For 70 years, the Congress party thought only about its own welfare, betrayed the farmers and used them as a vote ban: PM Modi
NDA Government is committed to welfare of farmers and hence has fulfilled the promise regarding the Minimum Support Price: PM Modi in Punjab
Historic increase of 1.5 times in the MSP for kharif crops would significantly add to farmers’ income and empower them: PM Modi
Congress is spreading lies and rumours regarding Minimum Support Price: PM Modi
Initiatives like Jan Dhan Yojana, Ujjwala Yojana, Mudra Yojana and Fasal Bima Yojana have benefitted farmers immensely: PM Modi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پنجاب کی کسان ریلی میں جو تقیر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے:
وزیر اعظم نے کہا، ’’ہریانہ کے انتہائی مقبول عام وزیر اعلیٰ جناب منور لال کھٹّر، پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور ہم سب کے رہنما، صحیح معنوں میں کسانوں کے مسیحی عزت مآب جناب پرکاش سنگھ بادل، پنجاب بی جے پی کے صدر اور پارلیمنٹ میں میرے ساتھ جناب شویت ملک جی، پنجاب کے سابق نائب وزیر اعلی اور میرے دوست جناب سکھ دیو سنگھ بادل، بھارتی جنتا پارٹی کے قومی نائب صدر جناب اویناش کھنّا، مرکزی کابینہ میں میری ساتھی بہن ہرسمرت جی کور بادل، ممبر پارلیمنٹ جناب سکھدیو سنگھ ڈھینڈسا، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب وجے سانپلا، ممبر پارلیمنٹ جناب پریم سنگھ چندو ماجرا بی جے کے قومی جنرل سکریٹری جناب ترون چگھ جی، رکن پارلیمنٹ جناب رنجیت سنگھ برہم پورا، ہریانہ بی جے کے صدر جناب سبھاش برالا جی، رکن پارلیمنٹ بلوندر سنگھ بھندر اور راجستھان سرکار میں وزیر جناب سریندر سنگھ ٹی ٹی جی۔‘‘

پنجاب دی نرمے دی بیلدے اک کھاس مکام ملوٹ دی۔ اے زمین تے موجود میرے دھاراؤں دی بیروں۔ گج کے فتح بلانی، واہے گروجی کا کھالسا، واہے گروجی فتح۔ مکوں کی دھرتی، اور قربانی اور ایثار کی اس مقدس سر زمین کو میں سر جھکا کر سلام کرتا ہوں۔ گرو گوبند سنگھ اور ان کے چالیس شاگردوں کی کہانی یہاں کے زرے زرے میں رچی بسی ہے۔ شجاعت اور ہمت یہاں کی روایت رہی ہے۔ اس پورے مالوا کو، پنجاب کو ملک اور دنیا میں آباد پوری سکھ روایت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ سرحدوں کی حفاظت ہو، غزائی سلامتی ہو یا پھر محنت اور کاروبار کا میدان ہو، پنجاب نے ہمیشہ ملک کی حوصلہ افزائی کرنے کا کام کیا ہے۔ پنجاب نے ہمیشہ خود سے پہلے ملک کے بارے میں سوچا ہے۔

ساتھیو۔

آج بھی ملک ہی نہیں دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جہاں پنجاب کے بھائی بہن اپنی جفاکشی اور محنت کا لوہا نہ منوا رہے ہوں۔

ساتھیو۔

یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ پنجاب کی جو روایتیں رہی ہیں، جس ماٹی کی مہک ہے، اس ماٹی سے طویل مدت تک جڑنے کی خوش نصیبی مجھے بھی حاصل رہی ہے۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران بھی مجھے بار بار آپ کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے۔ میں سبھی کسان بھائی بہنوں، پنجاب بی جے پی، این ڈی اے کے ہمارے بھروسے مند معاون، شرومنی اکالی دل خاص طور سے سردار پرکاش سنگھ جی بادل کا میں انتہائی ممنون ہوں جو آج انہوں نے آپ سب کسانوں کے درشن کرنے کا موقع دیا ہے۔ میں آج ملوٹ دی زمین پر آیا ہوں۔ ملوٹ کی زمین کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کپاس کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ ملوٹ پنجاب کو راجستھان اور ہریانہ سے جوڑتا ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آج یہاں ہریانہ اور راجستھان سے بھی بہت بڑی تعداد میں میرے کسان بھائی۔ بہن پہنچے ہیں۔

ساتھیو۔

گذشتہ چار برسوں کے دوران جس طرح آپ سب اناج کے ذخیروں کو ریکارڈ پیداوار سے بھر رہے ہیں اس کے لئے میں، اپنے ملک کے کسانوں کو، آپ سب کو سر جھکا کر سلام کرتا ہوں۔ گیہوں ہو، دھان ہو، چینی ہو، کپاس ہو یا پھر دالوں کی پیداوار، ان تمام اجناس کی پیداوار کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ اس سال بھی نئے ریکارڈ بنائے جانے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔

محنت اور جفاکشی کے منتہائے عروج پر موجود میرے کسان بھائیو بہنو!

آپ نے کبھی بھی محنت کرنے میں کمی نہیں چھوڑی۔ صورتِ حال جیسی بھی ہو، قدرت نے جو بھی مشکل پیدا کی ہو، آپ نے محنت کی ہے، پسینہ بہایا ہے۔ لیکن اتنی محنت کے بعد جس کسان کی زندگی خوشحال ہونی چاہئے، اسے کئی دہائیوں تک مایوسی اور بے زاری کی زندگی جینی پڑی۔

اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ 70 برسوں میں زیادہ تر وقت جس پارٹی پر ملک کے کسانوں نے معیار زندگی اوپر اٹھانے کی ذمہ داری دی تھی، اس نے کسان کو ، اس کی محنت کو اور اسے کبھی عزت نہیں دی۔

کسانوں سے صرف وعدے کیے گئے۔ گذشتہ 70 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ صرف اور صرف ایک ہی کنبے کی فکر کی گئی۔ اس کے دکھ سکھ کی ہی پرواہ کی گئی۔ کسانوں کے لئے غیر سائنسی طریقے سے بے سر پیر کی ایسی اسکیمیں بنائی گئیں، لیکن انتظاما خود اپنے کنبے کے لئے کیے گئے۔ کسانوں کے لئے اعلانات تو بہت کیے گئے، لیکن کانگریس نے صرف ایک ہی خواب دیکھا، وہ خواب بھی ایک ہی کنبے کو پورا کرنے کے لئے کام آتے گئے۔ پورا ملک اس سچائی سے بخوبی واقف ہے۔

بھائیو اور بہنو۔

میں جانتا ہوں کہ اتنے برسوں سے آپ کو لاگت کے لئے صرف دس فیصد کے فائدے تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کے پیچھے کیا مفاد تھا۔

بھائیو بہنو۔

کسان ہمارے ملک کی روح ہے۔ کسان ہمارے ان داتا ہیں۔ کانگریس نے ہمیشہ کسان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، جھوٹ بولا ہے۔ کانگریس نے کسانوں کو بااختیار بنانے پر نہیں بلکہ انہیں ووٹ بینک بنانے کے لئے سیاست کی ہے۔ لیکن مرکز کی قومی جمہوری اتحاد سرکار صورتِ حال کو بدلنے میں مصروف ہے۔ سرحد پر کھڑا جوان ہو، یا کھیت میں جفاکشی کرنے والا میرا کسان بھائی ہو، ہماری سرکار نے دونوں کو عزت دینے کا کام کیا ہے۔

ساتھیو۔

یہ ہماری ہی سرکار ہے جس نے ون رینک ون پینشن کا وعدہ پور کیا۔ یہ بھی ہماری ہی سرکار ہے جس نے ایم ایس پی پر اپنا وعدہ نبھایا ہے۔ جن کو چالیس سال تک ون رینک ون پینشن کے نفاذ کی فرصت نہیں رہی۔ جنہیں ستر سال تک کسانوں کا حق دینے کی فرصت نہیں تھی، وہ آج کسانوں کو گمراہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن قیمت ڈیڑھ گنی کرنے کا کام آپ کے آشیرواد سے ہماری سرکار ہی کر پائی ہے۔

بھائیو اور بہنو۔

خریف کی چودہ فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت میں زبردست اضافہ کیا گیا ہے۔ کپاس ہو، مکہ ہو، باجرا ہو، تور ہو، اڑد ہو، مونگ پھلی ہو، سورج مکھی، سویا بین یا تل ہو امدادی قیمت میں 200 روپئے سے لے کر 1800 روپئے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اور متعدد فصلوں میں تو تقریباً لاگت کا سو فیصد تک یعنی دوگنا تک دستیاب کرانا طے کیا گیا ہے۔

بھائیو اور بہنو

اس فیصلے سے پنجاب کو بہت زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔ پنجاب کے کسان ہوں، ہریانہ کے کسان ہوں، یا راجستھان کے کسان ہوں، انہیں سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔ آپ کا ملوٹ، یعنی پنجاب کا یہ علاقہ تو سفید سونے کے لئے جانا جاتا ہے۔ آپ کا نرما، آپ کا کپاس ملک اور عالم میں مشہور ہے۔ اس کی امدادی قیمت میں بھی 1100 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

کسان بھائیو بہنو۔

کپاس پر جو لاگت آتی ہے وہ تقریباً 3400 روپئے فی کوئنٹل مانی جاتی ہے۔ اب جو سرکاری بھاؤ طے کیا گیا ہے وہ چھوٹے ریشے کے لئے 5150 روپئے اور بڑے ریشے کے لئے 5450 روپئے طے کیا گیا ہے۔ یعنی اب تک جتنا سرکاری بھاؤ آپ کو ملتا تھا، اس سے اب آپ کو 1130 روپئے زائد حاصل ہونے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

ساتھیو۔

کپاس کی ہی طرح دھان کی امدادی قیمت میں بھی پہلے کے مقابلے میں 200 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک کوئنٹل دھان پر جو لاگت آتی ہے، وہ تقریباً 1150 روپئے ہے اور دھان کی جو امدادی قیمت طے کی گئی ہے وہ 1750 روپئے ہے۔ کہاں 1150 اور کہاں 1750 یعنی سیدھے سیدھے پچاس فیصد کا فائدہ طے ہے۔ اس سے پنجاب کے ساتھ ساتھ ہریانہ کے کسان بھائیو اور بہنو کو بھی بہت فائدہ ہونے والا ہے۔

ساتھیو۔

مکے دی روٹی تے سرسوں دا ساگ۔ یہ تو آج ساری دنیا میں برانڈ پنجاب کی نئی پہچان بن چکی ہے۔ مکے کی امدادی قیمت میں 275 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تقریباً گیارہ سو روپئے فی کوئنٹل کی لاگت پر مکے کی امدادی قیمت 1700 روپئے مقرر کی گئی ہے۔

ساتھیو

مکے کے علاوہ جوار اور راگی جیسے طاقت ور اور فائبر سے مالامال اناج کے لئے بھی پچاس فیصد سے زائد کا فائدہ یقینی بنایا گیا ہے۔ باجرا اگانے والے چھوٹے چھوٹے کسان ہوتے ہیں۔ باجرا اگانے والے بھائیوں کے لئے تو لاگت کی تقریباً دوگنا قیمت طے کی گئی ہے۔ باجرے پر لاگت تقریباً ایک ہزار روپئے آتی ہے لیکن اس کی امدادی قیمت 1950 روپئے طے کی گئی ہے۔ اسی طرح راگی کی امدادی قیمت میں بھی تقریباً 1000 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

بھائیو اور بہنو۔

یہ جو موٹا اناج ہے، جو کبھی ہمارے کھانے پینے کا اہم حصہ ہوا کرتا تھا۔ دواؤں کی خوبیوں کے سبب آج اس کی مانگ پھر بڑھنے لگی ہے۔ ملک مہیں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ہمارے اس طاقتور اناج کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں جو یہ قیمت مقرر کی گئی ہے۔ اس سے ان کا بازار امکانات سے لبریز ہو گیا ہے۔

بھائیو بہنو۔

یہ جو فیصلہ لیا گیا ہے اس سے اپنی زمین پر کھیتی کرنے والوں کو تو فائدہ ملنے والا ہی ہے، لیکن جو لوگ پٹے پر کھیتی کرتے ہیں، ان محنتی بھائی بہنو کو بھی پورا فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔ کیونکہ جو لاگت جوڑی گئی ہے اس میں پٹے والے کسانوں کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ کھیتی میں جو بھی محنت لگی، وہ خواہ آپ کی ہو یا آپ کے کنبے کی، آپ نے جو مزدوری دی ہو، مویشیوں کی جو محنت ہو یا مشین کا کرایہ ہو، زمین کا پٹہ یا کرایہ ہو، بیج ۔ کھاد اور فرٹیلائزر کی قیمت ہو، یا سنچائی پر آنے والا خرچ ہو، ایسے سبھی خرچوں کو لاگت میں جوڑا گیا ہے۔

ساتھیو۔

جب سے سرکار نے یہ فیصلہ لیا ہے اس وقت سے کسان کی ایک بڑی فکر دور ہو گئی ہے۔ ان کو یقین ہو گیا ہے کہ انہوں نے جو سرمایہ کاری کی ہے، جو محنت کی ہے۔ اب ان کو اس کا پھل ملنے والا ہے۔ لیکن کانگریس اور ان کے حلیفوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ کسان چین سے سو جائے یہ کانگریس کو منظور نہیں ہے۔ اسی لئے کانگریس کی نیند خراب ہو گئی ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آر ہی ہے کہ انہوں نے 70 سے ایسا فیصلہ لینے کی ہمت کیوں نہیں کی۔ ایسا نہیں کہ اس کا ذکر پہلے نہیں ہوا ہے۔ اس کا مطالبہ پہلے نہیں ہوا ہے، ایسا نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسانوں نے تحریک نہ چلائی ہو۔ سب نے کوشش کی لیکن کانگریس ان سارے مطالبات کو دبا کر بیٹھ جاتی تھی، فائلوں کو دباکر بیٹھ جاتی تھی۔ اتنے برسوں تک وہ جس مانگ کو دباکر بیٹھے ہوئے تھے، اس سرکار نے اس مانگ کو پورا کر دیا۔ یہ بات ان کے دماغ میں نہیں بیٹھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب نئی نئی افواہیں پھیلا رہے ہیں اور غلط باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کتنی بھی کوششیں کر لیں۔ آپ سبھی کے لئے ملک اور گاؤں اور غریب کسانوں کے لئے ہمارے ارادے اس سے بھی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم کسانوں کی فلاح کے راستے کو کبھی چھوڑنے والے نہیں ہیں۔

ساتھیو۔

ہم نے ڈیڑھ گنا امدادی قیمت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایک عزم کے طور پر ہم نے اس کی توسیع کی۔ آپ کی حمایت کے بعد مرکز میں این ڈی اے کی سرکار بنی، طے کیا گیا کہ 2022 تک ہمارے کسانوں کی آمدنی، آپ سبھی کی آمدنی، یعنی ملک کے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گذشتہ چار برسوں میں ساری کوششیں اسی سمت میں جاری ہیں۔ اور اس کے لئے بیج سے بازار تک ایک عظیم و عریض حکمت عملی کے تحت کام کیا جا رہا ہے۔ فصل کی تیاری سے مارکیٹ میں فروغ تک آنے والے ہر مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

کسان بھائیو اور بہنو۔

سوائل ہیلتھ کارڈ کی اسکیم سرکار کی اسی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اب تک ملک کے 15 کروڑ کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ تقسیم کیے جا چکے ہیں، جس سے پنجاب میں بھی لاکھوں کسانوں کو فائدہ حاصل ہوا ہے۔ یہ سوائل ہیلتھ کارڈ دراصل آپ کی زمین، آپ کی مٹی کا ریکارڈ ہے۔ اس کی بنیاد پر آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کو اس زمین پر کون سی فصل اگانی چاہئے، اس میں کون سا فرٹی لائزر ڈالنا چاہئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مٹی کی ٹیسٹنگ میں بھی کسانوں کو دقت نہ ہو، اس کے لئے جانچ کے مراکز کا ایک نیٹ ورک تیار کیا گیا ہے۔

بھائیو بہنو۔

پچھلی سرکار نے۔۔۔۔ ۔ اتنا بڑا ملک ۔۔۔ ۔ سوائل ٹیسٹنگ کوئی سائنس نہیں تھی۔ لیکن پچھلی سرکار نے صرف 40-45 لیب بنائی تھی، 40-45۔ ہم نے ملک میں 9 ہزار سے زائد جانچ مراکز کو منظوری دی ہے۔ کانگریس نے جہاں اتنے برسوں میں محض 50-55 کروڑ روپئے خرچ کیے، وہیں قومی جمہوری اتحاد سرکارنے بائیس گنا اضافے کے ساتھ تقریباً 1200 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کسانوں کے کھیت کی مٹی کی جانچ کے لئے یہ کام کیا گیا ہے۔ مٹی کے ساتھ ساتھ بیج کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ سرکار نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ کسانوں کو اچھی کوائلٹی کے بیج ملیں۔ گذشتہ چار برسوں میں تقریباً پونے دو لاکھ سیڈ ولیج پروگرام چلائے گئے، جس کا سیدھا فائدہ کروڑوں کسانوں کو حاصل ہوا۔ پہلے کی سرکار کے دوران جہاں چار برسوں میں بیجوں کی تقریباً 450 قسمیں تھیں وہیں ہماری سرکار نے گذشتہ چار برسوں میں 800 سے زائد بیجوں کی اقسام کسانوں کو دستیاب کرائی ہے۔ اگر آج دھان کی پیداوار میں پہلے کے مقابلے میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے تو اس کے لئے نئے اور اچھی کوائٹلی کے بیجوں کے تعاون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بھائیو اور بہنو۔

پہلے کی سرکار کے یوریا کی کمی والے پرانے دنوں کا دور یاد دلانا چاہتا ہوں۔ ایک دور وہ تھا، جب یوریا کسانوں کی بجائے فیکٹریوں میں چلا جاتا تھا۔ کہیں اور چلا جاتا تھا۔ کسانوں کو یوریا کے لئے لاٹھیاں کھانی پڑتی تھیں۔ کالے بازاری سے یوریا خریدنی پڑتی تھی۔ لیکن یوریا کی صد فیصد نیم کوٹنگ کرکے اس بے ایمانی کو روک دیا گیا۔ اور آج آپ کو خاطر مقدار میں یوریا ستیاب ہے۔ کھیت میں فصل تب اور اچھی اگتی ہے جب آبپاشی کا معقول انتظام ہو۔ کسانوں کے کھیتوں تک پہنچے اس کے لئے پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کے تحت ملک کے تقریباً پچیس لاکھ ہیٹئیر سے زائد رقبہ زمین کو مائکرو اریگیشن کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ پنجاب میں بھی اس کی توسیع بادل صاحب کے زمانے میں کی گئی تھی۔

ساتھیو۔

جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو اس کے لئے بازار ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ملک کے تقریباً 22 ہزار دیہی ہاٹوں کو اپ گریڈ کرنے کا کام ہو رہا ہے۔ ایک متبادل نظام کی تیاری کی جا رہی ہے۔

آج پورے ملک میں ای ۔ نام، جن لوگوں نے ابھی تک اس کا استعمال نہیں کیا ہے۔ میں سبھی کسان بھائیوں کو بتا دوں کہ یہ انٹرنیٹ پر فصل بیچنے کا بہترین انتظام ہے۔ اس کے تحت ملک بھر کی 600 سے زائد منڈیوں میں آپ گھر بیٹھے اپنے موبائل فون سے یا نزدیکی کامن سروسز سینٹر پر جاکر اپنی فصل بیچ سکتے ہیں۔ یہ اسکیم کسانوں کو بچولیوں اور دلالوں سے بچانے والی اسکیم ہے۔

اس کے علاوہ کسان کی فصل اور خاص طور سے سبزیاں اور پھل برباد نہ ہو، اس کے لئے کسان سمپدا یوجنا جاری ہے۔ اس کے تحت ملک بھر میں جدید تکنالوجی سے لیس نئے گودام بنائے جا رہے ہیں۔ فوڈ پارک بنائے جا رہے ہیں۔ پوری سپلائی چین کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور اس امر کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ کسان کو فصل برباد ہونے سے نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اناج، پھلوں اور سبزیوں میں ویلیو ایڈیشن سے کسان کی آمدنی کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے، اس سمت میں بھی ہماری وزارتی کابینہ کی ساتھی ہرسمرت جی اور ان کی ٹیم لگاتار کوشش کر رہی ہے۔

فوڈ پراسسنگ کے شعبے میں سو فیصد راست سرمایہ کاری جو فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے کسانوں کو اور زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔

کسانوں کو اپنی پیداوار منڈیوں تک لانے لے جانے میں کوئی دشواری نہ ہو، اس کے لئے کنکٹی وٹی پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ آپ کا جو این ایچ 54 ہے، اس کو بھارت مالا پروجیکٹ کے تحت فور لین کیا جا رہا ہے، وہیں ہسار میں ایک بڑا ایئر پورٹ بن رہا ہے۔ اس سے ہریانہ کے ساتھ ساتھ پنجاب کے حصے اور راجستھان کو بھی فائدہ ملنے والا ہے۔

ساتھیو۔

پنجاب میں تو ہمیشہ کھیتی کسانی کے میدان میں نئے نئے تجربے کیے ہیں۔ نئے نئے ماڈلوں کو فروغ دیا ہے۔ سبز انقلاب میں پنجاب کے کسانوں کا اہم کردار رہا ہے، ویسی ہی خدمت اور تعاون پنجاب کے کسانوں کی نئی نسل دے سکتی ہے۔ اب ملک میں دوسرے انقلاب کی بنیاد نیلگوں انقلاب یعنی مچھلی پالن، وائٹ ریولیشن یعنی دودھ کی پیداوار، سوئیٹ ریولوشن یعنی شہد کی مکھی پالنا ہو سکتا ہے۔ اس میں آپ کو سرکار کا پورا پورا ساتھ ملنے والا ہے۔ کیونکہ آمدنی دوگنی کرنے کے لئے صرف روایتی کھیتی پر ہی زور نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ اس سے جڑے دوسرے پیشوں پر بھی زور دیا جا رہا ہے جن میں آرگینک فارمنگ، مویشی پروری، شہد کی مکھی پالنا، مچھلی پالنا یا مرغی پالنا، ان پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں پہلے کے مقابلے میں دودھ کی پیداوار میں 21 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ یو پی اے سرکار کے دورِ اقتدار میں جتنا شہد پیدا ہوا کرتا تھا،اس تقریباً تیس فیصد زائد شہد گذشتہ چار برسوں میں پیدا ہوا ہے۔

ساتھیو۔

آج میں اس اسٹیج سے ایک اور انتہائی اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پرالی جلانے کا مسئلہ ہے۔ مرکزی سرکار اس پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے تاکہ آپ کو فصل کاٹنے کے بعد اس کے بچے ہوئے حصے کو جلانے کے لئے مجبور نہ ہونا پڑے۔ اس کے لئے پنجاب، ہریانہ ، یوپی اور دہلی کے لئے پچاس کروڑ روپئے سے زیادہ کا سرمایہ مختص کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کا نصف سے زائد بجٹ پنجاب پر مرکوز ہے۔ آپ کو پرالی نہ جلانی پڑے اس کے لئے جن مشینوں کی ضرورت ہے اس کی خریداری کے لئے پچاس فیصد امداد بھی سرکار دے رہی ہے۔

میری آپ سب سے اپیل ہے کہ پنجاب اور آس پاس کے لوگوں کی صحت و تندرستی کی فکر و تشویش کو دیکھتے ہوئے پرالی کو نہ جلائیں۔ ایک اندازے کے مطابق پرالی کو نہ جلاکر اسے کھیت میں ہی ملا دیں تو کھاد پر آنے والے خرچ میں تقریباً 2000 فی ہیکٹئیر کی بچت ہو سکتی ہے۔ میری آپ سے گذارش ہے کہ اس اسکیم کا فائدہ اٹھایا جائے۔ اس سے زمین کی زرخیزی کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور دھوئیں سے پھیلنے والی آلودگی سے بھی نجات حاصل ہوتی ہے۔

جب آلودگی کی بات آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب کو بہت زیادہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس علاقے میں تو کینسر کا سنگین مسئلہ ہے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے بھٹنڈہ میں ایمس کھولنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ میں پنجاب سرکار سے گذارش کرتا ہوں کہ اس سے جڑے کاموں میں تیزی لائی جائے۔

ساتھیو۔

ہماری سرکار غریبوں کو سستی اور اچھی صحت خدمات دستیاب کرانے کا کام کر رہی ہے۔ جن اوشدھی کیندر ہو یا امرت فارمیسی۔ مرکزی سرکار کینسر جیسے سنگین مرض کی دوا پر پچاس فیصد تک چھوٹ دے رہی ہے۔ سرکار بہت جلد ایک ایسا انتظام کرنے جا رہی ہے کہ ملکے تقریباً پچاس کروڑ بھائی بہنوں کو ایک سال میں پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کا انتظام ہو جائے۔

ساتھیو۔

ساتھیو، غریب اور کسان کی زندگی کو آسان اور خیر و خوبی سے چلانے کے لئے ہماری سرکار عہد بستہ ہے۔ اسی جذے میں تحت پورے ملک میں راشٹریہ گرام سواراج ابھیان چلایا جا رہا ہے۔ سب کے پاس جن دھن بینک کھاتے ہوں، اجولا کا گیس کنیکشن ہو، ہر گھر میں بجلی کا کنیکشن ہو، بیمے کی سلامتی ہو، سبھی کی ٹیکہ کاری ہو گئی ہو، ہر گھر میں ایل ای ڈی کا بلب ہو، اسے یقینی بنانے کے ایک بہت بڑی مہم چلائی جا رہی ہے۔

افادہ عامہ کی جو اسکیمیں جو بڑے منصوبے سرکار چلا رہی ہے ان سے پنجاب کو، گاؤں، غریب اور کسان کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ آج یہاں 60 لاکھ سے زائد جن دھن کھاتے کھولے جا چکے ہیں۔ اجولا کے تحت 7.5 لاکھ گیس کنیکشن مل چکے یہں۔ مدرا یوجنا سے 23.5 لاکھ لوگوں کو بغیر گارنٹی قرض مل چکا ہے، جس میں سے 13 لاکھ سے زائد تو پنجاب کی ہماری مائیں اور بہنیں ہیں۔ تقریباً 40 لاکھ لوگ جیون جیوتی اور سرکشا بیمہ یوجنا سے جڑے ہیں۔ اس کے تحت 50 کروڑ کا کلیم بھی مل چکا ہے۔ گاؤں کی عزت اور کسانوں کا وقار پھر سے قائم کرنے کی سمت میں ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ مودی کو یہ سب کرتے دیکھ کر مخالفین کی نیندیں اڑتی ہی جا رہی ہیں۔ ان کی راتیں خراب ہو رہی ہیں۔ کسی بھی طرح جھوٹ پھیلاکر، افواہ پھیلا کر لوگوں کو بھڑکانے میں لگے ہوئے ہیں

بھائیو بہنو۔

اگلے برس گرونانک دیو جی کا 550واں پرکاش پرو ہے۔ اس پرکاش پرو کے ساتھ ہی ہم سبھی اہالیانِ وطن کے لئے پوری دنیا کی بنی نوع انسانی کے لئے گرونانک دیو جی کا پرکاش پرو ایک طرح سے حوصلہ افزائی کا تیوہار بھی ہے۔ انہوں نے انسانیت کو جو راستہ دکھایا ہے، کسانوں، غریبو، پچھڑے اور استحصال زدہ لوگوں کے حق میں جو آواز اٹھائی، وہ ہم سبھی کے لئے زندگی بھر رہنمائی کرتی رہے گی۔ وہ اس عظیم دھرتی کو جس عظیم اور مقدس شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، غریب کو اور کسان کو جس طرح سے بااختیار دیکھنا چاہتے تھے، وہ نیو انڈیا کا اہم عزم ہے۔ آیئے اس عزم کو ساتھ مل کر پورا کریں، نئے ہندوستان کی تعمیر کریں۔

میں ہریانہ کے وزیر اعلی، ہریانہ کی سرکار اور خاص طور سے وہاں کی عوام کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ کل جو ایز آف ڈوئنگ بزنس ورلڈ بینک کےساتھ مل کر جو رپورٹ سامنے آئی ہے، اس میں ہریانہ کے صوبے نے بہت بڑی چھلانگ لگا کر تیسرے نمبر پر پہنچنے کی کامیابی حاصل کی ہے۔ میں اس کے لئے منوہر لال کھٹر جی کو، ان کی سرکار کو اور ہریانہ کی جنتا کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں پنجاب کے لوگوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پنجاب کے لوگو، زرا سرکار سے پوچھو تو، کانگریس سے زرا پوچھو تو، ورلڈ بینک نے جو رپورٹ دی ہے، اس میں پنجاب کیوں پچھڑ گیا ہے۔ بادل صاحب جہاں چھوڑ کر گئے تھے، وہاں سے گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پنجاب کی عوام ان سے بھی جواب مانگے کہ اتنے کم وقت میں کیا حال بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ جب بھی کسان کے موضوع پر مجھے کسی سے کچھ رہنمائی چاہئے ہوتی ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ پرکاش سنگھ بادل صاحب ایک ایسے قائد ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی کسانوں کے لئے وقف کر دی ہے۔ جو کسانوں کی ہر مشکل کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ان کے مسائل کے حل کے راستے جانتے ہیں۔ ہماری رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ آج وقت نکال کر پرکاش سنگھ بادل صاحب بہ نفس نفیس یہاں آئے ہیں۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے ان کے تئیں اپنی ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔ میں اتنی گرمی میں یہاں آکر اپنا وقت دے کر ہمیں آشیرواد دینے کے لئے آپ سب کا ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو بولے سو نہال، ست شریے کال۔ بہت بہت شکریہ۔

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
PM Modi Shares A Health Warning Every Indian Must Take Seriously | Mann Ki Baat

Media Coverage

PM Modi Shares A Health Warning Every Indian Must Take Seriously | Mann Ki Baat
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs Fifth National Conference of Chief Secretaries in Delhi
December 28, 2025
Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence in governance, delivery and manufacturing: PM
PM says India has boarded the ‘Reform Express’, powered by the strength of its youth
PM highlights that India's demographic advantage can significantly accelerate the journey towards Viksit Bharat
‘Made in India’ must become a symbol of global excellence and competitiveness: PM
PM emphasises the need to strengthen Aatmanirbharta and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect’
PM suggests identifying 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience
PM urges every State must to give top priority to soon to be launched National Manufacturing Mission
PM calls upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and make India a Global Services Giant
PM emphasises on shifting to high value agriculture to make India the food basket of the world
PM directs States to prepare roadmap for creating a global level tourism destination

Prime Minister Narendra Modi addressed the 5th National Conference of Chief Secretaries in Delhi, earlier today. The three-day Conference was held in Pusa, Delhi from 26 to 28 December, 2025.

Prime Minister observed that this conference marks another decisive step in strengthening the spirit of cooperative federalism and deepening Centre-State partnership to achieve the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised that Human Capital comprising knowledge, skills, health and capabilities is the fundamental driver of economic growth and social progress and must be developed through a coordinated Whole-of-Government approach.

The Conference included discussions around the overarching theme of ‘Human Capital for Viksit Bharat’. Highlighting India's demographic advantage, the Prime Minister stated that nearly 70 percent of the population is in the working-age group, creating a unique historical opportunity which, when combined with economic progress, can significantly accelerate India's journey towards Viksit Bharat.

Prime Minister said that India has boarded the “Reform Express”, driven primarily by the strength of its young population, and empowering this demographic remains the government’s key priority. Prime Minister noted that the Conference is being held at a time when the country is witnessing next-generation reforms and moving steadily towards becoming a major global economic power.

He further observed that Viksit Bharat is synonymous with quality and excellence and urged all stakeholders to move beyond average outcomes. Emphasising quality in governance, service delivery and manufacturing, the Prime Minister stated that the label "Made in India' must become a symbol of excellence and global competitiveness.

Prime Minister emphasised the need to strengthen Aatmanirbharta, stating that India must pursue self-reliance with zero defect in products and minimal environmental impact, making the label 'Made in India' synonymous with quality and strengthen our commitment to 'Zero Effect, Zero Defect.’ He urged the Centre and States to jointly identify 100 products for domestic manufacturing to reduce import dependence and strengthen economic resilience in line with the vision of Viksit Bharat.

Prime Minister emphasised the need to map skill demand at the State and global levels to better design skill development strategies. In higher education too, he suggested that there is a need for academia and industry to work together to create high quality talent.

For livelihoods of youth, Prime Minister observed that tourism can play a huge role. He highlighted that India has a rich heritage and history with a potential to be among the top global tourist destinations. He urged the States to prepare a roadmap for creating at least one global level tourist destination and nourishing an entire tourist ecosystem.

PM Modi said that it is important to align the Indian national sports calendar with the global sports calendar. India is working to host the 2036 Olympics. India needs to prepare infrastructure and sports ecosystem at par with global standards. He observed that young kids should be identified, nurtured and trained to compete at that time. He urged the States that the next 10 years must be invested in them, only then will India get desired results in such sports events. Organising and promoting sports events and tournaments at local and district level and keeping data of players will create a vibrant sports environment.

PM Modi said that soon India would be launching the National Manufacturing Mission (NMM). Every State must give this top priority and create infrastructure to attract global companies. He further said that it included Ease of Doing Business, especially with respect to land, utilities and social infrastructure. He also called upon states to encourage manufacturing, boost ‘Ease of Doing Business’ and strengthen the services sector. In the services sector, PM Modi said that there should be greater emphasis on other areas like Healthcare, education, transport, tourism, professional services, AI, etc. to make India a Global Services Giant.

Prime Minister also emphasized that as India aspires to be the food basket of the world, we need to shift to high value agriculture, dairy, fisheries, with a focus on exports. He pointed out that the PM Dhan Dhanya Scheme has identified 100 districts with lower productivity. Similarly, in learning outcomes States must identify the lowest 100 districts and must work on addressing the issues around the low indicators.

PM also urged the States to use Gyan Bharatam Mission for digitization of manuscripts. He said that States may start a Abhiyan to digitize such manuscripts available in States. Once these manuscripts are digitized, Al can be used for synthesizing the wisdom and knowledge available.

Prime Minister noted that the Conference reflects India’s tradition of collective thinking and constructive policy dialogue, and that the Chief Secretaries Conference, institutionalised by the Government of India, has become an effective platform for collective deliberation.

Prime Minister emphasised that States should work in tandem with the discussions and decisions emerging from both the Chief Secretaries and the DGPs Conferences to strengthen governance and implementation.

Prime Minister suggested that similar conferences could be replicated at the departmental level to promote a national perspective among officers and improve governance outcomes in pursuit of Viksit Bharat.

Prime Minister also said that all States and UTs must prepare capacity building plan along with the Capacity Building Commission. He said that use of Al in governance and awareness on cyber security is need of the hour. States and Centre have to put emphasis on cyber security for the security of every citizen.

Prime Minister said that the technology can provide secure and stable solutions through our entire life cycle. There is a need to utilise technology to bring about quality in governance.

In the conclusion, Prime Minister said that every State must create 10-year actionable plans based on the discussions of this Conference with 1, 2, 5 and 10 year target timelines wherein technology can be utilised for regular monitoring.

The three-day Conference emphasised on special themes which included Early Childhood Education; Schooling; Skilling; Higher Education; and Sports and Extracurricular Activities recognising their role in building a resilient, inclusive and future-ready workforce.

Discussion during the Conference

The discussions during the Conference reflected the spirit of Team India, where the Centre and States came together with a shared commitment to transform ideas into action. The deliberations emphasised the importance of ensuring time-bound implementation of agreed outcomes so that the vision of Viksit Bharat translates into tangible improvements in citizens’ lives. The sessions provided a comprehensive assessment of the current situation, key challenges and possible solutions across priority areas related to human capital development.

The Conference also facilitated focused deliberations over meals on Heritage & Manuscript Preservation and Digitisation; and Ayush for All with emphasis on integrating knowledge in primary healthcare delivery.

The deliberations also emphasised the importance of effective delivery, citizen-centric governance and outcome-oriented implementation to ensure that development initiatives translate into measurable on-ground impact. The discussions highlighted the need to strengthen institutional capacity, improve inter-departmental coordination and adopt data-driven monitoring frameworks to enhance service delivery. Focus was placed on simplifying processes, leveraging technology and ensuring last-mile reach so that benefits of development reach every citizen in a timely, transparent and inclusive manner, in alignment with the vision of Viksit Bharat.

The Conference featured a series of special sessions that enabled focused deliberations on cross-cutting and emerging priorities. These sessions examined policy pathways and best practices on Deregulation in States, Technology in Governance: Opportunities, Risks & Mitigation; AgriStack for Smart Supply Chain & Market Linkages; One State, One World Class Tourist Destination; Aatmanirbhar Bharat & Swadeshi; and Plans for a post-Left Wing Extremism future. The discussions highlighted the importance of cooperative federalism, replication of successful State-level initiatives and time-bound implementation to translate deliberations into measurable outcomes.

The Conference was attended by Chief Secretaries, senior officials of all States/Union Territories, domain experts and senior officers in the centre.