A decade of financial inclusion - the PM Jan Dhan Yojana

Published By : Admin | August 28, 2024 | 12:12 IST

Today marks a decade since the Pradhan Mantri Jan Dhan Yojana was launched. For me, this initiative was more than just a policy - it was an endeavour to build an India where each and every citizen, irrespective of one’s economic background, has access to the formal banking apparatus.

Many of you, especially the youth, would be thinking- why does this matter so much? After all, in this age, having a bank account would be very basic and even taken for granted. However, when we assumed office in 2014, the situation was very different. It was almost 65 years since Independence, but access to banking was a distant dream for almost half of our households. Theirs was a world where savings were kept at home, vulnerable to loss and theft. Access to credit was often at the mercy of predatory lenders. The absence of financial security held back so many dreams.

This problem becomes even more ironical considering the fact that four and a half decades ago, banks were nationalised by the then (Congress) Government and that too in the name of the poor! Yet, the poor never got access to banking.

When the Jan Dhan Yojana was rolled out, I remember the scepticism that surrounded it too. Some people asked- could it really be possible to bring such a large number of people into the banking system? Will this effort lead to any concrete changes? Yes. The scale of the challenge was enormous, but so was the determination of the people of India to ensure it becomes a reality.

The success of the Jan Dhan Yojana has two parts to it. One is in the numbers:

Today, over 53 crore people who never imagined they would enter a bank have bank accounts.

These accounts have a deposit balance of over Rs. 2.3 lakh crore.

Over 65% of the accounts are either in rural or semi-urban areas, thus taking the movement of financial inclusion outside the metros.

Direct transfers worth almost Rs. 39 lakh crore have taken place.

But, the second part goes beyond the impressive numbers.

Jan Dhan Yojana has proven to be game-changing as far as women's empowerment is concerned. Almost 30 crore women have been brought into the banking system.

Likewise, the benefits of the scheme and the other benefits that come thanks to a bank account have positively impacted crores of SC, ST and OBC families. They have also benefitted those families who belong to the middle and Neo-middle classes. Had it not been for the Jan Dhan Yojana, the MUDRA Yojana, or the social security schemes of the Government, namely the Pradhan Mantri Jeevan Jyoti Bima Yojana, Pradhan Mantri Suraksha Bima Yojana and the Atal Pension Yojana would never have been as impactful.

Jan Dhan also became a vital pillar of the JAM Trinity- Jan Dhan, Aadhaar and Mobile. The landmark contribution of this trinity was to eliminate the scourge of middlemen and touts who, for decades, thrived in public loot. It is this trinity that ensured a stunning digital payments revolution in India, especially in the middle and later years of the last decade. The very same elements who doubted the relevance of a scheme like Jan Dhan were yet again mocking the need for digital payments in a nation like ours. But, once again, they underestimated the collective resolve of our people. India’s digital payments success story is noted world over. Over 40% of real time digital payments in the world happen in India!

A bank account has ensured hassle-free and direct transfer in almost all the government's flagship schemes, be it Ayushman Bharat, PM-Kisan for farmers, PM SVANidhi for street vendors and more. I am also reminded of the years of 2020 and 2021, when the once in a lifetime COVID-19 pandemic was at its peak. Had it not been for banking inclusion, the subsidies would not have been able to reach the intended beneficiaries.

The life journeys of those who benefitted due to this scheme are very touching and inspiring. PM Jan Dhan Yojana personifies dignity, empowerment and the opportunity to participate in the economic life of the nation. The foundations laid by this scheme are strong, but we have even more work to do! We will continue to build on this success to build a Viksit Bharat.

Today is also the occasion to congratulate each and every beneficiary of this scheme and laud the efforts of the countless banking staff who made financial inclusion their mission and ensured a better life for their fellow Indians!

Explore More
ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی

Popular Speeches

ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی
Chirag Paswan writes: Food processing has become a force for grassroots transformation

Media Coverage

Chirag Paswan writes: Food processing has become a force for grassroots transformation
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
ایکتاکا مہاکمبھ – ایک نئے دور کا آغاز
February 27, 2025

مقدس شہر پریاگ راج میں منعقدہ مہاکمبھ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اتحاد کا ایک عظیم الشان مہایگیہ مکمل ہوا۔ جب کسی قوم کا شعور بیدار ہوتا ہے، جب وہ صدیوں کی محکومی کے زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی تازہ ہوا میں سانس لیتی ہے، تو وہ ایک نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ یہی منظر 13 جنوری سے پریاگ راج میں منعقدہ ایکتا کا مہاکمبھ میں دیکھنے کو ملا۔

22 جنوری 2024 کو جب ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشتہ (پتھ پوجا) ہوئی، میں نے دیو بھکتی اور دیش بھکتی یعنی دیوتاؤں اور وطن سے عقیدت کی بات کی۔ مہاکمبھ کے دوران دیوی دیوتاؤں، سنتوں، خواتین، بچوں، نوجوانوں، بزرگوں اور تمام طبقوں کے لوگوں کا ایک ساتھ اجتماع ہوا۔ جس دوران ہم نے بھارت کے بیدار شعور کا مشاہدہ کیا۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ تھا، جہاں 140 کروڑ بھارتیوں کے جذبات ایک مقام پر، ایک وقت میں یکجا ہوئے۔

پریاگ راج کی اسی مقدس سرزمین پر شرنگویپور واقع ہے، جو اتحاد، محبت اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بھگوان شری رام اور نشاد راج کی ملاقات ہوئی، جو عقیدت اور خیرسگالی کے سنگم کی علامت بنی۔ آج بھی پریاگ راج ہمیں اسی جذبے سے متاثر کرتا ہے۔

45 دنوں تک میں نے ملک کے ہر گوشے سے کروڑوں عقیدت مندوں کو سنگم کی جانب بڑھتے دیکھا۔ جذبات کا ایک مسلسل بہاؤ نظر آیا۔ ہر یاتری کا واحد مقصد سنگم میں مقدس ڈبکی لگانا تھا۔ گنگا، جمنا اور سرسوتی کے مقدس میل سے ہر یاتری کے دل میں نیا جوش، توانائی اور اعتماد پیدا ہوا۔

پریاگ راج میں یہ مہاکمبھ نہ صرف عقیدت کا مرکز تھا بلکہ جدید نظم و نسق، منصوبہ بندی اور پالیسی ماہرین کے لیے بھی ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ دنیا میں اس پیمانے پر ایسا کوئی اور اجتماع نہیں ہوتا۔ پوری دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ کروڑوں افراد بغیر کسی رسمی دعوت نامے کے، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، خود بخود پریاگ راج پہنچے اور مقدس جل میں ڈبکی لگانے کی روحانی خوشی محسوس کی۔

میں ان چہروں کو نہیں بھول سکتا جنہوں نے مقدس اشنان کے بعد بے پناہ خوشی اور سکون کی روشنی بکھیر دی۔ خواتین، بزرگ، ہمارے معذور بھائی بہن – سبھی کسی نہ کسی طرح سنگم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

مہاکمبھ میں بھارت کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت، میرے لیے سب سے خوشی کی بات تھی۔ ان کی موجودگی ایک زبردست پیغام ہے کہ بھارت کا نوجوان اپنے شاندار ثقافتی ورثے کو سنبھالنے اور آگے بڑھانے کی مکمل ذمہ داری محسوس کر رہا ہے۔

اس مہاکمبھ کے لیے پریاگ راج پہنچنے والوں کی تعداد نے بلاشبہ نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ محض جسمانی موجودگی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس میں کروڑوں ہندوستانیوں کے دل و دماغ جذباتی طور پر جڑے ہوئے تھے۔ مقدس جل، جو عقیدت مند اپنے ساتھ لے کر گئے، ملک کے لاکھوں گھروں میں روحانی مسرت کا ذریعہ بنا۔ بہت سے دیہاتوں میں یاتریوں کا استقبال احترام کے ساتھ کیا گیا اور انہیں سماج میں عزت بخشی گئی۔

جو کچھ پچھلے چند ہفتوں میں ہوا، وہ بے مثال ہے اور آئندہ صدیوں کے لیے ایک نئی بنیاد رکھ چکا ہے۔ مہاکمبھ میں جتنے یاتری آئے، وہ توقعات سے کہیں زیادہ تھے۔

امریکہ کی کل آبادی سے بھی دوگنا افراد اس ایکتا کا مہاکمبھ میں شامل ہوئے!

اگر روحانی علوم کے ماہرین اس اجتماع کے جوش و جذبے کا مطالعہ کریں، تو انہیں نظر آئے گا کہ اپنی وراثت پر فخر کرنے والا بھارت، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے، جو ایک نئے بھارت کا مستقبل تحریر کرے گا۔

ہزاروں سالوں سے مہاکمبھ نے بھارت کے قومی شعور کو بیدار رکھا ہے۔ ہر پورن کمبھ پر سنت، عالم، اور دانشور اکٹھا ہو کر معاشرتی حالات پر غور و فکر کرتے اور قوم و سماج کو نئی سمت عطا کرتے ہیں۔ ہر چھ سال بعد اردھ کمبھ میں ان نظریات کا جائزہ لیا جاتا اور 144 سال بعد جب بارہ پورن کمبھ مکمل ہوتے، تو پرانی روایات کا تجزیہ کر کے نئی سمت متعین کی جاتی۔

144 سال بعد، اس مہاکمبھ میں ہمارے سنتوں نے بھارت کے ترقی کے اور سفر کے حوالے سے ایک بار پھر ہمیں ایک نیا پیغام دیا ہے۔ وہ ترقی یافتہ بھارت- وِکست بھارت کا پیغام ہے۔

اس ایکتا کا مہاکمبھ میں ہر یاتری، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، نوجوان ہو یا بزرگ، گاؤں کا ہو یا شہر کا، بھارت میں رہتا ہو یا بیرون ملک، مشرق کا ہو یا مغرب کا، شمال کا ہو یا جنوب کا، کسی بھی ذات، مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتا ہو، سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ یہ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے خواب کی حقیقی تصویر تھی، جس نے کروڑوں افراد میں اعتماد کی لہر دوڑا دی۔

مجھے بھگوان شری کرشن کے بچپن کا وہ لمحہ یاد آتا ہے جب انہوں نے اپنی ماں یشودا کو اپنے منہ میں پورا سنسار دکھا دیا تھا۔ اسی طرح، اس مہاکمبھ میں پوری دنیا نے بھارت کی اجتماعی طاقت کی ایک جھلک دیکھی۔ہمیں اب اس خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لئے خود کو وقف کرنا چاہیے۔

اس سے قبل، بھکتی تحریک کے سنتوں نے پورے بھارت میں ہمارے اجتماعی عزم کی طاقت کو پہچانا اور اسے پروان چڑھایا۔ سوامی وویکانند سے لیکر شری اروِندو تک، ہر عظیم مفکر نے ہمیں اجتماعی ارادے کی طاقت کی یاد دلائی۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی نے بھی آزادی کی تحریک میں اسے محسوس کیا۔اگر آزادی کے بعد اس اجتماعی قوت کو ملکی فلاح و بہبود کے لیے صحیح طریقے سے استعمال کیا جاتا، تو یہ ایک عظیم طاقت بن سکتی تھی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اب، میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں کہ یہ اجتماعی طاقت ایک ترقی یافتہ بھارت کے لیے متحد ہو رہی ہے۔

ویدوں سے وویکانند تک، قدیم صحیفوں سے جدید سیٹلائٹ تک، بھارت کی عظیم روایات نے اس ملک کی تشکیل کی ہے۔ایک شہری کی حیثیت سے، میری دعا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں اور سنتوں کی یادوں سے نئی تحریک حاصل کریں۔ یہ ایکتا کا مہاکمبھ ہمیں نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دے۔ ہمیں اتحاد کو اپنا اصول بنانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کی خدمت ہی حقیقی بھکتی ہے۔

کاشی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران، میں نے کہا تھا کہ ''ماں گنگا نے مجھے بلایا ہے''۔ یہ محض ایک جذباتی بات نہیں تھی، بلکہ مقدس دریاؤں کی صفائی کی ذمہ داری کا ایک عہد تھا۔پریاگ راج میں گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر کھڑے ہو کر میرا عزم اور مضبوط ہوا۔ یہ مہاکمبھ ہمیں نہ صرف دریاؤں کی صفائی بلکہ قومی یکجہتی اور ترقی کی راہ پر مسلسل کام کرنے کی تحریک دیتا ہے۔

پریاگ راج میں گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر کھڑے ہو کر میرا عزم اور بھی مضبوط ہو گیا۔ ہمارے دریاؤں کی صفائی کا ہماری اپنی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ندیوں کو چاہے چھوٹے یا بڑے، زندگی دینے والی ماؤں کے طور پر تعظیم کریں۔ اس مہاکمبھ نے ہمیں اپنی ندیوں کی صفائی کے لیے کام کرتے رہنے کی ترغیب دی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ اتنی بڑی تقریب کا انعقاد کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میں ماں گنگا، ماں جمنا اور ماں سرسوتی سے دعا کرتا ہوں کہ اگر ہماری عقیدت میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو وہ ہمیں معاف کر دیں۔ میں جنتا جناردن، لوگوں کو الوہیت کے مجسم کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اگر ان کی خدمت میں ہماری کوششوں میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو تو میں بھی لوگوں سے معافی کا خواستگار ہوں۔

مہاکمبھ میں کروڑوں لوگ عقیدت کے ساتھ شریک ہوئے۔ ان کی خدمت کرنا بھی ایک ذمہ داری تھی جو اسی جذبے کے ساتھ ادا کی گئی۔ اتر پردیش سے ممبر پارلیمنٹ کے طور پر میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یوگی جی کی قیادت میں انتظامیہ اور عوام نے مل کر اس ایکتا کا مہاکمبھ کو کامیاب بنانے کے لیے کام کیا۔ ریاست ہو یا مرکز، کوئی حکمران یا منتظم نہیں تھا، اس کے بجائے، ہر کوئی ایک عقیدت مند سیوک تھا۔ صفائی کے کارکن، پولیس، کشتی والے، ڈرائیور، کھانا پیش کرنے والے لوگ - سب نے انتھک محنت کی۔ بہت سی تکالیف کا سامنا کرنے کے باوجود پریاگ راج کے لوگوں نے جس طرح کھلے دل کے ساتھ یاتریوں کا استقبال کیا وہ خاص طور پر متاثر کن تھا۔ میں ان کا اور اتر پردیش کے لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

مجھے اپنی قوم کے روشن مستقبل پر ہمیشہ سے غیر متزلزل اعتماد رہا ہے۔ اس مہاکمب کو دیکھنے سے میرا یقین کئی گنا مضبوط ہوا ہے۔

جس طرح سے 140 کروڑ بھارتیوں نے اس ایکتا کا مہاکمبھ کو عالمی تقریب میں بدل دیا وہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ اپنے لوگوں کی لگن، محنت اور کوششوں سے متاثر ہوکر، میں جلد ہی شری سومناتھ کا دورہ کروں گا، جو 12جیوترلنگوں میں سے پہلا ہے، تاکہ انہیں ان اجتماعی قومی کوششوں کا ثمرہ پیش کر سکوں اور ہر بھارتی کیلئے دعا کر سکوں۔


یہ مہاکمبھ مہا شیوراتری پر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، لیکن جیسے گنگا کا بہاؤ کبھی نہیں رک سکتا، اسی طرح یہ روحانی طاقت، قومی شعور اور اتحاد آنے والی نسلوں کو ہمیشہ متاثر کرتا رہے گا۔