمرون، گھانا اور ملاوی میں پائلٹ پروجیکٹس کے حوصلہ افزا نتائج اور بینن اور پیرو کے ساتھ جاری اقدامات میں ہونے والی پیش رفت کا خیرمقدم کیا۔ مذکورہ بالا اقدامات کے کامیاب نفاذ کے پیش نظر، دونوں حکومتوں نے 2024 اوراس کے بعد کیمرون (زراعت)، ملاوی (خواتین کی صنعت کاری)اور گھانا (باغبانی)کے ساتھ پائلٹ پروجیکٹس کو بڑھانا شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مزید برآں، دونوں اطراف نے ملیٹ سے متعلق تین پائلٹ پروجیکٹس کے آغاز کا خیرمقدم کیا: دو ایتھوپیا کے ساتھ اور ایک مڈغاسکر کے ساتھ۔ مزید برآں، دونوں فریقوں نے شراکت داروں تک پہنچنے، اپنے مشترکہ اقدامات کو مکمل پیمانے پر منتخب کرنے اور نافذ کرنے کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار شروع کیا ہے اور اس مقصد کے لیے دونوں حکومتوں نے ایک مشترکہ اسٹیئرنگ کمیٹی اور ایک مشترکہ عمل درآمد گروپ قائم کیا ہے۔

46. ​​رہنماؤں نے اس بات کی توثیق کی کہ صنفی مساوات بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے میں سرمایہ کاری 2030 کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں کئی گنا زیادہ اثر رکھتی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں جرمنی کی حقوق نسواں کی خارجہ اور ترقی کی پالیسیوں کو نوٹ کرتے ہوئے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خواتین کی قیادت میں ترقی کی حوصلہ افزائی اور فیصلہ سازوں کے طور پر خواتین کی مکمل، مساوی، مؤثر اور بامعنی شرکت کو بڑھانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں فریقوں نے سبز اور پائیدار ترقی میں خواتین کے اہم کردار کو فروغ دینے پر ہند-جرمن تعاون کو مضبوط بنانے کی اپنی خواہش کا اعادہ کیا۔

47. مزید برآں، دونوں فریقوں نے جی ایس ڈی پی کے فریم ورک کے تحت مالی اور تکنیکی تعاون کے لیے موجودہ اقدامات اور نئے وعدوں کے حوالے سے پہلے ہی حاصل کیے گئے سنگ میلوں کا خیر مقدم کیا، جو کہ  حسب ذیل ہیں:

  1. ایک بلین یورو سے زیادہ کے جی ایس ڈی پی کے تمام بنیادی شعبوں میں نئے وعدے جیسا کہ ستمبر 2024 میں حکومت ہند اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کی حکومت کے درمیان ترقیاتی تعاون پر بات چیت کے دوران اتفاق کیا گیا تھا، جس میں2022 میں جی ایس ڈی پی کے آغاز سے  تقریباً 3.2 بلین یورو کی جمع شدہ وعدوں کو شامل کیا گیا تھا۔
  2. انڈو-جرمن ری اینیبل انرجی پارٹنر شپ کے تحت، تعاون کی توجہ جدیدشمسی توانائی، گرین ہائیڈروجن، دیگر قابل تجدید ذرائع، گرڈ انضمام، ذخیرہ کرنے اور قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری پر مرکوز ہے، تاکہ توانائی کی منتقلی کو آسان بنایا جا سکے اور ایک قابل اعتماد توانائی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے، جس میں چوبیس گھنٹے قابل تجدید بجلی کی فراہمی ہو۔
  3. ‘‘زرعی ماحولیات اور قدرتی وسائل کا پائیدار انتظام’’ تعاون، ہندوستان کی کمزور دیہی آبادی اور چھوٹے پیمانے پر کسانوں کو آمدنی، غذائی تحفظ، آب و ہوا کی لچک، مٹی کی صحت، حیاتیاتی تنوع، جنگلاتی ماحولیاتی نظام اور پانی کی حفاظت کو فروغ دیتا ہے۔
  4. دونوں فریقوں نے پائیدار شہری ترقی پر اپنا کامیاب تعاون جاری رکھنے کے اپنے ارادے کا اعادہ کیا۔

تجارتی اور اقتصادی تعاون کے ذریعے لچک پیدا کرنا

48. دونوں رہنماؤں نے حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کے لحاظ سے مسلسل اعلیٰ کارکردگی کو سراہا اور ہندوستان اور جرمنی کے اسٹیک ہولڈرز کو تجارت اور سرمایہ کاری کی آمد کو مزید مستحکم کرنے کی ترغیب دی۔ رہنماؤں نے ہندوستان اور جرمنی کے درمیان مضبوط دو طرفہ سرمایہ کاری اور عالمی سپلائی چین کو متنوع بنانے میں اس طرح کی سرمایہ کاری کے مثبت اثرات کو بھی نوٹ کیا۔ اس تناظر میں، رہنماؤں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اے پی کے 2024 جو کہ جرمنی کے اعلیٰ سطحی کاروباری عہدیداروں کی شرکت والا جرمن بزنس کا دو سالہ پرچم بردار فورم ہے، جرمن کاروباروں کے لیے ہندوستان میں دستیاب بے پناہ مواقع کو ظاہر کرنے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔

49. دونوں فریقوں نے ہندوستان میں جرمن کاروباری اداروں اور جرمنی میں ہندوستانی کاروباروں کی دیرینہ موجودگی پر زور دیا اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اورتجارتی روابط کو گہرا کرنے کی سمت کام کرنے پر اتفاق کیا۔ اس تناظر میں دونوں فریقوں نے ہندوستان-جرمنی سی ای او فورم کی میٹنگ کے انعقاد کا خیرمقدم کیا، جو ہندوستان اور جرمنی کے کاروباری اور صنعت کے رہنماؤں کو شامل کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے ہند-جرمن فاسٹ ٹریک میکانزم کی کامیابیوں پر بھی روشنی ڈالی اور اس کے آپریشن کو جاری رکھنے کے لیے تیار نظرآئے۔

50. اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز(ایم ایس ایم ای)/میٹل اسٹینڈ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئےدونوں فریقوں نے دو طرفہ سرمایہ کاری میں اضافہ اور‘میک اِن انڈیا میٹل اسٹینڈ’ پروگرام کی کامیابی کو تسلیم جو جرمنی کی ان  میٹل اسٹینڈ انٹرپرائزز کو سپورٹ کرتا ہے ، جو ہندوستان میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح دونوں حکومتوں نے جدت کو فروغ دینے میں اسٹارٹ اَپس کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیا اور ہندوستانی مارکیٹ سے نمٹنے کے لیے اسٹارٹ اپس کو کامیابی سے سہولت فراہم کرنے کے لیے جرمن ایکسلریٹر (جی اے) کی تعریف کی اور ہندوستان میں اپنی موجودگی قائم کرنے کے منصوبوں کا خیرمقدم کیا۔  دونوں فریقوں نے نوٹ کیا کہ جرمنی میں مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے میں ہندوستانی اسٹارٹ اَپس کی مدد کرنے کے لیے ایک متعلقہ پروگرام دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

لیبر مارکیٹس، نقل و حرکت اور عوام سے عوام کے تعلقات کو مضبوط بنانا

51. چونکہ اسکلڈ مائیگریشن دوطرفہ تعاون میں متعدد محاذوں پر پھیل رہا ہے، جس میں وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون شامل ہے، دونوں فریقوں نے مائیگریشن اینڈ موبلٹی پارٹنرشپ ایگریمنٹ (ایم ایم پی اے) کی دفعات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا عہد کیا ہے۔ ایم ایم پی اے میں بیان کردہ وعدوں کے مطابق دونوں فریق منصفانہ اور قانونی لیبر مائیگریشن کو فروغ دینے کے لیے عہد بستہ ہیں۔ اس نقطہ نظر کی رہنمائی بین الاقوامی معیارات سے ہوتی ہے ،جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ تارکین وطن کارکنوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، جس میں منصفانہ بھرتی کے طریقے، شفاف ویزا کے عمل، اور کارکنوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہیں۔ ان اصولوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، دونوں ممالک کا مقصد ہنر مند کارکنوں کی نقل و حرکت کو اس انداز میں سہولت فراہم کرنا ہے جس سے تمام فریقین کو فائدہ پہنچے اور استحصال سے تحفظ اور بین الاقوامی لیبر معیارات کی تعمیل کو یقینی بنایا جائے۔

52. ایم ایم پی اے کی بنیاد پر، دونوں فریقوں نے متعلقہ وزارتوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون اور تبادلے کو بڑھانے کے لیے روزگار اور محنت کے شعبے میں ایک جے ڈی آئی کی  تکمیل کی ۔ جرمن فریق نے مطلع کیا کہ وہ بین الاقوامی حوالہ جات کی درجہ بندی پر ایک فزیبلٹی اسٹڈی کی حمایت کرے گا، جو کہ 2023 میں ہندوستانی جی20 صدارت کے ذریعے شروع کیا گیا ایک جی 20 عزم ہے۔ دونوں رہنما پیشہ ورانہ امراض، معذور کارکنوں کی پیشہ ورانہ تربیت  کے لیے ایمپلائز اسٹیٹ انشورنس کارپوریشن (ای ایس آئی سی)، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ایمپلائمنٹ (ڈی جی ای)اور جرمن سوشل ایکسیڈنٹ انشورنس (ڈی جی یو وی)کے درمیان مفاہمت نامے پر دستخط کے  منتظر نظر آئے۔

53. دونوں رہنماؤں نے نوٹ کیا کہ ہندوستانی پیشہ ور افراد جرمنی میں تمام بلیو کارڈ ہولڈرز کے 1/4 سے زیادہ پر مشتمل ہیں اور ہندوستانی طلباء اب جرمنی میں بین الاقوامی طلباء کی سب سے بڑی جماعت ہیں۔ اس کے بارے میں انہوں نے جرمنی میں ہنر اور ہنر کی ضروریات اور ہندوستان میں نوجوان، تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے وسیع ذخیرے کے درمیان موجود تکمیلی خصوصیات کو تسلیم کیا، جو جرمن لیبر مارکیٹ کا اثاثہ ہو سکتے ہیں۔ فیڈرل ایمپلائمنٹ ایجنسی، نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کونسل، انڈیا (این ایس ڈی سی)اور اسی طرح کی دیگر سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ قومی اور ریاستی سطح پر موجودہ تبادلے کو گہرا کرے گی۔ دونوں فریقوں نے جرمنی کی وفاقی حکومت کی نئی قومی حکمت عملی کے آغاز کا خیرمقدم کیا تاکہ ہندوستان سے ہنرمندمائیگریشن کو فروغ دیا جا سکے۔

54. دونوں رہنماؤں نے اسکل ڈیولپمنٹ اور پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت سے متعلق مفاہمت نامے پر دستخط کرنے پر بھی اطمینان کا اظہار کیا، جو ہندوستان میں ہنر مند افرادی قوت کا ایک پول بنانے اور خاص طور پر خواتین کی شرکت کو مضبوط بنانے کے لیے ہندوستان اور جرمنی کی طاقتوں کا فائدہ اٹھائے گا۔ سبز مہارت کے شعبے میں دونوں فریقوں نے مزدوروں کی بین الاقوامی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرنے کے عناصر کو شامل کرنے پر اتفاق کیا۔

55. دونوں فریق ہندوستان میں جرمن زبان کی تعلیم کو وسعت دینے کے مقصد کے لیے پرعزم ہیں،جس میں سیکنڈری اسکولوں، یونیورسٹیوں اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مراکز شامل میں۔ انہوں نے ہندوستانی اور جرمن ریاستوں، ثقافتی مراکز اور تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہندوستان اور جرمنی میں ایک دوسرے کی زبانوں کی تعلیم کو مزید فروغ دیں، جس میں زبان کے اساتذہ کی تربیت بھی شامل ہے۔ دونوں فریقوں نے جرمن اساتذہ کی باضابطہ تربیت اور مزید تعلیم کے لیے ایک فارمیٹ تیار کرنے کی خاطر ڈی اے اے ڈی اور گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کی مشترکہ کوششوں کا خیرمقدم کیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان میں یونیورسٹی کا سرٹیفکیٹ تسلیم کیا گیا۔

56. دونوں فریقوں نے اقتصادی ترقی کے لیے اعلیٰ ہنر مند پیشہ ور افراد کے تعاون کی توثیق کی۔‘‘جرمنی کے ساتھ کاروبار میں شراکت’’ پروگرام کے تحت حاصل کردہ نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا اور ہندوستان سے کارپوریٹ ایگزیکٹوز اور جونیئر ایگزیکٹوز کی جدید تربیت پر جے ڈی آئی کی تجدید کی۔

57. مائیگریشن اینڈ موبلٹی پارٹنرشپ ایگریمنٹ (ایم ایم اے پی)کے ساتھ، دونوں فریقوں نے غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنے پر بھی اتفاق کیا۔ اس مقصد کے لیے دونوں فریقوں نے ایم ایم پی اے کے نافذ ہونے کے بعد سے  واپسی کے شعبے میں تعاون قائم کیا۔ دونوں فریقوں نے اب تک کی پیش رفت کا خیرمقدم کیا اور مناسب طریقہ کار کے انتظامات کے ذریعے تعاون کو مزید فروغ دینے اور ہموار کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

58. رہنماؤں نے دونوں فریقوں اور ان کے متعلقہ شہریوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے ان بڑھتے ہوئے تعلقات سے پیدا ہونے والے قونصلر مسائل کی وسیع رینج اور قونصلر مسائل سے متعلق تمام معاملات پر بات چیت کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے مختلف قونصلر، ویزا اور اپنے متعلقہ علاقوں میں مقیم دوسری طرف کے شہریوں کو متاثر کرنے والے دیگر امور پر دوطرفہ بات چیت کے لیے جلد از جلد ایک مناسب فارمیٹ کے قیام کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا۔

59. دونوں فریقوں نے اپنے نوجوانوں کے ثقافتی سفیر اور جدت طرازی اور دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کے روابط کو فروغ دینے کے لیے محرک کے کردار کو تسلیم کیا۔ اس تناظر میں دونوں رہنماؤں نے نوجوانوں کے تعاون کی اہمیت پر زور دیا اور دونوں اطراف کے درمیان نوجوانوں کے تبادلوں اور وفود کے لیے فورم کے قیام کی تجویز کو نوٹ کیا۔ دونوں فریق باہمی بنیادوں پر طلباء کے تبادلے کی سہولت پر بھی متفق ہیں۔

60. دونوں اطراف نے اطمینان کے ساتھ ثقافت کے میدان میں ہونے والے خاطر خواہ کام کو نوٹ کیا اور ہندوستان اور جرمنی کے قومی عجائب گھروں جیسے، پرشین ہیریٹیج فاؤنڈیشن اورنیشنل گیلری آف ماڈرن آرٹ، ہندوستان کے درمیان میوزیم تعاون پر مفاہمت نامے کے دائرہ کار کو بڑھانے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔

61. جی 20 نیو دہلی لیڈرز ڈکلیریشن(2023)کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے ثقافتی اشیاء کی بحالی، تحفظ اور قومی، علاقائی اور ریاستی سطح پر ثقافتی املاک کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف جنگ کے سلسلے میں قریبی تعاون کرنے کے ارادے پر زور دیا۔ متعلقہ کے طور پر اس کی واپسی اور اس کی واپسی کو ملک اور اصل کی کمیونٹی کے لیے قابل بنائیں اور اس کوشش میں مسلسل بات چیت اور عمل پر زور دیا۔

62. دونوں حکومتوں نے جرمنی کی یونیورسٹیوں میں انڈین اکیڈمک چیئرس کے قیام جیسے اقدامات کے ذریعے قابل قدر ثقافتی اور علمی تبادلوں کی بھی تعریف کی۔

63. دونوں رہنماؤں نے 7ویں آئی جی سی میں ہونے والی بات چیت پر اطمینان کا اظہار کیا اور ہند-جرمن اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید وسعت دینے اور گہرا کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ چانسلر  سولز نے وزیر اعظم مودی کی گرمجوش مہمان نوازی کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ جرمنی اگلے آئی جی سی کی میزبانی کا منتظر ہے۔

 

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
How NPS transformed in 2025: 80% withdrawals, 100% equity, and everything else that made it a future ready retirement planning tool

Media Coverage

How NPS transformed in 2025: 80% withdrawals, 100% equity, and everything else that made it a future ready retirement planning tool
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM Modi inaugurates New Terminal Building of Lokapriya Gopinath Bardoloi International Airport in Guwahati, Assam
December 20, 2025
Modern airports and advanced connectivity infrastructure serve as gateways to new possibilities and new opportunities for any state: PM
Today, Assam and the entire North East are emerging as the new gateway to India's development: PM
The North East will lead India's future growth: PM

Marking a transformative milestone in Assam’s connectivity, economic expansion and global engagement, Prime Minister Shri Narendra Modi inaugurated the New Terminal Building of Lokapriya Gopinath Bardoloi International Airport in Guwahati today. Addressing the gathering on the occasion, Shri Modi said that today marks the festival of development and progress of Assam and the North East. He highlighted that when the light of progress reaches people, every path in life begins to touch new heights. The Prime Minister further remarked that his deep attachment to the land of Assam, the love and affection of its people, and especially the warmth and belongingness of the mothers and sisters of Assam and the Northeast continuously inspire him and strengthen the collective resolve for the development of the region. He highlighted that today once again a new chapter is being added in Assam’s development. Referring to Bharat Ratna Bhupen Hazarika’s lines, Shri Modi emphasized that this means the banks of the mighty Brahmaputra river will shine, every wall of darkness will be broken, and this will certainly happen as it is the nation’s resolve and solemn pledge.

Highlighting that Bhupen Hazarika’s lines were not merely a song but a solemn resolve of every great soul who loved Assam, and today this resolve is being fulfilled, Shri Modi remarked that just as the mighty currents of the Brahmaputra never stop, similarly under their governments at the Union and State, the stream of development in Assam continues uninterrupted. He stated that the inauguration of the new terminal at the Lokapriya Gopinath Bardoloi Airport stands as proof of this commitment, and extended congratulations to the people of Assam and the nation for this new terminal building.

The Prime Minister further remarked that a short while ago he had the privilege of unveiling the statue of Gopinath Bardoloi, Assam’s first Chief Minister and a source of pride for the state. He emphasized that Shri Bardoloi never compromised on Assam’s identity, future, and interests, and his statue will continue to inspire future generations, instilling in them a deep sense of pride for Assam.

“Modern airport facilities and advanced connectivity infrastructure serve as gateways to new possibilities and opportunities for any state, and stand as pillars of growing confidence and trust among the people”, exclaimed the Prime Minister. He remarked that when people witness the construction of magnificent highways and airports in Assam, they themselves acknowledge that true justice for Assam has finally begun. He contrasted this with the past, stating that for the previous governments, the development of Assam and the Northeast was never on their agenda. He noted that leaders in those governments used to say, “Who even goes to Assam and the Northeast?” and questioned the need for modern airports, highways, and better railways in the region. The Prime Minister emphasized that this mindset led the opposition to neglect the entire region for decades.

Pointing out that the mistakes committed by the opposition over six to seven decades are being corrected one by one under his leadership, Shri Modi stated that whether opposition leaders visit the Northeast or not, he himself feels a sense of belonging among his own people whenever he comes to Assam and the region. He emphasized that for him, the development of Assam is not only a necessity but also a responsibility and an accountability. The Prime Minister highlighted that in the past eleven years, development projects worth lakhs of crores of rupees have been initiated for Assam and the Northeast. He noted that Assam is progressing further and creating new milestones, mentioning with satisfaction that Assam has become the number one state in the country to implement the Bharatiya Nyaya Sanhita. He added that Assam has also set a record by installing more than 50 lakh smart prepaid meters. He contrasted this with the previous dispensation era, when obtaining a government job without bribes or recommendations was impossible, and underlined that today thousands of youth are getting jobs without such practices. Shri Modi further highlighted that under their government, Assam’s culture is being promoted on every platform. He recalled the historic event of 13 April 2023, when more than 11,000 artists performed the Bihu dance together at the Guwahati stadium, an achievement that was recorded in the Guinness World Records. He remarked that by creating such new records, Assam is moving forward rapidly.

Underlining that with this new terminal building, the capacity of Guwahati and Assam will increase significantly, enabling more than 1.25 crore passengers to travel annually, Shri Modi highlighted that this will also allow a large number of tourists to visit Assam and make it easier for devotees to have darshan of Maa Kamakhya. He stated that stepping into this new airport terminal clearly reflects the true meaning of the mantra of development along with heritage. The Prime Minister emphasized that the airport has been designed keeping in mind Assam’s nature and culture, with greenery inside and arrangements resembling an indoor forest. He noted that the design is connected to nature all around so that every passenger feels peace and comfort. He further highlighted the special use of bamboo in the construction, underscoring that bamboo is an integral part of life in Assam, symbolizing both strength and beauty. Shri Modi also recalled that their government in a landmark move in 2017, amended the Indian Forest Act, 1927, to legally reclassify bamboo grown in non-forest areas as a "grass" instead of a "tree". This move, he said, has led to the creation of a wonderful structure in the form of a new Terminal today.

Underscoring the development of infrastructure carries a very significant message, the Prime Minister highlighted that it boosts industries, gives investors confidence in connectivity, and opens pathways for local products to reach global markets. He emphasized that the greatest assurance is given to the youth, for whom new opportunities are created. “Today, Assam is seen advancing on this very flight of limitless possibilities”, stated the Prime Minister.

Shri Modi remarked that today the world’s perspective towards India has changed, and India’s role has also transformed. He highlighted that India is now on the path to becoming the world’s third-largest economy. He questioned how this was achieved within just 11 years and emphasized that the development of modern infrastructure has played a major role. The Prime Minister stated that India is preparing for 2047, focusing on infrastructure to fulfill the resolve of a developed nation. He underlined that the most important aspect of this grand development campaign is the participation of every state and every region. He noted that the government is prioritizing the underprivileged, ensuring that every state progresses together and contributes to the mission of a developed India. He expressed happiness that Assam and the Northeast are leading this mission. Shri Modi highlighted that through the Act East Policy, the Northeast has been given priority, and today Assam is emerging as India’s Eastern Gateway. He remarked that Assam is playing the role of a bridge connecting India with ASEAN countries. He affirmed that this beginning will go much further, and Assam will become an engine of developed India in many sectors.

“Assam and the entire Northeast are becoming the new gateway of India’s development,” emphasised Shri Modi, highlighting that the vision of multi-modal connectivity has transformed both the condition and direction of this region. He stated that the pace of building new bridges in Assam, the speed of installing new mobile towers, and the momentum of every development project are turning dreams into reality. He emphasized that the bridges built over the Brahmaputra have given Assam new strength and confidence in connectivity. The Prime Minister pointed out that in the six to seven decades after independence, only three major bridges were built here, but in the last decade four new mega bridges have been completed, along with several historic projects taking shape. He noted that the longest bridges such as Bogibeel and Dhola-Sadiya have made Assam strategically stronger. He underlined that railway connectivity has also undergone a revolutionary change, with the Bogibeel Bridge reducing the distance between Upper Assam and the rest of the country. He remarked that the Vande Bharat Express running from Guwahati to New Jalpaiguri has reduced travel time. Shri Modi further highlighted that Assam is also benefiting from the development of waterways, with cargo traffic increasing by 140 percent, proving that the Brahmaputra is not just a river but a flow of economic power. He stated that the first ship repair facility is being developed at Pandu, and the enthusiasm around the Ganga Vilas Cruise from Varanasi to Dibrugarh has placed the Northeast firmly on the global cruise tourism map.

Criticizing the previous governments for keeping Assam and the Northeast away from development, Shri Modi said the nation had to pay a heavy price in terms of security, unity, and integrity. He highlighted that under opposition rule, violence thrived for decades, whereas in the last 10–11 years efforts are being made to end it. He stated that where once violence and bloodshed prevailed in the Northeast, today digital connectivity through 4G and 5G technology is reaching these areas. The Prime Minister emphasized that districts once considered violence-affected are now developing as aspirational districts, and in the coming times these very regions will become industrial corridors. He underlined that a new confidence has arisen regarding the Northeast, and stressed the need to strengthen it further.

The Prime Minister remarked that success in the development of Assam and the Northeast is also being achieved because the government is safeguarding the identity and culture of the region. He highlighted that the opposition by conspiring to erase this identity, and this conspiracy was not limited to just a few years. He stated that the roots of this wrongdoing go back to the pre-independence era, when the Muslim League and the British government were preparing the ground for India’s partition, and at that time there was also a plan to make Assam a part of undivided Bengal, that is, East Pakistan. Shri Modi noted that Congress was going to be part of this conspiracy, but Shri Bardoloi ji stood against his own party, opposed this plot to destroy Assam’s identity, and saved Assam from being separated from the country. He emphasized that their party rises above party lines to honor every patriot, and under the leadership of Shri Atal Bihari Vajpayee ji, when their government came to power, Bardoloi ji was conferred the Bharat Ratna.

The Prime Minister remarked that while Shri Bardoloi ji had saved Assam before independence, the first ruling dispensation in the post- independence era once again began anti-Assam and anti-national activities thereafter. He highlighted that they conspired to expand their vote bank through religious appeasement, giving free rein to infiltrators in Bengal and Assam. He stated that the region’s demography was altered, and these infiltrators encroached upon forests and lands. The Prime Minister emphasized that as a result, the security and identity of the entire state of Assam were put at risk.

Shri Modi remarked that the government under Shri Himanta Biswa Sarma is working diligently to free Assam’s resources from illegal and anti-national encroachments. He highlighted that efforts are being made at every level to ensure Assam’s resources benefit the people of Assam. He stated that the Union government has also taken strict measures to stop infiltration, with identification processes underway to remove illegal infiltrators.

The Prime Minister emphasized that the Opposition and their alliance have openly adopted anti-national agendas, even as the Supreme Court has spoken about removing infiltrators. He noted that these parties are issuing statements in defense of infiltrators, and their lawyers are pleading in court to settle them. He remarked that when the Election Commission is conducting the SIR process to ensure fair elections, these groups are opposing it. The Prime Minister underlined that such people will not protect the interests of Assamese brothers and sisters, and will allow others to occupy their land and forests. He warned that their anti-national mindset could recreate the violence and unrest of earlier times. He stressed that it is therefore essential to remain vigilant, for the people of Assam to stay united, and to continue defeating the Opposition's conspiracies to prevent Assam’s development from being derailed.

“Today the world is looking towards India with hope, and the new sunrise of India’s future is to begin from the Northeast’, affirmed Shri Modi. He highlighted that for this, collective efforts are required to work towards shared dreams, with Assam’s development kept at the forefront. He expressed confidence that these joint endeavors will take Assam to new heights and fulfill the vision of a developed India. Concluding his remarks, the Prime Minister once again extended congratulations on the inauguration of the new terminal.

Governor of Assam, Shri Lakshman Prasad Acharya, Chief Minister of Assam, Shri Himanta Biswa Sarma, Union Ministers, Shri Sarbananda Sonowal, Shri K Rammohan Naidu, Shri Murlidhar Mohol, Shri Pabitra Margherita were present among other dignitaries at the event.

Background

The newly completed Integrated New Terminal Building Of Lokapriya Gopinath Bardoloi International Airport in Guwahati, spread over nearly 1.4 lakh square metres, is designed to handle up to 1.3 crore passengers annually, supported by major upgrades to the runway, airfield systems, aprons and taxiways.

India’s first nature-themed airport terminal, the airport’s design draws inspiration from Assam’s biodiversity and cultural heritage under the theme “Bamboo Orchids”. The terminal makes pioneering use of about 140 metric tonnes of locally sourced Northeast bamboo, complemented by Kaziranga-inspired green landscapes, japi motifs, the iconic rhino symbol and 57 orchid-inspired columns reflecting the Kopou flower. A unique “Sky Forest”, featuring nearly one lakh plants of indigenous species, offers arriving passengers an immersive, forest-like experience.

The terminal sets new benchmarks in passenger convenience and digital innovation. Features such as full-body scanners for fast, non-intrusive security screening, DigiYatra-enabled contactless travel, automated baggage handling, fast-track immigration and AI-driven airport operations ensure seamless, secure and efficient journeys.