ہندوستان نے دنیا کو دکھادیا ہے کہ ناقابل شکست کسے کہتے ہیں
سوبرسوں میں سب سے بڑے بحران کے دوران ہندوستان نے جن صلاحیتوں کامظاہرہ کیا ان پر سو سال بعد انسانیت کوفخر ہوگا
ہم نے 2014 کے بعد سے گورننس کے ہر عنصر کو پھر سے ترتیب دی اور پھر سے دریافت کرنے کا فیصلہ کیا
غریبوں کو بااختیار بنانے کے لئے حکومت بہبودی کے نظام کو کس طرح بہتر بناسکتی ہے ، ہم نے اس کا نیاتصور پیش کیا
حکومت کی اہم توجہ غریبوں کو بااختیاربنانے اور انھیں ملک کی تیز رفتار ترقی میں اپنا حصہ دینے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کااہل بنانے پر ہے
ہماری حکومت اب تک مختلف اسکیموں کے تحت ڈی بی ٹی کے ذریعہ28لاکھ کروڑ روپے منتقل کرچکی ہے
ہم نے بنیادی ڈھانچے کو الگ خانوں میں دیکھنے کا رواج بند کیا اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ایک وسیع تر حکمت عملی کے طور پر دیکھا
تقریبا 3.5 لاکھ کلو میٹر دیہی سڑکیں اور 80 ہزار کلو میٹر قومی شاہراہیں گزشتہ نو برس کے دوران تعمیر کرائی گئیں
آج ہندوستان میٹرو روٹ کی طوالت کے اعتبار سے پانچویں مقام پر ہے اور جلد ہی یہ تیسرے مقام پر ہوگا
پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان نہ صرف یہ کہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو رفتار دے رہا ہے بلکہ علاقوں کی ترقی اور عوام کی ترقی پر بھی زور دے رہا ہے
ملک میں انٹر نیٹ ڈیٹا کی شرحوں میں 25گنا کمی کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے سستا ہے
2014 کے بعد پہلے حکومت کی ذہنیت کو ہٹا کر پہلے عوام کا تصور لایا گیا
ٹیکس دہندگان کا حوصلہ بلند ہوتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا ادا کیا ہوا ٹیکس بہترین طریقے سے استعمال کیا جارہاہے
ہرپروگرام اورپالیسی میں عوام پر اعتماد ہمارامنتر رہا ہے
جب آپ ہندوستان کی ترقی کے سفر سے خود کوجوڑتے ہیں توہندوستان آپ کو ترقی کی ضمانت دیتاہے

ٹائمز  گروپ کے جناب سمیر جین جی، جناب ونیت جین جی، عالمی کاروباری سربراہ اجلاس میں آئے ہوئے تمام معززین، صنعت کے ساتھی، سی ای او حضرات، ماہرین تعلیم، میڈیا کی دنیا کے لوگ، دیگر معززین، خواتین و حضرات،

میں اپنی بات پر آنے سے پہلے شیو بھکتی اور لکشمی  پوجا کی طرف تھوڑا، آپ نے سجھاؤ دیا انکم ٹیکس بڑھانے کے لیے، پتہ نہیں یہ لوگ کیا کریں گے بعد میں، لیکن آپ کی معلومات کے لیے اس مرتبہ بجٹ میں ایک اہم فیصلہ لیا گیا ہے اور خواتین خصوصاً اگر بینک ڈیپازٹ کرتی ہیں اور دو سال کا وقت طے کیا ہے، تو ان کو یقیناً ایک مخصوص قسم کا سود دیا جائے گا اور یہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس کا ایک اچھا قدم اور شاید یہ آپ کو پسند آئے گا۔ اب یہ آپ کے ادارتی شعبے کا کام ہے، وہ ساری چیزیں تلاش کر کبھی مناسب لگے تو جگہ دی دیں اس کو۔ ملک اور دنیا بھر سے آئے، کاروباری قائدین کو میں خوش آمدید کہتا ہوں ، خیرمقدم کرتا ہوں۔

اس سے پہلے مجھے 6 مارچ 2020 کو ای ٹی عالمی کاروباری سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے کا موقع حاصل ہوا تھا۔ ویسے تو تین سال کا وقت بہت طویل وقت نہیں ہوتا، لیکن اگر اس تین سال کی خصوصی مدت کو دیکھیں، تو لگتا ہے کہ پوری دنیا نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ جب ہم پچھلی مرتبہ ملے تھے، تو ماسک، روزمرہ کی زندگی کا حصہ نہیں تھے۔ لوگ سوچتے تھے کہ ٹیکے تو بچوں کے لیے ضروری ہیں یا پھر کوئی شدید بیماری میں مبتلا ہے تو مریضوں کے لیے ضروری ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تب گرمی کی چھٹیوں میں گھومنے کی تیاری بھی کر رکھی تھی۔ کئی لوگوں نے ہوٹل بک کیے ہوں گے۔ لیکن 2020 کی اس ای ٹی سربراہ ملاقات کے ٹھیک 5 دن بعد ڈبلیو ایچ او نے کووِڈ کو وبائی مرض قرار دے دیا۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی وقت میں پوری دنیا ہی بدل گئی۔ ان تین برسوں میں پوری دنیا بدل گئی ہے، سماجی نظام بدل گیا ہے اور بھارت بھی بدل گیا ہے۔ گذشتہ کچھ وقت میں ہم سبھی نے ’اینٹی - فریجائل‘ کے دلچسپ تصور پر بہت ساری باتیں سنی ہیں۔ آپ کاروبار کی دنیا کے عالمی قائدین ہیں۔ آپ ’اینٹی فریجائل‘ کا مطلب اور اس کے احساس کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جو نہ صرف برعکس حالات کا مقابلہ کرے، بلکہ ان حالات کا ہی استعمال کرکے اور زیادہ مضبوط ہو جائے، ترقی یافتہ بن جائے۔

میں نے جب ’اینٹی فریجائل‘ کے تصور کے بارے میں سنا تو سب سے پہلے میرے دل میں 140 کروڑ بھارتیوں کی مجموعی قوت ارادی کی شکل ابھری تھی۔ گذشتہ تین برسوں میں جب دنیا، کبھی کورونا، کبھی جنگ، کبھی قدرتی آفات کی چنوتیوں سے گزر رہا تھی، تو اسی وقت بھارت نے اور بھارت کے لوگوں نے  ایک غیر معمولی قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارت نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اینٹی فریجائل ہونے کا اصلی مطلب کیا ہوتا ہے۔ آپ سوچئے، کہاں پہلے ’فریجائل فائیو‘ کی بات ہوتی تھی، وہیں اب بھارت کی شناخت ’اینٹی فریجائل‘ سے ہونے لگی ہے۔ بھارت نے دنیا کو پورے یقین سے دکھایا ہے کہ مصیبتوں کو مواقع میں کیسے بدلا جاتا ہے۔

100 سال میں آئے سب سے بڑے بحران کے وقت، بھارت نے جو صلاحیت دکھائی، اس کا مطالعہ کرکے 100 سال بعد انسانیت بھی خود پر فخر کرے گی۔ آج اس صلاحیت پر یقین کرتے ہوئے بھارت نے 21ویں صدی کے تیسرے دہے کی بنیاد رکھی ہے، سال 2023 میں داخل ہوا ہے۔ بھارت کی اس صلاحیت کی بازگشت آج اکنامک ٹائمز عالمی سربراہ اجلاس میں سنائی دے رہی ہے۔

دوستو،

آپ نے اس سال کے ای ٹی عالمی سربراہ اجلاس کا موضوع ’کاروبار اور دنیا کا ازسر نو تصور‘ رکھا ہے۔ ویسے مجھے نہیں پتہ کہ  یہ ’ازسر نو تصور ‘ والا موضوع صرف دوسروں کے لیے ہی ہے یا پھر قائدین کے لیے بھی ہے، وہ بھی کیا نافذ کریں گے؟ ہمارے یہاں تو بیشتر قائدین ہر چھ مہینے میں ایک ہی پروڈکٹ کے ری-لانچ، ری- ری لانچ میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اس ری لانچ میں بھی وہ ری-امیجنیشن نہیں کرتے۔ خیر، کافی سمجھدار لوگ یہاں بیٹھے ہیں، جو بھی ہو، لیکن یہ آج کے وقت کے لیے بہت ہی مناسب  موضوع ہے۔ کیونکہ جب ملک نے ہمیں خدمت کا موقع دیا، تو ہم نے پہلا کام یہی کیا، ذرا بھئی دوبارہ تصور کریں۔ 2014 میں صورتحال یہ تھی کہ لاکھوں کروڑوں کے گھوٹالوں کی وجہ سے ملک کی شبیہ داؤں پر لگی ہوئی تھی۔ بدعنوانی کی وجہ سے غریب، اپنے حق کی چیزوں کے لیے بھی ترس رہا تھا۔ نوجوانوں کی امنگوں کو ، کنبہ پرستی اور بھائی بھتیجا واد کے لیے قربان کیا جا رہا تھا۔ پالیسی جمود کی وجہ سے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں میں برسوں کی دیری ہو رہی تھی۔ ایسی فکر اور نقطہ نظر کے ساتھ ملک کا تیزی سے آگے بڑھنا مشکل تھا۔ اس لیے ہم نے طے کیا کہ حکمرانی کے ہر واحد عنصر کا دوبارہ تصور کریں گے، دوبارہ تیار کریں گے۔ حکومت، غریبوں کو بااختیار بنانے کے لیے فلاح و بہبود کی بہم رسانی کے نظام کی کس طرح اصلاح کرے ، ہم نے اس کا دوبارہ تصور کیا۔ حکومت مزید اثر انگیز طریقہ سے کیسے بنیادی ڈھانچہ بنا سکے، ہم نے یہ دوبارہ تصور کیا۔ حکومت کا ملک کے شہریوں کے ساتھ کیسا رشتہ ہو، ہم نے یہ دوبارہ تصور کیا۔ میں آپ کو فلاح و بہبود کی بہم رسانی سے وابستہ ازسر نو تصور کاری پر مزید تفصیل سے بتانا چاہتا ہوں۔

ناداروں کے پاس بھی بینک کھاتے ہوں، ناداروں کو بھی قرض حاصل ہو، ناداروں کو اپنے گھر اور املاک کی ملکیت حاصل ہو، انہیں بیت الاخلاء، بجلی اور کھانا پکانے کا صاف ستھرا ایندھن یا پھر تیز رفتار انٹرنیٹ کنکٹیویٹی حاصل ہو، ان کی پہلے اتنی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس سوچ کو بدلا جانا، از سر نو تصور کیا جانا بہت ضروری تھا۔ کچھ لوگ غریبی ہٹاؤ کی باتیں بھلے ہی کرتے تھے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ پہلے غریبوں کو ملک پر بوجھ مانا جاتا تھا۔ اس لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ جبکہ ہماری توجہ غریبوں کو بااختیار بنانے پر مرتکز ہے، تاکہ وہ ملک کی تیز رفتار نمو میں اپنی پوری قوت کے ساتھ تعاون دے سکیں۔ براہِ راست فائدہ منتقلی کی مثال آپ کی نظر ضرور اس پر گئی ہوگی۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں سرکاری اسکیموں میں بدعنوانی، رساؤ اور بچولیے، یہ باتیں عام تھیں اور سماج نے بھی اسے قبول کر لیا تھا۔ حکومتوں کا بجٹ، حکومتوں کے اخراجات بڑھتے گئے، لیکن غریبی بھی بڑھتی گئی۔ آج سے 4 دہائی قبل، اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی جی نے کہا تھا کہ ویلفیئر کے لیے ایک روپیہ دہلی سے بھیجتے ہیں تو مستفید تک پہنچتے پہنچتے وہ 15 پیسہ ہو جاتا ہے۔ کون  سا پنجا گھستا تھا مجھے معلوم نہیں ہے۔ ہماری حکومت ابھی تک الگ الگ اسکیموں کے تحت راست فائدہ منتقلی بہبودی اسکیموں کے تحت 28 لاکھ کروڑ روپئے منتقل کر چکی ہے۔ اب آپ سوچئے کہ راجیو گاندھی جی نے جو کہا تھا، اسی بات کو اگر میں آج کے ساتھ جوڑوں تو ایک روپیہ میں سے 15 پیسہ پہنچنے والی بات کو پکڑوں تو 85 فیصد یعنی 24 لاکھ کروڑ روپئے کی رقم کسی کی جیب میں چلی گئی ہوتی، کسی نے لوٹ لی ہوتی، رفع دفع ہوگئی ہوتی۔ اور صرف 4 لاکھ کروڑ روپئے ناداروں کے پاس پہنچے ہوتے، لیکن چونکہ میں نے ازسر نو تصور کیا، ڈی بی ٹی کے نظام کو ترجیح دی۔ آج ایک روپیہ دہلی سے نکلتا ہے، 100 کے 100 پیسے اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ یہ ہے ازسر نو تصورکاری۔

ساتھیو،

کبھی نہرو جی نے کہا تھا کہ جس دن ہر بھارتی کے پاس بیت الخلاء کی سہولت ہوگی، اس دن ہم جان جائیں گے کہ ملک ترقی کی ایک نئی بلندی پر ہے۔ میں یہ پنڈت نہرو جی کی بات کر رہا ہوں۔ کتنے سال پہلے کی ہوگی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مطلب نہرو جی کو بھی اس مسئلے کا علم تھا، لیکن حل کرنے کا اشتیاق نظر نہیں آیا، اور اس وجہ سے ملک کا بہت بڑا حصہ  طویل عرصے تک بنیادی سہولت سے محروم رہا۔ 2014 میں جب ہمیں خدمت کرنے کا موقع حاصل ہوا تو ملک کے دیہی علاقوں میں صفائی ستھرائی احاطہ 40 فیصد سے بھی کم تھا۔ ہم نے اتنے کم وقت میں 10 کروڑ سے زائد بیت الخلاء تعمیر کرائے، سووَچھ بھارت ابھیان شروع کیا۔ آج ملک کے دیہی علاقوں میں صفائی ستھرائی حاطہ 100 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

میں آپ کو توقعاتی اضلاع کی بھی ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ ری امیجن والا موضوع جو آپ نے رکھا ہے تو میں اسی دائرے میں اپنے آپ کو رکھنا چاہتا ہوں۔ حالت یہ تھی کہ سال 2014 میں ملک میں 100 سے زائد ایسے اضلاع تھے، جنہیں بہت ہی پسماندہ خیال کیا جا تا تھا۔ ان اضلاع کی پہچان تھی – غریبی، پچھڑا پن، نہ سڑک، نہ پانی، نہ اسکول، نہ بجلی، نہ ہسپتال، نہ تعلیم، نہ روزگار۔ اور ا ن میں ہمارے ملک کے زیادہ تر آدی واسی بھائی بہن ان علاقوں میں رہا کرتے تھے۔ ہم نے پسماندگی کے اس تصور کو از سر نو پیش کیا اور ان اضلاع کو توقعاتی اضلاع بنایا۔ پہلے ان اضلاع میں افسران کی پوسٹنگ سزا کے طور پر کی جاتی تھی۔ آج وہاں بہترین اور نوجوان افسران کو تعینات کیا جاتا ہے۔

آج مرکزی حکومت، سرکاری دائرہ کار کی اکائیاں، ریاستی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ، سبھی مل کر ان اضلاع کو تبدیلی سے ہمکنار کرنے کے لیے پوری محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں بہتر نتائج بھی حاصل ہونے لگے ہیں اور اس کی ریئل ٹائم مانٹرنگ بھی ہو رہی ہے، تکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب جیسے یو پی کے توقعاتی ضلع فتح پور میں ادارہ جاتی بہم رسانی 47 فیصد سے بڑھ کر 91 فیصد کے بقدر ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے زچگی شرح اموات، چھوٹے بچوکی شرح اموات میں بہت بڑی کمی آئی ہے۔ مدھیہ پردیش کے توقعاتی ضلع بڑوانی وہ پوری طرح سے قوت مدافعت سے لیس بچوں کی تعداد 40 فیصد سے بڑھ کر اب 90 فیصد ہوگئی ہے، بچوں کی زندگی کی فکر ہوئی۔ مہاراشٹر کے توقعاتی ضلع واسم میں، ٹی بی کے علاج کی کامیابی کی شرح 40 فیصد ہوا کرتی تھی، وہ بڑھ کر 90 فیصد ہوگئی ہے۔ کرناٹک کے توقعاتی ضلع یادگیر میں اب براڈ بینڈ کنکٹیویٹی سے جڑی گرام پنچایتوں کی تعداد 20 فیصد سے 80 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں، جس میں کسی وقت جس کو پسماندہ ضلع کہہ کر اچھوت بنا دیا گیا تھا، ایسے توقعاتی اضلاع کی کوریج پورے ملک کے اوسط سے بھی بہتر ہو رہی ہے۔ یہ ہے ’ری امیجنیشن‘۔

میں آپ کو صاف ستھرے پانی کی سپلائی کی بھی مثال دوں گا۔ آزادی کے 7 دہوں کے بعد بھی ہمارے ملک میں صرف 30 ملین یعنی 3 کروڑ دیہی کنبوں کے پاس ہی نل کے ذریعہ پانی کا کنکشن تھا۔ 160 ملین دیہی کنبے یعنی 16 کروڑ کنبے اس سے محروم تھے۔ ہم نے بڑی بڑی باتوں کے بجائے، 80 ملین یعنی 8 کروڑ نئے نل کے ذریعہ پانی کے کنکشن محض ساڑھے 3 برسوں میں فراہم کرائے ہیں۔ یہ ہے از سر نو تصور کاری کا کمال۔

دوستو،

اس سربراہ اجلاس میں شامل ماہرین بھی اس بات کو مانیں گے کہ بھارت کی تیز رفتار نمو کے لیے اچھا بنیادی ڈھانچہ ضروری ہے۔ لیکن ملک میں پہلے کیا صورتحال تھی؟ اور جو حالت تھی، وہ کیوں تھی؟ اکنامک ٹائمز میں تو بڑےبڑے اداریے اس پر شائع بھی ہوئے ہیں، لوگوں نے اپنی آراء بھی دی ہیں۔ اور ان میں جو بات اہم رہی ہے، وہ یہ کہ ہمارے یہاں بنیادی ڈھانچہ سے جڑے فیصلوں میں، ملک کی ضرورت کو کم دیکھا جاتا تھا اور سیاسی اولوالعزمی کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اس کا جو نتیجہ نکلا، اس کا خمیازہ پورا ملک اٹھا رہا ہے۔ اگر کہیں سڑکیں بھی بننی ہیں تو پہلے دیکھا جاتا تھا کہ سڑک بننے کے بعد ووٹ ملیں گے یا نہیں۔ ریل گاڑی کہاں رکے گی، کہاں چلے گی، یہ بھی سیاسی نفع نقصان دیکھ کر طے ہوتا تھا۔ یعنی بنیادی ڈھانچہ کی طاقت کو پہلے کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ ہمارے پاس اور یہ آپ کو چونکانے والی چیزیں لگیں گی، کبھی اکنامک ٹائمز والوں نے لکھا نہیں ہوگا، بدقسمتی ہے جی، ہمارے یہاں ڈیمز بنتے تھے، لیکن کینال نیٹ ورک نہیں بنتا تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ 6 منزلہ مکان بنے، اور لفٹ بھی نہ ہو، زینہ بھی نہ ہو، ایسا سوچ سکتے ہیں آپ۔ باندھ بنے اور کینال نہ ہو، لیکن شاید اس وقت اکنامک ٹائمز کو دیکھنا مناسب نہیں لگا ہوگا۔

ہمارے پاس کانیں تھیں، لیکن معدنیات کے نقل و حمل کے لیے کنکٹیویٹی کبھی نہیں تھی۔ ہمارے پاس بندرگاہیں تھیں، لیکن ریلوے اور سڑک کنکٹیویٹی کے بہت سے مسائل تھے۔ ہمارے پاس بجلی کے پلانٹس تھے، لیکن ٹرانس مشن لائنیں کافی نہیں تھیں، جو تھیں وہ بھی خراب حالت میں تھیں۔

ساتھیو،

ہم نے  بنیادی ڈھانچہ کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کے چلن کو ختم کیا اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ایک شاندار حکمت عملی کے طور پر ری امیجن کیا۔ آج بھارت میں یومیہ 38 کلو میٹر کی رفتار سے ہائی وے بن رہے ہیں اور روزانہ 5 کلو میٹر سے زائد ریل لائنیں بچھائی جا رہی ہیں۔ ہماری  بندرگاہ صلاحیت آنے والے دو برسوں میں 3000 ایم ٹی پی اے تک پہنچنے والی ہے۔ 2014 کے مقابلے آپریشنل ہوائی اڈوں کی تعداد 74 سے بڑھ کر 147 ہو چکی ہے۔ ان 9 برسوں میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ کلو میٹر دیہی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ تقریباً 80 ہزار کلو میٹر نیشنل ہائی وے بنے ہیں، یہ سارے 9 برسوں کا حساب میں دے رہا ہوں آپ کو۔ یہ یاد کرانا پڑتا ہے، کیونکہ اس کو یہاں بلیک آؤٹ کرنے والے بہت بیٹھے ہیں۔ ان ہی 9 برسوں میں 3 کروڑ غریب کنبوں کو پختہ مکان بناکر دیے گئے ہیں اور یہ تین کروڑ کا آنکڑا اتنا بڑا ہے کہ دنیا کے کتنے ہی ممالک کی آبادی بھی نہیں ہے، جتنے گھر بناکر ہم نے 9 سال میں بھارت کے غریبوں کو دیے ہیں۔

ساتھیو،

بھارت میں پہلی میٹرو کولکاتا میں 1984 میں شروع ہوئی تھی۔ یعنی ہمارے پاس تکنالوجی آگئی، مہارت آگئی، لیکن پھر کیا ہوا؟ ملک کے بیشتر شہر میٹرو سے محروم ہی رہے۔ 2014 تک یعنی جب آپ نے مجھے خدمت کرنے کا موقع دیا اس کے پہلے 2014 تک ہر مہینے آدھا کلو میٹر کے آس پاس ہی نئی میٹرو لائن بنا کرتی تھی۔ 2014 کے بعد میٹرو نیٹ ورک بچھانے کا اوسط بڑھ کر تقریباً 6 کلو میٹر ماہانہ ہوچکا ہے۔ ابھی بھارت میٹرو روٹ طوالت کے معاملے میں دنیا میں 5ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ آنے والے چند مہینوں میں ہی ہم دنیا میں تیسرے نمبر پر پہنچنے والے ہیں۔

دوستو،

آج پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان، بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کو تو رفتار دے رہا ہے، اور جیسا ونیت جی نے کہا کہ رفتار اور طاقت دونوں کو ہم نے جوڑا ہے۔ یعنی یہ پورا تصور کیسے رفتار دے رہا ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہے یہ بس ریل روڈ تک محدود نہیں ہے، جب ہم گتی شکتی کے بارے میں سوچتے ہیں تو علاقے کی ترقی کا بھی اس میں تصور ہے اور وہاں کے عوام کی ترقی جیسی تریوینی سا نظام اس میں جوڑا گیا ہے۔ گتی شکتی پلیٹ فارم پر آپ میں سے جو لوگ تکنالوجی میں دلچسپی رکھتے ہوں گے، ان کے لیے  شاید یہ جانکاری بڑی دلچسپ ہوگی۔ آج گتی شکتی کا ہمارا جو پلیٹ فارم ہے، بنیادی ڈھانچہ میپنگ کی 1600 سے زائد ڈاٹا لیئرس ہیں۔ اور کوئی بھی پرپوزل آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی مدد سے 1600 لیئرس سے گزر کر فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے ایکسپریس ویز ہوں یا پھر دوسرا بنیادی ڈھانچہ، آج مختصر ترین اور سب سے اثر انگیز راستے  طے کرنے کے لیے اسے اے آئی سے بھی جوڑا گیا ہے۔ پی ایم گتی شکتی سے علاقے اور عوام کی ترقی کیسے ہوتی ہے، اس کی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں۔ اس سے ہم کسی ایک علاقے میں آبادی کے گھنے پن اور اسکولوں کی دستیابی کو نقشہ بند کر سکتے ہیں، 1600 پیرامیٹر کی بنیاد پر۔ اور صرف مطالبے یا سیاسی غور و فکر کی بنیاد پر اسکولوں کو مختص کرنے کے بجائے، ہم جہاں ضرورت ہے، وہاں اسکول بنا سکتے ہیں۔ یعنی یہ گتی شکتی پلیٹ فارم یعنی موبائل ٹاور کہاں لگانا مناسب ہوگا، وہ بھی طے کر سکتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں منفرد نظام ہم نے کھڑا کیا ہے۔

ساتھیو،

ہم بنیادی ڈھانچے کو کیسے ری امیجن کر ر ہے ہیں اس کی ایک اور مثال ہمارا ہوابازی کا شعبہ ہے۔ یہاں موجود بہت کم لوگوں کویہ معلوم ہوگا کہ ہمارے یہاں برسوں تک ایک بہت بڑا ایئر اسپیس، دفاع کے لیے محدود رہا ہے۔ اس وجہ سے ہوائی جہازوں کو بھارت میں کہیں بھی آنے جانے میں زیادہ وقت لگتا تھا، کیونکہ وہ اگر دفاع کا ایئر اسپیس ہے تو وہاں نہیں جا سکتے تھے، آپ کو گھوم کر جانا پڑتا تھا۔ اس مسئلے کو سلجھانے  کے لیے ہم نے مسلح افواج کے ساتھ بات کی۔ آج 128 فضائی راستوں کو شہری نقل و حمل کے لیے بھی کھولا جا چکا ہے۔ اس کے سبب پرواز کے راستے چھوٹے ہوگئے، جس سے وقت بھی بچ رہا ہے اور ایندھن بھی بچ رہا ہے، دونوں کی بچت میں مدد مل رہی ہے۔ اور میں آپ کو ایک اور آنکڑا دوں گا۔ اس ایک فیصلے سے ہی تقریباً ایک لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج بھی کم ہوا ہے۔ یہ ہوتی ہے ازسر نو تصورکاری کی قوت۔

ساتھیو،

آج بھارت نے طبعی اور سماجی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا ایک نیا ماڈل پوری دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ اس کی مشترکہ مثال ہمارا ڈجیٹل بنیادی ڈھانچہ ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں ہم نے ملک میں 6 لاکھ کلو میٹر سے زیادہ کا آپٹیکل فائبر بچھایا ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں ملک میں موبائل مینوفیکچرنگ اکائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں ملک میں انٹرنیٹ ڈاٹا کی قیمت 25 گنا کم ہوئی ہے۔ دنیا کا سب سے سستا اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ سال 2012 میں میرے آنے سے قبل بھارت گلوبل موبائل ڈاٹا ٹریفک میں صرف 2 فیصد ہی تعاون دیا کرتا تھا۔ جبکہ مغربی منڈی کا تعاون اُس وقت 75 فیصد کے بقدر تھا۔ 2022 میں بھارت کے پاس گلوبل موبائل ڈاٹا ٹریفک کا 21 فیصد شیئر تھا۔ جبکہ شمالی امریکہ اور یوروپ کے پاس گلوبل ٹریفک کا ایک چوتھائی شیئر ہی رہ گیا ہے۔ آج دنیا کی 40 فیصد ریئل ٹائم ڈجیٹل ادائیگیاں بھارت میں ہوتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کو ملک کے عوام کا جواب ہے، جو سوچتے تھے کہ بھارت کے غریب کہاں سے ڈجیٹل ادائیگی کر پائیں گے۔ مجھے ابھی کسی نے ایک ویڈیو بھیجا تھا کہ شادی میں کوئی ڈھول بجا رہا تھا اور اس پر کیوآر کوڈ لگا ہوا تھا۔ اور وہ دولہے پر فون گھماکر کیوآر کوڈ کی مدد سے اس کو پیسے دے رہے تھے۔ ری امیجنیشن کے اس دور میں بھارت کے عوام نے ایسے لوگوں کی سوچ کو ہی مسترد کر دیا ہے۔ یہ لوگ پارلیمنٹ میں بولتے تھے، غریب یہ کہاں سے کرے گا، میرے ملک کے غریب کی طاقت کا کبھی اندازہ نہیں تھا جی۔ مجھے ہے۔

دوستو،

ہمارے ملک میں طویل عرصے تک جو حکومتیں رہیں یا جو حکومت چلانے والے رہے، انہیں مائی باپ کلچر بہت پسند آتا تھا۔ آپ لوگ اسے کنبہ پرستی اور بھائی بھتیجا واد سے کنفیوز مت کریئے گا۔ یہ ایک الگ ہی احساس تھا۔ اس میں حکومت، اپنے ہی ملک کے شہریوں کے درمیان، مالک جیسا برتاؤ کرتی تھی۔ حال یہ تھا کہ ملک کا شہری بھلے کچھ بھی کرے، حکومت اسے شک کی نظر سے ہی دیکھتی تھی۔ اور شہری کچھ بھی کرنا چاہے، اسے حکومت کی اجازت لینی پڑتی تھی۔ اس وجہ سے، پہلے کے وقت، حکومت اور شہریوں کے درمیان باہمی عدم اعتماد اور شک و شبہ کا ماحول بنا رہتا تھا۔ یہاں جو سینئر صحافی بیٹھے ہیں، انہیں میں ایک بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں ٹی وی اور ریڈیو کے لیے بھی لائسنس لینا پڑتا تھا۔ اتنا ہی نہیں، اسے ڈرائیونگ لائسنس کی طرح ہی بار بار رینیو کرانا پڑتا تھا۔ اور یہ کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ تقریباً ہر شعبے میں تھا۔ تب کاروبار کرنا کتنا مشکل تھا، لوگوں کو تب کیسے ٹھیکے ملتے تھے، یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔90  کی دہائی میں مجبوری کی وجہ سے کچھ پرانی غلطیاں سدھاری گئیں، اور انہیں اصلاحات کا نام دیا گیا، لیکن یہ مائی باپ والی پرانی ذہنیت پوری طرح سے نہیں گئی ۔ 2014 کے بعد ہم نے اس ’حکومت کو اولیت ‘کی ذہنیت کو ’عوام کو اولیت ‘کے نقطہ  نظر سے بدل کر از سر نو تصور پیش کیا۔ ہم نے ’شہریوں پر اعتماد ‘کے اصول پر کام کیا۔ سیلف اٹیسٹیشن ہو یا پھر نچلے درجے والی ملازمتیں  ہوں، ان سے انٹرویوز کو ختم کرنا ہو، میرٹ کی بنیاد پر کمپیوٹر طے کرتا ہے، اس کو نوکری مل جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے اقتصادی جرائم کو ناقابل تعزیر قرار  دینا ہو یا پھر جن وشواس بل ہو، ضمانت سے مبرا مدرا قرض ہوں یا پھر ایم ایس ایم ای اکائیوں کے لیے حکومت خود ضمانت بنے، ایسے ہر پروگرام، ہر پالیسی میں عوام پر اعتماد ہی ہمارا اصول ہے۔ اب ٹیکس وصولی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔

2013-14 میں ملک کی مجموعی ٹیکس آمدنی تقریباً 11 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر تھی۔ جبکہ 2023-24 میں یہ 33 لاکھ کروڑ روپئے سے زائد رہنے کا تخمینہ ہے۔ یعنی 9 برسوں میں مجموعی ٹیکس آمدنی میں 3 گنا اضافہ رونما ہوا ہے۔  اور یہ تب ہوا ہے، جب ہم نے ٹیکس کی شرحوں میں تخفیف کی ہے۔ سمیر جی کا سجھاؤ تو ابھی ہم نے منتخب نہیں کیا ہے۔ ہم نے تو گھٹایا ہے۔ اس کے جواب میں چاہوں گا آپ لوگ جو دنیا سے جڑے ہیں اس ساتھ راست تعلق ہے۔ میں تین باتوں پر فوکس کروں گا۔ پہلی یہ کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اب مجھے بتائیے کہ ٹیکس دہندگان کا نمبر بڑھا ہے تو اس کا کریڈٹ کس کو دو گے آپ، بہت فطری ہے کہ اس کا کریڈٹ حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔ یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب لوگ زیادہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اگر یہ بھی کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے تو اہم بات یہ ہےکہ جب ٹیکس دہندگان کو لگتا ہے کہ اس کا ادا کیا گیا ٹیکس پائی پائی عوامی فلاح و بہبود میں ملک کی فلاح و بہبود میں ہی استعمال ہوگا تو وہ ایمانداری سے ٹیکس دینے میں آگے آتا ہے، اس کو حوصلہ ملتا ہے۔ اور یہ آج ملک دیکھ رہا ہے۔ اور اس لیے میں ٹیکس دہندگان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ حکومت کی ایمانداری پر بھروسہ کرکے وہ حکومت کو ٹیکس دینے کےلیے آگے آرہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ لوگ آپ پر تب اعتماد کرتے ہیں، جب آپ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ بھارت کے ٹیکس نظام میں آج جو تبدیلی آئی ہے، وہ اسی وجہ سے آئی ہے۔ ٹیکس ریٹرنس کے لیے ہم نے پروسیس کو آسان کرنے کے لیے اعتماد کی بنیاد پر ہی کوشش کی۔ ہم فیس لیس تجزیہ لے کر آئے۔  میں آپ کو ایک اور آنکڑا بتاتا ہوں۔ انکم ٹیکس محکمہ نے اس سال ساڑھے 6 کروڑ سے زائد ریٹرنس کو پروسیس کیا ہے۔ ان میں سے تقریباً 3 کروڑ ریٹرنس چوبیس گھنٹے کے اندر پروسیس ہوئے ہیں۔ بقیہ جو ریٹرنس تھے، وہ بھی کچھ ہی دن میں پروسیس ہوگئے، اور پیسہ بھی ری فنڈ ہوگیا۔ جبکہ اسی کام میں پہلے اوسطاً 90 دن لگ جاتے تھے۔ اور لوگوں کے پاس 90 دن پڑے رہتے تھے۔ آج وہ گھنٹوں میں کیا جاتا ہے۔ کچھ برس قبل تک یہ ناقابل تصور تھا۔ لیکن اسے بھی ری امیجنیشن کی طاقت نے سچ کر دکھایا ہے۔

ساتھیو،

آج بھارت کی خوشحالی میں دنیا کی خوشحالی ہے، بھارت کی نمو میں دنیا کی نمو ہے۔ بھارت نے جی20 کا جو موضوع طے کیا ہے ’ایک دنیا، ایک کنبہ، ایک مستقبل‘ دنیا کی متعدد چنوتیوں کا حل اسی اصول میں ہے۔ ساجھا عزائم سے، سب کے مفادات کے تحفظ سے ہی یہ دنیا اور بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ دہائی اور آنے والے 25 سال بھارت کو لے کر غیر معمولی یقین کے ہیں۔ سب کی کوشش سے ہی بھارت اپنے اہداف کو تیزی سے حاصل کرے گا۔ میں آپ سبھی سے گذارش کروں گا کہ بھارت کی ترقی کے سفر سے زیادہ سے زیادہ مربوط ہوں۔ اور جب آپ بھارت کی ترقی کے سفر سے جڑتے ہیں تو بھارت آپ کی ترقی کی ضمانت دیتا ہے، آج یہ بھارت کی صلاحیت ہے۔ میں اکنامک ٹائمز کا شکرگزار ہوں کہ مجھ جیسے شخص کو یہاں بلایا۔ اخبار میں جگہ نہ ملے، لیکن یہاں تو مل جاتی ہے کبھی کبھی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ جب ونیت جی اور سمیر جی بولیں گے تب ری امیجن کے تعلق سے بولیں گے، لیکن انہوں نے اس موضوع کو چھوا ہی نہیں۔ تو شاید ان کے ایڈیٹورئیل بورڈ پیچھے طے کرتا ہوگا اور مالک کو بتاتے ہی نہیں ہوں گے۔ کیونکہ مالک ہمیں بتاتے ہیں کہ جو چھپتا ہے اس کا ہمیں علم نہیں ہوتا وہ تو وہ کرتے ہیں۔ تو شاید ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ خیر اس کھٹی میٹھی باتوں کے ساتھ میں آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
Year Ender 2025: Major Income Tax And GST Reforms Redefine India's Tax Landscape

Media Coverage

Year Ender 2025: Major Income Tax And GST Reforms Redefine India's Tax Landscape
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs Fifth National Conference of Chief Secretaries in Delhi
December 28, 2025
Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence in governance, delivery and manufacturing: PM
PM says India has boarded the ‘Reform Express’, powered by the strength of its youth
PM highlights that India's demographic advantage can significantly accelerate the journey towards Viksit Bharat
‘Made in India’ must become a symbol of global excellence and competitiveness: PM
PM emphasises the need to strengthen Aatmanirbharta and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect’
PM suggests identifying 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience
PM urges every State must to give top priority to soon to be launched National Manufacturing Mission
PM calls upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and make India a Global Services Giant
PM emphasises on shifting to high value agriculture to make India the food basket of the world
PM directs States to prepare roadmap for creating a global level tourism destination

Prime Minister Narendra Modi addressed the 5th National Conference of Chief Secretaries in Delhi, earlier today. The three-day Conference was held in Pusa, Delhi from 26 to 28 December, 2025.

Prime Minister observed that this conference marks another decisive step in strengthening the spirit of cooperative federalism and deepening Centre-State partnership to achieve the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised that Human Capital comprising knowledge, skills, health and capabilities is the fundamental driver of economic growth and social progress and must be developed through a coordinated Whole-of-Government approach.

The Conference included discussions around the overarching theme of ‘Human Capital for Viksit Bharat’. Highlighting India's demographic advantage, the Prime Minister stated that nearly 70 percent of the population is in the working-age group, creating a unique historical opportunity which, when combined with economic progress, can significantly accelerate India's journey towards Viksit Bharat.

Prime Minister said that India has boarded the “Reform Express”, driven primarily by the strength of its young population, and empowering this demographic remains the government’s key priority. Prime Minister noted that the Conference is being held at a time when the country is witnessing next-generation reforms and moving steadily towards becoming a major global economic power.

He further observed that Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence and urged all stakeholders to move beyond average outcomes. Emphasising quality in governance, service delivery and manufacturing, the Prime Minister stated that the label "Made in India' must become a symbol of excellence and global competitiveness.

Prime Minister emphasised the need to strengthen Aatmanirbharta, stating that India must pursue self-reliance with zero defect in products and minimal environmental impact, making the label 'Made in India' synonymous with quality and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect.’ He urged the Centre and States to jointly identify 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience in line with the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised the need to map skill demand at the State and global levels to better design skill development strategies. In higher education too, he suggested that there is a need for academia and industry to work together to create high quality talent.

For livelihoods of youth, Prime Minister observed that tourism can play a huge role. He highlighted that India has a rich heritage and history with a potential to be among the top global tourist destinations. He urged the States to prepare a roadmap for creating at least one global level tourist destination and nourishing an entire tourist ecosystem.

PM Modi said that it is important to align the Indian national sports calendar with the global sports calendar. India is working to host the 2036 Olympics. India needs to prepare infrastructure and sports ecosystem at par with global standards. He observed that young kids should be identified, nurtured and trained to compete at that time. He urged the States that the next 10 years must be invested in them, only then will India get desired results in such sports events. Organising and promoting sports events and tournaments at local and district level and keeping data of players will create a vibrant sports environment.

PM Modi said that soon India would be launching the National Manufacturing Mission (NMM). Every State must give this top priority and create infrastructure to attract global companies. He further said that it included Ease of Doing Business, especially with respect to land, utilities and social infrastructure. He also called upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and strengthen the services sector. In the services sector, PM Modi said that there should be greater emphasis on other areas like Healthcare, education, transport, tourism, professional services, AI, etc. to make India a Global Services Giant.

Prime Minister also emphasized that as India aspires to be the food basket of the world, we need to shift to high value agriculture, dairy, fisheries, with a focus on exports. He pointed out that the PM Dhan Dhanya Scheme has identified 100 districts with lower productivity. Similarly, in learning outcomes States must identify the lowest 100 districts and must work on addressing the issues around the low indicators.

PM also urged the States to use Gyan Bharatam Mission for digitization of manuscripts. He said that States may start a Abhiyan to digitize such manuscripts available in States. Once these manuscripts are digitized, Al can be used for synthesizing the wisdom and knowledge available.

Prime Minister noted that the Conference reflects India’s tradition of collective thinking and constructive policy dialogue, and that the Chief Secretaries Conference, institutionalised by the Government of India, has become an effective platform for collective deliberation.

Prime Minister emphasised that States should work in tandem with the discussions and decisions emerging from both the Chief Secretaries and the DGPs Conferences to strengthen governance and implementation.

Prime Minister suggested that similar conferences could be replicated at the departmental level to promote a national perspective among officers and improve governance outcomes in pursuit of Viksit Bharat.

Prime Minister also said that all States and UTs must prepare capacity building plan along with the Capacity Building Commission. He said that use of Al in governance and awareness on cyber security is need of the hour. States and Centre have to put emphasis on cyber security for the security of every citizen.

Prime Minister said that the technology can provide secure and stable solutions through our entire life cycle. There is a need to utilise technology to bring about quality in governance.

In the conclusion, Prime Minister said that every State must create 10-year actionable plans based on the discussions of this Conference with 1, 2, 5 and 10 year target timelines wherein technology can be utilised for regular monitoring.

The three-day Conference emphasised on special themes which included Early Childhood Education; Schooling; Skilling; Higher Education; and Sports and Extracurricular Activities recognising their role in building a resilient, inclusive and future-ready workforce.

Discussion during the Conference

The discussions during the Conference reflected the spirit of Team India, where the Centre and States came together with a shared commitment to transform ideas into action. The deliberations emphasised the importance of ensuring time-bound implementation of agreed outcomes so that the vision of Viksit Bharat translates into tangible improvements in citizens’ lives. The sessions provided a comprehensive assessment of the current situation, key challenges and possible solutions across priority areas related to human capital development.

The Conference also facilitated focused deliberations over meals on Heritage & Manuscript Preservation and Digitisation; and Ayush for All with emphasis on integrating knowledge in primary healthcare delivery.

The deliberations also emphasised the importance of effective delivery, citizen-centric governance and outcome-oriented implementation to ensure that development initiatives translate into measurable on-ground impact. The discussions highlighted the need to strengthen institutional capacity, improve inter-departmental coordination and adopt data-driven monitoring frameworks to enhance service delivery. Focus was placed on simplifying processes, leveraging technology and ensuring last-mile reach so that benefits of development reach every citizen in a timely, transparent and inclusive manner, in alignment with the vision of Viksit Bharat.

The Conference featured a series of special sessions that enabled focused deliberations on cross-cutting and emerging priorities. These sessions examined policy pathways and best practices on Deregulation in States, Technology in Governance: Opportunities, Risks & Mitigation; AgriStack for Smart Supply Chain & Market Linkages; One State, One World Class Tourist Destination; Aatmanirbhar Bharat & Swadeshi; and Plans for a post-Left Wing Extremism future. The discussions highlighted the importance of cooperative federalism, replication of successful State-level initiatives and time-bound implementation to translate deliberations into measurable outcomes.

The Conference was attended by Chief Secretaries, senior officials of all States/Union Territories, domain experts and senior officers in the centre.