When a handful of salt shook an Empire!

Published By : Admin | March 12, 2019 | 07:24 IST
Share
 
Comments

Today, 89 years ago, Bapu embarked on the iconic Dandi March. Though aimed at protesting unfair Salt Laws, Dandi March shook the foundations of colonial rule and became a strong symbol of fighting injustice and inequality.

 

Did you know who had a key role in the planning of the Dandi March?

The great Sardar Patel.

The organisational man that he was, Sardar Patel planned every minute aspect of the Dandi March, down to the last detail. And, the British were so scared of Sardar Sahib that they arrested him a few days before the launch of Dandi March hoping it would scare Gandhi Ji. However, none of that happened. The larger cause of fighting colonialism prevailed over everything else!

Last month I was in Dandi, at the exact spot where Bapu lifted a handful of salt. A state-of-the-art museum has also come up there, which I urge you all to go see.

Gandhi Ji taught us to think of the plight of the poorest person we have seen and think about how our work impacts that person. I am proud to say that in all aspects of our Government’s work, the guiding consideration is to see how it will alleviate poverty and bring prosperity.

Sadly, the anti-thesis of Gandhian thought is the Congress culture.

Bapu said, “...through realisation of freedom of India I hope to realise and carry on the mission of brotherhood of man.” In many of his works, Gandhi Ji said that he does not believe in inequality and caste divisions. Sadly, the Congress has never hesitated from dividing society. The worst caste riots and anti-Dalit massacres happened under Congress rule.

Bapu said in 1947, “It is the duty of all leading men, whatever their persuasion or party, to safeguard the dignity of India. That dignity can’t be saved if misgovernment and corruption flourish. Misgovernment and corruption always go together.” We have done everything to punish the corrupt. But, the nation has seen how Congress and corruption have become synonyms. Name the sector and there will be a Congress scam- from defence, telecom, irrigation, sporting events to agriculture, rural development and more.

Bapu spoke about detachment and staying away from excess wealth. However, all that Congress has done is to fill their own bank accounts and lead luxurious lifestyles at the cost of providing basic necessities to the poor.

While interacting with a group of women workers, Bapu said, “I have been receiving complaints that some so called eminent leaders of India are making money through their sons, that nepotism is on the increase as also is corruption and that I should do something about it. If it is true all one can say is that we have reached the limit of our misfortune.” Bapu despised dynastic politics but the ‘Dynasty First’ is the way for the Congress today.

A firm believer in democracy, Bapu said, “I understand democracy as something that gives the weak the same chance as the strong.” Ironically, the Congress gave the nation the Emergency, when our democratic spirit was trampled over. The Congress misused Article 356 several times. If they did not like a leader, that Government was dismissed. Always eager to promote dynastic culture, Congress has no regard for democratic values.

Gandhi Ji had understood the Congress culture very well, which is why he wanted the Congress disbanded, especially after 1947.

He lamented, “I am sorry to have to say that many Congressmen have looked upon this item (Swaraj) as a mere political necessity and not as something indispensable.” He also added that Congress leaders are only busy making communal adjustments. In 1937 itself he said, “I would go to the length of giving the whole congress a decent burial, rather than put up with the corruption that is rampant.”

Thankfully, today we have a Government at the Centre that is working on Bapu’s path and a Jan Shakti that is fulfilling his dream of freeing India from the Congress Culture!

Explore More
لال قلعہ کی فصیل سے، 76ویں یوم آزادی کے موقع پر، وزیراعظم کے خطاب کا متن

Popular Speeches

لال قلعہ کی فصیل سے، 76ویں یوم آزادی کے موقع پر، وزیراعظم کے خطاب کا متن
PM Modi felicitates 11 workers who built new Parliament building, gifts shawls

Media Coverage

PM Modi felicitates 11 workers who built new Parliament building, gifts shawls
...

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
بادل صاحب ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے: وزیر اعظم مودی
April 28, 2023
Share
 
Comments

25 اپریل کی شام کو جب مجھے سردار پرکاش سنگھ بادل جی کے انتقال کی خبر ملی تو میں شدید قسم کے حزن و ملال سے بھر گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ان کے انتقال سے میں نے ایک مشفق باپ کی طرح کی ایک شخصیت کو کھو دیا جس نے کئی دہائیوں تک میری رہنمائی کی۔ انھوں نے ایک سے زیادہ طریقوں سے بھارت اور پنجاب کی سیاست کی شکل کو انتہائی مثبت انداز سے تبدیل کردیا ، جسے بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔


بادل صاحب ایک بڑے لیڈر تھے، اس کا وسیع طور پر اعتراف کیا جاتاہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک بڑے دل والے انسان تھے۔ ایک بڑا لیڈر بننا تو آسان ہے ، لیکن ایک بڑے دل والا انسان بننے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ پورے پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ ’بادل صاحب کی تو بات ہی کچھ اور تھی‘)


یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سردار پرکاش سنگھ بادل صاحب کا شمار ہمارے دور کے سب سے بڑے کسان لیڈروں میں ہوتا ہے۔ زراعت ان کا اصل شوق تھا۔ وہ جب بھی کسی موقع پر تقریر کرتے تو ان کی تقاریر حقائق، تازہ ترین معلومات اور ذاتی بصیرت سے مملو ہوتی تھیں۔


1990کی دہائی میں، جب میں شمالی بھارت میں پارٹی کے کام میں مصروف تھا تب میرا بادل صاحب سے قریبی رابطہ ہوا۔ بادل صاحب کی شہرت پہلے سے ہی تھی – وہ ایک ایسے سیاسی رہنما تھے جو پنجاب کے سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ، مرکزی کابینہ کے وزیر اور دنیا بھر میں کروڑوں پنجابیوں کے دلوں پر راج کرنے والے تھے۔ دوسری طرف، میں ایک عام سا کارکن تھا۔ اس کے باوجود، اپنی فطرت کے مطابق، انھوں نے کبھی بھی اس بات سے ہمارے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ وہ گرم جوشی اور شفقت سے بھرے رہتے تھے۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جو ان کی آخری سانسوں تک ان کے ساتھ رہیں۔ بادل صاحب کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والا ہر شخص ان کی ذہانت اور حس مزاح کو یاد کرے گا۔

1990 کی دہائی کے وسط اور اواخر میں پنجاب کی سیاسی فضا بہت مختلف تھی۔ ریاست میں خاصی افراتفری کا ماحول تھا اور 1997میں انتخابات ہونے والے تھے۔ ہماری پارٹیاں ایک ساتھ لوگوں کے پاس گئیں اور بادل صاحب ہمارے لیڈر تھے۔ ان کی مضبوط ساکھ کا ہی کرشمہ تھا کہ لوگوں نے ہمیں زبردست جیت دلوائی۔ صرف یہی نہیں، ہمارے اتحاد نے چنڈی گڑھ میں میونسپل انتخابات اور لوک سبھا سیٹ پر بھی کامیابی حاصل کی۔ ان کی شخصیت کا جادو ایسا تھا کہ ہمارا اتحاد 1997 سے 2017 تک 15سال تک ریاست کی خدمت کرتا رہا۔


ایک واقعہ ہے جسے میں کبھی نہیں بھلاسکتا۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد بادل صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک ساتھ امرتسر جائیں گے، جہاں ہم رات کو قیام کریں گے اور اگلے دن متھا ٹیکیں گے اور لنگر کے ذریعے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ میں گیسٹ ہاؤس میں اپنے کمرے میں تھا ، جب انھیں علم ہوا تو وہ میرے کمرے میں آئے اور میرا سامان اٹھانے لگے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ اس کمرے میں جانا ہے جو وزیر اعلیٰ کے لیے مختص ہے اور وہیں رہنا ہے۔ میں انھیں برابر کہتا رہا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن وہ مصر رہے۔ آخر کار ایسا ہی ہوا ، اور بادل صاحب نے دوسرے کمرے میں قیام کیا۔ میں اپنے جیسے ایک بہت ہی معمولی کارکن کے تئیں ان کی اس ادا کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔


بادل صاحب کو گئو شالہ میں خصوصی دلچسپی تھی اور وہ مختلف نسلوں کی گایوں کو پالتے تھے۔ ہماری ایک میٹنگ کے دوران، انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ گیر کی گائے پالیں۔ میں نے ان کے لیے 5 گایوں کا انتظام کیا اور اس کے بعد جب بھی ہم ملتے تو وہ گایوں کے بارے میں بات کرتے اور مذاق بھی کرتے کہ وہ گائیں ہر طرح سے گجراتی ہیں، کبھی غصے میں نہیں آتیں، مشتعل نہیں ہوتیں یا کسی پر حملہ نہیں کرتیں، چاہے ان کے آس پاس بچے کھیل رہے ہوں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ گجراتی اتنے نرم مزاج ہوتے ہیں... آخر وہ گیر کی گایوں کا دودھ جو پیتے ہیں۔


سنہ 2001 کے بعد مجھے بادل صاحب کے ساتھ ایک مختلف حیثیت سے رابطے کا موقع ملا – اب ہم اپنی اپنی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ تھے۔
مجھے بادل صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا، خاص طور پر زراعت سے متعلق امور میں جیسے پانی کاتحفظ، مویشی پروری اور ڈیری ۔ وہ ایک ایسے شخص بھی تھے جو تارکین وطن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں یقین رکھتے تھے کیونکہ بہت سارے محنتی پنجابی بیرون ملک آباد ہیں۔


ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ الانگ شپ یارڈ کیا ہوتا ہے۔ پھر وہ وہاں آئے اور سارا دن الانگ شپ یارڈ میں گزارا اور یہ سمجھنے کی بھرپور کوشش کی کہ ری سائیکلنگ کیسے کی جاتی ہے۔ پنجاب کوئی ساحلی ریاست نہیں ہے اس لیے ایک طرح سے ان کے لیے شپ یارڈ کی براہ راست کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن نئی چیزیں سیکھنے کی ان کی خواہش ایسی تھی کہ انھوں نے سارا دن وہاں گزارا اور اس شعبے کے مختلف پہلوؤں کو سمجھا۔

میں گجرات حکومت کے ذریعے کچھ کے مقدس لکھپت گردوارے ، جسے 2001 کے زلزلے کے دوران نقصان پہنچا تھا ، کی مرمت اور بحالی کی کوششوں کے تئیں ان کے ستائشی الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔
2014 میں مرکز میں این ڈی اے حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر اپنے شان دار حکومتی تجربے کی بنیاد پر قابل قدر اور بصیرت افروز تجربات سے فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے تاریخی جی ایس ٹی سمیت کئی اصلاحات کی بھرپور حمایت کی۔


میں نے, ہمارے تعلق کے محض چند پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ وسیع سطح پر ہماری قوم کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ایمرجنسی کے سیاہ دنوں کے دوران جمہوریت کی بحالی کے لیے بہادر ترین سپاہیوں میں سے ایک تھے۔ جب ان کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا تو انھیں خود کانگریس کلچر کی ہٹ دھرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ان تجربات نے جمہوریت میں ان کے یقین کو مزید مستحکم کیا۔


پنجاب میں 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے ہنگامہ خیز دور میں بادل صاحب نے پنجاب کو اور بھارت کو پہلے نمبر پر رکھا۔ انھوں نے کسی بھی ایسے منصوبے کی سختی سے مخالفت کی جو بھارت کو کمزور کرے یا پنجاب کے عوام کے مفادات سے سمجھوتہ کرے، خواہ اس کا مطلب اقتدار کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔


وہ عظیم گرو صاحبان کی تعلیمات پر عمل پیرا اور ان سے گہری وابستگی رکھنے والے شخص تھے۔ انھوں نے سکھ ورثے کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے بھی قابل ذکر کوششیں کیں۔ 1984 کے فسادات کے متاثرین کو انصاف دلانے میں ان کے کردار کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟


بادل صاحب ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ وہ تمام نظریات کے لیڈروں کے ساتھ کام کر سکتے تھے۔ بادل صاحب نے کبھی بھی کسی بھی تعلق کو سیاسی نفع یا نقصان سے نہیں جوڑا۔ یہ بات قومی اتحاد کے جذبے کو آگے بڑھانے میں خاص طور پر مفید تھی۔


بادل صاحب کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا مشکل ہوگا۔ آپ ایسے معتبر سیاست داں تھے جن کی زندگی بہت سے چیلنجوں سے نبرد آزما رہی لیکن آپ نے نہ صرف ان پر قابو پایا بلکہ ققنس پرندے کی طرح اسی آگ سے دوبارہ جوان ہوکر اٹھے۔ ان کی کمی عرصے تک محسوس کی جائے گی ۔ وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے اور گذشتہ دہائیوں کے دوران کیے گئے اپنے شاندار کارناموں کی بنا پر بھی یاد کیے جائیں گے۔