CM Blogs on the start of Van Mahotsav 2012

Published By : Admin | July 29, 2012 | 16:32 IST
Share
 
Comments

 

 

Roots of progress: Planting trees for Gujarat’s holistic development

Dear Friends,

Tomorrow on the auspicious occasion of Pavitra Baras in the holy month of Shravan, I will inaugurate this year’s Van Mahotsav. In the last few years, the annual Van Mahotsav campaigns in Gujarat have added a totally new meaning to concepts of social forestry. It also brings out our determination and commitment to ensure that our future generations inherit a greener planter from us.

To inaugurate this year’s Van Mahotsav I will travel to Mangadh, a beautiful hill village located in Panchmahal’s Santrampur Taluka. It is the soil of Mangadh that produced some extremely brave Adivasi heroes who sounded the bugle of revolt against the unjust colonial imperialism. Back in 1913 the British mercilessly killed 1507 Adivasis when they had assembled to protest endless exploitation, reminding us of the brutal Jallianwala Bagh Massacre. It was for the first time since the First War of Independence in 1857 that the spark of patriotism was ignited among the people of Gujarat with so much intensity, dedication and idealism.

The Adivasis were led by Govind Guru, a beacon of bravery and inspiring leadership. Through his spiritual teachings, he worked for the cause of freedom, rights and self-respect of Adivasi communities. He tirelessly worked towards creating awakening among his people so that his community can develop at par with the rest of the society. 

Govind Guru was a man truly ahead of his time. The contribution of individuals such as Govind Guru remains edged in the memories of time and is something that simply cannot be erased from the annals of history. The people of Gujarat will never forget the mammoth contribution of its proud sons such as Govind Guru in taking the nation on the path towards freedom.

Today when we commence the Van Mahotsav 2012 from Mangadh, we are paying our wholehearted tributes to these brave individuals who sacrificed themselves at the altars of truth and justice. A Govind Guru Smriti Van with 1507 trees along with various exhibits will be set up as a tribute to these heroes. The oneness that our Adivasi friends have with nature is very well known and I am certain this step will enable many others to get inspired not only by the likes of Govind Guru but also the importance one must give to conserving our forests.

It is our firm belief that every initiative of the Gujarat Government must be a full-fledged mass movement! There is nothing more sacrosanct than the complete and active involvement of people power. In this regard, we ensured that all major Government initiatives are held not from the confines of the state capital but out there among the people. The Van Mahotsav is no exception- you would be interested to know that since 2005, the Mahotsav has been organized in different parts of Gujarat that is blessed with a distinct cultural and historical significance. There we strive to leave behind a permanent memory in the form of a ‘Van’ that serves as a cultural and tourist spot in its own right be it ‘Punit Van’ in Gandhinagar (2004), ‘Mangalya Van’ in Ambaji (2005), ‘Tirthankar Van’ in Taranga (2006), ‘Harihar Van’ in Somnath (2007), ‘Bhakti Van’ in Chotila (2008), ‘Shyamal Van’ in Shamlaji (2009), ‘Pavak Van’ in Palitana (2010) and ‘Virasat Van’ in Pavgadh (2011). This truly becomes a unique opportunity to explore our culture and strengthen our roots with history.

Gujarat is leaving no stone unturned to enhance the green cover across the state. Just a week ago, I was extremely pleased to read a newspaper report that said that Gandhinagar is India’s tree capital. Latest figures show that 53.9% of Gujarat’s capital is covered with trees which means there are 416 trees for every 100 people in the city. In our country geographical area under tree cover is 2.82%, while for Gujarat the number stands at 4%. In 2003, we had 25.1 crore trees outside the forest cover and by 2009 the number went up to 26.9 crore; in the next ten years we are working towards taking it to 35 crore. Infact, I am delighted to share that Gandhinagar, Vadodara and Bhavnagar are cities that are greener than most green cities of the country.

Friends, worshipping Mother Nature is an integral part of our rich culture. In our culture we believe that God resides in the trees! I am sure that this effort of Van Mahotsav will go a long way in creating a greener and more beautiful Gujarat. We must plant as many trees as possible- Infact very often I tell parents to plant 2 trees on the birth of a girl child.

I am attaching a copy of a book on Govind Guru and a report “Status of Tree Cover in the Urban Areas in Gujarat”. I congratulate the Forest Department in bringing out such an important report on tree cover in our cities. I am sure you will enjoy reading these fine pieces of work.

 

Yours

Narendra Modi

 

E Book- Mangadh Kranti na Nayak- Shri Govind Guru

E Book - Status of Tree Cover in the Urban Areas in Gujarat 

 

 

Govind Guru Smriti Van - Watch

Vave Gujarat Campaign – Watch

Explore More
لال قلعہ کی فصیل سے، 76ویں یوم آزادی کے موقع پر، وزیراعظم کے خطاب کا متن

Popular Speeches

لال قلعہ کی فصیل سے، 76ویں یوم آزادی کے موقع پر، وزیراعظم کے خطاب کا متن
PM Modi felicitates 11 workers who built new Parliament building, gifts shawls

Media Coverage

PM Modi felicitates 11 workers who built new Parliament building, gifts shawls
...

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
بادل صاحب ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے: وزیر اعظم مودی
April 28, 2023
Share
 
Comments

25 اپریل کی شام کو جب مجھے سردار پرکاش سنگھ بادل جی کے انتقال کی خبر ملی تو میں شدید قسم کے حزن و ملال سے بھر گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ان کے انتقال سے میں نے ایک مشفق باپ کی طرح کی ایک شخصیت کو کھو دیا جس نے کئی دہائیوں تک میری رہنمائی کی۔ انھوں نے ایک سے زیادہ طریقوں سے بھارت اور پنجاب کی سیاست کی شکل کو انتہائی مثبت انداز سے تبدیل کردیا ، جسے بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔


بادل صاحب ایک بڑے لیڈر تھے، اس کا وسیع طور پر اعتراف کیا جاتاہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک بڑے دل والے انسان تھے۔ ایک بڑا لیڈر بننا تو آسان ہے ، لیکن ایک بڑے دل والا انسان بننے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ پورے پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ ’بادل صاحب کی تو بات ہی کچھ اور تھی‘)


یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سردار پرکاش سنگھ بادل صاحب کا شمار ہمارے دور کے سب سے بڑے کسان لیڈروں میں ہوتا ہے۔ زراعت ان کا اصل شوق تھا۔ وہ جب بھی کسی موقع پر تقریر کرتے تو ان کی تقاریر حقائق، تازہ ترین معلومات اور ذاتی بصیرت سے مملو ہوتی تھیں۔


1990کی دہائی میں، جب میں شمالی بھارت میں پارٹی کے کام میں مصروف تھا تب میرا بادل صاحب سے قریبی رابطہ ہوا۔ بادل صاحب کی شہرت پہلے سے ہی تھی – وہ ایک ایسے سیاسی رہنما تھے جو پنجاب کے سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ، مرکزی کابینہ کے وزیر اور دنیا بھر میں کروڑوں پنجابیوں کے دلوں پر راج کرنے والے تھے۔ دوسری طرف، میں ایک عام سا کارکن تھا۔ اس کے باوجود، اپنی فطرت کے مطابق، انھوں نے کبھی بھی اس بات سے ہمارے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ وہ گرم جوشی اور شفقت سے بھرے رہتے تھے۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جو ان کی آخری سانسوں تک ان کے ساتھ رہیں۔ بادل صاحب کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والا ہر شخص ان کی ذہانت اور حس مزاح کو یاد کرے گا۔

1990 کی دہائی کے وسط اور اواخر میں پنجاب کی سیاسی فضا بہت مختلف تھی۔ ریاست میں خاصی افراتفری کا ماحول تھا اور 1997میں انتخابات ہونے والے تھے۔ ہماری پارٹیاں ایک ساتھ لوگوں کے پاس گئیں اور بادل صاحب ہمارے لیڈر تھے۔ ان کی مضبوط ساکھ کا ہی کرشمہ تھا کہ لوگوں نے ہمیں زبردست جیت دلوائی۔ صرف یہی نہیں، ہمارے اتحاد نے چنڈی گڑھ میں میونسپل انتخابات اور لوک سبھا سیٹ پر بھی کامیابی حاصل کی۔ ان کی شخصیت کا جادو ایسا تھا کہ ہمارا اتحاد 1997 سے 2017 تک 15سال تک ریاست کی خدمت کرتا رہا۔


ایک واقعہ ہے جسے میں کبھی نہیں بھلاسکتا۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد بادل صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک ساتھ امرتسر جائیں گے، جہاں ہم رات کو قیام کریں گے اور اگلے دن متھا ٹیکیں گے اور لنگر کے ذریعے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ میں گیسٹ ہاؤس میں اپنے کمرے میں تھا ، جب انھیں علم ہوا تو وہ میرے کمرے میں آئے اور میرا سامان اٹھانے لگے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ اس کمرے میں جانا ہے جو وزیر اعلیٰ کے لیے مختص ہے اور وہیں رہنا ہے۔ میں انھیں برابر کہتا رہا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن وہ مصر رہے۔ آخر کار ایسا ہی ہوا ، اور بادل صاحب نے دوسرے کمرے میں قیام کیا۔ میں اپنے جیسے ایک بہت ہی معمولی کارکن کے تئیں ان کی اس ادا کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔


بادل صاحب کو گئو شالہ میں خصوصی دلچسپی تھی اور وہ مختلف نسلوں کی گایوں کو پالتے تھے۔ ہماری ایک میٹنگ کے دوران، انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ گیر کی گائے پالیں۔ میں نے ان کے لیے 5 گایوں کا انتظام کیا اور اس کے بعد جب بھی ہم ملتے تو وہ گایوں کے بارے میں بات کرتے اور مذاق بھی کرتے کہ وہ گائیں ہر طرح سے گجراتی ہیں، کبھی غصے میں نہیں آتیں، مشتعل نہیں ہوتیں یا کسی پر حملہ نہیں کرتیں، چاہے ان کے آس پاس بچے کھیل رہے ہوں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ گجراتی اتنے نرم مزاج ہوتے ہیں... آخر وہ گیر کی گایوں کا دودھ جو پیتے ہیں۔


سنہ 2001 کے بعد مجھے بادل صاحب کے ساتھ ایک مختلف حیثیت سے رابطے کا موقع ملا – اب ہم اپنی اپنی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ تھے۔
مجھے بادل صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا، خاص طور پر زراعت سے متعلق امور میں جیسے پانی کاتحفظ، مویشی پروری اور ڈیری ۔ وہ ایک ایسے شخص بھی تھے جو تارکین وطن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں یقین رکھتے تھے کیونکہ بہت سارے محنتی پنجابی بیرون ملک آباد ہیں۔


ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ الانگ شپ یارڈ کیا ہوتا ہے۔ پھر وہ وہاں آئے اور سارا دن الانگ شپ یارڈ میں گزارا اور یہ سمجھنے کی بھرپور کوشش کی کہ ری سائیکلنگ کیسے کی جاتی ہے۔ پنجاب کوئی ساحلی ریاست نہیں ہے اس لیے ایک طرح سے ان کے لیے شپ یارڈ کی براہ راست کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن نئی چیزیں سیکھنے کی ان کی خواہش ایسی تھی کہ انھوں نے سارا دن وہاں گزارا اور اس شعبے کے مختلف پہلوؤں کو سمجھا۔

میں گجرات حکومت کے ذریعے کچھ کے مقدس لکھپت گردوارے ، جسے 2001 کے زلزلے کے دوران نقصان پہنچا تھا ، کی مرمت اور بحالی کی کوششوں کے تئیں ان کے ستائشی الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔
2014 میں مرکز میں این ڈی اے حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر اپنے شان دار حکومتی تجربے کی بنیاد پر قابل قدر اور بصیرت افروز تجربات سے فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے تاریخی جی ایس ٹی سمیت کئی اصلاحات کی بھرپور حمایت کی۔


میں نے, ہمارے تعلق کے محض چند پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ وسیع سطح پر ہماری قوم کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ایمرجنسی کے سیاہ دنوں کے دوران جمہوریت کی بحالی کے لیے بہادر ترین سپاہیوں میں سے ایک تھے۔ جب ان کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا تو انھیں خود کانگریس کلچر کی ہٹ دھرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ان تجربات نے جمہوریت میں ان کے یقین کو مزید مستحکم کیا۔


پنجاب میں 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے ہنگامہ خیز دور میں بادل صاحب نے پنجاب کو اور بھارت کو پہلے نمبر پر رکھا۔ انھوں نے کسی بھی ایسے منصوبے کی سختی سے مخالفت کی جو بھارت کو کمزور کرے یا پنجاب کے عوام کے مفادات سے سمجھوتہ کرے، خواہ اس کا مطلب اقتدار کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔


وہ عظیم گرو صاحبان کی تعلیمات پر عمل پیرا اور ان سے گہری وابستگی رکھنے والے شخص تھے۔ انھوں نے سکھ ورثے کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے بھی قابل ذکر کوششیں کیں۔ 1984 کے فسادات کے متاثرین کو انصاف دلانے میں ان کے کردار کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟


بادل صاحب ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ وہ تمام نظریات کے لیڈروں کے ساتھ کام کر سکتے تھے۔ بادل صاحب نے کبھی بھی کسی بھی تعلق کو سیاسی نفع یا نقصان سے نہیں جوڑا۔ یہ بات قومی اتحاد کے جذبے کو آگے بڑھانے میں خاص طور پر مفید تھی۔


بادل صاحب کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا مشکل ہوگا۔ آپ ایسے معتبر سیاست داں تھے جن کی زندگی بہت سے چیلنجوں سے نبرد آزما رہی لیکن آپ نے نہ صرف ان پر قابو پایا بلکہ ققنس پرندے کی طرح اسی آگ سے دوبارہ جوان ہوکر اٹھے۔ ان کی کمی عرصے تک محسوس کی جائے گی ۔ وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے اور گذشتہ دہائیوں کے دوران کیے گئے اپنے شاندار کارناموں کی بنا پر بھی یاد کیے جائیں گے۔