’’اب ہمارا آزادی کے 100 سال مکمل ہونے تک کا سفر، اپنی زراعت کو نئی ضروریات، نئے چیلنجوں کے مطابق اپنانا ہے‘‘
’’ہمیں اپنی زراعت کو کیمسٹری کی لیب سے باہر نکالنا اور قدرت کی لیب سے جوڑنا ہے، جب میں قدرت کی لیباریٹری کی بات کرتا ہوں تو یہ مکمل طور پر سائنس پر مبنی ہے‘‘
’’ہمیں نہ صرف زراعت کے قدیم علم کو پھر سے سیکھنا ہے بلکہ جدید دور کے لئے اسے چمکانا ہے، اس سلسلے میں ہمیں پھر سے تحقیق کرنی ہوگی، قدیم علم کو جدید سائنسی فریم کے مطابق ڈھالنا ہوگا‘‘
’’قدرتی کھیتی سے جن لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، وہ ملک میں تقریبا 80 فیصد کسان ہیں‘‘
’’بھارت اور اس کے کسان 21 ویں صدی میں ’’لائف اسٹائل فار انوائرنمنٹ‘‘ یعنی ’لائف‘ کے لئے عالمی مشن میں قیادت کریں گے‘‘
’’اس امرت مہوتسو میں ہر پنچایت کے کم از کم ایک گاؤں کو قدرتی کھیتی سے جوڑنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں‘‘
’’آزادی کے امرت مہوتسو میں آیئے ہم ماں بھارتی کی زمین کو کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار ادویات سے پاک کرنے کا عہد کریں‘‘

نمسکار۔

گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی، وزیر داخلہ و وزیر تعاون جناب امت بھائی شاہ، زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر جی، گجرات کے وزیر اعلی بھوپندر بھائی پٹیل جی، اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، دیگر تمام معززین، میرے کسان بھائیو اور بہنو، ملک کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں جڑے میرے کسان بھائی بہن، ملک کے زراعت کے شعبے سے جڑے افراد۔ آج کھیتی باڑی کے لیے ایک بہت اہم دن ہے۔ میں نے ملک بھر کے کسان ساتھیوں پر زور دیا تھا کہ وہ قدرتی کاشت کاری کے قومی کنکلیو میں شامل ہوں۔ اور جیسا کہ وزیر زراعت تومر جی نے ابھی بتایا ہے کہ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 8 کروڑ کسان ٹکنالوجی کے ذریعے ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میں تمام کسان بھائیوں اور بہنوں کا خیرمقدم کرتا ہوں اور انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آچاریہ دیوورت جی کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آج ایک طالب علم کی طرح بہت غور سے ان کی بات سن رہا تھا۔ میں خود کسان نہیں ہوں، لیکن بہت آسانی سے سمجھ پا رہا تھا کہ قدرتی زراعت کے لیے کیا ضروری ہے، کیا کرنا ہے، بہت آسان الفاظ میں انھوں نے سمجھایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آج کی یہ رہ نمائی، اور میں جان بوجھ کر آج سارا وقت ان کی بات سننے بیٹھا تھا، کیوں کہ میں جانتا تھا کہ انھوں نے جو کام یابیاں حاصل کی ہیں انھوں نے اس تجربے کو کام یابی سے آگے بڑھایا ہے۔ ہمارے ملک کے کسان اپنے فائدے کے اس نکتے کو کبھی کم نہیں سمجھیں گے، اسے کبھی نہیں بھولیں گے۔

ساتھیو،

یہ کنکلیو گجرات میں ہو رہا ہے لیکن اس کا دائرہ کار، اس کااثر پورےبھارت، بھارت کے ہر کسان کے لیے ہے۔ فوڈ پروسیسنگ ہو، قدرتی کاشت کاری ہو، یہ مضامین اکیسویں صدی میں بھارتی زراعت کو دوبارہ زندہ کرنے میں بہت مدد گار ہوں گے۔ اس کنکلیو کے دوران ہزاروں کروڑ روپے کے معاہدوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور ان پر پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ یہاں ایتھنول، نامیاتی کاشت کاری اور فوڈ پروسیسنگ میں دکھائے گئے جوش و خروش نظر آیا ہے، نئے امکانات نظر آئے ہیں۔ میں اس بات سے بھی مطمئن ہوں کہ گجرات میں ٹکنالوجی اور قدرتی کاشت کاری میں ہم نے جو تجربات کیے وہ پورے ملک کی رہ نمائی کر رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت جی کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے خود تجربے کے ذریعے ملک کے کسانوں کو قدرتی کاشت کاری کے بارے میں اتنے آسان الفاظ میں بہت تفصیل سے سمجھایا ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے امروت مہوتسو میں آج ماضی کا مشاہدہ کرنے اور ان کے تجربات سے سبق سیکھنے اور نئے طریقے تخلیق کرنے کا بھی وقت ہے۔ آزادی کے بعد کی دہائیوں میں ملک میں جس طرح کاشتکاری ہوئی ہم سب نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اب آزادی کے 100 ویں سال تک ہمارا سفر، آنے والے 25 برسوں کا سفر، اپنی کاشت کاری کو نئی ضرورتوں، نئے چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے کا ہے۔ گذشتہ 6-7 برسوں میں کاشتکار کی آمدنی بیج سےمارکیٹ تک بڑھانے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ مٹی کی جانچ سے لے کر سیکڑوں نئے بیج تیار کرنے تک، پی ایم کسان سمان ندھی سے لے کر ایم ایس پی کی لاگت کو 1.5 گنا کرنے تک، آبپاشی کے مضبوط نیٹ ورک سے لے کر کسان ریل تک، کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اور تومر جی نے بھی اپنی تقریر میں اس بارے میں کچھ ذکر کیا ہے۔ کسانوں کو مسلسل آمدنی کے متعدد متبادل ذرائع جیسے مویشی پالنے، شہد کی مکھی پالنے، ماہی گیری اور شمسی توانائی، کاشت کاری کے ساتھ بائیو فیول جیسے متعدد متابدلوں سے کسانوں کی اضافی آمدنی کے ذرائع کو جوڑا جا رہا ہے۔ دیہات میں ذخیرہ اندوزی، کولڈ چین اور فوڈ پروسیسنگ کو مستحکم کرنے کے لیے لاکھوں کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ یہ تمام کوششیں کسان کو وسائل دے رہی ہیں جس سے کسان کو اپنی پسند کا اختیار مل رہا ہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ ہمارا ایک اہم سوال ہے۔ جب مٹی جواب دے جائے گی تب کیا ہوگا؟ جب موسم ان کے ساتھ نہیں ہوگا تب کیا ہوگا؟ جب دھرتی ماں کے پیٹ میں پانی محدود ہوجائےگا ؟ آج دنیا بھر میں کاشتکاری کو ان چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سبز انقلاب میں کیمیکلز اور کھادوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ ہمیں اس کے اختیارات کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ پر کام کرتے رہنا ہوگا۔ ہمیں کاشتکاری میں استعمال ہونے والی بڑی مقدار میں کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد درآمد کرنی ہوگی۔ باہر سے دنیا کے ممالک سے اربوں اور کھربوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے کاشت کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتاہے، کسان کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور غریبوں کا باورچی خانہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ کسانوں اور تمام ہم وطنوں کی صحت سے بھی متعلق ہے۔ اس  لیے چوکس رہنے، باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔

 

ساتھیو،

گجراتی میں ایک کہاوت ہے، "ہر گھر میں بولا جاتا ہے، "پانی آوے تے پہیلا پال باندھے" یعنی پانی آنے سے پہلے باندھ باندھو، یہ ہمارے یہاں ہر فرد کہتا ہے ... اس کا مطلب یہ ہے کہ علاج سے پرہیز بہتر ہے۔ پہلے کاشتکاری سے متعلق مسائل خراب ہونے سے پہلے بڑے اقدامات اٹھانے کا یہ صحیح وقت ہے۔ ہمیں اپنی کاشت کاری کو کیمسٹری لیب سے ہٹا نا ہوگا اور اسے قدرت کی لیبارٹری سے جوڑنا ہوگا۔ جب میں فطرت کی تجربہ گاہ کے بارے میں بات کرتا ہوں تو یہ مکمل طور پر سائنس پر مبنی ہوتا ہے۔ آچاریہ دیوورت جی نے ابھی تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ ہم نے ایک چھوٹی سی فلم میں بھی دیکھا ہے۔ اور اپنی کتاب ملنے کے بعد بھی وہ یوٹیوب پر آچاریہ دیوورت جی کے نام سے اپنی تقریریں پائیں گے۔ کھاد، فرٹیلائزر، جو طاقت ہے وہ بیج وہ عناصر فطرت میں بھی موجود ہیں۔ ہمیں صرف بیکٹیریا کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے جو زمین میں اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیسی گائے بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوبر ہو، گائے کا پیشاب ہو، اس سے آپ کو ایک ایسا محلول بنانے میں مدد مل سکتی ہے جو فصل کی حفاظت کرے گا اور زرخیزی میں بھی اضافہ کرے گا۔ بیج سے لے کر مٹی تک، آپ ہر چیز کا قدرتی علاج کر سکتے ہیں۔ اس کاشت میں نہ تو کھاد اور نہ ہی کیڑے مار ادویات خرچ ہوں گی۔ یہ آبپاشی کی ضرورت کو بھی کم کرتا ہے اور سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ خواہ کم پانی والی زمین ہو یا زیادہ پانی والی زمین، قدرتی کاشت کاری کسانوں کو سال میں بہت سی فصلیں لینے کے قابل بنا سکتی ہے۔ یہی نہیں گندم، دھان اور دالیں یا کھیت سے جو بھی کچرا نکلتا ہے، جو بھوسا نکلتا ہے، اس کا بھی صحیح استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کم لاگت، زیادہ منافع۔ یہ قدرتی کاشت کاری ہے۔

ساتھیو،

آج دنیا جتنی جدید ہوتی جا رہی ہے اتنی ہی وہ 'بیک ٹو بیسک' کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کا بنیادی مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے اپنی جڑوں سے جڑنا! اس بات کو آپ سب کسان ساتھیوں سے بہتر کون سمجھتا ہے؟ ہم جڑوں کو جتنا زیادہ سیراب کریں گے، پودا اتنا ہی زیادہ ترقی کرے گا۔ بھارت ایک زرعی ملک ہے۔ کھیتی باڑی کے ارد گرد ہی ہمارے  معاشرے نے ترقی کی ہے، روایات کو پروان چڑھایا گیا ہےاور تہوار بنائے گئے ہیں۔ یہاں کسان ساتھی ملک کے کونے کونے سے وابستہ ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ کے علاقےمیں کوئی ایسی چیز ہے جو ہماری کھیتی باڑی اور فصلوں سے متاثر نہ ہو؟ زراعت کے بارے میں ہمارا علم کتنا مالا مال رہا ہوگا جب ہماری تہذیب ہی  نے کاشت کاری کے ساتھ ترقی کی ہے؟ ہماری سائنس کتنی مستحکم رہی ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ بھائیو اور بہنو، آج جب دنیا نامیاتی کی بات کرتی ہے، قدرتی کی بات کرتی ہے تو اس کی جڑیں بھارت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔

ساتھیو،

زراعت سے وابستہ بہت سے دانش ور ہیں جنہوں نے اس موضوع پر وسیع تحقیق کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے اپنی زراعت پر رگ وید اور اتھرو وید سے لے کر اپنے پرانوں تک، کرشی پراشر اور کاشیہ پی کرشی سوکت جیسے قدیم گرنتھوں اور جنوب میں تمل ناڈو کے سنت تھروولور جی سے لے کر شمال میں کسان شاعر گھاگھ تک کتنی باریک بینی سے تحقیق کی ہے۔ جیسا کہ ایک شلوک ہے:

गोहितः क्षेत्रगामी ,

कालज्ञो बीज-तत्परः।

वितन्द्रः सर्व शस्याढ्यः,

कृषको  अवसीदति॥

 یعنی

ایک کسان جو گائے کے ریوڑ، مویشی کے مفادات جانتا ہے، موسم کے بارے میں جانتا ہے، بیجوں کے بارے میں جانتا ہے، اور سستی نہیں کرتا، ایسا کسان کبھی پریشان، غریب نہیں ہوسکتا۔ یہ شلوک قدرتی کاشت کاری کا فارمولا بھی ہے اور قدرتی کاشت کاری کی طاقت کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ اس میں مذکور تمام وسائل قدرتی طور پر دستیاب ہیں۔ اسی طرح مٹی کو کھاد کیسے دی جائے، کس فصل پر پانی کب لگانا ہے، پانی کیسے بچانا ہے، کتنے فارمولے دیے گئے ہیں۔ ایک اور بڑا مقبول شلوک یہ ہے:

नैरुत्यार्थं हि धान्यानां जलं भाद्रे विमोचयेत्।

मूल मात्रन्तु संस्थाप्य कारयेज्जज-मोक्षणम्॥

یعنی فصل کو بیماری سے بچانے کے لیے بھادوں کے مہینے میں پانی نکال دیا جائے۔ پانی صرف جڑوں کے لیے میدان میں رہنا چاہیے۔ اسی طرح شاعر گھاگھ نے بھی لکھا ہے:

گیہوں باہیں، چنا دلائے

دھان گاہیں، مکا نرائے

اوکھ کسائے

یعنی خوب بانہ کرنے سے گہیوں کھونٹنے سے چنا، بار بار پانی ملنے دھان، نرانے سے مکا اور پانی میں چھوڑ کر بعد میں گنا بونے سے اس کی فصل اچھی ہوتی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تقریباً دو ہزار سال پہلےتمل ناڈو میں سنت تھروولور جی نے کاشتکاری سے متعلق بہت سے فارمولے بھی دیے تھے۔ آپ نے فرمایا تھا:

तोड़ि-पुड़ुडी कछ्चा उणक्किन,

पिड़िथेरुवुम वेंडाद् सालप पडुम

 ساتھیو،

زراعت کے بارے میں ہمارے قدیم علم کو دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن جدید دور میں بھی اسے تراشنے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں ہمیں نئے سرے سے قدیم علم کو جدید سائنسی فریم میں ڈھالنا ہوگا۔ ہمارے آئی سی اے آر، کرشی وگیان کیندر، زرعی یونیورسٹیوں جیسے ادارےاس سمت میں بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمیں معلومات کو صرف تحقیقی مقالات اور نظریات تک محدودرکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں اسے عملی کام یابی میں تبدیل کرنا ہوگا۔ لیب سے لینڈ تک کا یہ ہمارا سفر ہو جائے گا۔ اس کا آغاز ہمارے ادارے بھی کر سکتے ہیں۔ آپ یہ عزم کرسکتے ہیں کہ آپ قدرتی کاشت کاری کو زیادہ سے زیادہ کسانوں تک لے جائیں گے۔ جب آپ یہ ظاہر کریں گے کہ کام یابی کے ساتھ یہ ممکن ہے تو عام آدمی بھی جلد از جلد اس سے وابستہ ہو جائے گا۔

 

ساتھیو،

نئی تعلیم کے ساتھ ہمیں ان غلطیوں کو بھلانا بھی پڑے گا جو ہمارے کاشت کاری کے طریقے میں در آئی ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کھیت میں آگ لگانے سے زمین اپنی زرخیزی کھو بیٹھتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مٹی کو تپایا جاتا ہے تو وہ اینٹ کی شکل لے لیتی ہے، اور اینٹ اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ عمارت کی شکل لے لیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں فصلوں کے باقیات جلانے کی روایت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب مٹی جلتی ہے تو وہ اینٹ بن جاتی ہے، پھر بھی ہم مٹی جلاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ وہم بھی ہے کہ کیمیکل کے بغیر فصل اچھی نہیں ہوگی۔ جب کہ سچ بالکل برعکس ہے۔ پہلے کیمیکل نہیں تھے، لیکن فصل اچھی ہوتی تھی۔ انسانیت کے ارتقا کی تاریخ اس کا ثبوت ہے۔ تمام تر چیلنجوں کے باوجود زرعی دور میں انسانیت تیز ترین رفتار سے پروان چڑھی ہے۔ کیوں کہ اس وقت قدرتی کاشت کاری صحیح طریقے سے کی جاتی تھی، لوگ مسلسل سیکھتے تھے۔ آج صنعتی دور میں ہمارے پاس ٹکنالوجی کی طاقت ہے، ہمارے پاس کتنے وسائل ہیں، موسم بھی معلوم ہے! اب ہم کسان مل کر ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔ جب دنیا گلوبل وارمنگ کے بارے میں پریشان ہو تو بھارت کا کسان اپنے روایتی علم کے ذریعے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے اقدامات کر سکتا ہے۔ ہم مل کر کچھ کر سکتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

قدرتی کاشت کاری سے سب سے زیادہ فائدہ جس کا ہوگا وہ ہیں ہمارے ملک کے 80 فیصد چھوٹے کسان۔ چھوٹے کسان جن کے پاس 2 ہیکٹر سے کم زمین ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کسان کیمیائی کھادوں پر بہت خرچ کرتے ہیں۔ اگر وہ قدرتی کاشت کاری کی طرف رجوع کریں گے تو ان کی حالت بہتر ہوگی۔

بھائیو اور بہنو،

قدرتی کاشت کاری کے بارے میں گاندھی جی کا نکتہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے جہاں شوشن ہوگا، وہاں پوشن نہیں ہوگا۔ گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ مٹی کو الٹنا پلٹنا بھول جانا،کھیت کی گڑائی کو بھول جانا ایک طرح سے اپنے آپ کو بھولنے کے مترادف ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ گذشتہ چند برسوں میں ملک کی بہت سی ریاستوں میں اس میں بہتری آئی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہزاروں کسانوں نے قدرتی کاشت کاری کو اپنایا ہے۔ ان میں سے بہت سے اسٹارٹ اپ اور نوجوان ہیں۔ انھوں نے مرکزی حکومت کے ذریعے شروع کی گئی روایتی کرشی وکاس یوجنا سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ کسانوں کو تربیت بھی دی جارہی ہے اور اس کاشت کی طرف بڑھنے میں مدد فراہم کی جارہی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

جن ریاستوں میں لاکھوں کسان قدرتی کاشت کاری سے جڑ چکے ہیں ان کے کسانوں کے تجربات حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے بہت پہلے گجرات میں قدرتی کاشت کاری کے لیے کوششیں شروع کی تھیں۔ آج گجرات کے بہت سے حصوں میں اس کے مثبت اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ہماچل پردیش بھی تیزی سے اس قدرتی کاشت کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ آج میں ملک کی ہر ریاستی حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ قدرتی کاشت کاری کو عوامی تحریک بنانے کے لیے آگے آئے۔ ہر پنچایت کے کم از کم ایک گاؤں کو اس امروت مہوتسو میں قدرتی کاشت کاری سے وابستہ ہونا چاہیے۔ اور میں کسان بھائیوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اگر آپ کے پاس 2 ایکڑ زمین یا 5 ایکڑ زمین ہے تو اسے پوری زمین پر استعمال کریں۔ آپ خود اس کا تھوڑا سا تجربہ کریں۔ آئیےاس کا ایک چھوٹا سا حصہ لیتے ہیں، آدھا کھیت لیتے ہیں، ایک چوتھائی کھیت لیتے ہیں، ایک حصے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر فائدہ نظر آئے تو تھوڑا سی توسیع کریں۔ ایک یا دو سال میں، آپ آہستہ آہستہ پورے کھیت کی طرف بڑھیں گے۔ دائرہ کار کو بڑھاتے رہیں گے۔ میں سرمایہ کاری کے تمام شراکت داروں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی مصنوعات پر پروسیسنگ میں نامیاتی اور قدرتی کاشت کاری میں بھاری سرمایہ کاری کریں۔ اس کے لیے نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر کی مارکیٹ ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ ہمیں آنے والے امکانات کے لیے آج کام کرنا ہوگا۔

ساتھیو،

اس امروت کال میں ہمیں بھارت کو دنیا کے لیے غذائی تحفظ اور فطرت کی ہم آہنگی کا بہترین حل دینا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ اجلاس میں میں نے دنیا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ماحولیات کے لیے طرز زندگی برائے ماحولیات، یعنی لائف کو ایک عالمی مشن بنائے۔ اس کی قیادت اکیسویں صدی میں بھارت کرنے والا ہے، بھارت کا کسان کرنے والا ہے۔ لہٰذا آئیے آزادی کے امرت مہوتسو میں ماں بھارتی کی دھرتی کو کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات سے آزاد کرانے کا عزم کریں۔ دنیا کو صحت مند زمین، صحت مند زندگی کا راستہ دکھائیں۔ آج ملک نے خود کفیل بھارت کا خواب دیکھا ہے۔ خود کفیل بھارت اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب اس کی زراعت خود کفیل ہو جائے، ہر کسان خود کفیل ہو جائے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم غیر فطری کھاد اور ادویات کے بجائے گوبر دھن سے، قدرتی عناصر کے ساتھ ماں بھارتی کی مٹی کو زرخیز بنائیں گے۔ ملک کا ہر باشندہ، ہر شے کے مفاد میں، ہر جاندار کے مفاد میں قدرتی کاشتکاری کو ہم عوامی تحریک بنائیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کو، ان کی پوری ٹیم کو، اس پہل کے لیے، پورے گجرات میں اس کو عوامی تحریک کی شکل دینے کے لیے، آج پورے ملک کے کسانوں کو جوڑنے کے لیے میں متعلقہ تمام لوگوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکريہ!

 

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw

Media Coverage

India's electronics production rises 6-fold, exports jump 8-fold since 2014: Ashwini Vaishnaw
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs Fifth National Conference of Chief Secretaries in Delhi
December 28, 2025
Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence in governance, delivery and manufacturing: PM
PM says India has boarded the ‘Reform Express’, powered by the strength of its youth
PM highlights that India's demographic advantage can significantly accelerate the journey towards Viksit Bharat
‘Made in India’ must become a symbol of global excellence and competitiveness: PM
PM emphasises the need to strengthen Aatmanirbharta and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect’
PM suggests identifying 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience
PM urges every State must to give top priority to soon to be launched National Manufacturing Mission
PM calls upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and make India a Global Services Giant
PM emphasises on shifting to high value agriculture to make India the food basket of the world
PM directs States to prepare roadmap for creating a global level tourism destination

Prime Minister Narendra Modi addressed the 5th National Conference of Chief Secretaries in Delhi, earlier today. The three-day Conference was held in Pusa, Delhi from 26 to 28 December, 2025.

Prime Minister observed that this conference marks another decisive step in strengthening the spirit of cooperative federalism and deepening Centre-State partnership to achieve the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised that Human Capital comprising knowledge, skills, health and capabilities is the fundamental driver of economic growth and social progress and must be developed through a coordinated Whole-of-Government approach.

The Conference included discussions around the overarching theme of ‘Human Capital for Viksit Bharat’. Highlighting India's demographic advantage, the Prime Minister stated that nearly 70 percent of the population is in the working-age group, creating a unique historical opportunity which, when combined with economic progress, can significantly accelerate India's journey towards Viksit Bharat.

Prime Minister said that India has boarded the “Reform Express”, driven primarily by the strength of its young population, and empowering this demographic remains the government’s key priority. Prime Minister noted that the Conference is being held at a time when the country is witnessing next-generation reforms and moving steadily towards becoming a major global economic power.

He further observed that Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence and urged all stakeholders to move beyond average outcomes. Emphasising quality in governance, service delivery and manufacturing, the Prime Minister stated that the label "Made in India' must become a symbol of excellence and global competitiveness.

Prime Minister emphasised the need to strengthen Aatmanirbharta, stating that India must pursue self-reliance with zero defect in products and minimal environmental impact, making the label 'Made in India' synonymous with quality and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect.’ He urged the Centre and States to jointly identify 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience in line with the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised the need to map skill demand at the State and global levels to better design skill development strategies. In higher education too, he suggested that there is a need for academia and industry to work together to create high quality talent.

For livelihoods of youth, Prime Minister observed that tourism can play a huge role. He highlighted that India has a rich heritage and history with a potential to be among the top global tourist destinations. He urged the States to prepare a roadmap for creating at least one global level tourist destination and nourishing an entire tourist ecosystem.

PM Modi said that it is important to align the Indian national sports calendar with the global sports calendar. India is working to host the 2036 Olympics. India needs to prepare infrastructure and sports ecosystem at par with global standards. He observed that young kids should be identified, nurtured and trained to compete at that time. He urged the States that the next 10 years must be invested in them, only then will India get desired results in such sports events. Organising and promoting sports events and tournaments at local and district level and keeping data of players will create a vibrant sports environment.

PM Modi said that soon India would be launching the National Manufacturing Mission (NMM). Every State must give this top priority and create infrastructure to attract global companies. He further said that it included Ease of Doing Business, especially with respect to land, utilities and social infrastructure. He also called upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and strengthen the services sector. In the services sector, PM Modi said that there should be greater emphasis on other areas like Healthcare, education, transport, tourism, professional services, AI, etc. to make India a Global Services Giant.

Prime Minister also emphasized that as India aspires to be the food basket of the world, we need to shift to high value agriculture, dairy, fisheries, with a focus on exports. He pointed out that the PM Dhan Dhanya Scheme has identified 100 districts with lower productivity. Similarly, in learning outcomes States must identify the lowest 100 districts and must work on addressing the issues around the low indicators.

PM also urged the States to use Gyan Bharatam Mission for digitization of manuscripts. He said that States may start a Abhiyan to digitize such manuscripts available in States. Once these manuscripts are digitized, Al can be used for synthesizing the wisdom and knowledge available.

Prime Minister noted that the Conference reflects India’s tradition of collective thinking and constructive policy dialogue, and that the Chief Secretaries Conference, institutionalised by the Government of India, has become an effective platform for collective deliberation.

Prime Minister emphasised that States should work in tandem with the discussions and decisions emerging from both the Chief Secretaries and the DGPs Conferences to strengthen governance and implementation.

Prime Minister suggested that similar conferences could be replicated at the departmental level to promote a national perspective among officers and improve governance outcomes in pursuit of Viksit Bharat.

Prime Minister also said that all States and UTs must prepare capacity building plan along with the Capacity Building Commission. He said that use of Al in governance and awareness on cyber security is need of the hour. States and Centre have to put emphasis on cyber security for the security of every citizen.

Prime Minister said that the technology can provide secure and stable solutions through our entire life cycle. There is a need to utilise technology to bring about quality in governance.

In the conclusion, Prime Minister said that every State must create 10-year actionable plans based on the discussions of this Conference with 1, 2, 5 and 10 year target timelines wherein technology can be utilised for regular monitoring.

The three-day Conference emphasised on special themes which included Early Childhood Education; Schooling; Skilling; Higher Education; and Sports and Extracurricular Activities recognising their role in building a resilient, inclusive and future-ready workforce.

Discussion during the Conference

The discussions during the Conference reflected the spirit of Team India, where the Centre and States came together with a shared commitment to transform ideas into action. The deliberations emphasised the importance of ensuring time-bound implementation of agreed outcomes so that the vision of Viksit Bharat translates into tangible improvements in citizens’ lives. The sessions provided a comprehensive assessment of the current situation, key challenges and possible solutions across priority areas related to human capital development.

The Conference also facilitated focused deliberations over meals on Heritage & Manuscript Preservation and Digitisation; and Ayush for All with emphasis on integrating knowledge in primary healthcare delivery.

The deliberations also emphasised the importance of effective delivery, citizen-centric governance and outcome-oriented implementation to ensure that development initiatives translate into measurable on-ground impact. The discussions highlighted the need to strengthen institutional capacity, improve inter-departmental coordination and adopt data-driven monitoring frameworks to enhance service delivery. Focus was placed on simplifying processes, leveraging technology and ensuring last-mile reach so that benefits of development reach every citizen in a timely, transparent and inclusive manner, in alignment with the vision of Viksit Bharat.

The Conference featured a series of special sessions that enabled focused deliberations on cross-cutting and emerging priorities. These sessions examined policy pathways and best practices on Deregulation in States, Technology in Governance: Opportunities, Risks & Mitigation; AgriStack for Smart Supply Chain & Market Linkages; One State, One World Class Tourist Destination; Aatmanirbhar Bharat & Swadeshi; and Plans for a post-Left Wing Extremism future. The discussions highlighted the importance of cooperative federalism, replication of successful State-level initiatives and time-bound implementation to translate deliberations into measurable outcomes.

The Conference was attended by Chief Secretaries, senior officials of all States/Union Territories, domain experts and senior officers in the centre.