Increase the number of vaccination centers and Scale up RT-PCR tests : PM
Calls for avoiding vaccine doses wastage
Stresses micro containment zones and 'Test, Track and Treat’

آپ سبھی کا متعدد اہم نکات اٹھانے کیلئے بہت بہت شکریہ۔ کورونا کے خلاف ملک کی لڑائی کو اب ایک سال سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اس دوران بھارت کے لوگوں نے کورونا کا جس طرح سے مقابلہ کیا ہے، اس کی دنیا میں مثال کے طور پر چرچا ہورہی ہے، لوگ اس کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آج بھارت میں 96فیصد سے زیادہ معاملات ٹھیک ہوچکے ہیں۔ اموات کی شرح میں بھی بھارت دنیا کے ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہے، جہاں یہ شرح سب سے کم ہے۔

ملک اور دنیا میں کورونا کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جو پرزنٹیشن یہاں دیا گیا، اس سے بھی کئی اہم پہلو ہمارے سامنے آئے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر کورونا سے متاثرہ ملک ایسے ہیں جنہیں کورونا کی کئی لہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کچھ ریاستوں میں کیسز کم ہونے کے بعد اچانک سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ آپ سبھی ان پر دھیان دے رہے ہیں لیکن پھر بھی کچھ ریاستوں کا ذکر ہوا جیسے مہاراشٹر ہے، پنجاب ہے، آپ وزرائے اعلیٰ نے بھی تشویش ظاہر کی ہے، صرف میں کہہ رہا ہوں ایسا نہیں ہے۔ اورخاص فکر آپ کربھی رہے ہیں اور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں ٹیسٹ پازیٹیویٹی ریٹ بہت زیادہ ہے۔ اور کیسوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، بہت آرہے ہیں۔

اس بار کئی ایسے علاقوں، ایسے ضلعوں  میں بھی یہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جو ابھی تک خود کو بچائے ہوئے تھے۔ ایک طرح سے محفوظ علاقے تھے۔ اب وہاں پر ہمیں کچھ چیزیں نظر آرہی ہیں۔ ملک کے 70 اضلاع میں تو پچھلے کچھ ہفتوں میں یہ اضافہ 150 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ہم اس بڑھتی ہوئی وبا کو یہیں نہیں روکیں گے تو ملک میں وسیع آؤٹ بریک کی صورتحال بن سکتی ہے۔ ہمیں کورونا کی اس اُبھرتی ہوئی ‘‘سیکنڈ پیک’’ کو فوراً روکنا ہی ہوگا۔ اور اس کے لئے ہمیں فوری اور فیصلہ کن قدم اٹھانے ہوں گے۔ کئی جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ماسک کو لیکر اب مقامی انتظامیہ کے ذریعے بھی اُتنی سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی ہے۔ میری گزارش ہے کہ مقامی سطح پر گورننس کو لیکرجو بھی دقتیں ہیں، ان کی پڑتال، ان کا جائزہ لیا جانا، اور ان دقتوں کو دور کرنا یہ میں سمجھتا ہوں فی الحال بہت ضروری ہے۔

یہ غور وفکر کا موضوع ہے کہ آخر کچھ علاقوں میں ہی ٹیسٹ کم کیوں ہورہی ہے؟ کیوں ایسے ہی علاقوں میں ٹیکہ کاری بھی کم ہورہی ہے؟ میں سمجھتاہوں کہ یہ گڈ گورننس کے امتحان کا بھی وقت ہے۔ کورونا کی لڑائی میں آج ہم جہاں تک پہنچے ہیں، اس میں اور اس سے جو خود اعتمادی آئی ہے، یہ خود اعتمادی ہمارا کنفیڈنس-اوور کنفیڈنس بھی نہیں ہونا چاہے، ہماری یہ کامیابی لاپروائی میں بھی نہیں بدلنی چاہئے۔ ہمیں عوام کو پینک موڈ میں بھی نہیں لانا ہے۔  ایک خوف کا ماحول پھیل جائے، یہ بھی حالات نہیں لانے ہیں اور کچھ احتیاط برت کر، کچھ اقدامات کرکے ہمیں عوام کو پریشانی سے نجات بھی دلانا ہے۔

اپنی کوششوں میں ہمیں اپنے پرانے تجربات کو شامل کرکے حکمت عملی بنانی ہوگی۔ ہر ریاست کے اپنے اپنے تجربات ہوتے ہیں، اچھے تجربات ہوتے ہیں، اچھے اقدامات ہوتے ہیں، کئی ریاست دوسری ریاستوں سے نئے نئے تجربات سیکھ بھی رہے ہیں۔ لیکن اب ایک سال میں ہماری سرکاری مشینری ان کو نیچے تک ایسے حالات میں کیسے کام کرنا، قریب-قریب ٹریننگ ہوچکی ہے۔ اب ہمیں پروا یکٹیو ہونا ضروری ہے۔ ہمیں جہاں ضروری ہو اور یہ میں گزارش کرکے کہتا ہوں، مائیکرو کنٹینمنٹ زون بنانے کا متبادل بھی کسی بھی حالت میں ڈھلائی نہیں لانی چاہئے، اس پر بڑے پیمانے پر کام کرنا چاہئے۔ ضلعوں میں کام کررہی پینڈیمک رسپانس ٹیمس کو کنٹینمنٹ اور سرویلنس ایس او پی کی ری اورینٹیشن کی ضرورت ہو تو وہ بھی کیا جانا چاہئے۔ پھر سے ایک بار چار گھنٹے، چھ گھنٹے کے لئے میٹنگ کرکے ایک چرچاہو، ہر سطح پر چرچاہو۔ سنسیٹائز بھی کریں گے، پرانی چیزیں یاد کرادیں گے اور رفتار بھی لاسکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی، ‘ٹیسٹ، ٹریک اور ٹریٹ’ اس کو لیکر بھی ہمیں اتنی ہی سنجیدگی کی ضرورت ہے جیسا کہ ہم پچھلے ایک سال سے کرتے آرہے ہیں۔ ہر متاثرہ شخص کے رابطوں کو کم سے کم وقت میں ٹریک کرنا اور آر ٹی- پی سی آر ٹیسٹ  ریٹ 70فیصد سے اوپر رکھنا بہت اہم ہے۔

ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کئی ریاستوں میں ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ پر ہی زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ اسی بھروسے گاڑی چل رہی ہے۔ جیسے کیرل ہے،  اڈیشہ ہے، چھتیس گڑھ ہے اور یوپی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میں بہت تیزی سے بدلاؤ کی ضرورت ہے۔ ان سبھی  ریاستوں میں، میں تو چاہتا ہوں ملک کے سبھی ریاستوں میں ہمیں آر ٹی- پی سی آر ٹیسٹ اور بڑھانے پر زور دینا ہوگا۔ ایک بات جو بہت دھیان دینے والی ہے وہ یہ کہ اس بار ہمارے ٹیئر-2، ٹیئر-3 شہر جو شروع میں متاثر نہیں ہوئے تھے، ان کے آس پاس کے علاقے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ دیکھئے اس لڑائی میں ہم کامیابی کے ساتھ بچ پائے ہیں، اس کا ایک سبب تھا کہ ہم گاؤں کو اس سے پاک رکھ پائے تھے۔ لیکن ٹیئر-2، ٹیئر-3 سٹی پہنچا تو اس کو گاؤں میں جانے میں دیر نہیں لگے گی اور گاؤں کو سنبھالنا ۔۔ہمارے انتظامات بہت کم پڑ جائیں گے۔ اور اس لئے ہمیں چھوٹے شہروں میں ٹیسٹنگ کو بڑھانا ہوگا۔

ہمیں چھوٹے شہروں میں ریفرل سسٹم اور ایمبولینس نیٹ ورک کے اوپر خصوصی دھیان دینا ہوگا۔ پرزنٹیشن میں یہ بات بھی سامنے رکھی گئی ہے کہ ابھی وائرس کا پھیلاؤ ڈسپرس مینر میں ہورہا ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب پورا ملک سفر کیلئے کھل چکا ہے، بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ اس لئے ، آج ہر ایک کیس کے ٹریول کی ، اس کے کنٹیکٹ کے ٹریول کی اطلاع سبھی ریاستوں کو آپس میں بھی ساجھا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ آپس میں جانکاری مشترک کرنے کیلئے کسی نئے مکینزم کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس پر بھی غور ہونا چاہئے۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والے مسافروں اور ان کے رابطے میں آنے والے افراد کی نگرانی کیلئے معیاری طریقہ کار (ایس او پی) پر عمل آوری کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ ابھی ہمارے سامنے کورونا وائرس کے میوٹینٹس کو بھی پہچاننے اور ان کے اثرات کے تجزیہ کا بھی سوال ہے۔ آپ کے ریاستوں میں آپ کو وائرس کے ویرینٹ کا پتہ چلتا ہے، اس کے لئے بھی جینوم سمپل بھی ٹیسٹنگ کے لئے بھیجا جانا اتنا ہی اہم ہے۔

ساتھیو،

ویکسین ابھیان کو لیکر کئی ساتھیوں نے اپنی بات رکھی۔ یقینی طور پر اس لڑائی میں ویکسین اب ایک سال کے بعد ہمارے ہاتھ میں ایک ہتھیار آیا ہے، یہ مؤثر ہتھیار ہے۔ ملک میں ٹیکہ کاری کی رفتار لگاتار بڑھ رہی ہے۔ ہم ایک دن میں 30 لاکھ لوگوں کو ٹیکہ لگانے کے اعداد وشمار کو بھی ایک بار تو پار کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں ویکسین ڈوزیز برباد ہونے کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ تلنگانہ اور  آندھرا پردیش میں دس فیصد سے زیادہ ویکسین برباد ہوئے ہیں۔ یوپی میں بھی ویکسین کی برباد تقریباً ویسی ہی ہے۔ ویکسین کیوں برباد ہورہی ہے اس کا بھی جائزہ ریاستوں میں لیا جانا چاہئے اور میں مانتا ہوں کہ ہرروز شام کو اس کی مانیٹرنگ کا انتظام رہنا چاہئے اور ہمارے سسٹم کو پرو-ایکٹیو لوگوں کو کنٹریکٹ کرکے ایک ساتھ اتنے لوگ موجود رہیں تاکہ ویکسین برباد نہ ہو، اس کا  انتظام ہونا چاہئے۔ کیوں کہ ایک طرح سے جتنا پرسنٹیج ویسٹ ہوتا ہے، ہم کسی کے حق کو برباد کررہے ہیں۔ ہمیں کسی کے حق کو برباد کرنے کا حق نہیں ہے۔

مقامی سطح پر پلاننگ اور گورننس کی جو بھی کمیاں ہیں انہیں فوری طور پر بہتر کرنا چاہئے۔ ویکسین کی برباد جتنی رکے گی، اور میں تو چاہوں گا  ریاستوں کو تو صفر بربادی کے نشانے سے کام شروع کرنا چاہئے۔ اپنے یہاں برباد نہیں ہونے  دیں گے۔ ایک بار کوشش کریں گے تو اصلاح ضرور ہوگی۔ اتنے ہی زیادہ صحت  کارکنان، صف اول کے کارکنان اور دوسرے اہل لوگوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں پہنچانے کی ہماری کوشش کامیاب ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے اِن اجتماعی کوششوں اور حکمت عملی کا اثر جلد ہی ہمیں دکھائی دیگا اور اس کے نتائج بھی نظر آئیں گے۔

آخر میں، میں کچھ نکات پھر ایک بار دوہرانا چاہتا ہوں، تاکہ ہم سبھی مسائل پر دھیان دیتے ہوئے آگے بڑھیں۔ ایک منتر جو ہمیں لگاتار سب کو کہنا ہوگا۔ ‘دوائی اور کڑائی بھی’۔ دیکھئے دوائی مطلب بیماری چلی گئی ہے ایسا نہیں۔ مان لیجئے کسی کو زکام ہوا۔ اس نے دوائی لے لی، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کو ٹھنڈی جگہ پر بغیر تحفظ کے اونی کپڑے پہنے بغیر وہ چلا جائے، بارش میں کہیں بھیگنے کیلئے چلا جائے۔ بھئی ٹھیک ہے، تم نے دوائی لی ہےلیکن تمہیں باقی بھی سنبھالنا تو پڑے گا ہی پڑے گا۔ یہ صحت کا اصول ہے، یہ کوئی بیماری کیلئے نہیں ہے، یہ ہر بیماری کے لئے ہے جی۔ اگر ہمیں ٹائیفائیڈ ہوا ہے، دوائی ہوگئی سب ہوگیا پھر بھی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان ان چیزوں کو نہیں کھانا۔ یہ ویسا ہی ہے ۔ اور اس لئے میں سمجھتا ہوں اتنی عام سی بات لوگوں کو سمجھانی چاہئے۔اور اس لئے ‘دوائی بھی اور کڑائی بھی’، اس سلسلے میں ہم بار بار لوگوں کو خبردار کریں۔

دوسرا ، جو موضوع میں نے کہا۔ آر ٹی- پی سی آر ٹیسٹ کو تیز تر کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ نئے کیسز کی پہچان فوراً ہوسکے۔ مقامی انتظامیہ کو مائیکرو کنٹینمنٹ زون بنانے کی سمت میں بھی ہمیں گزارش کرنی چاہئے۔ وہ وہیں پر کام تیزی سے کریں، ہم بہت تیزی سے روک پائیں گے تاکہ انفیکشن کا دائرہ پھیلنے سے روکنے میں وہ مدد کریگا۔ ویکسین لگانے والے مراکز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، وہ پرائیویٹ ہو، سرکاری ہو، جیسا آپ نے میپ دیکھا ہوگا، وہ آپ کے لئے بھی ریاست وار بھی بنایا۔ وہ شروع میں جو گرین ڈاٹ والا بتایا تھا۔ اور دیکھنے سے ہی پتا چلتا ہے کہ بہت سارے علاقے ہیں کہ جہاں لائٹ گرین لگ رہا ہے، مطلب کہ ہمارے ویکسینیشن سینٹر اتنے نہیں ہیں یا ایکٹیو نہیں ہیں۔ دیکھئے ٹیکنالوجی ہماری بہت مدد کررہی ہے۔ ہم بہت آسانی سے ڈے ٹو ڈے چیزوں کو آرگنائز کرسکتے ہیں۔ اس کا ہمیں فائدہ تو لینا ہے لیکن اس کی بنیاد پر ہمیں بہتر کرنا ہے۔ ہمارے جتنے سینٹرس پرو ایکٹو  ہونگے، مشن موڈ میں کام کریں گے، ویسٹیج بھی کم ہوگا، تعداد بھی بڑھے گی اور ایک اعتماد فوراً بڑھے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس پر زور دیا جائے۔

ساتھ ہی ایک بات ہمیں دھیان رکھنی ہوگی کیوں کہ یہ ویکسین کا لگاتار پروڈکشن ہورہا ہے اور جتنی جلدی ہم اس سے باہر نکلیں ہمیں نکلنا ہے۔ ورنہ یہ ایک سال، دو سال، تین سال تک کھنچتا چلا جائے گا۔ایک معاملہ ہے ویکسین کی ایکسپائری ڈیٹ ، ہمیں دھیان رکھنا چاہئے کہ جو پہلے آیا ہے اس کا پہلے استعمال ہو، جو بعد میں آیا ہے اس کا بعد میں  استعمال ہو۔ اگر جو بعد میں آیا ہوا ہم پہلے استعمال کرلیں گے تو پھر ایکسپائری ڈیٹ اور ویسٹیج کی صورت بن جائے گی۔ اور اس لئے مجھے لگتا ہے کہ اوائیڈبل ویسٹیج سے تو ہمیں بچناہی چاہئے۔ ہمیں پتا ہونا چاہئے کہ یہ لاٹ ہمارے پاس جو ہے اس کی ایکسپائری ڈیٹ یہ ہے، ہم سب سے پہلے اس کا استعمال کرلیں یہ بہت ضروری ہے۔ اور ان سبھی باتوں کے ساتھ، اس انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے جو بنیادی اقدامات ہیں، جیسا میں کہتا ہوں‘‘دوائی بھی اور کڑائی بھی’’۔ ماسک پہننا ہے، دو گز کی دوری بنائے رکھنا ہے، صاف صفائی کا دھیان رکھنا ہے، پرسنل ہائیجین ہو یا سوشل ہائیجین ہو، پوری طرح اس پر زور دینا پڑیگا۔ ایسے کئی اقدامات جو پچھلے ایک سال سے ہم کرتے آئے ہیں پھر سے ایک بار ان پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ پھر سے ایک بار گزارش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہمیں سختی کرنی پڑے تو کرنی چاہئے۔ جیسے ہمارے کیپٹن صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم کل سے بڑی کارروائی کرنے کی تحریک چلارہے ہیں، اچھی بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اس سلسلے میں ہمت کے ساتھ کرنا پڑے گا۔

مجھے یقین ہے کہ ان مسئلوں پر لوگوں کی بیداری بنائے رکھنے میں ہم کو کامیابی ملے گی۔ میں پھر ایک بار آپ کی تجاویز کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مزید جو تجاویز ہیں، آپ ضرور بھیجیں۔ ہاسپٹل کے بارے میں جو آج چرچا نکل کے آئی ہے، آپ دو چار گھنٹے میں ہی ساری جانکاری دے دیجئے تاکہ میں شام کو  سات آٹھ بجے کے آس پاس اپنے ڈپارٹمنٹ کے لوگوں کے ساتھ جائزہ لیکر اس میں سے اگر کوئی روکاوٹ ہے تو اس کو دور کرنے کیلئے کئی ضروری فیصلے کرنے ہوں گے تو وزارت صحت فوراً کرلے گی، اور میں بھی اس پر دھیان دوں گا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم اب تک جو لڑائی جیتتے آئے ہیں، ہم سب کا تعاون ہے، ایک ایک ہمارے کورونا جانباز کا تعاون ہے اس کے سبب ہوا ہے، عوام الناس نے بھی بہت تعاون دیا ہے جی۔ ہمیں عوام سے جوجھنا نہیں پڑا ہے۔ ہم جو بھی بات لیتے گئے عوام نے یقین کیا ہے، عوام نے  ساتھ دیا ہے اور بھارت کامیاب ہورہا ۔ 130 کروڑ ہم وطنوں کی بیداری کے سبب ، 130 کروڑ ہم وطنوں کے تعاون کے سبب، 130 کروڑ ہم وطنوں کے کو-آپریشن کے سبب۔ ہم جتنا عوام کو اس سلسلے میں پھر سے جوڑ پائیں ، پھر سے اس مسئلے کے بارے میں بتائیں گے، مجھے پختہ یقین ہے کہ جو ابھی بدلاؤ نظر آرہا ہے ہم اس بدلاؤ کو پھر سے ایک بار روک پائیں گے۔ پھر سے ہم نیچے کی جانب لے جائیں گے۔ ایسا میرا پختہ یقین ہے۔ آپ  سب نے بہت محنت کی ہے، آپ کے پاس اس کی ماہر ٹیم بن چکی ہے۔ تھوڑا روزانہ ایک بار- دو بار پوچھنا شروع کردیجئے ، ہفتہ میں ایک دو بار میٹنگ لینا شروع کردیجئے، چیزیں اپنے آپ رفتار پکڑ لیں گی۔

میں پھر ایک بار بہت مختصر نوٹس میں آپ سب کو آج کی میٹنگ میں نے آرگنائز کی، لیکن پھر بھی آپ نے وقت نکالا اور بہت تفصیل سے اپنی جانکاریاں دیں، میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ جی!

Explore More
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Popular Speeches

شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
India adds a billion dollars to China exports, US shipments up 22% despite tariffs

Media Coverage

India adds a billion dollars to China exports, US shipments up 22% despite tariffs
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Joint Statement on the visit of PM Modi to the Hashemite Kingdom of Jordan
December 16, 2025

At the invitation of His Majesty King Abdullah II ibn Al Hussein of the Hashemite Kingdom of Jordan, Hon’ble Prime Minister of the Republic of India, Shri Narendra Modi visited the Hashemite Kingdom of Jordan on December 15-16, 2025.

The Leaders acknowledged the fact that the visit of Prime Minister Modi is taking place at a significant time, as the two countries celebrate the 75th anniversary of the establishment of bilateral diplomatic relations.

The Leaders appreciated the long-standing relationship between their countries which is characterized by mutual trust, warmth and goodwill. They positively assessed the multi-faceted India-Jordan relations that span across various areas of cooperation including political, economic, defence, security, culture, and education among others.

The Leaders appreciated the excellent cooperation between the two sides at the bilateral level and in multilateral forums. They warmly recalled their earlier meetings in New York (September 2019), in Riyadh (October 2019), in Dubai (December 2023) and in Italy (June 2024).

Political Relations

The Leaders held bilateral as well as expanded talks in Amman on 15 December 2025, where they discussed relations between India and Jordan. They also agreed to expand cooperation between the two countries in areas of mutual interest and to stand together as trusted partners in pursuing their respective development aspirations.

The Leaders noted with satisfaction the regular convening of political dialogue between the two countries as well as the meetings of the various Joint Working Groups in diverse areas. They further agreed to fully utilize the established mechanisms to consolidate bilateral relations. In this regard, the leaders commended the outcomes of the Fourth Round of Political Consultations between the two foreign ministries that was held in Amman on April 29, 2025. The fifth round will be held in New Delhi.

Looking forward, the Leaders reaffirmed their determination to sustain the positive trajectory of relations between the two countries, to promote high-level interactions, and continue to cooperate and collaborate with each other.

Economic Cooperation

The Leaders appreciated the strong bilateral trade engagement between India and Jordan, currently valued at USD 2.3 billion for 2024, making India the third largest trading partner for Jordan. They agreed on the need to diversify the trade basket to further enhance bilateral trade. The Leaders also agreed on the early convening of the 11th Trade and Economic Joint Committee in the first half of 2026, to monitor progress in economic and trade relations.

The Leaders welcomed the convening of the Jordan- India Business Forum on the sidelines of the visit on 16 December 2025. A high-level business delegation from the two countries discussed ways to further strengthen and expand trade and economic cooperation between the two countries.

The Leaders acknowledged the importance of cooperation in the field of customs. They further agreed to fully utilize the Agreement on Cooperation and Mutual Administrative Assistance in Customs Matters. This agreement facilitates sharing of information to ensure proper application of Customs Laws and combating of customs offences. It also provides facilitation of trade by adopting simplified customs procedures for efficient clearance of goods traded between the two countries.

Both Leaders underlined the potential for enhanced economic cooperation between the two countries, taking into account Jordan’s strategic geographic location and advanced logistics capabilities. In this context, both sides reaffirmed the importance of strengthening transport and logistics connectivity, including the regional integration of Jordan’s transit and logistics infrastructure as a strategic opportunity to advance shared economic interests and private-sector collaboration.

Technology and Education

The two sides reviewed bilateral cooperation in the fields of digital technology and education and agreed to collaborate in various fields such as the capacity building of officials in digital transformation, promoting institutional cooperation for feasibility study in the implementation of Digital Transformational solutions and in other areas. They also agreed to explore further avenues of cooperation in the implementation of digital transformation initiatives of both the countries. The two sides expressed interest in expanding and upgrading the infrastructure and the capacity building programs of the India and Jordan Centre of Excellence in Information Technology, hosted at Al Hussein Technical University.

The two sides discussed the road map for collaboration in the field of Digital Public Infrastructure (DPI). In this context, both sides welcomed the signing of a letter of intent for entering into an agreement on sharing of Indian experience of DPI. Both sides agreed to collaborate in ensuring a safe, secure, trusted and inclusive digital environment.

The two sides recognized the vital role of technology in education, economic growth and social development and agreed on continued collaboration in the areas of digital transformation, governance and capacity building.

The Indian side highlighted the important role of capacity building in sustainable development and expressed commitment to continue collaboration in this field through the Indian Technical and Economic Cooperation (ITEC) Programme in various fields including information technology, agriculture, and healthcare. The Jordanian side appreciated the increase of ITEC slots from 35 to 50 with effect from the current year.

Health

The Leaders underscored their commitment to working together in the field of healthcare through sharing of expertise, especially in advancing tele-medicine and capacity building in training of health workforce. They acknowledged the importance of health and pharmaceuticals as a key pillar of bilateral cooperation, underlining its role in promoting the well-being of their peoples and in advancing the Sustainable Development Goals (SDGs).

Agriculture

The Leaders acknowledged the crucial role of the agricultural sector in advancing food security and nutrition and expressed a shared commitment to strengthening collaboration in this sector. In this context, they reviewed current cooperation between the two sides in the field of fertilizers, especially phosphates. They also agreed on increasing collaboration in exchange of technology and expertise to enhance the efficiency of agriculture and related sectors.

Water Cooperation

The Leaders welcomed the signing of the MoU on Cooperation in the field of Water Resources Management & Development and acknowledged the importance of cooperation between the two sides in areas such as water-saving agricultural technologies, capacity building, climate adaptation and planning and aquifer management.

Green and Sustainable Development

The Leaders discussed the importance of increasing collaboration in the field of climate change, environment, sustainable development and encouraging the use of new and renewable energy. In this context, they welcomed the signing of the MoU on Technical Cooperation in the field of New and Renewable Energy. Through the signing of this MoU, they agreed on the exchange and training of scientific and technical personnel, organization of workshops, seminars and working groups, transfer of equipment, know-how and technology on a non-commercial basis and development of joint research or technical projects on subjects of mutual interest.

Cultural Cooperation

The two sides expressed their appreciation for the growing cultural exchanges between India and Jordan, and welcomed the signing of the Cultural Exchange Programme for the period 2025–2029. They supported the idea of expanding cooperation in the fields of music, dance, theatre, art, archives, libraries and literature, and festivals. They also welcomed the signing of the Twinning Agreement between the City of Petra and Ellora Caves Site, focusing on the development of the archaeological sites and on promotion of social relations.

Connectivity

The two sides acknowledged the importance of direct connectivity in fostering bilateral relations. It is an important cornerstone for promotion of trade, investment, tourism, and people-to-people exchanges and helps in cultivating deeper mutual understanding. In this regard, they agreed to explore the possibility of enhancing direct connectivity between the two countries.

Multilateral Cooperation

His Majesty King Abdullah II praised India’s leadership in the International Solar Alliance (ISA) and the Coalition for Disaster Resilient Infrastructure (CDRI) and the Global Biofuels Alliance (GBA). India welcomed Jordan’s expression of willingness in joining the ISA, CDRI and GBA. The two sides recognized biofuels as a sustainable, low-carbon option to achieve decarbonization commitments and deliver greater economic and social development for the people of both countries.

At the end of the visit, Prime Minister Shri Narendra Modi expressed his sincere thanks and appreciation to His Majesty King Abdullah II for the warm reception and generous hospitality extended to him and his accompanying delegation. He also conveyed his best wishes for the continued progress and prosperity of the friendly people of the Hashemite Kingdom of Jordan. For his part, His Majesty extended his sincere wishes to Prime Minister Narendra Modi and the friendly people of India for further progress and prosperity.